FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

عدل اجتماعی کا تصور تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں

 

محمد برہان الحق جلالی

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

عدل و انصاف

 

انسان ایک معاشرتی حیوان یا یوں کہیں کہ ہمیشہ سے مدنی الطبع رہا ہے اور اپنی فطرت میں جماعتی زندگی کا محتاج ہے۔ بغیر اجتماعیت کے اس کی زندگی نا ممکن ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک معاشرے کا محتاج ہے۔ اس کا جسم عقل اور خلق جیسے اہم عطیات بھی خالق کائنات نے جماعتی علائق کیلئے عطا فرمائے ہیں۔ دنیا میں آتے ہی خاندان میں آنکھ کھولتا ہے۔ اپنی پرورش کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے (بھائی، بہن، یا رشتہ دار وغیرہ کا)پھر ہوش سنبھالتے ہی اسے ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک قوم سے، ایک تمدن سے، نظام معیشت سے اور نظام سیاست سے واسطہ پڑتا ہے۔ نیز فرد یا انسان اپنی ہر متعلقہ شے مثلاً خوراک، لباس، مکان اور زندگی کے ہر دوسرے شعبے میں جماعت کا دست نگر ہے۔ اور اگر اس سے وہ تمام علائق حذف کر دیے جائیں جو جماعت کی بدولت اس کو حاصل ہوتے ہیں تو پھر اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہتا۔ اس کی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے انسان کے اعمال اغراض اور عادات کی جماعتی زندگی کے بغیر کوئی قیمت نہیں ہے۔

تھوڑے سے غور و فکر سے یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ فرد دوسرے کی زندگی پر اثر انداز ہوتا یے اور ان سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اس لیے اس کو فطری طور پر مدنی الطبع تسلیم کر لیتا ہے چنانچہ جماعت کا وجود افراد پر موقوف ہے اور افراد جماعت کے ہر فرد کا نفع و نقصان پر اثر انداز ہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے سہارے قائم و دائم ہیں غرض انسان کے بے شمار روابط ہیں جو ایک ایک انسان کو دوسرے انسانوں سے اس سے جوڑے ہوتے ہیں ان کی درستی پر ہی ایک ایک انسان کی، ایک معاشرے کی اور مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے اور وہ یہی ہے جو انسانوں کو ان کے لیے روابط کیلیے صحیح اور منصفانہ اور پائیدار اصول و حدود بتاتا ہے جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود مختار بنا اور اس نے بزعم خود انصاف کرنا چاہا تو پھر نہ کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف و راستی جس معاشرے سے انصاف غائب ہو جائے وہ معاشرہ افراتفری خود غرضی اور ظلم و تشدد کی مثال بن جاتا ہے۔

عدل و انصاف زندگی کی بو قلموں رعنائیوں اور دلاویزیوں کی جان ہے اگر عدل و انصاف کے سوتے خشک ہو جائیں تو سارا گلشن ہستی اجڑ کر رہ جائے۔ یہ عالمگیر صداقت ہے جو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے اور جسے ہر کوئی تسلیم کرتا ہے حتیٰ کہ وہ ظالم و سفاک لوگ جن کی بربریت اور ستم رانیوں نے شرف انسانیت کی دھجیاں بکھیریں وہ بھی یہ نہیں کہہ سکے کہ عدل و انصاف سے ظلم و عدوان بہتر ہے بلکہ جہاں تک ان سے بن پڑا وہ اپنی چیرہ دستیوں کو بھی عدل و انصاف کا لباس پہنا کر پیش کرتے رہے۔

جب کبھی بھی ہم اقوام عالم کے دستاویزات، دساتیر اور قوانین پر تنقیدی نگاہ ڈالیں گے یا ڈالتے ہیں تو بجز حیرت و حسرت کے کچھ حاصل نہ ہو گا حیرت اس لیے کہ انسانی عقل و شعور نے اسے قبول کیا اور حسرت اس لیئے کہ بے کس و  مجبور اقوام پر عدل کے نام پر کتنے ظلم ڈھائے گئے ہر عدل کے نام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہر معاشرے میں جھوٹے امتیازات اور ظالمانہ مراعات کے صنم کدے آباد نظر آتے ہیں مگر لوگ ہیں کہ فرط محبت و فرط عقیدت سے ان کے گرد محو طواف ہیں جس جگہ عدل کا یہ عالم ہو وہاں عدل کا فرضی وجود تو ہو سکتا ہے مگر حقیقی وجود نہیں ہو سکتا جو خیرات و برکات کا سر چشمہ ہے جس کے گھنے اور خشک سائے میں ستم رسیدہ انسانوں کو سکون نصیب ہوتا ہے۔

ہر حق شناس پر یہ بات اظہر من الشمس ہونی چاہیے کہ عدل و انصاف کا جو جامع نظریہ اسلام نے پیش کیا اور جس کا نمونہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارکہ ہے اس کی نظیر دنیا کے قدیم و جدید دساتیر اور مجموعہ ہائے قوانین پیش نہیں کر سکتے۔ صرف اسلامی نظام عدل کی برتری گزشتہ زمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ انسانیت کا کارواں چودہ صدیاں بعد بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس پر آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیض یافتہ آپﷺ کی نگاہ فیض اورحسن تربیت سے عرب کے اکھڑ مزاج جاہل بدو پہنچ گئے تھے۔

 

عدل لغت کی روشنی میں

 

کتب لغات میں عدل کے جو معانی و مفاہیم بیان کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

۱: عدل کا معنیٰ برابری، مساوات، انصاف نصیر اور مانند ہے۔

(فیروز اللغات ص 891فیروز پبلشنگ)

۲: ۔ عدل کا معنیٰ دو کونوں کی برابری ہے۔

(المنجد ص636 کتب خانہ دار الاشاعت کراچی)

۳: ۔ سمع باب سے اس کا معنیٰ امور میں میانہ روی، قائم مقام ٹھہرانا

۴: ۔ ضرب باب سے اس کا معنیٰ تیر کو سیدھا کرنا ہے۔

(المنجد از لوئیس معلوف ص 782مطبوعہ دار الاشاعت، المفردات ص 325مطبوعہ کراچی، المصباح المنیر مطبوعہ مصر جلد 2ص 21، تاج العروس مطبوعہ مصر جلد9ص8، اسلامی اصلاحات ص165، الفروق اللغویہ ص175، ص262)

۵: ۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ عدل وہ لفظ ہے جو مساوات اور برابری کو چاہتا ہے۔

(الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ ص 244)

۶: ۔ امام یمنی فرماتے ہیں کہ عدل واجب التعمیل احکام پر عمل درآمد کا نام ہے اور عدل یہ ہے کہ حق کو تسلیم کیا جائے اور ظلم کا خاتمہ کر دیا جائے۔

۷: ۔ العدالت کے ضمن میں اس کا معنیٰ راہ حق پر مستقیم ہونا انصاف و تقویٰ

(اسلامی اصطلاحات ص165)

امام راغب اصفہانی کے نزدیک عدل کی پانچ اقسام ہیں۔

۱: ۔ وہ عدل جو خالق و مخلوق کے درمیان دائر ہے جس کا مطلب مخلوق خالق کے احکامات کو جانے پھر مانے۔

۲: ۔ وہ عدل جو انسان کے اندر ہو مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات نفسانی کے مقابلے میں عقل کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارے۔

۳: ۔ وہ عدل جو انسان اور اپنے بڑوں کے درمیان دائر ہے ان کی وصیتوں، نصیحتوں پر عمل کرنا

۴: ۔ وہ عدل جو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے معاملات، معاشرت و مضاربت میں حقوق اور عدل و برابری کا لحاظ رکھنا۔

۵: ۔ وہ عدل جو سلطنت اور حکومت کے متعلق ہے بادشاہ رعایا سے مساوات و خیر خواہی کا معاملہ کرے۔

((الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ ص 244)

 

عدل قرآن حکیم کی روشنی میں

 

خالق کائنات، مالک کائنات، اللہ رب العزت نے اپنی لاریب اور پاک منزہ کتاب میں کئی مقامات پر عدل و مساوات کا حکم فرمایا ہے۔ مگر جگہ کی قلت کے باعث چند آیات کریمہ بمعہ ترجمہ یہ ہیں ارشاد ربانی ہے کہ

فاحکم بین الناس بالحق(سورہ ص آیت 26)

تم لوگوں میں حق (سچ)کے ساتھ حکم کرو

۲: ۔ واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل(سورۃ النساء آیت نمبر58)

اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو

۳: ۔ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان(سورۃ النحل آیت نمبر 90)

بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔

عدل و انصاف فرض ہے افراط و تفریط سے اجتناب عدل و انصاف ہے عدل و انصاف اقوال میں بھی ہے اور افعال میں بھی عدل کا احاطہ بڑا وسیع ہے ہر نوع کا عدل فرض ہے۔

(احکام القرآن جلد 3 ص190، الکشاف جلد 2ص 86، تفسیرابن کثیر جلد 2ص586، الجامع الاحکام القرآن جلد 10 ص166)

تعالیٰ نے عدل کو بہت اعلیٰ اور ادنیٰ کے درمیان رکھا ہے اس میں افراط و تفریط نہیں۔

(ابن اثیر تفسیرالقرآن جلد سوم ص 176 دارالکتب العلمیہ بیروت)

اسلامی طرز زندگی یا نظام حیات محض عبادت کے چند طریقوں یا اخلاقیات کے کچھ اصولوں کا نام نہیں یہ ایک ایسا طرز عمل ہے جو اسلامی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اس نظام حیات کا ہر نظریہ اور اصول جامع، کامل اور ہمہ گیر ہے یہ زمان و مکان کی قید سے آزاد اور ہر انسان کیلئے نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ اس حیات و معیار کی اصلاح کا واحد ضامن ہے عدل و انصاف نص قطعی سے ثابت ہے جیسا کہ اوپر چند آیات طیبات رقم کی گئی ہیں۔

 

عدل اور تعلیمات نبوی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)

 

مطلق عدل کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میری امت اس وقت تک سر سبز رہے گی اب تک اس میں تین خصلتیں باقی رہیں گی ایک تو یہ کہ جب وہ بات کریں تو وہ سچ بولیں گے دوسرا جب وہ فیصلہ کریں گے تو انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیں گے تیسرا یہ کہ جب ان سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو کمزور پر رحم کریں گے‘‘۔

(اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ڈاکٹر محمد عبد الحی ص546)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’انصاف کرنے والوں کو قرب الٰہی میں نوری ممبر عطا ہوں گے ‘‘

(خزائن العرفان سورۃ النساء 58، صحیح مسلم شریف کتاب الامارۃ رقم الحدیث1827دار الاسلام ریاض)

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’قیامت کے دن اللہ سے سب سے زیادہ قریب اور اللہ کو سب سے پیارا امام عادل ہو گا اور سب سے نا پسندیدہ ظالم حکمران ہے ‘‘۔

(مشکوٰۃ شریف، امام ترمذی جامع ترمذی شریف، فیصلوں کا بیان عادل امام۔ رقم الحدیث 1353، )۔

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ظالم حکمران کے سامنے حق و عدل کی بات کہنا افضل ترین جہاد ہے ‘‘۔(ترمذی شریف)

المختصر عدل و انصاف کی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بہت تاکید ہے۔

 

عدل کی اقسام

 

عدل ہماری پوری زندگی پر محیط ہے سہولت کی خاطر ہم اس کو دو بڑے شعبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

1: ۔ انفرادی عدل 2: ۔ اجتماعی عدل

 

اجتماعی عدل

 

اسلام کے عدل اجتماعی کی بنیاد باہمی تعاون، ہم آہنگی، ہمدردی و خیر خواہی کے جذبے پر ہے۔ جو معاشرے میں رہنے والے مختلف حیثیتوں کے مالک (حامل)انسانوں کو باہم مربوط اور متوازن بنا کر ایک اکائی میں پرو دیتا ہے حدیث شریف کے الفاظ ’’جسد واحد‘‘ اور ’’بنیان مرصوص‘‘ ہیں۔ اجتماعی عدل کو مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

 

عائلی زندگی اور عدل اجتماعی کا تصور

 

عائلی زندگی پورے معاشرے کی بنیاد ہے وہ گھرانہ جنت کا نمونہ ہوتا ہے کہ جس میں میاں بیوی والدین اور اولاد ایک دوسرے کے باہمی حقوق عدل و انصاف سے ادا کرتے ہیں ازدواجی زندگی میں عدل کی سب سے زیادہ ضرورت اس شخص کو ہوتی ہے جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں کیونکہ جیسا وہ ایک بیوی اس کی اولاد کی طرف زیادہ دھیان دے گا ان کی زیادہ نگہداشت کرے گا تو باقی عدم عدل و انصاف کا شکار ہوں گے۔

حضور نبی کریمﷺ نے عائلی زندگی میں عدل و انصاف کی عمدہ مثال قائم کی ہے عائلی زندگی میں عدل و انصاف کو قائم رکھ کر اس گھر کو جنت بنایا جا سکتا ہے۔

ورنہ جب گھرانہ عدم توازن اور انتشار کا شکار ہو گا تو اس گھرانہ کا سکون ختم ہو جائے گا گھریلو افراد میں حسد و بغض کے جذبات پیدا ہو جائیں گے بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دی جائے اور اولاد کے درمیان بڑے چھوٹے کے حقوق میں تفاوت نہ کرنا چاہیئے کیونکہ تمام اولاد والدین کے ساتھ یکساں نسبت رکھتی ہے۔

 

زوجہ کے ساتھ عدل و انصاف

 

اسلام نے ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ان میں عدل و انصاف کے ساتھ مشروط کی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ایسے خاوند کے متعلق ارشاد فرمایا ہے جو عدل نہیں کرتا کہ

’’جو ازواج میں عدل و انصاف نہیں کرتا اور اس نے ان کے حقوق میں عدل نہ رکھا تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا جسم گر گیا ہو گا‘‘

(الترغیب والترہیب جلد دوم حصہ اول ص47، آفاقی تہذیب و تمدن ص161، جامع ترمذی جلد ۱ص۶۳۱، تفسیر طبری ج 5ص253، الدر المثور ج2 ص233، ابو داؤد شریف باب القسم بین النساءج 1 ص290)

لیکن ظاہر ہے یہاں عدل و انصاف سے مراد ظاہری عدل ہے قلبی عدل نہیں کیونکہ دل پر کسی اختیار نہیں ہاں باقی غذا، لباس، رہائش، ظاہری سلوک میں عدل مطلوب ہے۔ محسن کائنات فخر موجودات زینت بزم کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ محترمہ صدیقہ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب(باریاں)تقسیم فرماتے تو عدل و انصاف فرماتے اور کہتے تھے کہ اے اللہ یہ میری تقسیم ہے ان میں جن کا مجھے اختیار ہے اور ان چیزوں کے بارے میں جن کا مجھے اختیار نہیں ناراض نہ ہونا‘‘۔

(الترغییب والترہیب کتاب النکاح جلد دوم حصہ اول ص47، سنن نسائی شریف، ابی داؤد السنن کتاب النکاح باب فی القسم بین النساء حدیث نمبر 2134، دارالاسلام للنشر والتوزیع، ریاض1999، الترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر حدیث نمبر 1140، مکتبہ دارالاسلام، ابن ماجہ کتاب النکاح باب فی القسمۃ بین النساء حدیث نمبر 1971مکتبہ دارالاسلام)

بیوی پر شوہر اور شوہر پر بیوی کے حقوق و فرائض  اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریمﷺ نے متین اور مقرر فرمائے ہیں جس معاشرے میں انہیں ملحوظ رکھا جائے گا وہاں پیار و محبت، امن و سلامتیاور سکون و اطمینان کے سدا بہار پھول مسکرائیں گے اور جس معاشرے میں انہیں ملحوظ نہ رکھا جائے جس میں عدل و انصاف کو روا نہ رکھا جائے گا تو وہ جہنم بن جائے گا اگر ماں کے حقوق بیوی کو دے دئے جائیں تب بھی عدل نہیں ہو گا۔

 

اولاد کے ساتھ عدل و انصاف

 

باپ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح (فوقیت)نہ دے ولد کا لفظ بیٹا اور بیٹی دونوں شامل ہیں (والولد اسم یجمع الواحد والکثیر والذکر والانثی ٰ)لہذا دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں۔(لسان العرب جلد دوم ص4353)

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’من کانت لہ انثیٰ فلم یئدھا ولم یھنھا ولم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجنۃ‘‘(جس کی لڑکی ہو پھر وہ اس لڑکی کو زندہ درگور نہ کرے نہ اس کو ذلیل سمجھے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

(ابوداؤد شریف، الترغیب والترہیب جلد دوم حصہ اول ص53مترجم شرح السنہ، مسلم شریف)

سنن نسائی کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ

’’اعدلوا بین ابنائکم، اعدلوا بین ابنائکم‘‘ (سنن نسائی شریف کتاب النحل باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین حدیث نمبر 3716، مکتبہ دارالسلام ریاض)

حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’جس نے دو بچیوں کو پالا پوسا میں اور وہ جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے ‘‘شہادت کی اور ساتھ والی انگلی سے اشارہ کیا (الترغیب والترہیب جلد دوم حصہ اول ص 52، ترمذی شریف حدیث نمبر 1981 باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’تم اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں بھی‘‘(ابن النجار، قانون شریعت ص508)

حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’اپنی اولاد کا اکرام کرو اور اچھے آداب سکھاؤ‘‘اور فرمایا کہ ’’اپنی اولاد کو برابری دو اگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو لڑکیوں کو دیتا‘‘ اور فرمایا کہ ’’عطیہ میں اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو جس طرح تم چاہتے ہو وہ سب احسان و مہربانی میں تمہارے ساتھ عدل کریں ‘‘۔(قانون شریعت ص508)۔

المختصر حضور نبی کریمﷺ نے عائلی زندگی میں عدل و انصاف قائم کرنے کی بہت تاکید کی ہے اگر عائلی زندگی میں عدل و انصاف کو ملحوظ خاطر رکھیں گے تو گھرانہ جنت کا منظر پیش کرے گا اور اگر عدل و انصاف کو ملحوظ خاطر نہ رکھیں گے تووہ گھرانہ فساد و انتشار کا شکار ہو جائے گا اور جہنم کا منظر پیش کرے گا۔

 

معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف

 

عائلی زندگی کے بعد معاشرتی زندگی میں بھی عدل بہت ضروری ہے باہمی تعلقات اور دیگر معاملات میں اگر عدل کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو معاشرہ عدم توازن اور انتشار کا شکار ہو جائے گا اسلام معاشرتی عدل و انصاف کا درس دیتا ہے اس کی نظر میں تمام ابن آدم انسانی شرف میں برابر ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ کسی کے حق میں ادب و احترام کا پہلو زیادہ ہے اور کسی کے حق میں شفقت و محبت کا پہلو زیادہ ہے عمر میں بڑے احترام کے زیادہ حقدار ہیں اور کم عمر شفقت و محبت کے زیادہ حقدار ہیں معاشرتی حقوق میں سب سے نازک پہلو یتیموں کے حقوق کا ہے کیونکہ اکثر لوگ یتیموں کی کفالت و پرورش کے بہانے ان کا مال غصب کر جاتے ہیں اسلام کی نظر میں یہ پسندیدہ نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

(وان تقوموا للیتمیٰ بالقسط)اور تم یتیموں کے بارے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھو۔

 

یتیم

 

حضور نبی کریمﷺ نے یتیموں کی کفالت اور پرورش کی بہت تاکید فرمائی ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود بھی ان کی تربیت فرمائی اور ان کا بن کر دکھایا۔ ۔ ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو بھی بڑے دلکش اور مؤثر پیرائے میں یتیم پروری کی تعلیم و تلقین فرمائی اور ترغیب دی۔

(The Oxford Encylopaedia Of Modren Islamic World Oxford University Press New York 1955 Vol 4 Page 367)

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے وہ یتیم اسی گھر کا ہو یا غیر کا۔ میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شہادت والی انگلی اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں میں تھوڑاسا فاصلہ کیا۔

(ابن حبان جلد 2ص 207 رقم الحدیث 460، معجم الکبیر جلد 6ص 173 رقم الحدیث 5905، موطا امام مالک جلد 2ص 948 رقم الحدیث 1700، بخاری شریف باب یتیم کی پرورش کرنے کی فضیلت حدیث نمبر 943، ترمذی شریف باب ماجاء فی رحمۃ الیتیم و کفالتہ حدیث نمبر 1983، شرح السنہ، مسند امام احمد جلد 5ص 333 رقم الحدیث 22871، مسلم شریف کتاب الذھد والرقاق باب الاحسان الی الارملۃو المسکین حدیث نمبر 7337، الترغیب والترہیب جلد دوم حصہ اول ص565، نقوش رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نمبر مدیر محمد طفیل ناشر ادارہ فروغ اردو لاہور ج 6ص 773)۔

اسی طرح آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’مسلمانوں کا سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ احسان کیا جائے اور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جائے ‘‘

(ابن ماجہ شریف۔ ابواب الادب حق الیتیم، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سید فضل الرحمان کراچی زوار اکیڈمی پبلی کیشنز ص570)

حضور نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ ’’اے معاذ!میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو سچ بولو، وعدے وفا کرو، امانتیں ادا کرو، خیانت چھوڑ دو،یتیم پر رحم کرو، پڑوسی کی حفاظت کرو،  غصہ پی جاؤ، عاجزی اختیار کرو،  سلام کرو،  گفتگو میں نرمی اختیار کرو، ایمان میں ثابت قدم رہو، قرآن میں تدبر و تفکر کرو،  آخرت سے محبت کروحساب سے ڈرو اور امیدیں کم کرو اور اچھے کام کرو اور میں تمہیں روکتا ہوں کہ کسی مسلمان کو گالی نہ دوسچے کی تکذیب اور جھوٹے کی تصدیق نہ کرو انصاف پرور حکمران کی نافرمانی نہ کرو۔اے معاذ رضی اللہ عنہ ہر جگہ اللہ کو یاد کرو ہر گناہ سے توبہ کرو پوشیدہ ہے تو پوشیدہ اور اعلانیہ ہے تو اعلانیہ توبہ کرو‘‘(حلیۃ الاولیاء جلد اول ص 304)

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’تین افراد عرش کے سائے میں ہوں گے ان میں سے ایک وہ ہے جو اپنے مال سے اچھا کھانا تیار کرے اور یتیموں کو کھلائے ‘‘(روح البیان جلد اول  ص 89)

 

بوڑھوں کے بارے میں تعلیمات نبوی(ﷺ)

 

جوانوں کو چاہیئے کہ وہ معمر عمر رسیدہ افراد کی ان کے بڑھاپے اور معمر ہونے کی وجہ سے عزت کریں ان کے سامنے ادب و لحاظ سے رہیں۔

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’جو نوجوان کسی بوڑھے کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے عزت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے میں دوسرے نوجوانوں کو اس کی عزت کے لئے مقرر کر دے گا۔

(ترمذی شریف، تسہیل اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد ص50، مشکوٰۃ شریف جلد 2ص423)۔

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم و توقیر بھی اللہ تعالیٰ کی عزت و تکریم ہے۔(بیہقی شریف، ابو داؤد شریف السنن الکبری ٰج 8 ص163، جامع الصغیر ج۱ص149، الترغییب والترہیب)

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہمارے طریقے پر نہیں ‘‘ (ترمذی شریف ابو اب البر والصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، المسند لاحمدج 5 ص323، کنز العمال895ج 3ص165، مشکل الاثار للطحاوی ج 2ص 133، مجمع الزوائد ج1ص127)

 

عامۃ الناس کے بارے میں تعلیماتِ نبوی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)

 

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اخوت اسلامی کا رشتہ ملحوظ خاطر رکھے عدل و انصاف کے ساتھ پیش آئیکسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اگر کوئی دوسرا ظلم کرے تو اپنے مسلمان بھائی کو بے یارو مددگار نہ چھوڑے اس کی مدد کرے۔

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرے نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے ‘‘(تسہیل اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد ص52)

جن جن صورتوں میں شریعت نے سزاؤں یا لڑائیوں کی اجازت دی ہے ان صورتوں میں خبر دور حد سے نہ بڑھے ہر گز ظلم نہ کرے عدل و انصاف سے کام لے یہ شریعت اسلام کی مقدس تعلیم کی رو سے ہر انسان کا ہر انسان پر حق ہے۔

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’یعنی رحم کرنے والوں پہ رحمان رحم کرتا ہے تم لوگ زمین والوں پہ رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔ (فلسفہ اخلاق ص 527 مکتبہ رحمانیہ لاہور مشکوٰۃ شریف جلد دوم ص 423 مجتبائی، ترمذی شریف باب ما جاء فی رحمۃ الناس حدیث نمبر ۹۸۹۱)

 

ناپ تول میں عدل و انصاف

 

اسلام نے ناپ تول میں بھی (تجارت، خرید و فروخت) عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ کاروبار میں وزن و پیمانہ کی اہمیت مسلمہ ہے اگر ناپ تول میں کمی کی جائے یا ملاوٹ کی جائے یا مال میں نقص پیدا کیا جائے تو معاشرے میں نا انصافی اور بددیانتی کی فضا جنم لیتی ہے۔ جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے چنانچہ قرآن پاک نے اس برائی پر خاص وجہ دیتے ہوئے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے۔

ارشاد ربانی ہے کہ ’’واوفوالکیل و المیزان بالقسط‘‘(سورہ انعام 152)

’’اور ناپ تول کو پورا کرو‘‘

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ ’’جو شخص اشیاء میں ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘ (مظاہر حق جدید جلد دوم ص 105، مخزن الاخلاق ص59، اکسیر ہدایت اردو ترجمہ کیمیائے سعادت ص159 دار الاشاعت کراچی)

آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک دکان پر غلہ کو دیکھا اس میں ہاتھ ڈالا تو وہ اندر سے گیلا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ یہ گیلا کیوں ہے ؟ تو اس نے کہا کہ بارش کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ لوگوں کو غلہ دیتے وقت دھوکہ میں نہ رکھنا۔(او کما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام)

آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی نبوت سے پہلے بھی ہمیشہ دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے لین دین میں منصف اور ایماندار تھے۔

آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’تاجر لوگ قیامت والے دن ایماندار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو متقی ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرے اور سچ بولے ‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ و دارمی)

 

غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف

 

اسلام صرف اپنوں کے ساتھ ہی عدل کی تلقین نہیں کرتا بلکہ غیر مسلموں اور دشمنوں کے ساتھ بی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کرتا ہے نیز عدل و انصاف کے وقت ہر قسم کے تعصب، عنا، حسد و رقابت اور کینہ و دشمنی کو نظر انداز کرنے کی تاکید کرتا ہے ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ عدل نہ کرو عدل کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے ‘‘

(سورہ مائدہ آیت نمبر8)

یہود و نصاریٰ اسلام کے کھلے دشمن تھے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم فرمایا کہ ’’و امرت لاعدل بینکم‘‘(سورہ شوریٰ آیت نمبر ۵۱)اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمھارے درمیان عدل کروں۔

ایک دفعہ ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کی باتیں سن کر ان میں یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا۔

(ابن اثیر جلد 3ص 160، رحمۃ اللعالمین ص 134، تاریخ اسلام اکبر شاہ نجیب آبادی ص 202)

اسلام میں عدل اجتماعی کا ایک نکتہ مساوات انسانی ہے اسلام کی نظر میں یہ سماجی عدل کی اہم بنیاد ہے نہ دولت نہ خون نہ عہدہ نہ منصب نہ نسلی امتیاز نہ علاقہ نہ مذہب کوئی بھی چیز معیار فضیلت نہیں اسلام ایسے ہر تعصب سے پاک ہے اس کے نزدیک تمام اجسام انسانی مٹی سے بنے ہیں قبائل اور نسلیں محض تعارف کے لئے ہیں یہ اسلام کا ہی طرہ امتیاز ہے کہاس میں سب کو برابری کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عدل و انصاف کرتے وقت عربی و عجمی، خادم و آقا، مسلم و کافر کے درمیان امتیاز نہیں برتا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔

(تاریخ اسلام ص 86سٹنڈرڈ بک ھاؤس لاہور فتح الباری ابن حجر عسقلانی ص۱۱۰۲، سیرت النبی شبلی نعمانی مکتبہ مدینہ 932، مرقاۃ المفاتیح ملا علی قاری مکتبہ امدادیہ 1483، الطبعۃ الخیریہ مصر، خطبہ حجۃ الوداع ڈاکٹر نثار احمد ص 232 باب الحکمت لاہور 2008ء، ابن کثیر، کنزالعمال159، 166/5دائرہ معارف اسلامیہ حیدرآباد دکن1945ء، السیرۃ النبویہ ابن ہشام دارالاحیاء بیروت۵۹۹۱ء جلد 4ص 259، 260، بخاری شریف کتاب الحدود ص286/8، مسنداحمد ج6ص570 رقم الحدیث22978دارالاحیاء بیروت، سیارہ ڈائجسٹ انبیائے کرام نمبر ص 444)

 

عدالتی عدل و انصاف اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

عدل و انصاف کی خاص طور پر ضرورت عدالتی معاملات میں ہوتی ہے کیونکہ یہاں ہی حق و باطل، جائز و ناجائز صحیح و غلط میں فرق کیا جاتا ہے اس لئے اسلام نے عدالتی معاملات کے ہر پہلو میں عدل و انصاف اپنانے کی تلقین کی ہے اسی طرح گواہ کو بھی چاہیے کہ وہ سچی گواہی دے اس میں دوستی و قرابت داری کا قطعاً لحاظ نہ رکھا جائے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا کا طلب گار ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور جب تم گواہی (بات)کہو تو عدالت کو ملحوظ رکھو چاہے کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو‘‘

حضور نبی کریمﷺ نے عدل کرنے میں اس حد تک احتیاط کی تاکید فرمائی ہے کہ ’’کوئی حاکم دو شخصوں کے درمیان اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک کہ وہ غصہ کی حالت میں ہو‘‘

(مسند امام شافعی حدیث نمبر 1680، 1681۔ المسند، دارالمعرفۃ بیروت، الجامع الصغیر مصر حدیث نمبر 1717، ترمذی شریف بیروت حدیث نمبر1134،۔

السنن الکبریٰ دار الکتب العلمیہ حدیث نمبر 5962، صحیح ابن حبان دار الفکر بیروت حدیث نمبر 5070، السنن بیروت حدیث نمبر 3590)

اسلام ہمیں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا چاہیے ظالم ہو چاہے کتنا طاقتور ہو چاہے وہ حکمران ہی کیوں نہ ہو سب اسلام کی نظر میں برابر ہیں وراثت کا مسئلہ ہو یا جائیداد کا الغرض کوئی بھی مسئلہ ہو کسی بھی قسم کا ہو انصاف کرنا چاہیئے۔

طبرانی حضرت امام باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم مجھے پانچ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: ۔

1: ۔ وراثت کی تقسیم میں نا انصافی نہ کرو۔

2: ۔ لوگوں کو اپنی طرف سے انصاف دو۔

3: ۔ دشمن کے مقابلے میں بزدلی نہ دکھاؤ۔

4: ۔ مال غنیمت میں خیانت نہ کرو۔

5: ۔ ظالم اور مظلوم کے درمیان عدل کرو۔

(خدام الدین لاہور 14 جنوری1977ءص 19)۔

 

محسن کائناتﷺ اور عدل و انصاف

 

حضور نبی کریمﷺ کے عدل و انصاف، امانت و پاکبازی، اور سچائی کا یہ حال تھا کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ امانت دار، سب سے بڑھ کر عادل اور سب سے بڑھ کر پاکباز اور راست گو تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ایک کا پورا پورا حق دلایا اعلان نبوت سے قبل ہی آپ عادل امین اور صادق مشہور تھے۔ (مترجم شفا شریف جلد اول ص 124مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عدل و انصاف پر پورا اعتماد تھا چنانچہ مشرکین مکہ اپنے پیچیدہ جھگڑوں کا فیصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہی کرواتے۔

 

حلف الفضول

 

حلف الفضول ایک مہذبانہ و شریفانہ معاہدہ تھا جو کمزور افراد اور اپنے حقوق کے دفاع کے لئے تھا یہ معاہدہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوا۔ یہ معاہدہ جنگ فجار سے واپسی پر ہوا شرکاء معاہدہ نے اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہوئے عہد کیا کہ۔

’’جب تک دریا میں صفوف کے بھگونے کی شان باقی ہے ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے تا آنکہ اس کا حق ادا کر دیا جائے ‘‘

(سیارہ ڈئجسٹ عکس سیرت نمبر اپریل۰ص 47، تاریخ اسلام ص 13سٹنڈرڈ بک ھاؤس لاہور، السھیلی الروض الانف جلد 1، سیرۃابن ہشام ج۱ ص78، 79۔ مجلہ عثمانیہ جلد 11ص 19شمارہ 1، 2۔ طبقات ابن سعد جلد 183 ص۳۸۹ء، تاریخ الجاہلیہ ڈاکٹر عمر فروخ ص 132 دار العلم بیروت، رسول نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیاسی زندگی ڈاکٹر حمید اللہ ص57،  1987، دار الاشاعت کراچی، مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ص 46، 47۔ ضیا ء النبی ج2ص 120 تا 123 ضیاء القرآن)

 

حجر اسود کی تنصیب

 

خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا تنازعہ بڑا تاریخی ہے حجر اسود کے نصب کرنے میں قبائل مکہ میں جھگڑا کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ انہوں نے تلواریں سونت لیں بالآخر معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مسئلہ کوبڑی خوش اسلوبی سے حل فرما دیا اور جھگڑا ختم ہو گیا۔(ضیا ء النبی جلد دوم ص152، سیارہ ڈائجسٹ انبیائے کرام نمبر ص 409، تاریخ اسلام ص 14 سٹینڈرڈ بک ھاؤس لاہور، مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ص 52، 53 جامعہ اثریہ جہلم، مترجم سیرت ابن ہشام جلد ایک، طبقات ابن سعد جلد ایک ص 206 نفیس اکیڈمی، رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلیمان ندوی ص 22، تاریخ طبری۔ محمد جریر طبری ج 2 ص41، رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلیمان منصور پوری ص37دارالاشاعت کراچی، تاریخ ابن خلدون اردو ج ۱ص 36، شرح المواہب اللدنیہ ج ۱ص 203 تا 202، سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلد 1 ص210، سیرۃ النبویہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلد ایک1 ص201، آفاقی تہذیب و تمدن ص 106، مترجم شفا شریف جلد اول ص 125مکتبہ اعلیٰ حضرت، )

 

بنو مخزوم کی عورت کی چوری

 

ایک مرتبہ بنو مخزوم کی ایک معزز گھرانے کی ایک فاطمہ نامی عورت نے چوری کی مقدمہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس لایا گیا قریش اپنی عزت کے پیش نظر چاہتے تھے کہ اس کو سزا نہ ملے مختلف اصحاب اور پھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سفارش کروائی گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ انور غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا کہ ’’بنی اسرائیل اس وجہ سے ہی تباہ ہوئے کہ وہ با اثر آدمیوں کے معاملے میں نرمی برتتے اور غرباء کے معاملے میں سختی کر کے انہیں سزا دیتے پھر فرمایا کہ اللی کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

(سیرت مجمع کمالات ص ۹۷۲ پروفیسر عبد الجبار شیخ ادارہ تعلیمات سیرت سیالکوٹ 1995 مدارج النبوت حصہ اول ص ۸۰۱، شفا شریف ص ۳۰۱، شمائل ترمذی ص۱۲، بخاری شریف کتاب الحدود باب کراھیۃ الشفاۃ، مظاہر حق نواب محمد قطب دین جلد سوم ص۰۳۶، بخاری شریف کتاب الحدود باب اقامۃ الحدود علی الشریف والوضیع، صحیح مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف رقم ۰۱۴۴، رحمۃ اللعالمین ج ۱ص ۵۸، ترمذی کتاب الحدود ج ۴ ص۳۸، اخلاق محسنیٰ طبع مرزا ابراہیم شیرازی)

 

عدل کریں

 

ایک دفعہ ایک بدو نے کہا کہ آپ عدل نہیں کر رہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’میں عدل نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟‘‘

(معارج النبوت ص ۷۲۶، شفا شریف ص ۱۱۳، رحمۃ اللعالمین حصہ اول ص ۰۶۲، شرقاوی فتح المبدی مصطفیٰ البابی حلبی جلد ۲ ص۰۴۳ ۷۳۳۱ھ مصر، صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب ومن الدلیل علی ان الخمس رقم الحدیث ۸۳۱۳، مدارج النبوت حصہ اول ص ۸۰۱، شفا شریف ۳۰۱، شمائل ترمذی ص۱۲)

 

بدلہ لے لو

 

ایک دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں پتلی سی چھڑی تھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کو ہٹایا اتفاق سے لکڑی کا سرا اس کے منہ پر(ایک روایت میں پیٹ) پر جا لگا اور خراش آ گئی اسی وقت فرمایا کہ بدلہ لے لو اس نے عرض کی کہ حضور میں نے آپ کو معاف کیا۔

(معارج النبوت ص۷۲۶، شفا شریف ص ۱۱۳، رحمۃ اللعالمین حصہ اول ص۰۶۲

 

خطبہ حجۃ الوداع

 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں عدل، امن وسلامتی حریت فکر و عمل، آزادی عقیدہ، محبت و رواداری اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ (اسلام کا سنہری دور ص ۹۲، تاریخ اسلام ص ۶۸سٹنڈرڈ بک ھاؤس لاہور فتح الباری ابن حجر عسقلانی ص۱۱۰۲، سیرت النبی شبلی نعمانی مکتبہ مدینہ ۲۳۹، مرقاۃ المفاتیح ملا علی قاری مکتبہ امدادیہ ۳۸۴۱، الطبعۃ الخیریہ مصر، خطبہ حجۃ الوداع ڈاکٹر نثار احمد ص ۲۳۲ بیت الحکمت لاہور 2008ء، ابن کثیر، کنز العمال۹۵۱/۵۔ ۶۶۱دائرہ معارف اسلامیہ حیدرآباد دکن1954ء، السیرۃ النبویہ ابن ہشام دارالاحیاء بیروت1995ء جلد ۴ص ۲۵۹تا ۲۶۰، بخاری شریف کتاب الحدود ص۶۸۲/۸، مسنداحمد ج۶ص۰۷۵ رقم الحدیث۸۷۹۲۲، دارالاحیاء بیروت، سیارہ ڈائجسٹ انبیائے کرام نمبر ص ۴۴۴، سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۷۲)

ظلمتیں کافور ہو جائیں فضائے دہر سے۔

اس طرح پھیلے رخ شاہ ہدیٰ کی روشنی۔

اسوہ خیر البشر کے نور سے ہو مستنیر

دہر میں چمکے اسی اک نقش پا کی روشنی۔

ایچ جی ویلز اپنی تالیف ’’A Concise History Of The World‘‘ میں آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عدل کے حوالے سے خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ

’’انسانی آزادی، بھائی چارے اور مساوات(برابری)کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے ہیں چنانچہ مسیح نامری کے یہاں بھی وہ بکثرت موجود ہیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ ان اصولوں پر بالفصل ایک معاشرہ تاریخ انسانی میں پہلی بار قائم کیا محمد نے (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)۔(اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت ص۴۱)

المختصر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ساری زندگی میں عدل پر مبنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عدل و انصاف کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔

 

اسلامی نظام عدل اور برٹش نظام عدل میں فرق

 

یہاں پر ضروری ہے کہ ہم اسلامی نظام عدل اور برٹش رائج الوقت رومن نظام عدل کا موازنہ کریں۔ رائج الوقت رومن اور برٹش نظام عدل کا کوئی بھی نکتہ اسلامی نظام عدل کے خدوخال سے نہیں ملتا اور دونوں نظاموں میں اتنی وہمی مماثلت بھی نہیں جتنی کہ ڈارون کی فریب خوردہ نگاہ کو بندر اور انسان میں نظر آتی ہے بہرحال ہم یہاں پر صرف چند نکات پر فرق جانچتے ہیں۔

۱: ۔ اسلام میں اقتدار اعلیٰ خاص اللہ کے لئے ہے جبکہ رومن نظام میں بادشاہ کے لئے ہے۔

۲: ۔ اسلامی نظام میں جزا و سزا اللہ کا حق ہے قاضی اللہ کا نائب ہے جبکہ رومن نظام میں جج بادشاہ کا نمائندہ ہے۔

۳: ۔ اسلامی نظام عدل میں جج کے لئے اسلام اور ایمان کی شرط ہے جبکہ رومن نظام میں کافر بھی جج بن سکتا ہے۔

۴: ۔ اسلامی نظام عدل میں احکام شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والا قاضی نہیں ہو سکتا جبکہ رومن نظام میں یہ رکاوٹ نہیں۔

۵: ۔ اسلامی نظام عدل میں لالچ اور دباؤ میں دی جانے والی شہادت ناقابل قبول ہے جبکہ رومن نظام عدل میں اجرت اور دھمکی کی گواہی پر بھی فیصلے ہوتے ہیں۔

۶: ۔ اسلامی نظام میں عدل اللہ کا حکم ہے اس لئے قاضی ان قوانین شریعت کے مطابق کاروائی کرے گاجو اللہ کی وحی پر مبنی ہیں جبکہ رومن نظام عدل میں جج ان قوانین عدلیہ کا پابند ہے جو انسانی فکر پر مبنی ہیں۔

۷: ۔ اسلامی نظام عدل میں فیصلے کی بنیاد مقرر کردہ نصاب شہادت کے مطابق ان عادل گواہوں کی گواہی پر ہے جو مسلمان ہوں جس معاملے میں شہادت دے رہے ہوں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خائن اور خائنہ اورکسی دشمن کی گواہی کو رد فرمایا ہے جبکہ رومن نظام میں فیصلہ گواہوں کے بیان پر ہے۔

 

صرف دو قتل

 

اسلامی نظام عدل کا ہی نتیجہ تھا کہ گجرات کے بادشاہ احمد شاہ کے دور میں صرف دو قتل ہوئے۔

(برصغیر پاک و ہند میں اسلامی نظام عدل عبد الحفیظ ص۰۷۱ مطبوعہ اسلام آباد)

 

عدل کے فوائد و ثمرات

 

عدل و انصاف کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں چیدہ چیدہ درج ذیل ہیں۔

استحکام معاشرہ

عدل و انصاف سے معاشرہ کو استحکام حاصل ہوتا ہے حقدار کو اس کا حق مل جاتا ہے۔

معاشرتی مساوات

اسلام کی نظر میں مال و دولت رنگ و نسل ملت و مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر کسی کو ترجیح نہیں دی جاتی تمام کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

دنیا کی کامیابی

عدل و انصاف اختیار کرنے سے افراط و تفریط سے انسان بچ جاتا ہے یہ ناقابل تردید حقیقت ہے ہے کہ اعتدال کی راہ ہی زندگی میں کامیابی کی ضامن ہے۔

اجر آخرت

عدل و انصاف ایک عظیم اخلاقی فریضہ ہے اسے اللہ کے ہاں خاص مقام حاصل ہے قرآن میں جگہ جگہ جہاد کی فضیلت بیان ہوئی ہے اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عادل بادشاہ کو قیامت کے روز سایہ خدا میں رہنے کی بشارت سنائی ہے جس دن کوئی سایہ نہ ہو گا۔

حقوق کی حفاظت

عدل سے کمزور طبقوں کے حقوق کا تحفظ ہو جاتا ہے۔

المختصر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام نے عدل و انصاف کا معیار بلند رکھا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں