FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

عام آدمی کے خواب

(افسانے)

جلد چہارم

               رشید امجد

 

احوال واقعی

مکمل اصل کتاب میں سے دو طویل کہانیاں ’سمندر قطرہ سمندر‘ اور ’الف کی موت کی کہانی‘ اور ایک اور مختصر مجموعہ ’مرشد‘ کو نکال دینے کے بعد جو کتاب اور اس کی کہانیاں باقی بچی ہیں، ان کو چار جلدوں میں شایع کیا جا رہا ہے۔ یہ اس برقی کتاب کی چوتھی جلد ہے۔

ا۔ ع۔

 

            یہ کہانیاں ایک عام آدمی کے وہ خواب ہیں جو اُس نے زندگی بھر دیکھے، لیکن تمام تر جدوجہد اور خواہشوں کے باوجود تعبیر نہ پا سکے کیونکہ وہ ایک عام آدمی تھا، ایک عام آدمی کے گھر پیدا ہوا، جیا اور ایک عام آدمی کی حیثیت سے مر گیا، لیکن اُس نے خواب دیکھے اور خواب وراثت میں منتقل ہو جاتے ہیں ، وراثت میں منتقل کرنے کے لیے اُس کے پاس اور کچھ تھا بھی نہیں ، سو اُس نے اپنے خواب اپنے بیٹے کو جو اُسی کی طرح عام آدمی تھا، منتقل کر دئیے، اس امید کے ساتھ کہ جدوجہد ایک نسل سے دوسری، تیسری اور کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے، یہ ایک امید ہے کہ شاید کسی دن ان خوابوں کو تعبیر مل جائے۔۔۔  یہ کہانیاں اسی خواہش کی مختلف تصویریں ہیں۔

            رشید امجد

 

وقت اندھا نہیں ہوتا

نیم تاریک، سنسان گلی دور تک خالی، گلی میں کوئی درخت نہیں لیکن ہر وقت گھنی چھاؤں کا سا احساس ہوتا، نیم پکے، نیم کچے فرش پر قدموں کی چاپ بیٹھی بیٹھی سی لگتی، نیم بوسیدہ دروازے بند، جن کے اندر چھپی ان دیکھی دنیائیں ، ان کے مکین گم آوازوں کے حصار میں دور کہیں سائے سے، چلتے چلتے، ٹھٹھکتے ٹھٹھکتے آگے جا کر اسی طرح کا ایک نیم بوسیدہ گم سم سا دروازہ، کبھی دور سے آنکھیں مارتا تھا، لیکن اب دیمک کی زد میں بوند بوند مٹی ہوا جا رہا تھا، زمانوں کے زنگار میں لتھڑا، حیران حیران سا، چپ چپ سا۔

دستک۔۔۔ دستک دینے کے بہت دیر بعد اندر ایک پر اسرار چاپ، پھر دروازے کا تھوڑا سا حصہ تھکی چڑچڑاہٹ کے ساتھ نیم وا ہوا، ایک ستی ہوئی اکتائی آواز۔۔۔  ’’کون‘‘؟

’’جی۔۔۔  میں ‘‘

’’میں کون‘‘؟ ستی ہوئی، اکتائی آوازیں ایک بے دلی کا عنصر بھی نمایاں ہوا۔ ’’جی میں ‘‘ یادوں کا ایک ہجوم بھنور سا بن گیا۔ ’’تم‘‘ ایک خوشگوار حیرت خوشبو کی طرح چاروں طرف پھیل گئی۔ دروازہ چڑچڑاہٹ کے ساتھ تھوڑا سا اور کھل گیا۔

’’آؤ نا‘‘

اندر آتے ہوئے میں نے اس تھکے وجود پر ایک نظر ڈالی۔ میلے بغیر استری کپڑوں میں ایک تڑخا ہوا ڈھانچہ۔ تھکے قدموں سے وہ آگے آگے، میں پیچھے پیچھے۔ کئی برس پہلے جب دروازے کی چوکھٹ میں بوسیدگی نہیں آئی تھی، آسمانی رنگ کے کلف لگے جوڑے میں ، نپے تلے قدم اٹھاتی وہ آگے آگے اور میں نیم بوکھلایا پیچھے پیچھے۔ نقشیں پردوں سے سجے کمرے میں نرم گداز صوفے میں بیٹھتے یوں لگا جیسے کسی نے میرے گرد ریشم بن دیا۔ گاؤں کی کھری چارپائی سے ہوسٹل کے کمرے میں فرش پر پڑے گدے تک ہر طرف کھردر اپن ہی کھردر اپن تھا۔ ہوسٹل کے کمرے میں جگہ جگہ سے پھٹی میلی دری پر روئی سے تقریباً خالی گدا، ایک نیم گرم چادر، پرانی کرسی اور پینگ کی طرح ڈولتا میز میری کل کائنات تھا۔

’’تو ہوسٹل میں ٹھہرے ہوئے‘‘

’’جی۔۔۔  جی‘‘

’’کوئی تکلیف تو نہیں ‘‘

’’جی نہیں ‘‘

’’چائے پیو گے‘‘

’’جی نہیں ‘‘

وہ مسکرائی اور اس کے سفید دانتوں کا لشکارا دور تک میرے اندر اتر گیا۔۔۔  ’’تو تمہیں صرف دو ہی لفظ آتے ہیں ‘‘

’’جی نہیں ‘‘ میں ہڑ بڑا گیا۔

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور دوسرے کمرے کی طرف منہ کر کے آواز دی۔۔۔  ’’اماں چائے لے آؤ۔‘‘

کمرے کی ویرانی اور اس کی ویرانی میں زیادہ فرق نہ تھا۔ صوفے کا کپڑا جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا۔ میں ایک کونے میں سمٹ گیا۔

’’کئی دن سے صفائی نہیں ہوئی‘‘ وہ مسکرائی اور اس کے میلے دانت سارے چہرے پر پھیل گئے، مجھے گھن سی آئی۔

’’کیسے ہو؟‘‘

’’ٹھیک ہوں۔‘‘

اس نے میز پر پڑی سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی۔۔۔  ’’پیتے ہو یا چھوڑ دئیے۔‘‘ میں نے ہاتھ بڑھا کر سگریٹ اٹھا لیا۔ اس نے اپنا سگریٹ سلگایا اور ماچس میری طرف پھینک دی۔۔۔  ’’بس عادت ہی پڑ گئی ہے۔ بیٹھو میں چائے لے کر آتی ہوں۔‘‘

وہ اٹھی تو لگا ساری عمارت جگہ جگہ سے تڑخ گئی ہے۔ وقت نے اس کے چہرے پر جو جالے بنے تھے ان میں کرختگی در آئی تھی۔ میرے ذہن میں اس کا برسوں پرانا پیکر گھوم گیا۔ چائے بناتے ہوئے اس کی انگلیاں تھرک رہی تھیں۔ بسکٹوں کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے میری انگلیاں اس کے ہاتھ سے مس ہوئیں تو لگا سارے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا ہے۔

’’تو دو سال یہاں رہو گے۔‘‘

میں نے سر ہلا دیا۔

’’آ جایا کرو۔۔۔  جب جی چاہے۔‘‘

واپسی پر اس کی خوشبو ہوسٹل تک میرے ساتھ ساتھ آئی اور کئی دنوں تک میرے وجود میں سرسراتی رہی۔

اگلے ہفتے ڈرتے، ڈرتے منقش دروازے پر دستک دی۔ نوکرانی نے جھانک کر دیکھا اور اس سے پہلے کہ کچھ پوچھتی، ڈیوڑھی میں گھنٹیاں بج اٹھیں۔۔۔  ’’اماں کون ہے۔‘‘

نوکرانی سے پہلے ہی میں بول بڑا۔۔۔  ’’جی میں ہوں ‘‘

’’اندر آؤنا۔۔۔ باہر کیوں کھڑے ہو‘‘؟

اس کے پیچھے پیچھے ڈرائنگ روم میں جاتے یوں لگا جیسے میں ریشم میں سرسراتی کسی روح کے ساتھ چل رہا ہوں۔

چائے کی پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا۔۔۔  ’’اس دن پوچھنا بھول ہی گئی، کسی مضمون میں داخلہ لیا ہے۔

’’فلاسفی‘‘ میں نے جھجکتے جھجکتے کہا۔

’’واہ‘‘ وہ اچھل پڑی۔۔۔  ’’یہ تو میرا پسندیدہ مضمون ہے، بھئی تم سے میل ملاقات رہنا چاہیے۔‘‘

سرسراتے ریشمی لباس میں اس کا سراپا باہر نکلنے کے لیے تڑپ تڑپ رہا تھا۔ میں نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا اور میرے سارے وجود میں کوئی نامعلوم سی لہر دائیں بائیں ، اوپر نیچے دوڑ گئی۔

’’فلاسفی بڑا دلچسپ مضمون ہے، مزہ آتا ہے پڑھنے میں ‘‘ وہ چپ سی ہو گئی۔ پھر قدرے اداس سے لہجے میں بولی ’’میں نے بی اے تک ہی پڑھی ہے۔‘‘

وہ چپ ہو گئی، بہت دیر چپ رہی۔ میں اس دوران ناخنوں سے پُوروں کو ٹٹولتا رہا۔

’’پڑھنا تو چاہتی تھی۔۔۔  شوق بھی تھا پر‘‘۔۔۔  اس کے لہجے میں اداسی گھمبیر ہو گئی۔۔۔  ’’اماں کی موت نے سب اتھل پتھل کر دیا، اگلے دو تین برسوں میں دونوں بھائی بھی جان چھڑا کر باہر نکل گئے۔‘‘

’’تو آپ بالکل اکیلی ہیں ‘‘ میں نے ہمدردی سے اسے دیکھا۔

’’اکیلی کہاں۔۔۔  یہ بی اماں جو ہیں ‘‘ اس نے بوڑھی نوکرانی کی طرف اشارہ کیا، جو ٹرالی لیے باہر نکل رہی تھی۔

’’جی۔۔۔  جی‘‘ میں نے ہونقوں کی طرح سر ہلا یا۔

وہ ہنس پڑی۔۔۔  ’’تمھاری اس جی میں بڑا مزہ ہے۔‘‘

’’جی۔۔۔ ‘‘

وہ کھلکھلائی۔۔۔  ’’اب آؤ تو فلاسفی کی کوئی نئی کتاب لیتے آنا‘‘۔۔۔  وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی۔

اس رات ریشم میں سرسراتا، ابھرتا ڈوبتا، اس کا جسم مجھے الٹ پلٹ کرتا رہا۔ سارا ہفتہ اس کے جسم کو چھونے کی خواہش نے بے چین کیے رکھا۔ ہفتہ بعد فلاسفی کی کتاب دیتے ہوئے میں نے جان بوجھ کر اس کے ہاتھوں سے انگلیاں مس کیں۔ اس نے لمحہ بھر کے لیے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا، پھر کتاب میز پر رکھ دی۔۔۔  ’’شکریہ۔۔۔  تم نے یاد رکھا۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’میں تو لمحہ بھر کے لیے نہیں بھولا، بس ہفتہ کا دن آتا ہی نہیں تھا۔‘‘ اس نے گھنی پلکیں اٹھائیں ، میں اندازہ نہیں کر سکا یہ حیرت تھی خوشی یا سحر۔۔۔  ’’ہفتہ ہی کیوں ، کسی دن بھی آ جاتے۔‘‘

’’اچھا‘‘ میرے اندر بانسری بجنے لگی۔۔۔  ’’کسی دن بھی، آپ مصروف تو نہیں ہوتیں۔‘‘

’’میں۔۔۔ ‘‘ وہ ہنسی۔۔۔  ’’میں تو شکر کرتی ہوں کوئی آئے۔‘‘

’’تو بس۔۔۔ ‘‘ میں جملہ مکمل نہ کر سکا۔

’’اب آؤ تو ذرا وقت پر آنا۔۔۔  کھانا اکٹھے کھائیں گے۔‘‘

پھر دنوں کی تقسیم ختم ہو گئی، ہفتہ سے تین اور پھر تقریباً روزانہ، لیکن لمبی چوڑی بحثوں اور گھنٹوں کی قربت بھی مجھے آپ سے تم پر نہ لا سکتی۔ اس کے رنگ برنگے لباس، آرائش اور سرسراتا، اٹھکھیلیاں کرتا سراپا، میرے سارے وجود پر چھا گیا۔ خوابوں میں ، میں اس سے لپٹ لپٹ جاتا، لیکن جاگتے میں فاصلے اسی طرح رہتے، بس ہو سکا تو اتنا کہ کبھی کوئی کتاب لیتے دیتے، کبھی کوئی پلیٹ پکڑتے پکڑاتے اس کے ہاتھوں کے لمس کا ذائقہ محسوس ہو جاتا، یا کبھی دروازے میں سے نکلتے اس کے کندھے سے کندھا چھو جاتا، یہ ذائقہ یہ لمس کئی کئی دن مسحور کیے رکھتا۔

انہی سوتی جاگتی کیفیتوں ، خوابوں اور لمس کی لذتوں میں دن پر لگا کر اڑ گئے۔ امتحان قریب آ گئے۔ میں اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر ہمت نہ پڑتی۔ کوئی بات زبان تک آتے آتے رک سی جاتی۔ ریہرسلیں کر کے، جملے دہرا دہرا کے، رٹ رٹ کے، سامنا ہوتا تو سب گڈمڈ ہو جاتا۔ اک نامعلوم سی جھجھک ان دیکھے پردے کی طرح درمیان میں حائل ہو جاتی۔

شائد امتحان شروع ہونے سے دو تین دن پہلے کی بات ہے، میں کچھ اکھڑا اکھڑا سا تھا۔ گھبراہٹ میں کبھی صوفے کے ایک طرف ہوتا کبھی دوسری طرف۔ وہ کن انکھیوں سے مسلسل میرا جائزہ لے رہی تھی، کہنے لگی۔۔۔  ’’پریشان ہو‘‘

میں نے اٹکے اٹکے لہجے میں کہا۔۔۔  ’’اک بات ہے۔‘‘

’’کہو‘‘

میں چپ رہا، کہنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔

بولی۔۔۔  ’’کہو نا‘‘

میرے ضبط کا کنارہ ٹوٹ گیا۔ بڑے ہی بے ڈھنگے طریقے سے نیم بند آنکھوں کے ساتھ، معلوم نہیں لفظ کیسے ادا ہوئے۔۔۔  ’’میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

وہ چپ رہی، بہت دیر چپ رہی، پھر دھیمی آواز میں بولی۔۔۔  ’’تمہیں اپنی میری عمروں کا فرق معلوم ہے۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’عمروں کے فرق سے کیا ہوتا ہے۔‘‘

بولی۔۔۔  ’’بہت کچھ ہوتا ہے، محبت اندھی ہوتی ہے، وقت اندھا نہیں ہوتا‘‘ میں نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے میرے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، پھر دفعتاً مجھے شانوں سے پکڑ کر میرا منہ سامنے کیا۔۔۔  دیکھتی رہی کچھ دیر دیکھتی رہی پھر بولی۔۔۔  ’’پریشان نہ ہو، جاؤ جا کر تیاری کرو، تمھارے مستقبل کا انحصار اس امتحان پر ہے۔‘‘

میں نے کچھ کہنا چاہا۔

اس نے میرے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور۔۔۔  پھر دفعتاً جھک کر میرے ماتھے پر اپنے ہونٹ ثبت کر دئیے۔

وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی تو میں نے دیکھا اس کے آنکھوں میں ستارے جھلملا رہے ہیں۔ وقت ٹھہر گیا۔۔۔  ٹھہرا ہی رہا۔ امتحان کے عرصہ میں بھی اس کے نرم گداز، گرم رسیلے ہونٹ میرے ماتھے پر ثبت رہے۔

آخری پیپر دے کر میں اس کی طرف آیا۔ دو تین بار کی دستک کے جواب میں بوڑھی نوکرانی نے ذرا سا دروازہ کھولا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بولی۔۔۔  ’’باجی کراچی گئی ہیں ، ان کی خالہ بیمار ہیں ، پانچ چھ مہینے رہیں گی۔‘‘

اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا۔ دروازہ بند ہو گیا۔

میں کچھ دیر کھڑا رہا، پھر بوجھل قدموں سے واپس پلٹا، جانے کیوں احساس ہو رہا تھا کہ بند دروازے کے پیچھے ستاروں بھری دو آنکھیں مجھے دیکھے جا رہی ہیں ، زمانے بیت گئے۔۔۔  بیت گئے۔

اور اب برسوں بعد۔۔۔  کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چائے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے بولی۔۔۔  ’’اماں بازار گئی ہے۔‘‘

جھریوں بھرے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چائے کی پیالی لیتے ہوئے میں نے ان نرم گداز ہاتھوں کے لمس کو محسوس کرنے کی ایک ناکام سی کوشش کی، جن کا تصور کبھی مجھے ہفتوں بیخود کیے رہتا تھا۔

’’عرصہ بعد دیکھا ہے تمہیں۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’ایک میٹنگ میں آیا تھا۔‘‘

’’رہو گے‘‘ اس کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ کھنکھتا لہجہ اور ترنم اب بھولے بسرے زمانوں کی یاد تھا۔

’’نہیں آج شام ہی لوٹ جاؤں گا۔‘‘

وہ چپ رہی، میں بھی چپ رہا۔۔۔  خاموشی گہری اور گہری ہو گئی۔

شاید زمانے بیت گئے۔

میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔  ’’چلتا ہوں ‘‘

وہ بھی کھڑی ہو گئی، کچھ نہ بولی۔

آگے پیچھے ہم ڈیوڑھی میں پہنچے۔ لمحہ بھر کے لیے رک کر میں نے اسے دیکھا، پھر دروازہ کھولنے لگا۔ میرا ایک پاؤں دہلیز کے اندر اور دوسرا باہر تھا کہ دفعتاً وہ آگے جھکی، شانوں سے پکڑ کر میرا منہ اپنی طرف کیا اور سوکھے ٹھنڈے ہونٹ میرے ماتھے پر رکھ دیے۔ دوسرے ہی لمحے وہ تیزی سے مڑی اور تیز تیز قدم اٹھاتی اندر چلی گئی۔

میں چند لمحے اسی طرح کھڑا رہا، پھر آہستہ سے دروازہ بند کر کے گلی میں نکل آیا۔

نیم تاریک، سنسان گلی دور تک خالی، گلی میں کوئی درخت نہیں ، لیکن ہر وقت گھنی چھاؤں کا سا احساس، نیم پکے، کچے فرش پر بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے میں نے سوچا۔۔۔  ’’کیا واقعی وقت اندھا نہیں ہوتا؟‘‘

٭٭٭

 

ست رنگے پرندے کے تعاقب میں

ناشتہ کرتے ہوئے اچانک ہی خیال آیا کہ پچھلے ٹیرس پر پڑی چارپائی کو بنوانا چاہیے۔ محلے والے گھر سے اس نئے گھر میں منتقل ہوتے ہوئے اپنا بہت سا پرانا سامان وہیں بانٹ بونٹ آئے تھے، بس یہ ایک چارپائی کسی طرح ساتھ آ گئی۔ کچھ عرصہ پچھلے ٹیرس پر دھوپ میں بیٹھنے کے کام آئی، پھر زندگی کی مصروفیات بڑھیں تو دھوپ میں بیٹھنا بھی کبھی کبھار ہو گیا۔ چارپائی نواڑ کی بنی ہوئی تھی، بارشوں اور دھوپوں میں نواڑ گل گئی۔ جگہ جگہ سے گل کر نواڑ کی پٹیاں لٹکنے لگیں ، ایک دن اس کے بڑے بیٹے نے نواڑ کھول کر چارپائی کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا، پھر برسوں وہ اسی طرح پڑی رہی۔ کبھی کبھی کوئی پچھلے ٹیرس کی طرف جاتا تو خیال آتا کہ اب کوئی پرانی چیزیں لینے آیا تو اسے بیچ دیں گے، پھر بات بھول بھال جاتی، کسی کو خیال نہ آتا کہ اسے بنوا لیا جائے۔ اس کا کوئی استعمال ہی نہ تھا۔ ہر کمرے میں نئی طرز کے بیڈ تھے اور چارپائی رکھنے کی کہیں جگہ بھی نہ تھی، لیکن اس صبح ناشتہ کرتے ہوئے اسے خیال آیا کہ چارپائی بنوا لینی چاہیے، سردیاں آ رہی ہیں۔ دھوپ میں بیٹھنے کے کام آئے گی۔ زیادہ نہ سہی چھٹی والے دن تو بیٹھ ہی سکتے ہیں۔ دھوپ میں بیٹھ کر کھانا کھانے کا کتنا مزہ ہے۔ پرانے گھر میں وہ اکثر چھت پر ہی کھانا کھاتے۔ سردیوں میں تو یہ معمول تھا، لیکن اب تو ڈائنگ روم تھا۔ میز کرسیاں تھیں مگر دھوپ میں چارپائی پر بیٹھ کر کھانے کا مزہ ہی اور ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا لیکن بیوی سے ذکر نہیں کیا۔ وہ حسب معمول پیچھے پڑ جاتی کہ اس بلاوجہ خرچے کی کیا ضرورت ہے۔ گھر میں خرچے اور بلا ضرورت اور ضرورت کا ذکر تو چلتا ہی رہتا تھا۔ بس گزارہ چل رہا تھا۔ وہ کہتا۔۔۔  یہی کیا کم ہے کہ عزت سے گزر ہو رہی ہے۔ لیکن بیوی کو ابھی کئی چیزیں بنوانی تھیں ، کہیں پردے بدلوانا تھے، کہیں بیڈ شیٹیں لانا تھیں ، پھر بچوں کے آئے دن کے تقاضے یہ وہ، یہ وہ۔۔۔  اس پرانی چارپائی کو بنوانا کسی حساب میں نہ آتا تھا، پورے گھر میں کوئی بھی اس کی تائید نہ کرتا اس لیے اس نے سوچا کہ جب تک سامان نہ آ جائے اور بننے والا نہ آ جائے کسی سے اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ پرانے محلے میں تو چارپائی بننے والے دوسرے تیسرے دن گلی میں آواز لگاتے گزرتے تھے، لیکن ان نئی آبادیوں میں چارپائی کہاں تھی کہ بننے والے ادھر کا رخ کرتے، اس کے لیے شہر جانا پڑتا تھا، اس نے سوچا دفتر سے فارغ ہو کر شہر کا چکر لگا آئے اور کسی بننے والے کو ساتھ لے آئے گا۔

دفتر سے نکل کر وہ پرانے شہر کی طرف آگیا۔ اب نواڑ کا تو زمانہ نہیں رہا۔ پلاسٹک کی رنگ برنگی رسیوں سے بنی چارپائی بہت اچھی لگتی ہے۔ اس طرح کی کئی دکانیں سیڑھیوں والے پل کے پاس تھیں۔ وہاں پہنچا تو دکانوں کے باہر رنگ برنگی رسیوں سے بنی چارپائیاں اسے بڑی ہی بھلی لگیں۔ پہلی ہی دکان سے کورا جواب مل گیا۔ دکاندار نے کہا۔ ’’رسی تو مل جائے گی لیکن بننے والا نہیں۔‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’میں بننے والے کو ساتھ لے جاؤں گا اور گاڑی میں واپس چھوڑ جاؤں گا۔‘‘

دکاندار نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔  ’’اب یہ کام کرنے والے کم ہیں۔ یہ چند لوگ بمشکل دکانوں کی ڈیمانڈ ہی پوری کرپاتے ہیں۔ آپ کو بننے والا مشکل ہی سے ملے گا۔‘‘

دوسری تیسری اور چوتھی دکان سے بھی یہی جواب ملا۔ وہ کچھ مایوس سا ہو گیا اس کے ذہن میں ٹیرس پر پڑی رنگ برنگی چارپائی کا تصور دھندلا سا گیا۔ ’’تو کوئی صورت نہیں۔‘‘ اس نے آخری دکاندار سے پوچھا۔

’’شاید بنی والے چوک میں کوئی مل جائے۔۔۔  میرا خیال ہے مل جائے گا، وہاں بڑی مارکیٹ ہے۔‘‘ دکاندار نے کہا۔

اس رش والے وقت میں شہر کے اس حصے میں جانا آسان کام نہیں تھا، لیکن وہ چل پڑا۔ تنگ بازاروں سے چیونٹی کی طرح رینگتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اسے عجب طرح کا سرور آیا۔ زندگی تو یہیں ہے۔ اس نے سوچا۔ لبالب بھری ہوئی۔

اسے خیال آیا کہ چند برس پہلے جب وہ بھی اندرون شہر رہتا تھا تو اس کی زندگی بھی اسی طرح لبالب بھری ہوئی تھی، ہر وقت ایک ہنگامہ، ایک شور، ڈھیر سارے لوگوں کے درمیاں ، اپنائیت کے گرم لمس کے ساتھ اور اب اس نئی آبادی میں سکون ہی سکون تھا خاموشی، اپنے کام سے کام۔ معیار بڑھ گیا تھا لیکن جیسے زمین سے نکل کر گملے میں آ گئے تھے، لیکن یہ تو صرف اس کا احساس تھا۔ بیوی بچے تو خوش تھے کبھی اندرون شہر کا ذکر آتا تو ان کی بھنوئیں سکڑ جاتیں ، مگر وہ کبھی کبھار کسی نہ کسی بہانے ادھر نکل ہی آتا۔ اس وقت بھی بھوک کی شدت کے باوجود اسے رینگ رینگ کر چلنے میں مزہ آ رہا تھا۔

ادھر والی مارکیٹ بڑی تھی، اس نے گاڑی مشکل سے ایک جگہ کھڑی کی۔

پہلی دو تین دکانوں سے وہی مایوسی جواب ملا۔ ’’چارپائی یہاں لے آئیں۔‘‘

یہ تو ممکن نہیں۔ اس نے سوچا۔۔۔  ایک طرف سے ہی سوزکی والا دو سو سے کم نہیں لے گا۔۔۔  چار سو تو کرایہ ہی ہو گیا۔

اس کا دل بیٹھ سا گیا۔۔۔  تو چارپائی نہیں بنی جا سکتی۔

پچھلے ٹیرس پر چہچہاتا پرندہ چشم زون میں اڑ گیا۔ وہی اداس ٹیرس اور کونے میں دیوار سے لگا چارپائی کا فریم۔

’’تو واپس چلوں ‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’خوامخواہ بھوک بھی کاٹی۔‘‘

’’جناب اندر آئیں نا، میرے پاس بڑی ورائٹی ہے۔‘‘ وہ جس دکان کے باہر کھڑا تھا، اس کے اندر سے آواز آئی۔

وہ اندر چلا گیا۔ دکاندار بڑا خوش اخلاق تھا۔ کہنے لگا۔۔۔  ’’پسند کریں نا میرے ریٹ بڑے مناسب ہیں۔‘‘

’’مجھے خریدنا نہیں۔‘‘ وہ جھجکتے ہوئے بولا۔ ’’چارپائی بنوانا ہے۔‘‘

’’بنوانی ہے۔۔۔  کہاں ؟‘‘

ہے تو ذرا دور پر میں بندے کو ساتھ لے جاؤں گا اور واپس چھوڑ دوں گا۔‘‘ پھر جلدی سے بولا۔۔۔  ’’سارا سامان تو آپ سے لینا ہے بس بندہ۔‘‘

دکاندار نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، پھر بولا۔ ’’بندہ تو آج کل مشکل ہی ملتا ہے، لیکن آپ ذرا بیٹھیں میں پتہ کرتا ہوں۔‘‘

رنگ برنگا پرندہ آسمان کی وسعتوں سے چکرا کر پھر پچھلے ٹیرس پر آ بیٹھا۔ دکاندار اسے بٹھا کر باہر نکل گیا۔ اس کے آنے تک وہ امید و نا امیدی کے بھنور میں ابھرتا ڈوبتا رہا۔

’’بندہ تو اس وقت موجود نہیں ، ہاں صبح مل جائے گا، لیکن آپ کو صبح چھ بجے آ کر اسے لے جانا ہو گا، ورنہ اس نے کسی کا کام شروع کر دیا تو۔۔۔ ‘‘ دکاندار نے ایک ہی سانس میں کہا۔

’’میں آ جاؤں گا۔۔۔  آ جاؤں گا۔‘‘ وہ جلدی سے بولا۔ ’’صبح تو اتوار ہے چھٹی ہے۔ میں چھ بجے آ جاؤں گا۔‘‘

دکاندار نے کہا۔۔۔  ’’تو سامان آپ ابھی لے جائیں۔ دکان تو صبح دیر سے کھلے گی لیکن بندہ یہاں موجود ہو گا۔‘‘

رسیوں کے گچھے گاڑی میں رکھتے ہوئے اسے خیال آیا اگر صبح بندہ نہ ملا تو یہ ساڑھے چار سو روپے تو ضائع ہو جائیں گے، اس نے دکاندار سے کہا۔۔۔  ’’’دیکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح۔۔۔ ‘‘

دکاندار نے اس کی بات کاٹ دی۔۔۔ ‘‘ بندہ موجود ہو گا جی، لیکن چھ بجے کے بعد کی ذمہ داری نہیں۔‘‘

پورچ میں گاڑی کھڑے کرتے ہوئے بیوی کی نظر پچھلی سیٹ پر پڑی گچھیوں کی طرف گئی۔

’’یہ کیا ہے‘‘؟

وہ گڑ بڑا گیا۔۔۔  کم از کم کھانا تو کھا لیتا، پھر آرام سے موقع دیکھ کر بات کرتا، لیکن گیٹ کھولنے بیوی خود نکل آئی تھی۔

’’یہ۔۔۔ ‘‘ اس نے تھوک سے حلق تر کیا۔۔۔  ’’یہ۔۔۔  میں نے سوچا وہ اوپر۔۔۔  وہ اوپر ٹیرس پر، پچھلے ٹیرس پر چارپائی پڑی ہے نا، اسے بنوا لیا جائے۔‘‘

کیا۔۔۔ ‘‘ وہ چیختی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔  ’’وہ پرانی چارپائی، کس لیے۔۔۔  اور یہ سامان کتنے کا آیا ہے؟‘‘

’’بس زیادہ نہیں۔‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’زیادہ نہیں۔ تین چار سو کا۔‘‘

’’تین چار سو کا۔‘‘ وہ پھر چیخی۔

’’ساڑھے چار سوکا۔‘‘ اس کے منہ سے گھبراہٹ میں نکل گیا۔

’’ساڑھے چار سو۔۔۔ ‘‘ اس کی چیخ اور بلند ہو گئی۔۔۔۔  ’’اور بنوائی۔‘‘

’’دو سو۔۔۔  دو سو۔‘‘

اس کی بیوی نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔۔۔  ’’تمھاری عقل تو کام کرتی ہے نا۔۔۔  ساڑھے چار سو ایک بیکار چارپائی کے لیے۔‘‘

وہ اندر بھاگ گیا۔

’’ہم یہاں بھوکے مر رہے ہیں اور یہ صاحب بہادر یہ رسیاں خریدتے پھر رہے ہیں ، میں پریشان ہو رہی تھی کہ اب تک کیوں نہیں آئے اور یہ۔۔۔ ‘‘

اس نے کچھ کہنا چاہا۔

’’بس بس۔‘‘ وہ غصے سے بولی۔ ’’مجھ سے اب بات بھی نہ کرنا۔‘‘

کھانا کھاتے ہوئے اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’دیکھو میری بات تو سنو۔‘‘

’’کیا سنوں۔۔۔ ‘‘ اس کا غصہ اترنے ہی میں نہ آتا تھا۔۔۔  ’’تمہاری کوئی ترجیح ہی نہیں ، میں کہتی ہوں ہم نے اس چارپائی کا کرنا کیا ہے؟‘‘

’’سردیاں آ رہی ہیں ، دھوپ میں بیٹھنے۔۔۔ ‘‘

’’کون بیٹھتا ہے دھوپ میں ، وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟‘‘ اس نے اس کی بات کاٹ دی۔۔۔  ’’میں پوچھتی ہوں ہم نے کرنا کیا ہے اس چارپائی کا رکھنے کی جگہ نہیں۔‘‘

’’میرا کیلکولیٹر گم ہو گیا ہے، اسے لینے کے لیے تو پیسے نہیں اور ساڑھے چار سو چارپائی پر خرچ کردئیے ہیں۔‘‘ بڑے بیٹے نے ناگواری سے کہا۔

’’تم لوگ چپ رہو۔‘‘ اس نے ڈانٹا۔

’’چپ کیوں رہیں ؟‘‘ بیوی کا غصہ اور بڑھ گیا۔ ’’گھر کے لیے تو تمھارے پاس پیسے نہیں ہوتے اور فضول کاموں کے لیے۔۔۔  میں کہتی ہوں سامان واپس کر دو۔‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔

’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ دکاندار سے کہو کم پیسے دے دے۔ تم نہیں کر سکتے تو میں ساتھ چلتی ہوں۔ میں بات کرلوں گی۔‘‘

’’نہیں۔۔۔  نہیں۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے اب مجھ سے بات نہ کرنا۔‘‘ وہ اٹھ کر چلی گئی۔ دونوں بیٹے بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔ وہ وہیں اکیلا بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔

کچھ غلط ہی ہو گیا ہے۔ اس نے سوچا۔۔۔  واقعی کیا ضرورت تھی۔

ابھی تو پورا مہینہ پڑا ہے، خوامخواہ چھ ساتھ سو روپے۔۔۔  پانچ سو کا کیلکولیٹر ہی لے دیتا بیٹے کو۔۔۔  روز کہتا ہے، پر اب کیا ہو سکتا ہے رسی کی گچھیاں بھی واپس نہیں ہو سکتیں اور صبح۔۔۔

اس نے ناگواری سے سر ہلایا۔۔۔  چھے بجے۔۔۔  چھٹی والے دن ایک ہی تو لطف ہوتا ہے کہ دیر سے اٹھنا اور چھ بجے وہاں پہنچنا ہے، اس کا مطلب ہے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا۔۔۔  واقعی غلط ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو کوسا۔۔۔  یہ کوئی نئی بات بھی نہیں تھی، اس کے اکثر کام اسی طرح کے ہوتے تھے۔۔۔  پہلے کر لینا پھر پچھتانا۔۔۔  یہ پچھتاوا تو میرا مقدر ہے۔

شام تک ماحول کشیدہ رہا۔ شام کو چائے دیتے ہوئے بیوی نے کہا۔۔۔  ’’میں نے تم سے بات تو نہیں کرنا تھی لیکن پھر کہتی ہوں یہ سامان واپس کر دو، تم ہمیشہ بعد میں پچھتاتے ہو، میری بات مان لو۔‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’اب یہ ممکن نہیں ، وہ واپس نہیں کرے گا۔‘‘

’’میں بات کروں گی، تم خود سوچو ہم نے اس چارپائی کا کرنا کیا ہے؟‘‘

اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔  ’’مجھے پتہ ہے نا وہ واپسی نہیں کرے گا۔‘‘

بیوی پیر پٹختی کچن میں چلی گئی۔

رات کو کھانے پر بھی یہی صورت رہی۔ بیٹے منہ پھلائے الگ بیٹھے رہے بیوی نے بھی کوئی بات نہ کی۔ اس سے نہ رہا گیا، بولا۔۔۔  ’’چلو غلطی ہو گئی، اب کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

’’یہ آپ کا پرانا جواب ہے۔‘‘ بڑے بیٹے نے کہا۔

’’ہر بار غلطی۔‘‘ بیوی کی آواز میں تلخی آ گئی۔۔۔ ‘‘ کب تمہیں عقل آئے گی میں پوچھتی ہوں تمہیں چارپائی کیسے گھس گئی دماغ میں ، میں کئی دن سے کہہ رہی ہوں کہ کچن کا ایگزاسٹ فین بدلوا دیں ،صحیح کام نہیں کر رہا، اس کے لیے پیسے نہیں اور یہ چارپائی۔‘‘

وہ کچھ نہ بولا۔۔۔  بولتا بھی کیا، اپنے طور پر احساس ہو رہا تھا کہ بلاوجہ پیسے ضائع کر دیے، چارپائی نہ بھی بنتی تو کیا فرق پڑتا۔ گھر کی اور کئی ضرورتیں توجہ چاہتی تھیں ، لیکن بات وہی تھی کہ اب کیا ہو سکتا تھا ایک بار خیال آیا کہ سامان واپس کرنے کی کوشش کی جائے لیکن دکاندار کا رویہ وہ سارا منظر، اسے یقین تھا کہ سامان واپس نہیں ہو گا اب تو ایک ہی صورت تھی کہ صبح چھ بجے۔۔۔  اور اس کے لیے اتوار والے دن، چھٹی والے دن صبح پانچ بجے اٹھنا۔۔۔  اس نے بیٹھے بٹھائے کیا مصیبت مول لے لی تھی۔

ہفتہ کی رات تھی۔ دیر تک گپ شپ لگانے اور رات گئے تک جاگنے کا معمول تھا لیکن بیوی کا موڈ اتنا خراب تھا کہ اس سے بات کرنے کی ہمت بھی نہ ہوئی۔ کھانا کھا کر بیٹے اپنے کمرے میں چلے گئے اور وہ دونوں میاں بیوی اپنی اپنی دیوار کی طرف منہ کیے لیٹ گئے۔ صبح پانچ بجے اٹھتے ہوئے بڑی کوفت ہوئی لیکن چھ بجے وہاں پہنچنا تھا۔ بندہ منتظر تھا۔ راستے میں اس نے کہا۔۔۔  ’’یار بننا اچھی طرح، اس چارپائی نے تو بڑا کام خراب کر دیا ہے۔‘‘

’’فکر ای نہ کریں جی، ایسی بنوں گا جو دیکھے گا واہ واہ کرے گا۔‘‘

گھر پہنچا تو ابھی سب سو رہے تھے۔ وہ کام کرنے والے کو پچھلے ٹیرس پر لے گیا۔ سامان کا تھیلا اس کے سپرد کر کے کچن میں آیا اپنے لیے چائے بنائی اور لاؤنج میں اخبار پڑھنے بیٹھ گیا۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد بیوی اٹھی۔ لاؤنج میں خالی پیالی دیکھ کر بولی۔

’’چائے پینی تھی تو مجھے جگا دیتے۔‘‘ اب اس کے لہجے میں رات والی تلخی تھی۔

’’وہ دراصل۔۔۔  جلدی جانا تھا نا۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔

’’تو لے آئے ہو اسے۔‘‘

’’بس یار ہو گیا۔۔۔  اب جانے دو۔‘‘

’’یہ تو تمہارا پرانا وطیرہ ہے، پہلے کر لینا پھر پچھتانا۔‘‘

’’تو جان اسی لیے تو کہتی ہوں کوئی کام کرنے سے پہلے مشورہ کر لیا کرو۔‘‘

اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اوپر چلا گیا۔ کاریگر ماہر تھا آدھی سے زیادہ چارپائی بنی گئی تھی اور رنگ برنگا پرندہ پورے ٹیرس پر چہک رہا تھا۔

دو تین گھنٹے بعد اسے واپس پہنچایا۔ بیوی اور بیٹوں نے چارپائی دیکھی تو سب نے تعریف کی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی ست رنگا پرندہ پر پھیلائے ٹیرس پر رقص کر رہا ہے۔

’’چلو پیسے تو خرچ ہو گئے لیکن لگ اچھی رہی ہے۔‘‘ بیوی نے کہا۔

’’بہت خوبصورت بنی ہے۔‘‘ بڑے بیٹے نے کہا۔

’’اور رنگوں کا کمبی نیشن تو کمال کا ہے۔‘‘ چھوٹا بیٹا بولا۔ ’’ابو یہ ضرور آپ کی پسند ہے۔ دکاندار اتنی اچھی کمبی نیشن نہیں کر سکتا۔‘‘

وہ خوش ہو گیا۔

’’اب اسے رکھنا کہاں ہے۔‘‘ اس نے بیوی سے کہا۔ ’’بارشوں میں تو خراب ہو جائے گی۔‘‘

’’ابھی تو ورانڈے میں رکھ دیں ، پھر کوئی جگہ بناتی ہوں۔۔۔ بھئی لگ خوبصورت رہی ہے۔‘‘

دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے گپیں لگیں ، کہیں کہیں چارپائی کا ذکر بھی آیا اور رنگوں اور بنائی کی خوب داد دی گئی۔ کھانا کھا کر تھوڑی دیر سو کر وہ ایک دوست کے ہاں نکل گیا۔ وہاں تاش کی بازی لگ گئی۔ واپس آیا تو شام ہو چلی تھی۔ بیوی سامان کی ایک لسٹ لیے بیٹھی تھی۔ بازار میں کافی دیر ہو گئی۔ واپسی پر کھانے کا وقت ہو گیا۔ کھانا کھا کر ابھی لیٹا ہی تھا کہ سینے میں شدید جلن اور درد کا احساس ہوا۔ سانس بھی کچھ اکھڑ رہا تھا۔ بیوی نے بیٹے کو آواز دی۔۔۔  ’’جلدی سے گاڑی نکالو‘‘ تمھارے ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘

چھوٹا بیٹا بھی آگیا۔ دونوں بیٹوں نے اسے پچھلی سیٹ پر لٹایا۔ بیوی نے اس کا سر زانو پر رکھ لیا اور جلدی جلدی کچھ پڑھنے لگی۔ گاڑی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اس کی حالت اور خراب ہو گئی۔ شاید سٹریچر پر ڈالتے ڈالتے یا ایمرجنسی کے بیڈ پر لٹاتے لٹاتے درمیاں میں کہیں سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔

واپسی ایمبولینس میں ہوئی۔ بیوی ایمبولینس میں اور بیٹے پیچھے پیچھے گاڑی میں ایک کہرام مچ گیا۔ اڑوسی پڑوسی باہر نکل آئے۔ ایمبولینس سے سٹریچر اتار کر لاؤنج میں لائے تو کوئی بولا۔۔۔  ’’لاش کہاں رکھنی ہے؟‘‘

کسی نے بیڈ روم کی طرح اشارہ کیا تو پڑوس والی بڑی اماں بولی۔ ’’گھر میں کوئی چارپائی نہیں۔‘‘

’’چارپائی‘‘ دونوں بیٹوں نے ہچکیوں کے درمیان ماں کی طرف دیکھا۔

’’اوپر پڑی ہے‘‘ بیوی کی ہچکیاں بین میں بدل گئیں۔

لاؤنج کا صوفہ ایک طرف کر کے چارپائی درمیان میں بچھا دی گئی اور سٹریچر سے اس کا وجود چارپائی پر منتقل کر دیا گیا۔

’’گھر میں چارپائی کتنی ضروری ہے۔‘‘ کسی عورت نے دوسری عورت کے کان میں کہا۔۔۔  ’’اور ہمارے ان گھروں میں اب اس کا رواج ہی نہیں۔‘‘

لاؤنج میں ست رنگا پرندہ پر پھیلائے چہک رہا تھا اور ناچ رہا تھا لیکن اس کی چہک کسی کو سنائی نہیں دے رہی تھی نہ اس کے رنگ کسی کو نظر آ رہے تھے!

٭٭٭

 

جواز

یوں تو ساری زندگی ہی خوابوں اور سایوں کے پیچھے بھاگتے گزری ہے، دوسروں پر جلدی سے اعتماد کر لینا اور پچھتاووں کی کڑواہٹ کو چاٹتے ہوئے اپنے آپ کو کو سنا معمول ہے، کہیں مسکراہٹ کی ذرا سی کلی کھلی تو ادھر بگھٹٹ دوڑ لیے۔ کسی نے ہاتھ پکڑ کر ذرا سی گرم جوشی سے دبایا تو اپنا آپ اس کے حوالے کر دیا، لیکن جب مسکراہٹ کا سراب چمک چمک کر دور ہوتا جاتا ہے اور گرم جوشی سے تھاما ہاتھ بے اعتنائی سے جھٹک دیا جاتا ہے تو میں اپنی ذات کی گپھا میں بھاگ جاتا ہوں اور گھٹنوں میں سرد ے کر کسی کونے میں دبک جاتا ہوں۔ لیکن یہ دبکنا چند ہی دنوں کے لیے ہوتا ہے، اس کے بعد تازہ دم ہو کر پھر کسی پر اعتماد کرنے اور پرانے تجربوں کو دہرانے کو جی چاہتا ہے، مگر اس بار دھچکا اتنا زور دار تھا اور میں اپنی ذات کی گپھا میں اتنی گہرائی میں جا گرا تھا کہ لگتا تھا اب کبھی باہر نہ آ سکوں گا۔۔۔  اس بار معاملہ صرف مسکراہٹ کی کلیاں کھلنے اور بند ہونے یا جذبوں کی گنگناہٹ اور منہ موڑ لینے تک محدود نہ تھا، نہ ہی چھوٹے موٹے مالی نقصان کی بات تھی بلکہ اس بار تو سب کچھ چلا گیا تھا۔

ظفر سے میری ملاقات ایک تقریب میں ہوئی تھی۔ بیٹھے بیٹھے گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ مہنگائی ان دنوں سب سے بڑا موضوع ہے۔ میں نے یوں ہی کہا۔۔۔  ’’تنخواہ والے تو بے چار جی رہے ہیں۔‘‘

بولا۔۔۔  ’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن آدمی کو کچھ نہ کچھ اور بھی کرنا چاہیے۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ملازم کیا کر سکتا ہے۔ نہ اس کے پاس پیسہ ہے نہ وقت۔‘‘

اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔  ’’دونوں باتیں درست نہیں ، درمیانے طبقے کے لوگ تھوڑا بہت تو کر ہی سکتے ہیں۔ اب دیکھیں ناہر گھر میں کچھ نہ کچھ زیور تو ہوتا ہے، پھر جی پی فنڈ ہے، پڑے پڑے کیا ملتا ہے، لیکن کسی معقول جگہ لگ جائے تو دنوں میں کئی گنا ہو سکتا ہے، رہی بات وقت کی تو کئی اچھے دیانتدار لوگ موجود ہیں ، ان سے رفاقت ہو سکتی ہے۔‘‘

پھر اس نے اسی سحر انگیزی کے ساتھ ایسے نقشے بنائے کہ مجھے اس کی ذہانت اور خلوص کا یقین ہو گیا۔

گھر آ کر بیوی سے بات کی تو وہ آسمان پر چڑھ گئی، غصے سے بولی۔۔۔  ’’پچھلے تجربے یاد نہیں ، اب پھر کسی چکر میں پڑنے لگے ہو۔‘‘

میری عادت ہے کہ میں ہمیشہ اپنی غلطیوں کا جواز ڈھونڈ لیتا ہوں اور یہ ثابت کر دیتا ہوں کہ جو بھی نقصان ہوا ہے اس میں سراسر قصور میرا تھا۔ چنانچہ اس بار بھی پچھلے سارے نقصانات کا، جن کی تفصیل میری بیوی کو ہمیشہ یاد ہوتی ہے، ذمہ دار خود کو ٹھہرایا، لیکن وہ نہیں مانی اور کہنے لگی۔۔۔  ’’کچھ بھی ہو جائے میں تو ایک چھلہ بھی نہیں دوں گی اور نہ تمہیں قرض لینے دوں گی۔‘‘

میں نے شانے اچکائے۔۔۔  ’’تمھاری مرضی۔۔۔  میں کون سا اقرار  نامہ لکھ آیا ہوں۔‘‘

ظفر سے دو تین دن بعد ملنے کا طے ہوا تھا، لیکن وہ کئی ہفتے نہیں ملا۔ میں نے اپنے طور پر اطمینان کا سانس لیا کہ چلو انکار کی کوفت سے بچ گیا۔ کئی ہفتوں بعد پھر کسی تقریب میں اس سے ملاقات ہوئی۔ اس نے اپنی کاروباری مصروفیت کا ذکر کر کے معذرت کی کہ اتنے دنوں سے مل نہ سکا۔

میں نے قدرے شرمندگی سے کہا۔۔۔  ’’میری تو بیوی ہی نہیں مانی۔‘‘

بات شروع ہو گئی اور کافی دیر کی گفتگو کے بعد میں قائل ہو گیا کہ عورتیں طبعاً کم عقل ہوتی ہیں اور بہت سے معاملات میں ان کی رائے لینا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ کچھ چیزیں ان سے چھپانا بھی چاہئیں۔ تاکہ کسی وقت سرپرائز دے کر اپنی قابلیت اور ذہانت کا اعتراف کروایا جا سکے۔

اس کے بعد سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ اب اگر ان کو ترتیب دینا چاہوں تو ممکن نہیں۔ جی پی فنڈ کے علاوہ دو تین ایڈوانس اور بھی لے لیے۔ شروع شروع میں ظفر ہر مہینے کے پہلے ہفتے میں ایک معقول رقم گھر آ کر دے جاتا۔ پھر اسے کاروبار میں اور وسعت کا خیال آیا۔ میں نے ہر ماہ ملنے والی اچھی خاصی رقم کے لالچ میں بیوی کو بھی منوا لیا۔ اس کا سارا زیور بھی اس کام میں لگ گیا۔ مکان کی رجسٹری رکھ کر بنک سے اور ڈرافٹ بھی مل گیا۔ دو ایک سال تو خوب گزرے۔ اس کے بعد ماہانے میں وقفہ آنے لگا۔ مندے کی شکایت اور ہر دو تین ماہ بعد ایک آدھ مہینہ غائب، پھر وقفہ بڑھنے لگا۔ چھ سات ماہ گزر گئے اور ایک دن معلوم ہوا کہ ظفر سب کچھ سمیٹ سماٹ کر کہیں غائب ہو گیا ہے۔

میں نے کئی دن بیوی کو کچھ نہیں بتایا۔۔۔  بتاتا بھی کیا۔ تنخواہ کٹ کٹا کر اتنی بھی نہیں رہ گئی تھی کہ دال روٹی کا خرچ چل سکے۔ پھر اس دوران ماہانے کی امید پر اچھا خاصا قرض چڑھ گیا تھا۔ قسطیں ادا نہ ہونے کی وجہ سے بنک نے دھمکی دی کہ قسطوں کی ادائیگی فوراً شروع نہ ہوئی تو مکان خالی کرا لیا جائے گا۔

مجھ میں حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔ معمول سے ہٹ کر ذرا سی بھی کوئی بات ہو جائے تو میں آنکھیں بند کر کے اپنی ذات کی گپھا میں دبک جاتا ہوں اور جب تک معمول اپنی جگہ نہ آ جائے باہر نہیں نکلتا۔ لیکن اس بار معاملہ بہت سنگین تھا۔ بچوں کی فیس تک ادا کرنا مشکل ہو گیا۔۔۔  قرض داروں کی دستک نے مجھے گھسیٹ کر اپنی گپھا سے باہر نکال لیا، سمجھ نہیں آتا تھا کیا کروں۔ اوپر سے بیوی کا تلخ لہجہ اور طعنے۔ میں نے کہا نا کہ میں بہت چھوٹے دل کا ہوں۔ دو تین دن ہی میں ہتھیار ڈال دئیے۔ خیال آیا کہ ایک گاڑی رہ گئی ہے اس بیچ ڈالوں۔ زیادہ قیمت ملنے کی امید تو نہ تھی لیکن چند کام نکل ہی جاتے۔ یہ خیال آتے ہی اس کے کاغذات تلاش کئے۔ معلوم ہوا کہ رجسٹریشن بک غائب ہے۔ ذہن پر زور دیا لیکن کچھ یاد نہ آیا۔ بس اتنا سا خیال آیا کہ ظفر کو ٹوکن لگوانے کے لیے دی تھی۔ شاید اس نے ٹوکن لگوایا ہی ہو اب تو اس سے کسی بھی بات کی توقع ہو سکتی تھی۔

ایک پرانے جاننے والے رجسٹریشن آفس میں تھے، ان سے ملا، کہنے لگے۔۔۔  ’’آج کل تو بڑی سختی ہے۔ بہت گاڑیاں پکڑی گئی ہیں۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ، تم نے تو کاغذات گم ہونے کی پولیس رپورٹ بھی نہیں کرائی، پہلے تو یہ کراؤ پھر ایک بیان حلفی اور۔۔۔ ‘‘

یہ کئی دن کا کام تھا۔ امید کی جو ننھی سی کرن روشن ہوئی تھی، سو وہ بھی بجھ گئی۔ رجسٹریشن آفس سے نکلا تو بارش شروع ہو گئی، بڑی سڑک تک آتے آتے بارش تیز ہو گئی۔

’’اب کیا کروں ؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’کوئی راستہ نہیں ، اب تو قرض لینے والے دفتر تک آنے لگے ہیں۔‘‘

اس زندگی سے تو مر جانا ہی بہتر ہے۔۔۔ خیال سا آیا۔۔۔  سارے جھنجھٹ سے نجات مل جائے گی۔ میں تو ذرا سی مشکل کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہوں اور یہ تو ایک پہاڑ تھا۔

بس مر جانا ہی بہتر ہے۔۔۔  مجھے ایک سکون ملا۔

تیز بارش کی وجہ سے سڑک دور تک خالی تھی۔ بارش تھی کہ بس آج ہی برسے گی، بڑے پارک کے گیٹ پر ایک شخص بارش میں بھیگ رہا تھا اس نے دور ہی سے ہاتھ دیا۔ میری عادت ہے کہ کوئی ہاتھ دے تو غیر شعوری طور پر میرا پاؤں بریک پر آ جاتا ہے اور میں لفٹ مانگنے والے کو بٹھا لیتا ہوں۔ میری اس عادت پر کئی بار مجھے ٹوکا گیا کہ اس طرح میں کسی مصیبت میں بھی پڑ سکتا ہوں لیکن کسی کا اٹھا ہوا ہاتھ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں جاتا۔ اب بھی یہی ہوا غیر شعوری طور پر میرا پاؤں بریک پر آیا۔ اچانک خیال آیا۔ ’’مجھے کیا، میں تو خود زندگی سے جانے والا ہوں ‘‘ گاڑی آگے نکلی لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے اس کے بھیگنے کا احساس ہوا۔ میں نے بریک لگائی اور گاڑی ریورس کی۔ بے دلی سے اگلا دروازہ کھولا۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گیا۔ نہ میں نے کچھ پوچھا نہ وہ کچھ بولا۔ بارش اور تیز ہو گئی۔ دفعتاً احساس ہوا کہ وہ مسلسل میری طرف دیکھ رہا ہے۔ میں ذرا سا مڑا تو بولا، ’’آپ بہت تیز جا رہے ہیں۔‘‘

مجھے احساس ہوا کہ میری سپیڈ غیر معمولی زیادہ ہے۔ کچھ کہے بغیر میں نے سپیڈ کم کی۔

قدرے وقفہ کے بعد پھر بولا۔ ’’آپ کچھ پریشان سے لگتے ہیں۔‘‘

میں چونکا، غور سے اسے دیکھا۔۔۔  ’’ہاں۔۔۔  نہیں تو‘‘

وہ مسکرایا۔۔۔ ‘‘ شاید میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں ‘‘

’’مدد‘‘ میں نے تلخی سے کہا۔۔۔  ’’آپ کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’شاید کچھ کر سکوں۔۔۔  اور کچھ نہیں تو حوصلہ تو دے ہی سکتا ہوں۔‘‘

میں پھر چونکا۔۔۔  ’’کیسا حوصلہ؟‘‘

’’حالات سے مقابلہ کرنے کا، اس نے سکون سے جواب دیا۔ بارش کا زور کچھ کم ہوا۔ اگلے موڑ سے مجھے مڑنا تھا۔ میں نے کہا۔۔۔  ’’میں تو دائیں مڑوں گا، آپ نے کہاں اترنا ہے؟‘‘

’’مڑ کر ذرا سا آگے۔‘‘

موڑ مڑ کر میں نے استفسار سے اس کی طرف دیکھا تو بولا۔ ’’اگر آپ محسوس نہ کریں تو یہ سامنے ہٹ میں ایک کپ چائے پی لیں ، آگے سڑک خراب ہے اور بارش پھر تیز ہو رہی ہے۔ آپ ذرا نارمل ہو جائیں گے۔‘‘

نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کے ساتھ ہٹ میں چلا گیا۔

چائے کا آرڈر دے کر وہ بولا۔۔۔  ’’آپ سوچتے ہوں گے ایک اجنبی کیوں اصرار کر رہا ہے، لیکن آپ اچھے آدمی ہیں۔ میں نے کئی گاڑیوں کو ہاتھ دیا کوئی نہیں رکا۔۔۔  شاید میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں ، آپ اتنے پریشان کیوں ہیں ؟‘‘

اب یاد آتا ہے کہ اس کے لہجے میں کچھ ایسی اپنائیت اور ہمدردی تھی کہ شاید میرے آنسو نکل آئے تھے۔ میں نے کہا ’’بس اپنی حماقتوں کی سزا بھگت رہا ہوں۔‘‘

وہ سراپا سوال بنا مجھے دیکھتا رہا۔

چائے پیتے ہوئے میں نے اسے مختصراً کہانی سنائی۔ ایک سکون سا ملا۔ یوں لگا جیسے بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا ہے۔

وہ چند لمحے چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’سب سے پہلے تو بنک کا معاملہ ٹھیک ہونا چاہیے۔‘‘

’’لیکن کیسے؟‘‘

’’ہیڈ آفس میں ایک اچھا آدمی ہے۔ وہ تو مجھے نہیں جانتا لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ بڑا ہمدرد ہے، آپ اس سے ملیں۔‘‘

بولا۔۔۔  ’’مل لینے میں کیا حرج ہے؟‘‘

اگلے دن میں ہیڈ آفس گیا۔ جس شخص کا حوالہ اسے نے دیا تھا وہ ایسے ملا جیسے مجھے برسوں سے جانتا ہو۔ میری ساری روداد سن کر اس نے مجھے تسلی دی اور بولا۔ ’’فوری طور پر تو قرقی کا نوٹس واپس ہونا چاہیے۔ باقی باتیں بعد کی ہیں۔۔۔  میں کوشش کرتا ہوں ، آپ آرام سے بیٹھیں میں دیکھتا ہوں کہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

تین چار گھنٹے کی کوشش سے نوٹس واپس ہو گیا۔ چھ مہینے کی مہلت بھی مل گئی۔ لگا جیسے کسی بوجھ کے نیچے سے نکل آیا ہوں۔ واپسی پر وہ مجھے وہیں ملا۔ میں نے گاڑی روک کر اسے بٹھایا۔ بولا۔ ’’کیا رہا۔‘‘

میں نے ساری بات بتائی اور کہا۔۔۔  ’’یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے، تم یہ مشورہ نہ دیتے تو میں کل اپنے آپ کو ختم کر چکا ہوتا۔‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’اللہ کچھ نہ کچھ سبب بنا ہی دیتا ہے۔‘‘

موڑ پر پہنچے تو وہ بولا۔۔۔  ’’مجھے تو یہیں اترنا ہے۔ ایک کپ چائے ہو جائے۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’ضرور ضرور۔۔۔  لیکن آج چائے میں پلاؤں گا۔‘‘

’’چلیے آپ ہی پلا دیجئے۔‘‘

چائے پیتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔  ’’ایک مسئلہ تو حل ہوا۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’لیکن یہ تو وقتی کام ہے، اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ رقم کہاں سے آئے گی۔‘‘

بولا۔۔۔  ’’ایک صورت ہے، اگر کوئی اچھا پارٹ ٹائم کام مل جائے تو۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’کیا بات کرتے ہو، آج کل تو جوان بے کار پھر رہے ہیں ، مجھے کون کام دے گا۔‘‘

بولا۔۔۔  ’’ایک جگہ ہے۔۔۔  ان کو ضرورت ہے، آپ ان سے جا کر ملیں۔‘‘

دوسرے دن میں اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا، تھوڑی سے گفتگو کے بعد ایک خاصی معقول رقم پر معاملہ طے ہو گیا۔ امید کی کچھ اور کرنیں روشن ہو گئیں۔ تین چار یا شاید کچھ زیادہ دن بعد وہ وہیں گیٹ پر ملا۔

بیٹھا تو میں نے کہا۔۔۔  ’’یار تم تو میرے محسن ہو، لیکن مجھے ابھی تک تمہارا نام ہی معلوم نہیں ، تم کون ہو، کیا کرتے ہو، کہاں رہتے ہو؟‘‘

وہ ہنسا۔۔۔  ’’آپ نے تو ایک ہی سوال میں سب کچھ پوچھ لیا۔ میرا نام منور ہے، ایم۔ اے فائنل میں ہوں اور رہتا ہوں دھمیال روڈ پر۔

میں نے کہا۔۔۔  ’’دھمیال روڈ تو بہت بڑی ہے۔ کبھی ملنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‘‘

بولا۔۔۔  ’’چونگی سے دائیں جو سڑک اندر کو جاتی ہے اس پر کوئی دو سو گز آگے گیٹ والی گلی ہے۔ اس گلی میں دائیں طرف دوسرا گھر ہے۔۔۔  خیر آپ بتائیں ، کام ہو گیا تھا۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’ہاں ہو گیا۔۔۔  میں وہاں پہنچا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ ایک دن پہلے ہی تو وہ جگہ خالی ہوئی تھی مجھے کیسے پتہ چل گیا۔‘‘

کہنے لگا ’’چلیں کام ہو گیا۔۔۔  وہ اچھے لوگ ہیں۔ ایک دو ماہ کام کر کے ان سے کچھ ایڈوانس لے لیں اور اپنے معاملات درست کریں۔‘‘

موڑ آیا تو وہ اترنے لگا۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’یار تم یہاں آتے کہاں ہو؟‘‘

کہنے لگا۔۔۔  پارک کے پیچھے کالونی میں ایک دوست رہتا ہے، اس کے ساتھ مل کر تیاری کر رہا ہوں اور یہاں سے دھمیال کی ویگن آسانی سے مل جاتی ہے۔‘‘

چند دنوں میں کئی بگڑے کام سیدھے ہو گئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ منور کی حوصلہ افزائی اور مشوروں نے میرا کھویا ہوا اعتماد بحال کر دیا اور میں آہستہ آہستہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے لگا۔

منور سے دو چار دن بعد گیٹ پر ملاقات ہو جاتی۔ کبھی آٹھ دس دن بھی ہو جاتے۔ وہ موڑ تک میرے ساتھ آتا، کبھی موڈ ہوتا تو ہم ہٹ میں چائے پیتے اور پھر اپنی اپنی راہ لیتے۔ چھ ہی مہینے میں اس کے مشوروں اور اطلاعات سے گھر بنک کی قید سے آزاد ہو گیا اور تھوڑے بہت قرضے بھی اتر گئے۔ دفتر کے علاوہ میں دو جگہ پارٹ ٹائم بھی کرنے لگا۔ اسی دوران ایک غیر معمولی بات ہوئی۔ میرا ایک کیس کئی برسوں سے التوا میں تھا اور اب اس کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید بھی نہ تھی، منور کے مشورے سے میں ایک ایسے با اختیار شخص تک جا پہنچا جس نے ایک اصولی فیصلہ کرا کے کیس میرے حق میں کرا دیا۔ ترقی بھی ہو گئی اور پچھلے کئی برسوں کے بقایا جات بھی مل گئے۔ اس کے بعد ایک اور اہم بات ہوئی، ایک دن کہنے لگا۔۔۔  ’’آپ فوری طور پر کچھ پیسوں کا انتظام کر سکتے ہیں۔‘‘

میں نے پہلی بار قدرے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔ ’’کتنے‘‘

میرا خیال تھا کہ وہ قرض مانگنے والا ہے۔

’’یہی کوئی دو ڈھائی لاکھ‘‘

میں نے لمحہ بھر سوچا۔ اس کے احسانات کا اندازہ کیا اور رکتے ہوئے کہا۔ ’’اتنے تو شاید نہ ہو سکیں۔‘‘

’’کچھ کیجئے‘‘ وہ بولا۔۔۔  ’’ایک بہت عمدہ سودا ہے۔‘‘

’’ایک جگہ بک رہی ہے لیکن بیچنے والے کو معلوم نہیں کہ چھ ماہ بعد وہ جگہ نئی ہائی وے سے مل جائے گی اور اس کی قیمت لاکھوں میں ہو جائے گی۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’نہ بھئی اب کسی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں ایسے معاملات کا اہل نہیں۔‘‘

وہ لمحہ بھر چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’میری وجہ سے آپ کو اب تک کوئی نقصان ہوا ہے۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’کیا بات کرتے ہو۔۔۔  تمہیں معلوم نہیں جس دن میری تمھاری پہلی ملاقات ہوئی تھی، وہ بارش والے دن۔۔۔  تم نہ ملتے تو خود کشی کر چکا ہوتا، تم نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔‘‘

بولا۔۔۔  ’’تو پھر میری بات مانیے۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’لیکن اتنی رقم کہاں سے آئے گی۔‘‘

کہنے لگا۔۔۔  ’’ایک تو گاڑی بیچ دیں۔‘‘

’’گاڑی‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔

’’ہاں۔۔۔  یہ بڑے فائدے کا سودا ہے۔‘‘

میں کچھ نہ بولا۔ وہ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’مجھ پر اعتماد کریں۔‘‘

میں نے جھجکتے جھجکتے کہا۔ ’’لیکن میری بیوی تو۔۔۔ ‘‘

’’اسے ابھی نہ بتائیں۔۔۔  کہہ دیں کہ کوئی دوست چند دنوں کے لیے لاہور لے گیا ہے۔‘‘

مجھے تذبذب میں دیکھ کر بولا۔۔۔  ’’یہ کام کل ہی ہونا چاہیے، چلیے میں آپ کی مدد کروں گا۔ صبح دس بجے جی پی او کے سامنے آ جائیں ، ڈیلر کے پاس اکٹھے چلیں گے۔‘‘

رات بھر میں شش و پنچ میں رہا۔ اس کے پچھلے مشوروں کے بارے میں سوچتا تو جی کہتا اس کی بات مان لینا چاہیے لیکن اب تک میرے ساتھ جو جو کچھ ہوا تھا اس سے ڈر لگتا تھا کہ یہ بھی کوئی فریب نہ ہو۔ شاید اب تک وہ اسی چکر میں میرے ساتھ لگا ہوا ہے اور پھر دو ڈھائی لاکھ معمولی رقم بھی نہیں۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ کسی چکر میں نہیں آؤں گا۔ بس جو کچھ ہے یہی کافی ہے۔

صبح بیوی نے سرخ آنکھیں اور بے چینی دیکھی تو بولی۔۔۔  ’’کیا بات ہے۔۔۔  تم ٹھیک ہونا۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’ٹھیک ہوں ، ذرا نیند ٹھیک سے نہیں آئی۔‘‘

اس نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں۔

گھر سے نکلتے ہوئے میں نے اپنے فیصلے کو دل ہی دل میں دہرایا لیکن معلوم نہیں کیا ہوا کہ دفتر جانے کی بجائے میں جی پی او کے سامنے پہنچ گیا، یوں لگا جیسے کوئی مجھے کھینچ کر وہاں لے گیا ہے۔

وہ موجود تھا۔

تین چار گھنٹے مختلف ڈیلروں کے چکر لگا کر آخر گاڑی ڈیڑھ لاکھ میں نکل گئی۔ رقم جیب میں رکھتے ہوئے میں چپ چپ سا تھا۔ یوں لگتا تھا کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔

وہ غیر معمولی طور پر کھلکھلا تا رہا، مجھے اور شک ہو گیا کہ ضرور کوئی چکر ہے۔ ایک جگہ چائے پی کر ہم شہر سے سات آٹھ کلو میٹر دور ایک گاؤں پہنچے۔ تھوڑی سی بحث کے بعد معاملہ طے ہو گیا۔ رقم ادا کر دی گئی اور باقی پچاس ہزار رجسٹری کے ساتھ ادا ہونے قرار پائے۔ رجسٹری چار دن بعد ہونا تھی۔

گھر پہنچا تو بیوی نے پوچھا۔۔۔  ’’گاڑی کہاں ہے؟‘‘

میں نے اس کی بتائی ہوئی کہانی دہرا دی۔ اسے کچھ یقین آیا۔ کچھ نہ آیا یہی حال میرا اپنا تھا۔ یہ کچی رسید کیا حیثیت رکھتی تھی۔ چار دن بڑی پریشانی میں گزرے۔ مجبوراً پچاس ہزار کا اور انتظام کرنا پڑا۔ لیکن چوتھے دن جب باقاعدہ رجسٹری ہو گئی اور اگلے دو دنوں بعد رجسٹری میرے ہاتھ میں آ گئی تو قدرے اطمینان ہوا لیکن پھر بھی یہ ڈر رہا کہ زمین کسی کام کی بھی ہے یا نہیں۔ پانچ چھ دن گزر گئے تو بیوی نے گاڑی کے بارے میں مسلسل سوال کرنا شروع کر دئیے۔ مجھے بات چھپانے کی ذرا بھی صلاحیت نہیں۔ دو چار دن اور گزرے اور اس کے سوالات بڑھنے لگے تو میں نے اسے بتا دیا کہ گاڑی بیچ کر زمین لے لی ہے۔

غیر متوقع طور پر وہ کچھ نہیں بولی، صرف یہ پوچھا۔۔۔  ’’کچھ فائدہ ہو گا؟‘‘

میں نے کہا۔۔۔  ’’سنا ہے وہ جگہ جلد ہی نئی ہائی وے سے ملنے والی ہے۔‘‘

وہ قدرے چپ رہی پھر بولی ’’بیچنے والے کو معلوم نہیں۔‘‘

’’نہیں ‘‘

’’تو آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘

اب میں چپ ہو گیا، قدرے چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’بس کہیں سے معلوم ہو گیا۔‘‘

’’چلیے ایک تجربہ اور سہی‘‘ اس کی مسکراہٹ میں طنز تھا۔۔۔  ’’بہرحال زمین تو ہے۔‘‘

مجھے اتنی جلدی بات ختم ہونے کی امید نہیں تھی۔

گاڑی نہ ہونے سے میرا راستہ اور معمول بدل گیا۔ اس سے ملاقات کی صورت نہ رہی، کچھ میں بھی مصروف ہو گیا۔ اسی دوران وہ مجھے دو چار بار ویگن سٹاپ پر ملا۔

ایک بار میں نے کہا۔۔۔  ’’یار اب تو ملاقات سے بھی گئے۔‘‘

بولا۔۔۔  ’’میری مصروفیت بھی شروع ہو گئی ہے۔ امتحان قریب ہیں۔‘‘

یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔

کوئی پانچ ماہ بعد کی بات ہے کہ میری بیوی نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا۔

اس کے ہاتھ میں اخبار تھا۔

’’کیا ہوا‘‘ میں نے گھبرا کر کہا۔

اس نے اخبار میرے سامنے کر دیا۔

’’خیر ہے نا۔‘‘ میں نے عینک ڈھونڈتے ہوئے نیم غنودگی میں پوچھا۔

’’یہ خبر۔۔۔ ‘‘ وہ جذباتی ہو رہی تھی۔

خبر تھی۔۔۔  ’’نئی ہائی وے میں تبدیلی۔‘‘

ایک ہفتہ میں زمین خریدنے والے اتنے لوگ آئے کہ جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ قیمت سن کر بیوی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں بولی۔

’’تم نے پہلی بار کوئی کام کیا ہے۔‘‘

کچھ دن اور انتظار کرتا تو شاید اس سے بھی زیادہ قیمت ملتی، لیکن میری بے صبری اور بے یقینی نے زیادہ انتظار نہ کیا، پھر بھی اتنے پیسے مل گئے کہ میں ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

مجھے یقین تھا کہ منور اس ساری بات سے واقف ہو گا، اسے تو پہلے معلوم تھا کہ نئی ہائی وے کا راستہ تبدیل ہو رہا ہے۔ میں اسے نئی صورتِ حال کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ نئی گاڑی میں پارک کے گیٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے کئی دفعہ غیر ارادی طور پر رکا لیکن اس سے ملاقات نہ ہوئی۔ آخر ایک اتوار میں نے اس کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا۔

چونگی سے اندر مڑ کر گیٹ والی گلی آسانی سے مل گئی۔ گاڑی باہر کھڑی کر کے، گلی میں دائیں طرف والے دوسرے گھر کی بیل بجائی۔ ایک ادھیڑ عمر نے دروازہ کھولا۔

میں نے کہا۔۔۔  ’’منور صاحب ہیں۔‘‘

وہ چند لمحے خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا پھر بولا ’’آپ کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘

’’یہیں سے‘‘

وہ کچھ دیر چپ رہا پھر آہستہ سے بولا۔۔۔  ’’شاید آپ کو معلوم نہیں۔‘‘

’’کیا‘‘

’’وہ اب اس دنیا میں نہیں۔‘‘

’’یہ کب ہوا؟‘‘

’’دو سال سے تو زیادہ ہی ہو گئے ہیں۔‘‘

’’کیا‘‘۔۔۔  میں نے حیرانی سے کہا۔۔۔  ’’وہ مجھے بڑے پارک کے گیٹ پر۔۔۔ ‘‘

اس نے میرا جملہ پورا نہیں ہونے دیا، جیسے اپنے آپ سے بات کر رہا ہو، بولا۔۔۔  ’’بڑے پارک کے گیٹ پر ہی تو ویگن نے اسے کچلا تھا۔‘‘

’’ویگن نے۔‘‘

’’پارک کے پیچھے کالونی میں اپنے دوست کے پاس ایم۔ اے کی تیاری کرنے جاتا تھا نا۔۔۔ ‘‘ وہ ایسے خواب آلود لہجے میں بول رہا تھا، جیسے اس کا مخاطب میں نہیں کوئی اور ہے۔

’’لیکن‘‘۔۔۔  میں نے کچھ کہنا چاہا مگر لفظ نہیں سوجھے۔

خاموشی سے کچھ کہے بغیر میں واپس آگیا۔

٭٭٭

 

تلاش

فلائنگ کوچ کی بیک سیٹ سے ٹیک لگائے اس نے ایک اچٹتی سی نظر بھاگتے درختوں اور کھمبوں پر ڈالی۔ ایک لمحے میں یوں لگا جیسے کسی نے اسے حال کے چبوترے سے ماضی کے دھندلکوں میں دھکیل دیا ہو۔ کوچ اس وقت جہلم کے پل سے گزر رہی تھی۔

اس پل سے گزرتے ہوئے ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ منظر ایک دوسرے میں الجھ جاتے ہیں۔ کابل سے دلی جاتی ہوئی جرنیلی سڑک پر دو رویہ گھنے درختوں سے اٹھکیلیاں کرتی ہوا حال اور ماضی کے درمیان کسی نامعلوم لمحے میں منجمد ہو جاتی ہے۔ تھکے ہوئے گھوڑوں کی کمزور ہنہناہٹ، سستی سے نیچے اترتے سوار، درختوں کے تنوں سے اپنے اپنے گھوڑے باندھ کر عمامے ڈھیلے کرتے ہیں ، اور دریا کے کنارے کی طرف چل پڑتے ہیں۔ کنارے کی کچی مٹی پر بیٹھ کر دھول زدہ سوکھے چہروں پر تازہ پانی کے چھینٹے مارتے ہیں ، پھر سبز مخملی گھاس پر، گھوڑوں سے اتارے غاشیے بچھا کر کمر سیدھی کرنے لیٹ جاتے ہیں۔

لہور۔۔۔  ابھی بہت دور ہے۔ ان میں سے ایک سوچتا ہے، مستقبل کا سنہری دھندلکا آہستہ آہستہ اسے غنودگی کی بکل میں کھسکا دیتا ہے۔

’’ابو۔۔۔  ہم لاہور کب پہنچیں گے؟‘‘

وہ چونک پڑتا ہے۔ فلائنگ کوچ جہلم سے گزر کر سرائے عالمگیر میں داخل رہی ہے۔

’’آغا نعمت۔۔۔ ‘‘ اس کا ساتھی حسن جان گھوڑا برابر لاتے ہوئے کہتا ہے۔ وہ اپنے خیالوں ، دھندلکوں میں دور نکلا ہوا ہے۔ واپس آتے کچھ دیر لگتی ہے۔۔۔  ’’ہوں ‘‘

’’آغا نعمت‘‘۔۔۔  حسن جان اس کے برابر ہوتے ہوئے کہتا ہے ’’میں دیکھ رہا ہوں ہم جوں جوں منزل تک پہنچ رہے ہیں ، تمھارے چہرے پر تردد اور فکر گہری ہوئی جا رہی ہے؟‘‘

’’اچھا۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز بہت دھیمی ہے۔۔۔  ’’شاید‘‘

خیال آتا ہے کہ اگر لہور پہنچ کر بھی گوہر جان نہ ملی تو کیا ہو گا؟ سوچتا ہے ’’وہ جانے وہ اس وقت کہاں کہاں ہو گی شاید لہور میں ، یا پھر آگے نکل گئی ہو۔‘‘

’’کیا بات ہے‘‘ حسن جان کہتا ہے۔۔۔  ’’تم کسی الجھن میں ہو۔‘‘

’’نہیں تو‘‘۔۔۔  پھر خود ہی تردید کرتا ہے۔۔۔  ’’شاید‘‘

’’کسی کو ڈھونڈنے جا رہے ہو یا نوکری کی تلاش ہے‘‘ حسن جان اسے کریدتا ہے۔

’’شاید دونوں ہی۔۔۔ ‘‘ وہ کہیں ڈوبے ڈوبے جواب دیتا ہے۔ یہ تو اسے خیبر سے گزرتے ہوئے معلوم ہو گیا تھا ملاں وجد اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ وہاں سے گزرا تھا۔ پشاور میں اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اگلی منزل لہور ہی ہو سکتی ہے۔ گوہر جان سے آخری ملاقات یاد آ گئی۔ آلوچوں کے باغ میں پھول ابھی کھل رہے تھے۔ اس کی ہرنی ایسی بڑی بڑی آنکھوں میں اداسی تیر رہی تھی۔

’’ابا اب نہیں مانتے، وہ ہرات چھوڑنا چاہتے ہیں ، لہور یا پھر آگے دہلی جانا چاہتے ہیں۔‘‘

’’وہاں جا کر کیا کریں گے‘‘

’’ہم دونوں بہنوں کو کسی امیر کے حرم میں پیش کر دیں گے اور اس کے بدلے میں کوئی خلعت۔۔۔ ‘‘ وہ سسک سسک کر رونے لگی۔

’’میں تمہیں نہیں جانے دوں گا، کبھی نہیں جانے دوں گا اس نے گوہر جان کا ہاتھ اس مضبوطی سے تھاما جیسے کوئی اسے اسی وقت چھین رہا ہو۔

لیکن جب وہ ہرات سے نکلی تو اسے خبر ہی نہ ہوئی۔ اسے ایک آدھ دن کے لیے ہرات سے جانا پڑا، وہاں ایک ہفتہ لگ گیا۔ لوٹا تو ہرات اجڑ چکا تھا۔

’’ابو۔۔۔  ہم لاہور میں کہاں ٹھہریں گے۔‘‘ بیٹے کے سوال نے چونکا دیا۔

’’کہیں بھی۔۔۔ ‘‘ اس نے بے خیالی میں کہا۔

’’پھر بھی۔۔۔ ‘‘ بیٹا مصر تھا۔

’’یار کسی ہوٹل میں ٹھہر جائیں گے‘‘

’’میں تمہیں سرائے میں نہیں ٹھہرنے دوں گا، میرے ساتھ چلو‘‘ حسن جان نے گھوڑے کو تھپکی دی۔ دلکی چال چلتے گھوڑے نے گردن ہلا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔

’’تمھارے ساتھ‘‘

’’ہاں میرے ساتھ۔۔۔  میرے چچا شاہی فوج میں ہیں ، تمہیں نوکری بھی مل جائے گی‘‘

اس کی آنکھوں میں چمک آئی۔۔۔  ’’تو تمھارے چچا شاہی فوج میں ہیں۔۔۔  ٹھیک ہے‘‘

’’ابو! آپ کا کام تو ترسوں ہے نا، دو دن ہم کیا کریں گے‘‘ بیٹے کے لہجے میں شوق اور بے تابی تھی۔

’’گھومیں گے۔۔۔  تمہیں لاہور دکھاؤں گا۔‘‘

’’تم سارا سارا دن کہاں پھرتے رہتے ہو۔‘‘

حسن جان نے پوچھا۔۔۔  ’’کسے تلاش کر رہے ہو؟‘‘

اس نے اداسی سے کندھے اچکائے۔۔۔  ’’جسے ڈھونڈھ رہا ہوں اس کا دور دور تک پتہ نہیں۔۔۔  ایک ایک جگہ دیکھ ڈالی، شاید وہ لوگ دہلی کی طرف نکل گئے ہوں۔‘‘

’’لیکن شہنشاہ تو ان دنوں لہور میں ہیں ، دہلی جا کر کوئی کیا کرے گا؟‘‘

’’شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو‘‘ اس نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا، اور سوچا۔۔۔  شاہی قیام گاہ اور باغ کی بھی ٹوہ لے لینی چاہیے۔

تیسرے دن دوپہر کے بعد سرکاری کام سے فراغت ہو گئی۔ انھوں نے اگلے دن واپس جانا تھا۔ شام تک کا وقت خالی تھا۔ بیٹے سے کہا۔۔۔  ’’لاہور تو تم نے دیکھ لیا، چلو اب پرانی انارکلی چلتے ہیں۔ فالودے کا ایک ایک پیالہ کھائیں گے اور پھر تمھاری امی کے لیے کچھ کپڑے خریدیں گے۔‘‘

بیٹے نے نفی میں سر ہلایا اور بولا۔۔۔  ’’ابھی تو شالامار رہتا ہے وہاں چلتے ہیں ‘‘

شالامار جاتے ہوئے ہمیشہ اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ کچھ خاموشی کے بعد بولا۔۔۔  ’’چھوڑو، اب وہاں کیا رکھا ہے؟‘‘

’’نہیں میری کتاب میں اس پر مضمون ہے تصویر بھی ہے۔ میں تو ضرور دیکھوں گا۔‘‘

وہ انکار نہ کر سکا۔

شالامار میں داخل ہوئے تو ایک عجب ویرانی کا احساس ہوا۔ پہلے تخت کے فوارے چل رہے تھے، دوسرے تختے پر اترتے ہی جیسے سارا منظر بدل گیا۔

شالامار ماضی کے دھندلکوں سے نکل کر اپنی اصل حالت میں آگیا، مہکتا، لہکتا، گنگناتا شالامار۔

گوہر جان نے مڑ کر اسے دیکھا اور خوف زدہ آواز میں بولی۔۔۔ ‘‘ تم۔۔۔  تم یہاں کیوں آئے ہو، کیسے آئے ہو، تمہیں معلوم نہیں ؟‘‘

’’بڑی مشکلوں سے تو یہاں پہنچا ہوں ‘‘ وہ ایک گھنے درخت کی اوٹ میں ہوتا ہوا بولا۔۔۔  ’’تمہیں تلاش کرتے‘‘

’’لیکن‘‘

’’لیکن کیا۔۔۔ ‘‘

’’تم اندر کیسے آئے‘‘ سہمی ہوئی گوہر جان نے پوچھا۔

’’میں نے تاریکی کا فائدہ اٹھایا اور اس پچھلی دیوار پر کمند ڈالی، لیکن تم اتنی پریشان کیوں ہو، مجھے دیکھ کر تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟‘‘

گوہر جان چند لمحے چپ رہی۔۔۔  یہ چند لمحے صدیوں جیسے طویل تھے۔

’’میں اب۔۔۔ ‘‘ وہ پھر چپ ہو گئی اور بے چینی سے اپنی انگلیاں مروڑنے لگی۔

’’کچھ تو کہو۔۔۔ ‘‘

’’میں اب شاہی حرم ہوں ‘‘ اس نے جلدی سے جملہ مکمل کیا۔

’’کیا۔۔۔ ‘‘ اس کی چیخ نکل گئی۔

’’آہستہ بولو‘‘ وہ خوف زدہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔  ’’خدا کے لیے‘‘

’’لیکن۔۔۔ ‘‘ اس نے کہنا چاہا۔

اسی وقت بگل کی آواز بلند ہوئی۔ ایک سایا تاریکی میں سے لپک کر ان کے پاس آیا۔۔۔  ’’گوہر جان جلدی کرو، وہ ادھر ہی آ رہے ہیں ‘‘

گوہر جان گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔۔۔  ’’چلے جاؤ۔۔۔  خدا کے لیے کہیں چھپ جاؤ۔‘‘

اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے پرے دھکیلنے کی کوشش کی۔۔۔  ’’خدا کے لیے‘‘

وہ گوہر جان کے نرم ہاتھوں کے دباؤ سے یوں پیچھے ہٹا جیسے کسی طاقت ور ہاتھ نے اسے دور دھکیل دیا ہو۔۔۔

گوہر جان گھبرائی ہوئی تھی، خوف زدہ نظروں سے اس نے ادھر ادھر دیکھا، پھر تیزی سے بھاگتی ہوئی تاریکی میں گم ہو گئی۔ وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے دیوار کے قریب گھنے درخت کے تنے سے جا لگا۔

’’ابو! کہاں کھو گئے ہیں ‘‘ بیٹے نے اس کا ہاتھ زور سے جھٹکا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں۔

گھنا درخت اسی طرح کھڑا ہے، لیکن اس کا تنا کھوکھلا ہو چکا ہے۔ قریب ہو کر اس نے اندر جھانکا۔ تنا اندر سے خالی تھا۔ چیونٹیوں اور کیڑوں کی قطاریں کھوکھلے تنے میں نیچے سے اوپر جا رہی تھیں۔۔۔  اس کے سارے جسم پر درد کی سوئیاں چبھنے لگیں۔ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر وہ تیزی سے بڑے دروازے کی طرف دوڑا۔

بڑے دروازے پر بھاری پہرہ تھا۔

اس کے قدم رک گئے۔۔۔  بیٹے نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا ہوا؟‘‘

’’کچھ نہیں ‘‘ وہ بڑبڑایا۔۔۔  ’’پکڑا تو جانا ہی تھا، نکلنے کا اور کوئی راستہ جو نہ تھا‘‘

’’کہاں سے نکلنے کا راستہ‘‘ بیٹے نے حیرانی سے پوچھا۔

اسے اپنی گردن پر رسی کے پھندے کی اکڑاہٹ سخت ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔  سخت ہوتی گئی۔

بڑے دروازے سے تیزی سے نکلتے ہوئے اس نے مڑ کر دیکھا۔۔۔  دور، سب سے نچلے تختے کے کنارے گوہر جان خوف زدہ آنکھوں ، پھٹی سہمی آواز سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہ تھی۔

٭٭٭

 

پھول تمنا کا ویران سفر

یہ روز کا معمول ہے کہ سر شام ہی وہ بسوں کے اڈے پر آتا ہے اور دائیں کونے میں دیوار کے ساتھ لگی بنچ پر بیٹھ جاتا ہے۔ ذرا فاصلے پر چائے کا ایک کھوکھا ہے چائے والا اس کی عادت و اطوار سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس کے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد وہ چائے کا مگ اس کے لیے بھجوا دیتا ہے اسے معلوم ہے کہ وہ ایک چمچ چینی پیتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کتنی دیر بعد مگ واپس لانا اور پھر کتنی دیر بعد اور کتنی بار چائے بھجوانا ہے۔

وہ وہاں اتنے برسوں سے آ رہا ہے کہ سروس کرنے والا ہر لڑکا جاتے ہوئے دوسرے کو اس کے بارے میں بتا جاتا ہے۔ کھوکھے پر کوئی بھی آئے اس کے لیے سروس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چائے لانے والا جانتا ہے کہ وہ بار بار چائے کے پیسے نہیں دیتا بلکہ جب آخری بس آ چکتی ہے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھتا ہے، بس سے اترنے والے آخری مسافر کے اترنے کے انتظار کے بعد مایوسی سے بس کے اندر جھانکتا ہے اور واپس بنچ پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ اتنی دیر میں اڈے کے مختلف سٹال بند ہونے لگتے ہیں۔ چائے والا بھی برتن سمیٹنے لگتا ہے۔ وہ اٹھتا ہے، جیب سے پیسے نکال کر چائے لانے والے لڑکے کے ہاتھ پر رکھتا ہے اور باقی کا انتظار کئے بغیر بوجھل قدموں سے اڈے سے نکل جاتا ہے۔

کئی برس پہلے جب اس نے اس اڈے پر باقاعدہ آنا شروع کیا تو کئی لوگوں نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا۔ کچھ نے اسے سی آئی ڈی کا آدمی سمجھا جو کسی سرکاری ڈیوٹی پر وہاں آنے لگا تھا، لیکن اس کی وضع قطع اور گفتگو سے کسی کو پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ پھر آہستہ آہستہ سب اس کے عادی ہوتے گئے اور برسوں کے بعد اب وہ بھی اس اڈے کی دوسرے چیزوں کی طرح اس کا ایک حصہ بن گیا تھا۔۔۔  لیکن اب بھی کبھی کبھار جب کسی ہوٹل یا دکان میں کوئی نیا شخص آتا تو اس کے بارے میں ضرور پوچھتا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آتا ہے اور کیوں آتا ہے؟ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ادھیڑ عمر کا ایک پرکشش شخص ہے جس کے انداز و عادات سے کھاتے پیتے گھرانے سے ہونے کا امیج بنتا ہے۔ سر شام خاموشی سے اڈے کے احاطے میں داخل ہوتا ہے اور دائیں کونے میں دیوار کے ساتھ لگی بنچ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اگر بنچ خالی نہ ہو تو انتظار میں کھڑا رہتا ہے۔ جونہی بنچ خالی ہوتی ہے، اپنی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ کھوکھے والا اس کے بیٹھنے کا منتظر ہوتا ہے۔ جونہی وہ بیٹھتا ہے، چائے کا مگ بھجوا دیتا ہے۔

چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ آنے والی بس کو اشتیاق سے دیکھتا ہے۔ ایک ایک سواری کے چہرے کو شوق سے پڑھتا اور شناسائی کی کوئی کرن ڈھونے کی کوشش کرتا ہے۔ سواریاں اتر اتر کر احاطے میں سے ہوتی ہوئی بڑی سڑک پر تانگوں ، ٹیکسیوں اور گاڑیوں میں بیٹھ جاتی ہیں۔بس کے آتے ہی اس کی آنکھوں میں ایک نامعلوم سی چمک پیدا ہوتی ہے، بجھ جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے وہ دیکھ رہا ہے لیکن یہ آنکھیں کسی انسانی چہرے پر نہیں ، کسی مجسّمے میں لگی ہوئی ہیں جس پر کوئی تاثر، کوئی حیرت، کوئی خوشی نہیں۔ یہ کیفیت اس وقت رہتی ہے جب تک اڈہ خالی رہتا ہے۔ جونہی کوئی بس اڈے میں داخل ہوتی ہے۔ اس کا چہرہ یکدم جاگ اٹھتا ہے اور بیک وقت کئی تاثر اس پر انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔ بس کے آتے ہی اس کا چہرہ تجسس سے کھل اٹھتا ہے۔ امید اور خوشی کے ملے جلے رنگ آنکھ مچولی کھیلتے ہیں اور جونہی پہلی سواری دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہے اس کے جسم پر ایک عجیب طرح کپکپاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ جوں جوں سواریاں اترتی جاتی ہیں اس کے چہرے پر پھیلی امید گہری ہو جاتی ہے۔ پھر آخری سواری بھی اتر جاتی ہے۔ بس کا خالی دروازہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ اس کے چہرے پر آنکھ مچولی کھیلتے رنگ ایک ایک کر کے مدھم پڑنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جاگا ہوا چہرہ مجسّمے میں ڈھلنے لگتا ہے اور پتھر ہو جاتا ہے۔۔۔  بس دو آنکھیں رہ جاتی ہیں جو حسرت اور ناکامی سے خالی بس کو دیکھے جاتی ہیں۔

اس کی دلچسپی صرف باہر سے آنے والی بسوں میں ہے۔ یہاں سے جانے والی بسوں سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ ایک زمانے میں جب یہ اڈہ چھوٹا تھا تو جانے والی بسیں بھی اسی حصے میں ہوتی تھیں۔ لیکن پچھلے چند برسوں میں توسیع کے بعد صرف آنے والی بسیں رکتی ہیں۔ یہاں سے جانے والی بسیں مین گیٹ کی طرف کھڑی ہوتی ہیں۔ اس حصے میں شور شرابا بھی زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس طرف آنے والی بسیں ہی رکتی ہیں ، جس کی وجہ سے عام طور پر ایک سناٹا طاری رہتا ہے اس سناٹے میں چائے کا کھوکھا ہی زندگی کی ایک علامت ہے۔

شروع شروع میں چائے والے کا خیال تھا کہ وہ کسی کو لینے آتا ہے۔ لیکن جب کئی دن، پھر کئی مہینے اور اب کئی سالوں سے آنے والا نہ آیا تو اسے اپنا خیال بدلنا پڑا۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید تنہا آدمی ہے اور شام کا یہ ورد وقت گزاری کا ذریعہ ہے۔ بات معقول بھی تھی، لیکن اس ورد میں جو ایک عبادت کا سا تقدس تھا وہ سمجھ میں نہیں آتا تھا اور پریشان کرتا تھا۔ خود اس سے پوچھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کیونکہ اس کی شخصیت میں ایک ایسا رعب اور دبدبہ تھا کہ آسانی سے بے تکلف ہونا ممکن نہ تھا۔ سو چائے والے نے اسے اسی طرح قبول کر لیا اور اسے بھی اڈے کی دوسرے چیزوں کی طرح ایک چیز سمجھ لیا۔ اب اس کا روز آنا عجیب نہ لگتا نہ اس کے انتظار کے تقدس میں حیرت دکھائی دیتی اب تو شاید یہ عجیب ہوتا کہ وہ کسی دن نہ آئے۔ لیکن اس کا روز آنا مقرر تھا۔ بارش ہویا آندھی، گرمی ہو یا سردی، وہ سر شام وہاں پہنچ جاتا اور دیوار کے ساتھ والی بنچ کی طرف لپکتا۔ خالی ہوتی تو بیٹھ جاتا ورنہ انتظار میں آس پاس ٹہلتا رہتا۔ بنچ عام طور پر خالی ہی ہوتی اس کے بیٹھتے ہی چائے والا مگ بھجوا دیتا۔ چسکیاں لیتے ہوئے وہ اڈے میں ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھتا رہتا۔ اسی دوران میں کوئی بس آ جاتی تو وہ فوراً مگ نیچے رکھ کر متوجہ ہو جاتا۔ جب ایک ایک کر کے سواریاں چلی جاتیں تو مگ اٹھا لیتا اور ٹھنڈی چائے کو یوں گھونٹ گھونٹ پیتا جیسے اپنے آپ کو پی رہا ہو۔

یہ ورد برسوں کا تھا اور یونہی چلا جا رہا تھا اسی دوران میں کئی موسم گرم اور سرد ہوئے۔ بارش ہوتی تو وہ دیوار کے ساتھ لگ جاتا۔ تیز بارش ہوتی تو وہ کھوکھے کے چھجے کے نیچے آ جاتا یا کبھی کبھار اندر بیٹھ جاتا لیکن اس دوران کوئی بس آ جاتی تو دوڑ کر باہر نکل آتا اور جب تک آخری سواری اتر نہ جاتی وہیں کھڑا رہتا۔ اس آخری سواری کے انتظار میں وہ کئی بار بارشوں میں بھیگا سردی بھی لگی کئی کئی دن طبیعت خراب رہی لیکن ورد میں فرق نہ پڑا۔۔۔  لیکن اس روز بارش اس طرح ٹوٹ کر برسی اور تیز ٹھنڈی ہوا ایسی تندی سے چلی کہ وہ اپنے وجود کے بے سر و سامانی کا بھرم نہ رکھ سکا۔ اس کے کانپتے وجود کے سامنے چائے کا مگ رکھتے ہوئے چائے والے کو یقین ہو گیا کہ اسے شدید ٹھنڈ لگ گئی ہے۔

اگلے دن اس کا یقین ثبوت کو پہنچ گیا۔ وہ اس شام اڈے میں نہیں آیا پھر کئی دن گزر گئے۔ چائے والے کو خالی بنچ کاٹنے کو دوڑتی۔ اس کی وضع کا کوئی شخص دور سے دکھائی دیتا تو وہ لپک کر اس کی طرف دیکھتا۔ بارشیں رکنے کا نام نہ لیتیں۔ جس صبح موسم کی پہلی دھوپ نے چہرہ دکھایا اس نے لڑکے سے کہا ’’شاید آج بابو آ جائے۔‘‘

اس شام وہ تو نہ آیا لیکن ایک عجیب واقعہ ہوا۔ لاہور سے آنے والی ایک بس سے ادھیڑ عمر کی ایک عورت نکلی اور سیدھی اس بنچ کی طرف آئی۔ چند لمحے اس کے سامنے گم سم کھڑی رہی۔ پھر نڈھال ہو کر اس پر گر سی پڑی۔ بس سے ایک نوجوان اٹیچی لیے نکلا اور بنچ کے پاس آ کر کہنے لگا۔

’’امی! کیا ہوا؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ ارے آپ تو رو رہی ہیں۔‘‘ عورت نے دوپٹے سے آنسو صاف کئے اور رندھی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’بیس برس پہلے ایسی ہی ایک شام میں یہاں سے لاہور گئی تھی۔‘‘ وہ چپ ہو گئی۔۔۔  جیسے کچھ یاد کر رہی ہو۔

’’دو ہی دن کے لیے تو گئی تھی۔‘‘

’’پھر‘‘ بیٹے نے تجسس سے پوچھا۔

’’ابو نے میری شادی کر دی۔۔۔  جھٹ پٹ۔۔۔  ایک ہفتے کے اندر فوگو اندر۔۔۔  تمھارے ابو لندن جو جا رہے تھے۔‘‘ پھر اداس رندھے ہوئے لہجے میں بولی ’’بیس برس بیت گئے لیکن یہ بنچ یہیں پڑی ہوئی ہے۔‘‘

پھر اس نے خود کو سنبھالا اور بیٹے سے بولی۔ ’’چلو‘‘

۔۔۔  اور یہاں سے صرف دو فرلانگ دور اسی سڑک کے بائیں طرف والے قبرستان میں ایک تازہ قبر پر پڑے ہوئے پھول ہوا کے زور سے پتی پتی ہو کر دوسری قبروں پر بکھر رہے تھے۔

٭٭٭

 

دھند

دھند بے پاؤں زینہ زینہ اس طرح اتری کہ شہر کا شہر اس کی لپیٹ میں آگیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ آہستہ آہستہ گہری ہوتی سیاہ مائل دھند بازاروں ، گلیوں میں پھیلتی ہوئی عمارتوں کی دہلیزوں تک آن پہنچی، تیسری منزل پر، دفتر کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے اسے لگا نیچے کوئی سیاہ مائل سیال سی شے دیواروں سے ٹکراتی ہوئی گلیوں اور بازاروں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوا جیسے رات کا بند ٹوٹ گیا ہے اور تاریکی دریا کی طرح امڈی چلی آ رہی ہے۔ تیسری منزل سے نیچے جلتی بجھتی روشنیاں ٹمٹماتی ہوئی موم بتیاں سی لگ رہی تھیں ، اور ان کے درمیان کہیں مدھم سا ٹریفک کا شور تو سنائی دیتا تھا لیکن حرکت نظر نہیں آتی تھی۔ وہ شیشے سے منہ جوڑے نیچے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا، سانس کے دھوئیں سے شیشہ اور اندھا ہو گیا اور نیچے ٹمٹماتی روشنیاں بجھنے سی لگیں۔ ابھی تھوڑا سا کام باقی تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے ایک اچٹتی سی نظر کمرے پر ڈالی۔ اس کے ساتھی ایک ایک کر کے جا چکے تھے، اکیلا چپڑاسی دروازے کے قریب پڑے بنچ پر اونگھ رہا تھا۔ اس نے سامنے پڑی فائل کھولی اور نوٹ لکھنے لگا، لیکن دو چار سطروں کے بعد یوں لگا جیسے لفظ کترا سے رہے ہیں ، قریب آتے ہیں ، لیکن قلم کی نوک تک پہنچتے پہنچتے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں ، کئی دنوں سے یوں ہی ہو رہا تھا۔ اسے لگتا چیزیں اپنی جگہ سے سرک رہی ہیں ، فضا میں کوئی ایسی بات تھی جسے وہ محسوس تو کر سکتا تھا لیکن خود اسے بھی معلوم نہ ہوتا کہ یہ کیا ہے۔ ایک اجنبیت سی تھی جو کسی نامعلوم ان دیکھے خوف میں بدل رہی تھی۔ دفتر کے سہمے ہوئے ماحول سے نکل کر گھر کی طرف جاتے ہوئے ہجوم میں ایک ویرانی کا احساس ہوتا۔ لگتا لوگ تیز تیز چل رہے ہیں ، لیکن شاید چل نہیں رہے۔ قدم تو اٹھ رہے ہیں لیکن فاصلہ طے نہیں ہو رہا۔ ہر کوئی دوسرے کو ڈری ہوئی نظر سے دیکھتا۔ کان کسی آواز کو سننے کے منتظر، کسی آواز کو، یہ معلوم نہیں۔ بظاہر تو دوڑ لگی ہوئی تھی تیز رفتاری کی دوڑ، لیکن سفر تھکے قدموں کا، جو کسی دہلیز پر جا رکتے، اپنی دہلیز پر پہنچ کر کبھی جو سکون ملتا تھا وہ بھی کبھی کا جاتا رہا تھا۔ اب تو گھر میں ایک عجب طرح کی گھٹن اور تنگی داماں کا احساس ہوتا۔ جی چاہتا قفس کی تیلیاں توڑ کر کبھی فضا میں اڈاری ماری جائے۔ تازہ ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے کے لطف اور ذائقہ کی تمنا۔۔۔  لیکن قفس کے باہر بھی قفس ہی تھا اور اندر کی گھٹن اور تنگی داماں باہر بھی تھی۔ کبھی لمحے ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوئے تھے کہ ان میں چھپے زمانوں کے دریچے پلک جھپکنے میں تلاش ہو جاتے تھے۔ ایک دریچے کو کھول کر چپکے سے دوسرے دریچے میں سے ہوتے ہوئے کسی دوسرے زمانے میں داخل ہو کر سب کچھ بھول جاتا تھا، لیکن اب لمحے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں تھے، لگتا تھا ان کے درمیان کئی کئی شگاف پڑ گئے ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے جو ایک طمانیت ہوتی تھی وہ بھی جاتی رہی تھی اور اب پیچھے ایک چٹیل بنجر میدان دکھائی دیتا تھا جس میں اترنے کے خیال ہی سے خوف آتا، آگے دھند تھی، بس ایک درمیان کا کمزور سا لمحہ تھا جس پر پاؤں ٹکانے کی کوشش میں مسلسل ڈولنا۔۔۔  اس نے فائل بند کر دی اور کرسی کی پشت سے سر لگا کر لمبا سا سانس لیا۔

’’گھر چلنا چاہیے۔۔۔ ‘‘ خیال آیا، لیکن دھند۔۔۔ ؟

وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا۔ دھند کی سطح آہستہ آہستہ اونچی ہو رہی تھی۔ ٹمٹماتی روشنیاں اور ٹریفک کا شور اس کی تہہ میں نیچے دور نیچے کہیں کلبلا سا رہا تھا۔ بس ایک سیاہ مائل چادر سی تھی جو ساری عمارتوں پر پھیل رہی تھی۔ کرسی پر بیٹھ کر اس نے پھر فائل کھولی۔ صبح اس فائل پر دستخط ہونا تھے اور۔۔۔  اس کا ہاتھ بے اختیار جیب کی طرف گیا، اس سارے کام کا معاوضہ تو پیشگی مل گیا تھا۔ اس نے دفتر سے نکل کر مارکیٹ جانا تھا۔ بچوں اور بیوی کے لیے چیزیں خریدنا تھیں لیکن یہ دھند۔۔۔  باہر دھند، اور اندر لفظ روٹھ کر منہ موڑے کھڑے تھے اور فائل میں بے معنی تین سطریں۔۔۔  اس نے قلم نیچے رکھ دیا۔ صبح جلدی آنا پڑے گا، ورنہ، ہاتھ پھر جیب کی طرف گیا۔ یقیناً صبح جلدی ہی آنا پڑے گا۔

نیچے اترتے ہوئے اس نے ذہن میں ان چیزوں کی فہرست بنائی جو گھر لے جانی تھیں۔ دہلیز پر دھند اسے اپنی بکل میں لینے کے لیے موجود تھی۔ بس سٹاپ تک پہنچتے پہنچتے لگا وہ بھی دھند کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ فٹ پاتھ پر لوگ سایوں کی طرح لگ رہے تھے۔ دور سے آتی بس ایک ٹمٹماتی روشنی سی لگتی اور پھر انجن کا شور اس کے وجود کا احساس کراتا۔ نہ ان کے نمبر پڑھے جا سکتے تھے، نہ بورڈ نظر آتے تھے۔ بس ایک قطار سی تھی جو بس کے رکنے پر اپنی جگہ سے حرکت کرتی اور دروازے میں سے گزر کر اندر داخل ہوتی۔ وہ بھی اپنی باری پر بس میں داخل ہو گیا اور قطار کے دباؤ کے ساتھ کھسکتا کسی سیٹ تک پہنچ گیا۔ بس چل پڑی۔ باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ سنسناتی، ٹمٹماتی روشنیاں ایک دوسرے کے قریب سے گزر رہی تھیں اور ان کے درمیان کہیں بہت سے لوگ تھے، سہمے سہمے، کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے۔ بس کہیں رکتی، قطار کا ایک دباؤ، دروازہ کھلتا کچھ نیچے اترتے، اور کچھ اوپر چڑھتے اور بس پھر رینگنے لگتی۔ رفتار تو اب یہی تھی۔ لگتا تھا سب کچھ ٹھہرا ہوا ہے لیکن شاید چل بھی رہا ہے کہ اترنے چڑھنے کا سلسلہ جاری تھا۔

وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر باہر جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بس کہاں ہے اور کہاں سے گزر رہی ہے لیکن کچھ دکھائی نہ پڑتا۔ پھر ایک دباؤ سا اس کے پشت سے آیا اور اسے دھکیلتا ہوا دروازے تک لے آیا اور اسے معلوم بھی نہ ہوا کہ وہ کب فٹ پاتھ پر پہنچا۔ بس آگے رینگ گئی۔ دھند میں لپٹی مارکیٹ بچوں کے کھلونے کی طرح لگ رہی تھی۔ دروازے کے باہر دھند تھی اور اندر تیز روشنیوں میں چمکتی چیزیں۔

دو بڑے بڑے پیکٹ اٹھائے جب وہ باہر نکلا تو دھند میں ایک چپچپاہٹ، سی آ گئی تھی یوں لگ رہا تھا کہ دھند اپنی لمبی زبان نکال کر چہروں کو چاٹ رہی ہے۔ ایک لمحے کے دریچے کو کھول کر دوسرے لمحے میں جانے کا دروازے بند ہو گیا تھا، پاؤں کے نیچے بھی دھند تھی اس لیے پاؤں بار بار اکھڑ رہے تھے۔ بازاروں کے نام اور گلیوں کے نمبر ایک دوسرے میں مل گئے تھے۔ بس ایک خیال سا تھا کہ دائیں سے اتنا آگے جا کر بائیں مڑنا ہے اور بائیں سے اتنا آگے جا کر دائیں ہونا ہے۔ پھر کسی جگہ دائیں بائیں کا فرق بھی مٹ گیا۔ دھند میں سب ایک ہو گیا۔ ڈگمگاتے قدموں سے چلتے جانا۔ دھند اور سردی کی تہہ دار لہروں میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کریا شاید نیم سوئے ذہن سے گن کر گھر کے نمبر تک پہنچنے کی خواہش۔ ایک اتھاہ اندھیرا۔۔۔  لمحے شاید صدیوں میں بدل گئے۔

کال بیل پر دروازہ کھلا تو وہ دوڑ کر اندر داخل ہوا۔ دونوں پیکٹ بیوی کو دیتے ہوئے اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا۔ گھر کی نیم گرم فضا میں لمحہ بھر کے لیے سکون سا ملا۔ بچے شاید سو گئے تھے۔ کھانا کھا کر کچھ دیر پڑھنے کی عادت تھی لیکن باہر پھیلی دھند نے جو اب دروازے اور کھڑکیوں پر دستکیں دے رہی تھی، اسے ڈرا سا دیا۔ وہ کپڑے بدل کر بستر میں گھس گیا۔ گرم جسم کی رفاقت نے سکون سا دیا۔ ایک طمانیت اور سرشاری کے احساس میں گرم گداز جسم کو لپٹاتے ہوئے دفعتاً احساس ہوا کہ یہ اس کا گھر نہیں۔ وہ بدک کر پیچھے ہٹا اور لحاف ہٹا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ نہیں یہ تو اس کا کمرہ نہیں۔ یہ بستر، یہ عورت۔۔۔  اس نے اٹھنا چاہا لیکن دھند اب کھڑکیوں اور روشن دانوں سے رینگتی ہوئی پورے گھر میں پھیل رہی تھی۔ سب کچھ بے شناخت ہوا جا رہا تھا۔ کمرہ، بستر اور کوئی چیز صاف دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے ذہن کے کسی گوشے میں کچ دھندلی سی تصویریں ابھریں ، اس کا کمرہ، بستر، بیوی اور اس کے ساتھ۔۔۔  اس نے اٹھنا چاہا لیکن دھند نے اسے دبا کر دوبارہ بستر میں دھکیل دیا۔ ایک ٹھنڈی سانس لے کر اس نے لحاف اوپر کھینچ لیا۔

دھند گہری ہو جائے تو چیزوں کے درمیان ایک خاموش سمجھوتہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ ؟

٭٭٭

 

خواب راستہ

یہ سڑک جو شام ہوتے ہی سنسان ہو جاتی ہے، اس کی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ وہ سر شام ہی وہاں آ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا، نظریں سڑک پر جمائے یوں چلتا ہے جیسے کسی کھوئی ہوئی شے کو تلاش کر رہا ہو۔ اندھیرے کی نرم پھوار رفتہ رفتہ سڑک اور اس کے دو رویہ درختوں پر گہری ہونے لگتی ہے۔ گدگداتی تنہائی اس کے ساتھ ساتھ چلتے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔

رات گئے جب وہ گھر لوٹتا ہے تو رفتار میں تھکاوٹ آ چکی ہوتی ہے۔ ڈھلکے شانوں اور جھکے ہوئے سرکے ساتھ وہ اندر آتا ہے اور خاموشی سے میز پر رکھے کھانے کے سامنے بیٹھ جاتا ہے اس کی بیوی سونے سے پہلے اس کا کھانا میز پر رکھ دیتی ہے۔ کھانا کھا کر وہ خاموشی سے بستر پر آتا ہے۔ بیوی گہری نیند سو رہی ہے۔ وہ چپ چاپ اپنے حصے کے بستر پر لیٹ جاتا ہے۔

’’افسوس! آج بھی ان کا کچھ سراغ نہیں ملا‘‘ وہ اپنے آپ سے کہتا ہے۔ ’’جانے وہ اب کہاں ہے۔۔۔  شاید۔۔۔  جملہ پورا کرتے ہوئے خوف کی ٹھنڈی لہر پورے بدن میں دوڑ جاتی ہے۔

’’شاید‘‘

اسے یاد آتا ہے کہ برسوں پہلے اسی سڑک پر دو حادثے ہوئے تھے۔ پہلا حادثہ درختوں کے اس جھنڈ سے ذرا ادھر ہوا تھا جہاں سے سڑک ایک دم بائیں طرف مڑ جاتی ہے۔ وہ اپنی دھن میں گاڑی چلا رہا تھا۔ ساتھ والی سیٹ پر وہ تھی اور دونوں آنے والے دنوں کی سنہری خوابوں کی تعبیریں تلاش کر رہے تھے کہ دفعتاً کتے کا ایک چھوٹا سا پلا ایک طرف سے دوڑتا ہوا سامنے آگیا۔ اس نے بریک لگائی۔۔۔  گاڑی رکتے رکتے کتا نیچے آگیا۔ اس کی چیخ سے سنہری دنوں کے سارے سپنے بکھر گئے۔ وہ تیزی سے نیچے اترا،کتا اگلے پہئے کے نیچے دبا پڑا تھا اور اس کے منہ سے تازہ گرم لہو کا فوارہ سانکل کر سڑک پر پھیل گیا تھا۔

وہ وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔

’’اب چلو بھی۔۔۔ ‘‘ وہ بولی۔۔۔  ’’جو ہونا تھا سو ہو گیا‘‘

وہ بے دلی سے گاڑی میں آیا اور پچھلے شیشے میں سے اس وقت تک سڑک پر پڑے کتے کو دیکھتا رہا جب تک وہ دکھائی دیا۔ گاڑی جھنڈ کے قریب سے بائیں طرف مڑ گئی تو بھی اس کی اداسی دور نہ ہوئی۔

اس کی حالت دیکھ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔  ’’تم تو بہت ہی بزدل ہو۔۔۔  اور پھر تم نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا‘‘

وہ کچھ دیر چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’کسی اور کے سامنے آ جاتا‘‘ میری گاڑی کے سامنے ہی کیوں آیا؟‘‘

’’چلو چھوڑو بھی‘‘ وہ بولی ’’موڈ خراب نہ کرو‘‘

اس نے کندھے اچکائے لیکن کندھوں پر بیٹھی اداسی نیچے نہ اتری بلکہ اس کا بوجھ کچھ اور بڑھ گیا۔ گھر تک یہی حالت رہی۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی یوں ہی لگا جیسے میز پر کتے کی لاش پڑی ہے اور اسی کے منہ سے ابلتا سرخ رنگ کا فوارہ سارے برتنوں پر گر رہا ہے۔ اس رات کتا اس کے آس پاس منڈلاتا رہا۔ کبھی اس کے لحاف میں گھس جاتا اور لگتا اس کے منہ سے نکلتا گرم فوارہ ٹانگوں پر گر رہا ہے۔ وہ گھبرا کر جلدی سے لحاف الٹتا۔ کبھی لگتا وہ اس کے سینہ پر چڑھ گیا ہے، کبھی سرہانے آبیٹھا۔

اگلے دن وہ صبح سویرے اس جگہ پہنچا جہاں یہ حادثہ ہوا تھا۔ سڑک بالکل صاف تھی۔ نہ کوئی دھبہ نہ کوئی بے جان جسم، آس پاس دیکھا کہ شاید کسی نے اسے اٹھا کر سڑک کنارے پھینک دیا ہو۔ لیکن آس پاس کیا پوری سڑک کے دونوں طرف کچھ نہ تھا۔ ایک سکون سا ملا کہ شاید کل کا حادثہ ایک واہمہ ہی ہو۔ یہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہ آیا ہو، لیکن دوسرے ہی لمحے کتے کی چیخ اور اس کے منہ سے نکلتا سرخ فوارہ آنکھوں کے سامنے پھیل گیا۔

کئی دنوں تک یہی رہا کہ وہ وہاں آتا اور سڑک کے دونوں کناروں پر اسے تلاش کرتا۔ پھر یہ خیال آتا کہ شاید یہ حادثہ پیش ہی نہ آیا ہو، وہ اپنے آپ سے سوال کرتا کبھی جواب ہاں میں ہوتا کبھی نہ میں ، کچھ سمجھ میں نہ آتا کہ اصل بات کیا ہے۔ اس وقت سڑک خالی تھی، کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا، بس ایک وہی تھی جو بتا سکتی تھی کہ واقعی یہ حادثہ ہوا تھا یا نہیں ، تو پھر اسی سے پوچھنا چاہیے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا۔۔۔  ایک دن وہ بھی اچانک اس کی گاڑی سے اتر کر درختوں کے جھنڈ میں غائب ہو گئی۔

اس واقعہ کے بارے میں بھی اسے ٹھیک سے کچھ یاد نہیں ، بس یہ خیال سا آتا ہے کہ وہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی، جب گاڑی درختوں کے جھنڈ کے پاس پہنچی جہاں سے سڑک ایک دم بائیں کو مڑ جاتی ہے تو گاڑی بہت آہستہ ہو گئی۔ اس نے پلک جھپکنے میں دروازہ کھولا اور دوڑتی ہوئی درختوں میں گم ہو گئی۔ چند لمحوں تک اسے کچھ سمجھ نہ آیا، پھر وہ گاڑی ایک طرف کر کے نیچے آیا اور درختوں کے جھنڈ میں اسے تلاش کرنے لگا۔ اس کا کہیں پتہ نہ تھا درختوں کی دو تین گھنی قطاروں کے بعد ریلوے لائن تھی جس کے دوسرے طرف میلوں ویران علاقہ تھا۔ اس نے چاہا کہ اسے آواز دے لیکن دفعتاً اسے احساس ہوا کہ وہ اس کا نام بھول گیا ہے۔ آواز دینے کے لیے اس کا کھلا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا۔ وہ بھاگ کر سڑک پر آیا کہ شاید وہ کسی اور طرف سے ہو کر گاڑی تک پہنچ گئی ہو لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ سڑک سنسان پڑی تھی۔ وہ دوڑ کر دوبارہ درختوں میں سے ہوتا ریلوے لائن تک آیا جس کے دوسری طرف میلوں پھیلا ویران علاقہ تھا۔

وہ اسے کہاں تلاش کرے۔۔۔  پکارے، لیکن اس کا نام یاد نہیں آ رہا، کس سے پوچھے۔۔۔  لیکن اس کا حلیہ، اسے احساس ہوا کہ اس کے چہرے کے سارے خطوط گڈمڈ ہو گئے ہیں ، کوئی لائن واضح نہیں ، اس کا چہرہ۔۔۔  اس کا چہرہ کیسا تھا، وہ کسی سے پوچھے تو کیا پوچھے؟

رات بھر یہی خیال آیا کہ وہ درختوں کے جھنڈ میں کہیں چھپی بیٹھی ہے، پھر یوں لگا جیسے درختوں نے اسے اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ صبح ہوتے ہی وہ وہاں آیا اور ایک ایک درخت کے پیچھے اسے تلاش کیا لیکن کچھ پتہ نہ چلا، خیال آیا کیا معلوم اس دوران وہاں کوئی ٹرین آ گئی ہو اور وہ چلتی ٹرین میں سوار ہو گئی ہو مگر کیسے۔۔۔ ؟ کیا معلوم ٹرین وہاں لمحہ بھر کورک گئی ہو اور وہ۔۔۔  یا یہ کہ وہ لائن عبور کر کے ویران علاقے میں اتر گئی ہو، لیکن کیوں ؟

اس کیوں کا جواب اسے برسوں سے نہیں ملا۔ اس دوران کئی ٹھنڈے میٹھے موسم آئے اور گزر گئے۔ درختوں کے جھنڈ کے پیچھے چھپی ریلوے لائن کے اس پار کا ویران علاقہ مہکتی بستی میں تبدیل ہو گیا۔ اب یہ سڑک بھی ویران نہیں رہی۔ سارا دن اس پر ٹریفک کا شور لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں تھمتا، لیکن شام ہوتے ہی اس کی رونق ماند پڑ جاتی ہے اور پرانی شباہتیں کہیں کہیں سے ابھر آتی ہیں۔ وہ روز یہاں آتا ہے اور ٹھیک اس جگہ جہاں کبھی کتا اس کی گاڑی کے نیچے آگیا تھا گاڑی آہستہ کرتا ہے اور پھر اسے ایک طرف کھڑی کر کے سڑک کے دونوں کناروں پر کچھ تلاش کرتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی راہ گیر اسے یوں تلاش میں مصروف دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے ٹھٹھک جائے تو وہ پوچھتا ہے۔۔۔  ’’آپ نے یہاں کہیں کوئی زخمی کتا تو نہیں دیکھا‘‘ پھر جواب کا انتظار کئے بغیر کہتا ہے۔۔۔  ’’نہیں آپ نے نہیں دیکھا ہو گا‘‘

خیال آتا ہے کہ معلوم نہیں یہ حادثہ ہوا بھی ہے یا نہیں ، شاید یہ اس کا واہمہ ہی ہو۔ وہ سر ہلاتا پیدل ہی درختوں کی جھنڈ کی طرف چل پڑتا ہے ان میں سے ہوتا ہوا ریل کی پٹڑی تک آتا ہے۔ دوسری طرف مہکتی بستی کی روشنیاں جھلمل جھلمل کر رہی ہیں۔ وہ آنکھوں پر ہاتھوں کا چھجا بنا کر یوں دیکھتا ہے جیسے دور کسی کو تلاش کر رہا ہو۔

’’جانے وہ کہاں چلی گئی ہے‘‘ وہ اپنے آپ سے کہتا ہے۔۔۔  ’’یہیں تو اتری تھی‘‘ اس کا نام سوچتا ہے اس کے چہرے کے دھندلے دھندلے نقوش کو اکٹھا کرتا واپس گاڑی تک آتا ہے اور خاموشی سے واپس چل پڑتا ہے۔

گھر پہنچتے رات گہری ہو جاتی ہے۔ پورچ میں گاڑی کھڑی کر کے چپ چاپ اندر آ جاتا ہے۔ بیوی گہری نیند سوئی ہوئی ہے۔ وہ اپنے حصے کے آدھے بستر پر گر پڑتا ہے۔

سونے سے پہلے اسے خیال آتا ہے جانے وہ کہاں چلی گئی ہے، پھر کتے کی آخری چیخ اور اس کے منہ سے ابھرتا سرخ فوارہ۔۔۔  آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔

یہ اس کا روز کا معمول ہے۔ اس سڑک سے گزرنے والے اس کے عادی ہو چکے ہیں اور روز دیکھتے ہیں کہ وہ گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے سڑک کے دونوں کناروں پر کچھ تلاش کرتا ہے، پھر جھنڈ میں سے ہوتا ہوا پٹری تک آتا ہے اور وہاں کھڑے ہو کر دیر تک دوسری طرف کی بستی کو دیکھتا رہتا ہے۔ بس کبھی کبھار کسی سے پوچھ لیتا ہے۔۔۔  ’’تم نے اسے دیکھا تو نہیں ‘‘

’’وہ جو برسوں پہلے یہاں اتری تھی مگر لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘

پھر اپنے آپ سے کہتا۔۔۔  ’’اسے کیا خبر؟‘‘

لیکن جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ سب اس کا واہمہ ہے برسوں پہلے تو اس کے پاس گاڑی کیا سائیکل تک نہیں تھی۔

٭٭٭

 

دھند میں سے نکلتا دن

شام کی نیم تاریکی میں دور سے آتے گھوڑوں کی چاپ اور غبار نے وقت کی گنتی کو الٹ پلٹ کر دیا۔ ایک پر اسرار چاپ نے صدیوں کے سوئے رشتوں کو جگا دیا، دھند میں سے طلوع ہوتے منظر سے ایک چھوٹا سا کارواں ا بھرا، چیزیں آہستہ آہستہ واضح ہونے لگیں۔ تھکے ہوئے گھوڑوں پر مسافت زدہ چہروں والے سپاہیوں کے درمیاں جھولتی ہوئی ایک عماری، اس کے مخملی شقہ کو تھامے حنائی انگلیاں اور اس کے پیچھے سے جھانکتی مخمور آنکھیں ،

’’ہم رات یہیں گزاریں گے۔‘‘ قریب پہنچ کر کماندار نے کہا۔

’’لیکن یہاں تو‘‘

’’ملکہ عالیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ‘‘ اس نے بات کاٹ دی۔ ’’وہ اور سفر نہیں کر سکتیں۔‘‘

چوکی کا چھوٹا سا کمرہ فوراً خالی کر دیا گیا۔ سواری قریب آ گئی۔ پردے ہٹے، غاشیہ بردار نے پائدان ساتھ لگایا۔ مخملی پاؤں باہر آیا، پھر دوسرا۔۔۔  شام کی نیم تاریکی ہی میں چودھویں کا چاند نکل آیا۔ ایک شان استغنا سے کوٹھری پر نظر ڈالی گئی، پھر گھنٹیاں بج اٹھیں۔۔۔  ’’ہم یہیں باہر قیام کریں گے۔‘‘

چھوٹی سی چوکی کے چھوٹے سے اہل کار نے ایک تخت نما چوکی برآمدے میں بچھا دی۔ غاشیہ بردار عماری سے مخملی فرش اٹھا لایا۔

چوکی پر بیٹھتے ہوئے ایک عجیب پرواہی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے مقنع کھولا۔ زلفیں سارے عالم میں بکھر گئیں اور چاند کے گرد گہرے بادل تیرنے لگے۔ اس کا سب کچھ تیز بارش میں بہہ گیا۔

کماندار کو حکم ہوا۔۔۔  ’’تم لوگ بھی اب آرام کرو۔‘‘

سپاہی اور کماندار گھوڑوں کو کھول کر نیم دائرے میں بکھر گئے۔

وہ اسی طرح دم بخود، لٹا پٹا، وہیں کھڑا رہا۔۔۔

نیم آنکھوں سے اس پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا گیا۔۔۔  ’’اتنی دیر سے ایسے ہی کھڑے ہو، پتھر تو نہیں ہو گئے۔‘‘

اس نے گھبرا کر اپنے آپ کو ہلایا،

گھنٹیاں بج اٹھیں۔۔۔  وہ ہنستے ہنستے دوہری ہو گئی۔

وہ رات بیتی نہیں ، بس ٹھہر گئی۔ صدیوں پر پھیل گئی۔ لگا زمانے بیت گئے ہیں اور شناسائیاں رشتوں میں بدل گئیں جو بدنوں سے نکل کر روحوں میں اتر گئے ہیں۔

صبح جب کارواں چلنے لگا تو سوار ہوتے ہوئے اس پر بے نیازی کی نظر پڑی، وہ اس کے لیے اجنبی نہیں تھی۔ اس بے نیازی میں ایک لگاؤ، ایک پیغام تھا، اس خاموش پیغام نے اس کے پاؤں کھول دئیے اور وہ سنگلاخ راستے پر جاتے کارواں کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

کاروان مسافت کی دھند سمیٹتا فصیل شہر کے بڑے دروازے پر لمحہ بھر کو رکا۔ مخملی شقہ ذرا سا کھلا۔ دو مخمور آنکھوں نے اس پر ایک عجیب نظر ڈالی۔ حنائی انگلیوں سے چھوٹا معطر رومال اڑتا ہوا اس کے پاؤں سے جا لگا۔ اگلے لمحے کارواں فصیل کے اندر گم ہو گیا۔

اس نے جھک کر رومال اٹھایا۔ اس کا معطر پیغام اس کے سارے وجود میں اتر گیا۔ رومال کو سینے سے لگائے وہ وہیں فصیل کے ساتھ بیٹھ گیا۔

شاید دو دن بعد یا دو صدیوں بعد اسے شاہی قیام گاہ میں طلب کیا گیا۔

ایک رعب دار گونجتی آواز نے پوچھا۔۔۔  ’’چوکی چھوڑ کر تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔  جواب تھا ہی نہیں۔

رعب دار آواز کے پیچھے مخملی پردوں کے پیچھے ہلکا سا ارتعاش ہوا یوں لگا جیسے اس کے پیچھے چھپی مخمور آنکھوں نے کچھ کہا ہے۔ حنائی انگلیاں بے تابی سے پردے پر مچلتی رہیں۔

’’جواب دو۔۔۔ ‘‘

’’میں۔۔۔ ‘‘ وہ کچھ نہ بول سکا۔

کچھ کہا گیا۔۔۔  لیکن وہ سن نہ سکا۔

سپاہی اسے نرغے میں لے کر باہر آئے، ایک طویل دالان سے گزر کر قلعہ کے دوسرے حصے کے طرف بڑھے۔ پھر سیلن زدہ سیڑھیاں اتر کر وہ ایک نیم تاریک راہداری میں داخل ہوئے ایک اندھیری کوٹھری کا دروازہ کھول کر اسے اندر دھکیل دیا گیا۔

کوٹھری کا دروازہ بند ہوتے ہی سیلن، بو اور تاریکی نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نگل گئی اور قمیض کے نیچے سینے سے لگا معطر رومال کھسک کر نیچے جا گرا۔

صدیاں الٹ پلٹ ہو گئیں۔

شام کی اس نیم تاریکی میں دور سے آتی ویگنوں اور جیپوں کی آواز، ایک پر اسرار چاپ اور انجانی سی خوشبو، انجانے ان دیکھے رشتوں کی خبر دیتی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے مہاجرین رجسٹریشن کے لیے رکتے ہیں اور پھر بل کھاتی سڑک سے ہوتے شہر کی طرف چلے جاتے ہیں۔

وہ سر جھکائے رجسٹر پر اندراج چیک کر رہا ہے۔

’’سر۔۔۔ ‘‘

سر اٹھاتا ہے، اس کا نائب جانے کب سے کھڑا ہے۔

’’کیا بات ہے دلاور خان؟‘‘

’’سر! یہ عورت آپ سے بات کرنا چاہتی ہے‘‘

دلاور خان کے پیچھے کھڑی عورت اس کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ جاتی ہے۔ صدیوں کے فاصلے نقطے میں سمٹ جاتے ہیں ، بھوک سے ستے ہوئے چہرے، پھٹے لباس اور ننگے پاؤں ، ایک ہاتھ سے دروازے کے پٹ کا سہرا لیے، گود میں دودھ پیتے بچے کو سنبھالے وہ التجا بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے۔

’’صاحب جی۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز میں وہی ترنم ہے، لیکن مخمور آنکھوں میں وہ شان بے نیازی نہیں ، بھوک اور مجبوری کا اداس پن ہے۔

’’صاحب جی۔۔۔  مجھے آج رات یہاں رکنے دیں ، میرا بچہ ٹھیک نہیں۔

اس حالت میں اسے لے کر میں رات کو سفر نہیں کر سکتی، صاحب جی۔۔۔ ‘‘

وہ اس کے پیچھے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ کماندار ہے، نہ سپاہی۔

وقت بھی کیا شئے ہے۔

’’صاحب جی۔۔۔  راستے میں ہمارے قافلے پر حملہ ہوا۔ میرا شوہر بھی۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔

’’صاحب جی! میرا بچہ بیمار ہے۔۔۔  مجھے رات۔۔۔ ‘‘

سرحدی چوکی کے برآمدے میں نیم تاریکی میں ، وہ ایک کونے میں زمین پر سمٹی بیٹھی ہے۔ بچہ اب بھی اس کی گود میں آرام کر رہا ہے۔ سپاہی نے ایک مگ میں چائے اور ڈبل روٹی کے دو تین سلائس اس کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ وہ سر جھکائے ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے بچے کو دیکھتی ہے، پھر ڈبل روٹی کا ٹکڑا منہ میں رکھ کر چائے کا مگ اٹھا لیتی ہے۔

وہ کچھ فاصلے پر پتھر بنا، اسے دیکھے جا رہا ہے، بس دیکھے ہی جا رہا ہے۔

کہتے ہیں ملکہ نے رات کو اپنے شوہر سے وعدہ لیا تھا کہ قیدی کو معاف کر کے دوبارہ اپنی چوکی پر بھیج دیا جائے۔ صبح کماندار کو حکم دیا گیا کہ جاتے ہوئے قیدی کو رہا کر دیا جائے، لیکن تخت دلی پر قبضہ کرنے کے نشے نے سارے لشکر کو ایک عجیب بے قراری میں ڈال رکھا تھا۔ کماندار قلعہ سے رخصت ہوتے ہوئے شاہی حکم بھول گیا۔

صدیاں بیت گئیں ، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کوٹھری کی سیلن، بو اور تاریکی میں بھوک پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس نے کیسے جان دی!

٭٭٭

 

پس عکس

اپنے طور پر وہ مطمئن تھا کہ اس کام سے بہتوں کا بھلا ہو گا، لیکن ڈر اپنی جگہ تھا۔ پکڑے جانے کی صورت میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ فوری موت یا لمبی سزا۔ بریف کیس اسے دیتے ہوئے بتا دیا گیا تھا کہ دو مرحلے بہت مشکل ہیں ، ایک جب وہ ٹکٹ لے کر بس میں سوار ہو گا اور دوسرے جب بس بارڈر کراس کرنے سے پہلے چیکنگ کے لیے رکے گی۔ اس نے کاغذات کو احتیاط سے بریف کیس کی تہہ میں پلاسٹک سے جما کر اوپر کپڑوں کے دو جوڑے اس طرح رکھ دئیے کہ سارا بریف کیس خالی کئے بغیر کاغذات نظر نہیں آ سکتے تھے۔

بس سٹاپ پر کوئی خاص رش نہیں تھا۔ بس تیار ہی تھی۔ ٹکٹ گھر کے سامنے دو تین شخص موجود تھے وہ بھی ان کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ اس کی باری پہ ٹکٹ مل گیا۔ ٹکٹ لے کر جب وہ بس کی طرف چلا تو احساس ہوا کہ بہت سی پراسرار آنکھیں اسے گھور رہی ہیں۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے پاؤں ڈگمگائے لیکن پھر فوراً ہی سنبھل گیا اور بس کنڈیکٹر کو ٹکٹ دے کر اندر چلا گیا۔ اس کی سیٹ بائیں طرف کے آدھے حصے میں تھی۔ اس نے بریف کیس آہستہ سے اوپر ریلنگ پر ٹکا دیا اور اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ ساتھ والی سیٹ خالی تھی۔ چند لمحوں بعد اس کا ایک ساتھی بھی ٹکٹ لے کر اندر گیا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق اس سے اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ دونوں نے اشارے سے ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس کیا۔ بس چلنے سے پہلے دو بار چیکنگ ہوئی۔ پہلی بار ایک ادھیڑ عمر دو ساتھیوں کے ساتھ اندر آیا۔ انھوں نے ایک ایک سیٹ کے پاس کھڑے ہو کر نیچے اوپر کا جائزہ لیا۔ ایک آدھ مسافر سے سوال بھی پوچھا۔ ایک آدھا سامان کے پیکٹ کو ہاتھ لگا کر دیکھا اور نیچے اتر گئے۔ دوسری بار بس چلنے سے چند لمحے پہلے ایک پھرتیلا سا جوان جس کی آنکھیں بھی ناچ رہی تھیں ، اندر آیا۔ وہ گیٹ کے پاس ہی کھڑا ایک ایک چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس کی نظریں سامان کی ریلنگ پر گھومتی رہیں۔ اس کے نیچے اترتے ہی کنڈیکٹر نے دروازہ بند کر دیا اور بس رینگنے لگی۔

اس کے ساتھ والی سیٹ پر کوئی بھی نہ آیا۔ اس نے بازو لمبا کر کے سیٹ کی پشت سے ٹکا دیا اور ایک لمبا سانس لیا۔ ایک مرحلہ تو طے ہوا۔ لیکن مرحلہ طے نہیں ہوا، بس کی رفتار کے تیز اور کم ہونے کے ساتھ خوف نے کئی بار اس کے بدن پر تیز اور ہلکی دستکیں دی۔ اسے خیال آیا اتنی آسانی سے یہ مرحلہ طے نہیں ہو سکتا تھا، یقیناً یہ کو ئی چال ہے، ممکن ہے وہ اسی بس میں موجود ہوں اور اسے کسی خاص جگہ یا موقع پر پکڑنا چاہتے ہوں۔ اس نے کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا، دو تیز چبھتی ہوئی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اسے متوجہ پا کر وہ سیدھا ہو گیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ تو کیا وہ میرا جائزہ لے رہا تھا، مگر کیوں ؟ اس نے چور نظروں سے اوپر بریف کیس کی طرف دیکھا۔ بس کی رفتار ذرا سی دھیمی ہوئی۔ وہ چونک گیا، تو کیا یہیں ، اس نے کن انکھیوں سے ادھر دیکھا، لیکن وہ تیز چبھتی آنکھیں اب باہر دیکھ رہی تھیں ، بس اگلے لمحے تیز ہو گئی، اس نے لمبا سانس لیا اور پسینے میں لتھڑے ماتھے کو رومال سے صاف کیا اور آنکھیں بند کر لیں۔

بریک کے جھٹکے اور تیز آواز نے اسے بوکھلا کر جگا دیا شاید وہ آ گئے ہیں۔۔۔  شاید پیچھے پیچھے ہی آ رہے تھے یا پھر شاید یہاں تاک لگائے بیٹھے ہوں۔ بس تقریباً رک گئی، لیکن نہ دروازہ کھلا نہ کنڈیکٹر اپنی جگہ سے ہلا۔ اس نے اپنی سیٹ سے ذرا سا اٹھ کر دیکھا۔ سڑک پر ایک گائے اپنی دھن میں مست کنارے کی طرف جا رہی تھی۔ منہ میں آیا ہوا سانس آہستہ آہستہ اپنی جگہ آنے لگا۔ بس پھر چل پڑی۔

تو کیا واقعی ان کو پتہ نہیں چلا؟ اس نے اپنے آپ پوچھا۔۔۔  یہ کیسے ممکن ہے؟ اس سے پہلے اس طرح کی کوشش کئی بار ناکام ہو چکی ہے۔

اس کے ہونٹ سوکھ رہے تھے۔ اس نے انھیں زبان سے تر کیا۔ آخری چوکی آنے میں اب کچھ ہی فاصلہ باقی تھا، بس اس کے بعد۔۔۔  جہنم میں گئی بھلائی۔ اس نے اپنے آپ کو کوسا۔۔۔  اب کچھ دیر بعد ہی سارا کھیل ختم ہو جائے گا، یقینا وہاں وہ موجود ہوں گے۔

اس کے سارے وجود پر ایک کپکپی سی طاری ہو گئی۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟ اس نے سوچا۔۔۔  ایک لمحے کے لیے خیال آیا۔ کھڑکی کھول کر بریف کیس کو باہر پھینک دے لیکن وہ بہت سے لوگ جن کے بھلے کے لیے۔۔۔  اس نے سر جھٹکا۔۔۔  جہنم میں گئے لوگ۔

خوف اس کے سارے وجود پر چھا گیا تھا اور رینگ رینگ کر اس کے اندر گرنے لگا۔ اسے لگا وہ پانی میں نہا گیا اور سارا چہرہ پسینے میں بھیگا ہوا ہے۔ سڑک پر تیزی سے پیچھے ہٹتے نشان نے چوکی کی آمد آمد کی خبر دی۔۔۔  وہ کانپ گیا۔ ایک لمحے میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ بریف کیس کو اٹھا کر یا تو باہر پھینک دے یا پھر اگلی سیٹ پر بیٹھے ساتھی کی طرف کھسکا دے لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھتا، اچانک پچھلی سیٹوں سے ایک فسخی سے بدن والا شخص اس کے ساتھ والی خالی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔ ایک لمحہ میں ایک ٹھہراؤ سا آگیا۔ اس کا آدھا اٹھا ہوا وجود سیٹ میں دھنس گیا۔ حشخشی داڑھی والے اس شخص نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا، ایک لمحے کے لیے سکون سا ہو گیا۔ اتنے میں بس چوکی کی حدود میں داخل ہو کر بیرئیر سامنے کھڑی ہو گئی۔ کنڈیکٹر نے دروازہ کھولا۔ دو شخص اندر آئے اور ایک سیٹ کے پاس جا کر دیکھنے لگے۔ اس کے قریب پہنچ کر ایک شخص نے بریف کیس کی طرف اشارہ کیا۔

اس میں کیا ہے؟

’’کپڑے‘‘ اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔

اس سے پہلے کہ کوئی اور بات ہوتی، اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا خشخشی داڑھی والا اپنی جگہ سے اٹھا اور تیزی سے دروازے کی طرف دوڑا۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے لپکے اور تینوں بس سے اتر کر نیم تاریکی میں گم ہو گئے۔ کنڈیٹر نے دروازہ بند کیا۔ بیرئیر اوپر ہوا اور بس رینگتی ہوئی دوسری طرف آ گئی۔

اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ چند میل آگے نکل کر جب وہ چائے پینے رکے تو اگلی سیٹوں پر بیٹھا اس کا ساتھی اس کے پاس آ بیٹھا اور بولا۔۔۔  ’’شکر ہے لیکن یار جب وہ تم سے بریف کیس کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو تم بری طرح گھبرا گئے تھے۔ میں تو ڈر ہی گیا تھا۔‘‘

’’ہاں ‘‘ اس نے جھینپتے ہوئے کہا۔ ’’اگر اس وقت ساتھ والی سیٹ والا اتنی تیزی سے نیچے نہ اترتا اور وہ اس کے پیچھے نہ بھاگتے تو بریف کیس کھل گیا تھا۔‘‘

’’ساتھ والی سیٹ والا۔‘‘ اس کے ساتھی نے حیرانی سے پوچھا۔

’’ہاں ساتھ والی سیٹ والا، وہی خشخشی داڑھی والا تھوڑی دیر پہلے ہی تو پچھلی سیٹوں سے اٹھ کر آگے آیا تھا۔‘‘

اس کے ساتھی نے اسے عجیب بے یقینی سے دیکھا۔ ’’لیکن تمھاری ساتھ والی سیٹ تو سارے رستے خالی رہی ہے۔‘‘

اسے کچھ دیر اس کی بات سمجھ نہ آئی، پھر بولا۔۔۔  ’’لیکن‘‘

’’لیکن کیا۔۔۔  تمھارے ساتھ والی سیٹ تو سارے رستے خالی رہی ہے اور اب بھی خالی ہے۔‘‘

’’تو پھر۔۔۔ ‘‘ وہ بڑبڑایا۔۔۔  ’’وہ کون تھا؟‘‘

’’کون۔۔۔  کون تھا‘‘ اس کے ساتھی نے حیرت سے پوچھا۔

’’وہی۔۔۔ ‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔۔۔

کچھ دیر سوچتا رہا پھر جیسے خود سے کہہ رہا ہو بولا۔۔۔  ’’شاید وہ میں ہی تھا‘‘

اور خاموشی سے چائے پینے لگا۔

٭٭٭

 

آئینہ گزیدہ

خوف باہر سے آئے تو اس سے بچنے کی کوئی نہ کوئی صورت تلاش کی جا سکتی ہے لیکن جب وہ اندر سے رینگ رینگ کر باہر نکلے تو اپنے آپ سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے، پچھلے کئی دنوں سے وہ اسی ڈر کی سرمئی چادر میں لپٹا ہوا تھا، کبھی لگتا کوئی دبے پاؤں پیچھے آ رہا ہے، کبھی آئینہ دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا کہ اس کے چہرے کے اندر سے کچھ عجب سے ڈراؤنے خد و خال ابھر رہے ہیں لیکن جونہی وہ چوکنا ہوتا، ابھرتا ہوا چہرہ اس کے چہرے کے اندر نیچے اتر جاتا۔ اسے احساس ہوتا کہ اس کے وجود کے اندر کوئی ڈراؤنا سا وجود پرورش پا رہا ہے۔ شروع شروع میں شائد اس کا سائز بہت ہی ننھا سا تھا۔ کبھی کبھار کسی سے باتیں کرتے، ہنستے، کھیلتے، وہ وجود کی گہرائیوں میں دور نیچے کہیں کلبلاتا، اور آپ ہی خاموش ہو جاتا، پھرنا محسوس طور پر اس کی حرکت کبھی تیز اور کبھی کئی کئی دن کے لیے ساکت ہو جاتی اور اسے بھول ہی جاتا کہ اس کے اندر کوئی شے کبھی کبھی کلبلائی بھی ہے۔

لیکن اب ادھر پچھلے چند روز سے ایک عجب طرح کا خوف رس رس کر اس کے اندر سے نکل رہا تھا۔ اسے خیال آتا کہ کہیں میرے وجود میں کوئی دراڑ تو پیدا نہیں ہو گئی۔ یہ ہر وقت کیا رستا رہتا ہے۔ وہ اپنے سارے بدن پر ہاتھ پھیرتا لیکن کہیں کوئی دراڑ نظر نہ آتی۔ تو پھر یہ کیا ہے؟

یہ کون کبھی کبھی میرے اندر انگڑائی لیتا ہے اور کنگھی کرتے، شیو کرتے یہ آئینہ میں ؟ ایک لمحے کے لیے میرے چہرے کی بجائے یہ کس کا ڈراؤنا چہرہ ابھرتا ہے؟ یہ چہرہ آئینہ کے اندر ہے یا میرے چہرے کے اندر، عجب سے ڈراؤنے خد و خال والا یہ چہرہ لمحہ بھر کے لیے ابھرتا اور اس کے چونکتے اندر ڈوب جاتا، رات کو بھی کبھی کبھی بتی بند کر کے بستر کی طرف جاتے ہوئے اپنے پیچھے کسی چاپ کا احساس ہوتا، وہ تیزی سے مڑتا، بس ایک سایہ سا محسوس تو ہوتا اور پھر کچھ بھی نظر نہ آتا، یہ کون میرا پیچھا کرتا ہے؟ باہر ہے یا میرے اندر، کوئی میرے اندر سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے یا باہر سے اندر داخل ہو کر مجھے قابو کرنا چاہتا ہے، کچھ سمجھ نہ آتا۔ کیا معلوم اس کی ہیئتیں ہی تبدیل ہو رہی ہوں۔ تبدیلی کا یہ احساس تھا تو اندر سے، باہر سے ہوتا تو کوئی نہ کوئی ضرور ٹوکتا۔ اب کسی سے پوچھتے بھی جھجک آتی تھی، اور پوچھے بھی کیا۔ میری صورت تو تبدیل نہیں ہو رہی۔۔۔  کوئی تبدیلی؟ ایسے ہی ذرا سی بھی، سننے والا ہنس ہی پڑتا، لیکن یہ اندر کیا شے تھی۔ کبھی کبھی جی چاہتا کہ ایک زور کی ابکائی لے کر اسے باہر اُگل ڈالے، لیکن پھر لگتا کہ کیا معلوم وہ شے اندر سے نکلے ہی نہ۔ یا نکل آئے تو حلق میں آن کر پھنس جائے۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جائے، خوف نے اس کے وجود پر ہولے سے دستک دی۔ یہ خوف ہی تو ہے جو اس کے اندر سے رس رس کر نکل رہا ہے۔

چاپ کبھی تیز ہوتی ہے کبھی مدھم، اور وہ جو پیچھے پیچھے چلا آتا ہے کبھی باہر ہوتا ہے کبھی اندر اور اندر تو ایک وسیع خلا ء ہے، جس کی سرمئی دھند میں کسی کو تلاش کرنا اتنا آسان نہیں ، رات کے پچھلے پہروں میں اس نے کئی بار اس خلاء میں اترنے کی کوشش کی لیکن زیادہ دور تک نہ جا سکا کہ وہاں ایک انجانا ڈر ناکہ لگائے بیٹھا ہے، ایک حد سے آگے نہیں جانے دیتا۔ ایک حد سے آگے جانے کی جرات تو اسے ساری زندگی کسی معاملے میں نہ ہوئی۔ اس کی آزادی تو اس ایک ان دیکھی رسی کی لمبائی تک محدود تھی جو اس کے اندر بہت اندر کسی نامعلوم کھونٹے سے بندھی ہوئی تھی، اور یہ خوف یہ نامعلوم سا ڈر شائد ہمیشہ ہی اس کے اندر کہیں نہ کہیں موجود رہا تھا ایک تیرتے ہوئے بادل کی طرح جو اندر کے خلاء میں آہستہ آہستہ ادھر سے ادھر آتا جاتا رہتا تھا، لیکن اب کچھ عرصہ سے جیسے یہ بادل ٹھہر گیا تھا اور اس نے دھیرے دھیرے ایک وجود کی صورت اختیار کر لی تھی، پہلے چھوٹا سا، پھر بڑا ہوتے ہوتے اس کے قد سے بھی نکلتا ہوا ایک ڈراؤنا وجود، جو اب اکثر اس کے اندر سے نکل کر باہر آ جاتا۔

شروع شروع میں اس کا احساس ایک نامعلوم نا محسوس چاپ کی صورت میں ہوا، مڑ کر دیکھتا تو کچھ بھی نہ ہوتا، چند دنوں بعد اس وہم سے چھٹکارا پایا تو آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر ایک بد ہیئت سے چہرے کے خد و خال ابھرتے، جیسے ایک پل کے لیے اس نے کوئی ماسک پہن لیا ہے، لیکن جونہی وہ چوکنا ہوتا، اس کا اپنا چہرہ آئینہ میں جھلملانے لگتا، پھر کچھ عرصہ بعد یوں لگا جیسے کبھی کبھی اچانک اس کے وجود کو کرنٹ سا لگتا ہے، ایک نا محسوس کپکپاہٹ اس کے سارے وجود کو ہلا دیتی، جیسے دفعتاً کوئی جھٹکا لگا ہے۔ شروع شروع میں وہ خود کو یہی دلاسہ دیتا رہا کہ شائد بے خیالی میں اس کا ہاتھ کسی ایسی جگہ پر جا لگا ہے جہاں کرنٹ ہے، لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی شے کو چھوئے بغیر ہی اسے یہ جھٹکا لگا۔ اب اس نے سوچنا شروع کیا کہ اگر کسی شے کو چھوتے چھوتے مجھے یہ جھٹکا نہیں لگتا تو وہ کونسی شے یا منظر ہے جسے دیکھ کر اس کے اندر کوئی انگڑائی لیتا ہے۔ بہت دنوں تک بہت غور کر کے بھی اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیفیت اس پر کب اور کیوں طاری ہوتی ہے۔ چند دن کھانے پینے میں بھی احتیاط کی کہ شاید زیادہ کھانے کا خمار، یا زیادہ نیند کا نشہ اس کے بدن پر کوئی چٹکی لیتا ہو، پھر خیال آیا شاید اس کے مطالعے میں کوئی ایسا موضوع ہو جو اس کے تخیل میں سر سرا کر اس کے وجود میں اتر آتا ہو، پھر سوچا شائد اس کے ملنے جلنے والوں میں کوئی ایسا ہو جس کا اثر سائے کی طرح اس کے ساتھ لگ گیا ہو، پھر خیال آیا شائد سیر کرتے ہوئے شام کو وہ کسی ایسی جگہ سے گزرتا ہو جو بھاری ہو اور وہاں کوئی ایسا ان دیکھا وجود میں ہو جو اس کے اندر اترنے اور جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہو۔ لیکن بہت غور کرنے اور احتیاط کے باوجود وہ کسی وجہ تک نہ پہنچ سکا۔ آخر تھک کر اس نے اس حد تک سمجھوتہ کر لیا کہ اگر اس کے وجود کے آلنے میں اس کے علاوہ کوئی اور پرندہ بھی آن بسا تو کیا ہے، دونوں اپنے اپنے حصے کی جگہ بانٹ لیتے ہیں اور چپ چاپ، ایک دوسرے کو کچھ کہے بغیر، ایک دوسرے کی پرواز میں رکاوٹ ڈالے بغیر اپنی اپنی جئے جاتے ہیں ، ایک کے دو ہو گئے تو پھر کیا ہے، آخر کل اسی طرح تو اجزاء میں بٹتا رہتا ہے، شائد کسی موقعہ یا مرحلہ پر وہ بھی ایک ہو جائیں یا ان میں سے ایک اسی آلنے کو چھوڑ دے، لیکن یہ اطمینان کچھ دیر ہی رہا، یہ جو چہرے کے اوپر ایک اور چہرہ ابھرنے لگتا ہے، اس کا کیا کرے، یہ خوفناک ڈراؤنا چہرہ تو اسے کسی قیمت پر قبول نہیں۔ اس چہرے کو۔۔۔  اس چہرے کو، سوچتے سوچتے اسے دفعتاً خیال آیا، یہ چہرہ تو صرف اس وقت ابھرتا ہے جب وہ آئینہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، تو۔۔۔  تو، کیا اسے کسی نے کاٹ لیا ہے۔۔۔  آئینہ گزیدہ۔۔۔  وہ بڑبڑایا، اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ جس آئینہ کا وہ ڈسا ہوا تھا، وہ تو اس کا اپنا آپ تھا۔

٭٭٭

 

سراب

شہر تو کئی شہروں کا ایک شہر تھا، اس لیے کسی ایک حصہ میں چلنے والی گولیوں کی تڑ تڑ اور چیخیں دوسرے حصے میں سنائی نہیں دیتی تھیں ، لیکن فضا میں خوف کی ایسی چپچپاہٹ تھی جو سسکیوں اور آہوں کو لمحوں میں ایک سرے سے دوسرے تک پہنچا دیتی تھی، اس لیے شہر کے کسی بھی حصے میں ابھرنے والی کراہ لمحہ بھر میں چاروں طرف پھیل جاتی، فضا میں چھائے خوف نے چوکنا تو کر ہی دیا تھا اس لیے کوئی بھی غیر معمولی حرکت یا بات فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیتی اور اس عورت کی تو ساری حرکتیں ہی مشکوک تھیں ، ایک تو اس کا بار بار کبھی چوکنا ہو کر اور کبھی کن انکھیوں سے آس پاس کا جائزہ لینا اور دوسرے چادر میں لپٹی ہوئی کوئی شے جسے وہ مضبوطی سے سینے سے چمٹائے ہوئے تھی، یہی لگ رہا تھا کہ ابھی ایک لمحے میں چادر ہٹا کر کوئی ہتھیار باہر نکلے گا اور پھر تڑ تڑ تڑ، یا یہ بھی کہ اس چادر میں کوئی دھماکا کرنے والی شے ہو جسے کہیں چھپانے کے لیے وہ مناسب موقع کی تلاش میں ہو، یہ بار بار کن انکھیوں سے اور کبھی چوکنا ہو کر اردگرد کا جائزہ لینا اور ذرا بچ بچ کر، پرے ہٹ ہٹ کر ایک طرف ہونا، ٹی وی پر ریڈیو پر روز اشتہار آتا تھا کہ کسی بھی مشکوک حرکت یا شے کو نظر انداز نہ کریں ، خیال آیا اپنے لیے نہ سہی دوسروں کے لیے ہی، اسے اس عورت پر نظر رکھنا چاہیے، چنانچہ وہ ذرا اس کے قریب آگیا۔ بس سٹاپ پر اس وقت رش نہیں تھا کیونکہ چھٹی ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا اور لوگ گھروں کو نکل گئے تھے، اب تو بس اکا دکا پیچھے رہ جانے والے باقی تھے، اس کے قریب آنے سے عورت چونکی، لمحہ بھر کے لیے اس نے شک بھری نظروں سے اسے دیکھا اور سمٹ کر بس سٹاپ کی دیوار سے لگ گئی، یوں لگا جیسے اس نے چادر میں لپٹی ہوئی شے کو زیادہ مضبوطی سے سینے سے چمٹا لیا ہو۔

وہ ذرا سا اور قریب آگیا اور جیسے اپنے آپ سے کہہ رہا ہو،

بولا۔۔۔  ’’پتہ نہیں اب بس آتی بھی ہے کہ نہیں ‘‘

یہ سن کر عورت نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔  ’’بس نہیں آئے گی تو پھر۔۔۔ ‘‘

اسی وقت ایک ٹیکسی قریب آن رکی، ڈرائیور نے منہ نکال کر کہا۔۔۔  ’’چار نمبر تک پانچ پانچ روپے‘‘

چار پانچ لوگ جو بس سٹاپ کے آس پاس تھے، دوڑ کر ٹیکسی کی طرف لپکے اور ایک دوسرے کو دھکیل دھکال کر، ٹیکسی میں گھس گئے۔ اب بس سٹاپ پر وہی دو رہ گئے۔

عورت نے شک اور گھبراہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’تو بس نہیں آئے گی؟‘‘

’’شاید‘‘

’’تو پھر۔۔۔ ‘‘ اس نے چادر میں لپٹی شے کو اور مضبوطی سے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔

’’آپ نے کہاں جانا ہے؟‘‘

وہ چپ رہی، خاصی دیر چپ رہی پھر دھیرے سے بولی۔۔۔  ’’گھر‘‘

’’کہاں ہے آپ کا گھر؟‘‘

اس کی آنکھوں میں عجیب سی نمی چمکی، کچھ بے بسی سی، کچھ اجنبیت سی، ’’میرا گھر۔۔۔ ‘‘ بے ربط سا جملہ، نامکمل۔

’’ہاں آپ کا گھر، میرا مطلب ہے آپ کو جانا کہاں ہے؟‘‘

’’پتہ نہیں ‘‘ اب اس کی حیرت میں شک زیادہ تھا۔ ’’تو آپ کہیں باہر سے آ رہی ہیں۔‘‘

’’نہیں تو‘‘ اب ذرا سی سنبھل گئی تھی۔ ’’لیکن یہ بس۔‘‘

’’شاید کہیں کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے‘‘ اس نے فضا میں پھیلے خوف اور خاموشی کو سونگھتے ہوئے کہا۔۔۔  ’’لگتا ہے بسیں بند ہو گئی ہیں ، اب شاید۔۔۔ ‘‘

وہ تیز ہوا کی زد میں آئی تنہا شاخ کی طرف کانپی، چادر میں لپٹی شے کے گرد اپنے بازوؤں کے حصار کو تنگ کرتے ہوئے لرزتی آواز میں بولی ’’تو پھر ہم۔۔۔ ‘‘

اس نے چادر میں لپٹی شے کی طرف گھبرا کر دیکھا۔

’’یہ کیا ہے‘‘ اب وہ نہ رہ سکا۔

’’یہ۔۔۔ ‘‘ وہ چوکنی ہو گئی، چند لمحے غور سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔ ‘‘ یہ۔۔۔ یہ بچہ۔۔۔ میرا بچہ‘‘

’’اوہ‘‘ اس کے سینے سے اطمینان کی گہری سانس یوں نکلی جیسے کوئی پرندہ قفس سے آزاد ہوا ہو۔

سڑک دور دور تک خالی ہو گئی تھی۔ قدرے خاموشی کے بعد وہ بولا۔۔۔  ’’میرا خیال ہے بسیں رک گئی ہیں ، شاید کوئی ٹیکسی آ جائے تو ہم شیئر (Share) کر لیں ، لیکن آپ نے جانا کہاں ہے؟‘‘

اس نے جیسے آخری بات سنی ہی نہیں۔۔۔  ’’لیکن اگر ٹیکسی نہ آئی۔‘‘

’’تو پیدل ہی، گلیوں میں سے بچتے بچاتے، لیکن آپ نے۔۔۔ ‘‘

’’یہ ٹھیک ہے‘‘ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔ ‘‘ یہ بالکل ٹھیک ہے، گلیوں میں سے بچتے بچاتے‘‘ اس نے چادر میں لپٹے بچے کے گرد بازوؤں کے حصار کو مضبوط کیا اور کوئی بات کئے بغیر وہ آگے پیچھے، ایک گلی میں مڑ گئے۔

میں تو اپنے گھر جا رہا ہوں۔۔۔  اس نے سوچا۔۔۔  اور یہ۔ وہ ذرا آہستہ ہو کر اس کے برابر آگیا۔ وہ بچے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹائے پھونک پھونک کر قدم رکھتی، چوکنی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لیتی اس سے دو چار قدم پیچھے تھی، اس کے برابر آنے سے ذرا سی گھبرا گئی۔ وہ سمجھا شاید بچے کے بوجھ سے تھک گئی ہے بولا۔۔۔  ’’بچہ مجھے دے دیجئے۔‘‘

’’کیوں ‘‘ وہ گھبرا کر دو چار قدم دور ہٹ گئی۔۔۔  ’’کیوں ‘‘ اور اس نے چادر میں لپٹے بچے کو بانہوں کے حصار میں اس طرح دبا لیا کہ بمشکل چادر ہی نظر آئی۔

’’میرا مطلب ہے۔۔۔  نہیں نہیں ، آپ شاید غلط سمجھیں ، میں تو۔۔۔  اصل میں میرا مطلب تھا کہ آپ بچے کو اٹھائے اٹھائے تھک گئی ہیں۔ اس لیے۔‘‘

وہ گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔  دیکھتی رہی پھر جیسے اس کے چہرے پر اعتماد کی ایک لہر سی گزری۔

’’میں تھکی نہیں اور یہ بچہ۔۔۔ ‘‘

اس لمحے کہیں قریب ہی سے گولیوں کے چلنے اور کسی کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔ سنسان گلی میں دور تک کوئی نہیں تھا، وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹھک گئے۔ آگے بڑھیں یا رک جائیں ، گلی سنسان اور دروازے بند۔۔۔  یہاں تو پناہ کے لیے بھی کوئی دروازہ نہیں کھولتا، کون جانے پناہ مانگنے والے کون ہیں ؟

فضا میں پھیلے خوف کی بو نے انھیں تیز کر دیا۔ اب وہ برابر چل رہے تھے۔

’’’یہ بچہ۔۔۔ ‘‘ وہ آپ ہی آپ بولی۔

’’یہ بچہ۔۔۔ ‘‘ اس نے استفسار سے اس کی طرف دیکھا۔

’’کیا ہوا اس بچے کو، ٹھیک تو ہے نا۔‘‘

’’یہ بچہ۔۔۔ ‘‘ وہ یکدم پر جوش سی ہو گئی، اس کی آنکھوں میں اعتماد کی چمک پیدا ہوئی۔ ’’یہ بچہ ہی تو ہمیں بچائے گا۔‘‘

وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔

’’یہ کوئی عام بچہ نہیں ‘‘ وہ جیسے اس کی خاموشی سے لطف اندوز ہوئی۔۔۔  ’’یہ تو بچانے والا ہے۔‘‘

’’بچانے والا۔‘‘

’’ہاں۔۔۔  مجھے بشارت ہوئی تھی۔‘‘

’’بشارت۔‘‘

’’ہاں بشارت۔‘‘ وہ رک رک کر بولی جیسے فضا میں لکھی کوئی تحریر پڑھ رہی ہو۔۔۔  ’’ہمارا شہر جل رہا ہے، میں بھی جلی ہوں۔۔۔  میرا بھائی۔‘‘ اس کی آواز آنسوؤں میں بھیگ گئی۔۔۔ ‘‘ روتے روتے ایک رات آنکھ لگی تو خواب میں دیکھا کہ سمندر کنارے ایک ٹیلے کی اوٹ میں یہ پڑا ہے، ایک غیبی آواز آئی کہ یہی تو ہے جو شہر کو اس آگ سے بچائے گا۔‘‘

گولیوں کی تڑ تڑ کبھی دور ہوتی، کبھی بہت قریب آ جاتی، ایک دوسرے کا سہارا لیتے، چھجوں کی اوٹ میں چھپتے چھپاتے وہ ایک گلی سے دوسرے گلی میں مڑ گئے۔

’’یہ۔۔۔ یہ‘‘ اس نے بازوؤں کے حصار کو مضبوط بناتے ہوئے کہا۔۔۔  ’’اس شہر کو ضرور بچائے گا، لیکن پہلے اسے بچانا اور میں دو دنوں سے اسے لیے لیے پھر رہی ہوں۔‘‘

’’ہاں شہر کو بچانا ہے۔۔۔ ‘‘ وہ بڑبڑایا۔۔۔  ’’اس شہر کو بچانا ہے۔‘‘

اس کے اندر اعتماد اور سکون کی ایک گرم لہر نے انگڑائی لی۔۔۔  ’’ہم اس بچے کی۔۔۔  ہم دونوں اس بچے کی۔۔۔ ‘‘

اس نے تشکر اور ہمدردی سے اس کی طرف دیکھا۔

وہ بولا۔۔۔  ’’یہ گلی بڑی سڑک پر نکلے گی، ہمیں دوڑ کر سڑک کراس کرنا ہے۔ سامنے والی گلی میں داخل ہو کر ہم محفوظ ہو جائیں گے۔‘‘

وہ اس کے قریب ہو گئی۔ ’’میں دوڑ لوں گی۔‘‘

’’بس اب تیز۔۔۔  ہم سڑک پر پہنچنے ہی والے ہیں۔‘‘

لیکن ابھی وہ گلی کے اندر ہی تھے کہ گلی کے دہانے سے کلا شنکوف کی نالی اندر آئی، انھوں نے گھبرا کے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر بیک وقت چادر میں لپٹے بچے کی طرف دیکھا۔

’’یہ بچہ انھیں ضرور۔۔۔ ‘‘ دونوں نے بیک وقت سوچا۔

لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ چادر میں لپٹے لپٹے، دم گھٹنے سے بچہ کبھی کا مر چکا ہے۔

٭٭٭

 

دھندلکا

یوں لگتا تھا جیسے سکرپٹ میں اس کا کردار اسے بتائے بغیر تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ واقعات اور اس کے خیالات میں کوئی تال میل نہیں رہا تھا، اب اگر یہیں سے شروع کیا جائے کہ وہ گھر بیٹھے بیٹھے اکتا گیا تھا اور صرف تازہ ہوا کھانے کے چکر میں باہر نکل آیا تھا۔ موٹر سائیکل سٹارٹ کرتے ہوئے اس کے ذہن میں یہی تھا کہ ہوٹل میں کوئی دوست مل ہی جائے گا۔ کچھ دیر تک گپ شپ ہو جائے گی اور بس۔ موڑ مڑ کر ابھی وہ بڑی سڑک پر کچھ ہی دور گیا تھا کہ کنارے کھڑے ایک شخص نے ہاتھ دیا۔ غیر شعوری طور پر موٹر سائیکل کی رفتار کم ہو گئی۔

’’مجھے پوسٹ آفس تک جانا ہے۔ مہربانی‘‘ وہ پیچھے بیٹھتے ہوئے بولا۔ اس نے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے گئیر لگا دیا۔ موٹر سائیکل اپنی روانی میں آگے بڑھ گئی۔ نہ اس نے کوئی بات کی نہ پیچھے والا کچھ بولا۔ بس سڑک تیزی سے موٹرسائیکل کے پہیوں کے نیچے سے سرکتی رہی بڑے چوک سے ذرا سا پہلے ناکہ لگا ہوا تھا۔ پیچھے والا ایک دم بولا ’’ذرا آہستہ کیجئے‘‘ اس نے گئیر بدل کر جتنی دیر میں رفتار کم کی۔ پیچھے والا تیزی سے اتر کر بائیں طرف کی گلیوں میں ہولیا۔ منہ پر پڑنے والی ٹارچ کی روشنی نے موٹرسائیکل کو تقریباً ساکت کر دیا۔ اس نے موٹر سائیکل کھڑی کر کے جیب سے لائسنس نکال کر تھانیدار کی طرف بڑھایا جس نے دو چار سپاہیوں کے ساتھ اس کے گرد تقریباً گھیرا ڈالا دیا تھا۔ تھانیدار نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’اس میں کیا ہے؟‘‘ تھانیدار کی چھڑی کی روشنی میں اس نے مڑ کر کیرئیر کی طرف دیکھا۔

’’یہ۔۔۔  یہ میرا تو نہیں تھا‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’یہ تو۔۔۔  شاید‘‘ تھانیدار نے پیکٹ پر بندھی ہوئی رسی کو بے تابی سے توڑا۔ ریپر کھولا۔ ایک نظر ڈالی اور پھر سپاہیوں نے اسے دبوچ کر پولیس وین میں ڈال دیا جو اس دوران ان کے قریب آ گئی تھی۔

وہ ساری رات اس سے یہی پوچھتے رہے کہ یہ پمفلٹ کس پریس میں چھپے ہیں اور اس کے باقی ساتھی کون ہیں۔ اس کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس دوران مار کھا کھا کر اس کی آنکھ سوجھ گئی۔ جسم پر جابجا نیل پڑ گئے اور شاید ٹخنے کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی کیونکہ تھانیدار کی ٹھوکر کے بعد ٹیسوں نے اب تیز درد کی صورت اختیار کر لی تھی۔

صبح جب چمکیلی دھوپ چاروں طرف اٹھکھیلیاں کرتی پھر رہی تھی وہ ایک ایسے گہرے اندھیرے میں گردن گردن ڈوبا ہوا تھا جس میں اپنا وجود بھی غیر محسوس ہو گیا تھا۔ درد کی ٹیس کہاں سے اٹھتی تھی اور کہاں جاتی تھی، اس کا بھی احساس نہیں رہا تھا۔ بس ایک گہرا اندھیرا تھا، جس میں اس کا وجود کبھی ڈوبتا کبھی ابھرتا، پھر یوں لگا جیسے اندھیرا اور غلاظت ایک دوسرے میں لت پت ہو گئے ہیں ، ایک کیچڑ سا اس کے نچلے دھڑ سے لپٹ گیا ہے۔ جس کی نمی اسے کاٹ رہی ہے۔ وقت گزر رہا تھا یا تھم گیا تھا۔ آوازیں موجود تھیں یا سب کچھ بے آواز تھا، بس اس کے سانس کی دھڑکنیں تھیں ، یہی وقت کے گزرنے کی علامت تھی، سونے جاگنے کی اس ملی جلی کیفیت اور ہونٹوں کے کسی کونے سے رس رس کر آنے والے لہو کے نمکین ذائقے میں شائد دن گزر گیا۔ باہر کومل تاریکی دبے پاؤں بالکونیوں سے کمروں میں اتر آئی۔ اندر تیز روشنیوں میں نہا گیا۔ تیز کاٹتی روشنی اس کے چہرے پر فکس ہو گئی۔ اس کی سوجی آنکھیں اور بند ہو گئیں۔ ٹھڈوں ، گالیوں اور کسی ہنٹر نما تیز شڑاپ میں جسم بے حس ہو گیا۔ آوازیں کہیں دور سے اور کبھی قریب سے آتیں۔

’’پریس کہاں ہے؟‘‘

’’دوسرے لوگ کون ہیں ؟‘‘

لفظ بے معنی تھے۔ لمحہ بھر کے لیے آنکھوں میں حرکت ہوئی تو جسم کے کسی حصے میں درد لہرا کر رقص کرتا، پھر آوازوں اور روشنیوں کا بھنور گھومنے لگتا اور وہ ڈوبتا چلا جاتا۔ نیچے اور نیچے گہرائیوں کی طرف۔

روشنیوں اور تاریکیوں کی آنکھ مچولی میں غلاظت اور نمی میں لت پت کبھی ہونے اور کبھی نہ ہونے کے احساس میں گھر ایک موہوم نقطے کی طرح ابھرتا، پھیلتا اور ڈوب جاتا۔ اس کا وجود اب صرف گالی تھا جس سے اسے پکارا جاتا۔ بے معنی سوال جو اس کی سمجھ میں نہ آتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے جواب جو دوسروں کے پلے نہ پڑتے۔ نام اور شخصیت دونوں ہی بے نام اور گمنام ہو گئے تھے۔ کوئی اس کا ہے بھی؟

دن، وقت، لمحے تھے تو کہاں ، اس کے آس پاس تو اندھیرا ہی اندھیرا تھا، یا پھر اس اندھیرے کے بطن سے نکلتی وہ تیز روشنی جو سیدھے اس کے منہ پر پڑتی اور زخمی چہرے اور سوجی آنکھوں پر چھروں کی طرح لگتی۔

بہت دونوں بعد یا صدیوں بعد اس گھور اندھیرے میں ایک نحیف سی کرن چمکی، کسی نے اس کا نام لے کر پکارا۔ اسے حیرت ہوئی۔ ’’تو کیا یہ میں ہوں۔ فلاں ابن فلاں ابن فلاں ‘‘۔۔۔  اس گھپ اندھیرے میں تو نام کوئی شے نہیں ، بس نہ سمجھنے والے سوالوں کی ایک بوچھار اور گالیوں ، تھپڑوں اور ٹھڈوں کا ایک طوفان،۔۔۔  اس کا تو وہ نام نہیں جس سے اسے پکارا جاتا تھا، اور یہ نام، شائد اسی کا ہے، تو پکارنے والا کون ہے۔ اس نے سوجی ہوئی آنکھوں کو مشکل سے کھولا۔ ایک دھندلا سا چہرہ اس پر جھکا ہوا تھا۔

آہستگی اور شفقت سے ہلتے ہونٹوں سے پھر اس کا نام نکلا۔ ’’میں۔۔۔ ‘‘ سوجے پھٹے ہونٹوں سے سسکار سی نکلی۔ دھندلا سا چہرہ پیچھے ہٹا۔ اس کی سوجی آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو ہر شے سفید تھی، سفید بستر، سفید چادر اور سفید لباس میں اس پر جھکا ہوا شفیق سا چہرہ۔ آنکھوں کے نیچے ابھرے ہوئے نیلوں نے پپوٹوں کو پھر جھکا دیا۔ ملی جلی آوازوں کے مدھم بھنور نے اسے اپنے اندر سمو لیا۔ نیم وا آنکھوں سے دیکھا تشویش، محبت اور فکر سے بھری کئی نظریں اس پر جھکی آ رہی تھیں۔

پھر آنکھ کھلی تو ساری فضا میں مانوسیت کا احساس تھا۔ کمرہ بھی اپنا تھا اور بستر بھی وہی۔

’’مجھے کیا ہوا تھا؟‘‘ اس نے نحیف آواز میں پوچھا۔

’’نیند میں ڈر گئے تھے۔ شائد کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے‘‘ ایک شفیق محبت بھری آواز نے جواب دیا۔

’’لیکن۔۔۔ ‘‘ اس نے پسلیوں میں سرسراتے درد اور چہرے کی اینٹھن کو محسوس کرتے ہوئے آہستہ سے کہا۔۔۔  ’’خواب۔۔۔  لیکن خواب میں سچ مچ تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے نشانات تو۔۔۔ ‘‘

’’بعض خواب عجیب ہوتے ہیں ‘‘ شفیق آواز نے آہستہ سے جواب دیا۔

’’لیکن وہ موٹرسائیکل اور وہ۔۔۔ ، وہ بڑبڑایا۔ پھر فوراً ہی خیال آیا اس کے پاس تو موٹرسائیکل ہے ہی نہیں۔ وہ تو پیدل یا بسوں میں سفر کرتا ہے۔ تو پھر۔۔۔

شائد بعض اوقات کردار کو بتائے بغیر سکرپٹ میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ تو بس جب سکرپٹ کچھ اور ہو اور کردار کچھ اور تو کئی طرح کی گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔۔۔  اسے کچھ سمجھ نہ آیا، غنودگی نے اسے پھر اپنی بکل میں دبا لیا اور وہ کروٹ بدل کر گہری نیند سو گیا۔

٭٭٭

 

نہیں تعبیر کوئی

گاؤں کے سارے وسنیک پنڈال میں جمع تھے۔ سہرا باندھنے کے بعد اسے رنگ دار رسیوں کی بنی ہوئی اونچی چوکی پر بیٹھایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ، جس کے لیے اس نے برسوں خواب بنے تھے، سرخ جوڑا پہنے سہیلیوں کے جھرمٹ میں پنڈال میں آئی۔ مہندی بھری انگلیوں نے ڈھولک کو چھوا، تھاپ کی آواز رقص کرتے چاروں طرف پھیل گئی، اس کے ساتھ ہی ماہیے کے بول انگڑائیاں لیتے فضا میں تیرنے لگے۔ محفل ابھی جمی ہوئی تھی کہ اس لمحے جب وہ کن انکھیوں سے، سرخ جوڑے میں سمٹی سمٹائی دلہن کو دیکھ رہا تھا، وہ جنوب مشرقی سمت سے گاؤں میں داخل ہوا اور لاٹھی ٹیکتا پنڈال میں آگیا۔ اس لمحے ڈھولک کی تھاپ اور ماہیے کے بول پنڈال میں گونج رہے تھے۔ قہقہوں ، باتوں اور جگتوں کی آوازیں میلے کا سا سماں باندھے ہوئے تھیں۔ اس کے اندر آتے ہی چند ہی لمحوں میں خود بخود ایک خاموشی چھا گئی۔

ایک پراسرار چپ۔۔۔  ڈھولک پر تھاپ لگاتی انگلیاں جہاں تھیں وہیں جمی رہ گئیں۔ بول ہونٹوں کے دریچوں میں سمٹ گئے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ آنے والے کی نظریں اسی پر جمی ہوئی تھیں۔ یوں لگا جیسے کوئی پر اسرار شے آنے والے کی آنکھوں سے نکل کر اس کے وجود میں گم ہو گئی ہے، ماہیے کے بول دور ہوتے چلے گئے اور وہ، وہ بھی جو سرخ جوڑا پہنے اس کی طرف حیرت سے دیکھ رہی تھی آسمان سے ٹوٹے تارے کی طرح دور ہوتی ہوئی معدوم ہوتی چلی گئی۔

آنے والا مڑا اور لاٹھی ٹیکتا مغرب کی طرف چل پڑا۔ اس نے اپنا سہرا اتارا اور کچھ کہے بغیر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ جب وہ دونوں آگے پیچھے چلتے گاؤں سے نکل رہے تھے تو پیچھے سے آتی آوازوں کا ایک ہجوم دامن تھام رہا تھا ان میں اس کی کرلاتی آواز بھی تھی جو سرخ جوڑا پہنے اس کے لیے پنڈال میں آئی تھی لیکن اس کے اندر کوئی پراسرار شے آن بسی تھی۔ جس نے لمحہ بھر میں اسے ساری آوازوں سے دور کر دیا۔۔۔  سارے رشتے ناتے بے معنی ہو گئے۔

وہ اس کے پیچھے چپ چاپ چلتا رہا۔ جنگلوں صحراؤں اور شہروں سے گزرتے جب وہ ایک بڑے دریا کے کنارے پہنچے تو اس نے پوچھا۔۔۔  ’’اے شیخ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘

شیخ نے مڑے بغیر جواب دیا۔۔۔  ’’منزل کی طرف‘‘ اس نے پوچھا۔۔۔  ’’منزل کہاں ہے؟‘‘

شیخ نے پھر بغیر مڑے جواب دیا۔۔۔  ’’جدھر ہم جا رہے ہیں ؟‘‘

اب کچھ پوچھنے کی گنجائش ہی نہ تھی۔

پتھروں ، کنکروں ، صحراؤں اور سبز گھاس پر چلتے وہ کئی مہینوں بعد ایک بستی میں داخل ہوئے جہاں ایک بڑی درگاہ تھی۔ جب وہ شیخ کے پیچھے پیچھے درگاہ کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہونے لگا تو دفعتاً آوازوں ، یادوں اور خوابوں کے ایک ہجوم نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے دل میں تاسف پیدا ہوا۔ ڈھولک کی تھاپ اور ماہیے کے بول کانوں میں گونجنے لگے۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔

شیخ نے مڑ کر دیکھا اور بولے۔۔۔  ’’لوٹ کر دیکھنے سے کچھ بھی نہیں ملتا۔

جو منظر پیچھے رہ جائے وہ دھندلاتے دھندلاتے معدوم ہو جاتا ہے۔‘‘

اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’لیکن خوابوں کی لذت۔۔۔ ‘‘

شیخ مسکرائے۔۔۔  ’’لیکن ایک خواب اور بھی ہے۔۔۔  جس کی لذت سب سے انوکھی ہے۔۔۔  خود کو جاننے کا خواب۔‘‘

وہ کچھ نہ بولا۔ اس خواب کی لذت اس کے لیے ابھی اجنبی تھی۔ لیکن چند ہفتوں بعد ہی وہ اس ذائقہ سے واقف ہو گیا۔ ایک رات جب وہ دیر تک درگاہ کے ایک کونے میں بیٹھا شیخ کا بتایا ہوا ورد کر رہا تھا۔ شیخ ایک عجیب پر اسرار ہیولے کی صورت میں اس پر منکشف ہوئے اور اس لمحے اس نے وہ کچھ دیکھا جو اس سے پہلے اسے معلوم نہ تھا۔

ایک اور ہی طرح کی لذت۔۔۔  جس کے ذائقوں نے اسے سب سے بے نیاز کر دیا۔ ڈھولک کی تھاپ ماہیے کے بول، پنڈال میں ناچتی آوازیں اور سرخ جوڑا پہنے وہ۔۔۔  سب دور کسی اندھے فاصلے کی دھند میں گم ہو گئے۔ کئی برس بیت گئے۔

ایک شب شیخ نے اسے بلایا اور اپنے ہاتھ سے اپنی دستار اس کے سر پر رکھی۔ اگلے دن ان کا وصال ہو گیا۔ دستور کے مطابق اسے شیخ کے مرشد کی درگاہ پر حاضری دینے جنوب مشرق کی طرف طویل سفر کے لیے تیار ہونا پڑا۔

حاضری دے کر جب وہ لوٹ رہا تھا تو شام ڈھلے اس گاؤں کی سرحد میں داخل ہوا۔ کھیتوں کی خوشبو اور مٹی کی باس نے اس کے اندر کہیں چٹکی سی لی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک منڈیر پر بیٹھ گیا۔ کئی ماہ سال چشم زدن میں آگے پیچھے ہو گئے۔ سرسبزی اور کھیتوں کی لہلہاہٹ نے ایک عجیب طرح کی گنگناہٹ کی صورت اختیار کر لی۔ لگا آوازوں ، رنگوں اور جذبوں کا ایک دریا اسے اپنے ساتھ بہائے لیے جاتا ہے۔

رات گہری ہوئی جا رہی تھی اور گاؤں کی سمت سے ڈھولک کی تھاپ اور ماہیے کے بولوں کی آوازیں لہروں کی طرح اس کے چاروں طرف رقص کر رہی تھیں۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور لاٹھی ٹیکتا گاؤں کی طرف چل پڑا۔ وہ پنڈال میں داخل ہوا تو گاؤں کی لڑکیاں ڈھول کی تھاپ پر ماہیے گا رہی تھیں۔ دلہن سرخ جوڑا پہنے اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں شرما شرما رہی تھی، دولہا سہرا باندھے رنگ دار رسیوں کی بنی اونچی چوکی پر بیٹھا، کن انکھیوں سے دلہن کو دیکھ رہا تھا۔

اس کے اندر داخل ہوتے ہی ایک پراسرار خاموشی چھا گئی۔ ڈھولک پر تھاپ لگاتی انگلیاں جہاں تھیں وہیں رہ گئیں۔ بول ہونٹوں پر ہی اٹک گئے۔ دولہا نے سہرا الٹا اور کھڑا ہو گیا۔ دونوں کی نظریں ملیں ، لیکن اس سے پہلے کہ کچھ اور ہوتا، ایک بوڑھی عورت دوڑتی ہوئی اس کے سامنے آ گئی اور چیختے ہوئے بولی۔۔۔  ’’کئی برس پہلے تم اسی طرح میری تمناؤں کو لوٹ کر لے گئے تھے‘‘ اب بیٹے کو لینے آ گئے ہو۔‘‘

وہ جہاں تھا وہیں کا وہیں رہ گیا، زمانے نے عورت کے چہرے پر جھریوں کا جال سا بن دیا تھا لیکن ان کے پیچھے چہرہ تو وہی تھا۔۔۔  وہی جس کے لیے اس نے برسوں خواب دیکھے تھے۔ ’’بولو۔۔۔  بولو تمہیں مجھ سے کیا دشمنی ہے؟‘‘ عورت روہانسی ہو گئی۔‘‘

’’میں۔۔۔ ‘‘ لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکا۔

عورت اس کی آواز سن کر چونکی۔ اس نے غور سے اسے دیکھا اور چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔۔۔

’’تم‘‘

پھر کوئی کچھ نہ بولا۔۔۔  وہ خاموشی سے مڑا اور پنڈال کو کاٹتا ہوا اپنے راستے پر ہولیا۔ کچھ دور جا کر احساس ہوا کہ کوئی پیچھے چلا آتا ہے۔

’’جوان لوٹ جاؤ‘‘ اس نے مڑ کر کہا۔ لیکن وہ جوان نہیں تھا۔ عورت کا لڑکھڑاتا سایا تھا۔ اس کے سارے وجود میں ایک یخ لہر دوڑ گئی۔

’’نہیں۔۔۔  نہیں ‘‘ وہ چیختا ہوا دوڑنے لگا۔

اسے لگا ایک ہی لمحے میں اس مقام پر آن پہنچا ہے جہاں سے برسوں پہلے سفر کا آغاز کیا تھا۔

٭٭٭

 

دن صدیوں کی دوری

جوں جوں رات کی سیاہی گاڑھی ہوتی جاتی ہے اس ڈب کھڑبے فرش میں ایک ملائمت آتی جاتی ہے۔ طبلے اور سازوں کے سر ایک دوسرے سے ملاپ کرتے آہستہ آہستہ ایک الاپ میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ تیز روشنی کا ہالہ پورے دالان کو اپنی آغوش میں لے کر لمحہ بھر میں ترو تازہ کر دیتا ہے۔ دھیمے سروں میں خوشبو کی طرح بل کھاتے الاپ میں سے اس کی مدھر آواز ابھرتی ہے جیسے کوئی انگڑائی لیتا بستر شب سے اٹھتا ہے۔ اگلے لمحے سب کچھ نمایاں ہو جاتا ہے۔

بلند مسند پر شاہانہ وقار سے بیٹھا مراد خان ہاتھ کے اشارے سے خوشنودی کا اظہار کرتا ہے۔ چشم زدن میں گھونگھروؤں کی تال چھم چھم کرتی پورے دائرے کا چکر کاٹتی ہے اور انگڑائیاں لیتی مدھر آواز کے ساتھ سارے دالان میں گھوم جاتی ہے۔ نیم دائرے میں بیٹھے ہوئے مراد خان کے مصاحبوں کے منہ سے بے ساختہ سبحان اللہ سبحان اللہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔

اس نیم دائرے میں کہیں میں بھی ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میں کون ہوں اور کس عہد میں جی رہا ہوں۔ رات کی تاریکی پھیلتے ہی میں مراد خان کے مصاحبین میں شامل ہو جاتا ہوں یوں لگتا ہے میرا جینا مرنا اسی دالان سے وابستہ ہے جشن رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ وہ دونوں سج سجا کر آتی ہیں۔ ایک اپنی آواز سے اور دوسری اپنے اعضاء سے محفل پر وجد طاری کر دیتی ہے۔ مراد خان کے مصاحبین منہ سے سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔

رات جب ڈوبنے لگتی ہے تو محفل آہستہ آہستہ دھیمی پڑنے لگتی ہے۔ صبح صادق کی ملگجی روشنی کے ساتھ ساتھ سب کچھ غائب ہو جاتا ہے۔ نرم ملائم فرش پھر ڈب کھڑبا ہو جاتا ہے اور ایک خوفناک سناٹا چھلانگ مار کر بیچوں بیچ آ بیٹھتا ہے۔

اب رات کے منظر میں سے کچھ بھی باقی نہیں ، سوائے میرے، لیکن اب میں مراد خان کا مصاحب نہیں۔ تیل تلاش کرنے والی ایک کمپنی کا انجنیئر ہوں جو تیل کی تلاش میں اس صحرا میں سرگرداں ہے۔ میرا خیمہ اس کھنڈر سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میں یہاں کب اور کیسے پہنچا ہوں۔ یاد پڑتا ہے کہ رات کو حسب معمول پڑھتے پڑھتے آنکھ لگی تھی۔۔۔  پھر معلوم نہیں کیا ہوا۔ شاید اس مدھر آواز اور گھنگھروؤں کی تال کا پیچھا کرتا یہاں آ نکلا۔

جشن کب کا ختم ہو چکا۔ اب ایک ہولناک سناٹا ہے اور میں ہوں کہ ایک عجب پہچان اور ناپہچانی کے عالم میں ان ویران درو دیوار کو تکے جا رہا ہوں۔

’’مراد خان۔۔۔ ‘‘ میں اپنے ذہن پر زور دیتا ہوں یہ نام کتنا مانوس ہے، لیکن خنجر کی طرح کاٹ وار کہ اس کے تصور ہی سے سینے میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔

میرا بیٹ مین مجھے تلاش کرتا ادھر آ نکلتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔  ’’شکر ہے۔۔۔  مجھے پہلے ہی پتہ تھا آپ یہیں ہوں گے۔‘‘

’’مراد خان‘‘ میرے ذہن میں کوئی کلبلاتا ہے۔

مقامی لوگوں سے اتنا ہی معلوم ہوا ہے کہ یہ کھنڈر اس کا محل تھا لیکن یہ بات صدیوں پرانی ہے۔ اب یہ سارا علاقہ ایک ویران صحرا ہے جس میں تیل تلاش کیا جا رہا ہے۔ مقامی آبادی درختوں کے جھنڈ سے کافی پرے ہے۔ درختوں کے جھنڈ کے پاس ہی تپتے صحرا کے کنارے خانہ بدوشوں کے خیمے ہیں جو نہ معلوم عرصے سے وہاں رہ رہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس صحرا میں جہاں پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں یہ لوگ کیا کر رہے ہیں اور اس صحرا سے ان کا کیا رشتہ ہے۔ صحرا کے بیچو بیچ یہ کھنڈر اور اس سے ملحقہ کچھ خستہ عمارتیں ہیں جن کے سامنے ایک پرانا کنواں ہے۔ کنواں مدتوں سے بند تھا۔ کمپنی نے اسے صاف کروا کے اس پر موٹر لگا دی ہے ہمارے خیمے یہاں سے فرلانگ بھر آگے ہیں۔ صبح ہوتے ہی خانہ بدوش عورتیں گھڑے سروں پر اٹھائے کنویں کے اردگرد منڈلانے لگتی ہیں اور پانی کے ایک ایک گھڑے کے لیے منتیں کرتی ہیں۔

میں کام ختم کر کے شام کو اس کنویں کی منڈیر پر آ بیٹھتا ہوں اور چپ چاپ کھنڈر کو تکتا رہتا ہوں ’’مراد خان‘‘ میرے سینے میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ اس کے رت جگوں کا ایک مصاحب میں بھی اور وہ دونوں تو رت جگوں کی شمعیں تھیں۔ میں ان کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔۔۔  وہ اب بھی گھڑے اٹھائے اس کنویں پر آتی ہیں اور گڑ گڑا کر پانی مانگتی ہیں۔

اس شام میں وہاں اکیلا تھا۔ وہ دونوں کچھ فاصلے پر رک گئیں اور خاموشی سے مجھے تکنے لگیں۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’پانی چاہیے۔‘‘

ان کے چہروں پر ایک تمتماتی خوشی جاگ اٹھی۔ میں نے موٹر آن کر دی۔ پانی کا فوارہ اچھلتا ہوا پائپ کے منہ سے نکلا۔ گھڑے بھرتے ہوئے ان میں سے چھوٹی کو جانے کیا سوجھی کہ وہ خود فوارے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

صدیوں سے پیاسا اس کا بدن پانی کو چھوتے ہی لہلہا اٹھا۔ ململ کا کرتا بدن کے تناؤ میں جذب ہو کر اوجھل ہو گیا۔

سارا کھنڈر زندگی کی خوشبو سے مہک اٹھا۔

سنگ مر مر کے فوارے کے نیچے اس کے غسل کا منظر عجب تھا۔ مراد خان اسے دیکھنے کے لیے اپنی شاہانہ مسند سے نیچے جھک آیا تھا۔

اس کے بدن کی لہک، مہک اور مراد خان کی شوق بھری نظریں۔۔۔  اور میں ، کہاں تھا۔ شاید مراد خان کی آنکھوں کے دریچوں میں چھپا یہ سب دیکھ رہا تھا، یا میں کہیں اور تھا۔

لیکن اس وقت میں کنویں کی منڈیر پر تھا اور موٹر کے پائپ سے نکلتے تیز پانی میں اس کا رقص۔ بڑی والی کچھ دیر اپنے شوق کو دبائے رہی پھر جست لگا کر وہ بھی پانی کے دائرے میں اتر آئی۔

عجب منظر تھا۔

مراد خان سنگ مر مر کے فوارے کی دیوار پر جھک آیا تھا اور بے چینی سے اپنے ہاتھوں کو ہلا رہا تھا۔ چاندی جیسی اچھلتی تاروں میں وہ دونوں اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں۔ ململ کے لباس ان کے بدنوں کی کمانوں میں ڈوب گئے تھے۔ ایک ایک قوس، ایک ایک زاویہ حشر بکھیر رہا تھا۔ پھر دھیمے دھیمے الاپ کی آواز ابھری گھنگھرو جھنکے اور آواز کا جادو جاگ اٹھا۔

مراد خان کے اس دالان میں نیم دائرے میں بیٹھے بیٹھے میں ہمیشہ غنود جاتا ہوں دفعتاً سناٹا چھا گیا۔

میرے بیٹ مین نے موٹر بند کر دی تھی۔

میں نے چونک کر کہا۔۔۔  ’’انھیں پانی تو بھر لینے دو‘‘ بیٹ مین نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’وہ تو کب کی پانی بھر کر جا چکیں۔‘‘

’’جا چکیں ‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ہمیشہ یوں ہی چلی جاتی ہیں۔ مگر اپنے فن میں بڑی طاق ہیں۔ دوسری خانہ بدوش لڑکیوں کی نسبت سبھاؤ سے ناچتی گاتی ہیں۔ جوں جوں رات کی سیاہی صحرا کے وسیع صحن میں اترنے لگتی ہے خیموں سے اٹھتی ان کی مدھر آواز کے بھنور صحرا کی وسعتوں میں پھیلنے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کھنڈر بھی آباد ہونے لگتا ہے۔ پہلے ڈب کھڑبا فرش سنگ مر مر کی ملائمت میں بدلتا ہے۔ پھر درو دیوار روشن ہوتے ہیں۔ مراد خان کی مسند سجتی ہے اور نیم دائرے میں بیٹھے ہوئے احتراماً کھڑے ہو کر مراد خان کے بیٹھنے کا انتظار کرتے ہیں۔ خیموں سے بلند ہوتی آوازوں اور پائل کی جھنکار صدیوں کا فاصلہ طے کر کے لمحہ بھر میں اس دالان میں اتر آتی ہے۔ طبلے والا اور سازندے سر ملاتے ہیں ، پھر بڑی کی آواز ان میں شامل ہو جاتی ہے ابھی مکھڑے کا الاپ شروع ہی ہوتا ہے کہ مراد خان ہاتھ کے اشارے سے سب کچھ روک دیتا ہے۔

’’دوسری کہاں ہے؟‘‘ اس کی گرجدار آواز گونجتی ہے۔

محفل میں سناٹا چھا جاتا ہے۔

کہاں ہے وہ۔۔۔

کوئی کچھ نہیں بولتا۔

مراد خان اپنی مسند سے اٹھ جاتا ہے اور تیزی سے نیم دائرے پر نظر ڈالتا ہے۔ ایک نشست خالی ہے۔

کتنے دنوں بعد کی بات ہے؟

مراد خان کے آدمی مجھے اور اسے ساتھ والے قصبے سے پکڑ کر لاتے ہیں۔ مراد خان مجھے دیکھ کر غصے سے بھنبھنا اٹھتا ہے اور زور زور سے کچھ کہتا ہے۔ میں بھی کچھ کہتا ہوں۔ مراد خان میری بات سن کر اتنے غصے میں آتا ہے کہ تیزی سے خنجر نکال کر مجھ پر لپکتا ہے۔

درد کی ایک تیز ٹیس۔۔۔  میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیتا ہوں۔

میرا بیٹ مین مجھ پر جھک آتا ہے اور کہتا ہے۔۔۔  ’’صاحب جی میں پہلے ہی آپ کو کہتا تھا کہ رات کو کھنڈر کی طرف نہ جایا کریں۔ آپ پر یہ حملہ ضرور ان خانہ بدوشوں میں سے کسی نے کیا ہے۔۔۔ ‘‘ وہ لمحہ بھر چپ رہتا ہے۔۔۔  پھر کہتا ہے۔۔۔  ’’میرا تو خیال ہے کہ یہ ان کے سردار مراد خان کی حرکت ہے۔‘‘

’’مراد خان‘‘ میں ایک دم اٹھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن درد کی تیز ٹیس مجھے گرا دیتی ہے۔

’’جی ہاں مراد خان۔ وہ جو دو پانی بھرنے آتی ہیں۔ آپ سے باتیں کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سے چھوٹی مراد خان کی۔۔۔ ‘‘ میں کچھ نہیں بولتا۔

یہ زخم بھی اپنی نشانی چھوڑ جائے گا۔۔۔  ایک نشان پہلے بھی ہے، دور کہیں اندر کی طرف، دونوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔

لیکن ابھی شاید مجھے ایک تیسرا زخم بھی کھانا ہے!

٭٭٭

 

بے منزلیں

اسے خود معلوم نہیں کہ اس گھر کے ساتھ اس کا تعلق کتنا پرانا ہے؟ وہ اس گھر میں نہ کبھی رہا ہے اور نہ کبھی اس نے اسے دیکھا ہے، لیکن وہ اس کے کونے کونے سے واقف ہے اور جب چاہتا ہے لمحہ بھر میں اس کے اندر پہنچ جاتا ہے۔

بس ایک پل کے لیے آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں اور دوسرے لمحے وہ اس گھر کی ڈیوڑھی میں کھڑا ہوتا ہے۔ ڈیوڑھی کی نیم تاریکی میں ایک دروازہ دائیں طرف کھلتا ہے۔ جو بیٹھک میں نکل جاتا ہے۔ بائیں طرف والے دروازے کے پیچھے ایک مستطیل نما کمرہ ہے جس کے نیچے ایک تہہ خانہ ہے اس تہہ خانے کا جالی دار جنگلا کمرے کے وسط میں موجود ہے نیچے گہری تاریکی۔

وہ کبھی اس تہہ خانے میں نہیں اترا۔ بس یہ معلوم ہے کہ اس کے اندر سردیوں میں جلائے جانے والی لکڑی رکھی جاتی ہے۔ سنا ہے ایک بار گھر کی کوئی مرغی جنگلے سے نیچے اتر گئی تھی۔ ایک زمانے میں یہاں سامان بھی رکھا جاتا تھا۔ مرغی وہیں رہ گئی اور کسی دیوار میں سے رستے پانی نے اسے زندگی فراہم کر دی۔

ایک عرصہ بعد گھر والوں کو تہہ خانے سے چوں چوں کی آوازیں سنائی دیں تو کسی کو نیچے اتارا گیا۔ نیچے مرغیوں کا ایک پورا گھر آباد تھا۔ لیکن ان مرغیوں کو اوپر نہیں لایا گیا۔ اسے بس اتنا معلوم ہو سکا کہ جو شخص نیچے اترا تھا وہ سخت خوف زدہ اوپر آیا اور اس نے سرگوشیوں میں کسی کو کچھ کہا۔ اس کے پلے اتنا پڑا کہ ان مرغیوں کی آنکھیں نہیں ہیں۔

اس نے کئی بار ان کی آنکھوں کے بارے میں سوچا لیکن کوئی جواب بن نہ پڑا۔

وہ کئی بار تہہ خانے کے دروازے کے پاس رکا۔ اندر سے ان کی چوں چوں کی آوازیں بڑی پراسرار لگتیں۔ دل چاہتا کہ اندر جا کر انھیں قریب سے دیکھے لیکن نیم تاریکی اور یہ تصور کہ ان کی آنکھیں نہیں اس کے ارادے کی دیوار کو ڈھا دیتا۔

گھر کا یہ حصہ ہمیشہ ہی نیم تاریک رہا جس کی وجہ سے ایک عجب طرح کی سیلن زدگی وہاں آنے والے کو اوپر جانے پر مجبور کر دیتی ہے سیڑھیاں تنگ اور موڑ والی تھیں۔ دو موڑ گزرنے کے بعد درمیان والا پلیٹ فارم۔۔۔  یہاں تاریکی زیادہ گہری ہے اس کے دونوں طرف دروازے ہیں جو مختلف کمروں میں کھلتے ہیں۔ یہ حصہ سب سے زیادہ ڈراؤنا اور پر اسرار ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ ہمیشہ ڈر جاتا ہے اور خوف سے چیخنے لگتا ہے۔

لگتا ہے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک ہیولہ سا حرکت کر رہا ہے ایک لمبا ڈھانچہ دیوار کے ساتھ ساتھ ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتا دکھائی دیتا ہے۔ جب آنکھیں اندھیرے میں کچھ دیکھنے لگتی ہیں تو دو انگارہ سی آنکھیں اپنی طرف بڑھتی محسوس ہوتی ہیں۔ لمبے لمبے بال جو شانوں سے نیچے لٹک رہے ہیں اور ہاتھوں میں پڑے لوہے کے کڑوں کی آواز۔

اس کے منہ سے چیخ نکلتی ہے، اور لگتا ہے جیسے اس کے اندر کوئی پتھر انگڑائی لے کر منجمد ہو گیا ہے۔ چیخ کی آواز پر اوپر دروازہ کھلتا ہے۔ مشفق آواز اس کا نام پکارتی ہے۔ پتھر کی انگڑائی ٹوٹ جاتی ہے اور وہ دوڑ کر اوپر جانے والی سیڑھیوں کی طرف لپکتا ہے۔

سامنے دیوار کے ساتھ حرکت کرتا ہیولہ دو انگارہ آنکھیں اور منہ سے کف بکھیرتی پھنکار۔۔۔

اوپر والا حصہ روشن اور پرسکون ہے۔ دو محبت بھری بانہیں اسے اپنے حصار میں چھپا کر پیشانی چومتی ہیں۔

یہ گھر جو موجود نہیں ہے لیکن موجود ہے، اس کا ایک ایک گوشہ اس کا دیکھا بھالا ہے۔ باہر جب ذرا سی بھی تیز تند ہوا چلتی ہے تو وہ بھاگ کر اس میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہاں دو شفیق بانہیں اسے اپنے حصار میں لینے کے لیے بے قرار رہتی ہیں ، اور محبت کے رس بھرے ہونٹ اس کی پیشانی چومنا چاہتے ہیں۔ شفقت اور محبت کی یہ روشنی اوپر والی منزل کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے درمیانی حصے سے گزرنا پڑتا ہے۔

اسے اس حصے سے گزرنے کے تصور ہی سے جھرجھری آ جاتی ہے۔

نیم تاریک ڈیوڑھی جس کے آگے موڑ کھاتی تنگ سیڑھی ہے سیڑھی کے اوپر وہ چکور خلاء جہاں تاریکی سیال مادے کی طرح گاڑھی اور نمدار ہے۔ سامنے والی دیوار کے ساتھ حرکت کرتا پراسرار ہیولہ۔۔۔  دو انگارہ آنکھیں اور ہاتھوں میں پڑے لوہے کے کڑوں کی آواز، ڈر کے مارے چیخ نکل جاتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ ہیولہ کس کا ہے اور اس تاریک خلاء میں ہمیشہ کیوں موجود رہتا ہے۔۔۔  اس اذیت کے بعد دو شفیق با نہیں اور محبت کے رس بھرے ہونٹ نعمت کی طرح ہیں لیکن وہ بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ ہیولہ کس کا ہے اور کیوں وہاں موجود رہتا ہے رات کو کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے وہ ہیولہ دبے پاؤں اوپر آگیا ہے۔ پھر جیسے وہ اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹتا ہے۔ خوف کے مارے وہ شفیق بانہوں میں سمٹ جاتا ہے منہ سے آواز نہیں نکلتی۔ تا دیر یہ کشمکش جاری رہتی ہے پھر آہستہ آہستہ ہیولے کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے اور ہاتھوں میں پڑے لوہے کے کڑوں کا شور دور ہوتا جاتا ہے۔

اسے دیر تک نیند نہیں آتی۔ شفیق بانہوں کے حصار میں سمٹے سمٹے یہی سوچتا رہتا ہے کہ یہ ہیولہ کس کا ہے۔

صبح کی پہلی کرن کے ساتھ یہ با نہیں اسے نرمی سے حصار سے نکالتی ہیں اور دو رس بھرے ہونٹ اس کی پیشانی پر محبت کے پھول کھلا دیتے ہیں۔ رات کا خوف پلک جھپکتے دور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی مہکار کے ساتھ آس پاس پھیل جاتا ہے اور دن کا تو اپنا ایک چہرہ ہے۔

سارا دن مشقت کا پیشہ جسم کو ریزہ ریزہ کرتا رہتا ہے۔ گھر کی دیوار سے اس آخری دیوار تک ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی آس پاس موجود رہتی ہے۔ دو شفیق بانہیں اور دو رس بھرے ہونٹ، بھولی بسری یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ لیکن دن کے پہئے کی کرخت آوازیں سارے تصور کو درہم برہم کر دیتی ہیں۔ دیوار کے ساتھ حرکت کرتا پراسرار ہیولہ آہستہ آہستہ ابھرتا ہے۔ سرخ انگارہ آنکھیں چمکتی ہیں اور ہاتھوں میں پڑے لوہے کے کڑوں کی مسلسل آواز۔

’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ خود سے سوال کرتا ہے ’’یہ خواب ہے یا وہ خواب ہے‘‘

لیکن کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ خواب کون سا ہے۔ یہ جس سے وہ گزر رہا ہے یا وہ جس کا تصور اس کے اندر کہیں کہیں موجود ہے یا دو شفیق بانہوں کا حصار، ماتھے پر رس بھرے ہونٹوں کا بوسہ اور ان سب کے درمیان کہیں دھندلی سی نیم تاریکی میں ایک پراسرار حرکت کرتا ہیولہ جس کی لال انگارہ جیسی آنکھوں کو وہ کسی بھی وقت دیکھ سکتا ہے اور ہاتھوں میں پڑے لوہے کی کڑوں کی آواز سن سکتا ہے۔

اور یہ جو اس کے ارد گرد ایک کھلا منظر ہے۔ یہ کیا ہے؟

وہ شفیق با نہیں

اور یہ پراسرار ہیولہ؟

اسے ان میں سے کسی سوال کا جواب معلوم نہیں۔ جس گھر میں وہ رہتا ہے وہ ایک منزلہ ہے۔ نہ اس کی کوئی پراسرار ڈیوڑھی ہے اور نہ اوپر والی منزل جس تک پہنچنے کے لیے کسی درمیانی تاریک خلاء سے گزرنا پڑے۔

یہ گھر میں نے کہاں دیکھا ہے؟ اس نے کئی بار خود سے پوچھا ہے۔ مگر جواب نہیں ملا۔

جواب کسی کے پاس بھی نہیں کہ وہ شفیق با نہیں اور رس بھرے ہونٹ بھی اب نہیں کہ پوچھ سکے یہ اسرار کیا ہے؟

وہ ہیولہ کس کا ہے اور یہ دو لال انگارہ آنکھیں جو اسے اب بھی ڈرا دیتی ہیں کس کی ہیں۔

یہ ہیولہ ایک تیرتے عکس کی طرح ہے کہ غیر محسوس طور پر وہ اس کی گرفت میں آ جاتا ہے۔ پھر اسے کچھ احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ خود کون ہے اور یہ سارا اسرار کیسا ہے؟

کوئی کچھ بتانے والا نہیں بس ایک یاد سی ہے کہ ایک بار اس نے ان شفیق بانہوں میں پناہ لیتے ہوئے پوچھا تھا ’’یہ سب کیا ہے۔ یہ نیم تاریک خلاء کیا ہے؟‘‘

رس بھرے ہونٹوں نے اس کے ماتھے پر محبت کے گلاب کھلاتے ہوئے بس اتنا کہا تھا۔۔۔  ’’پگلا۔۔۔ ؟‘‘

پھر نہ وہ شفیق با نہیں رہیں نہ وہ محبت بھرے ہونٹ، بس ہیولہ اور اس کی لال انگارہ آنکھیں باقی رہ گئی۔

برسوں بیت گئے۔۔۔  ایک تیرتا عکس اس کے آس پاس کہیں موجود رہا، قریب آنے کی کوشش کرتا تو وہ آہستگی سے خود کو ایک طرف کر لیتا۔ کوئی پراسرار شے اس کے پاس سے گزر جاتی۔۔۔  اسے ایک سکون سا ملتا ’’آخر میں اسے خود سے دور کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں ‘‘ اور وہ اندر ہی اندر گنگناتا۔ لیکن اب برسوں بعد اسے ہاتھوں میں پڑے لوہے کے کڑوں کی کرخت آواز سنائی دی تو وہ چونک پڑا۔

’’کون ہے۔۔۔ ؟‘‘ وہ چیخا۔

یوں لگا جیسے دو انگارہ آنکھیں اس کے اندر اترتی چلی جا رہی ہیں۔

’’کون ہے۔۔۔ ؟‘‘

اس کی چیخ سن کر بیوی بھی جاگ اٹھی۔

’’کیا ہوا۔۔۔ ؟‘‘ وہ بوکھلا گئی۔

’’وہ نیم تاریک ڈیوڑھی پھر۔۔۔ ‘‘ وہ بڑبڑایا۔

’’کون سی ڈیوڑھی؟‘‘ بیوی حیرت سے بولی۔

’’وہی۔۔۔ ‘‘ اس نے کہنا چاہا۔

’’لیکن کہاں۔۔۔ ؟‘‘ بیوی نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا وہ چند لمحے خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہا ہو۔۔۔  بولا ’’کہیں بھی نہیں۔۔۔  کہیں بھی نہیں۔۔۔  وہ تو شاید میرے اپنے ہی اندر ہے۔‘‘

بیوی کچھ نہ سمجھتے ہوئے حیران پریشان اسے دیکھتی رہی مگر وہ اس کی پریشانی سے بے نیاز اسی طرح بڑبڑاتا رہا۔۔۔  ’’میرے اپنے اندر۔۔۔  میرے اپنے اندر۔‘‘

٭٭٭

 

نوحہ

رات کے اس پہر، زوال کے نشے میں مخمور، ڈھلوان پر سفر اور نا سفری کی حالت میں وہ اپنے اپنے خوابوں ، خیالوں اور کاموں میں ایسے گم ہیں کہ اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ وہ چل رہے ہیں یا کھڑے ہیں ، کھڑے ہیں یا چل رہے ہیں۔ انھیں یہ جاننے کی کوئی ایسی خواہش بھی نہیں کہ ڈھلوان پر ہونا اپنی ایک تیزی رکھتا ہے لیکن انھوں نے تو ڈھلوان پر ہونے کو بھی ایک لطف میں بدل دیا ہے اور اس گرنے میں بھی ایک میلے کا سماں ہے کہ جو جس کے پاس ہے وہ اسے ختم کرنا چاہتا ہے، نیچے کھائی کتنی گہری ہے انھیں اس کا غم نہیں بلکہ یوں کہ کھائی میں گرن کے مقدور کو بھی انھوں نے لطف و مسرت کی ایک کیفیت سمجھ لیا ہے اور زوال کے نشے میں مخمور اس میلے میں ہر کوئی اپنے اپنے خواب، خیال اور کام میں ایسا گم ہے کہ ایک کو دوسرے کی خبر نہیں ، خبر ہے تو یہ کہ کوئی اس سے آگے نہ نکل جائے۔

میلے میں کئی چھوٹے بڑے پنڈال ہیں ، جن میں رنگا رنگ تماشے دکھائے جا رہے ہیں ، دیکھنے والے خود ہی تماشائی ہیں ، خود ہی تماشا اور خود ہی تماشا دکھانے والے، اس لیے معلوم نہیں ہونے پاتا کہ کون کیا ہے۔ کون داد دے رہا ہے اور اس کے اسیروں نے بنایا ہے۔ بنایا اور پھر خود اس کے طلسم میں جکڑے گئے۔ اب انھیں پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھنا پڑتا، پتھر ان کے اپنے وجود میں جکڑ پکڑ چکا ہے۔ اندر ہی اندر پھیلتا ہے اور آہستہ آہستہ وجود کے سارے حسی حصوں کو پتھراتا چلا جاتا ہے، صرف آنکھیں جاگتی ہیں ، دیکھتی ہیں مگر بولتی نہیں کہ آنکھوں کو بولنے کے لیے جس جذبے کی ضرورت ہے اس کے سوتے بھی پتھرا کر خشک ہو چکے ہیں۔

میلے میں خوب شور ہے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اس میں شریک ہے اور گزرتے ایک ایک لمحے سے پورا حظ اٹھانا چاہتا ہے۔ درویش و سلطان و دانشور ہم پیالہ وہم مشرب ہیں ، اور محفل میں ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔ دانشور کا کہنا ہے کہ یہ اس کا قلم کمال ہے کہ اس نے سب کو اکٹھا کر دیا ہے۔ درویش اسے اپنے فقر کا معجزہ سمجھتا ہے اور سلطان اسے اپنی فیاضی و حکمت گردانتا ہے۔ باہر کچھ بھوکے جن کی انتڑیاں سوکھ کر جلد سے جا لگی ہیں ، دربانوں سے دست و گریباں ہیں۔ شور سن کر سلطان نے وجہ جانی تو اسے بتایا گیا کہ کچھ بھوکے روٹی کی طلب میں قصر شاہی کی دیواروں سے لپٹ رہے ہیں۔ اس پر سلطان نے خندہ کیا اور درویش سے کہا۔۔۔  ’’تم نے لوگوں کو جو صبر کا سبق دیا ہے اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے‘‘

درویش نے نفی میں سر ہلایا اور بولا۔۔۔  ’’نہیں یہ بات نہیں۔۔۔  میرے درس میں کوئی کمی نہیں ، ہاں دانشور کے لفظوں میں ابھی پورا سکون پیدا نہیں ہوا۔‘‘

دانشور نے کن انکھیوں سے درویش کو دیکھا، پھر سلطان کے رویے کا اندازہ کیا اور کہنے لگا۔۔۔  ’’میرے قلم نے تو مدت ہوئی احتجاج کا لفظ ہی نہیں لکھا۔ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔‘‘

سلطان کے چہرے پر بکھرا ہوا تردد سمٹنے لگا۔۔۔  ’’ہاں یہ تو ہے۔۔۔  لیکن کیا وجہ ہو سکتی ہے۔‘‘

پھر اس نے سپہ سالار کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’تمھاری تلواروں کی چمک تو کہیں ماند نہیں پڑ گئی۔‘‘

سالار نے تیز ی سے نیام میں سے تلوار نکالی۔ تیز روشنی میں یوں لگا جیسے بجلی کا کوندا لپک گیا ہو۔ سالار نے اسی تیزی سے تلوار کو نیام میں رکھا اور بولا۔۔۔  ’’تلوار کی چمک تو پہلے سے بھی تیز ہے۔‘‘

’’پھر۔۔۔  کیا وجہ ہے؟‘‘ سلطان کے چہرے پر سوچ کی سلوٹیں ابھریں۔۔۔  ’’کیا وجہ ہے؟‘‘ ’’شاید میلے میں دلچسپی کا سامان کچھ ختم ہو گیا ہے۔ ہمیں کچھ نئے آئٹم شامل کرنا چاہئیں ‘‘ دانشور نے مشورہ دیا۔ سلطان نے تعریفی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’خوب۔۔۔  بہت خوب‘‘

’’تو پھر کون سے نئے آئٹم شامل ہونا چاہیں ‘‘ سلطان نے درویش کی طرف دیکھا۔

سب سوچ میں پڑ گئے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے سر اٹھائے اور پھر ایک طرف سے ایک شخص اور دوسری طرف سے دوسرا شخص نمودار ہوا۔ وہ کچھ دیر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے بحث کرتے رہے کہ اس وقت رات ہے یا دن۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں کے گرد ایک ایک مجمع اکٹھا ہو گیا۔ بس دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ہجوم ایک دوسرے پر پل پڑے اور سارا منظر میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔

یہ ڈرامہ میلے کے جس پنڈال کے سٹیج پر دکھایا جا رہا تھا۔ وہاں سب سے زیادہ رش تھا۔میدان جنگ کے منظر میں جونہی تیزی آئی لوگوں کے جذبوں میں بھی شدت آ گئی۔ کہیں وسط میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اس جذباتی میں ساتھ والے کو کہنی مار دی۔ ساتھ والے نے کہنی مارنے والے کو کرسی سے گرا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ پنڈال میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ دونوں کے طرفدار بھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔ ایک شور تھا کہ آسمان سر پر اٹھ گیا۔

ساتھ والے پنڈال میں موسیقی کا پروگرام ہو رہا تھا۔ گیت کی مدھر دھن پر مست حاضرین نے چونک کر ان بے ہنگم آوازوں کو سنا، ساتھ والے پنڈال کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا اور شانے ہلا کر پھر گیت کی مدھر تانوں میں ڈوب گئے۔

اگلے اس سے اگلے اور اس سے بھی اگلے پنڈال میں ایک نے دوسرے کو دیکھا۔ سر اٹھایا بے ہنگم آوازوں کو سنا اور پھر اپنی اپنی تانوں اور سروں میں ڈوب گئے۔

شور، ہنگامے اور مستی و سرور میں یہ اندازہ ہی نہ ہوا کہ باہر سے بھی کوئی اندر گھس آئے ہیں اور مارنے والے اپنے نہیں باہر کے لوگ ہیں۔

میلے میں قتل و غارت کا ایک بازار گرم ہے۔ سرکٹ کٹ کر نیچے گر رہے ہیں لیکن مستی و سرور میں سرشار کسی کو اندازہ نہیں کہ مارنے والے کون ہیں اور کب اندر آئے ہیں ؟

یہ رات کا آخری پہر ہے، میلہ تو لٹ چکا لیکن زوال کے نشے میں مخمور، ڈھلوان پر سفر اور ناسفری کی حالت میں ، اپنے اپنے خوابوں ، خیالوں اور کاموں میں ایسے گم ہیں کہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں ، کھڑے ہیں یا چل رہے ہیں ،

اور شاید یہ جاننے کی خواہش بھی نہیں !

(۲)

گھوڑوں کی لگامیں ڈھیلی چھوڑے وہ جب بستی کی طرف سرپٹ چلے آتے تھے تو خون بہانے اور عورتوں کے گدگداتے بدنوں کی لذت کا تصور ان کے جسموں میں انگڑائیاں لیتا تھا۔ زوال کے نشے میں سرشار اس بستی کے بارے میں ان کے مخبروں نے بتایا تھا کہ وہاں کی عورتیں خوب پلی ہوئی اور اٹھکھیلیاں کرتی ہیں۔ مرد لالچ اور حسد کے حصار میں بند اپنے کاموں سے اس طرح چپک گئے ہیں کہ انھیں اپنے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ درس گاہوں میں کتاب کی بجائے ڈنڈے اور ہتھیار آ گئے ہیں۔ انصاف گاہوں میں عدل کی روایت ختم ہو گئی ہے اور منصف پیسے لے کر فیصلے کرتے ہیں۔ دربار میں باہمی مشاورت کی بجائے ایک دوسرے پر آوازیں کسی جاتی ہیں۔ خلیفہ لذتوں کے نشے میں سرشار ہے۔ اسے اپنے محل سے باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں۔ عبادت گاہیں بحثوں کا اکھاڑہ بن گئی ہیں اور وہاں سے نفاق کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور وہاں کے لوگ، وہ سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن یوں بے نیازی سے شانے ہلاتے ہیں جیسے سب کچھ ان کے ساتھ نہیں کسی اور کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اپنا زوال ان کے لیے گفتگو کا پسندیدہ موضوع اور لذت کا ایک ذریعہ ہے۔

مخبروں نے اس بستی کا ذکر کچھ اس طرح کیا اور ان کی پلی ہوئی عورتوں اور شان و شوکت کی ایسی تصویر کھینچی کہ وہ بے چین ہو، اچھل کر گھوڑوں کی ننگی پیٹھوں پر جا بیٹھے اور سرپٹ اس بستی کی طرف چل نکلے۔ بستی کی پلی ہوئی اٹھکھیلیاں کرتی عورتوں اور بھرے پرے بازاروں کی مہک انھیں اڑائے لیے جاتی تھی۔

شام کے وقت جب وہ دریا کنارے پہنچے جس کے دوسرے کنارے بستی آباد تھی تو رات وہیں قیام کرنے کی ٹھانی۔ گھوڑوں سے اتر کر کمریں سیدھی کیں اور رات کے کھانے کے لیے کچھ جانور ذبح کئے۔ بھنتے گوشت کی مہک ہواؤں کے کندھوں پر سوار ہو کر دریا کے دوسرے کنارے پہنچی۔ بستی والے اپنے نشے میں سرشار، گلیوں اور بازاروں میں مست اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ مرد دکانوں پر بیٹھے تجوریوں میں جمع دن بھر کی کمائی گن رہے تھے اور عورتیں سنگھار میزوں پر بیٹھی رات کی محفلوں کے لیے تیار ہو رہی تھیں۔ ان کے پلے ہوئے جسم سرسراتے ریشمی لباسوں میں سے چھلک چھلک رہے تھے۔

خلیفہ جس کے محل کی ایک بالکونی دریا کی طرف کھلتی تھی اپنے مصاحبین میں بیٹھا نئے منصوبوں پر گفتگو کر رہا تھا کہ دریا کے دوسرے کنارے بھنتے گوشت کی مہک لہروں پر تیرتی محل کی بالکونی تک آ پہنچی۔ خلیفہ نے مہک کو محسوس کیا اور بالکونی میں آن کھڑا ہوا۔ دریا کے کنارے مشعلوں کا ایک کارواں حرکت کر رہا تھا۔ اس نے حیرت سے اس منظر کو دیکھا اور ایک مصاحب سے پوچھا۔۔۔  ’’یہ کیا ہے؟‘‘

مصاحب نے دست بستہ عرض کیا۔ ’’حضور! یہ جنگلی لوگ ہیں۔‘‘

’’لیکن یہاں کیوں آئے ہیں ؟‘‘ خلیفہ کو تشویش ہوئی۔

’’حضور! یہ اپنی شہزادی آپ کے حرم میں دینا چاہتے ہیں۔‘‘

خلیفہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری۔ جنگلی بدن کی کچی خوشبو نے اس کے اندر لذت کی پھلجڑی چھوڑی۔ اس نے اطمینان سے سر ہلایا اور بولا۔۔۔  ’’لیکن یہ مہک۔۔۔  گوشت بھوننے کی یہ مہک کیسی؟‘‘

مصاحبین نے ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھا اور ان میں سے ایک بولا۔۔۔  ’’حضور! یہ لوگ کباب تیار کر رہے ہیں تاکہ صبح جب شہزادی کو آپ کے حضور پیش کیا جائے تو سارے شہر کی دعوت بھی کی جائے۔‘‘

خلیفہ بے تابی سے مسکرایا اور پوچھا۔۔۔  ’’دن طلوع ہونے میں ابھی کتنا وقت ہے؟‘‘

صبح سویرے جب ان کی عبادت گاہوں میں خوشی الحانی کے مقابلے ہو رہے تھے۔ وہ بھوکے بھڑیوں کی طرح بستی پر ٹوٹ پڑے اور۔۔۔ ؟

برسوں پہلے تاریخ میں پڑھا ہوا یہ واقعہ ان دنوں مجھے بار بار یاد آ رہا ہے۔ شہر کے گلی کوچوں میں ایک والہانہ رقص جاری ہے۔ زوال کے نشے میں سرشار لوگ اپنے اپنے خول میں بند ہیں۔ اپنے اپنے نشے میں مست، تخت پر بیٹھا ہوا شخص اپنے مصاحبین میں گھرا اپنی لذتوں اور منصوبوں کے حصار میں قید، اور۔۔۔  اور۔۔۔  اور

سمندر کے دوسرے کنارے سے بھنتے گوشت کی مہک لہروں پر چلتی آہستہ آہستہ شہر میں پھیل رہی ہے۔ لیکن محل کی بالکنی بند ہے اور زوال کے نشے میں سرشار لوگ اپنے اپنے خول کی لذت میں محصور!

میری گواہی پر کون یقین کرے گا؟

(۳)

دشوار گزار پہاڑوں کی دیواروں میں قید یہ بستی پچھلے کئی برسوں سے مر رہی ہے۔

اس کی فضاؤں میں ایک ایسا کینسر پھیل گیا ہے کہ بظاہر ہر شے ترو تازہ لگ رہی ہے لیکن اندر ہی اندر مرجھا رہی ہے۔ لوگ اس بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں ، اس موضوع پر گھنٹوں بحث بھی کرتے ہیں لیکن کچھ کر نہیں پاتے، کچھ کرنا چاہتے ہی نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ساری بستی کسی نادیدہ طلسم میں مقید ہے۔ چاروں طرف ایک ہو ہو ہاؤ ہے۔ تیز تیز چلنے کے منظر، قہقہے اور رونق، لیکن ایک نا معلوم سی چپ اور سناٹا ہے جو ان سب کے اندر کہیں موجود ہے، جسے محسوس تو کیا جاتا ہے لیکن دیکھا نہیں جا سکتا۔ چیزیں افراط سے ہیں لیکن صرف چند لوگوں کے لیے۔ نعمتیں طرح طرح کی لیکن ذائقوں سے خالی۔ حرکت تیز تر مگر عمل سے تہی۔ سوچ موجود لیکن بے سمت۔ کوئی نہ کوئی اس سارے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کئے جا رہا ہے۔ ہر صبح اپنے ساتھ دریا کی لہروں کی طرح اداسی کی ایک نئی تہہ لے کر آتی ہے اور لوگ اندر ہی اندر مرتے چلے جاتے ہیں۔

یہ بستی زندہ لوگوں کا قبرستان بنتی جا رہی ہے۔ اس کی ہولناکی سے گھبرا کر کچھ لوگ ہجرت بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن دشوار گزار پہاڑوں کی دیواریں راستہ نہیں دیتیں۔

تو کیا ان کا مقدر یہیں سسک سسک کر مرنا ہے؟

اس کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ آنکھیں کھلی ہونے کا دعویٰ کر کے سوئے رہنے کا شاید یہی انجام ہے۔ دیواروں کے یہ حصار بھی ان کے اپنے کھڑے کئے ہوئے ہیں۔ سنانے والے یہ کہتے ہیں کہ کبھی یہ بستی بھی کھلی فضاؤں میں سانس لیتی تھی۔ خود کو دوسروں سے علیحدہ کرنے کا تصور خود انہی کے ذہنوں میں پیدا ہوا تھا اور پھر آہستہ آہستہ ایک نادیدہ حصار ان کے گرد تعمیر ہوتا چلا گیا جو اب ان دشوار گزار پہاڑوں کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ ان دیواروں کے درمیاں مقید ہو کر ہوا کی رفتار ست پڑنے لگی۔ اس میں ٹھہراؤ آگیا اور ایسے ہی کسی ٹھہرے ہوئے لمحے میں ایک پتھر نے جنم لیا جو آہستہ آہستہ پھیلتا چلا گیا اور اب ساری فضا پتھر ہے۔ ایک نہ ٹوٹنے والا منجمد پتھر منظر!

اس منجمد منظر میں سانس تو لے رہے ہیں لیکن زندگی کی گرماہٹ نہیں۔ سینوں کا زیرو بم تو محسوس ہوتا ہے لیکن حرکت میں ایک عجب بے بسی ہے کہ بستی کی فضاؤں میں ایک کینسر پھیل گیا ہے جس سے ساری بستی اندر ہی اندر مر رہی ہے۔ باہر نکلنے کا راستہ نہیں ، سواس بے بسی میں بھی ایک لذت آ گئی ہے۔

بے بسی کی لذت میں گرفتار یہ بستی کفارہ ادا کرنا نہیں جانتی۔ اس کے لیے تو ایک دفعہ مر کر دوبارہ جینا پڑتا ہے۔ اس دوبارہ جینے کے لیے اسرافیل جیسے صور کی ضرورت ہے اور میرے پاس اتنی طاقت نہیں ، لیکن پھر بھی میں چیخ رہا ہوں کہ شاید اس ہنگامے اور شور میں میری آواز کسی کان میں پڑ ہی جائے۔

٭٭٭

 

تمنا کا دوسرا قدم۔۔۔ ۲

پھر وہی پچھتاوا کہ گھر سے نکلنے میں چند لمحے کی دیر ہو جاتی تو اس نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ وہ جس وقت ویگن سٹاپ پر پہنچا ویگن رینگ چکی تھی، لیکن اس نے جانے کیسے اسے دیکھ لیا اور چلتی ویگن سے اتر آیا۔ وہی پرانی داستان اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی جیب سے ہزار روپے نکل گئے۔ اس میں بولڈ نیس کی کمی اب پرانی بات تھی اور اسے بدلنا اس کے بس میں نہیں تھا کہ لاکھ چاہتے ہوئے بھی عادتیں اور جبلتیں نہیں بدلتیں۔ لے دے کے یہی کہا جا سکتا تھا کہ کاش اسے گھر سے نکلنے میں چند لمحوں کی تاخیر ہو جاتی اور ویگن سٹاپ تک پہنچتے پہنچتے ویگن نکل چکی ہوتی یا پھر وہ ذرا سا بولڈ ہو کر انکار کر دیتا کہ اس کے پاس اس وقت کچھ نہیں وہ اس کی تلاشی لینے سے تو رہا تھا۔ لیکن ہر شے اپنی اپنی ترتیب سے ہوئی اور اس کے حصے میں حسب معمول پچھتاوا ہی آیا۔ یہ پچھتاوا اس کا مقدر تھا، اب پرسوں ہی کی بات ہے آتے ہوئے اس موڑ پر جہاں اس کے گھر کو دو راستے جاتے تھے لمحہ بھر کے لیے ٹھٹکا اور پھر بائیں طرف مڑ گیا۔ ابھی تھوڑی دور ہی نکلا تھا کہ سامنے سے آتی تیز موٹر سائیکل توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اس کے دائیں طرف آن لگی۔ بک بک اور اصول ضابطے کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ موٹر سائیکل والا ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ دائیں طرف کا بمپر ٹھیک کرانے میں سات آٹھ سو نکل گئے۔ خیال آیا کہ اگر وہ موڑ پر بائیں کی بجائے دائیں مڑ گیا ہوتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا، پھر وہی پچھتاوا۔

ہر پچھتاوا کے بعد جی چاہتا تھا کہ وقت کی قبر سے کسی ایک لمحے کو اٹھا کر واپس اپنی جگہ رکھا جائے اور دوبارہ سے سمت یا فیصلے کا تعین کیا جائے۔ کبھی کبھی بیوی سے تکرار کا دورانیہ طویل ہو جاتا تو اس لمحے کی تلاش ہوتی جواب وقت کے ملبے میں دور کہیں دبا ہوا تھا۔ اس زمانے میں اس کی ماں نے کئی لڑکیاں دیکھی تھیں ، کچھ پسند بھی آئی تھیں لیکن یہاں بات پکی ہو گئی۔ اب اس ایک لمحے کو ماضی کے دھند لکوں سے نکال کر دوبارہ اپنی جگہ رکھا جا سکتا تو وہ کیا فیصلہ کرتا۔ ایک دو جگہ جو انکار کیا تھا شاید وہ نہ کرتا، یوں زندگی کا سارا سفر ہی بدل جاتا۔ رستہ بدلنے سے منظر ہی نہیں بدلتے سود و زیاں کے سلسلے بھی اور سے اور ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ لمحہ تو اب ماضی کے مزار میں اتنی گہرائی میں دفن ہے کہ اسے نکالنا ممکن نہیں۔

وہ سوچتا چلو یہ تو ہو گیا۔ کسی نہ کسی راستے پر تو چلنا ہی تھا، لیکن اس سے بھی پہلے اگر وہ اس لمحے کو وقت کے صحرا میں کہیں تلاش کر پاتا اور دوبارہ اپنی جگہ لے آتا، جب اس نے ملازمت کا آغاز کیا تھا تو اس کی زندگی کا سارا رخ ہی بدل گیا ہوتا۔ ملازمت کے لیے کئی جگہ انٹرویو دئیے تھے۔ دو تین جگہوں سے کال آ گئی۔ پہلی کال ایک کالج سے آئی اس نے وہیں جوائن کر لیا۔ دوسری کال دو دن بعد آئی۔ اگر دو دن پہلے آ جاتی تو وہ پڑھانے کی بجائے ٹیکس کے اس محکمے میں لاکھوں کما چکا ہوتا لیکن دو دن کے وقفے نے ساری صورت ہی بدل ڈالی تھی۔ تدریس کے شعبے نے اسے ذہنی طور پر بڑا مالدار بنا دیا تھا لیکن جیبیں ساری عمر خالی رہیں۔ بس وقت کی ذرا سی تبدیلی نے ساری ڈگر ہی بدل ڈالی تھی۔ لیکن اب برسوں پیچھے رہ گئے دھول اٹے راستے پر اس لمحے کو تلاش کرنے کو جی چاہتا تھا۔ یہ لمحہ مل جاتا تو وہ اسے آگے پیچھے کر دیتا۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے لمحے تو سینکڑوں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ جنہیں وہ آگے پیچھے کرنا چاہتا تھا، یا نہیں واپس اپنی جگہ لا کر سفر کے آغاز یا ارادے میں تبدیلی کا خواہاں تھا، لیکن وقت کے سا گرانڈیل انبار میں دبے ہوئے یہ لمحے اس کی دسترس سے باہر تھے، بس ان کی یادیں اور شبیہیں ہیں۔ کچھ دھند لکے تھے، خواب اور حقیقت میں ملے جلے کچھ خیال۔ واپسی کا سفر دھند، گہری دھند میں تھا اور مڑنا نا ممکن۔ پس آگے ہی جایا جا سکتا ہے، بغیر ارادے، بغیر فیصلے کے اور فیصلے اور ارادے کے لمحے تو گزر چکے، اس وقت، ایک خاص لمحے میں ذرا سی تبدیلی کیا سے کیا کر دیتی۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ آسمانوں سے جب اس کی روح کا سفر شروع ہوا تو کرۂ ارض کی طرف آتے ہوئے ذرا رخ مڑ جاتا تو اس ملک کی بجائے کسی بھی دوسرے ملک میں۔۔۔  ساری البم ہی اور ہو جاتی، تصویروں کے انداز ہی بدل جاتے، یا چلیے اگر اسی ملک میں آنا تھا تو کسی دوسرے شہر میں ، کسی دوسری کو کھ میں ، اس تنگ و تاریک خول میں سانس لینے کی تمنا، اس کی اپنی مرضی شامل تھی؟ معلوم نہیں ، اب تو کچھ بھی معلوم نہیں۔ یہ بھی نہیں کہ آسمانوں سے ہجرت کے رخ یا وقت میں ذرا سی تبدیلی ہو جاتی تو کیا ہوتا۔ ازل اور ابد کے درمیان اس وسیع و عریض سفید کاغذ پر پھیلے یہ نقطے، یہ تگ و دو کیا ہے؟ ہابیل و قابیل اس ایک لمحے میں آمنے سامنے نہ آتے، ایک کو ذرا سی دیر ہو جاتی تو اس کا بھائی اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتا۔ یوں جائیداد کا بٹوارہ نہ ہوتا۔ سب اسی ایک حویلی میں مل جل کر رہتے شام کو وہی محفل جمتی۔ دادی ماں پریوں کی کہانی سناتی اور سارے بچے کہانی کی پینگ پر جھولتے خوابوں کی وادیوں میں اتر جاتے لیکن اس ایک لمحے میں ہابیل و قابیل آمنے سامنے آ گئے۔ آ گئے تھے تو فیصلے میں ایک لمحے کی تاخیر ہو جاتی۔ ہونی کا لمحہ ٹل جاتا۔ ٹلنے کو تو وہ لمحہ بھی ٹل سکتا تھا جب اس کے جدا مجد نے ممنوعہ شجر سے پھل توڑا تھا۔ ذرا سی تاخیر ہو جاتی یا ذرا سا سوچ لیا جاتا، سارا نظر نامہ ہی بدل جاتا۔ یہ تگ و دو، یہ مرنا جینا، یہ خواب و حقیقت، لیکن اس سے بھی پہلے اس لمحے جب مٹی کے کلبوت میں پھونکا جا رہا تھا، ایک انکار۔۔۔  بس ذرا سی جرات ہی چاہیے تھی نا۔ چلیے اس سے انکار نہ ہو سکا تو دوسرا ہی انکار نہ کرتا تو یہ سارا فساد ہی ختم ہوتا۔ یہ تضاد، یہ جرات کی کمی، بس یہی تو سارا مسئلہ ہے۔ ایک لمحے کا جو تیزی سے وقت کی قبر میں گم ہوا جاتا ہے۔ بس اسی ایک لمحے کو واپس لانے کی خواہش اپنی جگہ رکھ کر دوبارہ فیصلہ کرنے اور سفر شروع کرنے کی تمنا۔۔۔  بس وہ لمحہ یہ لمحہ، بریک پوری شدت سے لگی۔ اس کا سر ونڈ سکرین سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ سکول بیگ پہنے ایک ننھا منا سا گول مٹول بچہ تیزی سے فٹ پاتھ پر چڑھ گیا۔ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اس نے سوچا اگر ایک لمحہ ادھر ہوتا تو یہ پیارا سا بچہ۔۔۔  ایک نا محسوس اذیت اس کے سارے وجود میں سرایت کر گئی۔ تو سارے لمحے ملے جلے نہیں ، انھیں وقت کی قبر سے چن چن کر اٹھانے اور اپنی جگہ رکھنے کی کوشش بے فائدہ ہے۔ اس نے نفی میں سر ہلایا اور ونڈ سکرین پر نظریں جمائے خاموش سڑک کو دیکھتا رہا۔۔۔  یہی سفر ہے ایک لمحے سے دوسرے لمحے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کی تمنا۔۔۔  بس ایک تمنا ہے، ایک ایسی خواہش جو ہمیشہ رہے گی لیکن کبھی پوری نہیں ہو گی اور اگر پوری ہو گئی تو۔۔۔ ؟

٭٭٭

 

یخ بستہ شام

دستک کی دھیمی دھیمی صدا آہستہ آہستہ تیز ہو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حرکت ہوئی کہ اب اس کے جسم میں صرف آنکھیں ہی متحرک تھیں ، سرمئی اندھیرے میں کچھ نظر نہ آیا۔ بس دستک کی مسلسل آواز کانوں کے راستے دل میں اترتی رہی، پھر لمحہ بھر کے لیے آواز رک گئی اور ایک بچے کی معصوم آواز ابھری۔۔۔ ’’دروازہ کھولیں۔۔۔  پلیز دروازہ کھولیں۔‘‘

اس نے کروٹ لے کر آواز کی سمت محسوس کرنے کی کوشش کی لیکن جسم نے حرکت نہ کی، بس ایک لہر سی اٹھ کر رہ گئی۔

’’دروازہ کھولیں۔۔۔  پلیز‘‘ معصوم آواز میں ایک التجا تھی اس نے چاہا کہ کسی کو پکارے لیکن لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ آواز نہ نکلی۔

’’پلیز۔۔۔  دروازہ کھولیں ، مجھے سردی لگ رہی ہے۔‘‘

اسے لگا جیسے ایک ٹھنڈی لہر اس کے سارے بدن میں اتر گئی ہے۔ لمحہ بھر کے لیے جسم میں ہلکی سی حرکت ہوئی لیکن فالج زدہ جسم مٹی کے ڈھیر کی طرح اسی طرح پڑا رہا۔

’’دروازہ کھولیں۔۔۔  مجھے‘‘ آواز میں شامل کپکپاہٹ سردی کی شدت کا احساس دلا رہی تھی۔

اس نے اپنی ساری توانائیاں اکٹھی کر کے آواز دینے کی کوشش کی لیکن آواز ہونٹوں کی پھڑپھڑاہٹ سے آگے نہ بڑھی۔

کوئی بھی نہیں سن رہا۔۔۔  کوئی بھی نہیں سنتا۔ اس نے اپنے اندر ہی اندر کسی سے کہا۔

سر مئی اندھیرے میں رچی ٹھنڈک اس کے سارے جسم کو تھپک رہی تھی۔

’’پلیز۔۔۔  کھولیں ‘‘ بچے کی آواز میں گڑگڑاہٹ اور عاجزانہ نمی پیدا ہو گئی تھی۔

اس نے آنکھوں کی حرکت سے آس پاس کو ٹٹولا لیکن کسی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔

دستک کی آواز پھر ابھری اور تا دیر مسلسل سنائی دیتی رہی۔ پھر دستک کی کوکھ سے ایک درد بھری سسکی ابھری اور آواز آئی۔۔۔  ’’پلیز۔۔۔  کھولیں۔‘‘

آواز میں ایک بے بسی، مایوسی اور دکھ شامل تھا، پھر یوں لگا جیسے کوئی دیوانہ وار دستکیں دئیے جاتا ہے۔۔۔  مسلسل نہ تھمنے والی دستک۔

اس کے وجود کے اندر کہیں ایک گرم سا نقطہ پیدا ہوا اور تیزی سے پھیلنے لگا، یوں لگا جیسے وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ سکے گا لیکن تمام کوششوں کے باوجود جسم کے ایک عضو نے بھی اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔ تیزی سے پھیلتا نقطہ آہستہ آہستہ تیز نکیلی ٹھنڈک میں تبدیل ہو گیا۔

دستک تھم گئی۔ کچھ دیر خاموش رہی پھر وہی معصوم مایوس آواز کانوں کو چیرتی اس کے اندر آنے لگی۔۔۔  ’’پلیز۔۔۔  دروازہ کھولیں ، پلیز‘‘ تکرار سے یہی جملہ دہرایا جاتا رہا، پھر چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔ یوں لگا جیسے کوئی سسکیاں لے رہا ہے۔

’’مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے۔۔۔  پلیز۔‘‘

تیز نکیلی ٹھنڈک اس کے وجود کو ادھیڑنے لگی۔

’’کوئی نہیں سنتا‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ لمحہ بھر کے لیے یوں لگا جیسے وہ خود دروازے پر کھڑا ہے اور دستکیں دے رہا ہے۔

’’دروازہ کھولیں۔۔۔  مجھے۔‘‘

ٹھنڈی لہریں پورے وجود پر دوڑ رہی تھی۔

’’مجھے۔۔۔ ‘‘

اس کے لب ہلے لیکن آواز نہ نکلی۔

’’کوئی نہیں سنتا۔۔۔  یہ سب کہاں چلے گئے ہیں ؟‘‘

’’مجھے ٹھنڈ۔۔۔ ‘‘

اس نے آنکھیں گھما کر چاروں طرف دیکھا۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔

’’یہ سب کہاں۔۔۔ ؟‘‘

مایوسی اداسی اور دکھ سے پور پور بھیگ گیا۔۔۔  ’’سب مجھے چھوڑ گئے ہیں۔‘‘

دستک کی آواز پھر ابھری تا دیر سنائی دیتی رہی پھر معصوم مایوس اور اداس آواز ابھری۔۔۔  ’’دروازہ کھولیں۔۔۔  پلیز دروازہ کھولیں۔‘‘

’’میری آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی‘‘ ہلتے ہونٹ آہستہ آہستہ ساکت ہو گئے۔

سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ یوں لگا جیسے پاؤں کی طرف سے ایک یخ پتھر تیزی سے اوپر کی طرف پھیل رہا ہے۔

دستک کی آواز میں نقاہت آ گئی دستک دینے والے کے ہاتھ شل ہو گئے تھے۔

’’دروا۔۔۔  زہ۔۔۔  کھو۔۔۔ ‘‘ آواز ٹوٹ گئی۔

اس نے اپنے وجود میں پھیلتے یخ پتھر کو پھیلنے سے روکنے کی آخری کوشش کی لیکن جسم کے کسی عضو میں شمہ بھر حرکت نہ ہوئی۔

’’دروا۔۔۔  زہ‘‘ اس نے پوری قوت سے چیخنا چاہا لیکن اس بار ہونٹوں کے کونے بھی نہ پھڑپھڑائے۔ آنکھیں گھما کر کسی کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن لگا جیسے آنکھوں کے کونے بھی پتھر ہوئے جا رہے ہیں۔

’’تو۔۔۔ ‘‘ لیکن آگے سوچنے سے پہلے ہی لفظ تڑخ گئے دستک کی مدھم سی آواز لمحہ بھر کے لیے ابھری پھر ایک دم صدا سنائی دی۔۔۔  در۔۔۔  وا۔۔۔  ٹھن۔۔۔  ڈ‘‘ چھت سے بھی اونچی سرد لہر نے اس کے سارے وجود کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ اس کے اندر پھیلتا یخ پتھر آنکھوں میں اتر آیا۔ پتھرائی آنکھوں سے لمحہ بھر کے لیے بس یہ دیکھ سکا کہ وہ سرد لہر کی تہہ میں ڈوبا جا رہا ہے۔

اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا۔ نرس اندر آئی چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر قریب آ کر اس نے اس کی نبض ٹٹولی۔ چند لمحے چپ رہی پھر پیچھے مڑ کر کسی سے کہنے لگی۔۔۔  ’’مجھے افسوس ہے۔۔۔ ‘‘

٭٭٭

 

خالی ہاتھ شکاری اور تیز آہو

برکھا رُت کے بے ایمان موسم نے عجب کافر سماں پیدا کر دیا تھا، آدھے آکاش پر گھنگھور گھٹا پائل باندھے رقص کر رہی تھی اور باقی کے آدھے آکاش پرست رنگی دھنک کے نیم دائرے نے عجب طرح کی چمک پیدا کر دی تھی۔ لمحوں لمحوں سے پھوار پڑتی اور شیتل پون سبزے کی باس اور پھولوں کی خوشبو کو مٹھیوں میں بھر بھر کر چاروں طرف اچھال دیتی۔ ندی کی مچلتی خاموشی لمحہ بھر کے لیے کناروں کے بازوؤں میں جھولتی اور پھر ایک لمبی لہر بنا کر دوسری طرف نکل جاتی، کنارے کے ساتھ پڑے اونچے سے پتھر پر اداس بیٹھا وہ ایک ایک لہر کو گن رہا تھا۔

اس کافر موسم میں اس کے انتظار کی تپش میں ایک عجب مزہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس سمے جب رات قدم قدم ندی کی اور بڑھتی چلی آتی ہے اس کا آنا ممکن نہیں لیکن خواہش تھی کہ سست رنگی چڑیا کی طرح ایک ڈالی سے پھدک کر دوسری ڈالی پر جا بیٹھتی۔ وہ چاہا گیا تھا اور چاہنے والی ہمیشہ ہاتھوں کے کٹوروں میں تمنا کے پھول لے کر اس کے قدموں پر نچھاور کرنے آتی تھی لیکن اس کافر موسم میں بات کچھ اور ہو گئی تھی۔ وہ جو چاہا جاتا تھا آج خود چاہنے والا بن کر اس کی راہ تک رہا تھا آج سے پہلے اسے اس طرح کی صورت کا سامنا ہی نہیں ہوا تھا۔ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ چاہنے کی طلب کیا شے ہے؟ آج پہلی بار وہ ایک اور ہی طرح کی لذت سے آشنا ہوا تھا۔

موسم کافر تھا اور آسمان پر پائل بجاتی گھٹا اب باقی کے آدھے آسمان کی طرف بھی بڑھ رہی تھی۔ست رنگی دھنک کے رنگ پیلے پڑ گئے تھے اور ندی کی بے چین لہریں ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف لوٹ رہی تھیں۔

وہ دوسرے کنارے ہی سے آتی تھی لیکن آج اس کا آنا ممکن نہ تھا۔ شاید ناؤ ہی نہ ملے یا یہ کہ موسم کے کافر پن میں جو ایک تندی سی آ چلی تھی وہ نہ آنے دے اس نے ٹھنڈی سانس لی اور پاس پڑے ایک کنکر کو اٹھا کر ندی میں پھینک دیا۔ لمحوں کے دائرے میں کنکر پلک جھپکتے تہہ میں اتر گیا۔

’’تو آج وہ نہیں آئے گی‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا اور اسے لگا کہ خواہش بھی ایک منہ زور گھوڑے کی طرح ہے۔

انتظار کے اس الاؤ میں پل پل سلگنے کی بھی اپنی ایک لذت ہے، ایک بولتی تنہائی، جس کے معنی تو ہیں لیکن آواز نہیں۔

’’یہ آواز کیسی ہے؟‘‘ اس نے خود سے کہا اور مڑ کر دیکھا۔

کوئی تھا۔۔۔  لیکن وہ نہیں جس کے چاہ کی لگن الاؤ بنی جا رہی تھی۔

’’آپ اداس کیوں ہیں ؟‘‘ وہ دونوں ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔

وہ مسکرایا، لیکن اسے خود احساس ہوا کہ یہ مسکراہٹ نہیں۔

’’میں اس کا کارن جانتی ہوں ‘‘ اس نے آہستہ سے کیا۔

وہ کچھ نہ بولا، بس چپ چاپ اسے دیکھا کہا۔

’’میں اپائے کرتی ہوں۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’جاتی ہوں اور اسے ساتھ لے کر آتی ہوں۔‘‘

’’اس موسم، اس رات میں ‘‘ اس کی حیرت بڑھ گئی۔۔۔  ’’اور۔۔۔  اور پھر اپنی سوکن کو۔‘‘

اندھیرے نے چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کالی گھٹا سارے آکاش پر چھا گئی تھی اور ندی کی لہروں میں خوفناک تندی آ گئی تھی۔‘‘

’’اس موسم، اس رات میں ، اس نے اپنی بات دہرائی۔۔۔ ’’اور۔۔۔  اور پھر اپنی سوکن کو۔‘‘

’’ہاں ‘‘ وہ یقین سے بولی۔۔۔  ’’آپ کی اداسی دیکھی نہیں جاتی۔۔۔  اور پریم میں دوئی نہیں ہوتی یکتائی ہوتی ہے۔‘‘

اسے لگا آج عجیب حیرتوں اور جذبوں سے آشنا ہونے کا دن ہے۔ آج وہ پہلی بار برہا کے دکھ سے واقف ہوا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ انتظار کی لذت کیا ہے اور آج ہی وہ اس جذبے سے بھی آشنا ہوا کہ جسے چاہا جائے وہی سب کچھ ہے۔۔۔  یہ جو سامنے کھڑی تھی، یہ بھی اس کی چاہنے والی تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کی بیاہتا تھی۔ لیکن اس کی خوشی کے لیے یہ سہاگن، سوکن کو لانے چلی تھی۔

’’یہ کیا ہے۔۔۔  یہ کون سا جذبہ، کون سی کیفیت ہے؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔۔۔  ’’میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔‘‘

’’آگیا دیجئے‘‘ وہ بنتی کرتی ہے۔

’’میں تو صرف چاہے جانے کے غرور ہی سے واقف ہوں ، یہ خود سپردگی کا عجز کیسا ہے؟‘‘

وہ ہاتھ باندھے باندھے پیچھے ہٹتی چلی جاتی ہے اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر ندی پار نکل جاتی ہے۔

اب موسم کافر نہیں رہا، اس میں تندی اور تیزی آ گئی ہے۔ تیز ہوا میں ندی کنارے کے ہلتے درخت عجب ڈراؤنی آوازیں نکالتے ہیں۔ سیاہ رات ایک ڈراؤنے خواب کی طرح چاروں طرف چھا گئی ہے۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ جو اس کی بیاہتا ہے اپنی سوکن کو لانے چلی ہے اور وہ جو سب کچھ جاننے والا سمجھا جاتا ہے، صرف چاہے جانے کے غرور ہی سے آشنا ہے، اسے اپنے آپ سے گھن آتی ہے۔ چاہے جانے کے غرور نے میری طاقت کو مٹی کر دیا ہے اور خود سپردگی کے عجز نے اس کمزور عورت کو کیا بنا دیا ہے؟ وہ بے چین ہو گیا۔ یوں لگا جیسے کسی نے اندر سے پچھاڑ دیا ہو۔ سارا وجود ریت کی دیوار کی طرح بکھر گیا۔ بڑی مشکلوں سے اپنی جگہ سے اٹھا اور ندی کنارے چلتا جنگل کی طرف بڑھنے لگا۔

جنگل مامتا کی طرح ہے جو سب کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔ وہ جو گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنی سوکن کو لانے نکلی تھی جنگل کے طوفان میں کہیں کھو گئی اور وہ جو اس روز گیان کی ایک نئی منزل سے آشنا ہوا تھا۔۔۔  وہ بھی جنگل میں ایسا گم ہوا کہ لوٹ کر نہ آیا۔

صبح کو صرف وہ آئی جس کا یہ سارا تماشا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ندی کنارے اسی پتھر پر جہاں وہ اکثر بیٹھا کرتا تھا ایک تازہ کھلا ہوا پھول پڑا ہے جو رات کے خوفناک طوفان کے بعد بھی اسی طرح تر و تازہ اور محفوظ ہے۔

وہ ہر روز اسی جگہ اس کا انتظار کرتی ہے لیکن نہ اس کا کچھ اتہ پتہ ہے نہ اس کا جو گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر اسے لینے گئی تھی، لوگ ان کے گم ہو جانے کی طرح طرح کی کہانیاں سناتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ خاک ہو جانے میں جو لذت ہے وہ کیا ہے اور خاک ہو کر مٹی میں مل جانا بھی ایک بات ہے کہ مٹی چاروں طرف موجود تو ہوتی ہے لیکن اپنی پہچان نہیں کراتی۔

٭٭٭

 

الجھاؤ

راستہ تو دیکھا بھالا تھا، اور قدم ایک ایک نشیب و فراز کے نبض آشنا، آنکھیں بند کر کے بھی دوڑتا تو کہیں بھٹکنے کا خدشہ نہیں تھا، سفر آغازی سے ایک ایک نشانی اپنی پہچان رکھتی تھی، پہلے پہلے کوئی بل نہیں تھا۔ بائیں طرف پرانی جیل تھی، جس کی باہر والی دیوار اب جگہ جگہ سے تڑخ گئی تھی اور اس میں گزرنے کے کئی راستے بن گئے تھے۔ اسی ٹوٹی عمر زدہ دیوار کے پیچھے بیرک نما عمارتیں تھیں جو اب کھنڈر بن گئی تھیں۔ ان عمارتوں کے آگے پیچھے ویران راستے تھے، جن پر اب جانور ہی گزرتے، کناروں پر اگی گھاس نے بنیادوں کو چھپا دیا تھا۔ کبھی ان راستوں پر بیڑیاں پہنے پاؤں کی چاپ گونجا کرتی تھی۔ بیرکوں کی دیواروں پر لگے سسکیوں کے نشان اب بہت مدھم پڑ گئے تھے۔ بیرکوں کے آگے ایک کھلا میدان تھا جس کے بیچوں بیچ پرانے پتھروں کا چبوترا تھا۔ اس چبوترے پر لگے کھمبے میں رسی کا ٹکڑا ابھی بھی لٹک رہا تھا، لیکن اب اس کے پھندے میں کچھ نہیں تھا۔ چبوترے کے پتھروں کی درزوں میں اگی گھاس اور کائی نے ایک حصار سا بنا لیا تھا۔ میدان مدتوں سے خالی تھا، نہ وہاں اب کوئی تماشا تھا، نہ تماشا دیکھنے والے۔ راتوں کو سائیں سائیں کرتی ہوا ٹوٹی دیواروں سے ٹکراتی تو ان میں دفن سسکیاں جاگ اٹھتیں ، لیکن ان کی آواز سڑک تک نہ پہنچتی، سڑک پر چلنے والی ٹریفک اپنی مستی میں سر جھکائے، اسی چال سے چلتی رہتی۔ جیل کی لمبی دیوار ختم ہوتی تو چھوٹے چھوٹے گھروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا، درمیانے درجے کے ان گھروں میں اس جیسے دوسرے ملازم رہتے تھے۔ ان گھروں کے آخر میں ایک نالا تھا جس میں برائے نام ہی پانی بہتا، نالے کے دوسری طرف بڑے لوگوں کے بنگلے تھے۔ یہ نالا گویا ایک طرح کی حدبندی تھا جسے عبور کرنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔ یہ سڑک کی ایک طرف تھی، دوسری طرف درخت تھے۔ کہیں کہیں پھول تھے اور پرندوں کے کئی گھونسلے تھے۔ وہ اس طرف گیا ہی نہیں تھا اس لیے یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان درختوں کے پرے کیا منظر تھا اور پرندوں کے چہچہانے میں کس طرح کی نغمگی تھی۔ اس کا سفر تو سڑک کے دونوں کناروں کے اندر اندر تھا۔ وہاں سے جو کچھ دکھائی دیتا وہی سچ تھا، آغاز سے اپنے گھر تک جیل کی عمر زدہ جگہ جگہ سے تڑخی دیوار کے ساتھ چلتے جانا، دوسرے موڑ پر مڑنا اور چھوٹے راستے کے بے مروت کنکروں پر قدم جمانے کی کوشش کرتے کرتے دہلیز پر پہنچ جانا، جس کے آگے دو چھوٹے چھوٹے کمرے اور ایک باورچی خانہ اور اسی سے ملا غسل خانہ جیسے ایک دوسرے سے ہم آغوش۔

اس کی دنیا صرف ایک کمرے تک محدود تھی، چھوٹی سی بے سلیقہ دنیا، دن بھر دفتر میں فائلوں کی بھول بھلیوں میں گم رہنا، کھانا اور ناشتہ کنٹین سے، کمرہ تو صرف سونے کے لیے تھا، اور لمبی سڑک، یہ بظاہر پر جوش لیکن اندر سے ویران سڑک اس کی طرح تنہا، یہی ان کی قدر مشترک تھی، رات کا اندھیرا پھیلتے ہی وہ خاموشی سے گھر سے نکلتا اور سڑک کی انگلی تھامے، جیل کی عمر خوردہ دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا، باتیں کرتا چوک تک آتا، یہاں پرانی دیوار کونا بناتی دوسری طرف مڑ جاتی تھی۔ اسے دیوار پر حرکت کرتے سائے کچھ کہتے محسوس ہوتے لیکن ان کی آواز سنائی نہ دیتی۔ دیوار میں بنے ہوئے دروں سے کبھی کبھی کوئی پرندہ پھڑپھڑا کر باہر نکلتا تو خاموشی کی گھنی چادر میں سوراخ سا ہو جاتا۔

’’یہ بے کیف سی زندگی۔‘‘ وہ سوچتا۔۔۔  ’’کبھی اس کے اندر کے اندھیرے سے بھی کوئی پرندہ اسی طرح پھڑپھڑا کر نکلے اور کھلی فضا میں دور تک اڈاریاں مارتا ہوا نیلی فضاؤں میں گم ہو جائے یہ نیلی فضائیں اپنی وسعتوں کے ساتھ بانہیں کھولے اسے اپنی طرف بلاتی تھیں ، اس کا نام لے کر پکارتی تھیں ، لیکن اس کے پاؤں تو اس سڑک سے بندھے ہوئے تھے۔ صبح ایک طرف سے جانا اور شام کو دوسری طرف سے آنا، اور پھر رات کی تاریکی میں خاموشی کی یہ گفتگو۔ کبھی اس کے اندر کوئی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیا کرتی تھی لیکن اب تو مدتوں سے کوئی آواز نہیں تھی۔ لگتا تھا اس کا وجود ایک قبر ہے جس کی تاریک گہرائی میں کوئی ننھا سا پرندہ دفن ہے۔ اس نے سنا تھا دیوار کے دوسری طرف بیرکوں سے پرے میدان میں بھی ایک قبر ہے اور وہ چبوترا، جس کے کھمبے پر لٹکتا رسی کا پھندا۔۔۔  کبھی کبھی اسے اپنے نام کی پکار سنائی دیتی۔ کوئی آہستہ آہستہ سے اس کا نام لیتا۔ جسم کی قبر میں دفن ننھا سا پرندہ لمحہ بھر کے لیے پھڑپھڑانے کی کوشش کرتا۔ میلے کاغذ پر کھینچی زندگی کی ٹیڑھی میڑھی لکیریں۔۔۔  مدھم اور الجھی ہوئیں ، صاف دکھائی نہیں دیتی۔ خاموشی اور اندھیرا۔۔۔  اور راستہ، بظاہر پر جوش لیکن اندر سے تنہا،۔ یہ سڑک جس کے ساتھ ساتھ چلتی یہ بوسیدہ دیوار جگہ جگہ سے تڑخی ہوئی ہے۔ اس میں کئی در ہیں ، جن کے اندھیرے دروں سے نکلتا پھڑپھڑاتا پرندہ، بہت دنوں سے اب اس کے اندر بھی ہلکا سا ارتعاش ہو رہا ہے یوں لگتا ہے کوئی چیز کلبلا رہی ہے، شاید قبر میں مدتوں سے دفن پرندے کی روح طویل نیند کے بعد جاگ رہی ہے۔ اس کے پر پھڑپھڑانے کے لیے بے چین ہو رہے ہیں۔

اس بظاہر پر جوش لیکن تنہا اداس سڑک کی انگلی تھامے بوسیدہ دیوار کے سائے میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اس کی خود کلامی میں تیزی آ رہی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس عمر خوردہ دیوار کے کسی روزن سے اندر جا کر سنسان بیرکوں میں سے ہوتا ہوا میدان میں نکل جائے اور پھر اس چبوترے تک۔۔۔  جس کے کھمبوں کی رسی کا پھندا مدتوں سے خالی ہے، روایت ہے کہ یہاں اسے سولی چڑھایا گیا تھا جو دوسروں کے لیے بولتا تھا اور جس کی آنکھیں سچ کہتی تھیں ، اسے انھوں نے جن کے بوٹ بہت بھاری تھے اور کندھوں پر بندوقیں تھیں ، کئی دن ان بیرکوں میں بند رکھا اور ایک رات چپکے سے، چبوترے پر لا کر پھندے میں پھنسا دیا، کئی دن اس کی گردن اس پھندے میں لٹکتی رہی، یہاں تک کہ سچ بولنے والی آنکھیں اور دوسروں کے لیے بولنے والی زبان باہر آ گئی۔۔۔  اب مدتوں سے یہ پھندا خالی تھا، بیرکیں ویران ہو گئی تھیں اور اس سارے کو تحفظ دینے والی دیوار جگہ جگہ سے تڑخ گئی تھی اور اس میں کئی راستے بن گئے تھے۔۔۔  اس دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے اسے خیال آتا کہ رسی کے بل ابھی نہیں کھلے، گردن میں اکڑاہٹ سی محسوس ہوتی، جی چاہتا کہ کسی روزن سے اندر۔۔۔  اندر گہری تاریکی، بیریکیں سنسان، درمیانی راستے ویران، خوف میں لپٹے قدم اٹھاتا وہ بیرک کے اندھیرے سے پھسل کر ویران اداس راستے پر آیا، ایک چمگادڑ چیختی ہوئی اڑ گئی۔ راستے کی گھاس میں ابھرے پتھر چمکتی آنکھوں سے گھور رہے تھے۔ اسے لگا وہ اپنی لمبی زبانوں سے، اس کے پاؤں دبوچنا چاہتے ہیں۔ تیز دوڑتا، ہانپتا ہوا میدان میں آ نکلا۔ چبوترا سامنے تھا اور اس کے کھمبے میں لگے رسے کا پھندا جھول رہا تھا۔ اس کی سانسیں ایک دم معمول سے بھی نیچے آ گئیں۔ قدم رک گئے جیسے کسی نے جادو کر دیا ہو۔ وہ جانے کتنی دیر آنکھ جھپکائے بغیر پھندے کو دیکھتا رہا، پھر آہستہ آہستہ چبوترے کے قریب گیا۔ ٹوٹے پھوٹے تین چار زینے سوکھی گھاس میں دبے دبے سے تھے۔ وہ قدم قدم ان پر چڑھا اور پھندے کے قریب پہنچ گیا۔ دفعتاً کسی نے پھندا اس کے گلے میں ڈال دیا۔ ایک تیز روشنی اس کے منہ پر پڑی اور تختہ اپنی جگہ سے کھسک گیا۔ اس کے منہ سے چیخ نکلی، ادھ کھلی آنکھوں نے اندھیرے کو اترتا دیکھا اور لمبی چپ۔۔۔ !

ہسپتال میں اس کی عیادت کے لیے آنے والے اس کی باتیں سن کر چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے اور تسلی کے ایک دو لفظ کہہ کر کمرے سے باہر آ جاتے۔ اس کے ایک بہت ہی قریبی دوست کو جو مستقل اس کی تیمار داری کر رہا تھا، باہر آ کر ایک ایک کو سرگوشی میں کہنا پڑتا۔۔۔  ’’اب پرانی جیل کہاں ہے جی‘‘ وہاں تو مدتوں ہوئی چلڈرن پارک بن گیا ہوا ہے۔۔۔  بس لگتا ہے ایکسیڈنٹ میں دماغ پر بھی کوئی چوٹ لگ گئی ہے۔‘‘

اور سننے والا بڑی ہمدردی سے سر ہلاتا۔۔۔  ’’اللہ رحم کرے۔‘‘

٭٭٭

 

دشت کے ساتھ دشت ہونے کی لذت

رات کے پچھلے پہریا پھر درمیانے پہر جب آنکھ کھلی تو ایک عجیب طرح کی پراسرار خاموشی آس پاس پھیلی ہوئی تھی۔ وہ بہت دیر بستر میں لیٹا کچھ محسوس کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن نہ کوئی آواز سنائی دی نہ کوئی حرکت دکھائی دی، سمجھ میں نہ آیا کہ ایکا ایکی آنکھ کھل گئی۔۔۔  آنکھ کھلی بھی کہ یہ بھی کوئی خواب ہے، بس بے حس و حرکت بستر میں پڑا پڑا کبھی دروازے، کبھی کھڑکی کی طرف دیکھا کیا۔ لمحہ بھر کے لیے لگا جیسے سارا جسم بے حرکت ہو چلا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی خوف کی ایک لہر سارے وجود میں دوڑ گئی۔ جست لگا کر بستر سے اٹھا دروازہ اندر سے بند تھا۔ کھڑکی کی طرف دیکھا، وہ بھی بند تھی لیکن اس کے دوسری طرف کوئی پراسرار شے حرکت کر رہی تھی۔ آہستگی سے کھڑکی کے پاس آیا، چند لمحے خاموش کھڑا سوچتا رہا پھر کنڈی کھول کر دونوں پٹ وا کر دئیے۔

باہر عجیب منظر تھا۔

کچھ دیر تو سمجھ ہی نہ آیا یہ کیا منظر ہے؟ لیکن جب آنکھیں آہستہ آہستہ چیزوں کو گرفت میں لینے لگیں اور حواس قدرے قائم ہوئے تو معلوم ہوا کہ کھڑکی کے آگے ایک طویل صحرا پھیلا ہوا ہے۔ حد نظر تک صحرا ہی صحرا۔۔۔  مگر اس کا گھر تو شہر کے مرکز میں ہے، پھر یہ صحرا کہاں سے آ گیا؟

چند لمحوں کے لیے لگا جیسے نیند میں ہے اور خواب کی حالت میں کسی پراسرار وادی میں پہنچ گیا ہے لیکن آنکھیں ملنے پر بھی صحرا وہیں رہا۔ کھڑکی سے قریب ہو گیا اور جھک کر دیکھنے لگا۔ صحرا کی حدیں دیواروں کو چھو رہی تھیں۔ جلدی سے پلٹا، دروازے تک آیا کہ دیکھے ادھر کیا ہے۔ مگر دروازہ کھولنے کی ہمت نہ ہوئی، بس یہ دیکھ سکا کہ کسی چھوٹی سی درز میں سے بلب کی روشنی کی ایک نحیف کرن فرش تک پہنچ رہی ہے۔

’’تو ادھر ابھی شہر باقی ہے‘‘ اس نے سوچا، اور دوبارہ کھڑکی میں آن کھڑا ہوا۔ آسمان صاف تھا اور ستاروں کی مدھم روشنی میں پھیلا ہوا صحرا بڑا پراسرار اور غیر معمولی طور پر خاموش لگ رہا تھا۔ وہ مسلسل نظریں جمائے اس کی وسعتوں میں کھویا رہا۔ نظروں کے ٹھہراؤ کے ساتھ ہی دور ایک ننھی سے روشنی ابھری اور پھر آہستہ آہستہ واضح ہوتی دکھائی دی۔ آگے ہو کر اسے دیکھنے کے لیے ذرا سا بڑھا اور پھر جانے کیسے خودبخود اس کے پاؤں فرش سے اوپر اٹھتے گئے اور وہ ہوا میں تیرتا ہوا صحرا کے عین وسط میں آن گرا۔ گرتے گرتے اس نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی کھڑکی دور پیچھے رہ گئی تھی سامنے ٹمٹماتی ہوئی روشنی تھی لیکن فاصلہ کافی تھا۔ سمجھ نہ آیا کہ پیچھے مڑے یا روشنی کی طرف بڑھے۔۔۔  چند لمحے تذبذب کا عالم رہا پھر پاؤں آپ ہی آپ روشنی کی طرف بڑھنے لگے، مگر جوں جوں روشنی کی طرف بڑھتا جاتا وہ اور دور ہوتی چلی جاتی۔

آسمان پر پھیلا ستاروں کا جال اور یہ بے کنار صحرا، اس میں ٹمٹماتی روشنی، جو موجود تو ہے لیکن کتنی دور؟ یہ معلوم نہیں بس رات کے اس پراسرار لمحے میں ایک خاموش صحر ا ہے، دور ٹمٹماتی روشنی اور ایک نہ ختم ہونے والا سفر، چلتے چلتے شاید صدیاں بیت گئیں۔

ساری زندگی بھی تو اسی طرح کا ایک سفر رہی۔ ایک ان دیکھے کی تلاش، کچھ ملا کچھ نہیں ملا اور اب اس صحرا میں بھی وہی نہ ختم ہونے والا سفر، ان دیکھے کی تلاش، مڑ کر دیکھا، کھڑکی کا کہیں نام و نشان بھی نہیں۔

’’واپس کیسے جاؤں گا؟‘‘ ایک ان جانا خوف سارے بدن میں رینگ گیا۔ سامنے روشنی ہے تو سہی لیکن پہنچ سے دور۔۔۔  بہت ہی دور۔

’’تو کیا اب زندگی کے صحرا سے نکل کر اس نامعلوم صحرا میں بھٹکنا ہے؟‘‘

چاہا کہ واپس مڑ جائے لیکن اب تو یہ بھی اندازہ نہیں کہ کھڑکی کس سمت ہے۔ چاروں طرف صحرا ہی صحرا ہے، ایک بے کنار دشت اوپر ستاروں بھرا آسمان اور دور ٹمٹماتی روشنی، اور پیچھے۔۔۔  پیچھے اب کچھ بھی نہیں ، بچوں کی شادیاں ہو چکیں ، وہ اپنے اپنے خوابوں میں مگن ہیں۔ بیوی گھر میں اپنی چودھراہٹ کے نشہ میں سرشار اور وہ۔۔۔  اسے سمجھ نہیں آتا کہ اب زندگی کا مقصد کیا رہ گیا ہے۔ سارا دن ایک بے کار شے کی طرح کمرے میں کتابیں پڑھنا یا ناشتے اور کھانے کے وقت چند لمحوں کی رسمی گفتگو، اب اس کی اہمیت ہی کیا ہے، بس ایک رسمی سربراہ۔

’’شاید یہ روشنی مجھے ایک نیا قالب دے دے‘‘ اس نے سوچا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ لیکن جوں جوں آگے بڑھتا وہ اور دور ہوتی جاتی۔

چپ، پھیلا صحرا اور دور کہیں ایک ٹمٹماتی روشنی، دفعتاً یوں لگا جیسے کوئی اس کا نام لے لے کر مسلسل آوازیں دے رہا ہے۔ سر جھٹک کر ادھر ادھر دیکھا۔ چاروں طرف صحرا ہی صحرا تھا۔ ایک بے کنار دشت۔ یہاں تو اس کی اپنی آواز بھی نہیں تو پھر یہ اسے کون پکار رہا ہے۔ اس کا نام لے لے کر آوازیں دے رہا ہے۔

’’میرا تو اب کوئی نام نہیں ‘‘ اس نے خود سے کہا۔۔۔  ’’میں اب یہ صحرا ہی ہوں ‘‘ اسے سکون سا ملا۔ دشت کے ساتھ دشت اور ریت کے ساتھ ریت ہو کر ذرہ ذرہ ہو جانے میں بھی ایک لذت ہے۔

’’کوئی بھی نہیں ؟‘‘ اس نے شانے اچکائے۔ ’’میرے نام کی کوئی پکار نہیں ‘‘ مسلسل دستکیں دینے کے بعد بھی جب دروازہ نہ کھلا تو بڑی بہو گھبرا گئی اور چیختی ہوئی بولی۔۔۔ ‘‘ اندر سے کوئی جواب ہی نہیں آتا۔۔۔  ’’اللہ خیر کرے۔‘‘

بڑا بیٹا اور بیوی دوڑتے ہوئے آئے اور زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگے، لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ صحرا میں کھڑے کھڑے اسے یوں لگا جیسے دور، بہت دور کہیں کوئی دستک دے رہا ہے اور اسے پکار رہا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بیٹوں ، ان کی بیویوں ، دونوں بیٹیوں اور پھر بیوی کے چہرے آنکھوں میں لہرائے لیکن بے نام ہو کر دشت کے ساتھ دشت اور ریت کے ساتھ ریت ہو جانے کی لذت غالب آ گئی۔

’’میرا کوئی نام نہیں ، کوئی رشتہ نہیں ‘‘ اس نے شانے اچکائے اور تیز تیز آگے بڑھنے لگا۔

٭٭٭

 

خواہش

اگر کسی طرح میری زنجیر ڈھیلی پڑ جائے اور میں اسے لے کر بھاگ پڑوں اور دوڑتا ہوا دنیا کے آخری سرے تک پہنچ جاؤں ، لمحہ بھر کے لیے سنبھلنے کی کوشش کروں اور پھر نیچے جا گروں۔۔۔ ؟ مجھے اس سے غرض نہیں کہ نیچے گر کر میرا کیا ہو گا؟ لیکن اگر کوئی نامہربان ہاتھ مجھے اٹھا کر پھر اپنی جگہ پر لا بٹھائے اور فخر سے کہے کہ میں نے اسے ڈوبنے سے بچا لیا ہے تو میں اسے کیا کہوں گا۔ میں تو اسے یہ بھی نہیں بتا پاؤں گا کہ میں تو عرصہ ہوا ڈوب چکا ہوں اور یہ جسے وہ نکال دیا ہے، میں نہیں مجھ سا کوئی اور ہے۔

مجھ سایہ کوئی اور تو عرصہ سے میرے اندر رہ رہا ہے۔ رہا میں۔۔۔  تو میں مدتیں ہوئیں ڈوب کر کہیں کھو چکا ہوں ، ہوا یوں کہ میں اور وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اٹھکھیلیاں کرتے چلے جاتے تھے کہ۔۔۔ ؟ وہ کون ہے؟ یہ مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔

میں اس کے چہرے کی پہچان نہیں رکھتا کیونکہ اس کا چہرہ بدلتا رہتا ہے۔ میں تو بس اس کے لمس اور لمس کی خوشبو سے واقف ہوں اور وہ جہاں بھی ہو جس روپ میں بھی ہو یہ خوشبو مجھے اس کا پتہ بتا دیتی ہے اور میں اسے ہجوم میں سے ڈھونڈھ لیتا ہوں، مگر میری اس کی رفاقت کے لمحے بہت ہی محدود اور مختصر ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ رفاقت چند لمحوں کے لیے ہی ہوتی ہے۔

کسی بس میں سفر کرتے ہوئے میں چند لمحوں کے لیے اسے دیکھتا ہوں ، محسوس کرتا ہوں اور اس سے پہلے کہ میں اپنے حواس پر قابو پاؤں اور اسے پانے کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کروں وہ کسی سٹاپ پر اتر جاتی ہے۔ میں تذبذب کی اندھی کھائی میں ڈبکیاں ہی کھاتا رہ جاتا ہوں۔ وہ کبھی کبھی مجھے کسی تقریب میں بھی مل جاتی ہے لیکن وہاں بھی وہی دوئی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہوں اسے بتاؤں کہ میں کون ہوں تقریب ختم ہو جاتی ہے اور وہ کسی گاڑی میں بیٹھ کر کسی اور کے ساتھ کہیں کھو جاتی ہے۔ میں اسی طرح کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہوں۔

میری اس کی رفاقت لمحوں ہی کی ہے لیکن کبھی کبھی یہ لمحے پھیل بھی جاتے ہیں ، لیکن برسوں پر پھیلے ہوئے یہ لمحے بھی پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں دو سال وہ میرے ساتھ رہی لیکن جدائی کا وقت آیا تو یوں لگا جیسے ہمارا یہ ملنا ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ان دو سالوں میں ہم نے کتنی ہی باتیں کیں ، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھا لیکن میں اسے کبھی یہ نہ بتا سکا کہ اس گفتگو سے آگے بھی ایک تمنا ہے جس کا کوئی نام نہیں۔

باتیں کرتے کرتے وہ کئی بار مجھے یوں تکتی جیسے میرے منہ سے کچھ اور سننا چاہتی ہے میرا جی چاہتا بھی کہ اسے بتاؤں کہ میں اسے کب سے تلاش کر رہا ہوں۔ برسوں پہلے جب ہم بچپن میں ایک دوسرے سے بچھڑے تھے اور اس کے بعد میں نے اسے تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب وہ ملی ہے تو پہچانتی ہی نہیں۔ میں اسے کچھ نہ بتا سکا اور الوداعی تقریب کے بعد ہم الگ الگ ہو گئے۔

رفاقت کے بعد جدائی کا ایک لمبا سفر شروع ہو گیا اس دوران وہ مجھے تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے کئی جگہ ملی۔ ملازمت کے دوران میں نے اسے ایک بار اپنے ہی دفتر میں دیکھا لیکن اس سے پہلے کہ میں اس کے قریب ہوتا اسے اپنی پہچان کراتا میرے ایک ساتھی نے اس سے شادی کر لی اور اسے لے کر کہیں اور چلا گیا۔ ایک بار اور وہ مجھے ایک شادی کی تقریب میں ملی لیکن اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا مجھے معلوم ہوا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔

میرے لیے تو اس طرح کی باتیں روز کا دکھ ہیں ، جنہیں میں سہتا ہوں۔ اسے دیکھتا بھی ہوں ، محسوس بھی کرتا ہوں لیکن اسے احساس نہیں دلاتا، احساس دلا کر اسے خواہ مخواہ پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی زندگی کی شگفتہ راہوں پر کانٹے بکھیرنے کا کیا فائدہ؟ میرے لیے تو اس کا انتظار ایک نہ ختم ہونے والی اداسی ہے جو کبھی کبھی چند لمحوں کے لیے حیرت کے چھوٹے سے وقفوں میں بدل جاتی ہے یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے مجھے کسی دوسرے چہرے یا بدن میں دکھائی دے جاتی ہے میں اس کی طرف لپکتا ہوں مگر پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرا واہمہ ہی ہے۔ کچھ عرصہ کے لیے وہ مجھے اس عورت کے روپ میں بھی دکھائی دی تھی جو اب میری بیوی ہے۔ میں نے اسے ایک تقریب میں دیکھا اور اس کی مانوس خوشبو کو محسوس کیا۔ مجھ پر ایک وجد سا طاری ہو گیا اور جب میں نے اپنی ماں کے سامنے اس کا ذکر کیا تو اس نے ذرا بھی تاخیر نہ کی۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں میں پھر اپنے ارادے سے دست بردار نہ ہو جاؤں۔

ہماری شادی ہو گئی لیکن چند مہینوں میں مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ وہ نہیں۔ وہ شاید ایک مختصر سے عرصہ کے لیے اس کے بدن میں آئی تھی، یا یوں کہ اس کا کوئی ایک عکس اس میں بھی آ بسا تھا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے؟ میری تلاش اسی طرح جاری ہے۔ لیکن کبھی کبھی یوں ضرور ہوتا ہے کہ اس کا کوئی عکس، خوشبو کا کوئی جھونکا اس عورت میں بھی آ موجود ہوتا وہ چند لمحے میری خوشی کے لمحے ہیں لیکن پھر وہی اداسی، نہ ختم ہونے والی اداسی۔ جو زنجیر کی طرح میرے گرد لپٹی ہوئی ہے۔ میں اس زنجیر سے نکل بھاگنا چاہتا ہوں۔ ٹوٹ نہ سکے تو اسی کو لے کر بھاگ نکلوں اور دوڑتا ہوا دنیا کے آخری سرے تک جا پہنچوں ، لمحہ بھر کے لیے مڑ کر اسے دیکھوں اور لڑکھڑا کر نیچے۔۔۔  خلاؤں میں گرتا چلا جاؤں !

لیکن زنجیر ٹوٹ بھی جائے تو شاید میں دوڑ نہ سکوں کہ میں تو صرف تصور اور خواب ہی میں زندہ ہوں اور یہ جو مجھ سے باہر مجھ سا کوئی ہے۔۔۔  یہ کوئی اور ہے میں نہیں کہ مجھے تو اپنے پاس ہونا میسر ہی نہیں۔

٭٭٭

 

شوق بندھن کی ناؤ میں

بھور سمے جب جانے کا وقت آیا تو عجب رقت کا سماں تھا۔ وہ سب اس کے گرد اکٹھی ہو گئیں اور ان میں سے جو سب سے بانکی اور سجیلی تھی ہاتھوں میں دودھ کا پیالہ لیے اس کے پاس آئی اور سر جھکا کر کھڑی ہو گئی، اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے لیکن لفظ باہر نہ نکلتے تھے، اس کی سیاہ آنکھوں میں ساون امڈ آیا تھا جس سے کاجل کی لکیر پھیل کر نیچے اتر آئی تھی۔ اس نے خاموشی سے پیالہ اس کے ہاتھ سے لے لیا، وہ چند لمحے یوں ہی کھڑی رہی پھر دفعتاً جھک کر اس نے اس کے پاؤں چھو لیے۔

بہت دیر خاموش رہی، وہ سب کی سب آنکھوں میں ساون لیے اسے دیکھتی رہیں۔ یوں لگا جیسے ایک جگ بیت گیا ہے اور یوں ہی بیٹھے بیٹھے ان کے سروں میں سفیدی ابھر آئی ہے۔

اس نے سر اٹھایا۔۔۔  ’’تو اب چلتے ہیں۔‘‘

کوئی کچھ نہ بولا:

اس نے پھر کہا جیسے اپنے آپ کو سنا رہا ہو۔۔۔  ’’تو پھر چلتے ہیں ‘‘ اب کی بار اس نے جو ان سب میں بانکی اور سجیلی تھی اور جس کی آنکھوں میں امڈے ہوئے ساون نے کاجل کی لکیروں کو پھیلا دیا تھا، ذرا سا آگے آئی اور رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔  ’’لوٹ کر کب آئیں گے؟‘‘

وہ بڑی دیر سے اسی سوال کا منتظر تھا لیکن جب سوال ہوا تو وہ جواب نہ دے سکا اور جواب نہ دینے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ اس بارے میں جانتا نہیں تھا لیکن اسے حوصلہ نہ ہوا، وہ چپ چاپ سامنے دیکھتا رہا۔

’’لوٹ کر کب آئیں گے؟‘‘ اس کا کاجل پھیلتا ہی چلا جا رہا تھا اور اب تو ساون کی نمی اس کی آواز میں بھی در آئی تھی۔

وہ اسی طرح خاموش، بت بنا سامنے دیکھتا رہا، پھر بڑی دیر کے بعد اس کی سوئی ہوئی، کھوئی ہوئی آنکھوں میں زندگی کا شرارہ چمکا، ایک قدم آگے بڑھ کر آہستہ سے بولا۔۔۔  ’’جب تم دکھ میں ہو گی اور مجھے یاد کرو گی‘‘ آنکھوں میں امڈا ساون کھل کر برس اٹھا، کاجل کی ناؤ موجیں مارتے دریا میں ڈولنے لگی، رک رک کر مگر ٹھہرے ہوئے پر یقین لہجہ میں بولی۔۔۔  ’’تو مجھے ور دیجیے کہ میں سدا دکھ میں رہوں اور آپ کو یاد کرتی رہوں۔‘‘

وہ بھیگے پتے کی طرح تیز ہوا میں کانپ کر رہ گیا۔ اتنی شدید آندھی اور ایسی برسات کی تو اسے توقع نہ تھی، اب نہ جواب تھا اور نہ لفظ، اس نے چپ رہنے میں عافیت جانی، لیکن جو کچھ موجود تھا وہ تصور نہ تھا، حقیقت تھی۔

وہ سب اس کے گرد اکٹھی تھیں اور ان میں سے جو سب سے بانکی اور سجیلی تھی آنکھوں میں ساون لیے اس کے جواب کی منتظر تھی، ’’مجھے دکھ کا ور دیں۔‘‘

کوشش کے باوجود اس کا ہاتھ ور دینے کے لیے اوپر نہ اٹھ سکا۔ وہ خاموشی سے دو قدم چلا رکا پھر تیز تیز چلتا آگے نکل گیا، وہ سب کی سب اور ان میں سے جو سب سے بانکی اور سجیلی تھی اپنی ساون آنکھوں اور کالی گھٹاؤں جیسی زلفوں کے ساتھ پیچھے۔۔۔  اور پیچھے، اور پیچھے رہ گئیں !

اور آگے تو رن کا تانبے کی طرح تپا ہوا میدان تھا، جس کا پینڈا ختم ہونے میں نہ آتا تھا، راستے میں کئی سوار، کئی پیادہ آس پاس کی پگڈنڈیوں سے نکل کر اس کے ساتھ اکٹھے ہوتے گئے، کچھ زیادہ جلدی میں تھے آگے نکل گئے، کچھ بہت سست تھے پیچھے رہ گئے، لیکن وہ اپنی چال چلتا آگے بڑھتا رہا، ایک شوق تھا کہ آگے کھینچے چلا جا رہا تھا اور ایک بندھن تھا کہ پیچھے سے آوازیں دیتا تھا، وہ کبھی رکتا، منہ موڑ کر کچھ سننے کی کوشش کرتا، یا لمحہ بھر کے لیے آنکھیں بند کر کے اسے دیکھتا، وہ جو سب میں بانکی اور سجیلی تھی اور اس کی بھیگی آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں ، ساون کی امڈتی گھٹاؤں اور برسات میں سب کچھ ڈوب جاتا، چونک کر اس بندھن کی بندھاہٹ سے باہر نکلتا، آگے سے آتی پر شور آوازیں اور ان کی پکار اپنی طرف کھینچتی اور پینڈا کھوٹا ہو جانے کے خوف سے تیز تیز چلتا کئی سواروں کو پیچھے چھوڑتا چلا جاتا۔

یہ لمبا سفر انہی کھٹی میٹھی یادوں اور برستے ساون کے سپنوں میں آخر ایک دن ختم ہو گیا اور سامنے تانبے کی طرح تپتا میدان آ گیا جہاں گھمسان کا رن پڑ رہا تھا اور اسے لگا جیسے وہ پلک جھپکنے میں اس رن کے عین بیچوں بیچ کھڑا ہے تلواروں نیزوں اور برچھیوں کے وار روکتا، خود کو بچاتا وہ بھی اس کا ایک حصہ بن گیا۔

’’لیکن یہ سب آخر کس لیے؟‘‘ دفعتاً ایک خیال سہمے ہوئے پرندے کی طرح اس کے من کے اجڑے درخت پر لمحہ بھر کے لیے پھد کا۔ ڈھال پر سامنے کی تلوار کا وار روکتے ہوئے اس نے سر جھٹک کر اس ننھے سے پرندے کو اڑانا چاہا لیکن وہ درخت کی شاخوں میں چھپ گیا اور کچھ دیر جب وہ اپنے دشمن کے سینے میں تلوار اتار رہا تھا، ننھا سا پرندہ پھدک کر ٹہنی پر آ بیٹھا۔

’’آخر یہ سب کس کے لیے ؟‘‘

اس نے سر جھٹک کر پرندے کو اڑانا چاہا لیکن وہ ایک ٹہنی سے اڑ کر دوسری ٹہنی پر جا بیٹھا۔

’’دراصل مجھے معلوم ہی نہیں کہ یہ سب کس کے لیے ہے اور کیوں ؟‘‘ اس نے اپنے من کو تسلی دی، لمحہ بھر کے لیے پرندہ درخت کی شاخوں میں کہیں گم ہو گیا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا لیکن شام ڈھلے جب دونوں طرف کی لاشوں کی گنتی شروع ہوئی تو ننھا سا پرندہ پھر پھدک کر ٹہنی پر آ بیٹھا ’’آخر یہ۔۔۔ ‘‘

’’مجھے نہیں معلوم۔۔۔  مجھے نہیں معلوم‘‘ وہ چیخنے لگا ’’مجھے کچھ معلوم نہیں۔‘‘

اس کے ساتھیوں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر نیچے بٹھا دیا، ایک جلدی سے ٹھنڈا پانی لے آیا۔۔۔  ’’لو پیو۔۔۔  تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘

اس نے پیالہ ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔  لمحہ بھر کے لیے لگا جیسے وہ جو ان سب میں بانکی اور سجیلی تھی دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیے اس کے سامنے کھڑی ہے اور پوچھ رہی ہے۔۔۔  ’’لوٹ کر کب آؤ گے؟‘‘

’’مجھے نہیں معلوم‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

اس کے ساتھیوں نے تشویش سے ایک دوسرے کو دیکھا، ’’بہتر ہے تم کل خیمے ہی میں رہو، تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ، آرام کرو گے تو من قابو میں آ جائے گا۔‘‘

’’نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔۔ ‘‘ اسے لگا جیسے وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس نے اپنے آپ کو بہت سنبھالا، لیکن ننھے پرندے کے سوال کا جواب پھر بھی اسے نہ ملا۔

اگلی صبح جب رن شروع ہوا تو اس کے بازوؤں کا تناؤ ڈھیلا پڑ چکا تھا۔ دو تین واروں ہی میں دشمن نے اسے آ لیا اور ایک ہی بھرپور وار میں ڈھال اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گری۔ بند ہوتی آنکھوں اور اکڑی سانسوں میں اس نے آخری بار اپنے اوپر جھکے ہوئے چہرے کو دیکھا۔

وہ اس کا اپنا چہرہ تھا۔

تو کیا میں نے خود ہی۔۔۔  اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے آپ کو۔۔۔

جواب پانے سے پہلے ہی اس کا سانس اکھڑ گیا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔۔۔  آخری منظر شاید یہی تھا، یا شاید لمحہ بھر کے لیے وہ جو ان سب میں بانکی اور سجیلی تھی اپنی ساون آنکھوں اور گھٹاؤں جیسی زلفوں کے ساتھ اس کے پاس آئی تھی اور دودھ کا پیالہ۔۔۔

دودھ کا پیالہ لیے وہ اب بھی ندی کنارے بیٹھی اس کی راہ تک رہی ہے، وہ جو ان سب میں بانکی اور سجیلی ہے، اب تو اس کی آنکھوں کا کاجل بھی بہہ بہہ کر اس کے سارے چہرے پر پھیل چکا ہے۔

٭٭٭

 

صرف دو فرلانگ پہلے

اب اندازہ نہیں تھا کہ برف کا یہ صحرا کب اور کہاں سے شروع ہوا تھا، شاید اس وقت دن کا کوئی پہر تھا کہ دن سپیدی میں برف کی سپیدی پر قدم رکھا اور شاید دن کی حرارت بھی تھی کہ ٹھنڈک کا احساس نہ ہوا، لیکن اب رات تھی اور سیاہی میں بھی برف سپید ہی تھی البتہ ٹھنڈک نیچے بھی تھی، اور چاروں طرف بھی۔ برف کے سانپ شوک تو رہے تھے مگر ابھی انہوں نے اسے ڈسا نہیں تھا، سردی اس کے سارے بدن پر رینگ رہی تھی اور آہستہ آہستہ اس کی رگوں میں اترنے کی کوشش کر رہی تھی، اسے معلوم تھا کہ اگر وہ رک گیا تو سردی اسے ایک دم دبوچ لے گی لیکن پھر بھی وہ لمحہ بھر کے لیے رکا، آسمان کی طرف دیکھا کہ شاید کسی ستارے سے سمت کا اندازہ ہو، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اردگرد کا جائزہ لینے کی کوشش کی لیکن شناسائی کی ایک بوند بھی پیاسی آنکھوں میں نہ گری۔ اسی ایک لمحے میں ٹھنڈک نے اس کے جسم پر اپنی یخ انگلیوں کی گرفت سخت کر دی۔ اس نے جلدی سے پاؤں ہلانا اور بازوؤں کو گھمانا شروع کیا، لیکن چند لمحوں سے زیادہ یہ مشق نہ کر سکا۔ تھکاوٹ کا ایک غبار سا سارے جسم میں پھیل گیا۔ اس نے پھر چلنا شروع کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ رک گیا اور تھک کر کہیں بیٹھ گیا تو پھر کبھی نہ اٹھ سکے گا۔ وقت کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ کتنی رات بیت گئی ہے اور صبح ہونے میں کتنی دیر ہے۔ صبح ہو گی بھی کہ نہیں۔۔۔  اس نے مایوسی سے سوچا۔

روانہ ہوتے وقت اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ برف کے اس صحرا میں یوں بے بس ہو جائے گا۔ یا شاید اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ راستے میں برف کا یہ صحرا آ جائے گا۔ اس نے کہاں سے سفر شروع کیا تھا اور کہاں جا رہا تھا؟ اس وقت تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا نہ کوئی یاد تھی، نہ کوئی خیال، نہ کسی آغاز کا تصور اور نہ کسی منظر کی تمنا، یوں لگ رہا تھا جیسے برف کے ننھے ننھے ذرے اس کے دماغ کے اندر چلے گئے ہیں اور آہستہ آہستہ دماغ کی ننھی ننھی رگوں کو اپنے اندر سمیٹ رہے ہیں۔

وہ کون تھا؟ کوئی تو تھا کہ اس وقت برف کے اس صحرا میں زندگی کی تیزی سے پھسلتی ڈور کو پکڑ رکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ میں ایک شخص تو ہوں ، اس نے سوچا تو اس پار کا خیال آتے ہی دھندلی سی بستی دھیرے سے اس کے تصور میں اتر، انہی دھند لکوں میں لپٹا ایک چھوٹا سا گھر، جس کے ایک کمرے میں آگ کے حصے کو ٹکورا، لیکن دوسرے ہی لمحے ٹھنڈک ایک تیز سوئی کی طرح اس کے سارے وجود میں پھر گئی۔ اس نے تیزی سے دونوں پاؤں کو ہلایا اور ہلکے ہلکے اچھلنا شروع کیا، مگر چند لمحوں سے زیادہ یہ مشق جاری نہ رہ سکی اور تھکاوٹ کی ایک گہری لہر اس کے سارے وجود پر چھا گئی،ایک گہرا خوف آہستہ آہستہ اس کے چاروں طرف پھیل گیا اور رفتہ رفتہ اپنا حصار تنگ کرنے لگا۔ اس نے ٹھنڈک سے آٹھرے ہوئے پپوٹوں کو کھول کر دیکھنے کی کوشش کی، چاروں طرف یخ اندھیرا، اوپر کھلا آسمان اور نیچے برف۔۔۔  برف ہی برف۔

اسے معلوم تھا کہ موت نیند کی صورت اس کے وجود پر اتر رہی ہے، لیکن اسے روکنا اس کے بس میں نہیں تھا، پھر بھی اس نے ٹھنڈک سے آٹھرے ہوئے پپوٹوں کو کھولنے کی کوشش کی، اس نیند میں ایک خمار تھا اور اس خمار میں دھند میں لپٹے گھر کا وہ کمرہ جہاں آگ کے گرد تھے لوگ۔۔۔  اس نے پپوٹوں کو پھیلاتے ہوئے انھیں پہچاننے کی کوشش کی، لیکن کوئی شکل واضح نہ ہوئی، بس آگ کے گرد تھے سائے سے، ہونٹ ہلتے ہوئے لیکن لفظ سنائی نہ دئیے۔

سردی کی یخ انگلیوں نے اس کے وجود پر اپنی گرفت اور سخت کر دی اور دھیرے دھیرے اس کے اندر اترنے لگیں ، اس نے پاؤں پر اچھلنے کی ایک کوشش کی لیکن سردی کے وزن سے بندھے پاؤں اپنی جگہ سے نہ ہلے، سردی بھاری وزن کی صورت اس کے بازوؤں سے بھی لٹک گئی تھی۔ سردی کے وزن سے بوجھل قدم اٹھاتے ہوئے اس نے سوچا۔۔۔  شاید چند ہی قدم اور۔۔۔  دفعتاً ٹھنڈ بھاری یخ ہاتھ کی طرح اس کی کمر پر لگی اور وہ منہ کے بل آگے جا گرا۔

شاید یہی آخر ہے۔۔۔  برف کے ننھے ننھے ذروں نے اس کے دماغ کی ساری رگوں کو اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔ سوچ کی بجائے دماغ میں ایک ٹھنڈی یخ لہر اٹھی۔ لفظوں کے بعد اب خیال اور تصور بھی اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ اپنے سارے وجود کو سمیٹتے ہوئے اس نے کہنیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کی۔ آدھا اٹھا لیکن سردی اور تھکن کے بوجھ نے اسے پھر گرا دیا۔ چاروں طرف یخ بستہ اندھیرا، اوپر کھلا آسمان اور نیچے برف ہی برف، اس نے بند ہوتی آنکھوں کو پوری قوت جمع کر کے، کھولنے کی کوشش کی، دیکھنے کی کوشش کی، لیکن آنکھیں ایک تہائی سے زیادہ نہ کھلیں اور خود بخود آہستگی سے بند ہو گئیں۔ ایک ٹھنڈی برفیلی چٹان اس کے اندر تیزی سے پھیل رہی تھی۔ اس نے بکھرتی توانائی کو بوند بوند اکٹھا کر کے پھر کہنیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کی، مگر چوتھائی بھی نہ اٹھ سکا اور اگلے ہی لمحے پھر برف پر جا گرا۔ برف کے ننھے ذرے اس کے چہرے سے ٹکرائے تو اس نے ایک بار پھر ساری توانائی اکٹھی کر کے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی، لیکن یوں لگا جیسے کسی نے پپوٹوں کے ساتھ منوں ٹھنڈک باندھ دی ہے۔ اس نے لیٹے لیٹے پاؤں ہلانے کی کوشش کی لیکن پاؤں تو اس کے ساتھ ہی نہیں تھے نچلا دھڑ تو موجود ہی نہیں تھا، شاید اوپر والا دھڑ بھی موجود نہیں تھا، صرف ذہن میں ایک سرسراہٹ سی تھی۔ ایک تصور سا انتظار کرتا ایک ننھا سا وجود، لمحہ بھر کے لیے گرماہٹ کے ایک مشفق نرم ننھے ہاتھ نے اس کی منجمد ہوتی آنکھوں کو چھوا۔ ایک رنگ برنگا پرندہ اس کے دل کے آنگن میں پر پھیلا کر لمحہ بھر کے لیے ناچا، چہکا اور یخ سردی میں کہیں کھو گیا۔

اس نے اپنے سارے وجود کو سمیٹنے کی کوشش کی اور اپنی امیدوں ، جینے کی امنگوں اور توانائیوں کو بوند بوند اکٹھا کر کے آنکھیں کھولنے اور کہنیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کی لیکن نہ آنکھوں نے کوئی حرکت کی نہ وہ اپنی جگہ سے ہل سکا۔ ٹھنڈک نے اس کے سارے وجود کو ڈس لیا اور اس کے اندر سے دوڑتی ہوئی اس کے دماغ میں آ گئی۔ اس نے تصور کیا کہ وہ اٹھنے، آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ تصور ادھورا ہی رہ گیا۔ اس کے ہونٹ لمحہ بھر کے لیے ذرا سا ہلے اور پھر برف کی قاش بن گئے۔ آخری خیال بس، انتظار کرتے ایک ننھے سے وجود کا گرم احساس، اور یہاں سے صرف دو فرلانگ دور، ہوسٹل کے کمرے میں آگ کے گرد بیٹھی اس کی بیٹی سوچ رہی تھی۔۔۔  ابو ابھی تک نہیں پہنچے، ماں نے تو فون پر یہی بتایا تھا کہ وہ دوپہر کا کھانا کھاتے ہی روانہ ہو گئے تھے۔

لیکن اسے کیا معلوم کہ موٹر تو راستے میں خراب ہو گئی تھی اور بیٹی تک پہنچنے کی جلدی میں وہ پیدل ہی کچے راستے سے ہو نکلا تھا۔۔۔ !

٭٭٭

 

متلاہٹ

عام طور پر متلی کا تعلق ہاضمے کے نظام سے ہے لیکن یہ عجیب مریض تھا کہ جیسے ہی اس کے کمرے میں کچھ لوگ اکٹھے ہوتے اس کی طبیعت خراب ہونے لگتی اور اس پر متلاہٹ کا ایسا شدید دورہ پڑتا کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ مختلف دوائیں آزمانے کے باوجود کوئی افاقہ نہ ہوا، اکیلا ہوتا تو گھنٹوں ٹھیک رہتا لیکن جیسے ہی اس کے ملنے والے یا ہسپتال کے دو چار اس کے کمرے میں داخل ہوتے اسے شدید متلاہٹ شروع ہو جاتی۔

فزیشن ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے مریضوں کے نفسیاتی معاملات سے بھی خاصی دلچسپی ہوتی ہے لیکن یہ مریض میری سمجھ سے باہر تھا۔ اچھی سے اچھی دوائیں اور گھنٹوں اس کے ساتھ گفتگو کے بعد بھی میں اس کی بیماری کی نوعیت نہ سمجھ سکا، اس سے مجھے خود الجھن ہونے لگی، فرصت ملتے ہی میں اس کی فائل کھول لیتا، لیکن اس میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ کسی ادارے میں معقول جگہ کام کر رہا تھا، ٹھیک ٹھاک آمدنی تھی، یہ بیماری بھی اچانک ہی شروع ہوئی تھی۔ وجہ نہ اسے معلوم تھی نہ اس کی بیوی کو۔

اس وقت بھی میں اس کی فائل دیکھ رہا تھا کہ نرس کچھ لینے کمرے میں آئی۔ فائل کھلی دیکھ کر کر اسے کچھ یاد آیا کہنے لگی ’’آپ نے کہا تھا نا کہ اس کی بیوی سے پوچھوں ؟‘‘

’’ہاں ہاں ‘‘ میں نے دلچسپی سے کہا۔۔۔  ’’کیا بتایا اس نے‘‘ شاید آپ کے لیے اہم ہو‘‘ وہ قدرے توقف سے بولی ’’اس کی بیوی نے بتایا ہے کہ یہ بیماری شروع ہونے سے چند دن پہلے وہ کسی جھگڑے میں ایک رات تھانے میں رہا تھا‘‘ ’’اچھا‘‘ میں چونکا۔۔۔  ’’اس وقت اس کے کمرے میں کون ہے؟‘‘

’’کوئی نہیں ‘‘

میں نے جلدی سے فائل بند کی اور سٹیٹو سکوپ اٹھا کر اس کے کمرے کی طرف چل پڑا۔

وہ نیم دراز اخبار دیکھ رہا تھا مجھے اندر آتے دیکھ کر اس نے اخبار ایک طرف رکھ دیا اور ذرا اوپر ہو کر چارپائی کے سرہانے سے ٹیک لگا دی۔

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’کیا حال ہے؟‘‘

’’بالکل ٹھیک‘‘ اس نے خوش خلقی سے کہا

میں کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموشی رہی۔

’’آج کل تو اخباروں میں لڑائی جھگڑوں کی خبروں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

اس نے سر ہلا دیا۔

’’اب تو راہ چلتے جھگڑے ہو جاتے ہیں ، لگا ہے لوگوں کے مزاجوں میں کچھ تلخی آ گئی ہے۔‘‘

اس نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا۔

’’اس کی وجہ شاید ہمارے مجموعی معاملات میں ہے‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’شاید پورے ماحول میں کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔‘‘

وہ اسی طرح خالی نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اچانک سوال کیا۔ ’’پچھلے دنوں آپ کا بھی تو کسی سے جھگڑا ہوا تھا۔‘‘

اسے اس طرح جھٹکا لگا جیسے بجلی کے ننگے تار پر ہاتھ آگیا ہو۔ آنکھیں جھک گئیں۔ گہری چپ نے کمرے کو اپنی بکل میں لپیٹ لیا۔

پھر بہت ہی دھیمی آواز میں جسے میں بمشکل سن سکا بولا۔۔۔  ’’ہاں ‘‘

قدرے تو قف کے بعد میں نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا تھا؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں ‘‘۔۔۔  وہ آہستہ سے بولا۔۔۔ ‘‘ روڈ بلاک تھی گاڑیاں بے ترتیبی سے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مجھے بچوں کو لینے کی جلدی تھی۔ میں نے بھی ایک سائیڈ سے نکلنے کی کوشش کی اور آگے کھڑی جیپ سے کترا کر آگے آگیا۔ اس پر جیب والا نیچے اتر آیا اور کہنے لگا میں نے اس سے آگے گاڑی نکالنے کی کوشش کیوں کی ہے۔ میں نے کہا۔ اس میں غیر معمولی بات کیا ہے۔ روڈ بلاک ہے اور سبھی یونہی کر رہے ہیں اس پر وہ مشتعل ہو گیا اور بولا تمہیں معلوم نہیں میں یہاں کا اے سی ہوں ، تمہیں جرات کیسے ہوئی ہے مجھ سے آگے نکلنے کی، اس پر تکرار ہو گئی۔ تو تو میں میں سے بات گالی گلوچ تک آ گئی۔ ٹریفک آدھے گھنٹے سے بند تھی۔ بچوں کی چھٹی ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ میں اتنا زچ ہوا ہوا تھا کہ میں نے بھی اسے خوب سنائیں۔ اتنے میں ٹریفک والے آ گئے اس نے ان سے کچھ کہا، چنانچہ انھوں نے مجھے تھانے جانے پر مجبور کیا بلکہ زبردستی تھانے لے گئے۔‘‘

وہ چپ ہو گیا۔

’’پھر کیا ہوا، میں نے تجسس سے پوچھا۔

وہ چپ خلا میں دیکھتا رہا۔ بہت دیر چپ رہا پھر دھیمی آواز میں بولا۔۔۔  ’’تھانے میں انھوں نے مجھے بنچ پر بٹھا دیا۔ ایک ایک آتا، گھور کر دیکھتا ار دو چار گالیاں نکال کر کہتا۔۔۔  اچھا تو یہ ہے۔

میں نے کئی دفعہ کہا۔۔۔  دیکھو میں سرکاری افسر ہوں مجھے اپنے بچوں کو سکول سے لینا ہے۔

اس پر تھانے دار نے کہا۔۔۔  ’’تمہاری ماں کی۔۔۔  خاموش بیٹھو۔‘‘

میں نے کہا۔۔۔  مجھے کس جرم میں یہاں لائے ہو مجھے گھر فون کرنے دو۔‘‘

اس پر تھانیدار مشتعل ہو گیا اور تیزی سے میری طرف آیا۔

’’اچھا تو تم اپنا جرم معلوم کرنا چاہتے ہو۔‘‘

’’ہاں ‘‘ میں نے غصے سے کہا۔۔۔  ’’میں سرکاری افسر ہوں۔‘‘

’’اچھا تو تم سرکاری افسر ہو‘‘ وہ پھنکارتے ہوئے بولا‘‘ الو کے پٹھے مجھے قانون پڑھاتے ہو۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ میرے منہ پر مارا۔ مجھے لگا میرے ہونٹوں سے کوئی نمکین سی شے بہہ رہی ہے۔

’’اگر اب بولے تو مار مار کر الّو بنا دوں گا۔‘‘

اس نے میرے کندھے کو دبا کر مجھے بنچ کی گود میں دھکیل دیا۔ شام ہو گئی۔ ہر آنے والے کی گالیاں سن سن کر میرا دماغ سن ہو گیا۔ کچھ پتہ نہیں لگتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ بس لمحہ بھر کے لیے سڑک پر انتظار کرتے بچوں کی تصویر ذہن میں ابھرتی اور ڈوب جاتی۔ دور کہیں سے بیوی کی آواز آتی۔۔۔  ’’ابھی تک کیوں نہیں آئے۔‘‘

پھر ایک گھپ خاموشی اور نیم تاریکی

ایک نیم تاریک خاموشی کا تالاب، جس میں میں لمحہ لمحہ ڈوب رہا تھا۔

میں کون ہوں۔۔۔  کہاں ہوں۔۔۔  یہ کیا ہو رہا ہے۔

کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

خاموشی کا ایک نیم تاریک تالاب، لمحہ بہ لمحہ مجھے اپنے اندر کھینچے جا رہا تھا اور وقت۔۔۔  وقت شاید تھم گیا اتنا تیز رفتار ہو گیا تھا کہ گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔

یہ اذیت تھی۔۔۔  یا شاید کچھ بھی نہیں تھا۔ میرا کوئی وجود نہیں تھا۔۔۔  کوئی احساس، کوئی تشخص۔۔۔  کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔

میں کون تھا۔۔۔  کوئی بھی نہیں تھا۔

بس سانس لیتا ایک لوتھڑا۔۔۔

شاید ایک صدی بیت گئی تھی۔

اندھیرا، اندھیرا۔۔۔  چاروں طرف اندھیرا، چھت سے لٹکا ایک بلب جس سے لڑنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ تھانیدار کی کرسی خالی تھی، سب جا چکے تھے۔ بنچ پر ایک میں تھا اور دروازے میں کھڑا سپاہی، جس کی نظریں بھوکے گدھ کی طرح مجھ پر جمی ہوئی تھیں ، جمی رہیں۔۔۔  جمی رہیں ، پھر وہ آہستہ سے میرے قریب آیا اور دھیمی آواز میں بولا۔۔۔  ’’کسی کو اطلاع بھیجنی ہے یا یہیں رہنا ہے۔

میں نے خالی نظروں سے اسے دیکھا۔

’’تو پھر جیب میں ہاتھ ڈالو نا۔‘‘

میں نے مکینکی انداز سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس نے جھپٹ کر بٹوہ میرے ہاتھ سے چھین لیا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔  ’’اتہ پتہ بتاؤ‘‘

مجھے معلوم نہیں میں نے اسے کیا بتایا۔

اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’فکر نہ کرو صبح ہوتے ہی خبر ہو جائے گی۔

وہ چپ ہو گیا۔

’’پھر کیا ہوا‘‘ میں نے پوچھا۔

’’مجھے کیا معلوم‘‘ اس نے خلا میں گھورتے ہوئے ایسے کہا جیسے اس کا مخاطب میں نہیں کوئی اور ہے۔۔۔  ’’میں تو اسی رات مر گیا تھا۔‘‘ تھانے ہی میں اسی بنچ پر بیٹھے بیٹھے، حرکت قلب بند ہو جانے سے۔

خاموشی گہری ہو گئی۔

وہ چپ خلا میں کسی نا معلوم شے کو گھورے جا رہا تھا۔۔۔  گھورے ہی جا رہا تھا۔

میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ یہاں تو آدھے سے زیادہ شہر اسی طرح بنچوں پر بیٹھے بیٹھے مر چکا ہے اور۔۔۔

دفعتاً اس کے تنفس میں تیزی آ گئی۔میں اس کی طرح بڑھا، لیکن لگا میرے اپنے اندر بھی کوئی چیز تیزی سے پھیل رہی ہے۔ میں نے جلدی سے نرس کو بلانے والا بٹن دبا دیا۔ جتنی دیر میں نرس نے کمرے کا دروازہ کھولا، ابکائی میرے منہ تک آ چکی تھی۔ وہ حیرت سے دروازے میں کھڑی، ہم دونوں کو دیکھنے لگی۔

’’مار زین کے دو انجکشن جلدی‘‘ میں نے بمشکل کہا لیکن نرس دیر تک نہ لوٹی۔ متلاہٹ کے بھنور میں غوطے کھاتے ہوئے میں نے سوچا۔۔۔  ’’شاید وہ بھی۔۔۔  شاید سارا شہر ہی۔۔۔ !‘‘

٭٭٭

 

بگل والا

یہ کہانی مجھے اس نے سنائی جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن اسے اصرار ہے کہ اس کہانی سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک عام سی جگہ پر مجھے اچانک ہی مل گیا تھا۔ شاید اچانک نہیں کہ میں اس کا منتظر تھا اور یہ کہانی سننا چاہتا تھا۔

کہانی کا زمانہ بیسویں صدی کی پہلی، دوسری، تیسری یا کوئی بھی دہائی ہو سکتی ہے۔ انیسویں صدی بھی ہو سکتی ہے اور شاید اکیسویں صدی بھی۔ بہرحال زمانے سے کیا فرق پڑتا ہے، جگہ بھی کوئی سی ہو سکتی ہے۔ یہاں وہاں ، کہیں بھی، لیکن نہیں یہ کہانی وہاں کی نہیں یہیں کی ہے۔ کرداروں کے نام بھی ا،ب،ج کچھ بھی ہو سکتے ہیں کہ نام تو شناخت کی نشانی ہیں اور ہماری کوئی شناخت ہے ہی نہیں تو پھر نام ہوئے بھی تو کیا، نہ ہوئے تو کیا۔

ایک چھوٹی سی چھاؤنی میں کہ اس وقت چھاؤنیاں چھوٹی ہی ہوتی تھیں ، آج کی طرح پورے کا پورا شہر چھاؤنی نہیں ہوتا تھا، تو اس چھوٹی سی چھاؤنی میں ایک بگل چی رہتا تھا، اس کے بگل پر چھاؤنی جاگتی تھی، صبح سویرے گہری نیند سوتے فوجی بگل کی آواز پر چونک کر اٹھتے، جلدی جلدی کپڑے پہنتے اور نیم غنودتے، قطاروں میں آ کر کھڑے ہو جاتے، بگل کی لَے اور اس کے اتار چڑھاؤ پر ڈرِل شروع ہوتی۔ سپاہی سے افسر تک سب اس کی بِگل کی آواز پر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہوتے اور جب تک بگل بجتا رہتا، ان کی بھاگ دوڑ جاری رہتی۔ بگل بجاتے ہوئے، بگل والے کی آنکھوں میں تفاخر کی ایک شان ہوتی، اسے اس بات کا احساس تھا کہ اس کے بگل کی آواز پر پوری پلٹون اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہے اور وہ اکثر اپنی بیوی سے بھی اس کا ذکر کرتا۔

’’بھلی مانس، میرا بگل نہ بجے تو پوری پلٹون سوئی رہ جائے۔‘‘

بیوی بے نیازی سے شانے ہلاتی تو وہ کہتا، ’’جھوٹ نہیں بولتا، سپاہی کی تو کیا حیثیت ہے، بڑا افسر تک میرے بگل کے تابع ہے۔‘‘ پھر خود ہی اس کا سر بلند ہو جاتا۔۔۔  ’’میں کوئی معمولی چیز نہیں۔‘‘

وہ اپنے بگل کو تھپتھپاتا ’’پوری پلٹن کیا، ساری چھاونی اس کی ماتحت ہے۔‘‘

اب بیوی کی آنکھوں میں خاوند کے لیے ایک سرشاری کی نمی سی آ جاتی۔۔۔  واقعی وہ سچ ہی کہتا ہو گا اور اسے بگل والے کی بیوی ہونے پر ایک فخر کا سا احساس ہوتا۔

بگل والا کبھی کبھی اپنے دوستوں سے بھی کہتا۔۔۔ ’’یہ بگل نہیں اس کی آواز میں ایک جادو ہے اور اس جادو کا جادوگر میں ہوں۔‘‘

اس کا سینہ پھول جاتا۔۔۔  ’’اس کی آواز پر تو کمانڈنٹ بھی اپنے بستر کی گرمی چھوڑ کر گراؤنڈ میں آ جاتا ہے۔‘‘

چھاؤنی میں چھوٹی موٹی پارٹیاں ہوتی ہی رہتی تھیں جس میں میاں بیوی دونوں کو دعوت دی جاتی۔ افسروں کی پارٹیوں میں تو عام سپاہیوں کو شرکت کی اجازت نہ تھی لیکن سال میں دو ایک بار بڑے دربار منعقد ہوتے جس میں سب کو دعوت دی جاتی۔ بگل والے کی بیوی کبھی کسی پارٹی میں نہ گئی، اسے احساس تھا کہ وہ ایک عام سپاہی کی بیوی ہے لیکن اب ایک عرصے سے بگل والے نے اپنی اہمیت کے ایسے ایسے قصے سنائے تھے کہ وہ اس بار بڑے دربار میں شریک ہونے پر تیار ہو گئی۔ بگل والے نے کہا، ’’بھلی مانس کوئی اچھا جوڑا پہننا، تم کوئی معمولی عورت نہیں ، بگل والے کی بیوی ہو، جس کے بگل کی آواز پر کمانڈنٹ بھی اٹینشن ہو جاتا ہے۔‘‘

شادی کے ابتدائی دنوں کا ایک جوڑا ایسا تھا جسے دو ایک بار ہی پہنا گیا تھا۔ کہیں جانے کا موقع ہی کب ملتا تھا۔ بیوی نے جوڑا نکالا، اسے کئی رُخوں سے دیکھا، خوب جی لگا کر استری کیا، پہنا تو اس کی چھپ ڈب ہی بدل گئی۔ بگل والا خود دم بخود رہ گیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کی بیوی بہت خوب صورت اور بڑی پُر وقار ہے۔ اسے اکثر افسروں کی بیویوں کو دیکھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔

’’ایک افسر کی بیوی بھی ایسی نہیں۔‘‘ اس نے سوچا۔

’’اس کے تو پاؤں کی خاک بھی نہیں۔‘‘ اور اسے یک دم فخر کا احساس ہوا۔ ’’اور میں بھی تو بگل والا ہوں جس کے بگل کی آواز پر پوری کی پوری پلٹن اٹینشن ہو جاتی ہے۔‘‘

بیوی غور سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی۔

’’اچھا نہیں لگ رہا؟‘‘

’’اچھا۔۔۔  بھلی مانس، اتنا اچھا کہ بڑے سے بڑے افسر کی بیگم بھی تمہارے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔‘‘ وہ لمحہ بھر چپ رہا پھر بولا، ’’تم اب بھی اتنی ہی خوب صورت ہو، پُر وقار۔‘‘

بیوی کے چہرے پر شفق کے کئی رنگ ابھرے۔

اسے ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ اگر یہ کسی افسر کی بیوی ہوتی اور اس طرح لش پش پارٹی میں آتی تو سارے اس کے ارد گرد ہو جاتے اور طرح طرح سے اس کی تعریفیں کرتے لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو پرے پھینک دیا۔۔۔  ’’ٹھیک ہے، میں سپاہی سہی لیکن معمولی سپاہی نہیں بگل بردار ہوں ، میرے بگل پر تو کمانڈنٹ بھی سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ اسے طمانیت کا احساس ہوا۔ اس نے بیوی پر ایک تنقیدی نظر ڈالی۔۔۔  ’’ٹھیک، بالکل ٹھیک، فِٹ۔‘‘

پنڈال میں عورتوں اور مردوں کے راستے الگ الگ تھے۔ وہ پہلی بار اس طرح کی کسی محفل میں آئی تھی، اس لیے گھبرائی سی تھی۔ الگ الگ راستے دیکھ کر بولی، ’’تو تم اور میں الگ الگ ہوں گے۔‘‘

’’تو اس میں کیا ہے؟ تمہارے ساتھ اور عورتیں بھی تو ہوں گی۔‘‘ پھر اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا۔ ’’اور تم کوئی معمولی عورت نہیں ، بگل بردار کی بیوی ہو، جس کے بگل پر۔۔۔ ‘‘

اس نے باقی بات نہیں سنی اور جلدی سے اندر چلی گئی۔ ابھی بہت کم لوگ آئے تھے۔ کرسیاں تقریباً خالی تھیں۔ وہ سب سے اگلی قطار میں جا بیٹھی جہاں صوفے لگائے گئے تھے۔ تین چار لوگ جو انتظام پر مقرر تھے، اسے اگلے صوفے پر بیٹھتے دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک نے اشارے سے دوسرے سے پوچھا، ’’یہ کون ہے؟‘‘ دوسرے نے نفی میں سر ہلایا۔ کچھ دیر وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے پھر ایک نے آگے بڑھ کر بڑے مؤدّب انداز میں پوچھا، ’’آپ کہاں سے تشریف لائی ہیں ؟‘‘

’’یہیں سے۔‘‘ اس نے اپنے انداز میں جواب دیا۔

اس کے لہجے سے پوچھنے والے کا مؤدّب انداز یک دم بدل گیا۔ اس نے قدرے روکھے انداز میں پوچھا، ’’آپ کی تعریف۔‘‘

’’تعریف‘‘، اسے سمجھ نہ آیا کہ تعریف کے کیا معنی ہیں۔

پوچھنے والے کا رہا سہا مؤدّب انداز بھی ختم ہو گیا۔اب کے اس نے سرد لہجے میں پوچھا، ’’آپ کس کی مسز ہیں ؟‘‘

مسز کے معنی اسے معلوم تھے، اس نے کہا، ’’بگل دار۔‘‘

اس نے اپنی طرف سے بگل دار پر بہت زور دیا تھا لیکن سننے والا ذرا متاثر نہ ہوا بلکہ اس کے چہرے پر ایک کرختگی آ گئی، ’’آپ پیچھے آ جائیں۔۔۔  یہ کمانڈنٹ صاحب کی بیگم اور ان کے مہمانوں کی نشستیں ہیں۔‘‘

ایک لمحے کے لیے اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے یا کیا کرے، پھر جیسے کوئی مشین حرکت کرتی ہے، وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور پچھلی قطار میں جا بیٹھی۔ تھوڑی دیر میں بیگمات کی آمد شروع ہو گئی۔ ایک دوسرے سے سلام دعا کرتی وہ کرسیوں پر بیٹھنے لگیں۔ آدھی سے زیادہ کرسیاں بھر گئیں۔ اتنے میں ڈپٹی کمانڈنٹ کی بیگم اندر آئی۔ انتظام کرنے والے ان کی طرف دوڑے گئے۔ جھک جھک کر آداب بجا لائے اور ان کے لیے نشست تلاش کرنے لگے۔ گھومتی نظریں اس پر آن ٹکیں۔ وہی شخص جس نے اسے صوفے سے اٹھایا تھا، پاس آیا اور بولا، ’’یہاں ڈپٹی صاحب کی بیگم بیٹھیں گی، آپ پیچھے چلی جائیں۔‘‘ اسے لگا جیسے کسی نے اسے تالاب میں غوطہ دے کر باہر نکال لیا ہے۔ کچھ کہے بغیر پسینہ پونچھتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ آدھی سے زیادہ قطاریں بھر گئی تھیں۔ وہ ایک خالی قطار کے کونے میں جا بیٹھی۔ فنکشن شروع ہونے میں ابھی دیر تھی اور مہمان آ رہے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ قطار بھی بھر گئی۔ اس سے پچھلی دو قطاروں میں بھی خواتین بیٹھ گئیں۔ اب صرف آخری قطار خالی رہ گئی۔ اتنے میں کوارٹر ماسٹر کی بیوی اندر آئی۔ عہدے کے اعتبار سے تو اس کا خاوند نائب صوبیدار تھا لیکن راشن اور دوسری چیزوں کے لیے سب کو کوارٹر ماسٹر کی خوشامد کرنا پڑتی تھی۔ اسے دیکھ کر انتظامیہ کے سارے لوگ اس کی طرف بڑھے اور ساتھ ہی اس کے لیے نشست کی تلاش شروع ہو گئی۔ ایک بار پھر اسے اپنی جگہ سے اٹھایا گیا۔ اب صرف آخری قطار تھی۔ وہ پسینوں پسین شرم سے گردن گردن زمین میں ڈوبی اپنی جگہ سے اٹھی اور آخری قطار کی آخری کرسی پر بیٹھ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے ساری خواتین مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے چہ میگوئیاں کر رہی ہیں۔

بگل بردار۔۔۔  بگل بردار۔۔۔ بگل بردار، جیسے آواز سیٹیاں بجاتی اس کے کانوں میں بگل بجا رہی تھی۔ اسے بالکل معلوم نہ ہوا کہ کب فنکشن شروع ہوا، کب ختم ہوا۔ چائے کب پی گئی اور کب لوگ ایک ایک کر کے جانے لگے۔ وہ اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں ، یوں لگ رہا تھا، کسی نے اس کی آنکھوں کو پتھرا دیا ہے اور ٹانگیں پتھر کی سِلیں بن گئی ہیں۔

بہت دیر ہو گئی اور وہ باہر نہ نکلی تو بگل بردار اسے تلاش کرتا اندر آ گیا۔ وہ اسی طرح چپ اپنی کرسی پر بیٹھی تھی جیسے کسی نے اسے اور کرسی کو ایک ہی پتھر سے تراشا ہے۔

’’بھاگوان، سب چلے گئے اور تم ابھی تک یہیں بیٹھی ہو۔‘‘

وہ کچھ نہ بولی، دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر لڑھک گئے۔

’’خیر تو ہے نا۔۔۔  تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘ بگل بردار گھبرا گیا۔

’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ تیزی سے اٹھی اور تقریباً دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ وہ آگے آگے اور بگل بردار پیچھے پیچھے۔ راستے بھر اس نے کوئی بات نہ کی لیکن گھر کی دہلیز پار کرتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’اتنی تذلیل۔۔۔  اتنی تذلیل۔‘‘

بگل بردار کے بار بار پوچھنے پر وہ ہچکیوں کے درمیان بس اتنا ہی کہہ پاتی۔۔۔

’’اتنی تذلیل۔‘‘

’’آخر ہوا کیا؟‘‘ اب بگل بردار کو غصہ آنے لگا۔ ’’کچھ کہو بھی تو۔‘‘

معلوم نہیں کیسے توڑ توڑ کر، وقفوں وقفوں سے اس نے ساری بات سنائی۔ بگل بردار چپ ہو گیا۔ کچھ کہے بغیر وہ چھت پر چلا گیا اور منڈیر پر کہنیاں ٹیک کر کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ بس ایک چپ تھی جو اس کے ارد گرد سرسرا رہی تھی۔ منڈیر پر کہنیاں ٹکائے وہ چھاؤنی کی طرف دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، پھر اچانک اس کے جی میں جانے کیا خیال آیا کہ وہ تیزی سے مڑا، نیچے آیا۔ بیوی کپڑے بدلے بغیر چارپائی پر لیٹ گئی تھی۔ سوتے میں بھی لگ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ رہے ہیں۔ وہ چند لمحے چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا، پھر اس نے دیوار سے بگل اٹھایا اور تقریباً دوڑتا ہوا باہر آگیا۔

چھاؤنی کا سارا علاقہ سنسان تھا۔ وہ دوڑتا ہوا اس چبوترے پر چڑھ گیا جہاں کھڑے ہو کر روز صبح بگل بجایا کرتا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس نے سوئی ہوئی بیرکوں اور بنگلوں کو دیکھا اور پوری توانائی سے بگل بجانے لگا۔

کچھ ہی دیر میں ساری چھاؤنی میں ہلچل مچ گئی۔ بیرکوں میں سوئے ہوئے سپاہی ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ گھڑیوں پر نظر ڈالی، ایک دوسرے کو دیکھا۔ بگل کی آواز مسلسل گونج رہی تھی۔ جوان افسر سب پتلونیں چڑھاتے، تسمے کستے پریڈ میدان کی طرف بھاگے چلے آ رہے تھے۔ کمانڈنٹ، ڈپٹی کمانڈنٹ سب آگے پیچھے، ایک دوسرے سے پوچھتے۔۔۔  ’’کیا ہوا۔۔۔  اس وقت کیوں ؟‘‘

قطاریں بن گئیں ، بگل مسلسل بج رہا تھا۔ چھوٹے افسر نے بڑے سے، بڑے نے اپنے بڑے سے، ڈپٹی نے کمانڈنٹ سے پوچھا، ’’سر یہ ایمر جینسی کیسی؟‘‘

کمانڈنٹ نے نفی میں سر ہلایا۔ بگل تھا کہ مسلسل بج رہا تھا۔ اس کا سانس پھول گیا تھا۔ سینہ دھونکنی بن گیا تھا لیکن بگل۔۔۔  جب کمانڈنٹ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے بگل چھینا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، بہے جا رہے تھے، کچھ کہے بغیر وہ چبوترے سے اترا اور روتے روتے دوڑتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

 

ایک عام آدمی کا خواب۔۔۔ ۱

انگلیاں شل اور آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔

انگلیاں اس چینل کو تلاش کرتے کرتے شل ہو گئی ہیں جہاں سے وہ اپنی پسند کی خبریں سننا چاہتا ہے، اور آنکھیں اس خبر کی سرخی کو تلاش کرتے کرتے تھک گئی ہیں جسے پڑھنے کا وہ مدتوں سے منتظر ہے لیکن نہ منظر بدلتا ہے نہ چینل ملتا ہے، نہ وہ سرخی نظر آتی ہے،شروع شروع میں صرف ٹی وی کا چینل تھا، اس کا خیال تھا کہ شاید وہ خبر جسے سننے کو اس کے کان ترس گئے ہیں ، کسی اور چینل پر سنی جا سکتی ہے، نئی نئی ڈِش آئی تو خاصی مہنگی تھی، جن دو چار ملنے والوں کے پاس ڈِش تھی، وہ ان سے کرید کرید کر خبریں پوچھتا۔

’’کوئی تازہ خبر؟‘‘

جواب دینے والا خبروں کی بجائے تفریحی پروگراموں کا ذکر کرتا، نیم عریاں جسموں کے گداز پن کو چسکے لے لے کر بیان کرتا، وہ اَن سنی کرتے ہوئے پوچھتا۔ ’’خبریں بھی تو سنی ہوں گی؟‘‘

عموماً جواب ملتا ’’یار خبریں تو کم ہی سنتے ہیں۔‘‘

وہ مایوس ہو جاتا، ذرا ڈِش سستی ہوئی تو اس نے کچھ پیسے جوڑ کر بیوی کی مخالفت کے باوجود ڈِش لگوا لی۔ بچوں کی ضِد تھی کہ وہ سائیڈ رکھی جائے جہاں تفریحی پروگرام زیادہ ہیں ، لیکن اس نے ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود خبروں والے حصے کو ترجیح دی۔ اس طرف تفریحی چینل دو تین ہی تھے۔ اب تو روز رات گئے تک، جب بچے سو جاتے، خبروں کے چینل کو آگے پیچھے کرتا رہتا، لیکن وہ خبر کہیں نہ تھی، مگر وہ مایوس نہ ہوا۔

ایک نہ ایک دن تو اس خبر کو آنا ہی ہے، اس دوران وہ صبح اٹھتے ہی اخبار بھی دیکھتا، وہ سرخی کب لگے گی؟ زندگی کے پچاس برس بیت گئے، وہ سرخی کب لگے گی؟ لگے گی بھی کہ نہیں ، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اپنے آپ کو ڈانٹ دیتا۔ ایک دن اسے خیال آیا شاید وہ خبر کہیں درمیان میں چھپ جائے اس کے گھر جو اخبار آتا تھا، اس کی ایک ایک سطر پڑھ کر اسے احساس ہوتا کہ یہ وہی چبائے ہوئے بے معنی حرف ہیں ، جن کو ایک ڈھیر کی صورت اخبار کے صفحات میں پھیلا دیا جاتا ہے، اس نے سوچا کہ شاید کوئی دوسرا اخبار بہتر ہو لیکن ایک سے زیادہ اخبار لینا اس کی عادت نہیں تھی، دفتر میں بھی ایک اخبار آتا تھا۔ اس نے گھر کا اخبار مختلف کرا لیا، لیکن یہ دوسرا اخبار بھی ہر صبح مردہ لفظوں کا ایک ڈھیر اس کے سامنے پھیلا دیتا جن میں سے اٹھنے والی سڑاند اسے دن بھر پریشان رکھتی۔ اب اس نے ایک اور طریقہ اپنا لیا، صبح ذرا جلدی گھر سے نکل پڑتا اور دفتر جانے سے پہلے اخباروں کے اسٹالوں پر کچھ دیر رک جاتا جہاں کئی اخبار لٹک رہے ہوتے۔ وہ جلدی جلدی سب پر ایک نظر ڈالتا۔ وہی سڑاند بھرے مُردہ لفظ، ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے، وہی پرانی خبریں نئے نئے انداز سے، وہی چہرے، صرف ماسک بدلتے۔ یہ تو وہی لاشیں ہیں صرف کفن بدلے گئے ہیں ، وہ انہیں دیکھتے ہوئے سوچتا۔ وہ خبر کب چھپے گی۔

ایک دن دفتر میں کسی نے ذکر کیا کہ اگر ڈِش کے ساتھ ایک ایل این بی لگا لی جائے تو کچھ چینل اور آ جاتے ہیں ، ان میں سے کچھ نیوز کے بھی ہیں۔ پہلی تاریخ کو اپنے پر بہت جبر کر کے اس نے کچھ پیسے بچا لیے اور ایک نئی ایل این بی لگوا لی۔ چینل دگنے ہو گئے، بچے بڑے خوش ہوئے لیکن اس کو اب بھی کچھ نہ ملا۔ ان نئے نیوز چینلوں پر بھی وہی پرانی خبریں تھیں ، وہی پرانے چہرے، صرف کبھی ماسک بدل جاتا۔

وہ کچھ مایوس سا ہو گیا، اب وہ ساٹھ کے قریب پہنچنے والا تھا کچھ دنوں بعد ریٹائر ہو جائے گا، بس زندگی تو کولہو کے بیل کی طرح ہی گزر گئی۔ وہ ایک تبدیلی، ایک نئی خبر کی تمنا ایک حسرت ہی بنتی جا رہی تھی۔ اور کئی بار اخبار پڑھ کر، کئی نیوز چینل سن کر بھی وہ خبر نہ ملتی، تو کیا وہ خبر اسے کبھی نہ ملے گی۔ شاید وہ خبر کسی ایسے چینل پر ہو جو اس کی ڈِش پر نہیں آتا۔ اب گھومنے والی ڈِشیں آ گئی تھیں اور بتانے والے بتاتے تھے کہ اس پر اتنے چینل ہیں کہ گنتی کرنا مشکل ہے۔ وہ سوچتا ان میں سے بے شمار نیوز چینل بھی ہوں گے۔ شاید اس کی خبر، جس کا وہ منتظر ہے ان میں سے کسی پر آ جائے۔ یہ سارے چینل اور اخبار تو بکے ہوئے ہیں ، وہی بتاتے اور چھاپتے ہیں جو انہیں بتایا جاتا ہے۔ بڑے غیر جانب دار، جن کے بارے میں خوش فہمی تھی کہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، ایک ہی طرح کے تھے، صرف لفظوں کا ہیر پھیر تھا۔

’’سب ایک ہی ہیں ‘‘ وہ سوچتا۔ ’’لگتا ہے کہ انہیں کنٹرول کرنے والے

اندر سے ایک ہی ہیں۔‘‘

شاید گھومنے والے ڈِش پر کوئی ایسا چینل ہو جو سچ بولتا ہو اور شاید وہاں سے۔۔۔  ریٹائرمنٹ کے پیسے ملے تو اس نے کسی کو بتائے بغیر ایک گھومنے والی ڈِش لگوا لی۔ واقعی اس پر اتنے چینل تھے کہ گنتی مشکل تھی۔ ان میں بے شمار نیوز چینل بھی تھے۔ کئی دن تو انہیں تلاش کرتے لگ گئے۔ اب وہ یوں بھی فارغ تھا۔ بچے اپنے اپنے کاموں پر نکل جاتے، بیوی باورچی خانے میں گھس جاتی اور وہ ریموٹ اٹھا کر چینل گھماتا رہتا۔ گھماتے گھماتے انگلیاں شل ہو گئیں۔ تلاش کرتے کرتے آنکھیں پتھرا گئیں لیکن وہ خبر نہ سنی جا سکی نہ پڑھی جا سکی۔ اب اسے ہلکی ہلکی سانس کی تکلیف شروع ہو گئی تھی۔ زیادہ دیر تو بیٹھا نہ جا سکتا، نیم دراز کیفیت میں ایک آدھ اخبار دیکھ لیتا۔ اسٹال تک جانا موقوف ہو گیا تھا۔ ٹی وی بھی زیادہ دیر نہ دیکھا جا سکتا۔ بس جلدی جلدی چینل بدلتا رہتا۔ شام کو بچے ریموٹ سنبھال لیتے اور وہ اس منظر سے باہر ہو جاتا۔

ایک دن اچانک سانس کی تکلیف بڑھ گئی۔ ریموٹ اس کے ہاتھوں ہی میں رہ گیا اور آنکھیں چپکے سے بند ہو گئیں۔ اس کے بیٹے نے اپنے کسی دوست کو کہہ کر اخبار میں خبر لگوا دی۔ وفاتیات کے کالم میں سب سے نیچے تین سطری ایک خبر چھی:

’’عام آدمی ابن عام آدمی کل رات وفات پا گیا۔ نمازِ جنازہ میں بہت سے عام آدمیوں نے شرکت کی۔ رسمِ قل کل سہ پہر ادا کی جائے گی۔‘‘

معلوم نہیں اب وہ یہ خبر پڑھ سکتا تھا کہ نہیں ؟

٭٭٭

 

پرانی آنکھوں سے دیکھنے کا آخری دِن

صبح شیو کرتے ہوئے دفعتاً اسے خیال آیا کہ آج پرانی آنکھوں سے دیکھنے کا آخری دن ہے۔ کچھ عرصہ سے اس کی آنکھوں میں ایک سرمئی چادر اتر رہی تھی جس کا رنگ روز بروز سیاہی مائل ہوا جا رہا تھا۔ شروع شروع میں یوں لگا جیسے اس کے ارد گرد سب کچھ ایک دھندلکے میں ہے۔ کبھی کبھی چیزیں اپنی جگہ سے کھِسکی ہوئی محسوس ہوتیں ، پھر سرمئی پن میں سیاہی کا تناسب بڑھنے لگا تو گاڑی چلاتے ہوئے ایک لکیر دائیں طرف ساتھ ساتھ دوڑنے لگی جو رات کو سفید لکیر میں بدل جاتی اور وہ بڑی مشکلوں سے گاڑی کو سڑک کی درمیان والی دیوار سے دور رکھ پاتا، پھر یہ لکیر دونوں طرف آ گئی۔ عینک کا نمبر بڑھ گیا، بڑھنے لگا، لیکن اس کا مسئلہ نمبر بڑھنا یا کم ہونا نہیں تھا بلکہ یہ کہ سب کچھ اپنی بنیادوں سے کیوں کھِسک رہا ہے۔

یہ تبدیلی خاصی تیز تھی۔ پڑھاتے ہوئے محسوس ہوتا کہ اس کے طالب علم کہیں آگے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ٹی وی دیکھتے لگتا وہ بہت پیچھے ہے۔ دوستوں سے ملتے جلتے،رشتہ داروں کی باتیں سنتے، گھر میں بچوں کے معمولات دیکھتے، ان کے رویّوں پر غور کرتے۔۔۔  ہر جگہ محسوس ہوتا کہ وہ کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔

پیچھے رہ جانا اس کے لیے نئی بات نہیں تھی۔ طبیعت کی شرماہٹ کی وجہ سے وہ ہمیشہ پیچھے رہا تھا۔ بچپن میں وہ جان بوجھ کر کلاس میں دیر سے جاتا کہ آخری بنچ پر جگہ ملے۔ کسی تقریب میں بھی اس کی یہی کوشش ہوتی کہ کسی کونے میں دبک جائے، اسی لیے وہ ساری عمر سٹیج سے بھاگتا رہا۔ بس کلاس روم ایک ایسی جگہ تھی جہاں وہ بطور استاد پورے اطمینان کے ساتھ موجود ہوتا لیکن اب کچھ دنوں سے لگ رہا تھا کہ یہاں بھی اس کے پاؤں ڈگمگانے لگے ہیں۔ کئی بار خود سے سوال بھی کیا کہ کیا میں خود ہی پیچھے رہتا جا رہا ہوں یا زمانہ ہی بہت تیز رفتار ہے کہ مجھے پیچھے چھوڑتا چلا جا رہا ہے، لیکن جواب نہ ملا۔ معاملہ صرف آگے پیچھے کا بھی نہ تھا بلکہ کچھ ایسا تھا جسے وہ محسوس تو کرتا تھا لیکن سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اب کل ہی رات کی بات تھی کہ باتیں کرتے ہوئے بیٹے نے کہا۔۔۔  ’’ابو آپ نہیں سمجھتے، چیزیں اب بدل گئی ہیں۔‘‘

اس نے بیٹے کو تو کوئی جواب نہ دیا لیکن خود سے بار بار پوچھا کہ اب چیزیں کیوں بدل گئی ہیں۔ اس کے بچپن میں تو ایسا نہ تھا اور نہ ہی وہ اپنے باپ سے اس طرح کی گفتگو کر سکتا تھا۔ کلاس میں بھی جب کوئی طالب علم پوچھ بیٹھتا کہ اس نے فلاں پروگرام دیکھا ہے تو اسے اپنے طور پر احساس ہوتا کہ اس کا نفی میں ہلا سر دیکھ کر طالب علم نے دل میں ضرور کہا ہو گا کہ سر بہت پیچھے ہیں۔

عمر کے ایک حصہ تک ہر بڑھا ہوا قدم آگے لیے جاتا ہے لیکن پھر ایک ایسا موڑ آتا ہے کہ ہر اٹھا قدم پیچھے کی طرف جاتا ہے۔ شاید وہ اسی موڑ سے گزر آیا تھا کہ اب واپسی تھی۔ سارا منظر دمِ واپسیں کی اداسیوں میں لپٹا ہوا تھا لیکن بظاہر سب ٹھیک تھا۔ بیوی مہربان خیال رکھنے والی، بچے احترام کرنے والے، پیشہ تو تھا ہی احترام و تقدس والا، باقی معاملات بھی درمیان درمیان تھے، اس لیے ساری زندگی بین بین ہی گزری اور اسے یہ پسند بھی تھا کہ چھلانگ مارنے کی ہمت نہیں تھی اور پیچھے رہ جانے کی کسک بھی۔ سو درمیان بہت اچھا تھا لیکن اب کچھ عرصہ سے یہ درمیان بھی ڈانوا ڈول ہوا جا رہا تھا۔

درمیان تو وہ کھونٹا تھا جس سے اس کی رسّی بندھی ہوئی تھی اور اختیار اتنا ہی تھا جتنی رسّی تھی۔ درمیانہ طبقہ، درمیانی ملازمت، ساری عمر اگلی سیٹوں پر بیٹھنے کی حسرت ہی رہی۔ کبھی کوشش کی بھی تو اپنی جگہ پر بھیج دیا گیا۔ چنانچہ اسے یہیں سے چیزوں کو دیکھنے کی عادت ہو گئی تھی مگر اب کچھ عرصہ سے یہ مرکزہ بھی تشکیک زدہ ہوا جا رہا تھا۔ خیال آتا شاید کوئی گڑبڑ اس کے اندر ہی ہے۔

اندر باہر کا یہ مخمصہ حل ہونے والا نہیں تھا اور اب تو آنکھوں میں بھی ایک سرمئی دھند چھا رہی تھی۔ جب ڈاکٹر نے بتایا کہ آپریشن کے بعد آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی تو اطمینان سا ہوا کہ شاید یہ ساری گڑبڑ اسی وجہ سے ہے، آنکھیں ٹھیک ہوں گی تو چیزیں اپنی جگہ پر واپس آ جائیں گی۔

صبح شیو کرتے ہوئے خیال آیا کہ کل آنکھوں کا آپریشن ہونا ہے اس لیے پرانی آنکھوں سے دیکھنے کا آج آخری دن ہے۔

آخری دن کے مناظر تو وہی تھے لیکن ایک خواہش سی تھی کہ ان سارے مناظر کو جلدی جلدی سمیٹ لے کیونکہ ایک خوش فہمی تھی کہ آنکھ بننے کے بعد سب کچھ بدل جائے گا۔ وہ ایک ایسی دنیا دیکھ سکے گا جس کا خواب ہمیشہ اس کے ساتھ رہا ہے۔ خواب دیکھنے کی بھی پرانی عادت تھی بلکہ چسکا تھا اور ان خوابوں ہی نے اسے مخمصوں سے دوچار کیا تھا کہ اس کی اپنی دنیا اور تھی، باہر کی دنیا اور۔ وہ درمیان میں کہیں لٹکا ہوا تھا یا ٹھہرا ہوا تھا۔ یہ درمیان ہی ساری خرابی ہے۔ کبھی کبھار خیال آتا، میں ساری زندگی اس درمیان سے نہیں نکل سکوں گا مگر اب ایک موہوم سی خوش فہمی تھی کہ شاید ان سارے مسائل کی وجہ یہ ہو کہ وہ جس آنکھ سے سب کچھ دیکھتا ہے، اس میں کوئی خرابی ہے۔ شاید نئی آنکھ سے منظر بدل جائیں۔

آپریشن تو لمبا چوڑا نہیں تھا۔ ایک دن بعد اسے سیاہ شیشوں کی عینک لگا کر گھر بھیج دیا گیا۔ دو تین دن نیم تاریک کمرے میں گزرے۔ اس کے اندر بے چینی بڑھنے لگی کہ عینک اترے تو منظر دیکھے۔ ڈاکٹر نے چار دن آرام کرنے کو کہا تھا لیکن وہ تیسرے دن گھر سے نکل آیا۔ عینک اتار پھینکی۔

چمکتی دھوپ میں ہر شے کھلکھلا رہی تھی۔ اسے عجب طرح کی طمانیت ہوئی۔ وہ فٹ پاتھ پر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ بہت ہی دھیمے سے جیسے چپکے چپکے ایک مایوسی اس کے اندر پھیلنے لگی۔۔۔  وہی دوڑ، ایک دوسرے کو دھکا دے کر آگے نکلنے کی جلدی، بے ہنگم، بے قابو ٹریفک کی لائنیں ، قانون شکنی، سفّاکانہ قہقہے، ایک دوسرے کو دھتکارتے رویے۔۔۔  ہر شے سلگ رہی تھی لیکن کسی کو نہ دکھائی دیتی نہ آگ کی تپش محسوس ہوتی۔۔۔  وہ فٹ پاتھ کے ساتھ لگے جنگلے پر جھک گیا، ٹھنڈی سانس لی اور اپنے آپ سے کہنے لگا۔۔۔  ’’منظر جب تک واقعی نہ بدلے، آنکھ بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ !‘‘

٭٭٭

 

پونے آدمی کی دوسری کہانی

بچپن ہی سے اُسے کُرودنے اور جس چیز سے منع کیا جائے اسے ضرور کرنے کی عادت تھی۔ پہلے پہل وہ ماں کی ڈانٹ اور روک پر بلند آواز میں احتجاج کرتا، جب دوچار بار اس پر اچھی پٹائی ہوئی تو اس نے بڑبڑانا شروع کر دیا۔ ایک دن باپ کو اس پر اتنا غصہ آیا کہ اس نے بھی لمبے ہاتھوں لیا، سو اس دن سے اس کی بڑبڑاہٹ اندر اتر گئی۔اب وہ اپنے رویے سے تو کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کرتا لیکن اندر ہی اندر اس کے خلاف اتنا ایکشن لیتا کہ اپنے مخالف کو مارتا، پیٹتا، گالیاں نکالتا اور اپنے تئیں بدلہ لے کر مطمئن ہو جاتا۔ اس کے اندر پوری دنیا آباد تھی۔ جہاں اس کی حاکمیت مستحکم تھی، ہر شے درست انداز میں چلتی تھی، کبھی کبھی وہ اپنے اندر کی دنیا کو وسعت دے کر پوری مملکت کا کنٹرول سنبھال لیتا، ٹریفک کا نظام لمحہ بھر میں درست ہو جاتا، دفتروں کی حالت ٹھیک ہو جاتی اور۔۔۔  اور،  لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اچھل کر باہر آن گرتا، پھر وہی کرُودنا۔۔۔  کرُودنا اور کرُودنا۔

اس دُوئی نے اسے ہر شے کے بارے میں مشکوک کر دیا۔ منہ پر جواب نہ دینا اور لمحہ بھر اندر جا کر پورا مقابلہ کرنا۔ لوگ کہتے، وہ روزبروز شرمیلا ہوتا جا رہا ہے۔ سکول میں ، پھر کالج اور یونیورسٹی میں اس کی ہم جماعت لڑکیاں اس سے مذاق کرتیں تو اس کے کان تک سرخ ہو جاتے، وہ ایک لفظ نہ بولتا، لیکن اندر کی دنیا میں جا کر ان کے جسموں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا۔ ایک عجب طرح کا تشدد، جس میں ایک لذت تھی۔ پھر ایک اور بات ہوئی۔ وہ بڑی عمر کی خواتین جن کے تقدّس کے بارے میں سوچنا بھی گناہ تھا، راتوں کو اس کے خوابوں میں شریکِ بستر ہونے لگیں۔ رات بھر لذتوں سے ہمکنار ہو کر صبح جب وہ خاتون سامنے آتی تو اسے عجب طرح کی شرمندگی ہوتی۔ وہ نظریں چار کرنے سے گھبراتا اور اکثر بات کا جواب دیے بغیر اِدھر اُدھر ہو جاتا۔

اختیاری اور بے اختیاری کی یہ کیفیت لذت بھری بھی تھی اور دکھ اور شرمندگی سے لبریز بھی۔

میں کیا ہوں اور یہ سب کچھ کیا ہے؟

اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ دن مذہب کی طرف بھی جھکاؤ ہوا، لیکن طبیعت نہ لگی اور کچھ روز باقاعدہ نماز پڑھ کر دوبارہ پرانی ڈگر پر آ نکلا۔

شادی کے بعد بھی بہت عرصہ تک یہی صورت رہی، بیوی ذرا دبنگ قسم کی تھی، اس نے اسے اپنے ساتھ تیز دوڑانے کی خاصی کوشش کی اور کچھ ہو بھی گیا لیکن اندر اور باہر کا تضاد، ایک ایسی خلیج جسے پاٹنا اب اس کے لیے ممکن ہی نہیں تھا۔ بچوں کی کلکاریوں نے سرمئی اداسی میں رنگ بھرے، ملازمت کی بہتر صورتِ حال اور مالی حالت کے بہتر ہونے نے بھی اسے خاصا تبدیل کیا لیکن جگمگاتی، مسکراتی دنیا کے پیچھے ذرا ہی سا چلنے کے بعد ایک سنسناتا خلا، جس کی گہری کھوہ سے گزر کر ایک اداس، ویران منظر تھا۔ تہ در تہ، تا حدِ نظر۔۔۔  تا حدِ نظر۔

پھر اس نے کتابوں میں پناہ لی۔ کتابوں کی دنیا پراسرار بھی تھی اور لذت بھری۔ جانے کتنی ہی کتابوں کے آنگن آنگن ہوتا وہ ایک رات دھُنیا کے پاس پہنچا جو دنیا سے بے خبر منہ پر کپڑا لپیٹے رُوئی دھُن رہا تھا، تن تن کی لَے کے ساتھ روئی کے گالے ہوا میں اُڑ رہے تھے اور اس کے سامنے رکھا ڈھیر لمحہ بہ لمحہ کم ہو رہا تھا، اُڑ کر دوسری طرف گِر رہا تھا۔ لگا برف پڑ رہی ہے۔سردی کے خنک احساس نے اس کے وجود پر چٹکی لی۔ اتنے میں ڈھیر ختم ہو گیا۔ دھُنیا نے نیا ڈھیر لگانے سے پہلے لمحہ بھر کے لیے منہ سے کپڑا ہٹایا تو وہ بولا۔۔۔

’’اے حلاج! مجھے بتا میں کیا کروں ؟‘‘

دھُنیا نے سر گھما کر اسے دیکھا، ہنسا، ہنسا، خوب ہنسا، پھر بولا ’’میں کیا

بتاؤں ؟ میں تو تمہیں دھُننے کا طریقہ ہی بتا سکتا ہوں ‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’تو وہی بتا دو‘‘

دھُنیا نے جواب دیا۔۔۔  ’’دھُنو، خوب دھُنو، اپنے آپ کو دھُنو، اتنا کہ

رُوئی کے اُڑتے گالے بن جاؤ، پھر اِن اُڑتے لہکتے گالوں کے ساتھ اوپر

اُٹھو اور اپنا تماشہ کرو۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ڈھیر آگے کر لیا، تن تن۔۔۔   برف پڑنے لگی۔

اُس نے اپنے آپ کو دھُنا، اتنا دھُنا کہ پرزے پرزے ہو گیا۔ اوپر اٹھا، نیچے دیکھا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ اوپر نیچے ایک ہی کیفیت تھی، سرمئی دھند اور اس میں تیرتا ہوا وہ ایک نقطہ جسے کہیں ٹھہراؤ نہ تھا۔

اس نے چیخ کر کہا۔۔۔  ’’اے حلاج! مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

دھُنیا نے کوئی جواب نہ دیا۔

اس نے کہا۔۔۔  ’’اچھا یہ تو بتاؤ کہ پتھر مارنے والوں کے پتھروں نے تو تکلیف نہ دی اور پھول زخم بنا گیا۔‘‘

دھُنیا نے ہاتھ روک لیا، منہ سے کپڑا ہٹایا اور بولا۔۔۔  ’’پتھر مارنے والے تو عتابِ شاہی کے ڈر سے مار رہے تھے، ان کا مَن ساتھ نہیں تھا، مگر پھول مارنے والا عتاب سے نہ ڈر کر بھی ڈر رہا تھا۔‘‘

وہ ایک لمحہ چپ رہا پھر کہنے لگا۔۔۔  ’’تو اپنے اندر کے عتاب کا شکار ہے، اس سے نکل۔‘‘

’’کیسے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’کسی فرزانے کے پاس جا، نہ ملے تو کوئی دیوانہ تلاش کر۔‘‘

محلہ میں حاجی صاحب بڑے سیانے آدمی گنے جاتے تھے۔ سبزی کی معمولی سی دکان سے وہ آڑھتی ہو گئے تھے اور آدھا محلہ ان کی ملکیت تھا۔ حاجی صاحب اس کی بات سن کر ہنسے، خوب ہنسے، پھر بولے۔۔۔

’’بھائی ہم تو پہلے ہی تمہیں سمجھاتے رہے ہیں کہ دنیا کے ساتھ چلو، اس کے مزاج کو سمجھو۔‘‘

اس نے خلوصِ دل سے عہد کیا کہ اب وہ دنیا کے مزاج کو سمجھے گا۔ سمجھنے کی کوشش بھی کی۔ کئی فائلوں پر جلدی دستخط کرنے کے صلہ میں دنیا بڑی رنگین لگی لیکن ایک بار غلطی سے ایک ایسی فائل پر دستخط ہو گئے جس سے دنیا تو رنگین سے رنگین تر ہو گئی لیکن ایک بیوہ کا گھر چھِن گیا۔ وہ روتے ہوئے اس کے کمرے میں آئی اور بولی۔۔۔

’’بیٹا! میں تو تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، تو نے مجھے بے آسرا کر دیا ہے لیکن میں تمہیں بددعا نہیں دوں گی۔‘‘

فضا میں بنائی ہوئی ساری چتری متری رنگین چھت لمحہ بھر میں زمین بوس ہو گئی۔ اس نے چھلانگ لگائی اور اپنے اندر اتر گیا۔ وہی گھپ اندھیرا، ٹامک ٹوئیاں۔ بچوں کو کچھ اچھی عادتیں پڑ گئی تھیں ، روز چخ چخ ہونے لگی، بیوی کا موڈ بھی خراب رہنے لگا۔

اسے دھُنیے کی بات یاد آئی۔ اب کسی دیوانے کو تلاش کرنا چاہیے۔ دیوانہ فٹ پاتھ پر مل گیا، اس کی بات سن کر بولا۔۔۔  ’’میرے پاس جواب ہوتا تو پہلے خود کو ٹھیک نہ کرتا، بہرحال جا خدا کے ناموں کا ورد کیا کر، تجھے کچھ سکون تو ملے۔‘‘

شدت پسندی تو مزاج کا حصہ تھی ہی، شدومد سے ناموں کا ورد ہونے لگا، واقعی ایک سکون ملا۔ سوچا ’’شاید اب اپنی راہ پر لگ گیا ہوں۔‘‘

لیکن ایک دن عجیب بات ہوئی۔ فٹ پاتھ پر ایک لمبا تڑنگا شخص دفعتاً سامنے آ گیا اور بولا۔۔۔

’’اُلّو کے پٹھے، سمجھتے ہو اس طرح بچ جاؤ گے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور یہ جا وہ جا۔ دیر تک اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ ہوا کیا ہے۔ گم صم فٹ پاتھ پر، نہ اندر، نہ باہر۔

گھر آیا تو سُوجا منہ دیکھ کر بیوی گھبرا گئی۔۔۔

’’کیا ہوا، کسی سے لڑائی ہو گئی، ہوا کیا، کچھ بولو تو سہی۔‘‘

وہ کچھ نہ بولا۔۔۔  بس روتا گیا، روتا گیا۔ بیوی کے ہاتھ پیر پھول گئے، کچھ سمجھ نہ آیا تو کہنے لگی۔۔۔

’’لیٹ جاؤ، کچھ دیر لیٹ جاؤ۔‘‘

وہ چپکے سے لیٹ گیا۔ گھنٹہ بھر بعد بیوی چائے لے آئی اور بولی۔۔۔

’’تم بہت بے سکون رہنے لگے ہو، نماز ہی پڑھ لیا کرو۔‘‘

کچھ دیر بعد وہ پیالی لینے آئی تو حیرت سے دروازے ہی میں کھڑی رہ گئی۔ وہ بڑے خشوع سے نماز پڑھ رہا تھا۔ بیوی نے آہستگی سے دروازہ بند کیا اور ہاتھ اٹھا کر کہا۔۔۔

 ’’یا اللہ شکر ہے۔‘‘

اب معمول بن گیا، پہلے بیوی صبح خود اٹھتی تھی، اب وہ الارم لگاتا، اسے جگاتا اور دونوں نماز پڑھتے۔ چند دنوں میں عادت سی بن گئی، اندر باہر ایک ہو گئے۔ تھوڑی سی دنیا کی رنگینی بھی۔ تھوڑا سا اطمینان بھی۔ سلسلہ ٹھیک چل رہا تھا کہ پھر ایک غلطی ہو گئی۔ اس بار اس کے ماتحت نے دھوکا دیا، ایک یتیم بچے کا حق مارا گیا۔

بچے کا تصور کر کے ہی اسے اپنے آپ سے گھِن آنے لگی۔ اس صبح اس نے الارم نہیں لگایا۔ اٹھے تو بیوی کہنے لگی۔

’’آج آپ نے الارم نہیں لگایا۔ دونوں کی نماز گئی۔‘‘

وہ بولا۔۔۔  ’’میں نے جان بوجھ کر نہیں لگایا۔ اس اٹھک بیٹھک کا آخر کیا

فائدہ؟‘‘

’’خدا کا خوف کرو‘‘ بیوی نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔۔۔  ’’تم نے تو سیدھا

جہنم میں جانا ہے۔‘‘

’’تو تم جنت میں چلی جانا‘‘ وہ چڑ کر بولا۔۔۔  ’’اتنے عرصہ سے تو ایک

دوسرے کو برداشت کر رہے ہیں ، آگے اکٹھے نہ بھی ہوئے تو کیا !‘‘

بیوی نے غصہ سے دروازہ بند کیا اور بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔

پھر وہی گھپ اندھیرا، ٹامک ٹوئیاں ، اختیار اور بے اختیاری کے درمیاں ڈالنا اور کرُودتے جانا۔

ایک شام بچوں نے بڑے پارک جانے کا اصرار کیا تو وہ بے دِلی سے ساتھ چل پڑا۔ پارک میں پہنچتے ہی بچے جھولوں اور گھسیٹ پر جھپٹ پڑے۔ بیوی کو ایک پرانی سہیلی مل گئی۔ وہ اس سے باتیں کرتی لان میں اتر گئی۔ وہ اکیلا بنچ پر بیٹھا رہ گیا۔ کافی دیر بیٹھا رہا، پھر کنول کے تالاب کی طرف چل پڑا۔ بھلے دنوں میں وہ کبھی یہاں آیا کرتا تھا۔ تالاب اسی طرح چپ اور خاموش تھا۔ گردن گردن پانی میں ڈوبے کنول ایک دوسرے کے منہ چوم رہے تھے۔ دفعتاً اسے خیال آیا اس سڑاند زدہ تالاب میں یہ سفید پھول کتنے اجنبی ہیں۔

اندر باہر ایک ہو گیا۔

اس رات وہ بڑے مزے کی نیند سویا۔

٭٭٭

 

بے زمیں

پرانی البم دیکھتے دیکھتے دفعتاً احساس ہوا کہ اس میں ماں کی کوئی تصویر نہیں۔ البم دیکھنے کا خیال بھی ایسے ہی آ گیا، کوئی کام نہیں تھا۔ خیال آیا پرانی یادوں کو ہی تازہ کر لیا جائے لیکن یہ عجیب بات تھی کہ پوری البم میں ماں کی کوئی تصویر نہیں تھی۔ اس وقت تو البم بند کر دی، سوچا کہیں اور سے مل جائے گی لیکن کوئی بات ذہن میں چبھتی رہی۔ دن میں تو مصروفیت نے ادھر زیادہ توجہ نہ ہونے دی لیکن رات کو سونے سے پہلے اس نے غیر شعوری طور پر پھر البم نکال لی اور زیادہ غور سے ایک ایک تصویر کو دیکھنے لگا۔ جن تصویروں کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ ان میں ماں کو موجود ہونا چاہیے، ان میں بھی وہ موجود نہ تھی۔ ساری کی ساری البم اس کے وجود سے خالی تھی۔ اب ذرا تشویش ہوئی، ادھر ادھر کی درازوں کو دیکھا، ایک آدھ پرانی فائل کریدی لیکن ماں کی تصویر کہیں نہیں تھی۔ رات زیادہ ہوئی جا رہی تھی، بیوی نے قدرے ڈانٹ کر کہا ’’سوتے کیوں نہیں ، صبح کہو گے نیند پوری نہیں ہوئی۔‘‘ وہ لیٹ تو گیا لیکن کوئی چیز ذہن میں مسلسل چٹکیاں بھرتی رہی، آخر ماں کی تصویر کیوں نہیں ، پریشانی بڑھی تو اس نے اپنے آپ کو تسلّی دی۔ شاید کسی ایسی جگہ پڑی ہو جو اس وقت ذہن میں نہیں آ رہی، کل پھر دیکھوں گا۔

دن گرد و غبار میں لپٹے شور شرابے میں گزر گیا۔ دفتر میں بھی مصروفیت روز سے کچھ زیادہ ہی رہی۔ گھر آیا تو کچھ رات کی نیند کی کمی، کچھ معمول سے زیادہ کی تھکاوٹ، کھانا کھاتے ہی سو گیا لیکن شام کو چائے پیتے پیتے پھر کوئی شے اس کے ذہن میں رینگنے لگی۔ جلدی جلدی چائے ختم کر کے اس نے ایک ایک الماری، ایک ایک فائل دیکھ ڈالی۔ اس کی بوکھلاہٹ اور تیزی دیکھ کر بیوی بولی۔۔۔  ’’کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘

وہ کچھ نہ بولا، اسے بتاتا بھی کیا؟

اب پریشانی بڑھ گئی تھی۔

’’کمال ہے میرے پاس ماں کی کوئی تصویر ہی نہیں۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ آنکھیں بند کر کے ماں کا تصور کیا لیکن ایک ہیولے کے سوا کچھ نہ ملا۔ ایک ایسا ہیولیٰ جس کے کوئی خدوخال نہیں تھے۔ اب وہ گھبرا گیا۔۔۔  ’’میری ماں کیسی تھی؟‘‘

کس سے پوچھے، باپ تو مدت ہوئی مر چکا تھا۔ تو میری ماں تھی؟ اسے خود ہی اس احمقانہ سوچ پر ہنسی آ گئی۔ ماں نہیں تھی تو میں کہاں سے آیا۔ لیکن اس کے پاس ماں کی تصویر کیوں نہیں ، البم میں ہر شخص کی تصویر موجود ہے لیکن ماں ؟

اسے ساری رات نیند نہ آئی۔ ایک عجیب طرح کی بے سکونی رہی۔ ذرا آنکھ لگتی تو ایک ہیولیٰ سا رقص کرنے لگتا، کوئی شباہت محسوس نہ ہوتی۔ ماں تھی تو اس کی صورت کیسی تھی؟ بڑی کوشش سے اس کا چہرہ بنانے کی کوشش کرتا لیکن چہرے کی لکیریں گڈمڈ ہو جاتیں ، پہچان نہ ہو پاتی۔ صبح اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر بیوی نے پوچھا۔۔۔  ’’طبیعت تو ٹھیک ہے نا‘‘

اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’نیند نہیں آئی۔‘‘

’’کیا بات ہے، دو تین دن سے تم کچھ پریشان سے ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں ‘‘

’’کوئی دفتری پریشانی ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں ‘‘ وہ قدرے کرخت آواز میں بولا۔۔۔  ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘

بیوی چپ ہو گئی۔ اس کے لیے یہ لہجہ خاصا غیر مانوس تھا۔ بڑی سے بڑی پریشانی میں بھی وہ اس لہجے میں بات نہیں کرتا تھا۔ دن بھر وہ اسی کے بارے میں فکرمند رہی۔ شام کو چائے پیتے ہوئے اس نے بڑی ملائمت سے کہا۔۔۔  ’’مجھ سے کچھ ہو گیا ہے‘‘

’’نہیں نہیں ‘‘ اسے احساس ہوا کہ اس کی بیوی واقعی اس کے بارے میں بہت فکر مند ہے۔

’’تو پھر کیا بات ہے، دفتر میں کچھ۔۔۔ ‘‘

’’نہیں بھئی‘‘ اس نے بات کاٹی۔۔۔  ’’بات یہ ہے کہ۔۔۔ ‘‘ وہ چپ ہو گیا۔ اسے کیا بتائے۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ بیوی کی پریشانی اور بڑھ گئی۔۔۔  ’’جان بتاؤ نا کیا بات ہے۔‘‘

’’وہ یہ۔۔۔ ‘‘ وہ پھر چپ ہو گیا، کیا بتائے۔

’’جان بتاؤ نا کیا بات ہے؟‘‘

’’وہ۔۔۔  دراصل۔۔۔  البم میں ماں کی کوئی تصویر نہیں۔‘‘

بیوی کو کچھ دیر اس کی بات سمجھ نہ آئی۔ وہ خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔  ’’میں سمجھی نہیں۔‘‘

’’میں یونہی پرانی البم دیکھ رہا تھا، عجیب انکشاف ہوا کہ اس میں ماں کی کوئی

تصویر ہی نہیں۔‘‘

’’تو اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے؟‘‘

’’ہے تو سہی، آخر میری ماں کی کیا شباہت ہے۔‘‘

’’تصویر نہ ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تمہاری ماں تھی ہی نہیں ‘‘ وہ بولی،

پھر خود ہی ہنس پڑی ’’بغیر ماں کے تو کوئی نہیں آتا۔‘‘

’’یہی تو پریشانی ہے‘‘ اس نے جیسے اپنے آپ سے کہا اور بیوی کے جواب کا انتظار کیے بغیر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

ماں کی تصویر نہ ہونا اور بات ہے لیکن میرے ذہن میں تو اس کی کوئی شباہت بھی نہیں ، بس ایک ہیولیٰ سا ہے اور ہیولے کا تو کوئی وجود نہیں ہوتا، کوئی پہچان نہیں بنتی۔ لیکن میں تو ہوں اس لیے میری ماں تو کوئی ہو گی ہی، پر اس کی صورت کیا ہے، اس کا وجود؟

پھر خیال آیا کہ ماں کا کوئی وجود نہیں تو میں کیا ہوں ، ہوں بھی کہ نہیں ، نہیں تو پھر یہ کون ہے جو سوچ رہا ہے کہ میری کوئی ماں نہیں ، اس کا مطلب ہے کہ میں تو ہوں لیکن ماں کا وجود مشکوک ہے۔

ماں کا وجود مشکوک ہو گیا ہے۔ شاید میں نے خود ہی اسے مشکوک کر دیا ہے۔ اس رات وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سویا۔ آنکھ بند کر کے ماں کے ہیولے کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا لیکن اب تو ہیولیٰ بھی تھرتھرانے لگا تھا۔ وہ بار بار اپنے آپ کو چھوتا، اپنے جسم پر چٹکی کاٹتا، میں ہوں۔۔۔  میں بالکل ہوں ، لیکن میری ماں۔۔۔  میرے آس پاس سب کچھ موجود ہے، اپنا وجود رکھتا ہے لیکن مجھے اس کا احساس نہیں ، میں صرف اپنے آپ میں گم ہوں ، اپنے تسلسل کے نشے میں سرشار ہوں اور ماں کے وجود کو، جو میری بنیاد ہے، گم کر بیٹھا ہوں ، اس لیے میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔

صبح نیند سے بوجھل اور بے آرام آنکھوں کو دیکھ کر، اس سے پہلے کہ بیوی کچھ پوچھتی، اس نے کہا۔۔۔  ’’مجھے معلوم ہو گیا ہے۔‘‘

’’کیا؟‘‘ بیوی نے بے چینی سے پوچھا۔

’’کہ م۔۔۔ ‘‘

آنکھیں آپ ہی آپ بھر آئیں اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

٭٭٭

 

بلیک ہول

کام چند ہی گھنٹوں کا تھا، اس لیے یہی سوچا کہ رات کو سفر کر لیا جائے۔ خیال تھا کہ صبح نو دس بجے پہنچ جائے گا اور کام ختم کر کے کہیں بیٹھ کر دو لقمے کھائے گا اور واپس چل پڑے گا۔ بیوی بچوں کو یہی کہا تھا کہ سہ پہر کو چلنے سے پہلے فون کر دے گا کہ وہ اسے لینے آ جائیں۔ بڑا بیٹا گیارہ کے قریب اسے بس اڈے پر اتار آیا۔ سیٹ بک تھی اس لیے کوئی دقت نہ ہوئی۔ بریف کیس اوپر والی گرِل پر رکھ کر وہ اپنے نمبر کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ رش زیادہ نہیں تھا۔ ساتھ والی سیٹ سارے سفر میں خالی رہی اس لیے وہ پاؤں پسارے ٹیڑھا میڑھا ہو کر لمبا ہو گیا۔ راستے میں ایک جگہ سٹاپ پڑتا تھا۔ بس رکی تو آنکھ کھل گئی۔ دوسرے مسافروں کی طرح وہ بھی اترا، چائے پی اور واش روم سے فارغ ہو کر دوبارہ اپنی سیٹ پر جم گیا۔ چند ہی لمحوں میں نیند نے آہستگی سے اس کی پلکوں پر دستک دی اور دھیرے دھیرے اس کے سارے وجود میں اتر گئی۔ سفر میں سونا اس کی پرانی عادت تھی۔ آنکھ کھلی تو بس شہر میں داخل ہو رہی تھی۔ سڑکوں پر ہما ہمی تھی، سکول جانے والی ویگنیں بچوں سے بھری ہوئی تھیں ، دفتر جانے والے پیدل، سائیکلوں ، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں رواں دواں تھے۔ دن کے ہنگامے شروع ہو چکے تھے اور خوشگوار دھوپ کے ساتھ ساتھ زندگی کا رقص رفتہ رفتہ تیز ہوا جا رہا تھا۔

اڈے سے نکل کر اپنے پسندیدہ ریستوران کی طرف چل پڑا جو تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ بیرے اسے پہچانتے تھے۔ ایک بیرا لپک کر اس کی طرف آیا، مسکرا کر بریف کیس اس کے ہاتھ سے لیا اور بولا۔۔۔

’’سر اس بار تو آپ خاصی دیر سے آئے ہیں۔‘‘

’’ہاں ‘‘ اس نے سر ہلایا اور واش روم کی طرف چل پڑا۔ منہ ہاتھ دھو کر تازہ دم ہو گیا۔ اتنی دیر میں بیرا ایک میز پر اس کا بریف کیس رکھ چکا تھا۔ اپنی پسند کا آرڈر دے کر اس نے اخبار اٹھا لیا۔ وہی روز کی پٹی پٹائی خبریں ، چبائے، بار بار چبائے الفاظ جن میں اب سڑاند آنے لگی تھی۔

ناشتہ کر کے اس نے بل دیا، ٹپ کی رقم دیکھ کر بیرے کی آنکھوں میں چمک آئی۔۔۔

’’سر دوپہر کو آئیں گے نا۔‘‘

’’شاید‘‘ اس نے بریف کیس اٹھایا لیکن بیرے نے آگے بڑھ کر بریف کیس اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ اس نے بٹوے کو پینٹ کی پچھلی جیب میں جما کر رکھا۔ بٹن بند کیا۔ بیرا آگے آگے، وہ پیچھے پیچھے ریستوران کے دروازے پر پہنچے۔ بیرے نے ادب سے دروازہ کھولا، اس نے بریف کیس لیا، بیرے کے سلام کا جواب دے کر ہجوم کے سیلِ رواں میں اتر گیا۔ باری باری دو تین ٹیکسیاں اس کے قریب رکیں لیکن اس نے سر ہلا کر نفی کا اشارہ کیا، سوچا دفتروں میں سلام دعا کرتے، میزیں صاف کرتے، فائلوں کی گرد جھاڑ کر کام شروع ہوتے ہوتے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے اس لیے کیوں نہ پیدل ہی چلا جائے، ہاتھ پیر کھل جائیں گے اور وقت بھی گزر جائے گا۔ دائیں طرف نسبتاً چھوٹی سڑک تھی جس پر رش کم ہوتا تھا اور شارٹ کٹ بھی تھا۔ وہ ادھڑ مڑ لیا۔ ابھی چند ہی قدم چلا تھا کہ دائیں طرف والی گلی سے وِرد کی آوازیں سنائی دیں ، جنازہ آ رہا تھا۔ وہ ہمیشہ اسی سڑک سے متعلقہ دفتر جاتا تھا اور سڑک کے آس پاس سے اچھی طرح شناسا تھا۔ جنازہ سڑک پر آ گیا۔ سوچا قبرستان زیادہ دور نہیں کیوں نہ مرنے والے کو دو قدم چل کر رخصت کیا جائے۔ آج صبح کی نماز سفر کی وجہ سے رہ گئی تھی، چلو جنازے کی نماز ہی پڑھ لی جائے۔ وہ جنازے کے جلوس کے ساتھ چل پڑا۔ لوگ مرنے والے کی خوبیوں اور جواں مرگی کا ذکر بڑی رقت سے کر رہے تھے۔

بریف کیس میں کاغذوں کے سوا کچھ نہ تھا، اس نے اطمینان سے اسے جنازہ گاہ کی چھوٹی سی دیوار کے ساتھ ٹکا دیا اور وضو کرنے بیٹھ گیا۔ نماز سے پہلے مولوی صاحب نے موت و حیات کے موضوع پر مختصر سی تقریر کی۔ سلام پھیر کر جانے اس کے دل میں کیا آیا کہ وہ بھی مرنے والے کا منہ دیکھنے والوں کی قطار میں کھڑا ہو گیا۔

جواں مرگ کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ اسے لگا جیسے وہ ابھی اٹھے گا اور پوچھے گا، ’’بھائی صاحب آپ کہاں سے آئے ہیں۔‘‘

چہرہ بہت ہی اپنا اپنا لگا۔ اس پر اطمینان کی کرنیں ، سوچا اب آ ہی گیا ہوں تو قبر پر مٹی کے دو بُک بھی ڈالتا جاؤں۔ بڑے بزرگوں سے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ قبر پر دو بُک مٹی ڈالنے سے بڑا ثواب ملتا ہے اور مرنے والے کو بھی شانتی ہوتی ہے۔

مٹی ڈالنے کے بعد دعا ہوئی اور قُل کے اعلان کے ساتھ ہی لوگ واپس مڑے۔ وہ جنازہ گاہ کی طرف آیا۔ ہاتھ دھوئے اور بریف کیس اٹھا کر سڑک کی طرف چل پڑا۔ قبرستان سے نکلتے نکلتے غیر ارادی طور پر ہاتھ سے پچھلی جیب کو ٹکورا۔ ایک جھٹکا لگا، بٹوا موجود نہیں تھا۔

’’اس پردیس میں۔۔۔ ‘‘ اسے پسینہ آ گیا۔ ’’کسی نے نکال لیا ہے یا مٹی ڈالتے، جھکتے ہوئے۔۔۔ ‘‘ وہ تیزی سے مڑا۔ تازہ قبر پر پڑے پھول ہوا سے پتی پتی ہو رہے تھے۔ جلدی جلدی نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھا، تازہ نیم گیلی مٹی سے کاغذ کا ایک ٹکڑا جھانک رہا تھا، اس نے جھک کر اسے نکالا۔ کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے نمبر اسی کے ہاتھ کے تھے۔ چلتے چلتے اس نے ضروری ٹیلی فون نمبر لکھ کر بٹوے میں رکھے تھے۔ اطمینان نے پنکھ پھیلائے لیکن۔۔۔  اب چارہ بھی کیا تھا۔ آہستہ سے اسی طرف سے جہاں سے کاغذ کے ٹکڑے نے جھانکا تھا، مٹی ہٹائی، ایک خوف بھی آہستگی سے اس کے وجود پر رینگ رہا تھا۔ کسی نے دیکھ لیا تو۔۔۔  مگر، ادھر ادھر دیکھا، ہُو کا عالم تھا۔ ہاتھوں میں تیزی آ گئی۔ دو تین وزٹنگ کارڈ ملے۔ یہ بھی اسی کے تھے۔ ہاتھوں میں تیزی آ گئی۔ دو تین چیزیں اور ملیں اور وہ مٹی ہٹاتے ہٹاتے سلوں تک جا پہنچا۔ بٹوا دو سِلوں کی درمیانی درز میں پھنسا ہوا تھا۔ لپک کر بٹوا اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ درز میں پوری طرح پھنسا ہوا تھا۔ ایک ہی صورت تھی کہ سِل ہٹائی جائے، چارہ بھی کیا تھا۔ جھک کر زور لگا کر سِل کر ہٹایا، بٹوا اندر جا گرا۔ جھکا، اور جھکا اور چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر بٹوا اٹھا لے کہ مٹی کا پھاکھا اپنی جگہ چھوڑ گیا۔ وہ سر کے بل اندر جا گرا۔ چیخ نکل گئی۔ گھپ اندھیرا، نیچے لجلجا سا جسم، کافور کی تیز بُو۔

ایک لمحہ۔۔۔  دو،  تین یا۔۔۔  ؟

بٹوے کو مضبوطی سے پکڑ کر وہ پوری قوت سے اچھلا، بھربھری مٹی میں سے ہوتا باہر آ گرا۔ خوف سارے وجود پر دستکیں دے رہا تھا۔ بریف کیس اٹھانا بھی یاد نہ رہا۔ تقریباً دوڑتا، ہانپتا باہر کی طرف بھاگا۔ شاید کسی اور طرف نکل آیا۔یہ وہ سڑک نہ تھی۔ علاقہ با رونق تھا لیکن اجنبی اجنبی سا محسوس ہو رہا تھا۔ سوچا قبرستان کی دوسری طرف نکل آیا ہوں۔ کپڑے جھاڑے، سر کے بالوں سے مٹی اتاری۔

’’اب تو ٹیکسی پکڑنا ہو گی‘‘ اپنے آپ سے کہا۔ بٹوا دیکھا، سب بڑے نوٹ تھے۔۔۔  ’’ٹیکسی والے سے خواہ مخواہ تکرار ہو گی۔‘‘ بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی ’’بسکٹ لے لوں ، چینج بھی مل جائے گا۔‘‘

سڑک خاصی چوڑی تھی، عجب طرح کی نئی نئی چیزیں تھیں۔ کراس کرتے ہوئے، اپنے خیالوں اور خوف میں ایسا گم تھا کہ یہ احساس بھی نہ ہوا کہ لوگ مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہے ہیں۔ فٹ پاتھ پر پہنچا تو ایک بچہ جو ماں کی انگلی پکڑے گزر رہا تھا اسے دیکھ کر بری طرح چونکا اور ماں سے کچھ کہنے لگا، لیکن وہ ابھی تک خوف کے لبادے میں گم تھا، گھپ اندھیرا، کافور کی تیز بُو اور لجلجا سا جسم۔۔۔  تھرتھری لے کر وہ سامنے۔۔۔  کے سٹور میں داخل ہوا۔

’’بسکٹوں کا ڈبّا دیجیے۔‘‘

دکاندار اور دوسرے لوگوں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

’’  بسکٹ‘‘ اس نے زور دیا۔

دکان دار نے سر ہلایا اور شیلف سے ایک ڈبّا نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ نئی سی پیکنگ تھی مگر اس لمحے سوائے گھپ اندھیرے اور کافور کی بُو کے کچھ نہ سوجھ رہا تھا۔ اس نے بٹوے سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر دکان دار کے ہاتھ میں دے دیا۔

دکان دار نے الٹ پلٹ کر نوٹ کو دیکھا، پھر اپنے ساتھی کو دکھایا۔۔۔

’’یہ کہاں کا نوٹ ہے؟‘‘

اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔  ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘

اس کی پریشانی دیکھ کر دکان دار کا ساتھی بولا۔۔۔

’’گھبرائیے نہیں ، ساتھ ہی منی چینجر ہے۔ ان سے تبدیل کرا لیتے ہیں۔

آئیے۔‘‘

روبوٹ کی طرح، خالی ذہن، کافور کی بُو اور گھپ اندھیرے کی بانہوں میں لپٹا، وہ پیچھے پیچھے اور دکان دار کا ساتھی آگے آگے، ساتھ والی دکان میں داخل ہوئے۔

منی چینجر نے نوٹ کو کئی بار الٹ پلٹ کے دیکھا، پھر کونے میں بیٹھے ایک بوڑھے کو،  جس نے موٹے موٹے شیشوں کی عینک لگائی ہوئی تھی، نوٹ دکھایا۔ بوڑھے نے نوٹ کو الٹ پلٹ کے دیکھا اور سال خوردگی سے لڑکھڑاتی آواز میں اس سے پوچھا۔

’’یہ نوٹ آپ کو کہاں سے ملا۔ یہ تو ایک ہزار سال پرانا ہے۔‘‘

اسے کچھ سمجھ نہ آیا، بس بٹر بٹر اسے دیکھا کیا۔

٭٭٭

 

گملے میں اُگا ہوا شہر۔۔۔  ۲

جنازہ ایک بار پھر گم ہو گیا تھا۔

برسوں پہلے بھی یوں ہی ہوا تھا کہ جب اسے سُولی سے اتار کر چارپائی پر ڈالا گیا اور ہجوم قبرستان کی طرف روانہ ہوا تو درمیان میں کہیں جنازہ گم ہو گیا، لوگ اس کی تلاش میں سڑکوں اور گلیوں میں پھیل گئے اور جب جنازہ نہ ملا تو ایک دوسرے سے الجھ پڑے، جنازہ اب پھر گم ہو گیا تھا لیکن اس بار صورتِ حال کچھ مختلف تھی۔ دیکھنے میں وہ اگرچہ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن اندر ہی اندر کوئی شے اسے کھوکھلا کیے جا رہی تھی، لوگ اس کی صحت کی باتیں بھی کرتے تھے اور اس کی موت کے منتظر بھی تھے چنانچہ جب اس کی موت کا اعلان ہوا تو لوگوں کو کچھ زیادہ تعجب نہ ہوا۔

جنازہ اٹھنے کے وقت کے آگے پیچھے لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ٹولیوں اور گروہوں کی شکل میں گلیوں اور سڑکوں میں پھیلے لوگ اسی کی باتیں کر رہے تھے، اسی کی اچھائیاں اور برائیاں۔ ’’دفعتاً ‘‘ کسی کو احساس ہوا کہ بہت دیر ہو گئی ہے اور جنازہ ابھی نہیں اٹھا، ایک نے دوسرے سے اور دوسرے نے تیسرے سے پوچھا۔ کسی نے کہا جنازہ تو اٹھ چکا اور اب قریبی مسجد میں نماز کی ادائیگی ہو رہی ہے یا ہونے والی ہے۔ لوگ مسجد کی طرف چل پڑے، مسجدیں تو کئی تھیں ، کسی نے پوچھا۔۔۔  اس کا عقیدہ کیا تھا؟ جنازہ کس مسجد میں گیا ہے؟ اس کا عقیدہ کیا تھا، یہ سوال ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے اور چوتھے تک پہنچا، معلوم نہیں ، ایک نے دوسرے سے اور دوسرے نے تیسرے سے کیا کہا۔ اب انہوں نے ایک ایک مسجد دیکھنا شروع کی، ہر مسجد کے دروازے پر کسی نہ کسی مسلک کی تختی لگی ہوئی تھی اور جنازہ وہاں موجود نہیں تھا۔

ایک بے یقینی کی فضا پر پھیلائے چاروں طرف منڈلا رہی تھی، ایک نے دوسرے سے پوچھا۔۔۔  ’’کچھ معلوم ہے؟‘‘

دوسرے نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔  ’’کچھ نہیں۔‘‘

کسی نے کسی سے سوال کیا۔۔۔  ’’کچھ پتہ ہے؟‘‘

’’نہیں ‘‘ اس نے تیسرے کی طرف دیکھا، تیسرے نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ تلاش اور لاتعلقی ساتھ ساتھ چل رہے تھے، قدم سے قدم ملائے۔

’’ہوا کیا؟‘‘

’’کچھ معلوم نہیں۔‘‘

’’تو پھر۔۔۔ ‘‘

’’چپ پتھرائے چہرے، خاموش سوال کرتی آنکھیں !

؟؟؟؟

؟؟؟؟

؟؟؟؟

’’تو تم اسے جانتے تھے؟‘‘ کسی نے کسی سے کہا۔

’’جانتا تو تھا لیکن۔۔۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’جانتا تو تھا لیکن پھر بھی ہر بار۔‘‘

’’کیا ہر بار؟‘‘

’’ہر بار وہ مجھے اپنی دلفریب باتوں میں الجھا لیتا تھا۔‘‘

’’تو وہ تمہارا ساتھی نہیں تھا۔‘‘

’’تھا یا شاید نہیں تھا۔‘‘ جواب دینے والے نے بے یقینی سے کہا۔ بہت دیر چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’شاید وہ میں ہی تھا۔‘‘

’’شاید میں بھی تھا۔‘‘ دوسرے نے سوچتے ہوئے کہا۔

ہجوم گلیوں اور سڑکوں پر بکھرا ہوا تھا اور جنازے کی تلاش جاری تھی، ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا تھا۔

’’یہاں تو نہیں۔‘‘

’’نہیں یہاں بھی نہیں۔‘‘

گھر تو سارے ایک جیسے تھے، گلیاں اور سڑکیں بھی ایک سی تھیں ، تو پھر اسے کہاں ڈھونڈا جائے۔

’’اور ہم میں سے ہر کوئی بھی تو اسی جیسا ہے۔‘‘

’’تو۔۔۔ ‘‘

ایک لگا اس کا دم گھُٹ رہا ہے، دوسرے کو بھی یہی احساس ہوا۔

’’ہم سبھی تو کہیں نہیں مر رہے؟‘‘

’’اور ہمارے جنازے۔۔۔ ‘‘

شہر کا شہر ہی ایک جنازہ تھا اور کہیں گم ہو گیا تھا۔

’’شہر بھی کہیں گم ہوتے ہیں ؟‘‘

’’کبھی کبھی ہو بھی جاتے ہیں۔‘‘

’’روشن دان اور دریچے بند ہو جائیں تو اندھیرا ہو جاتا ہے۔‘‘

’’اور اندھیرے میں چیزیں گم ہو جاتی ہیں۔‘‘

انہوں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی۔ کچھ نظر آیا، کچھ نظر نہ آیا، بس یہ لگا ایک بے قابو ہجوم ہے جو ہاتھ پیر مار رہا ہے، افسوس کے نعرے لگا رہا ہے اور پھولی سانسوں کے ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں کچھ تلاش کر رہا ہے۔

’’ہم کسے تلاش کر رہے ہیں ؟‘‘ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔

’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘ دوسرے نے قدرے تلخی سے کہا۔

’’نہیں مجھے نہیں معلوم، اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘

’’ہم۔۔۔ ‘‘ دوسرے نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا، لیکن لفظ نامکمل رہ گئے۔۔۔  ’’ہم کسے تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے خود سے سوال کیا مگر اسے اپنے سوال کا کوئی جواب نہ ملا، اس نے کن انکھیوں سے پہلے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے سر جھکا لیا۔

سوال کرنے والا کچھ دیر تو چپ رہا، پھر اس نے یہی سوال کسی اور سے کیا، لیکن وہ بھی کوئی جواب نہ دے سکا، الٹا سوچ میں پڑ گیا کہ وہ کسے تلاش کر رہے ہیں۔

’’اب تو یاد بھی نہیں رہا۔‘‘ ایک نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ’’ہم نکلے کب

تھے اور کس لیے، تمہیں کچھ پتہ ہے۔‘‘ اس نے ساتھ والے سے پوچھا۔

اس نے نفی میں سر ہلایا۔

’’شاید اسی کو پتہ تھا، جس کا جنازہ وہ ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘

’’تو سارا اتہ پتہ وہ اپنے ساتھ ہی لے گیا۔‘‘ ایک نے دوسرے سے کہا۔

’’اور خود بھی گم ہو گیا۔‘‘ دوسرا ہنسا۔

’’تم ہنسے کیوں ؟‘‘ پہلے نے دوسرے کو گھورا۔

’’ہنسی آئی، ہنس پڑا۔‘‘ دوسرے نے اسے گھورا ’’تم کون ہوتے ہو پوچھنے

والے۔‘‘

’’میں ‘‘

’’ہاں تم‘‘

میں تم۔۔۔  تم میں۔۔۔  دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے، سارا ہجوم ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گیا۔ سڑکوں ، گلیوں اور گھروں میں سب ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ جو جس کے ہاتھ میں آیا، اٹھا کر دوسرے کو مارنے دوڑ پڑا۔ چیخیں ، سسکیاں ، آہیں ، کسی کو کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کسی کو کسی کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، ایک ہنگامہ تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ شہر کا شہر میدانِ جنگ بن گیا تھا، شہر سے باہر قبرستان میں گورکن تازہ کھُدی ہوئی قبر کے کنارے بیٹھا بار بار شہر سے آنے والے راستے کو دیکھے جا رہا تھا۔ قبر کھُدے دیر ہو چکی تھی اور قبر ایک بار کھُد جائے تو کسی نہ کسی کو اس میں دفن ہونا ہی ہوتا ہے۔

شہر میں ہنگامے اب اپنے عروج کو پہنچ چکے تھے۔ سڑک کے کنارے پڑا جنازہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ اس میں سے اٹھنے والی بُو کسی کو محسوس ہو رہی تھی!!

٭٭٭

 

اپنے ہونے کا احساس

اُس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔۔۔

’’میں سمجھنا چاہتا ہوں لیکن میرے لفظ معنوں سے خالی ہیں ، اے رب مجھے لفظ عطا کر، عطا نہیں کرنا چاہتا تو لفظ ادھار ہی دے دے۔‘‘

مرشد نے پسندیدگی میں سر ہلایا اور بولا۔۔۔  ’’لفظ سے زیادہ خیال اہم ہے کہ خیال شدّتِ توجہ سے واقعہ بنتا ہے اور واقعہ بے توجہی سے خیال ہی رہ جاتا ہے۔‘‘

اس نے پوچھا۔۔۔  ’’تو پھر لفظ کہاں ہیں ؟‘‘

مرشد نے کہا۔۔۔  ’’لفظ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ، تم نے سنا نہیں کہ جذبے کی اعلیٰ ترین سطح پر لفظوں کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔‘‘

اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’شاید یہ وہی مقام ہے جہاں مَن و تُو کا جھگڑا مٹ جاتا ہے۔‘‘

مرشد مسکرایا۔۔۔  ’’سمندر میں اترتے ہوئے مَیں ہوتا ہے لیکن سمندر کی گہرائیوں میں پہنچ کر سب کچھ سمندر ہو جاتا ہے۔‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’لیکن سمندر صرف اسے قبول کرتا ہے جو زندہ ہو۔‘‘

مرشد نے تبسم کیا۔۔۔  ’’سمندر زندہ کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اور مردہ کو باہر پھینک دیتا ہے۔‘‘

دونوں چل پڑے، چلتے چلتے ایسے نقطہ پر پہنچے جہاں خود کو سنبھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا، کوئی شے انہیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی، بلا رہی تھی۔

اس نے پوچھا۔۔۔  ’’یہ کیا مقام ہے؟‘‘

مرشد نے جواب دیا۔۔۔  ’’یہ بلیک ہول کا آغاز ہے، ہم اس کے اندر جا رہے ہیں ، شاید جا نہیں رہے لے جائے جا رہے ہیں۔‘‘

اس نے سوچا۔۔۔  ’’یہ بلیک ہول کیا ہے؟‘‘

مرشد نے اس کی سوچ سن لی، بولا۔۔۔  ’’بلیک ہول ایسی جگہ ہے جہاں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ قوت اپنی ہی اسیر بن جاتی ہے۔‘‘

ایک تنگ تاریک راستے سے گزر کر وہ ایسی جگہ پہنچے جہاں وقت ٹھہرا ہوا تھا، وقت کے ٹھہرنے کا یہ منظر عجب تھا، مکاں منجمد ہو گیا تھا۔ وہ جانے وہاں کتنا عرصہ رہے، شاید دن یا صدیاں۔۔۔  وہاں سے نکلنے کا رستہ نہ تھا، ایک عجب لذت تھی، ساکن ہونے کا بھی اپنا ایک منظر ہے۔

بہت دیر کے بعد مرشد کی آواز آئی۔۔۔

’’یہاں ہر شے دوہرائی جا رہی ہے۔‘‘

اس نے دیکھا۔۔۔  اگلے نقطہ پر آوازوں اور تصویروں کی ایک بھیڑ ہے۔ وہ اپنی آوازوں اور تصویروں کو تلاش کرنے لگا، اور ایسا کھویا کہ اپنے آپ کو بھی بھول گیا، یہاں وقت شاید ٹھہرا ہوا تھا، یا شاید چل رہا تھا، اسے تو اندازہ ہی نہ ہوا۔ مرشد نے آ کر اسے جھنجھوڑا۔۔۔  آگے کوئی اور منظر تھا، منظر کے بعد منظر، سب منظر ایک دوسرے کے قیدی تھے۔

’’یہ کیا طلسم ہے؟‘‘ اس نے مرشد سے پوچھا۔

’’یہ ایسا طلسم ہے جہاں آنے کا راستہ ہے جانے کا نہیں۔‘‘

اس نے سوالیہ انداز سے مرشد کو دیکھا۔

مرشد بولا۔۔۔  ’’یہاں اتنی توانائی ہے کہ ہر شے اس کی طرف کھنچی چلی آتی

ہے اور اس کا اپنا آپ بھی اس کا رہن ہے۔‘‘

اسے کچھ سمجھ آیا، کچھ نہ آیا، کہنے لگا۔۔۔

’’لیکن ہم یہاں سے نکلیں گے کیسے؟‘‘

مرشد ہنسا۔۔۔  ’’ہم شے نہیں ، تصور ہیں اور عکس پابند نہیں ہوتا‘‘

اور انہوں نے وہاں سے نکلنے کی سعی کی۔ مرشد تو پَر پھیلا یہ جا وہ جا، اسے البتہ دقّت ہوئی، جہاں ہر شے اپنا وجود کھو دے، وقت ٹھہر جائے اور مکاں کی کوئی حیثیت نہ رہے وہاں سے نکلنا اتنا آساں تو نہ تھا، وہ جتنا اٹھا تھا اتنی ہی تیزی سے نیچے آیا۔

نیچے گرتے گرتے اس نے مرشد کو پکارا، مرشد جو کہیں دور نکل گیا تھا، اس کی آواز سن کر لوٹا اور بولا۔۔۔

’’کیا تم ہو‘‘

اس نے جواب دیا۔۔۔  ’’ہاں میں ہوں ‘‘

’’تو پھر نکل چلو کہ یہاں وہی ختم ہوتا ہے جسے اپنے ہونے کا احساس نہ ہو،

تمہارا احساس ابھی زندہ ہے، اس کے ختم ہونے سے پہلے نکل چلو۔‘‘

مرشد کی آواز نے اسے حوصلہ دیا، اس نے اپنے ہونے کا احساس کیا اور اٹھا، اٹھا اور ایک جھٹکے سے باہر آ نکلا۔

’’مبارک ہو‘‘ مرشد ہنسا۔

وہ کچھ نہ بولا۔ دونوں کائنات کی بھول بھلیوں میں کھو گئے۔ ٹھہرا ہوا وقت پھر رواں ہو گیا تھا۔ مکان بھی وجود میں آ گیا تھا۔ وہ پہلے سیدھا چلا، وقت سیدھا تھا، اس کا کوئی آغاز انجام نہ تھا، پھر وہ زاویوں میں مڑا، وقت زاویوں میں آغاز و انجام سے بے نیاز تھا۔

’’کیا یہ ازل سے پہلے موجود تھا‘‘ اس نے مرشد سے پوچھا۔

’’ابد کے بعد بھی موجود رہے گا‘‘ مرشد نے جواب دیا۔

وہ جھنجھلا کر بولا۔۔۔

’’میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے ایک نئی بات۔‘‘

مرشد نے کہا۔۔۔  ’’نئی بات نہیں ، تمہارے سوال کا جواب ہے۔‘‘

’’یہ کیسا جواب ہے؟‘‘

مرشد بولا۔۔۔

’’غور کیا کرو، تم نے غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘

اس نے غور کیا اور اداس ہو گیا۔

’’اداس کیوں ہو؟‘‘ مرشد نے پوچھا۔

’’واپسی کے بعد مجھے خوف آنے لگا ہے۔‘‘

’’کیسا خوف؟‘‘

’’وہاں سے تو نکل آئے لیکن یہ میرے آس پاس جو چلتے پھرتے بلیک

ہول ہیں ان سے کیسے بچوں ‘‘

مرشد نے سر ہلایا۔۔۔  ’’یہ تو خود مردہ ہیں اور دوسروں کو بھی اپنے اندر کھینچ

کر مردہ کر دیتے ہیں۔‘‘

’’تو پھر‘‘

’’کچھ نہیں ‘‘ مرشد بولا۔۔۔

’’اپنے ہونے کے احساس میں مگن رہو، اپنے ہونے کا احساس تمہیں ہر بلیک ہول سے بچائے گا۔‘‘

اس نے اثبات میں سر ہلایا لیکن بے اطمینانی کے اس پرندے کو نہ اُڑا سکا جو دیر سے اس کے دل کی چھتری پر بیٹھا ہوا تھا۔

٭٭٭

 

ایک دن اور

ناشتہ کرتے ہوئے حسبِ معمول اس نے اخبار کھول کر وفاتیات کے کالم پر نظر ڈالی اور اس میں اپنا نام نہ دیکھ کر ایک کلکاری بھری اور اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’چلو ایک دن اور سہی۔‘‘ لیکن اسے احساس ہوا کہ اس کے اندر جو ایک نیم گرم لہر سی دوڑی ہے، اس میں اور اس جملے میں کوئی ربط نہیں۔ روزانہ کا یہ رسمی سا جملہ اسے بے معنی سا لگا۔ ’ایک دن اور سہی، کے کیا معنی ہیں ؟ کچھ دیر بعد، ابھی اور کچھ دیر پہلے کے اب اس کے نزدیک کیا معنی ہیں ، سب کچھ تو ایک سا ہے، سو بعد، پہلے اور اب میں کیا فرق ہے؟ شاید کبھی تھا، اس نے حسرت سے سوچا اور رنگ برنگ لمحوں کا عکس ایک پل کے لیے لہرایا اور اس نے ان کے ہِلتے پَروں کی پھڑپھڑاہٹ سنی۔

کیا آغاز تھا؟ اس نے سوچا۔ اَتھرے گھوڑے کی ٹاپوں سے زمین لرز رہی تھی اور اس کے زمین سے ٹکراتے سموں سے بجلی اُڑتی تھی، کالج کیفے ٹیریا میں بحث کرتے منہ سے جھاگ اٹھتی، بند مٹھیوں سے میز بجاتے ہوئے، دنیا بھر میں انقلاب لانے کے خواب، اس زمانے میں وہ سبھی ایک جیسے تھے، مستقبل کے دھندلکوں سے بے نیاز، اپنی ذات تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتی تھی۔ بس ایک خواب تھا، جس کی سرمئی دھند انہیں اپنے اندر جذب کیے ہوئے تھی۔ اس سرمئی دھند میں ، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ محوِ رقص تھے۔ ایک والہانہ، مجذوبانہ رقص، ایک ایک عضو تھرک رہا تھا، آس پاس سے بے نیاز، اپنی دنیا میں گم اسی رقصِ مستانہ میں گم کالج سے یونیورسٹی کا سفر بھی دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا۔ بھلے دن تھے، نوکری کے لیے بھی زیادہ تگ و دو بھی نہ کرنا پڑی۔ دو ایک جگہ انٹرویو دیا، اور ایک زنجیر گلے میں پڑ گئی۔ سارے لوگ وقتی طور پر بکھر گئے۔ لیکن شام کو اسی پرانے ہوٹل کی بوسیدہ سی میز پر اکٹھے ہوتے اور وہی خواب، دنیا کو بدل دینے کا خواب انہیں اپنی بُکّل میں لپیٹ لیتا، رات گئے گھر لوٹ کر کچھ دیر پڑھنا، صبح وہی معمول اور شام کو اسی طرح ادھوری بحث کے سِرے جوڑ کر گفتگو کا آغاز۔

رنگ برنگے پَروں کی پھڑپھڑاہٹ اور سرسراتے لمحوں کے درمیان احساس ہی نہ ہوا کہ سرسبز میدان کا راستہ کب اور کہاں ختم ہوا اور ناہموار کٹی پھٹی کانٹوں بھری زمین کہاں سے شروع ہوئی۔ ذرا ہوش آئی اور آنکھ کھول کر دیکھا تو سفر کا اگلا مرحلہ شروع ہو چکا تھا، شام کی محفلیں بھولی بسری داستانیں بن گئیں۔ دنیا بھر میں انقلاب لانے کا خواب، خواب ہی رہ گیا اور ساری دنیا کی بجائے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔

دونوں میاں بیوی ملازمت سے فارغ ہو کر گھر آتے تو بچوں کی پڑھائی کا مسئلہ شروع ہو جاتا۔ لگتا خود سکول میں داخل ہو گئے ہیں ، ٹیں ٹیں ، رِیں رِیں کرتے بچے چھلانگیں مارتے ایک کلاس سے دوسری کلاس میں پہنچتے گئے اور خود ان کے سروں میں چاندی کھِلنے لگی۔

’’پتہ نہیں وقت کیسے گزر گیا۔‘‘ وہ کبھی کبھی اپنے آپ سے سرگوشی کرتا۔۔۔  ’’کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ لمحوں کو پنکھ لگے ہوتے ہیں ، وہ تو بس اُڑتے ہی رہتے ہیں ، اُڑتے چلے جاتے ہیں۔‘‘

کبھی کبھی لمحہ بھر کے لیے یکسوئی کا کوئی پَل میسر آ جاتا تو لمحوں کے پنکھ ہِلنے کی آواز سنائی دے جاتی اور پھر وہی شور، زندگی کی ہماہمی کا نہ ختم ہونے والا بے ہنگم شور، یہ شور ایک سیلِ بلا کی طرح ہر شے کو بہائے لیے جاتا۔ وہ بھی ایک بے بس تنکے کی طرح اس کی زد میں تھا اور آگے ہی آگے چلا جاتا تھا۔

’’زندہ رہنے کے لیے کتنی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔‘‘ وہ سوچتا اور اسے پتہ نہ چلتا کہ اس کا یہ سوچنا کوئی تاسف ہے یا رواروی۔ کبھی کبھی اسے خیال آتا کہ اس کے باپ کی زندگی اتنی تیز رفتار نہ تھی، وہ کتنا شانت ہوتا تھا۔

’’شاید اس وقت دوڑ اتنی تیز نہ تھی اور ایک دوسرے کو دھکا دے کر آگے

نکلنے کی ایسی جلدی بھی نہ تھی، لیکن اب۔۔۔ ‘‘

اس سے آگے سوچنا منع تھا، وہ تو خود کیؤں کو دھکا دے کر آگے نکلا تھا اور اب اس کے بچے۔۔۔

’’یہ کمپیوٹر کا دور ہے۔‘‘ اس کا بیٹا اسے سمجھاتا۔۔۔  ’’تیز رفتار، ٹُو دی پوائنٹ‘‘

وہ جواباً کچھ نہ کہتا۔ اس کا دور یوں بھی اب ختم ہو گیا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب اس کی مصروفیات یہی رہ گئی تھیں کہ بازار سے سودا لے آئے اور بیل بجے تو دیکھ لے کون آیا ہے۔ صبح جلدی اٹھنے کی پرانی عادت تھی، ناشتے سے پہلے ہی اخبار، اور اب کچھ عرصہ سے اخبار میں سب سے پہلے وفاتیات کے کالم پر نظر ڈالنا، اپنا نام نہ دیکھ کر۔۔۔  ’’ایک دن اور سہی‘‘ کا وِرد کرنا۔ لیکن اسے یہ پتہ نہ چلتا کہ اس ’ایک دن اور سہی، میں مفاہمت ہے، مجبوری یا خوشی۔ خوشی تو شاید نہیں تھی، بس ایک مجبوری اور مفاہمت۔۔۔  چلو ایک دن اور سہی۔

اس ایک دن اور کے لیے ہر صبح وفاتیات کا کالم دیکھنا، صبح جلدی اٹھنا، صبح جلدی اٹھنے کی عادت تو تھی ہی لیکن ایک صبح وہ ذرا دیر سے اٹھا۔ رات کو طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ نیند دیر سے آئی، یوں بھی اگلے دن ہفتہ وار تعطیل تھی۔ سب گھر میں تھے۔ وہ ذرا دیر سے اٹھا، خیال آیا کہ اخبار تو دیکھا ہی نہیں ، لاؤنج کی طرف آیا لیکن دروازے ہی میں ٹھٹک گیا، اس کا بڑا بیٹا اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔۔۔  ’’چلو ایک دن اور سہی‘‘ اور اس کے سامنے وفاتیات کا کالم کھلا ہوا تھا۔ اسے خیال آیا کہ اس کا باپ اَسّی سال کی عمر میں بھی مرنے کا ذکر سننا پسند نہیں کرتا تھا، مگر اس کا بیٹا جوانی ہی میں وہاں پہنچ گیا ہے جہاں وہ خود ستّر سال میں پہنچا ہے۔ اس نے سوچا۔۔۔

’’پتہ نہیں ، یہ ترقی ہے، تیز رفتاری یا ٹُو دی پوائنٹ۔۔۔ ؟‘‘

٭٭٭

 

خزاں دبے پاؤں آئی

خزاں ایسے چپکے چپکے اور دبے پاؤں آئی کہ احساس ہی نہ ہوا کہ پیلاہٹوں کی کھلکھلاہٹ میں ایک مضمحل سی خاموشی آتی چلی جا رہی ہے۔ یہ دن شاید ایسے تھے کہ ناچتے گاتے رنگوں کی کھنکھناہٹ میں ایک اداسی سی در آنے کی طرف خیال ہی نہیں جاتا تھا۔ سب کچھ ٹھیک ہی تھا، مستانی ہواؤں میں جھومتی شاخیں اور شاخوں پر گیت گاتے پرندوں کے گھونسلے، بس یہیں کہیں احساس ہوا ہے کہ آہستہ آہستہ کچھ ہو رہا تھا، اندر ہی اندر، چپکے ہی چپکے۔ گھونسلے خالی دکھائی دینے لگے تھے۔ ذرا سوچا، دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر خالی پڑے ہیں۔ ’’تو پرندے کدھر گئے۔‘‘ اس نے حیرت سے اپنے آپ سے پوچھا۔ اب ذرا اور غور کیا تو معلوم ہوا کہ باغ میں تو اب ایک بھی فاختہ نہیں ، کوئل نہیں ، مدھر گیت گانے والے رقص کرنے والے سارے پرندے جانے کب سے ہجرت کر رہے تھے۔ شاید ایک ساتھ ہی چلے گئے ہوں یا ایک ایک کر کے رخصت ہوئے ہوں ، باغ میں تو اب ایک بھی سریلی آواز نہیں تھی، بس کوّوں کا بے ہنگم شور تھا یا درختوں کی اونچی چوٹیوں پر بیٹھی چیلیں تھیں جن کی صورتیں گدھوں جیسی ہو گئی تھیں۔

اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ ’’تو میں ان بے ہنگم آوازوں میں زندہ ہوں ، اور

مجھے احساس ہی نہیں کہ یہاں کا سریلا پن تو رخصت ہو گیا۔‘‘

وہ سوچ میں پڑ گیا۔۔۔  ’’کب سے؟‘‘ اسے اپنے آپ پر غصہ آیا۔۔۔

’’ایک ایک سریلی آواز مرتی گئی اور مجھے پتہ نہیں چلا۔‘‘

اس نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور پھر ایسے گرائے جیسے اپنے آپ کو کوس رہا ہے۔

’’جانے یہ کب سے ہو رہا ہے؟ ایک ایک محبت کا گیت گانے والا رخصت

ہو گیا اور یہ بے ہنگم کوّے سارے باغ پر چھا گئے؟‘‘ اس نے درختوں کی

چوٹیوں کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’اور یہ گدھ نما چیلیں آ گئیں۔‘‘

لمحہ بھر کے لیے لگا وہ سب اس پر ٹوٹ پڑی ہیں اور اس کی بوٹی بوٹی نوچ رہی ہیں۔ درد کی شدت سے اس کے منہ سے چیخ نکل پڑی۔

’’یہ کیا ہوا ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔۔۔  ’’چیلیں گدھ بن

گئی ہیں۔‘‘

وہ سوچ میں پڑ گیا۔۔۔  ’’کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ ساری فاختائیں ، ساری

بلبلیں ، سارے گیت گانے والے پرندے کوّے بن گئے ہوں۔‘‘

اس نے جھومتی شاخوں پر ویران گھونسلوں کی طرف دیکھا، ان کی مدھرتا تو اب ختم ہو چکی تھی اور کوّے ذرا اوپر والی شاخوں پر اپنی بے ہنگم آوازوں کے ساتھ اپنے ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اب اس نے باغ کی طرف دیکھا، پھول مہک تو رہے تھے، لیکن کوئی پراسرار خاموشی تھی کہ اس مہک میں لہک نہیں تھی۔

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ پھول مہک ہی نہ رہے ہوں اور صرف مجھے لگ رہا

ہو کہ مہک رہے ہیں۔ شاید نہیں بھی کھِلے، خوشبو تو ہے پر شاید نہیں ہے۔‘‘

کچھ گڑبڑ ضرور تھی کہ دکھائی تو سب کچھ دیتا تھا، سنائی بھی دیتا تھا، لیکن کہیں کوئی گہری خاموشی بھی دبکی بیٹھی تھی، اس بلّی کی طرح جو کبوتر کو دبوچنے کے لیے دبے پاؤں ، دبے پاؤں ، سانس روک کر آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے، کبھی اوٹ میں ہو جاتی ہے اور کبھی۔۔۔  اور خاموشی بھی یہی کر رہی تھی اور اس خاموشی کے پیچھے پیچھے خزاں ، بلّی سے بھی آہستہ چلتی۔۔۔  چلی آ رہی تھی، جانے کب سے؟

’’مجھے کچھ احساس ہی نہیں۔‘‘ اسے ایک عجب سی جھنجھلاہٹ کا احساس ہوا۔

’’اور یہ سارا باغ، کسی کو معلوم نہیں کہ فاختائیں اور بلبلیں یہاں سے جا چکی

ہیں۔ اب یہاں صرف کوّے اور چیلیں ہیں۔‘‘

لمحہ بھر کے لیے خیال آیا شاید آہستہ آہستہ ان کی کایا کلپ بھی ہو رہی ہے، کوّے چیلیں بن رہے ہیں اور چیلیں گِدھوں میں ڈھل رہی ہیں ، دفعتاً اسے ایک خوفناک سا خیال آیا کہ بس۔۔۔  لگا وہ نیم جان باغ کے بیچوں بیچ پڑا ہے، گِدھ اوپر منڈلا رہے ہیں ، ابھی ان میں سے کوئی ایک غوطہ لگائے گا اور پھر۔۔۔  اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ لگا گِدھ اس کے جسم کا کوئی ٹکڑا نوچ کر لے گیا ہے۔۔۔  ایک اذیّت، بے بسی۔۔۔  لیکن اس بے بسی میں تاسف تو تھا، دکھ کا احساس نہیں تھا، اور تاسف بھی کیا تھا، بس ایک بے نام سی حِس تھی کہ کبھی وہ تھا، لیکن اب ہے بھی تو نہیں۔ تاسف کا احساس بھی ایک نعمت ہے اور وہ تو اب اس نعمت سے محروم ہو چکا تھا۔

لمحہ بھر کے لیے خیال ہے۔۔۔  ’’تعجب بھی نہیں کہ یہ کچھ ہو گیا اور مجھے خبر

نہ ہوئی۔‘‘

’’شاید اندر ہی اندر، کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی طرح مجھے معلوم تھا کہ یہ سب

کچھ ہونے جا رہا ہے، لیکن میں نے توجہ نہیں دی۔ باغ پرندوں سے خالی

ہوا جا رہا ہے اور مجھے احساس نہیں ہوا۔‘‘

اس کے اندر کہیں کوئی چور ضرور تھا، اور وہ اس چور کو جانتا بھی تھا لیکن آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔

’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ ’’یہ سب کچھ ہو رہا ہو

اور میں اس سے بے خبر ہوں۔‘‘

لیکن یہ بے خبری بھی عجب شے ہے، اس بے خبری نے فاختاؤں ، بلبلوں اور دوسرے نغمہ سنج طیور کو کوّوں اور چیلوں میں بدل دیا تھا۔۔۔  اتنی بڑی کایا کلپ۔

دفعتاً خیال آیا کہ یہ پھول بھی پھول ہیں ، اور یہ خوشبو بھی خوشبو ہی ہے نا۔۔۔  کہیں یہ بھی تو۔۔۔

اس نے آنکھیں مَل مَل کر دیکھا۔ پیلاہٹیں تو پھیل رہی تھیں اور دیمک کی طرح سارے باغ کو اپنی بُکل میں سمیٹ رہی تھیں ، اس کی نظریں زمین کی طرف گئیں۔

یہ کیا۔۔۔  زمین پر تو چیونٹیوں اور مکوڑوں کا ایک جال سا بُنا جا رہا تھا۔ درختوں کے تنوں ، پھولوں کی ٹہنیوں اور تنوں پر وہ ایسے دوڑ رہی تھیں جیسے سب کچھ فتح ہو گیا ہے۔

’’شاید جڑوں میں بھی۔۔۔ ‘‘ اس نے سوچا۔

’’تو باغ اب صرف دکھائی دے رہا ہے لیکن اصل میں ہے نہیں ، ہے بھی تو

بس تھوڑی دیر کے لیے، اس کے بعد۔۔۔ ‘‘

اس خیال ہی سے اسے جھرجھری آ گئی۔ ایک تیز اور درد بھری لہر نے جیسے اس کے سارے وجود کو کاٹ دیا، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

’’یہ باغ۔۔۔ ‘‘ لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔

دفعتاً پنڈلی سے درد کی ایک لہر اٹھی اور اس کے سارے وجود میں پھیل گئی۔ اس نے ہڑبڑا کر دیکھا، چیونٹیاں ، مکوڑے اس کے پاؤں سے ہوتے ہوئے سارے وجود پر پھیل رہے تھے۔ جگہ جگہ سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے انہیں جھاڑنے کی کوشش کی لیکن چند ہی لمحوں میں انہوں نے اس کے سارے بدن کو ڈھانپ لیا۔ درد کی شدت سے وہ زمین پر گِر پڑا اور لوٹ پوٹ ہو گیا۔ چند لمحے۔۔۔  یا کئی لمحے یا اس سے بھی زیادہ۔۔۔  اسے لگا وہ تیزی سے سکڑ رہا ہے، چہرے پر ایک کھچاؤ سا آ رہا ہے اور کوئی چیز ابھر رہی ہے، نیم وا آنکھوں سے، ہاتھوں سے جو اب پنجوں کی صورت اختیار کر گئے تھے۔ اس نے اپنے آپ کو ٹٹولا۔۔۔  چونچ نکل آئی تھی اور کندھے سکڑ کر پَروں کی صورت اختیار کر گئے تھے۔۔۔  وہ کوّا بن گیا تھا۔

اس نے چند لمحے اپنے آپ کو دیکھا، پھر درختوں کی اونچی ٹہنیوں پر بیٹھی چیلوں پر نظر ڈالی اور بولا۔۔۔

’’شکر ہے۔۔۔  شکر ہے، میں چیل نہیں بنا، کوّا بن گیا ہوں ، شکر ہے، شکر ہے۔‘‘

اور اُڑ کر ایک خالی ٹہنی پر جا بیٹھا اور دوسرے کوّوں کے ساتھ مل کر کائیں کائیں کرنے لگا۔

٭٭٭

 

دمِ واپسیں

دن کے آخری ایوانوں کی سیڑھیوں سے اترتے شام کے سائے لمبے اور گہرے ہوئے جا رہے تھے۔ روشنی کی آنکھوں میں سرمئی دھند پھیل گئی تھی اور ایک ہلکی سی دھندلاہٹ نے اس کی چمک کو ماند کر دیا تھا۔ شام کی تھاپ پر تھرکتی خاموشی کے پاؤں میں بجتے گھنگھروؤں کی تھرتھراہٹ بڑھتی جا رہی تھی، اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا، گھونسلوں میں جانے سے پہلے پرندے آخری اڑانیں بھر رہے تھے اور ایک ایک کر کے درختوں کی گھنی شاخوں میں اتر رہے تھے۔

’’تھوڑی دیر کے بعد یہ اپنی چونچوں کو پَروں میں واپس دبا کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیں گے۔‘‘ اس نے لمحہ بھر کے لیے سوچا۔ آنکھیں بند ہونے اور اندھیرا گہرا ہونے کے تصور ہی سے اس کے سارے وجود میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی۔ ساری عمر وہ اندھیروں سے ڈرتا رہا تھا، مگر اب۔۔۔  عمر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے قدم زمین پر لگنے ہی والے تھے، ایک ٹھنڈی تاریک زمین جو اسے ایک ڈراؤنے اندھیرے خلا کی سی لگتی تھی۔ معلوم نہیں ، اس خلا کا انت کیا ہے۔

’’یقین بھی اک عجب دولت ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔ وہ ہمیشہ اس دولت سے محروم رہا تھا، رسے پر ڈولنے کی کیفیت، اِدھر کیا ہے اور اُدھر کیا ہے، بس ساری زندگی اسی ادھیڑ بُن میں گزر گئی۔ اور اب آگے تو ایک نامعلوم دنیا تھی۔ اس نامعلوم دنیا کو دیکھنے کی تمنا ہمیشہ اس کے اندر انگڑائیاں لیتی رہی اور اب جب وہ اس اَن دیکھی دنیا کی جانب قدم قدم بڑھ رہا تھا تو ایک عجب طرح کا خوف دبے پاؤں پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔۔۔  آگے کیا ہے، کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی نہیں تو پھر۔۔۔  اس خیال ہی سے کانپ سا جاتا۔ میں ختم ہو جاؤں گا، کھیل ختم ہو جائے گا۔

کھیل کے ختم ہو جانے کا احساس بہت ہی تکلیف دہ تھا، لیکن عمر بھر اس نے کوئی عمدہ کھیل کھیلا بھی نہیں تھا، بس ایک سادہ سی تحریر، سادے سے اوراق پر۔ درمیانے طبقے کے ایک آنگن میں کھلا تو وہ پھول کی طرح تھا، لیکن اس پھول کی مہک زیادہ دنوں برقرار نہ رہی۔ زندگی کی طویل تپتی سڑک پر چلتے چلتے تھکن کب ۱س کے وجود کی گلیوں میں داخل ہوئی، اسے اس کا احساس ہی نہ ہوا۔ بس یوں لگا جیسے کسی ایک دن وہ تھک سا گیا ہے۔ اس احساس نے اس پر ایک جھلاہٹ سی طاری کر دی۔ اس کی بیوی اس جھلاہٹ سے بہت چِڑتی تھی۔۔۔

’’اور کیا چاہتے ہو، بیٹیوں کی شادی ہو گئی، لڑکے اپنے اپنے کام سے لگ

گئے، عزت سے ریٹائر ہو گئے، گھر بن گیا۔۔۔  اور تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

یہ تو اسے بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اور کیا چاہتا ہے۔ لوگ اسے خوش نصیب کہتے تو لگتا طنز کر رہے ہیں ، لیکن پھر خود سے پوچھتا۔۔۔

’’واقعی میں کیا چاہتا ہوں۔‘‘

دن کے ایوانوں کی آخری سیڑھیوں سے اترتے شام کے لمبے سایوں میں اب اندھیرا گھلنے لگا تھا، فضا میں اڑتے پرندے آہستہ آہستہ گھنی شاخوں میں چھپے اپنے گھونسلوں میں اتر رہے تھے، فضا صاف سی ہونے لگی تھی، اب کچھ دیر بعد پرندے اپنی چونچیں اپنے پَروں میں چھپا لیں گے۔

اس نے اپنے سامنے پھیلی سڑک پر نگاہ ڈالی۔ آگے ایک موڑ تھا، اس کی سیر کا آخری نقطہ۔ اس موڑ سے واپسی ہوتی، خاموشی سے گیٹ کھول کر اپنے کمرے میں جانا، تھوڑی دیر بعد بیوی میز پر چائے رکھ جاتی، گھونٹ گھونٹ چائے پیتے بس خاموشی سے دیواروں کو گھورے جانا۔ کبھی وہ زمانہ بھی تھا کہ گھونٹ گھونٹ چائے پیتے نئے نئے خیالات اس کے ذہن میں اترتے، جیسے کبوتر آسمان کی پہنائیوں سے ہوتے ہوئے اپنی چھتری پر اترتے ہیں۔ اس وقت اسے خیال بھی نہیں تھا کہ وہ موڑ سے واپس آ جاتا ہے، آگے جانے اور موڑ سے پَرے دیکھنے کی خواہش تو بہرحال ہمیشہ اس کے اندر رہی لیکن وقت کی طنابیں اتنی کَسی ہوئی تھیں کہ بس تھوڑی سی دیر کے لیے سوچا ہی جا سکتا تھا، پھر وہی ہاؤ ہو۔ اور اسی ہاؤ ہو میں آہستہ آہستہ سب کچھ ہوتا گیا۔

بیٹیوں کی شادیاں بھی ہو گئیں ، لڑکے پڑھ پڑھا کر اپنے اپنے دھندوں میں پھنس گئے اور اس کی ریٹائرمنٹ کا لمحہ آن پہنچا، کئی دن تو یہ سمجھنے میں لگ گئے کہ اب صبح سویرے تیار ہو کر دفتر جانے کی ضرورت نہیں ، لیکن اس کے مزاج میں مفاہمت کا جو پہلو تھا، اس نے یہاں بھی اس کا ساتھ دیا۔ چائے پی کر دیر تک اخبار دیکھا، پھر بازار جا کر کچھ خرید لانا، مصروف رکھنے کی کوئی نہ کوئی صورت روز ہی پیدا ہو جاتی۔ اب فرصت کے ان لمحات میں ایک لذت سی محسوس ہونے لگی۔ نوکری کے طویل عرصہ میں بیوی کے ساتھ بات کرنے کا وقت ہی نہ ملتا۔ صبح اٹھتے ہی تیاری، دن بھر فائلوں کا اِدھر اُدھر ہونا، شام کو تھکن، چائے کی پیالی اور پھر یہ سنسان سڑک، قدم قدم چلتے دفتر کے، فائلوں کے خیال، وہ چیز رہ گئی ہو گی، یہ چیز صبح جاتے ہی کرنا ہے، ان ہی الجھنوں میں موڑ آ جانا، واپسی پر کچھ دیر ٹی وی دیکھنا اور سو رہنا۔۔۔  ’’میں تو کولہو کا بیل ہوں ‘‘ وہ اکثر اپنے آپ سے کہتا۔

یہ قدم قدم سیڑھیاں چڑھنے کے دن تھے، دور سے چمکتی چھت، آنکھیں مار مار کر اپنی طرف بلاتی تھی۔ اس کے گرداگرد خیالوں ، باتوں کے، تصورات کے دائرے رقص کرتے تھے، رات گئے تک کسی چائے خانے کی میز کے گرد دوستوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتے۔ اپنی زندگی میں تبدیلیاں آ ہی رہی تھیں ، ساری دنیا، ساری کائنات کو بدلنے کا خواب بے چین کیے رکھتا۔ جینے کی آسائشوں میں خود کو جاننے، پانے اور کبھی کبھار اپنے اندر اتر جانے کی تمنا اکثر چٹکیاں لیتی رہتی اور ان سب میں قدم قدم اوپر چڑھتے جانا، ہر سالگرہ پر ایک موم بتی کا اضافہ، پھر معلوم نہیں وہ کب چمکتی چھت پر پہنچا، کتنی دیر وہاں رہا، یا رہا بھی یا نہیں ، اس کا احساس تو اس وقت ہوا جب دوسری جانب اترنے کا آغاز ہو چکا تھا، ایک روز آئینے کے سامنے کنگھی کرتے ہوئے پہلے سفید بال نے احساس کرایا کہ وہ نیچے اتر رہا ہے، دیکھا تو مونچھوں میں بھی دو ایک سفید سی لہریں گویا اپنے آپ کو کالے بالوں میں چھپا رہی تھیں ، ’’تو واپسی کا سفر شروع ہو گیا‘‘۔۔۔  اس نے اپنے آپ سے کہا، اور پھر شانے ہلا دیے۔۔۔  یہ تو ہونا ہی تھا۔ اب اس کی رفتار میں ذرا آہستہ خرامی آ گئی، کبھی کبھار زیادہ دیر تک بولتے رہنے سے سانس پھولنے لگی، اس دوران وہ دفتر میں بڑے سے اکیلے کمرے میں پہنچ گیا۔ اب صبح کچھ دیر بھی ہو جاتی تو بغیر کسی خوف کے گھر سے نکلتا۔اس کا چپڑاسی بڑے گیٹ پر ہی منتظر ہوتا اور اس کے اترتے اترتے گاڑی میں سے بریف کیس نکال لیتا۔ ایک شاہانہ انداز سے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہ بڑے کمرے پر ایک نظر ڈالتا، کیف سے لبریز ایک نیم گرم لہر اس کے سارے وجود میں دوڑ جاتی۔ قدم قدم نیچے اترنے کا احساس تک نہ ہوتا، لیکن جس دن وہ ریٹائر ہوا اسے لگا وہ ایک دَم آخری سیڑھیوں تک آن پہنچا ہے، جس کے آگے۔۔۔

’’یہ آگے کیا ہے، اس کی سیر کی آخری حد اور موڑ سے آگے، اس موڑ سے آگے کیا ہے؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا۔ فضا اب پرندوں سے خالی ہو گئی تھی اور شام کے لمبے پھیلے سائے اندھیرے کی بُکّل میں دبک گئے تھے۔ واپسی کا وقت ہو گیا تھا، لیکن یہ موڑ، اس موڑ سے آگے کیا ہے؟ کبھی تو ادھر جانا ہی ہے۔ اس نے اپنے آپ پر ایک نظر ڈالی، اب شاید سیڑھی کے چند ہی تختے رہ گئے تھے، اس کے بعد اس نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن اندھیرا خاصا گاڑھا ہو گیا تھا۔ شاید اس کے بعد کچھ ہو، شاید نہ ہو۔۔۔  شاید ایک عجب طرح کی تھکاوٹ سی، جس میں نشہ سا تھا، اس کے سارے وجود پر رینگ رہی تھی۔

’’شاید میں آج کچھ تیز چل رہا ہوں۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا، ایک مست کر دینے والی غنودگی نے اسے تھپکنا شروع کر دیا، ایک شفیق مہربان ماں کی طرح جو اپنے بچے کو گود میں ہلا ہلا کر لوری سناتی ہے، ایک گیت جس کے بول واضح نہ تھے، لیکن اس کے سُر اس کے سارے بدن پر گدگدیاں کر رہے تھے۔ اس کے قدموں میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ آئی، لگا جیسے وہ یکدم دو چار زینے نیچے اتر گیا ہے۔ خیال سا آیا کہ اس سڑک پر ایک درخت کے نیچے پتھر کا ایک ٹوٹا سا بنچ ہے۔ جانے کب سے وہاں پڑا کسی کے بیٹھنے کا منتظر، وہ روز آتے جاتے اسے دیکھا کرتا تھا، ’’معلوم نہیں اسے یہاں کس نے رکھا ہے؟‘‘ اس نے کئی بار سوچا تھا۔

اس سرمئی نیم غنودگی میں اسے لگا یہ بنچ اس کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس خیال سے اسے ایک سرور سا آیا، اس نے نیم کھلی غنودہ آنکھوں سے بنچ کو دیکھا اور آہستگی سے اس پر بیٹھ گیا۔ بنچ کی کمر ابھی سلامت تھی، اس نے اپنی کمر کو ٹیک دیا اور ایک لمبا سانس لے کر فضا میں دیکھا، فضا خالی تھی، سڑک بھی دور دور تک ویران، ایک پراسرار خاموشی، اندھیرے اور سرشاری کی لذت میں لپٹی ہلکی ہلکی ٹھنڈ دائرہ بنائے اس پر جھکی ہوئی تھی۔

اس رات جب وہ دیر تک گھر نہ لوٹا تو اس کی بیوی نے بڑے بیٹے سے کہا،

’’گاڑی نکالو، تمہارے ابو ابھی تک نہیں لوٹے۔‘‘

گاڑی کی روشنی میں وہ انہیں دور ہی سے بنچ پر بیٹھا نظر آ گیا۔ گاڑی روک کر پہلے بیٹا، پھر ماں باہر نکلے۔

’’ابو جی۔۔۔ ‘‘بیٹے نے اسے چھُوا تو وہ آہستگی سے ایک طرف گِر گیا۔

ماں بیٹا دونوں کے منہ سے ایک ساتھ چیخ نکلی لیکن وہ نہ سن سکا کہ وہ تو کبھی کا موڑ مڑ چکا تھا۔

٭٭٭

 

عکسِ دیدۂ چراغ

گھر سے باہر رہنے کا تصور اتنا ہی تھا کہ صبح جا کر شام کو واپس آ جانا، رات گھر سے باہر گزارنے کے خیال ہی سے ہول اٹھتا۔ رات گھر سے باہر رہنے میں اور تو کوئی قباحت نہ تھی، بس یہ تھا کہ وہ رات کو اکیلا نہیں سو سکتا تھا۔ دوست احباب اس کی بات سن کر ہنستے تھے لیکن وہ اکیلا سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے ایسے ڈراؤنے خواب آتے، کبھی لگتا کوئی اس کے سینے پر سوار ہو گیا ہے۔ کروٹ بدلتا تو نادیدہ وجود اس کے کندھوں پر بیٹھ جاتا، چیخ بھی نہ نکلتی، محسوس ہوتا کسی نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ہے، مگر عجیب بات یہ تھی کہ کوئی شیر خوار بچہ بھی پاس لیٹا ہو تو یہ سارے خوف دور ہو جاتے اور وہ مزے سے سویا رہتا۔ اب معلوم نہیں یہ خوف کیسے اس کے وجود میں در آیا تھا، بہرحال اب تو موجود تھا، اور ایک زندہ حقیقت۔

کہیں شہر سے باہر جانا ہوتا تو وہ اس طرح پروگرام بناتا کہ شام ہونے سے پہلے لوٹ آئے اور اگر کبھی رات باہر رہنا پڑ ہی جاتا تو وہ کسی ایسے ریستوران کا انتخاب کرتا جو ساری رات کھلا رہتا،چائے پیتا رہتا، رات دبے پاؤں گزرتی رہتی، صبح کی پہلی کرن دروازوں پر دستک دیتی تو وہ اطمینان کا سانس لیتا۔ دفتری مصروفیات کی وجہ سے کبھی کبھی اسے دو دو تین راتیں اسی طرح گزارنا پڑتیں ، سو اکثر شہروں میں اسے اس طرح کے ریستورانوں کا علم تھا جو ساری رات کھلے رہتے ہیں۔

یہ بھی ایک عجیب تجربہ تھا، عام طور پر ایسی جگہوں پر شفٹوں میں کام کرنے والے کھانا کھانے یا چائے پینے آتے، کچھ لوگ گھر جانے سے پہلے آنا ضروری سمجھتے، ادیبوں ، شاعروں کی ایک جماعت بھی مستقل موجود رہتی، اخباروں میں کام کرنے والے بھی ایسے ریستورانوں میں دیر تک بیٹھتے، لیکن ایک وقت ایسا آتا کہ وہ رہ جاتا یا بیرے۔ ان کی تند و تیز نظروں سے بچنے کے لیے وہ وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ منگاتا رہتا، کچھ کھاتا، کچھ چکھتا اور کچھ چپکے سے نیچے پڑی ٹوکری میں پھینک دیتا، بہرحال رات کسی نہ کسی طور گزر ہی جاتی۔

بیوی اس کے خوف سے واقف تھی، اس لیے وہ کبھی میکے میں رات نہ گزارتی۔ شروع شروع میں البتہ کچھ تلخی پیدا ہوئی، لیکن ایک دن اس نے بیوی کو ساری بات بتا دی۔ پہلے تو وہ ہنس پڑی لیکن اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر متفکر ہو گئی اور بولی: ’’اس کی کچھ تو نفسیاتی وجہ ہو گی، تم کسی اچھے ماہر نفسیات سے کیوں نہیں مل لیتے!‘‘

وہ چپ رہا، اب اسے کیا بتاتا کہ یہ خوف اس کی ذات کا حصہ ہے اور ذات کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جا سکتا۔ خود اس نے اپنے طور پر کئی توجیہات کی تھیں ، مگر بے سود، خوف تو اپنی جگہ تھا، کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے بلی تو کہیں نہیں جاتی۔ چنانچہ آسان طریقہ یہی تھا کہ باہر جانے کے مواقع ٹال جاتا، حالانکہ اس سے خاصا مالی نقصان بھی ہوتا۔ اس کے دوسرے ساتھی ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے کہ ٹی اے، ڈی اے ملنے کی صورت بنے۔ اس کے افسر بھی اب اس کی عادت سے واقف ہو گئے تھے اور اکثر اسے باہر بھیجنے سے گریز ہی کرتے تھے، لیکن اس بار دورے کی نوعیت ایسی تھی کہ اسے جانا پڑا۔

خیال تھا کہ حسبِ معمول رات کسی ریستوران میں گزر جائے گی۔ میٹنگ کی جگہ شہر سے باہر تھی اور خاصی دور، اس کے ساتھ ہی گیسٹ ہاؤس بھی تھا۔ میٹنگ شام تک چلتی رہی۔ اس نے چاہا کہ رات ہونے سے پہلے پہلے شہر جا پہنچے، مگر معلوم ہوا کہ اس وقت شہر جانے کا کوئی بندوبست نہیں۔ اس کے لیے گیسٹ ہاؤس میں کمرہ بُک تھا۔ بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہاں سے نکل جائے، مگر مرتا کیا نہ کرتا، کھانا کھا کر اسے کمرے میں جانا پڑا۔ کمرہ پُر آسائش اور آرام دہ تھا۔ ایک دروازہ باہر، دوسرا ساتھ والے کمرے میں کھلتا تھا اور بند۔ اس طرف کنڈی چڑھی ہوئی تھی۔

اس نے خود کو تسلّی دی اور ٹی وی آن کر دیا۔ پروگرام دلچسپ تھے، وقت گزرنے کا احساس نہ ہوا لیکن ایک بجے کے قریب نشریات ختم ہو گئیں۔ اس نے ادھر ادھر چینل تلاش کیے مگر یہاں کیبل یا ڈش تو تھی نہیں ، سکرین پر کچھ نہ ابھرا، سائیں سائیں کی آواز نے اس کے وجود پر دستک دی۔ سونے کی کوشش بے سود تھی۔ وہ پلنگ پر نیم دراز دیواروں کو گھورنے لگا جن کی سفیدی میں سے ایک خوفناک ہیولیٰ ابھرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دفعتاً اسے خیال آیا کہ پلنگ کے نیچے کوئی چیز سرسرا رہی ہے، اچھل کر نیچے اترا، جھانکا، کچھ بھی نہ تھا۔ ساری بتیاں روشن کر دیں ، لمحہ بھر کے لیے کمرہ جگمگا اٹھا۔ اس نے خود کو تسلّی دی، لیکن یہ صرف ایک لمحہ تھا، اس کے بعد اسی جگمگاتی روشنی میں سے کسی ان دیکھے وجود کے ابھرنے کا احساس ہونے لگا۔ خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی، لیکن اس سے پہلے کہ اس کے منہ سے چیخ نکلتی، ساتھ والے کمرے کی طرف کھلنے والے دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک لمحے کے لیے اسے کچھ سمجھ نہ آیا، دستک جاری رہی۔ ادھر کنڈی لگی ہوئی تھی۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا، سامنے ایک نوجوان مرد اور اسی عمر کی ایک خوبصورت عورت کھڑی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، نوجوان بولا:

’’آپ نے بُرا تو نہیں منایا، دراصل ہم لوگ بور ہو رہے تھے، سوچا گپ شپ لگائی جائے!‘‘ اس نے دل ہی دل میں شکر کیا، اور بولا۔۔۔

’’نہیں نہیں ، میں خود بور ہو رہا تھا، آپ آئیے نا!‘‘ وہ ایک طرف ہو گیا۔

’’یہ میری بیوی ریحانہ ہے اور میں قدوس ہوں۔‘‘ نوجوان اندر آتے ہوئے بولا۔

دونوں صوفے پر بیٹھ گئے، وہ بستر کی پائنتی پر ٹک گیا۔

’’آپ آرام سے لیٹے رہیے۔‘‘ ریحانہ بولی۔ وہ نیم دراز ہو گیا۔

’’مجھے تو اکیلے میں بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘ قدوس کہنے لگا۔

’’یہ تو آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی!‘‘ خوشی کے مارے اس کے منہ سے لفظ نہ نکل رہے تھے۔ باتیں شروع ہو گئیں ، دنیا بھر کی باتیں ، گھروں کی باتیں ، دفتروں کی، دوستوں کی۔۔۔  معلوم نہیں کب وہ اونگھ گیا۔

صبح آنکھ کھلی تو ہشاش بشاش، وہ دونوں کب کے جا چکے تھے۔۔۔

’’شاید میں سو گیا ہوں اور وہ چپکے سے چلے گئے ہوں !‘‘

ڈائننگ ہال میں ناشتہ کرتے ہوئے اس کے میزبان نے پوچھا۔۔۔

’’رات تو آرام سے گزری؟‘‘ پھر ہنستے ہوئے بولا۔۔۔  ’’ڈر تو نہیں لگا؟‘‘

’’نہیں بالکل نہیں۔‘‘ اس نے توس پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔ ’’پڑوس والے کمرے سے قدوس صاحب اور ان کی بیگم آ گئے تھے۔‘‘

’’میزبان نے عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔

 ’’ساتھ والے کمرے سے؟‘‘

’’جی ہاں ، ساتھ والے کمرے سے، بڑے اچھے ہیں دونوں میاں بیوی۔‘‘

میزبان لمحہ بھر چپ رہا پھر بولا۔۔۔  ’’لیکن ساتھ والا کمرا تو خالی ہے۔‘‘

’’خالی ہے!‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔۔۔  ’’لیکن قدوس صاحب اور ان کی بیوی۔۔۔ ‘‘

’’گزشتہ سال وہ دونوں اسی کمرے میں تھے، رات کو گیس کا ہیٹر کھلا رہ گیا تھا، بے چارے دونوں۔۔۔ ‘‘ میزبان چپ ہو گیا۔

اسے ایک لمحہ کچھ سمجھ نہ آیا، پھر وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف آیا، اندر داخل ہوا، ساتھ والے کمرے میں جانے والے دروازے کی اس طرف والی کنڈی لگی ہوئی تھی۔

٭٭٭

 

بِکھری ہوئی کہانی

یہ کہانی یوں شروع ہوتی ہے اور سنانے والے سناتے ہیں کہ بہت برس بیتے ایک ٹھٹھری ڈراؤنی رات جب گاڑھا اندھیرا چیزوں کو سونگھتا پھر رہا تھا، وہ دبے پاؤں چوروں کی طرح وہاں آیا اور بڑی کرسی پر، جو مدتوں سے خالی تھی، چپ چاپ بیٹھ گیا۔ پھر اس نے یکے بعد دیگرے سب سے اپنے ہونے کی گواہی لی اور خوشی کے اظہار میں سب نے اپنے لہو کا ایک تازہ پیالہ اس کی نذر کیا۔

پھر یوں ہوا کہ وہ ہر سال اس ڈراؤنی رات میں آتا اور اپنے ہونے کی گواہی لے کر تازہ لہو کا ایک ایک پیالہ نذر کے طور پر قبول کرتا، اور کہانی یوں ہی آگے بڑھتی ہے اور سنانے والے سناتے ہیں کہ کئی سالوں بعد ان میں سے ایک نے اس کی گواہی دینے سے انکار کیا۔ اس سال ان کی فصلوں کو آگ لگی اور پانی کے چشمے سوکھ گئے۔

قبیلے کے سفید ریشوں نے اس شخص کو نافرمان اور منکر کہہ کر اعلان کیا کہ وہ اِن میں سے نہیں اور سب مل کر اجنبی کے پاس آئے اور اس سے التجا کی کہ تازہ لہو کے پیالے ٹھنڈے ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ آئے اور ان کی گرم باس سونگھے۔ اجنبی نے انکار کرنے والے کی بابت سوال کیا۔ قبیلے کے ایک سفید ریش نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، ’’اے خداوند! اسے ہم نے انکار کرنے والوں میں شامل کیا اور اپنے دروازے اس پر بند کر دیے۔‘‘

اجنبی نے اس گفتگو کو مسرّت سے سنا اور ان کے ساتھ قبیلے میں آیا۔ قبیلے کی خوبصورت کنواریوں نے اس کے آگے سر جھکائے۔

ایک شخص نے کہا، ’’خدا نے ہم پر بڑا کرم کیا کہ آقا ہم پر مہربان ہوا۔‘‘

پھر اس نے انکار کرنے والے کی خالی نشست کی طرف دیکھا۔ ’’شکر ہے ہم نے اسے اپنے سے علیحدہ کر دیا۔‘‘

اجنبی کو یہ گفتگو بہت بھلی لگی۔ اس نے اس شخص کو پاس بلا کر سنہری سکوں کی تھیلی پیش کی۔ اس شخص نے تھیلی کو چوغہ میں چھپا لیا اور بولا، ’’اے آقا! قبیلے کے سارے دروازے اس کے لیے حرام کر دیے گئے ہیں۔‘‘

اور یہ کہانی یوں ہی جاری رہی۔

اس کے بعد ایک طویل چپ ہے۔

پھر سنانے والے سناتے ہیں کہ بعد ایک مدت کے اجنبی کا آخر وقت آن پہنچا۔ یہ جان کر کچھ لوگ بہت خوش ہوئے کہ اب ان کے کھیتوں کی ہریالی ان کے پاس رہے گی۔

اجنبی کا آخری لمحہ آن پہنچا۔

تب لوگوں نے دیکھا کہ عین اسی لمحہ جب اجنبی رخصت ہوا چاہتا تھا۔ اس کی پسلی شق ہوئی اور اس میں سے ایک شخص نمودار ہوا جو عین مین اجنبی جیسا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اجنبی کی جگہ سنبھالی اور بولا،

’’اے لوگو مجھے تازہ لہو کے پیالے پیش کرو۔‘‘

اس پر سب نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور آنکھوں آنکھوں میں پوچھا،

’’یہ کون ہے؟‘‘

لیکن خوف کے مارے سارے چپ رہے۔

(اس خاموشی کو توڑنے کے لیے مَیں واحد متکلّم سامنے آتا ہوں )

میں نے پوچھا۔۔۔  ’’تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟‘‘

اس نے میری بات پر بہت غصہ کیا۔

’’او نادان! کیا تُو مجھے نہیں پہچانتا؟‘‘

میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘

اس نے غصے سے سر جھٹکا۔ ’’تو جلد ہی جان جائے گا۔‘‘

اور اس نے کسی کو پکارا۔ پلک جھپکتے میں اس کی پسلی سے بھورے سینگوں والے نے سر ابھارا اور چابک لہراتا ہوا میری جانب بڑھا۔

اسی لمحہ میری پسلی سے شدید درد اٹھا اور چند لمحوں بعد اس نے سر ابھارا جس نے پہلے اجنبی کی اطاعت سے انکار کیا تھا۔ وہ باہر آیا اور بولا:

’’اے اجنبی! جان کہ تیرا اقتدار ختم ہوا۔‘‘

اجنبی تلملا اٹھا۔۔۔  ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میری اطاعت تم پر فرض کر دی گئی ہے۔‘‘

پھر ایک توقف کے بعد بولا: ’’میرے قریب آ کہ مَیں تجھ پر مہربان ہوا۔‘‘

میرے ساتھی نے یہ سن کر حقارت سے زمین پر تھوکا اور کہنے لگا:

’’میں تیری عنایتوں پر لعنت بھیجتا ہوں اور سن لے کہ میں تیری اطاعت سے منحرف ہوتا ہوں۔‘‘

تب اجنبی نے کچھ سوچ بچار کیا اور بولا۔۔۔  ’’میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ بہت پہلے ایک شخص نے انحراف کیا تھا اور تصدیق کہ وہ منکروں میں شمار ہوا۔‘‘

میرے ساتھی نے قہقہہ لگایا۔۔۔  ’’او بے وقوف کیا تو نہیں جانتا کہ وہ میرا باپ تھا اور جان لے کہ میرے بعد میرا بیٹا بھی یہی کرے گا۔‘‘

اجنبی نے سر جھکا لیا۔

میرے ساتھی نے سہمے ہوئے لوگوں کو دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’سامنے آؤ۔‘‘

کوئی اپنی جگہ سے نہ ہِلا۔

وہ بولا۔۔۔  ’’تم ڈرتے ہو، لیکن مَیں امید بن کر تمھارے دلوں میں اتر جاؤں گا۔‘‘

اور وہ پکارا۔ اس کی پکار کا سب سے پہلے میرے چھوٹے بیٹے اور بیٹی نے جواب دیا اور وہ دونوں بانہوں میں بانہیں ڈالے سامنے آ گئے۔ پھر دوسروں کو بھی حرکت ہوئی اور ایک ایک کر کے انہوں نے اجنبی کو گھیر لیا اور چیخنے لگے۔

اجنبی نے کچھ توقف کیا، پھر بولا۔۔۔

’’مَیں نے تمہاری درخواست قبول کی۔ اب تم صرف نصف پیالے تازہ لہو کے دیا کرو۔ اور اپنے کھیتوں کی ہریالی میں سے بھی صرف نصف۔‘‘

لوگ خوشی خوشی اپنے گھروں کو لَوٹے۔

اور جب لوگ خوشی خوشی گھروں کو لَوٹ رہے تھے، میرے ساتھی نے کہا:

’’اے لوگو یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘

یہ سن کر سب نے غصہ کیا اور بولے۔۔۔

’’تُو فتنہ پھیلانے والا ہے اور ہر چیز میں کیڑے نکالتا ہے۔‘‘

بہت دنوں بعد لوگوں نے دیکھا کہ اجنبی نے اور پیالوں کا تقاضا کیا اور ہریالی میں سے بھی اور حصہ مانگا۔

تب میرا ساتھی پھر میری پسلیوں سے طلوع ہوا اور کہا:

’’اے لوگو! سچائیوں کو جاننے کا وقت آ گیا ہے۔ مَیں پورب سے پچھم تک ایک لکیر کھینچوں گا کہ جاننے والے جان جائیں۔‘‘

اور اس نے ایک لکیر کھینچ دی۔

سکوت کی دیوار جگہ جگہ سے تڑخ گئی۔

اجنبی مسکرایا اور اس نے کسی کو اشارہ کیا۔ مجمع میں سے ایک سفید ریش باہر نکلا اور مَیں نے پہچانا کہ یہ پہلے سفید ریش کا بیٹا تھا۔ اس نے مجمع کو ایک نظر دیکھا اور بولا۔۔۔

’’کیا تم نہیں جانتے کہ اطاعت ہم پر فرض ہے اور کیا تم منکروں میں شامل ہونا چاہتے ہو۔ اور تحقیق کہ منکر آخرت میں شعلوں کا حصہ بنیں گے۔‘‘

میرے ساتھی نے تلملا کر اسے دیکھا:

’’کیا تو نہیں جانتا کہ لوگ تجھے پہچان چکے ہیں۔ اور تو ہمیشہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘

سفید ریش نے لمحہ بھر توقف کیا اور بولا۔۔۔

’’تو انکار کرنے والوں میں ہے اور دیکھ میں بھی پورب سے پچھم تک ایک لکیر کھینچتا ہوں۔‘‘

اور اس نے بھی لکیر کھینچی۔

سارے لوگ دو حصوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کو مارنے لگے۔

اور کہانی یوں آگے بڑھی اور سنانے والے سناتے ہیں کہ بعد ایک مدت کے ان میں سے ایک اپنی ماں کے پاس گیا اور سوال کیا کہ اب وہ کیا کریں۔

ماں نے کہا۔۔۔  ’’افسوس میرے بیٹے ایک دوسرے کے درپے ہوئے، انہوں نے سچ کو نہ پہچانا۔‘‘

پوچھنے والے نے پوچھا۔۔۔  ’’سچ کیا ہے؟‘‘

ماں بولی۔۔۔  ’’سچ تو تیری پسلیوں سے پیدا ہوا تھا۔‘‘

پوچھنے والے نے تاسّف کیا۔۔۔  ’’اب کیا کریں ؟‘‘

اس سنانے والے سناتے ہیں کہ وہ لکیر کے دونوں طرف کھڑے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی بحث کر رہے ہیں اور اجنبی مسکراتا ہے۔

بحث بہت زوروں پر ہے۔

٭٭٭

 

کھیل

جب وہ ہال میں داخل ہوا تو کھیل شروع تھا۔ سٹیج پر مٹیالے رنگ کا پہاڑ پاؤں پسارے لیٹا تھا اور اس کے قدموں میں پھیلا شہر مینڈک کی طرح ٹرا رہا تھا۔

وہ نیم تاریکی میں رینگتا جلدی سے ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ چار آدمی جھاڑیوں میں سے رینگتے پھسلتے پتھروں پر پاؤں جمائے مسلسل اوپر چڑھ رہے تھے۔ اِن کے سانس پھولے ہوئے تھے اور آنکھوں میں تذبذب اور بے یقینی کی چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ ایک مسطح جگہ دیکھ کر ان میں سے ایک رک گیا۔ اس نے کندھے پر لٹکا تھیلا دھپ سے چٹان پر پھینکا اور بولا۔۔۔

’’اس بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے میں تھک گیا ہوں۔‘‘

دوسرے تینوں نے مڑ کر اسے دیکھا اور کچھ کہے بغیر وہ چاروں وہیں بیٹھ گئے۔ خاموشی سے انہوں نے اپنے تھیلے کھولے اور روٹی کے سوکھے ٹکڑے نکال کر چپ چاپ کھانے لگے۔

اس کی آنکھیں اب کچھ کچھ تاریکی سے مانوس ہو گئی تھیں۔ اس نے کن انکھیوں سے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ سارے لوگ اپنی اپنی کرسیوں میں دھنسے ہوئے پورے انہماک سے تماشے میں گُم تھے۔

پہاڑ کی چوٹی کی طرف جاتے ہوئے وہ چاروں اب اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے تھیلے کندھوں پر لٹکائے اگلی چٹان پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ منظر رواں دواں تھا اور تصویر سکرین پر پوری طرح عیاں تھی۔

دفعتاً سٹیج سیاہ ہو گیا۔

کرسیوں میں دھنسے ہوئے لوگوں نے چند لمحے توقف کیا، پھر پہلو بدلنے کے ساتھ ساتھ سرگوشیوں کے چھوٹے چھوٹے دائرے اِدھر اُدھر لڑھکنے لگے۔

سٹیج اسی طرح سیاہ اور خاموش رہا۔

سرگوشیوں کی آواز دھیرے دھیرے اونچی ہونے لگی۔ کسی نے درمیان میں سے چیخ کر پوچھا۔۔۔  ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

وہ بھی اپنی کرسی پر نیم کھڑا ہو گیا اور آنکھیں پھاڑ کر خاموش سٹیج کو دیکھنے لگا۔ اسی وقت سٹیج کا ایک کونہ روشن ہو گیا اور ایک شخص جس نے تھیٹر کے ملازموں کی وردی پہنی ہوئی تھی، نمودار ہوا اور تماشائیوں کی طرف منہ کر کے کہنے لگا۔۔۔

’’حضرات اب آپ ایک نیا کھیل ملاحظہ فرمائیں گے۔‘‘

’’پہلے کھیل کا کیا ہوا؟‘‘ کسی نے چیخ کر پوچھا۔

اس شخص نے سوال اَن سنا کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔

’’ہمیں یقین ہے کہ یہ نیا کھیل آپ کے لیے مفید ثابت ہو گا۔‘‘

’’لیکن پہلا کھیل۔۔۔ ‘‘ بولنے والے کی آواز درمیان ہی سے ٹوٹ گئی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ تھیٹر کے ملازم بولنے والے کو اٹھا کر باہر لے جا رہے تھے۔ چند لوگوں نے احتجاج کرنا چاہا۔۔۔  کچھ اپنی قطار سے آگے نکل آئے۔

’’بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔۔۔  کھیل شروع ہو گیا ہے۔‘‘

تماشائی ایک ایک کر کے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ دو چار جو ابھی تک اپنی جگہ کھڑے تھے، انہیں آگے پیچھے والوں نے پکڑ پکڑ کر اپنی جگہ بٹھا دیا۔

کھیل شروع ہوا۔

کسی جنگ کی تیاری کا منظر تھا۔ ایک شخص جنگ کی افادیت اور ضرورت پر تقریر کر رہا تھا۔ پھر سپاہیوں کی قطاریں ایک دوسرے کے پیچھے چلتی آگے بڑھنے لگیں۔

ہال میں کسی نے سرگوشی کی۔۔۔  ’’ہم یہ کھیل نہیں دیکھنا چاہتے۔‘‘

ایک اور سرگوشی۔۔۔  ’’ہمیں جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘

سرگوشیاں دائرہ در دائرہ ہال میں تیرنے لگیں۔ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اونچی آواز میں بولا۔۔۔

’’ہم یہ کھیل نہیں دیکھیں گے، ہمیں جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘

سٹیج پر تھیٹر کے با وردی ملازم نمودار ہوئے اور کود کر ہال میں آ گئے۔ احتجاج کرنے والا اپنی جگہ کھڑا تھا۔ انہوں نے اچھل کر اسے دبوچ لیا اور گھسیٹتے ہوئے ہال سے باہر لے گئے۔ احتجاج کی آوازیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں۔ کچھ لوگ کھڑے ہو گئے۔ کچھ اپنی جگہ بیٹھے شور مچانے لگے۔

ہاؤ ہو اور ملی جلی آوازیں۔

کھیل روک دیا گیا۔۔۔  بتیاں جل گئیں۔

ایک شخص سٹیج پر نمودار ہوا۔

’’یہ کون ہے۔۔۔  کون ہے؟‘‘

لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا۔

’’میں نیا مینجر ہوں ‘‘ آنے والے نے ہاتھ اٹھا کر لوگوں کو خاموش کیا۔۔۔

’’حضرات پہلا مینجر بَرطرف کر دیا گیا ہے۔ اب ہم آپ کی پسند کا کھیل دکھائیں گے۔‘‘

ایک سرگوشی: ’’اسے کس نے مینجر بنایا۔‘‘

’’خاموش۔۔۔  خاموش‘‘

’’پلیز خاموش رہیے اور کھیل دیکھیے۔‘‘

لوگوں نے اطمینان سے سیٹوں پر پاؤں لمبے کیے۔ کھیل شروع ہو گیا۔

منظر تیزی سے بدلنے لگے۔ خارش زدہ منظر اپنی زخمی انگلیوں سے اپنا بے شناخت چہرہ کھجلانے لگے۔

کھیل جاری رہا۔

دو تین تماشائیوں نے کرسیوں پر پہلو بدلا۔ چند اور نے بھی پہلو بدل لیے۔

ایک نے سرگوشی کی۔۔۔

’’یہ کیا دکھایا جا رہا ہے۔‘‘

دوسری سرگوشی۔۔۔

’’یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘

قدرے اونچی آوازیں۔۔۔  ’’یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘

کھیل رک گیا۔ سٹیج خاموش ہو گیا۔ بتیاں جل گئیں۔

مینجر سٹیج پر نمودار ہوا۔۔۔

’’خاموش خاموش یہ کھیل کے آداب کے خلاف ہے۔‘‘

ایک آواز۔۔۔ ’’لیکن یہ ہو کیا رہا ہے۔ ہم یہ سب کچھ نہیں دیکھنا چاہتے۔‘‘

’’دیکھنا پڑے گا۔‘‘ مینجر غصے سے للکارا۔

’’نہیں ، ہم نہیں دیکھیں گے۔‘‘

لوگ سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سٹیج پر با وردی ملازم مینجر کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے سر جوڑ کر مشورہ کیا۔ پھر مینجر نے ہاتھ اٹھا کر چپ رہنے کا اشارہ کیا اور بولا۔۔۔

’’بہت بہتر ہم آپ کو آپ کی پسند کا کھیل دکھائیں گے۔‘‘

اسی دوران کرسی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ کسی نے دیوار پر لگے بلب پر پتھر بھی پھینک مارا۔ بلب ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔ با وردی ملازم ہال میں دوڑنے لگے۔ چند کرسیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں۔ مینجر ہاتھ اٹھا اٹھا کر چپ رہنے کا اشارہ کرتا رہا۔

’’ہم اپنی مرضی کے کھیل خود چلائیں گے۔‘‘

آوازیں۔۔۔  شور۔

مینجر اور اس کے با وردی ملازم چپ کرانے کی ناکام کوشش کرتے رہے لیکن لوگ ایک نوجوان کو کندھوں پر اٹھائے سٹیج پر چڑھ گئے۔ مینجر اور با وردی ملازم ایک طرف دھکیل دیے گئے۔

کچھ وقفے سے کھیل شروع ہوا۔

اب منظر میں کھیت کارخانے اور شہر تھے۔ لوگوں نے اپنی اپنی سیٹیں سنبھال لیں۔ ہال میں رفتہ رفتہ مکمل خاموشی چھا گئی۔

اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ جب سے وہ ہال میں داخل ہوا تھا۔ یہ پہلا اطمینان تھا۔ اسے لگا وہ خود سٹیج پر موجود ہے۔ لمحے دف بجاتے، ناچتے گزرتے رہے۔

دفعتاً کھیل رک گیا۔۔۔  ہال میں روشنی ہو گئی۔

’’کیا ہوا۔۔۔  کیا ہوا‘‘ مختلف آوازیں۔

سٹیج پر ایک شخص نمودار ہوا۔۔۔  ’’حضرات میں نیا مینجر ہوں۔‘‘

’’نوجوان کہاں گیا۔۔۔  تمہیں کس نے مینجر بنایا۔‘‘

’’حضرات نوجوان کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اب آپ نیا کھیل دیکھیں گے۔‘‘

ہال میں شور مچ گیا۔ کچھ لوگ کھڑے ہو گئے۔ کچھ سٹیج کی طرف دوڑے۔ تھیٹر کے با وردی ملازم ڈنڈے اور بندوقیں لے کر ہال میں داخل ہوئے اور لوگوں کو زبردستی سیٹوں پر بٹھانے لگے۔ ایک ڈنڈا اس کے بازو پر بھی لگا۔

اس نے بازو کو دباتے ہوئے ساتھ والے سے کہا۔۔۔

’’جب سے میں آیا ہوں ، ہر پانچ منٹ بعد ایک نیا مینجر آ کر کھیل رکوا دیتا ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب ختم ہو گا۔‘‘

ساتھ والے نے اسے گھورا۔۔۔  ’’خاموشی سے دیکھتے رہو۔‘‘

’’نہیں میں خاموش نہیں رہ سکتا۔‘‘

’’تو پھر کسی اور تھیٹر میں چلے جاؤ۔‘‘

وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھا۔

کھیل شروع ہو چکا تھا۔ بنجر منظر تیزی سے بدل رہے تھے۔ لوگ بے اطمینانی سے سیٹوں پر پہلو بدل رہے تھے۔ وہ چپ چاپ باہر نکل آیا۔ ابھی وہ چند ہی قدم بڑھا تھا کہ اس کے کانوں میں آواز آئی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔۔۔

’’لوگ انتظامیہ کی مرضی کے کھیل نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لیے سیٹھوں نے

سوچا ہے کہ یہ تھیٹر ہی بند کر دیا جائے۔‘‘

وہ چابک کھائے گھوڑے کی طرح بل کھا کر مڑا اور دوڑتا ہوا ہال میں آیا۔

بے معنی منظر تیزی سے بدل رہے تھے۔

’’تھیٹر بند کرنے کی سازش۔۔۔ ‘‘

ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس کے منہ پر ایک زوردار مُکّا پڑا۔ انتظامیہ کے کئی افراد اس پر ٹوٹ پڑے۔ گرنے کے وقفے کے دوران آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس نے دیکھا، سٹیج پر ایک عجیب افراتفری ہے اور ایک نیا شخص کہہ رہا ہے۔۔۔

’’حضرات میں نیا مینجر ہوں اور اب آپ۔۔۔ ‘‘

٭٭٭

 

سکرپٹ

کھیل انتہائی جذباتی دور میں داخل ہو گیا تھا۔ تماشائی دم سادھے اپنی اپنی نشستوں پر جمے ہوئے تھے کہ اچانک ایک اداکار اپنی جگہ سے ہٹ کر درمیان میں آ گیا اور ہیجانی کیفیت میں لرزتی آواز میں چیخا۔۔۔

’’میں اپنی مرضی سے کھیل چلاؤں گا اور اپنی پسند کے مکالمے بولوں گا۔‘‘

سٹیج کے دائیں کونے میں پردے کے پیچھے بیٹھا ڈائریکٹر کھڑا ہو گیا۔۔۔

’’یہ کیا کر رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔‘‘

لیکن اسی لمحے تماشائیوں نے، جو اسے بھی کھیل کا حصہ سمجھ رہے تھے، مسلسل تالیاں بجا کر اداکار کو خراج تحسین پیش کیا۔ ڈائریکٹر اپنی نشست پر بیٹھ گیا اور اپنے نائب سے کہنے لگا۔۔۔

’’سکرپٹ میں تو یہ نہیں مگر تماشائیوں نے اسے پسند کیا ہے اس لیے اسے

سکرپٹ میں شامل کر لو۔‘‘

سٹیج پر ایک اور بات ہوئی۔ ایک اداکار اپنی جگہ سے اٹھ کر سامنے آیا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے لگا۔۔۔

’’اگر یہ اپنی مرضی کے مکالمے بولے گا تو میں اس کھیل سے علیحدہ ہوتا ہوں۔‘‘

پھر وہ سٹیج سے اترا اور درمیانی راستے پر دوڑتا ہوا ہال سے نکل گیا۔ تماشائی اسے بھی کھیل کا حصہ سمجھے۔ یہ مکالمہ اور عمل انہیں کچھ زیادہ ہی پسند آئے۔ دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ ڈائریکٹر جو پھر اپنی نشست سے اٹھ بیٹھا تھا، بیٹھ گیا اور اپنے نائب سے کہنے لگا۔۔۔

’’اسے بھی سکرپٹ میں شامل کر لو۔‘‘

اب سٹیج پوری طرح ڈائریکٹر کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ اداکار اپنے اپنے مکالمے بول رہے تھے۔ تماشائیوں کو کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا کہ کھیل کی کیا صورت بن رہی ہے۔ تماشائیوں میں دفعتاً ایک شخص اٹھا اور سٹیج پر چڑھ گیا۔ اس نے سٹیج پر موجود اداکاروں کو، جو اپنے مکالمے بھول کر یا جان بوجھ کر دوسری باتیں کر رہے تھے، ہاتھ کے اشارے سے ایک طرف ہٹا دیا۔ اداکار سٹیج کے ایک کونے میں سمٹ گئے۔ اسے بھی کھیل کا حصہ سمجھا گیا۔ تالیاں بجیں۔ تالیوں کے شور میں نئے شخص نے اعلان کیا :

’’کھیل وہیں سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے گڑبڑ ہوئی تھی۔‘‘

سٹیج کے پیچھے ڈائریکٹر نے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا، نائب نے پوچھا۔۔۔

’’سر اِسے بھی سکرپٹ میں شامل کر لوں۔‘‘

سٹیج پر اب یہ بحث شروع ہو گئی کہ گڑ بڑ کہاں سے ہوئی تھی، نووارد نے جسے اب اداکار تسلیم کر لیا گیا تھا، پوچھا،

’’سب سے پہلے کس نے سکرپٹ سے بیوفائی کی۔‘‘

متعدد آوازیں ، متعدد اشارے۔

بحث شروع ہو گئی۔ تماشائی تالیاں بجاتے رہے، ایک اداکار جھنجھلا کر بولا :

’’یہ کیسے تماشائی ہیں ، جنہیں پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کھیل سکرپٹ سے باہر

ہو گیا ہے۔‘‘

سٹیج پر اب باقاعدہ جھگڑے کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔ آدھے اِدھر کہ کھیل سکرپٹ کے اندر ہے اور آدھے اُدھر کہ کھیل سکرپٹ سے نکل گیا ہے۔

ایک ادھیڑ عمر کا اداکار بولا۔۔۔

’’جو بھی ہے، کھیل تو ہو رہا ہے اور تماشائی اسے پسند بھی کر رہے ہیں۔‘‘

ایک نوجوان اداکار نے غصہ سے سر ہلایا۔۔۔

’’مسئلہ کھیل کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ، سکرپٹ کا ہے۔۔۔  سکرپٹ

ہے کہاں۔‘‘

’’ڈائریکٹر کے پاس‘‘ ایک دوسری اداکارہ بولی۔

ڈائریکٹر جو ماتھے پر ہاتھ رکھے اپنے آپ میں گم تھا۔ بار بار اپنا نام سن کر چونکا۔

’’سکرپٹ لاؤ۔۔۔  سکرپٹ لاؤ۔‘‘ چھوٹے بڑے سب اداکار چیخ رہے تھے۔

’’سکرپٹ کیا لاؤں ‘‘ ڈائریکٹر کا نائب بولا۔۔۔  ’’اس میں اتنی تبدیلیاں ہو

چکی ہیں کہ۔۔۔ ‘‘

تماشائیوں نے اس پر بھی خوب تالیاں بجائیں۔

’’جب ان کو سکرپٹ کی اہمیت ہی نہیں معلوم‘‘ ایک اداکار نے دوسرے سے کہا۔۔۔  ’’تو سکرپٹ کے بغیر ہی چلو۔‘‘

’’لیکن کب تک‘‘ دوسرے نے تشویش سے پوچھا۔

’’جب تک چلے‘‘ پہلے نے جواب دیا۔

کھیل شروع ہو گیا ہے۔ تماشائی ہر تبدیلی پر تالیاں بجاتے اور خوش ہو رہے ہیں۔ کھیل چلانے والے مطمئن ہو کر کھیل چلا رہے ہیں۔ ڈائریکٹر اپنی جگہ سے اٹھ کر تماشائیوں میں آ بیٹھا ہے۔ کھیل چل رہا ہے۔۔۔  جب تک چلے!

٭٭٭

 

پسلی کا رشتہ

ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرتی ہوا میں بھی ایک گنگناہٹ تھی، معطّر فضا میں لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے مستقبل کے سہانے سپنے دیکھ رہے تھے۔ وہ ذرا ایک طرف ہٹ کر کرسی کی ٹیک سے منہ ٹکائے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اسے خیال آیا ہر مرد کی حوا اس کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے، پھر کہیں بچھڑ جاتی ہے اور ایک طویل عرصہ کاٹ کر دوبارہ اس سے آ ملتی ہے۔

درویش کہاں سے چلا، مہینوں سالوں کی مسافت طے کر کے اس شہر میں وارد ہوا، زندگی کی تگ و دو میں ہچکولے کھاتا شہر کی سڑکوں سے گزرا۔ اس کی حوا جو اس کی پسلی سے پیدائش کے بعد اس شہر میں آباد تھی، لیکن وہ نہیں جانتا تھا، نہ پہچانتا تھا۔ سب کچھ ایک طے شدہ انداز میں ہوا۔ پہلی رات اس کا گھونگھٹ اٹھاتے ہوئے اس نے پوچھا۔۔۔

’’معلوم نہیں میں تمہارا آئیڈیل ہوں یا نہیں لیکن تم میری آئیڈیل ضرور ہو۔‘‘

اس وقت تو وہ کچھ نہ بولی۔ کچھ دن بعد اس نے سوال کا جواب دیا اور کہنے لگی۔۔۔

’’مشرقی لڑکیاں پہلی رات جس کے ساتھ بسر کرتی ہیں ، وہی ان کا آئیڈیل بن جاتا ہے۔‘‘

اس نے کہا۔۔۔  ’’نہیں یہ بات نہیں ‘‘

’’پھر کیا ہے؟‘‘

’’دراصل ہر حوا اپنے مرد کی پسلی سے جنم لیتی ہے، طویل بچھڑاؤ کے بعد جب وہ اپنے مرد کو ملتی ہے تو اپنی خوشبو پہچان لیتی ہے، اپنے بچھڑے آئیڈیل کو جان جاتی ہے۔‘‘

وہ ہنسی۔۔۔  ’’میری اماں کہتی ہیں کہ جوڑے اوپر بنتے ہیں ، یہاں تو صرف رسم ادا ہوتی ہے۔‘‘

یہ بات بیٹی کی شادی پر اسے پھر یاد آئی۔ بیٹی کسی دوسرے شہر میں ہوسٹل میں تھی، دوچار دنوں کے لیے آئی تھی اور وہ اس کے لیے کچھ خریدنے بازار نکلے تھے، دکاندار نے کہا کہ تیار ہونے میں ڈیڑھ دو گھنٹے لگیں گے۔ بیوی بولی۔۔۔  ’’چلو گھر ہی چلتے ہیں ، یہاں بازار میں کیا رکیں گے۔‘‘

گھر کی طرف مڑے تو اسے خیال آیا، ایک جاننے والے عرصہ سے بلا رہے تھے اور یہاں سے قریب بھی تھے، کہنے لگا ’’ادھر نہ چلیں ، ملاقات بھی ہو جائے گی اور وقت بھی گزر جائے گا۔‘‘

سب کو تجویز پسند آئی۔ وہاں ایک اور فیملی بھی آئی ہوئی تھی۔ چائے پیتے باتیں شروع ہو گئیں۔ خاتون خانہ بولی۔۔۔

’’بھابھی ان کے بیٹے کے لیے کوئی رشتہ بتاؤ، بڑے اچھے لوگ ہیں۔‘‘

پھر جانے اسے کیا ہوا۔۔۔  بولی۔۔۔  ’’ارے یہ جو بیٹی بیٹھی ہے، باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

بیٹی کا تو جو حال ہوا، وہ دونوں میاں بیوی بھی ششدر رہ گئے۔ اس نے سوچا۔۔۔  کیسی نامعقول خاتون ہے۔ اس طرح بھی کوئی ایسی بات کرتا ہے۔ شاید یہی کیفیت دوسرے مہمانوں کی بھی ہوئی۔ الٹی سیدھی چائے پی کر انہوں نے جلدی کا بہانہ کیا اور نکل آئے۔ راستے میں بیٹی کا موڈ تو خراب تھا ہی، اس کا اپنا غصہ دیکھنے والا تھا۔

بظاہر بات آئی گئی ہو گئی، لیکن چل پڑی۔۔۔  جس دن بیٹی کا نکاح تھا اس نے بیوی سے کہا۔۔۔  ’’سمجھ نہیں آتا، اس دن ہمیں کون وہاں لے گیا تھا۔‘‘

ایسے سوالوں کا جواب تو مرشد ہی دے سکتا تھا، لیکن مرشد کسی لمبی یاترا پر نکلا ہوا تھا۔ اس رات سونے سے پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔

’’جو حوا جس مرد کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے اس نے اسی کے پاس پہنچنا ہے۔‘‘

درویش نے پھر سفر آغاز کیا اور چلتے چلتے جنگل میں اس مقام پر پہنچا، جہاں مورنی مور کے گرد ناچتے ہوئے ایسی بے خود ہوئی تھی کہ اپنے پاؤں کے بھدے پن کو بھی بھول گئی۔

درویش نے سوچا یہ بے خود ہونا بھی کیا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے۔ مَیں سے تُو اور تُو سے مَیں بن جاتا ہے۔ لیکن حوا اپنے مرد کی پسلی سے جنم لے کر بھی مَیں ہی رہتی ہے، ان میں سے کوئی کوئی ہی تُو کے مقام پر پہنچتی ہے۔ گویا ایک ہی وجود سے جنم لے کر بھی مَن و تُو کا جھگڑا ختم نہیں ہوتا۔ عظیم وجود میں سے ایک وجود اور اس وجود میں سے ایک حوا، نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ جو ازل سے ابد تک جاری ہے۔

درویش خود ہی ہنس پڑا۔ ’’یہ میں کس وسوسے میں پڑ گیا ہوں۔‘‘

’’اور وسوسہ ہونے کی نشانی ہے۔‘‘ کہیں قریب ہی سے مرشد کی آواز آئی۔

اس نے مڑ مڑ کر، دائیں بائیں ہر طرف دیکھا لیکن مرشد دکھائی نہ دیا۔

’’کیا میرے کان بج رہے ہیں ؟‘‘ اس نے سوچا، پھر کچھ دیر چپ رہ کر زور سے پکارا۔۔۔  ’’کیا تم ہو؟‘‘

’’ہاں میں ہوں ‘‘ مرشد کی آواز آئی۔

اس نے پھر چاروں طرف دیکھا، لیکن مرشد نظر نہ آیا۔

’’شاید میں اسے آنکھوں سے تلاش کر رہا ہوں ‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’اور وہ ایسی حالت میں ہے کہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘

’’یہی سچ ہے‘‘ مرشد کی سرگوشی سنائی دی۔

اب اس نے پھر دیکھا، یہ دیکھنا آنکھوں سے نہیں تھا، اور اس نے دیکھا کہ مرشد مور بنا مزے سے بیٹھا جھوم رہا ہے اور مورنی اس کے گرد ناچ ناچ کر ایسی بے خود ہوئی ہے کہ اپنے پاؤں کے بھدے پن کو بھی بھول بیٹھی ہے۔ درویش ہنسا۔۔۔  ’’سچ ہے کہ ہر حوا اپنے اپنے نر کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے، بچھڑتی ہے لیکن کبھی نہ کبھی اپنی کھوئی ہوئی پسلی کو ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔‘‘

٭٭٭

 

آشنا ناآشنا

سفر کا آغاز ہوا تو منزل معلوم نہ تھی، لیکن چند ہی لمحوں میں نہ آغاز کا احساس رہا نہ اختتام کا، بیٹھتے بیٹھتے دائیں طرف نظر پڑی اور پھر کچھ یاد نہ رہا۔ ان آنکھوں میں عجب سحر تھا، لگا یہ آنکھیں اسی کی منتظر ہیں ، لیکن نہ چلبلا پن نہ چمک، بس ایک خاموش گہرائی۔۔۔  اس کی منتظر۔ صدیوں سے اس کی راہ تکتے تکتے اداسی سی آ گئی تھی۔ ان آنکھوں کے آس پاس اوپر نیچے کیا تھا اس کی تو خبر ہی نہ ہوئی۔ نہ کچھ جانچنے پرکھنے کا موقع ملا۔ یہ اداس اداس آنکھیں تو خود ایک دنیا تھیں ، وہ ان میں داخل ہو گیا، کب اور کیسے خود اسے بھی معلوم نہ ہوا۔ اب نہ کوئی من تھا نہ تُو، نہ بس نہ مسافر۔

وہ آنکھیں تھیں اور وہ۔۔۔  لیکن اب وہ بھی نہیں تھا، ان آنکھوں کی وادیوں میں اترا ہوا ایک بے نام وجود، آگے منظر ہی منظر تھے۔

سرمئی دھند میں لپٹے دو مجسمے، وقت کی دھول میں اَٹے ہوئے۔ اپنے آپ کو پہچان کر اس نے دوسرے مجسمے کے سینے پر انگلی پھیری، دھول میں لکیر بن گئی۔ دوسرے مجسمے کی آنکھیں بند تھیں اور سارا وجود تیرتے ہوئے نگینے کی طرح ڈھلکیں مار رہا تھا، اس نے آہستگی سے اسے دوبارہ چھوا۔ بند پپوٹوں پر دستک ہوئی اور خاموش گہری آنکھیں اس پر مرتکز ہو گئیں ، ہونٹوں پر مسکراہٹ لہرائی۔ لمحے سمٹ گئے اور ننھے ننھے پنکھ پھیلائے واپس مڑنے لگے۔

وہ تلوار سونتے قدم قدم اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ پاس پہنچی تو دفعتاً تلوار کو ایک طرف پھینک کر بولی۔۔۔  ’’تیرے دیکھنے کو، یوں آئی ہوں ورنہ کوئی اپنے پر بھی تلوار چلاتا ہے۔‘‘

تخت پر شعلہ ناچا، ایک کریہہ آواز گونجی اور لفظ کوندتی بجلی کی طرح ان پر گرے۔ تلوار سونتے جلاد قدم قدم قریب آ رہا تھا، وہ اس کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی۔ ’’تیرے ساتھ جی تو نہ سکی لیکن تیرے ساتھ مرنے کی آرزو تو پوری ہوئی۔‘‘

لہراتی تلوار کی چمک نے فضا میں اداس سُر پھیلا دیے اور خون کی چھینٹوں نے درباریوں کے قیمتی کپڑوں پر نقش بنا دیے۔ گہری اداس آنکھوں میں مسکراتی چمک نے سنہری پنکھ پھیلا دیے۔

منظر بدلا۔۔۔  اب آس پاس لوگ مختلف تھے لیکن صورتِ حال وہی تھی۔ مندر کی ساری گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ سفید چوغہ پہنے، دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے، کرخت آواز میں نامانوس لفظوں کا ورد کرتے وہ مڑا اور ان کے قریب آ گیا۔ وہ دونوں بڑے گنبد سے بندھے ہوئے تھے۔ وہ مسکرا رہی تھی، مسکرائے جا رہی تھی۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا تھا، ایک طویل چپ، ٹھہرے ہوئے وقت کی جھیل میں کنکر گرا، لہریں دائرہ در دائرہ رقص کرتی کناروں کو چھونے لگیں۔ سب منظر ایک جیسے تھے، لمحہ بھر کی خوشی اور پھر فضا میں لہراتی تلوار کی چمک، ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں ، چلتے رہنا، چلتے رہنا۔۔۔  بس بھی چل رہی تھی، درمیان میں کہاں کہاں رکی، کون چڑھا کون اترا۔۔۔  اسے کچھ خبر نہ ہوئی، اب شاید آخری اسٹاپ آ گیا تھا، مسافر سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اپنے اپنے بیگ اتار رہے تھے۔۔۔  وہ بھی کھڑی ہو گئی۔ بیگ پکڑا، جانے سے پہلے مڑ کر دیکھا۔۔۔  وہ اپنی سیٹ پر گم صم بیٹھا، بس دیکھے جا رہا تھا۔ وہ بھی لمحہ بھر اسے دیکھتی رہی۔ اتنے میں اسے لینے والا اندر آ گیا اور اس کا بیگ اٹھا لیا۔ پھر دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف چل پڑے۔ اترنے سے پہلے اس نے مڑ کر دیکھا، یوں لگا خاموش اور اداس آنکھوں میں موتی سا ڈھلکا ہے، پھر وہ تیزی سے اتر گئی۔ لینے آنے والا پاس کھڑی گاڑی میں بیگ رکھ رہا تھا۔ بیٹھنے سے پہلے اس نے پھر مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔  جو اپنی سیٹ پر خاموش بیٹھا، شیشے میں سے دیکھے جا رہا تھا۔ گاڑی رینگتی رینگتی سڑک پر پہنچ گئی اور ٹریفک کے سیلاب میں بہہ گئی۔ وہ اسی طرح چپ بیٹھا دیکھتا ہی رہ گیا۔

اسے بھی کسی نے لینے آنا تھا۔ جب دیر تک وہ سیٹ سے نہ اٹھا تو آنے والا اندر آ گیا اور اس کے پاس آ کر بولا۔۔۔

’’سر آپ ٹھیک تو ہیں نا۔‘‘

وہ چونکا۔۔۔  ’’ہاں ہاں۔۔۔  ٹھیک ہوں۔‘‘ آنے والے نے اس کا بیگ اٹھا لیا اور کہنے لگا۔

’’سارے مسافر اتر گئے لیکن آپ سیٹ سے اٹھے ہی نہیں ، میں تو ڈر گیا تھا۔‘‘

وہ کچھ نہ بولا۔۔۔  بولتا بھی کیا، لیکن اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔

’’یہ پہلی بار ہے، وہ مجھے اکیلا چھوڑ گئی۔‘‘

’’اکیسویں صدی جو ہے۔‘‘

آنے والے نے بیگ اٹھاتے اٹھاتے مڑ کر کہا، اس نے شاید اس کی بات سن لی تھی۔

’’اکیسویں صدی‘‘ اس نے دہرایا۔

’’جی سر۔۔۔  میری ماں کہتی ہے کہ اس نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ اکیسویں صدی میں کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔۔۔  بس ایک نفسا نفسی ہو گی۔‘‘

’’لیکن اس کی اداس آنکھوں میں ایک موتی تو تھا، اس نے سوچا، لیکن کچھ نہ بولا۔ اس قیامت کی گھڑی میں کہا بھی کیا جا سکتا تھا۔

٭٭٭

 

سفر ناسفری

سفر کہاں سے، کب اور کیوں شروع ہوا تھا، اب اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا۔ اب گھور اندھیرا تھا اور گردن گردن اندھیرے میں ڈوبا طویل راستہ، جس پر چلتے رہنے کا ایک احساس تھا اور اندھیرا چٹکیاں کاٹتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ وقت گزر رہا ہے، ٹھہر گیا ہے یا وہی رک گئے ہیں یا چلے جا رہے ہیں۔ بس وقت کے ساتھ ساتھ اندھیرے کے ناخن تیز ہوتے جا رہے تھے اور اس کی چٹکیوں سے اٹھنے والی درد کی ٹیس بڑھتی جا رہی تھی۔ یہی ٹیس ہونے کی علامت بھی تھی کہ تھے یا نہیں تھے کا احساس کسی اور سطح پر موجود نہیں تھا۔

وہ بھی ان میں سے ایک تھا جنہوں نے اندھیرے میں سفر آغاز کیا تھا۔ اسے جتنا کچھ یاد تھا وہ یہی کہ اندھیرا اب چٹکیاں کاٹتے کاٹتے تند ہوا جا رہا تھا۔ شاید کبھی اندھیرا نرم گداز ہو اور شاید کبھی آس کی تہوں میں کوئی لچکیلا پن ہو لیکن عرصہ سے، جب سے اسے کچھ کچھ یاد ہونا شروع ہوا تھا، اندھیرے کا انداز اور خراج یہی تھا۔ روشنی کے بارے میں اس کے اور اس جیسے دوسروں کے تصور ایک سے تھے۔ وہ ہاتھ سے دائرے بناتے ہوئے سوچتا، روشنی بھی اندھیرے کی طرح ٹکورتی ہے۔ ایک دن اسے خیال آیا کہ جب اس نے، اس جیسے دوسروں نے کبھی روشنی کو دیکھا ہی نہیں تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ اندھیرا ہے۔

وہ بہت دیر سوچتا رہا۔ ہو سکتا ہے یہ روشنی ہو اور اندھیرا کچھ اور ہو۔ بہت دنوں تک جب اسے اپنے سوال کا جواب نہ ملا تو ایک دن اس نے ڈرتے ڈرتے ایک بزرگ سے پوچھ لیا۔ وہ کچھ دیر چپ رہے، پھر بولے۔

’’معلوم تو مجھے بھی نہیں لیکن میں نے سنا ہے کہ ایک بار باہر کی دنیا سے

کوئی یہاں آیا تھا جس نے اس اندھیرے کا احساس کرایا تھا۔‘‘

’’اور تب سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہم اندھیرے میں رہ رہے ہیں۔‘‘

’’شاید۔۔۔  ہاں۔‘‘

’’اور اندھیرا اس لیے ہے کہ ہم ہر شے کو ٹٹول کر دیکھتے ہیں ، اس کی پہچان

نہیں رکھتے۔‘‘

’’شاید۔۔۔  ہاں۔‘‘

’’اور میرے باپ نے بھی اسی اندھیرے میں زندگی گزار دی اور میں نے بھی اسی میں آنکھ کھولی اور زندگی گزار رہا ہوں اور میرے بعد میرا بیٹا بھی۔۔۔ ‘‘

’’شاید۔۔۔  ہاں۔‘‘

’’اور میرے باپ کے لیے یہ اندھیرا اتنا کرخت نہیں تھا، شاید اس میں کوئی ملائمت ہو۔ میرے لیے وہ چٹکیاں کاٹنے والا ہے جن کی ٹیس کئی کئی دن محسوس ہوتی ہے، اس کے ناخن اب کافی بڑھ گئے ہیں اور تیز ہیں اور میرے بیٹے تک۔۔۔ ‘‘

’’شاید۔۔۔  ہاں۔‘‘

اس نے جھنجھلا کر بزرگ کے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ ’’آپ کے ہر جواب میں شاید کیوں ہے؟‘‘

بزرگ ہنسے ’’تمہارا سوال بھی تو ادھورا ہے، تمہارا جملہ بھی تو مکمل نہیں۔‘‘

اب سوالوں اور خیالوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے باپ نے اس اندھیرے سے نکلنے کی جدوجہد کیوں نہیں کی۔ کیا اسے اپنے بیٹے کا خیال نہیں تھا۔۔۔  نہیں تھا تو اس کے ذہن میں یہ خیال کہاں سے آیا، کیسے آیا۔ بس سوال ہی سوال تھے اور جواب نہیں تھا۔ صرف اندھیرا تھا اور سفر تھا کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔ تھا بھی یا نہیں ، اب تو اسے بار بار یہ خیال بھی آتا کہ سفر ہے بھی کہ نہیں ، وہ چل بھی رہے ہیں یا ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ دکھائی تو کچھ دیتا نہیں ، پھر یہ کون بتائے کہ وہ چل رہے ہیں یا کسی ایک ہی جگہ رکے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کبھی چل رہے ہوں اور اب رک گئے ہوں ، اس گھور اندھیرے میں نہ کچھ سوجھتا تھا نہ کچھ سمجھ میں آتا تھا اور بتانے والا کوئی نہیں تھا، جس سے بھی کچھ پوچھنے کی کوشش کرتا وہ اپنے سوال لیے ہوئے ہوتا۔ بس سوالوں کا ایک دائرہ تھا اور جواب۔۔۔

آخر کسی کو کچھ تو معلوم ہو گا، کوئی تو جواب دے سکتا ہو گا، وہ کون ہے، کہاں ہے؟

اب وہ اس کی تلاش میں تھا، کوئی نہ کوئی ضرور اندر کی بات جانتا ہے لیکن چپ سادھے بیٹھا ہے، وہ اپنے آپ سے کہتا، لیکن وہ ہے کون اور کیوں نہیں بولتا۔ بولنے پر بظاہر کوئی پابندی بھی نہ تھی بلکہ وہ سب ضرورت سے زیادہ بولتے تھے۔ ہر وقت بولتے ہی رہتے تھے بلکہ نیند میں بھی بڑبڑاتے رہتے تھے۔ آوازیں تھیں اور شور تھا لیکن ان میں پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں تھی کہ مدتوں سے پھولوں نے کھلنا بند کر دیا تھا اور کوئی گیت نہیں تھا کہ عرصہ سے گیت نگار نے گیت لکھنا بند کر دیا تھا کہ کوئی گیت سننے والا نہیں تھا۔ اسے خیال آیا کہ یہ جو عرصہ سے چپ ہیں ضرور کوئی بات جانتے ہیں۔ پرندے تو جواب نہیں دے سکتے تھے، گیت نگار ضرور کچھ جانتا ہو گا۔ مگر وہ ہے کہاں ؟ اس گھور اندھیرے میں کہیں چھپا بیٹھا ہے کہ اب اس کے لیے چھپنے کے سوا اور کیا چارہ تھا؟ وہ اس کی تلاش میں لگ گئے، ہاتھوں سے ٹٹول کر، کبھی آوازیں دے کر وہ اسے ڈھونڈتا رہا لیکن وہ اسے نہ ملا۔ پھر جب وہ مایوس ہو گیا تو ایک دن اچانک ہی وہ اس کے قریب آ گیا۔ اس کے سوال کے جواب میں وہ چپ رہا، دیر تک چپ رہا۔

اس نے پھر سوال دہرایا۔

’’تم چپ کیوں ہو، بتاتے کیوں نہیں یہ اندھیرا کب ختم ہو گا؟‘‘

وہ پھر چپ رہا۔

’’کب ختم ہو گا یہ اندھیرا؟‘‘ اس کی آواز میں اب ایک التجا تھی۔

دیر کی خاموشی کے بعد گیت نگار ایسی آواز میں جو بمشکل سنی جا سکتی تھی بولا۔

’’شاید کبھی نہیں۔‘‘

’’کبھی نہیں۔‘‘ وہ روہانسا ہو گیا۔ ’’کبھی نہیں۔‘‘

’’شاید کبھی بھی نہیں۔‘‘ گیت نگار کی آواز میں آنسو چھلک رہے تھے۔

’’اندھیرا تو کبھی نہ کبھی ختم ہو ہی جاتا ہے لیکن آنکھیں ہی نہ ہوں تو۔۔۔ ‘‘

’’کیا‘‘ وہ چیخا اور اپنی آنکھوں کو ٹٹولنے لگا۔ ’’کیا ہماری آنکھیں ہی۔۔۔ ‘‘

اور اسے لگا اس کے کان بھی نہیں ، اور یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اندر ہی کوئی سرسراہٹ سی ہے، ایک آہٹ سی اور بس۔۔۔ ! یہ عجب انکشاف تھا کہ اس کی آنکھیں ہیں نہ کان، وہ رو بھی نہیں سکتا، تو۔۔۔  ہنس تو سکتا ہے اور غیر ارادی طور پر قہقہہ ایک فوّارے کی طرح اس کے ہونٹوں سے پھوٹ نکلا۔

٭٭٭

 

عشق نہ پُچھے

اس کے ساتھ تعلق کی ایک زمانی مدت تو تھی ہی لیکن لگتا یوں ہے جیسے یہ تعلق ازلوں ازلی ہے۔ چودہ پندرہ برس پہلے اس نے پہلی بار اسے دیکھا، اس سے پہلے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ پرانے گھر میں ، جو شہر کے قدیمی حصہ میں تھا، اس کی نہ ضرورت تھی نہ وہ وہاں پہنچ سکتی تھی۔ وہ گلیاں تنگ ضرور تھیں لیکن محبتوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ضرورت کی ہر شے دروازے پر موجود تھی۔ صبح سویرے کلچے اور لسّی کا ناشتہ کر کے گلیوں گلی بڑے چوک میں آ نکلتا، جہاں کسی بھی جگہ جانے کے لیے ٹانگوں ، سوزوکیوں اور ویگنوں کی لائنیں لگی رہتی تھیں۔ صدر کا کرایہ چار آنے تھا اور کوشش یہی ہوتی تھی کہ ایک طرف سے اسے بھی بچا لیا جائے۔ وہ تین ساتھی اکٹھے ہو جاتے تو گپ شپ لگاتے پیدل ہی چل پڑتے، محبتوں میں رچے ہوئے فاصلے بھی مختصر سے لگتے تھے۔ ہر شے بھری بھری سی تھی، منہ تک لبالب اور وہ ان میں گردن کو خم دے لکے کبوتر کی طرح غٹرغوں غٹرغوں کرتا پھرتا تھا، پھر آہستہ آہستہ نہ جانے کیا ہوا کہ چیزیں سکڑنے لگیں اور فاصلے بڑھنے لگے۔ بیوی اور بچوں کے اصرار پر اس نے پرانے شہر سے باہر پلاٹ لے لیا۔ اپنے طور پر اسے اب بھی یقین تھا کہ اسے بہکایا گیا ہے۔ وہ اس تنگ گلی سے نکلنا نہیں چاہتا کیونکہ اس تنگ گلی میں اسے اپنا آپ بڑا لگتا تھا اور نئے علاقے کی کھلی سڑک پر وہ بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ ایک دفعہ پاؤں اکھڑ جائے تو آدمی پھسلتا ہی چلا جاتا ہے، اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

’’یہ پلاٹ لینا ہی میری سب سے بڑی حماقت تھی‘‘ وہ اپنے آپ سے کہتا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا، پلاٹ لیا تو نیا گھر بننا بھی شروع ہو گیا۔ پرانا مکان بک گیا، نیا گھر بس بن ہی گیا۔ اب جانے کی باری آ گئی۔ وہ کئی دن اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتا رہا۔ بچے کلکاریاں مار رہے تھے، بیوی کے پاؤں زمین پر نہ لگتے لیکن وہ اندر ہی اندر ٹوٹے چلا جا رہا تھا، یہاں رکنے کی اب کوئی صورت نہ تھی، آخر جانا ہی تھا۔

جس دن وہ نئے گھر پہنچے اسے لگا اس کی ماں آج ہی مری ہے اور وہ اسے دفنا کر قبرستان سے ادھر آ نکلا ہے۔ ماں کئی دن یاد آتی رہی، پھر کچھ معمول شروع ہوا تو آنے جانے کی دِقّت کا احساس ہوا، نئے گھر کی چَٹ پر کچھ اکٹھا ہو گیا تھا، کچھ قرض لے لیا اور ایک سانولی سی شام سودا پکّا ہو گیا۔ ماڈل تو خاصا پرانا تھا لیکن اتنے پیسوں میں یہی مل سکتا تھا، سو اس نے حسبِ معمول سر ہلایا اور اپنے آپ سے کہا ’’چلو یہ بھی غنیمت ہے۔‘‘

خود تو اسے سٹیئرنگ پکڑنا بھی نہیں آتا تھا اس لیے وہ دفتر کے ڈرائیور کو ساتھ لے گیا۔ ڈرائیور ہی اسے چلا کر لایا اور جب اس نے اسے پورچ میں کھڑا کیا تو بیوی بچے اندر سے دوڑے آئے اور اس کے ارد گرد کھڑے ہو گئے، اور اندر باہر دیکھنے لگے۔ وہ ایک کونے میں چپ چاپ سہما ہوا سا اس سوچ میں کہ اب اسے چلائے گا کون۔ ڈرائیور شاید اس کی مشکل سمجھ گیا، خود ہی بولا۔۔۔

’’صاحب جی فکر نہ کریں میں روز شام کو آ جایا کروں گا، بس ہفتہ دس دن میں آپ سیکھ جائیں گے۔‘‘

ہفتہ دس دن تو اسے اسٹارٹ کرنے اور سٹیئرنگ سیدھا کرنے ہی میں لگ گئے، ڈرائیور اسے ایک کھلے میدان میں لے جاتا اور دائرے میں چکر لگوا کر دائیں بائیں مڑنے کی مشق کرواتا، شاید بیسویں پچیسویں دن جب اس نے پھر دوسرے کی بجائے چوتھا گیئر لگا دیا تو ڈرائیور نے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔

’’سر مجھے تو معاف کر دیں ، یہ آپ کے بس کی بات نہیں۔‘‘

دوسرے دن ڈرائیور خلافِ معمول شام کو نہیں آیا۔

 ’’اب وہ نہیں آئے گا۔‘‘ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’آ کر بھی کیا کرے گا۔‘‘ وہ غصہ سے بولی۔ ’’تم کچھ سیکھنے کی کوشش ہی

نہیں کرتے۔‘‘

’’اب اس عمر میں کیا سیکھوں گا۔‘‘ اس نے جیسے خود سے کہا۔

دو تین دن وہ پورچ میں کھڑی رہی، دفتر میں کسی نے کہا کھڑے کھڑے بیٹری بیٹھ جاتی ہے، اس کا دل بیٹھ گیا۔ شام کو اس نے بڑی مشکلوں سے خود کو تیار کیا اور اسٹارٹ کر کے میدان کی طرف نکل پڑا۔ میدان زیادہ دور نہیں تھا، اب یاد نہیں کہ چکر لگاتے لگاتے یا کہیں مڑتے مڑاتے مکالمہ شروع ہوا۔ چیزوں سے مکالمہ کرنے کی اس کی عادت بہت پرانی تھی۔ پرانے محلے میں بھی اس کے کئی دوست تھے، گلی کا گیٹ، خود گلی، نکڑ کا ٹیڑھا کھمبا، گھر کا بوسیدہ دروازہ، ان سب کے ساتھ اس کا مکالمہ چلتا رہتا تھا۔ آتے جاتے وہ ان کا حال پوچھتا وہ اس کی خیریت معلوم کرتے۔ اپنے کمرے کی دیواروں سے تو کبھی رات رات بھر مکالمہ ہوتا۔ دفتر میں وہ اپنی میز سے بھی گفتگو کر لیتا تھا۔ یہ سب اس کے دوست تھے جو اسے کبھی تنہائی کا احساس نہ ہونے دیتے۔

نئے گھر میں وہ اکیلا تھا۔ سڑک، کھمبے، حتیٰ کہ دیواریں بھی اس کے لیے اجنبی تھیں ، وہ اس کی بات ہی نہ سمجھتیں ، وہ کچھ کہنے کی کوشش کرتا تو وہ چپ اکھڑی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتی رہتیں ، یہاں اس کا کوئی دوست نہ تھا۔ لوگ بھی اجنبی اور ایک دوسرے سے بے زار بے زار سے اور چیزیں بھی اجنبی اور چپ چاپ سی۔ ایک چپ لگ گئی جو اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کیے جا رہی تھی، ایسے میں اس مکالمے نے اسے چہکا دیا، وہ خوشی خوشی گھر آیا۔

جب سے وہ نئے گھر میں آئے تھے وہ خاموش خاموش رہتا تھا۔ اسے یوں ہشاش بشاش سا دیکھ کر بیوی لمحہ بھر کے لیے چونکی۔۔۔

’’بڑے خوش نظر آ رہے ہو؟‘‘

’’صبح ویگن والے کو جواب دے دینا، پرسوں سے سب گاڑی میں جایا کریں گے۔‘‘

’’لیکن۔۔۔ ‘‘

’’لیکن ویکن کچھ نہیں ، میں کر لوں گا۔‘‘

یہ تبدیلی غیر معمولی سی تھی، بیوی کچھ بے یقینی سی کیفیت میں رہی، کہاں تو یہ کہ وہ سٹیئرنگ کو ہاتھ لگاتے بیزاری کا اظہار کرتا اور کہاں یہ جوش کہ سب کو لے کر نکلے گا، لیکن وہ اپنی جگہ پرسکون تھا۔ ’’مکالمہ شروع ہو جائے تو دُوری ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔  ’’اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ، اب میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی ہے۔‘‘

پھر دوستی کا ایسا دور شروع ہوا کہ مَن و تُو کا جھگڑا مٹ گیا۔ فاصلے سمٹ گئے۔ بیوی اور بچوں کو ان کے سکول چھوڑ کر اپنے دفتر تک لمبے فاصلے میں ڈھیروں باتیں ہوتیں ، کبھی وہ بولتا تو وہ سنتی، کبھی وہ بولے چلی جاتی اور وہ سنے چلا جاتا۔ وہ اس کا ہر لمحہ خیال رکھتا، ذرا سی تکلیف ہوتی تو اسے لیے مکینک کے پاس پہنچ جاتا۔ اس کے دوست ہنستے۔۔۔

’’یار تم نے اس پرانی گاڑی پر اتنے پیسے لگا دیے ہیں کہ اب تو صرف پَر لگانے ہی رہ گئے ہیں۔‘‘

وہ اندر ہی اندر کھٹکتا۔۔۔  انہیں کیا معلوم کہ واقعی اس کے پَر ہیں اور ہم دونوں ان پَروں سے کہاں کہاں اڑتے پھرتے ہیں۔

اس کی توجہ اور گاڑی کے لیے کچھ نہ کچھ خرچ کرتے رہنے سے بیوی بچے بھی اب چِڑنے لگے تھے۔ بیٹا جو اب کالج میں آ گیا تھا کہتا۔۔۔

’’اس پرانی گاڑی پر اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

’’تو کیا کروں اسے کھڑا کر دوں ؟ آخر پرانی گاڑیوں پر خرچہ تو آتا ہی ہے۔‘‘

’’بیچ کر نئی لے لیں۔‘‘ بیٹا اصرار کرتا۔

اسے اس تصور ہی سے ہول آتا۔۔۔  ’’نہیں نہیں ، ٹھیک چل رہی ہے۔ نئی

کون سی مفت مل جائے گی۔‘‘

ہر مہینے جب تنخواہ میں سے ایک بڑی رقم گاڑی کے کھاتے میں نکل جاتی تو بیوی کا موڈ کئی کئی دن ٹھیک نہ ہوتا۔۔۔

’’یہ گاڑی تو ہمیں کنگال کر دے گی۔‘‘ وہ بڑبڑاتی۔

’’پرانی بھی تو ہے لیکن ہمارا کام تو چل رہا ہے۔‘‘ وہ وکالت کرتا۔

’’میرا خیال ہے اس کی اور آپ کی عمریں برابر ہی ہیں۔‘‘ بیٹا طنز کرتا۔

’’شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔‘‘

’’میں تو کہتا ہوں اسے فوراً نکال دیں۔ ایک آدھ سال اور گزر گیا تو کچھ

بھی نہیں ملے گا۔‘‘ بیٹے نے سمجھایا۔

’’اور اس ایک آدھ سال میں یہ اس پر دس پندرہ ہزار اور لگا دیں گے۔‘‘

بیوی غصے سے بولی۔

وہ کچھ نہ بولا،ا ٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔

’’میں نے ان کے کہنے پر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی کہ پرانے محلے سے نکل کر یہاں آیا، لیکن اب میں اس غلطی کو نہیں دہراؤں گا۔‘‘

اور اسے پرانا محلہ یاد آ گیا۔ وہ تنگ سی لیکن محبت سے لبالب بھری گلی جو اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیتی تھی، کلچے والے کی دکان جہاں سے وہ روز صبح گرم گرم کلچہ لیتا تھا، اور دودھ والا، لسّی کا بھرا گلاس۔۔۔  سارا دن کیا تازگی رہتی تھی اور اب ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑے اور بد وضع جام، لگتا ہے میٹھی موم کھا رہے ہیں۔‘‘

ان دنوں پھر کچھ اسی طرح کی کیفیت تھی، جیسے پرانے گھر میں آخری چند مہینوں میں ہوئی تھی، کچھ اکھڑا اکھڑا پن، کچھ بے زاری سی۔ ایک صبح سٹارٹ ہونے میں کچھ دیر لگ گئی تو اس نے ویسے ہی کہہ دیا۔۔۔

’’میرا خیال ہے اب رنگ پسٹن بدلوا لینے چاہئیں۔‘‘ بیوی اور بیٹے تو بھڑک اٹھے۔

’’اب اس پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرنا۔‘‘ بڑے بیٹے نے غصے سے کہا۔

’’اور ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے۔‘‘ چھوٹے بیٹے نے گویا اسے اطلاع دی۔

’’کیا؟‘‘

’’اگلے مہینے آپ ریٹائر ہو رہے ہیں ناں ، آپ کو جو پیسے ملیں گے اس میں

کچھ ڈال کر ہم نے گاڑی بدلنا ہے۔‘‘ بیوی نے گویا فیصلہ سنا دیا۔

وہ کچھ نہ بولا۔ ان دنوں ویسے ہی اداسی تھی، دفتر سے تیس سال کی رفاقت ختم ہو رہی تھی۔ اس کی خاموشی پر بیوی بچے کھِل اٹھے۔

’’میں نے کہا تھا ناں ابو مان جائیں گے۔‘‘ چھوٹے بیٹے نے خوشی سے کہا۔

مہینہ تو پَر لگا کر اُڑ گیا۔ سٹیئرنگ سنبھالتے ہوئے اسے کچھ شرم سی آئی۔۔۔  ’’نہیں نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا، میں نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ وہ اپنے آپ سے کہتا یا اسے سناتا۔ کچھ معلوم نہ ہوتا، بس اس کی بڑبڑاہٹ جاری رہتی۔

ایک آدھ مہینہ پیسے ملنے میں لگ گیا۔ اس دوران کبھی ناشتے پر، کبھی کھانا کھاتے ہوئے دونوں بیٹے کسی نہ کسی حوالے سے گاڑی کا ذکر چھیڑ دیتے اور اسے ذہنی طور پر تیار کرتے کہ اب گاڑی کو نکال دینا چاہیے۔ وہ ہوں ہاں کر کے اٹھ جاتا۔ لیکن اندر ہی اندر اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ بیوی بچوں کے اصرار کے سامنے ٹھہرنے کی سکت اب اس میں نہیں تھی، کبھی بھی نہیں تھی، ہوتی تو وہ پرانا گھر ہی کیوں چھوڑتا۔ اور اب تو زندگی کی شام ہوئی جا رہی تھی، جدائی کے سلسلے شروع ہونے والے تھے۔

اسے دوپہر کو سونے کی عادت تھی، دفتر سے آ کر بھی وہ ضرور کچھ دیر آنکھ لگا لیتا تھا۔ اس دوپہر بھی وہ حسبِ معمول سو رہا تھا کہ بیٹے نے اسے جگایا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

’’ابو ذرا اس پر دستخط کر دیں۔‘‘

’’کیا ہے یہ؟‘‘

’’آپ دستخط تو کریں۔‘‘ اس نے کاغذ اور قلم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ نیم غنودگی میں دستخط کر کے وہ پھر سو گیا۔ شام کو چائے پیتے ہوئے بیوی نے کہا۔۔۔

’’ماشاء اللہ آپ کے دونوں بیٹے بڑے سیانے ہیں ، انہوں نے گاڑی کی

اچھی قیمت وصول کر لی ہے۔‘‘

’’کیا؟‘‘ پیالی اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچی۔

’’آپ سے دستخط کرائے تھے نا، دوپہر کو۔‘‘

’’وہ۔۔۔ ‘‘ وہ کچھ نہ کہہ سکا، بس اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ زندگی بھر اس نے یہی کیا تھا۔ کچھ نہ کر پائے تو چادر میں منہ لپیٹ کر پڑ رہنا۔

تین چار دن بعد بیٹے پھر پھرا کر اچھے ماڈل کی گاڑی لے آئے۔ نئی گاڑی خوبصورت تھی۔ بیوی بچوں نے کہا۔

’’چلو آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔‘‘

اس کا دل بیٹھ سا گیا۔۔۔  ’’تم لوگ جاؤ، میں گھر ہی رہتا ہوں۔‘‘

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ بیٹے نے چابی اس کی طرف بڑھائی۔ ’’آپ ہی چلائیں۔‘‘

’’میں۔۔۔ ‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی بیوی بول پڑی۔۔۔  ’’بچوں کی خوشی میں تو شریک ہو جائیں۔‘‘

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کانپتے ہاتھوں سے گاڑی اسٹارٹ کی۔ ہاتھ سٹیئرنگ پر جم نہیں رہے تھے۔ دو ایک بار گاڑی لگتے لگتے بچی، پھر جب اوپر تلے اس نے گیئر غلط لگائے تو بیٹا رہ نہ سکا اور بولا۔

’’ابو کیا کر رہے ہیں ، آپ تو گیئر ہی توڑ ڈالیں گے۔‘‘

اس نے بڑی مشکل سے گاڑی روکی اور بولا۔۔۔

’’بیٹا تم چلاؤ مجھ سے نہیں چل رہی۔‘‘

اور اسے لگا وہ واقعی گاڑی چلانا بھول گیا ہے۔

٭٭٭

 

ایک عام آدمی کا خواب۔۔۔  ۲

            اللہ بخش ایک جن ہے جس کا کوئی وجود نہیں ، لیکن اس کے خوابوں ،  خیالوں اور تصورات میں اللہ بخش اپنے پورے وجود اور امکانات کے ساتھ نہ صرف موجو دہے بلکہ اس کے ہر اشارے پر ناچتا اور اس کے ہر حکم کی تکمیل کرتا ہے۔ یہ معاشرہ جہاں وہ رہتا ہے، اللہ بخش کے بغیر اس کے لیے ایک جنگل ہے جہاں انسان نہیں حیوان رہتے ہیں۔ اللہ بخش اس کے ہونے اور ہونے کے احساس کو قائم رکھنے کی دلیل ہے اور اس کی کہانی میں ایک مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے!

            یہ کہانی ہر صبح سات بج کر بیس منٹ پر شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے گلی سے نکل کر بڑی گلی میں دائیں طرف مڑتا ہے۔ یہ گلی جس میں اس کا گھر ہے، نیچے سے اوپر جاتی اور بڑی گلی سے ملتی ہے۔ جب اس نے گھر بنایا تھا تو موڑ کے دونوں طرف اتنی جگہ خالی تھی کہ دائیں بائیں سے آنے والوں کو نیچے سے اوپر جانے اور اوپر جانے والوں کو دائیں بائیں کی گاڑیاں نظر آ جاتی تھیں۔ پھر یہ ہوا کہ بڑی گلی کے ایک گھر والے نے اپنی دیوار آگے کر لی، اسے دیکھ کر دوسرا اور پھر تیسرے نے بھی یہی کیا، نتیجتاً موڑ اندھا ہو گیا۔ نیچے سے آنے والے کو دائیں بائیں اور بائیں دائیں والوں کو چڑھائی چڑھتی گاڑی دکھائی نہیں دیتی جس کی وجہ سے یہاں آئے دن گاڑیاں ٹکراتے ٹکراتے رہ جاتی ہیں یا کئی بہت تیز رفتار گاڑیاں ٹکرا بھی جاتی ہیں۔ نیچے والوں نے کئی بار اوپر والی سیدھی گلی میں جمپ بنانے کی کوشش کی لیکن اوپر والی گلی میں ایک جج صاحب رہتے ہیں ، انہیں ایک لمحہ کے لیے جمپ پر رکنا پسند نہیں ، اس لیے جمپ نہیں بننے دیتے۔ چڑھائی چڑھنے والے مسلسل ہارن بجاتے اوپر کی طرف آتے ہیں لیکن سیدھی گلی میں آنے والے ہارن کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات اس تمسخر سے دیکھتے ہیں جیسے ہارن بجانے والا بینڈ بجا رہا ہے۔ اسے ایسے موقعوں پر بہت غصہ آتا ہے اور کئی بار اس نے گردن نکال کر چیختے ہوئے کہا بھی ہے۔۔۔  ’’یہ میں تمہاری ماں کا بینڈ نہیں بجا رہا۔‘‘

            اس پر کئی بار ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی، اسے غصہ بہت آتا ہے لیکن کر کچھ نہیں سکتا، ایسے موقعوں پر اللہ بخش بہت کام آتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’اللہ بخش اسے الٹا لٹکا دو۔‘‘اللہ بخش حکم کی تعمیل میں ہارن کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کو الٹا لٹکا دیتا ہے۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھتا ہے اور آگے نکل جاتا ہے۔ اب چھوٹی سڑک اور پھر بڑی سڑک کو کراس کرنے کا مرحلہ ہے، یہاں بھی یہی ہوتا ہے۔

            سیدھے آنے والے ایک لمحہ کے لیے بھی آہستہ ہونا پسند نہیں کرتے کہ اس سے رفتار میں فرق پڑتا ہے اور یہ دَور تو ہی ہے رفتار کا، تیزی کا۔۔۔  کئی کئی منٹ سڑک کے خالی ہونے کا انتظار،  پھر سڑک خالی ہو جائے تو اچانک کوئی غلط طرف سے نکل آتا ہے اور معذرت کرنے کی بجائے الٹا ایسے گھورتا ہے جیسے اس نے کوئی بڑا نقصان کر دیا ہو۔۔۔  اللہ بخش یہاں بھی اس کے حکم کی تعمیل کے لیے موجود ہے۔ ٹریفک والوں سے تو کوئی امید نہیں کہ وہ سڑک کے ایک کنارے کھڑے بسوں اور ویگنوں سے روزانیہ وصول کر رہے ہیں۔ ہاں اللہ بخش اس کے حکم کے مطابق غلط آنے والوں کو سرزنش کرتا ہے اور کبھی کبھی انہیں ایک زناٹے دار تھپڑ بھی رسید کر دیتا ہے۔

            دفتر تک پہنچنے کے لیے دس اشاروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر اشارے پر ایک ہی صورت ہے، سپاہی مزے سے دوسرے کنارے کھڑا تماشا کرتا رہتا ہے۔ کچھ گاڑیاں اشارے کی بالکل پروا نہیں کرتیں ، کچھ رک تو جاتی ہیں لیکن پیچھے سے مسلسل ہارن بجاتی رہتی ہیں۔ اب اس پر غصہ نہ آئے تو کیا آئے۔ وہ اللہ بخش کو حکم دیتا ہے کہ ہارن توڑ دے، لمحہ بھر کے لیے سکون مل جاتا ہے۔ دائیں بائیں غلط آنے والی گاڑیوں کی بات ہی نہیں لیکن وہ اکثر اللہ بخش کے ذریعے انہیں ٹریفک کی کتاب پڑھوا دیتا ہے۔

            اس کی عادت ہے کہ انتہائی بائیں طرف آہستہ رفتار میں چلتا ہے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی گاڑی پیچھے سے ڈپر مارتی رہتی ہے۔ ایسے موقعوں پر اللہ بخش ہی یہ ڈپر توڑتا ہے اور کبھی کبھی تیز رفتار ویگنوں اور سوزوکیوں کے چاروں ٹائر پنکچر کر دیتا ہے۔ ایسے لمحوں میں اسے بڑا لطف آتا ہے۔۔۔  ’’الّو کے پٹھے! آگے نکلنا چاہتے ہیں ، اب لگاؤ چاروں پہیوں کے پنکچر۔‘‘

            دفتر میں بھی اللہ بخش اس کے ساتھ ساتھ ہے۔

            بڑا افسر کہتا ہے۔۔۔  ’’یہ نوٹ بنا لاؤ۔‘‘

            وہ کہتا ہے۔۔۔  ’’لیکن سر یہ تو رولز کے خلاف ہے۔‘‘

            افسرِ اعلیٰ کو بڑا غصہ آتا ہے۔۔۔  ’’یار تم کہاں آ گئے ہو، مجھے بھی نکلواؤ گے اور خود بھی نکلو گے۔‘‘

            کبھی اس کا موڈ ٹھیک ہو تو کہتا ہے۔۔۔  ’’یار بیٹھ جاؤ۔۔۔  دیکھو ہم ایک بد دیانت نظام کے پرزے ہیں ، اس بڑی مشین میں دوسرے پرزوں کے ساتھ حرکت نہیں کریں گے تو ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔‘‘

            پھر ہمدردی سے اسے دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔  ’’بھائی !کتابیں کم پڑھا کرو، یہ کتابیں تمہیں خوابوں کی دنیا میں لے گئی ہیں۔۔۔  سچ مچ کی دنیا میں آؤ۔۔۔  اور جاؤ یہ نوٹ بنا کر لاؤ۔‘‘

            اللہ بخش ایسے موقعوں پر اپنا کام دکھا دیتا ہے۔ وہ یا تو افسر اعلیٰ کی انگلیوں پر پیپر ویٹ اٹھا مارتا ہے کہ وہ نوٹ پر دستخط ہی نہ کر سکے یا پھر زیادہ فعال ہو تو غلط کام کروانے والے اصل شخص کی ٹانگیں توڑ دیتا ہے۔ غلط کام کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنا تو روز کی بات ہے۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا مداوا تو فوراً ہو جاتا اور تھوڑی دیر لڑنے کے بعد نارمل ہو جاتا لیکن کبھی کبھار۔۔۔  بلکہ اب تو اکثر دوسروں کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھ کر اسے اللہ بخش کو پکارنا پڑتا۔

            ’’اللہ بخش! دیکھ یہ شخص بلاوجہ اس غریب آدمی کو ڈانٹ رہا ہے، اسے ذرا کھمبے کے ساتھ لٹکا دو۔‘‘

            ’’جو حکم آقا۔۔۔ ‘‘اللہ بخش جواب دیتا۔

            سڑک پر اکثر بدمعاش قسم کے گاڑی والے اپنے قصور کے باوجود کسی دوسرے کو آنکھیں دکھاتے تو اللہ بخش اس کے حکم پر ایک لمحہ میں مظلوم کی مدد کو آ جاتا۔

            اس کا معمول تھا کہ لنچ ٹائم میں ہلکا پھلکا کھانا،  جسے وہ گھر سے لے کر آتا تھا، کھانے کے بعد کچھ دیر کے لیے ٹانگیں لمبی کر کے کرسی سے ٹیک لگا لیتا۔ ایسے میں صبح کی پڑھی ہوئی خبریں ایک ایک کر کے اس کے سامنے حاضر ہوتیں۔

            ’’فلاں محلہ میں پینے کا پانی ایک ہفتہ سے بند ہے کیونکہ ٹیو ب ویل کی موٹر جل گئی ہے۔‘‘

            وہ اللہ بخش سے پوچھتا، ’’موٹر کتنے کی ہے، یہ لوگ دو موٹریں کیوں نہیں رکھتے کہ ایک جل جائے تو فوراً دوسری استعمال میں آ جائے، اس کا مطلب ہے انہیں لوگوں کی تکلیف کا احساس ہی نہیں۔‘‘

            اللہ بخش اس کے حکم پر متعلقہ افسر کی ٹانگیں توڑ آتا۔

            ’’پینے کے گندے پانی سے اتنی اموات۔۔۔ ‘‘

            وہ اللہ بخش سے پوچھتا۔۔۔  پورے ملک میں صاف پانی کے پلانٹ لگانے میں کیا خرچ آئے گا۔۔۔  اگر صرف ایک سال کوئی سرکاری تقریب نہ ہو تو اس رقم سے پورے ملک میں۔۔۔

            اللہ بخش ذمہ داروں کے تعین کے لیے کچھ دیر کے لیے غائب ہو جاتا۔ آنکھ کھل جاتی۔۔۔  دفتر کا ڈرائیور اس کے کمرے میں آ کر کچھ دیر سستا لیتا۔۔۔  صاحب جی تنگ آگیا ہوں ، پہلے صاحب کے بچوں کو سکول چھوڑنا، پھر صاحب کو دفتر لے کر آنا، پھر واپس گھر جا کر کچن کے لیے سودا لانا کہ بیگم صاحب کو تازہ سبزی گوشت پسند ہے، پھر انہیں بازار لے کر جانا، شاپنگ کرتی ہیں ’اف‘ ایک ایک دکان سے گھنٹہ گھنٹہ باہر ہی نہیں آتیں ، پھر بچوں کو سکول سے واپس لانا، صاحب کو گھر لے جانا، پھر شام کو۔۔۔  رات ہو جاتی ہے۔۔۔  اور سرکاری پٹرول، صاحب پٹرول کتنا مہنگا ہو گیا ہے۔ وہ چپ چاپ سنتا رہتا۔۔۔

            ’’صاحب تھوڑی سی روٹی تو نہیں بچی۔‘‘ وہ ٹفن اس کی طرف بڑھا دیتا۔ یہ اس کی پرانی عادت ہے، تھوڑا سا زائد کھانا لانا۔ ڈرائیور تشکر سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔  صاحب اس ملک کا کیا بنے گا، ہماری تو ساری آمدنی ان لوگوں کے پٹرول پر ہی خرچ ہو جاتی ہے۔۔۔  آج صاحب کے گھر کا سرکاری ٹیلی فون بل جمع کرا کے آیا ہوں ، چالیس ہزار۔۔۔  بیگم صاحبہ روزانہ گھنٹوں اپنی ماں سے کراچی بات کرتی ہیں۔۔۔  صاحب جی۔

            اللہ بخش فوراً اس کے حکم پر حرکت میں آ جاتا ہے۔

            لیکن اب کچھ دنوں سے وہ محسوس کر رہا ہے کہ اللہ بخش بھی تھک گیا ہے۔ یا پھر یہ کہ اب ہر قدم پر اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ آخر ایک جن ہے، صرف ایک، اور ایک یا دو یا تین،  چار، پانچ۔۔۔  اب کچھ نہیں کر سکتے۔ ڈھلوان پر لڑھکتے ہوئے احساسِ زیاں کی بجائے قہقہوں اور لذت کی سسکاریاں سنائی دیں تو پھر کوئی کیا کر سکتا ہے۔۔۔  اس کے پاس تو صرف ایک اللہ بخش ہے۔۔۔  یہ اللہ بخش اس کے احکام کی تعمیل کر کر کے تھک گیا ہے۔

            ایک دن اس نے کہا۔۔۔  ’’آقا! یہاں ہر چیز الٹی ہے، میں انہیں سیدھا نہیں کر سکتا۔‘‘

            ’’ہاں ‘‘ اس نے سر ہلایا، ایک سرد آہ بھری اور بولا۔۔۔  ’’یہ ملک، ملک جیسا ہے، یہ حکومت،حکومت جیسی ہے، یہ ’لوگ‘ لوگوں جیسے ہیں۔۔۔  جہاں ہرشے اصل کی بجائے جیسی ہو وہاں کیا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

            اللہ بخش چپ رہا۔

            اس نے پھر سرد آہ بھری اور کہنے لگا۔۔۔  ’’میرے پاس تو اب خواب ہی رہ گئے ہیں اور اب میرے خوابوں میں بھی یہ سب کچھ ہونے لگا ہے،  اللہ بخش!میرے خوابوں کو ٹھیک کر دو۔‘‘

            اللہ بخش سوچتا رہا، تا دیر سوچتا رہا، پھر بولا۔۔۔  ’’آقا!جب خوابوں میں سے لذت چلی جائے اور ان میں دن کی تکرار ہونے لگے تو یہ خواب نہیں ہوتے، ذہنی روگ بن جاتے ہیں ، اور جب خواب،  خواب نہ رہیں تو دن کی اذیت رات کی اذیت، اور رات کی اذیت دن کی اذیت بن جاتی ہے۔‘‘

            وہ خاموش رہا، پھر اتنی مدھم آواز کہ خود اسے بھی سنائی نہیں دیا، کہنے لگا۔۔۔  اللہ بخش! میری مصیبتوں کا کوئی حل نہیں کہ ان کا ذمہ دار میں خود ہوں ، جب ظلم سہنے میں لذت آنے لگے تو کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، اللہ بخش میں تمہیں آزاد کرتا ہوں !‘‘

            اللہ بخش نے کوئی جواب نہ دیا، دونوں کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔

٭٭٭

 

گلاب کا موسم

            وہ گلاب کا موسم تھا،

            رات بھر عجب طرح کا سیلن زدہ حبس رہا، لیکن پچھلے پہر کسی وقت باد امڈ آئے، تیار ہو کر دفتر جانے کے لیے باہر نکلا تو ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے نظر اچانک بونٹ پر پڑی۔۔۔  سرخ رنگ کا گلاب سفید بونٹ پر پڑا مسکرا رہا تھا۔ غیر ارادی طور پر اس نے لان کی طرف دیکھا، اس کی بیوی کو سرخ گلاب بہت پسند تھے۔ اس موسم میں روز صبح وہ اسے سرخ گلاب توڑ کر دیتی، لیکن جب سے وہ فوت ہوئی تھی لان اجڑ گیا تھا۔

            ’’یہ سرخ گلاب۔۔۔ ‘‘ اس نے سوچا، خیال آیا رات گھر آتے ہوئے چوک پر پھول بیچنے والے کئی لڑکے اس کی طرف لپکے تھے، لیکن اس کے نفی میں سر ہلانے پر دوسری گاڑیوں کی طرف چلے گئے، شاید ان میں سے کسی کا پھول بونٹ کے سرے پر ہوا کی جالی میں اَڑ گیا ہو۔۔۔  یہی بات ہو گی۔ اس نے اطمینان سے سر ہلایا اور گاڑی سٹارٹ کر کے سڑک پر نکل آیا۔

            دن بھر دفتر کے کاموں میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملی۔ شام کو ایک جگہ کھانے پر جانا تھا، وہاں دیر ہو گئی۔ واپسی میں چوک پر صرف ایک ہی لڑکا پھول بیچ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کی طرف آتا اشارہ کھل گیا۔ کچھ دیر تک صبح کا اخبار پڑھتا رہا، یہ اس کی پرانی عادت تھی۔ صبح تیار ہوتے ہمیشہ دیر ہو جاتی اس لیے اخبار رہ جاتا۔ شام کو گھر آ کر جتنی دیر میں بیوی چائے بناتی، وہ اخبار کھنگال لیتا۔ کسی دن دیر ہو جاتی تو بستر پر لیٹے لیٹے ایک نظر ٹی وی پر ایک نظر اخبار پر، بیوی بہت چڑتی لیکن وہ بیک وقت اخبار بھی پڑھ لیتا اور ٹی وی بھی دیکھ لیتا۔

            اس رات بھی اخبار اور ٹی وی دیکھتے دیکھتے نیند آ گئی۔ صبح اٹھا تو طبیعت بشاش تھی، ناشتہ کیا، نوکر کو شام کے کھانے کے بارے میں بتایا اور میز سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکلا، ایک پاؤں دہلیز کے اندر ایک باہر۔۔۔  بونٹ پر سرخ رنگ کا گلاب مسکرا رہا تھا، مسکرائے جار ہا تھا۔

            معلوم نہیں وہ کتنی دیر اسی طرح کھڑا رہا۔ نوکر نے پیچھے سے پوچھا۔۔۔  ’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘

            وہ چونکا۔۔۔  ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمی کا احساس دلا رہی تھیں۔

            ’’یہ۔۔۔ ‘‘ اس نے بونٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔  ’’گلاب تم نے رکھا ہے؟‘‘

            ’’نہیں تو۔۔۔ ‘‘نوکر نے اس کے کندھے سے اچک کر بونٹ کی طرف دیکھا۔۔۔  ’’میں نے تو نہیں رکھا۔‘‘

            اسے احساس ہوا کہ نوکر عجب نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آگے بڑھ کر اس نے گلاب اٹھایا اور گاڑی کھول کر اُسے ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔

            راستہ بھر وہ کن انکھیوں سے گلاب کو دیکھتا رہا۔ لگ رہا تھا جیسے دماغ سُن ہو گیا ہے، دفتر میں کام کرتے ہوئے بار بار گلاب سامنے آ جاتا۔ دوپہر تک سر درد سے پھٹنے لگا۔ اس نے پی اے سے سردرد کی گولیاں منگوائیں اور ایک ساتھ دو گولیاں چائے کے ساتھ پی کر گھر لوٹ آیا۔ نوکر نے حیرت سے دیکھا۔۔۔ ‘‘جلدی آ گئے ہیں ، طبیعت ٹھیک نہیں لگتی۔‘‘

            ’’ہاں ‘‘اس نے سر ہلایا۔۔۔  ’’سوؤں گا،  کوئی فون آئے تو جگانا مت، کہہ دینا میں گھر پر نہیں۔‘‘

            شام کر سو کر اٹھا تو طبیعت بشاش تھی۔ کپڑے بدلے اور کلب کی طرف نکل آیا۔ کئی جان پہچان والے مل گئے۔ باتیں ہوئیں ،  کھانا بھی وہیں کھایا۔

            واپسی پر دو تین چوکوں میں پھول بیچنے والے لڑکے اس کی طرف لپکے لیکن اس نے ہر بار سر ہلا کر نفی میں جواب دیا، گھر سے پہلے والے چوک میں کچھ زیادہ رکنا پڑا۔ ایک چھوٹی سی بچی کھڑکی کی طرف آئی۔

            ’’صاحب جی۔۔۔ ‘‘اس نے پھول اس کی طرف بڑھائے، ان میں سرخ گلاب بھی تھا۔

            جی چاہا کہ پھول لے لے لیکن اس سے پہلے کہ کوئی فیصلہ کر پاتا اشارہ کھل گیا۔

            گاڑی پارک کرتے ہوئے اس نے اچھی طرح بونٹ کا جائزہ لیا۔ دروازہ بند کیا اور اندر آگیا۔

            نوکر نے پوچھا۔۔۔  ’’کھانا لگاؤں ‘‘

            ’’نہیں۔۔۔  میں کھا آیا ہوں۔‘‘

            بیڈ روم میں اخبار بڑی نفاست سے تہہ کیا سرہانے پڑا تھا۔ اس نے ٹی وی کھول دیا اور اخبار پڑھنے لگا۔ اخبار ختم ہو گیا لیکن نیند نہیں آئی۔ سرخ گلاب بار بار آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ سر جھٹک کر ٹی وی سکرین پر نظریں جمانے کی کوشش کی لیکن سرخ گلاب سکرین پر ابھر آتا۔ آدھی سے زیادہ رات اسی کشمکش میں گزر گئی۔ غنودگی میں آنکھیں بند ہوتیں ، تھوڑی دیر بعد چونک کر آنکھیں کھولتا۔ ٹی وی سکرین پر تصویریں دھندلا گئی تھیں اور سرخ رنگ کا گلاب اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اس نے کئی چینل بدلے، ہر چینل پر گلا ب موجود تھا۔ تنگ آ کر ٹی وی بند کر دیا۔ سونے کی کوشش کی، شاید کچھ دیر نیند آ بھی گئی۔ آنکھ کھلی تو صبح ملگجی لباس اتار رہی تھی۔ وہ جیسے کسی ہیجانی کیفیت میں ہو، دروازے کی طرف بھاگا۔ دروازہ کھولا، سامنے بونٹ پر تازہ تازہ گلاب،  سرخ گلاب۔

            اس نے ہیجانی انداز میں لپک کر گلاب اٹھایا اور زمین پر پھینک کر پاؤں سے کچل دیا۔۔۔  اسی لمحے ایک سسکی سنائی دی۔ وہ ساکت ہو گیا۔۔۔  معلوم نہیں کتنا عرصہ یہ حالت رہی۔۔۔  یہ سسکی، اس سسکی کو وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ رفعت کی ماں اچانک ہی بیمار ہو گئی تھی، اسے فوراً چھٹی نہیں مل سکتی تھی۔ اس لیے طے ہوا کہ وہ اکیلی ہی گاڑی پر گاؤں چلی جائے، وہ دوسرے دن آ جائے گا۔ صبح جب وہ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تو دفعتاً اس سے لپٹ گئی اور  اس کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔  یہ سسکی۔

            لیکن حیرت اور دکھ تو یہ تھا کہ اب تو وہ سب کچھ جان چکی ہو گی کہ رات کو سونے سے پہلے اس نے انشورنس کے لالچ میں گاڑی کے اگلے پہیوں کے نٹ ڈھیلے کر دیے تھے۔۔۔  پھر بھی وہ۔۔۔  !

            یہ گلاب کا موسم ہے!

٭٭٭

 

پژمردہ کا تبسّم

            گلابی آنکھوں اور سرمئی انگلیوں والی دیوی اپنے سنہری رَتھ پر سوار خراماں خراماں دہلی ایئرپورٹ پر اتر رہی تھی اور  اس کے پیچھے جہاز لینڈنگ کی تیاریاں کر رہا تھا۔ لاہور سے دہلی کا سفر اتنا ہی تھا کہ جہاز اُڑا تو چائے کی ٹرالیاں آ گئیں اور ابھی ایئر ہوسٹس برتن سمیٹ ہی رہی تھیں کہ کپتان کی آواز گونجی کہ کچھ دیر بعد جہاز دہلی ایئر پورٹ پر اترنے والا ہے۔ ایئر پورٹ کا منظر لاہور جیسا ہی تھا۔ کسٹم کے مسائل سے فارغ ہو کر آگے نکلے تو ان کی جماعت کے سربراہ نے اعلان کیا کہ سامنے کسٹم شاپ ہے، جس جس نے اپنا توشہ لینا ہو لے لے۔ لاہور اور دہلی کے ایئر پورٹوں میں بس یہی ایک فرق تھا کہ وہاں کسٹم شاپ پر شراب نہیں تھی اور یہاں رنگ برنگی بوتلیں اپنے چاہنے والوں کو آنکھیں مار رہی تھیں۔

            ایئر پورٹ سے باہر نکلے تو کار پارک،  لان، سڑکیں سب کچھ ایک جیسا تھا۔ جن لوگوں کی دعوت پر وہ کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے، ان کے نمائندے لابی میں موجود تھے۔ رسمی تعارف کے بعد سب کوچ میں بیٹھ گئے۔ ایئر پورٹ کے پاؤں میں لیٹا شہر جاگ چکا تھا، ایک بڑا شہر جو جمنا کے دونوں کناروں پر دور تک لیٹا ہوا تھا۔ لاہور اور یہاں کی سڑکوں اور لوگوں میں کوئی خاص فرق محسوس نہ ہوا۔ آنکھیں موند کر سیٹ سے ٹیک لگاتے ہوئے اس نے سوچا، سب کچھ کتنا بدل گیا ہے۔۔۔  قرنوں پہلے جب وہ قندھار سے دلّی کے لیے روانہ ہوا تھا تو اسے سفر کی صعوبتوں کا احساس نہیں تھا۔ روانگی کے وقت تو چچا زاد فرغانہ کی آنکھوں میں جھلملاتے ستارے تھے، جو قندھار سے رخصتی کے وقت اس کی آنکھوں میں چمکے تھے اور چچا آغا قلی خان کے تقاضے، کہ وہ جلدی دلّی پہنچے تا کہ فرغانہ سے اس کی شادی کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائے۔

            قندھار کے نواح میں ان کی بڑی حویلی تھی جس میں انار کے درخت ہی درخت تھے۔ ان درختوں کی چھاؤں میں وہ اور فرغانہ ایک ساتھ جوان ہوئے تھے۔ کھاتا پیتا گھرانہ تھا، کوئی پریشانی نہیں تھی کہ اچانک آغا قلی خان نے فیصلہ کیا کہ دلّی جا کر دربار میں رسائی کرے گا۔

            روانگی کا منظر بڑا اُداس تھا، فرغانہ کی کشادہ آنکھوں میں جھلملاتے ستارے چمک چمک کر بجھ رہے تھے۔ طے یہی ہوا تھا کہ آغا قلی خان دلّی جا کر جونہی مناسب ملازمت حاصل کرے گا اسے بھی بلا لے گا اور فرغانہ سے اس کی شادی دلّی ہی میں ہو گی۔ چھوٹا سا قافلہ جونہی نظروں سے اوجھل ہوا، قندھار اداس ہو گیا۔ انار کے پھولوں کی خوبصورتی ماند پڑ گئی اور اناروں کی مٹھاس میں ترشی آ گئی۔

            روزانہ شام کو وہ سرائے میں آ جاتا اور آنے جانے والوں سے دلّی کی خبریں معلوم کرتا لیکن چچا اور فرغانہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوتا۔ ایک شام وہ سرائے کے ایک کونے میں اداس بیٹھا گئے دنوں کو یاد کر رہا تھا کہ سرائے کے ملازم نے اسے پیغام دیا کہ ابھی ابھی قافلہ دلّی سے آیا ہے۔ وہ بھاگم بھاگ دوسری طرف آیا۔ قافلہ سالار دبیز قالین پر ریشمی تکیے سے ٹیک لگائے سستا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر چونکا، پھر بولا۔۔۔  ’’نوجوان! تم آغا قلی خان کے بھتیجے تو نہیں ، تمہاری صورت ان سے بہت ملتی ہے۔‘‘

            اس کے جواب پر وہ بولا۔۔۔  ’’تمہارے چچا تمہیں یاد کر رہے ہیں ، دلّی کی تیاری پکڑو۔‘‘

            قندھار سے نکلتے ہوئے اسے نہ سفر کی طوالت اور نہ اس کی مشکلات کا اندازہ تھا۔ چھوٹا سا قافلہ دن کو درختوں کے سایوں میں آرام کرتا اور رات کو چلتا کہ یہ گرمی کے دن تھے۔ لاہور پہنچتے پہنچتے اس کی کمر پتھر کی سل بن گئی، لیکن فرغانہ کی آنکھوں میں جھلملاتے ستارے۔۔۔  !

            یہ ابھی لہور تھا اور دلی۔۔۔

            ’’کتنا فاصلہ اور ہے؟‘‘ اس نے اپنے ساتھی سے پوچھا۔

            وہ ہنسنے لگا۔۔۔  ’’لگتا ہے بہت تھک گئے ہو۔‘‘

            لہور سے دلی۔۔۔  لیکن اب تو جہاز رَن وے سے اوپر اٹھ کر سیدھا ہی ہوا تھا کہ دہلی آگیا۔

            آغا قلی خان اسے دیکھ کر چونکا۔

            ’’ہاں میں نے ہی بلایا تھا مگر۔۔۔ ‘‘

            مگر کیا۔۔۔  ’’اس نے حیرت سے پوچھا۔

            ’’کچھ نہیں۔۔۔ ‘‘ جاؤ پہلے سفر کا اسباب کھولو، کھانا کھاتے ہوئے باتیں کریں گے۔‘‘

            وہ گھر کے اندرونی حصہ میں جانے کے لیے بے چین تھا لیکن آغا قلی اسے مردانہ حصہ میں لیے جا رہے تھا۔

            کھانا مردانہ حصے میں کھایا گیا۔۔۔  دو چار دوسرے لوگ بھی تھے اور ان کے اندازِ گفتگو سے معلوم ہو رہا تھا کہ آغا قلی کو کوئی خاص حیثیت حاصل ہے۔ اسے سب کچھ مصنوعی سا لگ رہا تھا۔ بار بار فرغانہ کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن آغا قلی ادھر آتا ہی نہیں تھا۔ بڑے رکھ رکھاؤ سے اسے سونے کے کمرے میں پہنچایا گیا۔ آغا قلی نے کہا۔۔۔  ’’باقی باتیں ناشتہ پر ہوں گی۔‘‘

            سفر کی تھکاوٹ فرغانہ کی غلافی گلابی آنکھوں پر حاوی ہو گئی۔ صبح آنکھ کھلی تو باغ میں پرندے چہچہا رہے تھے۔

            ناشتہ پر چچا کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔

            اس نے پوچھا۔۔۔  ’’فرغانہ کہاں ہے، کیسی ہے؟‘‘

            چچا کچھ دیر چپ رہا پھر دھیمی لرزتی آواز میں بولا۔۔۔  ’’جب میں نے تمہیں پیغام بھیجا تو صورتِ حال کچھ اور تھی لیکن قندھار سے دلّی ایک دن میں تو نہیں پہنچا جا سکتا۔‘‘

            وہ چپ ہو گیا، ایک عجیب تکلیف دہ خاموشی ان کے درمیان پاؤ ں پسار کر بیٹھ گئی۔

            کچھ دیر بعد چچا نے گہری سانس لی اور کہنے لگا۔۔۔  ’’اس دوران ایک دن بادشاہ کی نظر فرغانہ پر پڑ گئی اور بادشاہ تو صرف خواہش کا اظہار کرتا ہے۔‘‘

            پرندوں کی چہچہار یک دم بند ہو گئی۔ یوں لگا گلابی آنکھوں اور سرمئی آنکھوں والی صبح کا کھلتا رَتھ درمیان میں کہیں رک گیا ہے۔۔۔  چچا ناشتہ ادھورا چھوڑ کر اٹھ گیا۔ قندھار۔۔۔  لہور۔۔۔  دلّی!

            جھٹکے سے آنکھ کھل گئی۔ کوچ ہوٹل کی پارکنگ میں داخل ہو رہی تھی اور ان کے میزبان ہار لیے پورچ میں ان کے منتظر تھے۔

            پروگرام کے مطابق اس صبح سویرے دہلی سے نکل کر علی گڑھ جانا تھا، واپسی کی بھی یہی صورت تھی۔۔۔  اس کے پاس بس یہ رات ہی تھی۔ کھانا کھائے بغیر وہ ہوٹل سے نکلا اور رکشا پکڑ کر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جا اترا۔ جامع مسجد گھٹنوں کے بل بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ شروع کی چند سیڑھیوں پر میونسپل کمیٹی کے کھمبوں کی نحیف سی روشنی سسکیاں بھر رہی تھی، اوپر مسجد نیم تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ چند لمحے پہلی سیڑھی پر کھڑا رہا، کبھی اوپر دیکھتا، کبھی پیچھے چھوڑی سڑک کو جہاں اِکا دُکا رکشا آ جا رہے تھے۔

            کچھ سوچا۔۔۔  اور اوپر چڑھنے لگا۔ دفعتاً ساری فضا روشن ہو گئی، مسجد جاگ اٹھی، سیڑھیوں پر اترتے چڑھتے لوگوں کا شور، سامان بیچنے والوں کی آوازیں ، ایک طرف چھوٹے سے مجمع سے خطاب کرتے مقرر کی آواز۔۔۔  قدم قدم بھرتا اوپر پہنچا تو دائیں طرف قلعہ کی لمبی دیوار اور چوب دار کی آواز۔۔۔  نقارے پر تھاپ پڑی۔

            فرغانہ نے ریشمی تکیے سے سر اٹھایا، لمبے بالوں کو سیدھا کر کے، پشت پر ڈال کر باندھا،  بستر کی گرمی شہنشاہ کے ابھی ابھی جانے کی خبر دے رہی تھی۔ قلعہ کے اندر سے مسجد نظر نہیں آتی، لیکن وہ اوپر کی سیڑھی پر بڑے دروازے سے ذرا ہٹ کر ٹھنڈے فرش پر اکڑوں بیٹھا مسلسل قلعہ کی دیواروں کو دیکھے جار ہا تھا۔

            فرغانہ کی کنیزیں اسے غسل دینے کے لیے آ گئی تھیں ، ان کے جلو میں وہ نیم گرم تالاب کی طرف بڑھی جس کے شفاف پانی میں خوشبو بکھیر دی گئی تھی۔ فرغل اتار کر جب وہ تالاب میں اتری تو لگا بجلی کا کوندا چمک گیا ہے۔

            برسوں پہلے قندھار کے تالاب میں ، جو ان کے گھر میں پائیں باغ میں گھنے درختوں سے گھرا ہوا تھا، وہ اسی طرح بجلی کی لہر بنی تالاب میں اتر رہی تھی کہ وہ کہیں سے سامنے آ گیا۔ فرغانہ چیخ مار کر تالاب میں کود پڑی تھی۔ وہ کنارے بیٹھ گیا۔

            شہنشاہ کے آتے ہی کنیزیں ہٹ گئیں۔ شہنشاہ نے اپنا ہاتھ تالاب میں ڈال کر اسے پکڑنے کی کوشش کی، وہ مسکراتے ہوئے دور ہٹ گئی۔

            کھردرے ٹھنڈے فرش پر، قلعہ کی دیوار کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے، وہ نہ جان سکا کہ اس مسکراہٹ میں بے بسی تھی یا اطمینان۔

            رات گئے جب وہ لوٹا تو میزبان پریشانی کے عالم میں اسے تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ رات عجب تذبذب میں گزری، ویران اداس سیڑھیوں تک پہنچتا، جونہی پہلا قدم رکھتا سیڑھیاں جاگ اٹھتیں۔۔۔  جامع مسجد اس کی تاریخ تھی جس کی کلکاریاں ،  دورِ ماضی میں کہیں دم توڑ گئی تھیں اور یہ جدید شہر، جو اسی کی روایات کا امین تھا، اب کتنا اجنبی ہو گیا تھا۔ اجنبی تو یہ شہر اس وقت بھی نہیں تھا جب اسی شہر میں اس کا سب کچھ لٹ گیا تھا۔

            چچا نظریں چراتے تھے، اکثر کھانے پر وہ کوئی بہانہ بنا کر اِدھر اُدھر ہو جاتے لیکن خادموں کو حکم تھا کہ اس کا ہر طرح خیال رکھیں۔ چراغ علی، قندھار سے ان کے ساتھ آیا تھا، فرغانہ اور اس کے سارے معاملات سے واقف تھا، اس کی کیفیت دیکھ کر ٹو ٹ ٹوٹ جاتا، ایک دن کہنے لگا۔۔۔  ’’آقا! چلیں آپ کو نظام الدین لے چلوں ، وہاں کی برکت آپ کو ضرور سکون دے گی۔‘‘

            نظام الدین شہر کے والی تھے، جس طرح داتا صاحب لاہور کے رکھوالے تھے۔ دلّی آتے ہوئے وہ سلام کرنے داتا صاحب گیا تھا، ایک عجب بات ہوئی۔

            وہ دعا مانگ رہا تھا کہ ایک ملنگ اس کے قریب آیا، چند لمحے غور سے اسے دیکھتا رہا، پھر جیسے خود ہی بات کر رہا ہو، بولا۔۔۔  ’’لٹ تو سب کچھ گیا ہے لیکن کوئی اور بھی تو منتظر ہے۔‘‘

            جلدی سے دعا پڑھ کر دائیں بائیں دیکھا، ملنگ جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا۔

            دلّی آ کر معلوم ہوا کہ سب کچھ لٹ چکا ہے اور اب نظام الدین کے احاطہ میں قدم رکھتے ہوئے یک لخت سکون آگیا۔

            دروازے سے ایک بادشاہ جا رہا تھا اور ایک آ رہا تھا۔۔۔  یا شیخ یہ عروج و زوال کیا ہے؟ دن روشنی ہے تو رات تاریکی،  لیکن روشنی اور تاریکی تو ایک ہی ہیں۔

            نقطہ دائرے کا مرکز ہے لیکن تنہا دائرے کی حدوں کو نہیں چھو سکتا، دائرے کا مرکز لیکن دائرے کا قیدی۔

            دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسے داتا صاحب کے ملنگ کی بات یاد آئی۔۔۔  کون میرا منتظر ہے؟

            دعا مانگ کر وہ سنگ مر مر کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھ گیا، ایک عجب لذت کا احساس ہوا۔

            چراغ علی مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا۔

            ا ے شہر کے رکھوالے! ایک بھٹکی ہوئی بھیڑ اپنے ریوڑ کی تلاش میں ہے، اسے بشارت دو۔

            پھر ایک عجیب بات ہوئی، ایک درویش رقص کرتا بڑے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ رقص کرتے کرتے اس کے قریب آیا، رکا،  غور سے دیکھا اور بولا۔۔۔  ’’عشق شخص نہیں ‘‘

            اور رقص کرتا دوسری طرف نکل گیا۔

            چراغ علی اسے چاندنی چوک کی طرف لے گیا۔ شام ہو چکی تھی، لیکن لوگوں کا ہجوم اسی طرح تھا۔ دونوں خاموشی سے چلتے رہے۔ چراغ علی نے کھانس کر گلا صاف کیا، پھر بولا۔۔۔  ’’زرغونہ کہتی تھی آغا سے کہو پریشان نہ رہا کریں۔‘‘

            زرغونہ،  فرغانہ کی چھوٹی بہن تھی۔

            اس رات خوابوں کے دھندلکوں میں منظر عجیب طور بدلتے مٹتے رہے۔

            اگلے چند دن زرغونہ، فرغانہ اور۔۔۔  فرغانہ، زرغونہ کے ایک دوسرے میں مدغم ہو نے، ابھرنے، علیحدہ علیحدہ ہونے کی کشمکش میں گزرے۔ چچا کا رویہ ضرورت سے زیادہ مشفقانہ ہو گیا۔ دستر خوان پر ان کی پرانی جملہ بازی لوٹ آئی۔۔۔  پھر سب کچھ خواب کی کیفیت میں ہوا۔ زرغونہ سے شادی کے تیسرے دن وہ سلام کرنے نظام الدین آئے۔

            فضا میں موسیقی کی تانیں بکھری ہوئی تھیں اور قوال کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔

            اے خواجہ۔۔۔  اے خواجہ!

            کانفرنس کے آخری روز کچھ تھکاوٹ کچھ بے زاری کی وجہ سے اسے بخار ہو گیا۔ علی گڑھ سے دہلی کا سفر سوتے جاگتے گزرا۔ شام کو طبیعت ذرا سنبھلی تو خیال آیا کہ دہلی آ کر نظام الدین نہ گیا تو دہلی آنے کا کیا فائدہ۔

            رکشہ نے بڑی سڑک پر اتار دیا، چھوٹی سڑک پر آتے ہی احساس ہوا جیسے بڑے شہر سے نکل کر چھوٹے سے قصبے میں آگیا ہے۔ نظام الدین سے پہلے اب غالب کا مزار تھا، جہاں مرزا اپنے کنبے کے ساتھ لیٹے سارے شہر، ساری دنیا پر جملے کس رہے تھے۔ فاتحہ پڑھ کر وہ غالب کے پاؤں میں بیٹھ گیا۔ ’’اے عاشقوں کے عاشق! کچھ مجھے بھی عطا کر۔‘‘ ایک کبوتر کہیں سے اڈاری مار کر اڑا، فضا میں چکر لگایا اور چھوٹے سے گنبد پر بیٹھ کر غٹر غوں غٹر غوں کرنے لگا۔

            دو گلیاں آگے نظام الدین تھا، بڑے دروازے سے اندر آیا تو سامنے امیر خسر و تھے، انہوں نے اس کی انگلی پکڑی اور حضرت کے مرقد پر لے گئے۔ تا دیر دونوں چپ کھڑے رہے پھر کہیں سے تان ابھری۔۔۔

گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس

چل خسرو گھر آپنے سانجھ پئی چوندیس

            فضا میں عجب سی اداسی تھی۔

            وہ دن کہاں گئے جب یہاں ایک ہجوم ہوتا تھا۔

            جامع مسجد،  چاندنی چوک، نظام الدین، یہ سب میری تاریخ ہیں اور قلعہ۔۔۔  نہیں قلعہ شاید میری نہیں فرغانہ کی تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔  جامع مسجد کی سیڑھیوں سے قلعہ کا منظر بڑا خون آلود ہے!

            دوسرے دن دوپہر کو واپسی تھی۔۔۔  صبح سویرے اس نے قطب صاحب کی راہ لی، وہاں سیاحوں کا ہجوم تھا، ملک ملک کے لوگ اور وہ۔۔۔  جس کی یہ بھی ایک تاریخ تھی۔

            میری تاریخ میرے جغرافیہ کی وجہ سے تھی، جغرافیہ ہی نہ رہا تو تاریخ کے کیا معنی، ایک مردہ روایت۔

            دہلی سے لاہور پینتالیس منٹ کا سفر تھا، جو جہاز میں چائے کے آتے اور پیتے گزر گیا۔

            لاہور کے ہوائی اڈہ پر اترتے ہوئے اس کا ذہن قندھار، لاہور اور دہلی کے درمیان سفر کرنے لگا۔ درویش کہاں پیدا ہوا، کہاں کہاں کی خاک چھان کر دلّی پہنچا۔۔۔  اے خاک، بکھر کر بھی تو خاک ہی رہتی ہے اور ختم نہیں ہوتی۔ بس اڑتی رہتی ہے۔

            خاک قندھار سے اڑی، لہور کو چھوتی دلّی پہنچی، یہ جغرافیہ کا سفر تھا اور تاریخ تو میں خود ہوں۔

            ہوائی اڈہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر وہ جب لاؤنج سے گزر رہا تھا تو نظر ٹی وی پر پڑی،  سلائیڈ چل رہی تھی۔۔۔  ’’قندھار پر امریکی طیاروں کی شدید بمباری۔۔۔ ‘‘

            اس نے گھبرا کر دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے۔ بیگ نیچے جا پڑا۔۔۔  قندھار، لہور، دلّی سب ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

            وہ تن تنہا اپنے ہی ملبہ پر کھڑا اپنا جغرافیہ ڈھونڈ رہا ہے۔

٭٭٭

 

بادشاہ سلامت کی سواری

            عام آدمی تھا، اس لیے باقاعدہ طبّی معائنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، بیمار ہوئے تو کالونی کے ڈاکٹر سے دوا لے لی، وہ بھی پوری نہیں ، بس آدھا سا ٹھیک ہوئے تو دوا کے پیسے بچا لیے، سو یہ حملہ اچانک ہوتے ہوئے بھی اچانک نہیں تھا، کیونکہ کئی دنوں سے دل پر بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا، کھانے کے بعد سونف یا اجوائن کی چمچ آدھ چمچ تھوڑی دیر میں طبیعت بحال کر دیتی تھی، چنانچہ اس سارے بوجھ کو بدہضمی کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو جانا معمول تھا، لیکن اس شام مغرب پڑھتے ہوئے دل کی بے تابی کچھ غیر معمولی سی ہونے لگی۔ ڈاکٹر کا مطب زیادہ دور نہیں تھا، لیکن دو قدم اٹھانے بھی مشکل ہو رہے تھے، اس لیے بیٹے نے گاڑی نکال لی۔ ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہا کہ ذرا بھی دیر کیے بغیر ہسپتال لے جائیں۔ بیوی بھی ساتھ ہی گئی تھی، ڈاکٹر نے اس سے کہا۔۔۔  ’’جلدی، جتنی جلد ی ہو سکے۔‘‘ بیٹے نے گاڑی موڑی، وہ پچھلی سیٹ پر تھا، بیوی نے سر گود میں رکھ لیا اور کچھ ورد کرنے لگی۔

            گاڑی ہوا کی طرح اڑتی کالونی کی چھوٹی سڑک سے بڑی سڑک پر آئی، یہاں سے ہسپتال دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ بیٹے نے موڑ کاٹتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔  ’’بس دس بارہ منٹ میں پہنچ جائیں گے۔‘‘ لیکن جونہی وہ آدھے راستے پر پہنچا، آگے ٹریفک رکی ہوئی تھی، پوری طاقت سے بریک لگاتے ہوئے بھی گاڑی اگلی گاڑی سے بس ذرا سی اِدھر رکی، وہ اور بیوی اگلی سیٹوں سے جا ٹکرائے۔

            ’’کیا ہوا؟‘‘۔۔۔  ماں نے گھبرائے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔

            ’’سڑک بند ہے۔‘‘ بیٹے نے عجب جھنجلاہٹ سے کہا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر سکتا، پیچھے بھی گاڑیوں کی لائن لگ گئی۔ اب نہ آگے راستہ، نہ پیچھے مڑنے کی کوئی صورت۔

            گھبراہٹ میں ہارن پر ہارن دینے لگا۔ آس پاس کی گاڑیوں کے انجن تقریباً بند تھے اور لوگ اطمینان سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ اس کے ہارن دینے پر کئیوں نے کچھ حیرانی،  کچھ ناراضگی سے اس کی طرف دیکھا۔ ٹریفک کا ایک سارجنٹ کافی آگے سے دوڑتا ہوا آیا۔

            ’’کیا تکلیف ہے؟‘‘ اس نے غصہ سے چیختے ہوئے کہا۔

            ’’میرے ابو۔۔۔  ہسپتال‘‘ لفظ ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔

            ’’بادشاہ سلامت کی سواری گزرنے والی ہے۔‘‘ سارجنٹ نے بغیر کسی جذبے، جیسے کوئی روبوٹ بول رہا ہو، کہا۔

            ’’لیکن۔۔۔ ‘‘ اس کی چیخ سسکی میں بدل گئی تھی۔

            ’’لیکن کچھ نہیں ‘‘ سارجنٹ نے اسی رُکھائی سے جواب دیا، ’’جب تک بادشاہ سلامت کی سواری نہیں گزرے گی، ٹریفک نہیں چلے گی۔‘‘

            واپس جانے سے پہلے سارجنٹ نے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔  ’’اب ہارن نہ بجانا ورنہ سیدھے جیل جاؤ گے، اور ہاں ہیڈ لائٹ بھی بند کرو۔‘‘

            ہیڈ لائٹ بند کر کے اس نے بے بسی سے سر سیٹ سے لگایا۔ ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔  کیا بولتی۔

            اور وہ جو ایک عام آدمی تھا، اس وقت دل کی قلا بازیوں میں اُدھڑا جا رہا تھا۔ اب اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں بھی محسوس ہو رہی تھیں ، بیوی نے دو پٹے سے پسینہ صاف کیا، بے بسی سے اس کی طرف دیکھا اور جلدی جلدی دعاؤں کے ورد کر کے اس کے چہرے پر پھونکیں مارنے لگی۔

            لمحے۔۔۔  منٹوں اور منٹ کئی منٹوں میں بدل رہے تھے۔ بیٹا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اور سر اٹھا اٹھا کر آگے دیکھنے لگا۔ بادشاہ سلامت کی سواری کا ابھی کچھ پتہ نہ تھا، سب لوگ اطمینان سے ایک دوسرے سے بے خبر اپنے اپنے سٹیرنگ کے سامنے بیٹھے، اپنے اپنے خوابوں میں مگن تھے۔ کسی نے بھی اس کی بے بسی، بے چینی کو محسوس نہیں کیا۔

            لمحہ پر لمحہ۔۔۔  بیت رہا تھا اور اس کے دل کی رفتار کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوئے جا رہی تھی۔ پسینے سے ماتھا اور سر بھیگ گئے تھے۔ دوپٹے سے انہیں پونچھتے ہوئے بیوی کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دونوں میاں بیوی کی آنکھوں میں بے بسی تھی، وہی بے بسی جو عام آدمی کا مقدر ہے۔ بیٹا باہر بے بسی سے کبھی چند قدم آگے اور کبھی چند قدم پیچھے ہوتا۔ آگے بھی گاڑیوں کی لائن تھی، پیچھے بھی دائیں بھی اور بائیں بھی یہی صورت تھی۔ اس نے بے بسی سے بال نو چ لیے۔ کبھی پچھلے دروازے کے پاس آ کر باپ اور ورد کرتی ماں کو دیکھتا، کبھی اونچا ہو کر آگے کی طرف، بادشاہ سلامت کی سواری کا کوئی پتہ نہیں تھا اور باپ، باپ تو عام آدمی تھا، اس کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ نوکری کے دوران کبھی جی پی فنڈ سے،  کبھی ہاؤس بلڈنگ سے، کبھی بیوی کے زیور بیچ کر،  بچوں کو پڑھایا اور یہ گھر بنا یا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جو پنشن ملی اس میں بجلی گیس کے بل بھی ادا نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ شکر ہوا کہ بڑے بیٹے کو ملازمت مل گئی اور گھر کی گاڑی جو جھٹکے مارنے لگی تھی، اسی سست رفتاری سے پھر چل پڑی۔ دوسرے بیٹے کو بھی نوکری مل گئی، کچھ سکون سا آیا لیکن اب دل ساتھ چھوڑے جا رہا تھا۔ ہسپتال دور تھا اور راستہ میں بادشاہ سلامت کی سواری تھی۔ بیوی کو جو وظیفے یاد تھے سارے پڑھ لیے تھے، پھونکیں مار مار کر اس کا گلہ خشک ہو گیا تھا۔ بیٹا بے چینی سے چند قدم آگے جاتا، چند قدم پیچھے ہٹتا، اُچھل اُچھل کر آگے دیکھتا۔ رُکی ہوئی ٹریفک میں کسی کو کسی کی پرواہ نہ تھی، ہر شخص کے دکھ اتنے تھے کہ ان کے بوجھ سے اس کی گردن دہری ہو گئی تھی۔ ان میں سے زیادہ عام آدمی تھے اس لیے ان کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔

            اب اس کی سانسوں میں لڑکھڑاہٹ آ گئی تھی، بے چینی، بے بسی، آنکھیں بند ہوئی جار رہی تھیں۔ بیوی کے وظیفے ختم ہو گئے تھے اور بیٹا نڈھال ہو کر دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا تھا۔

            دفعتاً ہارنوں کی آواز سنائی دی۔ آگے چو ک میں بادشاہ سلامت کے گزرنے کی علامت، بیٹے نے انجن سٹارٹ کر لیا۔ رکی ہوئی زندگی رواں ہو گئی، بند انجنوں کے سٹارٹ ہونے سے کچھ عجب طرح کی افرا تفری ہو گئی۔ ہیڈ لائٹس جل اٹھیں۔

            ٹریفک آہستہ آہستہ سرکنے لگی۔ بیٹا کبھی مڑ کر پیچھے دیکھتا اور کبھی آگے۔ اس کا ایک پاؤں ایکسی لیٹر پر، کبھی بریک پر اور دوسرا گیئر پر تھا۔ گاڑی تیزی سے کھسکتی،  پھر اسی تیزی سے رکتی۔۔۔  اور پچھلی سیٹ پر بیوی کی گود میں سر رکھے، وہ جو ایک آدمی تھا، بس ساکت سا ہو گیا تھا۔ بیوی پر ایک عجب ہیجانی کیفیت طاری تھی، کبھی خاوند کے سر پر ہاتھ پھیرتی،  کبھی اس کے دل پر ہاتھ رکھ کر دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کرتی اور بیٹا۔۔۔

            چوک تک پہنچتے پہنچتے کئی منٹ لگ گئے۔ اس کے بعد بیٹے کو پتہ نہیں کہ گاڑی کس رفتار سے چلی، ہسپتال کے پورچ میں گاڑی رکتے، سٹریچر آتے، ایمرجنسی روم میں پہنچتے کتنی دیر لگی؟

            ڈاکٹر دیر تک چیک کرتا رہا، اس نے آنکھوں کے پپوٹے اٹھا کر،  دل کی دھڑکن کا آلہ لگا کر، نبض پر ہاتھ رکھ کر،  ہر طرح دیکھ لیا، پھر مایوس نظروں سے ماں بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔  ’’افسوس دس پندرہ منٹ دیر ہو گئی۔‘‘

            بادشاہ سلامت بخیریت اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ سارے راستے میں جگہ جگہ کھڑے متعدد پولیس والوں نے سکون کا سانس لے کر اپنی اپنی کسی ہوئی پیٹیاں ڈھیلی کر دیں ، ہسپتال کے پورچ میں عام آدمی کی لاش گھر لے جانے کے لیے ایمبولینس میں رکھی جا رہی تھی۔

            دو ایک باخبر قسم کے رپورٹروں کو واقعہ کی اطلاع مل گئی لیکن اس کے باوجود یہ خبر کسی چینل سے نشر ہو ئی نہ کسی اخبار میں چھپی، کیونکہ محکمہ اطلاعات کی ’’ہدایت‘‘ بر وقت جاری ہو گئی تھی۔

٭٭٭

 

یہ گھر

            یہ گھر مستقل طور پر بے چراغ تو نہیں ، لیکن ہر ڈھائی تین سال بعد اس کی روشنیاں پورچ میں جلتے زیرو کے بلب تک محدود ہو جاتی ہیں۔ گھر کا مالک ملک سے باہر ہے اور اس کا ایک دوست گھر کو کرائے پر دینے اور کرایہ اکٹھا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ کئی کرائے دار آ چکے ہیں لیکن کوئی کرائے دار ڈھائی تین سال سے زیادہ نہیں رہتا، کوئی نہ کوئی ایسی وجہ ہو جاتی ہے کہ اسے گھر خالی کرنا پڑتا ہے۔ ایک بار مالک مکان سب کچھ سمیٹ سماٹ کر وطن واپس آگیا اور اپنے گھر میں آباد ہو گیا۔ اس کا دوبارہ باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، بچوں کو سکولوں میں داخل کرا دیا گیا، خود اس نے چھوٹا سا کاروبار شروع کر دیا۔ لیکن اچانک جانے کیا ہوا کہ سب کچھ سمیٹا اور واپس چلا گیا، وہ صرف پونے تین سال اپنے گھر میں رہا۔

            اس گھر کے مکینوں کی مدت ہی ڈھائی تین سال تھی، جو بھی آیا لمبے عرصہ کے لیے رہنے کے لیے آیا کہ یہ جگہ شہر کے سب سے بڑے پارک کے پڑوس میں تھی۔ درختوں سے گھری ہوئی خاموش سی بستی، جہاں کی ہواؤں میں تازگی اور پانی میں مٹھاس تھی۔ یہاں رہنے والے بڑے پُر سکون اور ایک دوسرے کا احترام کرنے والے تھے، جو یہاں آگیا، واپس نہیں گیا۔۔۔  لیکن یہ گھر، یہاں ٹھہراؤ کی مدت ڈھائی تین سال تھی، کوئی نہ کوئی بہانہ ایسا بن ہی جاتا کہ مکینوں کو گھر خالی کرنا پڑتا۔

            گھر خالی ہوتا تو نئے مکین کے آنے میں بھی ڈھائی تین مہینے لگتے۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ ایک کنبہ کے جانے کے بعد فوراً ہی دوسرا نہ آتا، بلکہ درمیان میں ڈھائی تین مہینے کا وقفہ آ جاتا۔ اس دوران گھر کی ساری روشنیاں بجھ جاتیں۔ محلہ کا چوکیدار شام کو پورچ کی لائٹ آن کر دیتا،  زیرو کا بلب کسی نوحہ گر کی طرح رات بھر سسکتا، صبح چوکیدار جاتے ہوئے بلب بجھا دیتا۔

            جن دنوں یہ گھر خالی ہوتا، اسے دیکھ کر ایک عجب طرح کی وحشت کا احساس ہوتا، یوں لگتا اندھیرے کمروں میں کوئی چل رہا ہے۔ ہوا چلتی تو کوئی نہ کھڑکی ضرور کھل جاتی اور پھر ساری رات اس کے بند ہونے اور کھلنے کی آواز نیند میں خلل ڈالتی رہتی۔

            اسی طرح کے ایک موسم میں مَیں اپنی چھت سے اس کی چھت پر اترا۔۔۔  رات اندھیری تھی، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جو کسی بھی وقت آندھی کی صورت اختیار کر سکتی تھی۔ ممٹی کا دروازہ کھلا تھا، میں سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں آگیا اور آخری سیڑھی پر بیٹھ کر تماشا کرنے لگا۔

            گھر بولا۔۔۔  ’’میں کئی دنوں سے تمہارا منتظر تھا۔‘‘

            میں نے کہا۔۔۔  ’’ڈر لگتا تھا۔‘‘

            وہ ہنسا۔۔۔  ’’ڈر جاننے کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ہے۔‘‘

            میں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔  ’’سچ کہتے ہو، جو جاننا چاہتا ہے اس کے لیے ڈر کے لبادے کو اتار پھینکنا ضروری ہے۔‘‘

            کچھ دیر ہم چپ رہے، پھر میں نے پوچھا۔۔۔  ’’تیرا اسرار کیا ہے؟‘‘

            اس نے جواب دیا۔۔۔  ’’یہاں رہنے کی مدت طے ہے۔‘‘

            ’’سبب‘‘

            وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے ہنکارہ بھرا اور بولا۔۔۔  ’’برسوں پہلے یہ سارا علاقہ ایک جنگل تھا اور یہ جگہ۔۔۔ ‘‘ اس نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔۔۔  ’’ایک ٹیلہ تھی، جہاں شیخ کا قیام تھا۔‘‘

            ’’شیخ۔۔۔ ‘‘ میں نے سوئی سوئی سی آواز میں پوچھا۔۔۔  ’’مجھے کبھی کبھی ورد کی آوازیں آتی ہیں۔‘‘

            وہ مسکرایا۔۔۔  ’’شیخ ہر لمحہ ورد کرتے تھے، جب تھک جاتے تو ایک نعرہ مستانہ لگا کر لوٹ پوٹ ہوتے اور کبوتر بن کر فضا میں چکر لگاتے، تازہ دم ہو کر واپس آتے اور ورد شروع کر دیتے۔ ایک بار ورد شروع کیا، تین دن ہونے کو تھے کہ طبیعت میں جلال آیا، نعرہ مستانہ لگا کر لوٹ پوٹ ہوئے، کبوتر کا روپ بھرا اور ایک لمبی اڑان لی۔۔۔  اڑان میں کچھ ایسی قوت تھی کہ کشش کا دائرہ توڑ کر خلا میں جا نکلے!

            مریدوں نے تین دن انتظار کیا پھر اس ٹیلہ پر ان کی یادگار بنائی اور جنگل میں تتر بتر ہو گئے۔۔۔  سو ڈھائی اور تین کے درمیان کا عرصہ یہاں کا مقدر ہے۔

            اسی رات میں نے خواب میں دیکھا، ایک سفید کبوتر خلا میں اڑا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے پیچھے میں ،  لیکن میں جسم سے باہر ہوں ، ایک نقطہ سا ہے، جسے اپنے ہونے کا احساس ہے، کبوتر اڑا جا رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ ایک بلیک ہول کے قریب ہوتا جا رہا ہے لیکن اس کی اڑان میں ایک ایسی مستی اور جلال ہے کہ وہ بلیک ہول کی کشش میں آنے کی بجائے اپنا الگ رخ اختیار کر رہا ہے۔۔۔  اور میں جو صرف ایک نقطہ ہوں ، ہونے کے احساس کے ساتھ،  اس کے پیچھے پیچھے، بلیک ہول کی کشش سے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بلیک ہول کے وسط میں وہ ٹیلہ ہے جہاں کبھی شیخ ورد کرتے تھے۔ وقت ڈھائی اور تین کے درمیان کھڑا ہے۔۔۔  لیکن خلا میں وقت کا کیا تصور، خوشی کے احساس میں پھر ایک خوف، وقت کا دائرہ یہاں بھی میرے گرد ہے۔۔۔  دائرے کے بغیر نقطہ کا کیا تصور۔۔۔ ؟ کبوتر نے پر پھڑپھڑائے اور لمبی زقند بھری، نقطہ تیزی سے گہرائی کی طرف مڑا۔۔۔  نیچے، نیچے، اور نیچے۔ میں اپنے بستر پر بے چینی سے کروٹیں لے رہا ہوں اور میرے پڑوس میں وہ گھر ہے جہاں مکینوں کا قیام ڈھائی تین سالوں سے زیادہ نہیں۔۔۔  ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ اس ٹیلہ پر بنا ہے جہاں شیخ۔۔۔  !

٭٭٭

 

ہے نہیں ہے

            اس طرح کی باتیں تو اب معمول کا حصہ تھیں اور ردّ عمل بھی یوں ہی ہوتا تھا کہ ہنسے اور اپنی اپنی راہ لی۔ ہوا بھی یوں ہی کہ گفتگو کرتے کرتے کسی نے کہا۔۔۔  ’’پہلے قوم تھی اور ملک نہیں تھا، اب ملک ہے تو قوم نہیں۔‘‘

            وہ بھی سب کے ساتھ ہنسا اور تھوڑی دیر بعد اپنے معمول کی طرف چل پڑا، لیکن لگا کہ جیسے کوئی شے اندر ہی اندر رَڑک سی رہی ہے۔ دن بھر کے کام اسی طرح ہوتے رہے جیسے کولہو کا بیل اپنے مرکزہ کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے۔ روز ہی ایسا ہوتا تھا لیکن آج کوئی شے اندر ہی اندر رَڑک رہی تھی، نہ چبھن تھی نہ اطمینان، بس کچھ تھا، کیا تھا، تیز دوڑ کے دوران سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عرصہ سے سب کچھ ایک تیز چلتی مشین کی طرح تھا۔ آوازیں۔۔۔  حرکت، مسلسل تیز حرکت، کچھ سوچنے، غور کرنے کے زمانے تو خواب ہو چکے تھے، باتیں تھیں تو وہ بھی کھوکھلی، بے معنی، سنیں ، ہنسے اور وہی تیزی، لیکن آج کچھ گڑبڑ ہو گئی تھی کہ بات کے کوئی معنی،  کوئی رخ کسی ہلکے نوک دار اوزار کی طرح ذہن میں کہیں اڑ گیا تھا، چبھن تھی بھی اور نہیں بھی۔

            اسی تذبذب میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ دفعتاً احساس ہوا کہ رفتار کی تیزی میں کچھ کمی ہو رہی ہے۔ یہ بڑی غیر معمولی بات تھی، چوکنا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا، سب کچھ اسی طرح تھا۔ لیکن خود اسے احساس ہو رہا تھا کہ رک رک سا رہا ہے، رک رک کر چلنے کا عمل آہستہ آہستہ سلو موشن میں بدلنے لگا۔ اس کی رفتار تیز تھی اور چیزیں سست رو، جیسے مٹی کی کشش ختم ہو گئی ہو۔۔۔  یہ احساس لمحہ بھر، تا دیر یا ان گنت عرصہ تک رہا، اس وقت تک کچھ معلوم نہ ہوا۔۔۔  پھر دفعتاً پتہ چلا کہ چیزیں تو تیز رفتار ہیں ، وہ خود سلو موشن میں چلا گیا ہے۔

            اپنے آپ کا سلو موشن میں چلے جانا کا احساس بھی عجیب تھا، جس میں نہ کوئی دکھ تھا، نہ لذت،  کچھ باقی تھا کچھ نہیں تھا، جو نہیں تھا اس کا افسوس نہیں تھا، جو بچا تھا اس کی خوشی بھی نہیں تھی۔۔۔  بس چیزیں اس کے دائیں بائیں اوپر تلے سے گزر رہی تھی۔

            پھر عجب طرح کی باتیں ہوئیں۔ زیبرا کراسنگ پر اس کی رفتار اور حرکت اتنی مدھم ہوئی کہ گاڑیاں اس کے اوپر سے گزر گئیں۔ ایک بڑا ٹرک ہانپتا دوڑتا آیا اور وہ چیونٹی کی طرح اس کے نیچے آگیا، لیکن اس کا وجود ٹوٹا پھوٹا نہیں ، وہ خود کو جھاڑ جھوڑ کر پھر کھڑا ہو گیا، لیکن لگا کہ اس کھڑا ہونے میں اک زمانہ بیت گیا ہے، یہ زمانوں کا بیتنا بھی عجیب لگا۔ اتنی تیزی سے رات، اور رات دن میں بدلی کہ وہ لمحوں کی گنتی بھی نہ کر سکا۔ اب معلوم ہوا کہ مختلف مخلوقات میں زمان و مکان کے تصور الگ الگ کیسے ہوتے ہیں۔ چیونٹی کا ایک دن شاید ہمارا ایک لمحہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ گڑبڑ یہ ہوئی تھی کہ اس کا وجود تو سلو موشن میں چلا گیا تھا، لیکن ذہن اسی طرح کام کر رہا تھا۔۔۔  یہ دوئی بھی ایک عذاب ہے، عذاب تو اس نے ساری زندگی ہی بھگتے، کچھ اپنے خود کردہ فیصلوں کے عذاب، کچھ جلد بازیوں کے عذاب اور کچھ مروّتوں اور خلوص کے عذاب۔۔۔  سب کچھ کر کے،  آخر میں بُرا بننا اس کا مقدر تھا، اور اب بھی یہی ہو رہا تھا۔ ذہن برق رفتاری سے سو چ رہا تھا اور اس کا وجود،  حرکت اور عمل سست رفتاری کا شکار ہو گئے تھے شکار بھی وہ ازل ہی سے تھا، چلتے چلتے کسی نشانے کی زد میں آ جانا، نہ چاہتے ہوئے بھی شکاری کے تیر کے سامنے آ کھڑا ہونا، اب بچارا تیر بھی کیا کرتا۔ جب شکار کو خود ہی شکار ہونے کا چسکا ہو تو تیر اور تیر انداز کیا کرے۔ لیکن دکھ تو یہ تھا کہ کبھی کسی نے اسے سلیقہ سے شکار نہیں کیا۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا تھا کہ وہ اپنی سست رفتاری کی وجہ سے ہر شے کی زد میں آ رہا تھا، ہر شے اسے لپیٹ لپاٹ کر پرے پھینک رہی تھی، اوپر سے گزر رہی تھی، اسے لوتھڑا ہو جانا چاہیے تھا، لیکن اس آپا دھاپی،  مارا ماری کے باوجود اس کا وجود سلامت تھا۔۔۔  کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ فاصلے طویل ہو گئے تھے۔ گھر کہیں دور چلا گیا تھا۔ سڑک کا نہ کوئی کنارہ تھا نہ طوالت کی انتہا۔ لوگ دور دور چلے گئے تھے اور جب لوگ ہی اتنے دور ہو گئے تھے تو رشتے محبتیں کیسے قریب ہو سکتی تھیں۔ بس ایک اکیلا پن، تنہائی،  تیز رفتاری اور اس تیز رفتاری میں اس کا سلو موشن میں گیا وجود۔۔۔  !

            وجود بھی عجب شے ہے، ہونے کا ایک احساس، کسی مرکزہ کے گرد بُنا ہوا ایک جال، جس کے درمیان کوئی مکڑی کی سی شے سرسراتی رہتی ہے۔ اپنے ہونے کے احساس میں مگن، وجود کا کفن اتر بھی جائے تو مرکزہ موجود رہتا ہے اور ہونے کے احساس کی سرشاری قائم رہتی ہے۔ سلو موشن ہو یا تیز تر، یہ سرشاری اپنی ہے، صرف اپنی، جہاں کوئی بھی شریک نہیں۔۔۔  اور یہ شرکت بھی کیا ہے، صرف اس وقت تک جب تیز رفتاری قائم رہتی ہے اور وجود دوسروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی سکت رکھتا ہے۔ سلو موشن طاری ہوتا ہے تو شرکتیں دھند لانے لگتی ہیں ، ہر شے،  ہر رشتہ،  ہر محبت دور دور ہٹنے لگتی ہے۔ وہ بھی اسی کیفیت میں تھا۔ آہستگی، آہستگی، آہستگی، ہر شے، ہر محبت کو دور کھینچے لیے جا رہی تھی۔ ساحل کہیں دور،  موہوم لکیر کی طرح وجود کا احساس لیے ہوئے تھا۔ چاروں طرف سمندر تھا۔ تا حدّ نگاہ ایک ہی منظر، نیلے پانیوں میں ڈولتا ایک تختہ، جس کے لیے ڈوبنا، نہ ڈوبنا برابر تھا، ڈوب جاتا تو کیا، نہ ڈوبتا تو کیا۔۔۔

            سلو موشن اور سلو موشن ہو گیا، ایک لمحہ ایسا آیا کہ لگا حرکت رک گئی ہے، وجود کے مرکزہ میں سرسراتی مکڑی بھی کسی تار میں الجھ گئی ہے۔۔۔  سکوت کا ایک لمحہ، لمحہ کا بھی لمحہ، پھر دفعتاً جسے گئی بجلی پلک جھپکنے لوٹتی ہے تو ہر شے چل پڑتی ہے۔۔۔  سلو موشن پل بھر میں تیز تر حرکت میں بدلنے لگا، سامنے سے آتے ایک بڑے ٹرک سے بچنے کے لیے اس نے ایک طرف چھلانگ لگانے کی کوشش کی تو اُچھلتا ہی چلا گیا، اُچھلتا ہی گیا اور زمین کے مدار سے نکل گیا، یا شاید سمندر کی تہہ میں اتر گیا کہ خلا اور سمندر ایک ہی جیسے تھے، وجود کو سنبھالتے،  تیرتے تیرتے اس نے دیکھا، کسی کو اس کے چلے جانے کا دکھ نہ تھا، سب اپنی اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اس نے سوچا۔۔۔  وہ تھا تو دنیا نہیں تھی، اب دنیا ہے لیکن وہ نہیں۔۔۔  !

            لیکن یہی کیا کم ہے کہ ہونے کا احساس تو ہے!

٭٭٭

 

ایک مرحوم شہر کی یاد میں

            کہاں جانا ہے نہ معلوم،  راستہ مدھم مدھم اور فضا میں منڈلاتی رات آہستہ آہستہ نیچے اتر رہی تھی،  وسوسے،  وہم اور شک کونوں کھدروں سے جھانک جھانک رہے تھے۔

            ’’کدھر جانا ہے؟‘‘ اپنے آپ سے پوچھا،  لیکن اندر بھی گھپ اندھیرا۔

شہر سے نکلتے ہوئے اندازہ نہیں تھا کہ تعاقب کرتا اندھیرا اتنی جلدی آن پکڑے گا۔ لیکن اب آگے پیچھے کچھ نہیں تھا۔ سوائے تہہ در تہہ اندھیرے کے اور رات پاؤں پسار کر بیٹھ چکی تھی،  آس پاس کے درختوں پر بیٹھے پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں دبک گئے تھے۔ ایک عجب طرح کا خاموش شور تھا کہ دکھائی دینے والی چیزیں بھی گم سم ہو گئی تھیں اور دکھائی نہیں دیتی تھیں۔

’’یہ کیا اسرار ہے؟‘‘خود سے پوچھا۔ ’’دکھائی دے کر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

ماضی اور حال کے درمیان یہ نقطہ وقت کے بے رنگ کینوس پر اپنی پہچان کھو بیٹھا تھا

ایک کے بعد دوسرا دھماکا،  شہر آگ کی لپیٹ میں تھا لیکن احساس سے عاری شہر کے لوگ نہ یہ خوفناک آوازیں سن رہے تھے،  نہ آگ کی تپش محسوس کر رہے تھے،  آگ اب ان کے دروازوں پر تھی لیکن وہ اپنے اپنے گھروں میں نیند کے مزے لوٹ رہے تھے۔

شہر کے ایک ویران کونے میں جھگی نما چائے خانے میں چاروں درویش آمنے سامنے بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے، بہت دیر کی خاموشی کے بعد ایک،  جو ان میں ذرا عمر کا بڑا تھا بولا۔’’یارو، یہ عجب شہر ہے کہ شہر والے سو رہے ہیں اور مسافر جاگ رہے ہیں۔‘‘

دوسرا درویش جو عمر میں سب سے چھوٹا تھا،  ہنسا۔ ’’یا پھر یہ ہے کہ ہم سو رہے ہیں اور وہ جاگ رہے ہیں۔ ‘‘

’’یہ سوتے جاگتے کا قصہ بھی عجب ہے، تیسرا درویش بولا۔ ’’پہچان ختم ہو جائے تو اس سب کے کوئی معنی نہیں رہتے۔‘‘

دوسرا درویش جو ان سب میں ذرا سیانا تھا،  کھنکھارا، پھر کہنے لگا۔ ’’ہم اپنے اپنے آپ کو دریافت کرنے نکلے تھے، لگتا ہے اب انہیں دریافت کرنا پڑے گا۔‘‘

پہلا درویش ہنسا۔ ’’کھدائی کھنڈرات کی ہوتی ہے، لوگوں کی نہیں ‘‘

’’تم نہیں جانتے۔لوگ بھی کھنڈر بن جاتے ہیں ،  وہ صرف دیکھنے میں زندہ ہوتے ہیں۔‘‘

’’اس شہر کے لوگوں کے ساتھ بھی شاید یہی معاملہ ہے‘‘ چوتھا درویش فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ’’یہ لوگ خود کو زندہ سمجھتے ہیں لیکن اصل میں کھنڈر ہیں۔ کھنڈر ہی کھنڈر۔‘‘

یہ دیکھتے تو ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتا ‘‘ تیسرا درویش بڑبڑایا۔ ’’یہ سنتے ہیں لیکن سنائی نہیں دیتا‘‘

’’آنکھیں اور کان بند ہوں اور پھر بھی دیکھنے اور سننے کا دعویٰ کیا جائے۔ ’’پہلا درویش کہنے لگا۔ ’’تو پھر یہی ہوتا ہے جو اس شہر کے ساتھ ہو رہا ہے۔

اور ان کے دماغ ‘‘ چوتھا درویش رک رک کر بولا۔ ’’ان کے دماغ ان کی خود ساختہ عظمت کے خول میں بند ہیں۔ ‘‘

’’یہ عظمت کا نشہ بھی عجب چیز ہے۔ ’’پہلا درویش کہنے لگا۔ ’’مقابلے کی سکت نہ ہو اور عظمت کا نشہ چڑھا ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے۔‘‘

بہت دیر سکوت رہا، پھر چوتھا درویش تشویش سے بولا۔ ’’اس شہر کا کیا بنے گا؟‘‘

’’جو بننا تھا وہ تو بن چکا ‘‘ دوسرے درویش نے آہستہ سے کہا۔

’’قبر کھد چکی ‘‘ پہلا درویش خلا میں گھورتے ہوئے بولا،  لگتا تھا اس کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہے۔ ’’وقت گورکن ہے،  جو تاریخ کے قبرستان میں قبریں تیار رکھتا ہے۔‘‘

وقت کا گورکن ایک تازہ کھدی قبر کے سرہانے کھڑا،  اس کا جائزہ لے رہا تھا،  میں نے پوچھا۔ ’’یہ کس کی قبر ہے؟‘‘

وہ مسکرایا،  غور سے مجھے دیکھا اور بولا۔ ’’یہاں قبریں خود اپنے مردے کا انتخاب کرتی ہیں۔ ‘‘

’’اور تم۔ ‘‘ میں ڈر سا گیا تھا۔

’’میں صرف قبر کھودتا ہوں ‘‘ وہ پھر مسکرایا۔ ‘‘ مردہ خود ہی یہاں پہنچ جاتا ہے۔‘‘

میں اچھل کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا، وہ ہنسا،  خوب ہنسا۔ ‘‘ یہاں آنے والوں کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مر گئے ہیں۔ ‘‘

ذرا دیر خاموشی رہی، پھر وہ بولا۔ ’’کئی قوموں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ مر چکی ہیں ،  ان کے مردہ وجود سے سڑاند اٹھنے لگتی ہے لیکن وہ سونگھنے کی قوت سے محروم ہو چکی ہوتی ہیں۔‘‘

شائد تم ٹھیک کہتے ہو ‘‘ میں بڑبڑایا۔ ’’دوسرے ان کی موت کی تصدیق کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ خود اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ ‘‘

رات نے شہر کو اپنے اندھیرے پنجوں میں پوری طرح جکڑا ہوا تھا،  آگ ہر شے کو راکھ بنا رہی تھی۔ نیند کے خمار ہی میں جسم جل جل کر خاک ہوئے جا رہے تھے اور تعفن سڑک سڑک،  گلی گلی،  پھیل رہا تھا،  چاروں درویشوں نے اپنی اپنی ناکوں کو کپڑے سے ڈھانپ لیا۔

شہر کے اس ویران کونے میں جھگی نما اس چائے خانے میں وہ چاروں میز کے گرد بیٹھے خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

’’چند لمحوں بعد آگ یہاں تک پہنچ جائے گی ‘‘۔ پہلے درویش نے کہا۔ ‘‘ اس لیے ہمیں یہاں سے نکل چلنا چاہیے۔‘‘

’’افسوس ہم تابوت کو کندھا نہیں دے سکے ‘‘۔ چوتھا درویش تاسف سے بولا کسی نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا، چاروں آگے پیچھے،  چپ چاپ، شہر سے نکلنے والے راستے پر ہولیے۔

٭٭٭

 

خواب اندر خواب

صبح آنکھ کھلی تو طبیعت میں عجب طرح کی اداسی اداسی سی تھی،  یوں لگ رہا تھا جیسے چاروں طرف مایوسی کی پھوار پڑ رہی ہے، سونے سے پہلے ایکو یریم کی بتی بجھانے لگا تو مچھلیوں میں بڑی بے چینی تھی،  تیزی سے اوپر نیچے جا رہی تھیں ، سوچا پانی میں کرنٹ تو نہیں آگیا،  بے سوچے سمجھے ڈھکن اٹھا کر انگلی ڈبوئی،  پانی نارمل تھا،  مچھلیوں کی بے چینی کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ ادھر ٹی وی پر بریکنگ نیوز کے تحت دو لائینیں چل رہی تھیں۔

اوپر والی لائن تھی،  رویت ہلال والے دوربینوں کے ذریعے چاند تلاش کر رہے ہیں ،  لیکن ابھی تک کوئی اطلاع نہیں۔ دوسری لائن تھی،  ناسا نے مریخ پر پانی تلاش کر لیا ہے۔ اس کا ذہن عجب طرح گڈ مڈ ہو گیا۔

’’ہم کہاں کھڑے ہیں اور دنیا کہاں پہنچ گئی ہے‘‘ اس نے خود سے کہا۔

مرشد نے سن لیا،  بولا۔ ’’وہیں جہاں تمہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

مرشد کے طنز نے اسے غصہ دلانے کی بجائے اداس کر دیا۔ وہ خاموشی سے کمرے میں چلا گیا اور خلاف معمول کچھ پڑھے بغیر ہی سو گیا۔ برسوں سے عادت تھی کہ سونے سے پہلے دس بارہ صفحے کسی نئی کتاب یا رسالے کے ضرور پڑھ لیتا تھا،  اس کے بغیر نیند ہی نہ آتی۔ کہتا تھا یہ میری نیند کی گولیاں ہیں ،لیکن اس رات طبیعت میں ایسا تکدر تھا کہ پڑھنے کو جی نہ چاہا بس ذہن میں یہی جملہ گھوم رہا تھا کہ ’’ہم کہاں کھڑے ہیں ‘‘

صبح اٹھتے ہی یہ معمول تھا کہ پہلے مچھلیوں کو دانہ ڈالتا،  ایکویریم کا ڈھکن اٹھایا تو ایک مچھلی پانی کی سطح پر آخری سانس لے رہی تھی،  دوسری مچھلیاں اس سے لاتعلق نچلی سطح پر تیر رہی تھیں۔ جیسے ہی اس نے پمپ بند کیا اور ڈھکن کھولا تو ان کو معلوم ہو گیا کہ اب فیڈ آنے والی ہے،  وہ تیزی سے اوپر اٹھیں۔ سطح پر بے جان ہوتی مچھلی سے بے نیاز ان کے منہ کھل گئے۔ اس نے ایک ڈبہ میں پانی ڈالا اور جالی سے مرتی مچھلی کو نکال کر اس میں منتقل کر دیا۔

’’آسانی سے علیحدگی میں مر تو جائے‘‘ اس نے سوچا اور فیڈ کی چمچ ایکویریم میں ڈال دی۔ مچھلیاں اس پر ٹوٹ پڑیں۔

’’انہیں احساس تک نہیں کہ ان میں سے ایک کم ہو گئی ہے‘‘ اس نے سوچا اور خیال آیا کہ اس گھر میں اب اس کی بھی یہی کیفیت ہے۔ جب سے ریٹائر ہوا ہے۔ اس کی رائے کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ بیٹے اچھے عہدوں پر چلے گئے ہیں ، اب ان کی بات حتمی فیصلہ ہوتی ہے۔ اس کی دس پندرہ ہزار پنشن کی کوئی حیثیت نہیں۔ کوئی یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ وہ اس پنشن کا کیا کرتا ہے۔ گھر کا خرچہ بیٹے چلا رہے ہیں اور اب گھر میں وہ کچھ ہے جس کا اس کے دور میں تصور تک نہیں ہو سکتا تھا۔

ایکویریم کا ڈھکن بند کر کے وہ ڈبہ کے پاس بیٹھ گیا۔ اکیلی مچھلی آخری سانسیں شاید ہچکیاں لے رہی تھی۔ وقت لمحہ لمحہ گزر رہا تھا۔ اسے خیال آیا۔ اس کے وقت اور میرے وقت میں بھی بہت فرق ہو گا۔ مرشد قریب آ بیٹھا تھا،  بولا۔ ’’ہر مخلوق کا وقت کا اپنا اپنا تصور ہے، ہمارے نزدیک چیونٹی کے چند لمحے چیونٹی کے کئی سال ہیں۔‘‘

مچھلی اب دو تین اور سانسوں کی مہمان تھی، اس نے کہا۔ ’’موت کلی حقیقت ہے؟‘‘

مرشد نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’موت کے تو کئی اسرار ہیں ، ہاں کلی حقیقت یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن ہر کسی کو یہاں سے چلے جانا ہے۔‘‘

’’کہاں۔۔۔؟ اس نے سوال کیا۔

مرشد بولا۔ ’’یہ تو مجھے معلوم نہیں ،  ہاں کائنات اتنی بڑی ہے کہ کہیں بھی جایا جا سکتا ہے۔‘‘

’’اپنی مرضی سے ‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’انفرادی’ میں ‘کے ساتھ ‘‘

’’کچھ انفرادی’ میں ‘ کے ساتھ اور کچھ اجتماعی ’ہم کے ساتھ’

اس نے استفسار سے مرشد کی طرف دیکھا۔ ’’کیا مطلب ‘‘

مرشد نے کہا۔ ’’جن کی ’میں ‘ یہاں سلامت ہو گی ان کی ’میں ‘آگے بھی موجود رہے گی، اور جو یہاں کوئی رائے نہیں رکھتے،  ان کی آگے بھی کوئی رائے نہیں ہو گی۔ ‘‘

وہ کچھ دیر سوچتا رہا،  پھر بولا۔ ’’تو پوچھا اسی سے جائے گا جو جواب دینے کا اہل ہے۔‘‘

مرشد نے اثبات میں سر ہلایا

بہت دیر خاموشی رہی، اس دوران مچھلی آخری سانس لے کر ساکت ہو گئی تھی،

وہ بولا۔ ’’یہ وقت کے دائرے سے نکل گئی۔‘‘

مرشد نے کہا۔ ’’وقت کا دائرہ کبھی ختم نہیں ہوتا،  اس کی صورتیں بدلتی ہیں ، یہ ایک دائرے سے نکل کر اب ایک دوسرے دائرے میں چلی گئی ہے۔‘‘

اس نے ڈبہ اٹھایا اور اس کا پانی گرا کر مچھلی کو باہر کوڑے کے ڈرم میں پھینک دیا۔

’’کچھ دیر میں اسے یا تو بلی کھا جائے گی یا کیڑیاں اسے چاٹ جائینگی۔ ‘‘

اسے خیال آیا۔ ’’ایک دن میرے ساتھ بھی یہی ہو گا، شائد بہت جلدی۔‘‘

مرشد نے اس کے خیال کو پڑھ لیا۔ ’’تمھارے نہیں ،  تمھارے جسم کے ساتھ یہ ہو گا۔ ‘‘

’’میرے جسم کے ساتھ یہ ہو رہا ہو گا تو میں کہاں ہوؤں گا۔‘‘اس نے پوچھا

’’تم بھی وہیں موجود ہو گے۔ ‘‘ مرشد ہنسا۔

’’عجب الجھی ہوئی باتیں کر رہے ہو‘‘ اس نے جھنجلا کر کہا۔‘‘ میں ہوؤں گا بھی اور نہیں بھی،  کیا مطلب ؟‘‘

مرشد پھر ہنسا۔’’خواب میں سب کچھ ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا۔ ‘‘

دوپہر بھی اسی اداسی میں گزری،  کھانا کھانے سے پہلے وہ کوڑا ڈرم میں مچھلی کو دیکھنے گیا، بلی نے تو مچھلی کو منہ نہیں لگایا تھا البتہ چیونٹیاں اس طرح اس پر چڑھ دوڑی تھیں کہ مچھلی نظر نہیں آ رہی تھی۔ بس چیونٹیوں کا ایک ڈھیر تھا۔ کھانا کھا کر سونے کی پرانی عادت تھی، گہری نیند کے ایک دو گھنٹے شام کو تازہ دم کر دیتے تھے، لیکن اس دوپہر نیند میں بھی بے چینی اور اداسی رہی،  لگتا تھا کہ چیونٹیاں سارے جسم پر چڑھ گئی ہیں اور نوچ نوچ کر اسے کھا رہی ہیں۔ سارا جسم سن ہو گیا تھا،  بس ذہن جاگ رہا تھا۔

’’یہ خواب ہے یا حقیقت‘‘ اس نے خود سے پوچھا،  پھر جیسے اپنے آپ سے کہا۔ ’’شائد یہ خواب بھی ہے اور حقیقت بھی۔ ‘‘

دور سے مرشد کی آواز آئی۔ ’’ہم خواب اور حقیقت کے درمیان ہی تو کہیں ہیں۔‘‘

وہ چپ چاپ لیٹا،  چیونٹیوں سے اپنا وجود نچواتا رہا۔

٭٭٭

 

ایک پرانی کہانی جسے دوبارہ لکھا گیا

            گھوڑا شہر کے بیچوں بیچ کھڑا تھا،  لیکن کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے اندر چھپے سورما باہر نکلنے کے لیے بے تاب تھے، ان کی پیاسی تلواریں تازہ خون کی مہک کو ترس رہی تھیں ،مگر شہر کے باسی بے خبر اپنی ہو ہا ؤ میں مصروف تھے، فضا پر ایک عجب اداسی سی تیر رہی تھی،  بظاہر سکون میں افراتفری بھی نیچے کہیں موجود تھی، لیکن بظاہر سب ٹھیک تھا۔

مدرسوں میں استاد طالب علموں کو نئے علوم سے آگاہ کر ر ہے تھے لیکن انہیں خود معلوم نہ تھا کہ یہ علم کیا ہیں اور وہ کیوں اس کی تدریس کر رہے ہیں ،  مسجدوں میں شلوار باندھنے کی شرعی حیثیت پر بحث ہو رہی تھی،  دربار میں درباری بادشاہ سلامت کے نئے چوغے کی تعریف میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے اور بادشاہ سلامت دربار میں موجود خواتین میں سے آنے والی رات کے لیے حرم کی زینت بننے والی،  کے انتخاب میں مصروف تھے۔ ان کی متلاشی آنکھیں ایک ایک کو ٹٹول رہی تھیں۔ سب کی سب کئی کئی بار بادشاہ سلامت کی خواب گاہ کی زینت بن چکی تھیں۔ لیکن ہر بار انتخاب کا اپنا ایک مزہ ہے اور اس وقت بادشاہ سلامت درباریوں کی تحسین سے بے نیاز یہ مزہ لے رہے تھے۔

سیاح نے ٹھنڈا سانس بھرا اور اپنے آپ سے کہا۔’’یہ سارے اندھے ہیں ‘‘۔ پھر اس نے گھوڑے کی طرف دیکھا،  رات آسمان کی طشت کنارے سے سر نکال رہی تھی۔

’’ چند گھنٹوں بعد اس نے سوچا۔ ’’جب گھوڑے کا پیٹ چاک ہو گا اور سورما للکارتے ہوئے باہر آئیں گے تو شہر کا کیا حال ہو گا؟‘‘

لیکن وہ کسی سے کچھ نہ کہہ سکا۔ اس شہر کے لوگ شاید سننے یا سمجھنے سے بھی عاری ہو چکے تھے۔ سیاح اس طرح کی غلطی ایک دو بار کر چکا تھا اور مرتے مرتے بچا تھا۔ اس نے کسی سرائے میں کھانا کھاتے ہوئے کہہ دیا تھا۔ ’’یہاں کے کھانوں میں ذائقہ نہیں ،  ہوا میں تاثیر نہیں ،  کیا وجہ ؟‘‘

اس پر آس پاس بیٹھے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے کہ وہ  ان کے شہر کو برا کہتا ہے،  ضرور پڑوسی ملک کا جاسوس ہے۔ بڑی مشکلوں سے جان بچی۔

پھر ایک بار اس کے منہ سے نکل گیا۔ ’’یہاں کے لوگ ہوا سے لڑ رہے ہیں ،  جب سچ مچ کا دشمن آئے گا تو تھک کر ادھ موئے ہو چکے ہوں گے۔

اس بار بھی اس کی جان بچ گئی ورنہ شہر کا دشمن قرار دے کر اسے سولی چڑھا دیا جاتا۔

اب سیاح نے زبان بند کر لی۔ دیکھتا تھا مگر بولتا نہیں تھا، سوچتا ضرور تھا کہ۔ ’’شہر کے لوگ سننے سمجھنے سے محروم ہو چکے ہیں اور اب شاید ان کی بینائی بھی جاتی رہی ہے کہ شہر کے بیچ و بیچ اتنا بڑا گھوڑا انہیں دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘

آسمان کے طشت کناروں سے رستی شام اب گہری ہوئی جا رہی تھی، دفتروں سے نکلتے لوگوں کا ہجوم، بازاروں میں خریداری کرتے لوگوں کا رش،  سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ،  گھر پہنچنے کی جلدی۔ ریستورانوں میں شام کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ سیاح ایک کنارے کھڑا کبھی ان مصروف لوگوں کو دیکھتا اور کبھی شہر کے بیچو ں بیچ کھڑے گھوڑے کو۔ اس کے کانوں نے گھوڑے کے اندر بے چین آوازوں کو سنا، اس کے ہونٹوں نے پیاسی تلواروں کی پیاس کو محسوس کیا، اور ان بے خبر لوگوں کو دیکھا،  جو خطرے کی بحثیں تو کر رہے تھے لیکن یہ خطرہ کیا تھا اور کہاں تھا،  اس کی ان کو خبر نہ تھی،  خبر کے لیے کھلی آنکھوں ،  حساس کانوں اور جاگتے ذہن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تینوں حسیں اب ان سے رخصت ہو چکی تھیں ، سیاح کو کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ شہر والوں کو خبردار کرنا بے کار تھا، وہ خبردار ہونا ہی نہیں چاہتے تھے، شہر سے نکل جانے کا بھی اب وقت نہیں رہا تھا کہ فصیل کے سارے دروازے بند ہو گئے تھے۔

سیاح کو ہنسی آ گئی۔ ’’یہ اپنی بے خبری میں مارے جائیں گے اور میں اپنی با خبری میں۔‘‘

اسے ہنستے دیکھ کر پاس کھڑے ایک شخص نے حیرت سے اسے دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کیا۔

سیاح بولا۔ ’’میں کچھ ہونے کی بو سونگھتا ہوں۔‘‘

اس شخص نے غصہ سے سیاح کو دیکھا اور بولا۔ تم فساد پھیلانے والوں میں سے لگتے ہو، مغرب کی نماز ہونے والی ہے چلو نماز پڑھو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔‘‘ سیاح کچھ نہ بولا اسے یاد آیا۔ برسوں پہلے جب رات کو تاتاری دجلہ کے کنارے اترے اور رات گزارنے کے لیے آگ جلائی تو دوسرے کنارے پر محل کے جھروکے سے بادشاہ نے آگ کو دیکھا اور حواریوں سے اس کا سبب پوچھا،  حواریوں نے کہا۔ ’’حضور والا یہ جنگلی لوگ اپنی شہزادی آپ کو پیش کرنے حاضر ہوئے ہیں رات آن پڑی ہے، صبح پیش ہوں گے۔ ‘‘

بادشاہ سلامت ساری رات جنگلی شہزادی کے گدلائے جسم کی لذتوں میں مسحور رہے،  صبح سویرے تاتاری دریا عبور کر کے شہر میں داخل ہوئے۔ انگلیاں تسبیحوں پر رہ گئیں وار سر گود میں آن گرے۔

سیاح نے ٹھنڈی آہ بھری۔ دوسرا منظر اس سے بھی ہیبت ناک تھا۔ اندلس کے بازاروں میں سر کٹ رہے تھے لیکن عبادت گاہوں میں اصولی بحثیں زور شور سے جاری تھیں۔ پھر ایک ہزار سال تک وہاں اذان سنائی نہ دی۔

سیاح نے پھر ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ اب تیسرا منظر اس کے سامنے تھا۔ بادشاہ سر سے پاؤں تک زنجیروں میں جکڑا ہوا بیل گاڑی پر سوار شہر سے گزارا جا رہا تھا،  لوگوں کے سر جھکے ہوئے تھے۔

بے بسی اے بے بسی۔

سیاح میں اب کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی،  وہ وہیں دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ قہقہے لگاتے،  نیم دوڑتے لوگ گھروں کی طرف رواں تھے۔ ریستورانوں میں بحثیں عروج پر تھیں ، چائے کی پیالیوں میں انقلاب آ رہا تھا۔

سیاح نے ان سب سے دور۔ بہت دور ان قافلوں کو دیکھا،  جو لٹ لٹا کر شہر کی جانب آ رہے تھے۔

’’یا مظہر العجائب! یہ کیا معاملہ ہے۔ کیا دانش ان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکی۔‘‘

ہد ہد نے جب سارے پرندوں کو کہا کہ ہمیں سیمرغ سے ملنے کے لیے جو قاف پر رہتا ہے،  جانا چاہیے تو ہر ایک نے اپنا اپنا عذر بیان کیا، لیکن ہد ہد ہر ایک کو جواب دے کر لاجواب کرتا رہا۔

’’کیا اس شہر میں ایسا کوئی نہیں ‘‘سیاح نے سوچا۔

پھر اس نے شہر کے بیچو بیچ ایستادہ گھوڑے کی طرف دیکھا،  جس کے دروازے رات گہری ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

سیاح کو خیال آیا کہ اس گھوڑے کو کہیں باہر سے نہیں لایا گیا بلکہ شہر کے لوگوں کی موجودگی میں یہیں بنایا گیا ہے اور اس کے اندر چھپے ہوئے، ننگی تلواریں سونتے سورما بھی سب کے سامنے ایک ایک کر کے اس کے اندر گئے ہیں۔

’’یا غیب کے اسرار جاننے والے، کیا آنکھیں رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بھی ایسے اندھے ہوتے ہیں۔‘‘

سیاح کا جی چاہا اپنا سر نوچ لے۔ فصیل کے دروازے بند ہو چکے تھے اور گہری اندھیری رات آسمان کے طشت پر چاروں طرف پھیل چکی تھی اور اندھیرا کی پھوار مسلسل شہر پر گر رہی تھی۔ بلند و بالا عمارتیں ،  شاہراہیں ،  گلی کوچے اندھیرے میں گردن گردن ڈوب رہے تھے۔

شہر کے بیچو بیچ گھوڑا، کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا، اپنا ہی بنایا ہوا گھوڑا کسی کو کیوں دکھائی دیتا۔ سیاح نے ایک لمحے کے لیے اسے اور پھر چاروں طرف پھیلتی سیاہی کو دیکھا۔

’’چند لمحوں بعد۔‘‘ اس نے سوچا، خراٹے لیتا شہر،  خوابوں میں مگن لوگ۔

سیاح کو خیال آیا۔ ’’خواب ٹوٹنے کا المیہ بھی کتنا بڑا المیہ ہوتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اجازت دی اور سید زبیر جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید