FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

عالم خورشید: شخص اور شاعری

 

 

               جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

عالم خورشید سے ایک بے تکلف گفتگو

 

               رحمان شاہی

 

رحمان شاہی:پچھلے دنوں ہم نے ڈاکٹر عبد الصمد سے ان کی افسانہ نگاری اور ناول کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو رکارڈ کی تھی جس میں بہت سارے اہم نکات سامنے آئے تھے۔ اشاعت کے بعد اس گفتگو کو عام طور پر بہت پسند کیا گیا۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم اس سلسلے کو برقرار رکھیں۔ اتفاق سے ہم چاروں آج پھر یکجا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آج ہم عالم خورشید سے ان کی شاعری کے حوالے سے کچھ گفتگو کریں۔ آپ لوگ مناسب سمجھیں تو بات آگے بڑھائی جائے۔

عالم خورشید:یعنی آپ چاہتے ہیں کہ تین افسانہ نگار مل کر ایک شاعر کا تیا پانچہ کریں !

عبد الصمد:نہیں ایسا بھی کیا! اور اگر ایسا ہے بھی تو اس میں حرج ہی کیا ہے! اسی بہانے شاعری پر کچھ کارآمد گفتگو ہو جائے گی۔

اختر واصف:رحمان شاہی کی یہ تجویز بالکل مناسب ہے۔

عبد الصمد:بہتر ہو گا کہ ہم لوگ گفتگو شروع کریں۔ چلئے! میں ہی اس سوال سے آغاز کرتا ہوں کہ سب سے پہلے عالم خورشید یہ بتائیں کہ وہ شاعری کیوں کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:ظاہر ہے میں اپنے احساسات ہو خیالات دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ خصوصاً وہ احساسات و خیالات جو کسی طور پر باہر نہیں نکل پاتے اور میرے شعور و لاشعور میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ مجھے پریشان کرتے ہیں۔ جب یہ کاغذ پر منتقل ہو جاتے ہیں تو میری پریشانی کچھ کم ہو جاتی ہے اور میں قدرے عافیت محسوس کرتا ہوں۔

رحمان شاہی:اچھا عالم خورشید صاحب! اب آپ یہ بتائیں کہ آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کیا آپ نے بھی بیشتر شاعروں کی طرح چھ سات سال کی عمر ہی سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا؟

(قہقہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )

عالم خورشید:ارے نہیں بھائی! میں اس سلسلے میں بے حد بدنصیب ہوں۔ کالج کے زمانے تک میرا شعر گوئی سے دور دور تک بھی واسطہ نہ تھا۔ میں اسکول میں سنسکرت پڑھتا تھا اور کالج میں کامرس۔ اردو سے بس اتنی ہی واقفیت تھی جو ابتدائی دنوں میں اردو کہ پہلی دوسری کتاب پڑھ کر حاصل ہوتی ہے۔ میں تو اسپورٹس کا شوقین تھا۔ بلکہ با ضابطہ فٹ بال اور کرکٹ کے لیگ میچ کھیلا کرتا تھا۔ شاعری واعری مجھے کارِ زیاں محسوس ہوتی تھی۔ البتہ میں اپنے شریر دوستوں کے ساتھ کبھی کبھی مشاعروں یا نشستوں میں چلا جاتا تھا مگر شعر سننے نہیں بلکہ شاعروں کا مذاق اڑانے یا انہیں ہوٹ کرنے۔ شعر سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اب حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ کچھ عرصہ بعد میرا سابقہ ایسے دوستوں سے ہوا جنہوں نے شعر و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔

رحمان شاہی: ان میں سے ایک شاید یہاں بھی موجود ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

عالم خورشید:جی ہاں !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں اختر واصف صاحب بھی شامل تھے۔ ہم جب بھی ملتے بات کا رخ شعر وا دب کی طرف مڑ جاتا۔ افسانوں پر گفتگو ہوتی ، غزلیں سنائی جاتیں۔ پھر ان کا پوسٹ مارٹم ہوتا ، بحث و مباحثے ہوتے۔ مگر ان میں میری حیثیت سامع کی ہوتی یا شعر کی ایسی تشریح کرنے والے کی۔ ۔ ۔ ۔ جس کی طرف شاعر کا کبھی دھیان بھی نہ گیا ہو۔ خوب قہقہے لگتے۔ رفتہ رفتہ مجھے ان کی گفتگو میں لطف آنے لگا اور میں ادبی رسائل بھی پڑھنے لگا۔

اختر واصف:اور چپکے چپکے اشعار بھی کہنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:جی ہاں ! یہ بھی درست ہے۔ لیکن میری تک بندیاں میری ڈائری تک ہی محدود رہتی تھیں۔ شاید مجھے اپنے آپ پر اعتماد نہیں تھا۔ لہٰذا دوستوں کو بھی کبھی کچھ سنانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ میرے مطالعے کا شوق بڑھ گیا۔ فکشن پڑھنے کا شوق تو مجھے بچپن ہی سے تھا۔ ہمارے محلے میں ایک اچھی خاصی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ جس میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جو میں نے نہ پڑھی ہو۔ وہاں موجود گلشن نندا سے لے کر قرۃالعین حیدر تک کی ساری کتابیں میں پڑھ چکا تھا۔ لیکن ابن صفی میرے محبوب رائٹر تھے۔ اب تبدیلی یہ آئی کہ خاص طور پر خالص ادب پڑھنے پر توجہ دینے لگا اور فکشن کے ساتھ ساتھ شاعری کا مطالعہ بھی سنجیدگی سے کرنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان پر غور کر نے لگا۔ مطالعہ نے میرے اندر کچھ اعتماد پیدا کیا۔ پھر دو تین سالوں کے بعد میں نے اپنی ایک غزل ــ ’شب خون‘ اور دوسری غزل ’ شاعر‘ کو چپکے سے بھجوا دی۔ اتفاق سے دونوں رسالوں سے مثبت جواب آیا اور غزلیں شائع ہو گئیں۔ ہاں ! ان غزلوں کو بھیجتے وقت میں نے اپنے نام کی ترتیب الٹ دی تاکہ اگر غزلیں شائع ہو جائیں تو کسی کو کچھ نہ پتہ چلے کہ یہ کون صاحب ہیں۔ اس طرح میں خورشید عالم سے میں عالم خورشید بن گیا۔

رحمان شاہی:شعر گوئی ایک مشکل فن مانا جاتا ہے۔ بحر و اوزان اور عروض کی بھول بھلیاں تو اچھے کو اچھوں کو بھٹکا دیتی ہیں۔ آپ نے ان سب سے کس طرح واقفیت حاصل کی؟

عالم خورشید:بھائی! ان سب کے لئے سب سے پہلی شرط موزوں طبع ہونا ہے۔

اختر واصف:جو آپ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:جی شاید!لیکن میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میں نے اس سفر یعنی چھپنے چھپانے کے سلسلے کا آغاز ہی کیا ہی تھا کہ میری ملاقات شاہد کلیم صاحب سے ہوئی جو گیا سے ٹرانسفر ہو کر پٹنہ آئے تھے۔ ہم روزانہ ٹرین سے آرہ سے ٹرین کے ذریعہ ایک ساتھ پٹنہ آتے تھے۔ دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام ٹرین کے اس سفر میں ہماری گفتگو کا مرکز عام طور پر ادب ہی ہوتا۔ موصوف ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور شعر و ادب پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔ فن کی باریکیاں اور شعر گوئی کے اسرار رموز کی مشکلیں آسان کرنے میں انہوں نے میری بڑی مدد کی اور میرے کلام کی اصلاح بھی کی۔ میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور انہیں بلند درجات سے نوازے۔

یہ سلسلہ چھ سات برسوں تک چلا پھر میں آرہ سے پٹنہ منتقل ہو گیا۔ بقیہ راستہ مطالعہ نے ہموار کر دیا۔

عبد الصمد:۸۰ کے بعد ادبی منظر نامے پر ابھرنے والے شاعروں اور ادیبوں کو ما بعد جدید نسل کہا جا رہا ہے۔ آپ کا تعلق بھی اسی نسل سے ہے۔ ما بعد جدیدیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:سب سے پہلے میں یہ عرض کروں کہ میں ادب میں کسی لیبل یا برانڈ کے خلاف ہوں۔ یہ مسئلہ ناقدین کا ہے، فن کاروں کا نہیں۔ میں ادب کو خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھتا۔ اگر ناقدین اپنی سہولت کے ۸۰ کے بعد تخلیق کئے گئے ادب کو ما بعد جدیدیت کا نام دیتے ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے ، ہمارا نہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ ما بعد جدیدیت ناقدین کی اس کوشش کا نام ہے جو ۸۰ کے بعد تخلیق کئے گئے ادب میں در آئی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنا چاہتی ہے۔

عبد الصمد: تو کیا اس ما بعد جدیدیت کا تعلق بھی مغرب کی ما بعد جدیدیت سے ہے؟

عالم خورشید:جی نہیں ! اس کا تعلق مغرب کی اس ما بعد جدیدیت سے قطعی نہیں ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں نے کسی برانڈیڈ نظریئے یا فارمولہ کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرنے کا کام نہیں کیا۔ ۲۵۔ ۲۰ برسوں میں تخلیق ہوئے ادب میں اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف حالات کی تبدیلی ہے۔ اس سلسلے سے متعلق ایک بات اور بتاؤں کہ ۱۹۹۷ء میں منعقد ہونے والے سیمینار میں بھی ہم لوگوں نے نارنگ صاحب سے اس موضوع پر صاف صاف یہ باتیں کہی تھیں کہ ہم لوگ کسی لیبل کو پسند نہیں کرتے۔ اس سے پھر فارمولائی ادب کی انڈسٹریاں قائم ہونے خطرہ ہے۔ ہم لوگوں کو اس نام پر بھی اعتراض تھا۔ نارنگ صاحب نے ہمارے خیالات سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس ما بعد جدیدیت کا مغربی ما بعد جدیدیت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ اس کا مقصد اسی تبدیلی کا محاسبہ کرنا ہے جو ۸۰ء کے بعد کے حالات کے سبب اور یہاں کی مٹی سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کئی مضامین میں یہ باتیں لکھیں بھی۔ مگر تازہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سینئر ناقدین کو یہاں کے ادب میں آئی تبدیلیوں کا پتا کرنے کے دریدا اور فلاں چلاں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ جو نتیجہ سامنے آ رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اب تو ہر ناقد اپنے لواحقین کو مابعد جدید شاعر اور افسانہ نگار ثابت کرنے پر تلا ہے۔ اس میں عمر یا زمانے کی بھی قید نہیں۔ عجب نہیں کہ یہ تنقیدی لن ترانیاں میرؔ، غالبؔ کو بھی ما بعد جدید ثابت کر دیں۔

اختر واصف:مجھے یاد آتا ہے کہ ما بعد جدیدیت سیمینار سے تقریباً دس سال پہلے آپ کا مجموعہ ’ نئے موسم کی تلاش‘ شائع ہوا تھا۔ اس کے دیباچے میں آپ نے واضح طور پر لکھا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی شاعری کہ ترقی پسندی یا جدیدیت سے منسوب نہ کیا جائے۔ اس وقت جدیدیت کا بول بالا تھا۔ آپ کا یہ قدم ایک طرح سے اینٹی ویو تھا۔ آپ نے کیا سوچ کر یہ باتیں لکھی تھیں ؟

عالم خورشید:جہا تک مجھے یاد ہے میں نے اس دیباچے میں یہ بھی لکھا تھا کہ میری دانست میں ادب وقت اور زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ اور وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے وقت کے ساتھ

ساتھ زندگی اور اس کے نظامِ حیات میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ اس تبدیلی کے سبب ہمارے سوچنے ، سمجھنے کے انداز، حالات اور واقعات کو دیکھنے کا زاویہ اور رد عمل میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کو ہم اپنی نظروں سے پرکھ رہے تھے۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں کا جذباتی یا شدت پسندی کے ساتھ نہیں بلکہ معروضی انداز میں اپنا ورثہ سمجھ کر جائزہ لے رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے رویئے میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں وہ کسی تحریک یا رجحان میں مکمل طور پر فٹ نہیں ہو رہی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ کہ اس صورتحال میں ہماری تخلیقات کے ساتھ انصاف نہیں ہو پائے گا۔ اس لئے مجموعے کے دیباچے میں ان محسوسات کا میں نے اظہار کیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کہ میرا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔ کیونکہ بعد میں بہت سارے احباب اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

رحمان شاہی:اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کسی بھی تحریک ، رجحان یا نظریے کو نہیں مانتے! انہیں رد کرتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ کی شاعری کا کوئی نظریہ ہی نہیں ؟

عالم خورشید:بھائی! ہر شخص کا کوئی نہ کوئی نظریہ ، نظامِ فکر ضرور ہوتا ہے۔ چاہے اس پر اس نے غور کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ کسی شاعر یا ادیب کا نظریہ آپ کو معلوم کرنا ہو تو اس کی تخلیقات کا بغور مطالعہ کیجئے ! اس کا نظریہ ڈھونڈنے میں آپ کو زیادہ دشواری نہیں ہو گی۔ کسی تحریک یا رجحان کو سے آپ قربت محسوس کرتے ہیں تو اسی نظریئے کی مماثلت کی وجہ سے۔

رحمان شاہی:تو پھر ناقدین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں اور جس خانے میں چاہیں آپ کو فٹ کر دیں ؟

عالم خورشید:میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ دیکھئے ! یہاں معاملہ الٹا ہے۔ بیشتر لوگ کسی رجحان یا تحریک سے اس لئے جڑتے ہیں کہ وہ اسے سکۂ رائج ا لوقت سمجھ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ اس فیشن پرستی کے چکر میں وہ اپنی انفرادیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ترقی پسندی کے زمانے میں کیا ہوا! آپ کے سامنے ہے۔ بیشتر لوگوں نے ہوا کی تقلید میں نعرے بازی کو ادب کا اہم عنصر سمجھ لیا۔ جدیدیت کو بھی انہیں فیشن پرستوں نے نقصان پہنچایا جو فرار اور مایوسی ہی کو جدیدیت کی روح سمجھ بیٹھے اور اس کے دائرے کو محدود کر دیا۔ اس دائرے کے باہر کی چیزیں انہیں بے کار لگتی تھیں۔ یہ سب ان معصوم لوگوں کی شدت پسندی ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی بھول کر بیٹھے تھے کہ ادب کا سلسلہ ان پر ختم ہو گیا۔ اگر یہ شدت پسندی نہ ہوتی تو جدیدیت میں اتنی سوعت تھی کہ آنے والے ہر عہد کو وہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتی۔

رحمان شاہی:گویا آپ جدیدیت کو رد کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:بھائی! میں کسی تحریک یا رجحان کو رد کیسے کر سکتا ہوں۔ میں تو تمام تحریکوں کو تسلسل کے طور پر دیکھتا ہوں اور ان کو ایک ہی زنجیر کی کڑیاں مانتا ہوں۔ کیا ہماری نسل کا کوئی بھی فن کار اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ جدیدیت کی گود میں پلا بڑھا ہے !

رحمان شاہی: آپ اپنی بات کریں !

عالم خورشید:میں اپنی ہی بات کر رہا ہوں۔ کیا جدیدیت سے قبل لکھا گیا ادب ہمارا ورثہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ گزشتہ تحریکوں کی جو باتیں ہمیں کار آمد لگیں انہیں ہم اپنا لیں اور جو کارآمد نہیں لگیں ان سے دامن بچائیں ؟

اختر واصف:کیا آپ کی اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ کی شاعری کے ڈانڈے روایت ، ترقی پسندی اور جدیدیت تینوں سے ملتے ہیں یا ان تینوں کے اثرات آپ کی شاعری پر ہیں۔ یعنی آپ کی شاعری تین نکتوں کے درمیان کنفیوزڈ شاعری ہے!

عالم خورشید:آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ جو چاہیں نتیجہ اخذ کریں۔ مگر میں اس بات کو اس طرح کہوں گا کہ میں نے بلکہ ہماری نسل نے ان تینوں کے مثبت عناصر کو اپنے خون میں شامل کر لیا ہے اور آگے کے سفر پر مائل ہیں اور ہمارا یہ عمل بالکل فطری بھی ہے۔ کیونکہ زندگی کے مختلف رنگ ہیں۔ انسان کی تشکیل بھی کئی عناصر سے مل کر ہوئی ہے اور وہ مختلف کیفیات کا حامل ہے۔ آپ ہنستے بھی ہیں اور روتے بھی ہیں ، پیار ، محبت بھی کرتے ہیں اور لڑتے جھگڑتے بھی ہیں ، اداس بھی ہوتے ہیں اور فطرت کے مناظر سے لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ بیزار بھی ہوتے ہیں اور جوش و ولولے سے بھر بھی جاتے ہیں۔ یعنی یہ تمام کیفیات آپ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ان تمام کیفیات اور تجربات کا اظہار ہی تو ادب ہے! بشرطیکہ وہ اظہار خوبصورتی سے ہو، سلیقے سے ہو، فن کے پیرائے میں ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب کوئی تجربہ، کوئی واقعہ، کوئی خیال آپ کو اندر سے پریشان کرے۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح بیچین کرے کہ آپ اس کے اظہار پر مجبور ہو جائیں۔

عبد الصمد:اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ نئی نسل لکھتی زیادہ ہے، پڑھتی کم ہے اور سوچتی اس سے بھی کم ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:ادب میں ’ نئی نسل” کی اصطلاح مضحکہ خیز ہے۔ آپ کو لکھتے ہوئے ۳۵۔ ۳۰ سال ہو گئے ہوں گے۔ آپ کی اتنی کتابیں شائع ہو گئیں۔ آج بھی بعض ناقد آپ کا نام نئے فن کاروں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم لوگوں کو لکھتے ہوئے بھی ۳۰۔ ۲۵ سال ہو گئے مگر تمام لوگ نئی نسل میں شامل ہیں۔ بہر کیف! یہ اضافی بات ہو گئی۔

عبد الصمد:میرا سوال مطالعے سے متعلق تھا!

عالم خورشید:جی! میں اسی طرف آ رہا ہوں۔ یہ فقرہ بھی خوب ہے! میں نہیں سمجھتا کہ کوئی باشعور فن کار یا اچھا فنکار مطالعے کی اہمیت سے انکار کر سکتا ہے۔ مطالعہ تو کسی فن کا ر کے لئے غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر تو فن کار زیادہ دنوں تک زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ آپ کے کے وہ مشاہدے اور تجربے بھی تو مطالعے کے توسط ہی سے یا مطالعہ کے دوران ہی ذہن ودل میں جھماکے پیدا کرتے ہیں جو آپ کے لاشعور میں دبے پڑے ہوتے ہیں۔ ایک بات سے دوسری بات نکلتی

ہے اور ایک مضمون دوسرے مضمون کو جنم دیتا ہے۔ میرے دوستوں میں تو ایسا کوئی نہیں۔ البتہ آپ کے ہم عصروں میں ایسے کئی لوگوں کو میں ضرور جانتا ہوں جو فخریہ انداز میں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ میں کسی دوسرے فن کار کی تخلیق نہیں پڑھتا۔ یا تو وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا آپ ان کی تخلیقات پڑھ کر دیکھ لیجئے! یقینی طور پر وہ اپنے آپ کو دہرا رہے ہوں گے یا مکھی پر مکھی چپکانے

کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے ہوں گے۔

رحمان شاہی:مگر غور و فکر والی بات ادھوری رہ گئی!

عالم خورشید:اس سلسلے میں یہ عرض کرون گا کہ میں مجذوب کی بڑ کو شاعری نہیں مانتا بلکہ شعوری کوشش اور غور و فکر کا نتیجہ مانتا ہوں۔ آپ کو خود کبھی کبھی ایک اچھا سا جملہ لکھنے کے لئے گھنٹوں پریشان ہونا پڑتا ہو گا۔ اس جملے کو شعر بنانے میں اور بھی کتنی مشکلیں پیش آ سکتی ہیں اس کا اندازہ آپ بھی کر سکتے ہیں۔ ہاں ! یہ بات قابلِ قبول ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے یا اس سے بھی قبل لوگ جس طرح مطالعہ کرتے تھے اس طرح آج کے فن کار مطالعہ نہیں کر پاتے۔ لیکن اس کی بھی وجوہات ہیں۔ آج نہ تو شعر و ادب کے لئے ماحول سازگار ہے اور مطالعے کے لئے فضا موافق۔ آج آپ میرؔ، غالبؔ کی طرح ہول ٹائمر نہیں ہو سکتے۔ آپ کو زندہ رہنے کے لئے معاشی مسائل جھیلنے ہیں ، روزگار کی تلاش کرنی ہے، دفتروں میں آٹھ دس گھنٹے غیر ادبی کام کرنے ہیں۔ چار چار پانچ پانچ گھنٹے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک پہنچنے میں ضائع کرنے ہیں ، گھریلو ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ ان کے علاوہ آئے دنوں سیاست کی پیدا کی ہوئی نئی نئی مصیبتیں جھیلنی ہیں۔ پھر آپ کے پاس وقت ہی کتنا بچتا ہے؟ ہمارے یا آپ کے پاس مطالعے کے لئے یا شعر ادب کے لئے اتنی گنجائش نہیں ہے جو ہمارے بزرگوں کو حاصل تھی۔ اس کے باوجود اچھی خاصی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس معاشی حرص و ہوس کے دور میں بھی غیر منافع بخش جنون میں مبتلا ہیں اور اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر مطالعہ کر رہے ہیں ، شعر و ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے نہ کہ دل شکنی۔

رحمان شاہی:ہماری نسل کے کچھ فن کاروں کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں سینیئر فن کار اور نقاد دونوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:یہ شکایت ہر نسل کے فن کاروں کو اپنے پیش رو فن کاروں یا ناقدین سے رہی ہے۔

رحمان شاہی:گویا آپ نئی نسل کے اس الزام کو پورے طور پر تسلیم کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:دیکھئے! جب میں اس امر پر غور کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب صورتحال پہلے سے بہتر ہے۔ کیونکہ تحریکوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے پہلے جو شدت پسندی تھی اس میں بہت کمی آ گئی ہے۔ ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے یا رد کرنے کا رویہ جو پہلے تھا وہ اب بہت حد تک ختم ہو چکا ہے۔ نئے ادب پر خوب گفتگو ہو رہی ہے، مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ مضمون نگاروں میں سینیئر لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ آپ اگر مجھ سے ذاتی طور پر یہ سوال پوچھیں تو میں آپ کو بتاؤں

کہ میں خود کو اس معاملے میں بے حد خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے دوستوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائیاں اور دعائیں حاصل رہی ہیں۔

اختر واصف:اب ایک آخری سوال یہ کہ نئے موسم کی تلاش، زہرِ گل اور خیال آباد یعنی آپ کے تینوں شعری مجموعوں کی شاعری میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ یہ فرق موضوعاتی سطح پر بھی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی۔ کہیں یہ فرق شعوری کوشش کا نتیجہ تو نہیں ؟

عالم خورشید:ہاں ! کچھ حد تک۔ ۔ ۔

اختر واصف:گویا۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:بھائی! آپ نے میرے تینوں مجموعوں کی شاعری کے درمیان جو فرق محسوس کیا وہ فرق کچھ تو شعور کی پختگی اور ریاضت کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ مجھے اپنی شاعری کبھی مطمئن نہیں کرتی۔ میں ایک ڈگر پر بہت دنوں تک نہیں چل سکتا، بیزار ہو جاتا ہوں۔ لہٰذا سال دو سال تک چپ بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر جب یہ سفر شروع ہوتا ہے تو کوشش یہیں ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر کچھ نیا پن پیدا ہو۔

رحمان شاہی:کیا یہ عمل درست ہے؟

عالم خورشید:اب مجھے پتا نہیں کہ یہ عمل درست ہے یا نہیں۔ مگر میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ میرا نیا مجموعہ کارِ زیاں ترتیب پا چکا ہے۔ اس میں تبدیلی کچھ اور واضح نظر آئے گی۔

٭٭٭

 

 

عالم خورشید کی شاعری کا مرکزی کردار

 

               ارشد عبدالحمید

 

عالم خورشید ہمارے عہد کے نمائندہ شعرا میں سے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ربع صدی میں اپنے عہد اور اپنی نسل کے مسائل کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اپنے ہم عصروں میں ان کی شاعری اس اعتبار سے نمایاں ہے کہ انہوں نے کلام کی کیفیت اور تاثراتی فضا سازی کے طلسم میں پڑنے کی بجائے تجربے کے بے کم و کاست اظہار کو ترجیح دی ہے۔ اسلوب کی گھلاوٹ اور کیفیت کے مقابل محض تجربے کی سچائی پر فن کی تخلیقی اساس قائم کرنا جرأت کی بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیفیت سامع یا قاری کو فورا گرفت میں لیتی ہے اور تاثراتی فضا سازی جذباتی مقبولیت حاصل کرنے کا آسان سا نسخہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ کیفیت والی شاعری بیکار یا پست ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ کیفیت شاعری کے دیگر اسالیب اور خصوصیات کو مسترد کرنے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔

تاثراتی فضا سازی کے بغیر تجربے کو قابلِ قبول بنانا ایک مشکل کام ہے۔ اتنا مشکل کہ ایک نوع کی نا شاعری کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ترقی پسند شاعری کی مثال سامنے ہی ہے۔ لیکن کیفیت سے گریز کے معنی شاعری سے گریز کرنا نہیں ہے۔ معنی آفرینی اس کا ایک وقیع متبادل ہے اور اگر کثیر ا لمعنویت مقصود نہ ہو تب بھی موضوع اور معنی اور معنی کی مرکزیت ایک ایسا طریقہ ہے جس میں تجربے کا کھرا پن شاعری بن جائے تو وہ کیفیت اور معنی آفرینی سے کم اہمیت کا حامل نہیں۔ عالم خورشید کا مرکزی شعری سروکار اسی نوع کی شاعری سے ہے۔ انہوں نے شعری لسانیات کو وقوعہ بنانے کی جگہ واقعے اور واردات کی غیر آلود عکاسی کو بالعموم ترجیح دی ہے اور تجربے کے کھرے پن پر انحصار کیا ہے۔ غالباً اسی جرأت مندی کے باعث وہ اپنے ہم عصروں میں نمایاں بھی ہیں اور معتبر بھی۔

عالم خورشید نے اپنے اور اپنے عہد کے آشوب کو شاعری بنانے کے لئے کن اجزاء سے کام لیا اور یہ اجزاء انہیں فن کی دس سطح تک بلند کرنے میں معاون ثابت ہوئے اس کا فیصلہ کرنے کے لئے ان کی شاعری کے مرکزی کردار کی شناخت لازمی ہے۔ یہ شعری کردار اپنی پیش رو نسل کے شعری کردار سے کس حد تک مختلف ہے اس کا اندازہ ہر دو کرداروں کے تقابل سے بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ سرِ دست ان دو اشعار کو دیکھیں :

 

تمہارے ہجر کا موسم بھی دیر تک نہ رہا

ہمارے شہر میں ہر لمحہ رت بدلتی رہی

 

اس نے ٹیلیفون کیا ہے اور کسی کے ساتھ ہے

اس کا میرا سمجھوتا ہے کون بڑھائے بات کو

 

تقریباً ایک ہی نوعیت کے ان دو اشعار میں مرکزی شعری کردار کا فرق ہی بنیادی فرق ہے۔ پہلے شعر میں مسئلے کو جس طرح سب لائم کیا گیا ہے دوسرے شعر میں سمجھوتا اور کون بڑھائے بات کو   وغیرہ نے اسے لاؤڈ بنا دیا ہے۔ پہلا شعر عالم خورشید کا ہے اور دوسرا ان کی پیش رو نسل کا۔ اس مثال سے واضح ہے کہ شاعری میں کردار کا حوالہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ عالم خورشید کی شاعری تجربے کے ارتکاز اور سب لیمیٹی کی شاعری ہے لہذا انہوں نے اپنے مسائل کی شناخت پر زیادہ توجہ دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں دہراؤ کا عمل نہیں ہے۔ ان کے یہاں مسائل کے حوالے سے ترجیحات تو بیشک ہیں لیکن کسی خاص مسئلے سے محبت اور اس محبت کے نتیجے میں اسی کمسئلے کو بار بار اجاگر کرنے کا شوق نہیں پایا جاتا۔ یہ وہ خوبی ہے جو مضامین کی تلاش اور تنوع کو راہ دیتی ہے۔ عالم خورشید نے بطور فرد اور بطور سماجی رکن ، جن مسائل کو موضوع بنایا ہے ان میں سے بعض کا اندازہ درجِ ذیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:

 

ہمارے ہاتھ میں فردا کی ڈور ہے لیکن

ہمارا رابطہ ماضی سے ہے نہ حال سے ہے

 

نہ جانے ارتقاء کی کون سی منزل پہ نکلا ہے

دبا کر سیکڑوں چنگاریاں ہر فرد مٹھی میں

 

یہ عقدہ کھل نہیں پاتا ہماری کم نگاہی میں

کہ اپنے ہاتھ بھی شامل ہیں اپنی ہر تباہی میں

 

بجا ہے جھوٹی بانگوں سے ہی اپنے خواب ٹوٹے

مگر مجرم ہماری نیم خوابی کم نہیں ہے

 

کسی ساحل پہ جاؤں ایک ہی آواز آتی ہے

تجھے رکنا جہاں ہے وہ کنارہ اور ہے کوئی

 

ہوا سے آنکھ ملانا مری سرشت میں ہے

میں راستے کا دیا ہوں کوئی جلائے تو

 

اداس دل ہے تو چہرہ بھی ہو اداس مرا

الگ الگ سی فضا ہر گھڑی کھٹکتی ہے

شکم کی آگ بجھانے ہم پریشاں ہیں

ہمیں کہاں ہے سعادت گناہ کرنے کی

 

ہمارے خون سے شاداب ہے زمیں لیکن

ہمیں کو اس نے کبھی معتبر نہیں سمجھا

 

قطار باندھے ہوئے ٹکٹکی لگائے ہوئے

کھڑے ہیں لوگ محبت کی اک نظر کے لئے

 

میں نے بھی بچپن میں اک نقشہ بنایا تھا مگر

زندگی کتنی الگ نکلی مری تصویر سے

 

اس طرح کے اور بہت اشعار نقل کئے جا سکتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ان چند اشعار میں بھی معنی پر تاکید مسائل کا تنوع اور غیر تاثراتی اظہار کی جھلک موجود ہے۔ ان اشعار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم خورشید کی شاعری کے مرکزی کردار کو کس نوع کے آشوب کا سامنا ہے۔ جن ہاتھوں میں فردا کی ڈور ہے ان کا ماضی اور حال سے ربط باقی نہ رہے، لوگوں کی مٹھیوں میں چنگاریاں بھری ہوں ، جب ہم نیم خوابی کی حالت میں ہوں ،جب ہم یہ جان لیں کہ ہم دیا تو ہیں لیکن ہمیں روشن کرنے کے لئے دوسرے ہاتھوں کی ضرورت ہے، جب ہر ساحل پر پہنچ کر یہ معلوم ہو کہ وہ ہمارا ساحل نہیں ہے، جب ہم ایسے ماحول میں زیست کرنے پر مجبور ہوں جہاں دل کی اداسی کے باوجود مسکراہٹ اوڑھنا پڑے، جہاں شکم کی آگ بجھانا سب سے پڑا مسئلہ ہو، محبت ڈھونڈے نہ ملے اور زندگی اس تصویر سے یکسر مختلف نکلے جو تصویر امیدوں نے مرتب کی تھی… تو ایسے انسان کے آشوب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

ان تمام مسائل میں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں عالم خورشید نے زیادہ شدت سے محسوس کیا ہے۔ ہمارے عہد کی سیاسی صورتِ حال ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ نعرے بازی یا کسی خاص سیاسی نظریئے سے و ا بستگی ان کا رجحان نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ عام انسانی مشکلات کو فن کی بلندی تک لے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کسی بھی اچھے شاعر کی طرح سیاسی بحران کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس کے ادراک و انکشاف کو ناوابستگی کے ساتھ ہنر مندی کا جامہ پہنا دیا ہے۔ مثال کے لئے:

 

ان چراغوں سے اجالے کی توقع ہے عبث

جن چراغوں کی ہوائیں ہی خبرداری کریں

 

قفس کو وا کیا لیکن مرے پر کاٹ ڈالے ہیں

نئے صیاد نے ڈھونڈی نئے آزار کی صورت

 

شاخوں پر پتوں کے بدلے سرخ شرارے نکلے ہیں

جانے کیسی برف گری ہے اب کے سبز چناروں پر

 

رفتہ رفتہ ڈوب رہی ہے اک اک کشتی لنگر کی

ہنستے ہنستے دیکھ رہے ہیں مانجھی کھیل کناروں پر

 

پھول ہاتھوں میں لئے اب سرِمحفل آئے

نئے انداز سے ملنے مرے قاتل آئے

 

کسی کو آب کا وعدہ ،ہمیں سرب ملے

امیرِ شہر سے سب کو حسین خواب ملے

 

اس موضوع پر بھی ان کے متعدد اشعار نقل کئے جا سکتے ہیں لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس طرح کے تقریباً سبھی اشعار میں براہِ راست رائے زنی کا شائبہ تک نہیں۔ کہیں کہیں صیاد اور قفس والی روایتی لفظیات ضرور موجود ہیں لیکن سرخ شرارے اور سبز چنار کی تازہ استعاریت بھی ہے۔ اس سیاسی بحران کا ایک سنگین پہلو یہ ہے کہ اس نے سماج کے ایک خاص طبقے کو غیر ملکی یہاں تک کہ ملک کا غدار تک قرار دے دیا ہے۔ سن حالات میں اگر شاعر اس طرح سوچنے لگے کہ:

 

اس کی بنیاد میں میرا بھی لہو ہے لیکن

جب وہ چاہے گا یہ کہہ دے گا کہ گھر اس کا ہے

 

ہمارے کھیت ہی کیوں خشک ہیں ذرا سوچیں

پہاڑ کاٹ کے دریا تو ہم نکالتے ہیں

 

یہ کیا ہو کہ اندھیرے ہی آج تک آئے

ہمارے گھر بھی اجالوں کی کچھ چمک آئے

 

ضرور کھوٹ ہے تقسیم کے طریقے میں

کہیں ایاغ بہت ہیں کہیں ایاغ نہیں

 

تو ظاہر ہے کہ وہ صورتِ حال کو بلا کم و کاست ظاہر کرنے کا فریضہ ہی ادا کر رہا ہے۔ اس صورتِ حال پر جذباتی تاثراتی تقریر کرنے یا جذباتیت کو ابھارنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں۔ لیکن غیر جذباتی انداز کے اظہار سے یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ شاعر اس صورتِ حال سے متاثر نہیں ہے۔ ہر ذی حس کی طرح یہ ناہمواری اور یہ تظلم اسے بھی متاثر کرتا ہے لیکن وہ آپے سے باہر نہیں ہوتا۔ عالم خورشید کی شاعری کا مرکزی کردار جس سنبھلے ہوئے اور متناسب رویئے کا حامل ہے وہ یقیناً اس کردار سے مختلف ہے جو ایسی صورت میں یا تو انقلاب انقلاب چلانے لگتا ہے یا پھر ذات کے نہاں خانوں میں گم ہو جاتا ہے۔ عالم خورشید کی شاعری کا یہ مرکزی کردار نہایت مناسب انداز میں خود احتسابی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اس ظلم کے پس منظر میں سب سے پہلے اس بات پر غور کرتا ہے کہ کہیں وہ خود بھی تو اس ظلم میں شریک نہیں۔ سماج کے ایک فرد کے طور پر اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسی ہر ناہمواری کے خلاف احتجاج کرے لیکن اس کا یہ احتجاج کسی سیاسی مفاد کی خاطر نہ ہو بلکہ انسانی فرض کی ادائیگی کے طور پر ہو۔ یہی وہ فکر ہے جو عالم خورشید کے شعری کردار کو خود احتسابی کی اخلاقیات کی طرف موڑتی ہے۔ یہ اخلاقیات انہیں وعظ و پند کی بے کیفی تک نہیں لے جاتی بلکہ اپنے تئیں ذمے داری کے احساس سے متصف کرتی ہے۔ مثلاً:

 

کوئی بھی کاسہ لئے جب ہمیں نظر آیا

ہماری جیب کے سکے لگے چرائے سے

 

ملی ہے جب سے سزا بے گناہ لوگوں کو

ہم اپنے ہاتھ لگاتار دھوئے جاتے ہیں

 

خموش کیا رہے اک بار مصلحت سے ہم

پھنسا ہوا ہے ابھی تک رگِ نفس میں کچھ

 

میں رشوت کے مصلے پر نمازیں پڑھ نہ پایا

بدی کے ساتھ مجھ سے بندگی ہوتی نہیں ہے

 

اٹھائے سنگ کھڑے ہیں سبھی ثمر کے لئے

دعائے خیر بھی مانگے کوئی شجر کے لئے

 

ہمیں تو اب عدو بھی دوست جیسے لگ رہے ہیں

ذرا کچھ اور ہم نے دل کشادہ کر لیا ہے

 

اخلاقیات کی یہ نوعیت لائقِ ستائش تو ہے ہی لیکن یہاں بھی عالم خورشید نے موضوع کی مرکزیت اور تجربے کے کھرے پن کو خیر باد نہیں کہا ہے۔ جذباتیت یا کھوکھلی نعرے بازی سے یہاں بھی انہیں پرہیز ہے۔ اور تاثراتی فضاسازی سے انہوں نے یہاں بھی کام نہیں لیا ہے۔ کسی کاسہ بردار کو دیکھ کر اپنی جیب کے سکے چرائے ہوئے محسوس ہوں تو اخلاقیات کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن ان کی یہ اخلاقی دلچسپی محض سماجی ذمے داری ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ بطور فرد بھی یہ ان کی داخلی ضرورت ہے چنانچہ یہ سماجی فلسفہ ان کی نفسیا تی الجھن بن جاتا ہے اور کسی بے گناہ کو سزا ملنے پر لگاتار ہاتھ دھوئے جانا اسی نفسیاتی الجھن کا ثبوت ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ احتجاج کا یہ انداز اور اخلاقیات کا یہ پہلو اس شعری کردار سے الگ ہے جو احتجاج کے معنی شور شرابے کے ہی جانتا ہے نیز اصلاح کا آغاز خود سے نہیں ، دوسروں سے کرنا چاہتا ہے۔ غالباً فکر و اخلاق کا یہی رویہ عالم خورشید کے مرکزی کردار کو حزن و ملال سے دور رکھتا ہے۔ وہ کلاسیکی غزل کی طرح سب کچھ تقدیر کے کھاتے نہیں ڈال دیتا اور مسائل سے فرار کا راستہ بھی اختیار نہیں کرتا۔ اس کردار کی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی فکر، اپنے احساس اور اپنے رویئے کے بارے میں متذبذب یا مشکوک نہیں ہے۔ اسے صاف صاف معلوم ہے کہ اس کا مسئلہ کیا ہے اور کون سا آشوب اس کی جان کے درپے ہے۔ چنانچہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ ایسا خود آگاہ شعری کردار نہ لجلجا ہونا چاہئے تھا، نہ وہ ہوا بلکہ اس کا منطقی انجام یہی تھا کہ وہ زندگی اور کائنات سے مردانہ وار معاملہ کرے چنانچہ عالم خورشید کے کلام میں ایسے اشعار کی کمی نہیں :

 

تاریکی میں زندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

جگنو سا تابندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

سمندر کے تلاطم سے مجھے تم کیا ڈراتے ہو

بھنور کے ہی پسِ پردہ کنارہ دیکھتا ہوں میں

 

ٹھٹرتے موسموں میں یوں گزارہ کرتے رہتے ہیں

لہو کا ایک اک قطرہ شرارہ کرتے رہتے ہیں

 

بلا سے آندھیاں آئیں کہ بارش کی ہو رم جھم

دئے کی لو کو پھر ہم نے زیادہ کر لیا ہے

 

دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے

میں نے کیسے پار کیا آسانی سے

 

میں جس جگہ بھی رہوں گا وہیں پہ آئے گا

مرا ستارہ کسی دن زمیں پہ آئے گا

 

ان سبھی اشعار میں اس مرکزی شعری کردار کے ارادے صاف ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کی جو سطح نظر آتی ہے وہ اس کردار کی بنیادی خوبی ہے اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جو اسے ما قبل کے شعری کرداروں سے خا صہ منفرد بناتی ہے۔

عالم خورشید کی شاعری کے مرکزی شعری کردار کی جو خصوصیات اب تک بیان ہوئیں ان کا تعلق سماج سے ہے۔ فرد کی سطح پر بھی اس کے اپنے کچھ مسائل ہیں اور غزل کا شاعر ہونے کے باعث عالم خورشید نے حسن و عشق کے معاملات پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے گو یہ ان کی شاعری کا مرکزی سروکار نہیں :

 

طلب کرتا ہوں ہر اک پھول سے خوشبو تمہاری

جو سچ پوچھو تو مجھ میں بھی خرابی کم نہیں ہے

 

میں کب سے بیٹھا ہوں ہاتھوں میں اپنا دل لے کر

وہ دل نواز کبھی اس طرف بھی آئے تو

 

تمہارے ہجر کا موسم بھی دیر تک نہ رہا

ہمارے شہر میں ہر لمحہ رت بدلتی رہی

 

ہمارے عہد کا محبوب ہی کچھ ایسا ہے

ہمارا کام نہیں چلتا ہے کنائے سے

 

کچھ تو عجلت میں تھا وہ ابر کہیں جا برسا

کچھ ہوئی ہم سے بھی تاخیر ہمیں لگتا ہے

 

دل میں رہتا ہے مگر خواب ہوا جاتا ہے

وہ بھی اب صورتِ مہتاب ہوا جاتا ہے

 

آپ کچھ اور ہیں عاشق اسے کہتے ہیں میاں

جس کو ہر چیز میں محبوب نظر آنے لگے

 

ان معاملا ت کے علاوہ ان کی بعض نفسیاتی الجھنوں پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک الجھن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ سماجی ابتری کے لئے خود کو ذمے دار ماننے اور اخلاقی سطح پر اسے پوری طرح انگیزنے کا ہنر انہیں آتا ہے۔ اب آگے دیکھیں :

 

دنیا پر قابو پانے کے لاکھ طریقے ہیں

خود پر غالب آنے کی تدبیر نہیں کوئی

 

جی رہا ہوں اور دنیا میں مگر

دیکھتا ہوں اور دنیا خواب میں

 

تجھے دستک ہی دینے کا ہنر آتا نہیں شاید

تجھی پر بند ہیں کیوں سارے در تو نے کبھی سوچا

 

بند کمرے کی فضا کس کو بھلی لگتی ہے

میرے اطراف میں مہتاب نظر آئے تو

 

بہہ رہا تھا ایک دریا خواب میں

رہ گیا میں پھر بھی تشنہ خواب میں

 

اب صحرا میں چین سے سویا کرتا ہوں

ڈر لگتا تھا بچپن میں ویرانی سے

 

اس طرح کے بھی مزید اشعار نقل کئے جا سکتے ہیں۔ ان اشعار سے بھی تو یہ واضح ہو ہی جاتا ہے کہ اس شعری کردار کی وہ الجھنیں نہیں ہیں جو مثلاً اس سے قبل کے شعری کرداروں میں رہی ہیں اور یہ بات یہاں بھی دہرانے کی ہے کہ ان الجھنوں کے اظہار میں انہوں نے کسی داؤ پیچ، ابہام یا تجریدیت کا سہارا نہیں لیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی الجھن کیا ہے اور اس کا اظہار انہیں کس طرح کرنا ہے۔

یہ درست ہے کہ شاعری کا موضوعاتی مطالعہ اس کی تعینِ قدر میں بہت دور تک ساتھ نہیں دیتا لیکن کسی شاعری کے مرکزی کردار کی شناخت کے لئے یہ لازم بھی ہے کیوں کہ شاعری انجام کار معنی کی ترسیل ہی کا نام ہے۔ عالم خورشید کے اس شعری کردار کے مزید پہلو تلاش کئے جا سکتے ہیں کہ معنی اساس شاعری کا مرکز و محور ہی یہی ہے۔ اب تک کے اس تجزیئے سے یہ بہر حال منکشف ہے کہ یہ کردار خود شناسی کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ خود آگاہی اسے جذباتیت سے دور رکھتی ہے لیکن جذبے سے فرار کا راستہ بھی نہیں دکھاتی۔ اسے مستقبل اور حال کے دھند لکوں کا علم ہے جس سے وہ بے چین بھی ہے لیکن یہ دھندلکا اسے گو مگو کی کیفیت سے دو چار نہیں کرتا۔ مسائل اور مصائب اسے ہسٹریائی انداز میں چیخنے یا محزونی کی ریت میں گردن دبا لینے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ الجھنیں اسے بد اخلاق ہو جانے کی ترغیب نہیں دیتیں۔ وہ ایک دیا ہے اور روشنی بانٹ سکتا ہے لیکن وہ بذاتِ خود روشن نہیں ہو سکتا بلکہ اسے جلانے کے لئے دوسرے ہاتھوں کی ضرورت ہے… اس حقیقت کا ادراک اسے باغی نہیں بناتا۔ یہ ایک متوازن اور متناسب کردار ہے۔ یہ کھلے ماحول میں جینا چاہتا ہے اور مسائل سے پورے ہوش میں مردانہ وار مقابلے کو ہی مناسب طریقۂ کار مناسب سمجھتا ہے۔

اس کردار کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ جس معاشرے میں زندہ ہے وہ مصلحتوں کا معاشرہ ہے۔ یہاں ظاہر ہی سب کچھ ہے، مادیت کا بول بالا ہے، صارفیت کی حکومت ہے اور سیاست فر قہ وارانہ غلاظت اور تعصب کے زہر سے پر ہے۔ وہ کردار جو اخلا قی معیار سے گرنے کو تیار نہ ہو، اس ماحول میں کس طرح زیست کر سکتا ہے اور اپنی اخلاقیات کے بل بوتے پر معا شرے کو کس حد تک بدل سکتا ہے۔ یہی وہ کشمکش ہے جو اس شعری کردار کا جو ہر ہے۔

اس کردا ر کے ترکیبی عناصر سے واقفیت کے بعد یہ بات نسبتاً آسان ہے کہ ہم اپنی شاعری کے دیگر کرداروں سے اس کردار کی مغائرت اور مطابقت کا فیصلہ کریں۔ غزل کا مرکزی کردار اپنی روایت کو برقرار رکھنے کے باوجود ہر عہد اور ہر ماحول کے ساتھ تبدیل بھی ہوا ہے۔ کلاسیکی غزل کا ہیرو مقدر کا مارا ہوا تھا، اس کا ذہن و ضمیر مقدر سے نبرد آزمائی کو ایک ہاری ہوئی جنگ سمجھتا تھا چنانچہ ایک نوع کی محزونی اس کی سرشت میں تھی۔ ظاہر ہے کہ عالم خورشید کے شعری کردار کو اس محزونی سے کوئی علاقہ نہیں۔

۱۸۵۷ ء کے بعد غزل کے کردار میں پہلی بار تبدیلی آئی۔ مقصدیت اس کا نصیب بنی اور سماجی سروکار اس کی منزل۔ انیس سے لے کر حالی اور اقبال تک یہ کردار ملت اور مذہب سے بھی قریب رہا لیکن اس قرب کے باوجود بنی نوعِ انسان کی بہبودی کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہ تھا۔ اس کردار میں خطابت اور نعرے بازی کا واضح فرق بھی موجود تھا اور اخلاقیات اس کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ عالم خورشید کے شعری کردار کی مطابقت کا کوئی پہلو اگر ہے تو وہ اسی خصوصیت سے ہے لیکن ان میں جو فرق ہے وہ بھی اظہر من الشمس ہے۔

غزل کا یہ کردار اس عہد میں ایک خاص سیاسی نظریئے ، یک رخی ادبیت اور نعرے بازی شکار ہوا جسے ہم ترقی پسند عہد کے نام سے جانتے ہیں۔ اس سلسلے میں بھی دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ فن کی پامالی اور نعرے بازی کا یہ رجحان نظم میں بہت زیادہ تھا اور غزل میں کم تھا۔ دوسرے تمام ترقی پسند غزل ایسی نہیں تھی جس پر برہنہ گفتاری کا الزام عائد ہوتا ہے۔ ترقی پسند غزل کے مرکزی کردار کی سب سے بڑی طاقت اس کا احتجاجی رویہ تھا۔ عالم خورشید کے شعری کردار میں اس احتجاج کی ایک جھلک موجود ہے لیکن عالم خورشید کے اس کردار کی سب سے بڑی خوبی اس کا متوازن اور متناسب ہونا ہے چنانچہ اپنے علاوہ باقی سب کو رد کر دینے کا عیب اس میں نہیں پایا جاتا اور کسی ایک سیاسی نظریئے سے وابستگی، برہنہ گفتاری یا نعرے بازی کا تو اس میں شائبہ تک نہیں۔

جدیدیت والی غزل کا ہیرو دنیا سے زیادہ…بلکہ بہت زیادہ خود اپنے اندرون سے لڑنے والا ہیرو ہے۔ ظاہر کی جنگ اتنی مشکل نہیں جتنی باطن کی ہوتی ہے۔ اسی لحاظ سے اس جنگ میں خطرے بھی بہت ہیں لیکن جدید غزل کے مرکزی کردار نے ان خطرات کو لبیک کہا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کردار میں پوری غزلیہ تاریخ کی سب سے زیادہ جرأت پائی جاتی ہے۔ اس جرأت نے اسے نفسیات سے الجھنا سکھایا۔ جس دھندلے اور بے یقین معاشرے کا وہ فرد تھا اس کی لا سمتیت کا اظہار کرنے پر اکسایا۔ فارم، لفظیات ، اسلوب،فکر یہاں تک کہ ترسیل و ابلاغ کی سطح پر بھی تجربے کرنے کا حوصلہ دیا۔ چنانچہ اپنی کمزوریوں کے باوجود یہ غزل کا سب سے زیادہ رنگا رنگ کردار ہے اور اسی لئے سب سے زیادہ متنازع بھی ہے۔

ادھر پچھلی دو دہائیوں میں جدید غزل کے اس مرکزی کردار میں بھی تھوڑی بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ادبی نظریئے کی کم اور وقت کی تبدیلی کی زیادہ مرہونِ منت ہیں۔ یہ طے ہے کہ عادل منصوری یا سلیم احمد کی غزل کا کردار وہ نہیں جو مثلاً عرفان صدیقی کی غزل کا ہے۔ نظریئے کی یکسانیت کے باوجود یہ فرق انفرادی ترجیحات کا تو ہے ہی، نسل کی تبدیلی کا فرق بھی ہے اور نسل کی تبدیلی کا یہی فرق عرفان صدیقی اور عالم خورشید کے شعری کرداروں کا فرق ہے۔

عالم خورشید کے شعری کردار کی خوبی یہ ہے کہ یہ گزشتہ سے پیو ستہ بھی ہے اور اس سے الگ بھی۔ پیوستگی میں دو باتیں سامنے کی ہیں۔ ایک تخلیق کی آزادی دوسرے معنی کی مرکزیت۔ یہ کہنا کہ معنی نام کی کوئی چیز نہیں اور کوئی معنی مستقل معنی نہیں ، یہ فارمولا علامتی اور استعاراتی اظہار کی شاعری پر کچھ حد تک صادق آتا ہے کہ کثیر المعنویت اس قسم کی شاعر کی بنیاد ہے لیکن موضوع اور معنی کی مرکزیت والی شاعری، جیسی کہ عالم خورشید کی شاعری ہے، اس پر اس طرح کا لیبل چسپاں کرنا زیادتی کے مترادف ہے۔

عالم خورشید کا شعری کردار پیش رو نسل کے مقابلے قدرے مختلف اس لئے ہے کہ اس کے سامنے ان دھندلکوں کی یلغار نہیں جسے لاسمتیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نسل کے ذہن میں معاملات خاصے صاف ہیں۔ اس صورتِ حال سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاعر ی کے لئے نسبتآ آسان راستہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ مسائل کی جو رنگا رنگی، دھندلکے کا جو پردہ، تجربات کا جو تنوع اور بھٹکنے کی جو آزادی پیش رو نسل کو حاصل تھی وہ عالم خورشید کی نسل کو حاصل نہیں۔ شاعری بلکہ تمام فنونِ لطیفہ میں آوارہ گردی سے جو راہیں روشن ہوتی ہیں اور جو تناظر پیدا ہوتا ہے اسے ذرا سنبھلی ہوئی، میانہ رو نسل پیدا نہیں کر سکتی اور میانہ روی جس تناظر کو جنم دیتی ہے وہ آوارہ گردی سے حاصل نہیں ہو سکتا لہذا ان کا موازنہ کسی نتیجے تک پہنچانے میں کامیاب نہیں۔

ادبی چیلینج کے طور پر یہ بات قابلِ غور ہے کہ تجربہ کاری ،رنگارنگی اور پر از امکان تخلیقی رویئے کے مقابل نیا چراغ روشن کرنا کس طرح ممکن ہے۔ نئی نسل کے بعض شعرا نے کلاسیکی لہجے کی بازیافت،کیفیت اور تاثراتی فضاسازی کا راستہ اختیار کیا اور جلد نمایاں ہو گئے۔ عالم خورشید نے مشکل راستہ اختیار کیا۔ وہ موضوع و معنی کی مرکزیت سے نبرد آزما ہوئے اور ایک دیر پا نقش کی تعمیر کو بہتر سمجھا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے راست اظہار کا ایک ایسا طریقہ پا لیا جو دوسروں سے الگ ہے لیکن اس انفرادیت کے باوجود فرد اور معاشرے کی سچائی کو اور اپنے عہد کے   آ شو ب کو سمیٹ لینے میں پوری طرح کامیاب ہے۔

جیسا کہ مذکور ہوا، معنی اساس شاعری میں سب سے بڑا خطرہ اس کے نا شاعری میں بدل جانے کا ہے۔ ترقی پسندوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عالم خورشید نے اس خطرے کو اپنے کلام سے بہت، بہت دور رکھا ہے۔ تجربے کے کھرے پن،موضوع کی معنویت اور معنی کی شعریت پر ان کا اعتماد اس قدر ہے کہ وہ اسے تاثرات کی دھند میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ دوسری جانب وہ سپاٹ بیانی یا برہنہ گفتاری کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ ان کے اب تک کے تینوں مجموعوں میں تخلیقی ارتقا کا بین ثبوت ملتا ہے۔ ان کے پہلے مجموعے ـ ـ نئے موسم کی تلاش میں الفاظ زیادہ تھے، معنی نسبتآ کم۔ دوسرے مجموعے زہرِ گل میں الفاظ اور معنی کا تناسب برابر کا ہے اور تیسرے مجموعے خیال آباد میں الفا ظ کے مقابلے معنی زیادہ ہیں۔ اس تدریجی ارتقا کے باعث ان سے یہ امید رکھنا بے جا نہیں کہ ان کے تخلیقی امکانات مزید روشن ہوں گے اور معنی اساس شاعری کا جو اسلوب انہوں نے حاصل کیا ہے اسے کھل کھیلنے کے مزید مواقع فراہم ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پانچویں خانے کی بندش

 

               شموئل احمد

 

 

آپ کسی پر فریب وادی سے گزر رہے ہوں جہاں ہر طرف گہری خامشی ہو… دور دور تک نہ کوئی آدم ہو نہ بوئے آدم زاد…پرندے بھی چپ…ہوائیں ساکت…پیڑ سر نگوں …! گہرے سکوت میں ڈوبی ایسی وادی سے گزرتے ہوئے ڈھلان کے کسی تیکھے موڑ پر ادھر سے آتا ہوا کوئی شخص اچانک اوٹ سے سامنے آ جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے…؟

میں نے کچھ ایسا ہی محسوس کیا جب پہلی بار ’زہر گل‘ کے شاعر کو دیکھا۔ میرے ساتھ صدیق مجیبی بھی تھے۔ میں نے حیرت سے پوچھا…

’’یہی عالم خورشید ہے…؟”‘

’’ہاں !”‘

’’زہر گل والا شاعر…؟‘‘

’’ہاں بھئی ہاں …!‘‘ مجیبی کو میری حیرت سے چڑ ہو رہی تھی۔

’’یہ تو چھٹ بھیوں کے ساتھ رہتا ہے…‘‘

رہتا ہے لیکن خود ایسا نہیں ہے۔ ۔ ۔

یہی تو حیرت ہے اتنا اچھا شاعر اور اتنے گھٹیا لوگوں کی صحبت!سب کے سب سازشی ہیں …کسی کو بھی منچ پر بے عزت کر دیں گے۔ ۔ یہ لوگ اسی طرح دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔”‘

’’آخر اپنے ہم عصروں کے درمیان ہی رہے گا نا…ہم عصر اگر گھٹیا ہیں تو یہ کیا کرے؟‘‘ مجیبی مسکرائے۔

’’زیادہ وقت نہ دے…ان کی سازشوں میں شریک نہ ہو…مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بھی سازش کرتا رہتا ہے۔”‘

’’چندن وش ویاپت نہیں …”‘ مجیبی نے دوہا پڑھا۔ میں نے سعدی کی حکایت سنائی…مٹی کے ایک ڈھیلے میں خوشبو آ گئی، وہ گل کی صحبت میں رہتا تھا۔

’’ان میں بھی خوشبو آ جائے گی…‘‘ مجیبی چھٹ بھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔

’’لیکن گل کی پتیاں بھی تو گرد آلود ہوں گی…ان میں بھی زہر پھیلے گا ؟”‘

’’یہی تو وہ زہر گل ہے جسے وہ اپنے شعروں میں بیان کرتا ہے…ایک بڑا شاعر معاشرے کے زہر کو اپنی داخلیت کی گہرائیوں میں جذب کرتا ہے۔”‘ مجیبی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرائے۔

’’ نہیں !… یہ وارث شاہ نہیں ہے۔ یہ بھی ان کے ساتھ سازش میں ملوث رہتا ہے۔”‘ … میں چڑ گیا۔

اس دن اس سے زیادہ باتیں نہیں ہوئیں۔ بس علیک سلیک پر معاملہ ختم ہوا۔

اس نے کچھ رسمی باتیں کیں۔ ۔ ۔ ۔ مثلاً۔ ۔ ۔ ۔ آپ بہت اچھی کہانیاں لکھتے ہیں۔ آپ کی نثر شاعری کے بہت قریب ہے۔ تشبیہات اور استعارے کا جواب نہیں۔ سنگھاردان لا جواب ہے۔

 

میں پہلے سامنے والے کو سنتا ہوں …پھر اس کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس کی داخلیت میں اترتا ہوں …نہ جانے کیوں میں یقین کرنا نہیں چاہتا تھا کہ وہ میرے تئیں مخلص ہے۔ لیکن مجھے اس کے دو اشعار یاد آئے …

 

نغمہ چھیڑیں ساز بجائیں اپنے دل کا ہم

موسم کا سازندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

اک پل کو ہی چمکیں لیکن بجلی سی لہرائیں

راکھ تلے پائندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

یعنی اس کے اندر ایک عزم تھا…میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ یہ برساتی شاعر نہیں ہے۔ ۔ برسات کے سازندوں کے ساتھ زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے گا…اور اپنی راہ الگ بنائے گا۔

لیکن ہر سیڑھی کے مقدّر میں ایک سانپ ہوتا ہے۔ آدمی جب زمین پر چلتا ہے تو سانپ بلوں میں ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے وہ سیڑھیاں چڑھتا ہے ،سانپ سرسراتے ہیں اور آخری سیڑھی پر تو ڈس ہی لیتے ہیں۔ زہرِ گل کا شاعر اگر معصوم ہے تو ڈسا جائے گا اور اگر جال بننا سیکھ گیا تو آخری سیڑھی بھی پھلانگ جائے گا۔ میری دلچسپی اس کے زائچے میں ہوئی۔

زائچہ داخلیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ علمِ نفسیات کی حد جہاں سے شروع ہوتی ہے ،علمِ نفسیات کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ زندگی کے خارجی پہلو کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آدمی کو سمجھنا ہو تو اس کا زائچہ دیکھو۔ طالع میں سرطان …برج کواکب کا سب سے حساس برج…بورژوا،متحرک اور آبی…خوبی یہ کہ طالع کا مالک خود اپنے گھر کو دیکھتا ہے۔ لیکن میری توجہ پانچویں خانے پر گئی۔ پانچواں خانہ محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں زحل اور راہو کا اتصال تھا…وہ بھی برج عقرب میں مریخ کی نظر تھی۔ کسی بھی زائچہ میں خانۂ پنچم سالک کے ذہن سے عبارت ہے یعنی ذہانت…فکر و تخیل…سوجھ بوجھ…اور یہاں راہو اور زحل دونوں براجمان تھے۔ زحل،غم کااستعارہ ہے…انسانی دکھوں کا منبع…اور راہو شک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ دونوں چھپ چھپ کر کام کرتے ہیں اور راز کو راز رکھتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ غم و غصہ کی ایک خاموش لہر اس کے اندر ہمیشہ موجود رہے گی۔ یہ اندر ہی اندر گھٹے گا مگر کسی پر کچھ ظاہر نہ کرے گا۔ اس کی کارگزاریاں مخفی رہیں گی۔ اس کے منصوبے کا پہلے سے علم مشکل ہے۔ صرف اخبار کی رپورٹ سے معلوم ہو گا کہ کس مشاعرے میں گیا اور کہاں سیمینار میں شرکت کی۔ لیکن مریخ کی نظر بھی تھی۔ مریخ آگ ہے اور زحل برف…آگ پگھلا دے گی۔ پہلے وہ گھٹے گا اور پھر اچانک مشتعل ہو جائے گا۔ اور ایک دن یہی ہوا…

وہ چھٹ بھیوں کی محفل تھی۔ ان میں جو دقاق تھا، نظامت کر رہا تھا۔ دقاق نے حسبِ معمول اوقات دکھائی اور چھینٹا کشی شروع کی…زہر گل کے شاعر نے پہلے برداشت کیا پھر اچانک پھٹ پڑا۔ اس نے پاؤں سے چپل نکالی…

حرام زادہ !…یہ چپل دیکھتا ہے…دقاق سٹک گیا…لوگوں نے بیچ بچاؤ کیا…

مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو میں خوش ہوا۔ گویا شعر و ادب کے ان جیدوں سے اس نے کنارہ کشی شروع کر دی تھی…اور یہی وہ دن تھے جب وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور سانپ سرسرا رہے تھے۔

عبد الصمد کہتے ہیں وہ ایروگینٹ ہے۔ میں صمد سے اتفاق کرتا بھی ہوں اور نہیں بھی کرتا…انانیت تھوڑی بہت سب میں ہوتی ہے۔ شاعر و ادیب میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اس میں بھی انا ہے لیکن کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نہیں ہے۔ وہ ضدی ہے لیکن اڑیل نہیں ہے۔ صمد کہتے ہیں …اس کے کچھ اپنے تعصبات ہیں …میں چپ رہتا ہوں کہ راہو اور زحل کا اتصال ہے۔

ایک دن رات دس بجے صمد کا فون آیا کہ عالم دفتر سے لوٹ کر اب تک گھر نہیں گئے۔ گھر والے پریشان ہیں …وجہ …؟ معمولی سی تکرار… میں نے اس بات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ چھوٹے موٹے جھگڑے ہر گھر میں ہوتے رہتے ہیں لیکن صمد نے کہا اسے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ صمد ہمارے روحانی پیر ہیں۔ جب وہ اس طرح کہتے ہیں تو بات گمبھیر ہو تی ہے۔ میں چاہتا تھا اسے ریستوراں میں بلانا… اصل میں صمد نے ایک کہانی لکھی تھی اور سنانا چاہتے تھے۔ ان کی کہانی میں گھر پر نہیں سنتا… ریستوراں میں سنتا ہوں۔ گھر پر صمد کی کہانی سنتے ہوئے لگتا ہے…وعظ سن رہے ہیں۔ میں نے انہیں ممتا ریستوراں میں بلایا لیکن عالم سے رابطہ قائم نہیں ہو رہا تھا…اس کا فون ڈیڈ تھا اور موبائل بے آواز…صمد نے کسی طرح پیغام بھجوایا…

میں نے دونوں کے لئے سافٹ ڈرنک منگوائی۔ صمد نے اسپرائٹ کی چسکی لی اور میں نے ووڈکا سپ کی۔ وہ ایک پیراگراف پڑھتے تھے اور اسپرائٹ پیتے تھے۔ کہانی جیسی بھی ہو لیکن کھانا ختم ہوا تو میں صمد کی دروں بینی کا قائل ہوا۔ عالم اٹھ کر باتھ روم کی طرف گئے تو میری طرف جھک کر وہ آہستہ سے بولے…

’’دیکھا…؟ عالم نے کس طرح کھانا کھایا ؟‘‘

’’کس طرح…؟”‘

’’آپ نے اسے اس طرح کھاتے نہیں دیکھا ہو گا…؟‘‘

’’ پھر بھی …؟‘‘

’’ یہ دو نان کھا گیا…”‘

’’یہ کیا بات ہوئی…؟ میں نے تین نان کھایا…؟‘‘

’’ارے آپ تو کھاتے ہی رہتے ہیں صاحب ! …لیکن عالم کا یہ طریقہ نہیں نہ ہے…‘‘

’’ اس کا کوئی طریقہ نہیں ہے…یہ نہ سگریٹ پیتا ہے نہ شراب پیتا ہے نہ عورتوں کو گھورتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی بھوک نہیں ہے۔ اس کی آنکھوں میں صرف ایک دھند ہے…‘‘ میں مسکرایا۔

لیکن صمد سنجیدہ تھے۔ انہوں نے مجھے سمجھا یا…عالم کھانے پینے کے معاملے میں بے حد سو فسٹی کیٹیڈ ہے۔ اس کی خوراک کم ہے …ہر چیز نہیں کھاتا اور جو کھاتا ہے…کم کم کھاتا ہے…یہاں دو نان اس لئے کھا گیا کہ گھر پر کھانا نہیں کھا رہا ہے۔ حضرت منہ پھلائے گھوم رہے ہیں۔

شاید غزل کو خود کلامی راس آتی ہے۔ لیکن عالم کے لہجے میں کہیں کہیں بلند آہنگی بھی ہے جو عصری تقاضہ بھی ہے اور ان کی انا کا پرتو بھی۔ ان کے لہجے میں ، آہنگ میں ایک طرح کا تیکھاپن ہے۔ ہم عصر انسانی زندگی کو بے رنگ کر دینے والے عناصر کے خلاف عالم موثر ڈھنگ سے احتجاج کرتے ہیں۔ زندگی کے تئیں ان کے تنقیدی روئیوں کا بہت تخلیقی اظہار ان کی غزلوں میں ہوا ہے۔ مثلاً ایک غزل کے یہ چند اشعار…

 

مل کے رہنے کی ضرورت ہی بھلا دی گئی کیا

یاں محبت کی عمارت تھی گرا دی گئی کیا

 

بے نشاں کب کے ہوئے سارے پرانے نقشے

اور بہتر کوئی تصویر بنا دی گئی کیا

 

منہ اٹھائے چلے آتے ہیں اندھیروں کے سفیر

وہ جو اک رسمِ چراغاں تھی، اٹھا دی گئی کیا

 

ایک بندے کی حکومت ہے خدائی ساری

ساری دنیا میں منادی بھی کرا دی گئی کیا

 

بہتے پانی میں نظر آتی ہے سرخی کیسی

اب کے دریا میں کوئی چیز ملا دی گئی کیا

 

پوری غزل امریکی سامراجیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اصل میں عالم کی شاعری مختلف رنگ، مختلف لہجے اور مختلف اسالیب کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری ذاتی بھی ہے اور داخلی بھی …اور غنائی بھی۔ ان کے اشعار اپنے زمانے سے وابستگی کا پتہ دیتے ہیں۔ سماج کی کثافتوں کو یہ خورد بین سے دیکھتے ہیں۔ ایک حقیقت وہ ہوتی ہے جو نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے اور نظر نہیں آتی۔ عالم کی شاعری اس نا دیدہ حقیقت کی بازیافت ہے۔ ذات کے نہاں خانے میں چھپی اندیکھی حقیقت کو ڈھونڈ نکالنے کی ان میں تڑپ بھی ہے

اور تجسس بھی۔ ان کا ایک شعر ہے:

 

اک دوسرے سے ٹوٹ کے ملتے تو ہیں مگر

مصروف سارے لوگ ہیں ایک سرد جنگ میں

 

اور یہ شعر بھی کہ

 

شیشہ مزاج میں ہوں مگر یہ بھی خوب ہے

اپنا سراغ ڈھونڈتا ہوں سخت سنگ میں

 

عالم کی شاعری سے گزرتے ہوئے میری نظر پانچویں خانے کی بندش پر پڑتی ہے جہاں برج عقرب میں زحل اور راہو کا اتصال ہے۔ سیارگان میں زحل زمین سے سب سے زیادہ دوری پر واقع ہے اور سب سے سست رفتار سیارہ ہے۔ اس کے چاروں طرف دھند کی ایک زنجیر سی ہوتی ہے جسے زنجیرِ زحل کہتے ہیں۔ پانچویں خانے میں اس کا ارتعاش اگر ذہن کے افق سے ہم آہنگ نہیں ہے تو تعطل پیدا کرے گا۔ عالم اکثر تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں سرد ہو جاتی ہیں …لحد میں منہ چھپا لیتے ہیں …مشاعرے سے بلاوا بھی آتا ہے تو نہیں جاتے…لیکن یہ کیفیت زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہتی۔ اصل میں زحل پر مریخ کی نظر ہے اور شمس کی بھی۔ زحل اگر برف ہے تو شمس اور مریخ آگ ہیں …آگ برف کو پگھلا دیتی ہے…پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور تعطل زائل ہو جاتا ہے۔ عالم نئی تخلیقی توانائی کے ساتھ شعر گوئی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں جو گہرائی ہے اس کی وجہ بھی زحل کا ارتعاش ہے۔ مشتری نے انہیں شاعر بنایا جو دوسرے خانے میں واقع ہے لیکن گہرائی زحل نے دی۔ ادب اور فن میں عطارو کی حیثیت کرافٹ مین کی ہے۔ زہرہ سے جمالیات آتی ہے،زحل گہرائی پیدا کرتا ہے، مریخ لہجے کو دھار دار بناتا ہے اور شمس وقار عطا کرتا ہے۔ چونکہ زحل پر مریخ اور شمس کی نظر ہے اس لئے لہجہ دھار دار بھی ہے اور پر وقار بھی۔

ہمارے ایک شیطانی پیر بھی ہیں …

مجھے جب کسی کی غیبت کرنی ہوتی ہے تو ان سے رجوع کرتا ہوں۔ اللہ نے شیطان کو آگ سے بنایا …شیطان کاکام ہے جلنا اور جلانا۔ ہمارے پیر میں جلانے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن جلتے خوب ہیں۔ جلانے کے لئے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں اور جلنے کے لئے سینے میں بغض چاہیئے…پس معلوم ہوا کہ بغض شیطان کا ایندھن ہے۔ ہمارے پیر کو ایندھن کی کمی نہیں ہے۔ وہ ہر جگہ ایندھن بٹورتے رہتے ہیں۔ کچھ میں بھی فراہم کراتا رہتا ہوں … اصل میں ایک شیطان میں بھی ہوں۔

ان دنوں عالم کا گراف مائل بہ عروج ہے۔ وہ ہر جگہ مشاعرے میں بلائے جا رہے ہیں۔ میں نے سوچا شیطانی پیر کی خیریت معلوم کروں۔ ان سے رابطہ قائم کیا …

’’عالم کیا بہت بڑے شاعر ہیں …؟”‘

’’ کیوں …؟‘‘ پیر نے ناگوار نظروں سے مجھے گھورا۔

’’ہر جگہ مشاعرے میں بلائے جا رہے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے علی گڑھ گئے تھے…پھر ممبئی گئے…اب بھوپال گئے ہیں …‘‘

ایندھن نے کام کیا…پیر اٹھ کر بیٹھ گئے…

’’وہ بہت بڑا سیٹر(Setter) ہے …‘‘

’’ سیٹر…؟”‘ میں نے مسکراتے ہوئے پیر کی آنکھوں میں جھانکا…

’’ جی ہاں سیٹر!… اس کی نٹ ورکنگ دور تک پھیلی ہوئی ہے۔”‘

’’ لیکن شاعری تو اچھی کرتا ہے…‘‘ میں مسکرایا۔

’’ نٹ ورکنگ کرتا ہے…‘‘ پیر کو غصہ آنے لگا تھا۔ میں نے سوچا …تھوڑا ایندھن اور ڈالوں۔

’’یہ نٹ ورکنگ نہیں ہے۔ یہ ایلٹ کلاس میں اس کی پہچان ہے۔”‘

’’ کوئی پہچان وہچان نہیں ہے …سب سیٹنگ ہے۔”‘

’’ سیٹنگ کے لئے بھی اعلیٰ شاعری کی ضرورت ہے۔ تب ہی ادب کا طبقۂ اشرافیہ اس کو خود میں ضم کرتا ہے اور عالم اب تو خود ہی ایلٹ ہو گئے ہیں …‘‘

پیر کی مٹھیاں تن گئیں …وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگے…

شیطانی پیر کے جلنے کا عالم دیدنی ہوتا ہے…میں بھاگ کھڑا ہوا۔

عالم بھوپال سے لوٹے تو میں نے واقعہ سنا یا…عالم کی آنکھیں چمکیں …انہوں نے زور کا قہقہ لگایا …مگر ہنسی رکی تو پھر دھند چھا گئی۔ میں نے ایک لمحے کے لئے دھند سے پرے جھانکنے کی کوشش کی تو مجھے ان کا ایک شعر یاد آ گیا ۔ ۔ ۔ ۔

 

مری آنکھوں کی ویرانی میں اترو گے تو جانو گے

کہ ہر صحرا کسی دریائے امکانی سے ملتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خیال آباد کی غزل

 

               شکیل الرحمٰن

 

’خیال آباد‘ کی غزلوں میں عالم خورشید کے جس شعری رویئے کی پہچان ہوتی ہے وہ نئی غزل میں بہت جلد ایک منفرد رجحان کی سورت اختیار کر لے گا اس بات کا مجھے یقین ہے۔ یہ تیز مشاہدوں ((observations اور خود آگہی ((self awareness کے عمدہ تجربوں کی شاعری ہے۔ ابتدائی زندگی کے مشاہدوں کی معصومیت سے آگہی اور خود آگہی کے شعور تک عالم خورشید کی غزل کا سفرتوجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ یہ ایسے جمالیاتی تجربوں کا سفر ہے کہ جس مس میں بچّے کی معصومیت اور اس کا بھولاپن، زندگی کی شادمانی اور تلخی اور جمالِ شہر کی آرزو سب متاثر کرتے ہیں۔ جمالیاتی تجربوں کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے:

 

ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا

دن میں بھی میں سپنا دیکھا کرتا تھا

 

ایک خیال آباد تھا میرے دل میں بھی

خود کو میں شہزادہ دیکھا کرتا تھا

 

سبز پری کا اڑن کھٹولہ ہر لمحے

اپنی جانب آتا دیکھا کرتا تھا

 

اڑ جاتا تھا بھیس بدل کر چڑیوں کے

جنگل ،صحرا، دریا دیکھا کرتا تھا

 

ہیرے جیسا لگتا تھا اک اک کنکر

ہر مٹی میں سونا دیکھا کرتا تھا

 

کسی قسم کی کوئی گھٹن نہیں ہے۔ بچے کا معصوم ذہن آزاد فضا میں متحرک ہے۔ معصوم رومانی ذہن نت نئے نقوش ابھارتا رہتا ہے۔ کبھی شہزادے کے روپ میں کبھی کسی پرندے کے روپ میں اپنے خیالوں کی دنیا میں مست مشاہدے میں مصروف رہتا ہے۔ کبھی سبز پری اڑن کھٹولے پر پاس نظر آتی ہے کبھی بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھر ہیرے کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں۔ ہر مٹی میں سونا دیکھنے والی یہ معصوم بھولی بھالی نگاہ کچھ اور ہی ہے۔ مسرت اور شادمانی کا تاثر ایسا ہے کہ خوبصورت نقوش ابھر آتے ہیں۔ شاعر کے ان تجربوں کا بنیادی موتف (Motif) شادمانی اور مسرت ہی ہے۔

مشاہدوں کے اس فطری اظہار میں جو بھولپن اور جمالیاتی فینتاسی ہے وہ توجہ طلب۔ شاعر کو اس بات کا احساس ہے :

 

نیند پلکوں پہ دھری رہتی تھی

جب خیالوں میں پری رہتی تھی

 

کوئی چڑیا تھی مرے اندر بھی

جو ہر اک غم سے بری رہتی تھی

 

رفتہ رفتہ جب زندگی کی تلخی اور مٹھاس کی پہچان ہوتی گئی اور مشاہدہ تیز ہوتا گیا، جمالِ زندگی کے ساتھ جلالِ زندگی کا احساس گہرا ہوتا گیا تو پچھلے تمام مناظر غائب ہو گئیـ:

 

آنکھ کھلی تو سارے مناظر غائب ہیں

بند آنکھوں سے کیا کیا دیکھا کرتا تھا

 

یہ وہی آنکھ تھی جو جو ہر صحرا میں دریا دیکھا کرتی تھی! تحت الشعور کی خوابناک دنیا سے اچانک شعور کی دنیا کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ایک دنیا چلی جاتی ہے، جانے شہزادہ بھی کہاں چلا جاتا ہے۔ سبز پری اپنے اڑن کھٹولے کے ساتھ گم ہو جاتی ہے، دن کے سپنے گم ہو جاتے ہیں ، پرندے کا روپ دھارن کر کے جنگل، صحراسب کو دیکھنے کے تمام لمحے سمٹ جاتے ہیں۔ ایک بڑی فینتاسی کی دنیا جانے کہاں گم ہو جاتی ہے۔ دنیا وہ نہیں رہتی، دنیا وہ ہے بھی نہیں شاید! شاعر نے اپنے بنیادی موتف کو ابھارنے اور نمایاں کرنے کے لئے جن چمکیلے ، روشن، طلسمی، جگ مگ، جگ مگ کرتے ہوئے استعاروں کو منتخب کیا ہے ان سے اس کے اس جمالیاتی نقطۂ نگاہ کی پہچان ہوتی ہے جو سادگی اور پرکاری کے حسن کے گہرے احساس سے وجود میں آتا ہے۔

لاشعور یا تحت الشعور سے شعور تک کے سفر میں ’فینتاسی‘ کی دنیا بظاہر جتنی دور جا کر گم ہوتی دکھائی دے وہ گم نہیں ہوتی۔ ہم محسوس کریں یا نہ کریں ، جمالیاتی التباس موجود رہتا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ابتدائی جمالیاتی التباس کبھی گم نہیں ہوتا ہی نہیں ہے۔ لاشعور میں کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے۔ انسان کی سائکی میں جذب ہوتا ہے۔ آخری عمر تک یہ جمالیاتی فینتاسی زندہ رکھنے میں مدد گار ہوتی ہے۔

عالم خورشید اس بات کی سچائی اس طرح پیش کرتے ہیں :

 

اک چھوٹا سا بچہ مجھ میں اب تک زندہ ہے

چھوٹی چھوٹی بات پہ اب بھی رو سکتا ہوں میں

 

شاعر نے آنسو اور آنسو کے رشتے کو محسوسات بناتے ہوئے لطیف درد اور گمبھیر درد کے رشتے کی قدر و قیمت کا کتنا عمدہ معنی خیز اشارہ سامنے رکھ دیا ہے۔ بات بات پر مچل جانے والے معصوم بچے کا وجود ہنوز روح کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ جب زندگی کے دکھ اور درد کا احساس بڑھتا ہے تو وہ مچل کر اسی طرح رونے لگتا ہے کہ جس طرح معصوم بچّہ روتا تھا ، وہ بچّہ ہنوز موجود ہے۔ خواہش پوری نہیں ہوتی تو زندگی جب بھی اپنا توازن کھونے لگتی ہے تو وہ اب بھی اسی طرح رو سکتا ہے جس طرح وہ ایک معصوم بچے کی طرح رویا کرتا تھا۔

’خیال آباد‘ کی غزلوں میں زندگی کے دئے ہوئے کرب اور خود زندگی کے مختلف رنگوں کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ شاعر کے سوزِ نہاں اور اس کی مجروح آرزوؤں اور تمناؤں کے اظہار کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس کے تیز مشاہدوں کے یہ شعری تجربے توجہ طلب ہیں :

 

سناٹے میں دہشت ہر پل گونجا کرتی ہے

اس جنگل میں چین سے کیسے سو سکتا ہوں میں

 

کمانِ وقت نے ہم کو ہدف بنایا ہے

کہیں سے تیر چلے گا ہمیں پہ آئے گا

 

یہ کیسے خواب ہمیں آگہی دکھانے لگی

کہ اپنی آنکھوں میں کانٹے چبھوئے جاتے ہیں

 

عجیب حادثہ اس بار ہم پہ گزرا ہے

بیان کرتے نہیں صرف روئے جاتے ہیں

 

ہمیشہ گھر کا اندھیرا ڈرانے لگتا ہے

میں جب چراغ جلاتا ہوں رہگزر کے لئے

 

کھلی جو آنکھ تو ہم ڈوبتے ہوئے نظر آئے

گئے تھے دو سے گرداب دیکھنے کے لئے

 

لہو میں اپنے ہمیشہ نہائے رہتے ہیں

ہمارے رخ پہ سحر کب گلال ملتی ہے

 

بتوں کی طرح کھڑے ہیں نہ جانے کب سے ہم

ہماری سانس مگر تیز تیز چلتی ہے

 

جو ختم ہوتا نہیں سلسلہ چٹانوں کا

تو موجِ خوں بھی کہاں راستہ بدلتی ہے

 

مری گرفت سے منزل مری پھسلتی رہی

کہ مجھ سے تیز ہمیشہ زمین چلتی رہی

 

ہوا کے ساتھ بھلا کتنی دور میں جاتا

ہر ایک موڑ پہ وہ راستہ بدلتی رہی

 

یہ نئی غزل کے عمدہ پر اثر اشعار ہیں جو کلاسیکی آہنگ لئے کلاسیکی استعاروں اور علامتوں میں زندگی کے لمحوں کے کرب اور خلش کو محسوسات بناتے ہیں۔ حادثہ، آنسو، اندھیرا، گرداب، لہو، بت، چٹان، موجِ خوں ، سناٹا، دہشت، جنگل، کانٹے وغیرہ دل کی گداختگی اور سوزِ نہاں سے اس طرح قریب کر دیتے ہیں کہ قاری کے درد اور شاعر کے درد کا ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ فینتاسی کی دنیا سے نکل کر حقیقت اور سچائی تک آتے آتے مشاہدے اور تجربے مختلف ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حیرت کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔ عالم خورشید کی غزل میں ’حیرت‘ ایک جمالیاتی وصف بن جاتی ہے۔

 

گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے

حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا

 

عالم جیون کھیل تماشا، دانائی نادانی ہے

تب تک زندہ رہتے ہیں ہم جب تک اک حیرانی ہے

 

یہ کیسی رت ہے سبھی ہو گئے پرائے سے

نہ دھوپ، دھوپ سی ہے اب، نہ سائے سائے سے

 

سبھی درخت کھڑے ہیں خموش اپنی جگہ

مگر ہیں دست و گریبان سائے سائے سے

 

تحیّر کی کہ متحرک جمالیاتی تصویر دیکھئے!

 

خاموش بہہ رہا تھا یہ دریا ابھی ابھی

دیکھا مجھے تو آ گئیں موجیں ترنگ میں

 

عالم خورشید ایک باشعور تخلیقی فن کار ہیں۔ زندگی اور ماحول کے اضطراب، تفاوات اور انتشار خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ یہ سب تجربوں کا حصہ بھی بنے ہیں لیکن ٹھہرے ہوئے اور سنبھلے ہوئے انداز کی وجہ سے شعری تجربوں میں عمدہ توازن پیدا ہو گیا ہے۔ حالات اور ماحول کیاداسی اور پژمردگی سے غمزدہ تو ہوتے ہیں لیکن کبھی انہیں خود پر طاری نہیں کرتے۔ تخیل میں بسے مستقبل کے کیف اور احساس سے لہجہ نرم ہو جاتا ہے اور شاعر جو کہنا چاہتا ہے کہہ دیتا ہے اور اکثر اس طرح سے بھی کہتا ہے کہ لگتا ہے اس کے الفاظ سر گوشیاں بھی کر رہے ہیں۔ بظاہر عام سا شعری تجربہ جب سرگوشی کرتا ہے تو ذہن گہرائی میں اتر کر زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے اور جمالیاتی سرور حاصل کرتا ہے۔ ’خیال آباد‘ کے مندرجہ ذیل اشعار اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں :

 

سمندر کی چٹانوں نے کہیں تو راستہ روکا ہے پانی کا

ابھرتی ڈوبتی لہروں میں ورنہ سرکشی کا کیا سبب آخر

 

یہ اپنی زرخیزی ہے جو کھل جاتے ہیں پھول نئے

ورنہ اپنی مٹی کو شاداب کہاں رکھتے ہیں ہم

 

یہ کیسی رت ہے سبھی ہو گئے پرائے سے

نہ دھوپ دھوپ سی ہے اب نہ سائے سائے سے

 

سبھی درخت کھڑے ہیں خموش اپنی جگہ

مگر ہیں دست و گریبان سائے سائے سے

 

لوٹ آئیں نہ کہیں پھر وہ پرانے طائر

میری شاخوں پہ نئے برگ و ثمر آئے ہیں

 

شام سے پہلے جلا بیٹھے تھے ہم سارے چراغ

صبح سے پہلے مکاں کو بے ضیا ہونا ہی تھا

 

موسموں کی گرد شیشے کو چھپاتی کب تلک

بارشوں کے بعد ہم کو آیئنہ ہونا ہی تھا

 

مجھ کو بہت عزیز تھی شیشہ گری مگر

تشنہ لبی نے کر دیا تیشہ بکف مجھے

 

راس آ چکی ہیں مجھ کو سمندر کی وسعتیں

ساحل بلا رہا ہے کیوں اپنی طرف مجھے

 

پڑھا کرتا ہوں اب تاریخ میں جو داستانیں

مورخ نے کسی بھی باب میں لکھا نہیں تھا

 

کھنڈر ہوتی حویلی سے میں پہروں بات کرتا ہوں

خدا جانے مجھے کیا اس کی ویرانی سے ملتا ہے

 

بڑی مشکل سے اس کے سحر سے میں بچ کے نکلا ہوں

کسر چھوڑی نہ تھی اس نے مجھے پتھر بنانے میں

 

یہ اشعار نئی اردو غزل کی بہتر نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اشعار سے عالم خورشید کے منفرد رویئے کی پہچان ہوتی ہے۔ حقیقتوں اور سچایؤں کا مطالعہ کرتے ہوئے تخلیقی ذہن کے گہرے مشاہدوں اور آگہی کی پہچان بھی بخوبی ہو جاتی ہے۔ شاعر کے تخیل اور اس کے جذبوں کی خوبصورت آمیزش ہوئی ہے۔ عالم خورشید حقیقت یا سچائی کو جمالیاتی تجربہ بنانے کا گر جانتے ہیں۔ تخلیقی عمل کے بعد تخیل حقیقت کی صورت تبدیل کر دیتا ہے اور اسے کسی نہ کسی جذبے کا رنگ عطا کر دیتا ہے۔ عالم خورشید بات کرنے کا سلیقہ خوب جانتے ہیں۔ ’خیال آباد” کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے مجھے ڈاکٹر سموئل جونسن کی یہ بات یاد آ رہی ہے :

” Poetry pleases by exhibiting an idea more graceful to the mind than things themselves afford”

اپنے شعری تجربوں کو قاری کے ذہن تک پر وقار انداز سے پہنچانا بہت بڑی بات ہے۔ مختلف تجربوں کو چنتے رہنا اور بات ہے مگر انہیں اپنے باطن میں جذب کرنا اور پھر جمالیاتی صورتیں عطا کر کے قاری کے ذہن تک پر وقار انداز میں پہنچانا اور بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ ذاتی مشاہدات سے جاگرتی کے پیدا ہوتے رہنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ایک ’وژن‘ جنم لیتا ہے۔

شاعری وہ غزل ہو یا نظم میٹھے پانی کا چشمہ اس وقت تک نہیں بنتی جب تک کہ اس میں ’افسانویت‘ نہ پیدا ہو جائے۔ نئی اردو شاعری کو افسانویت کی جانب بڑھنا ہے۔ عالم خورشید کو بھی اپنی بہتر تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ فکشن کے جمال سے ایک گہرا باطنی رشتہ قائم کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں عالم خورشید کے ایسے اشعار خود ان سے سرگوشی کرتے ہیں :

 

ندی کنارے پہروں بیٹھا رہتا ہوں

کیا رشتہ ہے میرا بہتے پانی سے

 

بہتے دریا میں کوئی عکس ٹھہرتا ہی نہیں

یاد آتا ہے بہت گاؤں کا تالاب ہمیں

 

خوف کا سحر بھی ہے آخری سرحد پہ کھڑا

پھول کے ہاتھ بھی اب شاخِ شرر ہونے لگے

 

کھنڈر ہوتی حویلی سے میں پہروں بات کرتا ہوں

خدا جانے مجھے کیا اس کی ویرانی سے ملتا ہے

 

خیال آباد کی غزلوں سے میں نے اسی طرح لطف حاصل کیا ہے اور جمالیاتی انبساط پایا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

عالم خورشید سے ایک بے تکلف گفتگو

 

               رحمان شاہی

 

رحمان شاہی:پچھلے دنوں ہم نے ڈاکٹر عبد الصمد سے ان کی افسانہ نگاری اور ناول کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو رکارڈ کی تھی جس میں بہت سارے اہم نکات سامنے آئے تھے۔ اشاعت کے بعد اس گفتگو کو عام طور پر بہت پسند کیا گیا۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم اس سلسلے کو برقرار رکھیں۔ اتفاق سے ہم چاروں آج پھر یکجا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آج ہم عالم خورشید سے ان کی شاعری کے حوالے سے کچھ گفتگو کریں۔ آپ لوگ مناسب سمجھیں تو بات آگے بڑھائی جائے۔

عالم خورشید:یعنی آپ چاہتے ہیں کہ تین افسانہ نگار مل کر ایک شاعر کا تیا پانچہ کریں !

عبد الصمد:نہیں ایسا بھی کیا! اور اگر ایسا ہے بھی تو اس میں حرج ہی کیا ہے! اسی بہانے شاعری پر کچھ کارآمد گفتگو ہو جائے گی۔

اختر واصف:رحمان شاہی کی یہ تجویز بالکل مناسب ہے۔

عبد الصمد:بہتر ہو گا کہ ہم لوگ گفتگو شروع کریں۔ چلئے! میں ہی اس سوال سے آغاز کرتا ہوں کہ سب سے پہلے عالم خورشید یہ بتائیں کہ وہ شاعری کیوں کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:ظاہر ہے میں اپنے احساسات ہو خیالات دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ خصوصاً وہ احساسات و خیالات جو کسی طور پر باہر نہیں نکل پاتے اور میرے شعور و لاشعور میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ مجھے پریشان کرتے ہیں۔ جب یہ کاغذ پر منتقل ہو جاتے ہیں تو میری پریشانی کچھ کم ہو جاتی ہے اور میں قدرے عافیت محسوس کرتا ہوں۔

رحمان شاہی:اچھا عالم خورشید صاحب! اب آپ یہ بتائیں کہ آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کیا آپ نے بھی بیشتر شاعروں کی طرح چھ سات سال کی عمر ہی سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا؟

(قہقہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )

عالم خورشید:ارے نہیں بھائی! میں اس سلسلے میں بے حد بدنصیب ہوں۔ کالج کے زمانے تک میرا شعر گوئی سے دور دور تک بھی واسطہ نہ تھا۔ میں اسکول میں سنسکرت پڑھتا تھا اور کالج میں کامرس۔ اردو سے بس اتنی ہی واقفیت تھی جو ابتدائی دنوں میں اردو کہ پہلی دوسری کتاب پڑھ کر حاصل ہوتی ہے۔ میں تو اسپورٹس کا شوقین تھا۔ بلکہ با ضابطہ فٹ بال اور کرکٹ کے لیگ میچ کھیلا کرتا تھا۔ شاعری واعری مجھے کارِ زیاں محسوس ہوتی تھی۔ البتہ میں اپنے شریر دوستوں کے ساتھ کبھی کبھی مشاعروں یا نشستوں میں چلا جاتا تھا مگر شعر سننے نہیں بلکہ شاعروں کا مذاق اڑانے یا انہیں ہوٹ کرنے۔ شعر سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اب حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ کچھ عرصہ بعد میرا سابقہ ایسے دوستوں سے ہوا جنہوں نے شعر و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔

رحمان شاہی: ان میں سے ایک شاید یہاں بھی موجود ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

عالم خورشید:جی ہاں !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں اختر واصف صاحب بھی شامل تھے۔ ہم جب بھی ملتے بات کا رخ شعر وا دب کی طرف مڑ جاتا۔ افسانوں پر گفتگو ہوتی ، غزلیں سنائی جاتیں۔ پھر ان کا پوسٹ مارٹم ہوتا ، بحث و مباحثے ہوتے۔ مگر ان میں میری حیثیت سامع کی ہوتی یا شعر کی ایسی تشریح کرنے والے کی۔ ۔ ۔ ۔ جس کی طرف شاعر کا کبھی دھیان بھی نہ گیا ہو۔ خوب قہقہے لگتے۔ رفتہ رفتہ مجھے ان کی گفتگو میں لطف آنے لگا اور میں ادبی رسائل بھی پڑھنے لگا۔

اختر واصف:اور چپکے چپکے اشعار بھی کہنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:جی ہاں ! یہ بھی درست ہے۔ لیکن میری تک بندیاں میری ڈائری تک ہی محدود رہتی تھیں۔ شاید مجھے اپنے آپ پر اعتماد نہیں تھا۔ لہٰذا دوستوں کو بھی کبھی کچھ سنانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ میرے مطالعے کا شوق بڑھ گیا۔ فکشن پڑھنے کا شوق تو مجھے بچپن ہی سے تھا۔ ہمارے محلے میں ایک اچھی خاصی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ جس میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جو میں نے نہ پڑھی ہو۔ وہاں موجود گلشن نندا سے لے کر قرۃالعین حیدر تک کی ساری کتابیں میں پڑھ چکا تھا۔ لیکن ابن صفی میرے محبوب رائٹر تھے۔ اب تبدیلی یہ آئی کہ خاص طور پر خالص ادب پڑھنے پر توجہ دینے لگا اور فکشن کے ساتھ ساتھ شاعری کا مطالعہ بھی سنجیدگی سے کرنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان پر غور کر نے لگا۔ مطالعہ نے میرے اندر کچھ اعتماد پیدا کیا۔ پھر دو تین سالوں کے بعد میں نے اپنی ایک غزل ــ ’شب خون‘ اور دوسری غزل ’ شاعر‘ کو چپکے سے بھجوا دی۔ اتفاق سے دونوں رسالوں سے مثبت جواب آیا اور غزلیں شائع ہو گئیں۔ ہاں ! ان غزلوں کو بھیجتے وقت میں نے اپنے نام کی ترتیب الٹ دی تاکہ اگر غزلیں شائع ہو جائیں تو کسی کو کچھ نہ پتہ چلے کہ یہ کون صاحب ہیں۔ اس طرح میں خورشید عالم سے میں عالم خورشید بن گیا۔

رحمان شاہی:شعر گوئی ایک مشکل فن مانا جاتا ہے۔ بحر و اوزان اور عروض کی بھول بھلیاں تو اچھے کو اچھوں کو بھٹکا دیتی ہیں۔ آپ نے ان سب سے کس طرح واقفیت حاصل کی؟

عالم خورشید:بھائی! ان سب کے لئے سب سے پہلی شرط موزوں طبع ہونا ہے۔

اختر واصف:جو آپ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:جی شاید!لیکن میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میں نے اس سفر یعنی چھپنے چھپانے کے سلسلے کا آغاز ہی کیا ہی تھا کہ میری ملاقات شاہد کلیم صاحب سے ہوئی جو گیا سے ٹرانسفر ہو کر پٹنہ آئے تھے۔ ہم روزانہ ٹرین سے آرہ سے ٹرین کے ذریعہ ایک ساتھ پٹنہ آتے تھے۔ دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام ٹرین کے اس سفر میں ہماری گفتگو کا مرکز عام طور پر ادب ہی ہوتا۔ موصوف ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور شعر و ادب پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔ فن کی باریکیاں اور شعر گوئی کے اسرار رموز کی مشکلیں آسان کرنے میں انہوں نے میری بڑی مدد کی اور میرے کلام کی اصلاح بھی کی۔ میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور انہیں بلند درجات سے نوازے۔

یہ سلسلہ چھ سات برسوں تک چلا پھر میں آرہ سے پٹنہ منتقل ہو گیا۔ بقیہ راستہ مطالعہ نے ہموار کر دیا۔

عبد الصمد:۸۰ کے بعد ادبی منظر نامے پر ابھرنے والے شاعروں اور ادیبوں کو ما بعد جدید نسل کہا جا رہا ہے۔ آپ کا تعلق بھی اسی نسل سے ہے۔ ما بعد جدیدیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:سب سے پہلے میں یہ عرض کروں کہ میں ادب میں کسی لیبل یا برانڈ کے خلاف ہوں۔ یہ مسئلہ ناقدین کا ہے، فن کاروں کا نہیں۔ میں ادب کو خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھتا۔ اگر ناقدین اپنی سہولت کے ۸۰ کے بعد تخلیق کئے گئے ادب کو ما بعد جدیدیت کا نام دیتے ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے ، ہمارا نہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ ما بعد جدیدیت ناقدین کی اس کوشش کا نام ہے جو ۸۰ کے بعد تخلیق کئے گئے ادب میں در آئی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنا چاہتی ہے۔

عبد الصمد: تو کیا اس ما بعد جدیدیت کا تعلق بھی مغرب کی ما بعد جدیدیت سے ہے؟

عالم خورشید:جی نہیں ! اس کا تعلق مغرب کی اس ما بعد جدیدیت سے قطعی نہیں ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں نے کسی برانڈیڈ نظریئے یا فارمولہ کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرنے کا کام نہیں کیا۔ ۲۵۔ ۲۰ برسوں میں تخلیق ہوئے ادب میں اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف حالات کی تبدیلی ہے۔ اس سلسلے سے متعلق ایک بات اور بتاؤں کہ ۱۹۹۷ء میں منعقد ہونے والے سیمینار میں بھی ہم لوگوں نے نارنگ صاحب سے اس موضوع پر صاف صاف یہ باتیں کہی تھیں کہ ہم لوگ کسی لیبل کو پسند نہیں کرتے۔ اس سے پھر فارمولائی ادب کی انڈسٹریاں قائم ہونے خطرہ ہے۔ ہم لوگوں کو اس نام پر بھی اعتراض تھا۔ نارنگ صاحب نے ہمارے خیالات سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس ما بعد جدیدیت کا مغربی ما بعد جدیدیت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ اس کا مقصد اسی تبدیلی کا محاسبہ کرنا ہے جو ۸۰ء کے بعد کے حالات کے سبب اور یہاں کی مٹی سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کئی مضامین میں یہ باتیں لکھیں بھی۔ مگر تازہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سینئر ناقدین کو یہاں کے ادب میں آئی تبدیلیوں کا پتا کرنے کے دریدا اور فلاں چلاں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ جو نتیجہ سامنے آ رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اب تو ہر ناقد اپنے لواحقین کو مابعد جدید شاعر اور افسانہ نگار ثابت کرنے پر تلا ہے۔ اس میں عمر یا زمانے کی بھی قید نہیں۔ عجب نہیں کہ یہ تنقیدی لن ترانیاں میرؔ، غالبؔ کو بھی ما بعد جدید ثابت کر دیں۔

اختر واصف:مجھے یاد آتا ہے کہ ما بعد جدیدیت سیمینار سے تقریباً دس سال پہلے آپ کا مجموعہ ’ نئے موسم کی تلاش‘ شائع ہوا تھا۔ اس کے دیباچے میں آپ نے واضح طور پر لکھا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی شاعری کہ ترقی پسندی یا جدیدیت سے منسوب نہ کیا جائے۔ اس وقت جدیدیت کا بول بالا تھا۔ آپ کا یہ قدم ایک طرح سے اینٹی ویو تھا۔ آپ نے کیا سوچ کر یہ باتیں لکھی تھیں ؟

عالم خورشید:جہا تک مجھے یاد ہے میں نے اس دیباچے میں یہ بھی لکھا تھا کہ میری دانست میں ادب وقت اور زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ اور وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے وقت کے ساتھ

ساتھ زندگی اور اس کے نظامِ حیات میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ اس تبدیلی کے سبب ہمارے سوچنے ، سمجھنے کے انداز، حالات اور واقعات کو دیکھنے کا زاویہ اور رد عمل میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کو ہم اپنی نظروں سے پرکھ رہے تھے۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں کا جذباتی یا شدت پسندی کے ساتھ نہیں بلکہ معروضی انداز میں اپنا ورثہ سمجھ کر جائزہ لے رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے رویئے میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں وہ کسی تحریک یا رجحان میں مکمل طور پر فٹ نہیں ہو رہی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ کہ اس صورتحال میں ہماری تخلیقات کے ساتھ انصاف نہیں ہو پائے گا۔ اس لئے مجموعے کے دیباچے میں ان محسوسات کا میں نے اظہار کیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کہ میرا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔ کیونکہ بعد میں بہت سارے احباب اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

رحمان شاہی:اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کسی بھی تحریک ، رجحان یا نظریے کو نہیں مانتے! انہیں رد کرتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ کی شاعری کا کوئی نظریہ ہی نہیں ؟

عالم خورشید:بھائی! ہر شخص کا کوئی نہ کوئی نظریہ ، نظامِ فکر ضرور ہوتا ہے۔ چاہے اس پر اس نے غور کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ کسی شاعر یا ادیب کا نظریہ آپ کو معلوم کرنا ہو تو اس کی تخلیقات کا بغور مطالعہ کیجئے ! اس کا نظریہ ڈھونڈنے میں آپ کو زیادہ دشواری نہیں ہو گی۔ کسی تحریک یا رجحان کو سے آپ قربت محسوس کرتے ہیں تو اسی نظریئے کی مماثلت کی وجہ سے۔

رحمان شاہی:تو پھر ناقدین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں اور جس خانے میں چاہیں آپ کو فٹ کر دیں ؟

عالم خورشید:میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ دیکھئے ! یہاں معاملہ الٹا ہے۔ بیشتر لوگ کسی رجحان یا تحریک سے اس لئے جڑتے ہیں کہ وہ اسے سکۂ رائج ا لوقت سمجھ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ اس فیشن پرستی کے چکر میں وہ اپنی انفرادیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ترقی پسندی کے زمانے میں کیا ہوا! آپ کے سامنے ہے۔ بیشتر لوگوں نے ہوا کی تقلید میں نعرے بازی کو ادب کا اہم عنصر سمجھ لیا۔ جدیدیت کو بھی انہیں فیشن پرستوں نے نقصان پہنچایا جو فرار اور مایوسی ہی کو جدیدیت کی روح سمجھ بیٹھے اور اس کے دائرے کو محدود کر دیا۔ اس دائرے کے باہر کی چیزیں انہیں بے کار لگتی تھیں۔ یہ سب ان معصوم لوگوں کی شدت پسندی ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی بھول کر بیٹھے تھے کہ ادب کا سلسلہ ان پر ختم ہو گیا۔ اگر یہ شدت پسندی نہ ہوتی تو جدیدیت میں اتنی سوعت تھی کہ آنے والے ہر عہد کو وہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتی۔

رحمان شاہی:گویا آپ جدیدیت کو رد کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:بھائی! میں کسی تحریک یا رجحان کو رد کیسے کر سکتا ہوں۔ میں تو تمام تحریکوں کو تسلسل کے طور پر دیکھتا ہوں اور ان کو ایک ہی زنجیر کی کڑیاں مانتا ہوں۔ کیا ہماری نسل کا کوئی بھی فن کار اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ جدیدیت کی گود میں پلا بڑھا ہے !

رحمان شاہی: آپ اپنی بات کریں !

عالم خورشید:میں اپنی ہی بات کر رہا ہوں۔ کیا جدیدیت سے قبل لکھا گیا ادب ہمارا ورثہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ گزشتہ تحریکوں کی جو باتیں ہمیں کار آمد لگیں انہیں ہم اپنا لیں اور جو کارآمد نہیں لگیں ان سے دامن بچائیں ؟

اختر واصف:کیا آپ کی اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ کی شاعری کے ڈانڈے روایت ، ترقی پسندی اور جدیدیت تینوں سے ملتے ہیں یا ان تینوں کے اثرات آپ کی شاعری پر ہیں۔ یعنی آپ کی شاعری تین نکتوں کے درمیان کنفیوزڈ شاعری ہے!

عالم خورشید:آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ جو چاہیں نتیجہ اخذ کریں۔ مگر میں اس بات کو اس طرح کہوں گا کہ میں نے بلکہ ہماری نسل نے ان تینوں کے مثبت عناصر کو اپنے خون میں شامل کر لیا ہے اور آگے کے سفر پر مائل ہیں اور ہمارا یہ عمل بالکل فطری بھی ہے۔ کیونکہ زندگی کے مختلف رنگ ہیں۔ انسان کی تشکیل بھی کئی عناصر سے مل کر ہوئی ہے اور وہ مختلف کیفیات کا حامل ہے۔ آپ ہنستے بھی ہیں اور روتے بھی ہیں ، پیار ، محبت بھی کرتے ہیں اور لڑتے جھگڑتے بھی ہیں ، اداس بھی ہوتے ہیں اور فطرت کے مناظر سے لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ بیزار بھی ہوتے ہیں اور جوش و ولولے سے بھر بھی جاتے ہیں۔ یعنی یہ تمام کیفیات آپ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ان تمام کیفیات اور تجربات کا اظہار ہی تو ادب ہے! بشرطیکہ وہ اظہار خوبصورتی سے ہو، سلیقے سے ہو، فن کے پیرائے میں ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب کوئی تجربہ، کوئی واقعہ، کوئی خیال آپ کو اندر سے پریشان کرے۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح بیچین کرے کہ آپ اس کے اظہار پر مجبور ہو جائیں۔

عبد الصمد:اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ نئی نسل لکھتی زیادہ ہے، پڑھتی کم ہے اور سوچتی اس سے بھی کم ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:ادب میں ’ نئی نسل” کی اصطلاح مضحکہ خیز ہے۔ آپ کو لکھتے ہوئے ۳۵۔ ۳۰ سال ہو گئے ہوں گے۔ آپ کی اتنی کتابیں شائع ہو گئیں۔ آج بھی بعض ناقد آپ کا نام نئے فن کاروں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم لوگوں کو لکھتے ہوئے بھی ۳۰۔ ۲۵ سال ہو گئے مگر تمام لوگ نئی نسل میں شامل ہیں۔ بہر کیف! یہ اضافی بات ہو گئی۔

عبد الصمد:میرا سوال مطالعے سے متعلق تھا!

عالم خورشید:جی! میں اسی طرف آ رہا ہوں۔ یہ فقرہ بھی خوب ہے! میں نہیں سمجھتا کہ کوئی باشعور فن کار یا اچھا فنکار مطالعے کی اہمیت سے انکار کر سکتا ہے۔ مطالعہ تو کسی فن کا ر کے لئے غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر تو فن کار زیادہ دنوں تک زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ آپ کے کے وہ مشاہدے اور تجربے بھی تو مطالعے کے توسط ہی سے یا مطالعہ کے دوران ہی ذہن ودل میں جھماکے پیدا کرتے ہیں جو آپ کے لاشعور میں دبے پڑے ہوتے ہیں۔ ایک بات سے دوسری بات نکلتی

ہے اور ایک مضمون دوسرے مضمون کو جنم دیتا ہے۔ میرے دوستوں میں تو ایسا کوئی نہیں۔ البتہ آپ کے ہم عصروں میں ایسے کئی لوگوں کو میں ضرور جانتا ہوں جو فخریہ انداز میں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ میں کسی دوسرے فن کار کی تخلیق نہیں پڑھتا۔ یا تو وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا آپ ان کی تخلیقات پڑھ کر دیکھ لیجئے! یقینی طور پر وہ اپنے آپ کو دہرا رہے ہوں گے یا مکھی پر مکھی چپکانے

کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے ہوں گے۔

رحمان شاہی:مگر غور و فکر والی بات ادھوری رہ گئی!

عالم خورشید:اس سلسلے میں یہ عرض کرون گا کہ میں مجذوب کی بڑ کو شاعری نہیں مانتا بلکہ شعوری کوشش اور غور و فکر کا نتیجہ مانتا ہوں۔ آپ کو خود کبھی کبھی ایک اچھا سا جملہ لکھنے کے لئے گھنٹوں پریشان ہونا پڑتا ہو گا۔ اس جملے کو شعر بنانے میں اور بھی کتنی مشکلیں پیش آ سکتی ہیں اس کا اندازہ آپ بھی کر سکتے ہیں۔ ہاں ! یہ بات قابلِ قبول ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے یا اس سے بھی قبل لوگ جس طرح مطالعہ کرتے تھے اس طرح آج کے فن کار مطالعہ نہیں کر پاتے۔ لیکن اس کی بھی وجوہات ہیں۔ آج نہ تو شعر و ادب کے لئے ماحول سازگار ہے اور مطالعے کے لئے فضا موافق۔ آج آپ میرؔ، غالبؔ کی طرح ہول ٹائمر نہیں ہو سکتے۔ آپ کو زندہ رہنے کے لئے معاشی مسائل جھیلنے ہیں ، روزگار کی تلاش کرنی ہے، دفتروں میں آٹھ دس گھنٹے غیر ادبی کام کرنے ہیں۔ چار چار پانچ پانچ گھنٹے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک پہنچنے میں ضائع کرنے ہیں ، گھریلو ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ ان کے علاوہ آئے دنوں سیاست کی پیدا کی ہوئی نئی نئی مصیبتیں جھیلنی ہیں۔ پھر آپ کے پاس وقت ہی کتنا بچتا ہے؟ ہمارے یا آپ کے پاس مطالعے کے لئے یا شعر ادب کے لئے اتنی گنجائش نہیں ہے جو ہمارے بزرگوں کو حاصل تھی۔ اس کے باوجود اچھی خاصی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس معاشی حرص و ہوس کے دور میں بھی غیر منافع بخش جنون میں مبتلا ہیں اور اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر مطالعہ کر رہے ہیں ، شعر و ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے نہ کہ دل شکنی۔

رحمان شاہی:ہماری نسل کے کچھ فن کاروں کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں سینیئر فن کار اور نقاد دونوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:یہ شکایت ہر نسل کے فن کاروں کو اپنے پیش رو فن کاروں یا ناقدین سے رہی ہے۔

رحمان شاہی:گویا آپ نئی نسل کے اس الزام کو پورے طور پر تسلیم کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:دیکھئے! جب میں اس امر پر غور کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب صورتحال پہلے سے بہتر ہے۔ کیونکہ تحریکوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے پہلے جو شدت پسندی تھی اس میں بہت کمی آ گئی ہے۔ ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے یا رد کرنے کا رویہ جو پہلے تھا وہ اب بہت حد تک ختم ہو چکا ہے۔ نئے ادب پر خوب گفتگو ہو رہی ہے، مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ مضمون نگاروں میں سینیئر لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ آپ اگر مجھ سے ذاتی طور پر یہ سوال پوچھیں تو میں آپ کو بتاؤں

کہ میں خود کو اس معاملے میں بے حد خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے دوستوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائیاں اور دعائیں حاصل رہی ہیں۔

اختر واصف:اب ایک آخری سوال یہ کہ نئے موسم کی تلاش، زہرِ گل اور خیال آباد یعنی آپ کے تینوں شعری مجموعوں کی شاعری میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ یہ فرق موضوعاتی سطح پر بھی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی۔ کہیں یہ فرق شعوری کوشش کا نتیجہ تو نہیں ؟

عالم خورشید:ہاں ! کچھ حد تک۔ ۔ ۔

اختر واصف:گویا۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:بھائی! آپ نے میرے تینوں مجموعوں کی شاعری کے درمیان جو فرق محسوس کیا وہ فرق کچھ تو شعور کی پختگی اور ریاضت کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ مجھے اپنی شاعری کبھی مطمئن نہیں کرتی۔ میں ایک ڈگر پر بہت دنوں تک نہیں چل سکتا، بیزار ہو جاتا ہوں۔ لہٰذا سال دو سال تک چپ بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر جب یہ سفر شروع ہوتا ہے تو کوشش یہیں ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر کچھ نیا پن پیدا ہو۔

رحمان شاہی:کیا یہ عمل درست ہے؟

عالم خورشید:اب مجھے پتا نہیں کہ یہ عمل درست ہے یا نہیں۔ مگر میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ میرا نیا مجموعہ کارِ زیاں ترتیب پا چکا ہے۔ اس میں تبدیلی کچھ اور واضح نظر آئے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

’’کارِ زیاں”‘ کی شاعری میں عالمؔ خورشید کی عصری معنویت

 

               محمد صدّیق نقویؔ

 

دورِ حاضر میں غزل کی شعری روایت کو عصری مسائل اور انسانی بے چینی سے وابستہ کرتے ہوئے، نئے آہنگ اور شعری خصوصیات سے وابستہ فطری آہنگ کو فروغ دینے والے چند نمایاں شاعروں میں عالم خورشید کا شمار ہوتا ہے۔ اُن کی غزلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پختہ کاری اور تجربے کی تمازت کے ساتھ ساتھ عصری آہنگ کی منہ بولتی تصویر عالم خورشید کی غزلوں میں موجود ہے۔ حالانکہ عالم خورشید کا شعری مجموعہ ’’کارِ زیاں”‘ کے زیرِ عنوان غزلوں کی نمائندگی کرتا ہوا منظرِ عام پر آیا ہے لیکن اُن کی تصانیف کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پٹنہ کی سرزمین سے اُبھرنے والے اِس شاعر نے اپنی شعری شناخت کا لوہا منوانے کے لیے ایک سے زیادہ شعری مجموعے پیش کر کے شاعری سے فطری مناسبت کا ثبوت پیش کیا ہے چنانچہ اُن کے تخلیقی سر چشموں پر توجہ دینے سے یہ واقفیت ہوتی ہے کہ سب سے پہلے ۱۹۸۸ء میں اُن کا شعری مجموعہ ’’نئے موسم کی تلاش‘‘ شائع ہوا جس کے ٹھیک دس سال بعد ۱۹۹۸میں ’’زہرِ گُل‘‘ کے عنوان سے ایک شعری مجموعہ شائع ہوا اور اُس کے ٹھیک پانچ سال بعد ۲۰۰۳ء میں ’’خیال آباد‘‘ جیسے شعری مجموعے کی اشاعت عمل میں آئی اور پھر مزید چار سال بعد یعنی ۲۰۰۷ء میں عالم خورشید کے مرصع خیالات سے مزین غزلوں کا مجموعہ ’’کارِ زیاں”‘ منظرِ عام پر آچکا ہے۔ انہوں نے اپنی شعری حسّیت کی مؤثر نمائندگی کے لیے ہندوستان کی اکثریتی فرقے کی زبان یعنی ہندی میں شعری مجموعہ ’’ایک دریا خواب میں”‘ کی اشاعت عمل میں لائی جس کی سنِ اشاعت ۲۰۰۵ء درج ہے اور ۲۰۰۶ء میں اُن کا تحقیقی کارنامہ ’’پرویز شاہدی۔ ۔ حیات اور کارنامے‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ غرض شاعری کے توسط سے اپنے نام کو جدید شعری روایات سے ہم آہنگ کر کے سادہ اور پُرکار زبان میں غزل گوئی کی روایت کو فروغ دینے والے چند نمائندہ شاعروں میں عالم خورشید کا شمار ہوتا ہے جن کے فن کی یہی خوبی ہے کہ انہوں نے غزل کی شاعری میں پیچیدہ تراکیب،فارسی اور عربی کے غیر معروف الفاظ اور اضافتوں کو نظر انداز کر کے ایسی شاعر ی کی بنیاد رکھی ہے کہ جس کے مطالعے کے لیے قاری کو نہ تو کسی لغت کا سہارا لینا پڑتا ہے اورنہ ہی دور از کار تشبیہات کی وجہ سے گنجلک مفہوم کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے بلکہ عام لفظیات سے فائدہ اُٹھا کر شعری کائینات کو سجانے کا ہنر عالم خورشید کو خوب آتا ہے۔ اُن کی غزلوں کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ رواں بحروں کے استعمال کے ذریعے شاعری کو انسانوں کے دلوں کے قریب کر دیتے اور حُسنِ بیان کی تازگی کے ذریعے شعر کو کیفیات کی نمائندگی کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ عالم خورشید کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری میں نہ تو کسی فلسفے کی نمائندگی کی طرف توجہ دی ہے اور نہ ہی فکر کو پیچیدہ خیالات سے وابستہ کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ خیال کی فطری ترنگ کو لفظوں کا پیراہن بخش کر دل کو چھو لینے والی شاعری کے ذریعے وہ ایسا کلام پیش کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے قاری کے دل و دماغ پر مثبت تاثر منقّش ہوتا ہے اور شاعر کی فطری خصوصیت کی غمازی کرتا ہے ،اس طرح عالم خورشید پٹنہ کی سرزمین سے اُٹھنے والے ایک ایسے فطری شاعر ہیں جو شاعری میں ملمع کاری سے پرہیز کرتے ہوئے خالص فطری اظہار کو ذریعہ بنا کر غزل کی شاعری میں اپنا اونچا مقام بنا لیتے ہیں۔

عہدِ حاضر میں غزل کی شعری روایت مختلف تحریکوں کے توسط سے مختلف انداز کے اظہارات کا سلسلہ بنتی رہی،کسی زمانے میں رنگین بیانی کو غزل کا وصف سمجھا گیا اور بیسویں صدی میں ہی رومانی خیالات اور جمالیاتی احساس کے توسط سے ایسی غزل گوئی کو فروغ حاصل ہوا جس میں عورت کے حُسن کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی،اسی طرح ترقی پسند تحریک کے متوالوں نے غزل کی شاعری میں عشق کے مفہوم کو بدل کر اشتراکی خیالات کے توسط سے غزلیہ شاعری پر بے شمار احسانات کیے اور جب جدیدیت پسند شعری روایت نے غزل کا دامن تھاما تو علامتوں کی نئی دنیا آباد ہوئی اور پھر مابعد جدیدیت کے تصرّف سے غزل میں وجودیت اور ہجرت کے فلسفے کو نمایاں کیا گیا۔ غرض ان تمام عصری تجربوں سے گزرتے ہوئے اردو غزل نہ تو کچلی جا سکی اور نہ ہی اُس کے خیالات کو پامالی کا موقف حاصل ہوا۔ اقبال کی مذہبی علامتوں سے لے کر فیض اور ن۔ م۔ راشد کی ہمہ گیر علامتوں کے علاوہ غزل کی شاعری مختلف تجربوں سے وابستہ ہوتی ہوئی اکیسویں صدی میں داخل ہوئی ہے اور یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ عالم خورشید نے اپنی غزل کو بیسویں صدی کے تمام تجربوں سے بے نیاز کر کے عصری تصورات سے وابستہ کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالم خورشید کی غزلوں میں نہ تو غمِ عشق اور غمِ دوراں کا ذکر ملتا ہے اور نہ غمِ جاناں کی پُر کیف فضائیں اُن کی غزل پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ وہ اردو شاعری کو غالب کی فکر یعنی غمِ روزگار سے باہر نکال کر انسان کی زندگی میں جھانکتے اور انسانی جبلتوں کا اظہار کرتے ہوئے شاعری میں ان تمام کیفیات کو سمونے کی کوشش کرتے ہیں جو ظاہری اور باطنی خصوصیات کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے اطراف و اکناف کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالم خورشید کی غزلیں اپنے عہد کے شاعروں کے کلام سے جداگانہ اور مختلف ہیں۔ انہوں نے غزل کی شاعری کے ذریعے حسّی کیفیات کو بھی نمایاں کیا ہے اور ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ عالم خورشید نے تلازموں اور پیکروں کے توسط سے غزل کے میدان کو لالہ زار ہونے نہیں دیا بلکہ اپنی سوچ اور فکر کے دائروں سے غزل کی شاعری کو مالا مال کر کے ایسا گلشن سجایا ہے کہ جس میں انسان کو اپنی زندگی کی حقیقت کا پرتو دکھائی دیتا ہے،یہی خوبی عالم خورشید کو عصری شاعروں میں امتیازی مقام عطا کرتی ہے۔

نئی سوچ اور نئی فکر کو غزل میں سمونے کا فن عالم خورشید کو خوب آتا ہے۔ وہ ندرتِ فکر کے قائل ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اسی وجہ سے غزل کا ایوان سجایا ہے کہ اس کے توسط سے ہر شعر کی جداگانہ فکر کو واضح کیا جا سکے۔ غزلوں میں نیرنگی اور تازہ کاری کے ساتھ ساتھ لفظوں کی دروبست سے وہ پوری طرح آشنا ہیں اس لیے اُن کا کوئی بھی شعر دل پر تاثٔر مرتب کرنے کا وسیلہ بن جاتا ہے اور وہ نئے قوافی اور ردیف کے توسط سے غزل کی دنیا کو سجانے ،سنوارنے اور دل میں اُتارنے کے علمبردار قرار پاتے ہیں۔ اُن کی زندگی کے تجربوں کی دھمک غزل کی شاعری میں حد درجہ نمایاں اور اُن کی ثابت قدمی کی دلیل ہے۔ کوئی منفرد خیال رکھنے والا شاعر ہی اپنی غزل کو ایسے نادر تصور سے وابستہ کر کے یہ شعر لکھ سکتا ہے۔

وہ نقشِ خواب مکمل کبھی نہیں ہوتا

تمام عمر جسے ہم بناتے رہتے ہیں

غزل کے اس شعر میں جس اٹل حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسان کے مجبورِ محض اور خدا کے خودیِ مطلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ خود ایک ایسی کھلی دلیل ہے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی بے بسی اگر چہ نادار ہے لیکن وہ اپنی بے بسی سے بھی کائنات کو سجانے کا ہنر رکھتا ہے۔ عالم خورشید کی غزلیہ شاعری میں کئی ایسے مقامات دکھائی دیں گے جہاں شاعر نے کسی حسّی کیفیت کو نمایاں کرنے کے لیے زیریں افسردگی کو کام میں لایا ہے ،اس شعر میں بھی اُس کا اظہار پوری شد و مد کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ عالم خورشید نے اپنی غزلیہ شاعری کے توسط سے نہ صرف اپنے خیالات کی نمائندگی کی ہے بلکہ انسانی غموں کے قافلے کو اس منزل تک پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ جس کے توسط سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کو اپنے غم میں دنیا کا غم دکھائی دینے لگتا ہے تب کہیں شاعر کی زبان سے اس قسم کا شعر اپنی کیفیات کے ساتھ منظرِ عام پر آتا ہے۔

اے شہرِ بد حواس میں تنہا نہیں اُداس

یاں چین اور قرار تو سب کے نہیں رہے

دنیا کی روش اور اُس کے ساتھ انسانی عمل کی نمائندگی کرتے ہوئے عالم خورشید نے بڑے دلچسپ رویے کو شاعری میں ڈھالتے ہوئے دورِ حاضر کے المیے کی طرف اشارہ کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں۔

اُٹھتی ہے کیوں ہماری طرف سب کی اُنگلیاں

اطوار تو کسی کے بھی ڈھب کے نہیں رہے

اس شعر میں عہدِ حاضر کی اخلاقی گراوٹ کا رزم نامہ موجود ہے لیکن سادہ اور سلیس زبان میں شاعرنے راست اظہار کا سہارا لیا ہے۔ عالم خورشید کی غزلیہ شاعری اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے غزل کے ہر شعر کو راست بیان کا وسیلہ بنایا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ خیالات کو ملمع کاری سے مزین نہیں کرتے اور فکر کو متوازن رکھنے کے لیے کسی تشبیہ اور استعارے کی تلاش میں شعر کو گنجلک نہیں بناتے۔ اُن کی غزلوں میں راست لب و لہجہ اپنا اثر دکھاتا ہے اور قاری کا ذہن کسی قسم کی قلا بازی کھائے بغیر راست مفہوم کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے،اس قسم کی امتیازی شاعری دورِ حاضر کے بہت کم شاعروں میں دکھائی دیتی ہے جب کہ عالم خورشید اسی طرز کو غزل میں سمونے کی وجہ سے کامیاب شاعر قرار پاتے ہیں۔ ’’کارِ زیاں”‘ میں شامل تمام غزلیں اپنی حسّی کیفیت کے ساتھ ساتھ راست بیانیہ کی وجہ سے دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں جس کا اظہار اُن کی ایک غزل کے منتخبہ اشعار سے خوب ہوتا ہے اور اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عالم خورشید نے نئے لب و لہجے کی آن بان کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

 

قربتوں کے بیچ جیسے فاصلہ رہنے لگے

یوں کسی کے ساتھ رہ کر سب جُدا رہنے لگے

دستکیں تھکنے لگیں ، کوئی بھی در کھُلتا نہیں

کیا پتا اب کس جگہ اہلِ وفا رہنے لگے

ہجر کی لذّت ذرا اُس کے مکیں سے پوچھیے

ہر گھڑی جس گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگے

پھر پرانی یاد کوئی دل میں یوں رہنے لگی

اک کھنڈر میں جس طرح جلتا دیا رہنے لگے

اس غزل میں عالم خورشید نے نہ صرف تشبیہات اور استعاروں کا استعمال کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کی نمائندگی بھی کی ہے جہاں انسان ہجوم میں اکیلا اور رشتہ داروں میں اجنبی ہو کر اپنے وقار کو کھوتا جارہا ہے۔ بلا شبہ عالم خورشید کی شاعری کو اپنے عہد کے المیے اور رزمیے کا نام دیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے انہوں نے جہاں افسردگی کا اظہار کیا ہے وہیں بے چینی کو بھی نمایاں کیاہے، چنانچہ ہر غزل کی زیریں رو میں شاعر کی بے چینی کومحسوس کیا جا سکتا ہے۔

عالم خورشید نے نئی کیفیاتی فضا کو شعر گوئی کا وسیلہ بنا کر نہ صرف غزل کی موضوعاتی خصوصیت میں یک رنگی کا خاتمہ کیا ہے بلکہ ہمہ رنگی خصوصیات کو شامل کر کے غزلِ مسلسل کی روایت کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اُن کی بیشتر غزلیں ہر شعر کی اکائی کی دعویدار ہونے کے باوجود ربط و تسلسل کی ایسی دنیا کو تعمیر کرتی ہیں جن میں غزلِ مسلسل کا لطف دو بالا ہوتا نظر آتا ہے۔ روانی،سلاست اوربے ساختگی عالم خورشید کی غزلوں کی خصوصیت ہے اور انہوں نے بیشتر غزلوں میں حُسن و عشق کی داستان بیان کرنے سے انحراف کر کے غزل کو دورِ حاضر کی کیفیات کا وسیلہ بنا دیا ہے۔ عالم خورشید کی غزلوں میں جس قدر روانی ہے اُسی قدر خیال کا بہاؤ بھی اپنا راستہ بناتا نظر آتا ہے جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ عالم خورشید نے غزلیہ شاعری کے دوران تراکیب کے استعمال کو نظر انداز کرتے ہوئے سادہ لفظیات سے کیفیاتی فضا کی نمائندگی کی ہے اس لیے اُن کی غزلِ مسلسل میں بھی ایک نئے آہنگ کی سرگذشت سنائی دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ عالم خورشید نے طویل غزل لکھنے سے احتراز کرتے ہوئے ،سات تا نو اشعار کی غزلوں پر اکتفا کرتے ہوئے خیالات کی ایسی محفل سجائی ہے جو زبان کی چاشنی کے ساتھ قاری کے ذہن کو معطّر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر چہ اُن کے شعری مجموعے ’’کارِ زیاں”‘ سے کئی مسلسل غزلوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے لیکن دلچسپی کی خاطر ایک ایسی مسلسل غزل کے اشعار پیش ہیں جس میں ہر شعر فرد ہونے کے باوجود غزل کی کیفیت مسلسل خیالات کی لڑی میں بہتی چلی جاتی ہے چنانچہ اُن کی رواں غزل کے چند مسلسل شعر ملاحظہ ہوں :

 

ترے خیال کو زنجیر کرتا رہتا ہوں

میں اپنے خواب کی تعبیر کرتا رہتا ہوں

 

تمام   رنگ   ادھورے   لگے   ترے   آگے

سو   تجھ کو   لفظ   میں  تصویر کرتا رہتا ہوں

 

جو بات دل سے زباں تک سفر نہیں کرتی

اُسی کو   شعر   میں    تحریر کرتا رہتا ہوں

 

دُکھوں کو اپنے چھُپاتا ہوں میں دفینوں سا

مگر     خوشی     کو     ہمہ گیر کرتا رہتا ہوں

 

گذشتہ رُت کا امیں ہوں ،نئے مکاں بھی میں

پرانی     اینٹ   سے   تعمیر کرتا رہتا ہوں

 

مجھے بھی شوق   ہے دنیا کو زیر کرنے کا

میں  اپنے   آپ کو   تسخیر کرتا رہتا ہوں

 

زمین ہے کہ بدلتی   نہیں کبھی   محور             میں

کیسی   کیسی   تدابیر کرتا رہتا ہوں

 

میں جو ہوں اُس کو چھُپاتا ہوں سارے عالمؔ میں

جو میں نہیں ہوں وہ تشہیر کرتا رہتا ہوں

 

اس غزل میں عالم خورشید نے صرف ایک شعر کو غزلیہ رنگ سے وابستہ کیا ہے اور غزلِ مسلسل کے تمام اشعار میں نئی نئی باتوں کو پیش کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ در حقیقت وہ روایتی شاعر نہیں بلکہ غزل کی شعری روایت سے استفادہ کر کے جدید طرز میں خیالات کی ترسیل کرنے والے وہ ایسے نمائندہ شاعر ہیں کہ جن کے شعر فکر و فلسفے کی آگہی کے بغیر دل کی گہرائیوں میں اُترنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ اگر چہ دورِ حاضر کی بھیڑ میں آزاد غزل اور غزل کی شعری ہیئت میں تجربوں کے سلسلے بھی اپنا اثر دکھانے لگے ہیں لیکن عالم خورشید نے ایسے تجربوں سے انحراف کرتے ہوئے سادہ غزل کی نمائندگی کی طرف توجہ دی ہے اور اُن کی شاعری میں سہلِ ممتنع کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ ہر شعر اِس انداز سے شعری حُسن کاری سے وابستہ ہے کہ اُس کی نثر بھی شعر کی لفظیات کے مماثل ہو جاتی ہے،ایسا حُسن شاعری کو کمال کے درجے تک پہنچا دیتا ہے اور عالم خورشید اسی خوبی سے مالا مال نظر آتے ہیں۔ غزل کی شاعری میں انہوں نے چھوٹی بحروں کے استعمال کی طرف بھی توجہ دی ہے اور اُن کی چھوٹی بحروں میں لکھی ہوئی غزلیں بھی سہلِ ممتنع کی تاثیر سے مالا مال ہیں چنانچہ نمونے کے طور پر مختصر بحر والی ایک غزل کے چند اشعار پیش ہیں جس میں سہلِ ممتنع اپنے عروج کی نمائندگی کرتا ہے۔

 

خواب آتے نہیں سلونے سے

فائدہ کچھ نہیں ہے سونے سے

 

باز آتی نہیں ہیں کیوں آنکھیں

اپنی مٹّی   میں خواب بونے سے

 

دل میں شاید بہت کثافت ہے

کام چلتا   نہیں ہے رونے سے

 

لوگ   بیزار ہو گئے ہیں کیا؟

شور سُنتا   ہوں کونے کونے سے

 

حوصلہ   بڑھ گیا   اندھیروں کا

شہر کے   بے چراغ ہونے سے

 

کیا بدل جائے گا کوئی منظر

خار آنکھوں میں اب چبھونے سے

 

منکشف   ہو گئے سبھی   اسرار

دو گھڑی اپنے ساتھ ہونے سے

 

سُر نکھرنے   لگا   ہے اب میرا

اک ذرا درد کو سمونے سے

 

کاش فرصت ملے   ہمیں  عالمؔ

خون میں اُنگلیاں ڈبونے سے

 

اس پوری غزلِ مسلسل میں صاف اور سادہ الفاظ اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ شاعر نے صرف دو مشکل الفاظ کو ایک ہی مصرعے میں تسلسل کے ساتھ استعمال کرلیا ہے بلا شبہ اردو کا جدید حلقہ منکشف اور اسرار جیسے الفاظ کا متحمل نہیں اسی طرح ایک اور لفظ کثافت بھی اس غزل کی زینت بنا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالم خورشید نے اپنی غزلوں میں سادہ اور رواں الفاظ استعمال کرنے پر پوری توجہ دی ہے لیکن بادلِ نخواستہ ضرورتِ شعری کے لیے وہ ثقیل الفاظ کے استعمال پر بھی توجہ دیتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ شاعر سادہ الفاظ سے ہی پُرکاری کا کارنامہ انجام دینے کا قائل نہیں بلکہ پیچیدہ لفظیات سے بھی کیفیاتی فضا پید اکر کے قاری کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ عالم خورشید کی غزلوں کا یہ کمال ہے کہ وہ دو لفظی ردیف اور بعض اوقات سہ لفظی ردیف کے ذریعے غزل کی دنیا کو سجانے اور اُس کے توسط سے اظہار کی بوقلمونی کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اُن کی غزلوں میں لفظوں کا رچاؤ حد درجہ نمایاں اور معنی کے تسلسل کو پیوست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے یک رُکنی ردیف کو بھی غزل کے لیے استعمال کر کے خاص فضا تیار کی ہے۔ عربی اور فارسی کی پیچیدہ لفظیات کو بھی قافیے میں استعمال کر کے اُسے ردیف سے پیوست کرنے میں عالم خورشید پوری طرح کامیاب ہیں چنانچہ اُن کی ایک ایسی غزل بھی نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہے جس میں پیچیدہ قوافی کو استعمال کر کے شاعر نے اپنی فنکارانہ مہارت کا ثبوت دیا ہے۔

 

تہہ بہ تہہ ہے راز کوئی آب کی تحویل میں

خامشی یوں ہی نہیں رہتی ہے گہری جھیل میں

 

میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی

آج تک مصروف ہوں اُس خواب کی تکمیل میں

 

ہر گھڑی احکام جاری کرتا رہتا ہے یہ دل

ہاتھ باندھے میں کھڑا ہوں حُکم کی تعمیل میں

 

کب مری مرضی سے کوئی کام ہوتا ہے تمام

ہر گھڑی رہتا ہوں میں کیوں بے سبب تعجیل میں

 

مُدعا تیرا سمجھ لیتا ہوں تیری چال سے

تُو پریشاں ہے عبث   الفاظ کی تاویل میں

 

کیوں تجھے اپنا خیال آتا نہیں  عالمؔ   کبھی

کوئی شئے باقی نہیں ہے اب تری زنبیل میں

 

مشکل قوافی کے ساتھ ردیف کو نبھا کر عالم خورشید نے غزل کے جس آہنگ کو فروغ دیا ہے اُس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ پیچیدہ لفظیات کو بھی معنی آفرینی سے ہم آہنگ کرنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔ عالم خورشید نے جتنی بھی غزلیں لکھی ہیں اُن میں نئے قوافی اور ردیف کے التزام پر خصوصی توجہ دی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اُن کے مشّاق ذہن نے با ضابطہ قوافی اور ردیف کا انتخاب کر کے انہیں خیال کی پیش کشی کی طرف متوجہ کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ اُن کی ہر غزل کی زمین حد درجہ رواں لفظیات سے ہم آہنگ ہوکر کیفیاتی فضا میں نئے جلترنگ بجانے کا شدید احساس جگاتی ہے۔ اگر عالم خورشید کی ہر غزل کی نمایاں خصوصیات پر توجہ دی جائے تو بلا شبہ طویل مقالے کی ضرورت ہو گی چنانچہ اختصار سے کام لیتے ہوئے اُن کی غزلوں سے چند ایسے منتخبہ اشعار بھی درج کیے جاتے ہیں جن میں شاعر کی فکر کی انفرادیت بھی نمایاں ہوتی ہے۔

میں ٹوٹ جاتا ہوں کیوں آ کے منزلوں کے قریب

سفر شروع تو کرتا ہوں حوصلے کے ساتھ

 

گراں گزرتی ہیں اپنی شرافتیں عالمؔ

کسی نظر کے تقاضے سے مُنہ چھپاتے ہیں

 

خدا انہیں بھی ہو توفیق کچھ عبادت کی

محبتوں کو جو کارِ زیاں سمجھتے ہیں

 

کہیں پہ جسم کہیں پر خیال رہتا ہے

محبتوں میں کہاں اعتدال رہتا ہے

 

ہر سانس میں اب اُس کی دھمک سُننے لگا ہوں

شہ رگ میں مری کوئی صدا چلنے لگی ہے

 

چھوٹی سی ایک بات نے رسوائی کی مری

اُس نے ذرا سی حوصلہ افزائی کی مری

 

میں کچھ بھی اُس کے سامنے عالمؔ نہ کہہ سکا

شہرت عبث ہے قوتِ گویائی کی مری

 

رکھتا ہوں کہاں راز کوئی دل میں چھپا کر

یہ بوجھ کبھی مجھ سے سنبھلتا ہی نہیں ہے

 

سارے حربے ہوئے بیکار مرے دشمن کے

مرے سینے میں مرا تیر ہی پیوست ہوا

 

رستے میں جو ملتا ہے مل لیتے ہیں

اچھے بُرے کی اب پہچان نہیں کرتے

 

ترکیبِ عناصر میں  خلل دیکھ رہا ہوں

اب نیزوں پہ میں کِھلتے کنول دیکھ رہا ہوں

 

عالم خورشید کے شعری مجموعے ’’کارِ زیاں”‘ سے منتخب اشعار پیش کرنا بھی در حقیقت ایک مشکل مرحلہ ہے کیوں کہ اُن کے ہر شعر میں شاعر کے تجربے اور کیفیات کی نئی دنیا آباد ہے،غرض بے تراکیب سادہ لفظوں کے توسط سے غزل کی دنیا سجا کر کیفیاتی فضا کو سادگی کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کی کامیاب کوشش پر عالم خورشید کو مبارک باد دی جاتی ہے اور بلا شبہ یہ بات تصدیق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اُن کا شعری مجموعہ ’’کارِ زیاں”‘ نہیں بلکہ ’’کار آمد شعری وصف‘‘ ہے جس کے توسط سے قاری کو مسرّت اور بصیرت کا حوصلہ ملتا ہے اس لیے عالم خورشید کی شاعری کو اس لیے قبول کیا جانا چاہیے کہ اُن کی شاعری میں اکیسویں صدی کی وراثت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کا اردو شاعر اسی لب و لہجے کو اختیار کر کے غزل کی دنیا کو قاری کے دل کے قریب کرسکتا ہے۔ چونکہ یہ کارنامہ عالم خورشید نے انجام دیا ہے اس لیے ’’کارِ زیاں”‘ جیسے شعری مجموعے کی پیشکش پر انہیں مبارک باد دی جاتی ہے اور اردو کے قارئین سے توقع ہے کہ وہ اس قسم کی سادہ شعری روایت کو قبول کرتے ہوئے اُسے آنے والی صدی کی بانگِ درا سے تعبیر کریں گے۔

٭٭٭

زہرِ گل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مطالعہ

 

               امتیاز احمد

 

 

بات اس زمانے کی جب شعر ادب کے انعامات تقسیم ہونے شروع نہیں ہوئے تھے اور شعر کہتے کہتے لوگ ڈپٹی کلکٹر بھی نہیں ہوتے تھے۔ کلاسیکی شعریات میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی تھی جسے لوگ سہلِ ممتنع کہتے تھے۔ اس کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ ایسا کلام جو بظاہر اتنا آسان معلوم ہو کہ ہر شخص یہ کہنے لگے کہ ایسا شعر تو میں بھی کہہ سکتا ہوں لیکن جب کہنے بیٹھے تو لوہے کے چنے چبانے پڑ جائیں ۔ ظاہر ہے خون تھوکنے اور لوہے کے چنے چبانے کے محاورے یوں ہی نہیں بن گئے۔ ان کے پیچھے استادی اور شاگردی کا وہ پورا تصور کار فرما ہے جس میں شعرا کو تلمیذ الرحمٰن کہا گیا ہے۔ استادِ ازل کی قدرتِ کاملہ جب کسی شعر پر اثر انداز ہوتی اور اسے اس کا عشر عشیر بھی مل جاتا ہے تو وہ بھی استاد کہلانے لگتا اور شاعری کے تمام اسالیب اور اصناف پر قدرت حاصل کر کے مشکل سے مشکل زمینوں کو پانی کر دکھاتا۔ یہی پانی کر دکھانا سہلِ ممتنع کہلاتا تھا۔ اس کے لئے عربوں کے یہاں یہ روایت تھی کہ شاعری شروع کرنے سہ پہلے ہر متوقع شاعر قصیدہ کے بیس ہزار اشعار یاد کرتا اور پھر جب یاد کا مرحلہ طے ہو جات تو انہیں بھلانا شروع کرتا۔ اس مرحلہ کی تکمیل کے بعد وہ شاعری شروع کرتا تھا۔ اس کے نتیجے کے طور پر وہ جانتا تھا کہ اس سے پہلے کے شعرا کیا کچھ کہہ چکے ہیں اور کیسے کہہ چکے اور اگر اپنے بعد اسے اپنے کلام کو زندہ رکھنا ہے تو کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے۔ عربی اور فارسی سے ہوتی ہوئی یہ روایت ہمارے یہاں پہنچی اور ہمارے کلاسیکی شعرا نے سہلِ ممتنع کی وہ روایت قائم کی جو اب ہمارے سامنے ہے۔ بعد کے شعرا نے اس سے انحراف کی کوشش میں گرمبے بنانے شروع کئے اور جنہوں نے گرمبے نہیں بنائے وہ سرخ سویرا کی نذر ہو گئے۔ ان دونوں کے بعد کچھ لوگ ایسے بھی آئے جو سرخ سویرا اور گرمبے دونوں سے محفوظ رہے۔ انہیں لوگوں میں ایک نام عالم خورشید کا بھی ہے۔ عالم خورشید اور ان کی نسل کے بعض دوسرے شعرا نے کلاسیکی شعریات اور شعری روایت سے اپنا رشتہ استوار رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کے یہاں اس طرح کے اشعار بہ کثرت ملتے ہیں :

 

سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے

ہم آفتاب تھے مگر چراغ بن کے رہ گئے

 

کسی کو عشق میں بھی اب جنوں سے واسطہ نہیں

یہ کیا ہوا کہ سارے دل، دماغ بن کے رہ گئے

 

وہ شاخ شاخ نیلے پیلے لال رنگ کیا ہوئے

تمام دشت کے پرند زاغ بن کے رہ گئے

 

جس دن کے منتظر تھے ہم شب کی مثال ہو گیا

جینا کہاں کہ چین سے مرنا محال ہو گیا

 

گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے

حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا

 

صحرا کے بود و باش کی آتی تھی یاد اس طرح

کاغذ پہ دشت دیکھ کے میں بھی غزال ہو گیا

 

کبھی موتی، کبھی تارے بنا لیتے ہیں اشکوں سے

خوشی کو ہم الم کا استعارہ کرتے رہتے ہیں

 

خلقت تمام شہر کی مجھ پر ہے مہربان کیوں

میں نے تو آج تک کوئی کارِ جفا کیا نہیں

 

ایک ایک گل تری تصویر ہمیں لگتا ہے

پھول کا ہار بھی زنجیر ہمیں لگتا ہے

 

ساری دنیا سے تعلق ہے اسی کے دم سے

رشتۂ درد جہانگیر ہمیں لگتا ہے

 

سیاہ بخت وہی لوگ کہہ رہے ہیں ہمیں

مرے چراغ سے جو اپنا گھر اجالتے ہیں

 

دئے جلانے پڑیں گے کئی زمانوں تک

سحر تو آئی مگر صرف پاسبانوں تک

 

ٹوٹتی محراب، گرتے بام و در دیکھے گا کون

ہم نے دیکھی ہے حویلی تو کھنڈر دیکھے گا کون

 

کلاسیکی شعریات کے زائیدہ عالم خورشید کے یہ اشعار کلاسیکی اسلوب، آہنگ اور انداز کے ساتھ ساتھ سہلِ ممتنع کی اس کیفیت کا بھی پتا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر مصرعہ اپنی اپنی جگہ پوری طرح گٹھا ہوا، انتہائی آسانی سے کہا گیا اور بغیر کسی بلند آہنگی اور اظہار کی شدت کے اپنی جگہ تاثر کی شدت رکھتا ہے۔ عالم خورشید کے کلاسیکی شعریات سے شدید طور پر جڑے ہونے کا احساس ان کے اشعار دے دوسرے مصرعوں کے مطالعہ سے بھی ہوتا ہے۔ کلاسیکی شعرا پہلے دوسرا مصرعہ کہتے تھے اور اس کے بعد اس پر مصرعہ اولیٰ لگاتے تھے۔ اسی لئے عام طور سے ان کے دوسرے مصرعے بہت بھرپور ہوا کرتے تھے اور بعض اوقات یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ پہلے مصرعے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اسی لئے کلاسیکی شاعری کی تفہیم کا بھی یہی طریقہ قرار پایا کہ پہلے مصرعہ ثانی کی تفہیم کی کوشش کی جائے اور بعد میں مصرعہ اولیٰ سے اس کا ربط تلاش کیا جائے۔ یہ خصوصیت عالم خورشید کے یہاں بھی ملتی ہے۔ چند مصرعے دیکھئے!

 

ہمیں خبر ہی نہیں ہجر کیا، وصال ہے کیا

 

ہوا کے رخ پہ بھی چلنا کوئی کمال ہے کیا

 

کھلیں کے پھول بھی، پھولوں کی آرزو تو کریں

 

کوئی چراغ ہواؤں کے روبرو تو کریں

 

اب یہاں میرے سوا خوابِ سحر دیکھے گا کون

 

بتوں کے شہر میں یہ کامیابی کم نہیں ہے

 

سیاہ رات کو خطرہ اسی کمال سے ہے

 

اپنی آنکھوں میں کوئی مہتاب کہاں رکھتے ہیں ہم

 

اس خرابے میں کوئی خطۂ شاداب بھی ہے

 

لیکن ان معروضات کے معنٰی یہ نہیں ہیں کہ عالم خورشید کلاسیکی شاعر ہیں یا عظیم شاعر ہیں یا بہت بڑے شاعر ہیں یا آؤٹ آف ڈیٹ شاعر ہیں ۔ عالم اپنے عہد کے شاعر ہیں اور اس عہد کی ساری جھلّاہٹ، تشنگی، بیچارگی، مہابیانیہ کی گم شدگی ان کے کلام میں در آئی ہے۔ اس میں احتجاج کی ایک زیریں لہر بھی ہے، عشق کی آگ بھی ہے اور زندگی کی ناہمواریوں کو ہموار کرنے کا حوصلہ بھی۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے جو ان کے اپنے عہد اور ان کے اپنے مزاج کی پہچان ہیں :

 

ہمارے عہد کا محبوب ہی کچھ ایسا ہے

ہمارا کام نہیں چلتا ہے کنائے سے

 

گفتگو رمز کنایہ ہیں فقط وصل کے خواب

عشق اب لفظ کی جاگیر ہمیں لگتا ہے

 

شکم کی آگ بجھانے میں ہم پریشاں ہیں

ہمیں کہاں ہے سعادت گناہ کرنے کی

 

میں کس کے حق میں اٹھاؤں اب اپنے ہاتھوں کو

میری نظر میں کوئی شخص معتبر ہی نہیں

 

اسی لئے تو یہ سارا جہاں ہمارا ہے

کہ اس زمیں پہ کہیں اپنا کوئی گھر ہی نہیں

 

ہر ایک شئے ہے میسّر بس اک سکوں کے سوا

دکھا رہے ہو مجھے کیسا دہر کاغذ پر

 

لیکن یہ پہچان کبھی شاعری بنتی ہے کبھی نہیں ۔ جب یہ شاعری بنتی ہے تو اس طرح کے اشعار وجود میں آتے ہیں :

 

صحرا کو جل تھل کر ڈالا قطرہ قطرہ پانی نے

ہم کو کیا کیا خواب دکھائے آنکھوں کی ویرانی نے

 

تیرا میرا روح کا رشتہ جنم جنم کا بندھن ہے

کیسے کیسے لفظ تراشے شہواتِ نفسانی نے

 

لہروں کی سرگم پر جھومیں بیچ بھنور میں رقص کریں

کتنا سرکش بنا دیا ہے تنکوں کو طغیانی نے

 

یا پھر وہ اشعار وجود میں آتے ہیں جو کلاسیکی شعریات کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ہیں ۔ اور جب یہ پہچان شاعری نہیں بنتی ہے تو اس طرح کے اشعار وجود میں آتے ہیں :

 

تمہارا سچ ہمارا سچ نہیں ہے شہریارو

تمہارے سچ سے ہم انکار کرنا چاہتے ہیں

 

بھروسہ اٹھ گیا ہے اب ہمارا ناخدا سے

ہم اپنے ہاتھ کو پتوار کرنا چاہتے ہیں

 

خدا کے خوف نے تم کو کہاں انساں بنایا

خدا کی ذات سے ہم پیار کرنا چاہتے ہیں

 

لیکن ایسے اشعار اس مجموعہ میں کم ہیں ۔ عام طور سے زہرِ گل کی شاعری ۱۹۷۰؁ء کے بعد کی نسل کی شاعری کی خوشگوار نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن اس کے خد و خال پوری طرح واضح ہونا ابھی باقی ہیں ۔ اس بات پر ضرور حیرت ہوتی ہے کہ یہ شاعر اتنی آسانی سے نک سک سے درست اتنے اچھے اشعار کیسے کہہ لیتا ہے۔ اور اسی وجہ سے قاری اس سے توقعات کی ایک دنیا وابستہ کر لیتا ہے۔ خدا کرے عالم خورشید کے آنے والے مجموعے قاری توقعات پر پورے اتریں ۔ (آمین)

٭٭٭

 

 

 

زہرِ گل

 

               ظہیر صدیقی

 

جواں سال جدید شاعر عالم خورشید کا دوسرا شعری مجموعہ’ ’زہرِ گل ‘‘ ہے جو پہلے شعری مجموعہ ’’نئے موسم کی تلاش‘‘ کی اشاعت کے دس سال بعد ۱۹۸۸؁ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔

پیش لفظ میں شاعر نے لکھا ہے ’’ نیا عہد نئے مسائل بھی لے کر سامنے آتا ہے۔ اس لئے ان نئے مسائل کی پیش کش کے لئے فن کاروں کو نئے اور نامانوس الفاظ کے استعمال پر بھی زور دینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں نئے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے وہیں طرزِ اظہار بھی نیا ہو جاتا ہے۔ ‘‘

یہ ایک عمومی خیال ہے جس سے اتفاق کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ لیکن جہاں تک ’’زہرِ گل ‘‘ کی شاعری کی بات ہے، شاعر نے نئے نامانوس لفظوں کے استعمال سے احتراز کیا ہے۔ ویسے نامانوس اور نئے الفاظ کے استعمال کے بغیر ہی اس کے کلام میں ندرت، جدت اور تازگی موجود ہے۔ ۔ جانے پہچانے لفظوں کے استعمال نے زہرِ گل کی شاعری کو ابہام و پیچیدگی اور عجز بیان سے پاک رکھا ہے۔ ’’زہرِ گل‘‘ کی شاعری نئے پن اور پرانے پن سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھتی ہے اور ’’ دلیلِ کم نظری قصہ ء قدیم و جدید‘‘ کی وکالت کرتی ہے۔ ’’زہرِ گل ‘‘ کے شاعر کو جدید بننے اور جدید کہلانے کا شوق بھی نہیں ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور اس کا ذہن جو کچھ قبول کرتا ہے اس کو وہ دیانتداری اور فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔ وہ کہیں بھی اس کوشش میں مصروف نظر نہیں آتا کہ وہ ایسے الفاظ استعمال کرے کہ لوگ اسے ’’جدید‘‘ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں ۔

دراصل کوئی شئے واضح طور نئی ہوتی بھی نہیں ہے۔ ہر شئے عہد بہ عہد روپوش ہو ہو کر نمودار ہوتی رہتی ہے، کبھی اسی لباس میں کبھی نئے لباس میں ۔ فصلِ گل آتی ہے، پھول کھلتے ہیں ، خزاں آتی ہے، نئے نئے پھول کھلتے ہیں لیکن نئے ان معنوں میں نہیں کہ آج تک ان پھولوں کو کسی نے دیکھا ہی نہیں ۔

اس طرح تعمیر ہو یا تخریب، ہمدردی، ایثار و اخوت کے حسین جذبات ہوں یا ظلم و خود غرضی اور بے انصافی کے قبیح محرکات۔ یہ سب اول سے آج تک دن اور رات، روشنی اور تاریکی کی طرح آنکھ مچولیاں کھیلتے رہے ہیں ، کھیلتے رہیں گے۔ اس عالمِ تضاد میں حسن وجود قبح کے بغیر ممکن نہیں ۔

’’زہرِ گل‘‘ کا شاعر راست تخلیقی ذہن کا مالک ہے۔ راست تخلیقی ذہن سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ کسی مثبت سیاسی یا مذہبی نظریہ سے وابستہ ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کے تخلیقی ذہن پر منفی عوامل کا رد عمل اور اس کا شعری اظہار مثبت ہی ہوتا ہے۔ شاعر حساس ذہن کا مالک ہے لیکن وہ اپنے حواس کو قابو میں رکھنے کا ہنر جانتا ہے۔ معاشرہ میں پھیلی ہوئی خرابیاں عام لوگوں کے مقابلے میں اس کے ذہن پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ راست اندازِ فکر کا حامل ہے اس لئے اشعار کی صورت میں جو رد عمل ظاہر ہوتا ہے وہ منفی کے بجائے مثبت ہوتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ ’’زہرِ گل‘‘ کا شاعر زہر نگلنے پر مجبور ضرور ہے لیکن اس کا قلم تریاق ہی اگلتا ہے۔

زہرِ گل کا شاعر قدیم و جدید کی آویزش و کشمکش کے بے نیاز ہو کر اپنے شاعرانہ خیالات کا اطہار کرتا ہے۔ نہ وہ کسی تحریک یا رجحان سے وابستہ ہے اور نہ اسے کسی تحریک یا رجحان سے بیر ہے۔ وہ خلوصِ اظہار میں یقین رکھتا ہے اور حسنِ بیان کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک روایت، ترقی پسندی اور جدیدیت ایک ہی تاریخی تسلسل مختلف کی کڑیاں ہیں ۔ اس کے شعری مزاج نے تینوں عہد اور مزاج کے احسن اثرات کو قبول کیا ہے۔ ’’زہرِ گل‘‘ کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ شاعر نے روایت سے وقارو تمکنت، ترقی پسندی سے عزم و حوصلہ کی دولت حاصل کی ہے اور جدیدیت سے فرد کی بے بسی، نفسیاتی پیچیدگی کا بے باکانہ اظہار قبول کیا ہے۔ لیکن ان مختلف النوع اثرات کو قبول کرنے کے باوجود اس کے اشعار میں ذرہ برابر بھی فرسودگی اور پامالی نظر نہیں آتی اور وہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتا ہے۔

دیکھئے! روایت کے پھولوں سے تازگی اور ندرت کی خوشبوئیں کشید کرنے کی ایک دو مثالیں :

 

چارہ گر! اب تو بتا دے مرہموں کی آس میں

کب تلک ہم ناخنوں کی ناز برداری کریں

 

پھر درِ دل پہ ہوئی موجِ جنوں کی دستک

ٹوٹنے والی ہے زنجیر ہمیں لگتا ہے

 

کھل گئے سارے دہانِ زخم اے فصلِ نمو!

پھول کی صورت بدن کی خاک سے باہر نکل

 

دیکھئے! ترقی پسندی کے علم کو کس طرح اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے !

 

ملے گا سب کو اپنا حق رہیں گے سب سکون سے

مگر وہ سارے خواب، سبز باغ بن کے رہ گئے

 

ہمارے ہاتھ میں فردا کی ڈور ہے لیکن

ہمارا رابطہ ماضی سے ہے نہ حال سے ہے

 

تجھ کو حسرت تھی جھکانے کی جسے شاہِ زمن!

دیکھ ہاتھوں میں لئے ہم وہی سر آئے ہیں

 

اس اندھیرے سے ہی پھوٹیں گی شعاعیں اک دن

کب قیادت کو مری شمس و قمر آئے ہیں

 

مرے لہو سے ہمیشہ چراغ جلتے رہے

ہوا کے ساتھ سیہ رات ہاتھ ملتی رہی

 

شب گزیدہ شہر میں جینے کی یہ صورت ہے خوب

گھر کے اندر روشنی ہے، گھر کے باہر تیرگی

 

’’زہرِ گل‘‘ کی شاعری کسی پارٹی کے منشور سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لیکن شاعر کا ایک نصب العین ضرور ہے جو اس کے اشعار میں نمایاں ہے ( اور حقیقت یہ ہے کہ بغیر کسی نصب العین کے اچھی اور بڑی شاعری وجود میں نہیں آ سکتی)

’’زہرِ گل‘‘ کا شاعر (عالم خورشید) اسم باسمٰی ہے۔ وہ چہار سمت پھیلی ہوئی تاریکی کو دور کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ تاریکی پسند ظالموں کی تیرہ چیرہ دستی اور سازشوں سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ وہ شدت کے ساتھ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ دسترس میں جو روشنی ہے وہ بہت تاریکی اور بادِ مخالف کے مقابلے میں ناکافی ہے :

 

تمام شہر اجالا ہو کس طرح تجھ سے

مرے چراغ ! تری روشنی کھٹکتی ہے

 

ان چراغوں سے اجالے کی توقع ہے عبث

جن چراغوں کی ہوائیں ہی خبرداری کریں

 

خدا بچائے وفا کے چراغ کو عالم

ہوا چلی ہے یہاں اشتباہ کرنے کی

 

تاریکی نے کون سا جادو سیکھ لیا اب کے

شمعیں جلتی ہیں لیکن تنویر نہیں کوئی

 

دئے جلانے پڑیں گے کئی زمانوں تک

سحر تو آئی مگر صرف پاسبانوں تک

 

بجھیں چراغ مگر دل رہے سدا روشن

سیاہ رات کو خطرہ اسی کمال سے ہے

 

ان نامساعد حالات کے باوجود شاعر حوصلہ نہیں ہارتا۔ بلکہ روشن رہنا اور روشنی بانٹنا وہ اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے :

 

ہوا سے آنکھ ملانا مری سرشت میں ہے

میں راستے کا دیا ہوں کوئی جلائے تو

 

بلا سے آندھیاں آئیں کہ بارش کی ہو رم جھم

دئیے کی لو ہم نے پھر زیادہ کر لیا ہے

 

میں جلاتا جا رہا ہوں آندھیوں میں بھی چراغ

اے ہوا! تیرے سوا میرا ہنر دیکھے گا کون

 

ہو گئے سب لوگ عالم کالی راتوں کے اسیر

اب یہاں میرے سوا خوابِ سحر دیکھے گا کون

 

چھپا ہو چاند تو یہ ماہتابی کم نہیں ہے

اندھیرے میں ہماری بازیابی کم نہیں ہے

 

’’زہرِ گل‘‘ کا شاعر شب گزیدہ سحر اور ’’داغ داغ اجالا‘‘ میں یقین نہیں رکھتا۔ وہ بھرپور روشنی کا دلدادہ ہے۔ ایسی مکمل روشنی جو تاریکی کو بالکل ہی ختم کر دے۔ (ویسے یہ امر بحث طلب ہے کہ کیا اس دنیا سے ظلم و جہل کی تاریکی کو کلی طور پر ختم کر دینا ممکن ہے ؟ کیا کوئی سحر ایسی بھی ہو سکتی ہے جو شب گزیدہ نہ ہو؟) شاعر کو جگنو پسند نہیں کیونکہ اپنے جمالیاتی حسن کے باوجود وہ تاریکی کو دور کرنے سے قاصر ہے :

 

خورشید جگنوؤں کے تعاقب میں کیا پھروں

ان سے جو مطمئن ہو مرا دل نہیں ہے وہ

یا

تاریکی میں زندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

جگنو سا تابندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

لیکن جب وہ تاریکی کا غلبہ دیکھتا ہے اور دور دور تک روشنی کی ہلکی سی رمق نہیں دکھائی تو وہ جگنوؤں کو ہی غنیمت سمجھتا ہے:

 

تو ہی میرا ہم سفر ہے اس اندھیرے دشت میں

چل مرے جگنو! خس و خاشاک سے باہر نکل

 

میں نے سطورِ بالا میں کہیں لکھا ہے کہ زہرِ گل کا شاعر کسی منشور کا پابند نہیں لیکن اس کا ایک نصب العین ہے اور وہ ایک موقف رکھتا ہے۔ یعنی وہ ایک ایسے انقلاب کا دلدادہ ہے جو آج تک اس کرّہ ارض پر کہیں نہیں آیا۔ وہ کہتا ہے :

 

وہ انقلاب جو اب تک کہیں نہیں آیا

اس انقلاب کے مبہم سے ہیں اشارے ہم

 

خدا جانے شاعر کیسا انقلاب چاہتا ہے۔ یہ کہنا کہ ایسا انقلاب (جو ظلم و جہل کی تاریکی پر عدل و انصاف کی روشنی کو غلبہ عطا کرے) کہیں نہیں آیا۔ واضح اور روشن تاریخی حقیقتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ آج سے چودہ سو برس پہلے عرب کے ریگزاروں میں ایک ایسا انقلاب آیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے انسانوں کی روحانی، مادی اور سماجی زندگیوں میں عدل و انصاف کے ایسے مہر و ماہ روشن کر دئے جن کی روشنی آج تک پوری دنیا کو مل رہی ہے اور قیامت تک ملتی رہیگی۔ دوسرا انقلاب آج سے دو سو برس پہلے فرانس میں آیا۔ جس نے جمہوریت کی داغ بیل ڈالی۔ کار لائل نے اپنے شہرۂ آفاق تصنیف ’’ فرانسیسی انقلاب‘‘ پیش کی اور مشہور رومانی شاعر شیلی نے ایک طویل ترین نظم ’’انقلابِ اسلام‘‘ کے عنوان سے پیش کی۔ یہاں یہ بات محل نظر ہے کہ شیلی جیسے ملحد شاعر نے بھی اپنے سب سے پسندیدہ انقلاب کو اسلام کے انقلاب سے موسوم کیا۔

تیسرا انقلاب آج سے ستر برس قبل روس میں آیا اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی لپیٹ میں چین اور کئی دوسرے ممالک کو لے لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بہرحال اسے تو بجھنا ہی تھا۔ کیونکہ یہ ایک نامکمل انقلاب تھا۔

اگر مندرجہ بالا انقلابوں میں کوئی انقلاب شاعر کا مقصود نہیں تو پھر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ شاعر کے منفرد انقلاب کا تصور فی بطنِ شاعر ہی رہ گیا۔ خدا جانے وہ کیسا انقلاب چاہتا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ ماضی اور حال سے اس کو کوئی واسطہ نہیں اور ہو محض مستقبل میں یقین رکھتا ہے :

ہمارے ہاتھ میں فردا کی ڈور ہے لیکن

ہمارا رابطہ ماضی سے ہے نہ حال سے ہے

بہرحال’’ مقطع میں آ گئی تھی سخن گسترانہ بات‘‘۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شاعر ظلمت کے خلاف میدانِ کارزار میں ڈٹا ہوا ہے۔ خرابیات ہر سمت ہیں ۔ غیروں میں بھی اور اپنوں میں بھی۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کی خرابیوں پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں ۔ کاش کہ ہمیں اپنی خرابیوں کا احساس ہو، ہم زمانے کے تغیرات کو سمجھیں اور یہ دیکھیں کہ ہم جو اپنا وجود کھوتے جا رہے ہیں ، کیا اس کے ذمہ دار ہم خود نہیں ہیں ؟

 

زمانے کے تغیر نے مزاج اپنا نہیں بدلا

حویلی سے سڑک پر آ گئے ہم کج کلاہی میں

 

یہ اس کی زرخیزی ہے جو کھل جاتے ہیں پھول نئے

ورنہ اپنی مٹی کو شاداب کہاں رکھتے ہیں ہم

 

کیوں سر کو جھکائے گا زمانہ ترے آگے

کچھ اور تجھے آتا ہے رونے کے سوا بھی

 

مرے ساتھی گھروں سے منزلوں تک کب کے جا پہنچے

ابھی تک در پہ بیٹھا استخارہ دیکھتا ہوں میں

 

عجب نہیں کہ زمانے سے جا ملوں میں بھی

مرے بھی چہرے پہ اک دن غلاف ہو جائے

 

اس مایوسی کے عالم میں بھی زہرِ گل کا شاعر عزم و ہمت کا دامن نہیں چھوڑتا:

 

ہمارے ہاتھ آئے ہیں خزانے ریت کے عالم

انہیں ذروں کو لیکن ہم ستارہ کرتے رہتے ہیں

 

اس کی خود شناسی اس کو تقویت عطا کرتی ہے :

 

وہ پشیماں ہے عبث ہم کو جلا کر آگ میں

خاک ایسی تھی کہ اس کو کیمیا ہونا ہی تھا

 

تمہاری تیغ ہی جھکتی رہی ہے سدیوں سے

کہ سرمدوں نے کبھی سر کو سر نہیں سمجھا

 

میں گناہوں کے حصاروں میں ہوں ہر پل لیکن

گونجتی رہتی ہے کانوں میں اذاں کچھ بھی ہو

 

زہرِ گل کی آخری غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو :

 

اندھیرے کی طرف بڑھتے قدم کو کیوں نہیں زنجیر کر دیتا

خدا ہر سمت روشن ہے تو میری گمرہی کا کیا سبب آخر

 

بلا شبہ خدا ہر سمت روشن ہے۔ اس نے خود کہا کہ وہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے وہ اگر چاہے تو دنیا کے ہر انسان کو ہدایت کی روشنی عطا کر دے یہ اس کی قدرت سے باہر نہیں ۔ لیکن یہ اس کی ریت نہیں ۔ بے شک گمراہ بھی ہوا کرتا ہے لیکن انہیں کو جو اپنے فسق و ظلم پر مصر ہیں ۔ یہاں شاعر نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا ہے۔ اگر چہ اس نے واحد متکلم ’’میری گمرہی‘‘ استعمال کیا ہے لیکن شاعر ِ زہرِ گل گمراہ نہیں ہو سکتا۔ گمراہ تو اس معاشرے کے وہ ظالم اور چالاک لوگ ہیں جن کا تسلط برابر قائم ہے، جو ظلم و جبر کے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں اور بظاہر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ۔ مظلومین ان کی چالاکی سے واقف ہوتے ہوئے بھی ان کی باتوں میں آ جانے پر مجبور ہیں ۔ گمراہ شاعر نہیں وہ تو گمرہی کا مد مقابل ہے۔ گمراہ وہ ہے جس نے :

 

اک ایک تیر محبت سے لے لیا اس نے

یہ اب کھلا کہ وہ میری کمان چھینے گا

 

اس نے تو صرف تیر اور کمان ہی نہیں چھینے ہیں بلکہ وہ شاعر کی زبان اور قلم بھی چھیننے کے در پے ہے:

اسے تو قسط میں ہم کو تمام کرنا ہے

وہ سب سے پہلے ہماری زبان چھینے گا

 

غرض یہ کہ شاعرِ زہرِ گل ظلمت کے خلاف نبرد آزما ہے :

 

شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

 

وہ کہتا ہے :

 

یہ ریگزار سہی فکرِ رنگ و بو تو کریں

کھلیں گے پھول بھی، پھولوں کی آرزو تو کریں

 

عجب نہیں کہ انہیں آندھیوں سے روشن ہو

کوئی چراغ ہواؤں کے روبرو تو کریں

 

زمانہ ہو گیا عالم خدا سے بات کئے

کبھی کبھی ہی سہی ان سے گفتگو تو کریں

٭٭٭

 

 

 

زہرِ گل ’’ شکستِ خواب‘‘ کے بعد ’’ایک خواب اور ‘‘کا مظہر

 

               عبد القیوم ابدالی

 

’’زہرِ گل‘‘ عالم خورشید کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو ان کے پہلے مجموعے ’’نئے موسم کی تلاش‘‘ کے تقریباً دس سال کے بعد شائع ہو پایا ہے۔ زہرِ گل کی ترکیب بتاتی ہے کہ اس کتاب کا خالق ’’خوبصورتیوں ‘‘سے محظوظ ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور انہیں چاہنے کی خواہش بھی ابھی اس کے اندر زندہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے یہ خوبصورتیاں اسے زہر لگنے لگی ہیں ۔ یعنی گل کا اثبات تو ہے لیکن تلخی ء حالات کا ایک منفی ہالہ اس کے اثباتی پیکر کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔ گویا کہ عالم خورشید کی پوری شاعری دو متخالف نکتوں کے درمیان لٹکی ہوئی شاعری ہے۔ ایک طرف زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے تو دوسری طرف تلخیِ حالات کا منفی ہالہ جو ان رعنائیوں کو چھونے نہیں دیتا۔ شاعر کے یہاں اس منفی ہالہ کو توڑنے کا جذبہ بھی ہے، خواہش بھی ہے اور عزم بھی۔ ان معنوں میں عالم خورشید ’’شکستِ خواب‘‘ کے بعد ’’ایک اور خواب‘‘ بننے کا امین بھی ہے اور اختر الایمان کے اس لڑکے کا وارث بھی جس کے اندر اختر   الایمان نے اپنے باغی جذبوں کو پیکر اختیار کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام تر تلخیِ حالات کے باوجود زندگی سے ایک اچھی سی محبت کا رومانی جذبہ ’’زہرِ گل‘‘ کے خالق کی شخصیت کا غالب پہلو ہے جو اس کی شاعری کا بنیادی وصف بھی ہے :

اک پل کو ہی چمکیں لیکن بجلی سی لہرائیں

راکھ تلے پائندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

’راکھ تلے پائندہ رہنا‘ تلخیِ حالات کے سچ میں ایک بعدِ مکانی ہے جسے شاعر ایک ہی جست میں عبور کر جانا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ جست زیادہ قیمتی ہے چاہے اس کا انجام ’ایک پل کی چمک‘ ہی کیوں نہ ہو۔ سسک سسک کر زندہ رہنے کے بجائے صرف ایک پل زندہ رہنے کا یہ جذبہ تقریباً دو دہائی کے بعد پھر ایک بار شاعری میں نظر آنے لگے تو مجھ جیسے کم ہمتوں کے اندر کہیں بہت اندر کوئی شئے گدگداہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے :

تمازت ہے وہی باقی اگر چہ ابر بھی برسے

ہماری راکھ میں شاید شرارہ اور ہے کوئی

دراصل گذشتہ دو دہائیوں کا یہ شعری سفردماغ سے دل کی طرف مراجعت کا سفر ہے۔ جب تک دل، دماغ کا طابع رہتا ہے اس وقت تک اس کے سارے اقدام مصلحتوں کے طابع رہتے ہیں ۔ دماغ زندہ رہنے کے گر سکھاتا ہے۔ صارفی سماج میں زیادہ سے زیادہ سہولیات حاصل کرنے کا دوسرا نام زندگی ہے اور اقدار، ضمیر، خودی، انا، رد عمل جیسی چیزیں فرسودگی کا استعارہ بن جاتی ہیں ۔ خود غرضی ِ اور بے چہرگی مجبوری کا اور سوداگری ضرورت کا ماسک چڑھا کر جب نقد لیکن دین کی بلی بیدی پر جذبوں کی بلی دینے لگتی ہے تو چہروں پر ہی ماسک نہیں چڑھتے بلکہ آوازوں پر، اظہار کے وسیلوں پر، الفاظ پر، لکیروں پر بھی ماسک چڑھ جاتے ہیں ۔ ہر چیز گنجلک اور الجھی الجھی سی نظر آنے لگتی ہے:

 

کسی کو عشق میں بھی اب جنوں سے واسطہ نہیں

یہ کیا ہوا کہ سارے دل، دماغ بن کے رہ گئے

 

یہ مشکل ہے کسے سونپوں سبھی یخ بستہ لگتے ہیں

چھپائے پھر رہا ہوں سرخ شعلہ سرد مٹھی میں

 

ہم جیسوں کی ناکامی پر کیوں حیرت ہے دنیا کو

ہر صورت میں جینے کے آداب کہاں رکھتے ہیں ہم

 

تجھ کو حسرت تھی جھکانے کی جسے شاہِ زمن!

دیکھ ! ہاتھوں میں لئے ہم وہی سر آئے ہیں

 

گملوں میں سبز کیکٹس میزوں پہ سنگ سج گئے

حیرت میں ہوں کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا

 

دل سے پرند کو بھی اب قابو میں کر چکا ہوں میں

یہ نکتہ چیں بتائیں گے کیسے کمال ہو گیا

 

زمانے کی روش ہم کو کبھی اچھی نہیں لگتی

زمانے سے ہمیشہ ہم کنارہ کرتے رہتے ہیں

 

خموش کیا رہے اک بار مصلحت سے ہم

پھنسا ہوا ہے ابھی تک رگِ نفس میں کچھ

 

مصلحت کا ہے تقاضا عقل سے یاری کریں

دل ہی آمادہ نہیں ہوتا کہ مکّاری کریں

 

ان چراغوں سے اجالوں کی توقع ہے عبث

جن چراغوں کی ہوائیں ہی خبرداری کریں

 

ہمارے عہد کا محبوب ہی کچھ ایسا ہے

ہمارا کام نہیں چلتا اب کنائے سے

 

گفتگو، رمز، کنایہ ہیں فقط وصل کے خواب

عشق اب لفظ کی جاگیر ہمیں لگتا ہے

 

تلخیِ حالات کا المیہ یہ ہے کہ سارے دل، دماغ بن کر رہ گئے ہیں ۔ دل جو جو ایک (پرند) یعنی آزادی اور بے کراں آسمانوں میں اڑان کا اشاریہ ہے، وہ دماغ بن کے رہ گیا ہے۔ دماغ، جس کا کام ہی ہشیاری ہے یعنی انسان ہشیاری کا تابع ہو گیا ہے۔ کیونکہ مصلحت کا تقاضا ہی یہی ہے۔ لیکن اس مصلحت کوشی نے انسان کو ’یخ بستہ‘ کر دیا ہے یعنی ہو ہر طرح کے جذبے سے عاری ہو گیا ہے۔ ہر صورت میں جینے کے آداب اسی مصلحت کی زائیدہ ہیں ۔ ان آداب کے بغیر چراغوں کو خبرداری کا شرف حاصل نہیں ہوتا بلکہ ناکامیاں زندگی کا مقدر بنتی رہتی ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ ان چراغوں سے اجالوں کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن کیا کریں کہ زمانہ کی روش ہی یہی ہے۔ اگر اس سے کنارہ کرتے ہیں تو اس سر کو جسے جھکانا بھی گوارہ اسے اپنے ہاتھوں ہی سے کاٹ کر شاہِ زمن کے دربار میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ پھر بھی دل سے اس پرند کو قابو میں کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ کوئی شئے رگِ نفس میں چبھتی رہتی ہے۔ وہ شئے جو رگِ نفس میں چبھتی رہتی ہے وہ روح میں ایک نوع کی مایوسی گھولتی رہتی ہے جو لہجہ میں گھلاوٹ کا باعث ہوتی ہے۔ یہ شاعری دل کے حوالے سے دماغ تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ جذبے کو مہمیز کر شعور کو اس کا اسیر بناتی ہے۔ خوابوں کا ایک آتش کدہ تعمیر کرتی ہے جس میں آذرِ وقت کے صنم کدوں کے باغی ابراہیم کو جلنا ہے، جلتے رہنا ہے۔ شاید اس امید میں کہ کبھی تو یہ آتش گلزار میں تبدیل ہوگا۔ گلزار میں تبدیل ہونے کی امید میں جلنا اور جلتے رہنا ہی عشق ہے، جنون ہے جو کسی رمز و کنایہ کا پابند نہیں ہوتا۔ یہ لہجہ، یہ اسلوب، یہ انداز اس سکہ کی طرح ہے جو زمانہ اور زندگی کی بھٹی میں تپ کر باہر نکلتا ہے اور جذبوں کے احساس کے اظہار و قبول کا رائج وسیلہ بن جاتا ہے۔ اسے نہ تو کسی ریزرو بینک کے گورنر کے سرٹفیکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وزارتِ مالیات کی سند کی حاجت :

 

غزل کا شعر کوئی ہم نے کب کہا عالم

انڈیلتے ہیں فقط دل کا زہر کاغذ پر

 

دل کا زہر کاغذ پر انڈیلنے کی اس کوشش میں ’انگلیاں فگار‘ ہوں نہ ہوں اور قلم خونچکاں ہو یا نہ ہو دل کو خون ضرور کرنا پڑتا ہے۔ آپ بیتی جب جگ بیتی بن کر دل کو کاٹنے لگتی ہے تو دل میں خون نہیں رہ جاتا زہر بھر جاتا ہے جو ظاہر ہے شریانوں سے ہوتا ہوا دماغ تک جاتا ہے۔ کسی کو اس غم میں اس دکھ درد میں شامل کرنے، اس کے ساتھ ان دکھوں کو بانٹے جانے کی خواہش، کسی ہم نفس کی تلاش کا جذبہ جس زبان کیا متقاضی ہوتا ہے اس میں نہ تو تصنع کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی بناوٹ کی حاجت۔ روز مرہ بول چال کی سلیس اور رواں زبان، ، ایک طرح کی دردمندی، ایک طرح کی گھلاوٹ شاعر کی شناخت بن جاتی ہیں ۔ عالم خورشید کی لفظیات پر نظر ڈالئے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ الفاظ کا انتخاب ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں بنتے۔ لیکن اپنے کلاسیکی ورثے کا ایک رچا ہو شعور ان کے یہاں ضرور جاگزیں نظر آتا ہے اس لئے عربی و فارسی الفاظ داستانوی و تلمیحی کرداروں اور حکایتوں کا استعمال کے یہاں کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے :

 

وسائل سب میسر ہیں تو ہر شئے کی کمی کا کیا سبب آخر

جہاں دریا ہی دریا ہوں وہاں تشنہ لبی کا کیا سبب آخر

 

سمندر کی چٹانوں نے کہیں تو راستہ روکا ہے پانی کا

ابھرتی، ڈوبتی لہروں میں ورنہ سرکشی کا کیا سبب آخر

 

گناہوں کے طرف بڑھتے قدم کو کیوں نہیں زنجیر کر دیتا

خدا ہر سمت روشن ہے تو میری گمرہی کا کیا سبب آخر

 

ہم اپنے حال سے دست و گریباں ہوں عطا ہو وہ ہنر یارب!

وگرنہ چشمِ باطن میں شعورِ آگہی کا کیا سبب آخر

 

کماں چاہے کسی کی ہو ستم کے تیر تو مجھ پر ہی آتے ہیں

میں کیوں خاموش بیٹھا ہوں مری یخ بستگی کا کیا سبب آخر

 

مرا ہر چاکِ دامن میری سعیِ رائگاں پر طنز کرتا ہے

مجھے عریاں ہی ہونا ہے تو پھر بخیہ گری کا کیا سبب آخر

 

چھ اشعار کی اس آخری غزل میں وسائل، میسر، شئے، سبب، دریا، آخر، تشنہ لبی، سرکشی، زنجیر، خدا، روشن، گمرہی، حال، دست و گریباں ، عطا، ہنر، چشمِ باطن، شعورِ آگہی، کمان، ستم، تیر، خاموش، یخ بستگی، چاکِ دامن، سعیِ رائگاں ، طنز، عریاں ، بخیہ گری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسی لفظیات و ترکیبات اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ عالم خورشید نے اپنے کلاسیکی سرمائے سے بھی فیض حاصل کیا ہے۔ لیکن اس نے اس سرمائے کو اپنی تخلیقی کائنات میں جذب کر لیا ہے۔ اس لئے کئی مقامی و علاقائی لفظیات ان سے اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ یہ بتانا بھی مشکل ہو جاتا کہ کن لفظیات و تراکیب کا استعمال زیادہ ہوا ہے:

 

سمندر کی چٹانوں نے کہیں تو راستہ روکا ہے پانی کا

ابھرتی، ڈوبتی لہروں میں ورنہ سرکشی کا کیا سبب آخر

 

یہ شعر بھی اسی غزل کا ہے۔ ظاہر ہے جب کہنے کو بہت کچھ ہو تو کیسے کہا جائے یہ مسئلہ کم ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن اگر کہنے کا فن بھی آتا ہو تو بات سیدھے دل میں ترازو ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ’زہرِ گل‘ کی تقریبا تمام غزلیں بار بار پڑھنے کا مطالبہ کرتی ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ غزلیں اس آتش کدہ کی طرح ہیں جن میں جلنا اور جلتے رہنا عالم خورشید اور اس کی حساس نسل، جذباتی اور باگی نوجوانوں کا مقدر ہے۔ اس آتش کدہ کو روشن رکھنے کے لئے دل کو خون کرتے رہنا اور اپنے جسم کے خس و خاشاک کو پھونکتے رہنا، بریدہ سروں کو ہتھیلیوں پر سجائے رکھنا، صلیبوں سے اترنے کے بعد بھی بدن کی کیلوں کو سجائے رکھنا اس دور کے ان خالقینِ ادب کا مقدر ہے۔

عالم خورشید نے اپنی یہ کتاب ’’زہرِ گل ‘‘ ان تمام کرم فرماؤں ، دوستوں اور دشمنوں کی نذر کی ہے جنہوں نے مختلف طریقوں سے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ لیکن حقیقتاً یہ ایک تحفہ ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو تمام تر تلخیِ حالات کے باوجود اس دنیا کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور کارآمد بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ جنہیں نہ تو کوئی خوف اور نہ ہی کوئی لالچ اپنے راستہ سے ہٹا پاتی ہے۔ بھوک، پیاس اور احتیاج، ندامت اور شرمندگی زندگی کے دوسرے نام ہو گئے ہیں ۔ پیر لہولہان ہیں ، انگلیاں زخمی ہیں ، دل خون کے آنسو رو رہا ہے لیکن جدو جہد جاری ہے۔ جب تک یہ جد و جہد جاری ہے عالم خورشید اور ان جیسے شاعروں اور ادیبوں کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوں گے۔ جب تک عالم خورشید اور ان جیسے شاعروں کا تخلیقی سفر جاری رہے گا۔ انقلابی اور باغی قوتوں کو ان سے روشنی ملتی رہیگی:

یاد کچھ آتا نہیں کب تجھے دیکھا لیکن

تو کسی خواب کی تعبیر ہمیں لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عالم خورشید کی شاعری ۔ ’’زہرِ گل ‘‘کے حوالے سے

 

               سلیم انصاری

 

ساختیات، پس ساختیات، رد تشکیل اور مابعد جدیدیت جیسی بھاری بھرم تنقیدی اصطلاحات ادب کے تخلیقی عمل پر کی اثرات مرتب کرتی ہیں ، یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ تخلیق ہر حال میں تنقید سے اہم ہے۔ تنقید ایک شعوری عمل ہے جو تخلیق کے بغیر بے معنی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تنقیدی عمل کسی بھی تخلیقی اکائی کو مختلف معنوی جہتوں میں منعکس کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا تخلیق اور تنقید دونوں لازم و ملزوم کہی جا سکتی ہیں ۔

۱۹۸۰؁ء کے بعد نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آنے والی ادب نسل نے اپنی تخلیق کو ہی اپنی شناخت کا وسیلہ بنایا ہے۔ جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اس نسل کے سامنے ۱۹۶۰؁ء کے بعد کی شاعری میں فکر اظہار اور ہیت و اسلوب کی سطح پر کئے جانے والے تمام کامیاب و ناکامیاب تجربات کا سفرنامہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ نسل یہ بھی جانتی ہے کہ تنقید کی بیساکھیوں پر کھڑے کئے گئے کئی تخلیق کار گمنامیوں کی دلدل میں کھو گئے ہیں ۔

عالم خورشید جدید تر نسل کے بے حد ذہین، سنجیدہ اور جنوئین تخلیق کاروں میں ایک ہیں ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ اس یقین کو تقویت دیتا ہے کہ انہوں نے صرف اورصرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ہی اپنی شناخت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ ان کے اولین شعری مجموعے ’’نئے موسم کی تلاش‘‘ اور ’’زہرِ گل‘‘ کے درمیان تقریبا ایک دہائی کا وقفہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے مسلسل تخلیقی عمل میں پوری ایک ادبی نسل کے تخلیقی تجربات و مشاہدات کو منعکس کر کے انہیں اظہار کی نئی دشاؤں سے آشنا کیا ہے۔

عالم خورشید کی شاعری پر لکھنے سے زیادہ اہم بات ہے ان کی شاعری میں تخلیقیت کی زیریں لہروں کو محسوس کرنا اور ان کے فکری نظام کو پرت در پرت منور کرنا۔ عالم خورشید کے یہاں کسی نظریاتی وابستگی کا احساس نہیں ہوتا اور غالبا یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کا کینوس وسیع ہے اور ان کے تجربات و مشاہدات کی سرحدیں بے نہایت۔

اپنے اولین شعری مجموعے ’نئے موسم کی تلاش‘ میں عالم خورشید نے لکھا ہے کہ ’’ اچھا اور سچا ادب آزاد فضا میں خلق ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا مقصد کسی رجحان یا تحریک کو رد کرنا نہیں تھا اور نہ ان کے تحت لکھے گئے ادب کو مردود قراردینا تھا بلکہ جو نئے حالات اور مسائل میرے سامنے تھے انہیں تخلیقی سطح پر ادب میں پیش کرنا تھا۔ یہ فکری تبدیلی کسی تھیوری کو پڑھکر میرے ذہن میں نہیں آئی تھی بلکہ فطری طور پر وقت اور حالات کی تبدیلی، معاشرے کے انتشار اور بکھراؤ کی دین تھی‘۔

مندرجہ بالا اقتباس سے عالم خورشید کے ذہنی اور فکری رویوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک جدید تر نسل کے مسائل، تمام پیش رو نسلوں کے مسائل سے مختلف ہیں ۔ ہمارا سامنا کمپیوٹر عہد اور الکٹرانک میڈیا کی اس تیز رفتار ترقی سے ہے جس میں انسان کی حیثیت مشین سے کم ہو جاتی ہے۔ مشینیں جو انسان کو تیزی سے Replace بلکہ Displaceکر رہی ہیں ۔ مشینیں جو ہمارے داخلی احساسات و جذبات کو معطل کرنے کا سامان ہیں ۔ مشینیں جو ہمیں ذہن کے بجائے پیٹ سے سوچنا سکھاتی ہیں ۔ ان تمام مسائل کے درمیان جدید تر نسل کے تخلیقی عمل کے جواز کی تلاش، بجائے خود کسی مسئلہ سے کم نہیں ۔ لیکن خود آئند امر یہ ہے کہ جدید تر نسل کے تخلیق کاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد ایسی ہے جس نے شاعری کو انسان اور مشین کے درمیان پھیلے ہوئے بے شمار مسائل و مصائب کے اظہار کا وسیلہ بنا دیا ہے۔

عالم خورشید کی شاعری اپنے عہد کے مسائل و مصائب کا موثر اظہار ہے۔ زہرِ گل کی غزلیں معاشرے میں روزمرہ کے مسائل سے لے کر بکھرتے، ٹوٹتے رشتوں اور زوال پذیر تہذیبی قدروں تک نئے منظرناموں کی تشکیل کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ محرومیوں ، مایوسیوں ، خوف، تشکیک اور عدم تحفظ کے درمیان زندگی کرنے حوصلہ دیتی ہیں :

 

گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے

حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا

 

نظم و غزل سے کیا ہو، دل میں رہی وہی خلش

لکھنا تو جو لکھا نہیں ، کہنا تا جو کہا نہیں

 

کچھ لوگ جا رہے ہیں وفا کی تلاش میں

میں جانتا ہوں لوٹ کر ناکام آئیں گے

 

اٹھا رہا ہو ں سپر اب میں تیغ کے بدلے

مرے خدا! یہ مری ساعتِ زوال ہے کیا

 

ان اشعار میں جہاں ایک طرف تہذیبوں کے فرق کا المیہ ہے وہیں موجودہ عہد کی تیز رفتار زندگی میں ادب کی بے بضاعتی اور زوال پذیر تہذیبی اخلاقی قدروں کا نوحہ بھی ہے۔

عالم خورشید کے یہاں جو خصوصیت سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ زبان و بیان پر ان کی قدرت ہے۔ ان کی شاعری کا ڈکشن، ان کی فکر سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور ان کے اظہار کی نئی سمتیں متعین کرتا ہے۔ ان کے یہاں ترسیل کے المیے کا مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم استعارات و علامات کا ایک منفرد نظام قائم ہے جو معنی و مفاہیم کے نئے جہانوں کی سیر کراتاہے۔ پیڑ، پتھر، خواب، چراغ، دریا، سمندر، دشت، ریت، سفر، تتلی، جگنو، خوشبو جیسے استعارات نے ان کی شاعری کے باطنی نظام کی تشکیل و تعمیر میں اہم رول ادا کیا ہے۔

چراغ اور خواب دو ایسے لفظ ہیں جو ان کے یہاں بار بار استعمال ہوتے ہیں ۔ اور ہر بار معنویت کی ایک نئی Rangeفراہم کرتے ہیں ۔ عالم خورشید کے یہاں استعارات کو برتنے کی سلیقہ مندی نے ان کی تخلیقی سوچوں کی تجسیم کے عمل کو شدید کر دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

 

ہوا سے آنکھ ملا نا مری سرشت میں ہے

میں راستے کا دیا ہوں کوئی جلائے تو

 

ان چراغوں سے اجالوں کی توقع ہے عبث

جن چراغوں کی ہوائیں ہی خبرداری کریں

 

سجا رہا ہے مرے گھر کو وہ چراغوں سے

کہ سازشیں ہیں مجھے بے پناہ کرنے کی

 

اسی کی شہ پہ بجھے ہیں سبھی چراغ مگر

وہ پوچھتا ہے ہواؤں میں اشتعال ہے کیا

 

سیاہ بخت وہی لوگ کہہ رہے ہیں مجھے

مرے چراغ سے جو اپنا گھر اجالتے ہیں

 

شام سے پہلے جلا بیٹھے تھے ہم سارے چراغ

صبح سے پہلے مکاں کو بے ضیاء ہونا ہی تھا

 

مجھے اس خواب کی تعبیر کوئی شخص بتلائے

اب اپنی بند مٹھی میں ستارہ دیکھتا ہوں میں

 

بند پلکیں کروں آنکھوں میں مقید کر لوں

ایک مدت پہ نئے خواب نظر آئے ہیں

 

یاد کچھ آتا نہیں کب تجھے دیکھا لیکن

تو کسی خواب کی تعبیر ہمیں لگتا ہے

 

ہو گئے سب لوگ عالم کالی راتوں کے اسیر

اب یہاں میرے سوا خوابِ سحر دیکھے گا کون

 

 

بجا ہے جھوٹی بانگوں سے ہی اپنے خواب ٹوٹے

مگر مجرم ہماری نیم خوابی کم نہیں ہے

 

ان اشعار میں عالم خورشید کے کی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر کھلتے ہیں ۔ چراغ اور خواب جیسے الفاظ کو استعارہ بنا کر متنوع اور منفرد تخلیقی اکائیوں کی تشکیل کر کے، کثیر ال جہت معنویت عطا کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن عالم خورشید

نے موجودہ عہد کے فکری تقاضوں اور ضرورتوں سے ہم آہنگ شعری منظرنامے مرتب کئے ہیں جو انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتے ہیں ۔ ان کے یہاں استعارے کو منفی اور مثبت ہر دو طرح کی معنویت سے استعمال کرنے کی سلیقہ مندی نے انہیں جدید تر نسل کے تخلیق کاروں میں اہم مقام عطا کیا ہے۔

عالم خورشید کی شاعری کا کینوس وسیع ہے۔ ان کی شاعری پر مکمل اور مفصل گفتگو اس مختصر سے مضمون میں کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں علامتی نظام، زبان کے رکھ رکھاؤ اور الفاظ کی ترتیب و تہذیب کے حوالے سے طویل گفتگو کی گنجائش ہے۔ جسے کسی دوسرے موقع پر چھوڑتا ہوں ۔ تاہم یہ بات عرض کرنا نہایت ضروری ہے کہ عالم خورشید نے برسوں کی طویل تخلیقی ریاضت کے بعد اپنے لہجے کی شناخت بنا لی ہے۔ جو واقعی ایک Achievement ہے۔

’زہرِ گل‘ جیسے اہم شعری مجموعے کے بعد عالم خورشید سے یہ امید کی جا سکتی ہے وہ اپنی تخلیقی ذمہ داریوں اور جدید تر نسل کی نمائندگی کے جذبوں کو مستقبل قریب میں نئی سمت ورفتار دینے میں کامیاب ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

آزادانہ شناخت کی شہرت کا ڈائناسور– اور زہر گل

 

               شمیم قاسمی

 

گزشتہ چند برسوں میں جو شعری مجموعے بازار کی مٹھائی کی طرح ہمدست ہوئے اور میرے مطالعے میں آئے ان میں بیشتر غزلوں پر ہی مشتمل تھے۔ اس طرف ۱۹۷۰ء کے بعد کے شعری سفر کے منظرنامہ پر ایک ہلکی سی دھند چھائی رہی لیکن اس دھند اور کہا سے میں بھی پس منظر سے متوازن اور نپے تلے قدموں کی چاپ صاف سنائی دیتی رہی البتہ ۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری وائری پر کافی شور شرابے ہوئے۔ کچھ شعرا نے تو الٹے سیدھے بیانات دے کر اور اپنی عملی حرکتوں سے بھی سنسنی پھیلانے کی ناکام کوشش کی۔ نئی نسل کے تازہ اذہان نے خود کو اوروں سے بالکل الگ تھلگ ثابت کرنے کے لئے نہ صرف اودھم مچائی بلکہ اپنے پیش رو ادبی و شعری سرمائے پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان بھی لگایا۔ ان کا زیادہ تر وقت خلعت ودستارکو روندنے اور اپنے ’’مختلف‘‘ ہونے اور ’’نیا کچھ‘‘ کر دکھانے کا نگاڑا پیٹتے ہوئے غزل کی نئی بازیافت کے اعلانیہ پر صرف ہوا۔ انہوں نے غزل گو شعراء کی بھیڑ بھاڑ میں خود کو ہر حالت میں اپنے ماقبل عہد کے شعراء اور ان کے شعری سفرسے انحراف کرنے اور خود کو مختلف ثابت کرنے کے لئے سرجوڑلیا۔ ان کے اس طرح ’’مختلف‘‘ ہونے کا باوا آدم ہی نرالا ہے وہ تو چھٹنکی بھر لکھ کر قبل از وقت ال بل ہوئے جاتے ہیں ۔

برنارڈ شاہ کا قول ہے کہ ’’ لوگ سچ بات پر سب سے زیادہ چونکتے ہیں ‘‘ اب اس سے اتفاق کرتے ہوئے مجھے بھی واضح طور پر یہ کہنا چاہئے کہ نئی نسل کے غز ل گو شعرا ء کی ایک بڑی ٹولی نئی صدی کی دہلیز پر اپنی پہچان کا دمامہ بجانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے لمحۂ زور آزمائش سے دو چار نظر آ رہی ہے — کوئی خود افکاریت اور خود پسندی کے لاف و گزاف کے حصار میں قید ہے تو کوئی سرکش اور ضدی سمندر جیسالہجہ اختیار کئے، ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی اپنے اجداد کی تردید کرتا ہوا تخت عالمگیر کی عظمت کو نکارتا ہے تو کوئی آزادی کے نام پر غزل کی زندہ روایات کی توانا دیوار میں بھونڈے طریقے سے سیندھ کرتا اور جا بجا اپنے مختلف ہونے کے دعویٰ کا سُنبہ۔ ٹھونکتا نظر آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کوئی اپنے پیش رو شعری سرمایوں سے صاف انکار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ (یہاں مصلحتاً ان کے اشعار کوڈ نہیں کئے گئے ہیں )۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے اس طرح مختلف ہونے کے الار کو پیش رو شعراء نظرانداز کر دیں گے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میر ی ایسے شعراء سے بھی واقفیت رہی ہے جو پلان اینڈ پروجیکٹ کے تحت لکھ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شب خون، ایوان اردو، شاعر، کوہسار، اثبات اور نیا ورق وغیرہ میں لکھتے وقت چہرے بدل لیا کرتے ہیں ۔ فرسٹ کلاس T.A.اور ’’مرغن‘‘ ملے تو ان چہروں کو گرگٹانی بنتے دیر نہیں لگتی۔ بہر حال ! انہیں چہروں کی بھیڑ میں نئی ادبی تھیوری کا Fruitfulبازار گرم ہے او ر بقول   ظفر اقبال   ؎

ہم بھی گئے تھے گرمیِ بازار دیکھنے

وہ بھیڑ تھی کہ چوک میں تانگا الُٹ گیا

نئی نسل سے بد د ل ہو کر اپنے عہد کے معتبر شاعر اسعد بدایونی نے اپنا ادبی بیان کچھ یوں درج کرایا تھا –’’شور مچانے اور بزرگوں کا مذاق اڑانے سے تو کچھ ہوتا نہیں ہے۔ مطالعے اور مشاہدے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بصیرت سے جدید تر نسل یا بالکل نئے شعراء میں سے بیشتر لوگ خالی ہیں ۔ دو چار سالوں میں پکی روشنائی سے اپنا نام چھپ جانے کی وجہ سے خود کو بہت سمجھنے والے یہ معصوم کیا جانیں کہ ادب کیا ہوتا ہے اور شاعری کسے کہتے ہیں ؟۔ ہنگامے اور بکواس کی بجائے کاش یہ لوگ اپنا وقت ادب کو خوب پڑھنے اور سمجھنے میں صرف کریں ۔ (سہ ماہی عہد نامہ، رانچی، شمارہ جنوری تا مارچ ۱۹۹۹ء)

’’آگے بڑھے چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘کا زوردار نعرہ بلند کرتے ہوئے نئی نسل کے چند مخصوص شعراء (آپ مطمئن رہیں ) نے ہم زباں ہم قدم ہو کر ادبی پریڈ کرنے کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے معاصرانہ چشمکوں سے حتی الامکان احتراز ہی نہیں کیا بلکہ ان اطراف میں اپنا کلون بھی ایجاد کر لیا جہاں انہیں پھلنا پھولنا ہے اور جہاں انہیں گرفت میں آنے کا اندیشہ بھی۔ یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا کہ متذکرہ نسل کے شعراء (ایک بار پھر آپ مطمئن رہیں ) نے ایک دوسرے پر من ترا حاجی بگویم تُو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو زندہ رکھنے کے لئے خوب جم کر لکھا۔ ’’ایسے لکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے لکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو یوں شناخت بنے گی۔ بزرگوں کی پگڑیاں اچھالو تو یوں ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اپنی الگ بالکل الگ پہچان چاہتے ہو تو یوں لٹکو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے سانس لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ویسے گنو۔ ‘‘ وغیرہ پر خوب ریہرسل کی گئی۔ کیا اپنی تعریف میں اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے آپ نے کبھی کسی کو دیکھا ہے اگر نہیں تو شہر ادب میں آپ کب آرہے ہیں ؟ مختلف ناموں سے اپنی مدح سرائی میں فرضی خطوط چھپوا کر یہ اپنی الگ تھلگ شناخت کا لوہا منوا لیں گے اور منائیں بھی کیوں نہیں کہ اسی ’’مختلف ‘‘ شناخت کے نام پر دلی کا فرست کلاس ٹی۔ اے دینے والوں کی کمی نہیں اور ایسا ہوا بھی اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ایسے لوگوں کے بارے میں کچھ کہنے سے بہتر ہے کہ چپ رہوں جنہیں دلی کی ریوڑی بھی پسند ہے اور الٰہ آباد ی امرود بھی اس میں عظیم آباد کی ادبی خانقاہ کے لکم دانہ ( تبرک) کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر انہیں (مخصوص شعراء) اپنے کسی خود پسند ’’فرمان‘‘ کی ناپختگی اور پکڑے جانے کا اندیشہ لاحق ہو گا تو وہ اپنے لکھے کو خود ہی چاٹیں گے یا پھر اپنے بڑبولے پن کو کسی فرضی پبلیشر کی طرف سے نمایاں طور پر شائع کرا دیا جائے گا، اپنی مدح سرائی کا یہ ہنر بھی خوب ہے۔ لیجئے صاحب، اس طرح اپنے جداگانہ عہد، نظرئیے اور اپنی الگ تھلگ پہچان کا ڈنکا بجانے کے لئے انہوں نے اپنا ناقد بھی پیدا کر لیا۔ اب اگر ایسے میں عیسیٰ لکھیں تو بیچارے موسیٰ جی لگا کر کیوں نہ پڑھیں اور پڑھیں تو واہ۔ ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں نہ کریں ۔ ادھر عیسیٰ نے چھینکا تو موسیٰ نے فوراً رومال ہوا میں لہرایا یوں موسم کے غیر معتدل اور مختلف ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کوزے کو سمندر بنا دیا۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جھیل کو جھیل ہی رہنے دے سمندرنہ بنا۔ پچھلی دو دہائی میں تازہ فکری کا جو شعری سرمایہ اردو شاعری میں بطور خاص اضافہ کا باعث ہوا اس میں بھی صنف غزل کو اولیت دی گئی اور وقار بخشا گیا۔ غزل گو شعرا اور با شعور قارئین نے پیرایۂ غزل کو ایک مضبوط لیکن لچکدار وسیلۂ اظہار مانا۔ ہر چند کہ   ؎

غزل کا شعر کوئی ہم نے کب کہا عالم

انڈیلتے ہیں فقط دل کا زہر کاغذ پر

زیر مطالعہ عالم خورشید کا زہر گل (۱۹۸۸ء)بھی مجموعۂ غزل ہے۔ اب یہ کہنا ضروری نہیں کہ عالم بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے۔ اس کے مندرجہ بالا شعر کو اس کی شاعرانہ شکست کا اعترافی لہجہ نہ سمجھیں تو میں عرض کروں کہ بظاہر یہ عام سا خیال ہے لیکن صنف غزل کے حوالے سے اس کے اس تخلیقی اظہار کی سادگی میں بھی جو معنوی تہہ داری ہے وہ اس بات پر دلالت ہے کہ شاعر نہ صرف غزل شناس ہے بلکہ غزل جینا اور غزل بھوگنا بھی خوب جانتا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ انسانی جسم کے پورے نظام میں نہ صرف دل کی حیثیت مرکزی رہی ہے بلکہ یہ پورا جسمانی سسٹم دل ہی کا مرہون منت ہے۔ اس کی حد درجہ کو ملتا اور ناز کی گل سے مشابہ ہے۔ اس طرح زیر غور شعر میں زہر بہ معنیٰ آگ، دل بہ معنی گل(زہر+گل=آتش گل) بطور استعارہ استعمال ہوا ہے وہیں کاغذ کی حیثیت دماغ کی ہو گئی ہے اسے آپ واردات قلب اور در پیش وقوعوں کے اظہار کا با معنی ارگن بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ آگ اور زہر کی ایک جیسی خاصیت سے کون واقف نہیں ۔ نتیجہ تو ہر حالت میں خاکسترہی ہونا ہے۔ اب اگر اس شعر کے اخراج معنی پر ہم ایک ذرا غور کریں تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زہر گل دراصل شاعر کے تخلیقی اظہار کا طاقتور استعارہ بن گیا ہے اور وہ اس کا سپر بنا کر اپنی خار خار نا آسودہ زندگی کی بے پناہ تلخیوں ، محرومیوں اور مصورانہ یادوں کو آفاقی بنانے کے لئے ایک ایسا اچھوتا بصری پیکر عطا کرنا چاہتا ہے جس کا دائرہ عمل وسیع ہو لیکن حیف صد حیف کہ اس کی دسترس میں جو شعری کینوس آیا ہے اس کی تنگ دامانی نے نہ صرف اسے کچوکے لگائے ہیں بلکہ بے دست و پا اور لہولہان بھی کیا ہے اور اس کی فن کارانہ انگلیوں سے دھنک رنگ برش جیسے چھین ہی تو لیا ہے اور وہ بلبلا ہی تو ہو اٹھا ہے۔ کیا اسی تخلیقی سفرکے پڑاؤ اور بلبلانے کے اس مقام پر غالب نے غزل کی تنگ دامنی کا اظہار کر کے صنف غزل کو معنی خیز بنا دیا تھا۔ زہر گل کے خالق کے یہاں تو اپنی آزادانہ شناخت کے لئے رونے دھونے کا ایک لمبا سلسلہ ہے:

 

طلب کچھ اور تھی ہے اپنی دسترس میں کچھ

جو سچ کہوں تو نہیں ہے کسی کے بس میں کچھ

 

جاؤں کہیں بھی ہر جگہ تعزیر ایک ہے

اہل جنوں کے واسطے زنجیر ایک ہے

 

حقیقت پسندانہ یا اشتراکی لب و لہجے کے ساتھ رونے دھونے کے ابھی کئی مقامات اور پڑاؤ آنے باقی ہیں ۔ غزل ہر عہد میں ہمارے شعراء کی ڈارلنگ رہی ہے۔ سفید کاغذ پر انڈیلے گئے ’’زہر گل ‘‘ کا ذائقہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے خالق کا ہر پل اور ہر لمحہ جو اپنی ڈارلنگ (غزل) کے ساتھ گزرا ہے اس میں گہری ریاضت بھی شامل ہے۔ اب فنی اقسام یا خامیِ اظہار سے کس کی شاعری پاک ہے؟ اس نے غزل کی تسبیح کے ایک ایک دانے کا بوسہ لیا ہے، آنکھوں سے لگایا ہے یوں بصیرت سے بصارت تک کاسفر طے کیا ہے۔ شکر ہے کہ اس کا یہ سفرجاگتی آنکھوں سے عبارت ہے اور جس کا ہمسفر ایک متحرک دماغ ہے جو دل کے ہاتھوں بہر حال بے بس دکھائی نہیں دیتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ کسی مراقباتی عمل کے بغیر اس کے اس شعری سفر کا ظاہر و باطن روشن ہے۔ وہ اپنے اطراف رونما ہونے والی خوشگوار، ’حیران کن اور نمایاں تبدیلیوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہیں دیکھتا وہ تو اپنے عہد کے ’’ادبی کلچر‘‘سے پوری طرح واقف ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر پل ہر لحظہ اپنے ہوش وحواس بحال رکھتا ہے اور یوں عقل و خرد کی انگلی تھامے عہد صارفیت کے چیلنجز کو قبول کرتا ہوا اپنے شعری تشخص کے لئے ایک نئی ڈگر کی تلاش و جستجو میں سرگرداں ہے۔ اسے اس کا بھی احساس ہے   ؎

 

برا کیا جو نئے راستے بناتا ہوں !

تمام شہر کو کوشش مری کھٹکتی ہے

 

ہمارے خون سے شاداب ہے زمیں لیکن

ہمیں کو اس نے کبھی معتبر نہیں جانا

 

زہر گل سے قبل عالم خورشید’’ نئے موسم کی تلاش‘‘ (۱۹۸۶ء) کا دف بجا چکا ہے۔ جس میں اس نے اپنا مطمح نظر پیش کیا ہے’’ زہر گل‘‘ کے پیش لفظ میں بظاہر وہ ا پنی آزادانہ شناخت کے لئے ڈھنڈورچی نہیں بنا ہے اور خود کو مختلف ثابت کرنے کے لئے اس نے کوئی واضح اشارہ تو نہیں دیا لیکن عالم خورشید کا یہ بیان بہت واضح ہے۔ ۔ ’’ ہمارا مقصد تو یہی ہونا چاہئے کہ ہم نئی نسل کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں ۔ ان کی فکر میں وسعت پیدا کریں اس کے بعد جس میں جتنی انرجی ہو گی جتنا دم ہو گا آگے جائے گا۔ اگر ہم یہ کام نہ کر پائے تو ہمارا خدا حافظ۔ ‘‘(مطبوعہ اثبات و نفی، شمارہ نمبر ۷)

یہی وجہ ہے کہ اس کے اس طرح کے بیان سے کچھ لوگ چونکے ضرور ہیں ۔ اس کے اس بیان نے اس کے معاصرین کو تقویت بھی پہنچائی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں اس کے لہجے کا تیور، اس کی اٹھان اور فکری اڑان دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ اس نے اپنی آزادانہ شناخت کے لئے ایک الگ ہی گڈی اُڑائی ہے۔ اب اس میں کون سی دم لگ گئی با ذوق قاری ہی جانیں

؎

کسی ساحل پہ جاؤں ایک ہی آواز آتی ہے

تجھے رکنا جہاں ہے وہ کنارہ اور ہے کوئی

 

دست و گریباں حال سے ہیں ہم، فردا روشن ہو

ماضی میں رخشندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

زمانے کی روش ہم کو کبھی اچھی نہیں لگتی

زمانے سے ہمیشہ ہم کنارہ کرتے رہتے ہیں

 

ہمارے ہاتھ میں فردا کی ڈور ہے لیکن

ہمارا رابطہ ماضی سے ہے نہ حال سے ہے

 

ہرچند کہ زیر نظر مجموعۂ غزل کی بیشتر غزلیں پیش رو تناور غزل درخت کی چھاؤں اور رمیدگی لئے معاصر شعری حسیت کی نمائندہ ہیں لیکن اسے نکارتے ہوئے ایک ایسی بے سمت فکری اڑان کا حوالہ دیا گیا ہے جو دوران سفر کسی بھی طرح کی حد بندی کی قائل نہیں جس کے پیش نظر اپنا ایک الگ ہی آسمان ہے۔ یہاں شاعر کے باطن میں ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کی صدائے بازگشت ایک سیال بن کر دوڑ رہی ہے۔ ڈھیر ساری اور ایک جیسی آوازوں کی بھیڑ میں اسے اپنے شعری تشخص اور اپنی آواز کے دب جانے کا شدید خدشہ لاحق ہے اس لئے اس کے لہجے میں وقتی طور پر ہی سہی ایک طرح کی جھنجھلاہٹ اور جلد بازی صاف مترشح ہے۔

تازہ کار نسل کے نمائندہ اور فن شناس ناقد آفاق عالم صدیقی کا بھی ایسا ماننا ہے کہ — ’’نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے یہاں آج بھی بھیڑ بھاڑ والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ افراتفری کا یہ عالم ہے کہ بعض شاعروں کا نام بار بار لیا جاتا ہے۔ تو کچھ شاعروں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ ابھی تک مطلع ہی صاف نہیں ہوا ہے کہ اس بھیڑ میں اپنے لب و لہجے، اپنے اسلو ب اور اپنے طرز فکر کی توانائی و انفرادیت کی وجہ سے کن لوگوں کو امتیاز حاصل ہے۔ یا یہ کہ وہ کون لوگ ہیں جو اپنے محاسن کلام اور شاعرانہ اوصاف کی وجہ سے اپنے ہمعصروں میں اولیت کا حق رکھتے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ جب اس نسل کے فعال ہونے کی تصویر دکھانی ہوتی ہے تو درجنوں نام سامنے آ جاتے ہیں اور مضمون ووٹر لسٹ بن جاتا ہے۔ میں نے اس بدعت کو اس لئے دہرایا ہے کہ اس نسل کی اجتماعی تخلیقی صورتحال کا کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا۔ ‘‘(تنقیدی کتاب ’’مقال ‘‘، ص ۲۱۰)

نئے موسم کی تلاش میں زہر گل کا خالق تقریباً ۱۲؍برسوں تک صحرا صحرا جنگل جنگل دربدری کا شکار رہا۔ یکسانیت اور کلیشے کے اس دور سے نکلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ برسوں انتظار کے بعد جب ایک نیا یا صارفیت زدہ ادبی ماحول تیار ہوا تو اس نے نئے بال و پر نکالے۔ اس کا تازہ شعری مجموعہ بلاشبہ اس کے شعری سفراور شعری زمان میں ایک ٹھہراؤ ہے:

کوئی چراغ ہوا میں جلا کے دکھلائے

ہر ایک شخص ہے مہر سپہر کاغذ پر

اس اعتراف کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتا کہ اسے ایک ہی جیسے موسم اور ماحول میں پروان چڑھنا اورکسی کا طوطا رام بننا قطعی پسندنہیں جبھی تو اس کے لہجے میں ایک طرح کی جھنجھلاہٹ در آئی ہے اور وہ کر بھی کیا سکتا تھا کہ اس کے عہد اور صور ت حال کا تقاضہ بھی یہی ہے:

 

کھول ساری کھڑکیاں ایک اک دروازہ ہوا

میری بستی کی طرف بھی آ! کبھی تازہ ہوا

 

توڑ کر بند کواڑوں کو میں باہر آؤں

کوئی دستک نہ سہی شور و شغب کچھ بھی ہو

 

اس کے لہجے کا یہ تازہ ضدی پن، فکری سطح پر یہ اٹھان یہ تیور نہ صرف دبنگ ہے بلکہ جان جوکھم میں ڈالتا ہوا اظہار و بیان کی عمومی سطح سے ایک ذرا اٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نہ تو اسے ماضی محبوب و محترم ہے اور نہ ہی وہ حال کی بھول بھلیوں میں اپنے شعری تشخص اور اپنی آزادانہ شناخت پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔ وہ تو اپنی راہ میں حائل کسی بھی آہنی دیوار یا طلائی زنجیر کو توڑ کر اپنے الگ تھلگ ہونے کی تمام تر سچائیوں کے ساتھ بہت تیزی سے باہر آنا چاہتا ہے۔ وہ زمین پر تو ہے لیکن خواہش مہتاب بھی رکھتا ہے اور اپنے اس شعری سفر کی آزادانہ شناخت کے لئے کمربستہ بھی ہر قیمت پر یعنی:

 

بھول جاؤں میں ترا نام و نسب کچھ بھی ہو

چاہتا ہوں مری دنیا میں عجب کچھ بھی ہو

 

گھر سے باہر کی ہوا کا کچھ تو اندازہ لگے

کھول کر سارے دریچے اور روشندان رکھ

 

ایک مدت سے ہوں محبوس عجب زنداں میں

صبح روشن نہ سہی ظلمت شب کچھ تو ہو

 

مجھ کو پروا نہیں منزل کی ملے یا نہ ملے

میں ہوں موجوں کے مخالف میں رواں کچھ بھی ہو

 

زہر گل کے خالق کے یہاں اس قبیل کے اشعار کی کمی نہیں جن کا مطالعہ جہاں ہمیں ایک طرف تازہ دم کرتا ہے تو دوسری جانب ایک انجانے خوف اور اندیشہ سے بھی دوچار کرتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر اس کے یہاں StabilityاورOwn Identityکے نام پر ایک عہد سازادبی منظر نامے کو سبوتاژ کرنے کا جو میکنیکل پورسس ہے وہ ہماری تہذیبی وراثتوں اور زندہ روایات کے لئے خوشگوار نہیں ۔ میں یہ مانتا ہوں کہ ’’نئے پن‘‘ اور ’’مختلف ‘‘ کے نام پر وہ کلی طور پر جگالی نہیں کرتا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ جا بجا اپنی علیٰحدہ پہچان اور ’’آزادانہ شناخت‘‘ کے جواز میں اس کے یہاں ایک طرح کی جلد بازی، جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ غالب نظر آتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اس کے عہد (۱۹۸۰ء کے بعد) کی شاعری کے موڈ اور خاصے کا پتہ دیتی ہو لیکن وقتی طور پر یہ ہمیں سوچنے اور پھر چونکنے پر ضرور اکساتی ہے۔ یہاں تک کہ زبان کا ذائقہ بیک وقت بناتی اور بگاڑتی ہوئی صاف دکھائی دیتی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار اور اس طرح کے دوسرے اشعار میں وقتی طور پر ہم ان کی تخلیقی معنویت سے انکار کر بھی دیں تو بھی غزل گو شعرا کی نہ ختم ہونے والی اور ٹیڑھی میڑھی قطار میں ان اشعار کے خالق کو تو ڈھونڈھ ہی نکالا جاسکتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی کسی گھوڑے کو نکیلیں اور پگہا توڑ کر اصطبل سے سرپٹ اور بدحواس بھاگتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر دیکھا ہے تو یہ بھی غور کیا ہو گا کہ وہ بھاگتے وقت سمتوں اور منزل کا قطعی تعین نہیں کرتا بس جدھر سینگ سمائی لہولہان سرپٹ بھاگتا ہی چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ بھاگتا ہی چلا گیا کہ آزادانہ شناخت کے لئے یہ عمل لازمی جو ٹھہرا۔ زہر گل کے خالق کا اشہب بھی بے سبب اور نتیجہ کی پروا کئے بغیر بیشتر مقامات پر سرپٹ دوڑ لگاتا اور حد نظر سرسبز علاقوں کو روندتا چلا گیا ہے بس یونہی خواہ اس سفر میں نتیجہ کچھ بھی نکلے کچھ بھی ہو۔ وہ تو اپنی شعری شخصیت اور اپنے قد پہ حاوی ہو رہی پیش رو شاعری کی آہنی فصیل میں در اور دروازہ وا کرنا چاہتا ہے تاکہ تازہ ہوا کا بھرپور جھونکا اس کے پھیپھڑوں میں براہ راست پہنچ کر اسے توانائی دے، اس پہ مسلط حبس اور گھٹن دور ہو اور اس کے ٹخنوں میں نئی جان آئے اور پھر وہ کسی سہارے کے بغیر مکمل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اسے کسی کی انگلی پکڑ کر چلنا گوارہ نہیں ۔

زہرہ گل کے مطالعہ کے دوران قد آور شاعر ڈاکٹر مظفر حنفی کا یہ شعر بطور خاص یاد آیا جو غالباً تین دہائی سے بھی قبل کتاب لکھنو میں شائع ہوا تھا:

دروازہ ہی ہو گا نہ کوئی نام کی تختی

آئندہ مرے گھر کی یہ پہچان رہے گی!

یہاں پر اس شعر کی یوں بھی اہمیت ہے کہ اس میں کیاسلیقے اور تخلیقی معنویت ہنر مندی کے ساتھ بغیر کسی شور شرابے اور توڑ پھوڑ کے اپنی پہچان کے مختلف ہونے کا متوازن، بامعنی اور سنجیدہ جواز بھی شامل ہے اور یہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے( تازہ دم بھی) کہ تقریباً ۳۵۔ ۳۰ سا ل قبل ایک مخصوص تیور کے ممتاز شاعر اور ہمارے ادبی بزرگ حنفی صاحب کے یہاں بھی فکری اور تخلیقی جماؤ نہیں تھا بلکہ اپنے شعری تشخص کے حوالے سے ان کے اظہار بیان میں دریا کی سی روانی اور شاہین کی سی طاقت پرواز ہے۔ ۔ اس کے برعکس زہر گل کے خالق کے یہاں اپنی آزادانہ شناخت کو لے کر ایک طرح کی عجلت صاف جھلکتی ہے۔ اس کی ایک طرح سے فقیری فکر کا پرندہ اپنے شکستہ پروں کی پروا نہیں کرتا اسے اس کی بھی پروا نہیں کہ باہر تند ہوائیں چل رہی ہیں اور وہ کسی بھی پل کہیں بھی اُڑا لے جاسکتی ہیں ۔ اسے تو اپنی آزادانہ شناخت کی اتنی جلد بازی ہے کہ وہ ہواؤں کے رحم و کرم پر کسی نامعلوم سمت کا سفرکرنے کو تیار بیٹھا نظر آتا ہے۔ ساتویں دہائی کے معروف و ممتاز شاعر پروین کمار اشک کا یہ شعر دیکھئے   ؎

نہ پکڑی قافلے کی جس نے انگلی

وہ بچہ سب سے آگے چل رہا ہے

اشک کے یہاں جو بچہ بغیر کسی کی انگلی تھامے سب سے آگے چل رہا تھا وہی بچہ زہر گل کے خالق کے یہاں Consumer Cultureکا ایک حصہ بن جاتا ہے اور جو بڑا میکانیکی نظر آتا ہے۔ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے میں بھی ایک ہنر ہے۔ عالم کا یہ شعر دیکھئے   ؎

نہ جانے کتنی مدت میں وہ طے ہو گا سواروں سے

سفر جو پل میں میں نے پا پیادہ کر لیا ہے

یہاں ’’پاپیادہ سفر کی معنوی جہت کو سرسری مت لیجئے۔ اس میں آزادانہ شناخت کی پھسپھساہٹ (Whispering) کو محسوس کیجئے اور۔ ۔۔

دراصل عالم خورشید کی شاعری میں ایسے کئی مقامات صاف جھلکتے ہیں جہاں اس کے خود پسند لہجے کا تیکھا پن زبان کا ذائقہ بدلتا ہے۔ اس میں ایک طرح کا کسیلاپن بھی شامل ہے۔ اسے ہم مان کر چلتے ہیں کہ وہ اپنے لئے ایک الگ راہ منتخب کرنا چاہتا ہے۔ ایک ایسی راہ جہاں قبل سے قدموں کے نشانات نہ ہوں ۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ عالم کے بیشتر اشعار میں منزل کو پا لینے کی بیتابی میں ایک اشتراکی پہلو بھی شامل ہیں لیکن اس کی کوئی تخلیقی معنویت نہیں کہ اس کے خالق کے باطن میں لاشعوری طور پر ہی سہی رد تشکیل کا عمل موجزن رہا ہے۔ زہر گل کا خالق تو محض اپنی ذات کے زندان سے بس باہر آنا چاہتا ہے۔ ایک ایسے زندان سے جو خود کا تیار کردہ ہے۔ اور اب اپنی آزادانہ شناخت کے حوالے سے اپنے مختلف ہونے کے پر زور اظہار اور خود افکاری لہجے کے ساتھ سفر پر گامزن ہے چاہے پیش نظر شعری سفر کا حاصل صفر ہی کیوں نہ ہو ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب اسے زندان سے باہر آنا ہی مقصود ہے تو پھر دستک اور شور میں تمیز کیسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صبح کی روشن پیشانی ہو کہ شب کا گھنا اندھیرا اگر کشتی کو جلانے کی ضد ہو تو پھر پتوار بچانے سے کیا فائدہ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے تو بس کسی بھی صورت کسی بھی شکل میں چاک سے باہر آنے اور ایک الگ پہچان یا آزادانہ شناخت قائم کرنے کی جلد بازی ہے۔ زہر گل کا خالق غزل کی جدید شعری روایات سے برسرِ پیکار نظر آتا ہے۔ اسے انجام کی قطعی پروا نہیں یعنی   ؎

پانی پانی ہو جانے کے بعد مجھے

اپنی رو میں بہنے کی آزادی ہے

(غلام مرتضیٰ راہی)

زہر گل کا خالق اس کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کے یہاں جو فکری تبدیلی آئی ہے اور اس نے جو آزادانہ رویہ اختیار کیا ہے وہ کسی ادبی تھیوری کو پڑھ کر نہیں بلکہ بالکل فطری ہے زہر گل کے خالق کا کہنا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’چونکہ نیا عہد اپنے ساتھ نئے مسائل بھی لے کر آتا ہے اس لئے ان نئے مسائل کی پیش کش کے لئے نئے فن کاروں کو نئے اور نامانوس الفاظ کے استعمال پر بھی زور دینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں نئے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے وہیں طرز اظہار بھی نیا ہو جاتا ہے اور نئے فن کار اپنے پیش رو فنکاروں سے مختلف نظر آنے لگتے ہیں ۔ ‘‘

اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ نئی نسل کی اپنی شعری لفظیات اور نئی شعری تراکیب کیا ہیں ؟اپنی آزادانہ شناخت کے لئے جو ’’نئی شاعری‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے اس کی شعریات کیا ہے؟؟

تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ ہر عہد اپنے سیاق وسباق میں نیا ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر لفظیات ومسائل کے ساتھ۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ غزل میں فکری، موضوعی اور لسانی سطح پر بھی نئی تبدیلیوں نئی صورتوں ، نئی جہتوں اور نئے امکانات کی رسائی بالکل ممکن ہے لیکن عہد ماقبل کے پرچم کو پیروں تلے روند کر، خلعت ودستار کو نقش پا بنا کر اپنی ایک الگ پہچان ہرگز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گز ممکن نہیں ابھی جبکہ سفرکی ابتدا کو جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن ہوئے ہیں اور ایک پوری نسل شناخت کے پورسس سے گزر رہی ہے تو پھر ایک لمبے اور آزمائش بھرے سفر میں آزادانہ شناخت کے لئے اس اڑان کا کیا حاصل۔ سفر کے پہلے ہی پڑاؤ پر شارٹ کٹ جمپ کا کیا سبب آخر۔ اس سفر میں اپنی تازہ پہچان کے چند مخصوص شعرا نے جو بیج بوئے ہیں ان کا ابھی پورے طریقے سے مٹی میں گھلنا ملنا باقی ہے۔ انہیں ابھی ٹھہر ٹھہر کر سیراب ہونا پڑے گا۔ بدلتے موسموں کے تھپیڑے کھانے ہوں گے، کئی رنگ بدلنے ہوں گے تبھی ان کا رنگ چوکھا ہو گا۔

مجموعی تاثر کے طور پر مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ عالم خورشید نے محض نئے پن اور آزادانہ رویے کے نام پر اپنی مختلف پہچان کے لئے نئے ہتھ کنڈے استعمال نہیں کئے ہیں اور نہ ہی اپنے مختلف ہونے کے جواز میں کوئی نئی لفظیات، تراکیب یا اچھوتا ڈکشن خلق کیا ہے۔ البتہ جادہ عام سے ہٹ کرپانی بساط بھر ایک جست لگائی ہے اور مخالف سمت میں بہنے کی بہت حد تک اس نے شعوری کوشش ضرور کی ہے۔ اب لاشعوری طورپر ہی سہی اپنی آزادانہ شناخت کے لئے ایک سنسنی پھیلانے کا جال ضرور بنا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ عالم کے اس شعری سفر میں انحراف و اختلاف کے کئی اہم موڑ اور مرحلے آئے ضرور ہیں لیکن وہ شدت پسند، باغی اور سرکش نہیں ہے۔ اس نے شاعری کی مروجہ دیواروں میں اظہار کے تازہ دریچے اور در وا کرنے پر زور ڈالا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے دوسرے معاصرین کی طرح دیوار کی عظمت سے مکمل انکار کرتا نظر آیا ہو۔ دراصل یہ در، دیوار اور دریچے وغیرہ اس کے شعری سفر کو مزید وسعت دینے اور نئے امکانات سے جوڑنے میں کارگر ثابت ہوئے ہیں اور اس کے شعری سفرکو تازہ دم کرتے ہیں ۔ زندہ شعری روایت کے گلوں سے شمشیر کا کام لینا اور جدید شعری رجحانات کے زیر اثر کشادہ فکری کے نیلگوں آسمان میں قلابازیاں بھرناپھراسے اپنی جداگانہ شعری فکر کا آسمان ثابت کرناتواسے خوب آتا ہے۔ زمین کے ازلی رشتہ سے وہ انکار تو نہیں کرتا ہاں ایک چھوٹے سے دائرہ کو توڑ کر ایک بڑے دائرے میں داخل ہونا اور پھر مزید دائرے بنانے اورحسب ضرورت توڑنے کے عمل سے گزرنا اور اپنے سخن سفر کی راہ میں حائل شجر سایہ دار کو کاٹ کر آزادانہ شناخت کے لئے بونسائی کی آبیاری کرنا تو اس کی سرشت میں شامل ہے۔

عالم کے یہاں مصلحت سے زیادہ خود پسندی جھلکتی ہے۔ اس کی لفظیات اس کا طرز اظہار کثیر المفہومی نہیں ۔ وہ فکری سطح پر کسی نظریاتی وابستگی سے انکار تو کرتا ہے لیکن سچائی چھپائے نہیں چھپتی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اپنے شعری سفر کے دوران وہ کسی بھی طرح کی حد بندیوں سے متصادم نظر آتا ہے۔ اس کے یہاں ایک طرح کی سہل پسندی اور راست بیانی صاف جھلکتی ہے۔ وہ گھما پھرا کر کہنے کا عادی نہیں ۔ اس کی غزلوں میں اس کا مکالمہ بطور خاص خدا، کائنات اور نظام جمہور میں انسانی اقدار کی شکست و ریخت اور صارفی معاشرت کے نت نئے مسائل سے ہے۔ کہیں کہیں اس کے لہجے میں جھنجھلاہٹ اور تلخی میں شدت ضرور آ گئی ہے لیکن اسے سنبھلتے دیر نہیں لگی ہے کہ اس کے یہاں جدیدیت کے عقب سے پھوٹتی ایک خاص قسم کی باسمتی خوشبو کے حوالے سے اس کے باطن کے خلاء تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے   ؎

 

وہ ایک شخص سبھی منزلیں اسی کی ہیں

میں ایک شخص مری کوئی رہ گزر ہی نہیں

 

رنگ بہت سے ہیں تصویر نہیں کوئی

میرے دھندلے خوابوں کی تعبیر نہیں کوئی

 

دروں کو صورت دیوار کرنا چاہتے ہیں

نہ جانے کیا مرے معمار کرنا چاہتے ہیں

لیکن اپنے اس قنوطی لہجے پر وہ بہت جلد قابو بھی پا لیتا ہے کہ اچانک حد نظر بکھرے ہوئے ڈھیرسارے رنگوں کی آمیزش سے ایک نئی لکیر، ایک نیا رنگ، ایک نئی آواز اور ایک خط ابھارنے کی اسے بشارت ہوتی ہے تو وہ جیسے اپنے تخلیقی سفرکی گہری نیند سے چونک پڑتا ہے۔ اس کے دھندلے خوابوں کی تعبیر اس کی پکڑ اور دسترس سے باہر ہی کب تھی۔ بس اسے اپنے شعری سفر کی راہ میں حائل اور حد نظر بکھری بکھری سی دھند اور کہاسے کی دبیز چادر کو جالی دار ہی تو بنانا تھا پھر کیا تھا۔ اسے تازہ دم ہونے اور جست لگانے میں دیر ہی کتنی لگی۔ وہ پلگ جھپکتے ہی تیور بدل لیتا ہے اس کے اس تیور اور رویے میں شاید اس کے’’ مختلف ‘‘ہونے کا جواز بھی شامل ہے   ؎

گم نہ ہو پہچان تیری نت نئے بہروپ میں

میر مٹّی! کوزہ گر کے چاک سے باہر نکل

ہمیں یہ تسلیم کہ زہر گل کی شاعری میں بیک وقت دل اور دماغ کا پورا دخل اور انسلاک شامل ہے یہی سبب ہے کہ اس کے شعری لہجے میں کہیں کہیں دراکی، توانائی اور توازن ہے۔ اس کی رواجی اور ذاتی سوچ کی پیش کش میں بھی کاریگری اور جدت پسندی ہے اور شاید یہی اس کے آزادانہ رویے اور کسی حد تک مختلف ہونے کا جواز بھی ہے۔ وہ ماضی پرست نہیں لیکن بزرگوں کے اس خیال سے اس کی گہری آشنائی اور وابستگی ہے کہ پاسبان عقل کو کبھی کبھی تنہا چھوڑنا بھی لازمی قرار پایا ہے۔

عقل سے کب سر ہوئے ہیں یہ جنوں کے معرکے

تو بھی عالم حیطۂ ادراک سے باہر نکل

نئی نسل کے غزل گو شعراء کی بھیڑ بھاڑ میں زہر گل کے خالق کا اپنے مختلف ہونے کا شور انگیز اظہار تو بہت آسان ہے لیکن اسے ثابت کرنا بھی کیا بہت آسان ہے؟ کچھ دیر کے لئے زہر گل کی شاعری کو ہم چاک سے باہر نکلی ہوئی (سی) تسلیم کر بھی لیں تو بھی کئی سوالات بیک وقت سرابھارتے ہیں ۔

کیا زہر گل کی شاعری اپنے مختلف ہونے کے جواز میں چاک سے مکمل طور پر باہر نکل کر اپنی انفرادی اڑان بھر رہی ہے اور کیا اس کی یہ اڑان صدائے بازگشت سے پیچھا چھڑاسکی ہے؟ زہر گل کے خالق نے اپنے عہد ماقبل اور پیش روؤں کے شعری لہجے کا شعوری یا لاشعوری طورپر اتباع تو نہیں کیا ہے؟

اس کی اس آزادانہ اڑان میں جو توانائی در آئی ہے اس میں پیش رو شعری سفر کی غذائیت کیا شامل نہیں ہے؟ کیا اس کی اس اڑان کے دوران پیش رو شعری سفرکا کوئی علاقہ نہیں آیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ؟۔ ۔ ۔ ہمیں تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ معاصر یا قریبی پیش رو شعرا ء سے اس کا آزادانہ شعری رویہ کس کس سطح پر مختلف ہے، اس کی نامانوس لفظیات کیا کیا ہیں ؟

اس کی آزادانہ شعری اڑان کا نقطۂ آغاز اور اس کے مختلف ہونے کا طریقہ کار کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا وہ غزل کے منظور شدہ محاورے، لفظیات اور شعری ڈکشن سے یکسر اختلاف کرتا ہوا نظر آتا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آخر اس کے آزادانہ رویے اور شناخت کے مختلف ہونے کی اساسی بنیاد کیا ہے؟

ان سارے سوالات کا ’’ہاں ‘‘ یا ’’نہیں ‘‘ ابھی وقت کی گربھ میں ہے کیا اس پر کسی بھی حالت میں صاد بنانا قبل از وقت ہو گا؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں کیوں نہیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ زہر گل کی شاعری واقعی چاک سے باہر نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہے؟ کوئی کچھ نہیں بولتا۔ کیا ہم میں سے کوئی سقراط نہیں ؟ اگر ہاں تو اس کی خدمت میں زہر گل کا جام حاضر ہے اور اگر نہیں تو کیوں ؟ اب اس ’’ہاں ‘‘ اور ’’نہیں ‘‘ کے درمیان شمس الرحمن فاروقی صاحب کا یہ شعر جو میری اس تحریر کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوا، آپ کی نذر کرتے ہوئے رخصت ہوا چاہتا ہوں   ؎

ربط کا زہر گل زرد سا صحن دل میں

موت کی طرح سے اترا مرے اندر وہ شخص

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب مزید کچھ لکھنے سننے کو رہ گیا ہے کیا؟۔ ۔ ہاں ! ٹھہریئے کہ عالم خورشید کے تازہ مجموعۂ غزل سخن آباد (۲۰۰۳ء )، صفحہ ۱۲ کے اس اعترافیہ بیان پر ہمیں تو غور کرنا رہ گیا ہے۔ فی الحال با ذوق قارئین ادب اسے بغور پڑھیں :

’’ میری شاعری میں ایک ساتھ کئی طرح کی آوازیں اور کیفیات گڈ مڈ دکھائی دیتی ہیں ۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

عالم خورشید کی شاعری ’کارِ زیاں ‘ کے حوالے سے

 

               اصغر شمیم

 

غزل اردو کی سب سے مقبول صنفِ شاعری ہے۔ کم و بیش ہر شاعر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزل نے اردو شاعری کی باقی اصناف کے مقابلے میں بہت زیادہ دلوں سے قربت حاصل کی ہے۔ اس نے نہ صرف بدلتے وقت کے تقاضوں سے خود کو مربوط رکھا بلکہ اس کی مضبوط روایت اور تکنیک کو بھی بہت شائستہ طریقے سے نبھایا بعض اوقات نامساعد حالات، جبر اور گھٹن کے ماحول میں بھی اشاروں ، کنایوں ، علامتوں اور استعاروں کے اوٹ میں اپنے آپ کو غروب ہونے سے بچائے رکھا۔

غزل کے زندہ رہنے اور اس کے فروغ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہر عہد کے شاعر نے روایت کو اجتماعی شعور کے پس منظر میں دیکھا اور ذاتی واردات کے ساتھ ساتھ اجتماعی تجربات اور مشاہدات کو بھی مصرعوں میں سمو دیا۔ دور جدید میں جو نئی نسل غزل گوئی کے میدان میں اپنے افکارو خیالات پیش کر رہی ہے ان میں ایک نام عالم خورشید کا بھی ہے۔ عالم خورشید کا تعلق دبستان آرہ سے ہے۔ آرہ جو ریاست بہار کا ایک تاریخی شہر ہے اور زمانۂ قدیم سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ نوکری کی مناسبت سے عالم خورشید ان دنوں پٹنہ میں مقیم ہیں ۔ اب تک ان کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ ’’کارِ زیاں ‘‘ ان کا تازہ اور چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ’’نئے موسم کی تلاش‘‘(1988)، ’’زہر گل (1998) اور ’’خیال آباد(2002)منظرِ عام پر آ چکے ہیں ۔

عالم خورشید 1980 کے بعد کی نسل کے ایک نمائندہ شاعر ہیں ۔ اپنے منفرد لب و لہجے کی وجہ سے جدید شعراء کی بھیڑ میں آسانی سے پہچان لئے جاتے ہیں ۔ وہ زندگی کے مشاہدات و احساسات، تجربات، خیالات اور جذبات کو موثر اور جامع انداز میں شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎

 

دل روتا ہے چہرہ ہنستا رہتا ہے

کیسا کیسا فرض نبھانا پڑتا ہے

 

ہر ایک راہ گزر پر نظر جمائے ہوئے

میں چل رہا ہوں نیا راستہ بنائے ہوئے

 

ہم دور ہوئے جاتے ہیں ہر لمحہ خدا سے

کس راہ پر اب خلق خدا چلنے لگی ہے

 

محور تو کہیں بدلا نہیں اپنی زمیں کا

ہر شئے میں عجب رد و بدل دیکھ رہا ہوں

 

خاموش اس طرح تو کبھی آسماں نہ تھا

شاید اب اس زمیں کا مقدر کچھ اور ہے

 

زباں تراش لی ہونٹوں کو سی لیا ہم نے

اب اور کیسے زمانے سے التجا کرتے

 

عجب ہے پیڑ تو سارے ہیں میرے

مگر کوئی شمر میرا نہیں ہے

 

کیا قیامت ہے کہ روز اہل جفا کے سامنے

ہم وفائیں کر کے بھی ثابت وفاداری کریں

 

وہ قلم کرتے رہیں گے شاخِ گل، شاخِ ثمر

اور ہمیں فرمان یہ ہے ہم شجر کاری کریں

 

عالم خورشید کی غزلوں میں زیادہ تر اشعار ایسے نظر آتے ہیں جو موضوعات اور لفظیات دونوں اعتبار سے بالکل جدید ہیں ؎

 

گھروں میں چاند ستارے سجا لئے ہم نے

تو کیوں دلوں میں اندھیرے سمائے جاتے ہیں

 

بس ایک پل میں فضا اجنبی ہوئی کیسے

کھلی ہوئی تھی ابھی دھوپ آشنائی کی

 

سارے مکیں باہر سڑکوں پہ بھاگتے ہیں

گھر گھر میں بے گھری کے اسباب دیکھتا ہوں

 

لطیفے سب سمجھ لیتا ہے عالم

میرا بیٹا مگر ہنستا نہیں ہے

 

عالم خورشید نے اپنی غزلوں میں عصر حاضر کی سنگین صورت حال کو اپنا موضوع بنایا ہے بالخصوص آج کے ماحول میں نفرتوں اور تباہیوں کا جو بازار گرم ہے اور انسان جس طرح گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے اُس کے متعلق متعدد اشعار میں انہوں نے مختلف انداز سے اظہار خیال کیا ہے ؎

 

چاروں طرف ہیں شعلے ہم سائے جل رہے ہیں

میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں

 

کیسے زندہ رہتا ہوں میں زہر کو پی کر اب

دیوار و در کو بھی ہمراز نہیں کرتا

 

اے شہر بدحواس! میں تنہا نہیں اداس

یاں چین اور قرار تو سب کے نہیں رہے

 

ملی ہے جب سے سزا بے گناہ لوگوں کو

ہم اپنے ہاتھ لگاتار دھوئے جاتے ہیں

 

عالم خورشید کی شاعری ہمارے اپنے عہد کی شاعری ہے۔ اس کا پس منظر ہمارا موجودہ دور، عصری زندگی اور ہمارے گردو پیش کا ماحول ہے ؎

 

ایک ہونے نہیں دیتی ہے سیاست لیکن

ہم بھی دیوار پہ دیوار اٹھائے ہوئے ہیں

 

پسند آئی نہیں بجلی کو بھی تقسیم آنگن کی

کبھی اس پار گرتی ہے کبھی اُس پار گرتی ہے

 

سازش ہوتی رہتی ہے دیوار و در میں

گھر سے اچھا اب مجھ کو باہر لگتا ہے

 

زمانہ چاہتا ہے کیوں میری فطرت بدل دینا

اسے کیوں ضد ہے آخر پھول کو پتھر بنا نے کی

 

آزادی کے بعد غزل کو جو حیات نو ملی اس کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا اس میں عالم خورشید کی غزلوں کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ مختصر یہ کہ عالم خورشید نے غزل کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا نیا لہجہ اختیار کیا ہے کہ جدید شعراء کی بھیڑ میں ان کی ایک الگ شناخت بن گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں

 

عالم خورشید

 

قربتوں کے بیچ جیسے فاصلہ رہنے لگے

یوں کسی کے ساتھ رہ کر ہم جدا رہنے لگے

 

کس توقع پر کسی سے آشنائی کیجیئے

آشنا چہرے بھی تو نا آشنا رہنے لگے

 

دستکیں تھکنے لگیں ، کوئی بھی در کھلتا نہیں

کیا پتہ اب کس جگہ اہلِ وفا رہنے لگے

 

ایک مدت سے مقفل ہے مرے دل کا مکاں

عین ممکن ہے یہاں کوئی بلا رہنے لگے

 

رنگ و روغن بام و در کے اڑ ہی جاتے ہیں میاں !

جب کسی کے گھر میں کوئی دوسرا رہنے لگے

 

ہجر کی لذت ذرا اس کے مکیں سے پوچھئے!

ہر گھڑی جس گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگے

 

عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ سلسلے

تجھ سے ہو کر ہم خفا ، خود سے خفا رہنے لگے

 

آسماں سے چاند اترے گا بھلا کیوں خاک پر

تم بھی عالم! واہموں میں مبتلا رہنے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی خیال کو زنجیر کر رہا ہوں میں

شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں

 

حقیقتوں پہ زمانے کو اعتبار نہیں

سواب فسانے میں تحریر کر رہا ہوں میں

 

مرے وہ خواب جو رنگوں میں ڈھل نہیں پائے

انہیں کو شعر میں تصویر کر رہا ہوں میں

 

دکھوں کو اپنے چھپاتا ہوں میں دفینوں سا

مگر خوشی کو ہمہ گیر کر رہا ہوں میں

 

مرے مکان کا نقشہ تو ہے نیا لیکن

پرانی اینٹ سی تعمیر کر رہا ہوں میں

 

مجھے بھی شوق ہے دنیا کو زیر کرنے کا

سو اپنے آپ کو تسخیر کر رہا ہوں میں

 

زمین ہے کہ بدلتی نہیں کبھی محور

عجب عجب سی تدابیر کر رہا ہوں میں

 

عجیب شخص ہوں منزل بلا رہی ہے مگر

بلا جواز ہی تاخیر کر رہا ہوں میں

 

جو میں ہوں اس کو چھپاتا ہوں سارے عالم سے

جو میں نہیں ہوں وہ تشہیر کر رہا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جما ہوا ہے فلک پہ کتنا غبار میرا

کہ مجھ پہ ہوتا نہیں ہے راز آشکار میرا

 

دھواں سا اٹھتا ہے کس جگہ سے میں جانتا ہوں

جلاتا رہتا ہے مجھ کو ہر پل شرار میرا

 

تمام دنیا سمٹ نہ جائے مری حدوں میں

کہ حد سے بڑھنے لگا ہے اب انتشار میرا

 

بدل رہے ہیں سبھی ستارے مدار اپنا

مرے جنوں پہ ٹکا ہے سارا دار و مدار میرا

 

کسی کے رستے پہ کیسے نظریں جمائے رکھوں

ابھی تو کرنا مجھے ہے خود انتظار میرا

 

تری اطاعت قبول کر لوں بھلا میں کیسے

کہ مجھ پہ چلتا نہیں ہے خود اختیار میرا

 

پلک جھپکتے کسی سمندر میں جا گروں گا

ابھی ستاروں میں ہو رہا ہے شمار میرا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بات وقت سے پہلے کہاں سمجھتے ہیں

ہم اک سرائے کو اپنا مکاں سمجھتے ہیں

 

یقیں کسی کو نہیں اپنی بے ثباتی کا

سب اپنے آپ کو شاہِ زماں سمجھتے ہیں

 

بس اک اڑان بھری ہے ابھی خلاؤں میں

اسی کو اہلِ زمیں آسماں سمجھتے ہیں

 

یہ کارزارِ عمل ہے جو لوگ واقف ہیں

وہ زندگی کو فقط امتحاں سمجھتے ہیں

 

ہمیں بھی کھینچتی ہے اس کی ہر کشش لیکن

یہ خاکداں ہے، اسے خاکداں سمجھتے ہیں

 

یہ لوگ اتنے فسردہ اسی لئے تو نہیں

کہ دوسروں کو بہت شادماں سمجھتے ہیں

 

خدا! انہیں بھی ہو توفیق اس عبادت کی

محبتوں کو جو کارِ زیاں سمجھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں خیال آتا نہیں ہے ہمیں یکجائی کا

جب ہر اک شخص گرفتار ہے تنہائی کا

 

وہ بھی اب ہونے لگے ایذا رسانی کے مریض

جن کو دعویٰ تھا زمانے کی مسیحائی کا

 

شک نہیں کرتا میں رشتوں کی صداقت پھر کبھی

بس یہی ایک سبب ہے مری رسوائی کا

 

زخم بھرتے ہی نہیں میرے کسی مرہم سے

جب بھی لگتا ہے کوئی تیر شناسائی کا

 

بزدلی سمجھی گئی میری شرافت ورنہ

کب مجھے شوق رہا معرکہ آرائی کا

 

اپنی رسوائی کو اعزاز سمجھ لیتے ہیں

خوب یہ شوق ہے احباب کی دانائی کا

 

چھیڑ چلتی ہے مری صنفِ غزل سے عالم!

میں فسانہ نہیں لکھتا کسی ہرجائی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں پرستار ہوں اب گوشۂ تنہائی کا

خوب انجام ہوا انجمن آرائی کا

 

بس وہی ملنے ، بچھڑنے کی کہانی کے سوا

کیا کوئی اور بھی حاصل ہے شناسائی کا

 

خود ہی کھنچتے ہوئے آتے ہیں ستارے ورنہ

چاند کو شوق نہیں حاشیہ آرائی کا

 

اب کسی اور نظارے کی تمنا ہی نہیں

اب میں احسان اٹھاتا نہیں بینائی کا

 

کتنے بے خوف تھے دریا کی روانی میں ہم

کوئی اندازہ نہ تھا جب ہمیں گہرائی کا

 

ہم نے سمجھا نہیں دنیا کو تماشا ورنہ

یوں بھی ہوتا ہے کہیں حال تماشائی کا

 

پھر غزل روز بلانے لگی عالم صاحب!

اور کچھ شوق ہے شاید اسے رسوائی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مانگی ہی ہوئی ہے نہ چرائی ہوئی دنیا

چھوٹی ہی سہی اپنی بنائی ہوئی دنیا

 

محفوظ ہے اس خاک نشینی میں ابھی تک

آلودہ زمانے سے بچائی ہوئی دنیا

 

ظاہر کے یہ جلوے نہ دکھاؤ مجھے صاحب!

آتی ہے نظر مجھ کو چھپائی ہوئی دنیا

 

شرم آتی نہیں تم کو اسے اپنا بتاتے

غیروں کے پسینے سے کمائی ہوئی دنیا

 

ہر روز گزرتا ہوں میں دامن کو جھٹکتے

کب سے ہے مری راہ میں آئی ہوئی دنیا

 

کم ظرف چلی آتی ہے آوازیں لگاتی

سو بار مرے در سے بھگائی ہوئی دنیا

 

خاک اپنے اشاروں پہ نچائے گی مجھے وہ

لٹو کی طرح خود ہی نچائی ہوئی دنیا

 

دنیا کو برا ہم نے بنا ڈالا ہے عالم!

اچھی تھی بہت اس کی بنائی ہوئی دنیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تختِ شاہی! تری اوقات بتاتے ہوئے لوگ

دیکھ! پھر جمع ہوئے خاک اڑاتے ہوئے لوگ

 

توڑ ڈالیں گے سیاست کی خدائی کا بھرم

وجد میں آتے ہوئے، ناچتے، گاتے ہوئے لوگ

 

کچھ نہ کچھ صورتِ حالات بدل ڈالیں گے

ایک آواز میں آواز ملاتے ہوئے لوگ

 

کوئی تصویر کسی روز بنا ہی لیں گے

روز پانی پہ نئے عکس بناتے ہوئے لوگ

 

ہاں ! سبھی اہلِ محبت کو بھلے لگتے ہیں

نفرت و بغض کی دیوار گراتے ہوئے لوگ

 

کتنی حیرت سے تکا کرتے ہیں چہرے اپنے

آئینہ خانے میں آتے ہوئے ، جاتے ہوئے لوگ

 

کاش! تعبیر کے رستے سے نہ بھٹکیں عالم!

ڈوبتی آنکھوں میں کچھ خواب جگاتے ہوئے لوگ

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید