FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

عارف امام  کے کچھ سلام

 

 

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

ماخذ: عکاس انٹرنیشنل شمارہ ۲۵

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

 

 

1

 

نگاہوں میں وہی منظر پلٹ کر آنے والا ہے

بہتّر کے لئے لاکھوں کا لشکر آنے والا ہے

 

وہ تقدیریں بدلنے والا اب تک رستے میں ہے

کہ رستے میں ابھی حُر کا مقدر آنے والا ہے

 

ابھی یہ قافلہ مقتل میں تھوڑی دیر ٹھہرے گا

پھر اس کے بعد اک میدانِ محشر آنے والا ہے

 

اے دینِ حق تری تشنہ لبی ہے آخری دم پر

گلوئے خشک کے نزدیک خنجر آنے والا ہے

 

سکینہؑ سے کوئی کہہ دے درِ خیمہ سے ہٹ جائیں

کہ دریا اٹھ کے خیمے کے برابر آنے والا ہے

 

ابھی اے کلمہ گویو اپنے نیزے اور چمکاؤ

ابھی میداں میں ہم شکل پیمبر آنے والا ہے

 

ضرورت ہے صفِ اعدا تجھے ترتیبِ تازہ کی

کہ اکبرؑ جا چکا ہے اور اصغرؑ آنے والا ہے

 

ابھی یہ شغل وحشت خیزیِ آتش رہے جاری

ابھی بیمار اک خیمے سے باہر آنے والا ہے

 

یہ بحرِ اشک چھلکا ہے ترائی کی تمنا میں

یہاں دریا کے قدموں میں سمندر آنے والا ہے

 

میں نقشِ ماتمِ کہنہ پہ ضربِ نو لگاتا ہوں

کہ اس پر زخم اک پہلے سے بہتر آنے والا ہے

 

بچھائی جانے والی ہے سرِ محشر نئی چوکی

جہاں مجلس ہے جس میں سبطِ جعفر آنے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

2

 

محیطِ گردشِ کون و مکاں عزا خانہ

زمین فرشِ عزا، آسماں عزا خانہ

 

بوقتِ نزع تسلی کناں عزا خانہ

بروز حشر مرا سائباں عزا خانہ

 

یہاں سجا کے اٹھایا گیا نشانِ ازل

نبود و بود کے ہے درمیاں عزا خانہ

 

یہ سجدہ گاہِ تعشق، یہ ہے مصلیِ دل

کہاں شیوخ و شریعت، کہاں عزا خانہ

 

سرِ افق جو پھریرا ہے سات رنگوں کا

سجا رہے ہیں امامِ زماں عزا خانہ

جہاں نبیؐ سے محبت نہیں وہاں کیا ہے ؟

جہاں بنیؐ سے محبت وہاں عزا خانہ

 

تری نظر پہ جو کھلتے نہیں رموزِ وجود

تری نظر سے ہے اب تک نہاں عزا خانہ

 

نگارِ دنیا نہیں تجھ سے گفتگو ممکن

پڑے گا تیرے مِرے درمیاں عزا خانہ

 

یہاں یقیں ہی یقیں ہے یہاں نہیں کوئی شک

ورائے سرحدِ وہم و گماں عزا خانہ

 

لو میرے سینے کی توسیع ہونے والی ہے

بنایا جانے لگا ہے یہاں عزا خانہ

 

ہر ایک قامتِ معنی پہ سایہ زن ہے عَلَم

ہر ایک موجِ سخن میں رواں عزا خانہ

 

یہ لوگ نام و نشاں میرا پوچھتے کیوں ہیں

فقیر نام ہے میرا نشاں عزا خانہ

٭٭٭

 

 

 

3

 

لکھنا آئے نہ فنِ نوحہ نگاری آئے

مجرئی اک ہنرِ گریہ زاری آئے

 

بیٹھ جاتا ہوں سرِ راہ بچھائے ہوئے دل

دیکھئے کب مرے مولاؑ کی سواری آئے

 

شل سہی بازو، پہ ماتم ہو تو کچھ ایسا ہو

ایک ہی ضرب لگے زخم بھی کاری آئے

 

حر ہوں، نادم ہوں کہ تاخیر سے آیا لیکن

سب سے پہلے مرے آقاؑ مری باری آئے

 

اِس طرف شیرِ نیستانِ علیؑ تنہا ہے

فوج ادھر آئے تو پھر ساری کی ساری آئے

 

مسلم و جون و حبیب ابنِ مظاہر کو سلام

کون عیسیٰ کو میسر یہ حواری آئے

 

اب نہ دریا نہ علمدار نہ سقائے حرم

اب نہ کوزہ لئے باہر مری پیاری آئے

 

جب کہیں لاش کے اعضا ہی نظر آتے نہیں

ایسے عالم میں کسے زخم شماری آئے

 

تیری غربت کے نثار اے مرے بیمار امامؑ

کیسے گردن میں کئی طوق یہ بھاری آئے

 

رات ہے، ہول ہے، سناٹا ہے اور شعلے ہیں

میرے سینے پہ مری راج دلاری آئے

 

میں کہیں دور ہٹاتا ہوا مجمع کو چلوں

حشر کے روز جو بی بی کی عماری آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

4

 

اُجالا بڑھ رہا ہے اور اندھیرا چھٹ رہا ہے

میں ماتم کر رہا ہوں میرا سینہ پھٹ رہا ہے

 

عجب وحشت میں زنجیریں گھما کر مارتا ہوں

نشان ہیں پشت پر لیکن کلیجہ کٹ رہا ہے

 

میں اپنی قبر میں نوحہ سنا کر سو چکا ہوں

فرشتے آ چکے ہیں اور تبرک بٹ رہا ہے

 

یہاں نیزے ہیں اور نیزوں کے اوپر روشنی ہے

یہاں خورشید بھی شرما کے پیچھے ہٹ رہا ہے

 

کسی مقتل کی مٹی سے شعاعیں پھوٹتی ہیں

چمکتا ہے وہی چہرہ جو اس سے اٹ رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

5

 

 

یہ کربلا ہے یہاں ہے حصارِ تشنہ لبی

یہاں پہ آب و ہوا ہے شکارِ تشنہ لبی

 

یہاں کی خاک سے صیقل ہوئی طلائے فلک

یہاں کی خاک ہوئی زرنگارِ تشنہ لبی

 

اُٹھایا چلو میں پانی اُٹھا کے پھینک دیا

کہ اب فرات پہ ہے اختیارِ تشنہ لبی

 

کسے مجال ترائی کو چھین لے ہم سے ٭

کسے مجال کہ ہو ذمہ دارِ تشنہ لبی

 

یہ زخمِ چشم ہرا ہے شمیمِ گریہ سے

یہاں پہ ٹھہری ہوئی ہے بہارِ تشنہ لبی

 

ذرا سی دیر کھلا تھا تبسمِ اصغرؑ

لبوں پہ پھیل گیا اختیارِ تشنہ لبی

 

لہو سے ہو چکے سیراب، لوگ جا بھی چکے

پیالہ کرتا رہا انتظارِ تشنہ لبی

 

یہ آسماں پہ جو بادل دکھائی دیتا ہے

خرام کرنے لگا ہے غبارِ تشنہ لبی

 

ہٹا رہا ہے پڑاؤ کنارِ دریا سے

بڑھا رہا ہے کوئی اعتبارِ تشنہ لبی

 

عجیب خشکیِ لب ہے عجیب رنگ عطش

کہ سلسبیل کرے انتظارِ تشنہ لبی

 

دہانِ اکبرؑ خوش رو، لبانِ مسلم و جون

کہاں کہاں نظر آیا وقارِ تشنہ لبی

 

فرات! وہ تری صورت نظر نہیں آتی

یہ آئینہ بھی ہوا داغ دارِ تشنہ لبی

٭٭

 

٭اس خیال کو میں نے نصیرترابی کے ایک شعر سے بطور تبرک لیا ہے

کون پانی کو روکنے والا پیاس کا جبر اختیاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

6

 

ہے شہادت کہ ہلاکت کہ اجل بولتی ہے

مرضیِ رب سرِ میدانِ جدل بولتی ہے

 

یہ زباں حق کی زباں ہے دم گفتار تو ہو

پھر ہو دربار، کہ مقتل، کہ محل بولتی ہے

 

ایک وعدہ ہے فقط وعدۂ طفلیِ حسینؑ

جس کو قاموسِ تغیئر بھی اٹل بولتی ہے

 

فجر کا وقت ہے عاشور ہے سناٹا ہے

کس خموشی سے یہاں صبح ازل بولتی ہے

 

جنگجو کہہ کے بلاتا ہے مرا آج مجھے

خود کو خوشبوئے شہادت مرا کل بولتی ہے

 

رن میں ہے صاحبِ اسرارِ بلاغت کا پسر

وہ رجز پڑھتا ہے شمشیرِ اجل بولتی ہے

 

آسماں لال نظر آتا ہے جو شام کے وقت

آنکھ اسے خون کی سرخی کا بدل بولتی ہے

 

بال بکھرائے ہیں ترتیب و تبدّل کی خطیب

اور سرِ خانۂ تخریب و خلل بولتی ہے

 

میں نے بس شعر کہے، شعر سنے، شعر لکھے

داورِ حشر، مری فردِ عمل بولتی ہے

 

اے غزل گو کبھی سن مرثیۂ میر انیسؔ

ایک مصرعے میں یہاں پوری غزل بولتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

7

 

تلوار لئے درہم و دینار کے بازو

کرتے ہیں قلم روز قلم کار کے بازو

 

آ جائیے مولاؑ، میں یہاں کب سے کھڑا ہوں

پھیلائے ہوئے حسرتِ دیدار کے بازو

 

ہمت ہے کسی کی مجھے رستے سے ہٹائے

میں تھام کے چلتا ہوں عزادار کے بازو

 

ہاتھوں میں کہاں دم تھا کہ میں تیغ چلاتا

قدرت نے عطا کر دئیے اشعار کے بازو

 

مجلس میں نہ چھلکیں تو کس کام کی آنکھیں

ماتم کو نہ اُٹھیں تو ہیں بے کار کے بازو

 

فتوے کی چھری اس نے چھپائی ہے بغل میں

میں کاٹ نہ دوں مفتیِ مکار کے بازو

 

کعبے نے سجا رکھی ہے اس وقت کی تصویر

پھیلے تھے یہاں پر کبھی دیوار کے بازو

 

تا خیر نہ کی، تیغ دو، دم بھیج دی اس دم

جس دم نظر آئے اسی معیار کے بازو

 

صورت علی اکبرؑ کی محمدؐ کی ہے صورت

بازو بھی وہی احمد مختارؐ کے بازو

 

اب حشر تک مَشک و عَلَم ساتھ رہیں گے

تسمے سے حمائل ہیں علم دارؑ کے بازو

 

مشکیزہ سے پانی ہوا جس آن علیحدہ

شانوں سے علیحدہ تھے وفا دارؑ کے بازو

 

کمسن تھے مگر خوب لڑے عونؑ و محمدؑ

خنجر نے اڑائے یہاں تلوار کے بازو

 

ناوک نظر آیا تو گلا آگے بڑھایا

اصغر ؓ نے بچائے شہۂ ابرارؑ کے بازو

 

ہے آیتِ سجدہ کہ ہے شمشیر امامت

سجدے میں پڑے ہیں صفِ اغیار کے بازو

 

مانا کہ رسن بستہ رۂ بازوئے زینبؑ

آزار رہے قامت اظہار کے بازو

 

پہنائی گئی پیروں میں سجادؑ کے بیڑی

باندھے گئے زنجیر سے بیمار کے بازو

 

ان ہاتھوں سے ہی اِس نے کیا ہے وہاں ماتم

حسرت سے تکے جاتا ہے زوّار کے بازو

 

آ جائیں علیؑ، میں انہیں آرام سے دیکھوں

کھل جائیں مری تربت ہموار کے بازو

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل