فہرست مضامین
طارق چھتاری– فکر و فن
احمد علی جوہر
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
والدین
کے
نام
جن کی شفقت و محبت نے میری زندگی
کی مشکلوں کو آسان کر دیا
مقدمہ
طارق چھتاری معاصر اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ ۱۹۷۰ء کے بعد کی نسل کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’باغ کا دروازہ‘‘ معاصر اردو افسانے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ افسانوی مجموعہ ان کے افسانوں کا انتخاب ہے۔ اس میں کل انیس افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں طارق چھتاری نے افسانوی لوازم، پلاٹ، کردار، برجستہ اور فطری مکالموں، مناسب و موزوں جزئیات، منظر نگاری، کلائمکس اور تاثراتی ارتکاز کا پورا خیال رکھا ہے اور اپنے مشاہدات و تجربات کو بڑے سلیقے سے سمویا ہے۔
طارق چھتاری نے اپنے افسانوں میں ذہنی ونفسیاتی کشمکش اور انسان کی داخلی کیفیات کو بھی موضوع بنایا ہے اور سماجی موضوعات کو بھی جگہ دی ہے اور سماجی مسائل کو اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ حقیقت جھانکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
انھوں نے اپنے کچھ افسانے دیہی و قصباتی زندگی کے پس منظر میں لکھے ہیں اور کچھ افسانے شہری زندگی کے پیچیدہ مسائل و موضوعات کو محور بنا کر لکھے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ دیہی و قصباتی زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ شہری زندگی کے مسائل کی عکاسی میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے افسانوں میں فکری و فنی بصیرت سے کام لے کر جدید عہد کی زندگی اور اس کے پیچیدہ مسائل کو اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ ان میں زندگی جیتی جاگتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کی خفیہ حقیقتوں کو بڑی فنکاری سے اُجاگر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں زندگی کے بارے میں آگہی اور بصیرت کا ایک نیا دریچہ کھولتی ہیں۔
ان کے افسانوں میں تخلیقی بصیرت، عصری حسّیت، فنکارانہ شعور، گہرا مشاہدہ، احساس کی شدّت، زبان کا غیر معمولی تخلیقی استعمال، اسلوب اور تکنیک کے نئے نئے تجربات اور موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کی یہی وہ خصوصیات ہیں جو انھیں اپنے ہم عصروں میں منفرد و ممتاز بناتی ہیں۔
ان کا امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے سلیقہ کے ساتھ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے فنی و تکنیکی وسائل سے کام لیا ہے۔ ان کے افسانوں میں جدیدیت کے عناصر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور ما بعد جدیدیت کے عناصر بھی۔ جدیدیت کی بہ نسبت ما بعد جدیدیت کے اثرات ان کے افسانوں میں زیادہ کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔
طارق چھتاری کے افسانوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے افسانے ایسے بیانیہ ہیں جس میں عہد حاضر کی دھڑکن کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں سماجی اورنفسیاتی حقیقت نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ ان کے افسانے فکری و فنی خوبیوں کے باعث انھیں ایک اہم اورممتازافسانہ نگار کی شکل میں سامنے لاتے ہیں۔ ایسے اہم اور ممتاز افسانہ نگار کی افسانہ نگاری پر اب تک خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔
چندرسائل جیسے ’’شعرو حکمت‘‘ اور ’’استعارہ‘‘ نے ان کی افسانہ نگاری پر گوشے ضرور شائع کیے ہیں۔ ان کے علاوہ چند اور رسائل اور کتابوں میں ان کے فن پر کچھ مضامین دستیاب ہیں۔ لیکن یہ مضامین ان کے فن کے سرسری جائزہ تک محدود ہیں۔
طارق چھتاری کی فکری و فنی عظمت کو دیکھتے ہوئے اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ ان کے فن کا مبسوط و مفصل جائزہ لیا جائے۔ یہی ضرورت اس کتاب کے وجود میں آنے کا محرک ثابت ہوئی۔
اس کتاب میں طارق چھتاری کی افسانہ نگاری کا فکری و فنی جائزہ لیتے ہوئے ان کے افسانوی امتیازات کو اُجاگر کرنے کی بساط بھر کوشش کی گئی ہے۔ اس کوشش میں یقیناً کچھ کمیاں رہ گئی ہوں گی۔ اپنے بڑوں کی رہنمائی میں انھیں دور کرنے کی کوشش کروں گا۔
یہ کتاب تین ابو اب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ’’جدیدوما بعد جدید اردو افسانہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب کا جواز یہ ہے کہ طارق چھتاری کاشمارجدیدافسانہ نگاروں کی فہرست میں بھی ہوتا ہے اور ما بعد جدیدافسانہ نگاروں کی فہرست میں بھی۔ اس لیے پہلے جدید و ما بعد جدید اردو افسانہ، اس کی خصوصیات و امتیازات پر گفتگو کی گئی تاکہ اس کی روشنی میں طارق چھتاری کے افسانوی فن کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ باب تین حصّوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصّے میں جدید اردو افسانہ کے پس منظر، اس کے موضوعات اور فکری و فنی امتیازات پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے حصّے میں عبوری دور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے حصّے میں ما بعد جدید اردو افسانہ کے پس منظر اس کے موضوعات اور فکری و فنی امتیازات پر گفتگو کی گئی ہے۔
دوسرے باب کا عنوان ’’طارق چھتاری، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی کشمکش‘‘ ہے۔ یہ باب بھی تین ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے۔ پہلا عنوان ’’طارق چھتاری کی افسانہ نگاری کا موضوعاتی جائزہ‘‘ ہے۔ اس عنوان کے تحت طارق چھتاری کے افسانوں کے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے کہ انھوں نے مختلف طرح کے سماجی موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے اور ان کے یہاں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے۔ اس باب کا دوسراذیلی عنوان ’’طارق چھتاری کی افسانہ نگاری کا فنی جائزہ‘‘ ہے۔ اس عنوان کے تحت طارق چھتاری کے فن پر گفتگو کی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں میں فنی لوازم کاکس حد تک خیال رکھا ہے اور اس سلسلہ میں وہ کتنے کامیاب ہوئے ہیں اور ا نھوں نے فن میں کیا کیا نئے تجربات کیے ہیں اور ان کے افسانوں کی وہ فنی خصوصیات کیا ہیں جو انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز بناتی ہیں۔ اس باب کا تیسرا ذیلی عنوان ’’طارق چھتاری کے یہاں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی کشمکش‘‘ ہے۔ اس میں طارق چھتاری کے یہاں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی کشمکش کی نوعیت کو بیان کرتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے افسانوں میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے عناصر کس حد تک پائے جاتے ہیں اور ان کے افسانوں میں ما بعد جدیدیت کے اثرات زیادہ کار فرما ہیں یا جدیدیت کے اثرات۔
تیسراباب ’’نمائندہ افسانوں کے تجزیے ‘‘ پر مشتمل ہے۔ اس میں طارق چھتاری کے آٹھ نمائندہ افسانوں کے تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔ تجزیے میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ افسانے کے مرکزی خیال/تھیم پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی فنی خصوصیات کو اُجاگر کیا جائے۔
مذکورہ تین ابو اب کے بعد ماحصل ہے۔ اس میں تینوں ابو اب کا نچوڑ/نتائج کو پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں کتابیات ہے۔ اس میں ان کتابوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے حوالے اس مقالے میں دیئے گئے ہیں۔
سب سے پہلے میں اپنے رب العزّت کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے مجھے علم کی راہ پر گامزن کیا۔ اب میں ممنون و مشکور ہوں اپنے استاذ گرامی قدر جناب پروفیسر معین الدین جینابڑے صاحب کا جن سے میں نے پڑھنے لکھنے کا حوصلہ پایا اور جن کی پدرانہ و مربّیانہ شفقت ہر مشکل مرحلہ پر کام آتی ہے۔
میں شعبہ اردو کے دیگر اساتذہ کرام پروفیسرشاہدحسین، پروفیسر انوار عالم انور پاشا، پروفیسر مظہر مہدی حسین، ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین، ڈاکٹر آصف زہری کا بھی شکر گذار ہوں جنھوں نے کسی نہ کسی صورت میں میری تربیت فرمائی۔
میں ڈاکٹر زاہد الحق اسسٹنٹ پروفیسر سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کا بھی ممنون و مشکور ہوں جو برابر مجھے پڑھنے لکھنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ اور ہمت و حوصلہ سے نوازتے رہتے ہیں۔ اللہ انھیں سلامت رکھے۔ پروفیسر مسلم شبنم نوری جو میری کامیابی کے لیے ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں۔ میں ان کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
میں اپنے ان تمام مخلص دوستوں، ساتھیوں کا بھی بے حد ممنون و مشکور ہوں جنھوں نے کسی نہ کسی صورت میں میرا تعاون کیا یا آج بھی کر رہے ہیں۔
میں اپنے والدین کے لیے شکریے کے الفاظ ناکافی پاتا ہوں۔ یہ ان ہی کی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ آج میں کسی لائق بن پایا۔ ان کی بے لوث محبتیں اور عنایتیں مجھے ہمیشہ علمی سرگرمیوں پر آمادہ کرتی رہتی ہیں۔ میرے عزیز بھائی اور بہنوں کی نیک خواہشات بھی مجھے اندر سے تازہ دم رکھتی ہیں۔ ان کا شکریہ ادا کرنا بھی میں اپنا اہم فریضہ سمجھتا ہوں۔ میں اپنے ان اعزّہ و اقارب کا بھی شکریہ ادا کرنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہوں جو مجھ سے غائبانہ شفقت و محبت رکھتے ہیں اور میری کامیابی کے لیے دل سے دعا گو ہیں۔
احمد علی جوہر
جے این یو، نئی دہلی
٭٭٭
باب اول
جدید و ما بعد جدید اردو افسانہ
(الف) جدید اردو افسانہ
(ب) عبوری دور کی کشمکش
(ج) ما بعد جدید اردو افسانہ
جدید اردو افسانہ
جدید اردو افسانہ کے سلسلہ میں ادبا و ناقدین کی اکثریت کی رائے ہے کہ اس کا آغاز ۶۰۔۱۹۵۵ء کے آس پاس ہوا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ’’پھندنے ‘‘، ’’حرام جادی‘‘، ’’چائے کی پیالی‘‘، ’’دل نا تواں ‘‘، ’’درون تیرگی‘‘، ’’غالیچہ‘‘، ’’مردہ سمندر‘‘اور اس جیسے افسانے، جدید افسانہ کا نقطۂ آغاز ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ان افسانوں میں جدیدیت کے عناصر موجود ہیں۔
ان افسانوں کو جدید افسانہ کے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں ناقدین کی آراء میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض ناقدین ان افسانوں کو جدید افسانہ کی فہرست میں شمار کرنے کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ دونوں قسم کے ناقدین کی دلیلیں اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔
ناقدین کے ان اختلافات سے قطع نظر، ان افسانوں کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان افسانوں میں جدیدیت کے عناصر موجود ہیں اور ان افسانوں نے جدید افسانہ کے لیے فضا ہموار کرنے کا کام کیا ہے۔ ان تمام با توں کے باوجود جدید افسانہ سے ہمارا ذہن مذکورہ افسانوں کی طرف نہیں جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ افسانوں میں جدیدیت کے عناصر کو برتنے کی شعوری کاوش نظر نہیں آتی۔ دو سری بات یہ ہے کہ جدید افسانہ کا باضابطہ آغاز جدیدیت کے رجحان کے زیر اثر ہوا۔
جدیدیت کے بارے میں معلوم ہے کہ اردو ادب میں اس کا آغاز تقریباً ۶۰۔۱۹۵۵ء کے لگ بھگ ہوا۔ اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ جدید اردو افسانہ کا با ضابطہ آغاز ۶۰۔۱۹۵۵ء کے آس پاس ہوا۔ ہندوستان میں بلراج میںنرا، سریندرپرکاش اورپاکستان میں انتظار حسین اور انور سجاد کی تحریروں سے جدید افسانہ کا رنگ روپ سامنے آیا۔ ان کے بعد ہندوستان وپاکستان میں جدید افسانہ نگاروں کی نئی نسل سامنے آئی۔
اس نئی نسل میں رشید امجد، انور عظیم، کلام حیدری، عوض سعید، اکرام باگ، حمیدسہروردی، کمار پاشی، رام لعل، اقبال متین، اقبال مجید، جوگندر پال، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، قمراحسن، انور قمر، غیاث احمد گدی، الیاس احمد گدی، بلراج کومل،ر تن سنگھ، احمد ہمیش، مرزا حامد بیگ، سمیع آہوجہ، احمد داؤد، خالدہ حسین، غلام الثقلین نقوی، اے۔خیام، زاہدہ حنا، علی حیدر ملک، دیوندراسر، شفیع جاوید، عبدالصمد، مشتاق مومن، محمود واجد، ظفر اوگانوی، انیس رفیع، کنورسین، شرون کمار ورما، شفیع مشہدی، نیر مسعود، علی امام نقوی، اختریوسف، مسعوداشعر، محمد منشا یاد، اعجاز راہی، احمد جاوید، حسین الحق، شفق، آصف فرخی، سائرہ ہاشمی، مظہرالاسلام، فرخندہ لودھی، مسعودمفتی، امراؤ طارق، یونس جاوید، مستنصرحسین تارڑ، انور خان، شوکت حیات، رضوان احمد، مظہر خان، سلام بن رزاق، قاضی عبدالستار، اور عابد سہیل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان تمام افسانہ نگاروں نے جدیدافسانہ کی تخلیق اور اس کی روایت کو آگے بڑھانے میں حصہ لیا ہے۔ اس لیے ان افسانہ نگاروں کا شمار، جدیدافسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان جدیدافسانہ نگاروں میں سے بیشتر کے یہاں روایت سے انحراف اور نئے نئے تجربات کرنے کے معاملہ میں شدت پسندی پائی جاتی ہے، جبکہ بعض افسانہ نگاروں کے یہاں روایت و جدت کے امتزاج کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی لیے ۱۹۶۰ء کے بعد جدید افسانہ نگاروں کودو جماعتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک شدت پسند جدید افسانہ نگاروں کی جماعت۔ دوسری غیر شدت پسند؍یاجدید ترقی پسندافسانہ نگاروں کی جماعت۔
اول الذکر جماعت میں انور سجاد، بلراج مین را، سریندرپرکاش، انور عظیم، رشید امجد اور اسی قسم کے دوسرے شدت پسند افسانہ نگاروں کا نام لیا جاتا ہے۔ ثانی الذکر جماعت میں رام لعل، اقبال مجید، اقبال متین، قاضی عبدالستار، رتن سنگھ، شرون کمار ورما، جوگندر پال، ستیش بترا، قیصر تمکین اور غلام الثقلین نقوی جیسے افسانہ نگاروں کا نام سر فہرست ہے۔
ان افسانہ نگاروں کو غیر شدت پسند اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے فرسودہ روایات سے ضرور انحراف کیا ہے لیکن انحراف کے معاملہ میں شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اور صحت مند روایات کا پاس و لحاظ رکھا ہے۔ انھیں ترقی پسند اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے وجودی افکارومسائل کی بہ نسبت خارجی یعنی سماجی مسائل کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ انھیں جدید اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے خارجی موضوعات کو اپنانے کے باوجود فن میں نت نئے تجربے کیے ہیں۔ یہ افسانہ نگار، اول الذکر جماعت کے افسانہ نگاروں سے قدرے مختلف ہیں۔
اول الذکر جماعت کے افسانہ نگار اگرچہ شدت پسند کہلاتے ہیں۔ لیکن در اصل جدید افسانہ کو جدید بنانے اور اسے الگ شناخت دینے میں اسی جماعت کے افسانہ نگاروں کا ہاتھ ہے۔ اس جماعت کے افسانہ نگار بلراج مین را، انور سجاد، انور عظیم اور احمد ہمیش وغیرہ نے افسانہ نگاری کے مروجہ اصول، پلاٹ، کلائمکس، منظر نگاری، نقطۂ عروج، وحدت تاثر، جیسے افسانوی عناصر سے شدید طور پر انحراف کیا۔
اس انحراف کے پیچھے چاہے ترقی پسند افسانے کی مخالفت کا جذبہ ہو، چاہے اپنی شناخت بنانے کا جذبہ ہو، چاہے مغربی جدیدیت کی تقلید کا جذبہ ہو، چاہے جدید عہد کے پیچیدہ مسائل کی عکاسی کا جذبہ ہو، چاہے جو بھی جذبہ کار فرما ہو، ان افسانہ نگاروں نے روایتی افسانہ کے مروجہ اصول سے شدید طور پر انحراف کیا۔ زبان کی شکست و ریخت سے کام لیا۔ ہیئت و تکنیک کی سطح پر نت نئے تجربات کیے اور نئے اسالیب اور نئے انداز بیان میں جدید افسانے لکھے۔
یہ جدید افسانے روایتی یا ترقی پسند افسانوں سے یکسر الگ تھے۔ ان جدید افسانوں کو روایتی معنوں میں افسانہ کہا بھی نہیں جا سکتا تھا کیوں کہ ان جدید افسانوں سے پلاٹ، کلائمکس، وحدت تاثر، مانوس فضا، ماحول، سب غائب تھے۔ کردار کی جگہ اس کی پر چھائیاں نظر آنے لگی تھیں۔ اس طرح جدید افسانہ میں روایتی افسانہ کے اصولوں سے شدت کے ساتھ انحراف کیا گیا تھا۔ اس انحراف کے نتیجہ میں جدید افسانہ پر چند اعتراضات وارد ہوئے۔مثلاً:
۱۔ جدید افسانہ کہانی سے انحراف کرتا ہے۔
۲۔ پلاٹ، کردار، آغاز، انجام اور وحدت ثلاثہ وغیرہ روایتی اصولوں کا التزام یا احترام نہیں کرتا۔
۳۔ زبان کی شکست و ریخت اور شخصی علامات کے استعمال نے اسے ناقابل فہم بنا دیا ہے۔
۴۔ ہندسی اور ریاضیاتی وغیرہ علمی اشکال کے تصرف سے لغویت کی تشکیل کرتا ہے۔
۵۔ نثری لوازم کے بجائے شعری لوازم کی طرف مراجعت کرتا ہے۔
۶۔ اس نے نظم کی ہیئت اختیار کر لی ہے۔‘‘(۱)
ان اعتراضات کے بارے میں سلیم شہزاد کا خیال ہے کہ انھیں ’’اعتراضات سے زیادہ جدید افسانے کی ظاہری خصوصیات تصور کرنا چاہیے، اگرچہ صرف یہی خصوصیات اس کی پہچان نہیں ‘‘ (۲) ان خصوصیات کے علاوہ سلیم شہزاد نے داستانوی انداز، اعترافی رجحان یعنی آپ بیتی کی تکنیک میں ( ’’میں ‘‘ کو کردار بنا کر) افسانہ لکھنے کا چلن، علامتی طریق کار اور تجریدی اسلوب کو جدید افسانہ کی خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ (۳) جدید افسانہ کی خصوصیات پر ڈاکٹر جمیل اختر محبی نے یوں روشنی ڈالی ہے۔ :
’’اسلوب یا تکنیک کے اعتبار سے جدید افسانہ میں کئی خصوصیات نمایاں ہیں۔ ان میں علامت نگاری، علامتی کردار کی پیشکش، استعارے، امیجز، تمثیل، داستانوی انداز، دیومالا اور اساطیر، مرکب اور پیچیدہ پلاٹ، نثر میں شعری زبان کا استعمال، کلیدی جملوں کی تکرار، تجریدیت، اینٹی کلائمکس، اینٹی کردار اور اینٹی پلاٹ افسانے، شعور کی رو، تلازمہ خیال، فال بیک تکنیک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موضوع کے لحاظ سے جدید افسانہ کی خصوصیات کی فہرست اس طرح بناسکتے ہیں۔ تنہائی، علیحدگی، اجنبیت، بے گانگی، کرب، اضطراب، مشینی اور صنعتی نظام، قدروں کا زوال، بھاگتے ہوئے لمحوں کو گرفت میں لینے کی کوشش، نئی قدروں کی تعمیر، لادینیت، تلاش ذات، مایوسی، خوف، دہشت، جنگ کی ہولناکی، اپنی جڑ سے اکھڑنے کا غم، ٹوٹتے بکھرتے رشتے ناتے، بے زمینی، تہذیبی بازیافت اور ازیں قبیل کے موضوعات۔‘‘ (۴)
جدید افسانہ کی ان خصوصیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید افسانہ موضوع واسلوب دونوں اعتبار سے ترقی پسند افسانہ سے مختلف ہے۔
در اصل جدید افسانہ نگاروں کا فکری و فنی زاویہ نظر ترقی پسند افسانہ نگاروں سے الگ تھا۔ اسی زاویہ نظر کے تحت جدید افسانہ نگاروں نے موضوعات واسالیب کے اعتبار سے جدید افسانہ کو ترقی پسند افسانہ سے الگ کرنے اور اسے ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی۔ جدیدافسانہ کو نئی شکل دینے میں جدید افسانہ نگار کتنے کامیاب ہوئے ہیں ؟ اس پر ناقدین برابر اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔ ویسے جدید افسانہ کے مطالعہ کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر تمام جدید افسانہ نگار جدید افسانہ کو نئی شکل دینے اور اسے افسانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں تو بعض ضرور کامیاب ہوئے ہیں اور شاہکار افسانے تخلیق کیے ہیں۔
جب جدید افسانہ نگاروں نے جدید افسانہ کو نئی شکل دی اور جدید افسانہ نئے موضوعات و اسالیب کے ساتھ اور نئے انداز بیان میں ادبی منظر نامہ پر رونما ہوا تو افسانوی دنیا میں چند سوالات جنم لینے لگے کہ جدید افسانہ کیوں وجود میں آیا؟ آیا ترقی پسندی کے رد عمل میں ؟ یاسیاسی سماجی صورت حال نے جدید افسانہ کو جنم دیا؟ اس ضمن میں ناقدین کے مختلف اقوال ہیں۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ جدید افسانہ ترقی پسند افسانہ کے رد عمل میں وجود میں آیا اور رواج پایا۔ ایسا کہنے سے ایک بڑا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ترقی پسندی کا رد عمل رجعت پسندی ہے۔ کیا جدید افسانہ رجعت پسندہے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ در اصل جب یہ کہا جاتا ہے کہ ترقی پسند افسانہ کے رد عمل میں جدید افسانہ وجود میں آیا تو اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اجتماعی مسائل کو اہمیت دی۔ طبقاتی کشمکش کو موضوع بنایا۔ خارجی حقیقت نگاری سے کام لیا اور پلاٹ و کردار کا خاص خیال رکھا۔ اس کے برعکس جدید افسانہ نگاروں نے انفرادی مسائل کو اہمیت دی۔ انسان کی باطنی کشمکش کو موضوع بنایا۔ داخلی حقیقت نگاری سے کام لیا اور بغیر پلاٹ کے افسانے لکھے۔ اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ ترقی پسند افسانہ کے رد عمل میں جدید افسانہ وجود میں آیا۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں کے انتہاپسندانہ رویوں کے رد عمل میں جدید افسانہ وجود میں آیا۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں کے انتہاپسندانہ رویوں میں حد سے بڑھی ہوئی مقصدیت و افادیت، نظریاتی ادعائیت، خطابت، اشتہاریت، فارمولائیت، نعرہ بازی، ہنگامہ خیزی اور پروپیگنڈہ وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ ان انتہاپسندانہ رویوں سے دامن کش ہو کر جدید افسانہ ادبی و فنی قدروں کے ساتھ منظر عام پر آیا۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ جب ترقی پسند تحریک کے زیر اثر افسانہ میں موضوعات و اسالیب کی سطح پر یکسانیت اور اکتاہٹ اور بوریت کا احساس ہونے لگا تو اس سے بچنے کے لیے جدید افسانہ کو وجود میں لایا گیا اور رواج دیا گیا۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ مغربی جدیدیت کی تقلید میں جدید افسانہ وجود میں آیا کیوں کہ جدید افسانہ پر جدید مغربی فنکاروں جیمس جوائس، ورجینا وولف، سارتر، کامیو اور کافکا وغیرہ کا اثر ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ در اصل جدید افسانہ نگاروں نے اپنی شناخت بنانے کے لیے جدید افسانہ کو وجود میں لایا اور اسے رواج دیا۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ عالمی اور ملکی حالات نے جدید افسانہ کے لیے راہ ہموار کی۔ دو عظیم جنگوں کے بعد دنیا کے حالات ومسائل اور دنیا کی فضا بدل گئی تھی۔ اس فضا میں وجودیت کی لہریں زور پکڑ رہی تھیں۔ ملکی سطح پر ۱۹۴۷ء کی تقسیم کے المیہ نے ہند و پاک کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس تقسیم کے المیہ نے روایتی، اخلاقی اصول و آداب اور انسانی اقدار کو پامال و شکستہ قرار دے دیا تھا۔ سماجی تصورات کو چکنا چور کر دیا تھا۔ سماجی تصورات کے ٹوٹنے سے انسان باطن یعنی اندرون ذات میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ تقسیم کے المیہ نے جو بھیانک مسائل پیدا کیے تھے، اس کا شدید اثر انسان کے باطن پر پڑا۔ انسان کے باطن پر صنعتی عہد کے پیچیدہ مسائل نے بھی شدید اثر ڈالا۔ سائنس و ٹکنالوجی نے انسان کو ایک طرف آرام وآسائش مہیا کیا، تودوسری طرف ایٹمی تباہ کاری کے خوف میں مبتلا کیا اور انسان کو مشین بنانے کی کوشش کی۔ گویا صنعتی مسائل نے بھی انسان کو خوف و دہشت، شدید کرب و اضطراب اور احساس بے چارگی میں مبتلا کیا۔ اس طرح ان تمام حالات نے ہند و پاک میں ’’وجودیت‘‘ کے لیے فضا ہموار کی۔ اس وجودیت کے بطن سے جدیدیت کا آغاز ہوا اور جدیدیت کے زیر اثر جدید افسانہ کا با ضابطہ آغاز ہوا۔
مذکورہ تفصیل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جدید افسانہ کے وجود میں آنے کا کوئی ایک مخصوص سبب نہیں ہے، بلکہ اس کے وجود میں آنے کے مختلف اسباب و عوامل ہیں۔ گذشتہ تفصیل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جدیدافسانہ کے لیے ایک حد تک زمینی صورتحال نے بھی فضا ہموار کی تھی۔ وہاب اشرفی اس بات کو نہیں مانتے۔ ان کے خیال میں ترقی پسندوں سے الگ اپنی شناخت بنانے کے لیے جدید افسانہ نگاروں نے گریز یا انحراف کا رویہ اپنایا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ نئے نقادوں اور رسالوں (سوغات، شب خون، آہنگ، وغیرہ) نے اس کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ اسی لیے وہاب اشرفی کے مطابق:
’’اردو کا نیا افسانہ ہوا میں معلق ہے اور اس کی اس کیفیت کے لیے بعض ناقدین افسانہ ذمہ دار ہیں ‘‘۔ (۵) بعض جدید افسانے یقیناً ہوا میں معلق نظر آتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے افسانوں میں زمینی مسائل کے بجائے فلسفیانہ مسائل کو اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ تمام جدید افسانوں کے بارے میں ایسانہیں کہا جا سکتا ہے کیوں کہ بہت سے جدیدافسانے سماجی مسائل سے پر ہیں۔ اس لیے مطلق یہ کہنا کہ نیا افسانہ ہوا میں معلق ہے، مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ شاید ناقدین کے ان ہی رویوں کے سبب قمر احسن کو لکھنا پڑا کہ:
’’نیا افسانہ پچھلے افسانہ سے زیادہ سماجی روابط اور کشمکش کا مظہر ہے۔ کیا بلراج مین را، سریندرپرکاش، انور سجاد، انتظار حسین اور احمد ہمیش کے یہاں جو شدید کشمکش، جبر کے خلاف رد عمل اور بے رشتگی ہے، وہ افلاک کی باتیں ہیں۔‘‘ (۶)
اس اقتباس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ جدیدافسانہ بھی ارضیت اور سماجی معنویت سے مملو ہے۔ اوراس نے بھی سماجی مسائل کو بیان کیا ہے، لیکن بہ انداز دگر۔ جدید افسانہ نگاروں نے سماجی، سیاسی مسائل اور خارجی حالات کو براہ راست موضوع نہیں بنایا ہے، بلکہ خارجی حالات کے انسان کے باطن پر جو اثرات پڑے ہیں، اس کو موضوع بنایا ہے اوراسے بالواسطہ یعنی علامتی، تمثیلی واستعاراتی پیرایے میں بیان کیا ہے۔ اس لیے جدید افسانہ کی سماجی معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
در اصل جدید افسانہ نگاروں کا زاویہ نظر ترقی پسند افسانہ نگاروں سے مختلف تھا۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے خارجی مسائل کو براہ راست موضوع بنایا اور براہ راست بیان کیا۔ اس کے برعکس جدید افسانہ نگاروں نے خارجی حالات کو براہ راست بیان نہیں کیا، بلکہ سماجی اورسیاسی حالات کے رد عمل کو بالواسطہ یعنی علامتی پیرایے میں پیش کرنے کی کوشش کی یا خارجی حالات نے جدید عہد کے انسان کے اندر جن محسوسات (ڈر، خوف، احساس تنہائی، محرومی ومایوسی وغیرہ) کو جنم دیا، اس کو بیان کرنے کی کوشش کی۔ گویا جدید افسانہ نگاروں نے انسان کے داخلی مسائل کو اہمیت دی، جو در اصل خارجی حالات ہی کے زائیدہ ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جدید افسانہ نگاروں نے خارج میں رونما ہونے والے واقعات کو جدید عہد کے انسان یعنی افسانوی کردار کے دلی واردات کی شکل میں پیش کیا۔ اس دلی واردات میں سماجی مسائل پوشیدہ طور پر موجود ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ کچھ جدید افسانے پیچیدہ فلسفیانہ مسائل کے بیان کرنے کی وجہ سے ارضی، سماجی اورسیاسی مسائل سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ اس سے تمام جدید افسانوں پر مطلق یہ الزام عائد نہیں کیا جا سکتاکہ جدید افسانہ عصری صورت حال کا ترجمان نہیں ہے۔ جدید افسانہ بھی عصری صورت حال کا ترجمان ہے بقول شہزاد منظر:
’’حقیقت یہ ہے کہ جدید افسانہ آج بھی ترقی پسند افسانے کی طرح اپنے دور کا ترجمان اورعکاس ہے اوراس میں بھی سیاسی جبر، سماجی نا انصافیوں، پامال عقائد، شکستہ اقدار اور فرسودہ نظام حیات کے خلاف شدید احتجاج پایا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ علامت نگاروں کا طرز اظہار حقیقت پسند (ترقی پسند) افسانے سے مختلف ہے اور اس میں تمام باتیں واضح اور دو ٹوک انداز میں نہیں، بلکہ بالواسطہ اور علامتی پیرایہ میں کہی جاتی ہیں۔‘‘ (۷)
شہزاد منظر کے مطابق جدیدافسانہ میں عصری صورت حال کی ترجمانی موجود ہے۔ عصری صورت حال کی ترجمانی کے لیے ہی جدید افسانہ نگاروں نے ’’الف‘‘، ’’ب‘‘، ’’ج‘‘، ’’میں ‘‘ اور ’’وہ‘‘ کی شکل میں بے نام اور بے شناخت کردار پیش کیے۔ در اصل جدید عہد میں انسان کی شناخت معدوم ہو رہی تھی۔ انسان ناموں سے نہیں، نمبروں یا صفات سے پہچانے جانے لگے تھے۔ اس لیے جدید افسانہ میں بھی ایسے ہی کردار رونما ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ جدید افسانہ میں ترقی پسند افسانہ کی طرح جاندار کردار کی تخلیق نہیں ہو سکی۔ دوسری بات یہ کہ جدید افسانہ میں کردار کی گمنامی واقعات کی گمنامی کا باعث بن گئی اور کردار نگاری کا فن کمزور پڑتا چلا گیا۔ البتہ بعض جدید افسانہ نگار ’’میں ‘‘ اور ’’وہ‘‘ کی شکل میں بھی اچھے کردار کی تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔
جدیدافسانہ میں جانوروں جیسے کتا بچھو سانپ وغیرہ کو اور بے جان اشیا کو بھی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے بھی جدید افسانہ میں کردار نگاری کو نقصان پہنچا ہے۔
جدید افسانہ پر ایک الزام یہ ہے کہ اس میں کردار کے باطنی پہلو پر توجہ دی گئی لیکن اس کا خارجی پہلو دھرا رہ گیا۔ یہ الزام ایک حد تک درست ہے۔ جدید افسانہ پر اس کے بہت زیادہ مبہم بلکہ ناقابل فہم اور ناقابل ترسیل ہونے کا الزام ہے۔ در اصل بیشتر جدید افسانہ نگار علامتوں کو برتنے اور استعاراتی و تمثیلی طریقہ کار اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں اور افسانہ کو انتہائی ثقیل، بلکہ ناقابل ترسیل بنا دیا ہے۔ اس لیے جدید افسانہ پر ناقابل ترسیل ہونے کا الزام برابر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ور نہ کامیاب جدید افسانہ نگاروں نے علامتی، تمثیلی و استعاراتی طریقہ کار اختیار کر کے پیچیدہ مسائل کو بحسن و خوبی بیان کیا ہے۔ ایسے افسانہ نگاروں نے افسانہ کو مبہم ضرور بنایا ہے، لیکن ناقابل ترسیل بننے سے بچایا ہے۔
جدید افسانہ پر ایک الزام یہ ہے کہ اس نے جزئیات نگاری کو نظر انداز کر دیا ہے۔ در اصل جدید افسانہ نگاروں نے حد سے زیادہ اختصار اور اجمال پسندی سے کام لینے میں جزئیات ہی کو نظر انداز کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ افسانہ میں فضا کی تخلیق نہیں ہو پائی اور افسانہ، دلچسپی کے عنصرسے محروم ہو گیا۔ البتہ کامیاب جدید افسانہ نگاروں نے اس عنصر کا بطور خاص خیال رکھا۔
جدید افسانہ نگاروں نے پلاٹ، وحدت تاثر اور کلائمکس کو اہمیت نہیں دی اور زبان کی شکست و ریخت اور بیانیہ کے توڑپھوڑسے کام لیا۔ جدید افسانہ نگاروں نے واقعات کو منصوبہ بند طریقے سے بیان کرنے کے بجائے اسے آزادانہ طور پر بیان کیا۔ اسی لیے جدیدافسانہ کے بارے میں محمود ہاشمی کا خیال ہے کہ ’’یہ مکمل ترین اور آزاد ترین اظہار خیال ہے ‘‘۔ (۸) جدیدافسانہ نگاروں نے زندگی اور اس کے مسائل پر آزادانہ غور و فکر کی نگاہ ڈالی ہے اور واقعات کو اس کے پورے ابعاد کے ساتھ قبول کیا اور بیان کیا ہے۔ اس سے جدید افسانہ میں فکری گہرائی پیدا ہوئی۔
بہرحال جب جدید افسانہ نگاروں نے اپنے مخصوص فکری و فنی نقطہ نظر کے تحت نئی تکنیکوں کے سہارے، نئے اسالیب و انداز بیان میں اور نئے مسائل و موضوعات پر مشتمل افسانے لکھے تو جدیدافسانہ ایک نئی شکل میں ادبی منظرنامہ کے افق پر نمودار ہوا اور ترقی پسند افسانہ اور جدید افسانہ کے درمیان نمایاں فرق دکھائی دینے لگا۔ اس فرق کو مختلف ناقدین نے مختلف انداز میں محسوس کیا اور بیان کیا ہے۔ ذیل میں ناقدین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :
’’نئے اور پرانے افسانے میں سب سے بنیادی فرق ’’افسانہ گوئی‘‘ اور ’’افسانہ نویسی کی اصطلاح کے ذریعے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ وہ افسانے جو افسانہ گوئی پر مبنی ہیں، ان میں افسانہ نگار یعنی راوی کا وجود اور نقطۂ نگاہ حاوی رہتا ہے۔‘‘ (۹)
باقر مہدی کا خیال ہے :
’’نیا افسانہ کسی واقعے کے ڈرامائی اظہار کا افسانہ نہیں بلکہ ’’شعور کی آنکھ‘‘ کا اظہار ہے۔ متصادم مناظر اور متخالف واقعات کا مونتاژ ہے۔‘‘ (۱۰)
صبا اکرام رقم طراز ہیں :
’’جو فرق مجھے ترقی پسندیاحقیقت پسندافسانوں اور جدید افسانوں کے درمیان نظر آیا ہے، وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ جسم اور روح کے درمیان ہوتا ہے۔ یعنی ترقی پسند یا حقیقت پسندافسانوں میں جس چیز کی ترجمانی کی سعی کار فرما نظر آتی ہے وہ ’’عصر‘‘ ہے جب کہ جدیدافسانوں میں ساری کوششیں ’’روح عصر‘‘ کی عکاسی کے سلسلے میں نظر آتی ہیں۔‘‘(۱۱)
قمر اعظم ہاشمی کا خیال ہے :
’’خارجی ماحول سے باطن کی مبارزت طلبی، حالات کے ریگ رواں سے اس کی دست بازی، مسائل حیات سے اس کی زور آزمائی اور اس کے انفرادی وجود پر سنگ انداز عصری صورت حال کی بے رحمی سے پیدا ہونے والا رد عمل ہی نئے افسانے کے مزاج کی شناخت کا وسیلہ ہے۔‘‘ (۱۲)
گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
’’نئی کہانی انحراف سے زیادہ اجتہاد اور انقطاع کے لمحوں کی پیداوار تھی۔ نئے افسانہ نگار فکرواحساس اور اظہار واسلوب کے یکسرنئے مسائل سے دوچار تھے۔ ان کے دلوں میں ایک انجانا کرب، ایک عجیب خلش اور نئی آگ تھی جو ان کے پورے وجود کو جلائے دے رہی تھی۔ خوابوں کی شکست، سائنس کی تکنیکی جیت لیکن روحانی ہار، فرد کی بے بسی، وقت کی گزراں نوعیت لیکن تسلسل، وجودی ذمہ داری کی دہشت، باطن کے اسرار کے تجسس، انام رشتوں کی نوعیت کی پہچان، شخصیت کے زوال، اور آگہی کے آشوب سے بچنے کی جستجو، یہ اور ان سے ملتے جلتے عوامل نے افسانہ نگاروں سے ……آخری آدمی، زرد کتا، کایا کلپ، (انتظارحسین)، کمپوزیشن چار، وہ، (بلراج مین را)، …… پرندہ پکڑنے والی گاڑی، (غیاث احمد گدی)، کنواں، (بلراج کومل)، صدسطری حکم نامہ، (کمار پاشی)، ……جیسی بحث انگیز کہانیاں لکھوائیں جو ترقی پسندافسانے سے بالکل مختلف ہیں، ……ان میں کئی جگہ شعور کی لپک الگ ہو گئی ہے۔ نہ زمان و مکان کا اگلا ساتصورملتا ہے نہ کردار کا، نہ مکالمے کا اور نہ پیشکش کا، نہ وقت کا اور نہ بیان کے روایتی تسلسل کا۔
حسیت، تخلیقیت اوراستعاریت و تجریدیت کے اعتبار سے ان کہانیوں میں روایت سے انحراف مکمل ہے، شعور حقیقت کے ادراک کا بھی اور پیرایۂ اظہار کا بھی۔ بعض کہانیاں علامتی ہیں بعض تجریدی، بعض تمثیلی، اور بعض فنطاسیہ معلوم ہوتی ہیں۔ بعض لکھنے والوں نے کہانی کے فرسودہ ڈھانچے سے نجات حاصل کرنے کے عمل کو اینٹی اسٹوری تک پہنچا دیا۔ انھوں نے ان کھردرے اور بھیانک بے نام حقائق اور تصورات کو بھی چھونے کی کوشش کی جواس سے پہلے افسانے میں نہ تھے۔ ……ان افسانہ نگاروں کی کوششوں سے اردو افسانہ ایک بالکل نئی معنوی دنیا میں داخل ہوا۔ ایک نیا داخلی اور روحانی منظرنامہ سامنے آیا اور پورے آدمی، اس کے دکھ درد، اس کی الجھنوں اور امنگوں، آرزوؤں، مایوسیوں اور اداسیوں کی عکاسی کی گئی۔ اگرچہ تجریدی کہانیاں کم لکھی گئیں اور علامتی، استعاراتی اور تمثیلی زیادہ، لیکن افسانوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ زبان کے تخلیقی استعمال کے اعتبار سے کہانی کی زبان شاعری کی زبان سے قریب تر ہو گئی، یعنی علامت یا تمثیل کے ذریعے لفظوں کو ان کے مروجہ یا عام معنی سے ہٹے ہوئے گہرے معنی میں استعمال کرنے یا استعارے، کنایے اور رمز و اشارے کے وسائل سے کام لینے کی روش عام ہو گئی۔ چنانچہ اظہاری سطح پر استعاریت اور علامتیت اور ظاہری ساخت (surface structure)کے نیچے داخلی ساخت deep structure)) کی معنیاتی موجودگی، نئی حسیت اور نئے افسانے کی پہچان قرار پائے۔‘‘( ۱۳)
مذکورہ اقتباسات میں بیان کردہ با توں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مذکورہ اقتباسات سے جدید افسانہ کے عمومی مزاج پہ روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جدید افسانہ نگاروں کا مخصوص فکری و فنی زاویہ نظر تھا۔ اس زاویہ نظر کو تشکیل دینے میں عصری، سماجی، سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ، فکری اعتبار سے فلسفہ وجودیت اور فنی و تکنیکی اعتبار سے علامت نگاری، تجرید نگاری، تمثیل نگاری، اظہاریت اور ماورائیت، جیسے رجحانات نے حصہ لیا تھا۔ اسی لیے جدید افسانہ پر ان تمام رجحانات کا اثر نظر آتا ہے۔
جدیدافسانہ نگاروں نے اپنے مخصوص فکری و فنی زاویہ نظر کے تحت انسان کی داخلی کیفیات، یعنی ڈر، خوف کی نفسیات، سہمے ہوئے احساسات، اذیت و بے بسی کی شدید کیفیات، دلی تاثرات اور ذہنی واردات کو بیان کرنے کی کوشش کی۔ گویا جدید افسانہ نگاروں نے جدید افسانہ کو انسان کی داخلی کیفیتوں کا ترجمان اور اس کی باطنی زندگی کا عکاس بنایا۔ اسی لیے جدید افسانہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جدید افسانے، جدید انسان کے فکری سفر، اس کی ذہنی تنہائی، محرومی و مایوسی اور اس کی کرب ناک کیفیات کی روداد معلوم ہوتے ہیں۔
جدید افسانہ میں خوابناک کیفیت اور خوف و دہشت کی فضا نظر آتی ہے۔ عصر جدید کے خوفناک ماحول کا عکس جدید افسانہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جدید افسانہ نگاروں نے انسان کی باطنی کیفیات کی ترجمانی کے لیے مختلف تکنیکوں کا سہارا لیا جیسے شعور کی رو، آزاد تلازمہ خیال، صیغہ واحد متکلم کا استعمال، داخلی خود کلامی، علامتی و تجریدی اسلوب، سر ریلسٹ طریق کار، اظہاریت، حساب اور جیو میٹری کے دائروں اور مثلثوں کی تکنیک اور خواب کی تکنیک وغیرہ۔ ان تکنیکوں کو برتنے میں بعض افسانہ نگار کامیاب رہے ہیں اور بعض ناکام۔
کامیاب جدید افسانہ نگاروں نے مذکورہ تکنیکوں کے ذریعہ جدید عہد کے انسان کی پر پیچ نفسیات، داخلی کیفیات اور باطنی حقائق کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ افسانہ کے حسن میں اضافہ اور معنوی تہ داری پیدا کی۔ جب کہ بعض جدید افسانہ نگاروں نے مذکورہ تکنیکوں کے ذریعہ افسانہ کو افسانوی حدود سے نکال کر غیر افسانوی حدود میں داخل کر دیا۔ بہر حال کامیاب جدید افسانہ نگاروں نے مذکورہ تکنیکوں کے ذریعہ کامیاب افسانے لکھے۔
جدید افسانہ نگاروں کا ایک خاص رجحان بات کو بالواسطہ بیان کرنا تھا۔ اس کے لیے جدید افسانہ نگاروں نے علامتی طریق کار کا سہارالیا۔ کردار و واقعات کو علامتی اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ علامتوں کو برتنے کے سلسلے میں بعض افسانہ نگار تو ضرور کامیاب ہوئے لیکن بعض افسانہ نگار لغزشوں کا شکار ہوئے اور انھوں نے افسانے کو معمہ بنا دیا۔ اسی لیے شہزاد منظر نے لکھا ہے :
’’جدید افسانے میں علامت کے نام پر معمہ پیش کرنے کا رجحان بھی بہت عام ہو چکا ہے۔‘‘ (۱۴)
علامت کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی کا قول ہے :
’’اگر علامت فن پارے کے ڈھانچے میں اس طرح پیوست نہ ہو کہ وہ پورے ڈھانچے کو اپنے پاؤں پر قائم کر سکے تو پھر وہ علامت کے بجائے دھوکے کی ٹٹی بن جاتی ہے۔‘‘( ۱۵)
بعض جدید افسانہ نگاروں کے یہاں علامت کی یہی صورت نظر آتی ہے یعنی وہ دھوکہ کی ٹٹی معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’کفر‘‘، اور ’’جپی ژان‘‘، جیسے افسانے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ علامت کے بارے میں وزیر آغا کا خیال ہے :
’’علامت تو قاری کو ایسے تصور کی طرف لے جاتی ہے جو تمام انسانوں کا مشترکہ تجربہ ہے اور یہی چیز علامت کی بقا کی ضامن بھی ہے۔ جیسے ہی علامت اپنے تصور سے جدا ہو کر، کسی فرد کے آزاد تلازمہ خیال کا حصہ بن جاتی ہے، اس میں فریق ثانی کی شرکت کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں اور جب علامت یا تجربے میں کسی دوسرے کی شرکت نا ممکن ہو تواسے علامت کہنے کے بجائے مجذوب کی بڑ کہنا مناسب ہے۔‘‘(۱۶)
وزیر آغا کے بیان کے مطابق جب علامت میں فریق ثانی کی شرکت کے امکانات ختم ہو جائیں تو وہ علامت کے بجائے مجذوب کی بڑ معلوم ہوتی ہے اور بعض جدیدافسانہ نگاروں کے یہاں علامت کی یہی صورت نظر آتی ہے۔ البتہ کچھ افسانہ نگار علامت کو موضوع و مواد سے ہم آہنگ کرنے میں اور علامتی افسانے لکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے افسانہ نگاروں نے علامتوں کے ذریعے افسانے کے حسن میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ معنوی تہ داری پیدا کی اور عمدہ شاہکار افسانے لکھے۔
جدید افسانہ نگاروں نے جدید عہد کے انسان کے باطن کی چیخ پکار اور ذہنی انتشار کی ترجمانی کے لیے علامتی پیرایہ بیان کے ساتھ ساتھ تجریدی اسلوب کاسہارالیا۔ تجرید در اصل مصوری کی اصطلاح ہے۔ مصوری سے یہ تکنیک جدید افسانہ میں اپنائی گئی ہے۔ اس میں تجسیم کے بر عکس عمل کارفرما ہوتا ہے۔ تجریدی افسانے کو ڈاکٹرسلیم اختر نے فلم ٹریلر سے مشابہ قرار دیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں :
’’اپنی خالص صورت میں تجریدی افسانے کو فلم ٹریلر سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ فلم کے برعکس ٹریلر میں نہ تو واقعات منطقی ربط میں ملتے ہیں اور نہ ہی اس میں وحدت زماں کو ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود ٹریلر تمام فلم کا ایک مجموعی مگر مبہم ساتاثردے جاتا ہے یہی حال تجریدی افسانے کا ہے۔‘‘( ۱۷)
تجریدی افسانے میں بے ربط اور منتشر خیالات و واقعات کو غیر مربوط انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس میں شکستہ لسانی اظہار، منتشر خیالی کا اسلوب، ہذیانی کیفیات اور خواب کے اثرات نمایاں ملتے ہیں اور آزاد تلازمہ خیال، شعوری رو، نفسیاتی طریقہ کار اور سر ریلزم کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ تجریدی افسانے کو اینٹی افسانہ بھی کہا جاتا ہے۔ تجریدی افسانہ کا تجربہ، جدیدافسانہ میں کوئی کامیاب تجربہ نہیں رہا ہے۔ اسی لیے تجریدیت کے رجحان کو منفی رجحان گردانا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر آغا کی یہ رائے ملاحظہ کی جا سکتی ہے :
’’تجریدی افسانہ نگاری ایک منفی رجحان تھا جس نے افسانے کو کہانی کی اساس سے محروم کر کے اسے ایک پگھلی ہوئی فضا میں لا کھڑا کیاجس میں کوئی شئے بھی اپنے صحیح مقام پر نہیں تھی۔‘‘ (۱۸)
تجریدیت کے رجحان نے افسانہ کو کہانی پن سے عاری کر دیا اور اسے اس کی جمالیات سے محروم کیا۔ جدیدیت کے عہد میں افسانہ کو تجریدی اسلوب سے بڑا نقصان پہنچا۔ اسی لیے تجریدیت کے رجحان کو عدم مقبولیت کاسامنا کرنا پڑا۔
جدید افسانہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شاعری سے قریب ہے اور اس میں شعری خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں بلراج کومل کی یہ رائے پیش خدمت ہے :
’’منطقی رویے کا انہدام، استعارہ اور علامت کی سرگرم پیش قدمی و جودیاتی اور ما بعد الطبعیاتی معنی کی تلاش، طریق کار میں فینٹسیfantasyکاسا خمار، جوہر حیات، حیات کی نوعیت اور ماہیت پر توجہ، تشکیلی اکائی کا شعور …… مختصراً یہ وہ خصوصیات ہیں جو شعری رویے کے زیر اثر فکشن میں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔‘‘ (۱۹)
ذیل میں جدید افسانہ کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے جس میں شعری رویے کی کارفرمائی دیکھنے کو ملتی ہے۔
’’زمانہ خود ایک کھنڈر ہے۔
جس کی بوسیدہ، ٹوٹی دیواروں کے نیچے
تاریخ کے ان گنت چہرے سسک رہے ہیں
اور ہر آنے والا
اپنے ہی ملبہ پر کھڑا ہو کر
اپنا چہرہ تلاش کرتا ہے۔‘‘ (۲۰)
یہ اقتباس نثری نظم معلوم ہوتا ہے۔ جدید افسانہ میں اس طرح کے شعری رویے کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جدید افسانہ میں بعض شعری خصوصیات موجود ہیں اور جدید افسانہ نے شاعری سے قریب ہونے کی کوشش بھی کی ہے۔ توایسے میں ڈاکٹر افصح ظفر کا یہ کہنا کہ ’’آج کا نیا افسانہ شاعری سے قریب نہیں ہے ‘‘ خاصا تعجب خیز معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ہاں اس میں نظم (poem) کی ایک کیفیت شامل رہتی ہے۔ اسے جب ہم بہ غائر دیکھتے ہیں تو یہ خصوصیت نئے افسانے کی نہیں بلکہ یہ مختصر افسانے کی خصوصیت ہے جس میں نئے پرانے کی کوئی تخصیص نہیں۔ تجربے کے لیے آپ کفن، کالو بھنگی، دو فرلانگ لمبی سڑک، کھول دو، بھولا، شکرگزار آنکھیں، قسم کے افسانے پھر پڑھ لیجیے۔‘‘( ۲۱)
افصح ظفر کے اس بیان سے تعجب ہوتا ہے کہ انھیں جدید افسانہ اور روایتی افسانہ کے درمیان فرق، اور جدید افسانہ کی بعض شعری خصوصیات نظر نہیں آتیں۔ در اصل یہ تنقید کا سہل پسندانہ رویہ ہے۔ ور نہ حقیقی بات یہ ہے کہ جدید افسانہ بعض اعتبار سے شاعری سے قریب ہے۔ یہ اور بات ہے کہ شاعری سے قریب ہونا جدید افسانہ کے لیے عیب ہے یاحسن۔ ویسے شاعرانہ وسائل علامت، تشبیہ، تمثیل اور استعارہ وغیرہ کو اس طرح استعمال کرنا کہ وہ افسانے کا ناگزیر حصہ بن کر افسانوی ہیئت میں ظاہر ہو، استحسان کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ جب کہ شاعرانہ نثر کے استعمال کوافسانہ کے لیے بہت بڑا عیب مانا گیا ہے۔ یہ عیب جدید اردو افسانہ میں موجود ہے۔ اس سے قطع نظر، جدید اردو افسانہ میں یہ خوبی نمایاں ہے کہ اس میں شاعرانہ وسائل سے کام لے کراس کے حسن میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جدیدافسانہ کے سلسلہ میں ایک سوال یہ اٹھتا رہا ہے کہ اس کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں ؟ سلیم شہزاد کا خیال ہے کہ ’’ ’’آگ کا دریا‘‘ سے جدید افسانہ کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ ‘‘ (۲۲) ڈاکٹر خورشید سمیع نے بھی ’’آگ کا دریا‘‘ میں جدید افسانہ کی جڑوں کو تلاش کیا ہے۔ (۲۳) بعض لوگوں نے ’’پھندنے ‘‘ کو جدید افسانہ کاسرچشمہ تسلیم کیا ہے۔ جب کہ بعض نے جدید مغربی فنکاروں کے فن کو۔ اس طرح مختلف لوگوں نے مختلف فنکاروں کے فن کو جدید افسانہ کاسرچشمہ تسلیم کیا ہے۔ گویا جدید افسانہ پر قرۃالعین حیدر کے فن کا بھی اثر پڑا ہے، ’’پھندنے ‘‘ کا بھی اور مغربی فنکاروں جیمس جوائس، ورجیناوولف اور سارتر کا بھی۔ کبھی مثبت صورت میں اور کبھی منفی صورت میں۔
جدید افسانہ پر کافکا کے فن کا بھی اثر پڑا ہے۔ یہ اثر نیر مسعود کے خیال میں خوشگوار سے زیادہ ناگوار صورت میں پڑا ہے۔ اس ضمن میں نیرمسعود رقم طراز ہیں :
’’نئے اردو افسانے پر بھی براہ راست یا بالواسطہ کافکا کا اثر پڑا ہے، لیکن عموماً یہ اثر خوش گوار سے زیادہ ناگوار صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ کافکا کی تحریروں کا اصل مفہوم، مقصد، پیغام جو بھی کہ لیجیے، کتنا ہی مشکل، مبہم، پیچیدہ کیوں نہ ہو، اس کا بیانیہ نہایت واضح و روشن، مربوط اور جزئیات کے انتخاب میں اس کی حیرت خیز چابکدستی کا ثبوت ہے۔‘‘ (۲۴)
کافکا کے برعکس بیشتر جدید افسانہ نگاروں کا بیانیہ غیر مربوط، شکستہ اور غیر واضح ہے۔ البتہ بعض جدید افسانہ نگاروں نے کافکا کا صحیح اثر قبول کیا ہے اور عمدہ افسانے تخلیق کیے ہیں۔ ایسے افسانہ نگاروں کے متعلق نیر مسعود کی رائے ہے :
’’جن نئے افسانہ نگاروں نے کافکا کی طرح اپنے بیانیہ کو روشن رکھا ہے اور ان کے یہاں ایک ایسی معنویت کا احساس ہوتا ہے جس تک قاری ہمدردی کے ساتھ پہنچنا چاہے، انھیں کافکا سے صحیح طور پر متاثر کہا جا سکتا ہے۔‘‘ (۲۵)
مذکورہ تفصیلات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جدید افسانہ نگاروں نے مختلف فنکاروں اور مختلف رجحانات کا اثر قبول کیا ہے۔ اس اثر کو قبول کرنے میں کچھ افسانہ نگار کامیاب رہے ہیں اور کچھ ناکام۔ اسی لیے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جدیدیت کے رجحان کے زیر اثر کامیاب و ناکام دونوں طرح کے تجربے ہوئے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ جدیدیت کے زیر اثرافسانہ سے کہانی پن کا عنصر مفقود ہو رہا تھا اور کچھ ناقابل فہم بلکہ مہمل قسم کے افسانے لکھے جا رہے تھے۔ ایسے افسانوں سے قطع نظر، جدیدیت کے زیر اثر بھی عمدہ اور شاہکار افسانے تخلیق کیے گئے، جو جدید افسانہ کی آبرو ہونے کے ساتھ ساتھ افسانوی روایت میں خوشگوار اضافہ ہیں۔
جدید افسانہ پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم پہلو پر توجہ ڈالنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جدید افسانہ سے عام قارئین سے لے کر ناقدین تک، سخت برہم کیوں ہوئے یاجدیدافسانہ خاصا بدنام کیوں ہوا؟ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ۱۹۶۰ء کے آس پاس جب جدید افسانہ کا باضابطہ آغاز ہوا اور جدید افسانہ نگاروں نے روایتی افسانہ کے مروجہ اصول کو توڑا اور بغیر پلاٹ کے افسانے لکھنے شروع کیے تو بعض نو مشق اور نا پختہ ذہن لوگوں نے یہ سمجھا کہ بغیر پلاٹ کی کہانیاں لکھنا آسان ہے۔ یہ سمجھ کر ایسے لوگوں نے جلد از جلد ادبی شہرت پانے کی خاطر علامت واستعارہ اور تمثیل و تجرید کے نام پر اناپ شناپ اور بے تکی تحریروں کا انبار لگا دیا۔ اس ضمن میں شہزاد منظر کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’جدید افسانہ نگاروں کی جانب سے افسانہ نگاری کے مروجہ ڈھانچے اور اصولوں کو توڑ دینے کے باعث افسانے کی دنیا میں نراج کی سی کیفیت پیدا ہو گئی جس نے کلاسیکی طرز کے بیانیہ افسانے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ افسانے کا کوئی فنی اصول اور معیار قائم نہ رہنے کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار افسانہ نگار پیدا ہو گئے جو افسانے کے فن سے قطعی نابلد تھے اور جنھوں نے علامتی اور تجریدی اسلوب کو محض اس لیے اختیار کر لیا کہ ان کے خیال میں علامتی اور تجریدی افسانہ لکھنا کلاسیکی افسانے لکھنے کی نسبت آسان تھا۔‘‘(۲۶)
شاید ایسے ہی افسانہ نگاروں کی وجہ سے جدید افسانہ پر سخت اعتراضات وارد ہوئے۔ چند اعتراضات ملاحظہ فرمائیں۔ عتیق اللہ جدید افسانہ پر اعتراض کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’اردو افسانہ۔۔۔۔اب پھر اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ یہ ہماری اور ہمارے ادب کی بہت بڑی ٹریجڈی ہے، بازار میں افسانہ نما چیزوں کی بھرمار ہے۔ کسی افسانہ میں انشائیہ در انداز ہے تو کسی میں فلسفے کی گوٹ لگی ہے۔ کسی کے دائیں سے شاعری گھس پیٹھ کر رہی ہے تو کسی کو داستان کا بخار چڑھ رہا ہے۔ سب کچھ مل جاتا ہے مگر نہیں ملتا توافسانہ۔ افسانہ تشہیر بازوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ میرے مطمح نظر وہ لکھنے والے ہیں جو لکھتے کم ہیں اور ہلڑ زیادہ مچاتے ہیں۔‘‘ (۲۷)
وارث علوی یوں معترض ہیں :
’’مجھے جدید افسانہ پسند نہیں ہے۔ نہایت اوسط درجے کے لکھنے والے پیدا ہوئے ہیں۔ اکثر تو بالکل فراڈ ہیں یعنی اگر وہ رسمیہ افسانے لکھتے تو ’’بیسویں صدی‘‘ میں بھی مشکل سے جگہ پاتے۔ تجرباتی اسلوب ان کے لیے اپنی میڈیوکریٹی mediocrity چھپانے کا نقاب بن گیا ہے۔‘‘ (۲۸)
وحید اختر رقمطراز ہیں :
’’ہمارے یہاں آج کل جو کہانیاں لکھی جا رہی ہیں ان میں سے اکثریت ایسی ہے جنھیں چند سطروں کے بعد پڑھنا بھی محال ہوتا ہے۔‘‘ (۲۹)
حامدی کاشمیری کا کہنا ہے :
’’جدیدیت کو فیشن کے طور پر برتنے والے بعض لوگوں نے شاعری کو معمائی اور افسانے کو چیستان بنانے کی سعی کی۔‘‘(۳۰)
گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
’’اگر نئی کہانی، کہانی نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے ؟ بعض حضرات تو اس کا کوئی دوسرا اچھاسانام ڈھونڈتے پھرتے ہیں کیوں کہ ایسی نا پخت تحریروں کو نہ کہانی کہا جا سکتا ہے نہ انشائیہ،۔۔۔۔ در اصل تقلید کے جوش میں یاروں نے بستیاں بہت دور بسا لی ہیں اور کہانی کے بنیادی تقاضوں ہی کو فراموش کر دیا ہے۔‘‘ (۳۱)
جمیل جالبی یوں رقمطراز ہیں :
’’یوں معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادیبوں کے سامنے فکرو ادب کا کوئی سنجیدہ مسئلہ باقی نہیں رہا ہے۔ ادیب کو آج یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس کے لیے لکھ رہا ہے اور کیا لکھ رہا ہے۔‘‘ (۳۲)
قمر احسن بھی جدیدافسانہ پہ معترض ہیں۔ انھیں نئے افسانے میں ایسی ’’ سطحیت‘‘ اور ’’گھٹیا پن‘‘ نظر آتا ہے جسے دیکھ کر انھیں ’’گھن‘‘ آتی ہے۔ (۳۳) قاضی عبدالستار نے نئے افسانہ نگاروں کو ’’شہرت پہ شب خون مارنے والا‘‘ قرار دیا ہے۔ (۳۴)
مذکورہ اعتراضات سے جدید افسانہ کی غلط شبیہ اور کریہہ تصویرسامنے آتی ہے۔ اس کے لیے ذمہ دار نا پختہ ذہن افسانہ نگاروں کو مانا جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے جدید افسانہ خاصا بدنام ہوا۔ اس بدنامی سے یہ تصور نہ کر لیا جائے کہ جدیدیت کے عہد میں اچھے افسانے بالکل نہیں لکھے گئے۔ اس عہد میں بھی بہت سے اچھے اور شاہکار افسانے لکھے گئے۔
در اصل جدیدافسانہ کو مشکوک نظروں سے دیکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض established افسانہ نگار انور سجاد، بلراج مین را، سریندرپرکاش، رشید امجد اور احمد ہمیش وغیرہ نے جدت پسندی کے جوش میں ماضی کی صحت مند روایات کو بھی در خور اعتناء نہیں سمجھا۔ شاید اسی لیے ڈاکٹر سید مدبر علی زیدی نے لکھا ہے کہ:
’’انورسجاد، احمد ہمیش اور بلراج مین را نے افسانے کی روایت سے جس مکمل انحراف کو اپنایا ہے اسے ایک ناکامیاب تجربہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ادبی رویے سماجی رویے سے جنم لیتے ہیں نہ کہ اس کے برعکس۔‘‘(۳۵)
مذکورہ افسانہ نگاروں نے اردوافسانے کی صحت مند روایات کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ بعض ایسے نئے تجربات کر ڈالے جو غیر دلچسپ تھے اور افسانہ کے لیے زیب نہیں دیتے تھے۔ بقول سیدہ جعفر:
’’مغرب زدہ ذہنیت اور کچھ جدت پسندی کے شوق نے افسانے کو ایسے نئے تجربات سے بھی روشناس کیا ہے جو نہ تو دلچسپ ہیں اور نہ کسی تخلیقی حسیت کے امین ہیں اور نہ اس کا وجود ادب کے لیے ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (۳۶)
ایسے نامانوس اور غیر دلچسپ تجربات کرنے کی وجہ سے انورسجاد، میں را، سریندر پرکاش اور احمد ہمیش جیسے افسانہ نگاروں پر بھی اعتراضات وارد ہوئے۔ چند اعتراضات ذیل میں درج ہیں۔ غلام الثقلین نقوی اپنے مقالہ ’’تجریدی افسانہ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’انورسجاد، بلراج مین را، سریندرپرکاش، رشید امجد، شمس نعمانی اور دوسرے بہت سے افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھ کر مجھے کسی ڈائجسٹ کی خواہش شدت سے محسوس ہوتی ہے تاکہ جو کچھ پڑھا ہے، وہ ہضم ہو سکے۔‘‘(۳۷)
ناصر بغدادی لکھتے ہیں :
’’ان کی تحریریں مواد، ہیئت، تکنیک اور زبان کے حوالہ سے اس درجہ دبیز ابہام اور تجریدی ژولیدگی کی حامل ہیں کہ قاری کا تفہیمی مسئلہ نقادوں کی تشریحی و توضیحی کوششوں کے با وصف حل نہیں ہوتا۔‘‘ (۳۸)
سلام بن رزاق کا خیال ہے کہ نام نہاد آفاقیت کے چکر میں جدید افسانہ اپنی زمین، اپنا گھر اور اپنی مٹی کی خوشبو سے محروم ہو گیا۔ معاشرہ کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے افسانہ کا رشتہ معاشرہ سے کٹ گیا۔ افسانہ کی readability ماند پڑ گئی۔ (۳۹)
ان اعتراضات کے نقل کرنے کا مقصد محض یہ دکھانا ہے کہ جدید افسانہ سے اس کے ناقابل فہم اور نامانوس ہونے کی قارئین کی شکایت کس حد تک درست ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ناقدین افسانہ اور خود افسانہ نگاروں کو بعض جدید افسانوں اورافسانہ نگاروں سے شکایت ہے تو قارئین کی شکایت بھی بجا ہے۔
جدیدافسانہ کے خاطر خواہ مطالعہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جدیدیت کے زیر اثر افسانہ کو فائدہ اور نقصان دونوں پہنچا۔ فائدہ یہ پہنچا کہ بعض جدید افسانہ نگاروں نے اپنی بہترین نگارشات سے افسانہ کی فنی و تخلیقی حیثیت بلند کی اور علامتی واستعاراتی اسلوب کے ذریعہ افسانہ میں معنوی تہ داری پیدا کی۔
جدیدیت کے زیر اثر اردو افسانہ کو نقصان یہ پہنچا کہ بعض جدید افسانہ نگاروں نے روایت سے انحراف اور نئے نئے تجربات کرنے کے معاملہ میں انتہاپسندی سے کام لیا۔ نامانوس علامتی واستعاراتی طرز اظہار اپنایا۔ افسانہ سے کہانی پن کو غائب کر دیا اور افسانہ کو ثقیل اور ژولیدہ بیانی کا حامل بنا دیا۔ ایسے افسانوں میں ’’تلقارمس‘‘، ’’جپی ژان‘‘، ’’سرنگ‘‘، ازسریندرپرکاش، ’’کھوپڑی‘‘، ’’ٹھنڈی سرنگ‘‘، ’’کولمبس اور کلیشے ‘‘، از انور عظیم، ’’عکس فنا‘‘، ’’رخش پا‘‘، اکرام باگ، ’’کالی بلی‘‘، از دیوندر اسر، ’’ڈاچی والیا‘‘، از کمار پاشی، ’’تین گھروں کی آبادی‘‘، از احمد یوسف، جیسے افسانے قابل ذکر ہیں۔
ان افسانوں میں نئے تجربوں کے شوق میں اہمال اور کہانی پن کا انہدام، جیسے منفی عناصر در آئے ہیں۔ ان افسانوں کو افسانوں کے بجائے محض تجربہ برائے تجربہ کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے افسانوں سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ جدیدیت کے زیر اثر ناکام افسانے ہی لکھے گئے، بلکہ ایسے افسانوں کے پہلو بہ پہلو بہت سے شاہکار اور عمدہ افسانے لکھے گئے۔ آئندہ سطورمیں ایسے ہی چندافسانوں کے نام لیے جاتے ہیں۔ مثلاً ’’بے زمینی‘‘، ’’گبرولا‘‘، از احمد ہمیش، ’’ڈوبتی پہچان‘‘، ’’سناٹا بولتا ہے ‘‘، از رشید امجد، ’’تنہا تنہا‘‘، از عوض سعید، ’’آخری آدمی‘‘، ’’زرد کتا‘‘، از انتظار حسین، ’’باہر کفن سے پاؤں ‘‘، از عرش صدیقی، ’’دل ڈوبنے کا منظر‘‘، از ناصر بغدادی، ’’سواری‘‘، ’’ہزار پایہ‘‘، از خالدہ حسین، ’’روشنی کی ضمانت‘‘، ’’کس کی کہانی‘‘، از کلام حیدری، ’’لمحے کی موت‘‘، ’’سرگوشی‘‘، از غلام الثقلین نقوی، ’’بجوکا‘‘، ’’رونے کی آواز‘‘، از سریندرپرکاش، ’’کونپل‘‘، ’’پرندے کی کہانی‘‘، از انور سجاد، ’’وہ‘‘، بلراج مین را، ’’خانے اور تہ خانے ‘‘، پیاسی چڑیا‘‘، از غیاث احمد گدی، ’’بھیڑیں ‘‘، ’’جن کے سروں پہ نیلا آسمان ہے ‘‘، از انور خان، ’’کمین گاہ‘‘، ’’ڈوبتا ابھرتاساحل‘‘، از شفق، ’’رامائن‘‘، ’’بازیافت‘‘، از جوگندر پال، ’’درد کا کوئی ساحل نہیں ‘‘، ’’اونگھتی ڈیوڑھی‘‘، از انور عظیم، ’’نچا ہوا البم‘‘، ’’آگہی کے ویرانے ‘‘، از اقبال متین، ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘، ’’مفاہمت‘‘، از اقبال مجید، ’’چورا ہے پر ٹنگا آدمی‘‘، از انور قمر، ’’چاپ‘‘، ’’اکھڑے ہوئے لوگ‘‘، از رام لعل، ’’مالکن‘‘، ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘، از قاضی عبدالستار، ’’سوا نیزے پر سورج‘‘، ’’سب سے چھوٹا غم‘‘، از عابد سہیل، ’’سوکھی ٹہنیوں میں اٹکا ہوا سورج‘‘، ’’ہزاروں سال لمبی رات‘‘، از رتن سنگھ، ’’جانی انجانی راہوں کے مسافر‘‘، ’’ٹھہر جانے والا منظر‘‘، از عبدالصمد، ’’آتم کتھا‘‘، از حسین الحق، ’’طلسمات‘‘، ’’صائمہ صائمہ‘‘، از قمر احسن، ’’ایک ہاتھ کا آدمی‘‘، از انجم عثمانی، ’’کہانی در کہانی‘‘، از حمید سہروردی، ’’ندی‘‘، ’’جلاوطن‘‘، از عبداللہ حسین، ’’شہر ملازمت‘‘، از مظہر الزماں خاں، ’’کنواں ‘‘، از بلراج کومل، ’’صد سطری حکم نامہ‘‘، ’’پہلے آسماں کا زوال‘‘، از کمار پاشی، ’’پرایا گھر‘‘، از جیلانی بانو، ’’خشک سمندر کی مچھلیاں ‘‘، از رضوان احمد، ’’اتھلے جل کی مچھلی‘‘، ’’بڑھتے فاصلوں کے درمیان‘‘، از علی حیدر ملک، ’’کٹا ہوا درخت‘‘، از شرون کمار ورما، ’’بابے نور محمد کا آخری کبت‘‘، از مرزا حامد بیگ۔ مذکورہ افسانوں کے علاوہ اور بھی بہت سے شاہکار افسانے جدیدیت کے زیر اثر لکھے گئے۔
ان افسانوں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کے زیر اثر صرف ثقیل و مہمل قسم کے افسانے ہی نہیں لکھے گئے، بلکہ بہت سے کامیاب افسانے بھی لکھے گئے۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کے زیر اثر کوئی منٹو، بیدی جیسا افسانہ نگار پیدا نہیں ہوا، البتہ انتظار حسین ضرور ایک عہدساز فنکار کی شکل میں سامنے آئے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کے زیر اثر اردو افسانہ، ترقی پسند افسانہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ ان تمام با توں کے باوجود جدید افسانہ نگاروں کی ادبی اہمیت سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جدید افسانہ نگاروں کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے ہیئت و تکنیک کی سطح پر نئے تجربات کر کے اور نئے موضوعات واسالیب و انداز بیان اختیار کر کے افسانوی فن میں جدت و ندرت اور تازگی کا احساس دلایا اور تخلیقی زرخیزی کا ثبوت دیا اور اپنے بہترین فن پاروں سے اردو کی افسانوی روایت میں خوشگوار اضافہ کیا۔ اس لیے جدید افسانہ نگاروں کے بعض منفی تجربوں سے قطع نظر، ان کی ادبی اہمیت کا اعتراف کیا جانا ضروری ہے۔
٭٭
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں