FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

صلح حدیبیہ

آیۃ اللہ مکارم شیرازی

مرتبہ

اعجاز عبید

 

صلح حدیبیہ کی کیفیت

 

چھٹی ہجری کے ماہ ذی قعدہ میں پیغمبر اکرم  عمرہ کے قصد سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کو رسول اکرم کے خواب کی اطلاع مل چکی تھی کہ رسول اکرمؐ نے اپنے تمام اصحاب کے ساتھ مسجد الحرام میں وارد ہونے کو خواب میں دیکھا ہے، اور  تمام مسلمانوں کو اس سفر میں شرکت کا شوق دلایا، اگر چہ ایک گروہ کنارہ کش ہو گیا، مگر مہاجرین و انصار اور بادیہ نشین اعراب کی ایک کثیر جماعت آپ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہو گئی۔

یہ جمعیت جو تقریباً یک ہزار چار سو افراد پر مشتمل تھی، سب کے سب نے لباس احرام پہنا ہوا تھا، اور تلوار کے علاوہ جو مسافروں کا اسلحہ شمار ہو تی تھی، کوئی جنگی ہتھیار ساتھ نہ لیا تھا۔

جب مسلمان ’’ذی  الحلیفہ‘‘ مدینہ کے نزدیک پہونچے، اور بہت سے اونٹوں کو قربانی کے لئے لے لیا۔

پیغمبر (اور آپؐ کے اصحاب کا) طرز عمل بتا رہا تھا کہ عبادت کے علاوہ کوئی دوسرا قصد نہیں تھا۔ جب پیغمبرؐ مکہ کے نزدیکی مقام آپؐ کو اطلاع ملی کہ قریش نے یہ پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپؐ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے، یہاں تک کہ پیغمبرؐ مقام ’’حدیبیہ‘‘ میں پہنچ گئے (حدیبیہ مکہ سے بیس کلو مٹر کے فاصلہ پر ایک بستی ہے، جو ایک کنویں یا درخت کی مناسبت سے اس نام سے موسوم تھی)۔ حضرت نے فرمایا: کہ تم سب اسی جگہ پر رک جاؤ، لوگوں نے عرض کی کہ یہاں تو کوئی پانی نہیں ہے۔ پیغمبرؐ نے معجزانہ طور پر اس کنویں سے جو وہاں تھا، اپنے اصحاب کے لئے پانی فراہم کیا۔

اسی مقام پر قریش اور پیغمبرؐ کے درمیان سفراء آتے جاتے رہے تاکہ کسی طرح سے مشکل حل ہو جائے،  آخر کار عروہ ابن مسعود ثقفی جو ایک ہوشیار آدمی تھا، قریش کی طرف سے پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پیغمبرؐ  نے فرمایا میں جنگ کے ارادے سے نہیں آیا اور میرا مقصد صرف خانۂ  خدا کی زیارت ہے۔ ضمناً عروہ نے اس ملاقات میں پیغمبرؐ کے وضو کرنے کا منظر بھی دیکھا، کہ صحابہ آپ کے وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے، جب وہ واپس لوٹا تو اس نے قریش سے کہا :میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا ہوں۔ میں نے کسی سربراہ مملکت کو اس کی قوم کے درمیان اتنا با عظمت نہیں دیکھا، جتنا محمد کی عظمت کو ان کے اصحاب کے درمیان دیکھا ہے۔ اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ محمد کو چھوڑ جائیں گے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی، دیکھ لو تمھارا مقابلہ ایسے ایثار کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ تمھارے لئے غور و فکر کا مقام ہے۔

 

بیعت رضوان

اسی دوران پیغمبرؐ نے عمرؓ سے فرمایا: کہ وہ مکہ جائیں،  اور  اشراف قریش کو اس سفر کے مقصد سے آگاہ کریں، عمر ؓنے کہا قریش مجھ سے شدید دشمنی رکھتے ہیں، لہٰذا مجھے ان سے خطرہ ہے،  بہتر یہ ہے کہ عثمانؓ کو اس کام کے لئے بھیجا جائے، عثمانؓ مکہ کی طرف آئے، تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ پھیل گئی کہ ان کو قتل کر دیا ہے۔ اس موقع پر پیغمبرؐ نے شدت عمل کا ارادہ کیا اور ایک درخت کے نیچے جو وہاں پر موجود تھا، اپنے اصحاب سے بیعت لی جو ’’بیعت رضوان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی، اور ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا کہ آخری سانس تک ڈٹیں گے، لیکن تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ عثمانؓ صحیح و سالم واپس لوٹ آئے اور ان کے پیچھے پیچھے قریش نے  ’’سہیل بن عمر‘‘ کو مصالحت کے لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں بھیجا، لیکن تاکید کی کہ اس سال کسی طرح بھی آپؐ کا مکہ میں ورود ممکن نہیں ہے۔

بہت زیادہ بحث و گفتگو کے بعد صلح کا عہد و پیمان ہوا، جس کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رہیں اور  آئندہ سال مکہ میں آئیں، اس شرط کے ساتھ کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ رہیں، اور مسافرت کے عام ہتھیار کے علاوہ اور کوئی اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائیں۔ اور متعدد مواد جن کا دار و مدار ان مسلمانوں کی جان و مال کی امنیت پر تھا، جو مدینہ سے مکہ میں وارد ہوں، اور اسی طرح مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان دس سال جنگ نہ کرنے اور مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے مذہبی فرائض کی انجام دہی بھی شامل کی گئی تھی۔

یہ پیمان حقیقت میں ہر جہت سے ایک عدم تعرض کا عہد و پیمان تھا، جس نے مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان مسلسل اور بار با رکی جنگوں کو وقتی طور پر ختم کر دیا۔

 

صلح نامہ کی تحریر

صلح کے عہدو پیمان کا متن اس طرح تھا کہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے علیؓ کو حکم دیا کہ لکھو: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘: سہیل بن عمر نے، جو مشرکین کا نمائندہ تھا، کہا :میں اس قسم کے جملہ سے آشنا نہیں ہو ں، لہٰذا ’’بسمک اللھم‘‘ لکھو۔ پیغمبرؐ نے فرمایا لکھو : ’’بسمک اللھم‘‘

اس کے بعد فرمایا: لکھو یہ وہ چیز ہے جس پر محمد رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے سہیل بن عمرو سے مصالحت کی،  سہیل نے کہا : ہم اگر آپ کو رسول اللہ سمجھتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے، صرف اپنا اور اپنے والد کا نام لکھئے، پیغمبرؐ نے فرمایا کو ئی حرج نہیں لکھو : ’’یہ وہ چیز ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے سہیل بن عمرو سے صلح کی، کہ دس سال تک دو نو ں طرف سے جنگ مترو ک رہے گی تاکہ لو گوں کو امن و امان کی صورت دوبارہ میسر آئے۔

علاوہ از ایں جو شخص قریش میں سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد کے پاس آئے (اور مسلمان ہو جائے) اسے واپس کر دیں اور جو شخص ان افراد میں سے جو محمد کے پاس ہیں، قریش کی طرف پلٹ جائے تو ان کو واپس لوٹانا ضروری نہیں ہے۔

تمام لوگ آزاد ہیں جو چاہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے عہد و پیمان میں داخل ہو اور جو چاہے قریش کے عہد و پیمان میں داخل ہو، طرفین اس بات کے پابند ہیں کہ ایک دوسرے سے خیانت نہ کریں، اور ایک دوسرے کی جان و مال کو محترم شمار کریں۔

اس کے علاوہ محمد اس سال واپس چلے جائیں اور مکہ میں داخل نہ ہوں، لیکن آئندہ سال ہم تین دن کے لئے مکہ سے باہر چلے جائیں گے اور ان کے اصحاب آ جائیں، لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں،  (اور مراسم عمرہ کے انجام دے کر واپس چلے جائیں) اس شرط کے ساتھ کہ سوائے مسافر کے ہتھیار یعنی تلوار کے، وہ بھی غلاف میں کو ئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں۔

اس پیمان پر مسلمانوں اور مشرکین کے ایک گروہ نے گواہی دی اور اس عہد نامہ کے کاتب علیؓ ابن ابی طالب تھے۔

مرحوم علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار میں کچھ اور امور بھی نقل کئے ہیں، منجملہ ان کے یہ کہ:

’’اسلام مکہ میں آشکارا ہو گا اور کسی کو کسی مذہب کے انتخاب کرنے پر مجبور نہیں کریں گے، اور مسلمان کو اذیت و آزار نہیں پہنچائیں گے‘‘۔

اس موقع پر پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ قربانی کے وہ اونٹ جو وہ اپنے ہمراہ لائے تھے، اسی جگہ قربان کر دیں اور اپنے سروں کو منڈوائیں اور احرام سے باہر نکل آئیں، لیکن یہ بات کچھ مسلمانوں کو سخت ناگوار معلوم ہوئی، کیونکہ عمرہ کے مناسک کی انجام دہی کے بغیر ان کی نظر میں احرام سے باہر نکل آنا ممکن نہیں تھا، لیکن پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ذاتی طور پر خود پیش قدمی کی اور قربانی کے اونٹوں کو نحر کیا اور احرام سے باہر نکل آئے اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ یہ احرام اور قربانی کے قانون میں استثناء ہے جو خدا کی طرف سے قرار دیا گیا ہے۔

مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو سر تسلیم خم کر دیا، اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا حکم کامل طور سے مان لیا، اور وہیں سے مدینہ کی راہ لی، لیکن غم و اندوہ کا ایک پہاڑ ان کے دلوں پر بوجھ ڈال رہا تھا، کیونکہ ظاہر میں یہ سارے کا سارا سفر ایک نا کامی اور شکست تھی، لیکن اسی وقت سورۂ  فتح نازل ہوئی اور پیغمبر گرامی اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو فتح کی بشارت ملی۔

 

صلح حدیبیہ کے سیاسی، اجتماعی اور مذہبی نتائج

ہجرت کے چھٹے سال (صلح حدیبیہ کے وقت) مسلمانوں کی حالت میں اور دو سال بعد کی حالت میں فرق نمایاں تھا، جب وہ دس ہزار کے لشکر کے ساتھ فتح مکہ کے لئے چلے تاکہ مشرکین کو پیمان شکنی کا دندان شکن جواب دیا جائے، چنانچہ انھوں نے فوجوں کو معمولی سی جھڑپ کے بغیر ہی مکہ کو فتح کر لیا، اس وقت قریش اپنے اندر مقابلہ کرنے کی معمولی سی قدرت بھی نہیں رکھتے تھے۔ ایک اجمالی موازنہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ’’صلح حدیبیہ‘‘ کا عکس العمل کس قدر وسیع تھا۔

خلاصہ کے طور پر مسلمانوں نے ا س صلح سے چند امتیاز اور اہم کامیابیاں حاصل کیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

۱) عملی طور پر مکہ کہ فریب خوردہ لوگوں کو یہ بتا دیا کہ وہ جنگ و جدال کا ارادہ نہیں رکھتے، اور مکہ کے مقدس شہر اور خانۂ  خدا کے لئے بہت زیادہ احترام کے قائل ہیں، یہی بات ایک کثیر جماعت کے دلوں کے لئے اسلام کی طرف کشش کا سبب بن گئی۔

۲) قریش نے پھلی مرتبہ اسلام اور مسلمانوں کی رسموں کو تسلیم کیا، یہی وہ چیز تھی جو جزیرة العرب میں مسلمانوں کی حیثیت کو ثابت کرنے کی دلیل بنی۔

۳) صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان سکون و  اطمینان سے ہر جگہ آ جا سکتے تھے اور انکا جان و مال محفوظ ہو گیا تھا، اور عملی طور پر مشرکین کے ساتھ قریبی تعلق اور میل جول پیدا ہوا، ایسے تعلقات جس کے نتیجہ میں مشرکین کو اسلام کی زیادہ سے زیادہ پہچان کے ساتھ ان کی توجہ اسلام کی طرف مائل ہو ئی۔

۴) صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے سارے جزیرة العرب میں راستہ کھل گیا، اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی صلح طلبی کی شرط نے مختلف اقوام کو، جو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی ذات اور اسلام کے متعلق غلط نظریہ رکھتے تھے، تجدید نظر پر آمادہ کیا، اور تبلیغاتی نقطۂ  نظر سے بہت سے وسیع امکانات و وسائل مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔

۵) صلح حدیبیہ نے خیبر کو فتح کرنے اور یہودیوں کے اس سرطانی غدہ کو نکال پھینکنے کے لئے، جو بالفعل اور بالقوہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک اہم خطرہ تھا، راستہ ہموار کر دیا۔

۶) اصولی طور پر پیغمبر کی ایک ہزار چار سو افراد کی فوج سے ٹکر لینے سے قریش کی وحشت جن کے پاس کسی قسم کے اہم جنگی ہتھیار بھی نہیں تھے، اور شرائط صلح کو قبول کر لینا اسلام کے طرفداروں کے دلوں کی تقویت، اور مخالفین کی شکست کے لئے، جنہوں نے مسلمانوں کو ستایا تھا خود ایک اہم عامل تھا۔

۷) واقعہ حدیبیہ کے بعد پیغمبر نے بڑے بڑے ملکو ں، ایران و روم و حبشہ کے سربراہوں، اور دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کو متعدد خطوط لکھے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی اور یہ چیز اچھی طرح سے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ صلح حدیبیہ نے مسلمانوں میں کس قدر خود اعتمادی پیدا کر دی تھی، کہ نہ صرف جزیرہ عرب میں بلکہ اس زمانہ کی بڑی دنیا میں ان کی راہ کو کھول دیا۔

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس سے یہ بخوبی معلوم کیا جا سکتا ہے، کہ واقعتاً صلح حدیبیہ مسلمانوں کے لئے ایک عظیم فتح اور کامیابی تھی، اور تعجب کی بات نہیں ہے کہ قرآن مجید اسے فتح مبین کے عنوان سے یاد کرتا ہے :

 

صلح حدیبیہ یا عظیم الشان فتح

جس وقت پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  حدیبیہ سے واپس لوٹے (اور سورۂ  فتح نازل ہوئی) تو ایک صحابی نے عرض کیا :’’یہ کیا فتح ہے کہ ہمیں خانۂ  خدا کی زیارت سے بھی رو ک دیا ہے اور ہماری قربانی میں بھی رکاوٹ ڈال دی‘‘؟!

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: ’’تو نے بہت بری بات کہی ہے، بلکہ یہ تو ہماری عظیم ترین فتح ہے کہ مشرکین اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ تمھیں خشونت آمیز طریقہ سے ٹکر لئے بغیر اپنی سرزمین سے دور کریں،  اور تمھارے سامنے صلح کی پیش کش کریں اور ان تمام تکالیف اور رنج و غم کے باوجود جو تمھاری طرف سے انھوں نے اٹھائے ہیں، ترک تعرض کے لئے تمھاری طرف مائل ہوئے ہیں۔‘‘

اس کے بعد پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے وہ تکالیف جو انھوں نے بدر و احزاب میں جھیلی تھیں انہیں یاد دلائیں،  تو مسلمانوں نے تصدیق کی کہ یہ سب سے بڑی فتح تھی اور انھوں نے لا علمی کی بناء پر یہ فیصلہ کیا تھا۔

’’زہری‘‘ جو ایک مشہور تابعی ہے، کہتا ہے: کوئی بھی فتح صلح حدیبیہ سے زیادہ عظیم نہیں تھی، کیونکہ مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ ارتباط اور تعلق پیدا کیا اور اسلام ان کے دلوں میں جاں گزیں ہوا، اور تین ہی سال کے عرصہ میں ایک عظیم گروہ اسلام لے آیا اور مسلمانوں میں ان کی وجہ سے اضافہ ہوا‘‘۔

 

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا سچا خواب

جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مدینہ میں ایک خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے مناسک ادا کرنے کے لئے مکہ میں داخل ہو رہے ہیں اور اس خواب کو صحابہ کے سامنے بیان کر دیا،  وہ سب کے سب شاد و خوش حال ہوئے لیکن چونکہ ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ اس خواب کی تعبیر اسی سال پوری ہو گی، تو جس وقت قریش نے مکہ میں ان کے دخیل ہونے کا راستہ حدیبیہ میں ان کے آگے بند کر دیا تو وہ شک و تردید میں مبتلا ہو گئے، کہ کیا پیغمبر  کا خواب غلط بھی ہو سکتا ہے، کیا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم خانۂ  خدا کی زیارت سے مشرف ہوں؟ پس اس وعدہ کا کیا ہوا؟ اور وہ رحمانی خواب کہاں چلا گیا؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: کیا میں نے تمھیں یہ کہا تھا کہ یہ خواب اسی سال پورا ہو گا؟  اسی بارے میں مدینہ کی طرف بازگشت کی راہ میں وحی الٰہی نازل ہوئی اور تاکید کی کہ یہ خواب سچا تھا اور ایسا مسئلہ حتمی و قطعی اور انجام پانے والا ہے۔

ارشاد خداوند عالم ہوتا ہے: ’’خدا نے اپنے پیغمبر کو جو کچھ دکھلایا تھا وہ سچ اور حق تھا‘‘۔ [1]

اس کے بعد مزید کہتا ہے: ’’انشاء اللہ تم سب کے سب قطعی طور پر انتہائی امن و امان کے ساتھ اس حالت میں کہ تم اپنے سروں کو منڈوائے ہوئے ہوں گے، یا اپنے ناخنوں کو کٹوائے ہوئے ہوں گے مسجد الحرام میں داخل ہوں گے اور کسی شخص سے تمھیں کوئی خوف و وحشت نہ ہو گی‘‘۔ [2]

 

مومنین کے دلوں پر نزول سکینہ

یہاں گذشتہ میں جو کچھ بیا ن ہوا ہے، وہ اتنی عظیم نعمتیں تھیں جو خدا نے فتح مبین و (صلح حدیبیہ) کے سائے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو عطا فرمائی تھیں لیکن یہاں پراس عظیم نعمت کے بارے میں بحث کی جا رہی ہے جو اس نے تمام مومنین کو مرحمت فرمائی ہے،  فرماتا ہے : وہی تو ہے،  جس نے مومنین کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل کیا، تاکہ ان کے ایمان میں مزید ایمان کا اضافہ کر‘‘

اور سکون و اطمینان ان کے دلوں پر نازل کیوں نہ ہو ’’در آنحالیکہ آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا کے لئے ہیں اور وہ دانا و حکیم ہے‘‘[3]

 

یہ سکینہ کیا تھا؟

ضروری ہے کہ ہم پھر ’’صلح حدیبیہ‘‘ کی داستان کی طرف لوٹیں اور اپنے آپ کو ’’صلح حدیبیہ‘‘ کی فضا میں اور اس فضاء میں جو صلح کے بعد پیدا ہوئی،  تصور کریں تاکہ آیت کے مفہوم کی گھرائی سے آشنا ہو سکیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ایک خواب دیکھا تھا (ایک رویائے الٰہی  و رحمانی) کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل ہو رہے ہیں اور اس کے بعد خانۂ خدا کی زیارت کے عزم کے ساتھ چل پڑے زیادہ تر صحابہ یہی خیال کرتے تھے کہ اس خواب اور رویائے صالحہ کی تعبیر اسی سفر میں واقع ہو گی، حالانکہ مقدر میں ایک دوسری چیز تھی یہ ایک بات۔

دوسری طرف مسلمانوں نے احرام باندھا ہوا تھا، لیکن ان کی توقع کے بر خلاف خانۂ  خدا کی زیارت کی سعادت تک نصیب نہ ہوئی اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دے دیا کہ مقام حدیبیہ میں ہی قربانی کے اونٹوں کو نحر کر دیں، کیونکہ ان کے آداب و سنن کا بھی اور اسلامی احکام و دستور کا بھی یہی تقاضا تھا کہ جب تک مناسک عمرہ کو انجام نہ دے لیں احرام سے باہر نہ نکلیں۔

تیسری طرف حدیبیہ کے صلح نامہ میں کچھ ایسے امور تھے جن کے مطالب کو قبول کرنا بہت ہی دشوار تھا، منجملہ ان کے یہ کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو جائے اور مدینہ میں پناہ لے لے تو مسلمان اسے اس کے گھر والوں کے سپرد کر دیں گے، لیکن اس کے برعکس لازم نہیں تھا۔

چوتھی طرف صلح نامہ کی تحریر کے موقع پر قریش اس بات پر تیار نہ ہوئے کہ لفظ ’’رسول اللہ‘‘ ’’محمد‘‘  کے نام کے ساتھ لکھا جائے، اور قریش کے نمائندہ سہیل نے اصرار کر کے اسے حذف کرایا،  یہاں تک کہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے لکھنے کی بھی موافقت نہ کی، اور وہ یہی اصرار کرتا رہا کہ اس کے بجائے ’’بسمک اللھم‘‘ لکھا جائے،  جو اہل مکہ کی عادت اور طریقہ کے مطابق تھا واضح رہے، کہ ان امور میں سے ہر ایک علیحدہ علیحدہ ایک ناگوار امر تھا۔

چہ جائیکہ وہ سب کے سب مجموعی طور سے وہاں جاتے رہے، اسی لئے ضعیف الایمان، لوگوں کے دل ڈگمگا گئے، یہاں تک کہ جب سورۂ  فتح نازل ہوئی تو بعض نے تعجب کے ساتھ پوچھا :کون سی فتح؟

یہی وہ موقع ہے جب نصرت الٰہی کو مسلمانوں کے شامل حال ہونا چاہئے تھا اور سکون و اطمینان ان کے دلوں میں داخل ہوتا تھا نہ یہ کہ کوئی فتور اور کمزوری ان میں پیدا ہوتی تھی۔

بلکہ ’’لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم‘‘ کے مصداق کی قوت ایمانی میں اضافہ ہونا چاہئے تھا اوپر والی آیت ایسے حالات میں نازل ہوئی۔

ممکن ہے اس سکون میں اعتقادی پھلو ہو اور وہ اعتقاد میں ڈگمگا نے سے بچائے،  یا اس میں عملی پہلو ہو اس طرح سے کہ وہ انسان کو ثبات قدم،  مقاومت اور صبر و شکیبائی بخشے۔

 

پیچھے رہ جانے والوں کی عذر تراشی

گذشتہ صفحات میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ایک ہزار چار سو مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔

پیغمبرؐ کی طرف سے بادیہ نشین قبائل میں اعلان ہوا کہ وہ بھی سب کے سب کے ساتھ چلیں لیکن ضعیف الایمان لوگوں کے ایک گروہ نے اس حکم سے رو گردانی کر لی، اور ان کا تجزیہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اس سفر سے صحیح و سالم بچ کر نکل آئیں،  حالانکہ کفار قریش پہلے ہی ہیجان و اشتعال میں تھے،  اور انھوں نے احد و احزاب کی جنگیں مدینہ کے قریب مسلمانوں پر تھوپ دی تھیں اب جبکہ یہ چھوٹا سا گروہ بغیر ہتھیاروں کے اپنے پاؤں سے چل کر مکہ کی طرف جا رہا ہے،  گویا بھڑوں کے چھتہ کے پاس خود ہی پہنچ رہا ہے،  تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ آئیں گے؟

لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان کامیابی کے ساتھ اور قابل ملاحظہ امتیازات کے ہمراہ جو انھوں نے صلح حدیبیہ کے عہد و پیمان سے حاصل کئے تھے،  صحیح و سالم مدینہ کی طرف پلٹ آئے ہیں اور کسی کے نکسیر تک بھی نہیں چھوٹی،  تو انہوں نے اپنی عظیم غلطی کا احساس کیا اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ کسی طرح کی عذر خواہی کر کے اپنے فعل کی توجیہ کریں،  اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے استغفار کا تقاضا کریں۔

اس طرح سے منافقین اور مشرکین کی سرنوشت کا ذکر کر نے کے بعد، یہاں پیچھے رہ جانے والے ضعیف الایمان لوگوں کی کیفیت کا بیان ہو رہا ہے تاکہ اس بحث کی کڑیاں مکمل ہو جائیں۔

فرماتا ہے ’’عنقریب بادیہ نشین اعراب میں سے پیچھے رہ جانے والے عذر تراشی کرتے ہوئے کہیں گے: ہمارے مال و متاع اور وہاں پر بچوں کی حفاظت نے ہمیں اپنی طرف مائل کر لیا تھا، اور ہم اس پُر برکت سفر میں آپ کی خدمت میں نہ رہ سکے، رسالت مآب  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ہمارے عذر کو قبول کرتے ہوئے ہمارے لئے طلب بخشش کیجئے، وہ اپنی زبان سے ایسی چیز کہہ رہے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے‘‘۔ [4]

وہ تو اپنی توبہ تک میں بھی مخلص نہیں ہیں۔

لیکن ان سے کہہ دیجئے: ’’خدا کے مقابلہ میں اگر وہ تمھیں نقصان پہنچانا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ وہ تمھارا دفاع کر سکے، اور اگر وہ تمھیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو کس میں طاقت ہے، کہ اسے روک  سکے‘‘۔ [5]

’’خدا کے لئے یہ بات کسی طرح بھی مشکل نہیں ہے،  کہ تمھیں تمھارے امن و امان کے گھروں میں،  بیوی بچوں اور مال و منال کے پاس، انواع و اقسام کی بلاؤں اور مصائب میں گرفتار کر دے، اور اس کے لئے یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ دشمنوں کے مرکز میں اور مخالفین کے گڑھ میں تمھیں ہر قسم کے گزند سے محفوظ رکھے، یہ تمھاری قدرت خدا کے بارے میں جہالت اور بے خبری ہے جو تمھاری نظر میں اس قسم کے انکار کو جگہ دیتی ہے۔

ہاں،  خدا ان تمام اعمال سے جنہیں تم انجام دیتے ہو با خبر اور آگاہ ہے‘‘[6]

بلکہ وہ تو تمھارے سینوں کے اندر کے اسرار اور تمھاری نیتوں سے بھی اچھی طرح باخبر ہے،  وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ عذر اور بہانے واقعیت اور حقیقت نہیں رکھتے اور جو اصل حقیقت اور واقعیت ہے وہ تمھاری شک و تردد، خوف و خطر اور ضعف ایمان ہے،  اور یہ عذر تراشیاں خدا سے مخفی نہیں رہتیں،  اور یہ ہرگز تمھاری سزا کو نہیں روکیں گی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کے لب و لہجہ سے بھی اور تواریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وحی الٰہی پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی مدینہ کی طرف بازگشت کے دوران نازل ہوئی، یعنی اس سے پہلے کہ پیچھے رہ جانے والے آئیں اور عذر تراشی کریں،  ان کے کام سے پردہ اٹھا دیا گیا اور انہیں رسوا کر دیا۔

قرآن اس کے بعد مزید وضاحت کے لئے مکمل طور پر پردے ہٹا کر مزید کہتا ہے :’’بلکہ تم نے تو یہ گمان کر لیا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور مومنین ہرگز اپنے گھر والوں کی طرف پلٹ کر نہیں آئیں گے‘‘۔ [7]

ہاں،  اس تاریخی سفر میں تمھارے شریک نہ ہونے کا سبب،  اموال اور بیوی بچوں کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ اس کا اصلی عامل وہ سوء ظن تھا جو تم خدا کے بارے میں رکھتے تھے، اور اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ یہ سفر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ختم ہونے کا سفر ہے اور کیونکہ شیطانی وسوسہ تمھارے دلوں میں زینت پا چکے تھے، اور یہ تم نے برا گمان کیا‘‘۔ [8]کیونکہ تم یہ سوچ رہے تھے کہ خدا نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو اس سفر میں بھیج کر انہیں دشمن کے چنگل میں دے دیا ہے،  اور ان کی حمایت نہیں کرے گا، ’’اور انجام کار تم ہلاک ہو گئے‘‘۔ [9] اس سے بدتر ہلاکت اور کیا ہو گی کہ تم اس تاریخی سفر میں شرکت،  بیعت رضوان، اور دوسرے افتخارات  و اعزازات سے محروم رہ گئے، اور اس کے پیچھے عظیم رسوائی تھی اور آئندہ کے لئے آخرت کا دردناک عذاب ہے،  ہاں تمھارے دل مردہ تھے اس لئے تم اس قسم کی صورت حال میں گرفتار ہوئے۔

 

اگر حدیبیہ میں جنگ ہو جاتی

قرآن اسی طرح سے ’’حدیبیہ‘‘ کے عظیم ماجرے کے کچھ دوسرے پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے، اور اس سلسلہ میں دو اہم نکتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

پہلا یہ کہ یہ خیال نہ کرو کہ سرزمین ’’حدیبیہ‘‘ میں تمھارے اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ چھڑ جاتی تو مشرکین جنگ میں بازی لے جاتے، ایسا نہیں ہے، اکثر کفار تمھارے ساتھ وہاں جنگ کرتے تو بہت جلدی پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے، اور پھر کوئی ولی و یاور نہ پاتے ‘‘۔ [10]

اور یہ بات صرف تم تک ہی منحصر نہیں ہے،  ’’یہ تو ایک سنت الٰہی ہے، جو پہلے بھی یہی تھی اور تم سنت الٰہی میں ہر گز تغیر و تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘ [11]

وہ اہم نکتہ جو قرآن خاص طور پر بیان کر رہا ہے، یہ ہے کہ کہیں قریش بیٹھ کر یہ نہ کہنے لگیں،  کہ افسوس ہم نے جنگ کیوں نہ کی اور اس چھوٹے سے گروہ کی سرکوبی کیوں نہ کی، افسوس کہ شکار ہمارے گھر میں آیا، اور اس سے ہم نے غفلت برتی،  افسوس،  افسوس۔

ہر گز ایسا نہیں ہے اگر چہ مسلمان ان کی نسبت تھوڑے تھے، اور وطن اور امن کی جگہ سے بھی دور تھے، اسلحہ بھی ان کے پاس کافی مقدار میں نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود اگر جنگ چھڑ جاتی تو پھر بھی قوت ایمانی اور نصرت الٰہی کی برکت سے کامیابی انہیں ہی حاصل ہوتی، کیا جنگ ’’بدر‘‘ اور ’’احزاب‘‘ میں ان کی تعداد بہت کم اور دشمن کا سازو سامان اور لشکر زیادہ نہ تھا؟ ان دونوں مواقع پر دشمن کو کیسے شکست ہو گئی۔

بہر حال اس حقیقت کا بیان مومنین کے دل کی تقویت اور دشمن کے دل کی کمزوری اور منافقین کے ’’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ کے ختم ہونے کا سبب بن گئی اور اس نے اس بات کی نشاندہی کر دی کہ ظاہری طور پر حالات کے برابر نہ ہونے کے باوجود اگر جنگ چھڑ جائے تو کامیابی مخلص مومنین ہی کو نصیب ہوتی ہے۔

دوسرا نکتہ جو قرآن میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ فرماتا ہے ’’وہی تو ہے جس نے کفار کے ہاتھ کو مکہ میں تم سے باز رکھا اور تمھارے ہاتھ کو ان سے، یہ اس وقت ہوا جبکہ تمھیں ان پر کامیابی حاصل ہو گئی تھی، اور خدا وہ سب کچھ جو تم انجام دے رہے ہو دیکھ رہا ہے‘‘۔ [12]

مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کے لئے ایک ’’شان نزول‘‘ بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ: مشرکین مکہ نے ’’حدیبیہ‘‘ کے واقعہ میں چالیس افراد کو مسلمانوں پر ضرب لگانے کے لئے مخفی طور پر حملہ کے لئے تیار کیا، لیکن ان کی یہ سازش مسلمانوں کی ہوشیاری سے نقش بر آب ہو گئی اور مسلمان ان سب کو گرفتار کر کے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں لے آئے،  اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے انہیں رہا کر دیا۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ جس وقت پیغمبر درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے تاکہ قریش کے نمائندہ کے ساتھ صلح کے معاہدہ کو ترتیب دیں،  اور علیؓ لکھنے میں مصروف تھے، تو جوانان مکہ میں سے ۳۰ افراد اسلحہ کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوئے، اور معجزانہ طور پر ان کی یہ سازش بے کار ہو گئی اور وہ سب کے سب گرفتار ہو گئے اور حضرت نے انہیں آزاد کر دیا۔

 

عمرة  القضاء

’’عمرة القضاء‘‘ وہی عمرہ ہے جو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حدیبیہ سے ایک سال بعد یعنی ہجرت کے ساتویں سال کے ماہ ذی القعدہ میں اسے (ٹھیک ایک سال بعد جب مشرکین نے آپ کو مسجد الحرام میں داخل ہونے سے روکا تھا) اپنے اصحاب کے ساتھ انجام دیا اور اس کا یہ نام اس وجہ سے ہے،  چونکہ یہ حقیقت میں گزشتہ سال کی قضاء شمار ہوتا تھا۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ : قرار داد حدیبیہ کی شقوں میں سے ایک شق کے مطابق پروگرام یہ تھا کہ مسلمان آئندہ سال مراسم عمرہ اور خانہ خدا کی زیارت کو آزادانہ طور پر انجام دیں،  لیکن تین دن سے زیادہ مکہ میں توقف نہ کریں اور اس مدت میں قریش کے سردار اور مشرکین کے جانے پہچانے افراد شہر سے باہر چلے جائیں گے تاکہ ایک تو احتمالی ٹکراؤ سے بچ جائیں اور کنبہ پروری اور تعصب کی وجہ سے جو لوگ مسلمانوں کی عبادت توحیدی کے منظر کو دیکھنے کا یارا اور قدرت نہیں رکھتے، وہ بھی اسے نہ دیکھیں۔

بعض تواریخ میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے صحابہ کے ساتھ احرام باندھا اور قربانی کے اونٹ لے کر چل پڑے اور ’’ظہران‘‘ کے قریب پہنچ گئے اس موقع پر پیغمبر نے اپنے ایک صحابی کو جس کا نام ’’محمد بن مسلمہ‘‘ تھا، عمدہ سواری کے گھوڑوں اور اسلحہ کے ساتھ اپنے آگے بھیج دیا، جب مشرکین نے اس پروگرام کو دیکھا تو وہ سخت خوف زدہ ہوئے اور انھوں نے یہ گمان کر لیا کہ حضرت ان سے جنگ کرنا اور اپنی دس سالہ صلح کی قرار داد کو توڑنا چاہتے ہیں،  لوگوں نے یہ خبر اہل مکہ تک پہنچا دی لیکن جب پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  مکہ کے قریب پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ تمام تیر اور نیزے اور دوسرے سارے ہتھیار اس سرزمین میں جس کا نام ’’یاجج‘‘ ہے منتقل کر دیں،  اور آپ خود اور آپ کے صحابہ صرف نیام میں رکھی ہوئی تلواروں کے ساتھ مکہ میں دارد ہوئے۔ اہل مکہ نے جب یہ عمل دیکھا تو بہت خوش ہوئے کہ وعدہ پورا ہو گیا (گویا پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا یہ اقدام مشرکین کے لئے ایک تنبیہ تھا، کہ اگر وہ نقض عہد کرنا چاہیں اور مسلمانوں کے خلاف سازش کریں، تو ان کے مقابلہ کی قدرت رکھتے ہیں۔)

رؤسائے مکہ، مکہ سے باہر چلے گئے، تاکہ ان مناظر کو جوان کے لئے دل خراش تھے نہ دیکھیں لیکن باقی اہل مکہ مرد،  عورتیں اور بچے سب ہی راستوں میں،  چھتوں کے اوپر،  اور خانہ خدا کے اطراف میں جمع ہو گئے تھے،  تاکہ مسلمانوں اور ان کے مراسم عمرہ کو دیکھیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص رُعب اور دبدبہ کے ساتھ مکہ میں وارد ہوئے اور قربانی کے بہت سے اونٹ آپ کے ساتھ تھے، اور آپ نے انتہائی محبت اور ادب کے ساتھ مکہ والوں سے سلوک کیا، اور یہ حکم دیا کہ مسلمان طواف کرتے وقت تیزی کے ساتھ چلیں،  اور احرام کو ذرا سا جسم سے ہٹا لیں تاکہ ان کے قوی اور طاقتور اور موٹے تازے شانے آشکار ہوں،  اور یہ منظر مکہ کے لوگوں کی روح اور فکر میں،  مسلمانوں کی قدرت و طاقت کی زندہ دلیل کے طور پر اثر انداز ہو۔

مجموعی طور سے ’’عمرة  القضاء‘‘ عبادت بھی تھا اور قدرت کی نمائش بھی، یہ کہنا چاہئے کہ ’’فتح مکہ‘‘ جو بعد والے سال میں حاصل ہوئی،  اس کا بیج انہیں دنوں میں بویا گیا،  اور اسلام کے مقابلہ میں اہل مکہ کے سر تسلیم خم کرنے کے سلسلے میں مکمل طور پر زمین ہموار کر دی۔ یہ وضع و کیفیت قریش کے سرداروں کے لئے اس قدر ناگوار تھی کہ تین دن گزرنے کے بعد کسی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیجا کہ قراد داد کے مطابق جتنا جلدی ہو سکے مکہ کو چھوڑ دیجئے۔ قابل توجہ بات یہ ہے،  کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مکہ کی عورتوں میں سے ایک بیوہ عورت کو، جو قریش کے بعض سرداروں کی رشتہ دار تھی، اپنی زوجیت میں لے لیا، تاکہ عربوں کی رسم کے مطابق، اپنے تعلق اور رشتے کو ان سے مستحکم کر کے ان کی عداوت اور مخالفت میں کمی کریں۔

جس وقت پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مکہ سے باہر نکل جانے کی تجویز سنی تو آپ نے فرمایا : میں اس ازدواج کے مراسم کے لئے کھانا کھلانا چاہتا ہوں اور تمھاری بھی دعوت کرنا چاہتا ہوں، یہ دعوت رسمی طور پر رد کر دی گئی۔

٭٭٭

 

حواشی

[1] سورہ فتح آیت۲۷۔

[2] سورہ فتح آیت۲۷۔

[3] سورہ فتح آیت ۴۔

[4] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[5] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[6] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[7] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[8] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[9] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[10] سورہ فتح آیت ۲۲۔

[11] سورہ فتح آیت ۲۲۔

[12] سورہ فتح آیت ۲۴۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل