فہرست مضامین
شہداب
رؤف خیر
یہ آسمان تو کچھ بھی نہیں ہے میرے لئے
لہو کا زور مرے بال و پر میں اتنا ہے
دُعائیہ
آنکھ جَب دی ہے تو اس درجہ کی بینائی دے
میں جسے دیکھنا چا ہوں وہی دکھائی دے
میرے آئینے کو بے پارہ مزاجی سے بچا
مجھ کو خود داری نہیں بلکہ خود آرائی دے
میں کہا ں او ر کہاں دعوی ثابت قدمی
لاج رکھ لے مری ، رستہ مجھے بے کائی دے
کیا کروں لے کے مہ و مِہر زوال آمادہ
جہدِ مور اور مگس کی مجھے صنّاعی دے
رشتۂ فکر سے بڑھ کر نہیں خوں کا رشتہ
مجھ کو انصار و مہاجر سا کو ئی بھائی دے
دوستوں کو مرے نادانی کی ذلت سے بچا
دینے والے مجھے دشمن کی بھی دانائی دے
ہار جا نے میں کوئی عار نہیں ہے مجھ کو
آپ اپنے ہی مقابل مجھے پسپائی دے
ہر بتِ خاک د بتِ پاک سے بیزار ہوں میں
اس جبیں کو کسی درکی نہ جبیں سائی دے
سخت و سنگین زمینوں کو نمو رنگ بھی کر
خیرؔ کے حرفِ شگفتہ کو پذیرائی دے
٭٭٭
حمد
ترے لئے ہے شہنشاہوں کی شہنشاہی
کسی کو زیب نہیں دیتا راج تیرے سِوا
یہ کون ہے جو چٹائی بھی چھین لیتا ہے
یہ کون بھیک میں دیتا ہے تاج تیرے سِوا
شفا تو ہاتھ تیرے ہے ، کون کرتا ہے
جو لا علاج ہیں ، ان کا علاج تیرے سِوا
ترے سوائے بھلا کل بھی کون تھا اپنا
جہاں میں کون ہمارا ہے آج تیرے سِوا
٭٭٭
حمد
میں حاجت مند ہوں حاجت روا تو
مرا مولا ، مرا مشکل کشا تو
بھلا کیسے کسی سے جا کے منگوں
کہ تو کہتا ہے میرے پاس آ تو
چلو ں گر اک قدم تیری طرف میں
تو میرے پاس آئے بھاگتا تو
کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے
مسیحا تو دواؤں میں شِفاء تو
بھلا کوئی بچا سکتا بھنور سے
ہمارا نا خد ا بھی ہے خدا تو
تری درگاہ میں بے بس پیمبر
ڈبو دیتا ہے بیٹا نوح کا تو
محمد نے کہا بیٹی سے اپنی
عمل کر تو عمل کر فاطمہ تو
تجھی کو المدد کا لفظ زیبا
جہاں تجھ کو پکارا، آ گیا تو
ضرورت کیا وسیلے کی کسی کے
کہ ہے نزدیک شہ رگ سے سدا تو
کوئی دیتا نہیں تیرے سوائے
سبھی بے کس غنی الا غنیاء تو
تو ہی بندہ نواز و بندہ پرور
تو ہی مولائے کل غوث الوریٰ تو
جو اپنا جائزہ لیتا نہیں ہے
دکھا دیتا ہے اس کو آئینہ تو
٭٭٭
آپ اپنے کو ٹٹولا تو یہ قصّہ دیکھا
ایک اِک حِس پہ مکمل ترا قبضہ دیکھا
کوئی پردہ نہ علاقہ ہے نہ حد اس کے لئے
چشمِ بینا نے عجب دیکھنے والا دیکھا
سُننے والا ہے سدا اوّل و آخر تو ہی
سُننے والا نہ کوئی تیرے علاوہ دیکھا
چار سو پھیلی ہوئی ہے تو ہے خو شبو تیری
چار سو چھا یا ہو ا تیرا سراپا دیکھا
ذائقہ تیرا کبھی تیرے نمک خواروں سے
چھوٹتا ہی نہیں چسکا ہی کچھ ایسا دیکھا
کون ہے تیرے سوا ہاتھ پکڑنے والا
دستگیر ی کو ہمیشہ تجھے آتا دیکھا
تو کوئی روپ نہ بہروپ کوئی رکھتا ہے
تو تو وہ ہے کہ ترا باپ نہ بیٹا دیکھا
خیرؔ ہر دور میں معیارِ حقیقت ہے جہاں
شر پسندوں کا وہیں رنگ بھی اڑتا دیکھا
٭٭٭
جو تیرے نام نہیں وہ مری عبادت کیا
تجھے نہ دیکھ سکوں تو مری بصارت کیا
میں ایک خشت سہی جذب ہوں ترے اندر
مرے وجود سے ہٹ کر تری عمارت کیا
قلم ہیں ہاتھ تو حرفِ ہزار معنی ہم
رہے گی اب تری دیوار بے عبادت کیا
مہاجرین سے انصار خوش نہیں ہوتے
تو پھر کہا کی یہ ہجرت برا ہے بھارت کیا
عذاب ہو گئیں راتیں خراب ہو گئے دن
ترے بغیر کوئی خواب کیا بشارت کیا
تباہ ہو گئے خیمے چراغ ہو گئے گل
ہوا کرے گی بھلا اور اب شرارت کیا
رگوں میں خون اچھلتا رہے تو بہتر ہے
یہ رکھ رکھاؤ پس اندازیِِ حرارت کیا
خوشی یہ ہے کہ تری دسترس میں ہوں یوں بھی
مری اڑان ہی کتنی مری جسارت کیا
اُسے خرید لیا خود کو بیچ کر ہم نے
ہے او ر اس سے زیادہ بڑی تجارت کیا
رہیں گے ہم کسی صورت نہیں کہیں نہ کہیں
کر ے گی خیرؔ یہ مٹی ہمیں اکارت کیا
٭٭٭
وہ بات اور ہی ہے جو تمہیں سنانا ہے
سخنوری تو مری بات کا بہانا ہے
جو ایک دیو تھا سرکس کا شیر ٹھیرا ہے
ہو اکے ہاتھ میں یہ کیسا تازیانہ ہے
ہمیں سنبھال کہ ہمیں شاہکارِ کوزہ گری
ہماری خاک تری آگ سے توانا ہے
کوئی نشان لگا تے چلو درختوں پر
کہ اس سفر سے تمہیں لوٹ کر بھی آنا ہے
چلے جو ہم تو کسی نے وداع بھی نہ کیا
ملا ل یہ کہ ہمارا سفر سہانا ہے
سدا بہار ہے اس کے سخن کی ہریالی
وہ میرے واسطے مو سم نہیں زمانہ ہے
مجھے تو چھوڑ کم از کم سنبھال تو خود کو
میں بے ٹھکانہ سہی کچھ ترا ٹھکانا ہے
غزل تو جیسی بھی کہتا ہے وہ تو ظاہر ہے
رؤف خیرؔ کا لہجہ بھی شاعرانہ ہے
٭٭٭
اب اس قدر بھی تو خانہ خراب ہم نہ ہوئے
ملال یہ ہے تہیں دستیاب ہم نہ ہوئے
کتاب ہم نہ ہوئے انتساب ہم نہ ہوئے
ترے لئے نگہِ انتخاب ہم نہ ہوئے
ہمیں قریب سے دیکھو کہ دور سے دیکھو
کبھی کسی کے لئے بھی سراب ہم نہ ہوئے
ہمارا عشق تو سچّا تھا عمر کچّی تھی
ہزار سیل تھا غرق چناب ہم نہ ہوئے
ہماری راہ میں دوڑے خرد نے اٹکائے
قدم قدم پہ جنوں اجتناب ہم نہ ہوئے
اسی ملال میں آٹھوں پہر بر ستے ہیں
اس ایک دشت کے حق میں سحاب ہم نہ ہوئے
ہنر ہی ایسا ہے چمگاڈروں پہ کیا کھلتا
رؤف خیرؔ چلو آفتاب ہم نہ ہوئے
٭٭٭
عجیب درد اٹھا لائے داغ کے بدلے
نیا چراغ پرانے چراغ کے بدلے
پتہ نہیں یہ امیری ہے یا غریبی ہے
اُسے نصیب ہے سب کچھ فراغ کے بدلے
ہمیں یہ علم ہے کس حرف کو کہاں برتیں
دماغ رکھ نہیں دیتے ایاغ کے بدلے
یہ مانا ہو گا پہاڑوں کے اس طرف سب کچھ
بُرا ہی کیا ہے یہ گھر سبز باغ کے بدلے
ہر ایک بات مدلّل نہیں ہو ا کرتی
کبھی تو دل کی بھی سُن لو دماغ کے بدلے
وہ رات کٹ گئی اس کو تو خیرؔ کٹنا تھا
اب آفتاب سنبھالو چراغ کے بدلے
٭٭٭
رستے میں تو خطرات کی سن گن بھی بہت ہے
منزل پہ پہنچنے کی ہمیں دھن بھی بہت ہے
ہر شہر میں تازہ ہے تو بس زخمِ تعصب
کچھ لذتِ ناخن کا تعاون بھی بہت ہے
کچھ ہاتھوں سے کچھ ماتھوں سے کالک نہیں جاتی
ہر چند کہ بازار میں صابن بھی بہت ہے
وہ ہاتھ تحفظ کی علامت جِسے کہیئے
محسوس یہ ہوتا ہے وہی سن بھی بہت ہے
اک جسم کے مانند ہیں وجدان کے بل پر
ٹھوکر سے اکھڑتا ہے تو ناخن بھی بہت ہے
ہم شعر کہا کرتے ہیں وجدان کے بل پر
کچھ لوگوں کو زعمِ فعلاتن بھی بہت ہے
٭٭٭
بہت دنوں سے کچھ اپنا پتہ نہیں ملتا
کبھی تو چہرہ کبھی آئینہ نہیں ملتا
یہ سچ تو ہے ترے کوچے میں کیا نہیں ملتا
سوال یہ ہے کہ کو چہ ترا نہیں ملتا
وہ آب جو ، ہوں کہ جس میں ہزار جھرنے ہیں
تو تشنہ لب ہے تو کیوں مجھ سے آ نہیں ملتا
کئی دریچے کئی در ہیں اس کی آنکھوں میں
بھٹک گیا ہوں کہا ں راستہ نہیں ملتا
کبھی بدلتا ہے منظر کبھی تو پس منظر
کہیں بھی سلسلۂ نقش پا نہیں ملتا
ملے خطوط و رسائل تو کونے کونے سے
بس ایک خط ترا لکھا ہوا نہیں ملتا
وہ شخص خیرؔ ہمیں غیر ہی نہیں لگتا
ہزار اس سے کوئی سلسلہ نہیں ملتا
٭٭٭
نہ ہی مینار نے کلس کا ہے
مسئلہ نفس اور نفس کا ہے
کتنا پیچھے ڈھکیل دیتا ہے
ایک لمحہ جو پیش و پس کا ہے
اس پہ ہر چند نام ہے میرا
یہ بدن ایک ایک نس کا ہے
تیرے ساتھی نکل پڑے کب کے
اور تو منتظر جوس کا ہے
تو اگر کرشن ہے تو تیرے لئے
منتظر ہر مکاں میں مسکا ہے
میں کہا ں رام کی تلاش میں ہوں
یہ علاقہ تو راکشس کا ہے
گُل سمجھتا ہے یا اِسے تتلی
لمس تک فاصلہ جو مس کا ہے
تاش کا گھر نہ تھا گھروندا تھا
دُکھ ہوا کو تہس نہس کا ہے
ہر تماشہ ہمارے بس کا تھا
ہر تماشہ ہمارے بس کا ہے
دیکھ لیکن نہ دیکھنے کی طرح
مشورہ چشمِ بے ہوس کا ہے
ایسی ویسی غزل نہ کہہ کہ ہمیں
ماورائے سخن کا چسکا ہے
خیرؔ پھر کیا فریب کھاؤں گا
تجربہ خوب اس برس کا ہے
٭٭٭
جانے کیا راز تھا کچھ اس نے بھی پھیکا لِکھا
ہائے کھلتا نہیں ہم پر بھی تو جی کا لِکھا
ہم کہاں حرف شناس اتنے مگر پڑھتے ہیں
کاغذوں پر ترے ہاتھوں کی نمی کا لِکھا
دن کو بازار سے ہو کر بھی گزرنا ہے تجھے
اپنے چہرے سے مٹا تیرہ شبی کا لِکھا
ہم نے ویسے تو بہت خود کو بچا نا چاہا
ایک اک حرف ہوا خود شکنی کا لِکھا
سایہ سایہ تجھے ترسے یہ الگ ہے لیکن
ہم نے سورج کو ترے ماتھے کا ٹیکا لِکھا
وہ سُنا شہرِ تمنا کی زباں بھول گیا
خیر گزری کہ اسے حال نہ جی کا لِکھا
پاسِ جاں اتنا تھا یاروں سے بھی کم کم ہی ملے
ان پہ کھلنے نہ دیا دستِ تہی کا لِکھا
٭٭٭
ہم اس زمینِ شر پہ بھی ہیں خیر کی طرح
ہم کو نہ بانٹئے حرم و دیر کی طرح
ہم ایک دوسرے کے حوالے سے ہیں یہاں
ہم کو نہ دیکھیئے گا کبھی غیر کی طرح
دے کر اذاں بھی دیکھ، جلا کر الاؤ دیکھ
صحرا سے سر سری نہ گزر سیر کی طرح
لوٹے جو تتلیوں کے تعاقب سے تو کھُلا
چھالے ہتھیلیوں میں بھی ہیں پیر کی طرح
تیرا خیال پھر ہمیں آباد کر گیا
اک شاخ سبز لاتے ہوئے طیر کی طرح
انسان ہی تو ہیں کوئی اوتار ہم نہیں
دل میں ہماری بات نہ رکھ بیر کی طرح
رستے سے بھید بھاؤ کے پتھر ہٹائیے
کوئی لہو، لہان نہ ہو خیرؔ کی طرح
٭٭٭
المیہ فنا مری ذات پے بہ پے
نظریہ بقا ترے نام ہی تو ہے
ترے رکھ رکھاؤ میں کہ مرے سبھاؤ میں
غلطی کہاں ہوئی یہی ہو سکا نہ طے
کسی کنج عافیت سے نکل کے دیکھئے
جو حریفِ جامِ مئے ہے وہی حریفِ کے
ہوں نہال منکسر، نہیں سیل میں شجر
میں سمے کا دوست ہوں مرا دوست ہے سمے
کہیں جیتنا نہیں، کبھی ہارنا نہیں
یونہی اپنے آپ سے کوئی جنگ تا بکے
مری ہجرتوں کا دُکھ نہ سمجھ سکا کوئی
پسِ پردۂ سفر کوئی ہے کوئی تو ہے
میں رؤف خیرؔ ہوں کوئی شئے نہیں ہے شر
نہ پنپ سکا کبھی مرے راستے میں بھے
٭٭٭
فروتنی مری دشمن کو مِتر کرتی ہے
بڑے ادب سے وہیں رد کِبر کرتی ہے
وہ شام جس نے سنبھالے ہوئے رکھا ہے ہمیں
کبھی کبھی تو بہت تیرا ذکر کرتی ہے
یہ رکھ رکھاؤ بھی ملنے سے روکتا ہے ہمیں
یہی انا ہے جو مائل بہ ہجر کرتی ہے
مجھے یہ فکر کہیں شاخِ بے نمو، نہ رہوں
یہی زمین بھی کیا میری فکر کرتی ہے
ملال یہ ہے کہ آسودہ ہے وہ چنگا ری
جلا کے خاک جو یونان و مصر کرتی ہے
قدم قدم پہ کلیمی رہی جو از طلب
پیمبر ی کہیں تقلیدِ خضر کرتی ہے
بہ ہر لحاظ سلیقہ ہے شرط ہے ورنہ
غلط مذاقی بھی توہینِ عطر کرتی ہے
نکال سر سے یہ بادِ شمال کا سودا
دکن کا خاک بھی تکریمِ جبر کرتی ہے
رؤف خیرؔ عقیدے کی ضرب ہے ایسی
عدد بڑا بھی اگر ہو تو صفر کرتی ہے
٭٭٭
میں کانچ کا گھر ہوں مجھے پتھر سے بچانا
باہر سے بچانا مجھے اندر سے بچانا
ہونا ہے اسے جذب تو کرنا ہے اسے جذب
دریا کو بھلا کیسے سمندر سے بچانا
رستے میں مسافر کو کہیں نیند نہ آئے
یوں نشۂ اسباب میسّر سے بچانا
سرتا بقدم میں تو فقط ایک بھرم ہوں
پڑ جائے جو چھوٹی اُسی چادر سے بچانا
آئے نہ کوئی حرف تری کوزہ گری پر
میں ٹوٹ نہ جاؤں کہیں ٹھوکر سے بچانا
سچ پوچھو تو ایک اپنی مٹی میں مزہ ہے
اب ذائقہ کوچۂ دیگر سے بچانا
تو دوست ہے دشمن کے حوالے مجھے مت کر
میں خیرؔ ہوں یارب مجھے ہر شر سے بچانا
٭٭٭
کتاب جاں کا اُسے صفحۂ غلط لکھِنا
اگر نہیں ہیں کہیں اپنے دستخط لکھِنا
شکایتیں ہیں تو حرفِ صحیح سے کیا کیا
مزہ تو دیتا تھا ترا غلط سلط لکھِنا
تمام دن ترا چہرہ ورق ورق پڑھنا
وہ رت جگا وہ مرا رات بھر فقط لکھِنا
خبر بھی ہے کہ یہ آنکھیں ترس گئیں تجھ کو
ہیں کس حساب میں اب اپنے خال و خط لکھِنا
صدا ہی سونپ کبھی کاسۂ سماعت کو
تجھے جو خیر سے آتا نہیں ہے خط لکھِنا
بھلا ہوا ہے خداؤں کا خوش گمانوں سے
وہ کیا ہے ہنسی کہ بگلا بھگت کہ بط۔ لکھِنا
گرفت میں جو نہ آئے ہنر ہے خیرؔ وہی
جو بات کہنی ہو کر کے خلط ملط لکھِنا
٭٭٭
ناؤ چھوٹی سی سہی چاہ سمندر کی ہے
مجھ کو دریا کی یہ آہستہ روی کھلتی ہے
اک یہی بات ترے پاس مجھے لاتی ہے
خوش مذاقی تری خوبی مری کمزوری ہے
اجنبیت ہو تو دہلیز بھی ڈس لینی ہے
کوئی ساتھی ہو تو ہجرت بھی مزہ دیتی ہے
اس نے بیٹی کو ضرورت کی تو ہر شئے دی ہے
تیل مٹی کا بھی سامان ہے، ماچس بھی ہے
میری مٹی بھی تری ، کو زہ گری بھی تیری
اب حرارت مرے اندر تجھے بھر دینی ہے
اک گزارش ہے کہ دھرتی پہ لکیریں مت کھینچ
حق تو یہ ہے کہ ہماری بھی جنم بھومی ہے
مسئلہ یہ ہے کہ میں چپ بھی نہیں رہ سکتا
اور کہتا ہوں تو خاطر شکنی ہوتی ہے
اور دیتا ہے مزہ آج سلیقہ اپنا
ہائے کیا لذّتِ بے راہ روی ہوتی ہے
ہم کو جو بے سر و سایہ نہیں ہونے دیتی
خیرؔ دیوار پرانی ہی سہی گھر کی ہے
٭٭٭
کہاں سے پاؤں پساریں کہ گھر میں خاک نہیں
نکل پڑیں تو مزہ بھی سفر میں خاک نہیں
ارے یہ کیا کہ تری رہگذر میں خاک نہیں
تو پھر ہمارے لئے بحر و بر میں خاک نہیں
زمیں کو پاؤں پکڑنے نہیں دیا میں نے
ہنر یہ ہے کہ مرے بال و پر میں خاک نہیں
میں بے نمو، نہ رہا سرمہ در گلو نہ رہا
زمیں شور بھی میری نظر میں خاک نہیں
ہمارا رونا یہی ہے کہ تر نہیں دامن
بڑا غبار ہے دل پر کہ سر میں خاک نہیں
خمیرِ خاک سے کیا کیا نہ شرر میں خاک نہیں
کمال ہے کہ کفِ کوزہ گر میں خاک نہیں
کہاں کہاں نہ توانائیاں تمام ہوئیں
شرر ہے خاک میں کیا کیا شرر میں خاک نہیں
طبیعت اپنی تھی آمادہ خاک اڑانے پر
مگر کھلا کہ کہیں شہر بھر میں خاک نہیں
ہم اپنے آپ کو منوا نہیں رہے ہیں اگر
تو پھر یہ طے ہے کہ دستِ ہنر میں خاک نہیں
کوئی خدائے سخن کوئی خاتم الشعراء!!
تو خیرؔ کیا مرے حرف میں خاک نہیں
٭٭٭
کھُل گیا ہم سے بہر حال جو سب سے نہ کھُلا
ہائے وہ شخص خدا جانے جو کب سے نہ کھُلا
وہ کھلا شہر تھا چک پوسٹ نہیں تھے جس کے
کوئی دروازہ جہاں نام و نسب سے نہ کھُلا
شعرِ مبہم دہ نہ تھا حرفِ مذبذب بھی نہ تھا
جو کسی ڈھب سے کھُلا اور کسی ڈھب سے نہ کھُلا
میری پہچان ہی کیا تیرے حوالے کے بغیر
میں کسی پر بھی مگر تیرے سبب سے نہ کھُلا
کچھ تو ہم نے بھی تکلف سے بہت کام لیا
اور وہ شخص بھی کچھ پاس ادب سے نہ کھُلا
اسمِ اعظم ہے عجب شاہ کلیدی اپنی
ہم پہ وہ در بھی کھُلا جو جَد و اَب سے نہ کھُلا
فرق اک روزنِ دیوار سے کیا کیا نہ پڑا
جو عجم سے نہ ہوا بند، عرب سے نہ کھُلا
خیرؔ یاروں نے پہاڑوں پہ پہاڑے لکھے
چاہتے کیا ہیں کبھی شعر و ادب سے نہ کھُلا
٭٭٭
ہمارے نام سے پردہ کہاں اٹھاتی ہے
اسی جگہ تو کہانی بدن چراتی ہے
اِدھر اُدھر کو بھٹکنے کبھی نہیں دیتی
وہ بوئے خوش بدنی راستہ دکھاتی ہے
خطا وہیں سے تو اندھے کے تیر ہوتے ہیں
کہاں سے نیک گمانی فریب کھاتی ہے
یہ لُوٹنا ہے کہ لُٹنا ہے کہہ نہیں سکتے
خدا گواہ ترا حُسن سومناتی ہے
غلط سلط بھی کبھی فیصلے ہوئے ہم سے
مزاج اپنا ذرا غیر تجزیاتی ہے
کسی طرح سے سہی، دن گزر ہی جاتا ہے
مگر وہ رات کہ جب نیند ٹوٹ جاتی ہے
انا کے ہاتھ میں تلوار ہے جو دو دھاری
کبھی کبھی تو خود اپنا لہوٗ بہاتی ہے
کوئی کتاب ہو بین السّطور ہی پڑھیئے
یہ راکھ وہ ہے جہاں آگ منہ چھپاتی ہے
کسی طرح تو کرائے کی عِلّتوں سے بچے
نواحِ شہر میں اک گھر تو خیرؔ ذاتی ہے
٭٭٭
ترا خیال ہی دل سے نکل گیا جیسے
ہمارے شعر کا مصرع بدل گیا جیسے
سفر میں اس کا کلیجہ دہل گیا جیسے
بھنور سے بچ کے وہ پہلے پہل گیا جیسے
یہ کس کا روشنی دیتا ہوا سا پیکر ہے
چراغ سا کوئی رستے میں جل گیا جیسے
سفید گھوڑے کی زد میں ہیں بادشاہ و وزیر
اڑھائی گھر کی کوئی چال چل گیا جیسے
سُنا ہے جب سے کہ کائی بھری زمین ہے تو
بڑے بڑوں کا بھی پاؤں پھسل گیا جیسے
نئی کہانی نئی رات پھر نیا لہجہ
خلاف قصۂ ضرب المثل گیا جیسے
زبان پھیر رہا تھا وہ خشک ہونٹوں پر
ہمارا حرف تر و تازہ کھل گیا جیسے
٭٭٭
تشنہ رہیں گے اپنے بگڑنے کے مرحلے
آئے جو ہیں نگاہ میں پڑنے کے مرحلے
میرے لئے زماں و مکاں پھیلنے لگے
طے ہو رہے ہیں تجھ سے بچھڑنے کے مرحلے
یہ چھالا چھالا پاؤں یہ ہاتھوں کی سختیاں
یاد آئے تتلیوں کے پکڑنے کے مرحلے
آنکھوں میں ریت بھر گئی ہمدرد تھی ہوا
نا دیدنی تھے خیمے اکھڑنے کے مرحلے
پھر جیسے پتھروں کے حوالے ہوئے ہیں ہم
نازک تھے آئینے سے بچھڑنے کے مرحلے
خود کو سنبھالنا بھی قیامت ہے ان دونوں
اب ہم ہیں او ر آگ پکڑنے کے مرحلے
خوش تھے رؤف خیرؔ جو دینا سے لڑ چکے
باقی ہیں اپنے آپ سے لڑنے کے مرحلے
٭٭٭
عائد کسی طرح کی بھی تحدید مت کرو
کیا دوست ۔ دشمنوں پہ بھی تنقید مت کرو
بیعت کرو تو ایک ہی دستِ رسول پر
دو رکعتی امام کی تقلید مت کرو
کھینچو بڑی لکیر ۔ لکیروں کے درمیان
چھوٹی کسی لکیر کی تردید مت کرو
بے رس جنھیں ہوائے زمانہ نے کر دیا
اب اُن تلوں سے تیل کی امید مت کرو
جگنو ہے ہاتھ میں ید بیضا نہیں کوئی!
اندھیر ہے اہانتِ خور شید مت کرو
جب دھوپ پی چکے ہو تو پھر دودھ بھی پیو
کس کے کہا کہ خیرؔ سے تم عید مت کرو
٭٭٭
درپیش ایک چشمۂ زہراب ہے مگر
یہ تشنہ لب تو خو گرِ شہداب ہے مگر
وہ حرف جاں گداز و جہاں تاب ہے مگر
اک آئینہ کہ زینت محراب ہے مگر
ثابت ہوا کہ اپنے خد و خال ٹھیک ہیں
مانا وہ آئینہ سہی بے آب ہے مگر
اس سے جو ہے وہ سطح ملاقات اور ہے
وہ بھی شریکِ حلقۂ احباب ہے مگر
کہنا ہے یہ وہ چہرہ کتابی اگر ملے
تیرا جواب آیت نایاب ہے مگر
صحرا ہے بے کلیم نہ گلزار بے خلیل
کیا کیا گمانِ شعلۂ شاداب ہے مگر
یہ اور بات ہے وہ خرابِ خمار خواب
میراثِ خیرؔ دیدۂ بے خواب ہے مگر
٭٭٭
ہم نے کب حرفِ پس و پیش کا احسان لیا
مان لینا جسے چاہا ہے اُسے مان لیا
آنکھ جھپکی تھی کہ سورج تھا سوا نیزے پر
خواب دیکھا کہ مُسافت نے بُرا مان لیا
صاحبو! منزل نازک سے گزرنا دیکھو
ہاتھ دامن سے اٹھایا تو گریبان لیا
کہہ دیا تیرے جھجکنے کی ادا نے کیا کیا
حرفِ ناگفتہ سے ہم نے پہچان لیا
٭٭٭
شباہتیں تو بہت کچھ ہیں بھائی بہنوں میں
بلا کا فرق بڑے فاصلے ہیں ذہنوں میں
گھر ا ہوا ہے وہ خوش پوش کن برہنوں میں
دریدہ پیرہنوں میں دریدہ ذہنوں میں
یہ پھول تنگی گُلدان کا شکار ہوئے
کریں بھی کیا کہیں مٹی نہیں ہے صحنوں میں
ہے سونا سونا حقیقت میں پو ر پور اس کا
سمجھ رہا ہے یہی وہ مگن ہے گہنوں میں
مجھے لپیٹ لیا اس نے اپنی چادر میں
مرا شمار کہاں رہ گیا برہنوں میں
وہ آب جو تھی سمندر سے ہمکنار ہوئی
زمیں پکار رہی تھی اداس لحنوں میں
یہ قافیے ہیں غزل کے !یہ حرکتیں کیا ہیں !!
یہ چاند اور یہ سورج ہیں خیرؔ گہنوں میں
٭٭٭
اب وہ دلّی ہے نہ لاہور چنا جور گرم
خاک اڑتی ہے ہر اک اور چنا جور گرم
جنگلوں میں بھی تو بارود بچھی رہتی ہے
رقص کرتے نہیں اب مور چنا جور گرم
خون میں جس کو نہا نے کا ہنر آتا تھا
ہے پسینے میں شرا بو ر چنا جور گرم
پھر سرفراز ہوئے آ کے نکالے ہوئے بت
پھر اٹھا شور چنا جو ر چنا جور گرم
رات کی کوکھ سے سورج کو جنم لینا تھا
ہم نے دیکھی ہی نہیں بھور چنا جور گرم
عزتیں شہر میں نیلام ہوئی جاتی ہیں
عشق بے چارہ ہے کمزور چنا جور گرم
ہے سرِ ظل الٰہی پہ گِدھوں کا سایہ
ہو گئے ڈھیر سبھی ڈھور چنا جور گرم
دم لیا تھا نہ ابھی میر کے گھر والوں نے
پھر گھٹا چھائی ہے گھنگھور چنا جور گرم
اک لٹکتی ہوئی تلوار کے نیچے سر ہے
ٹوٹ جائے نہ کہیں ڈور چنا جور گرم
ہجرتیں راس بھلا سب کو کہاں آتی ہیں
وہ بھی ہیں زندہ و در گور چنا جور گرم
خیرؔ صاحب یہ نرا جوش بُرا ہوتا ہے
آپ بھی ہو گئے منہ زور چنا جور گرم
٭٭٭
بے اختیار آنکھ سے نادیدہ دیکھنا
پُرکھوں کی جائیداد کو بوسیدہ دیکھنا
دیدہ دلیری سر بے دیدہ دیکھنا
بے آب آئینے میں ہے غلطیدہ دیکھنا
پانی پہ خد و خال کے سب جھول کھل گئے
کیا کیا ہے اپنے آپ سے پوشیدہ دیکھنا
پردہ عذاب ہے پس پردہ عذاب ہے
مشکل ہے ماورائے دل و دیدہ دیکھنا
بے آب و بے گیاہ علاقے میں آ گئے
کیا دن دکھا گیا سرِ شوریدہ دیکھنا
اک لذت تمام ہے آنکھوں کے واسطے
بے خواب دیکھنا تجھے خوابیدہ دیکھنا
ہم نے سب اپنا درد ہنسی میں اڑا دیا
اچھا نہیں لگا اسے رنجیدہ دیکھنا
پڑتی ہے جب بھی شوخ مناظر پہ یہ نظر
آتا ہے یا د وہ ترا دزدیدہ دیکھنا
تو تو ہے شوخ طبع بلا کا رؤف خیرؔ
خود اک مذاق ہے تجھے سنجیدہ دیکھنا
٭٭٭
اٹھے ہیں تیل کی ترائی سے
دوستی کو دیا سلائی سے
کیسا پربت بنا ہے رائی سے
لیجے پھر ٹھن گئی ہے بھائی سے
خوش گمانی سے ہم نے کام لیا
اس نے دھوکا دیا صفائی سے
ہم مہاجر نہ تم کوئی انصار
بات کر لو ذرا بھلائی سے
خیر اپنی منار ہا ہے غیر
میں جو الجھا ہو ا ہوں بھائی سے
بے وفا خیرؔ ہم بھی تھے لیکن
دُکھ ہو ا اس کی بے وفائی سے
٭٭٭
میں خال رخ ہوں حق میں ترے چشم بدکے ساتھ
یہ صفر بھی شمار میں رکھنا عدد کے ساتھ
قرأت میں اک جلال، کتابت میں اک جمال
تو حرفِ خوش نوا ہے مزہ دے جو مد کے ساتھ
ہے اک کھیل آمد و رفتِ خمارِ گُل
سودا یہ پٹ گیا تو ہے دل کا خرد کے ساتھ
مخطوطۂ بدن ہو کہ مکتوب دلِ نظر
پڑتی ہے کس خلوص سے کس شد و مد کے ساتھ
ناخن پہ کوئی بار نے ٹھیری کبھی گِرہ
دست ہنر نبھاتا رہا نیک و بد کے ساتھ
وہ حرفِ ماورائے سخن جانتا نہیں
مشکل یہی ہے ذائقۂ نا بلد کے ساتھ
مسجد نہ خانقاہ کے ہم سے خراب حال
اٹھیں ادب کے ساتھ جو بیٹھیں تو حد کے ساتھ
تم خیرؔ جو بھی ہو مری پہچان بھی تو ہو
میں تو بجائے خود ہوں سبب بھی وتد کے ساتھ
٭٭٭
دہلیز پر کھڑا ہے لہو، رنگ آفتاب
کب تک رہو گے یونہی خرابِ خمار خواب
مائل کبھی حجاب تو حارج کبھی نقاب
وہ کھل نہیں سکے کہ ہے دنیا بڑی خراب
ہے کس کو ہوش کو ن سا پل کٹ گیا کہاں
اب عمر رائیگاں کا نہ مانگا کرو حساب
یہ ضد ہوا کو ہے میرا خیمہ اکھاڑے گی
یہ ضد زمین کو مری مٹی نہ ہو خراب
چڑیا درخت پرتو نہیں دسترس میں ہو
بہتر ہے ہاؤ ہو، سے تو اک حرفِ دستیاب
حرفِ نجات و توبہ سے مشرق کو عار ہے
مغرب سے او ر کیا نکل آئے گا آفتاب
اس شہر شور میں ہے غنیمت رؤف خیرؔ
ایک یارِ خوش سخن تو کم از کم ہے دستیاب
٭٭٭
چھاؤں میں بیٹھے ہوئے جھُلسے زیادہ
مسئلے گھر میں ہیں کا بل سے زیادہ
بوئے گل ٹھہری کہاں گل سے زیادہ
ہم نے جانا ہے تجاہل سے زیادہ
یہ حقیقت ہے تخیل سے زیادہ
حسن پتھر میں بھی ہے گل سے زیادہ
ایک حرفِ نارسا اور کچھ نہیں ہے
بیچ میں ٹوٹے ہوئے پل سے زیادہ
راستہ سب کچھ نہیں منزل بھی تو ہے
جزو میں لذت نہ لے کُل سے زیادہ
اب کھلا ہم پر نہیں ہے مول اپنا
اک ترے حرفِ تامل سے زیادہ
کب ہیں سرگرداں بدن کے واسطے ہم
مل ہی جاتا ہے تو کل سے زیادہ
اہمیت ہے خیرؔ انداز نظر کی
شعر میں رنگ تغزل سے زیادہ
٭٭٭
شہر میں اتنے پیارے اپنی کس خوبی سے ہوئے
قابلِ رشک و خوش قامت تیری محبوبی سے ہوئے
یوں تو مسائل سب اپنے طے خوش اسلوبی سے ہوکے
باقی جتنے فتنے تھے سیدھے سر کوبی سے ہوئے
پیرہنِ یوسف نے کیا راز تمہارا فاش تمام
تم وہ بھائی کہ شرمندہ دیدۂ یعقوبی سے ہوئے
خیرؔ یہی نا آخر مقتول ہی اپنے قاتل تھے
دھبے دامن و خنجر سے غائب کس خوبی سے ہوئے
٭٭٭
غریب شہر سے اتنے تپاک نہ مِلو
جو تم ہوا کا ہو جھونکا تو خاک سے نہ مِلو
ہنر ہزار کفِ کوزہ گر سے کھلتے ہیں
یہ کیا کہ خاک ہی ٹھیر ے تو چاک سے نہ مِلو
ہزار آنکھیں ہیں جیسے لگی ہوئی ہم پر
نظر لگے نہ کہیں انہماک سے نہ مِلو
نہ وحشتوں کی خبر ہو نہ دامنوں کی تمہیں
اگر ہمارے گریباں کے چاک سے نہ مِلو
بری کچھ اتنی بھی آلودگی نہیں ہوتی
گمانِ پاک لئے مشتِ خاک سے نہ مِلوں
بچھڑنے والو جدائی کا حوصلہ ہے ہمیں
خبر کی طرح کسی روز ڈاک سے نہ مِلو
پتہ نہیں تمہیں کس بات پر ہے ناز اتنا
ہیں کج کلاہ بڑے ہم بھی، ناک سے نہ مِلو
فسادِ ذہن و لبِ زہر آشنا لے کر
رؤف خیرؔ کے شہدابِ تاک سے نہ مِلو
٭٭٭
کیسا مچا ہے گھر میں ذرا شور دیکھنا
فرصت سے پھر کراچی و لاہور دیکھنا
دیتا نہیں ہے زیب کسی اور دیکھنا
جہدِ مسلسلِ مگس و مور دیکھنا
پہلے خود اپنی آنکھ کا تنکا تو دور کر
پھر دستِ خوش حنا میں کوئی چور دیکھنا
آخر یہ کیسی خاک سی اڑتی ہے چارسو،
بادِ شمال کیوں ہوئی منہ زور دیکھنا
دیوار ڈھائے گی کہ کوئی فصل لائے گی
ہر سو، گھٹا تو چھائی ہے گھنگھور دیکھنا
اپنے پروں میں مست ہے پیروں کو بھول کر
رقصاں ہے کس مزے سے ابھی مور دیکھنا
دیکھو نہ یوں پھندوں میں گرہ ڈال کے مجھے
ٹوٹے نہ درمیاں سے کہیں ڈور دیکھنا
میرے مذاقِ حسن میں شامل ہے عشق بھی
ہر طرح سوچ لو تو مری اور دیکھنا
یاران بدگماں کو یہ حسرت ہی رہ گئی
مجھ کو اسیر لمحۂ کمزور دیکھنا
ہم جانتے ہیں خیرؔ یہ سب کس کی آنکھ ہے
یہ اور دیکھنا نہ ترا چھور دیکھنا
٭٭٭
بڑے بڑوں نے لکھا ہے یہی قصیدہ تو
اٹھاؤ آنکھ پڑھو حسن کا صحیفہ تو
عجیب میٹھی کسک ہے روئیں روئیں میں رواں
متاعِ جاں ہے دھڑکتا ہوا کلیجہ تو
لبِ نشاط سے پھوٹا ہے زم زمِ شہداب
حصارِ جسم سے باہر نہیں ہے کعبہ تو
نہ پھول آئینہ دارِ بدن نہ رنگِ شفق
حضورِ حسن ہے پھیکا ہر استعارہ تو
یہ تھرتھراتے ہوئے لب یہ سرسراتا بدن
تمہارے نام معنون ہیں من و سلوی تو
یہ کھلکھلاتا ہوا چہرہ، بولتی آنکھیں
وہ خود کو یاد نہ رکھے تمہیں جو دیکھا تو
نشہ سا آتا ہے اک تم کو دیکھ لینے سے
نشاطِ حرف و صدا تم سے بات کرنا تو
یونہی نہیں ہوئے کچھ ہم تمہارے گردیدہ
خرید لیتا ہے ہم کو تمہارا لہجہ تو
یہ واقعہ ہے ستارے سے تم نہیں منسوب
تمہارے نام سے منسوب ہے ستارہ تو
چلے ہی آتے ہیں تشنہ دہان خوش نظری
تمہاری ذات میں سمٹا ہوا ہے، دریا تو
ہجومِ جلوہ سے خلوت میں ٹوٹتا ہے بدن
نیا ہے ذوقِ نظارا ذرا سنبھلنا تو
وصال یار سے بڑھ کر نہیں کوئی ساعت
رؤف خیرؔ نے فی الحال اتنا جانا تو
٭٭٭
دامن نہ پساریں یہ ارادہ بھی رہا ہے
کیا لینا جو وہ ہاتھ کشادہ بھی رہا ہے
اندازۂ طرفِ صفِ اعداء بھی رہا ہے
شب خون کا امکان زیادہ بھی رہا ہے
ہیں مارے ہوئے ہم تو تری خوش بدنی کے
ناکام ہی کچھ تیرا لبادہ بھی رہا ہے
لکھ لکھ کے کئی نام مٹانے بھی پڑے ہیں
یہ دل کہ بہت صفحۂ سادہ بھی رہا ہے
ہر فلسفۂ عہد ہوا حرفِ مکرر
اس طرح ترا ذکر زیادہ بھی رہا ہے
کس شخص کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے پیالہ
دیکھو تو وہ شائستۂ با دہ بھی رہا ہے
دراصل کبھی مات نہ کھانے کا ہنر سیکھ
فرزیں کے مقابل تو پیادہ بھی رہا ہے
کس کوچۂ سربستہ میں حیراں ہو، نہ بھولو
اک شخص سے لوٹ آنے کا وعدہ بھی رہا ہے
ہم خیرؔ اسی ضد میں تو آگے نکل آئے
سنتے تھے کہ مشکل ترا جادہ بھی رہا ہے
٭٭٭٭
آپ اپنے سے دوستی قبلہ
بند آگے ہے یہ گلی قبلہ
خام پرواز و رنگِ خام کا نام
ایک تتلی نچی کھچی قبلہ
کب کبوتر کو راس آتی ہے
اِن عقابوں کی دوستی قبلہ
میرے اندر بھی بھیڑیا ہے کوئی
ہے اگر تم میں لومڑی قبلہ
دھیرے دھیرے مگر بیا کی طرح
گھر بناتی ہے بد ظنی قبلہ
آخرش دھوپ سو گئی تھک کر
شام تک ساتھ ساتھ تھی قبلہ
زندگی دلفریب گڑیا ہے
وہ بھی بارود کی بنی قبلہ
راکھ میں ڈھونڈتی ہے چنگاری
کیا غضب ہے، یہ آس بھی قبلہ
اپنے ہونے کا کچھ یقین آئے
خط تو لکھئے کبھی کبھی قبلہ
کوچۂ فن میں ہو نہیں سکتا
کوئی فنکار آخری قبلہ
خیرؔ درسِ عروض دیتے ہیں
کر کے بے بحر شاعری قبلہ
٭٭٭
اڑتے تھے آسماں میں کبوتر یہاں وہاں
بے بال و پر ہیں اب وہ زمیں پر یہاں وہاں
موسم بڑا سہانا ہے باہر یہاں وہاں
کیسی شکت و ریخت ہے اندر یہاں وہاں
کوئی اثر رتوں کا بدن پر نہیں رہا
کیا دیکھتے ہو اب اسے چھوکر یہاں وہاں
دستِ ہوا میں آ نہ سکا دامنِ چراغ
دیکھا ہزار بار اُلجھ کر یہاں وہاں
سورج یزیدِ وقت کی صورت نکل پڑا
بکھرے پڑے ہیں خواب بہتّر یہاں وہاں
چلتا ہے ساتھ ساتھ کوئی ہاتھ تھام کر
کھاتے نہیں ہیں ہم کبھی ٹھوکر یہاں وہاں
یہ بولتا بدن کہیں پتھر کا ہو نہ جائے
اک آگ سی لگی ہے برا بر یہاں وہاں
ہے زندگی کہ ڈار سے بچھڑا ہوا ہرن
رہ رہ کے دیکھتا ہے بدک کر یہاں وہاں
بے چہرگی سے اپنی پریشاں ہو کس لئے
آئینے ہیں تمام مکدر یہاں وہاں
کوئی تو پھل کبھی تو گرے گا رؤف خیرؔ
پیڑوں پہ مارتے رہو پتھر یہاں وہاں
٭٭٭
یوں ہی راز و نیازِ نا معلوم
کب تک اے دلنواز نا معلوم
یوں کبوتر کھُلے نہ چھوڑ اپنے
اِن پہ جھپٹے گا بازِ نا معلوم
فیصلے ڈھل گئے فسانوں میں
تب کھلا سازِ بازِ نا معلوم
خاکساردں سے بھی ملا کیجئے
جائیے تا فرازِ نا معلوم
آنکھ میں بال پھڑ گیا جیسے
ساتھ ہے حرص و آزِ نا معلوم
میں بڑا سخت جان ہوں ، تیرا
درد ہے یا گدازِ نا معلوم
بد گمانی بڑی بُری شئے ہے
کھولتی ہے محاذِ نا معلوم
کون جانے اسے کہاں چھوڑا
لے اڑا تھا جہازِ نا معلوم
ٹوٹنے پھوٹنے نہیں دیتا
جذبۂ اِرتکاز نا معلوم
میرے بارے میں گھڑ گیا کیا کیا
اک فسانہ طرازِ نا معلوم
خیر ؔ گرنے ہمیں نہیں دیتا
ایک دستِ درازِ نا معلوم
٭٭٭
کہ سحرِ سامری وقت چل نہ پائے گا
یہ سانپ میرے عصا کو نگل نہ پائے گا
جو حرف حرف کھلونوں میں ڈھل نہ پائے گا
کسی کتاب سے بچّہ بہل نہ پائے گا
وہ میرا دوست سہی جھول جھول ہے آخر
اُسے سنبھالنے والا سنبھل نہ پائے گا
مرا چراغ تو آندھی میں بھی سلامت ہے
انھیں گمان یہی تھا کہ جل نہ پائے گا
چلا ہے لے کے کہاں تہ شرار بو لہبی
کہ برف زار میں یہ بچ پھل نہ پائے گا
انا کے ریشمی تاروں سمیت اُبال اُسے
وہ اپنے خول سے باہر نکل نہ پائے گا
ہمیں تلاش کتابوں میں اور سینوں میں
مشاعروں میں ہماری غزل نہ پائے گا
زمانے بدلیں گے موسم بھی فلسفے بھی مگر
یہ حرفِ خیرؔ کا سکہ بدل نہ پائے گا
٭٭٭
کیسی ہوا بدل کے اچانک ہی رہ گئی
سر کھو گیا کلاہ مبارک ہی رہ گئی
مانگی جو آفتاب سے پہچان کی دلیل
محرابِ ہر چراغ میں کالک ہی رہ گئی
کیا کیا سکون لذت لا علمیت سے تھا
خود آگہی کہ جان کی گاہک ہی رہ گئی
تھا شانت بھی اشانت بھی ساگر سا وہ بدن
یادش بخیر سینے میں ٹھنڈک ہی رہ گئی
ٹھیرا ہر ایک جرعۂ زہراب رائیگاں
بے انت پیاس تو میرا مسلک ہی رہ گئی
بین السطور تم نے پڑھا بھی نہیں مجھے
تم سے جو بات کہنی تھی گنجلک ہی رہ گئی
شاید اب اس مکان میں رہتا نہیں کوئی
پاگل بنی ہوئی مری دستک ہی رہ گئی
گل وہ ہنر چراغ گجر دم تو ہو گیا
تحسین نا شناس کی کالک ہی رہ گئی
تھے سو چراغ ایک سیاہی کی بوند میں
ممنوع ہو کے خیرؔ وہ پُستک ہی رہ گئی
٭٭٭
اگر یہ سچ ہے کہ سچائیاں نہیں بکتیں
مری دوکان پہ بیساکھیاں نہیں بکتیں
گھروں سے کٹ گئے کچھ بھائی راستوں میں کٹے
سو اہتمام سے اب راکھیاں نہیں بکتیں
سروں کو مفت ہی ملتی ہیں گولیاں کیا کیا
سڑک پہ دیکھو تو ترکاریاں نہیں بکتیں
حروف سیکھ کہ ہر در پہ قفل ابجد ہے
رہے خیال کہیں چابیاں نہیں بکتیں
یہ منتظر ہیں کنویں پر کلیم ہی کیلئے
خطا معاف کبھی لڑکیاں نہیں بکتیں
خرید لیتے ہیں دنیا خریدنے والے
یہ تم سے کس نے کہا دوریاں نہیں بکتیں
وہ ہو جہنم روحاں کہ جنتِ آدم
بدستِ سرد کہیں گرمیاں نہیں بکتیں
یہاں پہ ہاتھ قلم کر دئے گئے ہیں کئی
سو اس نگر میں کہیں تختیاں نہیں بکتیں
یہ مال مفت ملا اور دوستوں سے ملا
کہیں بھی پیار بھری گالیاں نہیں بکتیں
٭٭٭
آسماں کے نہ ہوئے اور زیں کے نہ رہے
آج ہم تجھ سے بچھڑ کر تو کہیں نہ رہے
کون کہتا ہے کہ اصحابِ یمیں کے نہ رہے
ہم وہ حُر ہیں جو کبھی شمرِ لعیں کے نہ رہے
آسمانوں کی بلندی پہ نظر ہے اس کی
اب وہ انداز ترے خاک نشیں کے نہ رہے
لوگ کیا سادہ ہیں ہر بت کو خدا کہتے ہیں
یہ تقاضے ہی کبھی اپنی جبیں کے نہ رہے
نام لکھتے ہیں فقط پرکھوں کی دیواروں پر
خوش گمان ہیں وہ کچھ اتنے کہ یقیں کے نہ رہے
خیرؔ وہ چہرے نقابیں ہیں انا کی جن پر
آئینے کے نہ رہے آئینے بیں کے نہ رہے
٭٭٭
جو ہو جہاز بھی زد میں تو ڈھیر ہوتا ہے
فضا میں ایک پرندہ بھی شیر ہوتا ہے
اُدھر ہے مہر اِدھر تا بکار اک ذرّہ
جسے زوال نہیں تھا وہ زیر ہوتا ہے
ہمارے دل میں اترتی نہیں دماغ کی بات
کہ یار اس میں بڑا ہیر پھیر ہوتا ہے
تمام دشت و جبل ریت کے گھروندے ہیں
تمہارا چاہنے والا دلیر ہوتا ہے
اب آزما بھی تماشے سے آخری اپنے
یہ سیر چشم کہاں ایسے سیر ہوتا ہے
خطا معاف کہ مشکل یہی ہے خیرؔ کے ساتھ
یہ سرفراز ہی اکثر بدیر ہوتا ہے
٭٭٭
سجی نہ انجمن خود ستائیاں اب کے
کتاب کی نہ ہوئیں رو نمائیاں اب کے
پہنچ گئی ہیں وہاں نار سائیاں اب کے
یہ ڈر ہے پاٹ سکیں گے نہ کھائیاں اب کے
جگہ جگہ تو ہوتیں وہ لڑائیاں اب کے
دُہائی دیتی ہیں سونی کلائیاں اب کے
سفید آنکھ میں سارے سیاہ منظر ہیں
عذاب ہو گئیں کیا کیا ترائیاں اب کے
نظر پہ کھل گئیں عریانیاں تمام اس کی
بچا سکیں نہ اسے خوش نمائیاں اب کے
ہماری خاک سے نکلیں نشانیاں کیا کیا
کہ رائیگاں نہ گئیں کچھ کھدائیاں اب کے
یہ فاصلے کوئی دشوار اس قدر تو نہ تھے
پہاڑ بن گئیں بے نام رائیاں اب کے
نہ جانے کس کی دعا کام آ گئی ورنہ
ہماری جان ہی لیتیں دوائیاں اب کے
وہ ہم سے خاک نشینوں کا ہم نشیں نکلا
تو سر فراز ہوئی ہیں چٹا ئیاں اب کے
ہمارا بھائی بھی سمجھا نہیں ہمیں بھائی
سو دل دکھا تو دکھا انتہائی یاں اب کے
کچل گیا ہے سر راہ نو جوان کوئی
کہ لٹ گئی ہیں کسی کی کمائیاں اب کے
رؤف خیرؔ نے چپ سادھ لی ہے یہ کیسی
کہ کھل رہی ہیں بہت بے نوائیاں اب کے
٭٭٭
بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو
چاہے رئیسِ شہر کی بولی ہی کیوں نہ ہو
احسانِ رنگِ غیر اٹھا تے نہیں کبھی
اپنے لہو، سے کھیل وہ ہولی ہی کیوں نہ ہو
سچ تو یہ ہے کہ ہاتھ نہ آنا کمال ہے
دنیا سے کھیل آنکھ مچولی ہی کیوں نہ ہو
ہے آسماں وسیع، زمیں تنگ ہی سہی
تعمیر کر کہیں کوئی کھولی ہی کیوں نہ ہو
حق پر جو ہے دہی سر و شانہ بلند ہے
ہے ورنہ بے بساط وہ ٹولی ہی کیوں نہ ہو
دریا کی کیا بساط کہ مجھ کو ڈبو سکے
کشتی کہیں کہیں مری ڈولی ہی کیوں نہ ہو
تلخی میں بھی مزہ ہے جو جو تو خوش مذاق ہے
پک جائے تو بھلی ہے نمبولی ہی کیوں نہ ہو
کچھ تو حدیثِ خیرؔ سمجھنے کے کر جتن
ہر چند بے مزہ مری بولی ہی کیوں نہ ہو
٭٭٭
یہ مسئلہ تو حل بخدا کب کا ہو گیا
جو باغ دقت ہو گیا وہ سب کا ہو گیا
کرنے لگا ہے چاند ستاروں پہ لعن طعن
یہ حوصلہ بھی ماتمی شب کا ہو گیا
کب تک رہے گا بندیو بہی خول سے نکل
بوسیدہ یہ مکان جد و اب کا ہو گیا
ہے کوئی خوش گمان تو کوئی ہے بد گمان
کیسا کمال حرفِ مذبذب کا ہو گیا
کرنے لگا ہے ٹائی لگی ہم سے گفتگو
وہ شخص جب سے شہر مہذب کا ہو گیا
یلغار قلب پر ہے یمین و یسار کی
ہر شخص کو جنون سا مذہب کا ہو گیا
سارے سخن دھرے کے دھرے رہ گئے وہاں
میں تو رؤف خیرؔ مخاطب کا ہو گیا
٭٭٭
وہ خوش سخن تو کسی پیروی سے خوش نہ ہوا
مزاجِ لکھنوی و دہلوی سے خوش نہ ہوا
ملال یہ ہے کہ آخر بچھڑ گیا مجھ سے
وہ ہم سفر جو مری خوش روی سے خوش نہ ہوا
تجھے خبر بھی ہے کیا کیا خیال آتا ہے
کہ جی ترے سخنِ ملتوی سے خوش نہ ہوا
فقیر شاہ نہیں ساز ہوتا ہے
یہ خوش نظر نگہِ خسروی سے خوش نہ ہوا
وہ آدمی ہے جو آبِ حیات کا پیاسا
شراب عیسوی و موسوی سے خوش نہ ہوا
وہ کم سخن تو مرا دشمنِ سخن نکلا
غزل سے خوش نہ ہوا مثنوی سے خوش نہ ہوا
اسی کو آیا سر آنکھوں پہ بیٹھنے کا ہنر
جو اپنی حیثیتِ ثانوی سے خوش نہ ہوا
رؤف خیرؔ بھلا تم سے کیسے خوش ہو گا
وہ مولوی جو کسی مولوی سے خوش نہ ہوا
٭٭٭
دو چار ہے نئی اُلجھن سے آج دیوانہ
نہ شہر شہر ہے ویرانہ ہے نہ ویرانہ
پیمبروں کو بھی ہجرت پہ کر گئی مجبور
پلٹ کے آئے تو خاک وطن نے پہچانا
ہنر وروں کے انگوٹھے تراش ڈالے ہیں
نوازشوں پہ جب آیا مزاجِ شاہانہ
حریف سامنے کھل کر کبھی نہیں آتا
رکھیں تو کس سے رکھیں چشمکِ حریفانہ
نظر میں پھر تی ہے شاذؔ و اریبؔ کی صورت
ہمارے ہاتھ سے اٹھتا نہیں ہے پیمانہ
رؤف خیرؔ اگر ہے سخن کا چسکا ہی
نکالئے کوئی انداز بھی جُدا گانہ
٭٭٭
گزرتی رُت نے ہمارا خیال رکھا ہے
کہ بوئے خوش خبری سے نہال رکھا ہے
ہمارا ہاتھ ابھی آگہی کے ہاتھ میں ہے
اس آگہی نے ہمارا خیال رکھا ہے
ہمیں یہ بھول بھلیاں ڈرا نہ پائیں گی
ہتھیلیوں میں لکیروں کا جال رکھا ہے
لہو، ہے گرم تو میدان کار زار میں آ
یہ کیا کہ خیمۂ خالی سنبھال رکھا ہے
نمو، جو ہے تو سرِ شاخِ زمہریر بھی کھل
مجھے ہوا نے بہت پائمال رکھا ہے
وہ میرا بھائی ہے کیا میں بھی اُس کا بھائی ہوں ؟
اسی سوال نے الجھن میں ڈال رکھا ہے
نکل ہی آئے گا میرا ستارۂ سحری
سوادِ شب نے کِسے یرغمال رکھا ہے
یہ حرفِ خیرؔ کوئی دفترِ سیاہ سہی
سخن کے چہرے پہ تِل کی مثال رکھا ہے
٭٭٭
ایک نظم
ابھی ہے زینۂ اوّل پہ آفتاب ہُنر
میں چل رہا ہوں ادھر رامگر ہے میرا سفر
ہنر کے جال بچھے ہیں زمیں کے سینے پر
جگہ جگہ ہیں کمیں گا ہیں آسمان میں بھی
عجیب طرح کی لذّت ہے امتحان میں بھی
بلا کا جوش بڑا حُسن ہے اُڑا ان میں بھی
میں اڑا رہا ہوں کہ پرواز نا مکمل ہے
نیاز ادھور ا ہے او ر نا ز نا مکمل ہے
پہنچ نہ پائے تو آواز نا مکمل ہے
بڑی طویل عبارت ضرور ہوتی ہے
جو بات ہوتی ہے بین السطور ہوتی ہے
٭٭٭
وصیّت
یہ واقعہ ہے کہ میں ابن بے اثاثہ ہوں
تمام روئے زمیں جائیداد ہے میری
یہ جائیداد نہایت حقیر ہے پھر بھی
یہ جائیداد ترے نام ہے مرے بیٹے
یہ مشورہ بھی ہے میرا قبول کر لینا
ہمارا باپ نکالا گیا تھا جس گھر سے
میں بک گیا ہوں اُسی جائیداد کی خاطر
وہ گھر کہ جس کی کوئی تو لیت نہیں ہوتی
وہ گھر کہ جو کبھی ملتا نہیں وراثت میں
وہ جسم و جاں کے عوض بھی ملے تو لے لینا
٭٭٭
ویڈیو گھر
دائیں بائیں آگے پیچھے
کیمرے ہی کیمرے کیسٹ ہی کیسٹ
اک ذرا ہلچل ہوئی اور کیمرے چلنے لگے
اک ذرا آہٹ ہوئی ، محفوظ ہو کر رہ گئی
کیمرے کی آنکھ سے بچنا کہاں آسان ہے
ہاتھ کی وارفتگی محفوظ ہے
بے خودی پابستگی محفوظ ہے
آنکھ کی شائستگی محفوظ ہے
سانس کی وابستگی محفوظ ہے
گوش بر آواز دہ کیسٹ بھی ہیں جو
کیمرے میں نصب ہیں
کیمرے میں دن کی اک اک بات ہے
کیمرے کی زد میں ہر اک رات ہے
کیمرے میں پاؤں کی ہر موچ بھی محفوظ ہے
دردِ دل محفوظ بلکہ سوچ بھی محفوظ ہے
ہاں ہوا ہیں ہاتھ لہراؤ مگر دوسرے کی ناک زخمی مت کرو
اس زمیں پر پاؤں پھیلا ؤ مگر پاؤں پر پاؤں کسی کے مت دھرو
شور کرنے کا تمہیں حق ہے مگر
دوسروں کو نیند کا حق بھی تو دو
آف ہوتے ہی نہیں یہ کیمرے
آن رہتے ہیں یہ کیسٹ ہر گھڑی
بھاگ کر اُن سے کہاں تک جاؤ گے
کیمرے میں دن کی اک اک بات ہے
کیمرے کی زد میں ہر اک رات ہے
ری پلے دیکھو
مگر جانے کی اب کوئی بھی گنجائش
کوئی صورت نہیں ہے
کیمرے کی آنکھ کیسٹ کا شکم
شاہد و مشہور اپنے محترم
ہاتھ پاؤں آنکھ پیشانی لب و رخسار
سارے جسم میں ہیں کیمرے ہی کیمرے
کیسٹ ہی کیسٹ
تم بجائے خود ہی ہو اک دیڈ یو گھر
دیکھنا کس کس کو جھٹلاتے رہو گے
کیمرے کی آنکھ سے دامن بچانا ہے محال
ری پلے کو دھیان میں رکھ کر ہنسا کرتے رہو
اپنا حصہ حسن و خوبی سے ادا کرتے رہو
٭٭٭
فا لو آن
وہ بہو تھی روایتی ۔ ۔ اکثر
ساس کی جوتیاں بھی کھاتی تھی
جھڑکیاں بھی خسر کی سہتی تھی
اور شوہر سے کچھ نہ کہتی تھی
جبکہ اب ساس بن چکی ہے وہ
صبح اٹھ کر نماز پڑھتی ہے
گھر کے سب کام کاج کرتی ہے
چاروں اکّے بہو کے ہاتھ میں ہیں
اور بیٹا ہے تاش کے گھر میں
٭٭٭
خط
میں اس کے نام
سیہ پانیوں میں
ایک کاغذی کشتی
بہا کے دیکھ رہا ہوں
ہو ا کا رُخ کیا ہے ؟
٭٭٭
اک نام
تمہارے سامنے کاغذ پڑا تھا
پین کھلا تھا
بے خیالی میں نہ جانے تم نے کیا کچھ
لکھ دیا تھا
ریگاب
سمندر کے اس پار ریگاب تو ہے
مگر یہ بھی سچ ہے
نموٗ ہی نموٗ ہے
میں بنجر زمینو/ں میں کیا بو رہا ہوں
یہاں واقعی رائیگاں ہو رہا ہوں
٭٭٭
اکویریم
ایک اکویریم میں بہت پیاری مچھلی تھی
پھر جانے کیا کو گیا
کیسا دھکاّ لگا
گرکے ٹوٹا وہ اکو یریم ۔ پانی سب بہہ گیا
قبل اس کے کہ وہ آخری سانس لے
میں نے اپنی ہتھیلی میں تھوڑا سا پانی لئے
آخری سانس لیتی ہوئی خوبصورت سی مچھلی کو
جینے کا اک حوصلہ تو دیا
پھر تو سچ مچ ہی وہ جی اُٹھی
گھر کے کونے میں چھوٹا سا جو حوض تھا
اس کے حق میں سمندر تھا
پھر یوں ہوا۔ حوض کا پانی گدا لا گیا
میں نے سوچا کہ اس خوب صورت سی مچھلی کو
بے خوض کرنے سے بہتر یہی ہے کہ
تالاب میں چھوڑ دوں
وہ صدف جیسی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہ گئی
اور میں اپنی آنکھوں میں موتی لیئے
اس کی آنکھوں کی ہر التجا سے گزر تا گیا
اور پھر یوں ہوا
گھر کے پیچھے جو تالاب تھا
اس کا پانی بھی سب سڑ گیا
اور پھر اس سے پہلے کہ وہ خوبصورت سی مچھلی
کہیں آخری سانس لے
میں نے اسکو سمندر حوالے کیا
وہ صدف جیسی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہ گئی
اور میں اپنی آنکھوں میں موتی لئے
اس کی ہر الجتا سے گزرتا گیا
کل اچانک ملاقات ہونے پہ مچھلی نے مجھ سے کہا
اس سمندر سے بہتر وہ اکو یریم تھا
جہاں کم سے کم میری پہچان قائم تھی
پھر وہ صدف جیسی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہ گئی
اور میں اپنی آنکھوں میں موتی لئے
اس کی آنکھوں سے نظر یں چراتا ہوا
ٹوٹے اکویریم کی جو کر چیں تھیں
پلکوں سے چنتا رہا
٭٭٭
فالو آن(۲)
ایک بدوی نے اٹھا یا تھا سوال
آپ کے تن پر امیرالمومنین
چادریں دو دو کہاں سے آ گئیں
تب دیا تھا اس کو بیٹے نے جواب
اپنے حصّے کی انھیں میں نے ہی دی
٭٭٭
دوسرا منظر
اسے مرے خیاّط میرے دوست سن
کاٹ لوں گا میں یو نہی اس سال بھی
میرے بچوں کو نیا ملبوس سی
چلو اک ذرا جائزہ لے کے دیکھیں
ستارے کہاں سانس لینے رکے ہیں
کہاں سانپ ہیں فاختائیں کہاں ہیں
کہاں میں وہ معصوم ہرنوں کی ڈاریں
کہاں بھیڑیے ان کے پیچھے پڑے ہیں
کہاں مچھلیاں بن رہی ہیں غذا مچھلیوں کی
کہاں مکڑیاں جال بننے لگی ہیں
کہاں مرغیاں اپنے چوزے پروں میں چھپا کر
گِدھوں کے مقابل ڈٹی ہیں
یہ وہ سرزمیں ہے کہاں سانپ بھی
توڑ کر پی رہے ہیں پرندوں کے انڈے
کہاں پا برہنہ چلے جا رہے ہیں
ڈھلا نوں سے اٹھ کر پہاڑوں کی جانب
جمی برف میں تخمِ بارود بونے
کہاں آگ پھیلی ہوئی ہے
کہاں گھر کے گھر جل رہے ہیں
کہاں حُسن کی دیویاں جل رہی ہیں
یہ باپوؔ کی نہروؔ کی آزادؔ کی سرزمیں
یہ اہنسا کی وادی
یہ تہذیب کا اک نشان
حِلم کا خطۂ بے کراں
مجھے لگ رہا ہے کہ یہ تو لباسوں کا اک شہر ہے
ان لباسوں کے نیچے فقط زہر ہی زہر ہے
لذّتِ حرف سے نا بلد
دیکھ کر جن کو حیراں خِرد
اُگلتے ہوئے اپنی کالی زبانوں سے کالے حروف
یہ خالی ظروف
ہے شہروں میں جنگل کا قانون نافذ
ہے جنگل بھی مکاّ ر شہری سے عاجز
یہاں اپنے ہی بھائی بندوں کے سینے ہیں چھلنی
مجھے صورت حال ہے یہ بدلنی
میں جھنڈا اٹھا ے ہوئے امن کا چل رہا ہوں
چرندوں پرندوں درندوں
سبھوں سے گزارش ہے میری
مرا ساتھ دیں
ایک پرچم تلے چین کا سانس لیں
میں اپنی آواز کھو رہا ہوں
میں اپنی آواز کھو رہا ہوں
یہ کن مناظر کا بوجھ آنکھوں پہ ڈھو رہا ہوں
یہ کیسی چیخیں سماعتوں میں سمو رہا ہوں
فضا دکن میں جو معتدل تھی وہ مشتعل ہے
عجیب آندھی ہے برگِ نو خیز ہو کہ بر گد
ہے اس کی زد میں
نہیں ہے کوئی بھی اپنی حد میں
بہا چلا جا رہا ہے ہر خواب رد و کد میں
شمال شعلوں میں گھر گیا ہے
کہ ایک چنگاری برف زاروں میں بھی ہے زندہ
جو اپنی خاکستر بدن سے اٹھی تو کتنوں کے سر چڑھی ہے
چھڑے ہیں دیر و حرم کے قصّے
نہ دیر سے دیریوں کو اگلا سا پیار
اہل حرم بھی اب بے حرم بہت ہیں
وہی انا کے شکار
بے اختیار دونوں
شکار مشرق میں مہر آشوب چشم کا ہے
تمام دن سر پہ خاک ڈالے
وہ سبز منظر بھی لال آنکھوں سے دیکھتا ہے
سفید گھوڑے ہیں کالے بھوتوں کی دستر س ہیں
سفید پوشوں کے ہیں گریباں چاک
سر پر ہے خاک
بدن میں مغرب کے جو سرایت ہے زہر بے نام زخم کا ہے
وہ زخم جس کو سمندر ی پانیوں سے دھونے کی کوششیں ہو رہی ہیں
دن رات زہر وہ جو رگوں میں پٹرول بن کے گردش کرے
دھماکے کا منظر ہے
سمندر ی فیل اک اشارے کے منتظر ہیں کہ روند ڈالیں
ادھر سنبھالے ہوئے ابابیل
اپنی چونچوں میں تشنہ و تاب کا ر کنکر
بساط مشکل ہوئی ہے اک کہرۂ غلط سے
ہیں ایک گھوڑے کی زد میں شاہ و وزیر دونوں
غروب جس سر زمیں میں سورج نہ ہو سکا تھا ، وہ دم بخود ہے
انہی کو انعامِ و خلعت فاخرہ ملی ہے
جو بربریت کی ایک ننگی مثال ٹھیرے
چہار جانب انہی عناصر کی حکمرانی ہے
کون سنتا مری کہانی
میں اپنی آواز کھو رہا ہوں
وداع اب تم سے ہو رہا ہوں
مگر یہ سن لو
زبان اک گنگ ہو گئی ہو تو یہ نہ سو چو
کہ اب نہ ٹو کے گا کوئی تم کو
اگر کوئی آنکھ بجھ گئی ہو تو یہ نہ سمجھو
کہ اب نہ دیکھے گا کوئی تم کو
اگر کوئی ہاتھ کٹ گیا ہو تو یہ بھی دیکھو
ہزار ہاتھوں کا ایک جنگل اگا ہوا ہے
ہے پاؤں کوئی جو چھالا چھالا تو یہ تو جانو
کبھی کوئی راہ بے قدم بھی کہیں ہوئی ہے
وہی جیالوں کی بھیڑ سی اک لگی ہوئی ہے
٭٭٭
چھاؤں
کسی نے شاخ لگا لی ہے اپنے آنگن میں
کسی نے پھول چنے ہیں کسی نے پھل چکھّے
کسی نے چھال سے تیری بنا لیا صندل
کسی کسی نے تو پتوں سے گھر سجا ڈالا
تجھے خبر تھی کہ میں ایسا اک مسافر تھا
گھنی گھنی تری چھاؤں میں بیٹھ جاتا تھا
کہ تیری چھاؤں ہی زاد سفر تھی میرے لئے
کڑی ہے دھوپ بھی ، لمبا ابھی سفر ہی نہیں
کہاں رکوں مرے رستے میں اب شجر ہی نہیں
٭٭٭
پروازِ مشتِ خاک
کہا گیا تھا کہ تیرے ہیں پھول پھل سارے
تمام شہد کے دریا یہ دودھ کی نہریں
کہا یہ میں نے کہ میں کیا کروں یہ نظارے
مزہ تو جب ہے کوئی خوش بدن ہو پہلو میں
تو یوں ہو ا کہ بدن کی رفا قتیں بھی ملیں
بدن کے نشے کے آگے کوئی نشہ نہ ٹکا
تمام ذائقے چھوٹے پڑے سبک ٹھیرے
پھر اس کے بعد یہاں نہ تھا میوۂ ممنوع
عطا ے خاص کی صورت مجھے ملا کیا کیا
کہا۔ سنبھال کہ یہ کائنات ہے تیری
یہ جز ر د مد یہ سمندر یہ شاخ تر یہ ببول
یہ من و سلوی کی بارش یہ مائدہ کا نزول
تمام ذائقے چھوٹے پڑے سبک ٹھیرے
تو پھر یہ پیاز یہ لہسن یہ رت جگے یہ تھکن
کہا یہ میں نے ادب سے کہ اسے مرے مالک
یہ کائنات کہاں میں سنبھال کر رکھوں
نظر وسیع مگر جذبۂ قناعت دے
وہ یار خوش بدن و گوشۂ فراغت دے
کہا یہ اس نے کہ تیری دعا قبول ، مگر
وہ اک جنوں کہ جسے کائنات چھوٹی پڑے
ملال یہ ہے کہ دیوار دور میں قید ہوا!
تو یوں ہو ا کہ زمین و زماں سنبھال لیا
مکاں سنبھال لیا لا مکاں سنبھال لیا
٭٭٭
ہم اپنی رائے کیا ضائع کریں پھر
ہم اپنی رائے کیا ضائع کریں پھر
اُسے خود بھی خبر ہے جو ترازو لے کے بیٹھا ہے
کہ ہے پاسنگ اس میں
شیر سرکس کا ہے
ہاتھی زُو کا ہے
اور کیا سیکل کسی دن واقعی
ایک طیارے سے ٹکرا جائے گی؟
اور کیا ۔ یہ وہی کشتی ہے
خضر نے جس میں کیا دریا تو پار
اور پھر سوراخ کر کے رکھ دیا
اور کیا یہ وہی انساں نہیں
جو رات بھر سورج کی پوجا کر رہا تھا
اور دن کو ایک چمگاڈر کی صورت
صبح سے لٹکا ہوا ہے
یہ کنول جو گو دمیں کیچڑ کی ہے
اور کیچڑ ہی مقدر اس کا ہے
اور کیا ۔ یہ وہی سیڑھی نہیں ہے جس پہ چڑھ کے
اپنے ہمسائے کے گھر میں جھانکتے ہیں
یہ وہ ممنوعہ شجر ہے جس کا ہر پھل ہے لذیذ
اور پتے بے ٹھکا نہ پھر رہے ہیں
یہ وہی تو اونٹ ہے
(تخلیق پر جس کی خد ا نے فخر فرمایا)
کہ جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے
آنکھ والوں کے لئے یہ اور ایسی ہی کئی آیات ہیں
یہ سب اپنی جگہ فرعون ہیں ۔ خوش ہیں
یہ ہم پر رائے اپنی ٹھونستے ہیں
ہماری رائے کے محتاج بھی ہیں !
ہم اپنی رائے کیا ضائع کریں پھر؟
٭٭٭
مردِ ناداں
مجھے تسلیم ۔ ہیرے کے جگر سے نابلد ہوں
مگر یہ بھی تو دیکھو
تمہارے ہاتھ میں بھی پھول کی پتی نہیں ہے
٭٭٭
قابیل
اٹھا کے دیکھئے شاہد ہے آج تک تاریخ
کہ زندگی کا کوئی مرحلہ ہو
بھائی کو شکست بھائی کے ہاتھوں ہوئی ہے
کہ اتنی دیدہ دلیری
پر ائے خوں میں کہاں !
٭٭٭
ماں /باپ کی قبر پر
تمہاری قبر کہاں ہے مجھے نہیں معلوم
مگر گمان یہی ہے یہیں کہیں ہو گی
ہو ا ہے شہر خمو شاں بھی کس قدر آباد
کچھ اور ہی تھا یہ قبل کچھ ہو ا ما بعد
تمہاری قبر پہ کتبہ نہیں نشان نہیں
کہ اس جگہ کی نشانی ہی نے نشانی ہے
یہ وہ مکان ہے جس میں مکیں نہیں رہتا
کہ آسماں کبھی زیرِ زمیں نہیں رہتا
تمہاری قبر پہ کتبہ نہیں تو کیا غم ہے
تمہارا نام رواں ہے مرے رگ د پے ہیں
تمہارا نام تو زندہ مری زبان پہ ہے
کھڑا ہوں ہاتھ اٹھائے میں آسماں کی طرف
پکڑ رہے ہیں اُدھر تتلیاں مرے بچّے
چمک رہے ہیں اِدھر میری آنکھ میں جگنو
(ادا س ہو گئے بچّے مری اداسی سے )
تمہیں خبر ہو دیے سے دیا جلے گا ہی
ہمارے بعد بھی یہ سلسلہ چلے گا ہی
٭٭٭
شاپنگ
بے شک تھی شاہکار۔ گلہری میں گھاس تھی
گڑیا نہ لی کہ وہ تو فقط خوش لباس تھی
تصویر بولتی سہی، تصویر ہی تو تھی
چینی کا تاج خوب تھا ، ناپائدار تھا
تھا بادشاہ وقت مگر ہاتھ دانت کا
کیا کھنکھنا تا جسم تھا جو ٹوٹتا رہا
بازار کا جو مال تھاجی کو نہیں لگا
کچھ دیر اور جیب میں سکہ بڑا رہا
پھریوں ہوا کہ خیر سے گھر لوٹتے ہوئے
آنکھیں خرید لیں کسی اندھے فقیر سے
٭٭٭
چراغِ مجسّم
آیا کہاں سے لکّۂ یک ابرِ خوش خرام
چپکے سے دھول جھونک کے موسم کی آنکھ میں
دریا کے ہونٹ مل گئے صحرا کے ہونٹ سے
ہریالیاں ہیں آ ہوئے خوش رم کی آنکھ
ہے کوئی میگھ دوت کا پیغام جاں فزا
یا حرفِ انفعال ہے آدم کی آنکھ میں
صحرائے تشنہ لب پہ جو پانی کی بوند ہے
الماسِ بے بہا ہے وہ عالم کی آنکھ میں
نکتہ نواز ہے وہ سیا ہی کی ایک بوند
یا کوئی تِل ہے لوحِ مکرم کی آنکھ میں
گرداب ناچتے ہیں سمندر میں، یا شکوک
میں بے بساط آیت محکم کی آنکھ میں
بے معنی تو نہیں ہیں حروفِ مقطعاًت
ہاں کچھ توہے کتابِ مسلم کی آنکھ میں
یہ حرف نا رقم ، سخن ناگزیر ہے
وہ پڑھ ، لکھا ہو ہے جو موسم کی آنکھ میں
رونق حریم کی ہے تو نا محرموں سے ہے
ڈورے ہیں یا کپاس کے ریشم کی آنکھ میں
سورج کی آنکھ میں تو سچر کا جلال ہے
راتوں کا سب جمال ہے شبنم کی آنکھ میں
دھبّہ ہے اختیار شب رو سیاہ پر
جو بوند ہے چراغ مجسم کی آنکھ میں
دیتا ہے کوئی زخم تو کھاتا ہے کوئی زخم
ایک ایک جاں نشا رہے پر چم کی آنکھ میں
لا حاصلی کے کرب سے اٹھتا ہے اک دھواں
آنسو نہیں ہیں خوگرِ ماتم کی آنکھ میں
مچھّر کے پرسے بڑھ کے نہیں ہے یہ کرّوفر
ٹھیرا ہے جو متاع کے دجم کی آنکھ میں
انسان خیر جان سہی کائنات کی
اک ریزۂ خزف ہے چم و خم کی آنکھ میں
مومن دکھائی دے نہ مہیمن دکھائی دے
لگتا ہے بال پڑ گیا عالم کی آنکھ میں
آتش پرست آگ لگا تے ہیں برف میں
جنّت کھٹک رہی ہے جہنم کی آنکھ میں
آنکھوں کو انقلاب کا چسکا ہے کیا کریں
سب ڈھیر ہے اصولِ مرممّ کی آنکھ میں
تجھ میں چھپا ہوا کوئی سہراب ہو نہ ہو
آنکھیں ملا کے دیکھ تو رستم کی آنکھ میں
سر ہے تو سر اٹھا کے سدا سرکشوں سے مِل
سپنا کوئی نہ پال سرِ خم کی آنکھ میں
قائم ہے خیرؔ صر ف پلک مارنے تلک
جو فاصلہ ہے عزمِ مصممّ کی آنکھ میں
٭٭٭
گیت
دور نہ جا نا ان انکھیوں سے میرے من کے میت
ٹوٹ نہ جائیں سارے سپنے روٹھ نہ جائیں گیت
تیرے بنا ہر شام اکیلی رات ادھوری ہے
جیون کے ہر پگ پر تیرا ساتھ ضروری ہے
ساتھ نبھا نا ہر رُت میں ٹھیری ہے پیار کی ریت
دور نہ جانا ان انکھیوں سے …..
تو ہے تو پھولوں میں خوشبو کلیوں پر ہے روپ
تو ہے تو لگنے لگتی ہے میٹھی میٹھی دھوپ
تو ہے تو ہر مات بھی اپنی لاگے اپنی جیت
دور نہ جانا …..
تو میری پہچان ہے ساجن میں تیری پہچان
ہم دونوں اک جان ہیں ساجن تو اتنا تو جان
پریت میں کیسی دوری ساجن دوری میں کیا پریت
دور نہ جانا ان انکھیوں سے ….
٭٭٭
صبح کاذب
یہ سچ ہے جھوٹی حکایتیں /من گھڑت لطیفے
سنانے والے نے یہ کہا تھا
کہ لومڑی باز کی بہن ہے
جو شاخِ زیتون شوق سے نوش کر رہی ہے
تمام نا بستہ شیر سرکس کے اپنے
پنجروں میں جا چکے ہیں
جناب دجال ایک مہدی کے روپ میں
گاہ مشرق میں گاہ مغرب میں جلوہ فرما ہیں
اوس و خزرج میں پھر لڑائی ٹھنی ہوئی ہے
فرات گنگا میں مل رہا ہے
نشان ہر شہر ہے فلسطین بے نشاں کا
گمان کیا کیا ہے بد گماں کا
پھر اس روایت کے بعد راوی نے
یہ بھی چپکے سے کہہ دیا تھا
کہ ذکر اس کا کہیں نہ کرنا
یہ جھوٹ ہے سب یقین نے کرنا
اور اس قدر زور کا قہقہہ پڑا تھا
جو دیدۂ تر میں آ کے ٹوٹا۔ یہ سچ ہے
٭٭٭
دور درشن
سمٹ کے آ گئی دنیا تو چند انچوں میں
ہجومِ رنگ و صدا ہے غریب خانے پر
میں دیکھتا رہوں کب تک یہ آنکھ وا کر کے
مکاں کی قید تو الزام ہے زمانے پر
یہاں تو فرصت نظارگی کا ماتم ہے
ہٹاؤ ٹی وی کہ کمرہ مرا کشادہ ہو
ہٹاؤ ٹی وی کہ میں بند آنکھ سے دیکھوں
وہ سین ابھی جو کسی کیمرے کی زد میں نہیں
کمال وہ جو ابھی چینلوں کی حد میں نہیں
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید