فہرست مضامین
- شفق کے کچھ رنگ
- میناؔ نقوی
- انتخاب: توصیف ترنل، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- یہ مت سمجھنا فقیر ہوں میں
- دھوپ آئی نہیں مکان میں کیا
- وہ ہے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم
- بلندیوں کا تھا جو مسافر، وہ پستیوں سے گزر رہا ہے
- ہیں اجنبی راستوں کے منظر، شناسا کوئی ڈگر نہیں ہے
- غم نہیں ہے چاہے جتنی تیرگی قائم رہے
- خودی کو آ گئی ہنسی، امید کے سوال پر
- آساں ہر ایک ہو گئی مشکل مرے لئے
- ہیں اہلِ نظر یہاں پہ سبھی، غلط کوئی کام ہو نہ سکے
- مزاج اپنے کہاں آج ہیں ٹھکانے پر
- اہل دانش کو خبر کیا، کیا ہے پاگل کا مزاج
- سورج سرک کے آ گیا شب کی پناہ میں
- دل سے کوئی سوال کسی نے نہیں کیا
- سرد سرد موسم میں، بھیگتے اندھیرے میں زندگی گزرتی ہے
- گردشِ وقت کچھ زیرِ لب کہہ گئیٰ
- رات ماضی کے خیالات میں ڈھل جائے گی
- آشنائی کی ردا اس دھوپ میں تانے کون
- ہنر پہ بھی ہمارے عیب کی شمشیر چلتی ہے
- یہ کم تو نہیں اس کی وفا میرے لئے ہے
- یوں تو ہر سانس سے لپٹا ہے وہ خوشبو کی طرح
- یوں عشق میں نقصان سے کرتے ہیں مفر لوگ
- عیادتوں کے لیے چارہ گر نہیں منظور
- طوفاں سے نکل آئی کشتی مری ساحل تک
- پہچان کبھی اپنی بدلنے کی نہیں ہوں
- جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے
- غزل کے لہجے کو یوں میر کر رہی ہوں میں
- Related
- انتخاب: توصیف ترنل، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
شفق کے کچھ رنگ
’’شفق کے رنگ‘‘ مجموعے سے انتخاب
میناؔ نقوی
انتخاب: توصیف ترنل، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
یہ مت سمجھنا فقیر ہوں میں
انا کے حق میں کثیر ہوں میں
مجھے ستارہ سمجھنے والو!
فلک پہ بدرِ منیر ہوں میں
ہے منصفی میرے دم سے قائم
عدالتوں کی مشیر ہوں میں
ہے مجھ میں زنجیر چاہتوں کی
محبتوں کی اسیر ہوں میں
حقیقتیں مجھ میں خیمہ زن ہیں
صداقتوں کی سفیر ہوں میں
کہاں گئی عشق کی وہ شدّت
نہ تو وہ رانجھا نہ ہیر ہوں میں
کہاں رہا تیرگی کا عالم
ازل سے روشن ضمیر ہوں میں
مثال میری نہیں ملے گی
کہ آپ اپنی نذیر ہوں میں
سجا ہے شعروں میں درد میناؔ
غزل کے لہجے کی میر ہوں میں
٭٭٭
دھوپ آئی نہیں مکان میں کیا
ابر گہرا ہے آسمان میں کیا
آہ کیوں بے صدا ہے ہونٹوں پر
لفظ باقی نہیں زبان میں کیا
ہو گیا نیلگوں بدن سارا
تیر زہریلے تھے کمان میں کیا
سارے کردار ساتھ چھوڑ گئے
آ گیا موڑ داستان میں کیا
جھلسا جھلسا ہے کیوں بدن سارا
آ گئی دھوپ سائبان میں کیا
نا شناسا ہے چاند سے کیوں دل
صرف تارا تھا آسمان میں کیا
روز و شب کس کی راہ تکتی ہو
تم ہو میناؔ کسی گمان میں کیا
٭٭٭
وہ ہے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم
دل کو اب اور دکھانا بھی نہیں چاہت ہم
آرزو ہے کہ وہ ہر بات کو خود ہی سمجھے
دل میں کیا کیا ہے دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم
ایک پردے نے بنا رکھا ہے دونوں کا بھرم
اور وہ پردہ ہٹانا بھی نہیں چاہتے ہم
تہمتیں کتنی بھی لگتی رہیں ہم پر لیکن
آسماں سر پہ اٹھا نا بھی نہیں چاہتے ہم
خود نمائی ہمیں منظور نہیں ہے ہرگز
ایسے قد اپنا بڑھانا بھی نہیں چاہتے ہم
دس سے ملنا ہے اسے ایک ہیں ان میں ہم بھی
اس طرح اس کو بلانا بھی نہیں چاہتے ہم
ہم سے ملنے کی تڑپ جب نہیں اس کو میناؔ
ہاتھ پھر اس سے ملانا بھی نہیں چاہتے ہم
٭٭٭
بلندیوں کا تھا جو مسافر، وہ پستیوں سے گزر رہا ہے
کہ جیسے دن کا سلگتا سورج، سمندروں میں اتر رہا ہے
تمہاری یادوں کے پھول ایسے، سحر کو آواز دے رہے ہیں
کہ جیسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا، مری گلی سے گزر رہا ہے
الگ ہیں نظریں، الگ نظارے، عجب ہیں راز و نیاز سارے
کسی کے جذبے مچل رہے ہیں، کسی کا احساس مر رہا ہے
عجیب جوشِ جنوں ہے اس کا، عجیب طرزِ وفا ہے میری
میں لمحہ لمحہ سمٹ رہی ہوں، وہ ریزہ ریزہ بکھر رہا ہے
نظر میں رنگین شامیانے، محبتوں کے نئے فسانے
یہ کون ہے دل کے وسوسوں میں، جو مجھ کو بے چین کر رہا ہے
تمام الفاظ مٹ چکے ہیں، بس ایک صفحہ ابھی ہے باقی
اسے مسلسل میں پڑھ رہی ہوں، جو نقش دل پر ابھر رہا ہے
وہ میرے اشکوں کے آئینے میں، سجا ہے میناؔ کچھ اس طرح سے
کہ جیسے شبنم کے قطرے قطرے میں، کوئی سورج سنور رہا ہے
٭٭٭
ہیں اجنبی راستوں کے منظر، شناسا کوئی ڈگر نہیں ہے
قدم قدم پر صعوبتیں ہیں، سفر تو ہے ہم سفر نہیں ہے
چمن کے شیدائیوں سے اک دن، سوال یہ پوچھنا ہے مجھ کو
کھلا جو پر خار جنگلوں میں، وہ پھول کیوں معتبر نہیں ہے
میں بند آنکھوں کے آئینوں میں، تمہاری آمد کی منتظر ہوں
چلے بھی آؤ، مری محبت کا راستہ پر خطر نہیں ہے
تمہاری خوشبو چرا رہی ہوں، مثالِ باد سحر میں لیکن
نگاہ سورج کی چبھ رہی ہے، تمہیں یہ شاید خبر نہیں ہے
یہ غزلیں، نظمیں، یہ دل کے جذبے، یہ مہکے مہکے خیال میناؔ
سجا رہی ہوں میں لفظ اپنے، کسی کی مجھ پر نظر نہیں ہے
٭٭٭
غم نہیں ہے چاہے جتنی تیرگی قائم رہے
مجھ پہ بس تیری نظر کی چاندنی قائم رہے
اس لئے اوڑھے ہوئے ہوں میں خزاؤں کی ردا
میرے گلشن کی فضا میں تازگی قائم رہے
ہم نشیں! اتنا بتا دے کیا کروں تیرے بغیر
کس طرح سانسوں سے عاری زندگی قائم رہے
رنگِ الفت کی بقا کے واسطے میرے خدا
عاشقی قائم رہے اور دلبری قائم رہے
کھارے پانی کا سمندر یوں ہوا مجھ کو عطا
عمر بھر ہونٹوں پہ میرے تشنگی قائم رہے
جب حریفِ جاں ہی دل کی دھڑکنوں میں آ بسے
غیر ممکن ہے کسی سے دوستی قائم رہے
بوئے میناؔ رات کے کھیتوں میں یوں سورج کے بیج
اپنی کوشش ہے جہاں میں روشنی قائم رہے
٭٭٭
خودی کو آ گئی ہنسی، امید کے سوال پر
اندھیرے تلملا اٹھے، چراغ کی مجال پر
یہ چاہتوں کا درد ہے، یہ قربتوں کا حشر ہے
جو دھوپ چھپ کے روئی، آفتاب کے زوال پر
یہ جان کر کہ چاند میرے، گھر میں جگمگائے گا
ستارے آج شام سے ہی، آ گئے کمال پر
نظر میں زندگی کی، پھول معتبر نہ ہو سکے
خزاں کو اعتراض تھا، بہار سے وصال پر
خبر یہ دیر سے اڑی کہ موت سے مفر نہیں
پرند جب اتر چکے، شکاریوں کے جال پر
زمانہ جس کی زندگی میں، قدر کچھ نہ کر سکا
اب آسمان رو رہا ہے، اس کے انتقال پر
کہاں وہ میناؔ چاہتوں کی شدتوں کا سلسلہ
کہاں یہ بے نیازیاں ہمارے عرضِ حال پر
٭٭٭
آساں ہر ایک ہو گئی مشکل مرے لئے
جس دن سے محترم ہوا قاتل مرے لئے
میں وحشتوں میں دشت و بیاباں کی ہو گئی
مدت سے ملتمس ہے مرا دل مرے لئے
یوں راستوں سے ان دنوں دلچسپیاں بڑھیں
قدموں کی خاک ہو گئی منزل مرے لئے
آسانیاں نظر کو بچا کر چلی گئیں
ٹھہرے رہے تمام مسائل مرے لئے
آواز میرے حق میں یہ کس نے اٹھائی ہے
اس بھیڑ میں یہ کون ہے عادل مرے لئے
یہ اور بات ہے کہ تجھے کچھ خبر نہیں
میناؔ ترا خیال ہے کامل مرے لئے
٭٭٭
ہیں اہلِ نظر یہاں پہ سبھی، غلط کوئی کام ہو نہ سکے
شراب کہن وہ پی کے چلے، جو مست خرام ہو نہ سکے
نہ کوئی لگن، نہ دل میں چبھن، نہ رشکِ سخن، نہ رنگِ چمن
نہیں تھا جنہیں شعورِ وفا، وہ عالی مقام ہو نہ سکے
جو تیرہ شبی نے چھوڑا مجھے، تو دل سے مرے اٹھی یہ صدا
اجالے ذرا خیال رہے، سحر کبھی شام ہو نہ سکے
تھے ہونٹ مرے اسی کے لئے، زمانے سے بے قرار مگر
یہ قید مجھے لگا دی گئی، کہ لب پہ وہ نام ہو نہ سکے
لہو میں نہا کے وہ ہی چلا، لکھا تھا جبیں پہ جس کی خدا
تھے اور بھی دعوے دار یہاں، مگر وہ امام ہو نہ سکے
خرید کے لا نہ پاؤ گے تم، ملیں گے نہیں دوکاں پہ اصول
تھے صاحبِ زر ہزار مگر، وفا کے غلام ہو نہ سکے
بندھا کے مری امید کسی، نے دور کہیں کھلائے گلاب
تھا شوق جنوں بلا کا مگر، پیام و سلام ہو نہ سکے
٭٭٭
مزاج اپنے کہاں آج ہیں ٹھکانے پر
حضور آئے ہیں میرے غریب خانے پر
پگھل رہی ہے مسلسل جو برف آنکھوں سے
عجیب دھوپ ہے پلکوں کے شامیانے پر
نہ جانے آ گئے کیوں اس کی آنکھ میں آنسو
جو ہنس رہا تھا مرے درد کے فسانے پر
ذرا سی سمت بدل لی جو اپنی مرضی سے
تو ناؤ آ گئی طوفان کے نشانے پر
خدا بچا کے رکھے میناؔ اس گھڑی سے ہمیں
کہ بات ٹھہرے کبھی اس کے آزمانے پر
٭٭٭
اہل دانش کو خبر کیا، کیا ہے پاگل کا مزاج
سنگ باروں کو ہے کب، معلوم گھائل کا مزاج
کس طرف سے ہے گزرنا، اور برسنا ہے کہاں
بس ہواؤں کو پتہ رہتا ہے، بادل کا مزاج
میرے سر پر رہ کے بھی، مجھ پر نہ سایہ کر سکا
میری قسمت سے کہاں ملتا ہے، آنچل کا مزاج
تجھ کو پلکوں میں چھپا کر، میں پرستش کر تو لوں
آنسوؤں کے ساتھ بہہ جاتا ہے، کاجل کا مزاج
جتنا بھی چاہوں نکلنا، ڈوبتی جاتی ہوں میں
تیری یادوں میں ملا ہے، مجھ کو دلدل کا مزاج
میناؔ صدیاں آئیں اور تاریخ بن کر رہ گئیں
لمحہ لمحہ جانتا ہے، میرے ہر پل کا مزاج
٭٭٭
سورج سرک کے آ گیا شب کی پناہ میں
منظر لہو سا بھر گیا جاں کی نواح میں
سانسوں میں شور کرتی ہیں کچھ بے قراریاں
کچھ حسرتیں ہیں گریہ کناں غم کی راہ میں
شاید کوئی نویدِ طرب لے کے آ ہی جائے
جگنو سا کچھ چمکتا ہے تاریک راہ میں
ہے دشت کو بھی بزمِ غزالاں کی جستجو
میرا ہی نام لکھا گیا کیوں گناہ میں
مجھ کو بھی پیشِ رفت سے روکی تھی بے بسی
اس کو بھی پیش و پس رہا مجھ سے نباہ میں
کس کو کنیز خاص کا ہو مرتبہ عطا
میناؔ ہے کشمکش دل عالم پناہ میں
٭٭٭
دل سے کوئی سوال کسی نے نہیں کیا
حیرت ہے یہ کمال کسی نے نہیں کیا
مل جل کے سب نے بانٹ لیں دولت حیات کی
لیکن مرا خیال کسی نے نہی کیا
پہنچا نہ کوئی روح کی گہرائیوں تلک
جسموں سے انتقال کسی نے نہیں کیا
شاخوں سے ٹوٹنے پہ ہوئے خود ہی در بدر
پتوں کو پائمال کسی نے نہیں کیا
میں سب کے ساتھ ساتھ رہی غم کے دور میں
غمکا مرے ملال کسی نے نہیں کیا
اوروں میں عیب جوئی میں سب عمر بھر رہے
خود کو مگر مثال کسی نے نہیں کیا
٭٭٭
سرد سرد موسم میں، بھیگتے اندھیرے میں زندگی گزرتی ہے
شکل ایک مبہم سی، آیئنے میں آنکھوں کے چپکے سے سنورتی ہے
عمر کٹ گئی ساری یونہی دشت و صحرا میں، اک تلاشِ ہیہم میں
جانے کس لئے پھر بھی، راستوں پہ، لاحاصل جستجو ٹھہرتی ہے
حبس کی ہواؤں میں، یوں تو سارے منظر پر، ایک ہو کا عام ہے
پھر بھی ایک خوشبو سی، ذہن و دل کے گلشن سے، روح میں اترتی ہے
عمر بھر کی تنہائی، لمحہ بھر کی قربت کو بھول ہی نہیں پائی
انتظار کیوں جانے اب بھی اس کے آنے کا زندگانی کرتی ہے
جیسے کوئی پاگل ہو، روح اک بھٹکتی ہے جسم و جاں کے جنگل میں،
روز شام ڈھلتے ہی، اس خموش وادی میں اک صدا ابھرتی ہے
٭٭٭
گردشِ وقت کچھ زیرِ لب کہہ گئیٰ
زندگی برف تھی دھوپ میں بہہ گئی
موت زیر و زبر روز کرتی رہی
آرزو زیست کی منجمد رہ گئی
جانے کس شاہزادے کی تھی منتظر
وہ پرانی حویلی جو کل ڈھ گئی
منزلوں کے مسافر تمہیں کیا خبر
تم سے بچھڑی کوئی رہ گزر رہ گئی
رقص گرداب کرنے لگے جا بجا
موج ساحل کے کچھ کان میں کہہ گئی
حال میناؔ کا ہم کیا بتائیں تمہیں
چاند جب چھپ گیا چاندنی گہہ گئی
٭٭٭
رات ماضی کے خیالات میں ڈھل جائے گی
نیند پلکوں کی منڈیروں سے پھسل جائے گی
مجھ کو دہلیز کے اس پار نہ جانے دینا
گھر سے نکلوں گی تو پہچان بدل جائے گی
مانگ لوں اس کو وہ مل جائے گا مجھ کو، لیکن
میری خود دار انا مجھ کو نگل جائے گی
یاد کی کشتیاں جب ڈوب کے ابھریں گی کبھی
موج اک غم کے سمندر میں اچھل جائے گی
میناؔ نکلے گی محبت کی ذرا دھوپ اگر
اجنبیت کی بھی یہ برف پگھل جائے گی
٭٭٭
آشنائی کی ردا اس دھوپ میں تانے کون
ایسی انجانی فضا میں ہم کو پہچانے گا کون
آبلہ پا، جسم زخمی، اشک آنکھیں، دل لہو
خاک میرے بعد صحراؤں کی یوں چھانے گا کون
جب محبت کے دیوں سے روشنی اڑ جائے گی
چاند تارے توڑ کر لانے کی پھر ٹھانے گا کون
روشنی کو تیرگی کی دوستی راس آ گئی
جھوٹ کی بستی میں سچّی بات اب مانے گا کون
زندگی کی اس خزاں میں ہم کو اپنے ساتھ رکھ
شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّوں کا دکھ جانے گا کون
ٹانک دو جذبوں کے موتی شاعری میں جا بجا
ورنہ اس دنیا میں میناؔ تم کو پہچانے گا کون
٭٭٭
ہنر پہ بھی ہمارے عیب کی شمشیر چلتی ہے
یہ لگتا ہے حکومت اس کی عالمگیر چلتی ہے
کبھی دیکھا تھا اس نے مجھ کو چاہت کی نگاہوں سے
نظر کے سامنے اب تک وہی تصویر چلتی ہے
ستاروں پر کمندیں ڈالنا چاہا تو تھا لیکن
ہمیشہ دو قدم آگے مری تقدیر چلتی ہے
سفینہ بادباں کے رخ پہ چلتا ہے سدا جیسے
سمندر پر ہوا اور موجوں کی جاگیر چلتی ہے
محبت اور وفا کی جستجو ہر دم رہی میناؔ
مگر تقدیر کے آگے کہاں تدبیر چلتی ہے
٭٭٭
یہ کم تو نہیں اس کی وفا میرے لئے ہے
ظلمت میں بھی اک جلتا دیا میرے لئے ہے
دہلیز پہ آنکھیں رکھوں، رستہ بھی تکوں میں
یہ قرب کے لمحوں کی سزا میرے لئے ہے
میں شاخ سے بچھڑی ہوئی اک برگ ہوں شاید
صحرا میں چلی تیز ہوا میرے لئے ہے
بخشی ہے خدا نے جو تمہیں شوخئی گفتار
یہ فخر مجھے ہے کہ حیا میرے لئے ہے
سورج کی تپش کیا ہے اگر ساتھ ہے اس کا
بادل ہے مرے نام گھٹا میرے لئے ہے
چھو کر اسے آئی تو مہکنے لگی مجھ میں
محسوس ہوا بادِ صبا میرے لئے ہے
آئندہ زمانوں میں بھی زندہ میں رہوں گی
معصوم فرشتوں کی دعا میرے لئے ہے
٭٭٭
یوں تو ہر سانس سے لپٹا ہے وہ خوشبو کی طرح
پھر بھی بے چین ہے دل دشت میں آہو کی طرح
بن کے سیلاب بہا لے گیا دل کی بستی
پھر بھی آنکھوں میں رہا جذب وہ آنسو کی طرح
دل کی کٹیا سے جو خوشبو کا دھواں اٹھتا ہے
کون ہے دھونی رمائے ہوئے سادھو کی طرح
تیری یادیں تیرے ہونے کا پتہ دیتی ہیں
سر کا تکیہ بھی ہو جیسے ترے بازو کی طرح
اس کو سوچا ہے جو میناؔ، یہی محسوس ہوا
دل کی رفتار ہوئی جاتی ہے آہو کی طرح
٭٭٭
یوں عشق میں نقصان سے کرتے ہیں مفر لوگ
رکھتے ہیں تجارت کو فقط پیشِ نظر لوگ
پسپا ہوئے احساس سے جذبات تو جانا
غمگین ہی کیوں بستی میں کچھ سینہ سپر لوگ
سنتے ہیں کہ بن بیٹھے ہیں وہ چھاؤں کے مالک
ہیں دھوپ کے رستے میں جو بے شاخ و ثمر لوگ
دن ہو گئے محرومِ نظر اس لئے شاید
راتوں کے تحفظ میں ہیں سب شمس و قمر لوگ
شفقت بھی، محبت بھی عطا کر دیں جو میناؔ
آتے ہیں کہاں ایسے زمانے میں نظر لوگ
٭٭٭
عیادتوں کے لیے چارہ گر نہیں منظور
ہم اہلِ دل کو کرایے کا گھر نہیں منظور
ہمارے ساتھ چلو زندگی کے آخر تک
برائے نام ہمیں ہمسفر نہیں منظور
یہ قید ہو نہیں سکتیں کسی کی مٹّھی میں
یہ خوشبوئیں ہیں انہیں کوئی در نہیں منظور
نہ آسرا نہ حفاظت نہ کوئی دلجوئی
سلگتی دھوپ کو ایسا شجر نہیں منظور
جو خود پرستی کے تالاب میں ہیں ڈوبے ہوئے
انہیں صدف کے تہوں سے گہر نہیں منظور
عمل ہمارا سبھی کو سکون دے میناؔ
جو دل دکھائے ہمیں وہ ہنر نہیں منظور
٭٭٭
طوفاں سے نکل آئی کشتی مری ساحل تک
آواز لگی دینے صد آفریں منزل تک
امید کی آنکھیں تھیں دہلیز کی آہٹ پر
اور ساتھ رہا میرے اس شب مہ کامل تک
اک راز کے ہونٹوں پر الفاظ مقفل تھے
حالانکہ شناسا تھے مقتول سے قاتل تک
پھولوں سے ہو کیا نسبت احساس نہیں جس میں
جذبات سے عاری ہے پتھر کی طرح دل تک۔
جب چاند ستارے بھی کھو جائیں اندھیرے میں
تب راہ دکھاتی ہے اک جگنو کی جھلمل تک
اک اس کے نہ آنے سے یوں جان پہ بن آئی
سانسوں کو مری جیسے پہنچا دیا مشکل تک
کیا لطف عجب آئے یوں سجنے سنورنے میں
آئینہ جب آ جائے خود میرے مقابل تک
پرچھائیاں یادوں کی، ہم رقص ہیں میناؔ کی
اک وجد کا عالم ہے تنہائی سے محفل تک
٭٭٭
پہچان کبھی اپنی بدلنے کی نہیں ہوں
شرطوں پہ تری میں کبھی چلنے کی نہیں ہوں
میں بن کے اجالا ترے آنگن میں رہوں گی
مانند مگر دھوپ کے جلنے کی نہیں ہوں
معلوم ہے پتھر مجھے سمجھے گا زمانہ
میں برف کی مانند پگھلنے کی نہیں ہوں
اس درجہ زمانے کے ہوں آزار اٹھائے
باتوں سے کسی طور بہلنے کی نہیں ہوں
خوشبو ہوں، گلوں سے مرا رشتہ ہے ازل سے
میں کانٹوں کے ماحول میں پلنے کی نہیں ہوں
٭٭٭
جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے
معتبر عشق کے آداب نہیں ہونے کے
بس مری کشتی سے ہی بیر تھا طوفانوں کو
اب سمندر کبھی گرداب نہیں ہونے کے
ہم نے پلکوں میں چھپا رکھے ہیں اپنے آنسو
رائے گاں گوہر نایاب نہیں ہونے کے
بے حسی لے گئی جذبات کی ساری خوشبو
اب یہ غنچے کبھی شاداب نہیں ہونے کے
اس سے ملنے کی تمنا کبھی خواہش اس کی
یہ سفینے کبھی غرقاب نہیں ہونے کے
ٹمٹماتے ہیں ابھی یادوں کے بوسیدہ چراغ
کیا یہ جگنو کبھی مہتاب نہیں ہونے کے
تو سمندر ہے مگر پیاس سے تڑپے ہم لوگ
تلخ پانی سے تو سیراب نہیں ہونے کے
پھر سرِ شام سے ہے یادوں کی دستک میناؔ
آج پھر نیند کے اسباب نہیں ہونے کے
٭٭٭
غزل کے لہجے کو یوں میر کر رہی ہوں میں
کہ اپنا دل تہہِ شمشیر کر رہی یوں میں
نفس نفس کی گھٹن سے نجات پانے کو
تعلقات کو زنجیر کر رہی ہوں میں
محبتوں کی خطائیں معاف ہو بھی چکیں
وفا کی آج بھی تقصیر کر رہی ہوں میں
ترے خلوص پہ اتنا ہے اعتبار مجھے
کہ دھندلے عکس کو تصویر کو رہی ہوں میں
یہ جان کر بھی کہ پتھر میں حس نہیں ہوتی
تمام جذبوں کی تشہیر کر رہی ہوں میں
کبھی تو چمکے گا کارِ حیات کا جگنو
کہ ایک خواب کو تعبیر کر رہی ہوں میں
غزل میں رکھتی ہوں میناؔ میں دھڑکنیں دل کی
یوں اپنی فکر کو تحریر کر رہی ہوں میں
٭٭٭
ماخذ:
http://touseefturnal.blogspot.com/2017/11/blog-post.73html
تدوین اور ای بک کی تشکیل، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں