فہرست مضامین
- شخصیات
- جن کی نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں
- بیسویں صدی کا ایک نابغۂ روزگار: امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد
- قاضی سید احمد حسینؒؒ جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل
- حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ : ایک گم نام مگر باکمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل
- ولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ :کچھ یادیں کچھ باتیں
- ڈاکٹر ضیاء الہدیٰؒ ۔ ۔ ۔ فقر غیور کا ایک مثالی کردار
- شاعر اسلام، اقبال۔ ۔ شخصیت اور پیام
شخصیات
طیب عثمانی ندوی
جن کی نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں
پہلی جنگ آزادی جو مغل دور کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی۔ اس کی ناکامی کے بعد بر صغیر ہند میں امت مسلمہ نت نئے تہلکوں اور آزمائشوں سے گذری لیکن یہی وہ دور تھا کہ اس امت میں چند ایسے بیدار مغز، نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوزشخصیتیں اور میر کارواں پیدا ہوئے، جنہوں نے اس شکست خوردہ ملت کو، اپنی بصیرت اور فکر و عمل سے تابناک مستقبل کی بشارت دی اور جب یہ ملک انگریزوں کی غلامی میں پوری طرح جکڑ گیا تو ہمارے ان بزرگوں نے آزادی فکر و عمل اور مستقبل میں ترقی کا نسخہ کیمیا ’’تعلیم‘‘ کو قرار دیا۔ اس وقت دیوبند کے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ علی گڑھ کے سرسید احمد خاں اور اعظم گڑھ کے علامہ شبلی نعما نیؒ نمایاں شخصیات تھیں جن کے فکر و عمل نے اس ملت کے لئے دینی و دنیاوی لائحہ عمل اور راہیں روشن کیں۔ ان میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دیوبند میں دینی تعلیم اور دینی تشخص کا نیا نظام قائم کر کے پورے ملک میں دینی تعلیم کا ایک جال بچھا دیا۔ لیکن ساتھ ہی سرسید احمد خاں نے مستقبل میں مسلمانوں کے لئے جدید مغربی تعلیم کا نظم کیا تاکہ یہ ملت ملک کی ترقی کی دوڑ میں اپنے ہم وطنوں سے پیچھے نہ رہ جائے اور واقعہ یہ ہے کہ عصری اور سائنسی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا قیام سرسید کا ایک بڑا علمی و تعلیمی کارنامہ تھا۔ تعلیم کے جدید و قدیم ان دو دھاروں کے درمیان، علامہ شبلی نعمانی نے محسوس کیا کہ تعلیم کی یہ دو انتہائیں اس ملت کو فکر و عمل کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کر دیں گی، اس خلیج کو پاٹنے کے لئے ایک نئے نظام تعلیم کی ترویج و اشاعت کا بیڑہ اٹھایا اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو کا قیام عمل میں آیا، جو دینی تعلیم اور عصری علوم کا سنگم بنا تاکہ وہاں سے وسیع النظر اور روشن خیال اہل دین اور اہل علم پیدا ہوں۔ اس حقیقت کا اظہار حضرت اکبر الہ آبادی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے۔
ہے دل روشن مثال دیوبند اور ندوہ ہے زبان ہوشمند
چونکہ اکبرؔ جدید مغربی تعلیم و تہذیب کے شدید مخالف تھے اس لئے اسی قطعہ میں علی گڑھ کو’’ فقط پیٹ ‘‘کہہ کر مغربی تہذیب کا مذاق اڑایا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کی یہ تینوں شخصیتیں جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے ان کے تعلیمی اداروں نے جیسی شخصیتیں پیدا کی ہیں وہ اس ملت کا ناقابل فراموش سرمایہ ہیں۔ دیوبند سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبید اللہ سندھی یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے اس ملک میں دینی تشخص کے ساتھ جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا، جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا، انہی کو اکبر الہ آبادی نے ’’دلِ روشن‘‘سے تعبیر کیا ہے اور ندوہ سے علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا عبد السلام ندوی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی جیسے با کمال، وسیع النظر، روشن دماغ، اہل علم و ادب پیدا ہوئے جن کو اکبرؔ نے ’’زبان ہوشمند‘‘ کہا ہے۔ اکبرؔ مغربی تہذیب کے ناقد ضرور تھے لیکن وہ سرسید کے جدید عصری علوم کی تعلیم کے مخالف نہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ خود اکبر کے صاحبزادے اور اس دور کے تمام سر بر آوردہ حضرات جنہوں نے دین و ملت کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں سب علی گڑھ کی پیداوار ہیں۔ مولانا محمد علی جوہرؔ، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ کے علاوہ سائنس اور سوشل سائنس کے ماہرین، جن کے فکر و عمل نے زندگی کے ہر شعبے میں اس ملت کو نئی روشنی، نیا جوش و ولولہ عطا کیا اور جدید علوم و سائنس کے ساتھ ملک کے انتظامی امور میں اہل وطن کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔
مختصر یہ کہ ہماری ملت کی یہ شخصیات اس لائق ہیں کہ ہماری نئی نسل ان سے واقف ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ جن کی نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں اور اس امت کے نوجوانوں کے لئے نشان راہ ہیں۔ میں نے اپنی اس کتاب میں صرف ان شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے دینی و علمی کارناموں سے میں براہ راست واقف ہوا اور جن کے فیضان سے میں خود مستفیض ہوا، جن کے ساتھ میری زندگی کے شب و روز گذرے ہیں جو دعوت دین کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل تھے۔ ان کے بارے میں یہ تمام مضامین میرے ذاتی تعلقات و تاثرات پر مبنی ہیں۔ یہ وہ شخصیات ہیں جن کے فکر و دانش اور اخلاص و عمل سے ہماری نئی نسل ہمیشہ فیضان حاصل کرتی رہے گی اور یہ سب ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔ اس کتاب کا اصل مقصود و مطلوب اپنے نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ ان کے نقش قدم پر چل کرمستقبل میں اس ملک و ملت پران کی طرح اپنی چھاپ چھوڑ سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس حقیر کوشش کو شرف قبولیت بخشے اور ہمارے لئے اجر آخرت کا باعث ہو، وما توفیقی الا با اللہ۔
٭٭٭
بیسویں صدی کا ایک نابغۂ روزگار: امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا تعارف اگر ہم چند لفظوں میں کرانا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں۔ ع
مثلِ خور شید سحر فکر کی تابانی میں
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق
مولانا ابوالکلام کی ذات اپنی جگہ ایک انجمن تھی۔ علم و فضل کی وہ کون سی بلند ی ہے جس کو مولانا کے ذہنِ رسانے نہ پایا تھا، ان کی جادو بیانی کا کوئی ثانی نہ تھا اور حسن انشا میں وہ یگانہ تھے۔ فکر کی تابانی، یقین کی روشنی اور عمل کی گرمی نے ان کی شخصیت میں ایک دل آویزی و دل کشی پیدا کر دی تھی۔ فضل و کمال کی رنگا رنگی، مطالعہ کی وسعت، عالمانہ رکھ رکھاؤ، پاکیزہ جمالیاتی ذوق ان سب کا اتنا دل کش اور حسین امتزاج مولانا کے اندر پایا جاتا تھا کہ ہم ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ گویا وہ ایک ایسا ’’کل‘‘ تھے جس کے گرد مختلف’ اجزا‘ گردش میں ہوں، شعر و ادب، مذہب و اخلاق، حکمت و فلسفہ، سیاست و صحافت ہر جگہ اور ہر کہیں مولانا کی اپنی انفرادیت، ان کا ذہنی کمال اور فکری عمق اپنی مثال آپ ہے۔ قدرت نے انہیں وہ ذہنی صلاحیتیں ودیعت کی تھیں کہ جس فن پر بھی انہوں نے توجہ کی اسے بام عروج تک پہنچا یا اور دیکھنے والوں کوایسا محسوس ہوا جیسے وہ شاید اسی کے لئے پیدا کئے گئے ہوں۔ شعر و ادب پر گفتگو کی تو عرفیؔ و نظیری، ؔ متنبی اور بدیع الزماں ہمدانیؔ کی صف میں نظر آئے، حکمت و فلسفہ کی بات کی تو ابن رشدؔ اور ابن طفیل کی مسند سنبھالی، تصوف و اخلاق کا مسئلہ سامنے آیا تو رومیؔ اور غزالیؔ بن کر سامنے آئے، رشد و ہدایت، دعوت و عزیمت اور مذہبی اصلاح و انقلاب اپنا شعار بنایا تو وقت کے ابن تیمیہ اور ابن قیم ثابت ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مرحوم جیسی علمی فضیلت، ذہانت و عبقریت اور اسلامی علوم و فنون پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت، اس وقت کی اسلامی دنیا میں کوئی اور نظر نہیں آتی، انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں اسلامی دنیا نے دو عظیم مجاہد اور فاضل پیدا کئے، میری مراد جمال الدین افغانی اور مفتی محمد عبدہ سے ہے۔ اسی بیسویں صدی کی ابتدا میں ہندوستان کے افق پر مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت روشن ستارے کی طرح نمودار ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ عالم اسلامی کے وہ دونوں ستارے ایک دوسرے میں ضم ہو کر افق ہند پر شہاب ثاقب بن کر چمکے ہوں۔ میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ مولانا مرحوم عالم اسلامی کی ان دونوں شخصیتوں کے جامع تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرد مجاہد کی زندگی میں خدا کی فیاضی کے عجیب جلوے نظر آتے ہیں، ظاہری جلال و جمال ایسا تھا کہ مغل دور شہنشاہی بھی شرمندہ ہے۔ دماغ کی تابانی ایسی کہ جس سے فکر و عمل کی جانے کتنی راہیں روشن ہوتی تھیں، دل کی فراخی کا یہ عالم کہ اس میں دشمنوں کے لئے بھی جگہ تھی، مذہب میں نظر ایسی عمیق کہ اس کے آئینہ میں دین و دنیا کی واضح تصویر نظر آتی تھی اور عصرِ حاضر اور فکرِ جدید سے ایسی واقفیت کہ مغرب کے عالم بھی اس کا لوہا مانتے تھے۔
مولانا کی شخصیت کا یہ تنوع ان کی نادر روز گار شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ وہ ایسے گونا گوں ا وصاف اور محاسن کے مالک تھے جو کسی ایک ہی شخصیت میں بہت کم جمع ہوتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مختلف دائروں میں انتہائی بلند مقام حاصل کیا، جہاں پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ علم و فضل، حقائق دین، حکمت وفلسفہ، شعر و ادب، تصنیف و تالیف، تقریر و خطابت، اخبارنویسی و صحیفہ نگاری، سیاست و وزارت غرض وہ کون ساحلقہ اور دائرہ نہ تھا جس میں ان کی انفرادیت و یکتائی ثابت ومسلم نہ تھی۔ لیکن ان سب کے باوجود اگر غور کیجئے تو ان کی شخصیت کا اصل مایۂ خمیر صرف دین و مذہب ہی تھا اور وہی ان کے مختلف مشاغل اور عمل و کردار کے مختلف دائروں میں نمایاں ہوتا تھا، اسی چیز نے ان کی شخصیت میں کمال بلندی عطا کی۔ آج ہم جب مذہب کا ذکر کرتے ہیں تو بعض ذہن اسے تفرقہ اور تفریق کی اصل قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ مولانا کا حقیقی مذہبی کردار ہمیں اس بات کی طرف نشان دہی کر تا ہے کہ مذہب کی روح آپس میں مہرو محبت کی روح ہے، خدمت کی روح ہے، وحدت کی روح ہے۔ وہ مذہب جھوٹا ہے جو تفریق و نفرت کا اظہار کرے ان کے نزدیک مذہب و سیاست دونو ں ہی کا ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ انسان اپنی زندگی کو شرافت، صالحیت اور انسانیت کے پیکر میں ڈھالے اور اس کے لئے اپنی جسمانی، ذہنی اور روحانی قوتوں کو فروغ دے اسی لئے ان کی زندگی میں دین اور دنیا کی تفریق نہ تھی بلکہ دونوں ہی میں حق پسندی اور شرافت کے اصولوں کی کارفرمائی تھی، جو دین کی حقیقی روح اور مذہب و اخلاق کا مقصد و منشا ہے۔ مولانا نے مشرقی تہذیب اور مشرقی علوم و فنون کے ماحول میں ابتدائی تعلیم و تربیت پائی، اور دین و مذہب کو اپنی توجہ کا خاص مرکز بنایا اور اس طرح مذہب کی بہترین قدروں کو اپنی ذات میں جذب کیا اور ساتھ ہی مغربی علوم و تہذیب کی اچھی قدروں کو بھی اپنایا اس طرح ان کی ذات مشرق و مغرب کی ایک حسین سنگم بن گئی، ان میں ایک طرف مشرق کی سکون پسندی اور گہرائی، رواداری اور وضع داری، انسانیت اور روحانی بصیرت تھی تو دوسری طرف مغرب کی روشن خیالی، ذہنی جرأت اور حرکت و عمل کی کارفرمائی تھی۔ وہ ایک زبردست عالم دین تھے لیکن مولویانہ تنگ نظری کا ان میں کہیں پتہ نہ تھا اسی طرح عصر جدید کے تقاضوں سے واقف ہونے کے باوجود تہذیب کی فرزندی سے آزاد تھے۔ اس بات کی شہادت کے لئے یہاں پر مناسب ہے کہ مولانا کی تحریر کا ایک چھوٹا سا اقتباس ’’الہلال‘‘ سے میں پیش کر دوں۔ مولانا فرماتے ہیں :
’’ہمارے تعلیم یافتہ دوستوں کا کچھ عجیب حال ہے، ان کے پاؤں کو دیکھئے، تو یورپ کی نا فہمانہ و کورانہ تقلید و عبودیتِ فکر کی زنجیریں لپٹی نظر آتی ہیں، مگر چہرے کی طرف نظر اٹھائیے تو زبان کو ادعاء و اجتہاد سے فرصت نہیں اس سے بڑھ کر دنیا کے جمع اضداد کا اور کون سا تماشا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آئے اور عین اس وقت جب کہ اس کے پاؤں میں تقلید و استعباد کی زنجیریں پازیب کی طرح صدا دے رہی ہوں، اجتہاد فکر اور حریت رائے پر بے تکان لکچر دینا شروع کر دے۔ ‘‘
انسانی سو سائٹی میں مذہب کا جو منصب اور مقام ہے مولانا کی نگاہ حقیقت بیں نے اس کو پا لیا تھا اور وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انسانی زندگی کی ساری عظمتیں دین و مذہب کے بغیر ادھوری اور نا مکمل ہیں، ’’الہلال‘‘ کے زریں صفحات اس حقیقت کی روشن یادگار ہیں چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
’’انسان ذہن وجسم کی کتنی ہی عظمتیں حاصل کرے لیکن روح اور اخلاق کی ادنیٰ سے ادنیٰ پاکیزگی بھی حاصل نہیں کرسکتا، اگر اس کا اعتقاد اور عمل روحانی ہدایت کی روشنی سے محروم ہے۔ انسان کے لئے یہ سہل ہے کہ تمام دنیا فتح کرے، سکندر نے تمام دنیا کی سلطنتیں تہہ و بالا کر ڈالیں تھیں۔ انسان کے لئے یہ بھی مشکل نہیں کہ ذہن و فکر کی ایسی بلندیوں تک پہنچ جائے جہاں تک دوسرے کے قدم نہ پہنچ سکے ہوں۔ ارسطو، اقلیدس، سولن اور سنیکا جیسے فاتحین علم کی فتح مندیاں لازوال ہو چکی ہیں اور دنیا منطق، ریاضی، قانون اور فلسفۂ اخلاق میں آج تک ان کی پس رو، انسان کی اولوالعزمی ان بلندیوں پر بھی نہیں رکتی اور کچھ مشکل نہیں اگر وہ آگ کے شعلوں میں کود پڑے، سمندر کی موجوں کی ہنسی اڑائے، پہاڑوں کی صفیں چیر ڈالے مگر ہاں یہ مشکل ہے اور بہت ہی مشکل کہ وہ اخلاق اور روحانی پاکیزگی کی راہ میں اپنی کسی ایک خواہش نفس کا بھی مقابلہ کر سکے۔
سکندر تمام دنیا کی تسخیر کی محنت سے نہیں تھکا، لیکن بابل کی ایک عورت جب اس کے سامنے آئی تو اپنی خواہش نفس کے اضطراب سے بے بس ہو کر رہ گیا۔ سنیکا نے تمام نوع انسانی کو اخلاق اور اخلاقی سعادت کی دعوت دی، لیکن خود اپنے آپ کو ایک دوسرے انسان کی منکوحہ عورت سے باز نہ رکھ سکا، ارسطو کے دامن علم کے دھبّے بھی دنیا گن چکی ہے۔
فی الحقیقت انسانی زندگی کی یہی اخلاقی اور عملی نامرادی ہے، جو الہامی ہدایت کی کسی بالاتر قوت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، انسان اپنے ذہن و جسم کی قوتوں سے سب کچھ کر سکتا ہے لیکن تکلف اور بناوٹ سے بھی اپنے آپ کو نیک نہیں بنا سکتا، اگر انسانی زندگی کی سعادت کے لئے اس عملی صداقت کی کچھ بھی ضرورت ہے جسے نیکی کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو ناگزیر ہے کہ عام انسانی سطح سے کوئی بلند تر ذریعہ رشد و ہدایت کا ہو۔ مذہب اور الہام اسی ذریعۂ ہدایت کا نام ہے۔ ‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مولانا ابوالکلام کی فکر کااصل محور ہمیشہ سے دین و مذہب رہا ہے اور ان کی ساری تگ و دو اور حرکت و عمل اسی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو گذشتہ نصف صدی سے بر عظیم ہند کے مسلمانوں کی بیداری میں مولانا کا سب سے زیادہ حصہ رہا ہے بلکہ سچ تویہ ہے کہ کوئی دوسرا مسلمان رہنما ان کا شریک و سہیم نہیں، انہوں نے اس وقت یہاں دعوتِ حق کا نعرہ بلند کیا، جب کہ مسلمانو ں کا ایک طبقہ انگریزوں کی اطاعت کو واجب قرار دیتا تھا اور غلامی پر قناعت کا وعظ کہتا تھا اور ایک دوسرا طبقہ اسلام کی ہمہ گیریت سے ناواقف صرف ظاہری عبادات و رسوم ہی کو سب کچھ قرار دئیے ہوا تھا۔ خدمت دین کا سب سے بڑا کام درس نظامی کی کتابوں کو پڑھا دینا یا غیروں سے اسلام کے نام پر مناظرے کر لینا تھا، ایسے حالات میں مولانا نے حق و صداقت کا چراغ روشن کیا، اور اقامت دین کی دعوت شروع کی، مولانا کے اس اہم کارنامہ کو دیکھ کر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے عالم دین تک نے فرمایا کہ:
’’ہم سب اصل کام بھولے ہوئے تھے، ’الہلال ‘نے یاد دلا دیا‘‘۔
اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالی نے مولانا کو زبان و قلم کی بے مثال صلاحیتیں عطا کی تھیں، مولانا 1912ء سے ہندوستان میں اسلامی قیادت کے مسند نشین رہے اور مسلمانوں نے بجا طور پر انہیں امام الہند کا خطاب دیا تھا، دینی فکر و بصیرت، سیاسی سوجھ بوجھ اور دعوت و عزیمت کے اعتبار سے فی الواقع وہ اسلامیان ہند کے عظیم رہنما تھے، مولانا کے نزدیک مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے دو پروگرام تھے، افسو س ہے کہ ہم نے ان کی دعوت کو نہ ٹھیک سے سمجھااور نہ اس پر عمل پیر ا ہوئے، اول مسلمانوں نے کے لئے ان کا پیغام یہ تھا کہ ان کی دینی و دنیاوی فلاح و سعادت کا ضامن صرف اسلام ہے، انہیں زندگی کا ہر مسئلہ اسلام ہی کی روشنی میں طے کرنا چاہئے، اسلام ان کی پوری زندگی کا دین ہے اور اس معاملہ میں انہیں کسی دوسرے نظریۂ حیات کی طرف نہیں دیکھنا چاہیئے، اس غرض کے لئے مولانا نے اپنی خاص جماعت ’’حزب اللہ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور ملک کے اہل علم نوجوانوں کو دعوت دی اور ان سے بیعت لی۔ مولانا اپنی اس بیعت امامت میں جن پانچ باتوں کی بیعت لیتے تھے، وہ یہ تھے:
’’الحمدللہ وحدہ، جن عزیزوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے انہوں نے میرے ہاتھ پر پانچ باتوں کا عہد کیا ہے :
اول : امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور توصیۂ صبر کا یعنی ہمیشہ نیکی کا حکم دیں گے، برائی کو روکیں گے، صبر کی وصیت کریں گے۔
ثانیاً: الحب فی اللہ و البغض فی اللہ کا، یعنی اس دنیا میں ان کی دوستی ہو گی تو اللہ کے لئے اور دشمنی ہو گی تو اللہ کے لئے۔
ثالثاً: لایخافون فی اللہ لومتہ لائم کا، یعنی سچائی کے راستے میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کریں گے اور خدا کے سوا وہ اور کسی سے نہیں ڈریں گے۔
رابعاً: اس بات کا کہ وہ اللہ اور اس کی شریعت کو دنیا کے سارے رشتوں، ساری نعمتوں اور ساری لذتوں سے زیادہ محبوب رکھیں گے۔
خامساً: اطاعت فی المعروف کا، یعنی شریعت کے ہر حکم کی اطاعت بجا لائیں گے۔ جو ان تک پہنچا یا جائے۔
میں ان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ ان کا قول تھا اور اب چاہئے کہ اپنے عمل سے بھی اس کی پوری پوری تصدیق کریں اور کامل انقطاع اور راست بازی کے ساتھ اپنے تئیں اللہ کے سپرد کر دیں۔ ‘‘
مسلمانان ہند کی ہدایت و رہنمائی کے سلسلہ میں دوسرا حصہ مولانا کے نزدیک ہندوستان کی سیاسی آزادی تھی، انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ مسلمان غلام رہ کر زندہ رہنے کے لئے نہیں پیدا ہوا ہے، غلامی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں اور انگریزوں سے نجات حاصل کرنا ان کی محض قومی وطنی ضرورت نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے اور آزادی کا وہ صور قیامت جس سے برسوں خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہندوستانی قوم جاگ اٹھی، مولانا نے اس وقت پھونکا، جب مکمل آزادی کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ آزادیِ وطن کے لئے کانگریس میں شرکت کا مطلب یہ تھا کہ انگریزوں سے ہندستان کی آزادی کا مطالبہ ہندوستان کی تمام قومیں متحدہ طور ہی پر کر سکتی ہیں۔ ایک طرف مولانا جہاں فکر اسلامی کے حقیقی نمائندہ تھے تو دوسری طرف ہندوستان کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے رہنما اور مجاہد بھی تھے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی شہادت گاندھی جی کی ہے، آپ فرماتے ہیں :
’’ مجھے 1920ء سے قومی کام میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ وابستہ رہنے کا فخر حاصل رہا ہے، اسلام کے بارے میں اُن سے زیادہ معلومات کسی اور کو حاصل نہیں ہیں، عربی زبان کے وہ بہت بڑے عالم ہیں، ان کی دیش بھگتی اسی طرح پختہ اور راسخ ہے، جس طرح ان کا اسلام میں عقیدہ، وہ انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاسیات کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرے۔ ‘‘
مہاتما گاندھی کے اس بیان سے واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی شخصیت کا صحیح عرفان ہوتا ہے۔ مولانا اگر ایک طرف سچے مسلمان تھے تو دوسری طرف وہ سچے ہندوستانی بھی۔ آج بہت سے کم نظروں کو مولانا کی اس جامعیت میں تضاد نظر آتا ہے۔ وہ اپنی بے بصیرتی اور کم نظری کی وجہ سے مولانا کے بارے میں اپنے خیال کے مطابق یا تو بہت زیادہ خوش فہم ہیں یا انتہائی خفا! ایک طبقہ وہ ہے جس نے مولانا کی سیاسی زندگی، آزادی کی جدو جہد اور اس سلسلہ میں اپنے ہم وطنوں کے شانہ سے شانہ ملا کر مجاہدانہ حرکت و عمل سے شاکی رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مولانا نے دین کی اصل حقیقت کو پس پشت ڈال دیا تھا اور وطن پرستانہ زندگی میں کھو کر رہ گئے تھے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو صرف مولانا کے اسی سیاسی پہلو کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ متحدہ قومیت کی تعمیر ہی ان کی زندگی کا اصل مقصد و منشا تھا، یہ دونوں ہی باتیں مولانا کے بارے میں دو انتہائی ہیں اور اس طرح سوچنا مولانا کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے، حالانکہ مولانا مرحوم کا فکر و عمل اور ان کا کردار ان دونوں انتہا داں سے علیحدہ تھا وہ دین وسیاست کے جامع تھے، اور انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا ہندوستانی بن سکتا ہے اور رہ سکتا ہے۔ مناسب ہے کہ اس موقع پر مولانا کے خطبۂ صدارت کا ایک ٹکڑا پیش نظر رہے، جو انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کے موقع پر رام گڑھ 1941ء میں فرمائے تھے:
’’ میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کر تا ہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کے تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور برداشت نہیں کر سکتاکہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے، میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر حامل فیکٹر ہوں، میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
مولانا آزاد کی تحریک دعوت و عزیمت کا جو غلغلہ 1912ء میں الہلال سے شروع ہوا تھا، و ہ آخر تک جاری رہا اور مولانا کے مسلک و موقف میں کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ برابر ایک ہی بات کہتے رہے کہ اچھے مسلمان بنو اور اچھے ہندوستانی رہو، دنیا کی ساری عظمتیں تمہارے قدموں پر ہوں گی۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے نتائج میں47ء کا الم ناک حادثہ بھی ہندوستان کی بد قسمت سرزمین کو دیکھنا پڑا۔ ایسے نازک وقت میں بھی مولانا نے مسلمانوں کو جس حقیقت کی طرف نشان دہی کی وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے سچ تو یہ ہے کہ شاہجہانی مسجد کی یہ تقریر مولانا کے فکر و عمل کی ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جس پر چل کر آج بھی مسلمان کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ اس تقریر کے کچھ حصّے پیش خدمت ہیں، جو خطابت اور ادب و انشاء کی بھی شاہکار ہے اور ایک مرد مومن کے دل کی آواز بھی:
’’یہ دیکھو مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے ؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔
عزیزو! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے مسلمان اور بزدل یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، سچے مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے، چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہو جانے سے ڈرو نہیں، انہوں نے تمہیں جانے ہی کے لئے اکٹھا کیا تھا، آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ عیب کی بات نہیں، یہ دیکھو کہ تمہارے دل تو ان کے ساتھ رخصت نہیں ہو گئے۔ اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو ان کو اپنے اس خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے تیرہ سو سال قبل عرب کے ایک امی کی معرفت فرمایا تھا: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوُ ارَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْ افَلاَ خَوْفْٗ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَخْزَنُوْنَ (جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے تو پھر ان کے لئے نہ تو کسی کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم)
ہوائیں آتی ہیں اور گذر جاتی ہیں یہ صر صر سہی لیکن ا س کی عمر کچھ زیادہ نہیں، ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلا کا یہ موسم گذرنے والا ہے، یوں بدل جاؤ جیسے پہلے تم کبھی اس حالت میں نہ تھے۔ ۔ ۔
آج زلزلوں سے ڈرتے ہو کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے، آج اندھیرے سے کانپتے ہو کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود خود ایک اجالا تھا، یہ بادلوں کے پانی کا سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائچے چڑھا لئے ہیں وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا، بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرا دیے، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے، یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے ہیں جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔
عزیزو! میرے پاس تمہارے لئے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے چودہ سو برس پہلے کا پرانا نسخہ ہے، وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا اور وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان: وَلاَ تَھِنُوْ اوَ لاَ تَحْزَ نُوْا وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتْم مُؤْ مِنِیْنَ)‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام کی حیثیت ایک تاریخ ساز شخصیت کی تھی، انہوں نے ’الہلال‘، و ’البلاغ‘ کے ذریعہ مسلمانان ہند کو دعوت و عزیمت کی راہ دکھلائی۔ مولانا، آزادی و حق پرستی کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے، الہلال اس دعوت کا وسیلہ تھا، اس کے ذریعہ مولانا نے اس قوم کو جگانے کا فرض انجام دیا جسے استعماری تسلط نے محو خواب کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتی تھی کہ وہ سلطنت برطانیہ جس کی حکومت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا، اس کا آفتابِ اقبال بھی کبھی غروب نہ ہو گا، لیکن ’الہلال‘ کی دعوت اور اس کے پیغام نے مردہ دلوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ بوڑھے، جوان، جدید تعلیم یافتہ قدیم علماء غرض ملت کے ہر ہی طبقہ میں بیداری پیدا ہوئی اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بعد کی ساری بیداریاں مولانا ہی کے اس قلم کا نتیجہ تھیں، جس کے قلم سے موتی بھی برستے تھے اور بجلیاں بھی گرتی تھیں، جو باطل کو جلاتی اور سچ کو روشن کرتی تھیں۔ الہلال کے بعد حقیقت یہ ہے کہ وہ زبان بند ہو گئی، وہ قلم ٹوٹ گیا لیکن اس کی روشن مثال باقی ہے، وہ مقصد باقی ہے، وہ دعوت باقی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مثال اور دعوت سے گرمی بھی لیں اور روشنی بھی، اپنی زندگی کی تاریک راہوں کو اسی سے روشن و تابناک بنائیں۔ آج بھی ہم جب الہلال کے فائل پڑھتے ہیں تو اپنے اندر وہی گرمی بھی پاتے ہیں اور وہی روشنی بھی، جو الہلال کے صفحات کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ الہلال کے بعد جب مولانا نے ’البلاغ‘ جاری کیا تو اس کا نصب العین بھی وہی دعوت و عزیمت اور اقامت دین تھا جو’ الہلال‘ کا! لیکن طریق ابلاغ کچھ مختلف تھا، تیور وہی تھے، انداز بدلا ہوا۔ ’الہلال‘ حرکت و عمل، جوش و ولولہ کا پیام رساں تھا اور ’البلاغ‘ فکر و بصیرت اور روحانی عزم و ثبات کا۔ ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ میں مولانا ابوالکلام کی دینی و علمی مقالات کا جو فاضلانہ لب و لہجہ، سیاسی مضامین کا مجاہدانہ و قائدانہ انداز، مذہبی افکار کا حکیمانہ اسلوب اور اس کے ساتھ اس کی خطیبانہ بلند آہنگی، عسکرانہ رجز خوانی، مرد مومن کا اذعان و یقین ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کی مثال پیش کرنے سے اردو صفحات کی تاریخ عاجز ہے، جب ہم انھیں پڑھتے ہیں تو اس سے ہم کو ایک نیا ولولۂ حیات ایک نیا جوش زندگی حاصل ہوتا ہے اور یہی مولانا کے قلم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے فکر رسا اور زور قلم کے نتیجہ میںآسمان علم و ادب پر یوں تو چند روشن ستارے نمایاں ہیں اور سب کی تابش نظر کو خیرہ کرنے والی ہے لیکن مستقل تصنیف کی حیثیت سے قرآن مجید کی تفسیرترجمان القرآن، مولانا کی تمام تحریروں میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور آسمان علم و ادب پرستاروں کے جھرمٹ میں ماہ کامل کی طرح روشن اور تابناک ہے۔ اس میں مولانا کے قلم کی توانائی، قوت استدلال، اجتہاد فکر، وسعت نظر، قرآنی فکر نمایاں نظر آتی ہے اور یہ وہ خصوصیات ہیں جن میں مولانا منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ بات یہ ہے کہ انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا ایک ایسا دور ہے جس میں عالم اسلام نے ذہنی و فکری طور پر ایک نئی کروٹ لی ہے، اس کے اسباب سیاسی بھی ہیں اور علمی بھی، دنیا کے عام تمدنی حالات بھی ہیں اور علم جدیدہ کا ارتقا بھی۔ یہ اسی دور کا نتیجہ تھا کے عالم اسلام میں جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ اور علامہ رشید رضا پیدا ہوئے اور اسی دور میں ہندوستان میں سرسید، شبلی اور ابوالکلام کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی۔ سرسید کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کی بیداری میں نقش اول کی حیثیت رکھتی ہے لیکن سرسید کے ذہن میں مشرق و مغرب کی وہ جامعیت نہ تھی، جو شبلی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مسائل میں سرسید سے لغزشیں بھی ہوئیں، مولانا آزاد جہاں سرسید کی فکر روشن کے مداح تھے وہیں ان کے بعض خیالات کے ناقد بھی تھے، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کی نئی نسل کے ذہن پر سرسید سے زیادہ شبلی کا اثر تھا، فکر شبلی سے دو متوازی لہریں اٹھیں ایک ابو الکلام کا ’’الہلال‘‘ تھا دوسرے شاعر مشرق اقبالؔ کا پیام مشرق!یعنی دو عظیم شخصیتوں نے اپنے دائرہ عمل میں ملت اسلامیہ کے جدید اذہان پر غیر معمولی اثر ڈالا، اقبال و ابو الکلام کے فکری لہروں سے ایک تیسری لہر پیدا ہوئی، جس نے عالم اسلام میں تجدید و انقلاب کی نئی داغ بیل ڈالی، میری مراد سید ابو ا لاعلیٰ مودودی سے ہے۔ مولانا مودودی کی سحر آفریں شخصیت آج سارے عالم اسلام میں تحریک اسلامی اور انقلاب اسلامی کی علامت(symbol)بن گئی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص سیدرشید رضا کی تفسیر’ المنار‘، مولانا ابو الکلام کا ترجمان القرآن اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ایک ساتھ مطالعہ کرے تو اسے ایک ہم آہنگ ذہنی ارتقا اور فہم قرآن کا ایک فکری تسلسل نظر آئے گا اور ایسا صاف محسوس ہو گا کہ ایک ہی سانچہ میں ڈھلے ہوئے مختلف ذہن، مختلف زبان اور انداز بیان میں اظہار مطالب کر رہے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر القرآن کا جب ذکر آ گیا ہے تو اس سلسلہ کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کر دینا بھی بہتر ہے، ترجمان القرآن کی جب پہلی جلد منظر عام پر آئی تو اس میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر مولانا کے فکر و نظر کی ایک ایسی شاہ کار تھی جس کی مثال اردو تو کیا عربی تفاسیر میں بھی نہیں ملے گی، اس کے پڑھنے سے کچھ ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ مولانا نجات اخروی کے لئے صرف ایمان با اللہ اور عمل صالح کو کافی سمجھتے ہیں، ایمان بالرسالت، نجات کے لئے ان کے نزدیک ضروری نہیں مولانا کی تفسیر کے اس رخ سے اپنوں کو شکایت ہوئی، غیروں نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر عوام میں مولانا کو بے دین و بے عقیدہ قرار دیا۔ حالانکہ یہ بات ہی سرے سے غلط تھی۔ سورہ فاتحہ کی تفسیر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مولانا ایمان با لرسل کے قائل نہیں، ایک مسلمان کے بنیادی عقیدہ سے نا واقفیت کی دلیل ہے، مولانا نے بہت ہی صاف اور صریح لفظوں میں اس غلط فہمی کی تردید کی ہے۔ اور اس سلسلہ میں مولانا مرحوم کے وہ خطوط’’ قول فیصل ‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں ہماری ریاست بہار کے مشہور قومی و ملی رہنما جناب قاضی احمد حسین مرحوم نے ’’میرا عقیدہ‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کے قرآنی فکر و ذہن کا سب سے بڑا ثبوت خود مولانا کا ادب و انشا بھی ہے، مولانا کا ادبی اسلوب وہی ہے، جسے ہم قرآن کا ادبی اسلوب کہہ سکتے ہیں، یعنی حکیمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطیبانہ اور معجزانہ بھی !قرآن کا ادبی اسلوب یہ ہے کہ ایک طرف وہ فکر و نظر اور عقل و دانش کو اپیل کرتا ہے تو دوسری طرف اس میں جذبہ کا ابھار اور جوش کا اظہار ہوتا ہے مولانا کا یہ ادبی اسلوب اور انداز بیان تقریباً ان کی تمام ہی تحریروں میں نمایاں ہے بلکہ ان کے ادبی اسلوب کی اصل خوبی بھی یہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معجز نمااسلوب کے موجد اور خاتم دونوں ہی ہیں۔
فکر ابو الکلام کے سلسلہ میں دور متوسطین کے علماء علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کا ذکر نہ کرنا، مولانا کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، سچ تو یہ ہے کہ مولانا آزاد، علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ سے کافی متاثر تھے۔ مولانا کی قرآنی بصیرت، دینی دعوت اور ایمانی قوت میں ابن تیمیہ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کے فکر کی پرچھائیں نظر آتی ہے۔ مولانا آزاد کا زور بیان، حسن انشا اور قدرت کلام کا کمال یہ ہے کہ ہر فکر خواہ وہ کہیں سے لی گئی ہو، اُن کی اپنی فکر بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت ایک عہد آفریں شخصیت تھی اور جب ہم فکر ابوالکلام کا جائزہ الہلال و البلاغ کے فائل، تذکرہ کے اوراق اور ترجمان القرآن کے صفحات میں لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
ز فرق تا با قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است
٭٭٭
http://www.aainathemirror.in/2014/03/maulana-abul-kalam-azad.html
قاضی سید احمد حسینؒؒ جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل
سر زمین بہار شروع سے ہی بہت مردم خیز خطہ رہا ہے۔ اپنی علمی و ادبی، روحانی و اخلاقی اور سیاسی و انقلابی کارناموں کی وجہ سے یہ ریاست ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ علم و ادب میں جہاں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد جیسے جید عالم دین و ادب پیدا ہوئے وہیں سیاسی و اجتماعی زندگی میں غیر مسلموں میں ڈاکٹر راجندر پرشاد، جئے پرکاش نارائن جیسے سیاسی مدبر اور مسلمانوں میں مولانا مظہر الحق، مولانا شفیع داؤدی، ڈاکٹر سید محمود اور شاہ محمد زبیر جیسے اہل فکر و سیاست نے اس سرزمین کو رونق بخشی، اسی سرزمین میں جنگ آزادی کے مجاہد جلیل، دین و سیاست اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل جناب قاضی سیداحمد حسینؒ پیدا ہوئے۔ جن کی ہشت پہلو ہمہ جہت شخصیت کا مختصر تعارف اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ وہ ایک ایسے مرد مومن تھے جن کے دنوں کی تپش اور شبوں کے گداز کو ان آنکھوں نے تقریباً دو سال شب و روز خلوت و جلوت میں ساتھ رہ کر دیکھا اور ان کی حکمت و دانائی، روحانی و اخلاقی فکر و عمل سے فیضیاب ہوا۔ ان کی پوری زندگی جنگ آزادی کی جد و جہد، ملک و ملت کی خدمت گذاری اور دعوت دین میں گذری۔ ان کی مؤمنانہ بصیرت اور فطری ذہانت ان کی پیشانی سے عیاں ہوتی۔ قاضی احمد حسین صاحب بہار کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش موضع کونی بر، نرہٹ ضلع نوادہ ہے۔ ان کے والد قاضی عبد اللطیف صاحب بہار کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے۔ خاندان سادات سے ان کا تعلق تھا۔ اس خاندان میں قضا کا محکمہ کئی پشت سے چلا آ رہا تھا اس لئے قاضی کا لفظ اس خاندان کے نام کا جزو بن گیا۔ آپ کی نانیہال سملہ ضلع اورنگ آباد (بہار) کے عثمانی خانوادہ میں تھی جو شروع سے رشد و ہدایت، تصوف و احسان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔ ان کی والدہ بی بی رحمت اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں جن کا ذوق عبادت اور شوق ریاضت خاندان میں مشہور تھا۔ قاضی صاحب کو جہاں دادیہال سے ریاست و خوشحالی ملی تھی، وہیں اپنی نانیہال سملہ کے بزرگوں اور اپنی والدہ سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل ہوئی تھی، اس طرح ان کے مزاج میں سلطانی و درویشی کا حسین امتزاج تھا۔ میں نے ان کو دن میں دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں میں مشغول پایا تو راتوں کو اخیر شب میں تہجد گذاری، ذکر و اشغال، اپنے خدا کے حضور میں روتے، گڑ گڑاتے اور آہ و بکا کرتے دیکھا، ایسی جامع شخصیت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
قاضی احمد حسین صاحبؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ اردو، فارسی، نوشت و خواند اور ساتھ ہی حفظ قران مکمل کیا۔ کم عمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ 14برس کی عمر میں ہی کاروبار زمینداری کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آ گیا، اسی باعث ان کی روایتی تعلیم ادھوری رہ گئی لیکن اپنی خداداد ذہانت اور ذوق مطالعہ سے ان کی علمی صلاحیت بہت بڑھ گئی تھی۔ علماء، شیوخ اور اہل علم و دانش کے درمیان وہ بڑی وقعت اور وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، قرآن مجید سے شغف اور تفاسیر کا مطالعہ ان کا خاص موضوع تھا۔ روزانہ مطالعہ قرآن کسی نہ کسی معتبر تفسیر سے کرتے۔ فقہ و حدیث، تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہتیں۔ ان کے علاوہ مختلف علمی موضوعات پر متنوع علمی مطالعہ ان کا خاص ذوق تھا، جس نے ان کی شخصیت اور فکر و نظر میں وسعت پیدا کر دی تھی، نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز کے وہ مصداق بن گئے تھے اس طرح میر کارواں بننے کے وہ ہر طرح مستحق تھے۔
عنفوان شباب میں ہی کلکتہ کے انقلابیوں سے ان کا تعلق ہو گیا اور ساتھ ہی مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی بہت قریب ہو گئے، مولانا آزاد کا اخبار ’’الہلال‘‘ مشرق کے افق سے طلوع ہو چکا تھا، اسی زمانہ میں مولانا آزاد کی تحریک ’حزب اللہ‘ میں بھی وہ شریک رہے۔ پھر جب ملک میں خلافت تحریک کا زور ہوا تو وہ بہار میں تحریک خلافت کے روح رواں بن گئے۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے ان کا رابطہ ہوا۔ اس سے پہلے تشدد چھوڑ کر گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو بطور حکمت عملی اختیار کر چکے تھے اور گاندھی جی کے ایماء پربمبئی خلافت ہاؤس میں مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی کے ساتھ بھی کچھ دنوں کام کیا، پھر گاندھی جی نے اہلِ بہار کے اصرار پر قاضی صاحب کو بہار واپس بھیج دیا۔
قاضی صاحب کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے، جب کہ وہ جوان تھے، شوق اور جوش انقلاب میں زمینداری کے سارے کاروبار اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی تعلیم ختم کر کے گھر آ گئے تھے حوالہ کر کے بنگال کی انقلابی تحریک میں شریک ہو گئے، اس طرح بنگالی نوجوانوں کے ساتھ تشدد کے ذریعہ انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لئے جنگ آزادی کی جد و جہد میں شریک رہے۔ قاضی صاحب تشدد کا راستہ چھوڑ کر عدم تشدد کے اصول پر کانگریس کی تحریک آزادی میں کس طرح شریک ہوئے اس واقعہ کو خود انہوں نے مجھ سے اس طرح فرمایا:اسی زمانہ میں الہ آباد میں گاندھی جی نے کانگریس کا ایک جلسہ بلایا، جس میں ہم بھی شریک ہوئے اس جلسہ میں گاندھی جی نے ایک مختصر تقریر کی لیکن وہ اتنی موثر تھی کہ ہم اور دوسرے نوجوانوں نے متاثر ہو کر تشدد کا راستہ چھوڑ دیا اور پستول پھینک کر گاندھی جی کی عدم تشدد کے ذریعہ کانگریس کی تحریک آزادی میں ہم بھی شریک ہوئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قاضی صاحب کانگریس کے ساتھ تحریک خلافت میں بھی برابر شریک رہے۔ اسی دور میں جب ملک میں خلافت تحریک زوروں پر چل رہی تھی، بہار میں قاضی احمد حسین صاحب کے ساتھ متعدد ہندو مسلم رہنما گرفتار کر لئے گئے تو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا مورخہ 22دسمبر1921ء میں لکھا۔
’’کرشن پرشاد، راج رنگ دت، رانا شنکر، قاضی احمد حسین گیا کے، یہ سب رہنما شخصیتیں ڈیڑھ سو رضاکاروں کے ساتھ گرفتار کر لی گئی ہیں۔ بہار کی زمین غم و الم بن گئی ہے، یہ حضرات ہندوستان کے سب سے زیادہ بے غرض کارکن ہیں جو خاموشی سے کام کرتے ہیں اور بے غیر ریا اور نمائش کے۔ ‘‘
جنگ آزادی میں کانگریس، تحریک خلافت، جمعیتہ علمائے ہند اور امارت شرعیہ بہار سے عملاً متعلق رہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ نے جب امارت شرعیہ بہار کا قیام عمل میں لایا تو قاضی صاحب اس دینی تحریک کے ثانی اثنین بن گئے اور اخیر عمر تک اعزازی طور پر بحیثیت ناظم امارت شرعیہ میں کام کرتے رہے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد جنوری1954ء سے 1955ء تک تقریباً دو سال میں امارت شرعیہ بہارسے متعلق رہا۔ ہفت روزہ نقیب پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت مدیر میری تقرری ہوئی اور ساتھ ہی معاون ناظم کی حیثیت سے قاضی صاحب کے ساتھ معاونت میرے فرائض میں شامل تھی۔ یہ دو سال میری زندگی کا انتہائی قیمتی دور گذرا ہے۔ جس میں مجھے قاضی صاحب کے ساتھ صبح و شام رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ ملک کی دینی، سیاسی اور ملی تحریکات کے سلسلہ میں قاضی صاحب سے میں براہ راست مستفید ہوا، ان کے دینی و ملی اور سیاسی تجربے میری زندگی کے حاصل رہے۔
قاضی صاحب کی پوری زندگی، تحریک خلافت، جمعیتہ علمائے ہند اور امارت شرعیہ بہار کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اخیر عمر میں وہ امارت شرعیہ بہار کے ہو کر رہ گئے تھے اور ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ دوران گفتگو مجھ سے کہا اور نصیحت کی کہ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ نیو کی اینٹ بنو جس پر پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھتا، واقعہ یہ ہے کہ خود قاضی صاحب اس کے عملی نمونہ تھے، بے غرض و بے ریا، ملک و ملت اور دین کی خدمت کسی ستائش کی تمنا اور صلہ سے بے پرواہ ہو کر انجام دیتے رہے۔ کبھی کوئی عہدہ اور ادارہ کی صدارت و نظامت قبول نہیں کی۔ امارت شرعیہ کی اعزازی نظامت بھی مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کے اصرار و خواہش اور امارت کی ناگذیر ضرورت کی بنا پر اختیار کی۔ بہار میں انڈی پنڈنٹ پارٹی جسے مولانا سجاد نے قائم کیا تھاجس کے روح رواں خود قاضی صاحب تھے بہار کونسل میں کانگریس کے بعد دوسری پارٹی تھی جب وزارت سازی کا وقت آیا تو کانگریس نے بعض مصالح کی بنا پر وزارت بنانے سے ان کار کر دیا اور گورنر نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کو مدعو کیا، مسٹر محمد یونس بیرسٹر نے جو پارٹی لیڈر تھے وزارت بنائی، قاضی صاحب جو خود کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے وزارت میں شریک نہیں ہوئے اور ہمیشہ نیو کی اینٹ بنے ملک و ملت کی خدمت انجام دیتے رہے۔
جب ملک آزاد ہوا اور نئی پارلیمنٹ بنی تو راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے دہلی کانگریس آفس میں خواہشمندوں کا تانتا بندھ گیا، تقسیم ہند اور آزادی کے بعد حالات بدلے، مسلمانوں کی مرکزی قیادت دہلی میں تھی، کانگریس کی مرکزی حکومت میں، مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی، ڈاکٹر سید محمود جیسے رہنما، ملت مسلمہ کے مسائل کے ڈور کو سلجھانے اور حل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ ، جمعیتہ علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند اور تبلیغی جماعت اپنے اپنے دائرے میں ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنی سی کوششیں کر رہے تھے، ایسے میں قاضی احمد حسین جیسے پیکر اخلاص و عمل اور مدبر کی ضرورت دہلی میں رہنے کی تھی، پھر بھی قاضی صاحب کا خیال راجیہ سبھا کی ممبری کی طرف نہ گیا، بہار میں رہ کر بہار سنی وقف بورڈ کی اصلاح اور امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار کرنے اور اصلاحِ احوال میں لگے رہے۔ ایک دن ان کے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب پھلواری پہنچے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا اور راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ قاضی محمد حسین صاحب ایک پڑھے لکھے علیگ تھے، قومی کاموں میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سرگرم رہے تھے، گیا میں ضلع ڈسٹرکٹ بورڈ کے وائس چیرمین رہ چکے تھے وہ ہر طرح اس عہدہ کے مستحق تھے۔ لیکن اس دوڑ میں پٹنہ سے دہلی تک ان کی پہنچ ذرا مشکل تھی۔ کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ٹھیک تو ہے تمہاری اہلیت و صلاحیت کی وہاں ضرورت ہے لیکن تم نہیں ہو سکتے، ممکن ہے ہم ہو جائیں۔ قاضی صاحب کا دل فقیرانہ اور مزاج شاہانہ تھا، پٹنہ اور دہلی کی دربار داری ان کے بس کی نہ تھی۔ پھر پٹنہ اور دہلی کا چکر لگائے بغیر پھلواری سے بیٹھے بیٹھے، صرف دو سطروں کا خط مولانا آزاد کے نام لکھا ’’جی چاہتا ہے کچھ دنوں دہلی میں آپ کی معیت حاصل ہو‘‘۔ راجیہ سبھا کی ممبری کا کوئی ذکر بھی نہیں تھا۔مولانا آزاد اپنی ذہانت سے مقصد کو سمجھ گئے اور جواب میں اپنے سکریٹری پروفیسر اجمل صاحب سے کہلوایا کہ ’’جب اس کا موقع اور محل آئے گا تو ہو جائے گا‘‘ پھر مولانا آزاد کے ایماء پر قاضی صاحب راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہو گئے اور دو ٹرم رہے۔ قاضی صاحب کی راجیہ سبھا کی یہ ممبری با مقصد تھی۔ ملک و ملت کی خدمت اور دینی کاموں کی سہولت ان کے پیش نظر تھی۔ دہلی میں ان کی قیام گاہ ساؤتھ ایونیو پورے ملک کے مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا مرکز بنی رہتی تھی۔ جمعیتہ علمائے ہند کے اکابر، جماعت اسلامی کے محمد مسلم مرحوم مدیر’ دعوت‘ ان کے علاوہ پسماندہ اور پست اقوام کے رہنما اور کارکنان سے ان کا رابطہ رہتاسب کے مشیر اور اچھے کاموں میں شریک رہتے۔ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے سب سے جدا اور سب کے رفیق۔ مرکزی سطح سے پورے ملک پر اپنی فکر صالح کی چھاپ ڈالتے۔ پارلیمنٹ میں بھی اپنی بات پہنچانے میں وہ باز نہ آئے۔ پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل پر آپ کی تقریر کا بڑا شہرہ ہوا۔ کانگریس پارٹی کے اندر پسند نہیں کی گئی لیکن دوسرے حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔ قاضی صاحب کا جوش تبلیغ اور دعوت دین کا جذبہ وہاں بھی چین سے نہ بیٹھا 12ربیع الا ول یوم میلاد النبی کے موقع پر عید کارڈ کی طرح سیرت نبوی پر انگریزی زبان میں کارڈ چھپوایا اور اپنی طرف سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام ممبران پارلیمنٹ کے نام آنحضرتﷺ کی سیرت پاک کے تناظر میں اسلام کی دعوت پیش کی جسے عام طور پر سراہا گیا اور قاضی صاحب کی ذہانت و جدت کی بڑی پذیرائی ہوئی۔
قاضی صاحب اس ملک میں دعوت دین کے لئے ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بہت قائل تھے اور اس کے لئے ہر سطح پر کوشاں رہے اس سلسلہ میں پہلے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد کے نام ان کا ایک خط جیتا جاگتا ثبوت ہے جس سے ان کی ذہانت و دانائی سے لبریز ان کی بہترین تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ مسلمان اگراسلام کی حقیقی روح کو سمجھ لیں اور ہندو اپنے سناتن دھرم کی روایتی رواداری کے حامل ہو جائیں تو ہماری دنیا چین و مسرت کی دنیا بن جائے۔
میں کانگریسی حکومتوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ ہندو مسلمانوں میں اس روح کو بیدار کریں گے جو ہندوؤں کی روایات اور مسلمانوں کے مذہب نے انہیں بخشا ہے۔ میں اس گمشدہ چین و مسرت کو واپس لانے کا خواہشمند ہوں، اگر مجھ سے یہ امید اور خواہش چھین لی جائے تو اس امید سے خالی زندگی میں کوئی لذت نہیں پاؤں گا۔ ‘‘
(اقتباس از مکتوب قاضی احمد حسین بنام ڈاکٹر راجندر پرشاد)
امارت شرعیہ بہار کی نظامت کے زمانہ ہی میں قاضی صاحب کو تبلیغی جماعت کے طریقہ تبلیغ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور کہا کرتے تھے کہ یہ طریقہ تبلیغ عوامی رابطہ اور اصلاح کا بہترین طریقہ ہے، چنانچہ انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبۂ تبلیغ کو عملاً اسی طریقہ تبلیغ پر ڈھال دیا تھا۔ اپنی کبر سنی، تنفس کی بیماری اور ضعف و نقاہت کے با وجود بستی بستی قریہ قریہ سفر فرماتے، اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ میں عملاً شریک رہتے۔ امت مسلمہ کی دینی اصلاح اور ان کے اندر ایک داعی امت کی صفات پیدا کرنے کی ہمہ جہت کوشش ان کا مقصدِ زندگی تھا، جو زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے ساتھ رہا۔
جناب مولانا منت اللہ رحمانیؒ جب امیر شریعت رابع منتخب ہو گئے تو امارت شرعیہ بہار کے کاموں کی نگرانی براہ راست مولانا منت اللہ صاحب کے ہاتھوں میں آ گئی اور قاضی صاحب کی ذاتی دلچسپی زیادہ تر تبلیغی کاموں سے ہو گئی، چنانچہ انہوں نے اس کام کے لئے زیادہ وقت گیا میں گذارنا شروع کیا اور راجیہ سبھا کا سیشن بند ہوتے ہی اکثر گیا چلے آتے تھے۔ ان دنوں میں بھی اپنے تعلیمی پیشہ اور ملازمت کے سلسلہ میں گیا آ گیا تھا، اس لئے جب بھی وہ گیا آتے پھلواری شریف کی طرح یہاں بھی میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا، اس طرح ان کے فکری اور روحانی فیضان سے میں برابر مستفیض ہوتا رہا اور مستقبل میں میری اجتماعی زندگی اور دینی تحریکات میں میری عملی شرکت کا باعث بنا۔
29جولائی1961ء میں گیا کے اپنے مکان رحمت منزل میر ابو صالح روڈ میں اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب کے ساتھ ان کا قیام تھا، قاضی صاحب بیمار تو تھے ہی اس دن ان پر قلب کا شدید دورہ پڑا، شہر کے مشہور معالج ڈاکٹر منظور صاحب موجود تھے، علاج معالجہ کی ہر تدبیریں ناکام ہوئیں، وہ ایک مرد مومن کی طرح چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست کی تصویر بنے اپنے رب سے جا ملے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ خدا مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کا یہ بطل جلیل 1918ء سے 1961ء تک ملک و ملت کی تمام تحریکات کا روح رواں، مسلم ہندوستان کی تاریخ کا عملی نمونہ، اخلاص و عمل اور دعوت دین کا پیکر جمیل آج ہم سے جدا ہو گیا۔ بقول ایک عرب شاعر:
’’وہ لوگ تو چلے گئے جن کے سایہ میں زندگی گذاری جاتی تھی، وہ لوگ رہ گئے ہیں جن کی زندگی کچھ کارآمد نہیں۔‘‘
دوسرے دن بعد نماز ظہر، گیا کے مرکز تبلیغ محلہ گھسیار ٹولہ کی چھوٹی مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور شہر سے قریب پھلگو ندی کے اس پار آبگلہ کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
٭٭٭
حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ : ایک گم نام مگر باکمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل
ریاست بہار ضلع اورنگ آباد میں ایک چھوٹی سی قدیم بستی ’سِملہ‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں ایک قدیم صوفی عثمانی خانوادہ آباد ہے۔ اس خانوادہ میں شروع ہی سے علماء، صوفیاء اور اہل دل بزرگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ سِملہ کے یہ تمام بزرگ عام طور پر خلوت نشیں اور اہل دل رہے ہیں۔ عبادت و ریاضت، ذکر و اشغال اور خموش رشد و ہدایت میں پوری زندگی مشغول رہے۔ معروف خانقاہی مراسم کی کوئی پابندی نہیں رہی، اسی مبارک خانوادہ میں ایک معروف شخصیت شیخ وقت، مرد درویش، مجاہد جلیل حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی پیدائش ہوئی۔ جنہوں نے اپنی درویشانہ زندگی اور خلوت نشینی کے باوجود زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحی کارنامے انجام دیے، علم و ادب، تصوف و احسان، اصلاح معاشرہ، سیاست و اجتماعیت گویا زندگی کے ہر شعبہ میں تعمیرو اصلاح کے نقوش ثبت کئے۔ اور مرجع خلائق ہوئے۔ آپ کی ولادت باسعادت، ۹؍صفر المظفر ۱۳۰۷ھ بمقام سملہ ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب اڑتیسویں (۳۸ویں ) پشت میں، خلیفہ راشد ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی ذیِ النورین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اس خاندان کی قدر مشترک روحانیت رہی ہے۔ ذوق عبادت، تسبیح و تلاوت اور فکر آخرت اس کا نمایاں وصف رہا ہے۔ اسی دینی و روحانی ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں اور پروان چڑھے۔
خاندان کے قدیم روایت کے مطابق جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانیؒ نے بھی گھر پر ابتدائی اردو نوشت و خواند، قرآن مجید اور فارسی کی تعلیم مکمل کی۔ پھر جدید تعلیم کے لئے گیا شہر کے مشہور تعلیمی ادارہ ’’ہری داس سیمنری اسکول‘‘ (ٹاؤن اسکول، گیا) میں داخل کئے گئے، گیا سے مزید اعلیٰ انگریزی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جو ان دنوں ’’اینگلو محمڈن علی گڑھ کالج‘‘ کے نام سے مشہور تھا میں داخلہ لیا اور میٹرک تک تعلیم وہاں حاصل کی۔ اسی درمیان ’’تحریک ترک موالات‘‘ اور خلافت تحریک شروع ہو گئی۔ آپ بھی اپنے دینی و ملی اور قومی جوش و جذبہ کے باعث علی گڑھ کی انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر جنگ آزادی کی تحریک سے عملاً وابستہ ہو گئے۔ پھر جب مشرق (کلکتہ) کے مطلع صحافت سے ’’الہلال‘‘ طلوع ہوا تو آپ اس کے ادارہ میں انگریزی مترجم کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ ان دنوں مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار ’’الہلال‘‘ اہل علم مشاہیرو علماء و ادباء کا مرکز بن گیا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، خواجہ عبد الحئی، عبداللہ العمادی جیسے باکمال اہل علم ’الہلال ‘ کی مجلس ادارت میں شریک تھے۔ عرصہ تک الہلال سے وابستگی کے باعث، مولانا آزاد اور دیگر اہل علموں کی صحبت نے علمی و ادبی طور پر آپ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ جب الہلال سے وابستہ تھے، غالباً اسی زمانہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کی نظربندی کا واقعہ بھی پیش آیا اور انگریز حکومت نے مولانا آزاد کو رانچی میں نظر بند کر دیا۔ آپ چونکہ شروع ہی سے مولانا آزاد کی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ کے رفیق و دم ساز اور محرم راز رہے اس لئے رانچی کی نظر بندی کے زمانہ میں بھی آپ رانچی میں مولانا آزاد کے رفیق و معاون بن گئے۔ جب وہاں مولانا آزاد نے ’’مدرسہ اسلامیہ ‘‘ کا قیام عمل میں لایا، جو آج بھی وہاں موجود ہے تو آپ اس مدرسہ میں مدرس اول کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ مولانا آزاد کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد اپنے فطری دینی ذوق اور تصوف و احسان سے خاندانی شغف کے باعث، خالص دینی مطالعہ اور روحانی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ میں قیام فرمایا۔ جس زمانہ میں آپ پھلواری شریف میں قیام پذیر ہو کر علمی و دینی مطالعہ میں مشغول و منہمک تھے، اسی زمانہ میں، خانقاہ مجیبہ پھلواری شریف سے شائع ہونے والے ایک اہم دینی و علمی ماہنامہ ’’معارف‘‘ کے مدیر رہے، جو آپ کی علمی گہرائی، دینی بصیرت اور ادبی صلاحیتوں کی روشن یادگار ہے۔ اس طرح علی گڑھ کی تعلیم کے اختتام کے بعد آزادانہ طور پر اپنی محنت اور ذوق مطالعہ سے اپنی دینی تعلیم کی تکمیل فرمائی۔
حضرت شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی زندگی کے احوال و واقعات 1912ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رفاقت اور ان کے اخبار الہلال کی صحافت سے 1947ء کی جنگ آزادی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی ذات والا صفات اس پورے دور کی دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی تحریکات کی تاریخ ہے۔ 15؍اگست 1947ء کو جب ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا، اس سے ایک ماہ پہلے، 19؍جولائی 1947ء کو آپ کی زندگی کا آفتاب غروب ہو گیا۔
خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں، کچھ دنوں قیام اور اپنی علمی و دینی اور روحانی تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد آخر میں اپنے وطن مالوف ’سملہ‘ میں مستقل قیام پذیر ہوئے، معاش کے لیے تھوڑی سی زمینداری اور کاشتکاری موجود تھی اس کی دیکھ بھال اپنے چھوٹے بھائی کے حوالہ کر دی اور ذریعہ معاش سے بے فکر ہو کر، پوری زندگی توکل، فقر و درویشی کے ساتھ دین و ملت کی خدمت اور رشد و ہدایت کے لئے وقف کر دی آپ کی بیعت اپنے جد امجد حضرت مولانا شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید فردوسی سملویؒ کے ہاتھ پر، حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمدیحیٰ منیریؒ کے سلسلہ فردوسیہ میں ہوئی۔ حضرت شہیدؒ وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے انگریزوں کے تسلط کے بعد، ہندوستان میں دین کے قیام و بقا کے لئے ’’بیعت طریقت‘‘ میں ’’بیعت جہاد‘‘ کو جاری فرمایا۔ حضرت مولانا شاد محمد قاسم عثمانی فردوسی نے اپنے جد امجد کے ہاتھوں پر، بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد بھی کیا۔ یہ بیعت جہاد اور پیر و مرشد حضرت شہیدؒ کا فیضان نظر ہی تھا، جس نے زندگی کے آخری لمحوں میں بھی آپ کے اندر، جوانوں کا سا جوش و ولولہ، دین کے قیام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے والہانہ عشق پیدا کر دیا تھا، ایسی بے چین و سیماب وش طبیعت پائی تھی کہ ملک و ملت اور دین کا درد ان کا اپنا درد بن گیا تھا، پھر پوری زندگی دین و ملت کی خدمت اور رشد ہدایت میں گذار دی۔
آج کے دور میں تصوف و احسان اور سلوک و طریقت کا موضوع بڑا نازک اور نزاعی بن گیا ہے، اس کی نت نئی تعبیر ہیں، جو مختلف حضرات، مختلف الفاظ اور اپنے اپنے انداز نظر سے کرتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے تصوف و احسان کے وسیع مفہوم کو اختیار کیا آپ کے نزدیک اگر تصوف، کتاب و سنت اور شریعت کے حدود میں ہو تو لائقِ تحسین ہے۔ کتاب و سنت اور شریعت سے ہٹ کر اگر تصوف ہر کوئی چیز در آتی ہے تو قابل اصلاح ہے ورنہ کلیۃً لائق رد ہے۔ آپ کے نزدیک تصوف در اصل احسان کا نام ہے، جو شریعت کی کامل پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔ سلوک و تصوف کی حقیقت کو جاننے کے لیے آپ کے خطوط کا مجموعہ’ نقش دوام ‘کے باب اول ’تصوف و احسان‘ کا مطالعہ مفید ہو گا۔ جن سے ہمیں فکر کی تابانی اور یقین کی گرمی دونوں ہی حاصل ہوتی ہے۔
جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کے اخلاق و اوصاف میں خلق محمدی کا عکس نظر آتا ہے، وہ سراپا اخلاص و عمل تھے۔ عشق رسول اور اتباع رسول ان کی سیرت و کردار کا نمایاں عنصر تھا۔ اپنی گفتگو، بات چیت اور رہن سہن میں ہمیشہ اسوۂ محمدی پیش نظر رکھتے۔ عادات و خصائل پسندو ناپسند سب میں اتباع سنت کو حرز جاں بنائے ہوئے تھے۔ آپ کا لباس اور انداز شرعی اور عالمانہ تھا، کھدر کا سفید اور لانبا کرتا، ٹخنوں سے اونچا پائجامہ، سفید تہ دار عمامہ اور سفید پٹکہ ہمیشہ استعمال فرماتے۔ حالت سفر میں چستی و آسانی کے لئے پٹکہ کو جو کاندھے پر رہا کرتا تھا کمر سے باندھ لیتے تھے۔ غالباً 46ء سے پہلے کا زمانہ تھا، کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش انتہائی عروج پر تھی، علماء اور اہل دین کی توہین اور استہزا عام تھا، گیا اسٹیشن پر ایک صاحب جو جدید تعلیم سے آراستہ، کوٹ، پینٹ اور ہیٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے، آپ کو دیکھ کر ٹہلتے ہوئے آپ کے قریب آئے اور تمسخرانہ انداز میں سنجیدہ بن کر پوچھا:
’’آپ کس صاحب کے خانساماں ہیں ؟‘‘
آپ نے برجستہ جواب دیا: ’’محمد صاحب کے ‘‘ (ﷺ)وہ حضرت شرمندہ ہو کر الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا، آنحضرتؐ کی غلامی اور ان کے ’’خانساماں ‘‘ ہونے کے احساس سے آپ کی آنکھیں روشن اور پیشانی تابناک ہو گئی۔
آپ عنفوان شباب ہی سے تہجد اور ذکر و اشغال کے پابند تھے، ساتھ ہی اپنے متوسلین اہل قرابت اور تعلق کو ہر خط میں نماز کی تاکید فرماتے، فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ آیت ربانی کی طرف متوجہ کرتے اور خود اس کے عملی نمونہ تھے، اپنے ایک عزیز کو ایک خط میں فرماتے ہیں :
’’آپ یقین کریں، حقیقی سعادت سے ہم ہرگز بہرہ ور نہیں ہو سکتے جب تک ہم عبادت کو اپنا اوڑھنا، بچھونا نہ بنا لیں، عبادت دلوں کی پونجی، متقیوں کا زیور، مردوں کا ہنر، ہمت والوں کا پیشہ اور حاصلِ عمر ہے۔ ‘‘
آپ کی شخصیت بڑی دل آویز، ہمہ گیر، جاذب نظر اور پرسوز و پرکشش تھی، وہ محبت، معرفت اور نگاہ کے حسین امتزاج تھے، اسی چیز نے ان کے اندر بڑی جامعیت پیدا کر دی تھی، انفرادی تزکیہ و اصلاح، باطنی و روحانی ارتقا اور دینی انداز فکر کے ساتھ سیاسی و اجتماعی جد و جہد کے مختلف دھارے آپ کی زندگی میں آ کر ملتے تھے اور ان سب کا سرچشمہ عشق نبوی تھا، ان کی زندگی اور فکر کی ساری روشنی و تابندگی ’’چراغِ مصطفوی‘‘ ہی سے فروزاں تھی، چنانچہ حبّ رسول اور اتباع سنت سے آپ کی پوری زندگی روشن و تابندہ تھی۔
آپ کی سیاسی و اجتماعی زندگی کا آغاز، جنگ آزادی کے مجاہد کی حیثیت سے 1912ء سے ہوا، تحریک ترک موالات کے دور میں انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر تحریک خلافت میں شریک ہوئے اور اس دورے کے اہل دین علماء اور سیاسی شخصیات سے آپ کا براہ راست رابطہ و تعلق تھا۔ الہلال کی صحافت کے ساتھ مولانا ا بوالکلام آزاد کی جماعت’ حزب اللہ‘، شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحبؒ کی خفیہ تحریک جہاد، مولانا عبید اللہ سندھیؒ جیسی انقلابی شخصیت سے ذاتی مخلصانہ مراسم، مولانا سندھی کا ہندوستان سے فرار اور ریشمی خطوط والا واقعہ، ان سب سے آپ کا براہ راست ربط و تعلق تھا اور تمام تحریکوں میں آپ نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ بہار میں اقامت دین اور نظام شرعی کے قیام کی اہم تحریک امارت شرعیہ میں آپ حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کے شریک کار اور رفیق و غمگسار رہے۔ امارت شرعیہ کی تحریک کو صوبہ کی اہم زندہ اور فعال تحریک بنانے میں آپ کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ مولانا سجادؒ، قاضی احمد حسینؒ اور شاہ محمد قاسمؒ امارت شرعیہ کے حقیقی عناصر ترکیبی تھے جن سے امارت شرعیہ بہار میں پروان چڑھی۔ آپ اپنے عنفوان شباب ہی سے عملاً اس وقت کے اکابر علماء اور سیاسی شخصیات کے ساتھ وابستہ رہے اور ان کے سیاسی کاموں میں عملاً شریک رہے لیکن جنگ آزادی کی تاریخ میں ان کا کہیں نام نظر نہیں آتا، وجہ ظاہر ہے، حضرت مخدوم الملک بہاریؒ کا فیضان ’’خاک شو گم نام شو‘‘ آپ اس کے حقیقی نمونہ تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد سے آپ کے کتنے قریبی تعلق تھے اور مولانا آزاد ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جس کا ذکر مولانا شاہ محمد عثمانی مدظلہ نے اپنی کتاب ’ٹوٹے ہوئے تارے ‘ میں مولانا عبیداللہ سندھی کے حالات کے تذکرہ میں لکھا ہے :
’’ہمارے ایک عزیز (شاہ محمد قاسم عثمانی) نے جو ان دنوں مولانا کے معتمد لوگوں میں تھے مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو دہلی میں مولانا آزاد کا یہ پیغام پہنچایا تھا کہ ان کی گرفتاری کی تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ بھاگ جائیں۔ یہ بیان قریب قیاس اس لئے بھی ہے کہ مولانا سندھی دہلی سے بھاگ کر کچھ عرصہ سندھ کے دیہاتوں میں روپوش رہے اور بہر حال مولانا افغانستان پہنچ گئے اور مولانا محمود الحسن کے بتائے نقشہ پر کام کرتے رہے۔ ‘‘
اسی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمود الحسنؒ کا وہ خفیہ پیغام جو ’’ریشمی رومال‘‘ کے نام سے موسوم ہے اس کے پہنچانے میں بھی مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ براہ راست شریک تھے۔ اس لئے کہ آپ کے براہ راست تعلقات، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ تینوں سے تھے۔ ان کی معیت میں آپ نے جنگ آزادی میں علمی حصہ لیا، تحریک خلافت میں شریک کار رہے۔ مسلمانوں کی دینی تشخص کے ساتھ کانگریس کی جنگ آزادی کی حمایت کی، جمعیۃ علمائے ہند سے عملی تعلق رہا اور امارت شرعیہ کے قیام سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اسی کے روح رواں اور ممد و معاون بنے رہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی اتنی گوناگوں، متنوع اور ہر دل عزیز تھی کہ اس مختصر مضمون میں آپ کی رنگارنگ شخصیت کے حقیقی خدوخال کو ابھارنا ممکن نہیں۔ آپ بیک وقت بوریہ نشین مرد درویش تھے اور مجاہد جلیل بھی، قائد بھی تھے اور وقت پڑنے پر والنٹیر اور رضاکار بھی، غرض کہ ملک و ملت کے خادم اور مخدوم دونوں ہی تھے۔ آپ نے زیادہ عمر نہیں پائی اور تقریباً ۵۹ برس کی عمر میں اپنے وقت کے یہ گم نام مگر باکمال شیخ وقت، و درویش اور مجاہد جلیل الشان مرد مومن باتو گویم چوں مرگ آ ید تبسم بر لب اوست کے مصداق لقویٰ کے مرض الموت میں مبتلا ہوئے، فالج کا اثر چہرہ اور حلق پر ہوا، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور کوئی ٹھوس غذا فرو حلق نہیں ہوتی، علاج معالجہ جاری رہا، تقریباً چھ مہینے بستر مرض پر رہے، ڈاکٹر حیرت زدہ تھے کہ چھ مہینے سے بغیر غذا کے ہیں، رقیق غذا بھی، چند قطرے مشکل سے فرو حلق ہوتی، آخر آپ زندہ کیسے ہیں ؟ یہ صرف آپ کی روحانیت اور کرامت ہے۔ اس حالت میں بھی آخر وقت تک ذہن و دماغ پوری طرح کام کرتا رہا تھا۔ مسلسل لوگوں سے دین کی باتیں کرتے اور تلقین و ہدایت فرماتے رہتے۔ شدت تکلیف کے باوجود، چہرہ ہمیشہ پرسکون اور روشن رہا، اسی حال میں آخر وقت موعود آ گیا اور آپ کی روح اپنے رب اعلیٰ سے جا ملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخر، وقت کا یہ باکمال آفتاب رشد و ہدایت غروب ہو گیا، ۲۹؍ شعبان العظم ۱۳۶۶ھ مطابق 19؍جولائی 1947ء اپنے آبائی گاؤں سملہ سے جانب مشرق خاندانی قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ اور رمضان المبارک کا چاند بعد تدفین مطلع غرب پر پیغام مغفرت دیتا نظر آیا۔ خدا مغفرت کرے ع
وہ اپنی ذات سے اک انجمن تھے
اپنے وقت کے گمنام مگر با کمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل محبوب الاولیاء حضرت شاہ محمد قاسم فردوسیؒ کے وصال کے بعد خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ کی سجادگی جناب الحاج حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملویؒ کو عطا ہوئی، آپ کا انتقال پر ملال ماہ ۲۲ ذیقعدہ۱۴۲۵ھ مطابق 4جنوری2005ء کو ہوا اور آپ اپنے خاندانی قبرستان سملہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کے وصال کے بعد سملہ میں حضرت شاہ احمد کبیر ابو الحسن شہیدؒ کے عرس مبارک کے مو قع پر ۶ رجب المرجب۱۴۲۵ھ مطابق12اگست 2005بروز جمعہ بعد نماز مغرب علماء اور مشائخ کی موجودگی میں عزیزی مولانا شاہ ابودجانہ تسنیم عثمانی فردوسی سلمہ اللہ تعالیٰ کی دستار بندی ہوئی اور سجادگی عمل میں آئی۔ اس طرح عزیز موصوف اپنے تمام خاندانی تبرکات کے محافظ اور اپنے بزرگوں کی روش اور نقش قدم پر رشد و ہدایت کے خلیفہ و مجاز ہیں۔
ہے خراب بادہ ساقی کمالی کی دعا
حشر تک یا بوالحسن آباد میخانہ رہے
٭٭٭
ولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ :کچھ یادیں کچھ باتیں
آج سے تقریباً نصف صدی سے کچھ زائد ہی 1944ء تقریباً 14 برس کی عمر میں جب میں نے بہ سلسلہ تعلیم ندوہ میں قدم رکھا اور پہلی مرتبہ حضرت مولانا علی میاںؒ کو دیکھ کر جو نقش جمیل میرے قلب پر پڑا تھا آج تک قائم ہے۔ وہ محبوب و دلنواز ذات ادب اسلامی کی نابغۂ روزگار شخصیت، شیروانی میں ملبوس، سیاہ داڑھی، آنکھوں میں یقین کا نور، چہرہ صباحت و بشاشت کا آئینہ جس پر تقویٰ کا جمال نمایاں تھا۔ اس طویل مدت کے میرے شب و روز آپ کی ذات والا صفات سے وابستہ رہے۔ ندوہ کا یہ گوہر شب چراغ، علم و ادب کا مینارہ نور اور روحانیت و تقویٰ کا یہ آفتاب بیسویں صدی کے ساتھ31؍دسمبر 1999ء کو غروب ہو گیا اور جسے رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ کی ۲۳ویں شب قدر نے اپنی آغوش سعادت میں لے لیا۔
حضرت مولانا سیدابو الحسن ندویؒ کی وفات حسرت آیات سے بلاشبہ ندوہ میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، علامہ شبلیؒ، صاحب گل رعنا و نزہت الخواطر، مولانا عبدالحئیؒ اور مولانا سلیمان ندویؒ کی علمی و ادبی اور دینی خصوصیات و جامعیت کے ساتھ جانشینی جس طرح حضرت مولاناؒ نے کی اور ان کے علمی و ادبی کارناموں میں جو اضافہ کیا وہ قابل قدر ہے۔ مجھے یقین ہے مولانا نے ندوہ کے اہل علم و تقویٰ کی جو ٹیم چھوڑی ہے وہ انشاء اللہ ان کی جگہ لے لے گی اور ان کے بعد ندوہ انشاء اللہ محفوظ ہاتھوں میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں آپ کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے۔
مولانا کی پہلی گراں قدر تصنیف سیرت سید احمد شہیدؒ ندوہ آنے سے پہلے پڑھ چکا تھا اور اس کا ایک دھندلا سا نقش ذہن پر موجود تھا، پھر جب قریب سے دیکھا تو ان کو اپنے سے قریب تر پایا۔ اپنے گھر کا ماحول دینی تھا خاندانی طور پر بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد سے کان آشنا تھے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن سمجھ میں آیا اور شوق جہد و عمل کے جذبہ میں اضافہ ہوا۔ پھر ایسا ہوا کہ مولانا کی ذات و شخصیت مجھے اپنی طرف کھینچتی چلی گئی، فکر و نظر کے بعض زاویوں کے فرق کے باوجود محبت و عقیدت سے معمور یہ دل آج بھی ویسا ہی ہے۔ مگر میرے جذبہ دل کی تاثیر عجب الٹی نکلی۔ میرا ذہن و دماغ مولانا سید ابوالا علیٰ مودودیؒ کی فکر اور ان کی کتابوں سے قریب ہوتا گیا اور فکری طور پر میں تحریک اسلامی سے قریب ہو گیا۔ مولانا علی میاںؒ ان دنوں حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی تحریک تبلیغ سے زیادہ قریب ہو گئے تھے اور عملاً اس کے پر جوش داعی تھے۔ ندوہ میں بڑے بڑے اجتماعات ہوتے، مولانا کی پر جوش و دلنشیں تقریریں ہوتیں۔ ان کی معیت میں ہم ندوہ کے طلباء چٹھی کے دن ہر جمعرات ور جمعہ کو لکھنؤ کے اطراف و دیہات اور قصبات میں تبلیغ کے لیے نکلتے۔ اس طرح مولانا کی صحبت و معیت میں کافی وقت گزرتا اور واقعہ یہ ہے کہ بہت لگتا تھا جی صحبت میں ان کی۔ دل و دماغ کی یہ کشمکش پورے ندوہ کی تعلیمی زندگی میں میرے ساتھ رہی۔ فکر مودودیؒ نے دماغ پر قبضہ کر لیا تھا۔ مذہب کا انقلابی تصور ذہن پر سوار تھا۔ ندوہ کے ماحول میں تبدیلی آ رہی تھی یا کی جا رہی تھی، فکر شبلی پر ذوق رحمانی و تھانوی پروان چڑھانے کی کوشش تھی۔ وقت کے روحانی شیوخ ندوہ کے مہمان خانہ میں ہفتوں ٹھہرائے جاتے، اہل دل جمع رہتے، ہم طلباء سے مولانا فرماتے ’’ان کی صحبتوں میں بیٹھئے ان کے یہاں مغز ہے، ہمارے یہاں تو صرف چھلکا ہے۔ ‘‘ میں اکثر ان بزرگوں کی نشستوں میں جایا کرتا، ان کی باتیں سنتا، اہل دل بزرگوں کے قصے بیان ہوتے۔ حضرت جی کے اقوال اور باتیں ایسی جن سے زندگیاں سنورتی ہیں۔ مگر دماغ پر سے فکر مودودیؒ کا انقلابی نشہ اترتا نہ تھا۔ مولانا کے سامنے تو نہیں، ادب مانع تھا، اپنے ساتھیوں کے درمیان کہتا ’’بھائی یہ مغز جو یہاں ہے وہ تو ہمارے گھروں میں موجود ہے، ہم تو یہاں شبلی و سلیمان کے علم و ادب کے چھلکے لینے آئے ہیں۔ ‘‘ شیخ حرم کی باتیں ذہن کو زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ میرے رگ و پے میں جو شوق جہاد اور انقلابی روح کارفرما تھی اس کی تسکین کے لیے فکر مودودیؒ اور اقبالؒ کے ساتھ سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کے فیضان کی ضرورت تھی۔ فکرِ مغرب اور تہذیبِ جدید کے پائے چوبیں کا علاج و مداوا مجھے یہاں نظر نہیں آتا، گوشوں اور زاویوں سے آگے مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ۔ اس فکری فرق کے باوجود اپنا دل مولانا کی ذات اور شخصیت کا نخچیر بن چکا تھا۔ محبت و عقیدت سے معمور یہ دل کبھی ان کے سامنے اپنے تعلق خاطر کے اظہار کی جسارت نہ کر سکا۔ وقت گزرتے رہے فکر و نظر میں دوری کے باوجود، میری محبت و عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ مولانا روحانی اور قلبی طور پر میرے مخدوم بھی ہیں اور مرشد بھی۔ ان دنوں میرے ذہنی و قلبی مناسبت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ لکھنؤ کے کسی مرکزی مقام پر مولانا کا ایک خطاب عام تھا، ہم طلباء بھی سننے گئے۔ تقریر بڑی دل پذیر اور موثر تھی۔ رات کے تقریباً ۱۲بجے جلسہ سے ہوسٹل واپس آئے اور قلم و کاغذ لے کر بیٹھ گئے۔ پوری تقریر ’’صورت اور حقیقت‘‘ کے عنوان سے لکھ ڈالی۔ دوسرے دن حلقہ ادب اسلامی لکھنؤ کی ایک نشست تھی، میں نے وہ مضمون اس میں پڑھا، سبھوں نے پسند کیا۔ ہمارے دوست، م۔ نسیم نے مشورہ دیا کہ سہ روزہ اخبار ’’الانصاف‘‘ جو اس زمانہ میں الٰہ آباد سے نکلتا تھا اور تحریک اسلامی کا ترجمان تھا، میں اشاعت کے لیے بھیج دو۔ مضمون اسی دن حوالہ ڈاک کیا جس میں مولانا کی تقریر کا حوالہ نہ تھا۔ مضمون ’’الانصاف‘‘ میں آ گیا۔ مولانا نے بھی اپنی اسی تقریر کو ’’صورت اور حقیقت‘‘ کے عنوان سے قلم بند فرمایا اور ہفت روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ لکھنؤ جو زیر ادارت مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم صدر شعبہ دینیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے نکلتا تھا وہ مضمون اس میں شائع ہوا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں کی اشاعت ایک ساتھ ہوئی۔ مضمون میں الفاظ و معانی کی ایسی مناسب اور یکسانیت تھی جیسے ایک ہی مضمون دو ناموں سے دو جگہ شائع ہوا ہو۔ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے دونوں مضامین کو دو اخبار میں دو ناموں سے ایک ساتھ پڑھا اور اپنے اخبار ’’صدق جدید‘‘ میں بڑی حیرت کا اظہار کیا اور عنوان لگایا کہ کس کا سرقہ ہے ؟ ایک مولانا علی میاںؒ کے نام تھا اور دوسرا مجھ جیسے گمنام طالب علم کے نام! مجھے اس بات کی بڑی شرمندگی تھی کہ میں نے اپنے اس مضمون میں مولانا کی تقریر کا حوالہ نہ دیا تھا۔ مولانا سے جب ملاقات ہوئی تو بولے مجھے خوشی ہے کہ آپ کو یہ تقریر پسند آئی، میں نے اسے آپ کو دے دی۔ اسی طرح مولانا کے اقبال پر دو عربی مقالوں کا اردو ترجمہ میں نے کیا ’’اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر‘‘ اور ’’انسان کامل: اقبال کی نگاہ میں ‘‘ مولانا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ یہ دونوں مضامین مولانا کی کتاب ’’نقوق اقبال‘‘ اور میری کتاب ’’حدیث اقبال‘‘ میں شامل ہیں، اس ترجمہ کو پڑھ کر میرے اکثر احباب کا یہ تاثر تھا کہ اگر مولانا خود اپنے قلم سے اردو میں پیش کرتے تو ایسا ہی ہوتا۔ مولانا کی ذات و شخصیت سے میری اس ذہنی مناسبت اور قلبی تعلق کے باوجود ہماری راہیں جدا تھیں۔ اس زمانہ میں بھی اور بعد میں بھی بہت طلبائے جدید و قدیم مولانا کے توسط سے ذاتی اور مادی فائدے اٹھانے کے لیے مولانا سے چمٹے رہتے۔ ان میں سے اکثر نے مولانا کی ذات و اثرات سے فائدہ اٹھا کر ممالک عربیہ میں بڑے دنیاوی فائدے اور عہدے حاصل کئے۔ میں اپنی درویشی اور کم مائے گی کے باوجود کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہ کر سکا۔ مولانا کے لیے میرے دل میں جو بے غرض محبت اور دلی اخلاص و عقیدت تھی اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی وہ ویسے ہی باقی ہے۔ اس دوری و مہجوری نے اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔
مولانا کے ذاتی کمالات و صفات، ان کا تقویٰ و عبادت، ان کی پاکیزگی میرے لیے ہمیشہ باعث کشش اور نشان راہ بنی رہی، ساتھ ہی میرا ذوق علم و ادب اور قلب و مزاج کی یکسانیت و مناسبت بھی ان کے قرب کا باعث رہا، خصوصاً علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری کے سلسلہ میں ہم دونوں اقبال کے شیدائی ہیں، جب بھی مجھ سے ملاقات ہوتی میرے ذوق کی مناسبت سے علامہ اقبال کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر اور ان کی شاعری کے محاسن بیان فرماتے۔ عرب دنیا میں اقبال پر مولانا کی مشہور کتاب ’’روائع اقبال‘‘ اقبال کی شاعری اور فکر و فن کے تعارف کا ذریعہ بنی اور اس کا اردو ترجمہ ’’نقوق اقبال‘‘ اقبالیات میں ایک اضافہ ہوا۔ اردو کے جدید اور معتبر ناقدوں کی زبان میں اردو تنقید میں بھی اس کا ایک مقام ہے۔ ان کے علاوہ مولانا کی دیگر کتابیں اسلامی ادبیات عالیہ میں شمار کئے جانے کے لائق ہیں، خصوصاً ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ مسلمانوں کے عروج و زوال کا انسانی دنیا پر اثر‘‘ مختلف تذکرے اور سوانح ہیں، خاکہ نگاری کا بہترین نمونہ ’’پرانے چراغ‘‘ ان کی انشا پردازی کے شاہکار ہیں۔ مولانا کی خود نوشت سوانح عمری ’’کاروان زندگی‘‘ آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں ہی ہے۔ اس میں ان کے سفر کے احوال، خطبے اور تقاریر کے اہم اور قابل قدر حصے آ گئے ہیں۔ یہ خود نوشت بجائے خود ادب و انشاء کا مرقع ہے، عام طور پر ہمارے یہاں علمائے دین کی قدر و قیمت ان کی دینی حیثیت اور مذہبی تصانیف سے ہوتی ہے، حالانکہ ان کی نگارشات کی ادبی حیثیت و وقعت بھی مسلم ہے، مثلاً علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ’’سیرت النبیؐ‘‘ او سیرت نبوی پر ’’خطبات مدراس‘‘ جہاں سیرت پر اردو عربی کے ذخیروں میں بے مثال ہے، وہیں وہ اپنی ادبی حیثیت اور انشاء پردازی میں بھی لازوال ہے۔ اسی طرح مولانا علی میاںؒ کی ساری تصنیفات خواہ ان کا موضوع کچھ بھی ہو اپنی معنوی گہرائی و گیرائی کے ساتھ اپنی ادبی اہمیت بھی رکھتی ہیں اور ان کا ادبی جمال اور حسن انشاء اردو ادب میں اعلیٰ معیار کا نمونہ ہے جس کا اعتراف پروفیسر رشید احمد صدیقی سے لے کر شمس الرحمن فاروقی جیسے جدید ناقدین تک نے کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی علمی و دینی کارناموں کی حیثیت کا اعتراف تو سارا عالم اسلام کر رہا ہے جس کا ثبوت فیصل ایوارڈ اور حکومت دبئی کا گراں قدر ایوارڈ ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا کی ادبی حیثیت کا اظہار، عالمی سطح پر رابطہ ادب اسلامی کے قیام سے ہوتا ہے جس کے مولانا موصوف ہمیشہ بانی صدر رہے۔ مولانا نے اس ادارہ کے ذریعہ ادب اسلامی کا وزن و وقار عالمی سطح پر ہر مکتب فکر کے جدید و قدیم عالموں، ادیبوں اور دانشوروں سے منوا لیا ہے۔ ایک عالم، دانشور، ادیب اور ناقد کی حیثیت سے دیکھا جائے تو مولانا ادب اسلامی کے نابغۂ روزگار تھے اور بلاشبہ جن کی ہمہ جہت، ہشت پہلو شخصیت کا معترف آج بر صغیر ہند کے ساتھ سارا عالم اسلام ہے۔
آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
٭٭٭
ڈاکٹر ضیاء الہدیٰؒ ۔ ۔ ۔ فقر غیور کا ایک مثالی کردار
مجھے یاد نہیں، میں نے جناب ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ صاحبؒ کو کب اور کیسے دیکھا؟ اپنے دور طالب علمی میں، جب میں تحریک اسلامی سے قریب ہوا اور ندوہ سے چھٹیوں میں گھر آنا ہوتا تو کبھی کبھی پٹنہ بھی جانا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کا نام اکثر سنتا۔ پھر تحریک اسلامی کی قربت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے درس قرآن کی شہرت سے واقفیت بڑھتی گئی۔ میں نے ان کو جب بھی دیکھا ایک طرح پایا، قمیص، چوڑے مہری کا پاجامہ، کشتی نما ٹوپی، سادگی کا پیکر، چہرہ روشن، پاک دل و پاکباز، یہ تھا ڈاکٹر صاحب کا سراپا۔ ان کی شخصیت کی ایک اور شناخت ان کی سائیکل بھی تھی، جس پر وہ اپنے پاجامہ کے ایک پائنچہ میں کلپ لگائے عالم گنج سے انجمن اسلامیہ تک اور جانے کہاں کہاں رواں دواں ہوتے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ابتدا میں اکثر ان کو اسی طرح سائیکل پر ہی دیکھا تھا۔ یہ انداز بے نیا زانہ اور طرز قلندرانہ میرے لئے باعث کشش ہوتا۔ پھر تحریکی دلچسپی کے باعث اکثر ان سے ملنے، باتیں کرنے، ان کے درس قرآن میں شریک ہونے اور تقریروں کو سننے کا موقع ملا جیسے جیسے قربت بڑھتی گئی ان کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ خصوصاً ان کے درس قرآن میں جی لگتا، قرآنی نکتے، سائنسی انداز بیان اور حالات حاضرہ پر ان کا انطباق، ان کے درس قرآن کی خصوصیت تھی۔ جس نے ہر مکتب فکر میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا تھا۔ خصوصاً طلبا اور نوجوانوں میں وہ بیحد مقبول تھے، ان کی سیرت کے موضوع پر تقاریر اور انجمن اسلامیہ کے جمعہ کے خطبے میں تو دور دور سے لوگ سننے کے لئے آتے۔ وہ جس ایمان و یقین کی دولت سے مالامال تھے، اس کا اثر نئی نسل پر بیحد پڑتا، ان کے ذہن و فکر میں جلا پیدا ہوتا، تشکیک و تذبذب کے اندھیرے دور ہوتے اور ان کے اندر ایمان و یقین کی قندیلیں روشن ہو جاتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی فقر و درویشی تھی، جو موجودہ معاشرہ اور اپنے ہم عصروں میں انہیں بہت ممتاز کر دیتی تھی۔ یہ فقر، ’’فقر خود اختیاری‘‘ تھا۔ حکومت کی اعلیٰ ملازمت اور دنیاوی ترقی کے امکانات کو چھوڑ کر ہومیوپیتھ ڈاکٹری کے پیشہ کو اختیار کیا تھا، جس سے انہیں بڑی مناسبت تھی۔ جو ان کی بقدر کفاف زندگی کا ذریعہ تھا، صاف ستھری اور سادہ رہن سہن ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ تحریک اسلامی کے کاموں میں وہ ہمہ وقت مشغول رہتے، پھر امیر حلقہ بھی ہوئے لیکن جماعت کے ضابطہ کے مطابق بقدر کفاف، کوئی رقم اپنی ذات کے لئے قبول نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب کے اندر تحقیق و جستجو اور نئی نئی ایجادات کا شوق اور فطری جذبہ تھا، نئی نئی دوائیں بنانے کے تجربے کرتے، عطر سازی کا خاص ذوق اور مشغلہ بھی تھا۔ طبابت و تجارت بھی بس اتنا ہی کرتے جو ان کے لئے بقدر کفاف ہوتے۔ جلبِ منفعت ان کا مطلوب و مقصود نہ تھا، وہ کبھی کسی کی مالی طور پر ممنون احسان نہیں ہوئے، اپنے مخلص، عقیدت مند اور قریبی رفقاء جو ان سے محبت رکھتے تھے، اس معاملہ میں ان سے بھی محتاط رہتے، فقر و درویشی ان کا مزاج تھا اور یہ چیز ان کے لئے باعث لذت و مسرت ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ ’’فقر غیور‘‘ کے مثالی کردار تھے۔ میرے نزدیک ان کی شخصیت اور زندگی کا یہ ایسا روشن و تابناک پہلو ہے جو اس مادہ پرستانہ اور پر تعیش معاشرہ کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔
ڈاکٹر صاحب کا تحریک اسلامی کے کاموں، سیرت کے جلسوں اور جماعت کے خطاب عام کے سلسلہ میں اکثر گیا بھی آنا ہوتا، اجتماعات کے علاوہ بھی ان کی صحبت میں مجھے بیٹھنے، ان کی باتیں سننے کا موقع ملتا، وہ زاہد خشک نہ تھے، شائستہ اور پر مزاح گفتگو کرتے، بڑے، بوڑھے اور بچے سبھی ان کی بصیرت افروز گفتگو سے لطف اندوز ہوتے، ان کے خطبے اور تقریر یں سادہ اور دلنشیں ہوتیں، وہ اپنی باتوں کو بڑے یقین اور اعتماد سے کہتے۔ ان کا ایک یقین، لاکھوں شک پر بھاری ہوتا۔ میں جب بھی ان کی تقریریں سنتا، مجھے اس بات کا بڑا احساس ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب کا یقین اس رومانی انقلابی تصور سے زیادہ ہم آہنگ ہے، جس کا تعلق زمینی عملی زندگی سے دور اور ایک خیالی رومانس سے قریب تر ہے۔ وہ اکثر اپنی تقریروں میں اس مغربی تہذیب اور مادی دنیا کا نقشہ اس طرح کھینچتے جیسے یہ تہذیب مغرب، اقبال کی زبان میں اپنے ہاتھوں آپ خود کشی پر تلی بیٹھی ہے، شب تاریک کے بعد، نمود سحر کے آثار نمایاں ہیں اور اب اسلامی انقلاب کا سورج بس طلوع ہی ہونے والا ہے۔ اس بات کو وہ جس ایمان اور نبوی یقین و مشاہدے کے انداز سے کہتے کہ کچھ دیر کے لئے سامعین کھو جاتے اور وہ محسوس کرتے کہ اب اسلام کا اجالا پھیلنے ہی والا ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر صاحب ملت اور مسلم مسائل سے ہٹ کر، وہ براہ راست غیر مسلموں میں دعوت اسلامی کے قائل تھے۔ میرے خیال میں اسی باعث اپنے آخری دور میں تحریک اسلامی کے بعض عملی پہلو اور ملکی حالات کے تناظر میں حکمت عملی سے خاصا اختلاف ہو گیا تھا۔ جس جماعت اور تحریک سے وہ زندگی بھر وابستہ اور پیوستہ رہے، اس کی مخالفت تو کبھی نہیں کی لیکن عملاً خموش بیٹھ گئے۔ میں اس کی وجہ ان کا وہی رومانی انقلابی تصور سمجھتا ہوں، جو ان کے جذبہ صادق اور یقین کامل سے ہم آہنگ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ایمان و یقین کی یہ وہ منزل تھی، جس کے لئے ملکی حالات اور وقت درکار تھا اور موجودہ تحریک اسلامی کی اجتماعی قیادت فکر کی اِن دو انتہاؤں کے درمیان پھونک پھونک کر جس طرح قدم بڑھا رہی تھی، ڈاکٹر صاحب اس سے مطمئن نہیں تھے، اور واقعہ یہ ہے کہ آج ملک کے حالات اتنے تشویشناک، پر خطر اور سنگین ہو گئے ہیں کہ اب ضرورت عملی اقدام کی ہے۔ غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج مسلم ملت جن تہلکوں سے دوچار ہے، اور پورا ملک فسطائیت کے جس شکنجہ میں کسا جا رہا ہے اس کے تدارک کے لئے اجتماعی فکر و عمل درکار ہے۔ خدا ہماری قیادت کو حکمت و بصیرت سے نوازے۔
اخیر عمر میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی ذوق تصوف کی طرف بھی مائل تھا۔ صوفیائے کرام کے اذکارو اشغال، مشاہدہ و مراقبہ کی وہ سائنسی تحقیق و جستجو کرنا چاہتے تھے، مجھ سے انہوں نے صوفیا کے پرانے بیاض اور اذکار اوراد و وظائف کی کتابوں کی فرمائش کی، میرے پاس جو کچھ تھا، ان کے حوالہ کیا، کچھ دنوں کے بعد انہیں مجھے واپس کر دیا اور کہنے لگے، میں جو چاہتا تھا وہ اس میں نہیں ہے۔ وہ در اصل قدیم صوفیاء کے ان مشاہدوں اور مراقبوں کی سائنسی توجیہہ و تعبیر کر کے ان کا سائنٹفک تجربہ کرنا چاہتے تھے، نہ جانے وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہو سکے۔
بہر حال، ڈاکٹر صاحب کی روشن پاکیزہ زندگی اور قرآنی فکر و بصیرت ہمارے لئے آج بھی شمع راہ ہے، وہ دل روشن، فکر ارجمند اور زبان ہوشمند کے مصداق تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مراتب و درجات کو بلند فرمائے۔ اور ان کی دینی و اجتماعی کوششوں کو قبول فرمائے۔ اور۔ ع
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
٭٭٭
شاعر اسلام، اقبال۔ ۔ شخصیت اور پیام
اقبالؒ ایک بڑے شاعر تھے اور اپنے عہد کے سب سے پڑھے لکھے شاعر تھے جس نے اپنے عہد کی صرف اردو فارسی شاعری پر نہیں بلکہ اس دور کے فکر و نظر پر بھی اپنا اثر ڈالا۔ میری مکتب کی تعلیم جس ماحول میں ہوئی وہ علمی و دینی بھی تھی اور شعری و ادبی بھی، جس میں تصوف کی چاشنی تھی، مجلس سماع کے ذریعہ اردو فارسی کی نعتیہ، حمدیہ اور عشقیہ غزلوں سے کان بچپن ہی سے آشنا تھے۔ ابوالکلام کی بلند آہنگ نثر، سید سلیمان ندوی کے خطبات مدراس کی انشاء پردازی کا ذکر اکثر کانوں میں پڑتا اور ساتھ ہی حالی کی مسدس اور اکبر و اقبال کی نظموں کے اشعار گھر کے بزرگوں کی زبانی سنا کرتا۔ اقبال کی مشہور نظمیں ’’بچوں کی دعا‘‘ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری، اور ’’دعا‘‘ یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے۔ جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے۔ والد مرحوم نے مجھے بچپن ہی میں یاد کرا دی تھیں۔ یہ دونوں نظمیں آج بھی میرے دل پر نقش ہیں۔ پھر جب میں سن شعور کو پہنچا اور چمنستان شبلی و سلیمان ندوی کے ادبی ماحول میں اقبال کو تفصیل سے پڑھا تو واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا شیدائی بن گیا اور پھر اقبال میرے لیے کسی عرب شاعر کے اس شعر کے مصداق ہو گئے :
أتانی ھواھا قبل أن أعرف الھوی
فصاد ف قلباً خالیا فتمکنا
(محبت میرے قریب اس حال میں آئی کہ میں محبت سے آشنا نہ تھا، بس اس نے میرے دل کو خالی پاکر اپنا قبضہ جما لیا)
اقبالؒ محبت اور ایمان و یقین کے شاعر ہیں۔ ان کا قلب حب رسول اور عشق رسول سے سرشار تھا۔ عشق و محبت ہی نے اقبال کو یقین کی لذت سے آشنا کیا تھا جس نے انہیں عرفان ذات بخشا اور وہ خودی کے نغمہ خواں بن گئے۔ اقبال مغرب کے ناقد اور مشرق کے پیامبر تھے۔ ان کا کلام، خصوصاً ’’ضرب کلیم‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ اس پر شاہد ہے، انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنی ہی پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتا ہے، اقبال کے یہ افکار اور جذبات، میری اپنی پرچھائیاں ہیں جو میرے شعور و احساسات سے ہم آہنگ ہیں، لہٰذا وہ میری اپنی پسند بن گئے، اور ان کی شاعری میرے اپنے دل کی آواز ہے، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
اقبالؒ کی شعریات سے میری یہ والہانہ دلچسپی اور شغف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے نزدیک ان کی شخصیت انسانی کمزوریوں سے مبرا، ملکوتی تقدس سے مشابہ ہے۔ میری حمایت میں ایسی حمیت نہیں ہے جو انہیں معصوم قرار دے۔ اس موقع پر مجھے مولانا سید سلیمان ندویؒ کا وہ بلیغ جملہ یاد آ رہا ہے جو انہوں نے اپنے استاد علامہ شبلی کی سوانح حیات شبلی میں لکھا ہے کہ شبلی اپنی تمام علمی و ادبی عظمت اور خوبیوں کے با وصف شبلی، شبلی تھے جنید و شبلی نہ تھے۔ میرے نزدیک بھی اقبال بیسوی صدی کے شاعر تھے، مغربی تہذیب کے لیے ایک چیلنج، وہ ایک اسلامی مفکر، فلسفی اور حکیم و دانشور تو تھے لیکن دینی رہنما اور روحانی پیشوا نہ تھے اور واقعہ یہ ہے کہ اقبال، اقبال تھے عطا رو رومی نہ تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں میر، غالب اور اقبال کے بعد ہنوز کوئی دوسرا ایسا شاعر پیدا نہ ہو سکا، جو اقبال سے ایک قدم آگے اردو شاعری کا چوتھا ستون بن سکتا ہے۔ اقبال نہ صرف اسلامی افکار و اقدار کے ترجمان تھے بلکہ اسلام ان کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا جو خون جگر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکا اور جس نے ایسی زندہ وہ جاوید شاعری کو جنم دیا۔
اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ یقین کی روشنی، محبت کی گرمی اور حرکت و عمل کا ایک ایسا پرکیف و رنگین نغمہ ہے جس کی نغمگی اور آتش نوائی سے حیات کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ اقبال کا ساز حیات بے سوز نہیں ہے بلکہ عشق نے اس میں حرارت اور خودی نے اس میں عظمت پیدا کر دی ہے اور اسے جب شاعر کی انگلیاں چھیڑتی ہیں تو اس سے زندگی کے کیف آور نغمے پھوٹ پڑتے ہیں۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت صرف یہ نہیں ہے کہ اس نے ہمارے لیے ایسے مسرت آگیں شعر و نغمہ پیش کئے جس کو سن کر ہمارے شعور وجدان کو اہتزاز و انبساط حاصل ہوتا ہے بلکہ اس نے ہمیں ایک نظریہ حیات کا احساس اور ایک نظام زندگی کا شعور اور زندگی کا ایک خاص نقطہ نظر بخشا، جس نظریہ زندگی کا وہ حامی اور جس نظام حیات کا وہ پیامبر تھا اس پر اس نے نہ صرف یہ کہ عمل کرنے کے ترغیب دی بلکہ اس کے کلام میں اس مخصوص نظریہ زندگی کا حسن، اس کا رنگ و آہنگ اور لذت و کیف اس طرح ہم آمیز اور رچا بسا ہوا ہے کہ آج بھی جب ہم اسے پڑھتے ہیں تو ہمارے کانوں میں وہی رنگ و آہنگ، وہی ساز کی جھنکار اور وہی شیریں نغمے گونجنے لگتے ہیں جس سے ہمیں مسرت، نشاط اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.aainathemirror.in/p/shakhsiat.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید