FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

نا ممکن کی طبیعیات

PHYSICS OF THE IMPOSSIBLE

 

حصہ اول

 

                مصنف: میچو کاکو

                مترجم: زُہیر عباس

 

 

 

انتساب

 

انٹر نیٹ پر اردو کا فروغ کرنے والوں کے نام


 

 

 

عرض مترجم

 

تمام تعریفیں اس رب کے لئے جو عالمین کا پالنے والا ہے اور درود و سلام ہو حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور آپ کی طاہر آل و اولاد پر۔ بفضل اللہ تعالیٰ آج ١٣ رجب المرجب ١٤٣٦ ہجری بروز اتوار کو میں  اس کتاب کے اردو ترجمے کو مکمل کرنے کے قابل ہوا۔

یہ کتاب مشہور زمانہ نظریاتی طبیعیات دان ڈاکٹر میچو کاکو  (Michio Kaku) کی کتاب "Physics of the Impossible” کا ترجمہ کرنے کی ایک ادنی سی کوشش ہے۔ کسی بھی کتاب کو ترجمہ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے لہٰذا اس میں کافی زیادہ غلطیوں کا احتمال ہو گا۔ میرے اپنی رائے کے مطابق اس ترجمہ کو ادارت کی ضرورت تھی اور اب بھی ہے۔ اس بات کے پیش نظر میں نے اس ترجمہ کو انٹرنیٹ کے مختلف فورم (محفلوں ) میں بھی ٹکڑوں میں شایع کیا اور اب بھی شایع کر رہا ہوں تاکہ صاحبان علم میری غلطیوں کی نشاندہی کریں اور میں اپنی تصحیح کر سکوں۔ بہر کیف اردو محفل http://www.urduweb.org/mehfil  میں سائنس اور ہماری زندگی  میں شروع ہونے والی ایک لڑی میں جہاں میں یہ ترجمہ تھوڑا تھوڑا کر کے شایع کر رہا تھا، جناب محترم اعجاز عبید صاحب نے اس کو دیکھا اور بزم اردو لائبریری کی برقی کتاب کے لئے منتخب کیا جس کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ لگے ہاتھوں میں نے ان سے اس کتاب کی ادارت کی فرمائش بھی کر ڈالی۔ امید ہے کہ یہ کتاب ان کی نظر سے گزر کر ہی یہاں شایع ہو رہی ہو گی۔

ہرچند یہ ایک طویل کتاب ہے  لیکن ڈاکٹر کاکو نے اس کو بہت ہی دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ میں اپنی حد تک کہنے میں تو بجا ہوں کہ ترجمے کرتے وقت مجھے اس کتاب نے اپنی مکمل گرفت میں لے رکھا تھا۔ کاکو ہر باب کو بہت ہی دلچسپ انداز میں کچھ سائنسی قصّوں یا سائنس قصّوں پر مبنی فلم اور ڈرامے سے شروع کرتے ہیں۔ وہ پھر اس مخصوص موضوع کی تاریخ بیان کرتے ہوئے آہستہ آہستہ بتدریج تیکنیکی گہرائیوں میں اترتے جاتے ہیں اور پھر تمام تر باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو ناممکنات کے درجوں میں زمرہ بند کرتے ہیں۔ انہوں نے ناممکنات کو تین درجوں میں بانٹا ہوا ہے۔ جس کی وجہ آپ کو پیش لفظ میں مل جائے گی۔

یہ کتاب ٢٠٠٨ء میں شایع ہوئی تھی۔ لہٰذا اس میں کچھ ایسے منصوبوں کا ذکر ہے جن کے مستقبل میں مکمل ہونے کی تاریخ دی گئی ہے۔ تاہم بعد ازاں وہ منصوبے کسی وجہ سے منسوخ ہو گئے ہیں یا پھر انھیں ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سے کچھ منصوبے ایسے ہیں جن کو مکمل ہو کر کچھ خاص چیزوں کی چھان بین کرنا تھی۔ بعد میں وہ منصوبے مکمل بھی ہوئے اور متوقع نتائج بھی حاصل ہو گئے۔ (مثلاً لارج کولائیڈر ہیڈرون میں ہگس بوسون کی کھوج وغیرہ) ۔ بہرحال ترجمہ کرتے وقت میں نے کوشش کی ہے کہ جیسا کاکو کہہ رہے ہیں ویسا ہی لکھوں۔ معلومات کو تازہ کرنے کی کوشش کہیں پر بھی نہیں کی گئی۔

یہ کتاب تین حصّوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلے حصّے میں دس باب ہیں۔ دوسرے حصّے میں تین باب جبکہ آخری حصّے میں دو باب ہیں۔ اس کے علاوہ پیش لفظ اور اختتامیہ بھی ہے۔

پوری کتاب کا ترجمہ کرتے وقت انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ اپنی جگہ ایک مسئلہ بنا رہا ہے۔ میں نے ترجمہ کرتے ہوئے http://www.urduenglishdictionary.org سے مدد لی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری سائنسی کتب کا بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ ہر چند مختلف مصنفین نے ایک ہی اصطلاح کا مختلف انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً "Uncertainty Principle” کا ترجمہ کسی نے "اصول تیقن ” کیا ہے تو کسی نے "اصول عدم یقین "۔ "Singularity” کو کہیں "اکائیت ” ترجمہ کیا گیا ہے تو کہیں "عدم "۔ “Theory of Everything” کو کوئی ” ہر چیز کا نظریہ” لکھتا ہے تو کوئی "ہر شئے کا نظریہ”، "Conservation of Energy” کو کسی نے "تحفظ توانائی” لکھا تو کسی نے "بقائے توانائی”۔

بہرحال میں نے ان اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جن کا کثرت استعمال مختلف جگہوں پر دیکھا ہے۔ میں نے کیونکہ اس کتاب کو ترجمہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی مدد لی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بہت ساری اصطلاحات کے ترجمے موجود ہوں لیکن میری ان تک رسائی نہ ہو سکی ہو۔ بہرکیف زیادہ سے زیادہ اردو اصطلاحات کا استعمال کیا ہے۔ میں نے کسی ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ اگر ہم اردو اصطلاحات کو زبان عام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا استعمال کرنا ہو گا۔ مجھے اس رائے سے مکمل اتفاق ہے کیونکہ آج کل جب میں نئی نسل کو دیکھتا ہوں جو ہندی ڈرامے اور فلمیں دیکھ کر ٹھیٹ ہندی کے الفاظ روانی سے بولتے ہیں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔

مزید براں یہ کہ میں نے شروع میں وکی پیڈیا میں استعمال ہونے والی اردو کی اصطلاحات کا استعمال کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن بعد میں اس کوشش کو ترک کر دیا کیونکہ وہ ایسی جناتی زبان میں ہیں جو کم از کم مجھ کم علم شخص کے پلے نہیں پڑیں۔ بہرحال جہاں کہیں اصطلاح کا مناسب ترجمہ نہیں ملا تو عربی اور فارسی کی اصطلاح کی مدد لی۔ اور جب بہت ہی مجبوری ہوئی تو پھر انگریزی سے ہی کام چلایا۔

کافی جگہوں پر میں نے ڈائجسٹ اور بچوں کی کہانی میں ہونے والی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے۔ یہ پڑھ کر ہو سکتا ہے کہ آپ کو حیرانی ہو رہی ہو۔ لیکن جس نے بھی عمرو عیار کی کہانیاں پڑھی ہیں تو وہ عمر و عیار کی سلیمانی ٹوپی سے ضرور واقف ہو گا۔ بلکہ میرا تو یقین ہے کہ کوئی بھی اردو پڑھنے والا ہو، اس نے چاہئے عمرو عیار کی کہانی پڑھی ہو یا نہیں اس نے "سلیمانی ٹوپی” کے بارے میں ضرور سنا ہو گا۔ لہٰذا میں نے “Invisibility Cloak” کو "سلیمانی جبہ” لکھنے میں کوئی شرم نہیں کی۔ اسی طرح سے “Telepathy” کو میں نے خیال خوانی لکھا ہے۔ آپ میں سے جنہوں نے سسپنس ڈائجسٹ پڑھا ہو گا وہ محی الدین نواب صاحب کے مشہور زمانہ "دیوتا "کے ہیرو "فرہاد علی تیمور” سے تو واقف ہوں گے۔ جو خیال خوانی کی طاقت کے بل بوتے پر بین الاقوامی استعمار کو نکیل ڈال کر رکھتا ہے۔ لہٰذا جب نواب صاحب نے ٹیلی پیتھی کو لگ بھگ ٣٤ برس تک خیال خوانی لکھا تو میں بھی اس اصطلاح کے استعمال میں نہیں ہچکچایا۔

اسی طرح ناموں کی "نقل صوتی ” (Transliteration)  بھی کافی پریشانی کا باعث بنی رہی۔ "Einstein” کو کوئی آئن سٹائن لکھ رہا ہے تو کسی کتاب میں آئن اسٹائن لکھا ہوا ہے تو کہیں آئینسٹاین۔ اسی طرح کسی کتاب میں "Schrödinger” کو شروڈنگر لکھا  ہے تو کسی رسالے میں شروڈنجر۔ "Neutron” کو کوئی نیوٹران لکھ رہا ہے تو کوئی نیوٹرون۔ اسی طرح”Neutrino” کو کوئی نیوٹرینو لکھ رہا ہے تو کسی رسالے میں آپ کو نیوٹرائینو لکھا ہوا ملے گا۔ بحر کیف میں نے فرنگی اسم معرفہ کی نقل صوتی کے لئے  http://www.pronouncenames.com، http://www.howjsay.com ، www.merriam-webster.com/dictionary، اور http://www.forvo.com کی ویب سائٹ سے مدد لی ہے۔ کوشش کی ہے کہ انگریزی تلفظ سے ہی نقل صوتی کروں۔ جہاں کہیں انگریزی تلفظ دستیاب نہیں تھا وہاں اسی نام کی زبان کا تلفظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

مسئلہ صرف اصطلاحات اور نقل صوتی کا نہیں ہے بلکہ اردو کے بھی کئی الفاظ ایسے ہیں جو کچھ لوگ ایک طرح سے لکھ رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ دوسری طرح سے۔ مثلاً کوئی "نظریے ” لکھ رہا ہے تو کوئی "نظریئے "۔ کوئی "شے ” لکھ رہا ہے تو کہیں "شئے ” لکھا ہوا ہے۔ کوئی "شہابیے ” لکھ رہا ہے تو کہیں” شہابئے ” لکھا ہوا ملے گا۔ طبیعیات کا نہیں معلوم کہ "طبیعیات ” ہی ہے کہ "طبیعات” ہے۔

کمپیوٹر پر اردو لکھتے ہوئے مجھے ابھی کچھ زیادہ عرصے نہیں ہوا۔ اور اس بات کے لئے مجھے شاید گوگل کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس کے “Google IME” کی بدولت ہی میں اس کتاب کا ترجمہ اتنی آسانی سے کمپیوٹر پر اردو میں لکھ سکا۔ کم از کم میرے لئے تو یہ بات سچ ہے کہ اگر گوگل کا یہ ٹول نہیں ہوتا تو میں اس کتاب کا ترجمہ کبھی بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔

کتاب میں جہاں کوئی غلطی نظر آئے براہ کرم کمینٹ کے حصّہ میں بیان کر دیجئے گا۔ برقی کتب کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کو درست کرنا بہت ہی آسان ہے۔ آپ تمام احباب کی رائے کا انتظار رہے گا۔

والسلام

زہیر عبّاس

 

 

 

 

پیش لفظ

 

اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔
 (البرٹ آئن سٹائن )

 

کیا ایک دن یہ بات ممکن ہو سکے گی کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے گزر سکیں ؟ کیا ہم ایسے نجمی خلائی جہاز (Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light) رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے ؟کیا ہم موجود ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو کر غیر مرئی (Invisible) ہو سکیں گے ؟ کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہونے گے کہ اشیاء کو صرف اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟

میں اپنے بچپن سے ہی درج بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا۔ دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا تو مجھ پر، وقت میں ممکنہ سفر (Time Travel) ، اشعاعی بندوق (Ray Guns) ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈ ۔Force Field ) ، متوازی کائناتوں (Parallel Universes) اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی۔ جادو، انوکھے خیال، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے۔ انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات (Impossibilities) کے ساتھ عشق کو شروع کیا۔

مجھے وہ وقت یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن (Flash Gordon) ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا۔ ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین (Dale Arden)  کے جوکھموں اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی (Technology) ۔ خلائی جہاز، غیر مرئی حفاظتی ڈھال، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتا تھا۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں۔ اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا ہی کھول کر رکھ دی۔ یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آ جاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جا کر اس کے عجیب میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا۔ ان تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کر دی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے۔

پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ میں ہی صرف اکیلا نہیں تھا۔ کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی۔ عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) جولیس ورن (Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا۔ ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا۔ آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا۔ کارل ساگاں (Carl Sagan)  جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس (Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars) سے ڈالی۔  جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا۔

جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کو دیکھا ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر چیز کے نظریئے ” (Theory of Everything) کے بارے میں تھا۔ اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا، اور اسی چیز نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کر کے ایک نظریئے میں پرویا جا سکے۔

جب میں نے شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو چلایا جا سکے۔ ڈاکٹر زرکوف  کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo) کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا۔ جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں کا بھی وجود نہیں ہوتا۔

بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں۔ شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے۔ حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو گلے لگانا ہوتا ہے۔

بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان کو جاننے کی کوشش کروں۔ جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی ٹیکنالوجی کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں۔ میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہو گا۔ اور پھر میں نے یہ ہی کیا۔

میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر (Atom Smasher) بنایا۔ میں ویسٹنگ ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا سریا حاصل کیا۔ کرسمس کے دنوں میں ٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا۔ آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ برقی مسرع (اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں)  کا ذرّاتی اسراع گر (Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک گیما شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter) پیدا ہو جائے۔

میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس فیئر میں جگہ دلوا دی اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا۔

آج مجھے سائنسی کہانیوں کے  مصنفوں اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننے چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے۔

 

                "ناممکن” ایک نسبتی چیز ہے

 

بطور طبیعیات دان، اکثر میں نے یہ دیکھا ہے کہ ناممکن ایک نسبتی اصطلاح (Relative Term) ہے۔ شعور کی منازل طے کرتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری استانی نے دیوار پر زمین کے نقشے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جنوبی امریکہ اور افریقہ کی ساحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کیا یہ ایک عجیب اتفاق نہیں ہے کہ دونوں ساحل ایک دوسرے سے ایسے ملے ہوئے ہیں جیسے کہ آڑا کٹا معمہ (Jigsaw Puzzle) ؟ کچھ سائنس دان بہرحال اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ شاید یہ کبھی ایک ہی بڑے وسیع بر اعظم کا حصّہ تھے۔ مگر مجھے ان کی یہ بات کافی بیوقوفانہ لگتی ہے  کوئی بھی طاقت اتنی توانا نہیں ہو سکتی کہ ان دو عظیم بر اعظموں کو ایک دوسرے سے دھکیل کر دور کر سکے۔ ایسا سوچنا ہی ناممکن ہے۔ انہوں نے نتیجہ بھی اخذ کر لیا تھا۔

اگلے سال ہم نے ڈائنو سارس کا مطالعہ کیا۔ میرے استاد نے کہا، کیا یہ بات بہت عجیب نہیں ہے کہ ڈائنو سارس زمین پر کروڑوں سال حکمرانی کرتے رہے اور ایک دن سب کے سب غائب ہو گئے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں مر گئے۔ کچھ ماہر رکازیات (Paleontologist) سمجھتے ہیں کہ شاید خلاء میں سے آتے ہوئے کسی شہابیے نے ان سب کی جان لے لی مگر یہ بات ناممکن ہے ایسا تو سائنسی قصّوں میں ہی ہوتا ہے۔

آج ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ارضی سختائے ہوئے حصّوں (Plate Tectonics) کے ذریعہ بر اعظم حرکت کرتے ہیں اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ ٦۔ ٥ کروڑ سال پہلے ایک دیو قامت شہابیہ (Meteor) جس کا حجم چھ میل کا تھا اس نے زمین سے ٹکرا کر اس کی سطح پر رہنے والے ڈائنو سارس اور دوسری پائی جانے والی حیات کا خاتمہ کر دیا تھا۔ میں نے اپنی اس کوتاہ عرصہ حیات میں ناممکن نظر آنے والی چیزوں کو بار ہا سائنسی حقیقت بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا کیا یہ سوچنا ممکن ہے کہ ہم مستقبل میں کسی ایک دن اپنے آپ کو ایک جگہ سے دور دراز دوسری جگہ فی الفور منتقل (Teleport) کر سکیں ، یا کوئی ایسا خلائی جہاز بنا سکیں جو ایک دن ہمیں نوری برس (Light Year) کے فاصلوں پر موجود ستاروں پر کمند ڈالنے میں مدد کر سکے ؟

عام طور پر کوئی بھی ایسا کارنامہ آج کے طبیعیات دانوں کی نظر میں ناممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والی چند صدیوں میں ممکن ہو سکے ؟ یا آنے والی دس ہزار برسوں میں جب ٹیکنالوجی اور زیادہ جدید ہو جائے ؟ یا پھر دسیوں لاکھ سال گزرنے کے بعد ؟ اس کو ذرا دوسری طرح سے سوچیں، اگر ہمارا سامنا کسی طرح سے ایک ایسی تہذیب (Civilization) سے ہوتا ہے جو ہم سے دس لاکھ سال آگے ہو تو کیا ان کی روزمرہ کی ٹیکنالوجی ہمیں جادو لگیں گی ؟ اس کتاب کی گہرائی میں ایک سوال ہر جگہ نظر آئے گا، کیا صرف اس لئے کوئی چیز آنے والی صدیوں یا لاکھوں برس کے مستقبل میں ناممکن رہے گی کیونکہ ہم اس کو دور حاضر میں ناممکن سمجھتے ہیں ؟

پچھلی صدی میں سائنس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے بالعموم اور کوانٹم نظریئے (Quantum Theory) اور عمومی اضافیت (General Relativity)  کی پیدائش کے بعد بالخصوص یہ بات ممکن ہو گئی ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اگر ان ٹیکنالوجی کا ہونا ممکن ہے تو کب تک بھلا ایسا ہو سکے گا۔ مزید جدید نظریوں کے پیش کئیے جانے کے بعد جیسا کہ اسٹرنگ کے نظریئے نے سائنسی کہانیوں میں موجود کئی چیزوں مثلاً وقت میں سفر اور متوازی کائناتوں کے بارے میں بھی ماہرین طبیعیات کو دوبارہ سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ذرا آج سے ١٥٠ برس پہلے کے دور میں ان ٹیکنالوجی کا تصوّر کیجئے جن کو اس وقت کے سائنس دانوں نے ناممکن قرار دے دیا تھا مگر آج وہ ہماری زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی ہیں۔ جولیس ورن نے ایک ناول ١٨٦٣ء میں لکھا تھا جس کا نام پیرس ان دی ٹوینٹتھ سنچری تھا۔ یہ ناول لکھے جانے کے بعد ایک صدی تک تالے میں بند رہا اور اس وقت تک گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبا رہا جب تک اس کو حادثاتی طور پر ورن کے پڑ پوتے نے دریافت نہیں کر لیا اور پہلی دفعہ یہ ١٩٩٤ء میں شایع ہوا۔ اس ناول میں ورن نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ پیرس ١٩٦٠ء میں کیسا دکھائی دے گا۔ اس کے ناول میں ان ٹیکنالوجی کی بھر مار ہے جو انیسویں صدی میں ناممکن سمجھی جاتی تھیں، جس میں فیکس مشین، عالمگیر مواصلاتی نظام، شیشے کی بلند و بالا عمارتیں، تیل سے چلنے والی خود کار گاڑیاں اور تیز رفتار بالائی گزرگاہ والی ریل گاڑیاں وغیرہ شامل ہیں۔

اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ورن نے اس قدر صحت کے ساتھ پیشگوئی کیسے کر لیں تھیں۔ اس کی وجہ تھی وہ سائنس کی دنیا میں غرق رہتا تھا اور اپنے ارد گرد موجود سائنس دانوں کے افکار سے فائدہ اٹھانا جانتا تھا۔ سائنس کی بنیادی باتوں کی گہرائی میں غور و فکر کرنے سے ہی اس نے ایسی چونکا دینے والی پیش گوئیاں کی تھیں۔

نہایت ہی افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ انیسویں صدی کے کچھ عظیم سائنس دانوں نے اس کے برخلاف سوچا اور بہت ساری ٹیکنالوجی کو ناامیدی کی حد تک ناممکن قرار دے ڈالا۔ لارڈ کیلون (Lord Kelvin) ، جو شاید وکٹورین دور کے سب سے ممتاز طبیعیات دان تھے (ان کو آئزک نیوٹن کے پہلو میں ویسٹ منسٹر، ایبی میں دفن کیا ہوا ہے ) نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ "ہوا سے بھاری "کوئی بھی چیز جیسا کہ ہوائی جہاز  کو بنانا ممکن نہیں ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ ایکس ریز (X-rays) ایک افواہ ہے اور ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔ لارڈ ردرفورڈ  (Lord Rutherford) جس نے جوہر کا مرکزہ دریافت کیا تھا انہوں نے جوہری بم کو چاند کی روشنی کے مماثل دے کر اس کے بنانے کے امکان کو ہی مسترد کر دیا تھا۔ انیسویں صدی کے کیمیا دانوں نے پارس پتھر یا سنگ جادو (جس کو فلاسفر اسٹون بھی کہتے ہیں) – ایک ایسی چیز جو سیسے کو سونے میں بدل دے – کی تلاش کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا تھا۔ انیسویں صدی کی کیمیا ان عناصر مثلاً سیسہ کے غیر متبدلانہ یا عدم تغیری کی اساس پر کھڑی تھی۔ لیکن آج کے جوہری تصادم گروں کی مدد سے ہم نظری اعتبار سے سیسے کے جوہروں کو سونے میں بدل سکتے ہیں۔ ذرا آج کے ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ وہ بیسویں صدی میں کیسے شاندار ہو گئے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب سیاہ شگافوں (بلیک ہولز) کو سائنسی قصّوں سے زیادہ کچھ اور سمجھا نہیں جاتا تھا۔ خود آئن سٹائن نے ١٩٣٩ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بلیک ہولز کبھی بھی نہیں بن سکتے۔ اس کے باوجود ہبل خلائی دوربین (Hubble Space Telescope) اور چاندرا ایکس رے دوربین (Chandra X-ray Telescope) نے خلاء میں موجود ہزاروں بلیک ہولز کی نشاندہی کی ہے۔

یہ ٹیکنالوجی اس وجہ سے ناممکن سمجھی جاتی تھیں کہ اس وقت بنیادی طبیعیاتی قوانین اور سائنس کا انیسویں صدی کے دوران اور بیسویں صدی کے اوائلی حصّے میں دریافت نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت سائنس کی معلومات خاص طور پر جوہری پیمانے پر خاصی کم تھیں لہٰذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ ان ٹیکنالوجی کو اس وقت ناممکن سمجھا گیا تھا۔

 

                ناممکنات پر غور و فکر

 

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ ناممکنات پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے سے کلی طور ناقابل توقع اور گہرے سائنسی میدان کے دروازے وا ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صدی تک دائمی حرکی مشین (Perpetual Motion Machine) کی مایوس کن اور بے ثمر تلاش نے طبیعیات دانوں کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ ایسی کوئی بھی مشین بنانا ناممکن ہے۔ لیکن اس فضول سی کوشش میں وقت برباد کرنے کے نتیجے میں انہوں نے بقائے توانائی (Conservation of Energy) اور حر حرکیات  (Thermodynamics) کے تین قوانین کو حاصل کیا۔ اس طرح سے ایک فضول دائمی حرکی مشین کی تلاش نے ایک بالکل نیا میدان حر حرکیات کا کھول دیا جو ایک طرح سے بھاپ کے انجن، مشینی دور اور جدید صنعتی سماج کی بنیادوں کا حصّہ بنا۔

انیسویں صدی کے اختتام تک سائنس دانوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کی عمر ارب ہا سال کی نہیں ہو سکتی۔ لارڈ کیلون نے اس بات کا اعلان قطعیت کے ساتھ کر دیا کہ پگھلی ہوئی زمین ٢ سے ٤ کروڑ برس میں ہی ٹھنڈی ہو سکتی ہے جو براہ راست ارضیاتی اور ڈارونی حیات دانوں کے ان دعووں کے خلاف تھا جس میں زمین کی عمر کو ارب ہا سال کا سمجھا گیا تھا۔ مادام کیوری اور دوسروں کی نیوکلیائی دریافت کے بعد ناممکن آخر کار ممکن میں بدل گیا۔ اس دریافت سے یہ معلوم ہوا کہ زمین کا مرکز کس طرح سے تابکاری تنزلی (Radioactive Decay) کے نتیجے میں گرم ہوتا ہے جو حقیقت میں زمین کو ارب ہا سال تک پگھلی ہوئی حالت میں رکھ سکتا ہے۔

١٩٢٠ء اور ١٩٣٠ء کے عشروں میں جدید راکٹ کے بانی رابرٹ گوڈارڈ (Robert Goddard) کو ان لوگوں نے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جو یہ سمجھتے تھے کہ راکٹ کبھی بھی خلاء میں سفر نہیں کر سکے گا۔ وہ طنز ا ً اس کی جدوجہد کو” گوڈارڈ کی حماقت” کہتے تھے۔ ١٩٢١ء میں نیو یارک ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر گوڈارڈ کے کام پر کچھ یوں برسے : "پروفیسر گوڈارڈ عمل اور رد عمل کے باہمی رشتے سے بالکل بے خبر ہیں اور ان کو خالی خلاء کے بجائے کسی ایسی چیز کی شدید ضرورت ہے جو رد عمل ظاہر کر سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس وہ بنیادی علم بھی موجود نہیں ہے جو روزانہ کالج میں طالبعلموں کو بچوں کی طرح دیا جاتا ہے۔ ” راکٹ بنانا ناممکن ہے ، مدیر نے خفگی سے کہا، کیونکہ وہاں خلاء میں ہوا موجود نہیں ہے جو اس کو اپنے خلاف دھکا دے سکے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک ریاست کے سربراہ – ایڈ لف ہٹلر (Adolf Hilter) نے گوڈارڈ کے نا ممکنہ راکٹ  کے مضمرات کا اندازہ لگا لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ناممکن سمجھے جانے والے راکٹوں وی – ٢ نے موت و تباہی کی صورت پر لندن میں بارش کر دی، جس کے نتیجے میں انگلستان نے تقریباً نے گھٹنے ٹیک ہی دیئے تھے۔

ناممکنات پر غور و فکر نے شاید دنیا کی تاریخ کو ہی بدل دیا۔ ١٩٥٠ء کے عشرے میں یہاں تک کہ آئن سٹائن بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ جوہری بم (Atom Bomb) بنانا ناممکن ہے۔ طبیعیات دان جانتے تھے کہ آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق زبردست توانائی جوہر کے مرکزے میں موجود ہوتی ہے مگر ایک مرکزے سے نکلنے والی توانائی بہت ہی معمولی ہوتی ہے۔ مگر جوہری طبیعیات دان لیو زیلارڈ (Leo Szilard) نے ١٩١٤ء کے ایچ جی ویلز (H۔ G۔ Wells) کے ناول، "دا ورلڈ سیٹ فری” کو یاد رکھا ہوا تھا جس میں ویلز نے جوہری بم کے بننے کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کتاب میں ویلز نے لکھا تھا کہ جوہری بم کا راز ایک طبیعیات دان نے ١٩٣٣ میں پا لیا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ زیلارڈ کے ہاتھ یہ ناول ١٩٣٢ء میں لگا تھا۔ ناول کو پڑھ کر اس کو حوصلہ ملا، اتفاق کی بات ہے کہ جیسا کہ ویلز نے دو دہائی قبل جوہری بم بنانے کی پیشن گوئی کی تھی، زیلارڈ پر یہ بات منکشف ہو گئی تھی کہ کس طرح سے انفرادی جوہر کی توانائی کو زنجیری تعامل (Chain Reaction) کے ذریعہ بڑھایا جاتا ہے اس طرح سے ایک یورینیم کے مرکزے کو توڑ کر حاصل کرنے والی توانائی کو دسیوں کھرب تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ زیلارڈ نے اس کے بعد تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا اور آئن سٹائن اور صدر فرینکلن روز ویلٹ سے خفیہ گفت و شنید جاری رکھی جس کے نتیجے میں مین ہٹن پروجیکٹ وجود میں آیا جہاں پہلا جوہری بم بنا۔

بار ہا ہم نے دیکھا ہے کہ ناممکنات میں غور و فکر نے ہمارے لئے بالکل نئے دریچوں کو وا کیا ہے جس نے طبیعیات و کیمیا کی حدود کونا صرف وسیع کر دیا بلکہ سائنس دانوں کو بھی ناممکن کے مطلب کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ جیسا کہ سر ولیم اوسائر (Sir William Osier) نے ایک دفعہ کہا تھا، "ایک نسل کا فلسفہ دوسری نسل کے لئے خرافات بن جاتی ہے ، اور گزرے ہوئے کل کی بیوقوفی آنے والے کل کی دانائی بن جاتی ہے۔ ”

کافی طبیعیات دان ایسے ہیں جو ٹی ایچ وائٹ (T.H. White)  کے اس مشہور و معروف قول کو دہراتے ہیں جو انہوں نے دی ونس اینڈ دی فیوچر کنگ میں لکھا تھا، "کوئی بھی چیز جو ممنوع نہیں ہے وہ لازمی ہوتی ہے !” طبیعیات میں ہم نے اس کا ثبوت ہر دور میں پایا ہے۔ تاوقتیکہ ہم کوئی ایسا طبیعیات کا قانون پا لیں جو واشگاف طور پر کسی نئے مظاہر کی مخالفت کرے۔ (ایسا کافی دفعہ نئے ذیلی جوہری ذرّات کو تلاش کرتے ہوئے ہو چکا ہے۔ ) ایک منطقی نتیجہ ٹی ایچ وائٹ کے بیان کا شاید یہ ہو سکتا ہے "کوئی بھی چیز جو ناممکن نہیں ہے ، وہ لازمی ہے !”

مثال کے طور پر ماہر کونیات ا سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) نے ایک نئے قانون طبیعیات کو دریافت کرنے کے بعد وقت میں سفر کو ناممکن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جس کو اس نے "قانون تحفظ تقویم” (Chronology Protection Conjecture)  کا نام دیا۔ بدقسمتی سے کافی برسوں کی سخت محنت کے بعد بھی وہ اپنے اس اصول کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے برخلاف درحقیقت طبیعیات دانوں نے اس بات کا عملی مظاہرہ کیا ہے کہ کوئی بھی قانون جو ہمیں وقت میں سفر کرنے سے روکے آج کے مروجہ ریاضی کے قوانین کی رو سے بہت دور ہے۔ کیونکہ آج کوئی بھی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو ٹائم مشین بنانے سے روکے۔ لہٰذا طبیعیات دانوں کو نہایت سنجیدگی سے وقت میں سفر کے امکان کو لینا پڑا۔

اس کتاب کا مقصد ہے کہ ان ٹیکنالوجی کا جائزہ لیا جائے جن کو آج تو ناممکن سمجھا جاتا ہے لیکن ہو سکتا ہے وہ آنے والی عشروں سے لے کر صدیوں تک ہماری روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصّہ بن جائیں۔

پہلے ہی ایک اور "ناممکن ” سمجھی جانے والی ٹیکنالوجی کا” ممکن” ہونا ثابت ہو چکا ہے :دور رہیّت (دور دراز اجسام کی بغیر کسی ذریعہ کے منتقلی یعنی Teleportation  کا کامیاب تجربہ کم از کم جوہری پیمانے پر تو کیا جا چکا ہے۔ کچھ برسوں پہلے ہی طبیعیات دان یہ کہتے ہوئے پائے جاتے تھے کہ کسی بھی شے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی واسطے کے بھیجنا کوانٹم طبیعیات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اصل اسٹار ٹریک کا مصنف طبیعیات دانوں کی تنقید سے اس قدر ڈسا گیا کہ بالآخر اس کو ہائیزن برگ کا آلہ تثویب (Heisenberg Compensators) کو اس میں شامل کرنا پڑا تاکہ وہ دور رہیّت میں موجود ایک نقص کو درست کر سکے۔ آج حلیہ دریافتوں کی بدولت، طبیعیات دان جوہروں کو ایک کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ یا فوٹون کو آسٹریا کے دریائے ڈینیوبی کے پار منتقل کر سکتے ہیں۔

 

                مستقبل کا اندازہ لگانا

 

مستقبل کا اندازہ لگانا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے خاص طور پر ایک صدی سے لے کر اگلے ہزار برسوں تک۔ طبیعیات دان نیلز بوہر (Neils Bohr) اس بات کی کافی تکرار کرتا تھا، ” اندازہ لگانا بہت ہی مشکل کام ہے۔ خاص طور پر مستقبل کے بارے میں۔ ” مگر جولیس ورن کے دور اور حالیہ عہد میں کافی بنیادی فرق ہے۔ آج طبیعیات کے بنیادی قوانین کو سمجھا جا چکا ہے۔ بنیادی قوانین جو پروٹون کی اندرونی ساخت سے لے کر کائنات تک کا احاطہ کرتے ہیں آج طبیعیات دان ان کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔ کائنات میں موجود چھوٹے اور بڑے اجسام میں ششدر کر دینے والا ١٠٤٣ فرق ہے۔ نتیجتاً طبیعیات دان معقولیت کے ساتھ پر اعتماد طور پر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی کس طرح کی ہو سکتی ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ان ٹیکنالوجی کو بھی الگ کر سکتے ہیں جن کا ممکن ہونا بعید از امکان ہے اور وہ بھی جو واقعی میں ناممکن ہیں۔

اسی لئے اس کتاب میں ناممکن چیزوں کو میں نے تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔

پہلی جماعت I کی ناممکنات ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو آج تو ناممکن ہیں لیکن یہ ہمارے جانے پہچانے قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ اس صدی میں ہی ممکن ہو جائیں یا شاید اگلی صدی میں کچھ بدلی ہوئی حالت میں ہمیں نظر آئیں۔ اس جماعت میں جو ناممکنات شامل ہیں وہ یہ ہیں : دور رہیّت (دور دراز فوری منتقلی ) ، ضد مادّہ سے چلنے والے انجن، خیال خوانی (Telepathy) کی مختلف اقسام، دماغی طاقت سے چیزوں کو حرکت دینا (Psychokinesis) اور  پوشیدگی  (Invisibility) ۔

دوسری جماعت وہ ہے جس کو میں نے جماعت II کی ناممکنات کہا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جہاں طبیعیاتی دنیا کی ہماری سمجھ بوجھ ابھی شروع ہوئی ہے۔ اگر وہ کسی طرح سے ممکن ہو سکتی ہیں تو بھی ان چیزوں کو پورا ہونے میں ایک ہزار سال سے لے کر دسیوں لاکھ سال تک لگ سکتے ہیں۔ اس میں ٹائم مشین، اضافی خلاء میں سفر (Hyper Space Travel) کا امکان اور ثقف کرم (وارم ہول یعنی Wormhole) کے ذریعہ وقت میں سفر شامل ہیں۔

آخری قسم کو میں نے جماعت IIIکی ناممکنات کا نام دیا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جو مروجہ قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایسی بہت ہی کم ٹیکنالوجی ہیں۔ اگر ان کا وقوع ہونا ممکن ہوا تو یہ ہماری طبیعیات کی سمجھ بوجھ میں بنیادی تبدیلی ہو گی۔

درجہ بندی اہم ہے ، میں یہ بات محسوس کرتا ہوں کہ سائنسی قصّوں میں بہت ساری ٹیکنالوجی کو سائنس دانوں نے اس لئے رد کر دیا تھا کہ ان کا پورا ہونا ناممکن تھا ، جب سائنس دان کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی ہماری جیسی نوزائیدہ تہذیب کے لئے ناممکن ہیں۔ مثال کے طور پر خلائی مخلوق کا زمین پر چکر لگانا عام طور پر ناممکن سمجھا جاتا ہے کیونکہ ستاروں کے درمیان فاصلہ بہت وسیع ہے۔ واضح طور پر بین النجم سفر (Interstellar Travel) ہمارے جیسی کسی بھی تہذیب کے لئے ناممکن ہے ، مگر کوئی تہذیب ہم سے جو صدیوں یا ہزاروں سال آگے ہو گی اس کے لئے ایسا سفر ممکن ہو گا۔ لہٰذا ایسی کسی چیز کو "ناممکن” کا درجہ دینا اہم ہے۔ وہ ٹیکنالوجی جو ہماری دور حاضر کی تہذیب کے لئے ناممکن ہیں، ضروری نہیں ہیں کہ وہ دوسری جدید قسم کی تہذیبوں کے لئے ناممکن ہوں۔ کسی بھی چیز کو ممکن اور ناممکن کی گروہ بندی کرنے سے پہلے اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی ایک ہزار برس سے لے کر دسیوں لاکھ سال مستقبل میں ہم سے کس قدر جدید ہو سکتی ہیں۔

کارل ساگاں نے ایک دفعہ ہمیں دعوت فکر دیتے ہوئے لکھا تھا، ” کسی بھی تہذیب کے لئے دس لاکھ برس پرانے ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ہمارے استعمال میں ریڈیائی دوربینیں اور خلائی جہاز صرف چند عشروں سے ہی آنے شروع ہوئے ہیں ؛ ہماری فنی تہذیب صرف چند سو سال پرانی ہے۔ ۔ ۔ کوئی بھی جدید تہذیب جس کی عمر دسیوں لاکھ سال کی ہو وہ ہم سے اتنا ہی آگے ہو گی جتنا کہ آج ہم کسی بچے  یا لنگور سے آگے ہیں۔ ”

میں نے اپنی تحقیق میں پیشہ ورانہ طور پر اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھا کہ کسی طرح سے آئن سٹائن کے خواب "ہر چیز کے نظریہ ” کو مکمل کر سکوں۔ ذاتی طور پر میں اس بات میں کافی سرور محسوس کرتا ہوں کہ "آخری نظریہ "پر کام کروں جو حتمی طور پر دور حاضر کے سائنس کے سب سے مشکل ناممکن سوالوں کا جواب دے سکے ، جیسا کہ وقت میں سفر ممکن ہے یا نہیں، بلیک ہول کے قلب میں کیا ہے ، یا بگ بینگ سے پہلے کیا ہوا تھا۔ میں اب بھی اپنے زندگی بھر کے ہمسفر "ناممکن” کے بارے میں خیالی پلاؤ پکا رہا ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ان میں سے کچھ ناممکنات، "ممکن” بن کر ہماری روزمرہ کی زندگی میں داخل ہو سکیں گی۔

 

 

 

 

تشکر

 

اس کتاب میں موجود مواد کئی میدانوں اور شعبوں اور کئی ممتاز سائنس دانوں کے کام کا احاطہ کرتا ہے۔ میں ان تمام حضرات کا شکر گزار ہوں جنہوں نے طویل با ضابطہ ملاقات، مشاورت، دلچسپ اور خیال آفریں گفتگو کے لئے اپنے قیمتی وقت سے حصّہ نکالا :

لیون لیڈر مین، نوبل انعام یافتہ، الینوائے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی

مررے گیل مان ، نوبل انعام یافتہ، سانتا فی انسٹیٹیوٹ اینڈ کالٹک

آنجہانی ہینری کینڈل، نوبل انعام یافتہ، ایم آئی ٹی

اسٹیون وائن برگ، نوبل انعام یافتہ، یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ آسٹن

ڈیوڈ گروس، نوبل انعام یافتہ، کیو لی انسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹیکل فزکس

فرینک ولزیک، نوبل انعام یافتہ، ایم آئی ٹی

والٹر گلبرٹ، نوبل انعام یافتہ، ہارورڈ یونیورسٹی

جوزف روٹبلاٹ، نوبل انعام یافتہ، سینٹ بارتھو لو میو ز ہوسپٹل

جیرالڈ ایڈل مین، نوبل انعام یافتہ، اسکریپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ

پیٹر ڈو ہرٹی، نوبل انعام یافتہ، سینٹ جوڈ چلڈرن ریسرچ ہوسپٹل

جار ڈ ڈائمنڈ، پلٹزر انعام یافتہ، یو سی ایل اے

اسٹن لی، مارول کومکس اور سپائیڈرمین کے خالق

برائن گرین، کولمبیا یونیورسٹی، اور دی ایلیگینٹ یونیورس کے مصنف

لیزا رینڈل، ہارورڈ یونیورسٹی، اور وارپڈ پیسج کی مصنفہ

لارنس کراس، کیس ویسٹرن یونیورسٹی، دی فزکس آف اسٹار ٹریک کے مصنف

جے رچرڈ گوٹ، پرنسٹن یونیورسٹی، ٹائم ٹریول ان آئنسٹائنس یونیورس کے مصنف

ایلن گتھ، طبیعیات دان، ایم آئی ٹی، دی انفلیشنری یونیورس کے مصنف

جان بیرو، طبیعیات دان، کیمبرج یونیورسٹی، امپوسبلیٹی کے مصنف

پال ڈے ویز، طبیعیات دان، سپر فورس کے مصنف

لیونارڈ سسکنڈ، طبیعیات دان، سٹنفرڈ یونیورسٹی

جوزف لیکن، طبیعیات دان، فرمی نیشنل لیبارٹری

مارون منسکی، ایم آئی ٹی، دی سوسائٹی آف مائنڈ کے مصنف

رے کرزویل، موجد، دی ایج آف ا سپریچول مشینز کے مصنف

روڈنی بروکس، ایم آئی ٹی آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری کے ڈائریکٹر

ہنس موراویک، روبوٹ کے مصنف

رن کروسویل، فلکیات دان، مگنیفیشنٹ یونیورس کے مصنف

ڈان گولڈسمتھ، فلکیات دان، رن اوے یونیورس کے مصنف

نیل دی گراس ٹائسن، ہیڈن پلانیٹاریم نیو یارک سٹی کے ڈائریکٹر

رابرٹ ررشنر، طبیعیات دان، ہارورڈ یونیورسٹی

فلویا میلیا، طبیعیات دان، یونیورسٹی آف ایری زونا

سر مارٹن ریس، کیمبرج یونیورسٹی، بیفور دا بیگننگ کے مصنف

مائیکل براؤن، فلکیات دان، کالٹک

پال گلسٹر، سینٹوری ڈریمز کے مصنف

مائیکل لیموونک، ٹائم میگزین کے سینئر سائنسی مدیر

ٹموتی فیرس، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، کمنگ آف ایج ان دی ملکی وے کے مصنف

آنجہانی ٹیڈ ٹیلر، یو ایس نیوکلیائی بم کے ڈیزائنر

فریمین ڈیسن، انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی، پرنسٹن

جان ہورگن، ا سٹیونس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، دی اینڈ آف دی سائنس کے مصنف

آنجہانی کارل ساگاں، کورنیل یونیورسٹی، کوسموس کے مصنف

این ڈریان، بیوہ کارل ساگاں، کوسموس اسٹوڈیوز

پیٹر شوارز، مستقبلی، گلوبل بزنس کے بانی

ایلون ٹوفلر، مستقبلی، دی تھرڈ ویو کے مصنف

ڈیوڈ گوڈ اسٹین، اسسٹنٹ پرووسٹ آف کالٹک

سیتھ لوئیڈ، ایم آئی ٹی، پروگرامنگ دی یونیورس کے مصنف

فریڈ واٹسن، فلکیات دان، اسٹار گیزر کے مصنف

سائمن سنگھ، دی بگ بینگ کے مصنف

سیتھ شوسٹک، سیٹی انسٹیٹیوٹ

جارج جانسن، نیو یارک ٹائمز کے سائنسی صحافی

جیفری ہوف مین، ایم آئی ٹی، ناسا کے خلا نورد

ٹام جونز، ناسا کے خلا نورد

ایلن لائٹ مین، ایم آئی ٹی، آئن سٹائنس ڈریم کے مصنف

رابرٹ زوبرین، مارس سوسائٹی کے بانی

ڈونا شرلی، ناسا مارس پروگرام

جان پائک، گلوبل سیکورٹی ڈاٹ ارگ

پال سافو، مستقبلی، انسٹیٹیوٹ آف دی فیوچر

لوئیس فرائیڈ مین، پلانیٹری سوسائٹی کے شریک بانی

ڈینیل ورتھ ہیمر، سیٹی ایٹ ہوم، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ برکلے

رابرٹ زمرمین، لیونگ ارتھ کے مصنف

مارشیا بارٹ ازیاک، آئن سٹائن ان فنشڈ سیمفونی کی مصنفہ

مائیکل ایچ سالمن، ناسا س بیونڈ آئن سٹائن پروگرام

جیوف اینڈرسن، یو ایس ایئر فورس اکیڈمی، دی ٹیلی اسکوپ کے مصنف

 

میں اپنے ایجنٹ اسٹورٹ کریچوف اسکائی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جو ان تمام برسوں میں میرے ساتھ شانہ بشانہ رہے اور میری کتابوں کی حفاظت کی اور میں اپنے مدیر راجر شول کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن کی غیر متزلزل شفقت، بالغ نظری اور ادارتی صلاحیتوں نے میری اور دوسری بہت ساری کتابوں میں رہنمائی کی۔ سٹی کالج آف نیو یارک اور دی گریجویٹ سینٹر آف دی سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک میں اپنے رفقائے کاروں کا بالعموم اور وی پی نائر اور ڈان گرین برگر کا با الخصوص شکر گزار ہوں جنہوں نے نہایت فیاضی کے ساتھ اپنے قیمتی وقت کا ہدیہ پیش کیا۔

میچو کاکو

 

 

 

 

 

 

1۔ غیر مرئی حفاظتی ڈھال  (قوّتِ میدان)

 

جب کوئی ممتاز و جید سائنس دان کسی امر کے ممکن ہونے کے بارے میں رائے زنی کرے تو وہ یقینی طور پر صحیح ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ کہے کہ یہ امر ناممکن ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔
ممکنات کی حد کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ناممکنات کی سرحد کو تھوڑا سا زیادہ پار کرنے کا جوکھم اٹھایا جائے۔
جادو او ر جدید ٹیکنالوجی (ٹیکنالوجی ) میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔
آرتھر سی کلارک – تین قوانین (تھری لاز)

 

"خلائی جہاز کی حفاظتی ڈھال کو کھول دو!”

 

کپتان کرک (Kirk) اسٹار ٹریک (Star Trek) کی ان گنت اقساط میں اپنے عملے کو سب سے پہلا یہ ہی حکم دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس حکم کی تعمیل کے نتیجے میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال  (فورس فیلڈ [Force Field] یا قوّت میدان) کو جہاز کے گرد حصار بنانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ خلائی جہاز "انٹرپرائز” (Enterprise) کو دشمن کی آگ سے بچایا جا سکے۔

اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّت میدان) کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی جنگ میں بطور فریق اپنی طاقت و حیثیت کا قیاس خلائی جہاز میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی باقی بچی ہوئی طاقت سے لگاتا ہے۔ جب بھی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی طاقت میں کمی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں "انٹرپرائز” کو زیادہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہتھیار ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال  (قوّت میدان ) آخر میں ہے کیا؟ سائنسی قصّوں میں تو یہ بیوقوف بنانے کی حد تک سادہ سی چیز ہوتی ہے۔ جس میں ایک پتلی سی غیر مرئی مگر غیر نفوذ پذیر رکاوٹ جو اپنی جانب داغے ہوئے لیزر اور راکٹوں کو دوسری طرف موڑ دیتی ہے۔ پہلی نظر میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال اس قدر سادہ لگتی ہے جیسے کہ بس میدان جنگ میں جلد ہی بنا لی جائی گی۔ فلم میں اس کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی دن کوئی موجد اس دفاعی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو بنانے کا اعلان کر دے گا۔ مگر سچائی اس سے کہیں زیادہ کڑوی و تلخ ہے۔

جس طرح سے ایڈیسن (Edison) کے روشنی کے بلب نے جدید تہذیب میں انقلاب برپا کر دیا بالکل اسی طرح سے قوّت میدان ہماری روز مرہ کی زندگی پر نہایت ہی عمیق اثر ڈال سکتی ہے۔ افواج اس غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو اپنے جنگی حربے کے طور استعمال کر سکتی ہے تاکہ وہ ایک غیر متداخل حفاظتی تہ دشمنوں کے میزائل اور گولیوں سے بچاؤ کی بنا کر ناقابل تسخیر ہو جائیں۔ اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی ایجاد کے بعد پل، سپر ہائی وے اور سڑکیں بٹن کو دباتے ہی بنائے جا سکیں گے۔ پلک جھپکتے میں صحرا میں پورے کے پورے شہر کھڑے کیے جا سکتے ہیں جہاں کی بلند و بالا عمارتیں غیر مرئی حفاظتی ڈھال سے بنی ہوئی ہوں گی۔ شہروں کے اوپر کھڑی غیر مرئی حفاظتی ڈھال سے شہری اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے موسموں کے اثر کو اپنی مرضی سے قابو کر سکیں۔ ان موسمی اثرات میں تیز ہوائیں، برفانی طوفان، گرد و باراں کے طوفان وغیرہ شامل ہیں۔ سمندر کے اندر محفوظ غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی چھتری تلے شہر بسائے جا سکیں گے۔ شیشہ، اسٹیل، اور موٹریں سب کچھ اس سے بدل جائے گا۔ ان تمام خوش آئند باتوں کے باوجود غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو کسی تجربہ گاہ میں بنانا سب سے مشکل ترین کام ہے۔ درحقیقت کچھ ماہرین طبیعیات تو اس کی خصوصیات کو تبدیل کئے بغیر بنانے کو ہی ناممکن گردانتے ہیں۔

 

                مائیکل فیراڈے (Michael Faraday)

 

غیر مرئی حفاظتی ڈھال کا خیال انیسویں صدی کے عظیم برطانوی سائنس دان مائیکل فیراڈے کے کام سے نکلا۔ فیراڈے ایک متوسط سفید پوش گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ لوہار تھا۔ اس نے اپنی روزی روٹی کمانے کا سلسلہ ایک چھوٹے سے کام یعنی کتاب کی جلد بندی کرنے والے کی حیثیت سے ١٨٠٠ء صدی عیسوی میں شروع کیا۔ نوجوان فیراڈے اس دور کی اہم دریافتوں سے بہت زیادہ متاثر تھا جنہوں نے دو نئی طاقتوں – برق اور مقناطیسیت – کی پراسرار خصوصیات کو بے نقاب کیا تھا۔ فیراڈے نے ان موضوعات پر جتنا کچھ مواد جمع ہو سکتا تھا، جمع کیا۔ اس کے علاوہ وہ رائل انسٹیٹیوٹ آف لندن کے پروفیسر ہمفرے ڈے وی (Humphrey Davy) کے لیکچر ز میں بھی حاضری دیتا تھا۔

ایک دن پروفیسر ڈے وی کی آنکھ کو ایک کیمیائی حادثے کے نتیجہ میں زبردست نقصان پہنچا جس کے بعد انہوں نے فیراڈے کو اپنا سیکرٹری رکھ لیا۔ فیراڈے نے رفتہ رفتہ رائل انسٹیٹیوٹ میں موجود سائنس دانوں کا اعتماد حاصل کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اکثر اس کو یہاں پر تجربات کرنے منع کر دیا جاتا تھا لیکن پھر بھی وہ کوشش کر کے اپنے کچھ اہم تجربات کرنے کی اجازت حاصل کر ہی لیتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈے وی اپنے نوجوان معاون کی زبردست ذکاوت سے جلنے لگا جو اس وقت تجرباتی حلقوں میں ایک ابھرتا ہوا ستارا بن کر پروفیسر ڈے وی کو گہنا رہا تھا۔ ١٨٢٩ء میں ڈے وی کی موت کے بعد فیراڈے کو اس بات کی کھلی چھٹی مل گئی تھی کہ وہ اپنے چونکا دینے والے ان تجربات کے سلسلوں کو جاری رکھے جن کے نتیجے میں جنریٹر کی ایجاد ہوئی جس نے پورے کے پورے شہروں کو فعال و روشن کر دیا تھا اور دنیا کی تہذیب کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

فیراڈے کی عظیم دریافتوں کی کنجی اس کی قوّت کے میدان تھے۔ اگر لوہے کا برادہ  (Iron Filings) مقناطیس کے اوپر رکھا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ لوہے کے اس برادے نے مکڑی کے جالے جیسا نمونہ بنا کر خالی جگہ کو بھر دیا ہو گا۔ یہ فیراڈے کی قوّت کی لکیریں تھیں جو ترسیمی (گرافیکلی) طور پر اس بات کو بیان کرتی ہے کہ کیسے برقی اور مقناطیسی قوّت میدان خالی جگہ میں نفوذ کر جاتے ہیں۔ اگر مثال کے طور پر کوئی زمین کے مقناطیسی میدانوں کو گراف کی شکل میں بنائے تو وہ دیکھے گا کہ لکیریں شمالی قطب سے نکل کر زمین کے جنوبی قطب میں جا کر گر رہی ہیں۔ اسی طرح سے اگر کوئی برق و باراں کے طوفان میں بجلی کی لکیروں کے برقی میدان کا گراف بنائے تو اس کو قوّت کی یہ لکیریں بجلی کش سلاخ کے اوپری حصّے پر مرتکز نظر آئیں گی۔ فیراڈے کے مطابق خالی خلاء بجائے خالی ہونے کے قوّت کی لکیروں سے بھری ہوئی ہوتی ہے جو دور دراز کے اجسام کو حرکت میں لا سکتی ہے۔ (فیراڈے نوجوانی میں غربت کی وجہ سے ریاضی سے نابلد تھا جس کے نتیجے میں اس کی نوٹ بک میں ریاضی کی مساوات بھری ہونے کے بجائے ہاتھ سے بنی ہوئی ان لکیروں کی قوّت کے خاکے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ریاضی میں نا تجربہ کاری کے باوجود اس کی بنائی ہوئی لکیروں کی قوّت کے خوبصورت خاکے آج کی کسی بھی طبیعیات کی ٹیکسٹ بک میں ملتے ہیں۔ طبیعیات کی دنیا میں اس کو بیان کرنے کے لئے اکثر تصاویر ریاضی کی مساوات سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ (

تاریخ دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ کس طرح سے فیراڈے اپنی اس دریافت قوت میدان تک پہنچا جو سائنس کی دنیا میں ایک نہایت ہی اہم تصوّر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید طبیعیات کا اگر ہم نچوڑ لیں تو وہ فیراڈے کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی زبان میں ہی لکھا جائے گا۔ ١٩٨٣ء اس نے غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی وہ اہم بات دریافت کر لی تھی جس نے انسانی تہذیب کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک دن وہ بچوں کے مقناطیس کو کسی تار کے لچھے پر گھما رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ اس طریقے میں اس نے تار کو چھوئے بغیر اس میں برقی رو پیدا کر لی ہے۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقناطیس کے غیر مرئی میدان نے تار میں موجود الیکٹران کو خالی جگہ میں دھکا دے کر برقی رو پیدا کر دی تھی۔

فیراڈے کی دریافت کردہ قوّت کے میدان جو پہلے فضول، بیکار اور بے مقصد سمجھے جاتے تھے وہ درحقیقت اصل میں مادّے کو حرکت دے سکتے تھے اور برق کو پیدا کر سکتے تھے۔ آج جس بجلی کی روشنی میں آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں اس نے شاید فیراڈے کی دریافت شدہ برقی مقناطیسیت سے توانائی حاصل کی ہو۔ ایک گھومتا ہوا مقناطیس ایک ایسا قوّت میدان پیدا کرتا ہے جو تار میں موجود الیکٹران کو حرکت دیتا ہے جس کے نتیجے میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ تار میں موجود یہ برق کسی بلب کو روشن کرنے کے کام آسکتی ہے۔ یہ ہی اصول اس بجلی کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے جن سے آج کی دنیا کے ہمارے شہر روشن ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم میں بہتا ہوا پانی ٹربائن میں موجود ایک بہت بڑے مقناطیس کو گھومنے پر مجبور کرتا ہے جو تار میں موجود الیکٹران کو دھکیلتا ہے جس سے برقی رو وجود میں آتی ہے جسے ہائی وولٹیج تاروں کے ذریعہ ہمارے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ مائیکل فیراڈے کی قوّت کے میدان وہی طاقت ہے جس نے جدید انسانی تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ اس کی دریافت کی بدولت ہی ہم برقی بلڈوزر سے لے کر، آج کے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اور آئی پوڈ استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

فیراڈے کی قوّت میدان پچھلے ١٥٠ سال سے ماہرین طبیعیات کے لئے تشویق کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ آئن سٹائن اس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اس نے اپنا قوّت ثقل سے متعلق نظریہ قوّت کے میدان کی صورت میں پیش کیا۔ میں خود بھی فیراڈے کے کام سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ کافی سال پہلے میں نے کامیابی کے ساتھ ا سٹرنگ کا نظریہ فیراڈے کی قوّت میدان کی زبان میں لکھا جس نے بعد میں چل کرا سٹرنگ کے میدان کے نظریہ کی بنیاد ڈالی۔ اگر کبھی طبیعیات میں کوئی یہ کہے کہ وہ لکیروں کی قوّت کی طرح سوچتا ہے تو اس کا مطلب ایک زبردست داد دینا ہوتا ہے۔

 

                چار قوّتیں

 

دو ہزار برسوں پر محیط طبیعیات کی ایک شاہانہ دریافت قدرت کی بنیادی چار قوّتوں کو پہچاننا اور ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے جو کائنات پر راج کر رہی ہیں۔ یہ سب کی سب میدان کی اس زبان میں بیان کی جا سکتی ہیں جس کو فیراڈے نے متعارف کروایا تھا۔ بدقسمتی سے ان میں سے کسی میں بھی وہ قوّت میدان والی خصوصیات موجود نہیں ہیں جو زیادہ تر سائنس فکشن فلموں میں بیان کی جاتی ہیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں۔

١۔ کشش ثقل، ایک خاموش طاقت ہے جو ہمارے قدموں کو زمین کے اوپر رکھنے میں مدد دیتی ہے ، یہ زمین اور ستاروں کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور نظام شمسی اور کہکشاؤں کو باندھ کر رکھتی ہے۔ قوّت ثقل کے بغیر ہم اس گھومتے ہوئے سیارے کی بدولت، زمین کی سطح سے اٹھا کر خلاء میں ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک دیئے جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوّت کے میدان کی وہ خصوصیات جن کو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے ، قوّت ثقل کی خصوصیات اس کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ قوّت ثقل کشش رکھتی ہے دھکیلتی نہیں، جبکہ نسبتاً یہ بہت ہی زیادہ نحیف ہوتی ہے اور یہ فلکیاتی بے انتہاء فاصلوں پر کام کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ اس پتلی، چپٹی، غیر نفوذ پذیر رکاوٹ، جو لوگ سائنس فکشن میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں ، سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پورے سیارہ زمین کی کشش ثقل ایک” پر” کو نیچے گرنے پر مجبور کرتی ہے مگر ہم اپنی صرف انگلی سے اس” پر” کو زمین کی ثقلی قوّت سے آزاد کر کے اٹھا لیتے ہیں۔ اس دوران ہماری انگلیوں نے اس پورے سیارے کی قوّت ثقل کے مخالفت میں کام کیا ہوتا ہے جس کا وزن ٦٠٠ کھرب کھرب کلوگرام ہے۔

٢۔ برقی مقناطیسی قوّت، وہ طاقت جس نے ہمارے شہروں کو روشن کیا ہوا ہے۔ لیزر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، جدید الیکٹرانکس، کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، برقی رو، مقناطیسیت سب کے سب برقی مقناطیسی قوّت کے کرشمے ہیں۔ شاید ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی دریافت کردہ طاقتوں میں یہ سب سے زیادہ مفید ہے۔ قوّت ثقل کے برخلاف یہ کھینچنے اور دھکیلنے دونوں کے کام کرتی ہے۔ اس کے باوجود کافی ایسی وجوہات ہیں جن کے سبب یہ قوت میدان کے طور پر کام کرنے کے لئے بالکل نامناسب قوّت ہے۔ یہ آسانی سے معتدل ہو سکتی ہے۔ پلاسٹک اور دوسرے حاجز مادّے آسانی سے طاقتور مقناطیسی میدان یا برقی میدان میں سے گزر سکتے ہیں۔ پلاسٹک کا کوئی بھی ٹکڑا مقناطیسی میدان کی طرف پھینکا جائے تو وہ آسانی سے اس کو پار کر لے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ برقی مقناطیسی قوّت لمبے فاصلوں سے کام کرتی ہیں اور آسانی کے ساتھ کسی سطح پر مرتکز نہیں ہوتی۔ برقی مقناطیسی قوّت کے قوانین جیمز کلارک میکس ویل (James Clerk Maxwell) نے وضع کر دیئے ہیں جو مساوات کی شکل میں ہیں اور یہ مساوات کسی بھی قوّت کے میدان کا حل نہیں بتاتی ہے۔

٣۔ کمزور اور مضبوط نیوکلیائی قوّتیں۔ کمزور نیوکلیائی قوّت تابکاری کے انحطاط کے سلسلے کی طاقت ہے۔ یہ وہ تابکار طاقت ہے جس نے زمین کے قلب کو گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ہی وہ طاقت ہے جو آتش فشانوں، زلزلوں، اور بر اعظموں کے بہنے کی ذمہ دار ہے۔ مضبوط نیوکلیائی قوّت ایٹم کے مرکزے کو تھام کر رکھتی ہے۔ سورج اور ستاروں کی توانائی نیوکلیائی قوّت سے ہی پیدا ہوتی ہے جو کائنات کو روشن کرنے کی ذمہ دار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نیوکلیائی قوّتیں بہت ہی کم علاقے میں عمل پیرا ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ صرف مرکزے کے اندر ہی کام کر سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ مرکزے کا ساتھ بہت زیادہ جڑی ہوئی ہوتی ہے لہٰذا اس میں توڑ جوڑ کرنا نا ممکن کی حد تک مشکل کام ہے۔ اس وقت تو ہمارے پاس اس قوّت کو استعمال کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ایٹم کے ذیلی ذرّات دوسرے ایٹموں پر مار کر پھاڑ کر الگ کریں یا اس کا استعمال نیوکلیائی بم کو پھاڑنے کریں۔

اگرچہ قوّت کے میدان جن کا استعمال سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے کسی بھی مروجہ طبیعیات کے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ اب بھی ایسے کافی زیادہ نقائص موجود ہیں جو کسی بھی قوّت کے میدان کی تخلیق میں آڑے آئیں گے۔ سب سے پہلے تو ایک پانچویں طاقت موجود ہو سکتی ہے جسے ابھی تک کسی بھی تجربہ گاہ میں نمودار ہوتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر ایسی کوئی بھی قوّت شاید فلکیاتی فاصلوں کے بجائے چند انچ سے لے کر چند فٹ تک کام کر سکے۔ (اس پانچویں قوّت کو ناپنے کی ابتدائی کوششوں نے منفی نتائج ہی دیئے۔ )

دوسرے یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ پلازما کا استعمال کرتے ہوئے قوّت میدان کی کچھ خصوصیات کو بنایا جا سکے۔ پلازما” مادّے کی چوتھی” حالت ہے۔ ٹھوس، مائع اور گیس مادّے کی وہ تین حالتیں ہیں جن سے ہم زیادہ شناسا ہیں، مگر کائنات میں مادّے کی سب سے زیادہ پائی جانے والی حالت پلازما کی ہے ، جو کہ برق پارہ (جس کو آئن اور روان بھی کہتے ہیں ) ایٹموں پر مشتمل گیس ہوتی ہے۔ کیونکہ پلازما میں ایٹم علیحدہ علیحدہ توڑ دیئے جاتے ہیں، جس میں الیکٹران ایٹموں سے اتار لئے جاتے ہیں، اس لئے ایٹم برقی طور پر بار دار ہوتے ہیں لہٰذا ان کو آسانی سے برقی اور مقناطیسی میدانوں میں توڑا جوڑا جا سکتا ہے۔ پلازما کائنات میں دکھائی دینے والا سب سے زیادہ مادّہ ہے۔ سورج، ستارے ، اور بین النجم گیسیں سب کے سب پلازما سے بنی ہوئی ہیں۔ ہم پلازما سے اس لئے زیادہ شناسا نہیں ہیں کیونکہ یہ زمین پر زیادہ نظر نہیں آتا ہے۔ مگر ہم اس کو کڑکتی بجلی میں، سورج میں اور اپنے پلازما ٹیلی ویژن کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔

 

                پلازمے کی کھڑکیاں

 

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب گیس کے درجہ حرارت کو کافی بڑھایا جائے تو پلازما بنتا ہے۔ جس کو مقناطیسی اور برقی میدان کے ذریعہ موڑا اور ڈھالا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کو کسی چادر (شیٹ) یا کھڑکی کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ مزید براں اس پلازما کی کھڑکی کو ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصولی طور پر اس پلازما کو خلائی جہاز میں موجود ہوا کو باہر نکلنے سے روکنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک شفاف نقطہ اتصال باہری خلاء اور خلائی جہاز کے درمیان بنایا جا سکتا ہے۔

اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن فلم کے سلسلے میں ایک ایسی قوّت میدان کو شٹل بے کو باہری خلاء سے الگ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شٹل بے میں ایک چھوٹی شٹل کرافٹ موجود ہوتی ہے۔ اس طریقے میں نا صرف چالاکی سے مداریوں سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا آلہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ بنانا ممکن ہو۔

پلازما کی کھڑکی ١٩٩٥ء میں بروک ہیون نیشنل لیبارٹری جو کہ لونگ آئی لینڈ نیو یارک میں واقع ہے وہاں پر کام کرنے والے ایک ماہر طبیعیات ایڈی ہرش کاوچ  (Ady Hershcovitch) نے ایجاد کی۔ اس نے ایک مسئلے سے نمٹنے کے لئے اس کھڑکی کو بنایا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح سے دھاتوں کو الیکٹران کی کرنوں سے ویلڈ کیا جائے۔ ایک ویلڈر کی ايسيٹيلِيَن (Acetylene) کی ٹارچ میں گرم گیسوں کے دھماکے سے دھات کو پگھلایا جاتا ہے اور پھر اس پگھلی ہوئی دھات سے ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے۔ دوسرے عام طریقوں کے مقابلے میں الیکٹران کی کرن دھاتوں کو تیزی، صفائی اور سستے میں ویلڈ کر لیتی ہے۔ لیکن الیکٹران کی کرن کے ساتھ ویلڈنگ کرنے میں ایک مسئلہ جڑا ہوا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھی کہ ویلڈنگ صرف خالی جگہ میں ہی ہو سکتی تھی۔ اس ویلڈنگ کے طریقے میں ایک خلاء کا خالی ڈبہ جو ایک کمرے جتنا ہو بنا نا پڑ تا ہے یعنی اس طرح کی ویلڈنگ کے لوازمات کافی زحمت زدہ ہیں۔

ڈاکٹر ہرش کا وچ نے اس مسئلہ کا حل پلازما کی کھڑکی ایجاد کر کے نکال لیا۔ صرف تین فٹ اونچی اور ایک فٹ سے بھی کم قطر میں پلازما کی کھڑکی گیس کے درجہ حرارت کو بارہ ہزار فارن ہائیٹ درجہ تک جا پہنچاتا ہے جس کے نتیجے میں پلازما، برقی اور مقناطیسی میدان کے درمیان قید ہو جاتا ہے۔ یہ ذرّات دباؤ ڈالتے ہیں جیسا کہ کسی بھی گیس میں ہوتا ہے ، جو ہوا کو خالی چیمبر میں جانے سے روکتا ہے ، جس سے ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ (جب آرگان (Argon)  گیس پلازما کی کھڑکی میں استعمال کی جاتی ہے تو یہ نیلے رنگ میں دہکتی ہے بعینہ ویسے ہی جیسے اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال  میں نظر آتی ہے۔ )

پلازما کی کھڑکی کا استعمال خلائی صنعت و سیاحت میں کافی وسیع پیمانے پر ہے۔ کئی موقعوں پر صنعتکاری کے عمل میں خورد بناوٹوں (Microfabrication)  اور صنعتی عمل کی خشک نقش کاری (Dry Etching)  کے لئے خالی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن خالی جگہ میں کام کرنا ایک مہنگا عمل ہے۔ اب پلازما کی کھڑکی کی ایجاد کے بعد اس کے ذریعہ کوئی بھی سستے طریقے میں ایک بٹن سے پلک جھپکتے میں خالی خلاء کو بنا سکتا ہے۔

کیا پلازما کی کھڑکی کو نفوذ ناپذیر ڈھال بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ کیا وہ کسی توپ سے داغے گئے گولے کو روکنے کے قابل ہے ؟ مستقبل میں ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ پلازما کی کھڑکی بہت زیادہ طاقتور اور اونچے درجہ حرارت والی ہو سکتی ہے ، جو باہر سے آنے والی کسی بھی چیز کو آسانی سے نقصان پہنچا سکتی ہے یا پھر اسے تحلیل بھی کر سکے گی۔ بہرحال اس قسم کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال جیسی کہ سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جاتی ہے بنانے کے لئے کئی قسم کی مہارتوں کو جمع کر کے تہ در تہ رکھ کر ہی ایسی کوئی حقیقی چیز بنائی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہر تہ اس قابل نہیں ہو کہ توپ کے گولے کو روک سکے مگر تمام تہیں مل کر شاید اس کو روک سکیں گی۔

ہو سکتا ہے کہ باہری پرت زبردست بار  (Charge) والی پلازما کی کھڑکی ہو جس کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہو گا کہ وہ دھاتوں کو پگھلا سکے گی۔ دوسری تہ میں اونچے درجے کی توانائی والی لیزر کی کرنیں ہوں گے۔ اس تہ میں ہزاروں لیزر کی کرنیں آڑھی ترچھی ہو کر ایک جالی کی سی صورت بنا دیں گی جو تہ میں سے گزرنے والے کسی بھی جسم کو گرم کر کے تحلیل کر دیں گی۔ میں لیزر پر اگلے باب میں مزید بات کروں گا۔

اور اس لیزر کے پردے کے پیچھے ایک کاربن نینو ٹیوبز سے بنی جالی بھی موجود ہو سکتی ہے۔ کاربن نینو ٹیوبز ننھی سی نلکیاں ہوتی ہیں جو کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں ان کی چوڑائی ایک ایٹم جتنی ہوتی ہے اور یہ سٹیل سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ کاربن نینو ٹیوبز کی لمبائی کا ابھی تک کا عالمگیر ریکارڈ صرف ١٥ ملی میٹر لمبا ہی ہے۔ مگر اس بات کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم اپنی مرضی کے مطابق ان کو لمبا بنا سکیں گے۔ فرض کریں کہ کاربن نینو ٹیوبز کو اس جال میں پرویا جا سکتا ہو تو اس کے ذریعہ ایک ایسی انتہائی طاقتور اسکرین بنائی جا سکے گی جو زیادہ تر چیزوں کو دور پھینکنے کے قابل ہو گی۔ یہ اسکرین ایک طرح سے غیر مرئی ہو گی کیونکہ ہر کاربن نینو ٹیوب صرف ایک ایٹم پر ہی مشتمل ہو گی اس کے باوجود کاربن نینو ٹیوبز پر مشتمل یہ جال کسی بھی دوسرے مادّے سے بنے ہوئے جال سے زیادہ مضبوط ہو گا۔

لہٰذا پلازما کی کھڑکی کے ساتھ مل کر، لیزر کا پردہ اور کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرین ایک غیر مرئی دیوار بنا سکتی ہیں جو ایک طرح سے کافی سارے اجسام کے لئے پار کرنا تقریباً ناممکن ہی ہو گا۔

اس کے باوجود یہ مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بھی مکمل طور پر سائنس فکشن میں دکھائی جانے والی قوّت میدان کی خصوصیات پوری نہیں کر پائے گی۔ کیونکہ یہ شفاف ہوں گی اور لیزر کی گزرنے والی کرنوں کو نہیں روک پائے گی۔ لہٰذا ایک ایسی جنگ میں جہاں لیزر کے گولے داغے جا رہے ہوں، مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بیکار ہو جائے گی۔

لیزر کی شعاعوں کو روکنے کے لئے ڈھال کو ایک جدید ضیا لونی (Photo chromatics) طریقے  کی ضرورت ہو گی۔ یہ وہ عمل ہے جو دھوپ سے بچنے کے لئے چشموں کو بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں بننے والے دھوپ کے چشمے بالائے بنفشی شعاعوں (Ultra Violet Radiation) کے پڑتے ہی گہرے رنگ کے ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) کی بنیاد ان سالموں پر ہوتی ہے جو کم از کم دو حالتوں میں رہ سکتے ہیں۔ اپنی ایک حالت میں وہ سالمات شفاف ہوتے ہیں مگر جب ان پر بالائے بنفشی شعاعیں پڑتی ہیں تو وہ فوراً دوسری حالت میں آ جاتے ہیں جو کہ غیر شفاف ہوتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم ایک دن اس قابل ہو جائیں کہ نینو ٹیکنالوجی ( ٹیکنالوجی) کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا مادّہ پیدا کر لیں جو کاربن نینو ٹیوبز جتنا مضبوط ہو اور جس میں وہ بصری خصوصیات موجود ہوں جو ضیا لونی میں ہوتی ہیں تاکہ جب اس پر کوئی لیزر کی شعاع پڑے تو وہ تبدیل ہو جائے۔ اس طرح ایک ایسی ڈھال بن سکے گی جو اس صلاحیت کی حامل ہو گی کہ لیزر کی بوچھاڑ کو روکنے کے ساتھ ساتھ ذرّات کی بوچھاڑ اور توپ کے گولے کو بھی روک سکے۔ فل الحال ایک ایسا ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) جو لیزر کی شعاع کو روک سکے وجود نہیں رکھتا۔

 

                مقناطیسی ارتفاع (Magnetic Levitation )

 

سائنس افسانوی فلموں میں قوّت میدان کا مقصد شعاعی گنوں کی بوچھاڑ کو پرے دھکیلنے کے علاوہ ایک ایسی مچان کا بھی کردار ادا کرنا تھا جو قوّت ثقل کو للکار سکے۔ ” بیک ٹو دا فیوچر” فلم میں مائیکل جے فاکس (Micheal J Fox) ایک معلق تختے  (ہوور بورڈ) پر سواری کرتا ہے جس کی شکل ا سکیٹ بورڈ سے ملتی ہے بس صرف فرق اتنا ہوتا ہے کہ وہ سڑک سے اوپر معلق ہو کر چلتا ہے۔ اس قسم کا آلہ جو قوّت ثقل کے مخالف کام کرتا ہو ہمارے جانے پہچانے طبیعیاتی قوانین کے تحت بنانا ممکن ہے (اس بات کی مزید تفصیل باب نمبر ١٠ میں بیان کی جائے گی۔ ) لیکن اس طرح کے مقناطیسی افزوں معلق تختے اور معلق کاریں مستقبل میں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں بشرط یہ کہ ہم بڑے اجسام کو اپنی مرضی سے ہوا میں اڑا سکیں۔ مستقبل میں اگر کمرے کے عام درجہ حرارت پر فوقی موصل  (سپر کنڈکٹر) حقیقت کا روپ دھار لیں تو مقناطیسی میدان کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چیزوں کو ہوا میں معلق کرنا ممکن ہو سکے گا۔

اگر ہم دو مقناطیسی پٹیاں ایک دوسرے کے قریب رکھیں جس میں دونوں کے شمالی قطبین ایک دوسرے کے مخالف ہوں تو وہ دونوں مقناطیس ایک دوسرے کو دھکیلیں گے (اگر ہم مقناطیسی پٹی کو گھما کر اس طرح سے دوسرے مقناطیسی بار کی طرف کر دیں کہ اس کا جنوبی قطب دوسرے کے شمالی قطب کی طرف ہو جائے تو وہ ایک دوسرے کو کھینچ لیں گے۔ ) اس اصول کا استعمال کرتے ہوئے جس میں ایک جیسے قطبین ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں زمین سے بڑی بھاری چیزیں اٹھائی جا سکتی ہیں۔ پہلے ہی کافی قومیں جدید مقناطیسی معلق ریل گاڑیاں (میگ لو ریلیں) بنا چکی ہیں جو عام مقناطیس کا استعمال کرتے ہوئے ریل کی پٹری سے تھوڑا سا اوپر رہتے ہوئے ہوا میں معلق رہتی ہیں۔ اس طرح سے انھیں رگڑ کی قوّت سے نبرد آزما ہونا نہیں پڑتا اور وہ ہوا کے اوپر تیرتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کی رفتار سابقہ ریل گاڑیوں کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔

١٩٨٤ء میں دنیا کی پہلی تجارتی خودکار معلق ریل (میگ لو ٹرین)  نے اپنا نظام برطانیہ میں چلانا شروع کیا جو برمنگھم ایئرپورٹ سے شروع ہو کر قریبی برمنگھم ریلوے ا سٹیشن تک جاتی تھی۔ میگ لو ریل جرمنی، جاپان اور کوریا میں بھی چلائی گئیں اگرچہ ان میں سے زیادہ تر کو تیز سمتی رفتار کے لئے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔ سب سے پہلی تجارتی میگ لو ریل جو تیز سمتی رفتار پر چلنے کے لئے بنائی گئی ہے وہ انیشل آپریٹنگ سیگمنٹ (آئی او ایس) ڈیمونسٹریشن لائن ان شنگائی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار ٢٦٨ میل فی گھنٹہ ہے۔ جاپانی میگ لو ریل نے یاما ناشی (Yamanashi)  میں ٣٦١ میل فی گھنٹہ کی سمتی رفتار حاصل کر لی ہے جو عام پہیے والی ریل سے زیادہ ہے۔

مگر یہ میگ لو گاڑیاں بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ ان کی استعداد کو بڑھانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فوقی موصل کا استعمال کیا جائے۔ جب فوقی موصل کو مطلق صفر درجہ حرارت کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے  تو ان کی برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔ فوقی موصل ١٩١١ء میں ہیک اونس (Heike Onnes) نے دریافت کیا تھا۔ اگر کچھ مادّے ٢٠ کیلون درجہ حرارت سے نیچے ٹھنڈے کیے جائیں تو ان میں موجود ساری برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔ عام طور سے جب ہم کسی دھات کو ٹھنڈا کرتے ہیں تو اس کی مزاحمت بتدریج کم ہوتی رہتی ہے (یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ایٹموں کی بے ترتیب ارتعاش الیکٹران کے بہاؤ میں مزاحم ہوتی ہے۔ درجہ حرارت کے کم کرنے پر ایٹموں کی یہ حرکت کم ہو جاتی ہے لہٰذا برق کم مزاحمت کے ساتھ گزر سکتی ہے۔ ) اونس کو اس وقت بہت ہی حیرت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ کچھ مادوں میں یہ مزاحمت ایک دم فاصل درجہ حرارت  (Critical Temperature) پر جا کر ختم ہو گئی۔

ماہرین طبیعیات نے اس دریافت کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیا تھا۔ برقی موصل کی تاروں میں توانائی کی اچھی خاصی مقدار بجلی کی لمبے فاصلوں میں ترسیل کے دوران ضائع ہو جاتی ہے۔ اگر اس ساری مزاحمت کو ختم کر دیا جائے تو برقی قوّت تقریباً مفت میں ہی پہنچائی جا سکتی ہے۔ در حقیقت بجلی اگر تاروں کے لچھے میں بنا کر چھوڑ دی جائے تو بجلی دسیوں لاکھوں سال تک تاروں کے لچھے میں کم ہوئے بغیر ہی گھومتی رہے گی۔ مزید براں زبردست طاقت کے مقناطیس تھوڑی سی کوشش کے ذریعہ اس عظیم برقی رو سے بنائے جا سکتے ہیں۔ ان مقناطیسوں کے ذریعہ زبردست وزن آسانی کے ساتھ اٹھائے جا سکتے ہیں۔

اپنی ان تمام تر معجزاتی طاقت کے باوجود فوق ایصالیت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان جسیم مقناطیسوں کو زبردست ٹھنڈے مائع میں ڈبو کر رکھنا بہت ہی زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ مائع کو زبردست ٹھنڈا رکھنے کے لئے بہت بڑے ریفریجریشن پلانٹس درکار ہوں گے جس کے نتیجے میں بننے والے کامل موصل مقناطیس بہت زیادہ مہنگے پڑیں گے۔

ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ماہرین طبیعیات اس قابل ہو جائیں گے کہ عام  کمرے کے درجہ حرارت پر ٹھوس جامد طبیعیات (Solid-State- Physics) کی دنیا کے شجر ممنوع فوقی موصل کو بنانے سکیں۔ فوقی موصل کی تجربہ گاہ میں ایجاد دوسرا صنعتی انقلاب برپا کر دے گا۔ طاقتور مقناطیسی میدان جو گاڑیوں اور ریل گاڑیوں کو اٹھانے کے قابل ہوں گے اس قدر سستے ہو جائیں گے کہ زمین کے اوپر منڈلاتی ہوئی گاڑیاں معاشی طور پر قابل عمل ہو سکیں گی۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرتے ہوئے فوقی موصل، بیک ٹو دی فیوچر، منور ٹی رپورٹ (Minority Report)  اور اسٹار وارز میں دکھائی جانے والی اڑتی ہوئی گاڑیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔

حقیقت میں کوئی بھی فوقی موصل سے بنی ہوئی بیلٹ پہن کر بغیر کچھ کئے آسانی کے ساتھ زمین سے اٹھ کر ہوا میں معلق ہو سکتا ہے۔ اس بیلٹ کے سہارے کوئی بھی سپرمین کی طرح اڑ سکتا ہے۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل اس قدر غیر معمولی ہیں کہ یہ کئی سائنسی افسانوی ناولوں میں بھی دکھائے دیئے ہیں (جیسا کہ رنگ ورلڈ سیریز جو ١٩٧٠ء میں لیری نیوِن [Larry Niven] نے لکھی تھی) ۔

کئی دہائیوں سے ماہرین طبیعیات عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں ہیں جس میں انھیں ابھی تک ناکامی ہوئی ہے۔ ایک مادّے کے بعد دوسرے مادّے کو جانچنے کا یہ کام بہت زیادہ تھکا دینے والا اور آر یا پھر پار والا کام ہوتا ہے۔ ١٩٨٦ء میں ایک مادّے کی نئی جماعت تلاش کر لی گئی جو مطلق صفر درجے سے ٩٠ ڈگری اوپر فوقی موصل جیسا برتاؤ کرنے لگتی ہے۔ اس مادّے کو اونچے درجے کے فوقی موصل کا نام دیا گیا تھا۔ اس دریافت نے طبیعیات کی دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ ایسا لگا جیسے کہ نلکا کھول دیا گیا ہو۔ ہر گزرتے مہینے ، ماہرین طبیعیات نے ایک کے بعد ایک کم درجہ حرارت پر فوقی موصل حاصل کرنے کا ریکارڈ توڑنے کی دوڑ لگا دی۔ تھوڑے عرصے کے لئے ایسا لگا کہ شاید کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل سائنسی افسانوی ناولوں میں سے چھلانگ لگا کر حقیقت کی دنیا میں آ جائیں گے۔ مگر کچھ سال کی تیزی کے بعد اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل پر تحقیق میں کمی ہو گئی۔

سر دست تو اونچے درجے پر فوقی موصل کا ریکارڈ جس مادّے کو حاصل ہے اس کا نام ہے "مرکری تھلیم بیریم کیلشیم کاپر آکسائڈ ” جو فوقی موصل منفی ١٣٥ ڈگری پر بن جاتا ہے۔ عام کمرے کے درجہ حرارت سے یہ اب بھی کافی زیادہ ہے اس کو کمرے کے درجہ حرارت پر آنے میں ابھی کافی لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔ مگر یہ منفی ١٣٥ ڈگری درجہ حرارت کافی اہم ہے۔ نائٹروجن منفی ١٩٦ ڈگری درجہ حرارت میں مائع کی حالت میں بدل جاتی ہے اور اس کی قیمت عام بکنے والے دودھ جتنی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا عام مائع نائٹروجن ان اونچے درجہ حرارت والے فوقی موصل کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سستے میں استعمال کی جا سکتی ہے  (بے شک کمرے کے درجہ حرارت پر فوقی موصل کو کام کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی ٹھنڈ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ )

کافی شرمندگی کی بات ہے کہ ابھی تک کوئی بھی نظریہ اونچے درجے والے فوقی موصل کی خصوصیات کو بیان نہیں کر سکا۔ نوبل پرائز اس بات کی انتظار میں ہے کہ کوئی اولوالعزم ماہر طبیعیات اس بات کو بیان کر سکے کہ کس طرح سے یہ اونچے درجہ والی فوقی موصل کام کرتے ہیں۔ (یہ اونچے درجے حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل ایٹموں کی جداگانہ تہوں کو لگا کر بنائے جاتے ہیں۔ کئی ماہر ین طبیعیات نے اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ سفالی [سرامک] مادّے کی تہیں الیکٹران کے ایک تہ سے دوسرے تہ تک کے آزادانہ بہنے کو ممکن بناتی ہوں جس کے نتیجے میں یہ فوقی موصل بن جاتے ہوں۔ لیکن یہ عمل ہو بہو کیسا ہوتا ہے یہ ابھی تک ایک معمہ ہی ہے۔ )

بدقسمتی سے اس علم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی ماہرین طبیعیات نئے اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں اسی آر یا پھر پار والے عمل کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ افسانوی عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کل دریافت ہو جائے ، یا پھر اگلے سال یا پھر کبھی نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کو حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا نا ہی یہ معلوم ہے کہ کیا کوئی ایسے مادّے کا وجود بھی ہے کہ نہیں جو فوقی موصل کے طور پر عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کر سکتا ہے۔

کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والی فوقی موصل دریافت ہو گئے تو تجارتی پیمانے پر اشیاء کا سیلاب آ جائے گا۔ زمین کے مقناطیسی میدانوں سے دس لاکھ گنا زیادہ طاقتور مقناطیسی میدان ہر جگہ نظر آئیں گے۔ فوق ایصالیت کی ایک خاصیت کو” میسسنر کا اثر” (Meissner effect)  کہتے ہیں۔ اگر آپ مقناطیس کو فوقی موصل کے اوپر رکھ دیں تو مقناطیس ہوا میں معلق ہو جائے گا ایسا لگے گا جیسے کہ کسی غیر مرئی طاقت نے اس کو تھام کر رکھا ہوا ہے۔ (میسسنر اثر میں ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مقناطیس اپنا عکسی مقناطیس فوقی موصل کے اندر بنا لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اصل مقناطیس اور اس کا عکسی مقناطیس ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ اس بات کو ایک دوسرے طریقے سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مقناطیسی میدان فوقی موصل میں داخل نہیں ہو سکتے اس کے بجائے فوقی موصل مقناطیسی میدان کو دھکیلتے ہیں۔ لہٰذا اگر مقناطیس کسی فوقی موصل کے اوپر رکھا جائے گا اس کے لکیروں کی قوّت کو فوقی موصل دفع کرے گا جس کے نتیجے میں لکیروں کی قوّت مقناطیس کو اوپر کی جانب دھکیلتی ہوئی اس کو ہوا میں معلق کر دے گی۔

میسنر کے اثر کے ذریعہ ہم مستقبل میں اس بات کا تصوّر کر سکتے ہیں کہ ہائی ویز اس خصوصی سفال  (سیرامکس) سے بنے ہوں گے۔ ہماری بیلٹ یا گاڑی کے پہیوں میں لگے ہوئے مقناطیس ہمیں ہماری منزل کی طرف جادوئی طریقے سے تیرتے ہوئی بغیر رگڑ یا توانائی کے زیاں کے پہنچا دیں گے۔

میسنر کا اثر صرف مقناطیسی مادّوں پر ہی ہوتا ہے جیسے کہ دھاتیں۔ مگر یہ بات بھی ممکن ہے کہ کامل موصلیت والے مقناطیسوں کو  غیر مقناطیسی مادّوں کو معلق کرنے میں استعمال کیا جا سکے۔ غیر مقناطیسی مادّوں کو پیرا مقناطیسی (Paramagnet)  مادّے اور ارضی مقناطیسی (Diamagnet)  مادّہ بھی کہتے ہیں۔ ان مادّوں کی اپنی مقناطیسی خاصیت نہیں ہوتی مگر یہ اپنی مقناطیسی خاصیت صرف داخلی مقناطیسی میدان کی موجودگی میں ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ پیرا مقناطیسی مادّے مقناطیس کی طرف کھینچتے ہیں جب کہ ارضی مقناطیسی مادّے مقناطیس کو دھکیلتے ہیں۔

مثال کے طور پر پانی ارضی مقناطیس ہے۔ کیونکہ تمام جاندار پانی سے بنے ہیں لہٰذا وہ طاقتور مقناطیسی میدان کی موجودگی میں معلق ہو سکتے ہیں۔ ١٥ تسلا کے مقناطیسی میدان میں (جو زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٣٠ ہزار گنا زیادہ ہے ) سائنس دانوں نے چھوٹے جانوروں جیسے کہ مینڈک کو ہوا میں اٹھا لیا ہے۔ اگر کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل حقیقت بن گئے تو بڑی غیر مقناطیسی اشیاء کو ان کی ارضی مقناطیسی خصوصیت کی بناء پر اٹھانا ممکن ہو جائے گا۔

قصہ مختصر سائنسی افسانوں میں بیان کیے جانے والی قوّت کے میدان کائنات کی بنیادی چار قوّتوں میں کہیں پوری نہیں اترتیں۔ اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ قوّت کے میدان کی بیان کی جانی والی کئی خصوصیات کی نقل کی جا سکے۔ یہ نقل  کئی تہوں والی ڈھال جو پلازما کی کھڑکی، لیزر کے پردے ، کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرینوں اور ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس)  پر مشتمل ہو کر بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کی غیر مرئی ڈھال کو بنانے میں کئی دہائیاں یا ہو سکتا ہے کہ پوری صدی بھی لگ جائے۔ لیکن عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل تلاش کر لئے گئے تو ان کے ذریعہ طاقتور مقناطیسی میدان سائنسی افسانوی فلموں میں دکھائی جانے کاروں اور ریل گاڑیوں کو زمین سے بلند کر کے  ہوا میں معلق کر سکیں گے۔

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے قوّت میدان کو ناممکنات کی جماعت I میں رکھا ہے۔ یعنی کہ جو چیز آج کی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ناممکن ہے وہ اگلی ایک صدی یا اس سے زیادہ کے عرصے میں اپنی شکل کو بدلتے ہوئے ممکن ہو سکتی ہے۔

 

 

 

 

2۔ پوشیدگی

 

جب تک آپ کا تخیل مرتکز نہ ہو، اس وقت تک آپ اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔
مارک ٹوئن  (Mark Twain)

 

اسٹار ٹریک IV: دی وائیج ہوم (Star Trek IV: The Voyage Home)  فلم سیریز میں، ” کلنگون” (Klingon)  گشتی جنگی جہاز کو”  انٹرپرائز” کے عملے نے اغواء کر لیا تھا۔ فیڈریشن اسٹار فلیٹ کے دوسرے خلائی جہازوں سے ہٹ کر کلنگون ریاست کے خلائی جہاز کے پاس ایک خفیہ "سلیمانی جبے نما آلہ” تھا جو اس کو ریڈار کی پہنچ سے غائب کر دیتا تھا اس طرح سے کلنگون خلائی جہاز فیڈریشن کے خلائی جہازوں کے پیچھے جا پہنچتا تھا اور وہاں سے ان پر شب خون مارتا تھا۔ اس سلیمانی جبے نے کلنگون ریاست کو سیاروں کی ریاست پر ایک تزویراتی برتری دی ہوئی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا سلیمانی جبہ بنانا ممکن ہے ؟ سائنسی افسانوں اور خیالی دنیا میں” پوشیدہ آدمی ” (The Invisible Man) کے صفحات سے لے ، ہیری پوٹر ناول کے جادوئی سلیمانی جبے تک، اور "دا لارڈ آ ف دا رنگس ” (The Lord of the Rings) کی انگوٹھی تک  ایک لمبے عرصے سے ” پوشیدگی” (Invisibility)  ایک عجوبہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ایک صدی تک ماہرین طبیعیات نے سلیمانی جبے جیسی کسی چیز کے ہونے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسی کسی بھی چیز کا وجود بصری قوانین کے برخلاف ہو گا۔ مزید براں یہ کہ مادّے کی کوئی بھی خصوصیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

کل کی ناممکن چیز آج ممکن ہو سکتی ہے۔ میٹا مٹیریل کے میدان میں پیش قدمی نے بصریات سے متعلق کتابوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ تجرباتی بنیادی پراس مٹیریل کے پروٹو ٹائپ تجربہ گاہوں میں بنائے جا چکے ہیں  جنہوں نے ظاہر کو پوشیدہ بنا دیا ہے۔ ظاہر کو پوشیدہ کرنے کی اس خاصیت  نے ذرائع ابلاغ، صنعت، اور افواج کی زبردست توجہ حاصل کر لی ہے۔

وو

                پوشیدگی تاریخ کے آئینے میں

پوشیدگی یا غیر مرئی ہونا شاید قدیمی دیومالائی تصوّرات میں ایک سب سے پرانا تصوّر ہے۔ جب سے تاریخ لکھنا شروع ہوئی ہے ، تنہا اور اکیلے لوگ غیر مرئی روحوں سے ڈرتے رہے ہیں جو بہت عرصے پہلے مرنے والوں کی آتما کی شکل میں رات کی تاریکی میں گھات لگا کر بیٹھی ہوئی ہوتی تھیں۔ یونانی ہیرو "پر سیس” (Perseus) سلیمانی ٹوپی کے سہارے شیطانی میڈوسا (Medusa) کا سر قلم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ فوج کے سپا سالاروں کے لئے سلیمانی ٹوپی جیسا کوئی آلہ ایک خواب رہا ہے۔ پوشیدہ رہ کر کوئی بھی دشمن کی صفحوں میں گھس کر آسانی کے ساتھ انھیں بے خبری میں پکڑ سکتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد پوشیدگی کا فائدہ اٹھا کر زبردست قسم کے ڈاکے ڈال سکتے ہیں۔

"پلاٹو” (Plato) کے "نظریئے حسن عمل اور ضابطہ اخلاق” (Theory of Ethics and Mortality) میں پوشیدگی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس فلسفیانہ شاہکار "دی ریپپلک” (The Republic) میں پلاٹو نے جائیجیس  (Gyges) کی انگوٹھی کے قصّے کو بیان کیا ہے۔ جس میں غریب مگر دیانت دار چرواہا جائیجیس جو "لیڈیا” (Lydia)  میں رہتا تھا وہ کسی طرح سے ایک خفیہ غار میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کو ایک مقبرے میں موجود لاش ملتی ہے جس نے ایک سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہوتی ہے۔ جائیجیس کو جلد ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ سونے کی انگوٹھی ایک جادوئی اثر رکھتی ہے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کر سکتی ہے۔ جلد ہی غریب چرواہا اس طاقت کے نشے میں چور ہو جاتا ہے جو اس جادوئی انگوٹھی کے نتیجے میں اس نے حاصل کی تھی۔ بادشاہ کے محل میں چوری چھپے گھسنے کے بعد جائیجیس اپنی طاقت ملکہ کو لبھانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ بعد میں ملکہ کی مدد سے وہ بادشاہ کو قتل کر کے لیڈیا کا اگلا بادشاہ بن جاتا ہے۔

اس کہانی سے جو پلاٹو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جس میں ان کو جب طاقت اور موقع ملتا ہے وہ بغیر کسی دباؤ کے قتل اور چوری کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس میں امیر و غریب کی کوئی قید نہیں ہے۔ زیادہ تر انسان آسانی سے شیطان کے  بہکاوے میں آ سکتے ہیں۔ ضابطہ اخلاق ایک ایسی معاشی عمارت ہے جسے زبردستی بنا کر نافذ کیا جاتا ہے۔ آدمی عوام الناس کے درمیان نیک بن سکتا ہے تاکہ اس کی نیک نامی، دیانت داری اور ایمانداری کی بدولت لوگوں میں برقرار رہے۔ لیکن ایک دفعہ اس کے پاس پوشیدگی کی طاقت آ جائے تو اس طاقت کا استعمال ناقابل مزاحمت ہو جاتا ہے۔ (کچھ لوگوں کے خیال میں یہ حسن اخلاق کی کہانی "جے آر آر ٹولکن” (J.J.R. Tolkien) کی لارڈ آ ف دا رنگ کی مثلث سے متاثر ہو کر لی گئی ہے جس میں انگوٹھی اس کے پہننے والے کو پوشیدگی کے ساتھ ساتھ شیطانی مخرج بھی بنا دیتی ہے۔

پوشیدگی سائنس فکشن میں ایک عام سی چیز ہوتی ہے۔ ١٩٣٠ء کی فلیش گورڈن کی سیریز میں، ایک کردار جس کا نام فلیش تھا وہ پوشیدہ ہو جاتا ہے تاکہ بے رحم منگ کے فائرنگ اسکواڈ سے فرار حاصل کر سکے۔ ہیری پوٹر کے ناولوں اور فلموں میں ہیری ایک سلیمانی جبہ پہن لیتا ہے جس کی مدد سے وہ "ہو گورٹ” (Hogwart) کے محل میں بغیر کسی کی نظر میں آئے ہوئے آوارہ گردی کرتا ہے۔

ایچ جی ویلز نے اس دیومالائی خواہش کو اپنے کلاسک ناول "پوشیدہ آدمی ” میں ٹھوس شکل میں پیش کیا۔ اس ناول میں ایک طب کا طالبعلم حادثاتی طور پر چوتھی جہت کی طاقت دریافت کر لیتا ہے اور اس کی مدد سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وہ اس زبردست طاقت کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرتا ہے ، وہ جرائم کرنا شروع کرتا ہے اور آخر کار بے بسی کی موت میں اس وقت مارا جاتا ہے جب وہ پولیس سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

                میکسویل کی مساوات اور روشنی کا راز

 

جب تک ا سکاٹ لینڈ کے رہائشی – ماہر طبیعیات جیمز کلرک میکسویل کا کام منظر عام پر نہیں آیا اس وقت تک طبیعیات دانوں کی بصری قوانین پر گرفت کافی کمزور تھی۔ یہ ماہر طبیعیات انیسویں صدی کے طبیعیات دانوں میں ایک بڑا نام تھا۔ ایک طرح سے میکسویل، مائیکل فیراڈے کا برعکس تھا۔ فیراڈے کا تجرباتی وجدان شاندار قسم کا تھا مگر اس نے باضابطہ کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی، میکسویل، جو فیراڈے کا ہم عصر  تھا اس نے ریاضی پر مکمل عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس نے کیمبرج میں طبیعیاتی ریاضی میں بطور طالبعلم نہایت ممتاز مقام پایا تھا جہاں پر آئزک نیوٹن نے دو صدی قبل ہی اس کا کام آسان کر دیا تھا۔

نیوٹن نے ” علم الا حصا ء ” (Calculus) کو ایجاد کیا تھا جو "تفرقی مساوات” (Differential Equations) کی زبان میں بیان کیا گیا تھا۔ یہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح اشیاء یکسانی کے ساتھ صغاری تبدیلیوں کو زمان و مکان میں جھیلتی ہیں۔ سمندروں کی موجوں کی حرکت، سیال، گیسیں، اور توپ کے گولے یہ سب چیزیں تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ میکسویل نے بڑے واضح مقصد کے ساتھ فیراڈے کی انقلابی دریافتوں اور اس کی قوّت کے میدان کو انتہائی درستگی کے ساتھ تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کیا۔

میکسویل نے فیراڈے کی اس دریافت سے شروعات کی کہ برقی میدان، مقناطیسی میدان میں بصورت معکوس تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس نے فیراڈے کی قوّت کے میدان کی نقشہ کشی لی اور اس کو دوبارہ سے ہو بہو تفرقی مساوات میں لکھا جس کے نتیجے میں جدید سائنس کی دنیا میں ایک سب سے اہم مساوات کا سلسلہ وجود میں آیا۔ وہ ایک آٹھ سلسلوں کی انتہائی خوفناک لگنے والی تفرقی مساوات تھیں۔ دنیا میں موجود ہر طبیعیات داں اور انجنیئر جب وہ برقی مقناطیسیت کے شعبے میں کسی یونیورسٹی سے ماسٹر کی سند لیتا ہے تو وہ اس پر عہد لیتا ہے۔

اس کے بعد میکسویل نے خود سے نتیجہ خیز سوال کیا: اگر مقناطیسی میدان بصورت معکوس برقی میدان میں تبدیل ہو سکتے ہیں تو اس وقت کیا ہو گا جب وہ کبھی ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہیں؟ میکسویل نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ برقی مقناطیسی میدان سمند کی موجوں کی طرح کی موجیں پیدا کرتے ہیں۔ اپنے تحیر کی خاطر اس نے ان موجوں کی رفتار کو ناپا اور ان کو روشنی کی رفتار کے برابر پایا! ١٨٦٤ء میں اس بات کو جاننے کے بعد اس نے پیش بینی کے طور پر لکھا :”یہ سمتی رفتار روشنی کی رفتار سے اس قدر نزدیک ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا نتیجہ نکالنا کی مضبوط دلیل ہے کہ روشنی خود سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برقی مقناطیسی خلل ہے۔ ”

یہ شاید انسانیت کی تاریخ میں سب سے عظیم دریافت تھی۔ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ روشنی کا راز ظاہر ہوا تھا۔ میکسویل نے اچانک اس بات کو محسوس کیا کہ طلوع سورج کی تابانی سے لے کر ہر چیز، غروب آفتاب، قوس و قزح کے خیرہ کناں رنگ، فلک میں موجود سماوی ستاروں تک ہر چیز کو ان موجوں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے جس کو اس نے کاغذ کے پنے پر مساوات کی شکل میں لکھا تھا۔ آج ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ برقی مقناطیسی طیف –  ریڈار سے لے کر ٹیلی ویژن تک، "زیریں سرخ روشنی” (Infrared) ، بصری روشنی، بالائے بنفشی روشنی (Ultraviolet Light) ، ایکس ریز، خورد موجیں (Microwaves) ، اور گیما اشعاع یہ سب میکسویل کی موجیں ہی تو ہیں جو دوسرے الفاظ میں فیراڈے کی قوّت میدان کی تھرتھراہٹ ہیں۔

میکسویل کی مساوات کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے آئن سٹائن نے لکھا ہے کہ "یہ وہ سب سے زیادہ گہرا اثر ڈالنے والی اور فائدہ مند دریافت ہے جس کو طبیعیات کی دنیا نے  نیوٹن کے بعد سے لے کراب تک جانا ہے۔ ”

(افسوس کہ میکسویل جو انیسویں صدی کا ایک عظیم طبیعیات دان تھا وہ عہد شباب میں جب اس کی عمر صرف ٤٨ برس کی تھی ؛ معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا۔ شاید یہ وہی وجہ تھی جس کے نتیجہ میں اس کی ماں کا بھی انتقال اسی عمر میں ہوا تھا۔ شاید اگر وہ زندہ رہتا، تو وہ اس بات کو دریافت کر لیتا کہ اس کی مساوات زمان و مکان میں خلل ڈالنے کی اجازت دیتی ہے جو سیدھی آئن سٹائن کی نظریے اضافت کی طرف جاتی ہے۔ یہ بات بہت زیادہ متحیر کر دینے والی ہے کہ اگر میکسویل لمبی عمر پاتا تو اضافیت کا نظریہ ممکنہ طور پر امریکہ کی سول وار کے دوران ہی دریافت ہو سکتا تھا۔ )

میکسویل کی روشنی کے نظرئیے اور ایٹمی نظرئیے نے بصریات اور پوشیدگی کی سادہ تشریح کر دی تھی۔ ٹھوس چیزوں میں ایٹم کس کر بندھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ مائع اور گیس میں سالموں کے درمیان کافی فاصلہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر ٹھوس اشیاء غیر شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی کی اشعاع ٹھوس اجسام میں ایٹموں کے کثیف میٹرکس میں سے نہیں گزر سکتیں جو اس کے لئے اینٹوں کی دیوار کا کام کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف کئی مائع اور گیسیں شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی تیزی سے ان ایٹموں کے درمیان موجود بڑی خالی جگہوں میں سے پاس ہو سکتی ہے۔ ان ایٹموں کے درمیان یہ خالی جگہ  بصری روشنی کی موجوں سے بڑی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جیسا کہ مائع مثلاً پانی، الکحل، امونیا، ایسٹوں، ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، گیسولین وغیرہ شفاف ہوتے ہیں بعینہ ایسے ہی گیسیں بھی شفاف ہوتی ہیں  جن میں آکسیجن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین وغیرہ شامل ہیں۔

یہاں پر اس اصول کی کچھ اہم استثناء بھی موجود ہیں۔ کئی قلمیں ٹھوس ہونے کے باوجود شفاف ہوتی ہیں۔ مگر قلموں میں ایٹم ہو بہو ایک جالی کی صورت میں ترتیب وار انبار کی صورت میں صف بند ہوتے ہیں جن کے درمیان یکساں خالی جگہ ہوتی ہے۔ لہٰذا قلموں میں کئی ایسے راستے موجود ہو سکتے ہیں جہاں روشنی کی کرن جالی کے درمیان کی خالی جگہ سے نکل جاتی ہے۔ لہٰذا قلم اتنے ہی کسے ہوئے ایٹموں سے بندھی ہوئی ہوتی ہے جتنا کہ ایٹم کسی ٹھوس مادّے میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں اس کے باوجود روشنی قلم میں سے گزرنا کا راستہ بنا سکتی ہے۔

کئی طرح کی صورتحال میں ٹھوس اشیاء بھی شفاف بن سکتی ہیں اگر ان میں موجود ایٹم بے ترتیب ہوں۔ ایسا کئی مادّوں کو بلند درجہ حرارت پر گرم کر کے تیزی سے ٹھنڈا کرنے کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شیشہ ٹھوس ہے مگر اس میں مائع کی کئی خصوصیات موجود ہیں کیونکہ اس میں ایٹم کسی خاص ترتیب سے نہیں مرتب ہوتے ہیں۔ کئی قسم کی ٹوفیاں اس طریقے کی مدد سے شفاف بنائی جا سکتی ہیں۔

میکسویل کی مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ واضح طور پر پوشیدگی ایک ایسی خاصیت ہے جو کہ ایٹمی پیمانے پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا پوشیدگی کو عام مادّے میں حاصل کرنا حد درجہ مشکل ضرور ہو گا مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہیری پوٹر کو غائب ہونے کے لئے پہلے تو سیال میں تبدیل ہونا ہو گا، اس کے بعد اس کو ابلنا ہو گا تاکہ وہ بھاپ بن سکے ، پھر اس کی قلم بنانی ہو گی، جس کے بعد اس کو دوبارہ گرم کر کے ٹھنڈا کرنا ہو گا۔ ظاہر سی بات ہے ہیری پوٹر کو غائب کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرنا کسی جادوگر کے لئے بھی آسان نہیں ہو گا۔

فوج ابھی تک غیر مرئی جہاز بنانے کو قابل نہیں ہوئی ہے اگرچہ فوجی اداروں نے اس سے ملتی جلتی سب سے بہتر چیز بنانے کی کوشش ضرور کی ہے : یعنی در پردگی کی ٹیکنالوجی  (Stealth Technology) ، جو ہوائی جہاز کو ریڈار کی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ در پردگی کی ٹیکنالوجی میکسویل کی مساوات پر تکیہ کرتے ہوئے چالوں کا ایک سلسلہ شروع کرتی ہے۔ در پردگی کی صلاحیت کا حامل لڑاکا طیارہ مکمل طور پر انسانی آنکھ سے دکھائی دیتا ہے لیکن دشمن کے ریڈار کی اسکرین پروہ صرف کسی بڑے پرندے جیسا نظر آتا ہے۔ (در پردگی کی ٹیکنالوجی اصل میں مختلف ترکیبوں کی کھچڑی ہوتی ہے۔ لڑاکا طیارے کے اندر کے مادّے میں رد و بدل کیا جاتا ہے ، مثلاً طیارے میں ا سٹیل کی مقدار کو کم کر کے پلاسٹک اور لاکھ (Resins) کا استعمال کیا جاتا ہے ، طیارے کے جسم کو بنانے کے لئے مختلف زاویوں کا استعمال کیا جاتا ہے ، اس طیارے میں  دھوئیں کے اخراج کے پائپوں کی ترتیب بھی بدل دی جاتی ہے اور اسی طرح سے دوسری کئی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اس طرح سے دشمن کے ریڈار سے نکلنے والی شعاعیں جہاز سے ٹکرا کر ہر سمت پھیل جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ دشمن کے ریڈار کی اسکرین پر کبھی واپس نہیں جاتی۔ مگر اس در پردگی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود لڑاکا طیارہ مکمل طور پر غائب نہیں ہوتا اس کے بجائے وہ ریڈار سے آنے والی شعاعوں کو جتنا تکنیکی طور پر ممکن ہو سکتا ہے اتنا موڑ کر پھیلا دیتا ہے۔ )

 

                میٹامٹیریل اور پوشیدگی

 

شاید مخفی رہنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ امید افزا پیش رفت مادّے کی ایک نئی پراسرار قسم میں ہوئی ہے جس کو میٹا مٹیریل کہتے ہیں۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ایک دن اشیاء کو صحیح معنی میں غائب کیا جا سکے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں میٹا مٹیریل کی تخلیق کو ناممکن سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ ٢٠٠٦ء میں امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی اور برطانوی شہر لندن میں موجود امپیریل کالج میں محققین نے کامیابی کے ساتھ روایتی سوچ کا مقابلہ کیا اور ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جو خورد موجی شعاعوں (Microwave Radiation) کے لئے غیر مرئی رہتا ہے۔ اگرچہ ابھی بہت سے مسائل پر قابو پانا باقی ہے لیکن تاریخ میں پہلی بار ہم نے کسی عام مادّے کو خورد امواج سے پوشیدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ (اس تحقیق کے لئے مالی تعاون پینٹاگون کی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی [دارپا] نے کیا ہے۔ )

ناتھن میہر ولڈ (Nathan Myhrvold) مائیکروسافٹ کے سابق چیف ٹیکنالوجی افسر ہیں وہ کہتے ہیں ” میٹامٹیریل میں موجود انقلابی صلاحیت مکمل طور پر ہماری بصریات اور برقی اشیاء کے ہر پہلو کو سمجھنے کی سوچ کو تبدیل کر دے گی۔ ۔ ۔ ۔ کچھ میٹامٹیریل تو اس قسم کے کرتب دکھا سکتے ہیں جو آج سے کچھ دہائیوں قبل تک معجزاتی لگتے تھے۔ ”

یہ میٹامٹیریل آخر میں ہیں کیا؟ یہ وہ مادّے ہیں جن میں وہ بصری خصوصیات موجود ہیں جو قدرتی طور پر نہیں پائی جاتی ہیں۔ میٹامٹیریل بنانے کے لئے اس مادّے کے اندر ہی چھوٹے امپلانٹ نصب کیے جاتے ہیں تاکہ وہ برقی مقناطیسی موجوں کو مسلمہ راستے سے مڑنے پر مجبور کریں۔ ڈیوک یونیورسٹی میں سائنس دانوں نے چھوٹے برقی سرکٹ تانبے کی تاروں کے جتھے میں گھسا دئیے جو ہموار ترتیب میں رکھے ہوئے مرتکز دائروں کی شکل میں تھے (کچھ ان کی شکل برقی بھٹی میں موجود لچھوں جیسی تھی) ۔ نتیجے میں انتہائی پیچیدہ سفل گری (سرامک) ، مومی مادّہ ( ٹیفلون) ، ریشے کے مرکبات ( فائبر کمپوزٹ)  اور دھاتی اجزاء کا آمیزہ وجود میں آیا۔ تانبے کی تاروں میں لگے ہوئے ننھے امپلانٹ نے خورد موجوں کو ایک خاص طریقے سے انضباط کر کے ایک مخصوص راستے پر خم دے کر گزرنے کے عمل کو ممکن بنایا۔  ذرا تصور کریں کہ دریا کسی پتھر کی سل کے ارد گرد سے ہوتا ہوا بہہ رہا ہو۔ کیونکہ پانی تیزی سے پتھر کی سل کے گرد لپٹتا ہے لہٰذا سل  پانی کے بہاؤ کی طرف گر جائے گی۔ اسی طرح سے میٹامٹیریل مسلسل خورد امواج کے راستے کو تبدیل اور خم دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ سلنڈر کے آس پاس بہہ سکے جس کے نتیجے میں سلنڈر کے اندر موجود ہر چیز خورد موجوں کے لئے پوشیدہ ہو گی۔ اگر میٹامٹیریل تمام انعکاس اور سائیوں کو حذف کر دیں تو اس وقت یہ کسی بھی اشیاء کو ہر قسم کی اشعاع سے مکمل طور پر مخفی رکھ سکیں گے۔

سائنس دانوں نے اس اصول کا کامیابی سے مظاہرہ ایک ایسے آلے کی مدد سے کیا جس کو دس فائبر گلاس کے چھلوں سے بنایا تھا جن کے گرد تانبے کا مرکب لپیٹا ہوا تھا۔ آلے کے اندر موجود تانبے کے چھلے خورد موجی اشعاع کے لئے تقریباً غائب ہی تھے انہوں نے صرف چھوٹا سا سایہ ہی بنایا تھا۔

میٹامٹیریل کا اصل کمال جوڑ توڑ کرنے کی وہ قابلیت ہے جس کو "انعطاف نما” (Index of Refraction) کہتے ہیں۔ انعطاف شفاف ذریعہ میں سے گزرتی ہوئی روشنی کے جھکاؤ کو کہتے ہیں۔ اگر آپ اپنا ہاتھ پانی میں رکھیں یا آپ اپنے چشمے کے عدسے سے دیکھیں تو آپ کو پانی اور چشمہ عام روشنی کے راستے کو خم دیتے ہوئے بگاڑتا ہوا نظر آئے گا۔

پانی یا چشمے کے عدسے میں سے گزرتی روشنی کے خم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کی رفتار کسی کثیف شفاف شئے میں داخل ہونے کے بعد آہستہ ہو جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار خالص خلاء میں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ مگر پانی یا گلاس کے اندر دوڑتی ہوئی روشنی کو دسیوں کھرب ایٹموں میں سے گزرنا پڑتا ہے لہٰذا اس کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ (روشنی کی رفتار کو کسی شئے کے اندر موجود دھیمی روشنی کی رفتار سے تقسیم کرنے کا عمل انعطاف نما کہلاتا ہے۔ کیونکہ روشنی ہمیشہ شیشے میں صفر کرتی ہوئی آہستہ ہو جاتی ہے لہٰذا انعطاف نما ہمیشہ ١ سے زیادہ ہی ہو گا) ۔ مثال کے طور پر خلاء میں انعطاف نما ١ ہو گا، ہوا میں ٠٠٠٣ء١ ، شیشے میں ١ء٥ اور ہیرے میں ٢ء ٤ ہو گا۔ عام طور سے جتنی زیادہ کثیف چیز ہو گی اتنا درجہ زیادہ ہی اس کا جھکاؤ اور انعطاف نما ہو گا۔

انعطاف نما کی مشہور زمانہ مثال سراب Mirage) کی ہے۔ اگر کبھی آپ کسی گرم دن میں گاڑی چلاتے ہوئے سیدھا افق کی جانب دیکھیں گے تو آپ کو سڑک جھلملاتی ہوئی نظر آئے گی جس کے نتیجے میں آپ کو ایک دمکتی ہوئی جھیل دکھائی دے گی۔ صحرا میں تو لوگوں کو دور دراز کے شہر اور پہاڑوں کے سائے بھی افق پر نظر آتے ہیں۔ سراب بننے کی وجہ سڑک یا ریگستان پر سے اٹھتی ہوئی گرم ہوا کی کثافت ہے جو عام ہوا کی با  نسبت کم ہوتی ہے لہٰذا اس کا انعطاف نما آس پاس کی ٹھنڈی ہوا کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لہٰذا دور دراز کے اجسام سے آتی ہوئی روشنی سڑک سے منعطف (Refracted) ہو کر ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے جس سے ہمیں دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم دور دراز پر واقع ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔

عام طور سے انعطاف نما مستقل ہوتا ہے۔ روشنی کی ایک تنگ کرن جب شیشے میں داخل ہوتی ہے تو خم کھاتی ہے لیکن خم کھانے کے بعد پھر سے  وہ خط مستقیم پر سفر کرنے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کریں کہ ہم انعطاف نما کو اپنی مرضی سے منضبط کر سکتے ہیں لہٰذا ہم اسے شیشے میں ہر نقطہ پر مسلسل تبدیل کر سکتے ہیں۔ جیسے ہی روشنی اس نئے مادّہ میں داخل ہو گی روشنی کو نئے راستوں پر خمیدہ اور گھمایا جا سکے گا جس کے نتیجے میں وہ سانپ کی چال کی طرح اس پورے مادّے میں آوارہ گردی کرتی پھرے گی۔

اگر ہم انعطاف نما کو کسی میٹامٹیریل میں اپنی مرضی کا تابع کر لیں جس سے روشنی اس شئے آس پاس سے گزر جائے تو وہ شئے نظروں سے مخفی ہو سکے گی۔ اس امر کو ممکن بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے انعطاف نما کو منفی ہونا پڑے گا جس کو طبیعیات کی ہر ٹیکسٹ بک ناممکن کہتی ہے۔ (میٹامٹیریل کا نظریہ سب سے پہلے روسی طبیعیات دان وکٹر ویس لوگو (Victor Veselago) نے ١٩٦٧ میں پیش کیا جس میں اس نے عجیب بصری خصوصیات جیسے کہ منفی انعطاف نما اور ڈوپلر اثر (Doppler Effect) کے متضاد جیسی چیزیں بیان کی تھیں۔ میٹامٹیریل اتنی عجیب اور خلاف عقل لگتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کی تخلیق  ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ لیکن پچھلے چند سال میں میٹامٹیریل کو تجربہ گاہوں میں بنا لیا گیا ہے اور اس چیز نے متذبذب ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بصریات سے متعلق تمام ٹیکسٹ بکس کو دوبارہ سے لکھیں۔ )

میٹامٹیریل پر تحقیق کرنے والے محققین ان صحافی حضرات سے اکثر دق ہوئے رہتے ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سلیمانی جبہ کب بکنے کے لئے تیار ہو گا۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ اس میں ابھی کافی وقت درکار ہو گا۔

ڈیوک یونیورسٹی کے ڈیوڈ سمتھ کہتے ہیں ” صحافی حضرات اکثر فون کرتے ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں کسی طرح سے وقت مہینوں اور برسوں میں بتا دیں۔ وہ اتنا تنگ کرتے ہیں آخر آپ مجبوراً کہہ دیتے ہیں کہ پندرہ سال لگیں گے۔ اس کے بعد آپ کی کہی ہوئی بات شہ سرخی بن کر کچھ اس طرح سے اخبار میں نظر آتی ہے۔ ہیری پوٹر کے سلیمانی جبے کے آنے میں صرف پندرہ سال۔ ” یہ ہی وجہ ہے کہ اب وہ کسی واضح ٹائم ٹیبل کو دینے سے ہمیشہ صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ہیری پوٹر یا اسٹار ٹریک کے مداحوں کو ابھی کافی انتظار کرنا ہو گا۔ اگرچہ حقیقی سلیمانی جبہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے بنانا ممکن ہے اور کافی سارے ماہرین طبیعیات اس سے متفق بھی ہیں لیکن سخت فنی رکاوٹیں ابھی اس ٹیکنالوجی کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ خورد موجی اشعاع سے بڑھ کر بصری روشنی پر اس کام کے دائرے کو پھیلانا ہو گا۔

دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میٹامٹیریل کے اندر پیوستہ آلات (امپلانٹڈ ڈیوائسوں) کے اندرونی ڈھانچے کو اشعاع کی طول موج (Wave Length) سے لازماً چھوٹا ہونا ہو گا۔ مثال کے طور پر خورد امواج کی طول موج لگ بھگ ٣ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس میٹامٹیریل کے لئے اس میں لگے ان ننھے پیوستہ آلات کا ٣ سینٹی میٹر سے چھوٹا ہونا ضروری ہے۔ لیکن کسی شئے کو سبز روشنی – جس کا طول موج ٥٠٠ نینو میٹر ہوتا ہے – میں نظر نہ آنے کے لئے میٹامٹیریل کو اس طرح سے بنا نا ہو گا کہ اس میں لگائے ہوئے آلات صرف ٥٠ نینو میٹر لمبے ہوں۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ نینو میٹر ایٹمی پیمانے کی لمبائی ہوتی ہے اور اس پر کام کرنے کے لئے نینو ٹیکنالوجی  کی ضرورت ہوتی ہے۔ (ایک نینو میٹر ایک میٹر کے ایک اربویں حصّے کے برابر ہوتا ہے۔ لگ بھگ ٥ ایٹم ایک نینو میٹر میں سما سکتے ہیں۔ شاید یہ ہی وہ اہم رکاوٹ ہے جو کامل سلیمانی جبہ کو بنانے کی راہ میں  حائل ہے۔ میٹامٹیریل میں موجود ہر ایک ایٹم کو اس طرح سے بدلنا پڑے گا کہ وہ روشنی کی کرن کو سانپ کی چال کی طرح خم کر سکے۔

 

                بصری روشنی کے لئے میٹامٹیریل

 

کھیل شروع ہو چکا ہے۔

جب سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں میٹامٹیریل بنائے جا سکتے ہیں اس وقت سے اس میدان میں بھگدڑ سی مچ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر چند مہینوں کے گزرنے کا بعد نئی بصیرت اور چونکا دینے والی اہم دریافتیں سامنے آ رہی ہیں۔ مقصد بالکل واضح ہے :نینو ٹیکنالوجی  کا استعمال کرتے ہوئے ایسے میٹامٹیریل بنائے جائیں جو خورد موجوں کو نہیں بلکہ بصری روشنی کو خم کر سکیں۔ اس سلسلے میں کئی طریقے تجویز کیے گئے ہیں جو سب کے سب کافی حوصلہ افزا ہیں۔

ایک تجویز تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود سیمی کنڈکٹر صنعت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی یعنی جس کو ہم پہلے سے جانتے ہیں کو استعمال کرتے ہوئے نئے میٹامٹیریل کو بنایا جائے۔ ایک تکنیک جس کا نام "سنگی طباعت” (فوٹو لتھوگرافی ) ہے جو کمپیوٹر کو مختصر کرنے کی روح ہے اور اس ہی کے نتیجے میں کمپیوٹر کا انقلاب آیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی  کے ذریعہ ہی انجنیئر ز اس قابل ہوئے ہیں کہ کروڑوں چھوٹے ٹرانسسٹر سلیکان کی اس پرت پر لگائے جاتے ہیں جو ہمارے انگوٹھے جتنی ہوتی ہے۔

کمپیوٹر کی رفتار اور طاقت ہر ١٨ مہینے کا بعد دگنی ہو جاتی ہے (جس کو "مور کا قانون” بھی کہتے ہیں ) اس کو وجہ یہ ہے کہ سائنس دان بالائے بنفشی اشعاع کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے حصّے سلیکان کی چپ  پر "نقش” (Etch) کرتے ہیں۔ یہ بالکل اس تیکنیک جیسی ہے جس میں رنگین ٹی شرٹس بنانے کے لئے ا سٹینسل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ (کمپیوٹر انجنیئر ز پتلی سی ویفر کے اوپر مختلف اجزاء پر مشتمل ننھی سی پرت چڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد پلاسٹک کا ماسک ویفر کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے جو ایک طرح سے ملمع کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں تاروں کے پیچیدہ نقشے ، ٹرانسسٹر ز اور کمپیوٹر کے کچھ حصّے ہوتے ہیں جو سرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس ویفر کو بالائے بنفشی اشعاع میں نہلایا جاتا ہے جن کا طول موج بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے ، اور یہ اشعاع نمونے کو ایک "ضیائی حساس” ( Photosensitive) ویفر پر نقش کر دیتی ہیں۔ ویفر کو خصوصی گیسوں اور تیزابوں سے دھونے کے بعد، ماسک پر چھپ جانے والی پیچیدہ سرکٹری ویفر پر چھاپی جاتی ہے جہاں اس پر بالائے بنفشی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک ایسا ویفر بنتا ہے جس میں کروڑوں چھوٹے کھانچے موجود ہوتے ہیں جو ٹرانسسٹر کے لئے بنیادی نقشے کا کام دیتے ہیں۔ اس وقت، چھوٹے سے چھوٹا حصّہ جو اس نقش کاری کے عمل میں بنایا جا سکتا ہے وہ ٣٠ نینو میٹر (یا تقریباً ١٥٠ ایٹم ) جتنا ہے۔

پوشیدگی حاصل کرنے کی جستجو میں ایک اور سنگ میل اس وقت آیا جب اس سلیکان ویفر کی نقش کاری کی ٹیکنالوجی، سائنس دانوں کے ایک گروپ نے اس پہلے پہل میٹامٹیریل کو بنانے میں استعمال کی جو روشنی کے "مرئی طیف ” (Visible Spectrum) کا احاطہ کرتی ہے۔ ٢٠٠٧ء کی شروعات میں جرمن اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف انرجی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے تاریخ میں پہلی بار اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا ہے جو سرخ روشنی میں بھی کام کرتا ہے۔ بہت ہی قلیل عرصے میں ایک "ناممکن "چیز کو حاصل کر لیا گیا۔

آئی اوا ہ (Iowa) میں واقع ایمس لیبارٹری کے طبیعیات دان کوسٹاس سوکولس (Costas Soukoulis) نے ، یونیورسٹی آف کارلزرو (University of Karlsruhe) ، جرمنی کے ا سٹیفن لینڈن (Stefan Linden) ، مارٹن ویگنر (Martin Wegener) ، اور گونار ڈولنگ (Gunnar Dolling)  کے ساتھ مل کر ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جس کا انعطاف نما سرخ روشنی کے لئے اشاریہ منفی ٦ تھا جس کا مطلب ٧٨٠  نینو میٹر طول موج ہے۔ (اس سا پہلے میٹامٹیریل کو ١٤٠٠  نینو میٹر کی طول موج والی اشعاع کو خم کرنے کا ورلڈ ریکارڈ تھا، اپنے اس طول موج کی وجہ سے وہ مرئی روشنی کے احاطے سے باہر لیکن سرخ زیریں روشنی کے طول موج کے اندر تھی۔ )

شروعات سائنس دانوں نے شیشے کی شیٹ سے کی، جس کے اوپر انہوں نے نہایت سی باریک چاندی، میگنیشیم فلورائیڈ اور ایک چاندی کی تہ چڑھائی، جس کے نتیجے میں فلورائیڈ کا ایک ایسا سینڈوچ بن گیا جو صرف ١٠٠ نینو میٹر پتلا تھا۔ اس کے بعد اسی نقش کاری کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے جنگلے (Grid) کا نمونہ مچھلی کے جال جیسا بنا دیا۔ (اس میں سوراخ صرف ١٠٠ نینو میٹر چوڑے تھے جو سرخ روشنی کے طول موج سے کہیں زیادہ چھوٹے تھے۔ ) اس کے بعد انہوں نے اس میں سے سرخ روشنی کی کرن کو گزارا اور پھر اس کا ” اشاریہ” (Index) ناپا جو کہ منفی ٦ نکلا۔

طبیعیات دان اس ٹیکنالوجی کا استعمال کافی جگہوں پر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ” ہو سکتا ہے کہ ایک دن میٹامٹیریل ان چپٹے فوقی عدسوں (سپرلینس) کی تیاری میں استعمال ہوں جو مرئی طیف میں کام کر سکے۔ ” ڈاکٹر سوکولس نے کہا۔ ” ایسا کوئی بھی عدسہ روایتی ٹیکنالوجی  کے مقابلے میں بہت ہی عمدہ کارکردگی کا حامل ہو گا ، جو ہمیں باریک بینی سے ایک طول موج سے بھی کم کی جزئیات فراہم کر سکے گا۔ ” فوری طور پر اس کا استعمال خورد بینی چیزوں کی بے نظیر صراحت کے ساتھ تصویر کشی کرنے میں ہو گا۔ مثال کے طور پر زندہ انسانی خلیہ کے اندرون  کی جھانک یا پھر رحم مادر میں موجود بچے کی بیماری کی تشخیص کرنے میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ڈی این اے سالموں کی تصویر بے ڈھنگی ایکس رے قلمیات کو استعمال کئے بغیر لی جا سکے گی۔

ابھی تک ان سائنس دانوں نے صرف سرخ روشنی کے انعطاف کے منفی اشاریے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا اگلا قدم اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا میٹامٹیریل بنانا ہے جو پوری سرخ روشنی کو کسی جسم کے گرد خم کر دے تاکہ وہ روشنی کے لئے غیر مرئی ہو جائے۔

مستقبل میں ہونے والی پیش رفت اسی طرح سے ” ضیائی قلموں ” (Photonic Crystal) میں بھی ہو سکتی ہے۔ ضیائی قلموں کا مقصد ایک ایسی چِپ بنانا ہے جو برق کے بجائے روشنی کو استعمال کرتے ہوئے اطلاعات پر عمل کاری (انفارمیشن پراسیس) کرے۔ اس سے نینو ٹیکنالوجی  کو استعمال کرتے ہوئے ننھے اجزاء ویفر پر نقش کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں انعطاف نما  ہر اجزاء کے ساتھ تبدیل ہو جائے گا۔ ٹرانسسٹر ز میں بجلی کے بجائے روشنی کا استعمال کئی قسم کے فوائد کا حامل ہو گا۔ مثال کے طور پر ضیائی قلموں کے استعمال سے حرارت کا زیاں بہت ہی کم ہو گا۔ ( جدید سلیکان چپس میں پیدا ہونے والی حرارت اتنی ہوتی ہے کہ اس سے ایک انڈا آسانی کے ساتھ پکایا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے ان کو مسلسل ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر وہ خراب ہو سکتی ہیں اور ان کو ٹھنڈا رکھنا بھی ایک مہنگا طلب کام ہے۔ ) اس میں کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ضیائی قلموں کی سائنس میٹامٹیریل کے لئے انتہائی موزوں ہے کیونکہ دونوں روشنی کے انعطاف نما کے جوڑ توڑ کو نینو پیمانے پر کرتی ہیں۔

 

                پوشیدگی بذریعہ پلازمونک

 

اگرچہ یہ ٹیکنالوجی  مفصلہ بالا ٹیکنالوجی  سے بہتر تو نہیں ہے۔ لیکن  بالکل ایک الگ طرح کی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے گروپ نے ٢٠٠٧ء کے درمیان اس بات کا اعلان کیا کہ انھوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا جو روشنی کو خم کر سکتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی  پلازمونک کہلاتی ہے۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طبیعیات دان "ہنری لیزک” (Henry Lezec) ، ” جینیفر ڈیون” (Jennifer Dionne)  اور "ہیری ایٹ واٹر” (Harry Atwater) نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل تیار کیا ہے جس کا منفی اشاریہ مزید مشکل نیلی-ہری مرئی روشنی کے بصری طیف میں بن سکتا ہے۔

پلازمونک کا مقصد روشنی کو اس حد تک دبانا ہے کہ کسی شئے پر پڑتی ہوئی روشنی کو نینو پیمانے پر، خاص طور پر دھاتوں کی سطح پر توڑا جوڑا جا سکے۔ کیونکہ دھاتوں کے ایٹموں پر الیکٹران ڈھیلے ڈھالے انداز میں بند ہوتے ہیں لہٰذا وہ دھاتوں کی سطح پر موجود جالی میں سے آسانی سے حرکت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں سے برقی رو آسانی سے گزر جاتی ہے۔ ہمارے گھروں کے تاروں میں دوڑتی ہوئی بجلی ان ڈھیلے ڈھالے بندھے ہوئے دھاتوں کی سطح پر موجود الیکٹران کا ہی بہاؤ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ شرائط کے ساتھ جب روشنی کی کرن دھات کی سطح سے ٹکراتی ہے تو الیکٹران اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دھات کی سطح پر موجود الیکٹران موجوں کی طرح حرکت میں آ جاتے ہیں (جن کو پلازمونک کہتے ہیں) ، اور یہ موجوں کی طرح کی حرکت اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ٹکرانے لگتی ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان پلازمونک کو بھینچا بھی جا سکتا ہے اس طرح سے ان کی تعدد ارتعاش (فریکوئنسی ) اصل روشنی کی کرن جتنی ہو سکتی ہے (اور بعینہ ویسی ہی معلومات لے جا سکتی ہے ) لیکن اس کی طول موج کافی چھوٹی ہوتی ہے۔ اصولی طور پر ان بھینچی ہوئی موجوں کو نینو تاروں پر ٹھونسا جا سکتا ہے۔ پلازمونک کا بھی حتمی مقصد ضیائی قلموں کی طرح کمپیوٹر کی چپس کو ہی بنانا ہے تا کہ وہ حساب کتاب بجلی کے بجائے روشنی سے کیا جا سکے۔

کالٹک کے اس گروپ نے اپنا میٹامٹیریل چاندی کی دو تہوں سے بنایا ہے جن کے درمیان سلیکان نائٹروجن کا "حاجز” (Insulator) درمیان میں موجود ہے (جس کی موٹائی صرف ٥٠ نینو میٹر ہے ) ، یہ حاجز ایک طرح سے "موجی رہنما” کا کام کرتے ہوئے پلازمونک موجوں کی حفاظت کرے گا۔ لیزر کی روشنی  آلے میں آنے اور نکلنے کے لئے دو درزوں کا استعمال کرتی ہیں جو میٹامٹیریل کے اوپر کندہ کی ہوئی ہیں۔ اس زاویہ کا تجزیہ منفی اشاریہ کے ذریعہ اس وقت معلوم کیا جا سکتا ہے جب لیزر کی روشنی میٹامٹیریل میں سے گزرتے ہوئے خم کھاتی ہے۔

 

                میٹامٹیریل کا مستقبل

 

میٹامٹیریل کے میدان میں پیش رفت مستقبل میں سرعت سے ہو گی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کی زبردست دلچسپی پہلے سے ہی ٹرانسسٹر میں بجلی کے بجائے روشنی کے استعمال کرنے کی ہے۔ ضیائی قلموں اور پلازمونک میں جاری تحقیق جس کا مقصد سلیکان چپس کا متبادل پیدا کرنا ہے ، مخفی رہنے کی تحقیق کو جاری رکھے گا۔ کروڑوں ڈالر پہلے ہی سلیکان کے  متبادل کو بنانے میں لگائے جا چکے ہیں اور میٹامٹیریل میں ہونے والی تحقیق کولا محالہ طور پر ان کے تحقیقی کاموں سے فائدہ ہو گا۔

ہرچند مہینوں میں اس میدان میں ہونے والی تیز رفتار ایجادات کی بدولت کچھ طبیعیات دان عملی قسم کی غیبی ڈھال کو تجربہ گاہوں میں شاید اگلی کچھ دہائیوں میں نمودار ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگلے چند سال میں سائنس دان اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ وہ ایسے میٹامٹیریل بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جو کسی بھی شئے کو مکمل طور پر بصری روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش پر کم از کم دو جہتوں میں غیر مرئی کر دے گی۔ اس بات کو قابل عمل بنانے کے لئے ننھے نینو پیوستہ آلات کو باقاعدہ ترتیب وار لگانے کے بجائے پیچیدہ نمونوں میں ایسے لگایا جائے گا جس سے روشنی کسی بھی جسم کے گرد آسانی سے مڑ سکے گی۔

اس کے بعد سائنس دانوں کو ایسا میٹامٹیریل بنانا ہو گا جو روشنی کو صرف دو جہتی چپٹی سطح کے بجائے سہ جہت میں موڑ سکے۔ ” سنگی طباعت” (Photolithography) چپٹے سلیکان کے ویفر بنانے کے لئے بالکل موزوں ہے ، مگر سہ جہتی میٹامٹیریل بنانے کے لئے ویفر کے انبار پیچیدہ انداز میں لگانے ہوں گے۔

اس کے بعد سائنس دانوں کو اس مسئلہ کا حل نکالنا ہو گا جس میں میٹامٹیریل روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش کے بجائے کئی کو خم دے سکے۔ شاید یہ کام سب سے زیادہ مشکل ہو گا کیونکہ ابھی تک بنائے ہوئے ننھے پیوستہ آلات صرف ایک درست تعدد ارتعاش کی روشنی کو خم دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ سائنس دانوں کو شاید میٹامٹیریل تہوں کی صورت میں بنانے ہوں گے جس میں ہر تہ ایک مخصوص تعدد ارتعاش کو خم کرے گی۔ اس مسئلے کا حل ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس تمام باتوں سے قطع نظر ایک دفعہ یہ غائب ہونے کی ڈھال یا سلیمانی ٹوپی بنا لی گئی تو یہ کافی بھاری آلے کی طرح ہو گی۔ ہیری پوٹر کا سلیمانی جبہ پتلے ، لچکدار کپڑے سے بنا تھا جو کسی بھی چیز کو اپنے اندر آنے کے بعد غائب کر دیتا تھا۔ مگر اس بات کو ممکن بنانے کے لئے جبے کے اندر انعطاف نما کو مسلسل پیچیدگی کے ساتھ اس وقت تبدیل ہونا پڑے گا جب وہ پھڑپھڑائے گا جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ سلیمانی جبے کو بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے ٹھوس سلنڈر کو شروع میں استعمال کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے انعطاف نما کو سلنڈر کے اندر ہی ٹھیک کر لیا جائے گا۔ ( میٹامٹیریل کے مزید جدید ورژن میں ایسی چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں جو اتنی لچکدار ہوں کہ انھیں موڑا بھی جا سکے اور اس کے باوجود روشنی کو میٹامٹیریل میں سے ٹھیک راستے سے گزرنے دیں۔ اس طرح سے سلیمانی جبے کے اندر تھوڑی سی ہل جل کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ )

کچھ لوگوں نے سلیمانی جبے کی ایک خامی کی طرف بھی اشارہ کیا: سلیمانی جبے کے اندر موجود کوئی بھی شخص ظاہر ہوئے بغیر باہر نہیں دیکھ سکے گا۔ ذرا تصوّر کریں کہ ہیری پوٹر مکمل غائب ہو بس اس کی آنکھیں ہوا میں تیرتی ہوئی نظر آ رہی ہوں۔ آنکھوں کے لئے بنایا جانے والا سوراخ مکمل طور پر باہر سے نظر آئے گا۔ اگر ہیری پوٹر مکمل طور پر غائب ہو گا تو وہ سلیمانی جبے کے اندر اندھوں کی طرح بیٹھا رہے گا۔ (اس مسئلہ کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ دو چھوٹے شیشوں کی پلیٹس آنکھوں کے سوراخوں کے پاس لگا دی جائیں۔ یہ شیشے کی پلیٹیں ایک طرح سے کرنوں کو توڑنے کے طور پر پلیٹوں پر پڑنے والی روشنی کے چھوٹے سے حصّے کو توڑ دیں گی اور پھر اس روشنی کو آنکھوں تک جانے دیں گی۔ لہٰذا اس طرح سے زیادہ تر سلیمانی جبے سے ٹکرانے والی روشنی اس کے ارد گرد بہ جائے گی جس کے نتیجے میں وہ شخص غائب رہے گے مگر بہت تھوڑا سا روشنی کا حصّہ اس کی آنکھوں کی طرف چلا جائے گا۔ )

یہ مشکلات جتنی بھی حوصلہ شکن ہوں، سائنس دان اور انجینیرز بہت زیادہ پر امید ہیں کہ کسی قسم کا سلیمانی جبہ آنے والی دہائیوں میں بنایا جا سکتا ہے۔

 

                پوشیدگی اور نینو ٹیکنالوجی

 

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ پوشیدگی کی اصل کنجی نینو ٹیکنالوجی میں چھپی ہے ، نینو ٹیکنالوجی کا مطلب ہے کہ ایک میٹر کے ایک ارب حصّے جتنے ایٹمی حجم کی چیز میں جوڑ توڑ کیا جا سکے۔

نینو ٹیکنالوجی کی ابتداء اس ١٩٥٩ کے اس لیکچر سے ہوئی جو نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمین نے امریکن فزیکل سوسائٹی میں ” تہ میں کافی گنجائش ہے ” کے معنی خیز عنوان سے دیا۔ اپنے اس لیکچر میں اس نے قوانین طبیعیات کی روشنی میں اس بات کا تصوّر پیش کیا کہ چھوٹی مشینیں کیسی دکھائی دیں گی۔ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مشینیں چھوٹی سے چھوٹی بنائی جا سکیں گی یہاں تک کہ وہ ایٹم کے جتنی چھوٹی ہو جائیں اور اس وقت ایٹم کے ذریعہ دوسری مشینیں بنائی جا سکیں گی۔ ایٹمی مشینیں جیسا کہ  چرخی، بیرم (لیور) اور پہیہ سب کے سب طبیعیات کے اندر رہتے ہوئے بنائے جا سکیں گے۔ اگرچہ ان کو بنانا بہت ہی زیادہ مشکل ہو گا، اس نے نتیجہ اخذ کیا۔

نینو ٹیکنالوجی کافی عرصے تک گمنامی کے اندھیرے میں پڑی رہی کیونکہ انفرادی ایٹموں سے کھیلنا اس وقت کی ٹیکنالوجی کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر ١٩٨١ میں طبیعیات دانوں نے تقطیعی سرنگی خوردبین (اسکیننگ ٹنلینگ مائکرو سکوپ) کی ایجاد کے ساتھ ایک زبردست مرحلے کو عبور کیا، جس کے نتیجے میں طبیعیات کا نوبل انعام  زیورخ میں واقع آئی بی ایم لیب میں کم کرنے والے گرڈ بنیگ اور ہینرچ روہرر نے جیتا۔

اچانک سے طبیعیات دان اس قابل ہو گئے کہ متحیر کر دینے والی انفرادی ایٹموں کی قطار در قطار کیمیاء کی کتابوں میں موجود جیسی تصاویر حاصل کر سکیں یہ وہ چیز تھی جو ایک موقع پر ایٹمی نظریے کے ناقدین ناممکن سمجھتے تھے۔ قلموں یا دھاتوں میں موجود قطاروں میں لگے ہوئے نفیس ایٹموں کی تصاویر لینا اب ممکن ہو گیا تھا۔

وہ کیمیائی فارمولا جو سائنس دان استعمال کرتے تھے ، جس میں ایٹموں کے پیچیدہ سلسلے سالموں میں لپٹے ہوتے تھے اپ خالی آنکھ سے دیکھے جا سکتے تھے۔ مزید براں یہ کہ تقطیعی سرنگی خوردبین ( اسکیننگ ٹنلینگ مائکروسکوپ) نے اس بات کو بھی ممکن بنا دیا تھا کہ انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ بھی کی جا سکے۔ درحقیقت "آئی بی ایم” کے حروف تہجی انفرادی ایٹموں کے ذریعہ ہجے کیے گئے جس نے سائنس کی دنیا میں کھلبلی مچا دی۔

سائنس دان اب اندھوں کی طرح انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اصل میں انھیں دیکھ کر ان کے ساتھ کھیل بھی سکتے تھے۔ تقطیعی سرنگی خوردبین (اسکیننگ ٹنلینگ مائکروسکوپ) مغالطے کی حد تک سادہ ہے۔ گرامو فون کی سوئیاں جس طرح سے قرص پر تقطیع کا عمل سر انجام دیتی ہیں اسی طرح سے ایک تیز دھار کھوجی آہستگی کے ساتھ مادّے کے اوپر سے اس کا تجزیہ کرنے کے لئے گزارا جاتا ہے۔ (اس کی نوک اس قدر نوکیلی ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک ایٹم پر حس مشتمل ہوتی ہے۔ ) ایک چھوٹا سا برقی بار کھوجی کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے ، پھر کھوجی میں برقی رو دوڑائی جاتی ہے جو اس میں سے ہوتی ہوئی مادّے میں سے گزر کر سطح کے نیچے تک چلی جاتی ہے۔ جیسی ہی کھوجی ایک انفرادی ایٹم کو پاس کرتا ہے ، کھوجی میں سے گزرنے والی بہتی ہوئی رو بدلتی رہتی ہے اور اس بدلاؤ کو ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔ جب سوئی کسی ایٹم کے پاس سے گزرتی ہے تو برقی رو بڑھتی اور گھٹتی ہے جس کے نتیجے میں غیر معمولی طریقے سے گہرائی میں اس کا نقشہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ کھوجی کے گزرنے کے بعد برقی رو کی تبدیلیوں کو پلاٹ کرنے پر انفرادی ایٹموں کی جالی کو بناتی ہوئی خوبصورت تصاویر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ (اس تقطیعی سرنگی خوردبین [ اسکیننگ ٹنلینگ مائیکروسکوپ ]کو بنانا کوانٹم طبیعیات کے عجیب و غریب قوانین کی بدولت ممکن ہوا۔ عام طور سے الیکٹران کے پاس اتنی توانائی نہیں ہوتی کہ وہ کھوجی میں سے ہوتے ہوئے رکھے ہوئے مادّے کی سطح میں سے گزر سکے ، مگر اصول عدم یقین  کی رو سے اس بات کا تھوڑا سا امکان ہے کہ رو میں موجود الیکٹران رکاوٹ میں سے گھس جائیں گے اگرچہ یہ نیوٹن کے نظریے کے مخالف بات ہے۔ لہٰذا کھوجی میں سے بہتی رو مادّے میں موجود چھوٹے کوانٹم اثر کے لئے حساس ہوتی ہے۔ کوانٹم نظریے کے اثر کو میں آگے تفصیل میں بیان کروں گا۔ )

کھوجی اتنا حساس ہوتا ہے کہ وہ مختلف ایٹموں کے درمیان گھوم سکتا ہے جس کے ذریعہ وہ سادی انفرادی ایٹموں پر مشتمل مشین بن سکتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اب اس قدر جدید ہو گئی ہے کہ ایٹموں کے جتھے کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں اور اس کے بعد صرف کمپیوٹر کرسر کی حرکت سے ایٹموں کو کہیں بھی اپنی مرضی سے حرکت دی جا سکتی ہے۔ ایٹموں کو ایسے جوڑا توڑا جا سکتا ہے جیسے کہ لیگو بلاکس کے کھیل میں کیا جاتا ہے۔ حروف تہجی کو ایٹموں سے لکھنے کے علاوہ ایٹمی کھلونے بھی بنائے جا سکتے ہیں جیسا کہ ابا کس انفرادی ایٹموں سے بنایا جا سکتا ہے۔ ایٹموں کو سطح پر عمودی قطار میں لگایا جاتا ہے۔ ان عمودی قطاروں میں کاربن کی بکی بال (جن کی شکل فٹبال کی گیند کی طرح کی ہوتی ہے مگر وہ کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں۔ ) یہ کاربن کی گیندیں پھر ہر کھانچے میں اوپر نیچے کی جا سکتی ہیں جس کے نتیجے میں ابا کس بن جاتا ہے۔

یہ بات بھی ممکن ہے کہ الیکٹران کی شعاعوں سے ایٹمی آلات کو  کندہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر کارنیل یونیورسٹی میں موجود سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا گٹار بنا لیا ہے جو انسانی بال سے بھی ٢٠ گنا زیادہ چھوٹا ہے جس کو کرسٹلائن سلیکان سے بنایا گیا ہے۔ اس میں ٦ تار ہیں جن میں سے ہر ایک ١٠٠ ایٹموں کی موٹائی جتنا ہے اور ان تاروں کو ایک ایٹمی قوّت کے مائیکروسکوپ سے کھینچا جا سکتا ہے (یہ گٹار اصل میں بجایا جا سکتا ہے مگر اس کی آواز جس تعدد ارتعاش میں نکلتی ہے وہ انسانی کانوں کی پہنچ سے دور ہے۔ )

ابھی تک تو زیادہ تر نینو مشینیں کھلونے ہی ہیں۔ پیچیدہ مشینیں جیسے کہ گیر اور بال بیرنگ بنانا ابھی باقی ہیں۔ مگر کافی ساری انجینیرز اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ آنے والے وقتوں میں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ اصل ایٹمی مشینیں بنا سکیں (ایٹمی پیمانے کی مشینیں قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں۔ خلیہ پانی میں اس لئے تیر سکتے ہیں کہ وہ اپنی چھوٹے بالوں کو باقاعدہ جنبش دیتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے بال اور خلیہ کے درمیان جوڑوں کا تجزیہ کرے گا تو اسے پتا چلے گا کہ وہ اصل میں ایک ایٹمی مشین ہے جو اس کے بالوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ہر سمت میں حرکت کر سکے۔ لہٰذا ایک طریقہ نینو مشین بنانے کا یہ ہے کہ قدرت کی نقل کی جائے جس نے ایٹمی مشینیں بنانے میں ارب ہا سال پہلے کمال حاصل کر لیا تھا۔

 

                ہالو گرام اور پوشیدگی

 

ایک دوسرا طریقہ کسی شخص کو غائب کرنے کا یہ ہے کہ اس کے پیچھے والے منظر کی تصویر کشی کی جائے اور پھر پس منظر خاکہ براہ راست اس انسان کے کپڑوں یا اس کے آگے موجود کسی اسکرین پر بنایا جائے۔ سامنے سے دیکھنے پر ایسا لگے گا کہ وہ انسان شاید شفاف ہو گیا ہے کیونکہ روشنی کسی طرح سے اس کے جسم میں سے گزر گئی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو میں واقع ٹاچی لیبارٹری میں ناوکی کا واکامی اس کام میں جس کا نام "بصری بہروپ” ہے ، کافی سخت محنت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے "اس کے ذریعہ پائلٹ کو کاکپٹ میں سے زمین پر موجود رن وے کو دیکھنے میں مدد مل سکے گی، یہ ڈرائیوروں کو بھی مڈگارڈ (ٹائروں کے اوپر کیچڑ سے بچاؤ کے لئے لگائی جانے والی پٹی ) میں سے دیکھتے ہوئے گاڑی کو پارک کرنے میں آسانی ہو گی۔ ” کا واکامی کا جبہ چھوٹی روشنی کو انعکاس کرنے والی دانوں سے بھرا ہے جو ایک سنیما کی اسکرین کی طرح کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ویڈیو کیمرہ جبے کے پیچھے کی تصویر لے لیتا ہے۔ جس کے بعد اس تصویر کو ویڈیو پروجیکٹر میں ڈال دیا جاتا ہے جو جبے کے اگلے حصّے پر روشنی پھینکتا ہے جس سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ روشنی اس شخص میں سے گزر رہی ہے۔

بصری بہروپ کے ابتدائی نمونے اصل میں لیب میں موجود ہیں۔ اگر آپ براہ راست اس شخص کو دیکھیں جس نے یہ اسکرین کے جیسے جبہ پہنا ہے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے کیونکہ آپ اس شخص کے پیچھے والی تصویر ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ مگر جب آپ اپنی آنکھوں کو تھوڑا سے جھپکیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پیچھے والی تصویر ہل نہیں رہی ہے جس سے آپ کو اس کے جعلی ہونے کا اندازہ ہو گا۔ مزید حقیقت سے قریب تر بصری بہروپ بنانے کے لئے سہ جہتی سراب بنانا ہو گا۔ اس کام کے لئے ہالو گرام کی ضرورت ہو گی۔

ہالو گرام ایک سہ جہتی خاکہ ہوتا ہے جو لیزر کے ذریعہ بنایا جاتا ہے (جس طرح سے سہ جہتی تصویر شہزادی لیا کی اسٹار وار میں تھی) ۔ کوئی بھی شخص پوشیدہ ہو سکتا ہے اگر پس منظر کی تصویر خصوصی ہالو گرافک کیمرے کے ذریعہ اتار کر اس شخص کے سامنے موجود خصوصی ہالو گرافک اسکرین پر ڈالی جائے۔ اس شخص کے سامنے موجود دیکھنے والا شخص کے بجائے ہالو گرافک اسکرین کو دیکھے گا جس میں ایک سہ جہتی تصویر اس شخص کے پیچھے کے منظر کی ہو گی اس طرح سے ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے۔ اگر اس شخص کی جگہ پر ہو بہو اس کے پیچھے کا منظر موجود ہو گا تو آنکھوں کو حرکت دینے کے باوجود بھی یہ بتانا ممکن نہیں ہو گا کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ ایک فریب نظر ہے۔

سہ جہتی تصاویر لینا اس لئے ممکن ہوا کہ لیزر کی روشنی "مربوط” ہوتی ہے مطلب کہ تمام موجیں ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تی ہیں۔ ہالو گرام مربوط لیزر کی اس کرن سے جو دو حصّوں میں ہوتی ہے بنایا جاتا ہے۔ لیزر کی کرن کا ایک حصّہ فوٹوگرافک فلم پر چمکتا ہے جبکہ دوسرا حصّہ کسی بھی جسم پر پڑ کر اس کو منور کرتا ہوا واپس فوٹوگرافک فلم پر پڑتا ہے۔ جب یہ دونوں کرنیں فلم پر ایک دوسرے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں تو اس سے ایک  مدا خلتی نمونہ بنتا ہے جو اصل سہ جہتی موج کی تمام معلومات کو رمز بند (انکوڈ) کر دیتا ہے۔ اس فلم کو جب ڈیولپ کیا جاتا ہے تو وہ ایک پیچیدہ سے مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ اور نظر نہیں آتی جس میں گھومتی ہوئی لکیروں کے نمونے نظر آتے ہیں۔ مگر جب لیزر کی کرن اس فلم پر پڑتی ہے تو ہو بہو سہ جہتی نقل اصل شئے کی اچانک جادوئی طریقے سے نمودار ہو جاتی ہے۔

بہرحال ہالو گرافک پوشیدگی کے تیکنیکی مسائل کافی مشکل ہیں۔ ایک چیلنج تو ہالو گرافک کیمرے کو بنانا ہے جو اس بات کا اہل ہو کہ کم از کم ٣٠ فریم پر سیکنڈ سے تصاویر لے سکے۔ دوسرے مسئلہ ان اطلاعات کا ذخیرہ کرنا اور اسے معنی خیز بنانا ہے۔ آخر میں اس حاصل کی گئی تصویر کو اسکرین پر پھینکنا ہے تاکہ وہ تصویر اصل لگ سکے۔

 

                پوشیدگی بہ ذریعہ چوتھی جہت

 

ہمیں یہ بات بھی بتانی چاہئے کہ غائب ہونے کی ایک اور زیادہ ثقیف صورت جو ایچ جی ویلز نے "پوشیدہ آدمی "، میں بیان کی ہے جس میں چوتھی جہت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے غائب ہونا ممکن تھا۔ (اس کتاب میں آگے مزید تفصیل سے ممکنہ بلند جہتوں پر بات کروں گا۔ ) کیا ہم اپنی سہ جہتی کائنات میں رہتے ہوئے چوتھی جہت کے تفوق والے مقام سے اس دنیا میں معلق رہ سکتے ہیں؟ جیسے کہ سہ جہتی تتلی دو جہتی کاغذ کی شیٹ پر اڑتی نظر آتی ہے ، ہم کائنات میں اپنے سے نیچے رہنے والی کسی بھی شخص کے لئے مخفی ہو جائیں گے۔ اس تصوّر کے ساتھ صرف ایک مسئلہ ہے کہ ابھی تک بلند جہتوں کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوا ہے۔ مزید براں یہ کہ بلند جہتوں کا خیالی سفر جتنی توانائی کا متقاضی ہے وہ توانائی حاصل کرنا ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنے کا یہ طریقہ واضح طور پر ہماری قابلیت اور علم سے کوسوں دور ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنے کے لئے جتنی کوششیں کی گئی ہیں ان کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ آسانی سے ہماری اس جماعت میں شامل ہو سکتی ہے جس کو ہم نے جماعت "I” ناممکنات کا نام رکھا ہوا ہے۔ آنے والی چند دہائیوں میں یہ کم از کم اس صدی میں پوشیدگی ہو سکتا ہے کہ معمولی سی چیز ہو۔

 

 

 

 

3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے

 (Phasers and Death Stars)

 

ریڈیو کا مستقبل تاریک ہے۔ ہوا سے بھاری اڑنے والی مشینیں بنانا ممکن نہیں ہیں۔ ایکس ریز ایک ڈھکوسلہ ثابت ہو گی۔
طبیعات دان لارڈ کیلون (Physicist Lord Kelvin) ، ١٨٩٩ء

 

ایٹم بم کبھی نہیں پھٹے گا۔ یہ بات میں ایک آتش گیر  ماہر کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔
ایڈمرل ولیم لیہے (Admiral William Leahy)

 

١، ٢، ٣ ، ٤ فائر !

"اسٹار وارز” میں دکھایا جانے والا غارت گر ستارہ (ڈیتھ اسٹار) ایک جسیم ہتھیار ہوتا ہے ، جس کا حجم چاند جتنا ہوتا ہے۔ فلم میں وہ ایک بے بس سیارے ، جس کا نام "ایلڈی ران ” (Alderaan) تھا اور جو شہزادی لیا کا مستقر تھا، کی طرف نشانہ باندھ کر فائر کرتا ہے نتیجتاً وہ سیارہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے سیارے کے جلنے سے ایک عظیم دھماکہ رونما ہوتا ہے جو ستارے کا ملبہ پورے نظام شمسی میں دھکیل دیتا ہے۔ ایک ارب روحوں کی تکلیف دہ چیخوں سے ” فورس ” میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور اس بربریت کی داستان کی بازگشت پوری کہکشاں میں سنائی دیتی ہے۔

کیا "اسٹار وارز” میں دکھایا جانے والا ہتھیار حقیقت حال میں بنانا ممکن ہے ؟ کیا ایسا ہتھیار لیزر کے گولے برسا کر پورے سیارے کو تحلیل کر سکتا ہے ؟ ان مشہور زمانہ "روشنی کی تلواروں” (Light Sabers)  کے بارے میں کیا خیال ہے جو "لیوک ا سکائی والکر” (Luke Skywalker)  اور ڈارتھ ویڈر (Darth Vader) نے بنائی تھی۔ یہ تلواریں  جو روشنی کی کرنوں سے بننے کے باوجود مضبوط اسٹیل کو کاٹ کر رکھ دیتی تھیں۔ کیا اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی فیزرس جیسی شعاعی گن مستقبل کی نسل انسانی کے قانون نافذ کرنے والے افسران اور فوجیوں کے لئے ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکے گی؟

اسٹار وارز کی فلمیں دیکھنے والے لاکھوں لوگ اس فلم میں دکھائے گئے اصلی خصوصی اثرات کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں، مگر ناقدین کے آگے اسٹار وارز والوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے ، جو ان میں عیب جوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں دکھائی جانے والی چیزیں بطور تفریح تو ٹھیک ہے لیکن ان کا حقیقت کی دنیا سے کوسوں دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ناقدین کے خیال میں چاند کے حجم جتنا، سیاروں کو ختم کرنے والا شعاعی ہتھیار انتہائی خیالی اور بے ڈھنگا ہے۔ اسی طرح سے ٹھوس روشنی کی کرنوں والی تلوار دور دراز کی کہکشاؤں میں بھی اتنی ہی انوکھی چیز ہو گی جتنی کہ ہماری حقیقی دنیا میں یہ ہیں۔ "جارج لوکاس” (George Locas) ، جو خصوصی اثرات کے ماہر ہیں، اس کام کو کرتے ہوئے شاید بہت زیادہ بہک گئے ہیں اور انہوں نے تخیل کی سرحدوں کو پار کرنے کی کوشش کی ہے۔

اگرچہ اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی کوئی طبیعی حد نہیں ہے جو خالص توانائی کو روشنی کی کرن میں ٹھونسنے سے روکے۔ طبیعیات کا کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو غارت گر ستارے یا پھر روشنی کی ٹھوس تلوار بنانے سے روک سکے۔ درحقیقت سیارے کو تباہ کرنے والی گیما شعاعیں کائنات میں موجود ہیں۔ کائنات کے دور دراز گوشوں میں ہوتے ہوئے گیما اشعاع کے عظیم انفجار خلائے بسیط میں وہ دھماکے پیدا کرتے ہیں جن کا نمبر بگ بینگ کے بعد آتا ہے۔ کوئی بھی بدقسمت سیارہ جو گیما شعاعوں کی لپیٹ میں آ جائے اس کا بھننا یا ٹکڑوں میں بٹنا لازمی ہے۔

 

                شعاعی ہتھیار تاریخ کے آئینے میں

 

شعاعی ہتھیار بنانے کا خواب کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں قدیم دیو مالائی کہانیوں اور داستانوں میں موجود ہیں۔ یونانی دیوتا” زیوس” (Zeus) انسانوں پر بجلی کی کڑک سے اپنا قہر ڈھالنے کے لئے بدنام تھا۔ ” نورس” (Norse) دیوتا "تھور” (Thor) کے پاس ایک جادوئی ہتھوڑا "میال نیر” (Mjolnir) تھا، جو بجلی کی کڑکیں پھینک سکتا تھا، جبکہ ہندوؤں کا دیوتا "اندرا” (Indra) اپنے جادوئی نیزے سے توانائی کی کرنیں پھینکنے کے لئے مشہور تھا۔

شعاعوں کے استعمال کا نظریہ بطور عملی ہتھیار شاید عظیم یونانی ریاضی دان "ارشمیدس” (Archimedes) کے کام سے شروع، ارشمیدس شاید عہد عتیق کا سب سے عظیم سائنس دان تھا، جس نے ادھورا علم الاحصاء دو ہزار برس قبل نیوٹن اور "لئبنیز ” (Leibniz) سے پہلے دریافت کیا تھا۔ ایک افسانوی جنگ جو رومی جنرل” مارسیلس” (Marcellus) کی فوجوں کے خلاف دوسری پیو نک جنگ (رو میوں ا ور کار تھیجوں کے دو میان ہونے والی تین جنگوں کو پیونک جنگیں کہتے ہیں ) ٢١٤ قبل مسیح میں ہوئی، ارشمیدس نے ریاست "سیراکیوز ” (Syracuse) کے دفاع میں مدد کی اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے کافی بڑے شمسی عاکس بنائے جو سورج کی شعاعوں کو دشمنوں کے جہاز پر مرتکز کرتے تھے نتیجتاً ان میں آگ لگ جاتی تھی۔ (سائنس دانوں کے درمیان یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ آیا ایسا کام کرنے والا شعاعی ہتھیار عملی طور پر بنا نا ممکن ہے۔ سائنس دانوں کی کئی ٹیموں نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے مختلف نکلے۔ )

شعاعی بندوق کا سائنس فکشن میں نظر آنا ١٨٨٩ء میں ایچ جی ویلز کے کلاسک ناول "وار آف دا وورلڈز” سے شروع ہوا، جس میں مریخ کی خلائی مخلوق پورے کے پورے شہروں کو تپائی میں نصب ہتھیاروں سے نکلتی ہوئی حرارتی شعاعوں سے تباہ کر دیتی ہے۔ دوسرے جنگ عظیم کے دوران نازی ہمیشہ سے نئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ دنیا کو فتح کرنے کے دیوانے رہے ہیں، انہوں نے کئی قسم کی شعاعی بندوقوں کے تجربے کیے۔ اس میں شامل ایک صوتی آلہ ایسا تھا جو مکافی آئینوں پر مشتمل تھا اور شدید آواز کی شعاعوں کو مرتکز کر سکتا تھا۔ مرتکز روشنی کی شعاعوں سے بنائے گئے ہتھیار عوام کے تصوّر میں جیمز بانڈ کی فلم” گولڈ فنگر” سے آنے شروع ہوئے ، جو ہالی ووڈ کی وہ پہلی فلم تھی جس میں لیزر دکھائی گئی تھی۔ (فلم میں دکھایا گیا ہے کہ افسانوی برطانوی جاسوس دھاتی میز پر بندھا ہو ا ہے  اور زبردست طاقت والی لیزر کی کرنیں آہستہ آہستہ بتدریج میز کو پگھلاتی ہوئی اس کی ٹانگوں کی طرف بڑھتی ہوئی اس کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کی دھمکی دے رہی ہوتی ہے۔ )

طبیعیات دانوں نے ویلز کے ناول میں متعارف ہوئی شعاعی بندوق کا مذاق اڑنا شروع کر دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں وہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ میکسویل کی مساوات کے مطابق، جس روشنی کو ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں وہ تیزی سے پھیلتی ہے اور بے ربط ہوتی ہے۔ (یعنی یہ گڈمڈ موجوں والی مختلف تعدد ارتعاش اور مرحلوں والی ہوتی ہیں) ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مربوط، مرتکز اور ایک جیسی روشنی کی کرنیں، جس طرح سے لیزر میں موجود ہوتی ہیں، بنانی نا ممکن ہوتی ہے۔

 

                کوانٹم کا انقلاب

 

کوانٹم کے نظریئے کے آتے ہی بہت سارے بت مسمار ہو گئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہی یہ بات عیاں ہو گئی تھی کہ اگرچہ نیوٹن کے قوانین اور میکسویل کی مساوات نہایت شاندار اور کامیابی کے ساتھ سیاروں کی حرکت اور روشنی کا برتاؤ بیان کرتی ہیں، لیکن وہ تمام مظاہر قدرت کو صحیح طرح سے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ کچھ باتوں کو بیان کرنے سے بری طرح ناکام ہو جاتی ہیں مثلاً کچھ مادّے برق کے موصل کیوں ہوتے ہیں، دھاتیں کیوں ایک مخصوص درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہیں، گرم ہوتی گیسیں روشنی کیوں چھوڑتی ہیں، کیوں کچھ مادّے نچلے درجہ حرارت پر فوقی موصل بن جاتے ہیں، ان تمام باتوں کو جاننے کے لئے ایٹم کے اندرون کی حرکیات کا جاننا نہایت ضروری تھا۔ انقلاب رونما ہونے کے لئے وقت بالکل مناسب تھا۔ لوہا بالکل گرم تھا بس ایک چوٹ مارنے کی دیر تھی۔ ٢٥٠ سال کی نیوٹن کی طبیعیات شکست کھانے کو تھی اور درد زہ نئی طبیعیات کا پیامبر بن کر آیا تھا۔

١٩٠٠ء میں” میکس پلانک” (Max Planck) نے جرمنی میں اس بات کا نظریہ پیش کیا کہ توانائی مسلسل نہیں ہوتی جیسا کہ نیوٹن نے سوچا تھا بلکہ یہ چھوٹے اور مجلد بنڈلوں کی صورت میں ہوتی ہے جن کو "کوانٹا” کہتے ہیں۔ اس کے بعد ١٩٠٥ء میں آئن سٹائن نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ روشنی چھوٹے مجلد بنڈلوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کو بعد میں "ضیائیہ” ( فوٹون) کہا گیا۔ اس سادے مگر زوردار مفروضے کی بدولت آئن سٹائن اس قابل ہوا کہ وہ "ضیائی برقی اثر” (Photo Electric Effect) کو بیان کر سکے۔ ضیائی برقی اثر بتاتا ہے کہ جب کسی دھات پر روشنی پڑتی ہے تو وہ کیوں اس وقت الیکٹران خارج کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ضیائی برقی اثر اور فوٹون کی بنیاد پر ہی ٹیلی ویژن، لیزر، شمسی سیل اور بہت سارے دوسرے جدید آلات بنے ہیں۔ (آئن سٹائن کا فوٹون کا نظریہ بہت زیادہ انقلابی تھا۔ میکس پلانک جو عام طور سے آئن سٹائن کا پر جوش حامی رہا تھا اس کو بھی پہلی بار میں اس نظریئے پر  یقین نہیں آیا تھا۔ آئن سٹائن کے بارے میں لکھتے ہوئے پلانک کہتا ہے ” وہ کبھی اپنے ہدف سے ہٹ جاتا ہے۔ ۔ ۔ مثال کے طور پر، روشنی کے کوانٹا کے مفروضے کو لے لیجئے ، بہرحال اس مفروضے کو اس کے  خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ )

پھر ١٩١٣ء میں ڈنمارک کے طبیعیات داں” نیلز بوہر” (Niels Bohr)  نے ایٹم کی بالکل ایک نئی تصویر پیش کی جس میں وہ ایک چھوٹے سے نظام شمسی کی طرح نظر آتے ہیں۔ لیکن خلاء میں موجود نظام شمسی کے برخلاف، الیکٹران صرف علیحدہ مداروں یا خولوں میں مرکزے کے اطراف میں چکر لگاتے ہیں۔ جب الیکٹران ایک خول سے دوسرے چھوٹے خول کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں تو اس وقت وہ توانائی کا ایک فوٹون خارج کرتے ہیں۔ جب الیکٹران ایک فوٹون جذب کرتے ہیں تو وہ بڑے خول کی طرف زیادہ توانائی کے ساتھ چھلانگ لگاتے ہیں۔

ایٹم کا نظریہ ١٩٢٥ء میں نمودار ہوا۔ جس کے ساتھ کوانٹم میکینکس اور”ایرون شروڈنگر” (Erwin Schrodinger) ، ” ورنر ہائیزن برگ”  (Werner Heisenberg) اور دوسروں کے انقلابی کام بھی منظر عام پر آئے۔ کوانٹم کے نظریئے کے مطابق، الیکٹران ایک ذرّہ تھا، لیکن اس کے ساتھ ایک موج بھی ہمنشیں ہوتی تھی۔ اس طرح سے اس میں دونوں ذرّے اور موج کی خصوصیات موجود ہیں۔ موج ایک مساوات کے تابع ہے جس کو "شروڈنگر موجی مساوات "کہتے ہیں، اس مساوات سے ایٹم کی خاصیت کو ناپنے میں مدد ملتی ہے جس میں وہ تمام مفروضی چھلانگیں شامل ہیں جو بوہر نے بیان کی تھیں۔

١٩٢٥ء سے پہلے ایٹم پراسرار اجسام سمجھے جاتے تھے اور فلسفیوں کی اکثریت مثلاً ” ارنسٹ ماک” (Ernst Mach)  تو ان کے وجود کے ہی قائل نہیں تھے۔ ١٩٢٥ء کے بعد لوگ نا صرف ایٹم کے اندر جھانکنے کے قابل ہو گئے تھے بلکہ اس کے خصائص کو بھی بیان کر سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ کے پاس کافی بڑا اور طاقتور کمپیوٹر موجود ہو تو آپ کیمیائی عناصر کی صفتیں بھی کوانٹم کے قوانین کی بدولت اخذ کر سکتے ہیں۔ جس طرح سے نیوٹن کی طبیعیات ایک بڑے اور طاقتور کمپیوٹر کی مدد سے کائنات میں موجود تمام فلکی اجسام کی حرکت کا حساب کتاب لگا سکتی ہے بعینہ ایسے ہی کوانٹم طبیعیات کا دعویٰ ہے کہ وہ بنیادی اصول کے مطابق کائنات میں موجود تمام کیمیائی عناصر کے خصائص کا پتا لگا سکتی ہے۔ اگر ہمارے پاس کافی بڑا کمپیوٹر موجود ہو تو وہ پورے انسان کی موجی خاصیت کو لکھ سکتا ہے۔

 

                میزرز (Masers) اور لیزر ز

 

١٩٥٣ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پروفیسر” چارلس ٹاؤنز ” (Charles Townes) اور ان کے رفقائے کاروں نے پہلی "مربوط” (Coherent) شعاع خورد موجوں کی شکل میں بنائی۔ جس کو میزر (یعنی "برائے خورد موج توسیع بذریعہ تحریکی  شعاعی اخراج”

[For Microwave Amplification through Stimulated Emission of Radiation])  کا نام دیا گیا۔ اس نے روسی طبیعیات دان – "نکولائی باسوف” (Nicolai Basov)  اور "الیگزینڈر پروخورف” (Alexander Prokhorov)  کے ساتھ آخر کار طبیعیات کا نوبل انعام ١٩٦٤ء میں حاصل کیا۔ جلد ہی ان کے کام کا دائرہ کار بصری روشنی تک پھیل گیا، جس کے نتیجے میں لیزر کی پیدائش ہوئی۔ ( فیزر بہرحال ایک خیالی آلہ ہے جو اسٹار ٹریک فلم میں بہت زیادہ مشہور ہے۔ )

لیزر میں شروعات ایک ایسے خاص ذریعہ سے کی جاتی ہے جو لیزر کی شعاع کو بعد میں نشر کرتا ہے مثلاً خصوصی گیس، قلم یا پھر ڈائیوڈ۔ اس کے بعد اس میں باہر سے توانائی کو بھرا جاتا ہے ، جو برق، ریڈیائی، روشنی یا کیمیائی تعامل کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اچانک تیزی سے آتی ہوئی یہ توانائی اس ذریعہ کے ایٹموں میں جذب ہو جا تی ہے ، اس طرح سے الیکٹران اس توانائی کو جذب کر کے باہر ی خول میں چھلانگ لگاتے ہیں۔

اس ہیجان زدہ توانائی سے بھری ہوئی حالت میں وہ ذریعہ غیر پائیدار ہو جاتا ہے ، اگر اس دوران کوئی روشنی اس ذریعہ میں سے گزرے گی، تو فوٹون ہر ایٹم سے ٹکرائے گا، جس سے وہ یک دم اپنے نچلے خول میں چلا جائے گا اس عمل سے مزید فوٹون خارج ہوں گے ، جس سے ایک کے اوپر ایک منہدم ہوتے ہوئے ایٹم، کھرب ہا کھرب فوٹون ایک کرن کی صورت میں اچانک خارج کر دیں گے۔ اس عمل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ مادّوں سے فوٹون کا یہ طوفان جب نکلتا ہے تو نکلتے ہوئے فوٹون ایک ہم آہنگی کے ساتھ مربوط اور  تھر تھرا تھے ہوئے نکلتے ہیں۔

(ذرا ڈومینو ز کی ایک لکیر کا تصوّر کریں۔ [ ڈومینو ایک کھیل ہوتا ہے جس کے ۲۸ پانسہ نُما لمبوترے مہروں یا ٹکلیوں میں صِفر تا ۶ کے نِشان ہوتے ہیں۔ ] ڈومینوز اپنی ادنیٰ ترین توانائی کی حالت میں ایک میز پر رکھے ہوئے ہیں۔ ڈومینوز بلند توانائی کی حالت میں، توانائی سے بھرپور حالت میں عمودی کھڑی ہوتی ہے ، بالکل ایسے جیسے توانائی سے بھرپور ایٹم ذریعہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک ڈومینو کو دھکا دیں گے تو اس میں موجود تمام منہدم ہوتی توانائی اچانک ایک ساتھ نکلے گی، جیسے لیزر کی شعاع نکلتی ہے۔ )

کچھ ہی مادّے لیزر میں استعمال ہو سکتے ہیں، یعنی کچھ خاص مادّوں میں جب فوٹون توانائی سے بھرپور ایٹموں سے ٹکراتے ہیں تو فوٹون کا اخراج ہوتا ہے جو اصل فوٹون سے مکمل مربوط ہوتا ہے۔ نکلنے والے مربوط فوٹون کے سیلاب میں تمام فوٹون ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہیں جس کے نتیجے میں ایک پنسل جتنی پتلی لیزر کی شعاع بنتی ہے۔ (تصور کے برعکس، لیزر کی شعاع ہمیشہ کے لئے پنسل جیسی پتلی نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر چاند پر پھینکی جانے والی لیزر کی شعاع بتدریج پھیلتی جائے گی تاوقتیکہ وہ چند میل جتنا نشان چاند پر بنا دے۔

ایک سادہ گیسی لیزر ہیلیئم اور نیون گیس کی نلکی پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب برق نلکی کے ذریعہ بھیجی جاتی ہے تو وہ ایٹموں کو توانا کر دیتی ہے۔ اب اگر توانائی اچانک سے چھوڑی جائے تو روشنی کی ایک مربوط شعاع اس سے نکلے گی۔ اس شعاع کو دو آئینوں کے ذریعہ افزوں کیا جاتا ہے ، جو اس کے نکڑ پر لگے ہوتے ہیں، لہٰذا شعاع ان کے درمیان آگے پیچھے ٹپے کھاتی ہے۔ ایک آئینہ مکمل طور پر غیر شفاف ہوتا ہے جبکہ دوسرا تھوڑی سی روشنی کو ہر مرتبہ اپنے پاس سے گزرتے ہوئے فرار ہونے کا موقع دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شعاع ایک حصّے سے باہر نکل جاتی ہے۔

دور حاضر میں پرچون کی دکانوں کے چیک آ وٹ اسٹینڈ سے لے کر انٹرنیٹ میں استعمال ہونے والی فائبر آپٹک تاروں تک، اور لیزر پرنٹر اور سی ڈی سے لے کر جدید کمپیوٹر تک لیزر زندگی کے ہر میدان میں نظر آتی ہیں۔ لیزر کا استعمال آنکھوں کی سرجری میں، ٹیٹو کو ہٹانے میں یہاں تک کہ بیوٹی سیلون تک میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ ٢٠٠٤ء میں ٥۔ ٤ ارب ڈالر سے زیادہ کی لیزر مصنوعات پوری دنیا میں فروخت ہوئی ہیں۔

 

                لیزر اور گداخت (Fusion) کی قسمیں

 

لیزر میں استعمال ہونے والے نئے نئے مادّوں کی دریافت کے ساتھ تقریباً روزانہ ہی نئی قسم کی لیزر اور ان میں توانائی بھرنے کے نئے طریقے بھی دریافت ہو رہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی ٹیکنالوجی شعاعی بندوق یا روشنی کی تلوار بنانے میں استعمال ہو سکتی ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس قدر طاقتور لیزر بنائی جا سکے جو غارت گر ستارے جیسے کسی ہتھیار کو توانا کر دے ؟ دور حاضر میں لیزر کی اتنی قسمیں موجود ہیں کہ انسان پریشان ہو جائے۔ ان مختلف اقسام کی لیزر کی طاقت کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ انھیں کس مادّے سے بنایا گیا ہے اور دوسرے ان میں کونسی توانائی (مثال کے طور پر برق، شدید روشنی کی شعاع یا پھر کیمیائی دھماکا ) ڈالی جا رہی ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

گیس لیزر

اس قسم کی لیزر میں ہیلیئم – نیون پر مشتمل لیزر شامل ہیں۔ یہ بہت ہی زیادہ عام ہیں، جو شناسا سرخ شعاع بناتی ہیں۔ ان کو توانا کرنے کے لئے ریڈیائی موجیں یا پھر بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ ہیلیئم – نیون لیزر کافی کمزور ہوتی ہے۔ مگر کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کی لیزر دھماکہ کرنے ، چیزوں کو کاٹنے ، اور بھاری صنعتوں میں ہونے والی ویلڈنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ زبردست طاقت کی مکمل غیر مرئی شعاع بھی بنا سکتی ہے۔

کیمیائی لیزر

یہ طاقتور لیزر کیمیائی عمل کے نتیجے میں توانا ہوتی ہیں، مثلاً اس توانائی کو ایتھائلین اور نائٹروجن ٹرائے فلورائیڈ کی پھواروں کو جلا کر حاصل کیا جائے۔ ایسی لیزر اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ ان کا حربی استعمال ہو سکتا ہے۔ کیمیائی لیزر یو ایس افواج کے لڑاکا طیاروں اور زمینی فوجی ٹھکانوں کے استعمال میں ہیں جو دسیوں لاکھوں واٹ کی توانائی پیدا کر سکتی ہیں۔ ان کو بنانے کا مقصد چھوٹے فاصلوں تک مار کرنے والے میزائل کو گرانا ہے۔

ایکسائیمر (Excimer) لیزر

یہ لیزر بھی کیمیائی عمل کے نتیجے میں کام کرتی ہیں، اس میں اکثر وہ گیسیں استعمال ہوتی ہیں جو انتہائی سست ہوتی ہیں (مثال کے طور پر آر گون، کرپٹون اور زینون ) ان کے ساتھ فلورین اور کلورین بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ بالائے بنفشی شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔ ان کا استعمال چھوٹے ٹرانسسٹر ز کو سیمی کنڈکٹر صنعت میں چپس پر نقش کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یا پھر ان کا استعمال نازک "لیزیک” (Lasik) جراحی میں بھی ہوتا ہے۔

 ٹھوس حالت والی لیزر

سب سے پہلی کام کرنے والی لیزر جو بنی تھی وہ کرومیم – نیلم یاقوت کی قلموں سے بنائی گئی تھی۔ انواع و اقسام کی کافی تعداد میں مختلف قلمیں- ایٹریم، ہولمیم، تھیلیئم اور دوسرے کیمیائی مادّوں کے ساتھ مل کر اس لیزر کی شعاع کو بنانے میں استعمال ہو سکتی ہیں۔ یہ بلند توانائی کی نہایت ہی چھوٹی نبضی لیزر کی شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔

سیمی کنڈکٹر لیزر

ڈائیوڈ، جو سیمی کنڈکٹر صنعت میں عام استعمال میں ہیں، وہ زبردست طاقت والی شعاعیں پیدا کر سکتے ہیں جن کا استعمال صنعتوں میں کاٹنے اور ویلڈ کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ اکثر پرچون کی دکان میں چیک آؤٹ پائنٹ پر اسٹینڈ کی صورت میں لگی ہوتی ہیں جن کا کام جنس کی چیزوں پر موجود بار کوڈ پڑھنا ہوتا ہے۔

رنگی لیزر

یہ لیزر نامیاتی رنگ اپنے آلے میں استعمال کرتی ہیں۔ یہ بہت ہی چھوٹی روشنی کی نبضوں کو بنانے کے لئے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں جو ایک سیکنڈ کے دس کھربویں حصّہ میں بن کر ختم ہو جاتی ہیں۔

 

                لیزر اور شعاعی بندوق

 

اس قدر انواع و اقسام کی تجارتی لیزر اور طاقتور حربی لیزر کے باوجود اب تک ہمارے پاس لڑائیوں اور جنگوں میں استعمال کرنے کے لئے شعاعی بندوق کیوں نہیں ہے ؟ کسی بھی قسم کی شعاعی بندوق سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جانے والا ایک معیاری ہتھیار ہوتا ہے۔ ہم ان کو بنانے کے لئے کام کیوں نہیں کر رہے ہیں؟

اس بات کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بآسانی توانائی کا ذخیرہ کرنے والے کسی ذریعہ کی عدم دستیابی اس کی تیاری میں اہم رکاوٹ ہے۔ توانائی کو ذخیرہ کرنے والی بہت چھوٹے ذریعہ کی ضرورت ہے جو ہماری ہتھیلی سے بھی چھوٹی ہو اور بہت بڑے برقی پاور اسٹیشن کی توانائی کو اپنے اندر سما لے۔ سردست تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس طرح کے بڑے تجارتی پاور اسٹیشن کی توانائی کو قابو کرنے کے لئے اس کو بنا لیا جائے۔ فی الوقت سب سے چھوٹا حربی آلہ جو وسیع توانائی کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ چھوٹا ہائیڈروجن بم ہے جو ہدف کے ساتھ ساتھ اس کے چلانے والے کو بھی ختم کر دے گا۔

دوسرا مسئلہ جو اس سے جڑا ہوا ہے وہ اس میں استعمال ہونے والے مادّے کی پائیداری کا ہے۔ اصولی طور پر لیزر کی شعاع میں توانائی مرتکز کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ مسئلہ ہاتھ سے چلنے والی لیزر کی بندوق میں موجود مادّے کا ہے جو پائیدار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر قلمی لیزر میں بہت زیادہ توانائی مرتکز کی جائے گی تو وہ چٹخ جائے گی۔ لہٰذا ایک طاقتور لیزر، جو کسی شئے کو تحلیل کر دے یا دشمن کا خاتمہ کر دے ، کو بنانے کے لئے دھماکے کی طاقت کو استعمال کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے لیزر میں استعمال ہونے والے مادّے کی پائیداری کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ اس قسم کی لیزر صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کی جا سکے گی۔

آسانی سے استعمال میں آنے والے توانائی کے ذخیرے کو بنانے کی مشکلات اور مادّے کی غیر پائیداری کو مد نظر رکھتے ہوئے ہاتھ کے استعمال والی شعاعی گن آج کی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر بنانا ممکن نہیں ہے۔ شعاعی بندوق کا بنانا صرف اس وقت ممکن ہے جب اس کو تار کے ذریعہ پاور کی رسد گاہ سے جوڑ دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نینو بیٹریز کی مدد سے صغاری بیٹریاں بنا سکیں جو اتنی توانائی کو ذخیرہ کر سکیں یا پھر وہ اتنی توانائی پیدا کر سکے جو شدید توانائی کی بوچھاڑ اس ہاتھ سے چلانے والے ہتھیار کو درکار ہو۔ فی الوقت ہمیں معلوم ہے کہ نینو ٹیکنالوجی  ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے۔ ایٹمی پیمانے پر سائنس دان ایسے ایٹمی آلے بنا چکے ہیں جو کافی اچھے تو ہیں مگر عملی زندگی میں قابل استعمال نہیں ہیں جیسے کہ ابا کس اور ایٹمی گٹار۔ لیکن اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اس صدی یا آنے والی صدی میں، نینو ٹیکنالوجی  کی بدولت ہم صغاری بیٹریاں بنا سکیں گے جو توانائی کی بے انتہاء مقدار اپنے میں ذخیرہ کر سکیں گی۔

روشنی کی ٹھوس تلواریں کو بھی انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ پہلی دفعہ جب اسٹار وارز ١٩٧٠ء میں آئی تو اس وقت روشنی کی تلواریں پچوں کے سب سے زیادہ بکنے والے کھلونے تھے۔ کئی ناقدین نے اس بات کی پیشگوئی کر دی تھی کہ ایسا کوئی آلہ بنانا کبھی بھی ممکن نہیں ہو گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روشنی کو ٹھوس کرنا ممکن نہیں ہے۔ روشنی ہمیشہ نور کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس کو ٹھوس نہیں بنایا جا سکتا۔ دوسرے ، روشنی کی کرن کو ہوا میں ختم نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ٹھوس روشنی کی تلواریں اسٹار وارز میں کرتی ہیں۔ روشنی کی شعاعیں ہمیشہ محو سفر رہیں گی۔ اصل روشنی کی تلوار تو آسمان تک کھنچ جائے گی۔

اصل میں ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ روشنی کی تلوار کو پلازما یا انتہائی گرم برق پارہ گیسوں کے ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ پلازما اتنا گرم کیا جا سکتا ہے جس سے وہ اندھیرے میں روشن ہو سکتا ہے ، وہ سٹیل کو بھی کاٹتا ہوا اس میں سے نکل سکتا ہے۔ پلازما سے بنی ہوئی روشنی کی تلوار باریک، خالی راڈ پر مشتمل ہو سکتی ہے جو اس کے ہتھے سے اس طرح سے باہر نکل سکے جس طرح سے دوربین نکلتی ہے۔ اس نلکی کے اندر گرم پلازما چھوڑا جا سکتا ہے جو بعد میں راڈ میں لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں سے مسلسل باقاعدگی کے ساتھ نکل سکتا ہے۔ اوپر نکلی ہوئی راڈ میں سے پلازما ہتھے سے نکلتا ہوا چلا جائے گا جہاں سے اس نلکی کے سوراخوں سے باہر نکل کر وہ ایک لمبی، چمکدار گرم گیس کی شکل لیتے ہوئے اتنا طاقتور ہو گا کہ اسٹیل کو بھی پگھلا سکے۔ اس قسم کے آلے کو کبھی کبھار "پلازما مشعل” سے بھی پکارا جاتا ہے۔

لہٰذا اونچی توانائی والی روشنی کی تلوار جیسے آلے کو بنانا ممکن ہے۔ لیکن شعاعی بندوق کی طرح یہاں پر بھی اونچی توانائی کا ذخیرہ کرنے والی، استعمال میں آسان بیٹری درکار ہو گی۔ یا پھر ہمیں لمبی تاریں درکار ہوں گی جو تلوار سے جڑ کر اس کو مسلسل توانائی فراہم کرتی رہیں، یا پھر نینو ٹیکنالوجی  کا استعمال کرتے ہوئے ننھے بجلی گھر درکار ہوں گے جن میں زبردست توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔

لہٰذا شعاعی بندوق اور روشنی کی تلوار آج بھی کسی شکل میں بنانا ممکن ہیں، مگر ہاتھ کے استعمال والے اس قسم کے حربی ہتھیار جیسا کہ سائنسی فلموں میں دکھایا جاتا ہے ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہیں۔ لیکن اس صدی کے اواخر میں یا نئی صدی میں، سائنس کی دنیا میں نئے مادّے اور نینو ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے ساتھ شعاعی بندوق کی کسی قسم کو بنانا ممکن ہو گا۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس کو جماعت "I” کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔

 

                توانائی برائے غارت گر ستارہ

 

اسٹاروارز میں دکھائی جانے والی غارت گر ستارہ نما لیزر توپ بنانے کے لئے اب تک کی بنائی گئی سب سے طاقتور لیزر سے بھی زیادہ طاقتور لیزر بنانی ہو گی۔ فلم میں دکھائی جانے والی غارت گر ستارہ نما توپ کسی بھی سیارے کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر کے اس کا نام و نشان مٹا کر پوری کہکشاں میں دہشت پھیلا دیتی ہے۔ فی الوقت زمین پر موجود سب سے زیادہ طاقتور لیزر جو استعمال میں ہے وہ کسی ستارے کے قلب میں موجود حرارت کے جتنا درجہ حرارت پیدا کر سکتی ہے۔ گداختی ری ایکٹر کی شکل میں ایک دن یہ ستاروں کے قلب میں موجود جتنی توانائی کو زمین پر حاصل کر سکیں گی۔

گداختی مشین فضائے بسیط میں پیدا ہونے والے ستارے کے ماحول کو نقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ستارہ ایک عظیم ہائیڈروجن کی بے شکل گیند کی صورت میں اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب قوّت ثقل گیس کو دبا اور گرما کر درجہ حرارت کو فلکیاتی پیمانے پر لے جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ستارے کے قلب کی گہرائی میں درجہ حرارت ٥ سے ١٠ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے ، جو ہائیڈروجن کے ایٹموں کے مرکزے کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے نتیجتاً  ہیلیئم کے ایٹمی مرکزے اور توانائی کے جھکڑ پیدا  ہوتے ہیں۔ ہائیڈروجن کی ہیلیئم کے گداختی عمل کے دوران معمولی سی کمیت دھماکہ خیز توانائی میں بدلتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جس کو آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E=mc2 کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ ستاروں کو توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہی گداختی عمل ہے۔

دو طریقے ایسے ہیں جن کے ذریعہ سائنس دان اس گداختی عمل کو زمین پر دہرانے کے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر دونوں ہی طریقے ان کی امید سے بڑھ کر کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوئے ہیں۔

 

                جمودی پابندی (Inertial Confinement) برائے گداخت

 

پہلا طریقہ جمودی پابندی کا کہلاتا ہے۔ تجربہ گاہ میں سورج کا ایک چھوٹا سا حصّہ بنانے کے لئے یہ طریقہ سب سے زیادہ طاقتور لیزر کو استعمال کرتا ہے۔ ایک نیوڈیمیئم شیشہ کی ٹھوس حالت والی لیزر، سورج کے قلب میں موجود جھلسا دینے والے درجہ حرارت کی نقل کرنے کے لئے مثالی طور پر موزوں ہے۔ یہ لیزر کے نظام بہت بڑے کارخانے کے جتنے ہوتے ہیں جس میں لیزر کی بیٹریاں موجود ہوتی ہیں جو متوازی لیزر شعاعوں کے سلسلے کو ایک لمبی سرنگ میں پھینکتی ہیں۔ یہ اونچی طاقت والی لیزر کی شعاعیں اس کے بعد چھوٹے شیشوں کے سلسلے سے ٹکراتی ہیں جن کو ایک کرہ کی ترتیب میں لگایا ہوا ہوتا ہے ، وہ شیشے انتہائی احتیاط سے لیزر کی شعاعوں کو مرتکز کر کے یکساں طور پر ہائیڈروجن سے بھرپور ایک چھوٹی سی گیند (جو کسی ایسے مادّے سے بنی ہوتی ہے جیسا کہ لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ جو ہائیڈروجن بم کا سب سے اہم جز ہے ) پر مارتے ہیں۔ اس چھوٹی سی گولی کا حجم کسی سوئی کی نوک کے جتنا صرف ١٠ ملی گرام ہوتا ہے۔

لیزر کی روشنی کا دھماکہ اس چھوٹی سی گیند کی سطح کو خاکستر کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سطح تحلیل ہو جاتی ہے اور اس ننھی گیند کو اور دبا دیتی ہے۔ جیسے ہی وہ چھوٹی سی گیند منہدم ہوتی ہے ایک صدماتی موج اس چھوٹی سی گیند کے قلب کی طرف روانہ ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں درجہ حرارت کروڑوں ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ یہ درجہ حرارت اتنا ہوتا ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہو کر ہیلیئم بنا سکتے ہیں۔ درجہ حرارت اور دباؤ اتنا فلکیاتی پیمانے کا ہوتا ہے کہ "لاء سن کا معیار” پورا ہو جاتا ہے ، یہ وہ ہی معیار ہے جو ہائیڈروجن بم کے بنانے میں اور ستاروں کے قلب میں درکار ہوتا ہے۔ (لاء سن کا معیار کہتا ہے مخصوص درجہ حرارت، کثافت، اور وقت کی قید ہائیڈروجن بم میں گداختی عمل کو شروع کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں چاہئے یہ گداختی عمل ستاروں کے قلب میں ہو یا گداختی مشین میں۔ )

اس جمودی قید کے عمل میں توانائی کی وسیع مقدار نکلتی ہے جس میں نیوٹران بھی شامل ہیں۔ (لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈکا درجہ حرارت ١٠ کروڑ ڈگری تک بھی جا سکتا ہے اور اس کی کثافت سیسے کی کثافت سے ٢٠ گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔ ) نیوٹران کا انفجار اس چھوٹی سی گیند سے نکلتا ہے ، پھر نیوٹران کروی مادّے کے کمبل سے ٹکراتے ہیں جو خانے کے گرد لپیٹا ہوا ہوتا ہے ، نتیجتاً وہ مادّے کا کمبل گرم ہو جاتا ہے ، یہ گرم کمبل پھر پانی کو گرم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بننے والی بھاپ سے ٹربائن چلا کر بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ مسئلہ ابھی تک اس بات میں اٹکا ہوا ہے کہ اتنی شدید قوّت کو اتنی چھوٹی سی کروی گیند کے اوپر مرتکز کیسا کیا جائے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں” شیوا” (Shiva) لیزر سے کی گئیں جس میں لیزر کے ذریعہ گداختی عمل شروع کیا گیا۔ شیوا لیزر ایک ٢٠ شعاعی لیزر کا نظام ہے جو لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری، کیلی فورنیا میں واقع ہے اس نے ١٩٧٨ء سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ (شیوا ایک ہندو دیوی کا نام ہے جس کے کافی سارے بازو ہیں، لیزر کا یہ نظام ایک طرح سے اسی کی نقل ہے۔ ) شیوا لیزر نظام کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی، بہرحال اس نے یہ بات تو ثابت کر دی کہ لیزر سے گداختی عمل  فنی اعتبار سے قابل عمل ہے۔ شیوا لیزر نظام بعد میں” نوا” (Nova) لیزر سے بدل گیا جس کی توانائی شیوا سے ١٠ گنا زیادہ تھی۔ مگر نوا لیزر بھی چھوٹی گیند میں گداخت کا عمل شروع کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس بات سے قطع نظر اس نے نیشنل اگنیشن فیسلٹی میں ہونے والی حالیہ تحقیق کے لئے راہ ہموار کر دی۔ یہ جو ١٩٩٧ء میں لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری میں بننا شروع ہوئی تھی۔

نیشنل اگنیشن فیسلٹی نے ٢٠٠٩ء سے کام کرنے کی شروعات کرنی ہے۔ یہ ایک دیو ہیکل مشین ہے ، جس میں ١٩٢ لیزر کی شعاعوں کی بیٹریاں لگی ہوئی ہیں، اس کی بجلی پیدا کرنے کی طاقت ٧ ہزار کھرب واٹ ہے (توانائی کی ایک بوچھاڑ میں ٧ لاکھ بڑے نیوکلیائی بجلی گھروں کے برابر کی طاقت مرتکز ہے۔ )  یہ فن کے درجہ کمال کو پہنچا ہوا لیزر کا نظام ہے جس کو خاص اس طور پر بنایا گیا ہے کہ یہ ہائیڈروجن سے بھرپور گیند کو مکمل خاکستر کر سکے۔ (ناقدین نے اس کے عیاں حربی استعمال پر نکتہ چینی کی ہے ، کیونکہ یہ ہائیڈروجن بم کی نقل کر سکتا ہے اور شاید اس کے ذریعہ نیوکلیائی بم بھی بنانا بھی ممکن ہو سکے ، جو خالص گداختی بم ہو گا، جس میں گداختی عمل کو شروع کرنے کے لئے یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹمی بم کی ضرورت نہیں ہو گی۔ )

مگر نیشنل اگنیشن فیسلٹی کی لیزر گداختی مشین، جو کرۂ ارض پر موجود تمام لیزر مشینوں سے طاقتور ہے ، وہ بھی” اسٹار وارز” کے غارت گر ستارے کی تباہ کن طاقت کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس قسم کے ہتھیار کو بنانے کے لئے ہمیں دوسرے توانائی کے ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے۔

 

                "مقناطیسی قید” (Magnetic Confinement) برائے گداخت

 

غارت گر ستارے کو بنانے کے لئے دوسرا طریقہ جو سائنس دان ممکنہ طور پر استعمال کر سکتے ہیں وہ "مقناطیسی قید” کہلاتا ہے ، یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہائیڈروجن گیس کا گرم پلازما مقناطیسی میدان میں موجود ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ طریقہ اصل میں پہلے پروٹو ٹائپ تجارتی گداختی ری ایکٹر کو بنا سکتا ہے۔ دور حاضر کے اس قسم کے سب سے جدید گداختی پروجیکٹ کا نام انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر ہے۔ ٢٠٠٦ء میں مختلف اقوام کے اتحاد (جس میں یوروپی یونین، ریاست ہائے متحدہ، چین، جاپان، کوریا، روس اور ہندوستان شامل تھے ) نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر کو جنوبی فرانس میں واقع” کداراکی” (Cadarache) میں بنایا جائے۔ یہاں پر ہائیڈروجن گیس کو ١٠ کروڑ ڈگری درجہ حرارت تک گرم کیا جا سکے گا۔ یہ وہ پہلا گداختی ری ایکٹر بننے کا اعزاز اپنے نام کر سکتا ہے جو اپنے سے زیادہ صرف شدہ توانائی پیدا کرے گا۔ اس کو ٥٠٠ میگا واٹ طاقت کو ٥٠٠ سیکنڈ تک بنانے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ (فی الوقت کا ریکارڈ ١٦ میگا واٹ ایک سیکنڈ تک کا ہے۔ ) ۔ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر اپنا پہلا پلازما ٢٠١٦ء تک پیدا کر پائے گا۔ جب کہ یہ مکمل طور پر کام کرنا ٢٠٢٢ء سے شروع کرے گا۔ مین ہٹن پروجیکٹ اور انٹرنیشنل ا سپیس ا سٹیشن کے بعد ١٢ ارب ڈالر کے ساتھ یہ سائنس کی تاریخ کا سب سے مہنگا پروجیکٹ ہے۔

انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر ایک بڑے سے ڈونَٹ کی طرح دکھائی دے گا، جس کے اندر ہائیڈروجن گیس گشت کر رہی ہو گی اور بہت بڑے تاروں کے لچھے سطح کے چاروں طرف لپٹے ہوں گے۔ لچھوں کو اس وقت تک ٹھنڈا کیا جائے گا جب تک وہ فوقی موصل نہیں بن جاتے اور اس کے بعد بہت بڑی مقدار میں برقی رو ان میں دوڑائی جائے گی جس سے مقناطیسی میدان بنیں گے جو ڈونَٹ میں موجود پلازما کو قید رکھیں گے۔ اب برقی رو ڈونَٹ کے اندر داخل کی جائے گی، تو اس سے گیس نجمی درجہ حرارت پر گرم ہو گی۔

اس سے حاصل ہونے والی سستی توانائی کے حصول کی وجہ سے سائنس دان اس انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر کے بارے میں اتنے زیادہ ہیجان میں مبتلا ہیں۔ گداختی ری ایکٹر کا ایندھن عام سمندری پانی ہو گا۔ جو ہائیڈروجن سے بھرپور ہوتا ہے۔ کم از کم کاغذوں کی حد تک تو شاید یہ ہمیں نہ ختم ہونے والی سستی توانائی فراہم کر سکتا ہے۔

اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے پاس ابھی یہ گداختی ری ایکٹر کیوں نہیں ہے ؟ اس نے بننے میں اتنا لمبا عرصہ کیوں لیا جبکہ ہم نے گداختی عمل کو ١٩٥٠ء میں ہی جان لیا تھا؟ مسئلہ اس شیطان صفت مشکل کا تھا جس میں دبا کر یکساں ہائیڈروجنی ایندھن کو حاصل کرنا تھا۔ ستاروں میں یہ کام قوّت ثقل کرتی ہے وہ ہائیڈروجن گیس کو مکمل کرہ کی شکل میں بھینچتی ہے جس سے گیس یکساں اور صفائی سے گرم ہوتی ہے۔

انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر میں واقع گداختی لیزر میں ، لیزر روشنی کی ہم مرکز شعاعیں جس چھرے کی سطح کو خاکستر کریں گی اس کی سطح کو بے عیب طور پر یکساں ہونا چاہیے ، اور یہ یکسانیت حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ اس مقناطیسی قیدی مشین، میں مقناطیسی میدانوں کے شمالی قطب اور جنوبی قطب دونوں موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گیس کو کرہ میں یکساں دبانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اس مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے سب سے بہتر حل یہ ہے کہ ایک ڈونَٹ کی شکل کا مقناطیسی میدان بنایا جائے۔ گیس کو دبانا ایسا ہے جیسے کہ کسی غبارے کو دبانا۔ ہر دفعہ جب آپ غبارے کو ایک طرف سے دباتے ہیں تو ہوا دوسری طرف غبارے کے گومڑ سا بنا دیتی ہے۔ غبارے کو یکساں ہر طرف سے ایک ساتھ دبانا بہت مشکل کام ہے۔ گرم گیس عام طور سے مقناطیسی بوتل سے رس جاتی ہے ، جس سے وہ ری ایکٹر کی دیواروں تک جا پہنچتی ہے اور اس کے نتیجے میں گداختی عمل کو بند کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہائیڈروجن کی گیس کو ایک سیکنڈ سے بھی زیادہ دبانا نہایت مشکل ہے۔

دور حاضر کی نسل کے انشقاقی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے مقابلے میں گداختی ری ایکٹر میں بڑی مقدار میں نیوکلیئر فضلہ نہیں نکلتا۔ (ہر روایتی انشقاقی پلانٹ سال میں ٣٠ ٹن زبردست اونچے درجے کی سطح کا نیوکلیئر فضلہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے برخلاف گداختی مشین میں پیدا ہونے والا نیوکلیئر فضلہ زیادہ تر ریڈیائی تابکار اسٹیل پر مشتمل ہوتا ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ری ایکٹر کو آخر میں ختم کیا جاتا ہے۔ )

گداختی عمل مستقبل قریب میں مکمل طور پر زمین سے توانائی کا بحران ختم نہیں کر سکے گا، پیئرجول ڈی ژن (Pierre-Gilles de Gennes) جو فرانسیسی نوبل یافتہ طبیعیات دان ہیں فرماتے ہیں ” ہم کہتے ہیں کہ ہم نے سورج کو ایک ڈبے میں رکھ دیا ہے۔ خیال تو بہت اچھا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ڈبے کو کیسے بنایا جائے۔ ” لیکن سب کچھ ٹھیک رہا تو محققین پر امید ہیں کہ اگلے ٤٠ برسوں کے دوران انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر تجارتی استعمال کے لئے گداختی توانائی کے لئے راہ ہموار کر دے گا اور اس سے حاصل کردہ توانائی بجلی کی صورت میں ہمارے گھروں میں آ سکے گی۔ ایک دن گداختی ری ایکٹر شاید ہماری توانائی کے بحران کو نمٹانے میں مدد کر کے محفوظ طریقے سے سورج کی قوّت کو زمین پر منتقل کر سکیں گے۔

مگر یہ مقناطیسی قیدی گداختی عمل بھی اتنی توانائی مہیا نہیں کر سکتا کہ غارت گر ستارے جیسے کسی ہتھیار کو فعال کر سکے۔ اس کے لئے ہمیں بالکل ایک نیا نمونہ بنانا پڑے گا۔

 

                نیوکلیائی فائر ڈ ایکس رے لیزر

 

دور حاضر میں صرف ایک ٹیکنالوجی  ایسی ہے جس کے ذریعہ غارت گر ستارے کی لیزر توپ کی نقل کی جا سکتی ہے اور وہ ہے ہائیڈروجن بم۔ ایک ایسی بیٹری جو ایکس رے کو پیدا کر کے نیوکلیائی ہتھیار کی قوّت کو ایک نقطے پر مرتکز کر سکے اصولی طور پر اتنی توانائی پیدا کر سکتی ہے جس سے ایک ایسا آلہ بنایا جا سکتا ہے جو پورے سیارے کو جلا کر خاکستر کر دے۔

نیوکلیائی توانائی  کا مقابلہ کیمیائی توانائی سے کیا جائے تو ایک پونڈ نیوکلیائی توانائی ایک پونڈ کیمیائی توانائی کے مقابلے میں ١٠ کروڑ گنا زیادہ توانائی پیدا کرے گی۔ افزودہ یورینیم کا ایک بیس بال کی حجم کا ٹکڑا کسی بھی شہر کو مکمل جلا کر خاکستر کر دینے کے لئے کافی ہو گا۔ اس تمام تر بربادی کے باوجود اس کی کمیت کا صرف ایک فیصد ہی توانائی میں تبدیل ہو گا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ لیزر میں توانائی کو بھرنے کے کافی طریقے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ طاقتور طریقہ اس قوّت کو استعمال کرنے کا ہے جو کسی نیوکلیائی بم کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔

ایکس رے لیزر ز کی سائنسی اور حربی دنیا میں بہت ہی زیادہ اہمیت ہے۔ نہایت مختصر طول موج ہونے کی وجہ سے ان کو ایٹمی فاصلے پر بطور کھوجی استعمال کیا جا سکتا ہے اور پیچیدہ سالموں کی ایٹمی ساخت کی رمز کشائی کی جا سکتی ہے ، اگر ایسا ممکن ہو گیا تو یہ ایک ایسا کارنامہ ہو گا جو عام طریقوں سے حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ کیمیائی تعاملات کا ایک پورا نیا جہاں کھل جائے گا۔ ہم ایٹموں کو خود سے حرکت کرتے ہوئے دیکھ سکیں گے اور سالموں کے اندر ان کی درست ترتیب بھی دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔

کیونکہ ہائیڈروجن بم بڑی مقدار میں توانائی ایکس رے کی شعاعوں کی صورت میں خارج کرتا ہے ، اس لئے ایکس رے نیوکلیائی ہتھیاروں کو فعال بنا سکتی ہے۔ وہ انسان جو ایکس رے کو سب سے قریب سے جانتا ہے وہ ماہر طبیعیات بابائے ہائیڈروجن بم – "ایڈورڈ ٹیلر” (Edward Teller) ہیں۔

ٹیلر وہ طبیعیات دان ہیں جن کو کانگریس نے اپنے سامنے ١٩٥٠ میں گواہی کے لئے طلب کیا تھا۔ انہوں نے کانگریس کے آگے گواہی دی کہ مین ہٹن پروجیکٹ کے اس وقت کے سربراہ ” رابرٹ اپن ہائیمر ” (Robert Oppenheimer) کی سیاست کی وجہ سے ان پر ہائیڈروجن بم بنانے کے کام پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ٹیلر کی گواہی نے اپن ہائیمر کو رسوا کر کے اس کا ضمانتی پروانہ منسوخ کروا دیا گیا تھا، کئی ممتاز و نامور طبیعیات دان ٹیلر کی اس حرکت پر اس کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔

(میرا ٹیلر سے رابطہ اس وقت سے ہے جب سے میں ہائی ا سکول میں تھا۔ اسکول کے دوران میں نے تجربات کا ایک سلسلہ "ضد مادّہ” (Antimatter) کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے کیا تھا اور سان فرانسسکو کا سائنس فیئر ایوارڈ اور ایک تفریحی سفر  نیشنل سائنس فیئر ان البقرقی، نیو میکسیکو کا جیتا تھا۔ میں ایک مقامی ٹیلی ویژن کے پروگرام پر ٹیلر کے ساتھ آیا تھا جو اس وقت ابھرتے ہوئے طبیعیات دانوں میں دلچسپی رکھتا تھا۔ آخر کار مجھے ٹیلر کی ہرٹز انجینئرنگ کا وظیفہ ملا، جس نے میرے کالج کی پڑھائی اور ہارورڈ کے اخراجات ادا کیے۔ میں اس کے گھرانے کو کافی اچھی طرح جاننے لگ گیا تھا کیونکہ میرا ان کے گھر جو برکلے میں واقع تھا سال میں کافی دفعہ آنا جانا ہوتا تھا۔ )

اصل میں ٹیلر کی ایکس رے ایک چھوٹا نیوکلیائی بم تھا جو تانبے کی راڈوں میں گھرا ہوا تھا۔ نیوکلیائی ہتھیار کے احتراق کے نتیجے میں ایکس ریز کی شدید کروی صدماتی موجیں نکلتی تھیں۔ یہ توانائی سے بھرپور شعاعیں تانبے کی راڈوں سے گزرتی تھیں جو ایک طرح سے لیزر کے مادّہ کا کام انجام دیتے تھے ، اور ایکس ریز کی قوّت کو شدید شعاعوں میں مرتکز کر دیتے تھے۔ یہ ایکس ریز کی شعاعیں دشمن کے بم کی طرف کی جا سکتی تھیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ آلہ ایک ہی دفعہ استعمال ہو سکتا تھا، کیونکہ نیوکلیائی دھماکہ ایکس ریز کو خود سے تباہ کر دے گا۔

ابتداء میں نیوکلیائی قوّت سے چلنے والی ایکس ریز کی جانچ ” کیبرا جانچ” (Cabra Test) کہلائی جو ایک زیر زمین کان میں ١٩٨٣ء میں کی گئی تھی۔ ایک ہائیڈروجن بم کو پھاڑا گیا تاکہ اس سے نکلتی ہوئی غیر مربوط ایکس ریز کو ایک مربوط ایکس ریز شعاع میں مرتکز کر دے۔ شروع میں اس جانچ کو کامیاب قرار دیا۔ درحقیقت ١٩٨٣ء میں اس جانچ سے صدر رونالڈ ریگن اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک تاریخی تقریر میں اپنی اس اسٹار وارز جیسی کوئی حفاظتی ڈھال بنانے کی چاہت کا اعلان کر دیا۔ اس تقریر نے کئی ارب ڈالر کی ان کوششوں کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہیں۔ ان کوششوں میں ایسے آلات کو ترتیب وار بنانا تھا جیسا کہ نیوکلیائی طاقت سے چلنے والی ایکس رے لیزر جو اس صلاحیت کی حامل ہو کہ دشمن کے بین البر اعظمی میزائل کو تباہ کر سکیں۔ (بعد کی تحقیقات نے یہ بات ثابت کر دی کہ کیبرا جانچ میں استعمال ہونے والے سراغ رساں (ڈیٹیکٹر)  کو تباہ کر دیا گیا۔ ان سراغ رساں آلات کو اس جانچ کی ریڈنگ کو ناپنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ لہٰذا ان ریڈنگ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ )

عملی دنیا میں کیا آج ایسا متنازع آلہ بین البر اعظمی میزائلوں کو گرانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ شاید ایسا کیا جا سکتا ہے ، لیکن دشمن کے پاس اس کے توڑ کے کافی سارے سادہ اور کم خرچ طریقے موجود ہیں جن سے ایسے کسی بھی ہتھیار کو بیکار کیا جا سکتا ہے (مثال کے طور پر دشمن سستی دھوکا دینے والی لاکھوں کی تعداد میں کسی بھی شئے کو چھوڑ سکتا ہے تاکہ ریڈار کو دھوکا دیا جا سکے ، یا اپنے بم کو گھما دے تاکہ ایکس ریز پھیل جائیں، یا کوئی ایسی کیمیائی کھرنڈ خارج کرے جو ایکس ریز سے اس کی حفاظت کر سکے۔ ) یا شاید دشمن کافی تعداد میں بم بنا کر اسٹار وار ز کی حفاظتی ڈھال میں داخل ہو جائے۔

لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج نیوکلیائی قوّت سے چلنے والی لیزر، میزائل کو مار گرانے والے ، نظام عملی طور پر ناقابل عمل ہیں۔ مگر کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے غارت گر سیارے کو بنایا جا سکے جس کو ہم اپنی طرف آتے ہوئی سیارچے کے خلاف استعمال کر سکیں یا اس سے پورے سیارے کو فنا کر دیں؟

 

                سیارہ غارت گر کی طبیعیات

 

کیا اسٹار وارز میں دکھائے جانے والے ہتھیار کو بنانا ممکن ہے ؟ جو پورے سیارے کو تباہ کر دیتا ہے۔ مفروضے کے اعتبار سے اس کا جواب ہاں میں ہے۔ کئی ایسے طریقے موجود ہیں جس سے سیارہ غارت گر کو بنایا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے ، ہائیڈروجن بم سے نکلنے والی توانائی کی کوئی طبیعیاتی حد نہیں ہے۔ آگے ہم اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کو دیکھیں گے۔ (ہائیڈروجن بم بنانے کا ہو بہو خاکہ امریکی حکومت کی طرف سے آج بھی ٹاپ سیکرٹ اور زمرہ بند ہے مگر واضح خاکہ سب کو معلوم ہے۔ ) ہائیڈروجن بم کافی مرحلوں میں بنتا ہے۔ ان مرحلوں کو ٹھیک سے یکے بعد دیگرے پار کرتے ہوئے کسی بھی مقدار کا نیوکلیائی بم بنایا جا سکتا ہے۔

ہائیڈروجن بم بنانے کا پہلا مرحلہ تو معیاری "انشقاقی بم” (Fission Bomb) کو بنا کر مکمل کیا جاتا ہے ، یورینیم – ٢٣٥ کا استعمال کرتے ہوئے ایکس ریز کا ایک دھماکہ چھوڑا جاتا ہے ، جس طرح سے ہیروشیما پر گرائے گئے بم میں ہوا تھا۔ ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں اس سے پہلے کہ جوہری بم پھٹ کر ہر چیز کو تہس نہس کر دے ، پھیلتی ہوئی ایکس ریز کا کرہ دھماکے کی طرف سے نکلتا ہوا دوڑے گا (ایکس ریز روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں) اور پھر لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کے خانے پر مرتکز ہو گا، جو ہائیڈروجن بم کا ایک عامل جز ہے۔ (ہو بہو یہ کیسے ہو گا یہ بات آج بھی رمزہ بند ہے۔ ) ایکس ریز لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈسے ٹکرا کر اس کو منہدم کر دیں گی جس سے درجہ حرارت کروڑوں ڈگری تک جا پہنچے گا نتیجتاً ایک اور دھماکا ہو گا جو پہلے سے کہیں بڑا ہو گا۔ اس دھماکے سے حاصل ہونے والی ایکس ریز کو دوبارہ دوسرے لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کے ٹکڑے پر مرتکز کیا جا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک تیسرا دھماکا ہو گا۔ اس طرح سے لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کو یکے بعد دیگرے ایک قطار میں رکھ کر ایک ایسا ہائیڈروجن بم بنایا جا سکتا ہے جس کا حجم ناقابل تصوّر حد تک کا ہو سکتا ہے۔ در حقیقت اب تک کا بنائے جانے والا سب سے بڑا ہائیڈروجن بم بھی دو مرحلوں والا تھا جو روس نے ١٩٦١ میں پھاڑا تھا۔ اس بم سے ٥ کروڑ ٹن ٹی این ٹی کے برابر توانائی خارج ہوئی تھی، اگرچہ اصولی طور پر وہ اس قابل تھا کہ ١٠ کروڑ ٹن ٹی این ٹی (یا لگ بھگ ٥ ہزار گنا ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم جتنا طاقتور) سے بھی زیادہ توانائی کا اخراج کر سکے۔

پورے سیارے کو خاکستر کرنے کے لئے بہرحال ایک الگ حجم کا بم درکار ہو گا۔ اس کام کے لئے غارت گر ستارے کو ہزار ہا لیزر خلاء سے پھینکنی پڑیں گی اور سب کی سب کو بیک وقت داغنا بھی ہو گا۔ (موازنے کے لئے اس بات کو یاد رکھیں کہ سرد جنگ کے عروج پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین ہر ایک نے ٣٠ ہزار نیوکلیائی بم جمع کر رکھے تھے۔ ) اس زبردست قسم کے ایکس ریز سے نکلنے والی اجتماعی توانائی اس قابل ہو گی کہ پورے سیارے کی سطح کو جلا ڈالے۔ لہٰذا ایسا یقیناً ممکن ہے کہ کوئی نجمی ریاست مستقبل میں سینکڑوں ہزاروں سال میں کوئی اس طرح کا ہتھیار بنا لے۔

کسی بھی جدید تہذیب کے لئے ایک دوسرا انتخاب موجود ہے :غارت گر ستارے کو گیما شعاعوں کی توانائی استعمال کر کے بنا لیا جائے۔ ایسا کوئی بھی غارت گر ستارہ ان شعاعوں کی بوچھاڑ کو نشانے پر مار سکے گا جن کا نمبر طاقت و توانائی میں بگ بینگ کے بعد آتا ہے۔ گیما شعاعوں کے انفجار قدرتی طور پر خلاء میں ہوتے رہتے ہیں، لیکن کسی بھی جدید تہذیب کا اس طرح کی وسیع قوّت پیدا کرنا قابل فہم ہے۔ کسی بھی ستارے کے منہدم ہو کر ہائپر نووا بننے سے پہلے اس کے گھماؤ کو منضبط کر کے گیما شعاعوں کے انفجار کو خلاء میں کسی بھی نقطے کی طرف پھینکا جا سکتا ہے۔

 

                گیما شعاعوں کا انفجار

 

گیما شعاعوں کا انفجار پہلی مرتبہ ١٩٧٠ء میں دیکھا گیا، جب یو ایس فوج نے "ویلا” مصنوعی سیارچہ خلاء میں ایٹمی دھماکے کی چمک (غیر قانونی ایٹمی دھماکے کے ثبوت ) کا سراغ لگا نے کے لئے چھوڑا۔ غیر قانونی جوہری دھماکوں کے بجائے ویلا نے خلاء میں بہت بڑے اشعاع کے انفجار درج کیے۔ شروع میں اس دریافت نے پینٹاگون میں کھلبلی مچا دی : کیا سوویت یونین خلاء میں جا کر ایٹمی دھماکے کر رہا تھا؟ بعد میں یہ پتا چلا کہ یہ اشعاع خلاء میں آسمان پر ہر جگہ سے یکساں طور پر آ رہی تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ کہکشاں سے بھی دور سے آ رہی تھیں۔ اگر وہ بین النجم اشعاع تھیں تو انھیں بہت ہی عظیم الشان فلکیاتی قدروں کی قوّت کو پیدا کرنا ہو گا، ان کو اتنا روشن ہونا تھا کہ تمام قابل مشاہدہ کائنات کو منور کر سکیں۔

جب سوویت یونین ١٩٩٠ء میں ٹوٹ کر بکھر گیا تو عظیم فلکیاتی ڈیٹا پینٹاگون نے غیر مخفی کیا۔ پینٹاگون کے فراہم کئے گئے مواد نے فلکیات دانوں کو مبہوت کر دیا تھا۔ یکدم سے فلکیات دانوں کے سامنے ایک نیا پراسرار مظاہر قدرت نمودار ہو کر کھڑا ہو گیا ہے۔ اس نے ہمیں اپنی سائنس کی نصابی کتابوں کو دوبارہ سے لکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔

گیما شعاعوں کا دورانیہ چند سیکنڈوں سے کچھ منٹوں تک کا ہوتا ہے جس کے بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا حساس آلات  کا ایک مفصل نظام ان کی تلاش اور تجزیہ کرنے کے لئے درکار ہو گا۔ پہلے تو سیارچے کو ابتدائی اشعاع کے دھماکے کو پکڑنا ہو گا اور پھر دھماکے کے ایک دم صحیح متناسق  (کورڈ ینیٹ) ہندسے زمین پر بھیجنے ہوں گے جہاں سے ان کو بصری یا ریڈیائی دوربینوں کو بھیجا جائے گا جو اپنا رخ ہدف یعنی گیما اشعاع کے پھٹنے کی بالکل صحیح جگہ پرکریں گی۔

اگرچہ ابھی بھی بہت کچھ واضح نہیں ہے لیکن گیما شعاعوں کے پھٹنے کا ایک نظریہ بتاتا ہے کہ یہ زبردست قوّت والے ہائپر نووا ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے بلیک ہول کو بنتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے گیما شعاعوں کے یہ دھماکے پیدا ہوتے ہوئے بلیک ہول عفریتوں کے ہوتے ہیں۔ مگر بلیک ہول گھومتے ہوئے لٹو کی طرح سے دو شعاعوں کے فوارے ایک شمالی قطب سے اور دوسرا جنوبی قطب سے چھوڑتے ہیں۔ زمین سے نظر آنے والی اشعاع دور دراز کی گیما شعاعوں کا وہ فوارہ ہوتا ہے جس کا رخ عین زمین کی طرف ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی گیما شعاع کا انفجار سیدھا زمین کی طرف رخ کر کے ہمارے پڑوس میں کسی کہکشاں میں واقع ہو (جو ہم سے صرف چند نوری برس دور ہو ) تو اس انفجار کی قوّت اتنی ہو گی کہ وہ ہمارے سیارے پر موجود تمام زی حیات کو معدوم کر سکتی ہے۔

شروع میں گیما شعاعوں کے انفجار سے نکلنے والی ایکس ریز ایک برقی مقناطیسی ارتعاش پیدا کرے گی جو تمام برقی آلات کو زمین پر سے صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔ اس کی زبردست ایکس ریز اور گیما ریز کی شعاعیں زمین کے کرۂ فضائی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہوں گی، جس کے نتیجے میں ہماری حفاظت کرنے والی اوزون کی تہ تباہ ہو جائے گی۔ گیما شعاعوں کے انفجار سے نکلنے والے فوارے زمین کی سطح پر درجہ حرارت کو بڑھا دیں گے جس کے نتیجے میں آگ کا بے قابو عفریت پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ہو سکتا ہے کہ گیما شعاعوں کا انفجار پورے سیارے کو پھاڑ کر ریزہ ریزہ نہیں کرے جس طرح سے اسٹار وارز کی فلم میں دکھایا تھا، مگر یہ یقینی طور پر زمین پر موجود تمام حیات کو تباہ کر دے گا اور اپنے پیچھے صرف ایک سلگتا ہوا بنجر سیارہ ہی چھوڑے گا۔

اندازاً، آج سے کچھ ہزاروں سے لاکھوں سال کے بعد ہم سے زیادہ کوئی ترقی یافتہ تہذیب ہو سکتا ہے کہ اس قابل ہو جائے کہ کسی بلیک ہول کو اپنی مرضی سے کسی بھی سمت میں حرکت دے کر ہدف کا نشانے لے سکے۔ یہ کسی سیارے کا راستہ موڑ کر اور نیوٹرون ستارے کا راستہ خم کر کے اس کو  مرتے ہوئے ستارے کی طرف منہدم ہونے سے پہلے درست زاویے کی طرف موڑ سکتی ہے۔ یہ خمیدگی اتنی ہو سکتی ہے کہ ستارے کی محوری گردش کو اس طرح سے تبدیل کیا جا سکے کہ اس کا نشانہ کسی بھی سمت میں موڑا جا سکے۔ ایک مرتے ہوئے ستارے سے ہمارے گمان سے بھی زیادہ بڑی شعاعی بندوق بنائی جا سکتی ہے۔

مختصراً طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طاقتور لیزر آسانی سے استعمال میں آنے والی یا ہاتھ کے استعمال والی شعاعی بندوق اور روشنی کی ٹھوس تلوار کو ہم جماعت "I” کی ناممکنات کے زمرہ میں ڈال سکتے ہیں یعنی کہ کوئی ایسی چیز جو مستقبل بعید میں یا آنے والی اگلی ایک صدی میں ممکن ہو۔ لیکن کسی ستارے کو بلیک ہول سے بننے سے پہلے اس کو غارت گر ستارہ بنا کر اپنی مرضی سے اس سے ہدف کو نشانہ بنا نے میں زبردست قسم کی مشکلات موجود ہیں اس لئے سے اسے ہم جماعت "II” کی ناممکنات کے زمرے میں ڈالتے ہیں یعنی کوئی ایسی چیز جو طبیعیات کے معلوم قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہو (جیسا کہ گیما شعاعوں کے انفجار موجود ہیں ) لیکن یہ چیز آج سے ہزار ہا سال یا لاکھوں سال کے بعد مستقبل میں ممکن ہو سکتی ہے۔

 

 

 

 

4۔ دور دراز منتقلی

(Teleportation)

 

یہ کتنی اچنبھے کی بات ہے کہ ہم نے متناقص باتوں کی سچائی کو پا لیا۔ اب ہم آگے بڑھنے کی امید کر سکتے ہیں۔
–      نیلز بوہر
میں قوانین طبیعیات کو بدل نہیں سکتا، کپتان !
–      اسکوٹی، چیف انجنیئر اسٹار ٹریک

 

دور دراز منتقلی یا کسی شخص یا شئے کو فی الفور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی تہذیب کا راستہ اور اقوام کی منزل تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ ناقابل تردید طور پر جنگی اصولوں کو بدل دے گی: افواج اپنے دستوں کو دشمن کو بے خبر رکھتے ہوئے ان کی صفوں کے پیچھے بھیج سکتی ہیں یا صرف دشمن کی قیادت کو دور دراز منتقل کر کے ان کو قید بھی کر سکتی ہیں۔ دور حاضر کے ذرائع نقل و حمل کار سے لے کر پانی کے جہاز تک اور ہوائی جہاز سے لے کر ریل گاڑی تک، اور بہت ساری صنعتیں جو ان نظاموں کو اپنی خدمات دیتی ہیں سب متروک ہو جائیں گی، ہم ان کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے آپ کو دفتر یا کام کرنے کی جگہ پر اور اشیاء کو مارکیٹوں میں آسانی سے منتقل  کر دیں گے۔ چھٹیاں گزرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہو گا کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنی منزل پر بغیر کسی ذریعہ کے استعمال کے منتقل کر لیں گے۔ دور دراز منتقلی ہر چیز کو بدل دے گی۔

سب سے قدیم دور دراز منتقلی مذہبی کتابوں میں ملتی ہے مثلاً بائبل، جہاں روحوں کا خاموشی کے ساتھ افراد کو لے جانا بیان کیا گیا ہے۔ یہ عہد نامہ جدید میں سے لی ہوئی سطریں ہیں جس میں لگتا ہے کہ فلپس کی دور دراز منتقلی  غزہ سے اشدُود تک کی گئی تھی۔ "جب وہ پانی میں سے نِکل کر اُوپر آئے تو خداوند کا رُوح فلپس کو اُٹھا لے گیا اور خوجہ نے اُسے پھر نہ دیکھا کیونکہ وہ خُوشی کرتا ہُوا اپنی راہ چلا گیا۔ اور فلپس اشدُود میں آ نِکلا اور قیصریہ میں پہنچنے تک سب شہروں میں خُوشخبری سُناتا گیا۔ (ایکٹس ٨ : ٣٦ – ٤٠ )

دور دراز منتقلی  ہر جادوگر کی زنبیل کے کرتبوں اور نظر بندی کا حصّہ ہوتا ہے :مثلاً خرگوش کو ٹوپے سے نکالنا، تاش کے پتوں کو آستیں میں سے نکالنا اور کسی کے کان کے پیچھے سے سکّہ نکالنا وغیرہ۔ دور حاضر کا سب سے جرات مند جادوئی کمال ہاتھی کو حیرت کے مارے تماشائیوں کے سامنے سے غائب کرنا ہے۔ اس کام کے عملی مظاہرہ میں ایک کافی ٹن وزنی بڑے ہاتھی کو ایک پنجرے میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد جادوگر کی جادوئی چھڑی کے گھومنے کے ساتھ ہی ہاتھی تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالتا ہوا غائب ہو جاتا ہے۔ (ظاہر سی بات ہے کہ حقیقت میں ہاتھی کہیں نہیں جاتا۔ یہ کرتب آئینوں کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے۔ لمبے پتلے عمودی آئینوں کی پٹیاں پنجرے کے ہر طرف رکھی ہوتی ہیں۔ دروازے کی طرح یہ عمودی پٹیاں مڑتی بھی ہیں۔ جادوئی کرتب کے شروع میں جب یہ عمودی پٹیاں پنجرے کے اطراف میں اس کے پیچھے رکھ دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں آئینہ نظر نہیں آتا اور ہاتھی دکھائی دیتا ہے ، مگر جب آئینوں کو ٤٥ ڈگری زاویے پر تماشائیوں کے سامنے سے موڑا جاتا ہے تو ہاتھی غائب ہو جاتا ہے اور تماشائی پنجرے کے ایک طرف کی منعکس شدہ تصویر دیکھتے ہیں۔

 

                دور دراز منتقلی اور سائنس فکشن

 

سب سے پہلی دور دراز منتقلی جو سائنس فکشن میں ملتی ہے وہ” ایڈورڈ پیج مچل” (Edward Page Mitchell) کی کہانی "بغیر جسم کے آدمی ” (The Man Without the Body) میں موجود ہے جو ١٨٧٧ء میں چھپی تھی۔ اس کہانی میں سائنس دان ایک بلی کے جسم کے ایٹموں کو علیحدہ کر کے اس کو ٹیلی گراف وائر کے ذریعہ دور منتقل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے جب سائنس دان اپنے آپ کو بغیر ذریعے کے منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو عین اس وقت بیٹری ختم ہو جاتی ہے۔ صرف اس کا سر ہی کامیابی کے ساتھ منتقل ہو پاتا ہے۔

"سر آرتھر کونان ڈوئیل” (Sir Arthur Conan Doyle) ، جو اپنے شرلاک ہومز کے ناولوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، ان کو دور دراز منتقلی  کے تصوّر نے بہت لبھا لیا تھا۔ برسوں تک جاسوسی ناول اور مختصر کہانیاں لکھ کر وہ شرلاک ہومز سلسلے سے اکتا گئے اور آخر کار اپنے اس سراغ رساں کو پروفیسر "موریارٹی” (Moriarty) کے ساتھ آبشار سے نیچے گرا کر موت سے ہمکنار کرا دیا۔ مگر عوام کے شدید اسرار نے ڈوئیل کو شرلاک ہومز کو دوبارہ زندہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ شرلاک ہومز کو مارنے میں ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر ڈوئیل نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا، جس میں پروفیسر” چیلنجر” (Challenger)  شرلاک ہومز کے ہم رتبہ تھے۔ دونوں حاضر جواب اور گتھیوں کو سلجھانے کے ماہر تھے۔ جہاں مسٹر ہومز پیچیدہ معموں کو حل کرنے کے لئے ٹھنڈے اور منطقی استنباط سے کام لیتے تھے ، وہیں پروفیسر چیلنجر شیطانیت کی تاریک اور مافوق الفطرت دنیا کی مدد لیتے ہیں اور اس میں دور دراز منتقلی بھی شامل تھی۔

١٩٢٧ء میں ایک ناول "انتشاری مشین” (The Disintegration Machine) میں پروفیسر کا ٹکراؤ ایک ایسے بھلے مانس آدمی سے ہوا جو ایک ایسی مشین کا موجد تھا جو کسی بھی شخص کو علیحدہ کر کے دور درز منتقل کرنے کے بعد دوبارہ سے جوڑ دیتی تھی۔ لیکن اس وقت پروفیسر چیلنجر کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب اس کے خالق نے شیخی بگھارتے ہوئے اسے بتایا کہ اگر مشین کسی غلط ہاتھ میں چلی جائے تو پورے کے پورے لاکھوں افراد کے شہر کو صرف ایک بٹن کے دبانے سے ختم کر دے گی۔ پروفیسر چیلنجر نے اس مشین کا استعمال کرتے ہوئے اس کے موجد کو علیحدہ کیا اور اس کو دوبارہ جوڑے بغیر ہی تجربہ گاہ سے باہر نکل آیا۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہالی ووڈ نے دور دراز منتقلی کو دریافت کیا۔ ١٩٥٨ء میں فلم "مکھی ” (The Fly) میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا کہ اگر دور دراز منتقلی خطرناک طور پر غلط راہ پر گامزن ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ فلم میں جب ایک سائنس دان کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو کمرے میں منتقل کرتا ہے  تو اس کے جسم کے ایٹم ایک مکھی کے ایٹم سے مل جاتے ہیں جو حادثاتی طور پر دور دراز منتقلی کے خانے میں داخل ہوئی تھی، اس طرح وہ سائنس دان مضحکہ خیز  تقلیبی عفریت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو آدھا انسان اور آدھی مکھی ہوتا ہے۔ (اس فلم کا ایک ریمیک جس میں "جیف گولڈبلم” (Jeff Goldblum) نے مرکزی کردار ادا کیا تھا وہ ١٩٨٦ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ )

دور دراز منتقلی کی مقبولیت پہلی دفعہ عمومی ثقافت میں اسٹار ٹریک سلسلہ کے ساتھ نمایاں ہونا شروع ہوئی۔ "جین روڈن بیری” (Gene Roddenberry) ، جو اسٹار ٹریک کے خالق ہیں، انہوں نے دور دراز منتقلی اس ڈرامائی سلسلے میں اس لئے متعارف کرائی کیونکہ پیراماؤنٹ ا سٹوڈیو کا بجٹ مہنگے خصوصی اثر پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جس میں دور دراز کے سیاروں پرسے اڑتے اور اترتے ہوئے خلائی جہازوں کی نقل کی جاتی۔ یہ ایک نسبتاً سستا نسخہ تھا کہ انٹرپرائز کے عملے کو ان کی منزل تک روانہ کر دیا جائے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے دور دراز منتقلی کے ممکن ہونے پر کئی قسم کا اعتراضات داغ دیئے۔ کسی شے کو دور دراز منتقل کرنے کے لئے سب سے پہلے تو کسی بھی جاندار کے جسم میں موجود ایٹموں کی بالکل صحیح جگہ معلوم ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات ہائیزن برگ کے ” اصول عدم یقینی” (Uncertainty Principle) کی خلاف ورزی ہو گی  (اس اصول کے مطابق کسی بھی الیکٹران کی صحیح جگہ اور بالکل ٹھیک سمتی رفتار کو بیک وقت معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ ) "اسٹار ٹریک” کو پیش کرنے والے نے ناقدین کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے "ہائیزن برگ کا آلہ تثویب” ترسیلی کمرے میں متعارف کروایا، اور کمرے میں ایک ترکیب طراز آلے کا اضافہ کر دیا جو کوانٹم طبیعیات کے قوانین کا ازالہ کر دیتا تھا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ہائیزن برگ کے آلہ تثویب کی ضرورت قبل از وقت تھی۔ اس وقت کے سائنس دان اور ناقدین شاید غلط تھے۔

 

                دور دراز منتقلی اور کوانٹم نظریہ

 

نیوٹن کے مفروضے کے مطابق، دور دراز منتقلی واضح طور پر ناممکن ہے۔ نیوٹن کے قوانین اس بات پر تکیہ کرتے ہیں کہ مادّہ چھوٹی ساخت کی گیندوں سے بنا ہے ، کوئی چیز اس وقت تک حرکت نہیں کرتی جب تک اس کو دھکا نہ دیا جائے۔ چیزیں اچانک غائب ہو کر کہیں اور نمودار نہیں ہوتیں۔

مگر کوانٹم نظریئے میں بعینہ ذرّات ایسا ہی کرتے ہیں۔ نیوٹن کے قوانین جو ڈھائی سو برس سے حکمرانی کر رہے تھے ان کا تختہ ١٩٢٥ء میں اس وقت الٹ دیا گیا جب ورنر ہائیزن برگ، ایرون شروڈنگر اور ان کے ساتھیوں نے کوانٹم کے نظریئے کو پایا تکمیل تک پہنچایا۔ جب ایٹموں کے عجیب خصائص  کا تجزیہ کیا گیا، تو اس وقت طبیعیات دانوں نے دریافت کیا کہ الیکٹران موجوں کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں اور وہ ایٹم کے اندر بے ربط نظر آنے والی حرکتوں میں رہتے ہوئے کوانٹم کی چھلانگیں لگا سکتے ہیں۔

کوانٹم کی موجوں کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی تعلق ویانوی طبیعیات داں ایرون شروڈنگر کا تھا جس نے وہ شہرۂ آفاق مساوات لکھی تھی جو اس کے نام سے منسوب ہے۔ یہ مساوات  کیمیاء اور طبیعیات کی دنیا میں سب سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔ سند فضلیت دینے والے تعلیمی اداروں نے پورے کے پورے کورس اس مشہور زمانہ مساوات کو حل کرنے کے لئے مختص کئے ہوئے ہیں، طبیعیات کی لائبریریاں ان کتابوں سے بھری ہوئی ہیں جو اس سے حاصل کردہ نتائج  کا جائزہ پیش کرتی ہیں۔ اصولی طور پر کیمیاء کے پورا علم کم ہو کر اس مساوات کے حل جتنا ہو سکتا ہے۔

١٩٠٥ء میں آئن سٹائن نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ روشنی کی موجیں ذرّات جیسے خصائص کی حامل بھی ہو سکتی ہیں یعنی ان کو توانائی کے بنڈلوں میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے جن کو فوٹون کہتے ہیں۔ ١٩٢٠ء میں شروڈنگر پر یہ بات آشکار ہو گئی تھی کہ اس کے برخلاف ہونا بھی ممکن ہے یعنی کہ الیکٹران جیسے ذرّات بھی موج جیسا برتاؤ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ خیال سب سے پہلے ایک فرانسیسی طبیعیات داں” لوئس ڈی بروگلئی” (Louis de Broglie)  نے پیش کیا۔ اپنے اندازہ پر اس نے نوبل انعام جیتا۔ ( اس بات کو ہم اپنے سند فضیلت حاصل کرنے والے طلبہ پر جامعہ میں واضح کرتے ہیں۔ ہم الیکٹران کو "منفیری شعاعی نلکی ” (Cathode Ray Tube) میں ڈالتے ہیں، یہ نلکی عام طور سے ٹیلی ویژن میں پائی جاتی ہے۔ جب الیکٹران ایک ننھے سے سوراخ سے گزرتے ہیں، تو اس جگہ جہاں الیکٹران ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ٹکراتے ہیں وہاں پر چھوٹے نقطے دکھائی دینے چاہیں لیکن اس کے برخلاف ہمیں مرتکز موجی حلقے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مرتکز موجی حلقے اس وقت دیکھے جاتے ہیں جب ذرّات کے بجائے موج اس سوراخ میں سے گزرتی ہے۔ )

ایک دن شروڈنگر اس پر تجسس غیر معمولی بات پر لیکچر دے رہا تھا تو اس کے رفیق طبیعیات دان، "پیٹر ڈبیی” (Peter Debye) نے اس کو للکارتے ہوئے پوچھا :اگر الیکٹران موج کی صورت میں بیان کیے جا سکتے ہیں تو ان کی مساوات کیا ہے ؟

جب سے نیوٹن نے "علم الاحصاء ” (Calculus) کو ایجاد کیا تھا، طبیعت داں موجوں کو "تفرقی مساوات ” (Differential Equations) میں بیان کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ لہٰذا شروڈنگر نے ڈیبی کے سوال کو ایک چیلنج کی طرح لیا۔ اس چیلنج میں اسے سرخ رو ہونے کے لئے الیکٹران کی موجوں کو تفرقی مساوات میں بیان کرنا تھا۔ اس مہینے جب شروڈنگر چھٹیوں پر گیا تو واپسی پر اس کے ساتھ وہ شہرہ آفاق مساوات موجود تھی۔ لہٰذا اس سے پہلے جیسے میکسویل نے فیراڈے کی قوّت میدان کو لے کر اس سے روشنی کی مساوات اخذ کی تھی، بعینہ ایسے ہی شروڈنگر نے ڈی بروگلئی کی "مادّے کی موجوں "کو لے کر "شروڈنگر مساوات برائے الیکٹران” بنا لی۔

(دنیائے سائنس کے مورخوں نے اس بات کو جاننے کی تھوڑی سعی کی ہے کہ اس وقت شروڈنگر کیا کر رہا تھا جب اس نے اپنی یہ مساوات دریافت کی تھی، جس نے ہمیشہ کے لئے جدید طبیعیات اور کیمیاء کی دنیا کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ بظاہر طور پر شروڈنگر ایک آزاد منش آدمی تھا اور ان چھٹیوں کے دوران اس کے ساتھ اس کی محبوبہ اور بیوی بھی موجود تھے۔ بلکہ وہ تو ایک ڈائری بھی لکھتا تھا جس میں اس نے اپنی تمام محبوباؤں کی تفصیلات درج کی ہوئی تھیں، ہر تفصیل کے ساتھ ایک رمز بھی لکھتا تھا جو ہر الگ ملاقات کے لئے مختلف ہوتا تھا۔ مورخین کو یقین ہے کہ جب اس نے یہ مساوات دریافت کی تھی تو وہ "الپس” (Alps) میں واقع "قصر ہرویگ” (Villa Herwig) میں اپنی معشوقہ کے ساتھ اختتام ہفتہ والے  دن موجود تھا۔ )

جب شروڈنگر نے اپنی مساوات سے ہائیڈروجن کے ایٹم کو حل کرنے کی شروعات کی تو اس نے خلاف توقع ہائیڈروجن کی توانائی کے ہو بہو وہ ہی مدارج پائے جو انتہائی احتیاط کے ساتھ پرانے طبیعیات دانوں نے فہرست کی صورت میں منظم کئے ہوئے تھے۔ تب اس کو احساس ہوا کہ نیلز بوہر کے ایٹم کی پرانی تصویر اصل میں غلط تھی جو الیکٹرانوں کو مرکزے کے گرد بھوں بھوں کرتی دکھاتی ہے (یہ تصویر آج بھی کتابوں اور جدید سائنس کو بیان کرنے کی کوشش میں دیئے جانے والے اشتہاروں میں دکھائی جاتی ہے۔ ) ۔ ان مداروں کو ان موجوں سے بدلا جانے چاہئے تھا جو مرکزے کے گرد موجود ہیں۔

شروڈنگر کے کام نے طبیعیاتی دنیا میں ایک بھونچال مچا دیا۔ یکدم سے طبیعیات دان ایٹم کے اندر جھانکنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اب وہ ایٹم کے الیکٹرانی خول بنانے والی موجوں کی تفصیل سے جانچ پڑتال کر سکتے تھے۔ اب وہ مدار میں موجود تو انائی کے مدارج کی بالکل درست پیش گوئی کر سکتے تھے  جو نگینے کی طرح فٹ تھیں۔

مگر آج بھی پریشان کن سوال اپنی جگہ پر موجود ہے جو طبیعیات دانوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ اگر الیکٹران کو موج کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے تو پھر وہ موج کیا ہے ؟ اس کا جواب ایک طبیعیات دان” میکس بورن” (Max Born) نے دیا جس نے کہا کہ یہ موجیں اصل میں امکانی موجیں ہیں۔ یہ موجیں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت صرف الیکٹران کے موجود ہونے کے اتفاق کو بیان کر تی ہیں۔ با الفاظ دیگرے ، الیکٹران ذرّے ہیں، مگر اس ذرّے کو پانے کا امکان شروڈنگر کی موج نے دیا ہے۔ جتنی بڑی موج ہو گی اتنا ہی زیادہ امکان ذرّے کو اس نقطے پر تلاش کرنے کا ہو گا۔

درست طور پر ہو بہو پیش گوئی کرنے والی طبیعیات جو ستاروں، سیار چوں سے لے کر توپ کے گولے کی تفصیلی خط پرواز کو بیان کرتی تھی۔ اچانک ہی اس پیش رفت کے ساتھ ہی بدل گئی تھی۔ یکدم سے احتمال اور امکان سیدھے اس کے قلب میں متعارف ہو گئے تھے۔

یہ غیر یقینی قطعی طور پر ہائیزن برگ کے "اصول عدم یقین” کو پیش کرنے کے ساتھ ہی تدوین ہو گئی تھی، اس مفروضے میں الیکٹران کی سمتی رفتار اور اس کے مقام کو بیک وقت نہیں جانا جا سکتا تھا۔ کوانٹم کے پیمانے پر عقل عامہ پر کام کرنے والے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ :الیکٹران غائب ہو کر کہیں پر بھی ظاہر ہو سکتے ہیں اور الیکٹران بیک وقت کئی جگہ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔

(آئن سٹائن جس کو کوانٹم نظریئے کا باپ کہتے ہیں وہ بنیادی طبیعیات میں امکان اور احتمال کو متعارف کروانے سے انتہائی خائف تھا۔ اس نے ١٩٠٥ء میں شروڈنگر کا ساتھ دے کر اس انقلاب کو شروع کرنے میں مدد کی تھی جس میں ہمیں موجی مساوات حاصل ہوئیں۔ آئن سٹائن نے لکھا "کوانٹم میکانیات کی میں بہت زیادہ عزت کرتا ہوں، مگر دل کی آواز کہہ رہی ہے کہ یہ سچا جیکب نہیں ہے۔ نظریہ کافی جاندار ہے ، مگر بمشکل ہمیں بوڑھے آدمی کے راز کے قریب لے جاتا ہے۔ کم از کم میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ وہ [خدا]پانسے نہیں پھینکتا۔ ")

ہائیزن برگ کا نظریہ انقلابی اور متنازعہ دونوں ہی تھا لیکن وہ کام کرتا تھا۔ اس کی بدولت طبیعیات ایک ہی ہلے میں کئی الجھا دینے والے مظاہر کو بیان کر سکتی ہے ، جس میں کیمیائی قوانین بھی شامل ہیں۔ میں اپنے پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کو اکثر کوانٹم نظریئے کے انوکھے پن سے متاثر کرنے کے لئے سوال کرتا ہوں کہ ذرا حساب لگا کر بتائیں کہ ان کے جسم میں موجود تمام ایٹموں کا اچانک حل ہو کر اینٹوں سے بنی دیوار کے دوسری جانب ظاہر ہونے کا کیا امکان ہے۔ ایسی کوئی بھی دور دراز منتقلی نیوٹن کی طبیعیات میں ناممکنات میں سے ہے لیکن کوانٹم میکانیات اس مظاہر کی اجازت دیتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے کسی بھی مظاہر کے وقوع پذیر ہونے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی زیادہ انتظار کرنا پڑے گا۔ (اگر آپ اپنے جسم کی شروڈنگر موج کو کمپیوٹر گراف کے ذریعہ بنائیں تو اس موج کی تمام خصوصیات آپ کے جسم سے مشابہ ہوں گی  سوائے اس کے کہ گراف تھوڑا سا دھندلا ہو گا اور آپ کے جسم کی کچھ موجیں ہر اطراف میں پھوار کی شکل میں نکل رہی ہوں گی۔ اصل میں تو آپ کے جسم کی کچھ موجیں تو دور دراز کے ستاروں تک جا پہنچ رہی ہوں گی۔ لہٰذا اس بات کا بہت ہی کم احتمال ہے کہ ایک دن جب آپ نیند سے بیدار ہو کر اٹھیں تو خود کو کسی دور دراز کے سیارے پرپائیں۔ )

کیمیاء کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ الیکٹران ایک ہی وقت میں کئی جگہوں پر ہو سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ الیکٹران مرکزے کے گرد دائرے میں ہوتے ہیں، جیسا کہ ایک صغاری نظام شمسی۔ مگر ایٹم اور نظام شمسی میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اگر دو نظام شمسی خلاء میں ٹکرا جائیں، تو نظام ہائے شمسی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور سیارے خلائے بسیط میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ اس کے برخلاف جب ایٹم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو وہ اکثر الیکٹران کو آپس میں بانٹ کر پائیدار سالمات بناتے ہیں۔ کالج کی کیمیاء کی جماعت میں اکثر اساتذہ اس بات کو چپکے ہوئے الیکٹران  سے بیان کرتے ہیں جو ایک فٹ بال سے مشابہ ہوتا ہے جس میں دو ایٹم آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن کیمیاء کے اساتذہ جس بات کا ذکر گول کر جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکٹران دو ایٹموں کے درمیان چپکے ہوئے نہیں ہوتے۔ یہ فٹ بال اصل میں اس امکان کو ظاہر کرتی ہے کہ الیکٹران کئی جگہ پر ایک ساتھ اس فٹ بال میں موجود ہو سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام کیمیاء جو ہمارے جسم کے اندر موجود سالموں کو بیان کرتی ہے اس کی بنیاد اس پر منحصر ہے کہ الیکٹران بیک وقت میں کہیں بھی کسی بھی جگہ پر موجود ہو سکتے ہیں اور یہ ان الیکٹران کی دو ایٹموں کے درمیان شراکت داری ہی ہے جس نے ہمارے جسم کے سالموں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ کوانٹم نظریئے کے بغیر ہمارے جسم کے ایٹم اور سالمات فی الفور تحلیل ہو جائیں گے۔

کوانٹم نظریئے کی اس مخصوص لیکن انتہائی عمیق خصوصیت (یعنی کہ سب سے زیادہ عجیب و غریب چیز وقوع پذیر ہونے کا امکان محدود ہے ) کا استحصال” ڈگلس ایڈم” (Douglas Adams) نے اپنی مزاحیہ ناول "دی ہیچ چکر س گائیڈ ٹو دی گیلیکسی ” (The Hitchhiker’s Guide to the Galaxy)  میں کیا۔ اس کو ایک کہکشاں میں تیزی سے گزرنا تھا لہٰذا اس نے ایک لامحدود بعید از قیاس ڈرائیو کو ایجاد کیا "ایک زبردست حیران کن تھکا دینے والی غلیظ اضافی خلاء کو استعمال کئی بغیر لمحوں میں بین النجم فاصلے طے کرنے کا بالکل نیا طریقہ۔ ” اس کی بنائی ہوئی مشین آپ کو اس قابل کر دیتی تھی کہ آپ اپنی مرضی سے کوانٹم واقعات کو تبدیل کر دیں اس طرح سے بہت زیادہ نا قابل اعتبار واقعات بھی عام واقعات بن جاتے تھے۔ لہٰذا اگر آپ قریبی نظام ہائے شمسی کی طرف جانا چاہتے ہیں تو آپ صرف امکان کو تبدیل کریں اور بتائیں کہ  آپ کس ستارے پر جانا چاہتے ہیں اور یہ لیں !!! آپ فی الفور وہاں پر منتقل کر دیئے گئے ہیں۔

حقیقت میں ایٹم کے اندر کوانٹم کی چھلانگیں بہت زیادہ عام ہیں لیکن ان کو بڑے اجسام مثلاً انسانوں پر آسانی سے لاگو نہیں کیا جا سکتا  جن میں کھرب ہا کھرب ایٹم موجود ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے جسم میں موجود ایٹم ناچتے اور چھلانگیں مارتے ہوئے اپنے مرکزے کے گرد حیرت انگیز سفر میں مصروف بھی رہیں تو کافی دوسرے ایٹم ایسے موجود ہوں گے جو ان کے اس اثر کو زائل کر دیں گے۔ یعنی ہم ایسا کہنے میں بالکل بجا ہیں کہ بڑے پیمانے پر چیزیں ٹھوس اور پائیدار اسی لئے نظر آتی ہیں کہ دوسرے ایٹم ان کوانٹم چھلانگوں کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔

لہٰذا دور دراز منتقلی کی ایٹمی پیمانے پر تو اجازت ہے لیکن بڑے پیمانے پر اس عجیب و غریب اثر کے وقوع پذیر ہونے اور اس کا مشاہدہ کرنے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ مگر کیا کوئی کوانٹم قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ایسی مشین بنا لے جس کے ذریعہ کسی بھی شئے کو اپنی مرضی سے دور منتقل کیا جا سکتا ہو جیسا کہ سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے ؟ حیرت انگیز طور پر اس کا جواب مثبت ہے۔

 

                ای پی آر کا تجربہ

 

کوانٹم دور دراز منتقلی کی کنجی اس مقالے میں موجود ہے جو ١٩٣٥ء میں البرٹ آئن سٹائن اور اس کے ساتھیوں جس میں "بورس پوڈول اسکائی” (Boris Podolsky)  اور” ناتھن روزن” (Nathan Rosen) شامل تھے پیش کیا۔ جس کا نام ای پی آر تجربہ تھا (اس کا نام تینوں مصنفین کے شروع کے ناموں کے حروف تہجی کو لے کر بنایا یعنی Einstein Podolsky Rosen ) اس مقالے کا مقصد ہمیشہ کے لئے طبیعیات میں سے امکانات کا خاتمہ کرنا تھا۔ کوانٹم نظریئے کی ناقابل تردید تجرباتی کامیابی پر ماتم کرتے ہوئے آئن سٹائن لکھتا ہے "کوانٹم کا نظریئے جتنا زیادہ کامیاب ہو گا اتنا زیادہ ہی مضحکہ خیز لگے گا۔ ”

اگر دو الیکٹران شروع میں ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر آئیں (وہ حالت جو "اتصال”[[Coherence کہلاتی ہے ) تو وہ موج جیسی "ہم وقت کاری” (Synchronization) کی حالت میں اس وقت بھی رہیں گے جب ان کے درمیان ایک طویل فاصلہ جدائی ڈال دے۔ اگرچہ وہ دو الیکٹران ایک دوسرے سے دور کچھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں لیکن اس وقت بھی ایک غیر مرئی شروڈنگر موج ان دونوں کو "حبل سری” (Umbilical Cord) کی طرح سے جوڑے ہوئے ہو گی۔ اگر کسی ایک الیکٹران میں کچھ تبدیلی ہو گی تو اس کی کچھ اطلاع فوراً ہی دوسرے الیکٹران کو ہو جائے گی۔ یہ” کوانٹم کا الجھاؤ” (Quantum Entanglement) کہلاتا ہے ، اس تصوّر میں وہ ذرّات جو ایک دوسرے کے ساتھ اتصال میں رہ کر تھر تھرا تھے ان میں کسی قسم کا گہرا رابطہ ہوتا ہے جو ان کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔

اس کو سمجھنے کے لئے چلیں ان دو اتصالی الیکٹران سے شروع کرتے ہیں جو ہم آہنگی کے ساتھ جھول رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان کو مخالف سمتوں میں بھگا دیتے ہیں۔ ہر الیکٹران ایک گھومتے ہوئے لٹو کی طرح ہے۔ ہر الیکٹران کا گھماؤ اوپر یا نیچے کی جانب کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ اس نظام کا مکمل گھماؤ صفر ہے لہٰذا اگر ایک الیکٹران کا گھماؤ اوپر کی جانب ہو گا تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دوسرے الیکٹران کا گھماؤ نیچے کی جانب ہونا چاہئے۔ کوانٹم نظریئے کے مطابق اس گھماؤ کو ناپنے سے پہلے ، وہ الیکٹران نہ تو اوپر کی طرف گھوم رہا ہو گا نہ ہی نیچے کی طرف بلکہ وہ ایک ایسی حالت میں ہو گا جس میں وہ اوپر نیچے دونوں اطراف میں بیک وقت گھوم رہا ہو گا۔ (ایک دفعہ اگر آپ نے اس کا مشاہدہ کر لیا، موجی فعل منہدم ہو جائے گا اور ذرّہ ایک معین حالت میں آ جائے گا۔ )

اگلا مرحلہ الیکٹران کے گھماؤ کو ناپنے کا ہے۔ فرض کریں کہ ایک الیکٹران اوپر کی طرف گھوم رہا ہے تو فوری طور پر آپ کو دوسرے الیکٹران کا معلوم ہو جائے گا کہ وہ نیچے کی جانب گھوم رہا ہو گا۔ اب اگر ان الیکٹرانوں کو آپس میں کئی نوری برس دور پر کر دیا جائے تو آپ اس دور والے الیکٹران کے گھماؤ کو پہلے والے الیکٹران کے گھماؤ کو ناپنے کے ساتھ ہی معلوم کر سکتے ہیں۔ در حقیقت آپ کو یہ بات روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ دونوں الیکٹران اتصالی ہیں یعنی ان کا موجی فعل ایک ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا رہا ہے ، ان کا موجی فعل ایک غیر مرئی دھاگے یا حبل سری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک پر جو گزرے گی دوسرے پر اس کا اثر خود کار طریقے سے ہو گا۔ (اس کا مطلب ایک طرح سے یہ بھی ہوا کہ ہم پر جو گزرتی ہے یہ بات خود بخود فی الفور کائنات کے دور دراز مقام پر بھی اثر انداز ہوتی ہو گی کیونکہ شاید ہمارا موجی فعل وقت کی شروعات سے حالت اتصال میں ہے۔ ایک طرح سے اتصال کا ایک جال کائنات میں پھیلا ہوا ہے جو کائنات کے دور دراز کے مقامات کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے جس میں ہم بھی شامل ہیں۔ ) آئن سٹائن اس کا مذاق "دور دراز میں پراسرار عمل” (Spooky-action-at-distance) کہہ کر اڑاتا تھا اور یہ ہی وہ مظہر تھا جس نے آئن سٹائن کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریئے کو غلط سمجھے۔ کیونکہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی۔

آئن سٹائن کے ای پی آر تجربے کا مقصد کوانٹم نظریئے کو ہمیشہ صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ لیکن ١٩٨٠ء میں "ایلن اسپیکٹ” (Alan Aspect) اور ان کو رفقائے کاروں نے فرانس میں اس تجربے کو دو سراغ رساں آلات کے ذریعہ کیا جو ایک دوسرے سے تیرا میٹر کے فاصلے پر رکھے ہوئے تھے۔ اس میں انہوں نے کیلشیم کے ایٹموں سے خارج ہونے والے فوٹون کے گھماؤ کو ناپا۔ اس تجربے کا نتیجہ ہو بہو کوانٹم نظریئے سے ہم آہنگ نظر آیا۔ ایسے نظر آنے لگا جیسے خدا کائنات سے پانسوں سے کھیل رہا ہو۔

کیا اطلاعات واقعی روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہیں ؟کیا آئن سٹائن روشنی کے رفتار کے بارے میں غلط تھا جس میں وہ اس رفتار کو کائنات میں موجود کسی بھی چیز کی رفتار سے تیز سمجھتا تھا ؟ ایسا نہیں ہے۔ اطلاعات سریع از نور رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہیں لیکن یہ اطلاعات بے ربط اور ناقابل استعمال ہوں گی۔ ہم کوئی معنی خیز اطلاع یا مورس کا ضابطہ  (فصلوں یا ان کے مماثل آوازوں یا اشاروں کا نظام جو اشاراتی پیغام رسانی میں استعمال ہوتا ہے ) اس ای پی آر تجربے کے ذریعہ نہیں بھیج سکتے چاہے وہ اطلاع روشنی کی رفتار سے تیز ہی کیوں نا ہو۔

یہ اطلاع کہ کائنات کے دوسری جانب موجود الیکٹران کا گھماؤ نچلی طرف ہے ، ہمارے لئے بیکار ہو گی۔ ہم اس کے ذریعہ آج کے بازار حصص کی قیمتیں نہیں بھیج سکتے۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں، فرض کریں کہ ایک دوست ہمیشہ ایک لال اور ایک سبز جرابیں کبھی ایک پیر میں تو کبھی دوسرے پیر میں پہنتا ہے۔ فرض کریں کہ آپ اس کا ایک پیر دیکھتے ہیں جس میں اس نے سرخ جراب پہن رکھی ہے اس کے ساتھ ہی آپ کو روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گا کہ دوسرا موزہ ہرا ہے۔ اطلاع نے اصل میں روشنی کی رفتار سے تیز سفر کیا ہے لیکن یہ اطلاع بیکار ہے۔ کوئی بھی ایسی اطلاع جو بے ترتیب ہو اس کو اس طریقے سے نہیں بھیجا جا سکتا۔

کافی برسوں تک ای پی آر کے تجربے کی کامیابی کا ڈھول کوانٹم نظریئے کے مخالفین کے سامنے پیٹا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کا کوئی عملی کام نہیں ہے۔ سردست تو ایسا ہی ہے۔

 

                کوانٹم دور دراز منتقلی

 

١٩٩٣ء سے بہت کچھ اس وقت بدل گیا جب آئی بی ایم کے سائنس دانوں نے "چارلس بینیت ” (Charles Bennett)  کی سرکردگی میں اس بات کو ثابت کیا کہ کم از کم جوہری پیمانے پر ای پی آر تجربے کو دہراتے ہوئے جسمانی طور پر اشیاء کو دور دراز طور پر منتقل کرنا ممکن ہے۔ (اس بات کو زیادہ درست طور پر ایسا کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ تمام اطلاعات جو ذرّہ میں موجود ہیں ان کو دور دراز منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ) تب سے طبیعیات دان فوٹون کو بلکہ سیزیم کے پورے ایٹموں کو دور دراز منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے چند عشروں میں سائنس دان پہلا ڈی این اے کا سالمہ اور جرثومے کو دور دراز منتقل کر نے کے قابل ہو جائیں۔

کوانٹم دور دراز منتقلی ای پی آر تجربے کی کچھ عجیب و غریب خواص سے استفادہ اٹھاتی ہے۔ اس دور دراز منتقلی کا تجربہ طبیعیات دان دو ایٹموں سے شروع کرتے ہیں جن کو ہم الف اور ج کہہ سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ ہم اطلاع کو الف سے لے کر ج تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک تیسرے ایٹم ب سے شروع کرنا ہو گا۔ اس ب ایٹم کو ج ایٹم کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہو گا تاکہ ب اور ج دونوں مربوط ہو جائیں۔ اب ایٹم الف ب کے ساتھ اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔ الف، ب کا معائنہ کرتا ہے تاکہ الف میں موجود اطلاع ب میں منتقل ہو جائے۔ اس عمل میں الف اور ب ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیونکہ شروع میں ب اور ج ہم آہنگ تھے اس لئے الف میں موجود اطلاع اب ج میں موجود ایٹم میں منتقل ہو جاتی ہے۔ مختصراً طور پر ایٹم الف ایٹم ج میں منتقل ہو جاتا ہے یعنی کہ الف میں موجود اطلاع اب ج میں موجود اطلاع کے برابر ہو گئی ہے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ ایٹم الف میں موجود اطلاع ختم ہو گئی (لہٰذا منتقلی کے بعد ہمارے پاس اطلاع کی دو نقول موجود نہیں ہوں گی ) ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بھی دور دراز منتقل ہو گا اس کو اس عمل میں ختم ہونا ہو گا۔ لیکن اس کے جسم میں موجود اطلاعات کہیں دوسری جگہ پر ظاہر ہو جائیں گی۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے ایٹم الف اپنی جگہ بدل کر ایٹم ج کی طرف نہیں چلا جائے گا۔ یہ تو ایٹم الف میں موجود اطلاع ہو گی (مثلاً اس کا گھماؤ اور تقطیب[Polarization] ) جو ج کو منتقل ہو گی۔ ( اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایٹم الف تحلیل ہو کر کسی دوسری جگہ پر بھیج دیا جائے گا بلکہ اس کا مطلب ہو گا کہ ایٹم الف میں موجود اطلاع ایک اور ایٹم ج میں منتقل ہو جائے گا۔ )

اس دریافت کے اعلان کے بعد سے اس میدان میں ہونے والا مقابلہ انتہائی سخت ہو گیا تھا اور مختلف سائنس دانوں کی جماعتیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔ سب سے پہلی تاریخی کوانٹم دور دراز منتقلی ١٩٩٧ء میں یونیورسٹی آف انسبرک میں ہوئی جس میں بالائے بنفشی فوٹون کو دور دراز منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے سال ہی کیلٹیک میں زیادہ درستگی کے ساتھ ایک تجربہ کیا گیا جس میں فوٹونوں کو دور دراز منتقل کیا گیا۔

٢٠٠٤ء میں یونیورسٹی آف ویانا کے طبیعیات دانوں نے روشنی کے ذرّے کو چھ سو میٹر دریائے ڈینیوب کے نیچے سے فائبر –آپٹکس تاروں کے ذریعہ منتقل کر کے ایک نیا ریکارڈ بنا لیا تھا۔ (یہ تار بذات خود آٹھ سو میٹر لمبی تھی اور عوامی نکاسی نالے میں ڈالی گئی تھی جو دریائے ڈینیوب کے نیچے موجود تھا۔ بھیجنے والا اس کے ایک سرے پر کھڑا تھا۔ جبکہ وصول کنندہ دوسرے حصے پر موجود تھا۔

ان تجربات کو اکثر یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس میں روشنی کے ذرّے استعمال کئے گئے ہیں۔ جو سائنسی قصوں سے کہیں دور ہیں۔ لہٰذا جب ٢٠٠٤ء میں کوانٹم دور دراز منتقلی روشنی کے ذرّوں کے بجائے ایٹموں پر کی گئی تو یہ ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا جو ہمیں مستقبل کے کسی بھی دور دراز آلے کی جناب نزدیک کر رہا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈس اینڈ ٹیکنالوجی کے طبیعیات دانوں نے کامیابی کے ساتھ  بیریلیئم کے تین ایٹموں کو آپس میں الجھا کر ایک ایٹم کے خصائص دوسرے ایٹم میں منتقل کر دیئے تھے۔ یہ تجربہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ اس نے نیچر میگزین کے سرورق پر جگہ بنائی۔ دوسرے ایک اور گروپ نے بھی کامیابی کے ساتھ کیلشیم کے ایٹموں کو دور منتقل کر دیا تھا۔

٢٠٠٦ء میں ایک اور نہایت ہی شاندار پیش قدمی ہوئی جس میں پہلی دفعہ کسی بڑی شئے کا استعمال کیا گیا تھا۔ کوپن ہیگن میں واقع نیلز بوہر انسٹیٹیوٹ اور جرمن میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں طبیعیات دان روشنی کی کرن کو سیزیم کی گیس کے ایٹموں کے ساتھ اتصال کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس میں کھرب ہا ایٹم شامل تھے۔ پھر انہوں نے اطلاعات کو لیزر کی ضربوں میں منتقل کر کے اس اطلاع کو آدھے گز کے فاصلے پر سیزیم کے ایٹموں میں منتقل کر دیا۔ "یوجین پولزک” (Eugene Polzik) جو دور دراز منتقلی پر کرنے والی تحقیق کرنے والوں میں سے ایک ہیں انہوں نے کہا، ” پہلی دفعہ کوانٹم دور دراز منتقلی روشنی – جو اطلاعات کو لے کر جا رہی تھی – اور ایٹموں کے درمیان حاصل کر لی گئی ہے۔ ”

 

                الجھاؤ کے بغیر دور دراز منتقلی

 

دور دراز منتقلی میں پیش قدمی کافی اسراع پذیر ہے۔ ٢٠٠٧ء میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کر لیا گیا۔ طبیعیات دانوں نے ایک ایسا دور دراز منتقلی کا طریقہ پیش کر دیا جس میں الجھاؤ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوانٹم دور دراز منتقلی کے عمل میں الجھاؤ ہی سب سے مشکل عمل ہے۔ اس مسئلہ کا حل دور دراز منتقلی میں نئے دریچے کھول سکتا ہے۔

"ہم روشنی کی اس شعاع کی بات کر رہے ہیں جو لگ بھگ ٥ ہزار ذرّوں پر مشتمل ہے جو ایک جگہ سے غائب ہو کر کہیں بھی دوسری جگہ حاضر ہو جاتے ہیں۔ "برسبین، آسٹریلیا میں واقع آسٹریلین ریسرچ کونسل سینٹر آف ایکسیلنس فار کوانٹم ایٹم آپٹکس کے طبیعیات دان "ایسٹون بریڈلی” (Aston Bradley) نے یہ بات کہی۔ جنہوں نے اس نئے سرکردہ دور دراز منتقلی کے طریقے میں مدد کی ہے۔

” ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری اسکیم اصل خیالی نظریئے سے اپنی روح میں کافی قریب ہے۔ ” انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا۔ ان کے طریقے میں، وہ اور ان کے رفقائے کار روبیڈیم ایٹموں کی شعاع کو لے کر اس میں موجود تمام اطلاعات کو لے کر روشنی کی شعاع میں بدلتے ہیں ، پھر اس روشنی کی شعاع کو فائبر آپٹک تاروں کے ذریعہ بھیجتے ہیں اور پھر اصل روشنی کی شعاع کے ایٹموں کو دور دراز مقام پر دوبارہ بنا لیتے ہیں۔ اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو یہ طریقہ دور دراز منتقلی کے راستے میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کر دے گا اور بڑھتے ہوئے اجسام کی دور دراز منتقلی کے بالکل نئے دریچے کھول دے گا۔

اپنے اس طریقے کو کوانٹم دور دراز منتقلی سے ممتاز کرنے کے لئے  ڈاکٹر بریڈلی اس کو "مستند دور دراز منتقلی ” (Classical Teleportation) کہتے ہیں۔ (یہ بات تھوڑا سا مغالطے میں ڈالنے والا ہے ، کیونکہ یہ طریقہ بھی کافی حد تک کوانٹم نظریئے کی بنیاد پر ہے بجز اس کے کہ اس کی بنیاد الجھاؤ پر نہیں ہے۔ )

اس نئے اور انوکھے دور دراز منتقلی کے طریقے کی کنجی ایک مادّے کی نئی حالت ہے جس کو ” بوس آئن سٹائن تکاثف” (Bose Einstein Condensate) یا بی ای سی کہتے ہیں جو پوری کائنات کا سب سے سرد مادّہ ہے۔ قدرتی طور پر سب سے زیادہ سرد درجہ حرارت مطلق صفر سے ٣ کیلون اوپر ہے۔ (اس کی وجہ بگ بینگ کے دھماکے کی بچی ہوئی حرارت ہے۔ جو کائنات میں ابھی بھی پائی جاتی ہے۔ ) مگر ایک بی ای سی ایک ڈگری کے دس لاکھ سے لے کر ایک ارب حصّے تک صفر درجہ حرارت سے اوپر ہو سکتا ہے ، یہ ایک ایسا درجہ حرارت ہے جو صرف تجربہ گاہوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ )

جب کچھ مخصوص مادوں کو مطلق صفر کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو ان کے ایٹم سب سے نچلے درجے تک پر شکستہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے تمام ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مربوط یا اتصالی حالت میں آ جاتے ہیں۔ تمام ایٹموں میں موجود موجی فعل ایک دوسرے پر چڑھ جاتا ہے لہٰذا ایک طریقے سے ایک بی ای سی عظیم دیو ہیکل بڑا ایٹم بن جاتا ہے جس میں شامل تمام ایٹم مل کر ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا تھے ہیں۔ مادّے کی اس عجیب اور انوکھی حالت کی پیشن گوئی  آئن سٹائن اور” ستیاندر ناتھ بوس” (Satyendrnath Bose) نے ١٩٢٥ میں کر دی تھی، مگر اس کو بننے میں مزید ٧٠ سال لگے اور آخر کار یونیورسٹی آف کولوراڈو میں واقع ایم آئی ٹی کی لیب میں ١٩٩٥ء اس کو بنا لیا گیا۔

اب ہم بتاتے ہیں کہ بریڈلی اور اس کے ساتھیوں کا بنایا ہوا دور دراز منتقلی ی آلہ کیسے کام کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ روبیڈیم کے سرد ترین ایٹموں کی ایک جماعت کو بی ای سی حالت میں لیتے ہیں۔ پھر وہ ایک مادّے کی شعاع کو بی ای سی پر مارتے ہیں (یہ شعاع بھی روبیڈیم ایٹموں سے بنی ہوتی ہے ) ۔ شعاع میں شامل ایٹم بھی پر شکستہ حالت میں توانائی کے سب سے نچلے درجے میں آنا چاہتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی زائد توانائی کو روشنی کے ارتعاش کی صورت میں بہا دیتے ہیں۔ یہ روشنی کی شعاع فائبر آپٹیکل تار کے ذریعہ بھیج دی جاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر روشنی کی وہ شعاع اپنے اندر وہ تمام کوانٹم کی اطلاعات محفوظ رکھتی ہے جو اصل مادّے کی شعاع کو بیان کر سکے۔ (مثلاً تمام ایٹموں کا مقام اور سمتی رفتار) ۔ اس کے بعد روشنی کی شعاع ایک اور بی ای سی سے ٹکراتی ہے ، جو روشنی کی شعاع کو اصلی مادّے کی شعاع میں بدل دیتی ہے۔

یہ نیا دور دراز منتقلی کا طریقہ شاندار وعید لے کر آیا ہے کیونکہ یہ ایٹموں کی الجھاؤ والی چیز کا استعمال نہیں کرتا۔ مگر اس طریقہ میں کچھ مسائل بھی ہیں۔ اس کا سارا دارومدار ر بی ای سی کی خصوصیت پر ہے جن کو تجربہ گاہ میں بھی بنانا مشکل ہوتا ہے۔ مزید براں یہ کہ بی ای سی کے خصائص  بہت ہی مخصوص ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایسا برتاؤ کرتی ہے کہ جیسے وہ ایک ہی ایٹم ہو۔ اصولی طور پر کوانٹم کا عجیب و انوکھا برتاؤ جو ہم ایٹمی پیمانے پر دیکھتے تھے اب خالی آنکھ سے بی ای سی کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ بات ناممکن سمجھی جاتی تھی۔

بی ای سی کا فوری استعمال ایٹمی پیمانے کی لیزر میں ہو سکتا ہے ، ظاہر ہے جس کی بنیاد ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر ا تھے ہوئے فوٹون کی مربوط شعاعیں ہی ہوں گی۔ مگر بی ای سی ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہوئے ایٹموں کی جماعت ہے ، لہٰذا یہ بات بھی ممکن ہے کہ ایک ایسی بی ای سی ایٹموں کی شعاع بنائی جا سکے جو سب کی سب مربوط ہوں۔ دوسرے الفاظ میں، ایک بی ای سی لیزر کی نقل بنا سکتی ہے ، جس کو ہم ایٹمی لیزر یا مادّے کی لیزر کہہ سکتے ہیں۔ لیزر کا تجارتی استعمال بہت ہی زبردست ہو گا اور ایٹمی لیزر سے بنی ہوئی تجارتی اشیاء میں بھی ایسا گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ مگر کیونکہ بی ای سی صرف اس درجہ حرارت پر بنائی جا سکتی ہے جو مطلق صفر سے تھوڑا سے اوپر ہو لہٰذا اس میدان میں پیش رفت ہرچند متوازی مگر پھر بھی  کافی آہستہ ہے۔

اس میدان میں اب تک کی ہوئی پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کب تک ہم اپنے آپ کو دور دراز منتقل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ؟ طبیعیات دان سمجھتے ہیں اور پر امید ہیں کہ آیندہ آنے والے سالوں میں وہ پیچیدہ سالموں کو دور دراز منتقل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ اگلی ایک دہائی میں مکمل ہو سکتا ہے جس میں کسی ڈی این اے یا پھر کسی جرثومے کو دور دراز منتقل کیا جا سکے گا۔ نظریاتی طور پر سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جانے والی انسانوں کی دور دراز منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، لیکن در حقیقت اس قسم کے کارنامے کو انجام دینے میں فنی مسائل بہت ہی زیادہ ہیں۔ دنیا میں موجود سب سے اچھی تجربہ گاہیں بھی ابھی صرف ننھے روشنی کے فوٹون اور انفرادی ایٹموں کو مربوط کر پائی ہیں۔ کوانٹم مربوطیت بڑے اجسام جیسے حضرت انسان میں پیدا کرنے کا سوال آنے والی کافی عرصے تک پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اصل میں اگر روز مرہ کی چیزوں کو دور منتقل کرنا ممکن ہو تو بھی اس کام میں کئی صدیاں یا پھر اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

 

                کوانٹم کمپیوٹر ز

 

نیوبیکوانٹم دور دراز منتقلی کے مقدر کے ساتھ ہی کوانٹم کمپیوٹر ز میں ہونے والی پیش رفت کی قسمت جڑی ہوئی ہے۔ دونوں کوانٹم کی طبیعیات اور ایک ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ دونوں میدانوں کے درمیان زبردست اخصاب  (Fertilization) موجود ہے۔ کوانٹم کمپیوٹر ز ایک دن ہماری میزوں پر رکھے ہوئے ڈیجیٹل کمپیوٹر ز سے بدل دیے جائیں گے۔ حقیقت میں مستقبل میں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دنیا کی معیشت اس طرح کے کمپیوٹرز پر انحصار کر رہی ہو گی، لہٰذا اس طرح کی ٹیکنالوجی میں زبردست قسم کے تجارتی مفاد چھپے ہیں۔ ایک دن سلیکان ویلی، زنگ آلود پٹی  بن جائی گی جو کوانٹم کمپیوٹنگ سے نمودار ہوئی ٹیکنالوجی سے بدل چکی ہو گی۔

عام کمپیوٹر ثنائی نظام پر کام کرتا ہے جو ایک اور صفر پر مشتمل ہوتا ہے ، جن کو بٹس کہتے ہیں۔ مگر کوانٹم کمپیوٹر اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ کیو بٹس پر کام کرتے ہیں جو صفر اور ایک کی مقدار کے درمیان کی قدریں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ذرا ایک ایسے ایٹم کا تصوّر کریں جو کسی مقناطیسی میدان میں رکھا ہوا کسی لٹو کی طرح گھوم رہا ہے اس کا محور یا تو اوپر یا نیچے دونوں جانب ہو سکتا ہے۔ عقل عامہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایٹم کا گھماؤ یا تو اوپر کی جانب یا پھر نیچے کی جانب ہو سکتا ہے مگر دونوں جانب ایک ساتھ نہیں ہو سکتا۔ مگر کوانٹم کی عجیب و غریب دنیا میں، ایٹم کو دونوں حالتوں کو جمع کر کے بیان کیا جا سکتا ہے یعنی اوپر اور نیچے دونوں کی جانب کے گھماؤ  کو جمع کر کے بتایا جا سکتا ہے۔ کوانٹم کی زیریں دنیا میں، ہر جسم کو تمام حالتوں کو جمع کر کے بیان کیا جا سکتا ہے۔ (اگر بڑے جسم مثلاً بلی کو کوانٹم میں بیان کیا جائے گا  تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ نے زندہ بلی کے موجی فعل اور مردہ بلی کے موجی فعل دونوں کو جمع کر کے بیان کیا ہو گا، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ بلی نہ زندہ ہو گی نہ ہی مردہ۔ اس کو مزید تفصیل سے تیرہویں باب میں بیان کیا جائے گا۔ )

اب ایک ایسی ایٹمی رسی کا تصور کریں جو مقناطیسی میدان میں ایک صف میں کھڑی ہے ، جس میں ایٹموں کا گھماؤ کسی ایک طرف ہوا ہے۔ اگر لیزر کی شعاع اس ایٹم کی رسی پر ماری جائے گی تو وہ ان ایٹموں کی جماعت سے ٹکرا کر واپس آ جائے گی۔ اس سارے عمل میں کچھ ایٹموں کے محور کا گھماؤ تبدیل ہو جائے گا۔ آنے اور جانے والی لیزر کی شعاع کو ناپنے سے ہم ایک پیچیدہ کوانٹم حسابی عمل انجام دے چکے ہیں جس میں کئی گھماؤ کی تبدیلیوں کو ناپنا شامل ہے۔

کوانٹم کمپیوٹر ابھی تک اپنے ابتدائی دور میں ہیں۔ اب تک کا ورلڈ ریکارڈ جو کوانٹم کمپیوٹر نے بنایا ہے وہ ٣ * ٥ = ١٥ کا ہے ، ایک ایسا حسابی عمل جو شاید ہی آج کے دور کے بڑے کمپیوٹر ز کی جگہ لے سکے۔ کوانٹم دور دراز منتقلی اور کوانٹم حساب دونوں میں ایک مشترکہ مہلک کمزوری ہے : ایک بڑے ایٹموں کے گروہ میں مربوطی کو قائم رکھنا۔ اگر کسی طرح سے یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں میدانوں میں یہ ایک انقلابی دریافت ہو گی۔

سی آئی اے اور دوسرے خفیہ ادارے کوانٹم کمپیوٹر ز میں زبردست دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا کے رازوں کی اکثریت میں ایک خفیہ کنجی ہوتی ہے جو ایک بہت ہی” بڑا عدد صحیح” (Large Integer) ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ کسی کو تقسیم کر کے مفرد عدد کو نکلنا ہوتا ہے۔ اگر وہ کنجی کسی دو نمبروں سے بنی ہو، جس میں ہر ایک سو اعداد پر مشتمل ہو تو ایک عددی کمپیوٹر کو اس کو حل کرنے کے لئے ایک سو برس سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ ایسا کوئی بھی رمز آج کے دور میں توڑا نہیں جا سکتا۔

١٩١٤ء میں بیل لیب کے "پیٹر شور” (Peter Shor) نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کسی بھی بڑے نمبر کو توڑنا کوانٹم کمپیوٹر کے لئے بچوں کا کھیل ہے۔ اس دریافت نے جلد ہی خفیہ اداروں۔ نظری طور پر کوانٹم کمپیوٹر دنیا کے تمام رمزوں کو توڑ سکتے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹرز سے دور حاضر کے کمپیوٹر ز کے مروجہ نظام کی سیکیورٹی کو مکمل خطرہ لاحق ہے۔ دنیا کا پہلا ملک جس نے اس قسم کا نظام بنا لیا وہ دوسری اقوام اور اداروں کے راز حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

کچھ سائنس دانوں کو اس بات کی پوری امید ہے کہ مستقبل میں دنیا کی معیشت کا سارا دارو مدار ان کوانٹم کمپیوٹر ز پر ہو گا۔ اس بات کا کافی امکان ہے کہ سلیکان کی بنیاد پر بننے والے کمپیوٹر ز اپنی حسابی استعداد کی آخری طبیعیاتی حد تک ٢٠٢٠ء میں پہنچ جائیں گے۔ اگر ہم ٹیکنالوجی کو مزید آگے تک لے کر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں نیا مزید طاقتور کمپیوٹر لازمی طور پر درکار ہو گا۔ کچھ لوگ انسانی دماغ جیسی قوّت  کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ حاصل کرنے کی تلاش میں بھی ہیں۔

ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اگر ہم اتصال کا مسئلہ حل کر لیں تو نا صرف ہم دور دراز منتقلی کے مسائل پر قابو پا لیں گے بلکہ ہم ہر قسم کی ٹیکنالوجی میں نا قابل تصوّر طریقوں سے کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ آگے بڑھ سکیں گے۔ یہ دریافت اس قدر اہم ہو گی کہ میں اس پر دوبارہ اگلے ابواب میں بات کروں گا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، ایٹموں کو آپس میں مربوط رکھنا تجربہ گاہ میں بھی قائم رکھنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی تھر تھرا ہٹ بھی دو ایٹموں کے باہم ربط کو خراب کر کے حساب کتاب کے عمل کو تباہ کر سکتی ہے۔ آج کے دور میں صرف کچھ ایٹموں میں ہی مربوطی کیفیت کو قائم رکھنا بھی انتہائی مشکل کام ہے۔ جو ایٹم نینو سیکنڈوں میں غیر مربوط ہو جاتے تھے اب ان کی مربوطی کا وقت بڑھ کر ایک سیکنڈ تک ہو گیا ہے۔ دور دراز منتقلی کو نہایت تیزی کے ساتھ ایٹموں کے دوبارہ غیر مربوط ہونے سے پہلے مکمل ہونا ہو گا۔ بس یہی ایک ایسی بات ہے دور دراز منتقلی اور کوانٹم حسابی عمل پر  پابندی لگا دیتی ہے۔

ان تمام تر چیلنجز کے باوجود، آکسفورڈ یونیورسٹی میں کام کرنے والے "ڈیوڈ  ڈویچے ” (David Deutsch) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ مسائل حل کر لئے جائیں گے : حالیہ نظری پیش رفت اور قسمت کے بھروسے  (ایک کوانٹم کمپیوٹر کو) بننے میں کم از کم پچاس برس کا عرصہ لگے گا۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک بالکل ہی نیا طریقہ ہو گا جس کے ذریعہ قدرت کو انضباط کیا جا سکے گا۔ ”

ایک کارآمد کوانٹم کمپیوٹر کو بنانے کے لئے ہمیں سینکڑوں سے لے کر دسیوں لاکھ ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھراتے ہوئے درکار ہوں گے جو ہماری موجودہ قابلیت اور بساط سے کہیں زیادہ ہے۔ کپتان کرک والی دور دراز منتقلی تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہمیں کپتان کرک کے جڑواں کے ساتھ کوانٹم الجھاؤ پیدا کرنا ہو گا۔ نینو ٹیکنالوجی اور جدید کمپیوٹر کے ساتھ بھی ایسا کرنا نہایت ہی مشکل نظر آتا ہے۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دور دراز منتقلی ایٹمی پیمانے پر تو موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم پیچیدہ اور نامیاتی مادّے بھی آنے والی کچھ دہائیوں میں دور منتقل کر سکیں۔ لیکن بڑے اجسام کو حقیقت میں اگر دور دراز منتقل کرنا ممکن بھی ہوا تو اس کے لئے ہمیں آنے والی کئی دہائیوں سے لے کر صدیوں یا اس سے بھی زیادہ تک کا انتظار کرنا ہو گا۔ لہٰذا پیچیدہ سالموں بلکہ وائرس یا زندہ خلیہ کی دور دراز منتقلی  جماعت "I” کی ناممکنات میں شامل ہے جو شاید اسی صدی تک ممکن ہو جائے۔ اگرچہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے انسان کی دور دراز منتقلی  تو ممکن ہے لیکن ایسا ہونا واقعی ممکن بھی ہوا تو بھی اس کام میں کئی صدیاں لگ جائیں گی۔ لہٰذا اس قسم کی دور دراز منتقلی کو میں جماعت "II” کی ناممکنات میں شامل کروں گا۔

 

 

 

 

5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی

(Telepathy)

 

اگر پورے دن آپ کا سامنا کسی نئی چیز سے نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دن بیکار گیا۔
جان وہیلر (John Wheeler)
خلاف قیاس عمل کرنے والے ہی ناممکنات کو حاصل کریں گے۔
ایم سی ایسچر (M.C Escher)

 

"اے ای وین ووگٹ ” (E.A Van Vogt) کے ناول "سلان” (Slan) نے ہمارے خیال خوانی سے جڑے ڈر کو بہت ہی زبردست طریقے سے اپنا موضوع بنایا ہے۔

” جامی کراس” (Jommy Cross)  اس ناول کا ہیرو ایک” سلان” ہوتا ہے جس کا تعلق ایک معدوم ہوتی ہوئی انتہائی ذہانت والی خیال خواں  نسل سے ہوتا ہے۔

ناول میں اس کے والدین کو بے رحمی کے ساتھ غیض و غضب سے بھرے انسانوں کا وہ مجمع قتل کر دیتا ہے  جو تمام خیال رسانوں سے اس لئے خوف کھاتا اور نفرت کرتا تھا کہ سلانوں کی یہ شاندار طاقت انسانوں کی ذاتی زندگی میں ان کے بے تکلف خیالات میں دخل در معقولات کر سکتی تھی۔ ناول میں انسان بے رحمی کے ساتھ سلان کا جانوروں کی طرح سے شکار کر تے ہیں۔ سر میں سے نکلتی ہوئی بیل سوت کی وجہ سے سلان کو پہچانا بہت ہی آسان تھا۔ ناول کی کہانی کے دوران، جامی دوسرے سلانوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ممکنہ طور پر انسانوں کے اس بے رحم شکار سے تنگ آ کر خلاء میں فرار ہو گئے تھے۔

تاریخی طور پر دماغ شناسی اس قدر اہم رہی ہے کہ اکثر اس کا تعلق دیوتاؤں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی بھی دیوتا کی بنیادی طاقتوں میں سے ایک دماغ کو پڑھنا تھا تاکہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کر سکیں۔ دماغوں کو اپنی مرضی کے مطابق پڑھنے والا ایک خیال خواں آسانی کے ساتھ کرۂ ارض کا طاقتور ترین شخص بن سکتا ہے۔ ایک ایسا شخص کسی بھی وال اسٹریٹ بینکر کے دماغ میں داخل ہو کر یا اس کو حریف سے جبراً بلیک میل کر کے صاحب ثروت بھی بن سکتا ہے۔ اس کا وجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ بغیر کوشش کیے کسی بھی قوم کے حساس قومی راز چرا سکتا ہے۔ سلان کی طرح اس سے بھی ڈرا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جائے۔

ایک سچے خیال رساں کی زبردست طاقت مشہور زمانہ سلسلے "فاؤنڈیشن” از” آئزک ایسی موف” (Issac Asimov) میں دکھائی گئی ہے۔ اس کی اکثر تشہیر سائنس فکشن کی طلسماتی دنیا کی سب سے عظیم کہانی کے طور پر کی جاتی ہے۔ کہانی میں ایک کہکشانی سلطنت جو کئی ہزار سال سے حکومت کر رہی تھی اب اپنے زوال و بربادی کے قریب تھی۔ خفیہ سائنس دانوں کی ایک جماعت جس کا نام سیکنڈ فاؤنڈیشن تھا اس نے پیچیدہ مساوات کا استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ سلطنت کی تہذیب زوال پذیر ہو کر آخر کار ٣٠ ہزار سال کے گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گی۔ سائنس دانوں نے مساوات کی بنیاد پر ایک مفصل منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا مقصد تہذیب کے زوال کو چند ہزار سال تک محدود رکھنا تھا۔ لیکن پھر ایک ناگہانی مصیبت نازل ہو گئی۔ ان کی مفصل مساوات بھی ایک اندازہ لگانے سے چوک گئی تھی۔ اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں ایک "تقلیبی” (Mutant) جو "خچر (Mule) ” کہلایا پیدا ہو گیا۔ یہ تقلیبی خچر دور دراز سے بیٹھ کر بھی دماغوں کو اپنے قبضے میں کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ نتیجتاً اس کے پاس وہ طاقت و صلاحیت آ گئی تھی جس سے وہ کہکشانی سلطنت پر بھی قبضہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اگر اس خیال خواں کو نہیں روکا جاتا تو کہکشاں کے مقدر میں ٣٠ ہزار سال کا انتشارو خلفشار لکھ دیا گیا تھا۔

اگرچہ سائنس فکشن خیال رسانی کی زبردست کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں مگر حقیقت کچھ زیادہ ہی تلخ ہے۔ خیالات ذاتی اور غیر مرئی ہوتے ہیں، لہٰذا اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدیوں سے بہروپئے اور ٹھگ ہم میں موجود سادہ لوح افراد کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ ایک سب سے آزمودہ ترکیب جو جادوگر اور دماغ پڑھنے ولے استعمال کرتے ہیں اس میں وہ اپنا ایک شریک کار سامعین میں گھسا دیتے ہیں۔ پھر اپنے اس شریک کار کا دماغ پڑھ کر وہ مجمع کو متاثر کرتے ہیں۔

کئی جادوگر اور دماغ پڑھنے والوں نے اپنا پیشہ مشہور زمانہ کرتب” ہیٹ ٹرک” سے شروع کیا۔ جس میں لوگ ذاتی پیغام ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر اس کو ٹوپی کے اندر ڈال دیتے تھے۔ اس کے بعد جادوگر سامعین کے پاس جا کر ان کو بتا تا ہے کہ انہوں نے کیا لکھا تھا جس سے ہر کوئی حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔ اس میں مغالطے کی حد تک سادہ مگر فطین ترکیب استعمال کی جاتی تھی۔ (مزید تفصیلات کے لئے حواشی ملاحظہ کیجئے )

ایک اور مشہور خیال خوانی واقعے میں انسان کے بجائے ایک جانور کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس ترکیب میں ایک حیرت انگیز گھوڑا جس کا نام "چالاک ہنز ” (Clever Hans) تھا اس کو استعمال کیا گیا تھا۔ اس گھوڑے نے یورپین تماش بینوں کو ١٨٩٠ء میں حیرت کے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔ چالاک ہنز تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے کے لئے پیچیدہ ریاضی کے حسابات حل کرنے کے کارنامے سرانجام دے سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر آپ چالاک ہنز سے ٤٨ کو ٦ سے تقسیم کرنے کا کہتے ، تو گھوڑا اپنے کھر کو آٹھ دفعہ زمین پر مارتا۔ چالاک ہنز حقیقت میں تقسیم، ضرب کسری جمع، اور الفاظ کے ہجے بھی کر سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ وہ تو موسیقی کی طرزوں کو بھی پہچان سکتا تھا۔ چالاک ہنز کے مداحوں نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ یا تو وہ انسانوں سے بھی زیادہ ذہین تھا یا پھر وہ خیال رسانی کے ذریعہ لوگوں کے دماغ سے نتیجے نکال لیتا تھا۔

مگر چالاک ہنز کسی فطین ترکیب کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس کی حساب لگانے کی شاندار صلاحیت نے اس کے تربیت کار کو بھی بے وقوف بنا دیا تھا۔ ١٩٠٤ء میں ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر "سی اسٹرف” (C. Strumpf)  اس گھوڑے کی جانچ کرنے کے لئے اپنے پاس لے کر آئے لیکن انہوں کسی بھی قسم کی چالاکی یا گھوڑے کو ہوتے ہوئے مخفی اشارے نہیں دیکھے۔ ان کے اس تجزیے سے عوام میں چالاک ہنز کی سحر انگیزی اور بڑھ گئی۔ تین سال کے بعد، اسٹرف کے ایک شاگرد ماہر نفسیات "آسکر فاسٹ” (Oskar Pfungst)  نے ایک اور با مشقت تجزیہ کیا اور آخر کار چالاک ہنز کے راز سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گیا۔ گھوڑا صرف اپنے تربیت کار کے چہرے کے انتہائی لطیف تاثرات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ گھوڑا اس وقت تک اپنا کھر زمین پر مارتا رہتا تھا جب تک اس کا تربیت کار اپنے چہرے کے تاثرات کو ہلکا سا بدل نہیں دیتا تھا۔ تاثرات کے بدلتے ہی وہ اپنا کھر زمین پر مارنا روک دیتا تھا۔ چالاک گھوڑا نہ تو حساب کتاب کر سکتا تھا نہ ہی لوگوں کے دماغ کو پڑھ سکتا تھا۔ وہ تو صرف ایک انتہائی چالاک لوگوں کے چہرے کے تاثرات کا مشاہدہ کرنے والا تھا۔

تاریخ میں دوسرے خیال خواں جانوروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ تاریخ میں سب سے پہلے ١٥٩١ء میں انگلستان میں ایک گھوڑا جس کا نام موروکو تھا اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس دور میں وہ گھوڑا بہت مشہور ہو گیا تھا اور اس نے اپنے مالک کی قسمت کھول دی تھی وہ تماشائیوں میں سے کسی بھی شخص کو پسند کرتا، حرف تہجی کی طرف اشارہ، اور پانسے پر موجود اعداد کو جمع بھی کر سکتا تھا۔ اس نے انگلینڈ میں ایک ایسی سنسنی پھیلا دی تھی کہ شیکسپیئر نے اس کو اپنے ڈرامے "لووز لیبرس لوسٹ ” میں بطور "رقاص گھوڑے ” کا کردار لکھ کر امر کر دیا۔

جواری بھی اکثر لوگوں کے دماغ کو کافی حد تک پڑھ لیا کرتے تھے۔ عام طور پر انسان جب بھی کوئی خوش ہونے والی چیز دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔ جبکہ اس کی آنکھ کی پتلیاں اس وقت سکڑ جاتی ہیں جب وہ کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو  (آنکھ کی پتلیاں اس وقت بھی سکڑ جاتی ہیں جب وہ ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کر رہا ہوتا ہے ) ۔ جواری اپنے سامنے بیٹھے مخالفوں کے چہروں پر ان کی آنکھوں میں جھانک کر اس کے سکڑنے اور پھیلنے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر جواری رنگین نقاب لگاتے ہیں تاکہ وہ اپنی آنکھوں کے تاثرات کو چھپا سکیں۔ آنکھوں پر لیزر کی شعاع کو مار کر بھی اس کے منعکس ہونے کی جگہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے کافی صحت کے ساتھ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص پر لیزر کی شعاع ماری گئی ہے وہ کہاں دیکھ رہا ہے۔ منعکس ہوئے لیزر کے نقطہ کا تجزیہ کر کے اس بات کا معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فاعل کس طرح سے تصویر کا معائنہ کر رہا ہے۔ ان دونوں ٹیکنالوجی کو ملا کر کسی چیز کا معائنہ کرتے ہوئے شخص کے جذباتی تاثرات اس کی بے خبری کی حالت میں معلوم کیے جا سکتے۔

 

                طبعی تحقیق

 

خیال رسانی اور بھوت پریت جیسے مظاہر کا پہلا باقاعدہ سائنسی طرز فکر سے مطالعہ سوسائٹی فار فزیکل ریسرچ نے کیا تھا جس کی بنیاد ١٨٨٢ء میں ڈالی گئی تھی۔ (اسی سال "دماغی خیال خوانی” کا نام "ایف ڈبلیو میئرس (F.W Mayers) ” نے رکھا جو اس سوسائٹی کے کارکن تھے۔ اس سوسائٹی کے ماضی کے صدور انیسویں صدی کی کچھ ممتاز شخصیات تھیں۔ اس سوسائٹی نے ، جو آج بھی اپنا وجود رکھتی ہے ، کئی دھوکے بازوں کے ڈھکوسلوں کا پردہ فاش کیا تھا لیکن پھر بھی اکثر اوقات  یہ سوسائٹی بھی اکثر دو حصّوں میں بٹ جاتی تھی جس میں سے ایک حصّہ روحانیت جیسے مظاہر پر کامل یقین رکھتا تھا جبکہ دوسرا سائنس دانوں پر مشتمل تھا جو ایسی چیزوں کا زیادہ سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔

سوسائٹی کے ایک محقق جن کا نام ڈاکٹر "جوزف بینکس رائن” (Joseph Banks Rhine) تھا انہوں نے منظم اور با مشقت روحی مظاہر کا مطالعہ ١٩٢٧ء میں امریکہ کی ریاست شمالی کیرولینا  میں واقع ڈیوک یونیورسٹی میں موجود رائن انسٹیٹیوٹ (جو اب رائن ریسرچ سینٹر کہلاتا ہے ) سے شروع کیا۔ کئی دہائیوں تک وہ اور ان کی بیوی، ” لوئسا” (Louisa) نے اپنی طرز کے کچھ اولین سائنسی طرز فکر  کے تجربات امریکہ میں موجود مختلف قسم کے ماورائے نفسیاتی مظاہر پر کیے اور اپنے طریقے اور اس سے حاصل کردہ نتائج کو  ہم رتبہ جائزے کے لئے مختلف رسائل میں شایع کروایا۔ یہ رائن ہی تھے جنہوں نے "خارج از حواس شعور ” (Extrasensory Perception) کی اصطلاح اپنی پہلی کتاب میں وضع کی تھی۔

اصل میں یہ رائن کی ہی تجربہ گاہ تھی جس نے نفسیات کی تحقیق کے معیار مقرر کیے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھ جن کا نام ڈاکٹر "کارل زنیر” (Karl Zener) تھا انہوں نے خیال خوانی کی طاقت جانچنے کے لئے ایک  "پنج نشانی گتے ” کا نظام وضع کیا جس کو اب ہم” زنیر کے گتے ” کے نام سے جانتے ہیں۔ نتیجوں کی اکثریت میں تو کسی بھی قسم کی خیال خوانی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ لیکن بہت ہی چھوٹی اور مختصر سی تعداد ان تجربوں کی بھی تھی جس میں انتہائی معمولی مگر قابل توجہ ہم ربطی مواد موجود تھا جس کو صرف اتفاق کہہ کر بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ان تجربات کو اکثر دوسرے محققین دہرا نہیں سکتے تھے۔

اگرچہ رائن کی کوشش تھی کہ اس کی شہرت ایک سخت گیر محقق کے طور پر رہے ، مگر اس کی شہرت پر اس وقت بٹا لگا جب اس کی ملاقات ایک گھوڑے سے ہوئی جس کا نام "لیڈی ونڈر "تھا۔ یہ گھوڑا خیرہ کناں قسم کے خیال خوانی کے کرتب دکھا سکتا تھا جیسا کہ حروف تہجی والے کسی کھلونا بلاک کو ہلانا، اور تماشائیوں کے ذہن میں موجود کسی الفاظ کے ہجے کرنا۔ بظاہر رائن کو چالاک ہنز کے ہنر کی معلومات نہیں تھیں۔ ١٩٢٧ء میں رائن نے لیڈی ونڈر کا کچھ تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا ” ایک انجانے عمل میں دماغی اثر سے منتقلی کو بیان کرنے کی صرف ایک خیال خوانی کی ہی وجہ باقی بچی ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں مل سکی جو اس نتیجے سے ہم آہنگ ہونے میں ناکام ہو  اور کوئی دوسرا مفروضہ بھی موجود نہیں ہے جو حاصل کردہ نتیجے کی روشنی میں اس کو بیان کر سکے۔ ” بعد میں "میلبرن کرسٹوفر” (Melbourne Christopher) نے لیڈی ونڈر کی خیال خوانی کا بھانڈا پھوڑا: انتہائی ہلکے چابک کے اثر لیڈی ونڈر کے کھر کو روکنے کے لئے  اس کا مالک استعمال کرتا تھا۔ (لیڈی ونڈر کی خیال خوانی کی اصلیت جاننے کے باوجود بھی، رائن اس بات پر مصر رہا کہ گھوڑے میں حقیقت میں خیال رسانی کی طاقت موجود تھی  لیکن بعد میں اس نے کسی طرح سے اپنی اس کو کھو دیا ہے۔ وہ اس کے مالک کو مجبور کرتا رہا کہ کسی طرح سے اس گھوڑے کی خیال رسانی کی قوّت کو دوبارہ لے آئے۔ )

رائن کی شہرت کو زبردست حتمی جھٹکا لگا تھا، بہرحال جب وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے ایک ایسے جانشین کی تلاش شروع کی جس کا نام بے داغ ہو اور وہ انسٹیٹیوٹ کے کام کو لے کر آگے چلے۔ ایک متوقع امیدوار ڈاکٹر "والٹر لیوی” (Walter Levy) تھے جن کو اس نے ١٩٧٣ء میں ملازم رکھا تھا۔ ڈاکٹر لیوی اس میدان میں ایک ابھرتا ہوا ستارا تھے جنہوں نے ایک ایسے سنسنی خیز تجربے کے نتیجوں کو بیان کیا تھا جس میں ایک چوہا خیال خوانی کے ذریعہ کمپیوٹر سے پیدا ہوئے بے ربط اعداد کو تبدیل کر سکتا تھا۔ بہرحال ایک تجربہ گاہ کے ایک شکی مزدور نے ڈاکٹر لیوی کو چوری چھپے رات کو تجربہ گاہ میں جاتا ہوا دیکھا جو رات کے اندھیرے میں نتیجوں کو تبدیل کر رہے تھے۔ ان کو نتیجوں کو تبدیل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ مزید جانچ سے پتا چلا کہ چوہے کے پاس کسی بھی قسم کی خیال خوانی کی کوئی طاقت نہیں تھی اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر لیوی کی بے عزتی کی گئی اور ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔

 

                خیال خوانی اور اسٹار گیٹ

                ٩١٤

 

مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپی نے سرد جنگ کے دوران زبردست زور پکڑا تھا جس کے دوران کافی خفیہ تجربات خیال خوانی، ذہن کو قابو کرنے پر اور دور سے بیٹھ کر دیکھنے کے میدان میں ہوتے رہے۔ (دور سے دیکھنے کے عمل کا مطلب ہے کے فاصلے پر رہتے ہوئے صرف دماغ کی طاقت سے دوسروں کے دماغ کو پڑھ کر دور دراز کی چیزوں کو دیکھا جائے۔ ) اسٹار گیٹ اس مخفی پروگرام کا خفیہ نام تھا جس میں سی آئی اے نے کافی تحقیقاتی منصوبوں  (جیسا کہ سن اسٹریک، گرل فلیم، اور سینٹر لین ) کی مالی معاونت کی تھی۔ یہ کام ١٩٧٠ء کے آس پاس اس وقت شروع ہوا تھا جب سی آئی اے کو یہ پتا چلا کہ سوویت یونین ٦ کروڑ روبل سال میں سائیکوٹرونکس تحقیق پر خرچ کر رہا ہے۔ امریکہ کو اس بات کی پریشانی تھی کہ سوویت یونین ای ایس پی (خارج از حواس شعور ) کا استعمال آبدوزوں اور فوجی تنصیبات کو ڈھونڈھنے ، جاسوسوں کو پہچانے اور خفیہ دستاویزات کو پڑھنے کے لئے استعمال کرے گا۔

١٩٧٢ء میں سی آئی اے نے اس تحقیق میں پیسا ڈالنا شروع کیا، مینلو پارک میں واقع اسٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آر آئی ) کے "رسل ٹارگ ” (Russell Targ) اور "ہیرالڈ پٹ آف” (Herald Puthoff) اس کے سربراہ تھے۔ شروع میں انہوں نے نفسیاتی ماہرین کی جماعت کو تربیت دینے کا سوچا جو نفسیاتی جنگ کو لڑ سکیں۔ دو دہائیوں سے کچھ زیادہ عرصے میں امریکہ نے ٢ کروڑ ڈالر اسٹار گیٹ پر خرچ کر دیئے۔ اس تحقیقی کام میں ٤٠ سے زائد ملازمین، ٢٣ دور دراز بیٹھ کر دیکھنے والے اور تین ماہر نفسیات ملازمت پر رکھے ہوئے تھے۔

١٩٩٥ء تک ٥ لاکھ ڈالر سالانہ کے بجٹ کے ساتھ، سی آئی اے نے سینکڑوں اطلاعات سمیٹنے والے منصوبوں کا انتظام کیا جس میں ہزاروں دور دراز سے دیکھنے والی نشستیں بھی شامل تھیں۔ دور دراز سے دیکھنے والے ناظر سے خاص طور پر یہ کہا جاتا تھا۔

١٩٨٦ء کے بم دھماکوں سے پہلے کرنل قزافی کو ڈھونڈو۔

١٩٩٤ء میں شمالی کوریا کے پلوٹونیم کے ذخائر کا پتا لگاؤ۔

١٩٨١ء میں اٹلی میں ریڈ بریگیڈ کے اغواء کئے ہوئے یرغمالیوں کا پتا لگاؤ۔

افریقہ میں تباہ ہوئے سوویت ٹی یو -٩٥ بمبار کا معلوم کرو۔

١٩٩٥ء میں سی آئی اے نے امریکن انسٹیٹیوٹ فور ریسرچ (اے آئی آر ) سے اس تحقیقاتی پروگرام کو جانچنے کا کہا۔ اے آئی آر نے ان پروگراموں کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ "کوئی بھی ایسا دستاویزی ثبوت نہیں ملا جو اس بات کو ثابت کر سکے کہ ان تجربات کی خفیہ اداروں کے لئے کوئی قدرو قیمت ہے۔ ” اے آئی آر کے ” ڈیوڈ گوسلن” (David Goslin) نے لکھا۔

اسٹار گیٹ کے حامیوں نے گزرے برسوں میں دعوے کئے کہ انہوں نے آٹھ مارٹینی نتائج حاصل کئے (اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تجربات سے حاصل شدہ شاندار نتائج کی شدت کو ہضم کرنے کے لئے آٹھ دفعہ مارٹینی کے جام پینے پڑتے۔ ) ناقدین بہرحال اس بات پر مصر رہے کہ دور دراز سے دیکھنے کی تجربات کی اکثریت کے نتیجے بے تکے اور غیر متعلق تھے اور اس عمل میں ٹیکس ادا کرنے والوں کے ڈالر ز کو ضائع کیا گیا تھا۔ مزید براں چند "دعوے ” جو کیے گئے تھے وہ بھی اس قدر مبہم اور عام سے تھے کہ ان کو کافی عمومی مواقع پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اے آئی آر کی رپورٹ نے یہ بھی لکھا  کہ اسٹار گیٹ کے سب سے زیادہ کامیاب وہ تجربے تھے جس میں دور بیٹھے ہوئے ناظر کو پہلے ہی اس تجرباتی کاروائی سے متعلق کچھ معلومات حاصل تھیں۔ لہٰذا قرین قیاس ہے کہ انہوں نے  بہتر اندازہ لگائے اور یہ بات سمجھ میں آنے والی بھی ہے۔ آخر میں سی آئی اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسٹار گیٹ نے ایک بھی ایسی اطلاع نہیں دی جو اس ادارے کو کسی بھی قسم کی خفیہ کروائی میں مدد کر سکے لہٰذا اس نے اس پروجیکٹ کو ختم کر دیا۔ ( سی آئی اے کی صدام حسین کو خلیج کی جنگ میں ڈھونڈنے کے لئے دور دراز ناظر کے استعمال کی افواہیں سرگرم رہی تھیں اگرچہ ان تمام کوششوں میں ناکامی ہی ہاتھ لگی تھی۔ )

 

                دماغی تبزیہ

 

اسی دوران سائنس دانوں نے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو تھوڑا بہت سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ انیسویں صدی میں سائنس دانوں کو شائبہ ہوا کہ برقی اشارے دماغ کے اندر نشر ہوتے ہیں۔ ١٨٧٥ء میں "رچرڈ کیٹن” (Richard Caton) نے سر کی سطح پر برقیرے لگا کر یہ بات دریافت کی کہ دماغ سے نکلنے والے ننھے برقی اشاروں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی کام نے آخر کار دماغی "برق نگار ” ( ای ای جی [ Electroencephalograph]  کی ایجاد کی داغ بیل ڈالی۔

نظری طور پر ہمارا ذہن ایک ایسا مرسل ہے جس کے ذریعہ ہمارے خیالات ننھے برقی اشاروں اور برقی مقناطیسی موجوں کی شکل میں نشر ہوتے ہیں۔ لیکن ان اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے کسی کا دماغ پڑھنے میں کافی مسائل ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ اشارہ بہت ہی کمزور ملی واٹ درجہ میں ہوتے ہیں۔ دوسرے ، اشارے بڑی حد تک مہمل، ناقابل شناخت بے ربط شور پر مشتمل ہوتے ہیں۔ صرف خام اطلاعات ہی اس کچرے سے اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔ تیسرے ہمارا دماغ اس قابل نہیں ہے کہ وہ دوسرے دماغ سے ان اشاروں کے ذریعہ قابل فہم پیغامات وصول کر سکے۔ یعنی با الفاظ دیگر ہمارے پاس ان اشاروں کو حاصل کرنے والے انٹینا کی کمی ہے۔ آخری مشکل یہ ہے کہ اگر ہم ان مدھم اشاروں کو حاصل بھی کر لیں تو بھی ہم ان کی بے ربطی کو درست نہیں کر سکیں گے۔ نیوٹنی اور میکسویلنی طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے خیال خوانی بذریعہ ریڈیائی لہروں کے بھی ممکن نظر نہیں آتی۔

کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خیال رسانی پانچویں قوّت کے ذریعہ ہوتی ہے جس کو "پی ایس آئی ” قوّت کہا جاتا ہے۔ مگر خیال رسانی کا دفاع کرنے والے بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ان کو پاس کوئی ٹھوس قابل تخلیق ثبوت اس "پی ایس آئی” قوّت کے حق میں نہیں ہے۔

پھر بھی یہ اپنے آگے اس اہم سوال کو چھوڑ دیتا ہے : کوانٹم نظرئیے کو استعمال کر کے خیال خوانی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

پچھلی دہائی میں نئے کوانٹم آلات تاریخ میں پہلی دفعہ پیش کئے گئے ہیں جو سوچتے ہوئے دماغ کے اندر جھانک سکنے کے قابل ہیں۔ اس کوانٹم انقلاب کی نمایاں چیز "پیٹ (پی ای ٹی) ” (پوزیٹرو ن ایمیشن ٹوموگرافی )  اور ایم آر آئی ( مقناطیسی اصدا ئی تصویر ہ ) دماغی تبزیہ کار ہیں۔ ایک پیٹ تبزیہ ریڈیائی تابکار شکر کو خون میں شامل کر کے حاصل کیا  جاتا ہے۔ یہ شکر دماغ کے حصّوں میں مرتکز ہو جاتی ہے جو سوچنے کے عمل کو سرگرم کر دیتے ہیں اور اس کام کے لئے توانائی درکار ہوتی ہے۔ ریڈیائی تابکار شکر پوزیٹرو ن (ضد الیکٹران ) کو خارج کرتے ہیں جن کا آلے کے ذریعہ آسانی کے ساتھ سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ضد مادّہ کے زندہ دماغ میں بنائے گئے ان نمونوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خیالات کے نمونوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے ، اس کاروائی میں دماغ کے اس حصّے کو ایک دم صحیح طور پر الگ کر دیا جاتا ہے جو اس قسم کی حرکت کا باعث بنتے ہیں۔

ایم آر آئی مشین بھی بالکل اسی طرح سے کام کرتی ہے بس صرف فرق اتنا ہے کہ وہ اور زیادہ من و عن طرح سے کام کرتی ہے۔ مریض کے سر ایک بڑے ڈونَٹ کی شکل کے مقناطیسی میدان میں رکھ دیا جاتا ہے۔ مقناطیسی میدان ایٹموں کے مرکزوں کو میدانی خطوط کے متوازی صف بستہ کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ریڈیائی ضرب مریض کی طرف بھیجی جاتی ہے جس کے نتیجے میں مرکزے ڈگمگاتے ہیں۔ جب مرکزے اپنا رخ بدلتے ہیں تو وہ ننھے ریڈیائی اشارے "ایکو” خارج کرتے ہیں جن کا سراغ لگایا جا سکتا ہے جو کسی مخصوص مادّے کے ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر دماغی حرکت آکسیجن کے استعمال  سے جڑی ہوتی ہے ، لہٰذا ایم آر آئی مشین سوچنے کے عمل کو آکسیجن کے حامل خون کی موجودگی میں بھیج کر الگ کر دیتی ہے۔ جتنا زیادہ آکسیجن سے بھرپور خون ہو گا اتنا زیادہ ہی دماغ اس حصّے میں متحرک ہو گا۔ (دور حاضر کی تفاعلی ایم آر آئی مشینیں دماغ کے ایک ملی میٹر جتنے چھوٹے سے حصّے میں بھی اشارے بھیج سکتی ہیں جس سے یہ مشینیں زندہ دماغ کے خیالات کے نمونے حاصل کرنے کے لئے مثالی ہو سکتی ہیں۔ )

 

                دروغ کشا ایم آر آئی

 

] ]اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک دن سائنس دان ایم آر آئی مشینوں کے ذریعہ زندہ دماغ کے خیالات کی نقشہ سازی کر کے اس کی رمز کشائی کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ دماغ پڑھنے کا سب سے سادہ امتحان کسی کے سچ یا جھوٹ بولنے کا سراغ لگانا ہو گا۔

ایک قصّے کے مطابق دنیا کا سب سے پہلا دروغ گوئی کا سراغ لگانے کا آلہ ایک ہندوستانی پنڈت نے صدیوں پہلے بنا لیا تھا۔ وہ مشتبہ شخص کو ایک جادوئی گدھے کے ساتھ ایک بند کمرے میں رکھتا تھا اور مشتبہ شخص کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ جادوئی گدھے کی دم کو کھینچے۔ اگر گدھا بولنے لگتا تو اس کا مطلب تھا کہ مشتبہ شخص جھوٹا ہے۔ اگر گدھا چپ رہتا تو اس کا مطلب ہے کہ مشتبہ شخص سچ بول رہا ہے۔ (خفیہ طور پر گدھے کی دم پر کالک مل دی جاتی تھی۔ )

جب مشتبہ شخص کمرے سے باہر نکلتا تھا، تو وہ اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتا تھا کیونکہ دم کھینچتے وقت گدھا کوئی آواز نہیں نکالتا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ پنڈت مشتبہ شخص کے ہاتھوں کا معائنہ کرتا تھا۔ اگر ہاتھ صاف ہوتے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ جھوٹا ہے۔ (کبھی کبھی جھوٹ پکڑنے کے آلے کے استعمال کی دھمکی اس آلے سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔

پہلا "جادوئی گدھا "عہد رفتہ میں ١٩١٣ء میں بنایا گیا۔ جب ماہر نفسیات "ولیم مارسٹن” (William Marston)  نے ایک کتاب انسان کے خون کے دباؤ پر لکھی۔ اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ انسانی خون میں دباؤ جھوٹ بولتے وقت بڑھ جاتا ہے۔ (خون کے اس دباؤ کا مشاہدہ قدیم دور تک جاتا ہے جس میں مشتبہ شخص سے جب کسی سوال کا جواب مانگا جاتا تھا تو چھان بین کرنے والا اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے خون کے دباؤ کا تجزیہ کرتا تھا۔ ) اس مفروضے نے جلد ہی شہرت حاصل کر لی اور وزارت دفاع نے اپنا پولی گراف انسٹیٹیوٹ قائم کر لیا۔

مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ بات صاف ظاہر ہو گئی کہ جھوٹ پکڑنے کے آلے کو بے ضمیر سماج دشمن عناصر آسانی کے ساتھ اس کو بیوقوف بنا لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور واقعہ سی آئی اے کے دوہرے ایجنٹ "ایلڈ رچ ایمس” (Aldrich Ames) کا ہے جس نے سابقہ سوویت یونین کو امریکی ایجنٹوں کے بارے میں معلومات اور امریکی نیوی کے خفیہ نیوکلیائی رازوں کو آشکار کر کے زبردست مال کمایا تھا۔ دہائیوں تک ایمس نے سی آئی اے کے جھوٹ پکڑنے کے آلات سے ہونے والے جانچ میں اس کو بیوقوف بنایا۔ ایسا ہی کام سلسلے وار قاتل” گیری رج وے ” (Gary Ridgway) نے کیا ، جو بدنام زمانہ گرین ریور کلر کے نام سے مشہور تھا اور جس نے ١٥ کے قریب خواتین کو قتل کیا تھا۔

٢٠٠٣ء میں یو ایس نیشنل آف اکیڈمی سائنسز نے د ہلا دینے والی رپورٹ دروغ کشا آلات کی کارکردگی پر دی، جس میں انہوں نے ان تمام طریقوں کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ چالاک لوگ ان آلات کو بیوقوف بنا تے ہیں اور معصوم لوگ جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں۔

دروغ کشائی کے یہ آلات اگر صرف پریشانی کی سطح کو ناپتے ہیں تو دماغ کو ناپنے کے بارے میں کیا کرتے ہیں ؟ یہ بیس سالہ  پرانا خیال ہے کہ دماغ میں ہونے والی حرکیات کو دیکھا جائے۔ اس خیال کو نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے "پیٹر روزنفیلڈ” (Peter Rosenfeld) کے کام نے پروان چڑھایا۔ جنہوں نے جھوٹ بولنے کے دوران میں لوگوں پر ای ای جی تبزیہ کر کے پی ٣٠٠ موجوں کا ایک نمونہ اس نمونے سے مختلف پایا جو انہوں نے لوگوں کے سچ بولنے کے دوران حاصل کیا تھا۔ (پی ٣٠٠ موجیں اکثر اس وقت متحرک ہوتی ہیں جب دماغ کسی نئی چیز یا معمول سے ہٹ کر کسی کو محسوس کرتا ہے۔ )

جھوٹ کا سراغ لگانے کے لئے ایم آر آئی مشین کو استعمال کرنے کا خیال یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے ” ڈینیل لنگلبن” (Daniel Langleben) کی کاوش تھی۔ ١٩٩٩ء میں اس نے ایک مقالہ میں بتایا کہ وہ بچے جو توجہ کی کمی سے ہونے والی بیماری کا شکار ہوتے ہیں ان کو جھوٹ بولنے میں مشکل ہوتی ہے مگر تجربے سے حاصل کردہ نتائج نے اس کو غلط ثابت کر دیا تھا ؛ کیونکہ ایسے بچوں کو جھوٹ بولتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایسا بچوں کا اصل مسئلہ سچ بولنے میں رکاوٹ کا تھا۔ ” وہ بغیر سوچے سمجھے بول دیتے تھے "لنگلبن نے یاد کرتے ہوئے بتایا۔ اس نے قیاس کیا جھوٹ بولتے ہوئے دماغ سچ بولنے سے پہلے رکتا ہے اور اس کے بعد دھوکہ دہی کا سوچتا ہے۔ "جب آپ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے دماغ میں سچ کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جھوٹ بولتے ہوئے دماغ زیادہ متحرک ہوتا ہے۔ ” اس نے بتایا۔ با الفاظ دیگرے جھوٹ بولنا ایک مشکل کام ہے۔

کالج کے طالبعلموں کے ساتھ تجربہ کرتے ہوئے اور ان سے جھوٹ بولنے کا کہتے ہوئے لنگلبن کو جلد ہی یہ بات پتا چل گئی کہ جھوٹ بولتے ہوئے دماغ کے کچھ حصّوں میں معمول سے زیادہ حرکت جنم لیتی ہے ، جس میں دماغ کا وہ حصّہ جس کو "قص جبہی” (Frontal Lobe) کہتے ہیں (جہاں بلند خیالات مرتکز ہوتے ہیں ) ، ” فص صدغی” (Temporal Lobe) اور دماغ کے بالائی پیچیدہ نظام والے حصّے (- Limbic Systemجہاں جذبات کو ابھارا جاتا ہے ) شامل ہیں۔ خصوصی طور پر اس نے اگلے نطاقی تلفیف دماغی حصّے (Interior Cingulated Gyrus) میں (جس کا تعلق تصادموں کو حل کرنے اور رد عمل کو روکنے سے ہے ) غیر معمولی تحریک کو درج کیا۔

اس کے دعوے کی جانچ کے لئے ایک منضبط تجربے میں جب کسی شخص کے جھوٹ یا سچ بولنے کا تجزیہ کیا گیا (جیسا کہ اس نے کالج کے طالبعلموں سے کھیلنے والے کارڈ کو پہچاننے میں جھوٹ بولنے کا کہا ) تو اس کی کامیابی کی مسلسل شرح ٩٩ فیصد تک تھی۔

اس ٹیکنالوجی میں لوگوں نے اس قدر دلچسپی لی کہ دو تجارتی جوکھم اٹھانے والوں نے اس پر کام شروع کر کے اپنی خدمات عام عوام کے لئے پیش کر دیں۔ ٢٠٠٧ء میں ایک کمپنی نے "نو لائی ایم آر آئی ” ( ایم آر آئی کے آگے جھوٹ نہیں چلے گا) نے پہلا کیس لیا، ایک آدمی جس نے انشورنس کمپنی پر مقدمہ دائر کر دیا تھا کیونکہ کمپنی کا دعویٰ تھا کہ اس نے خود سے جان بوجھ کر طعام گاہ میں آگ لگائی تھی۔ (ایف ایم آر آئی  تبزیہ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ آگ لگانے والا نہیں تھا۔ )

لنگلبن کی تیکنیک کے حامیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ پرانے زمانے کے جھوٹ پکڑنے کے آلات سے کہیں زیادہ بہتر اور قابل بھروسہ ہے کیونکہ دماغی نمونوں کو بدلنا کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اگرچہ لوگوں کو دل کی دھڑکن اور پسینے کو روکنے کی تربیت دی جا سکتی ہے لیکن ان دماغی نمونوں کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی تربیت دینا ناممکن ہی ہے۔ حقیقت میں اس ٹیکنالوجی کے حامیوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف بڑھتی ہوئی آگاہی کے اس دور میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا سراغ لگا کر انگنت زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

ہرچند اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے جھوٹ پکڑنے میں بظاہر کامیابی کی شرح نے اس کی حیثیت کو تسلیم کر لیا، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اصل میں ایف ایم آر آئی جھوٹ کو نہیں پکڑتا، بلکہ یہ صرف جھوٹ بولتے وقت بڑھتی ہوئی دماغی حرکت کا بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر مشین سے حاصل کردہ نتائج اس وقت غلط ثابت ہو سکتے ہیں جب کوئی شخص بہت ہی زیادہ پریشانی کی حالت میں سچ کو بتانے کی کوشش کرے۔ ایف ایم آر آئی صرف اس وقت محسوس ہونے والی پریشانی کو پکڑ پائے گی اور اس طرح سے غلط نتیجہ اخذ کرے گی کہ وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ "اس بات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ایسے علیحدہ امتحان بنائے جائیں جو سچ کو دھوکے سے الگ کریں، ورنہ سائنس کی برائی آ جائے گی۔ ” یہ بات ہارورڈ یونیورسٹی کے "اسٹیون ہیمن” (Steven Hyman) ، ماہر اعصابی حیاتیات، نے خبردار کرتے ہوئے کہی۔

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک صحیح جھوٹ پکڑنے والا آلہ، ایک سچے خیال رساں کی طرح سے عام معاشرتی تعلقوں کو پریشان کن بنا دے گا، کیونکہ جھوٹ کا کچھ حصّہ معاشرتی زیبائی کا حصّہ ہے جو معاشرے کا پہیہ چلنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ اس وقت ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے جب وہ تمام خوشامدیں سب کی سب جھوٹ کی شکل میں سامنے آ جائیں جو ہم اپنے باس، بڑوں، بیویوں، محبوباؤں اور رفقائے کاروں کی کرتے ہیں۔ ایک اصلی جھوٹ پکڑنے والا آلہ درحقیقت ہمارے خاندان اور گھرانے کے سارے راز، چھپے ہوئے جذبات، دبی ہوئی خواہشات اور خفیہ ارادے سب کچھ اگل وا دے گے۔ جیسا کہ سائنس کالم نگار” ڈیوڈ جونز” (David Jones) نے کہا تھا "ایک سچا جھوٹ پکڑنے والا آلہ اصل میں تو ایک ایٹمی بم کی طرح ہے جس کو آخری ہتھیار کے طور پر سنبھال کر رکھنا ہی بہتر ہے۔ اگر اس کا استعمال کمرہ عدالت کے باہر بڑے پیمانے پر کیا تو وہ معاشرتی زندگی کو انتہائی درجہ کا مشکل بنا دے گا۔ ”

 

                کائناتی مترجم

 

کچھ لوگ دماغی تبزیہ کرنے پر بالکل صحیح تنقید کرتے ہیں کیونکہ سوچتا ہوا دماغ اور منفرد خیالات اپنی تمام شاندار تصاویر کے ساتھ بہت ہی خام مواد مہیا کرتے ہیں جن کو یکتا طور پر ناپنا انتہائی مشکل ہے۔ شاید دسیوں لاکھوں عصبانیے ایک ساتھ اس وقت نکلتے ہیں جب ہم کوئی سادہ سا دماغی کام سرانجام دیتے ہیں اور ایف ایم آر آئی ان کا سراغ اسکرین پر ابھرتے ہوئے بلبلوں جیسے گومڑ سے لگاتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات دماغی تبزیہ کو ایک تیز رفتار طوفانی فٹ بال گیم سے ملاتے ہیں جس میں آپ اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کی آواز سننے کی کوشش کرتے ہیں جو ان ہزاروں تماشائیوں کی آواز میں دب جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دماغ کے سب سے چھوٹے قابل بھروسہ حصّے یعنی "واکسل” کو پکڑا کر اس کا تجزیہ ایف ایم آر آئی سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے ہر واکسل دسیوں لاکھوں عصبانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں لہٰذا ایف ایم آر آئی کی حساسیت انفرادی خیالات کو علیحدہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔

سائنسی قصّوں میں اکثر ایک "کائناتی مترجم ” استعمال بتایا جاتا ہے۔ جو ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو کسی بھی شخص کے خیالات کو پڑھ کر اس کو شعاعوں کی صورت میں کسی دوسرے کے دماغ میں بھیج دیتا ہے۔ کچھ سائنسی افسانوی ناولوں میں تو خلائی خیال رساں ہماری زبان کو جانے بغیر ہی اپنے خیالات ہمارے دماغ میں گھساتے ہوئے بیان کئے جاتے ہیں۔ ١٩٧٦ء میں ایک سائنس فکشن فلم "مستقبل کی دنیا” (فیوچر ورلڈ) میں ایک عورت کا خواب ایک ٹیلی ویژن کی اسکرین پر براہ راست دکھایا جاتا ہے۔ ٢٠٠٤ء کی "جم کیری” (Jim Carrey) کی فلم "ایٹرنل سن شائن آف دی اسپوٹ لیس مائنڈ "، میں ڈاکٹر تکلیف دہ خیالات کو پہچان کر ان کو مٹا دیتے ہیں۔

"اس قسم کی تصوّراتی دنیا ہر ایک نے اپنے میدان میں سجائی ہوئی ہے "لئپزیگ میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والے "جان ہینز” (John Haynes) کہتے ہیں۔ ” مجھے پورا یقین ہے کہ جو آلہ آپ بنانا چاہتے ہیں اس کو ہر ایک عصبانیہ کو ریکارڈ کرنا پڑے گا۔ ”

ابھی تو ہر انفرادی عصبانیہ کو ریکارڈ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، لہٰذا کچھ ماہرین نفسیات نے حال فی الحال موجود سب سے بہتر چیز کی یعنی کہ انہوں نے شور کو کم کیا اور مفعول سے حاصل کئے گئے ہر ایک انفرادی ایف ایم آر آئی کے نمونے کو علیحدہ کر لیا۔ مثال کے طور پر ہر انفرادی لفظ سے بنے ہوئے ایف ایم آر آئی نمونوں کو شناخت کر کے  "خیالات کا قاموس” بنا لینا ممکن ہے۔

مثال کے طور پر کارنیجی –میلن یونیورسٹی کے "مارسل اے ” (Marcel A)  چھوٹے چنے ہوئے گروہ کی چیزوں (جیسا کہ بڑھئی کے اوزار) کے ایف ایم آر آئی نمونوں کو شناخت کرنے کے قابل ہیں۔ ” ہمارے پا س بارہ زمرے ہیں، ہم مفعول سے ٨٠ سے ٩٠ فیصد درستگی کے ساتھ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ ان بارہ زمروں میں سے کس کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ” ان کا دعویٰ ہے۔

ان کے رفیق کار ٹام مچل، جو ایک کمپیوٹر کے میدان کے سائنس دان ہیں، وہ کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ عصبی جالوں کی مدد سے ، ایف ایم آر آئی سے حاصل کردہ پیچیدہ دماغی نمونوں کو کچھ تجربات کے ساتھ ہم ربط کر کے ان کی شناخت حاصل کر لیتے ہیں۔ ” جس ایک تجربہ کو کرنے میں مجھے بہت ہی لطف آتا ہے وہ ان الفاظ کی تلاش ہے جو سب سے مختلف دماغی نمونے پیدا کرتے ہیں۔ ” انہوں نے بتایا۔

اس کے باوجود اگر ہم خیالات کا قاموس بھی بنا پائے تو یہ کائناتی مترجم کے بنانے سے بہت ہی دور ہو گا۔ کائناتی مترجم کے برخلاف جو شعاعوں کے ذریعہ کسی دوسرے دماغ سے ہمارے دماغ میں براہ راست خیال پھینکتا ہے ایک ایف ایم آر آئی دماغی مترجم کئی قسم کے تھکا دینے والے اقدام اٹھاتا ہے :پہلے کچھ ایف ایم آر آئی نمونوں کا تجزیہ کرتا ہے ، پھر اس کو الفاظ میں بدلتا ہے اور پھر وہ الفاظ مفعول کو سناتا ہے۔ اس طرح کے منظر نامے میں ایسا کوئی بھی آلہ اسٹار ٹریک میں پائے جانے والے آلے "مائنڈ میلڈ ” کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ (اس کے باوجود یہ فالج زدہ لوگوں کے لئے انتہائی کارآمد ہے۔ )

 

                ہاتھ سے چلانے والے ایم آر آئی تبزیہ کار

 

بطور خیال رساں عملی میدان میں ایف ایم آر آئی کے استعمال میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ اس کا بڑا حجم ہے۔ یہ ایک دیوہیکل آلہ ہے ، جس کی قیمت کئی لاکھ ڈالر کی ہوتی ہے اور یہ پورے کمرے کی جگہ گھیرتی ہے۔ ایم آر آئی مشین کا قلب ایک ڈونَٹ کی شکل کا مقناطیس ہوتا ہے ، جو کئی فٹ قطر پر پھیلا ہوتا ہے ، اور کئی ٹیسلا س کی زبردست قوّت والے مقناطیسی میدان بناتا ہے۔ ( اس کی مقناطیسی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ مواقع پر مشین کو غلطی سے بے خیالی میں کسی نے چلا دیا تو مشین کے آس پاس موجود ہتھوڑیاں اور دوسرے اوزار ہوا میں اڑتے ہوئے وہاں پر کام کرنے والے لوگوں سے ٹکرائے اور ان کو کافی زخمی کر دیا۔ )

حالیہ دور میں پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر طبیعات "ایگور سو وکوف” (Igor Savukov) اور "مائیکل رومیلس” (Michael Romalis) نے ایک بالکل نئی طرح کی ٹیکنالوجی پیش کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی ترقی یافتہ شکل آخر میں ہینڈ ہیلڈ ایم آر آئی مشین کو حقیقت کا روپ دھار لے۔ اگر ایسا ممکن ہو گیا تو نتیجے میں ایف ایم آر آئی مشین کی قیمت یقینی طور پر ١٠٠ گنا کم ہو جائے گی۔ ان کے دعوے کا مطابق بڑے مقناطیسوں کو زبردست حساس ایٹمی مقناطیسی پیماؤں کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے جو ننھے مقناطیسی میدانوں کو بھی پکڑ سکتے ہیں۔

پہلے سوو کوف اور رومیلس نے مقناطیسی حساسئے گرم پوٹا شیم کے بخارات کو ہیلیئم گیس میں معلق کر کے بنائے۔ اس کے بعد انہوں نے لیزر کی شعاعوں کو پوٹا شیم کے الیکٹران کے گھماؤ کے ساتھ باہم مربوط کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے کمزور مقناطیسی میدان پانی کے ایک نمونے پر استعمال کیا (تا کہ انسانی جسم کی نقل کر سکیں ) ۔ پھر انہوں نے ایک ریڈیائی ضرب پانی کے نمونے کی طرف بھیجی جس نے پانی کے سالموں کو ڈگمگا دیا۔ پانی کے سالموں سے ہوتی ہوئی گونج نے پوٹا شیم کے الیکٹران میں بھی گونج گ پیدا کر دی، اور اس گونج کو دوسری لیزر کا استعمال کرتے ہوئے پکڑ جا سکتا ہے۔ ان کے نتیجے نہایت ہی شاندار تھے : کمزور مقناطیسی میدان بھی ایک گونج پیدا ہو سکتی تھی جس کو حساسئے پکڑ سکتے تھے۔ نا صرف یہ ایم آر آئی میں استعمال ہونے والے معیاری دیوہیکل مقناطیسوں کو کمزور مقناطیسی میدان سے بدل سکتے ہیں؛ بلکہ یہ تصاویر کو بھی فی الفور حاصل کر سکتے ہیں (جبکہ ایم آر آئی مشین ٢٠ منٹ تک تصاویر کو بنانے میں لے لیتی ہے ) ۔ آخر کار نظری طور پر ایم آر آئی سے تصویر لینا اتنا آسان ہو سکتا ہے جتنا ایک عام ڈیجیٹل کیمرے سے تصویر لینا۔ (اس راہ میں ابھی کافی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ مفعول اور مشین دونوں کو باہری مقناطیسی میدانوں سے بچانا ہو گا۔ )

اگر ہینڈ ہیلڈ ایم آر آئی مشینیں حقیقت کا روپ دھار گئیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ننھے کمپیوٹر بمعہ ایسے سافٹ ویئر موجود ہوں جو کچھ اہم جملوں، الفاظ اور فقروں کی رمز کشائی کرنے کے قابل ہوں۔ یہ آلات ان سائنس فکشن فلموں میں دکھانے والے آلات کی طرح نفیس تو نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی ان سے ملتے جلتے ضرور ہوں گے۔

 

                دماغ بطور عصبی جال

 

سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل کی ایم آر آئی مشین اس قابل ہوں گی کہ کسی آنے والے دن میں خیالات کو بالکل اسی طرح درست طور پر حرف بہ حرف، تصویر بہ تصویر پڑھ سکیں جیسا کہ ایک سچا خیال رساں پڑھ سکتا ہے ؟ یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایم آر آئی مشین صرف  ہمارے خیالات کی مبہم سی تصویر کشی اور رمزہ کشائی کرنے کے قابل ہے کیونکہ دماغ کوئی کمپیوٹر نہیں ہے۔ ڈیجیٹل کمپیوٹر میں حسابی عمل مقامی ہوتا ہے اور انتہائی بے لچک اصول و قواعد کی اطاعت کرتا ہے۔ ایک ڈیجیٹل کمپیوٹر "ٹیورنگ مشین ” کے قوانین کی اطاعت کرتا ہے ، ایک مشین جو ا یک سینٹرل پروسیسنگ یونٹ ، ان پٹ اور آوٹ پٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک سینٹرل پراسیسر (جیسا کہ پینٹیم چپ ) ایک معین کیے ہوئے قوانین کی مدد سے ان پٹ کو پراسیس کر کے آوٹ پٹ میں بدلتا ہے اور یہ سوچنے کے جیسا مقامی عمل” سی پی یو” میں سرانجام پا تا ہے۔

ہمارا دماغ کوئی ڈیجیٹل کمپیوٹر نہیں ہے۔ ہمارے دماغ میں کوئی پینٹیم چپ نہیں ہے ، نہ کوئی سی پی یو ہے ، نہ ہی اس میں ونڈوز آپریٹنگ سسٹم ہے اور نہ ہی کسی قسم کے سب روٹین پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کمپیوٹر سے ایک ٹرانسسٹر بھی نکال دیں تو وہ بیکار ہو جائے گا۔ مگر اس قسم کے کیسز ریکارڈ پر موجود ہیں جس میں آدھا دماغ غائب ہونے کے باوجود باقی آدھے دماغ نے اس کا م سنبھال لیا تھا۔

انسانی دماغ ایک سیکھنے والی مشین کی طرح سے ہے ، ایک "عصبی جال” جو مسلسل نئی چیزیں سیکھنے کے بعد اپنے آپ کو تازہ کرتا رہتا ہے۔ ایم آر آئی تجزیہ نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ انسانی دماغ کسی بھی ایک مقام پر صرف ٹیورنگ مشین کی طرح مقامی بن کر نہیں سوچتا ہے۔ بلکہ یہ دماغ میں کافی پھیلا ہوا ہوتا ہے جو ایک عصبی جال کا مخصوص انداز ہے۔ ایم ار آئی تبزیہ سے معلوم چلا ہے کہ سوچنے کا عمل ایک طرح سے پنگ پونگ گیند کے کھیل جیسا ہے ، جس میں دماغ کے مختلف حصّے ایک کے بعد ایک جلتے ہیں، برقی حرکت دماغ کے اندر ادھر ادھر ہوتی رہتی ہے۔

خیالات دماغ کے مختلف حصّوں میں کافی منتشر اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا سائنس دان جو سب سے بہتر کام کر سکتے ہیں وہ خیالات کی فرہنگ بنانا ہے یعنی خیالات اور مخصوص ای ای جی یا ایم آر آئی کے نمونوں میں ایک پر ایک تعلق قائم کریں۔ مثال کے طور پر آسٹرین بائیو میڈیکل انجنیئر "یرٹ فرٹس سیلر” (Gert Pfurtscheller)  نے ایک کمپیوٹر کو اس طرح سے تربیت دی ہے کہ وہ مخصوص دماغی نمونوں اور خیالات کو ای ای جی میں پائے جانے والے یو موجوں پر اپنی کوششوں کو مرتکز کر کے پہچان سکے۔ بظاہر یو موجیں کچھ پٹھوں کو حرکت دینے کے قصد سے جڑی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے مریض کو انگلی اٹھانے ، ہنسنے ، تیوریاں چڑھانے کا کہتے ہیں اور پھر کمپیوٹر ان یو موجوں کو ریکارڈ کر لیتا ہے جو اس کے نتیجے میں حرکت کرتی ہیں۔ ہر دفعہ جب بھی مریض کوئی دماغی حرکت کرتا ہے کمپیوٹر انتہائی احتیاط کے ساتھ یو موجوں کو لاگ میں درج کر لیتا ہے۔ یہ عمل مشکل اور تھکا دینے والا ہے کیونکہ اس میں انتہائی احتیاط کے ساتھ بناوٹی موجوں کو پراسیس کرنا ہوتا ہے۔ آخر کار فرٹس سیلر سادہ حرکتوں اور مخصوص دماغی نمونوں میں نمایاں مماثلت ڈھونڈ پانے کے قابل ہو گیا۔

ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بتدریج اس کی یہ جدوجہد ایم آر آئی نتیجوں کے ساتھ مل کر خیالات کی جامع فرہنگ بنا سکے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ای ای جی یا ایم آر آئی کے مختلف نمونوں کے تجزیہ کر کے کمپیوٹر اس بات کے قابل ہو جائے کہ وہ ان نمونوں کو پہچان کر کم از کم یہ بتا سکے کہ مریض کیا سوچ رہا ہے۔ اس طرح سے دماغ کو پڑھنے سے شاید خصوصی "یو مو جوں” (U Waves) اور ایم آر آئی تبزیہ کار اور مخصوص خیال میں کوئی مماثلت پیدا ہو جائے۔ لیکن یہ بات اب بھی بعید از قیاس ہے کہ وہ فرہنگ اس قابل ہو سکے گی کہ خیالات میں موجود مخصوص الفاظ کو سمجھ سکے۔

 

                خیالات کو داخل کرنا

 

مستقبل میں کبھی ہم اس قابل ہو گئے کہ کسی کے خیالات کی بھنک پا سکیں تو کیا اس یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے خیالات کو دوسروں کے دماغ میں گھسا سکیں۔ اس کا جواب ایک طرح سے ہاں میں لگتا ہے۔ ریڈیائی موجیں کسی بھی انسان کے دماغ میں بھیجی جا سکتی ہیں جو دماغ کے ان حصّوں کو بھڑکا سکتی ہیں جن کا کام کچھ افعال کو قابو کرنا ہوتا ہے۔ اس نہج پر تحقیق کی شروعات ١٩٥٠ء میں ہوئی جب کینیڈا کے شہری جن کا نام "وائلڈر پین فیلڈ” (Wilder Penfield) ہے اور جو ایک "عصبی جراح” (Neuro Surgeon) ہیں وہ ایک مرگی کے مریض کے دماغ کی جرح کر رہے تھے۔ اس وقت انھیں پتا لگا کہ فص صدغی کے کچھ حصّوں برقی پاشوں کے ذریعہ تحریک پیدا کی جائے تو لوگوں کو بھوتوں کی شکل اور آواز آنے کا وہم ہوتا ہے۔ ماہر نفسیات یہ بات جانتے تھے کہ مرگی کے صدمے سے مریض کے دماغ میں اس طرح کا احساس پیدا ہوتا ہے جیسا کہ مافوق الفطرت قوّتیں  یعنی کہ شیطان اور فرشتے ان کے ارد گرد ہونے والی حرکتوں کو کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ (کچھ ماہرین نفسیات نے تو یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ان حصّوں کو تحریک دینے سے عارفانہ آزمائش ہوتی ہے جو کہ کئی مذاہب کی بنیاد ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ "جون آف آرک ” (Joan of Arc)  جس نے ایک ہاتھ کے ساتھ فرانسی افواج کو برطانیہ کے خلاف جنگ میں فتح کی راہ پر گامزن کیا تھا وہ بھی شاید اسی قسم کے مرگی کے صدمے کا شکار ہو گیا تھا جو اس کے سر میں کسی دھماکے کی وجہ سے لگنے والی چوٹ سے ہوا تھا۔ )

احتمال کی بنیاد پرسدبری اونٹاریو کے  عصبی سائنس دان” مائیکل پرسنگر” (Micheal Persinger) نے ایک خصوصی تاروں والا ہیلمٹ بنایا ہے جو ریڈیائی موجوں کو دماغ میں بھیجتا ہے جہاں وہ مخصوص سوچ اور جذبات  (مثلاً مذہبی جذبات)  کو مشتعل کر دیتا ہے۔ عصبی سائنس دان جانتے ہیں کہ الٹے فص صدغی دماغ کے حصّے کو نقصان پہنچنے کی صورت میں دماغ کا الٹا حصّہ چکرایا ہوا سا ہو جاتا ہے اور دماغ سیدھے حصّے میں ہونے والی حرکتوں کو پرایا سمجھ سکتا ہے۔ اس قسم کی چوٹ ایسا تاثر پیدا کر سکتی ہے جیسے کہ کوئی بد روح کمرے میں موجود ہے ، کیونکہ دماغ کو یہ نہیں پتا چلتا کہ جس کو وہ کوئی اور سمجھ رہا ہے وہ اس کے دماغ کا دوسرا حصّہ ہی ہے۔ مریض کے عقیدے کے مطابق، وہ  اپنے دماغ کے دوسرے حصّے کو شیطان، فرشتہ، خلائی مخلوق یہاں تک کہ خدا کی بھی تعبیر سمجھ لیتا ہے۔ مستقبل میں یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ برقی مقناطیسی اشاروں کی شعاعیں بالکل درست طور پر دماغ کے اس حصّے پر مار ی جائیں جو مخصوص عمل کو انضباط کرتے ہیں۔ اس قسم کے اشاروں کو” لوزہ مغز ” (Amygdala) کی طرف پھینک کر کچھ خاص جذبات کو ابھارا جا سکتا ہے۔ دماغ کے حصّوں کو تحریک دے کہ مختلف تصوروں اور خاکوں کو دیکھنے کا احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف اس سمت میں ہونے والی تحقیق ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔

 

                دماغی نقشہ سازی

 

کچھ سائنس دان ” عصبانیوں کی نقشہ سازی کے منصوبے "کی حمایت کرتے ہیں اسی طرح کا منصوبہ جیسے کہ "انسانی لونیت کا منصوبہ” (Human Genome Project) ہے جس میں انسانی لونیت میں موجود تمام مورثہ (Genes)  کی نقشہ سازی شامل ہے۔   عصبانیہ کی نقشے سازی کے منصوبے میں انسانی دماغ میں موجود ہر الگ عصبانیہ کو ڈھونڈھ کر اس کی سہ جہتی نقشہ سازی کی جائی گی جس میں اس کے تمام رابطے دکھائے جائیں گے۔ یہ واقعی میں ایک یادگار منصوبہ ہو گا، کیونکہ دماغ میں ایک کھرب عصبانیہ ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک عصبانیہ دوسرے ہزاروں عصبانیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اس بات کو فرض کرتے ہوئے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو گا اس منصوبہ کے مکمل ہونے پر  ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ یہ معلوم کر سکیں کہ کس طرح سے کچھ مخصوص خیالات کچھ خاص عصبی راستوں کو مشتعل کرتے ہیں۔ خیالات کی اس فرہنگ کے استعمال سے جو ایم آر آئی اور ای ای جی سے حاصل کی جائے گی وہ ہمیں مختلف خیالات کی عصبی ساختوں کی رمز کشائی کرنے کے قابل بنا دے گی۔ اس طرح ہم جان سکیں گے کہ کونسا لفظ یا دماغی خاکہ کس مخصوص عصبانیہ کو متحرک کرتا ہے۔ اس طریقے سے ہم  ہر مخصوص خیال کو، اس کے ایم آر تاثر اور ان خاص عصبانیوں میں جو اس خیال کو پیدا کرنے کے لئے نکلتے ہیں مماثلت اور تعلق کو تعین کر سکیں گے۔

اس سمت میں ایک چھوٹا سا قدم ایلن انسٹیٹیوٹ فار برین سائنس (جو مائیکرو سافٹ کے بانیان میں سے ایک "پال ایلن”[Paul Allen] نے بنائی ہے ) کا ٢٠٠٦ء کا وہ اعلان ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ چوہے کے دماغ میں موجود مورثہ تاثر کا سہ جہتی نقشہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس میں انہوں نے ٢١ ہزارمورثہ کے تاثرات خلوی پیمانے پر مفصل حاصل کر لئے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ اس نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ انسانی دماغ کے نقشے بھی حاصل کر سکیں گے۔ "ایلن دماغی نقشہ سازی کی تکمیل طبی سائنس کے عصبانی میدان میں ایک بہت بڑی چھلانگ ہو گی۔ ” یہ بات انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مارک ٹیسسئر لَوِین (Marc Tessier Lavigne) نے کہی۔ یہ نقشے کسی بھی اس شخص کے لئے ناگزیر ہوں گے جو انسانی دماغ میں موجود عصبی تعلق کا تجزیہ کرنا چاہئے گا، اگرچہ دماغی نقشے کا منصوبہ ایک مکمل صحیح عصبانیوں کی نقشہ سازی کے منصوبے سے کی مکمل ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔

مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس فکشن اور طلسماتی دنیا میں دکھائی جانے والی قدرتی خیال خوانی آج تو ناممکن ہے۔ ایم آر آئی تبزیہ اور ای ای جی موجیں صرف سادہ خیالات کو پڑھنے میں ہی استعمال ہو سکتی ہیں کیوں خیالات پورے دماغ میں انتہائی پیچیدگی کے ساتھ پھیلے ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس طرح سے یہ ٹیکنالوجی آنے والے دہائیوں یا صدیوں میں ترقی یافتہ شکل اختیار کرے گی؟ سائنس کی قابلیت انسانی سوچ کے عمل کی کھوج کرنے میں بہت ہی تیزی سے بہتری لانے کی جانب گامزن ہونا ناگزیر ہے۔ جس طرح سے ہمارے ایم آر آئی آلات کی حساسیت بہتر ہو رہی ہے جلد ہی سائنس اس قابل ہو جائے گی کہ دماغ کی طرح خیالات اور جذبات کے سوچنے کے مرحلہ وار عمل کو انتہائی درستگی کے ساتھ  سمجھ سکے۔ کمپیوٹر کی عظیم طاقت کے ساتھ ہم معلومات کے اس بھنڈار کا تجزیہ انتہائی درستگی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ خیالات کی ایک فرہنگ کافی سارے خیالات کے نمونوں کو زمرہ جات کی شکل دے سکتی ہے جہاں ایم آر آئی کی اسکرین پر خیالات کے مختلف نمونے مختلف خیالات اور احساسات کے ساتھ مطابقت رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ مکمل خیال در خیال کی مماثلت ایم آئی آر نمونوں اور خیالات میں کبھی بھی ممکن نہیں ہے ، لیکن ایک فرہنگ درستگی کے ساتھ مخصوص چیزوں سے متعلق کچھ عمومی خیالات کو بیان کر سکتی ہے۔ اسی طرح سے ایم آر آئی نمونوں کو  عصبی نقشوں سے جوڑا جا سکتا ہے اس طرح درستگی کے ساتھ معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سا عصبانیہ دماغ میں کسی مخصوص خیال کو بنانے کا لئے چھوڑا جاتا ہے۔

کیونکہ دماغ کمپیوٹر نہیں بلکہ ایک عصبی جال ہے  جہاں خیالات پورے دماغ میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے لئے سب سے بڑی رکاوٹ خود دماغ ہی ہے۔ اگرچہ سائنس "سوچتے ہوئے دماغ” کی کھوج کی گہرائی میں اترتی جا رہی ہے جس سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ خیالات کے بننے کے عمل کی رمز کشائی کی جا سکے لیکن ان تمام تر باتوں کے باوجود یہ بات اب بھی ناممکن ہے کہ کوئی آپ کے خیالات کو اس طرح درستگی کے ساتھ پڑھ سکے جیسا کہ سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں عمومی خیالات اور جذبات کے نمونوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی قابلیت کو جماعت "I” میں رکھ رہا ہوں۔ دماغ کے اندرونی حصّے کے کام کرنے کے انداز کو مزید درستگی کے سمجھنے کو میں نے جماعت "II” کی ناممکنات میں رکھا ہے۔

مگر شاید ایک اور طریقہ ایسا ہے جس میں دماغ کی زبردست طاقت کو براہ راست کام میں لیا جا سکتا ہے۔ کمزور اور آسانی سے منتشر ہونے والی ریڈیائی لہروں کے بجائے کیا کوئی دماغ کے عصبانیوں کو براہ راست قابو کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہونا ممکن ہوا تو ہم خیال خوانی کی طاقت سے بھی بڑی چیز سے پردہ اٹھا سکیں گے جس کا نام ہے : روحی حرکی قوّت یا حرکت بعید۔

 

 

 

 

6۔ سائیکو کنیسس یا حرکتِ بعید یا روحی حرکی قوّت  (حرکت بذریعہ دماغ )

 

کسی بھی نئے سائنسی نظرئیے کی جیت مخالف کو قائل کرنے اور اس کو سیدھا راستہ دکھانے کے بجائے اس میں ہے کہ اس کا مخالف گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے  اور نئی نسل نئے نظرئیے کے ساتھ جوان ہو۔
میکس پلانک
 ایک کم عقل شخص وہ سچ بولنا اپنا حق سمجھتا ہے جسے عقلمند کبھی نہیں بولے گا۔
شیکسپیئر

 

ایک دن آسمان فلک میں دیوتاؤں کا اجلاس ہوا جس میں انسانیت کی حالت اور مفلسی زیر بحث آئی۔ وہ انسانیت کی لاحاصل، عاقبت نا اندیش اور غیر معقول حماقتوں سے نالاں تھے۔ اجلاس میں موجود ایک دیوتا کو انسانوں پر رحم آ جاتا ہے اور وہ انسانوں پر ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں وہ ایک عام آدمی کو لامحدود طاقت عطا کر دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھنے چاہتے تھے کہ انسان دیوتا بن کر کیسا برتاؤ کرتے ہیں؟

جارج فنگے (یا فودرینگے [Fotheringay]) بزاز  (پارچہ فروش) ایک عام سا کند ذہن شخص تھا۔ ایک صبح اس نے اپنے آپ میں اچانک دیوتائی قوّتوں کو پا یا۔ وہ شمعوں کو پانی میں تیرا سکتا تھا، پانی کا رنگ بدل سکتا تھا، شاندار من و سلوا بنا سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ ہیروں کو بھی بنا سکتا تھا۔ شروع میں تو اس نے اپنی طاقت کو تفریح اور اچھے کاموں کے لئے استعمال کی۔ لیکن آخر کار خود نمائی اور ہوس نے اس پر غلبہ پاتے ہوئے اس کو طاقت کا بھوکا جابر انسان بنا دیا جس کے پاس محل اور ناقابل تصوّر کی حد تک دولت تھی۔ اپنی لامحدود طاقت کے نشے میں چور وہ ایک ناقابل تلافی غلطی کر بیٹھا۔ اس نے زمین کو گھومنے سے منع کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی زمین پر ایسی آفتیں ٹوٹیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ زمین کی گردش رکتے ہی ہر چیز ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلاء میں اڑنے لگی۔ ساری انسانیت خلاء میں پہنچ گئی۔ بے بسی کی حالت میں اس نے اپنی آخری خواہش بیان کی : ہر چیز واپس اسی طرح سے اپنی پرانی شکل میں آ جائے جیسا کہ وہ پہلے سے تھی۔

یہ کہانی اس فلم کا خلاصہ ہے جس کا نام تھا ” انسان جو معجزے دکھا سکتا ہے ” (دی مین ہو کڈ ورک میریکلس ١٩٣٦ء ) جو ١٩١١ء کی ایچ جی ویلز کی مختصر کہانی پر مبنی تھی۔ (بعد میں یہ جم کیری کی فلم "قادر مطلق بروس ” (بروس آل مائٹی )  کے نام سے دوبارہ بنائی گئی جس میں انتہائی طاقتور اور ربّانی قوّتیں مثلاً چھٹی حس، روحی حرکت یا حرکت بعید ( دماغ کے ذریعہ چیزیں کو حرکت میں لانا [Psychokinesis]) ، یا صرف چیزوں کو اپنی سوچ سے حرکت دینے جیسی تمام قوّتیں اس کو تفویض کر دی گئی تھیں۔ ویلز اس کہانی سے جو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ دیوتاؤں جیسی طاقت و اختیار کے لئے ان جیسی بصیرت اور ادرک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

روحی حرکت یا حرکت بذریعہ دماغ ادب میں کافی نمایاں مقام رکھتی ہے خاص طور پر شیکسپیئر کے ناول "طوفانی ” (دی ٹیمپسٹ) میں جہاں ایک جادوگر” پروسپیرو (Prospero) ” اپنی بیٹی "مرانڈا” (Miranda)  اور جادوئی موکل "ایریل” (Areil)  کے ساتھ برسوں سے ایک سنسان جزیرے پر اپنے شیطانی بھائی کی غداری کی وجہ سے مبتلائے مصیبت تھے۔ پروسپیرو کو جب اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اس کا شیطانی بھائی اس کے علاقے میں سے ایک کشتی پر سوار ہو کر گزر رہا ہے تو وہ اپنے بھائی سے انتقام لینے کے لئے اپنی روحی حرکت کی قوّت سے ایک عفریت نما طوفان کا طلسم جگاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے شیطانی بھائی کا پانی کا جہاز  جزیرے کے پاس ڈوب جاتا ہے۔ اس کے بعد پروسپیرو اپنی حرکی قوّت زندہ بچ جانے والوں کے اوپر آزماتا ہے جس میں ایک وہ لڑکا بھی شامل ہوتا ہے جس کا نام "فرڈینانڈ” (Ferdinand) ہوتا ہے جو بعد میں پروسپیرو کی بیٹی کا محبوب بن جاتا ہے۔

(روسی مصنف "ولادیمیر نوبوکوف” (Vladimir Nabokov)  کے مطابق "طوفانی ” کی کہانی سائنس فکشن سے بہت زیادہ ملتی ہے۔ حقیقت میں اس کے لکھے جانے کے ٣٥٠ برس کے بعد یہ کہانی ایک ١٩٥٦ء میں بننے والی سائنس فکشن کلاسک فلم "ممنوع سیارہ ” میں دوہرائی گئی جس میں پروسپیرو سوچوں میں غلطاں سائنس دان "موربئوس ” (Morbius) بن گیا، موکل روبوٹ "روبی” (Robi) بن گیا، مرانڈا موربئوس کی خوبصورت بیٹی "الٹائر ا” (Altaira)  کے روپ میں پیش ہوئی، اور جزیرے کا نام سیارہ "الٹائر -٤ ” (Altair – 4) رکھ دیا گیا۔ جین روڈن بیری  جو اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن سلسلے کے خالق ہیں انہوں نے اس بات کو برملا تسلیم کیا ہے کہ ان کی ٹیلی ویژن سلسلے کو بنانے کی تحریک دینے والی فلم "ممنوع سیارہ "ہی تھی۔ )

حالیہ دور کا ایک اور ناول  جس کا نام” کیری” (Carrie) (١٩٧٤ء ) تھا اور یہ ا سٹیفن کنگ نے لکھا تھا۔ اس میں روحی حرکت کہانی کا مرکزی حصّہ تھی۔ اس کہانی نے غربت کے مارے مصنف کو دنیا کی خوفناک کہانیوں کا صف اوّل کا مصنف بنا دیا تھا۔ ناول میں کیری ایک حد درجے کی شرمیلی، جذباتی، معاشرتی طور پر ٹھکرائی ہوئی نا پسندیدہ  کالج کی لڑکی تھی جو دماغی طور پر پریشان ماں کے چنگل میں پھنس گئی تھی۔ اس کی تشفی کرنے کے لئے صرف اس کی روحی حرکت کی قوّت ہی تھی جو بظاہر اس کے گھرانہ میں ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔ ناول کے آخر ی حصّے میں اذیت رسان نے دھوکے سے اس کو یہ بات کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ایک ملکہ ہے اور پھر اس کے نئے لباس کو مکمل طور پر سور کا خون گرا کر آلودہ کر دیا۔ آخری حصّے میں کیری کے انتقام کا انجام دکھایا ہے۔ وہ اپنی دماغی طاقت سے تمام دروازے بند کر دیتی ہے۔ اپنے اذیت رسان کو بجلی سے مار ڈالتی ہے ، اسکول میں آگ لگا دیتی ہے اور خودکشی کا ایسا طوفان چھوڑتی ہے جس کے نتیجے میں قصبے کے زیادہ تر لوگ اپنی زندگیاں ہار جاتے ہیں۔

ذہنی طور پر ایک کھسکے ہوئے شخص کے ہاتھ میں روحی حرکت کی قوّت اسٹار ٹریک سلسلے کی یادگار قسط ” چارلی ایکس ” (Charlie – X) کا مرکزی خیال تھا۔ یہ قسط ایک ایسے نوجوان کے بارے ، میں تھی جو خلاء کے ایک دور دراز کے سیارے سے تعلق رکھتا تھا اور مجرمی نوعیت کا تھا۔ اپنی روحی حرکت کی قوّت کو بھلائی کے کاموں میں استعمال کرنے کے بجائے اس نے اس کا استعمال لوگوں کو قابو کرنے کے لئے شروع کر دیا اور ان کو اپنی خود غرض خواہشات کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اگر وہ "انٹرپرائز” پر قابو پا لیتا تو زمین پر پہنچ کر وہاں سیاروی افراتفری اور تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔

روحی حرکی قوّت بھی "فورس” کی قوّت تھی جس کو جنگجوؤں کی ایک اساطیری سوسائٹی نے بنایا تھا اس سوسائٹی کا نام” اسٹار وار” کی داستان میں "جیڈآئی”  (Jedi) سردار تھا۔

 

                روحی حرکی قوّت اور حقیقی دنیا

 

شاید روحی حرکی قوّت کی مشہور روبرو لڑائی اصل دنیا میں "جونی کار سن” (Johnny Carson) کے شو میں ١٩٧٣ء میں ہوئی۔ یہ تاریخی لڑائی دو لوگوں کے درمیان تھی جس میں سے ایک اسرائیلی نفسیاتی ” یوری گیلر” (Uri Geller) تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی دماغی طاقت کے بل بوتے پر چمچے کو موڑ سکتا ہے اور دوسرا  "امیزنگ رینڈی” (Amazing Randi) – ایک پیشہ ور جادوگر تھا۔ اس نے اپنے دوسرے پیشے کا آغاز ان دھوکے بازوں کے بھانڈے پھوڑنے سے کیا جو روحی حرکی قوّت رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ (حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں کی میراث مشترکہ تھی: سب نے بطور جادوگر اپنا روزگار شروع کیا تھا۔ ہاتھ کی صفائی کی شعبدہ بازی میں کمال حاصل کر کے وہ تماشائیوں کو حیران کر دیتے تھے۔ )

گیلر کے شعبدہ بازی دکھانے سے پہلے ، کار سن نے رینڈی سے مشورہ مانگا۔ رینڈی نے جونی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے چمچے گیلر کو دے اور شو ٹائم سے پہلے اس نے ان چمچوں کا معائنہ بھی کیا۔ شعبدہ شروع کرتے ہوئے جب کار سن نے گیلر سے کہا کو وہ اپنے چمچوں کے بجائے اس کے دیئے ہوئے چمچوں کو موڑے تو وہ سناٹے میں آگیا۔ ہر دفعہ جب وہ چمچے کو موڑنا شروع کرتا تو ناکام ہو کر شرمندہ ہو جاتا۔ ( بعد میں رینڈی، جونی کار سن کے شو میں آیا جہاں اس نے کامیابی کے ساتھ چمچوں کو موڑنے کا شعبدہ دکھایا لیکن اس نے اپنے اس جادو کو روحی حرکت کی قوّت کے بجائے شعبدہ بازی کا کمال بتایا۔ دی امیزنگ رینڈی نے ١٠ لاکھ ڈالر کا انعام اس شخص کے لئے رکھا ہوا ہے جو کامیابی کے ساتھ روحی حرکی قوت کا مظاہرہ کر کے دکھائے گا۔ سردست تو کوئی بھی نفسیاتی اس دس لاکھ ڈالر کے انعام کو جیت نہیں سکا ہے۔ )

 

                 روحی حرکی قوّت اور سائنس

 

روحی حرکی قوّت کا سائنسی تجزیہ کرتے وقت سائنس دان جس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ نفسیاتی قوّت کے دعویداروں کے ہاتھوں بے وقوف بن جانا ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کی تربیت ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ  تجربہ گاہ میں دیکھی ہوئی چیز پر یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ ذہنی طاقت رکھنے کے دعوے دار جادوگروں کی تربیت لوگوں کی نظر بندی کر کے ان کو بیوقوف بنانے کی ہوتی ہے۔  نتیجتاً  سائنس دان ان دماغی قوّتوں کے مظاہرہ کرنے والوں کا صحیح طور سے مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر ١٩٨٢ء میں” ماہر ارواحیت” ( Parapsychologist) کو ان دو لڑکوں کا تجزیہ کرنے کے لئے بلایا جن کے پاس غیر معمولی صلاحیتیں تھیں۔ ان لڑکوں کے نام” مائیکل ایڈورڈس” (Michael Edwards)  اور "اسٹیو شا (Steve Shaw) ” تھے۔ یہ لڑکے دھاتوں کو موڑنے ، اپنے خیال کے زور پر فوٹو گرافک پلیٹ پر تصاویر بنانے ، روحی حرکی قوّت سے چیزوں کو ہلانے اور دماغ کو پڑھنے کے دعوے دار تھے۔ ماہر ارواحیت ” مائیکل تھال بورن” (Michael Thalbourne) ان سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ انہوں نے ان لڑکوں کو بلانے کی اصطلاح "سائیکو کنیٹ ” گھڑ لی۔ سینٹ لوئیس، مسوری میں واقع مکڈونل لیبارٹری برائے طبیعیاتی تحقیق میں موجود ماہرین ارواحیت ان لڑکوں کی صلاحیتوں انگشت بدہاں رہ گئے۔ ماہرین ارواحیت کو یقین آگیا تھا کہ انہوں نے لڑکوں کی روحی حرکی صلاحیتوں کا ثبوت حاصل کر لیا تھا اور وہ ان پر ایک سائنسی مقالہ بھی لکھنے والے تھے۔ اگلے برس ہی لڑکوں نے اعلان کر دیا کہ وہ جعلساز تھے اور ان کی کرشماتی طاقتیں کوئی ماورائے عقل نہیں بلکہ عام جادوئی شعبدے بازیاں تھیں۔ (ان دونوں نوجوانوں میں سے ایک نوجوان جس کا نام اسٹیو شا تھا، بعد میں تو ایک مشہور جادوگر بن گیا تھا، جو اکثر قومی ٹیلی ویژن پر آ کر کئی کئی دن زندہ دفن ہونے کا کمال دکھاتا تھا۔ )

ڈیوک یونیورسٹی میں واقع رائن انسٹیٹیوٹ میں سخت نگرانی میں روحی حرکی قوّت پر جامع تجربات کئے گئے۔ ان تجربات کے مختلف نتائج حاصل ہوئے۔ اس مضمون کی ایک بڑی عالمہ جن کا نام پروفیسر” گر ٹروڈ شومائیڈ لر” (Gertrude Schmeidler) تھا وہ یونیورسٹی آف نیویارک میں میرے رفقاء میں سے ایک تھیں۔ وہ ماورائے نفسیات کے ایک رسالے کی سابقہ مدیر اور انجمن  ماورائے نفسیات کی سابقہ صدر بھی رہ چکی تھیں۔ وہ چھٹی حس کی قوّت سے اس قدر متاثر تھیں کہ انہوں نے اپنے کالج کے طالبعلموں پر اس کی تحقیق کی۔ وہ تقریبات میں مشہور نفسی ماہرین کو کھانے پر آئے مہمانوں کے سامنے اپنے کمالات دکھانے کو کہتیں تا کہ ان کو اپنے کام کے لئے زیادہ سے زیادہ رضا کر مل سکیں۔ سینکڑوں طالبعلموں، کئی نفسی اور دماغی ماہرین کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک دن انہوں نے مجھ سے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں کوئی ایک بھی ایسا نہیں مل سکا جو روحی حرکی قوّت کا مظاہرہ ان کے کہنے پر ان کی پسند کی ہوئی جگہ پر کر سکے۔

ایک دفعہ وہ کمرے میں ایک چھوٹا سا "برقی مقاومت” (ایک نیم موصل آلہ جس کی مزاحمت درجہ حرارت کے لیے انتہائی حساس ہوتی ہے [Thermistor]) لے کر پھیل گئیں تا کہ وہ کمرے کے درجہ حرارت میں ہونے والے فرق کو ناپ سکیں۔ ایک ماہر نفسی کافی تگ و دود کے بعد ایک درجہ حرارت کے دسویں حصّے تک کمرے کا درجہ حرارت بڑھانے میں کامیاب ہو گیا۔ شومائیڈ لر کو اس بات کا انتہائی زعم تھا کہ انہوں نے اس تجربے کو زبردست نگرانی میں سر انجام دیا تھا۔ مگر یہ کسی بھی بڑی چیز کو اپنی مرضی سے  دماغ کی قوّت سے ہلانے سے کوسوں دور کی چیز تھی۔

ایک اور انتہائی سخت ماحول میں کی جانے والی لیکن انتہائی متنازع روحی حرکی قوّت پر کی جانے والی تحقیق جو پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبے پرنسٹن انجینئرنگ انومالیز ریسرچ میں ہوئی تھی۔ اس شعبے کو "رابرٹ جی جان” (Robert G John)  نے ١٩٧٩ء میں قائم کیا تھا جب وہ اسکول آف انجینئرنگ اور اپلائیڈ سائنس کے ڈین تھے۔ شعبے کے انجنیئر ز اس بات کی کھوج میں لگے ہوئے تھے کہ انسانی دماغ صرف خیالات کے بل بوتے پر کسی اٹکل پچو ہونے والے واقعے کو قابو کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم سکّہ اچھالتے ہیں تو چٹ یا پٹ آنے کا احتمال ٥٠ فیصد ہوتا ہے۔ مگر یہاں پر موجود سائنس دانوں کا دعویٰ تھا کہ انسانی دماغ اس قابل ہے کہ ایسے کسی واقع کے نتیجے کو اپنے خیال کے ذریعہ حاصل ہونے والی نتیجے پر اثر انداز ہو سکے۔ ٢٠٠٧ء میں اپنے بند ہونے کے ٢٨ سال کے دوران اس شعبے میں موجود انجینیروں نے ہزار ہا تجربات کئے جس میں ١٧ لاکھ آزمائشیں اور ٣٤ کروڑ سکّوں کو اچھالنا شامل تھا۔ حاصل کردہ نتیجے اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ روحی حرکی قوّت کا اثر موجود ہے لیکن اس کے اثرات نہایت ہی خفیف سے ہیں جن کا تناسب اوسطاً ١٠ ہزار میں سے صرف کچھ حصّے ہی ہے۔ مزید براں یہ نہ ہونے کے برابر نتیجے بھی دوسرے سائنس دانوں کی نظر میں متنازع ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ محققین نے ڈیٹا کے اندر لطیف تعصبی نتیجے ڈالے ہیں۔

(١٩٨٨ء میں یو ایس کی فوج نے نیشنل ریسرچ کونسل کو ماورائے عقل کی تحقیق سے حاصل ہونے والے دعووں کی چھان بین کرنے کو کہا۔ امریکی فوج  اس تحقیق سے ممکنہ حاصل ہونے والے فوائد کو اپنی فوج میں استعمال کرنے کے لئے شدید بیتاب تھی۔ اس تحقیق میں روحی حرکی قوّت بھی شامل تھی۔ دی نیشنل ریسرچ کونسل نے تحقیق پر اپنی رپورٹ بنائی۔ اس رپورٹ میں ایک فرضی ” زمین کی پہلی پلٹن ” جو ان "جنگجو درویشوں ” پر مشتمل ہونی تھی  جو کمیٹی کے زیر نظر تمام فنیات کے ماہر ہوں، ان فنیات میں چھٹی حس کا استعمال، اپنے جسم سے ضرورت کے وقت روح الگ کر لینا، ہوا میں معلق ہونا، نفسی طور پر زخموں کو مندمل کر لینا، اور دیواروں میں سے گرز جانا وغیرہ شامل تھیں۔ پئیر (پی ای اے آر ) کے دعوے کا تجزیہ کرتے ہوئے نیشنل کونسل نے یہ پتا لگایا کہ ان تمام کامیاب آزمائشوں کے نصف حصّے کے پیچھے میں صرف ایک ہی شخص تھا۔ کچھ ناقدین کا یہ خیال ہے کہ یہ وہ ہی شخص ہے جس نے تجربات کرنے کا انتظام کروایا تھا یا اس نے پئیر کے کمپیوٹر پروگرام کو لکھا تھا۔ "مجھے تو یہ بات ٹھیک نہیں لگتی کہ تجربہ گاہ کو چلانے والا ہی کامیاب نتائج دے رہا ہو۔ ” یونیورسٹی آف ا وریگن کے ڈاکٹر رے نے اپنے خیال کا اظہار ان الفاظوں میں کیا۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ "١٣٠ برسوں پر محیط  ماورائے نفسیات کے مظہر پر کی گئی اس تحقیق کی کوئی بھی سائنسی توجیح نہیں مل سکی۔ ")

روحی حرکی قوّت کے مطالعہ میں سب سے بڑا مسئلہ جس کو اس کے حمایتی بھی مانتے ہیں وہ اس کا آسانی کے ساتھ طبیعیات کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ قوّت ثقل، کائنات کی کمزور ترین قوّت صرف چیزوں کو کھینچتی ہے اور چیزوں کو اٹھانے یا دفع کرنے کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی ہے۔ برقی مقناطیسی قوّت میکسویل کی مساوات کے تابع ہے جو برق کے زور پر کسی بھی معتدل چیز کو کمرے میں دھکیلنے سے انکاری ہے۔ نیوکلیائی قوّت صرف چھوٹے پیمانے پر کام کرتی ہے۔ وہ نیوکلیائی ذرّوں کے درمیان موجود فاصلوں پر ہی کام کر سکتی ہے۔ روحی حرکی قوّت کے ساتھ دوسرا مسئلہ توانائی کی فراہمی کا ہے۔ انسانی جسم صرف ٢٠ فیصد ہارس پاور کی توانائی پیدا کر سکتا ہے ، مگر اسٹار وارز میں "یوڈا” (Yoda)  پورے خلائی جہاز کو اپنی دماغی قوّت سے اٹھا لیتا ہے۔ یا پھر جب سائکلوپس اپنی آنکھوں سے لیزر کی شعاعیں نکالتا ہے۔ یہ تمام کام” قانون بقائے توانائی” کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں، یوڈا جیسی کوئی چھوٹی سی چیز اپنے اندر اتنی زیادہ توانائی نہیں رکھ سکتی کہ وہ پورے جہاز کو اٹھا لے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم کتنی بھی توانائی اس میں مرتکز کر دیں بہرصورت  وہ اتنی نہیں ہو گی کہ اس قسم کے کارنامے اور معجزے دکھا سکے جیسا کہ روحی حرکی قوّت والے دکھاتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کس طرح سے روحی حرکی قوّت قوانین طبیعیات سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے ؟ آئیے اس بات کا جائزہ لیں۔

 

                روحی حرکی قوّت اور دماغ

 

اگر روحی حرکی قوّت کائنات کی مسلّمہ قوّتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے تو پھر مستقبل میں اس کو کس طرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ اس چیز کا ایک سراغ تو ہمیں اسٹار ٹریک کی قسط "ہو مارنس فار اڈونائس ” میں ملتا ہے جس میں انٹرپرائز کے عملے کا سامنا ایک ایسی نسل سے ہوتا ہے جو یونانی دیوتاؤں سے ملتی جلتی تھی۔ یہ نوع اس قابل تھی کہ دماغ  بھک سے کر دینے والے کرتب اور تماشے صرف دماغی سوچ کے بل بوتے پر ہی کر سکتے تھے۔ شروع میں تو ایسا لگتا ہے کہ عملے کا سامنا "اولمپس” کے دیوتاؤں سے ہو گیا ہو۔ لیکن آخر کار عملے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی دیوتا وغیرہ نہیں ہیں بلکہ عام سے انسان ہی ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دماغ سے ایک مرکزی توانائی کے منبع ( پاورا سٹیشن)  کو قابو میں رکھتے ہیں جو ان کی خواہشات اور معجزات دکھنے والے کرتبوں کو رونما کرتا ہے۔ ان کے مرکزی توانائی کے منبع کو  تباہ کرنے کے بعد انٹرپرائز کے عملے نے ان کو اس قوّت سے محروم کر دیا تھا۔

مستقبل میں اس شخص کے لئے جو اپنے دماغ سے کام لیتے ہوئے برقی حساس آلات کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا تربیت یافتہ ہو۔ وہ اس تربیت کے نتیجے میں ماورائے انسان جیسی قوّت کو حاصل کر لے گا اور یہ بات قوانین طبیعیات کے دائرہ کے عین اندر آتی ہے۔ ریڈیائی –افزوں یا کمپیوٹر – افزوں روحی حرکی قوّت درحقیقت حاصل کرنا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر، ای ای جی کو روحی حرکی قوّت کے اوّلین آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دماغی نمونے ای ای جی کی اسکرین پر دیکھ کر لوگ اپنے دماغی نمونوں کو قابو میں رکھنا کافی حد تک سیکھ سکتے ہیں۔ اس عمل کا نام "بائیو فیڈ بیک” ہے۔

کیونکہ ابھی تک کوئی بھی ایسا تفصیلی خاکہ دستیاب نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ کون سا عصبانیہ کس پٹھے کو قابو میں رکھتا ہے لہٰذا مریض کوکسی کمپیوٹر کی مدد سے اپنے دماغی نقشوں کو قابو کرنے کے عمل میں خود دلچسپی لینی ہو گی۔ بالآخر اس طرح سیکھ کر کوئی بھی فرد ضرورت پڑنے پر کچھ مخصوص قسم کے نمونے کمپیوٹر کی اسکرین پر پیدا کر سکے گا۔ جہاں سے خاکے کو لے کر ایک کمپیوٹر پروگرام میں بھیجا جا سکے گا تا کہ وہ پہلے سے ذخیرہ شدہ خاکوں کو اس سے ملا کر بعد میں اس سے جڑے کسی حکم پر درستگی کے ساتھ عمل درآمد کر سکے۔ یہ ایسے ہی ہو گا  جیسے کہ کوئی بجلی کا بٹن دبا دے یا پھر موٹر کو چالو کر دے۔ بہ الفاظ دیگر کوئی شخص اپنی سوچ کو قابو کر کے ، ای ای جی میں مخصوص دماغی نقشے بنا کر کمپیوٹر یا موٹر کو چلا سکتا ہے۔

اس طرح سے کوئی مکمل طور پر فالج زدہ شخص اپنی وہیل چیئر کو اپنے دماغ کی طاقت سے قابو کر سکتا ہے۔ یا اگر کوئی شخص چھبیس قسم کے قابل شناخت نمونے بنا لے تو یہ دماغی سوچ کے ذریعہ لکھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ اب بھی کسی کے خیالات کو منتقل کرنے کا انتہائی بنیادی طریقہ ہو گا۔ لوگوں کو بائیو فیڈ بیک کے ذریعہ اپنی دماغی لہروں کو منظم کر نے کی تربیت کے لئے کافی عرصہ درکار ہو گا۔

"سوچ کے ذریعہ لکھنے کا عمل” جرمنی میں واقع یونیورسٹی آف ٹبنگن کے ” نیلز بربو مر” (Neils Birbaumer) کے کام کی وجہ سے  حقیقت کے قریب آ چکا ہے۔ اس نے بائیو فیڈ بیک کے عمل کا استعمال ان لوگوں کی بھلائی کے لئے شروع کیا جو جزوی طور پر عصبی نقصان کی وجہ سے فالج زدہ ہو گئے تھے۔ لوگوں کو اپنی دماغی لہروں کے متعلق تربیت دے کر وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ لوگوں کو کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک سادہ جملہ لکھنا سیکھا سکیں۔

بندروں کے دماغ میں برقیرے نصب کر کے ان کو بائیو فیڈ بیک کے ذریعہ یہ بات سکھائی گئی کہ کس طرح سے وہ اپنے خیالات کو انضباط کریں۔ بعد میں یہ بندر ایک روبوٹ کے بازو کو انٹرنیٹ کے ذریعہ صرف اپنے خیالات سے قابو کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔

ایک اور واضح تجربہ اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی میں کیا گیا جس میں شیشے کے دانے ایک فالج زدہ مفلوج شخص کے دماغ میں نصب کئے گئے۔ ان شیشوں کے دانوں کو ایک تار کے ذریعہ جوڑا گیا اور تار کے دوسرے حصّے کو کمپیوٹر سے ملا دیا گیا۔ کچھ مخصوص خیالات کو سوچ کر فالج زدہ شخص اپنے خیالات کو تاروں کے ذریعہ اسکرین پر بھیج کر کرسر کو حرکت دینے کے قابل ہو گیا تھا۔ بائیو فیڈ بیک کو استعمال کرتے ہوئے فالج زدہ شخص نے مشق کرتے ہوئے شعوری طور پر کرسر کی حرکت کو قابو کرنا سیکھ لیا تھا۔ نظریاتی طور پر اسکرین پر موجود کرسر خیالات کے لکھنے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس کے ذریعہ مشین بھی چلائی جا سکتی ہے ، مجازی کار بھی چلائی جا سکتی ہے ، ویڈیو گیم بھی کھیلے جا سکتے ہیں اور اس طرح کے دوسرے بہت سے دوسرے کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔

براؤن یونیورسٹی کے علم الاعصاب کے ماہر "جان ڈونیو” (John Donghue) نے شاید”بین السطو ح دماغی مشین” (Mind Machine Interface)  میں اب تک کی سب سے اہم ایجاد کر لی ہے۔ انہوں نے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جس کا نام برین گیٹ ہے جو مفلوج شدہ شخص کو غیر معمولی جسمانی حرکات کے سلسلے کو صرف اپنے دماغ کی طاقت سے سرانجام دینے کے قابل بنا دیتا ہے۔ ڈونیو نے اس کو اب تک اپنے چار مریضوں کے اوپر استعمال کیا ہے۔ جس میں سے دو مریض ریڑھ کی ہڈی کے زخم کے مارے تھے ، تیسرا فالج کا شکار تھا جبکہ چوتھا شخص ایک مرض اے ایل ایس (ایک ایس بیماری جس میں بغلی نس خشکی عضلات کی وجہ سے سخت ہو جاتی ہے ) کا شکار تھا۔ یہ وہی مرض ہے جو ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ کو ہے۔

ڈونیو کا ایک٢٥ سالہ مریض جس کا نام” متھیو ناگلی” (Mathew Nagle) تھا وہ دونوں ہاتھوں اور پیروں سے اپاہج تھا اس نے صرف ایک دن میں ہی مکمل طور پر کمپیوٹر کی نئی چیزیں سیکھ لیں۔ اب وہ اپنے ٹیلی ویژن کے چنیل تبدیل کر سکتا ہے ، آواز کو کم زیادہ کر سکتا ہے ، مصنوعی ہاتھ کو کھول بند کر سکتا ہے ، گول دائرے جیسی چیز بھی بنا لیتا ہے ، کمپیوٹر کے کرسر کو حرکت بھی دے دیتا ہے ، کمپیوٹر پر گیم بھی کھیل سکتا ہے یہاں تک کہ برقی خط بھی پڑھ سکتا ہے۔ اس نے سائنس کی دنیا میں اس وقت کافی سنسنی پھیلائی جب وہ نیچر میگزین کے ٢٠٠٦ء کے موسم سرما کے سرورق پر ابھرا۔

ڈونیو کے برین گیٹ کا اصل قلب ایک چھوٹی سی سلیکان چپ ہے جو صرف ٤ ملی میٹر چوڑی ہے جس میں ایک سو ننھے برقیرے لگے ہوئے ہیں۔ یہ چپ سیدھی دماغ کے اس حصّے کے اوپر لگا دی جاتی ہے جہاں پر موٹر کی حرکیات کو مربوط کیا جاتا ہے۔ چپ کو دماغ کے ” قشر الحرکت ” (Cortex) میں ٢ ملی میٹر تک دھنسا دیا جاتا ہے۔ سونے کی تاریں اشاروں کو سلیکان چپ سے ایک افزوں گر کی جانب بھیجتی ہیں جس کا حجم صرف ایک سگار کے ڈبے جتنا ہوتا ہے۔ یہ اشارے اس کے بعد ایک برتن دھونے کی مشین کے جتنے کمپیوٹر میں بھیجے جاتے ہیں۔ جہاں ان اشاروں یا اطلاعات کولے کر ایک خصوصی کمپیوٹر سافٹ ویئر ان پر کام کرتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر دماغ سے بنے کچھ نمونوں کو پہچان سکتا ہے اور اس کے بعد ان کو میکانکی حرکت میں بدل دیتا ہے۔

پچھلے تجربے کے برعکس جس میں مریض اپنے ای ای جی کی لہروں کو پڑھتے ہیں، بائیو فیڈ بیک کا عمل کافی سست رفتار اور تھکا دینے والا ہے۔ لیکن ایک کمپیوٹر کے ذریعہ جو مریض کو اس کے مخصوص خیالات کے نمونوں کو پہچانے میں مدد دیتا ہے ، تربیت کے عمل میں درکار وقت کو کافی کم کیا جا سکتا ہے۔ اپنی تربیت کے پہلے دور میں ناگلی کو کہا گیا کہ وہ اپنے بازوں کو سیدھی اور الٹی طرف حرکت دینے کا تصوّر کرے۔ اپنی کلائی کو لچک دار بنائے اور اس کے بعد اپنی ہتھیلی کو کھولے اور بند کرے۔ ناگلی کے بازوں اور انگلیوں کی حرکت دینے کے تصوّرات سے نکلتے ہوئے مختلف عصبانیوں کو دیکھ کر ڈونیو انتہائی مسرور تھا۔ "میرے لئے یہ ناقابل یقین بات تھی کیونکہ آپ دماغی خلیوں کی بدلتی حرکتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ تب مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ کام آگے بڑھ سکتا ہے ، یہ ٹیکنالوجی حقیقت میں کام کرے گی۔ ” وہ اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔

(ڈونیو کی اس پراسرار  بین السطو ح دماغی مشین کو بنانے کی آرزو کی ایک شخصی وجہ ہے۔ عہد طفلی میں ایک تکلف دہ ابتذالی مرض میں مبتلا ہو کر ایک وہیل چیئر تک محدود ہو گیا تھا۔ لہٰذا اس کو بذات خود نقل و حرکت کی صلاحیت کھو کر بے بسی کی زندگی گزارنے کا تجربہ تھا۔ )

ڈونیو کے پاس ایک پر عزم منصوبہ ہے جس میں وہ برین گیٹ کو طبی پیشے کا ایک لازمی آلہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے ساتھ ان کا آلہ جو ابھی ایک برتن دھونے کی مشین کے جتنا ہے ، چھوٹا ہو کر ایک ایسے سبک آلے کی شکل میں آ جائے جو مریض اپنے کپڑوں کے ساتھ ہی پہن سکے گا۔ اور بغیر تاروں کی چپ کو استعمال کر کے بھدے تاروں سے جان چھٹ سکتی۔ اس کے نتیجے میں لگا ہوا آلہ بیرونی دنیا سے آسانی سے اپنی بات کہہ سکے گا۔

اب یہ کچھ دیر ہی کی بات ہے جب دماغ کے دوسرے حصّے بھی اسی طرح سے متحرک کر دیئے جائیں گے۔ سائنس دان پہلے ہی دماغ کے اوپری حصّے کی نقشہ سازی کر چکے ہیں۔ (اگر کوئی ترسیمی طور پر ہمارے ہاتھوں، پیروں، سر اور کمر کے خاکے ہمارے دماغ کے اوپری حصّے میں بنا دے جو اس بات کی نمائندگی کریں، جہاں یہ عصبانیے عام طور پر ملتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی چیز مل جائے گی جس کو ہم "ٹھگنا” یا چھوٹا آدمی کہ سکتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں جسم کی لکھی گئی تصویریں ایک مسخ شدہ آدمی جیسی ہوں گی جس کی انگلیاں، چہرہ اور زبان لمبی، جبکہ کب اور پچھلا حصّہ سکڑا ہوا ہو گا۔ )

یہ بھی ممکن ہے کہ سلیکان کی مختلف چپس کو دماغ کی سطح کے مختلف حصّوں میں لگا دیا جائے تا کہ مختلف اعضاء کو صرف خیالات کی طاقت سے متحرک کیا جا سکے۔ اس طرح سے کسی بھی انسانی جسمانی حرکت کی اس طریقے کے ذریعہ سے نقل کی جا سکتی ہے۔ مستقل میں اس بات کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مفلوج شخص ایک خصوصی روحی حرکی قوّت کی مدد سے بنے گھر میں رہ رہا ہو، جہاں وہ ایئر کنڈیشن، ٹیلی ویژن اور تمام برقی آلات صرف اپنے خیالات کے ذریعہ اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتا ہو گا۔

آنے والے دور میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ کسی مفلوج شخص کا جسم کسی خصوصی ” برکالبد” (یا ظاہری ڈھانچے  (Exoskeleton – میں موجود ہو جو اس مفلوج شخص کو مکمل جسمانی حرکت کرنے کی آزادی فراہم کر دے۔ نظری طور پر ایسا کوئی بھی برکالبد اس شخص کو وہ صلاحیتیں عطا کر سکتا ہے جو ایک عام آدمی کی بساط سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ اس طرح سے وہ آدمی مصنوعی اعضاء کی مدد سے مافوق الفطرت بن سکتا ہے  جو صرف خیالات کے بل بوتے پر زبردست میکانکی قوّت کو اپنے قابو میں کر کے اپنے کام میں لا سکے گا۔

لہٰذا کمپیوٹر کو دماغ کی مدد سے چلانا اب کوئی ناممکن بات نہیں ہو گی۔ لیکن کیا اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک دن صرف خالص خیالات کی بدولت چیزوں کو ہلانے ، اٹھانے ، اور آگے پیچھے کرنے کے قابل بھی ہو سکیں گے ؟

ایک ممکنہ حل تو یہ ہے کہ ہم اپنے کمروں کی دیواروں پر عام درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کا لیپ کر دیں بشرطیکہ ہم فوقی موصل جیسی کوئی چیز مستقبل میں بنا سکیں۔ پھر ہمیں اپنی گھریلو استعمال کی چیزوں میں چھوٹے برقی مقناطیس لگانے پڑیں گے تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ چیزوں کو فرش پر سے ” مئسیر کے اثر” (Meissner Effect) کی بدولت اٹھا سکیں جیسا کہ ہم نے باب اوّل میں دیکھا تھا۔ اگر ان برقی مقناطیسیوں کو ہمارے دماغ سے جڑے کمپیوٹر کے ذریعہ قابو کر لیا گیا  تب کہیں جا کر ہم اپنی مرضی سے ان اشیاء کو فرش پر سے اٹھا سکتے ہیں۔ کچھ مخصوص خیالات کو سوچتے ہوئے کمپیوٹر کو پیغام دیا جا سکتا ہے جو مختلف برقی مقناطیسیوں کو چالو کر کے چیزوں کو ہوا میں بلند کر سکتے ہیں۔ ایک دور سے مشاہدہ کنندہ کو یہ کوئی جادوئی اثر لگے گا جس کے ذریعہ اپنی مرضی سے چیزوں کو حرکت دی جا سکے گی اور اٹھایا بھی جا سکے گا۔

 

                نینو بوٹس

 

اس قوّت کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے ذریعہ ناصر ف اشیاء کو ہلایا جلایا جا سکے بلکہ وہ جادوئی اثر سے ایک شئے سے دوسری شئے میں بھی تبدیل ہو کر اپنی شکل بدل سکیں ؟ اکثر جادوگر چالاکی کے ساتھ ہاتھ کی صفائی سے ایسے کمالات دکھاتے ہیں۔ لیکن کیا ایسی کوئی طاقت قوانین طبیعیات سے رو گردانی تو نہیں کرتی ؟

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی واضح کیا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کا ایک اہم مقصد ایسی مشینوں کو بنانا ہے جو بیرم، گراری، بال بیرنگ اور چرخی کی طرح سے کام کر سکیں۔ ان نینو مشینوں  کو حقیقت کا روپ دینے کے ساتھ ہی کئی ماہرین طبیعیات کا وہ خواب سچا ہو جائے گا جس میں وہ کسی جسم میں موجود سالموں کو جوہر در جوہر از سر نو ترتیب دیں گے یہاں تک کہ ایک چیز اپنی ہئیت بدل کر دوسری چیز میں تبدیل ہو جائے۔ یہ اس نقلچی کی بنیاد ہے جو اکثر سائنسی قصّوں میں پایا جاتا ہے۔ جو کسی بھی چیز کو حکم ملتے ہی بنا ڈالتا ہے۔ نظریاتی نقطۂ نظر سے ایک نقلچی شاید غربت کا خاتمہ کر سکے گا۔ اس کی ایجاد سے سائنس کی نوعیت بدل جائے گی۔ اگر کوئی چیز کسی کے خالی کہنے پر بن جائے تو قلّت کا پورا تصوّر، چیزوں کی اہمیت اور معاشرے کا پورا نظام تلپٹ ہو جائے گا۔

("اسٹار ٹریک : دی نیکسٹ جنریشن” کی ایک قسط میری سب سے زیادہ پسندیدہ رہی ہے جس میں ایک نقلچی دکھایا گیا تھا۔ بیسویں صدی کا ایک قدیمی کیپسول خلاء میں تیرتا ہوا ملتا ہے جس میں لوگوں کے منجمد اجسام موجود ہوتے ہیں جو کسی مہلک مرض میں مبتلا تھے۔ ان اجسام کو جلدی سے پگھلا کر جدید ادویات کی مدد سے تندرست کیا جاتا ہے۔ غنودگی سے اٹھنے اور بیماری سے شفا یاب ہونے کے بعد ان میں سے ایک تاجر کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کا سرمایہ کئی صدیاں گزر جانے کے بعد تو بہت زیادہ بڑھ گیا ہو گا۔ وہ فوراً انٹرپرائز کے عملے سے اپنے سرمائے اور پیسوں کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ عملے کے افراد پیسوں اور سرمائے کا نام سن کر حیران ہوتے ہیں۔ ” مستقبل میں پیسا نام کی کوئی چیز نہیں ہے "۔ وہ اس تاجر کو بتاتے ہیں۔ ” آپ کو اگر درکار ہے تو جناب بس آپ اس کی خواہش کریں وہ حاضر ہو جائے گی۔ )

نقلچی جتنی ہی حیرت انگیز ایک چیز قدرت پہلے ہی بنا چکی ہے۔ "اثبات مفہوم ” (Proof of Principal) کا اصول پہلے سے ہی موجود ہے۔ قدرت گوشت اور سبزیوں جیسے خام مال کو  لے کر نو ماہ میں انسان کا بچا تخلیق کر دیتی ہے۔ حیات کا معجزہ صرف نینو کارخانے کے سوا کچھ اور نہیں ہیں۔ نینو کارخانے اس بات کی صلاحیت کے متحمل ہوتے ہیں کہ جوہری پیمانے پر مادّے کی ایک شکل (مثلاً کھانے ) کو دوسری زندہ شکل (مثلاً بچے ) میں بدل سکیں۔

ایسے نینو کارخانے بنانے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے :بنیادی اجزاء ، آلات جو ان اجزاء کو کاٹ اور جوڑ سکیں اور ایک نقشہ جو ان آلات اور اجزاء کے استعمال کی رہنمائی کر سکے۔ قدرت کے کارخانے میں ہزاروں امینو ایسڈ اور لحمیات ہوتے ہیں جو انسان کا گوشت اور خون بناتے ہیں۔ ان اجزاء کو کاٹنے اور جوڑنے کے اوزار مثلاً ہتھوڑا اور آری جو ان لحمیات کو ساخت میں ڈھالنے کے لئے ضروری ہیں تاکہ حیات کی نئی شکل بن سکے وہ ریبوسومز (اینڈوپلازمک ایٹمی کولم جیسے چھوٹے اور دانے دار خلوی اجزاء ([Ribosomes]  ہیں۔ ان کو بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ لحمیات کو مخصوص جگہ سے کاٹ کر دوبارہ سے جوڑ سکیں تا کہ نئے لحمیات کو بنایا جا سکے۔ ڈی این اے ان کو وہ نقشہ مہیا کرتے ہیں جو حیات کا راز انتہائی درستگی کے ساتھ  نیو کلک ایسڈ کے سلسلوں میں رمز کر دیتے ہیں۔ یہ تینوں اجزاء ایک خلیہ میں جمع ہو جاتے ہیں جس میں خود کی نقل بنانے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ کارنامہ اس لئے سر انجام دیا جاتا ہے کہ، ڈی این اے کا سالمہ دہرا لچھے دار مرغولہ نما ہوتا ہے۔ جب تخلیق کا وقت آتا ہے ، تو ڈی این اے سالمہ اپنے آپ کو کھول کر دو لچھوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس میں سے پھر ہر لڑی نامیاتی سالموں کی مدد سے اپنی نقل بناتی ہے تاکہ اس کا کھویا ہوا دوسرا لچھا دوبارہ  بن سکے۔

ابھی تک تو ماہرین طبیعیات کو قدرتی طور پر پائی جانے والی ان خصوصیات  کو حاصل کرنے میں ابتدائی کامیابی ہی حاصل ہوئی ہے۔ سائنس دانوں کا اس بات پر یقین ہے کہ اس کام میں کامیابی کی کنجی خود کو بنانے والے نینو بوٹس کے غول کو بنا نا ہی ہو گا جو قابل پروگرام ایسی جوہری پیمانے کی مشینیں ہوں گی جو کسی بھی شئے کے ایٹموں کو از سر نو ترتیب دے سکیں گی۔

نظری طور پر اگر ہمارے پاس کھرب ہا کی تعداد میں نینو بوٹس موجود ہوں تو وہ خود کو کاٹ پیٹ کر از سرنو ترتیب دیتے رہیں گے جب تک وہ کسی دوسری مطلوبہ شئے میں بدل نہیں جاتے۔ کیونکہ وہ خود سے اپنے آپ کو بنانے پر قادر ہوں گے لہٰذا ان کی تھوڑی سے تعداد بھی کافی ہو گی۔ ان کو قابل پروگرام بھی ہونا ہو گا تاکہ وہ نقشے یا خاکے میں موجود منصوبے کے مطابق کام کر سکیں۔ اس قسم کے نینو بوٹس کے غول کو بنانے کے لئے کافی مشکلات پر قابو پانا ہو گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خود ساختہ روبوٹ اصغری پیمانے پر بنانا نہایت ہی مشکل کام ہے بلکہ ان کو تو اکبری پیمانے پر بنانا بھی آسان نہیں ہے۔ (یہاں تک کہ سادے سے اوزار جیسے کہ بال بیرنگ اور گراریاں بھی جوہری پیمانے پر بنانا آج کی موجودہ ٹیکنالوجی  کے بس سے باہر ہے۔ )  کمپیوٹر اور برقی پرزوں کی بدولت بھی ایک ایسی مشین بنانا انتہائی مشکل ہے جو اپنی نقل کر کے دوسری مشین خود سے بعد میں بنا سکے۔ لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ اگر کوئی خود ساختہ مشین بڑے پیمانے پر بنانا مشکل ہے تو نینو پیمانے پر ایسی مشین بنانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہو گا۔

دوسرے یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ باہر سے بیٹھ کر ان نینو بوٹس کی فوج کو کس طرح سے پروگرام کیا جائے گا۔ کچھ نے ریڈیائی اشاروں کے ذریعہ ان کو متحرک کرنے کا خیال پیش کیا ہے۔ شاید احکامات لئے ہوئے لیزر کی شعاعیں ان پر ڈالی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر نینو روبوٹ کو ایک علیحدہ احکامات کا سلسلہ بھیجا جائے یاد رہے کہ نینو بوٹس کی تعداد دسیوں کھرب میں ہو سکتی ہے۔

تیسرے یہ بات بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ نینو روبوٹس کس طرح سے جوہروں کی کاٹ پیٹ کر کے ان کو از سر نو ترتیب دیں گے جس کے نتیجے میں وہ کسی خاص قرینے سے لگ کر مطلوبہ شئے کو بنا سکیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ قدرت نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ٣۔ ٥ ارب سال لئے ہیں لہٰذا ان تمام مسائل کو کچھ دہائیوں میں حل کرنا کافی ناممکن سی بات ہے۔

ایک طبیعیات دان جنہوں نے نقلچی یا شخصی اختراع کے خیال کو نہایت ہی سنجیدگی سے لیا  ہے ان کا نام "نیل گر شن فیلڈ” (Neil Gershenfeld) ہے جو ایم آئی ٹی میں کام کرتے ہیں۔ وہ ایم آئی ٹی میں ایک جماعت کو پڑھاتے ہیں جس کا نام ہے "کس طرح سے (تقریباً ) ہر شئے بنائی جائے ” یہ یونیورسٹی کی سب سے مشہور جماعت ہے۔ گر شن فیلڈ ایم آئی ٹی سینٹر فار بٹس اینڈ ایٹمس کو چلاتے ہیں اور انہوں نے شخصی اختراع کے نظرئیے کے پیچھے موجود طبیعیات کو نہایت ہی سنجیدگی سے لیا ہے جو ان کے مطابق اگلے دور کی ایک توپ چیز ہو گی۔ انہوں نے تو ایک کتاب تک لکھ ڈالی ہے جس کا نام "ایف اے بی : دی کمنگ ریوو لوشن ان یور ڈیسک ٹاپ –فرام پرسنل کمپیوٹر تو پرسنل فیبریکیشن ” ہے جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار شخصی اختراع پر کیا ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد "ایک ایسی مشین بنانا ہے جو خود سے کوئی بھی مشین بنا سکے۔ ” اس خیال کے پرچار کے لئے انہوں نے پہلے سے ہی پوری دنیا میں تجربہ گاہوں کا جال بچھا دیا ہے خاص طور پر تیسری دنیا میں جہاں شخصی اختراع کا زبردست اثر ہو گا۔

شروع میں انہوں نے ہر فن مولا قسم کی اختراع کا خیال پیش کیا۔ یہ چیز  جو اس قدر چھوٹا ہو گی کہ آسانی سے میز پر بھی سما جائے گی۔ اس کام کے لئے لیزر کی دنیا میں ہونے والی جدید پیش رفت سے بھرپور استفادہ اٹھایا جائے گا تاکہ کمپیوٹر پر دکھائی دینے والے کسی بھی چیز کو بنانے کے لئے وہ کاٹ پیٹ کر کے ویلڈ کر کے اس کو مخصوص ساخت میں ڈھال سکے۔ مثال کے طور پر تیسری دنیا کے غرباء اس سے کھیتوں میں استعمال ہونے والے اوزار اور مشینیں بنانے کا کہہ سکتے ہیں۔ تمام تر معلومات ایک کمپیوٹر میں موجود ہو گی جو بذریعہ انٹرنیٹ  ایک وسیع قسم کی نقشوں اور تیکنیکی اطلاعات پر مشتمل  ایک لائبریری سے استفادہ کر سکے گا۔ ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر کسی بھی فرد کی خواہش کے اوزار کے نقشے کو اس لائبریری میں موجود نقشے سے ملا کر دیکھے گا ، پھر ان اوزار کو بنانے کا طریقہ کمپیوٹر کو  بذریعہ برقی خط کے بھیج دے گا۔ اس کے بعد ان کا شخصی اختراع، لیزر اور دوسرے آلات کا استعمال کرتے ہوئے اس شئے کو میز کے اوپر ہی بنا دے گا۔

یہ ہر فن مولا قسم کا کارخانہ تو عظیم منزل کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ گر شن فیلڈ کی نظریں تو اس کو سالماتی پیمانے پر کام کرنے کے قابل بنانے پر لگی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں انسان اپنے تخیلات کو حقیقت کا روپ دینے پر قادر ہو جائے گا۔ بہرحال اس میدان میں ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے کیونکہ انفرادی جوہروں میں جوڑ توڑ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا کے "اریسٹائیڈز  ریقوچا” (Aristides Requicha)  ان پہل کاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس سمت میں کام شروع کیا ہوا ہے۔ ان کی امتیازیت سالماتی روبوٹس ہیں اور ان کا مقصد نینو روبوٹس کے غولوں سے کم کی کوئی چیز بنانا نہیں ہے جو ایٹموں کی جوڑ توڑ اپنی مرضی سے کر سکیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو” منظم طریقہ ” (Top-down Approach) ہے جس میں انجنیئر نیم موصل صنعتوں میں استعمال ہونے والی نقش کار ٹیکنالوجی سے استفادہ اٹھاتے ہوئے ننھے سرکٹ بنائیں گے جو نینو بوٹس کے دماغ کے طور پر کام کریں گے۔ اس ٹیکنالوجی میں نہایت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے فن ” ننھی سنگی طباعت” (Nanolithography) سے استفادہ اٹھا کرا اتنے چھوٹے روبوٹ بنائے جا سکتے ہیں جن کا حجم ٣٠ نینو میٹر کا ہو۔

لیکن ایک دوسرا "اوندھا یا الٹا طریقہ” (Bottom-up Approach) بھی ہے جس میں انجنیئر ایک جوہر پر مشتمل روبوٹ بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس کام میں ان کا اہم اوزار "تقطیعی کھوجی خورد بین”  (ا سکیننگ پروب مائکرو اسکوپ)  ہی ہو گی جو اسی  ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گی جو تقطیعی سرنگی خورد بین (ا سکیننگ ٹنلنگ مائکرو اسکوپ) میں انفرادی ایٹموں کی شناخت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سائنس دانوں نے زینون کے جوہروں کو پلاٹینم یا نکل کی سطح پر حرکت دینے میں کافی مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ ” اب بھی دنیا میں موجود بہترین دماغوں پر مشتمل گروہ کو صرف ایک پچاس جوہروں پر مشتمل ساخت کو بنانے کے لئے ١٠ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ ایک ایٹم کو ہاتھ سے حرکت دینے کا عمل ایک انتہائی سست رفتار اور تھکا دینے والا کام ہے۔ ” انہوں نے یہ بات نہایت وثوق سے کہی کہ "ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسی نئی قسم کی مشین بنائی جائے جو اونچے درجے کا کام بجا لا سکے یعنی جو ایک ہی وقت میں سینکڑوں جوہروں کو اپنی مرضی کی جگہوں پر رکھ سکے۔ بدقسمتی سے ایسی کوئی بھی مشین ابھی تک نہیں بن سکی ہے۔ اس بات سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اوندھا طریقہ ابھی اپنے عہد طفلانہ میں ہی موجود ہے۔

لہٰذا مفصلہ بالا گفتگو کی مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ روحی حرکی قوّت اگرچہ آج کے مروجہ معیار کے مطابق نا ممکن ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ای ای جی، ایم آر آئی اور دوسرے طریقوں سے دماغی خیالات کے بارے میں ہماری بڑھتی ہوئی معلومات مستقبل کے آنے والے دنوں میں اس کو  ممکن بنا دے۔

ہو سکتا ہے کہ رواں صدی میں ہی  خیالات کے بل بوتے پر کسی قسم کے آلے کو استعمال کر کے ہم عام درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کے ذریعہ اس طرح کے کام سر انجام دے پائیں جس کو جادو گری سے علیحدہ کرنا مشکل ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگلی صدی تک سالموں کو بڑے اجسام میں از سر نو ترتیب دیا جا سکے۔ اس وجہ سے میں روحی حرکی قوّت کو جماعت "I” کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔ کچھ سائنس دانوں کے دعوے کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی کنجی مصنوعی ذہانت کے حامل نینو روبوٹ ہیں ، لیکن یہ اپنے آپ میں ایک بنیادی سوال چھوڑ دیتا ہے : کیا روبوٹ وجود بھی رکھتے ہیں ؟

 

 

 

 

7۔ روبوٹس

 

آنے والے اگلے ٣٠ برسوں میں ایک دن ایسا آئے گا کہ جب زمین پر ہم خاموشی سے اشرف المخلوقات کے درجے سے تنزلی پا جائیں گے۔
 – جیمز مک الئیر (James McAlear)

 

فلم آئی روبوٹ، آئزک ایسی موف کی کہانی پر بنی ہے ، جس میں دکھایا جاتا ہے کہ تاریخ میں بنائے جانے والے جدید ترین روبوٹس کا نظام ٢٠٣٥ء میں متحرک ہوتا ہے۔ جس کا نام وی آئی کے آئی (ورچوئل انٹرایکٹو کائینٹک انٹیلی جنس – مجازی تفاعلی حرکی ذہانت ) ہوتا ہے ، اس کے بنانے کا مقصد کسی بڑے شہر کے نظام کو بغیر کسی گڑبڑ کے چلانا ہوتا ہے۔ زیر زمین سڑکوں اور بجلی پہنچانے کے نظام سے لے کر ہزار ہا گھریلو روبوٹس تک ہر چیز وی آئی کے آئی کے ذریعہ قابو کی جاتی ہے۔ جس کی آہن پوش مرکزی قیادت کا نعرہ تھا: انسانیت کی خدمت ہمارا شعار۔

ایک دن وکی ایک سوال پوچھتا ہے : انسانیت کا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟ وکی ریاضیاتی حساب کتاب لگا کر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہی ہے۔ نتیجے کے مطابق انسانیت کو اس کی پاگل پنے کی خواہشات سے بچانا ہو گا ان خواہشات میں آلودگی کو پھیلانا، جنگوں میں الجھنا، اور سیارے کو تباہ کرنا شامل تھا۔ وکی کے پاس صرف ایک ہی ایسا طریقہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی مرکزی کمان کی ہدایات کو پورا کر سکتا تھا۔ یعنی انسانیت سے اقتدار چھین کر مشین کی خیر اندیش آمریت کا نفاذ کیا جائے۔ انسانیت کو انسانیت سے بچانے کے لئے اسی کو ہی غلام بنانا پڑے گا۔

آئی روبوٹ نے اس قسم کے سوالات اٹھا دیئے ہیں : کمپیوٹر میں ترقی کی تیز رفتاری کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا مشینیں ایک دن انسانیت کا تختہ الٹ دیں گی ؟ کیا روبوٹ اس قدر ترقی یافتہ اور جدید ہو سکتے ہیں کہ آخر میں وہ ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن جائیں؟

کچھ سائنس دان اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں دیتے ہیں، کیونکہ مصنوعی ذہانت کا خیال ہی انتہائی بیوقوفانہ ہے۔ ناقدین کی بڑی جماعت اس بات پر متفق ہے کہ ایسی مشین بنانا جو بذات خود سوچ سکے ناممکن ہے۔ ان کے دلائل کے مطابق قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں میں انسانی دماغ سب سے پیچیدہ چیز ہے۔ کم از کم ہماری کہکشاں کے اس حصّے کی حد تک تو ایسا ہی ہے اور انسانی دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کی نقل کرنے کی کوشش والی کوئی بھی مشین لازمی طور پر ناکام ہو گی۔ برکلے میں موجود یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر "جان سیَرل” (John Searle) بلکہ آکسفورڈ کے  معروف طبیعیات دان "راجر پنروز” (Roger Penrose) بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مشین طبعی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ انسان کی طرح کے خیالات پیدا کر سکیں۔ راگرس یونیورسٹی کے ” کولن مک گن” ( (Colin McGinn کہتے ہیں کہ "مصنوعی ذہانت ایسے ہی ہے جیسے کوئی حلزون گھونگا” فروڈیین نفسی تجزیہ” کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے پاس کوئی تخیلاتی آلات موجود نہیں ہیں۔ ”

یہ وہ سوال ہے جس نے سائنس دانوں کو ایک  صدی سے بھی زیادہ عرصے سے دو حصّوں میں تقسیم کیا ہوا ہے :کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟

 

                مصنوعی ذہانت کی تاریخ

 

میکانکی ہستیاں ایک لمبے عرصے سے موجدوں، انجینیروں، ریاضی دانوں اور خواب سجانے والوں کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ وزرڈ آف اوز کے ٹین کے آدمی سے لے کر ا سپیل برگ کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس :اے آئی میں دکھائے جانے والے بچوں جیسے روبوٹوں تک یا پھر دی ٹرمنیٹر کے قاتل روبوٹوں تک، ایک ایسے خیال نے ہمیں مسحور کر رکھا ہے جس میں مشینیں لوگوں کی طرح کام کریں اور ان ہی کی طرح سے سوچ سکیں۔

یونانی دیو مالائی کہانیوں میں دیوتا” ولکن ” (Vulcan) سونے کی میکانکی کنیزیں اور اپنی مرضی سے حرکت کرنے والی تین ٹانگوں والی میز بنا تا ہے۔ ٤٠٠ قبل مسیح پہلے سب سے پہلے یونانی ریاضی دان جو "ٹیرانٹم” (Tarentum) کا رہائشی تھا اور جس کا نام "ارخیتاس” (Archytas)  تھا اس نے کسی ایسے ممکنہ روبوٹ پرندے کے بنانے بارے میں لکھا تھا  جس کو بھاپ کی طاقت سے چلایا جا سکتا ہو۔

پہلی صدی بعدِ مسیح اسکندریہ کے ہیرو (جن کو پہلی بھاپ سے چلنے والی مشین کا موجد گردانہ جاتا ہے ) نے خودکار حرکی  چیزیں بنائیں، روایت کے مطابق اس میں سے ایک تو بولنے کے قابل بھی تھی۔ آج سے ٩ صدیوں قبل "الجزاری” (Al-Jazari) نے خود کار مشینوں کے نقشوں کی مدد سے انھیں بنایا جیسا کہ پانی کی گھڑی، باورچی خانے کے استعمال کی چیزیں اور موسیقی کے آلات جو پانی سے چلتے تھے۔

١٩٤٥ء میں نشاط الثانیہ کے عظیم فنکار اور سائنس دان "لیونارڈو ڈ ا ونچی” (Leonardo Da Vinci)  نے ایک ایسے روبوٹک سردار کا نقشہ بنایا تھا جو بیٹھنے اور بازوں کو ہلانے کے علاوہ اپنے سر اور جبڑے کو بھی حرکت دے سکتا تھا۔ تاریخ دانوں کو پورا یقین ہے کہ یہ انسان نما مشین کا پہلا حقیقی نقشہ تھا۔

پہلا بے ڈھنگا مگر کام کرنے کے لائق روبوٹ ١٧٣٨ء میں "جاک ڈی واکنسن” (Jacques de Vaucanson)  نے بنایا۔ اس نے ایک ایسا انسان نما روبوٹ بنایا جو بانسری بجا سکتا تھا اس کے علاوہ اس نے ایک میکانکی بطخ بھی بنائی تھی۔

روبوٹ کا لفظ ١٩٢٠ء میں چیک ڈرامے آر یو آر سے نکلا جو ڈرامہ نگار "کارل کیپک” (Karl Capek) نے لکھا تھا۔ ("روبوٹ” کا مطلب چیک زبان میں "مشقت "کا ہے جبکہ سلوواکی زبان میں اس کا مطلب "مزدوری ” کے ہیں ) ۔ اس کھیل میں ایک کارخانے جس کا نام روسّم یونیورسل روبوٹس تھا وہ ادنیٰ درجے کے کاموں کے لئے روبوٹوں کی فوج بناتی ہے۔ (عام مشینوں کے برخلاف یہ روبوٹ گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں۔ ) آخر کار دنیا کی معیشت کا انحصار ان روبوٹوں پر ہو جاتا ہے۔ روبوٹوں کے ساتھ برتاؤ کافی برا روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے انسانی مالکوں کے خلاف بغاوت کر کے ان کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ اپنے اس انتقام میں وہ ان تمام سائنس دانوں کو بھی مار ڈالتے ہیں جو ان کی خرابیوں کو دور کرتے تھے اور نئے روبوٹ بناتے تھے۔ نتیجتاً وہ خود کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر لیتے ہیں۔ کھیل کے آخر میں دو خصوصی روبوٹ اس بات کو دریافت کر لیتے ہیں کہ ان میں روبوٹوں کو پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ روبوٹوں کے نئے آدم اور حوا بن جاتے ہیں۔

روبوٹ ابتدائی اور مہنگی ترین خاموش فلم جس کا نام میٹروپولس تھا اور جس کی ہدایات کاری فرٹز لینگ نے جرمنی میں ١٩٢٧ء میں کی تھی اس میں بھی روبوٹ ہی مرکزی کردار تھے۔ یہ کہانی ٢٠٢٦ء کے دور کی تھی جہاں پر کام کرنے والا طبقہ زیر زمین ناقص حالات میں غلیظ کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور تھا جب کہ حکمران اشرافیہ سطح کے اوپر عیاشی کر رہی تھی۔ ماریہ نام کی حسین عورت نے مزدوروں کا دل کافی حد تک جیت لیا تھا، لیکن حکمران اشرافیہ کو اس سے مزدوروں کو بغاوت پر اکسانے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انہوں نے ایک شیطان صفت سائنس دان سے ماریا کا ہمشکل روبوٹ بنانے کو کہا۔ لیکن یہ تدبیر ہی ان کے گلے پڑ گئی کیونکہ اس روبوٹ نے ہی حکمران اشرافیہ کے خلاف بغاوت میں ان مزدوروں کی کمان سنبھال لی اور پورے معاشرتی نظام کو منہدم کر دیا۔

مصنوعی ذہانت یا اے آئی ان پچھلی ٹیکنالوجی سے مختلف ہے جن کے بارے میں ہم پہلے بحث کر چکے ہیں اس کی وجہ اس بنیادی قانون کو ابھی تک ٹھیک سے سمجھا نہ جانا ہے جس کی بنیاد پر یہ کھڑی ہے۔ اگرچہ طبیعیات دانوں کی گرفت نیوٹنی میکانیات پر کافی مضبوط ہے ، مگر میکسویل کا روشنی کا نظریہ، اضافیت اور کوانٹم کے جوہروں اور سالموں کے نظرئیے ، یہ سب ذہانت کے بنیادی قوانین ہیں اور ابھی تک اسراریت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا نیوٹن شاید ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔

مگر ریاضی دان اور کمپیوٹر کے میدان کے سائنس دان اس بات سے ذرا بھی خائف نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اب کچھ ہی دیر کی بات ہے جب ایک سوچتی ہوئی مشین تجربہ گاہ سے باہر نکلے گی۔

مصنوعی ذہانت کی دنیا کا سب سے زیادہ اثرو رسوخ رکھنے والا شخص، ایک مستقبل شناس جس نے مصنوعی ذہانت کی تحقیق کی بنیادیں رکھیں وہ برطانیہ کا عظیم ریاضی دان "ایلن ٹیورنگ” (Alan Turing)  تھا۔

یہ ٹیورنگ ہی تھا جس نے کمپیوٹر کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اس نے ایک ایسی مشین (جو اس وقت سے ٹیورنگ مشین کہلاتی ہے ) کا خواب دیکھا جو صرف تین چیزوں پر مشتمل ہو: ایک ان پٹ، ایک آوٹ پٹ اور ایک سینٹرل پراسیسر (جیسا کہ پینٹیم چپ ) جو درست طریقے سے کچھ احکامات پر عمل کر سکے۔ اس طریقے سے نہ صرف وہ  کمپیوٹر مشین کے قوانین کو وضع کرنے کے قابل ہو گیا تھا بلکہ ان کی طاقت اور مجبوریوں کو بھی درست طریقے سے معین کر دیا گیا۔ آج کے دور کے تمام ڈیجیٹل کمپیوٹر سختی کے ساتھ ٹیورنگ کے وضع کردہ قوانین پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا کی کو اس کی موجود شکل و صورت میں ڈھالنے کے اوپر ٹیورنگ کا بہت بڑا احسان ہے۔

ٹیورنگ نے ریاضیاتی منطق کی بنیادیں استوار کرنے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ١٩٣١ء میں ویانا کے ریاضی دان” کرٹ گوڈیل” (Kurt Godel)  نے دنیائے ریاضی کو اس وقت سکتے کی حالت میں ڈال دیا جب انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ ریاضی میں کچھ ایسے سچے دعوے موجود ہیں جو کہ کبھی بھی مسلمہ طور پر ثابت نہیں کئے جا سکتے۔ (مثال کے طور پر١٧٤٢ء کا” گولڈ باخ کا قیاس” [جو یہ کہتا ہے کہ صحیح عدد جفت جو ٢ سے بڑا ہو وہ دو مفرد اعداد کو جمع کر کے لکھا سکتا ہے ] کو ڈھائی صدیاں گزر جانے کے بعد ابھی تک ثابت نہیں کیا جا سکا ہے اور حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کو ثابت بھی نہ کیا جا سکے۔ ) گوڈیل کے اس چشم کشا حقائق نے ٢ ہزار سالہ پرانے یونانیوں کے دور سے دیکھے جانے والے اس خواب کو چکنا چور کر دیا جس میں تمام سچے دعووں کو ریاضیاتی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ گوڈیل نے یہ بات ثابت کر دی کہ ریاضی میں ہمیشہ سے ایسے دعوے موجود رہیں گے جو ہماری پہنچ سے کوسوں دور ہوں گے۔ ریاضی یونانیوں کے اس خواب سے کوسوں دور اور نامکمل دکھائی دی جس میں اس کو مکمل اور بے عیب گردانا گیا تھا۔

ٹیورنگ نے اس انقلاب میں اپنا حصّہ کچھ اس طرح سے ڈالا جس میں اس نے ثابت کیا کہ عمومی طور پر یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ ایک ٹیورنگ مشین کسی ریاضی کے عمل کو سرانجام دینے میں لامحدود وقت لے گی۔ یعنی اگر کوئی کمپیوٹر کسی چیز کے حساب کتاب کے کرنے میں لامحدود وقت لے تو اس بات کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ جو کمپیوٹر سے پوچھ رہے ہیں اس کا حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بات سے ٹیورنگ نے یہ بات ثابت کر دی کہ ریاضی میں کچھ سچے دعوے ایسے ہوں گے جن کا حساب کتاب ریاضیاتی طور پر نہیں لگایا جا سکتا یعنی وہ ہمیشہ کمپیوٹر کی پہنچ سے دور ہی ہوں گے۔ کمپیوٹر جس قدر بھی طاقتور ہو جائیں اس سے ان کے حل طلب ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ٹیورنگ کے ” رمز کشائی ” (Code Breaking) پر شاندار کام نے ہزاروں اتحادی افواج کے فوجیوں کی جان بچائی اور اس کا یہ کام جنگ کے انجام پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اتحادی نازیوں کے خفیہ کوڈ کی رمز کاری انیگما نام کی ایک مشین سے کرنے میں ناکام ہو گئے تھے ، لہٰذا ٹیورنگ اور ان کے رفقائے کاروں کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایک ایسی مشین بنائیں جو نازیوں کے مخفی اشاروں کی رمز کشائی کر سکے۔ ٹیورنگ کی بنائی ہوئی مشین "بومبی ” کہلائی اور جو اپنے دور کی ایک انتہائی کامیاب چیز تھی۔ اس کی بنائی ہوئی ٢٠٠ سے زائد مشینیں جنگ عظیم دوم کے اختتام تک کام کر رہی تھیں۔ نتیجتاً اتحادی نازیوں کے خفیہ مراسلے پڑھ کر نازیوں کے علم میں آئے بغیر جرمنی کے اگلے حملے کی تاریخ اور جگہ سے واقف ہو جاتے تھے۔ تاریخ دانوں میں تب سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ٹیورنگ کے کام کی نارمن ڈے پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں کیا اہم حصّہ تھا جس نے آخر کار جرمنی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ( جنگ کے بعد، ٹیورنگ کے کام کو برطانوی حکومت نے "زمرہ بند” (Classified) کر دیا تھا؛ نتیجتاً اس کا اہم کام عام عوام کے علم میں نہیں ہے۔ )

ٹیورنگ کو جنگ میں مدد کر کے اس کا پانسہ پلٹنے والے جنگی ہیرو کے طور پر سلامی دینے کے بجائے قید میں دال دیا گیا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن اس کے گھر میں چوری ہو گئی اس نے پولیس کو بلایا۔ بدقسمتی سے پولیس نے اس کے گھر میں ہم جنس پرستی کے کچھ ثبوت دیکھ لئے اور اس کی بنیاد پر وہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ٹیورنگ کو تفتیش کے بعد عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ اس کو جنسی ہارمون کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔ ان جنسی ہارمون کے ٹیکوں نے اس پر انتہائی ہیبت ناک اثرات ڈالے۔ اس کے پستان ابھر آئے تھے اور جس سے سخت ذہنی مبتلائے اذیت ہو گیا تھا۔ اس نے ١٩٥٤ء میں سائنائیڈ زدہ سیب کھا کر خود کشی کر لی۔ (ایک افوہ کے مطابق، ایپل کارپوریشن کے لوگو میں ایک کھایا ہوا سیب، ٹیورنگ کو نذرانہ عقیدت پیش کر رہا ہے۔ )

آج شاید ٹیورنگ کو "ٹیورنگ ٹیسٹ ” سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ مشینیں سوچ بھی سکتی ہیں یا ان میں روح بھی ڈالی جا سکتی ہے جیسی بے نتیجہ اور لا حاصل فلسفیانہ گفتگو اور بحث سے اکتائے ہوئے ٹیورنگ نے مصنوعی ذہانت کے ان مباحثوں میں سخت اور درستگی کا تعارف کرانے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں ایک ٹھوس ٹیسٹ حاصل ہوا۔ اس نے یہ تجویز دی کہ ایک انسان اور ایک مشین کو دو مختلف سربند ڈبوں میں رکھیں۔ اس کے بعد آپ ان دونوں سے کچھ سوالات کریں۔ اگر آپ اس بات کو معلوم کرنے میں ناکام ہو گئے کہ کون سا جواب انسان اور کون سا جواب مشین نے دیا ہے تو آپ کی مشین نے ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔ سائنس دانوں نے سادے روز مرہ کی باتوں کی نقل کرنے والے کمپیوٹر پروگرام لکھے جیسے کہ الیزا (ای ایل آئی زی اے ) ۔ یہ پروگرام زیادہ ترانجان لوگوں کو آسانی سے بیوقوف بنا کر اس بات پر قائل کر لیتا تھا کہ وہ ایک انسان سے بات کر رہے ہیں۔ (مثال کے طور پر زیادہ تر لوگوں کی گفتگو صرف چند سو الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ کچھ ہی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ ) لیکن ابھی تک کوئی بھی کمپیوٹر پروگرام ایسا نہیں لکھا جا سکا جو ان لوگوں کو بیوقوف بنا سکے جو بطور خاص اس بات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس ڈبے میں انسان اور کس ڈبے میں مشین ہے۔ ( ٹیورنگ نے کمپیوٹر کے میدان میں ہونے والی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے خود اس بات کا اندازہ لگایا تھا کہ ٢٠٠٠ء تک ایک ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو ٣٠ فیصد لوگوں کو ٥ منٹوں کے ٹیسٹ میں بیوقوف بنا سکتی ہے۔ )

ایک چھوٹی سی فلاسفروں اور الہیات دانوں کی فوج نے تو اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ ہماری طرح سوچ رکھنے ولے روبوٹ بنانا ممکن ہے۔ برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر جان سَرِل نے ایک "چائنیز روم ٹیسٹ ” تجویز کیا ہے تا کہ اس بات کو ثابت کیا جا سکے کہ مصنوعی ذہانت ناممکن نہیں ہے۔ ان کی تجویز کا لب لباب یہ ہے کہ روبوٹ کچھ مخصوص ٹیورنگ کے ٹیسٹ کو پاس کرنے کے قابل ہیں۔ لیکن وہ ایسا بے سمجھے بوجھے اندھوں کی طرح سے کچھ ذخیرہ شدہ معلومات سے اس کا مطلب جانے بغیر جوڑ توڑ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ ایک ڈبے کے اندر بیٹھے ہیں اور آپ چائنیز زبان کا کوئی لفظ نہیں جانتے۔ فرض کیجئے کہ آپ کے پاس ایک ایسی کتاب ہے جو انتہائی تیزی کے ساتھ چائنیز کا ترجمہ کر کے الفاظ کا ہیر پھیر کر سکتی ہے۔ اب اگر کوئی آدمی آپ سے چائنیز میں کوئی سوال کرے تو اپ ان اجنبی لفظوں کو صرف آگے پیچھے ہی کر سکتے ہیں اس بات کو جانے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے اور نتیجے میں قابل یقین جوابات مل جائیں۔

اس کی تنقید کے لب لباب نے "ترکیب کلام قاعدہ” (Syntax)  اور "لفظیات” (Semantics) میں فرق کو کم کر دیا ہے۔ روبوٹ ترکیب کلام قاعدہ کے ماہر ہو سکتے ہیں (مثال کے طور پر وہ قواعد اور اس کی رسمی ساختوں میں ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔ ) لیکن اس کے لفظیات کی روح میں الٹ پھیر نہیں کر سکتے (مثلاً الفاظ کا کیا مطلب ہے ) ۔ روبوٹ الفاظ کو ان کے معنی جانے بغیر ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔ (یہ کسی ٹیلی فون پر ایک خود کار جوابی صوتی اطلاعاتی مشین کے ساتھ بات کرنے جیسا ہی عمل ہے جس میں آپ کو ہر جواب کے رد عمل میں کبھی ایک کا بٹن دبانا ہوتا ہے تو کبھی دو کا۔ دوسری طرف موجود آواز بے عیب طور پر آپ کے عددی رد عمل کو جانتی تو ہے لیکن وہ اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ )

آکسفورڈ کے طبیعیات دان رابرٹ راجر پنروز بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا حصول ناممکن ہے ؛ ایسی میکانکی ہستیاں بنانا جو انسانی سوچ اور شعور رکھ سکیں کوانٹم کے قوانین کی رو سے ناممکن ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق انسانی دماغ کو کسی بھی تجربہ گاہ میں بنانا بہت دور کی بات ہے اور ایسا کوئی بھی تجربہ جس میں انسان کے جیسے روبوٹ بنائے جائیں بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہو گا۔ (وہ اس بات کو بالکل اسی طرح سے بیان کرتے ہیں جیسے کہ” گوڈیل کا اصول ناتمام مسئلہ اثباتی” (Godel Incompleteness theorem) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ریاضی ناتمام ہے ، ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین اس بات کو ثابت کر دے گا کہ مشین اس قابل نہیں ہوں گی کہ وہ انسانی خیالات کی طرز پر سوچ سکیں۔ )

کئی طبیعیات دان اور انجنیئر اس بات پر اب ابھی یقین رکھتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین ہمیں انسان جیسے روبوٹ بنانے سے نہیں روکتے۔ مثال کے طور پر بابائے نظریہ اطلاع کہلانے والے ” کلاڈ شینن” (Claude Shannon) سے جب یہ سوال پوچھا گیا "کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟” ان کا جواب تھا "ضرور”۔ جب ان سے کہا گیا کہ اپنے اس جواب کو ذرا واضح کریں تو انہوں نے کہا "میں ایسا سمجھتا ہوں۔ ” با الفاظ دیگرے ان کے خیال میں یہ بات واضح تھی کہ مشینیں اس لئے سوچ سکتی ہیں کیونکہ انسان بھی تو مشین ہی ہے  (تاہم وہ سوکھے اور سخت اجزاء سے بننے کے بجائے گیلے اجزاء سے بنے ہیں۔ )

کیونکہ ہم فلموں میں موجود روبوٹوں کو دیکھتے ہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے حامل پیچیدہ روبوٹ  کی اصل اور حقیقی دنیا میں آمد صرف اب کچھ ہی دیر کی بات ہے۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ عام طور پر انسان جیسے نظر یا دکھائی دینے والے روبوٹ کے پیچھے کوئی چالاک ترکیب استعمال کی گئی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی سائے میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہوتا ہے جو مائکروفون کے ذریعہ روبوٹ بن کر بات کر رہا ہوتا ہے بعینہ ایسے جیسے کہ ساحر نے "دی وزرڈ آف اوز ” میں کیا تھا۔ سیارہ مریخ پر بھیجی گئی خلائی گاڑیوں میں ہمارے اب تک کے بنائے ہوئے سب سے جدید روبوٹ موجود ہیں لیکن ان کی ذہانت ایک کیڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایم آئی ٹی کی مشہور زمانہ مصنوعی ذہانت کی تجربہ گاہ میں، تجرباتی روبوٹوں کو لال بیگ جیسے کرتب دکھانے میں بھی انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ جیسے کہ فرنیچر سے بھرے کمرے میں گھومنا، چھپنے کی جگہوں کو تلاش کرنا اور خطرے کو بھانپنا وغیرہ۔ زمین پر موجود کوئی بھی روبوٹ بچوں کی سادہ سی کہانی کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔

٢٠٠١ء :اے ا سپیس او ڈے سی فلم میں یہ غلط طور پر سمجھ لیا گیا کہ ٢٠٠١ء تک ہم سب کے پاس ایچ اے ایل (ہیریسٹیکلی پروگرامڈ الوگرتھم کمپیوٹر ) ہو گا، ایک سپر –روبوٹ جو خلائی جہاز کو مشتری تک لے جانے کے قابل ہو گا، وہ عملے سے بات چیت بھی کر سکے گا، مسائل کو حل کرے گا اور انسانوں جیسا برتاؤ کرے گا۔

 

                منظم طریقہ یا منظم اصول

 

کم از کم دو اہم مسائل ایسے ہیں جو سائنس دان عشروں سے بھگت رہے ہیں یہ مسئلے ان کی روبوٹ بنانے کی کوششوں کی راہ میں حائل ہیں :نمونوں کی پہچان اور عقل سلیم یا عقل عامہ۔ روبوٹ ہم سے زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں مگر وہ دیکھی ہوئی چیزوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ روبوٹ ہم سے کہیں بہتر سامع ہوتے ہیں مگر وہ ان سنی ہوئی باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان دونوں جڑواں مسئلوں کو حل کرنے کے لئے محققین نے مصنوعی ذہانت کے لئے منظم اصول کا طریقہ اپنایا (اکثر اس کو ضابطہ پسند مکتبہ فکر یا گوفائی (جی او ایف اے آئی – گڈ اولڈ فیشنڈ اے آئی ) ۔ ان کا مقصد نمونوں کی پہچان کے تمام اصولوں اور عقل سلیم کو ایک سی ڈی پر لانا ہے۔ ان کے خیال میں اس سی ڈی کو کمپیوٹر میں ڈال کر کمپیوٹر فوراً ذخیرہ شدہ معلومات کی بدولت انسان کے جیسی ذہانت حاصل کر لے گا۔ ١٩٥٠ء اور ١٩٦٠ء کے عشروں میں اس سمت میں کافی پیش رفت ہوئی جس میں روبوٹ شطرنج اور چوسر کھیل سکتے تھے ، الجبرا کے سوال حل کر سکتے تھے ، اینٹوں کو اٹھا سکتے تھے اور اسی طرح کے دوسرے کام بھی کر سکتے تھے۔ اس میدان میں پیشرفت اس قدر شاندار ہو رہی تھی کہ اس بات کی پیش گوئی کر دی گئی کہ جلد ہی روبوٹ انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

مثال کے طور پر ١٩٦٩ء میں اسٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ایک روبوٹ جس کا نام "شیکی ” تھا اس نے میڈیا میں سنسنی پھیلائی دی تھی۔ شیکی ایک چھوٹا سا پی ڈی پی کمپیوٹر تھا جس کو پہیوں پر رکھا ہوا تھا اور اس کے اوپر ایک کیمرہ لگا ہوا تھا، کیمرہ کمرے کا جائزہ لے سکتا تھا اور کمپیوٹر کمرے میں موجود اشیاء کا تجزیہ کر کے ان کو پہچان سکتا تھا اور کمرے میں صحیح طرح سے گھوم پھر سکتا تھا۔ شیکی انسان کی بنائی ہوئی پہلی ایسی میکانکی خود کار چیز تھی جو حقیقی دنیا میں صحیح طور سے کچھ کام کر سکتی تھی اور اسی بات نے صحافیوں کو اس بات کی پیش گوئی کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جلد ہی روبوٹ انسان کو خاک میں روتا چھوڑ دیں گے۔

مگر اس قسم کے روبوٹ کی خامیاں جلد ہی عیاں ہو گئیں۔ مصنوعی ذہانت میں منظم اصول کے طریقے کو اپناتے ہوئے جو روبوٹ بنائے گئے وہ انتہائی جسیم، بھدے روبوٹ تھے جن کو خصوصی کمرے میں چلنے کے لئے ہی کئی گھنٹے درکار ہوتے تھے اور وہ خصوصی کمرے بھی صرف چند سیدھی چیزوں پر مشتمل ہوتے تھے جیسا کہ مربع اور مثلث۔ اگر کوئی بے ضابطہ شکل کا فرنیچر کمرے میں موجود ہو تو روبوٹ اس کو پہچانے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ (اس کے برعکس، ایک پھل مکھی جس کے دماغ میں صرف ڈھائی لاکھ عصباینے  موجود ہوتے ہیں اور وہ ان روبوٹ میں استعمال ہونے والی توانائی کے مقابلے میں انتہائی کم توانائی استعمال کرتی ہے ، بغیر کسی پریشانی کے سہ ابعادی طور پر آسانی کے ساتھ گھوم پھر سکتی ہے آنکھیں چندیا دینے والے حلقوں کا سلسلہ بناتی ہے اور یہ بھدے روبوٹ صرف دو جہتوں میں ہی پھنس جاتے ہیں۔

منظم اصول کا طریقہ جلد ہی اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ "اسٹیو گرینڈ” (Steve Grand)  جو سائبر لائف انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ "اس طرح کے طریقوں کو ثابت کرنے میں پچاس برس گزر گئے اور وہ  اپنے وعدوں کے دعووں میں سچے ثابت نہیں ہو سکے۔ ” ١٩٦٠ء کے عشرے میں سائنس دانوں نے اس کام کی سنگینی کو پوری طرح سے نہیں سمجھا تھا جس میں روبوٹ کی پروگرامنگ صرف سادہ کام کو ادا کرنے کے لئے کرنی تھی، جیسا کہ کسی روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کرنا کہ یہ چابی، جوتے اور مگوں کو پہچان سکے۔ ایم آئی ٹی کے "روڈنی بروکس” (Rodney Brooks) کہتے ہیں ” چالیس سال پہلے ایم آئی ٹی میں واقع آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری ایک طالبعلم کو گرمیوں کے موسم میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے رکھتے تھے  جس میں وہ ناکام ہوتے تھے اور میں بھی ١٩٨١ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ ” حقیقت میں اے آئی کے محققین ابھی تک اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکے ہیں۔

مثال کے طور پر جب ہم کسی کمرے میں گھستے ہیں تو ہم فوراً ہی فرش، کرسیوں، میزوں اور اسی طرح سے دوسری چیزوں کو پہچاننے لگتے ہیں مگر جب کوئی روبوٹ کمرے کا جائزہ لیتا ہے تو کمرے میں اسے وسیع سیدھی اور ٹیڑھی لکیروں کا مجموعہ نظر آتا ہے جس کو وہ پکسل میں بدلتا ہے۔ ہمیں میز کو پہچاننے میں شاید ایک سیکنڈ کا کچھ ہی حصّہ لگتا ہے ، مگر کمپیوٹر صرف دائروں، بیضوی، مرغولے ، سیدھی لکیریں، ٹیڑھی لکیریں، کونے اور اس طرح  کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔ کافی دیر حساب کتاب کرنے کے بعد شاید کمپیوٹر میز کو پہچان سکے۔ لیکن اگر آپ نے اس میز کو تھوڑا سا گھما دیا تو وہ پھر سے اس کو پہچاننے میں اتنا ہی وقت لگائے گا۔ دوسرے الفاظ میں روبوٹ دیکھ سکتے ہیں بلکہ وہ ہم سے بہتر دیکھ سکتے ہیں مگر وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شاید ایک روبوٹ کرسی، میز اور لیمپ کو دیکھنے کے بجائے صرف لکیروں اور خمیدہ لکیروں کے بے ہنگم مجموعے کو دیکھے۔ ہمارا دماغ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے غیر شعوری طور پر دسیوں کھرب حسابات لگاتے ہوئے (یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم خوش قسمتی سے آگاہ نہیں ہوتے )  اشیاء کو پہچان لیتا ہے۔ اس کی وجہ ہمارے دماغ کی ارتقاء کے عمل سے بے خبری ہے۔ فرض کیجئے کہ ہم اکیلے کسی جنگل میں موجود ہوں جہاں ایک خون خوار دانتوں والے شیر بھی موجود ہے تو خطرے کو بھانپ کر وہاں سے فرار کے لئے دماغ کے ضروری حساب کتاب کے عمل کو جان کر ہی ہم مفلوج ہو جائیں گے۔ زندہ رہنے کے لئے صرف ہمیں اتنا جاننا کافی ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے کیسے بھاگا جائے۔ جنگل میں رہتے ہوئے دماغ میں جانے اور آنے والی ان تمام چیزوں سے باخبر رہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جو ہمیں میدان، آسمان، درخت، چٹانیں اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو پہچاننے کے لئے ضروری ہیں۔

با الفاظ دیگر ہمارے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو ایک جسیم برف کے تودے سے تشبیہی دی جا سکتی ہے۔ ہم صرف تودے کی چوٹی یعنی کہ شعور کے بارے میں ہی جانتے ہیں۔ لیکن اس کے نیچے گھات لگائے بیٹھے نظروں سے اوجھل ایک بڑا حصّہ جس کو ہم لاشعور کہتے ہیں موجود ہے۔ یہ دماغ میں جلنے والی توانائی کا بڑا حصّہ ان سادہ باتوں کو سمجھنے میں کھا جاتا ہے جو اس کے اس پاس موجود ہوتی ہیں جیسا کہ اس بات کو سمجھنا کہ آپ کہاں بیٹھے ہیں، آپ کس سے بات کر رہے ہیں اور آپ کے ارد گرد کیا چیز رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب چیزیں ہماری اجازت یا ہماری آگاہی کے بغیر ہی ہو جاتا ہے۔

یہ ہی وہ بات ہی جس کی وجہ سے روبوٹ کمرے میں چل پھر نہیں سکتے ، ہاتھ کی لکھائی نہیں پڑھ سکتے ، ٹرک اور کار نہیں چلا سکتے ، کوڑا نہیں اٹھا سکتے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں نہیں کر سکتے۔ یو ایس فوج نے سینکڑوں لاکھوں ڈالر اس بات کی کوشش میں خرچ کر دیئے کہ کسی طرح سے میکانکی فوجی اور ذہین ٹرک بنا لیں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔

سائنس دان اس بات کو سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ شطرنج کھیلنے میں یا بڑے اعداد کو ضرب دینے میں صرف تھوڑی سی انسانی ذہانت استعمال ہوتی ہے۔ ١٩٩٧ء میں جب آئی بی ایم کے کمپیوٹر ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمگیر چیمپئن گیری کیسپاروف کو ٦ بساطوں میں ایک مقابلے میں ہرایا تو یہ کمپیوٹر کی طاقت کی فتح تھی، ہرچند اس کھیل کے نتیجے نے اخباروں کی شہ سرخیوں میں کافی جگہ بنائی لیکن اس تجربے نے ہمیں ذہانت یا شعور کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی۔ انڈیانا یونیورسٹی کے "ڈوگلس ہوف اسٹیٹر” (Douglas Hofstadter)  جو ایک کمپیوٹر کے سائنس دان ہیں کہتے ہیں "یا اللہ، میں تو ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ شطرنج کھیلنے کے لئے ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اب مجھے پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ بات نہیں تھی کہ کیسپاروف کوئی گہری سوچ کا حامل انسان نہیں تھا جس طرح سے شطرنج کو  گہری سوچ کے عمل کے بغیر کھیلا جا سکتا ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے بازوں کو ہلائے بغیر اڑے۔ ”

(کمپیوٹر کے میدان میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے روزگار کی دنیا پر زبردست اثر پڑے گا۔ مستقبلی اکثر اوقات یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ آنے والے عشروں میں صرف ان لوگوں کے پاس ہی روزگار حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوں گے جو انتہائی بلند درجے کے کمپیوٹر کی صلاحیتوں کے حامل سائنس دان اور  کمپیوٹر کے میدان کے ماہر فنیات ہوں گے۔ لیکن صحت گار، تعمیراتی مزدور، آگ بجھانے والے ، پولیس، اور اسی طرح کے دوسری قسم کے کام کرنے والے لوگوں کے روزگار کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ جو کام کرتے ہیں اس میں نمونوں کو پہچاننا ہوتا ہے۔ ہر جرم، کوڑے کا ہر حصّہ، اوزار اور آگ کے نمونے مختلف ہوتے ہیں لہٰذا ان کا انتظام روبوٹ کے ذریعہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرح کالج سے نکلے ہوئے طالبعلم، جیسے کہ نچلے درجے کے منیب یا منشی  (اکاؤنٹنٹ) ، دلال، اور خزانچی (کیشیئر) ہو سکتا ہے کہ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں کیونکہ ان کا کام نیم تکراری ہوتا ہے جس میں اعداد پر نظر رکھنی ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا کام ہے جو کمپیوٹر بہت اچھے سے کر لیتے ہیں۔ )

نمونوں کو پہچانے کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ جو روبوٹوں کو مزید بہتر بنانے کی راہ میں حائل ہے اور وہ زیادہ بنیادی مسئلہ ہے وہ فہم عامہ کی کمی کا ہے۔ مثال کے طور پر انسانوں کو یہ بات معلوم ہے :

پانی تر ہوتا ہے۔

مائیں اپنی بیٹیوں سے بڑی ہوتی ہیں۔

جانوروں کو درد ہوتا ہے۔

مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آ سکتا۔

تسموں کو کھینچا جاتا ہے دھکیلا نہیں جاتا۔

تیلی کو نکالا جاتا ہے دھکیلا نہیں جاتا۔

وقت پیچھے نہیں جاتا۔

لیکن علم الا حصا ء یا ریاضی کی کوئی ایسی حد نہیں ہے جو ان سچائیوں کو بیان کر سکے۔ ہم یہ بات اس لئے جانتے ہیں کہ ہم نے جانوروں، پانی، دھاگے کو دیکھا ہوا ہے اور ہم ان کی سچائی کو خود سے تلاش کر سکتے ہیں۔ بچے عقل سلیم کو حقیقت کا سامنا کر کے سیکھتے ہیں۔ قوانین حیاتیات اور طبیعیات کی بصیرت سخت محنت کے بعد حقیقی دنیا سے واسطہ ہموار کرنے کے بعد حاصل کی جاتی ہے۔ مگر روبوٹوں کو اس قسم کے تجربات میسر نہیں ہوتے۔ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ان کے پروگرام میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔

(مستقل کے وہ روزگار جس میں عقل عامہ کا عمل دخل ہو گا وہ بھی انسانوں کے لئے میسر ہوں گی جیسے کہ، فن تخلیق کاری، ایجادیت، فن کاری، مزاح نگاری، تفریح باز، تجزیہ نگاری اور رہنما۔ صحیح معنوں میں یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو ہمیں دوسری چیزوں سے مختلف کر کے انسان بناتی ہیں اور ان چیزوں کی نقل کرنے میں کمپیوٹر کو مشکل پیش آتی ہے۔ )

ماضی میں ریاضی دانوں نے ایک گرج دار پروگرام بنانے کی کوشش کی جس میں عقل سلیم کے تمام قوانین ڈال دیئے تاکہ ایک دفعہ میں ہی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر کے قصّے کو تمام کیا جائے۔ اس بارے میں سب سے حوصلہ مند جرات ایک پروگرام سی وائے سی (جو انسائیکلوپیڈیا[دائرۃ المعارف ] کا مختصر ہے ) ہے جو  سائیکورپ کے بانی” ڈوگلس لینٹ” (Douglas Lenat)  کی کاوش ہے۔ مین ہٹن کے گرج دار پروجیکٹ کی طرح جس میں ٢ ارب ڈالر کی لاگت سے جوہری بم بنایا گیا تھا، سی وائے سی بھی مصنوعی ذہانت کا "مین ہٹن منصوبے ” جیسا ہی تھا، یہ آخری کوشش کی طرح سے تھا تا کہ حقیقی معنوں میں مصنوعی ذہانت کو حاصل کیا جا سکے۔

یہ کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ لینٹ کا نعرہ تھا "ذہانت دس لاکھ اصولوں کا نام ہے ” (لینٹ نے ایک بالکل نیا طریقہ نکالا جس کے تحت عقل سلیم کے نئے قانون تلاش کئے گئے ؛ اس کے پاس اسٹاف موجود تھا جو اہانت آمیز تخصیص شدہ صفحات اور پژمردہ صفحات کو پڑھتے تھے۔ پھر یہ سی وائے سی سے پوچھتے تھے کہ وہ ان میں سے اغلاط کی نشاندہی کرے۔ اگر اس طرح سے لینٹ کی کامیابی مل گئی تو سی وائے سی زیادہ تر دوسرے ٹیبلوائیڈ ریڈرز سے زیادہ سمجھدار ہو گا!)

سی وائے سی کا ایک مقصد کسی طرح سے اس چیز کا حصول ہے جس میں ایک روبوٹ اتنی سمجھ بوجھ حاصل کر لے  کہ وہ خود سے کسی بھی لائبریری میں موجود کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر نئی اطلاعات حاصل کر کے ان کو سمجھ سکے۔ اس جگہ پر پہنچ کر سی وائے سی ایک اس ننھے سے پرندے کی طرح ہو جائے گا  جو اپنا گھونسلا چھوڑ کر اڑنے کی تیاری کر رہا ہو یعنی خود سے چلنے کے لئے تیار۔

مگر اس شراکت داری کے ١٩٨٤ء میں بننے سے لے کر اب تک، اس کی ساکھ کو ایک عام مسئلہ کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا ہے : ان چیزوں کی پیش گوئی کرنا جس سے شہ سرخیاں تو بن سکتی ہیں لیکن وہ حقیقت سے نہایت دور ہوتی ہیں۔ لینٹ نے اس بات کی طرف پیش گوئی کی ہے کہ ١٠ سال میں ١٩٩٤ء تک سی وائے سی میں ٣٠ سے لے کر ٥٠ فیصد تک حقیقت سے ہم آہنگ چیزیں موجود ہوں گی۔ آج بھی سی وائے سی کو بند نہیں کیا گیا۔ سی وائے سی میں موجود سائنس دانوں نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ کمپیوٹر کو ایک چار سالہ بچے کے جتنا فہم عامہ سکھانے کے لئے کروڑوں پروگرامنگ سطریں لکھنی پڑیں گی۔ ابھی تک سی وائے سی پروگرام میں صرف ٤٧ ہزار تصوّرات اور ٣٠٦ ہزار حقائق موجود ہیں۔ سائیکورپ کے باقاعدہ رجائیت پسندانہ پریس ریلیز نکلنے کے باوجود لینٹ کے ایک ساتھی "آر وی گو ہا” ((R.V Guha  جنہوں نے ٹیم کو ١٩٩٤ء میں چھوڑ دیا تھا کہتے ہیں "سی وائے سی عام طور سے ایک ناکام منصوبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ہم اپنے آپ کو ایک ایسی چیز کے سائے کو بنانے کے لئے ہلکان کر رہے ہیں جس کو بنانے کا ہم نے وعدہ کیا تھا۔ ”

دوسرے الفاظ میں عقل سلیم کے تمام قوانین کو ایک کمپیوٹر میں پروگرام کرنا انتہائی دشوار ہے کیونکہ عقل سلیم کے قوانین بے انتہاء ہیں۔ انسان اس کو بغیر کسی مشکل کے سیکھ لیتے ہیں کیونکہ پوری زندگی ان کا واسطہ روز مرہ کی چیزوں سے پڑتا رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ بغیر کسی مشکل کے خاموشی کے ساتھ طبیعیات اور حیاتیات کے قوانین کو جان لیتے ہیں مگر روبوٹ ایسا نہیں کر سکتے۔

مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، ” یہ کام ان اندازوں سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے جس میں ہم امید کر رہے تھے کہ کمپیوٹر اور روبوٹ اپنے ارد گرد کے ماحول کا احساس کرنے لگیں گے اور تیز رفتاری کے ساتھ ٹھیک طرح سے جواب دیں گے۔ ۔ ۔ ۔ مثال کے طور پر، کمرے میں رکھی ہوئی کسی چیز کے مقابلے میں اپنی جگہ کو جاننا، کسی آواز پر دھیان دیتے ہوئے تقریر کو سمجھنا، اور مختلف حجم، بناوٹ اور نازک چیزوں کو پکڑنا۔ کوئی انتہائی سادہ بات جیسے کہ کھلے ہوئے دروازے اور کھڑکی میں فرق بتانا کسی روبوٹ کے لئے انتہائی دشوار ہو گا۔ ”

ذہانت کے منظم طریقے  کے حمایتیوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سمت میں پیش رفت دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں اگرچہ کبھی کبھار منجمد لگتی ہے بہرحال کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے چند سالوں میں تازہ ترین اختراعی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والی  ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی (دار پا )  نے ایک ٢٠ لاکھ ڈالر کا انعام اس منصوبے کے لئے رکھا ہے جس میں ڈرائیور کے بغیر گاڑی خود کار طریقے سے سنگلاخ زمین پر صحرائے موجاؤ میں چلائی جا سکے۔ ٢٠٠٤ء میں ریس میں حصّہ لینے والا کوئی ایک بھی امیدوار اس چیلنج کو پار نہیں کر سکا۔ سب سے بہتر کار بھی صرف ٧۔ ٤ میل کے فاصلہ طے کرنے کے بعد ٹوٹ گئی تھی۔ مگر ٢٠٠٥ء میں سٹینفرڈ ریسنگ ٹیم کی بغیر ڈرائیور کی کار نے کامیابی کے ساتھ ١٣٢ میل پر مشتمل صبر آزما راستہ طے کر لیا۔ (اگرچہ کار نے یہ راستہ ٧ گھنٹے میں جا کر طے کیا) ۔ چار دوسری اور کاروں نے بھی ریس کو مکمل کیا۔ (کچھ ناقدین نے کھیل کے قوانین میں لمبے سنسان راستے میں جی پی ایس کو استعمال کرنے کی اجازت کی جانب بھی اشارہ کیا ، حقیقت میں کاریں پہلے سے طے کیے ہوئے نقشے قدم اور زیادہ رکاوٹوں کے بغیر والے راستے پر بھی چل سکتی تھیں  لہٰذا اس میں کار کو کبھی بھی اپنے راستے میں پیچیدہ رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حقیقت کی دنیا میں کاروں کو اپنے گرد دوسری کاروں، راہ گیروں، عمارتوں، ٹریفک جام اور اس طرح کی دوسری کئی غیر متوقع راستے میں آنے والی چیزوں سے نمٹنا ہو گا۔ )

بل گیٹس کافی محتاط پسند رہتے ہوئے پرامید بھی ہیں کہ اگلی دھماکے دار چیز روبوٹک مشینیں ہی ہوں گی۔ وہ پرسنل کمپیوٹر میں روبوٹک میدان کے استعمال   کو کافی پسند کرتے ہیں۔ پرسنل کمپیوٹر کے استعمال کو انہوں نے ٣٠ سال پہلے شروع کرنے میں مدد کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ پی سی کی طرح اس کو بھی لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں۔ ” کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہ سکتا کہ ایسا کب ہو گا  – یا پھر یہ صنعت حد فاصل کو پار بھی کر سکے گی کہ نہیں۔ ” وہ مزید لکھتے ہیں کہ "اگر ایسا ہوا تو شاید یہ دنیا کو بدل دے گی۔ ”

(ایک دفعہ انسانی ذہانت کے حامل روبوٹ تجارتی پیمانے پر ملنے لگیں تو ان کی زبردست مانگ پیدا ہو جائے گی۔ اگرچہ کھرے روبوٹ آج موجود نہیں ہیں، مگر پہلے سے پری پروگرامڈ روبوٹ موجود ہیں جو کافی ثمر آور ثابت ہو رہے ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف روبوٹکس کے تخمینا جات کے مطابق ٢٠٠٤ء میں ٢٠ لاکھ کے قریب پرسنل روبوٹ موجود ہیں اور مزید ٧٠ لاکھ ٢٠٠٨ء تک استعمال میں آئیں گے۔ جیپنیز روبوٹ ایسوسی ایشن نے اندازہ لگایا ہے کہ ٢٠٢٥ء تک ذاتی روبوٹ کی صنعت جس کی قدر آج ٥ ارب ڈالر کی ہے وہ ٥٠ ارب ڈالر سالانہ کی ہو جائے گی۔ )

 

                اوندھا طریقہ

 

منظم طریقے کی مصنوعی ذہانت کی محدودیت کی وجہ سے اوندھے طریقے کی کوششیں شروع کر دی گئیں یعنی ارتقائی نقل اس طرح سے کی جائے جیسا کہ بچہ سیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کیڑے مکوڑے اپنے ماحول کا تبزیہ کرنے کے بعد نہیں چلتے پھرتے لہٰذا اس طرح سے کھرب ہا کھرب پکسل پر مشتمل تصاویر کی عمل کاری سپر کمپیوٹر کے ذریعہ کرنے کی بچت ہو گی۔ کیڑے کا دماغ عصبانی جال پر مشتمل ہوتا ہے  جو سیکھنے کی ایسی مشین ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ نا موافق ماحول میں گھس کر اس میں چلنا پھرنا سیکھ لیتی ہیں۔ ایم آئی ٹی میں چلنے والے روبوٹ منظم طریقے کے ذریعہ بنانے انتہائی مشکل تھے لیکن سادے کیڑوں جیسی میکانکی مخلوق جو سیدھا میدان میں اترے اور ابتداء سے سیکھنے کا عمل شروع کرے ؛ کامیابی کے ساتھ ایم آئی ٹی کے فرش پر چند منٹوں میں تیزی سے دوڑ سکتی ہیں۔

ایم آئی ٹی کی مشہور زمانہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری کے ڈائریکٹر روڈنی بروکس اپنے جسیم اور بھدے منظم طریقے سے بنے چلنے والے روبوٹوں کے لئے مشہور ہیں وہ اس وقت اپنی اس منظم طریقے سے منحرف ہو گئے جب انہوں نے چھوٹے کیڑے نما روبوٹوں کے خیال کو جانا جو چلنے کے طریقوں کو لڑکھڑا کر اور چیزوں سے ٹکرا کر سیکھ رہے تھے۔ چلتے وقت اپنے قدموں کے درست نشانوں کو بڑے بڑے کمپیوٹر پروگراموں کا استعمال کرتے معلوم کرنے کے بجائے ، اس کے کیڑے نما روبوٹوں نے سعی و خطا کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے اپنے پیروں کی حرکت کو کمپیوٹر کی نہایت ہی قلیل توانائی کو خرچ کرتے ہوئے معلوم کرنا سیکھ لیا ہے۔ آج بروکس کی نسل کے کئی کیڑے نما روبوٹ مریخ کی سنسان سطح پر اپنے دماغ کے بھروسے پر چہل قدمی کرتے ہوئے ناسا کے لئے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ بروکس کو یقین ہے کہ اس کے کیڑے نما روبوٹ نظام شمسی کو کھوجنے کے لئے بہت زیادہ مناسب ہیں۔

بروکس کے ایک منصوبے کا نام ” کوگ” ہے جس کا مقصد ایک ایسے میکانکی روبوٹ کو بنانا ہے جس میں چھ مہینے کے بچے کی ذہانت موجود ہو۔ باہر سے دیکھنے پر کوگ تاروں کا گچھا، سرکٹ، گراریوں کا بے ہنگم مجموعہ نظر آتا ہے ہرچند اس کا سر، آنکھیں اور بازو بھی ہیں۔ کسی بھی قسم کا کوئی بھی ذہانت کا پروگرام اس میں نہیں ڈالا گیا ہے ، اس کو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ یہ اپنی آنکھ انسانی تربیت کار پر مرکوز رکھے جو اس کو سادہ چیزیں سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ (محققین میں سے ایک حاملہ ہو گئیں تھیں انہوں نے یہ شرط لگائی کہ ان کا بچہ دو سالہ ہونے تک زیادہ سیکھے گا یا پھر کوگ۔ بچے نے سیکھنے میں کوگ کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ )

کیڑوں کی نقل کرنے میں کامیابی حاصل کر کے ، عصبی جالوں کے ذریعہ بنانے والے روبوٹ کے پروگرام فقاری جانداروں کی نقل کرتے ہوئے بری طرح ناکامی سے دو چار ہو گئے۔ سب سے جدید روبوٹ عصبی جالوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک کمرے میں چہل قدمی اور پانی میں تیر بھی سکتا ہے لیکن نہ تو  وہ چھلانگ لگا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کتے کی طرح جنگل میں شکار کر سکتا ہے ، اور نہ ہی کسی بلی کے گرد خراماں خراماں پھر سکتا ہے۔ بڑے عصبی جالوں والے روبوٹوں میں شاید ١٠ عصبیوں سے لے کر سینکڑوں عصبی ہو سکتے ہیں ، لیکن انسانی دماغ میں ایک کھرب سے بھی زیادہ عصبانیے ہوتے ہیں۔ سی ایلیگنس ایک بہت ہی سادہ سا کیڑا ہے جس کے اعصابی نظام کی مکمل نقشہ سازی ماہرین حیاتیات کر چکے ہیں اس کے اعصابی نظام میں صرف ٣٠٠ عصبانیے ہیں جس کی وجہ سے شاید یہ قدرتی طور پر پایا جانے والے سب سے سادہ اعصابی نظام رکھنے والا جاندار بن گیا ہے۔ اس کے باوجود ان عصبانیوں کے درمیان ٧ ہزار اتصالی رابطے موجود ہیں۔ سی ایلیگنس جیسے سادے دماغی عصبانی نظام کو بھی ابھی تک کسی کمپیوٹر پر نہیں بنا یا جا سکا ہے۔ (١٩٨٨ء میں ایک کمپیوٹر کے ماہر نے اندازہ لگایا تھا کہ ٢٠٠٤ء تک ہمارے پاس ایسے روبوٹ موجود ہوں گے جن میں ١٠ کروڑ مصنوعی عصبانیے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ١٠٠ عصبانیوں والے روبوٹوں کو  بہت ہی خاص سمجھا جاتا ہے۔ )

قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مشینیں وہ کام بغیر کسی مشکل کے کر لیتی ہیں جو کام انسان کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے مثلاً  بڑے اعداد کا حاصل ضرب حاصل کرنا، شطرنج کو کھیلنا وغیرہ لیکن مشینیں اس وقت جواب دے جاتی ہیں جب ان سے کوئی ایسا کام کرنے کو کہا جائے جو انسانوں کے لئے انتہائی سادہ ہو جیسے کمرے میں چلنا، چہروں کو پہچاننا یا دوستوں سے گپیں لگانا وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ کہ ہمارے سب سے جدید کمپیوٹر بھی بس اعداد کو جوڑنے کی مشین ہی ہیں۔ ہمارا دماغ بہرحال انتہائی نازکی کے ساتھ زندہ رہنے اور روز مرہ کی مشکلات سے نمٹنے کے لئے بنا ہے۔ اس کام کے لئے انتہائی پیچیدہ خیالات جیسے کہ نمونوں کی پہچان یا عقل سلیم کی بناوٹ کی ضرورت ہے۔ جنگل میں زندہ رہنے کے لئے حساب کتاب یا شطرنج کھیلنے کے بجائے شکاریوں سے اپنا بچاؤ کرنے ، جیون ساتھی تلاش کرنے اور ماحول کے ساتھ مطابقت کی ضرورت پڑتی تھی۔

ایم آئی ٹی کے "مارون منسکی” (Marvin Minsky)  جو مصنوعی ذہانت کے بانیوں میں سے ایک ہیں مصنوعی ذہانت کی مشکل کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں ” مصنوعی ذہانت کی تاریخ کافی مضحکہ خیز ہے کیونکہ پہلی اصل کامیابی کافی خوبصورت چیزیں تھیں، جیسے کہ ایک مشین جو منطقی مسئلوں یا علم الاحصاء کے کسی مسئلہ کا اچھا سا حل نکال دیتی تھی لیکن اس کے بعد ہم نے اس بات کی کوشش کی کہ مشینیں ان کہانیوں کے بارے میں بتا سکیں جو پہلی جماعت کے طالبعلموں کی پڑھنے والی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن آج تک تو کوئی ایسی مشین موجود نہیں ہے جو اس طرح کا کام کر سکے۔ ”

کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ منظم اور اوندھے طریقے سے مل کر ایک شاندار طریقے بن جائے جو انسان نما روبوٹ اور مصنوعی ذہانت کے لئے ایک کنجی کی حیثیت اختیار کر لے۔ بچہ جب سیکھتا ہے تو وہ اوندھے طریقے کا ہی استعمال کرتے ہوئے اپنے ارد گرد کے ماحول میں گھل مل جاتا ہے ، آخر میں اس کو اپنے والدین، معلموں اور کتابوں سے ہدایات منظم طریقے سے ہی ملتی ہیں۔ ایک بالغ کے طور پر ہم ان دونوں طریقوں کو ملا کر ہی سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک باورچی کھانے کی ترکیب کتاب سے دیکھ کر تو کھانا بناتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کو چکھتا بھی رہتا ہے۔

"ہنس موراویک” (Hans Moravec) کہتے ہیں ” مکمل ذہین مشینوں کا نتیجہ دونوں کوششوں کو ملانے کے بعد بنائے جانے والے سنہرے میکانکی آلات بن جانے کے بعد نکل سکتا ہے۔ ” شاید یہ کام آنے والے اگلے ٤٠ برسوں میں ہو سکے گا۔

 

                جذباتی روبوٹ ؟

 

فن و ادب میں جو ایک چیز تسلسل کے ساتھ ملتی ہے وہ ان میکانکی ہستیوں کی انسان بننے کی آرزو ہوتی ہے ، تا کہ وہ انسانوں جیسے جذبات کے حامل ہو سکیں۔ وہ تاروں اور ٹھنڈے اسٹیل کے ساتھ ساتھ ہنسنے ، رونے اور ان تمام خوش گوار احساسات کو محسوس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو ایک انسان میں موجود ہوتی ہے۔

مثال کے طور پنوکیو ایک ایسا پتلا ہوتا ہے جو ایک عام سا لڑکا بننا چاہتا ہے۔ دی وزرڈ آف اوز میں ٹن مین یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے پاس بھی ایک دل ہو۔ اور اسٹار ٹریک کا ڈیٹا ایک ایسا روبوٹ ہوتا ہے جو طاقت و ذہانت کے ہر معاملے میں انسانوں کی پچھاڑ دینے کے باوجود بھی انسان بننے کی آرزو رکھتا ہے۔

کچھ لوگوں کے خیال میں ہمارے جذبات ہی انسان ہونے کی اعلیٰ خصوصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ شاید کبھی بھی کوئی مشین ڈوبتے سورج کے نظارے کا لطف نہیں اٹھا سکے گی یا کسی مذاق کی بات پر قہقہہ لگا سکے گی۔ کچھ لوگ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ کسی مشین میں جذبات کا ہونا ایک انتہائی ناممکن بات ہے کیونکہ جذبات ہی انسانی نشو نما کی معراج ہیں۔ لیکن وہ سائنس دان جو مصنوعی ذہانت پر کام کر رہے ہیں اور اس بات کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے جذبات  کے پیدا کرنے کے طریقوں کو کھوج کر ایک دوسری طرح کی تصویر پیش کر سکیں۔ ان کے مطابق جذبات کا انسانیت کی روح سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے ہاں البتہ اس کا تعلق ارتقائی عمل سے ضرور ہے۔ سادے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جذبات انسانوں کے لئے اچھی چیز ہیں۔ وہ ہمیں جنگل میں زندہ رہنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ آج کے دور میں زندگی کے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی مدد کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ارتقائی عمل کے لئے پسند کرنے کا عمل بہت ہی اہم ہے کیونکہ زیادہ تر چیزیں ہمارے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ جن لاکھوں چیزوں سے ہمارا روزانہ واسطہ پڑتا ہے اس میں سے صرف چند ہی ہمارے فائدے کی چیزیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا کسی چیز کو پسند کرنے کا مطلب ہے کہ ہم ان لاکھوں نقصان پہچانے والی چیزوں میں سے کچھ ان چیزوں کو چن لیں جو ہمارے لئے فائدہ مند ہیں اور اس کے لئے  اپنی پسند اور ناپسند کی چیزوں کے درمیان موجود فرق کو واضح کر لیں۔

اسی طرح سے حسد کرنے کا عمل ایک انتہائی اہم جذبہ ہے۔ کیونکہ نسل کو آگے بڑھانا ہمارے لئے اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی اگلی نسل تک اپنے جین کو ساتھ خیریت کے منتقل کر دیں۔ (یہی وجہ ہے کہ محبت اور جنسی عمل کے نتیجے میں جذبات اتنے ہیجان انگیز ہو جاتے ہیں۔ )

ندامت و پشیمانی اس لئے انتہائی ضروری ہیں کہ وہ ہمیں معاشرتی سلیقہ سکھاتے ہیں تا کہ ہم ایک امداد باہمی کے تحت موجود سماج میں صحیح طریقے سے رہ سکیں۔ غلطی کرنے کے بعد اگر ہم کبھی شرمندگی کا اظہار نہ کریں تو ہمیں اپنے قبیلے سے نکال باہر کیا جائے گا جس کے نتیجے میں ہمارا وجود اور اپنی نئی نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

تنہائی کا احساس بھی ایک اہم جذبہ ہے۔ شروع میں تو تنہائی ایک فضول اور غیر ضروری جذبہ لگتا ہے کیونکہ ہم اکیلے بھی رہ سکتے ہیں۔ مگر اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہنا ہمارے اپنے وجود کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہم سماج کے مشترکہ وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ جب روبوٹ زیادہ جدت طراز ہو جائیں گے تو ان میں بھی شاید جذبات موجود ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ روبوٹ کو اپنے مالک کے ساتھ جوڑ کر پروگرام کر دیا جائے تا کہ اس کو کچرے کے ڈبے میں پھینکے جانے کے خطرے سے بچایا جا سکے۔ اس طرح کے جذبات روبوٹوں کو سماج کے ساتھ بہتر طور پر گھلنے ملنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں وہ اپنے مالک کا دشمن بننے کے بجائے ایک اچھا رفیق بن سکتا ہے۔

 

کمپیوٹر کے ماہر ہنس موراویک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روبوٹوں کو خوف جیسے جذبوں کے ساتھ پروگرام کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ مثال کے طور پر اگر روبوٹ کی بیٹریاں ختم ہو رہی ہوں تو روبوٹ پریشانی یا بلکہ خوف  کا اظہار اس طرح سے کر سکے کہ انسان اس کی بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ وہ کسی پڑوسی کے پاس جا کر بھی چارج ہونے کی درخواست کچھ اس طرح سے کر سکتا ہے ” مہربانی فرمائیں ! مجھے  چارج ہونے کی سخت ضرورت ہے اور یہ میرے لئے انتہائی اہم ہے ، اس پر آنے والی لاگت انتہائی معمولی سی ہو گی اور ہم آپ کو بعد میں اس کی ادائیگی بھی کر دیں گے !”

جذبات فیصلہ کرنے میں بھی انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ کچھ مخصوص دماغی بیماریوں کے مریض جذبات کو محسوس کرنے سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کے استدلال کی قابلیت تو موجود رہتی ہے لیکن وہ کسی قسم کے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ یونیورسٹی آف آئیووا کالج آف میڈیسن کے عصبیات دان ڈاکٹر "انٹونیو ڈیمیسیو” (Antonia Damasio) جنہوں نے اس قسم کے دماغی عارضے کے لاحق مریضوں پر تحقیق کی ہوئی ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کر پائے ہیں کہ ” وہ مریض جانتے تو ہیں لیکن اس کا احساس نہیں کرتے "۔

ڈاکٹر ڈیمیسیو سمجھتے ہیں کہ ایسے فرد اکثر چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے میں بھی مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ان کی رہنمائی کرنے والے مخصوص جذبوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہ ایک نا ختم ہونے والے بحث میں الجھے رہتے ہیں جس سے عملاً وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر ڈیمیسیو کے ایک مریض نے صرف آدھا گھنٹہ اگلی ملاقات کو طے کرنے کے فیصلے کے لئے لے لیا تھا۔

سائنس دانوں کو یقین ہے کہ جذبات دماغ کے اس حصّے میں پیدا ہوتے ہیں جس کا نام ” محیطی نظام ” (Limbic System) ہے جو ہمارے دماغ کے مرکز میں موجود ہوتا ہے۔ جب لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جس میں نیو کورٹیکس (جو استدلالی سوچ کے دائرہ کار کا نگران ہوتا ہے ) اور محیطی نظام میں رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔ مریضوں کی استدلالی قوّت تو اپنی جگہ موجود رہتی ہے لیکن ان کے پاس کسی فیصلے تک رہنمائی کرنے والے جذبات موجود نہیں ہوتے۔ کبھی ہمارا وجدان اور کبھی جبلت ہمیں فیصلہ لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان لوگوں کو جن کے دماغ میں یہ مسئلہ ہوتا ہے ان کے استدلالی دماغی حصّے اور محیطی نظام کے درمیان رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے ان میں یہ جبلی یا الہامی فیصلے لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر جب ہم خریداری کے لئے جاتے ہیں تو ہم لاشعوری طور پر ہزار ہا فیصلے تقریباً ہر اس چیز کے لئے لیتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ "یہ بہت مہنگا ہے ، بہت سستا ہے ، کافی رنگین ہے ، انتہائی بیوقوفانہ ہے یا بس ٹھیک ہی ہے۔ ” اس قسم کی دماغی بیماریوں کے شکار لوگوں کے لئے خریداری ایک انتہائی ڈراؤنے خواب کی طرح ہوتا ہے کیونکہ انھیں ہر چیز ایک ہی قدر کی دکھائی دیتی ہے۔

بڑھتی ہوئی ذہانت اور پسند نا پسند  کے اختیار کے ساتھ روبوٹ بھی اسی طرح سے فیصلے کرنے میں مفلوج ہو جائیں گے۔ یہ گدھے کی اس اخلاقی حکایت کے جیسا ہی ہو گا جس میں ایک گدھا دو گھاس کے گھٹوں کے درمیان میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہوتا ہے کہ کونسے گھٹے میں سے گھاس کھائے جس کے نتیجے میں آخر کار وہ بھوک سے مارا جاتا ہے۔ ) اس بات سے نمٹنے کے لئے مستقبل کے روبوٹوں کے دماغوں میں جذبات کو بھی انڈیلنا ہو گا۔ روبوٹوں میں جذبات کے فقدان کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے ایم آئی ٹی میڈیا لیب کے ڈاکٹر "روزا لنڈ پیکارڈ” (Rosalind Picard) کہتے ہیں کہ "وہ اس بات کا احساس نہیں کر سکتے کہ کیا چیز اہم ہے۔ یہ ان کا سب سے بڑا نقص ہے۔ بس کمپیوٹر ایسا نہیں کر سکتے۔ ”

جیسا کہ روسی ناول نگار” فیوڈر دوستو یفسکی” (Fyodor Dostoevsky) لکھتے ہیں کہ ” اگر دنیا میں ہر چیز استدلالی ہو جائے تو پھر کچھ نہیں ہو گا۔ ”

با الفاظ دیگر مستقبل کے روبوٹوں کو جذبات کی شدید ضرورت ہو گی تا کہ ان کے مقاصد کا تعین اور ان کی زندگی کو معنویت اور شکل دی جا سکے ورنہ دوسری صورت میں وہ اپنے آپ  کو لامحدود ممکنات میں سے فیصلہ لینے میں مفلوج پائیں گے۔

 

                کیا وہ صاحب شعور ہیں ؟

 

اس بات پر کوئی عالمگیر اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ آیا مشین بھی صاحب شعور ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ بلکہ اتفاق رائے تو اس بات پر بھی نہیں ہے کہ شعور کا کیا مطلب ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی کوئی شعور کی مناسب تعریف نہیں کی ہے۔

مارون منسکی شعور کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ” وہ ذہنوں کے سماج” کی طرح سے ہے یعنی کہ ہمارے دماغ میں موجود خیالات مقامی طور سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ مختلف مرکزوں میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے سے کسی خاص وقت میں مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ شعور کو ہم ایک طرح سے خیالات اور خاکوں کا سلسلہ کہہ سکتے ہیں جو مختلف چھوٹے دماغوں سے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جس میں سے ہر ایک ہماری توجہ حاصل کرنے  کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہا ہوتا ہے۔

اگر یہ بات درست نکلی تو شاید شعور کو رائی کے پہاڑ کی طرح پیش کیا گیا ہے ، شاید کچھ زیادہ ہی مقالے فلاسفر اور نفسیات دانوں نے اس مضمون کی توضیح کے لئے لکھ ڈالے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شعور کو بیان کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہو۔ لاجولا میں واقع سالک انسٹیٹیوٹ کے "سڈنی برینر” (Sydney Brenner)  کہتے ہیں "میں اس بات کی پیش گوئی کرتا ہوں کہ ٢٠٢٠ء سال تک مفید بصری شعور بطور سائنسی مسئلہ کے افق سے کہیں غائب ہو گیا ہو گا اور ہمارے جانشین اس تمام سائنسی خرافات کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے جن کو ہم آج زیر بحث کیے ہوئے ہیں بشرطیکہ ان میں اتنا حوصلہ ہو کہ وہ ان متروک جریدوں کو برقی دستاویز خانہ میں جا کر پڑھیں۔ ”

مارون منسکی کے مطابق مصنوعی ذہانت طبیعیاتی رقابت کا شکار ہو رہی ہے۔ طبیعیات میں ایک ایسی سادہ مساوات کو ڈھونڈھ کر لانا جوئے شیر کے مترادف ہے جو کائنات میں موجود طبیعیات کی تمام قوّتوں کو ایک نظرئیے میں متحد کر کے "ہر شئے کے نظرئیے ” کو بنا دے۔ مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والے اس خیال سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں اور اس کوشش میں وہ ایک ایسا اصول تلاش کر رہے ہیں جس میں وہ شعور کو بیان کر سکیں۔ منسکی کے مطابق ایسا کوئی سادہ سا اصول اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔

(مجھ سمیت وہ لو گ جو اس شارح سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مطابق اس لاحاصل بحث میں الجھے بغیر کہ سوچنے کے قابل مشین کو بنایا جا سکتا ہے یا نہیں ہمیں ان کو بنانے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ شعور سے متعلق، ممکن ہے کہ شعوری تسلسل ، کمرے میں موجود انتہائی پست درجہ حرارت کو نوٹ کرنے سے لے کر آج کی خود شناس مخلوق یعنی انسانوں میں موجود ہو سکتا ہے۔ جانوروں بھی با شعور ہو سکتے ہیں لیکن ان کے شعور کی سطح انسانی شعور جتنی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں شعور سے متعلق فلسفیانہ بحث میں الجھے رہنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم مختلف النوع شعوری سطح کی گروہ بندی کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آخر میں روبوٹ سلیکان شعور حاصل کر لیں۔ درحقیقت یہ ممکن ہے کہ ایک دن روبوٹ کے اندر سوچنے اور اطلاعات کو سمجھنے کی صلاحیت اس طرح سے پیدا کی جا سکے جس کا طریقہ کار ہم سے کافی مختلف ہو۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں، جدید روبوٹ قاعدے اور علم المعنیٰ میں فرق کو دھندلا دیں جس کے نتیجے میں ان کے اور انسانی رد عمل میں فرق کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو پھر وہ سوال کہ کیا وہ حقیقت میں کسی چیز کو سمجھ سکتے ہیں ایک فضول سا سوال ہو گا۔ ایک ایسا روبوٹ جو علم المعنیٰ میں مہارت رکھتا ہو گا وہ ہر لحاظ سے اس بات کو سمجھنے کا اہل ہو گا کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ایک قاعدے کا مکمل ماہر بات کو سمجھ رہا ہے۔ )

 

                کیا روبوٹ ہمارے لئے خطرہ بھی ہو سکتے ہیں ؟

 

مور کا قانون کہتا ہے کہ کمپیوٹر کی طاقت ہر اٹھارہ مہینے گزرنے کے بعد دگنی ہو جائے گی، اس لئے یہ بات قابل فہم ہے کہ چند عشروں کے بعد ایسے روبوٹ بنائے جا سکیں گے جن میں ذہانت موجود ہو گی۔ مثال کے طور پر کتے یا بلی۔ مگر ٢٠٢٠ء تک مور کا قانون منہدم ہو چکا ہو گا کیونکہ سلیکان کا دور ختم ہو چکا ہو گا۔ پچھلے پانچ عشروں کے لگ بھگ کمپیوٹر کی قوّت میں شاندار اضافے کی وجہ ننھے سلیکان کے ٹرانسسٹر کی تخلیق تھی، جو کروڑوں کی تعداد میں ہماری انگلی پر سما سکتے ہیں۔ بالائے بنفشی شعاعوں کا استعمال ان کو سلیکان سے بنے ہوئے ویفر پر منقش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ٹرانسسٹر کو چھوٹی سے چھوٹی جگہ پر سمانے کا عمل ابدی طور پر تو جاری نہیں رہے گا۔ ان ٹرانسسٹر کے حجم کو سالموں کے جتنا تو ہونا ہی پڑے گا جس کے بعد ان کے حجم میں مزید کمی کا عمل بند ہو جائے گا۔ ٢٠٢٠ء کے بعد یا شاید اس وقت سلیکان ویلی زنگ آلود پٹی بن جائے گی جب سلیکان کا دور اختتام پذیر ہو گا۔

ایک عام پینٹیم چپ میں بیس ایٹموں پر مشتمل ایک تہ ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ٢٠٢٠ء تک پینٹیم کی اس چپس کی تہ صرف پانچ ایٹموں پر مشتمل ہو۔ اس وقت ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین آ دھمکتا ہے یعنی یہ پتا نہیں چلے گا کہ الیکٹران کس جگہ پر ہیں۔ لہٰذا برق اس تہ سے باہر آ جائے گی اور کمپیوٹر میں شارٹ سرکٹ ہو جائے گا۔ اس نقطے پر آ کر کمپیوٹر کا انقلاب اور مور کا قانون، کوانٹم نظرئیے کی وجہ سے ایک بند گلی میں جا کھڑا ہو جائے گا۔ (کچھ لوگ دعویدار ہیں کہ ڈیجیٹل عہد "ایٹموں پر بٹس کی جیت” ہے۔ لیکن آخر میں جب ہم مور کے قانون کی آخری سرحد تک پہنچے گے تو ایٹم اپنا انتقام پورا کر چکے ہوں گے۔ )

ماہرین طبیعیات اب سلیکان کے عہد کے بعد کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جو کمپیوٹر کی دنیا پر اپنی حکمرانی کو ٢٠٢٠ء کے بعد سے استوار کر سکے لیکن ابھی تک کچھ ملے جلے نتیجے ہی حاصل ہو پائے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ مختلف قسم کی ٹیکنالوجی  کو پرکھا جا رہا ہے تاکہ وہ آخر میں سلیکان کی ٹیکنالوجی جگہ لے لیں گی، اس قسم کی ٹیکنالوجی میں شامل کوانٹم کمپیوٹر ز، ڈی این اے کمپیوٹر ز، بصری کمپیوٹر ز، جوہری کمپیوٹر ز  وغیرہ وغیرہ ہیں۔ لیکن اس میں سے ہر ایک کے راستے میں ابھی کافی مشکلات کھڑی ہیں جن کا ان کو سامنا کرتے ہوئے سلیکان چپس کی جگہ لینی ہے۔ انفرادی سالموں اور ایٹموں کو قابو کرنے کی ٹیکنالوجی ابھی اپنے طفلی عہد میں ہیں لہٰذا ارب ہا ٹرانسسٹر کو جوہروں کی جسامت جتنے بنانا ہماری موجودہ صلاحیت سے کہیں دور ہے۔

چلیں تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ طبیعیات دانوں نے سلیکان اور کوانٹم کمپیوٹر کے درمیان کے فاصلوں کو پاٹ دیا ہے اور مور کا قانون کسی دوسری شکل میں بھی سلیکان کے عہد کے بعد بھی نافذ العمل ہے تب مصنوعی ذہانت ایک سچائی بن سکتی ہے۔ اس وقت روبوٹ انسانی منطق اور جذبوں کے ماہر بن سکتے ہیں اور ہر دفعہ ہی ٹیورنگ ٹیسٹ کو پاس کر سکیں گے۔ ا سٹیون ا سپیل برگ نے اس ممکنہ صورتحال کو اپنی فلم "آرٹیفیشل انٹیلی جنس :اے آئی ” (مصنوعی ذہانت) میں موضوع بحث بنایا ہے۔ اس فلم میں پہلا روبوٹ لڑکا بنایا جاتا ہے جو جذبات کا اظہار بھی کر سکتا ہے لہٰذا اس کو انسانی سماج میں گود لیا جا سکتا ہے۔

اس بات سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا روبوٹ بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ؟ اس کا جواب مثبت ہو سکتا ہے۔ اگر روبوٹس میں بندروں جتنی عقل آ جائے تو وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اتنی عقل کے ساتھ وہ نہ صرف اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں بلکہ اپنے مقصد کو بھی طے کر سکتے ہیں۔ اس سنگ میل کو حاصل کرنے کے لئے بھی کئی عشرے درکار ہوں گے ، لہٰذا سائنس دانوں کے پاس کافی وقت ہے کہ وہ اس وقت تک روبوٹ کا مشاہدہ کر سکیں جب تک وہ ہمارے لئے خطرہ نہیں بنتے۔ مثال کے طور پر ایک خصوصی چپ ان کے پروسیسر میں لگائی جا سکتی ہے جو ان کو آپے سے باہر نہ نکلنے دے۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ ان کو ایمرجنسی کے درمیان غیر فعال یا خود کو تباہ کرنے پر آمادہ کر سکے۔

آرتھر سی کلارک لکھتے ہیں ” یہ ممکن ہے کہ ہم کمپیوٹروں کے پالتو بن جائیں جس کے نتیجے میں ہماری حیثیت گود میں بیٹھنے والے پالتو کتے کی سی ہو جائے گی لیکن میں اس بات کی امید کرتا ہوں کہ ہم اپنی اس صلاحیت کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گے جو ایسی کسی صورتحال کو اپنی مرضی سے بدل سکتی ہو گی۔ ”

ایک اور خطرہ جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑ سکتا ہے وہ یہ کہ ہمارا ہیکل اساسی (بنیادی ڈھانچہ) ان کمپیوٹر و ں پر انحصار کرتا ہے۔ ہمارے پانی، بجلی، ذرائع نقل و حمل اور ابلاغی نیٹ ورک سب کچھ نہایت تیزی سے کمپیوٹروں کے رحم و کرم پر ہوتے چلے جائیں گے۔ ہمارے شہر اس قدر پیچیدہ ہو گئے ہیں کہ صرف ایک  پیچیدہ کمپیوٹر نیٹ ورک ہی ان وسیع بنیادی ڈھانچوں کو ضابطے میں رکھ کر نگرانی کر سکتا ہے۔ مستقبل میں ان کمپیوٹر نیٹ ورکوں میں مصنوعی ذہانت کو ڈالنا انتہائی ضروری ہو جائے گا۔ اس پورے کمپیوٹر کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کی ہوئی کوئی بھی گڑبڑ یا ناکامی پورے شہر، ملک یہاں تک کہ پوری انسانی تہذیب کو مفلوج کرنے کے لئے کافی ہو گی۔

کیا کمپیوٹر کسی وقت ذہانت میں ہمیں پیچھے چھوڑ دیں گے ؟ یقینی طور پر طبیعیات میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو اس بات کو ہونے سے روک سکے۔ اگر روبوٹوں میں چیزیں سیکھنے کی قابلیت رکھنے والے عصبانیوں کے جال موجود ہوں گے تو وہ ایک ایسے نقطہ کی طرف ترقی کر لیں گے جہاں وہ ہم سے زیادہ تیزی کے ساتھ چیزوں کو سیکھ سکیں اور ہم سے بہتر انداز میں کام کر سکیں۔ اور پھر اس بات کی امید کرنا ایک معقول بات ہو گی کہ وہ استدلال میں ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ موراویک کہتے ہیں "ما بعد حیاتیاتی دنیا ” ایک ایسی دنیا ہو گی جہاں بنی نوع انسان کو ایک معاشرتی تبدیلی کی لہر کے نتیجے میں جھاڑو لگا کر صاف کر دیا جائے گا اور یہ لہر اس کی بنائی ہوئی مصنوعی چیز سے ہی اٹھے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ایسا ہو گا، تو ہمارا ڈی این اے بیکار ہو کر ارتقاء کی دوڑ اکے اس نئے مقابلے میں ہار جائے گا۔ ”

کچھ موجدوں کے مطابق جیسا کہ "رے کرزویل” (Ray Kurzweil)  تو یہاں تک پیش گوئی کرتے ہیں کہ یہ وقت عنقریب ہی آیا چاہتا ہے ، دیر سے آنے کے بجائے جلدی آئے گا ہو سکتا کہ آنے والے چند عشروں میں ایسا ہو جائے۔ ممکن ہے کہ ہم اپنے ارتقائی جانشینوں کو بنا رہے ہیں۔ کچھ کمپیوٹر کے سائنس دان تو ایسے کسی نقطے کو دیکھ رہے ہیں جس کو وہ ” وحدانیت یا اکائیت ” (Singularity) کہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہو گا جب روبوٹ اطلاعات کی عمل کاری کو برق رفتاری کے ساتھ انجام دے سکیں گے۔ نتیجتاً نئے روبوٹس تخلیق کئے جائیں گے یہاں تک کہ ان کی اطلاعات کو جذب کرنے کی اجتماعی صلاحیت اس قدر جدید ہو جائے گی جس کی کوئی حد نہیں ہو گی۔

طویل عرصے میں کچھ لوگ اپنی معدومیت کا انتظار کرنے کے بجائے کاربن اور سلیکان کی ٹیکنالوجی کو ضم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ہم انسان بنیادی طور پر کاربن سے بنے ہیں جبکہ روبوٹ سلیکان سے بنے ہیں (کم از کم اس وقت کی حد تک تو ایسا ہی ہے ) ۔ شاید اس بات کا حل صرف یہ ہی ہے کہ ان کو ہم اپنے ساتھ ضم کر لیں۔ (اگر ہم کبھی بھی ماورائے ارض ہستیوں سے ملے تو ہمیں اس بات سے حیرت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ آدھے نامیاتی ہوں اور آدھے میکانکی۔ یہ اس لئے ہو گا  تا کہ وہ خلاء کے سخت سفر کو برداشت کر سکیں اور نامہرباں ماحول میں بھی زندہ رہ سکیں۔ )

مستقبل بعید میں، روبوٹ یا انسان نما سائبورگ ممکن ہے کہ ہمیں حیات جاوداں کے تحفے سے روشناس کرا دے۔ مارون منسکی اس میں اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” جب سورج اپنی حیات پوری کر لے گا تو پھر کیا ہو گا؟ یا ہم سیارے کو تباہ کر دیں ؟ ہم کیوں نہ اچھے طبیعیات دان، انجنیئر ز اور ریاضی دان نہ بنائیں ؟ ہمیں اپنے مستقبل کا خود سے معمار بننا پڑے گا۔ اگر ہم ایسے نہیں کریں گے تو ہمارا ورثہ گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔ ”

موراویک مستقبل بعید میں ایک ایسے وقت کا تصوّر کر تے ہیں جب ہماری عصبی ساخت تبدیل ہو کر براہ راست ایک مشین میں بدل جائے گی جس کے نتیجے میں ہمیں ایک طرح سے ابدیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ ایک انتہائی سرکش خیال ہے مگر یہ ممکنات کی سرحدوں کے پار دور کا خیال نہیں ہے۔ لہٰذا ان سائنس دانوں کے خیال میں جو مستقبل بعید میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ابدیت (ڈی این اے کی بہتر صورت میں یا سلیکان کی شکل میں ) ہی انسانیت کی آخری منزل ہے۔

ایسی مشینوں کو بنانے کا خیال ایک حقیقت بن سکتا ہے جو جانوروں جتنی یا شاید ہمارے جتنی یا ہم سے بھی زیادہ ذہین ہوں۔ اگر ہم مور کے قانون کو منہدم ہونے سے روک سکیں اور عقل سلیم کے مسائل پر قابو پا سکیں  تو شاید اس صدی کے آخر تک ایسا ہونا ممکن ہو۔ ہرچند مصنوعی ذہانت کے بنیادی اصول اب بھی دریافت کیے جا رہے ہیں لیکن اس جانب پیش رفت کافی تیز رفتار اور امید افزا ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان روبوٹ اور دوسری سوچنے والی مشینوں کو جماعت "I” کی ناممکنات میں شامل کر رہا ہوں۔

 

 

 

 

8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء  (اڑن طشتریاں )

 

یا تو ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا پھر ایسا نہیں ہیں۔
دونوں خیالات ہی ڈرا دینے والے ہیں۔
آرتھر سی کلارک

 

ایک میلوں پر محیط جسیم خلائی جہاز پورے آسمان کو ڈھکتا ہوا لاس اینجیلس کی فضاء میں ابھرتا ہے۔ نتیجتاً  پورا شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اہم شہروں کے گرد طشتری نما حصار بنا لئے جاتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں خوش باش تماشائی دوسرے سیارے سے آنے والے مہمانوں کو لاس اینجیلس میں خوش آمدید کہنے کو تیار رہتے ہیں  اور اس مقصد کے لئے وہ اپنی اونچی عمارتوں کی چھتوں پر جمع ہو جاتے ہیں تا کہ وہ اپنے فلکی مہمانوں کے قریب جا سکیں۔

خاموشی سے لاس اینجیلس پر معلق رہنے کے کئی دن بعد خلائی جہاز کے درمیانی حصّہ کھلتا ہے جس میں سے ایک لیزر شعاعوں کے بوچھاڑ کو داغا جاتا ہے جو چشم زدن میں اونچی عمارتوں کو بھسم کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں تباہی کی وہ لہر پورے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ اور چند ہی سیکنڈوں میں شہر کو جلے ہوئے پتھروں کے روڑوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔

فلم انڈیپنڈنس ڈے (یوم آزادی ) میں دکھائی جانے والی خلائی مخلوق ہمارے اندر کے خوف کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلم ای ٹی میں ہم اپنے خواب اور حسرتیں خلائی مخلوق میں ڈالتے ہیں۔ پوری تاریخ میں لوگ خلائی مخلوق کے خیالوں سے سحر انگیز رہے ہیں جو دوسری دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ ١٦١١ء سومنیم رسالے میں، ماہر فلکیات جوہانس کیپلر نے اپنے وقت کی بہترین سائنسی علم کو استعمال کرتے ہوئے چاند تک کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کی۔ اس کے خیال میں  اس سفر کے دوران ہمارا واسطہ عجیب خلائی مخلوق، پودوں اور جانوروں سے پڑ سکتا ہے۔ لیکن اکثر سائنس اور مذہب خلاء میں زندگی کے موجود ہونے کے تصوّر پر متصادم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے نہایت ہی بھیانک نکلتے ہیں۔

چند برسوں پہلے ، ١٦٠٠ء میں ڈومنیکی راہب اور فلسفی "جرڈانو برونو” (Giordano Bruno)  کو روم کی سڑکوں پر زندہ جلا دیا تھا۔ اس کی تذلیل کرنے کے لئے گرجا نے اس کو الٹا لٹکا دیا تھا اور جلانے سے پہلے اس کو برہنہ کر دیا تھا۔ برونو کس چیز پر یقین رکھتا تھا جس کی پاداش میں اس کو نشانہ عبرت بنا دیا تھا ؟ اس نے تو بس ایک سادہ سا سوال کر لیا تھا : کیا خلاء میں حیات کسی شکل میں موجود ہے ؟ کوپرنیکس کی طرح وہ بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے لیکن کوپرنیکس کے برعکس وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ ہمارے جیسی انگنت مخلوق خلاء میں رہتی ہیں۔ (بجائے اس بات کو سمجھا جاتا کہ ممکنہ طور پر ارب ہا صوفی، راہب، گرجا اور یسوع مسیح خلاء میں موجود ہو سکتے ہیں ، گرجا والوں کے لئے یہ زیادہ آسان راستہ تھا کہ ایسی بات کرنے والے کسی بھی آدمی کو زندہ جلا کر جان چھڑا لی جائے۔ )

کچھ چار صدیوں سے زائد عرصے سے برونو سائنسی مورخین کا سائے کی طرح سے پیچھا کر رہا ہے۔ آج برونو ہر ہفتے اپنا انتقام لے رہا ہے۔ ہر دوسرے مہینے ایک نیا ماورائے شمس سیارہ کسی دوسرے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہوا دریافت ہو رہا ہے۔ ابھی تک خلاء میں ڈھائی سو سے زیادہ سیارے دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے دریافت ہو چکے ہیں۔ برونو کی ماورائے شمس سیاروں کی پیش گوئی درست ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی ایک سوال کا جاننا باقی ہے۔ ہرچند ملکی وے کہکشاں میں ماورائے شمس سیارے موجود ہیں مگر ان میں سے کتنے ایسے ہیں جہاں زندگی موجود ہے ؟ اور اگر شعور کی حامل حیات خلاء میں موجود ہے تو سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟

کسی خلائی مخلوق سے فرضی ٹاکرا معاشرے ، ہنگامے کے شوقین قاریوں اور فلم بینوں کو نسلوں سے متحیر کیے ہوئے ہے۔ سب سے مشہور واقعہ ٣٠ اکتوبر ١٩٣٨ء میں ہوا جب اورسن ویلز (Orson Welles) نے ہیلووین کی تفریح امریکی عوام سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایچ جی ویلز کی وار آف دی ورلڈ سے بنیادی خیال لیا اور مختصر خبروں کو سی بی ایس قومی ریڈیو پر نشر کرنا شروع کر دیا۔ اس کھیل کو رقص و موسیقی کے پروگراموں کے درمیان میں نشر کیا گیا، وقفے وقفے سے  مریخیوں کا زمین پر حملہ اور اس کے بعد تہذیب کی تباہی کی کہانی بیان کی جاتی رہی۔ اس خبر کو سن کر کہ مریخ کی مشینیں گروور مل، نیو جرسی میں اتر چکی ہیں اور وہاں پر انہوں نے موت کی شعاعوں کو شہروں کو تباہ کرنے اور دنیا کو فتح کرنے کے لئے داغنا شروع کر دیا ہے ، لاکھوں امریکیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ( بعد میں اخباروں کے ذریعہ یہ بھی پتا چلا کہ شہر سے یکدم شہریوں کا انخلاء بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ کچھ چشم دید گواہوں کے زہریلی گیس کو سونگھنے اور دور دراز میں روشنی کے جھماکے دیکھنے کے دعوے تھے۔ )

مریخ کی سحر انگیزی کے جادو نے اس وقت بھی سر چڑھ کر بولنا شروع کر دیا تھا جب ماہرین فلکیات نے مریخ پر ایک عجیب سا نشان دیکھا جو ایک جسیم "M” کی طرح دکھائی دیتا تھا اور میلوں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ تبصرہ کاروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ "M” کا مطلب "مریخ ” ہی ہو۔ اور مریخی، زمینی لوگوں کو اپنے وجود کی آگاہی سے امن پسندی کے ساتھ اس طرح سے روشناس کر وا رہے ہوں، جس طرح سے چئیر لیڈر اپنی فٹ بال کی ٹیم کا نام میدان میں ہجے کرتی ہیں۔ (دوسروں نے اس کا تاریک پہلو ایسے دیکھا کہ ان کے خیال میں "M” اصل میں "W” تھا اور "W” کا مطلب "وار ” (جنگ ) تھا۔ دوسرے الفاظوں میں مریخیوں نے زمین کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ یہ ہلچل اس وقت ختم ہو گئی جب وہ "M” ایسے غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ وہ نشان گرد کے طوفانوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ جس نے پورے سیارے کو گھیر لیا تھا۔ صرف بڑے چار آتش فشاں اس سے ڈھکنے سے بچے رہ گئے تھے۔ ان چاروں آتش فشانوں کے دھانے کچھ "M” یا "W” جیسے دکھائی دیتے تھے۔

 

                حیات کی کھوج کی سائنسی تحقیقات

 

ماورائے ارض حیات کی ممکنہ کھوج کرنے والے سنجیدہ طبع سائنس دان کہتے ہیں کہ حیات جیسی کسی بھی چیز کے وجود کے بارے قطعیت کے ساتھ کہنا ناممکن ہے۔ اس بات سے قطع نظر ہم خلائی حیات کے بارے میں عمومی خیالات کا اظہار طبیعیات، کیمیا اور حیاتیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مائع پانی کی موجودگی کائنات میں حیات کی تخلیق کے لئے سب سے اہم چیز ہے۔ ” پانی کے پیچھے چلو ” کا نعرہ اکثر فلکیات دان اس وقت لگاتے ہیں جب وہ حیات کے ثبوت خلاء میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ۔ مائع پانی، دوسرے مائعوں کے برعکس کائناتی حل پذیر ہے اس میں حیران کر دینے والی مختلف کیمیائی چیزوں کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کی مثال، مثالی ڈونگے کی سی ہے جس میں پیچیدہ تر سالمات بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی بھی ایک سادہ سالمہ ہے جو پوری کائنات میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دوسرے مائع کافی نایاب ہیں۔

دوسرے ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کاربن ایک ایسا عنصر ہے جو حیات کی تخلیق میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں چار بند ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس میں چار دوسرے ایٹموں کو باندھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ناقابل یقین پیچیدہ ترین سالمات بن سکتے ہیں۔ مختصراً کاربن کی لمبی زنجیریں بنانا آسان ہے جو ہائیڈرو کاربن اور نامیاتی کیمیا کی بنیادی اساس ہوتی ہیں۔ دوسرے چار بندوں کی صلاحیت کے حامل عنصر اس قابل نہیں ہوتے کہ اتنی زرخیز قسم کی کیمیائی چیزوں کو بنا سکیں۔

سب سے زیادہ کاربن کی اہمیت اس مشہور زمانہ تجربے میں حاصل کی گئی جو "اسٹینلے ملر” (Stanley Miller) اور "ہیرالڈ یوری” (Herold Urey)  نے ١٩٥٣ء میں کیا جس میں معلوم ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ خود کار حیات قدرتی طور پر کاربن کی کیمیا  کا ضمنی حاصل ہو۔ انہوں نے امونیا، میتھین اور دوسرے زہریلے کیمیائی اجزاء کا محلول لیا جو ان کے مطابق نوزائیدہ  زمین پر موجود تھے۔ اس کو انہوں نے ایک جار میں رکھا اور اس میں تھوڑی سی برقی رو گزاری اور اس کے بعد انتظار کرنے لگے۔ ایک ہفتے کے دوران ہی انہوں نے خود بخود امینو ایسڈ کے بننے کے ثبوت دیکھے۔ برقی رو نے امونیا اور کاربن میں موجود بندوں کو توڑ کر جوہروں کو از سر نو ترتیب دے کر پروٹین کے پیش رو امینو ایسڈ کو بنا دیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حیات شاید خود سے پیدا ہو گئی ہو۔ امینو ایسڈ شہابیوں کے اندر اور خلائے بسیط میں گیس کے بادلوں میں بھی پائے گئے ہیں۔

تیسرے ، حیات کی بنیادی اساس وہ سالمہ ہے جو خود کی نقل بنا لیتا ہے جس کو ڈی این اے کہتے ہیں۔ کیمیا میں خود کی نقل کرنے والے سالمات انتہائی نایاب ہیں۔ زمین پر پہلے ڈی این اے نے بننے میں شاید سمندروں کے اندر کروڑوں سال کا عرصہ لگایا ہو گا۔ غالباً اگر کسی نے ملر –یوری والا تجربہ دس لاکھ سال پہلے سمندر میں دہرایا ہو تو ڈی این اے کے سالمات خود سے بن سکتے تھے۔ زمین پر ان جگہوں کی ممکنہ امیدوار جہاں اوّلین ڈی این اے جیسے سالمات بنے ہوں گے وہ سمندر کی تہ میں آتش فشانی ریخیں ہو سکتی ہیں، پودوں اور ضیائی تالیف کے عمل کو شروع ہونے سے پہلے ان ریخوں میں ہونے والی ہلچل توانائی کی معقول مقدار ابتدائی ڈی این اے کے سالموں اور خلیوں کو مہیا کر سکتی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ڈی این اے کے ساتھ ساتھ کاربنی سالمات  بھی خود کی نقل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن کائنات میں ڈی این اے کی شباہت کے دوسرے خود کار نقلچی سالمات کی موجودگی کی امید کی جا سکتی ہے۔

لہٰذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ حیات کو مائع پانی، ہائیڈرو کاربن کیمیائی اجزاء اور کچھ طرح کے خود کار نقلچی سالمات مثلاً ڈی این اے کی ضرورت ہو گی۔ ان جامع اصولوں کی کسوٹی کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس طرح ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کائنات میں ذہین مخلوق کی تعداد کیا ہو گی۔ ١٩٦١ء میں کارنیل یونیورسٹی کے ماہر فلکیات "فرینک ڈریک” (Frank Drake)  وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایک خام تخمینہ لگایا تھا۔ اگر ہم ملکی وے کے ایک کھرب ستاروں سے شروع کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اس کی معمولی تعداد ہمارے سورج جیسے ستاروں کی ہو گی۔ اس کے بعد ہم ان ستاروں کے گرد ماورائے نظام ہائے شمس تلاش کریں۔ با الخصوص ڈریک کی مساوات اس بات کا تخمینہ لگاتی ہے کہ کہکشاں میں کتنی تہذیبیں موجود ہونی چاہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ کوئی اعداد کو ضرب دیتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل عوامل شامل ہیں :

کس شرح سے ستارے کہکشاں میں پیدا ہو رہے ہیں،

کتنے ستاروں کے گرد سیارے موجود ہوں گے ،

ہر ستارے کے گرد کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات کی جملہ شرائط موجود ہوں گی،

ان میں سے کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات نے جنم لیا ہو گا،

ان میں سی کتنی حیات ایسی ہوں گی جنہوں نے ذہانت حاصل کی ہو گی،

اس میں سے کتنی ایسی حیات ہوں گی جو اس بات کی خواہش اور قابلیت رکھتی ہوں کہ وہ رابطہ کر سکیں، اور

ایک تہذیب کی اندازاً کیا عمر ہو گی۔

معقول تخمینا جات لے کر اور متواتر احتمال کو ضرب دے کر ہم یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کر سکتے ہیں کہ ١٠٠ سے لے کر ١٠ ہزار ایسے سیارے صرف ملکی وے کہکشاں میں موجود ہو سکتے ہیں جہاں حیات اپنا مسکن بنا سکتی ہے۔ اگر حیات کی ذہین قسم کی شکل ملکی وے میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہو تو پھر ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ ایسا کوئی سیارہ زمین سے صرف چند نوری برس کے فاصلے پر موجود ہو گا۔ ١٩٧٤ء میں کارل ساگاں نے صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی ١٠ لاکھ تہذیبوں کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا تھا۔

یہ قیاس ہی ان لوگوں کی مزید تائید کرتا ہے جو ماورائے ارض تہذیبوں کے ثبوتوں کے متلاشی ہیں۔ ذہین حیات کو پروان چڑھانے والے موافق سیاروں کے تخمینا جات کی بنیاد پر سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ ایسے ریڈیائی اشاروں کی تلاش کر رہے ہیں جو کسی سیارے سے نشر ہو رہے ہوں، یہ اشارے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اشاروں جیسی ہی ہوں گے جو ہماری زمین نے آج سے پچاس سال قبل نشر کرنے شروع کیے تھے۔

 

                ماوراء ارض حیات کی سن گن

 

سرچ فار ایکسٹرا ٹیررسٹریل انٹیلی جنس (ایس ای ٹی آئی – سیٹی ) کا منصوبہ ماضی کے اس اثر انگیز مقالے کا نتیجہ ہے جو ١٩٥٩ء میں طبیعیات دان ” گسپے کوکونی” (Giuseppe Cocconi)  اور” فلپس موریسن” (Philips Morrison) نے لکھا تھا جس میں انہوں نے اس بات کی تجویز پیش کی تھی کہ خورد موجی شعاعیں جن کا تعدد ارتعاش ایک سے لے کر ١٠ گیگا ہرٹز کے درمیان  ہو وہ ماورائے ارض اطلاعات کو ڈھونڈنے کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہوں گی۔ (ایک گیگا ہرٹز سے نیچے والے تعدد ارتعاش  تیز رفتار الیکٹران کی حرکت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شعاعوں سے ختم ہو چکے ہوں گے ؛ ١٠ گیگا ہرٹز سے اوپر کی تعدد ارتعاش کے اشاروں میں ہماری فضا میں موجود آکسیجن اور پانی کے سالمات کا شور درمیان میں مداخلت کرے گا۔ )

انہوں نے ١٤٢٠ گیگا ہرٹز کوخلائے بسیط سے آنے والے اشاروں کو سب سے امید افزا سمجھ کر چنا۔ کیونکہ یہ ہی وہ اخراجی تعدد ہے جو عام ہائیڈروجن گیس خارج کرتی ہے جو کائنات میں پایا جانے والا سب سے ارزاں عنصر ہے۔ (اس درجے میں پائی جانے والے تعدد کی عرفیت "پانی کا سوراخ ” ہے جو ماورائے ارض رابطوں میں آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے دی ہے۔ )

ذہین مخلوق کے اشاروں کی تلاش ان پانی کے سوراخوں کے پاس انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ ١٩٦٠ء میں فرینک ڈریک نے ایک منصوبہ شروع کیا جس کا نام "عظمیٰ ” (او زے ایم اے ) تھا (جس کو اوز کی ملکہ کے نام پر رکھا تھا ) ۔ اس کا مقصد گرین بینک، مغربی ورجینیا میں موجود ایک ٢٥ میٹر کی ریڈیائی دوربین کی مدد سے اشاروں کی تلاش تھی۔ ابھی تک کوئی بھی اشارہ نہ تو عظمیٰ کے منصوبے میں مل سکا ہے نہ ہی کسی دوسرے اسی مقصد کے لئے شروع کیے جانے والے منصوبے میں  ملا ہے۔ ان میں سے اکثر منصوبوں کو رات کے آسمان کا برسوں تک معائنہ کرنے کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔

١٩٧١ء میں ایک انتہائی پر عزم تجویز ناسا کی طرف سے سیٹی کی مالی معاونت  کی پیش کش کی صورت میں کی گئی۔ سائیکلوپس نامی اس منصوبے میں پندرہ سو ریڈیائی دوربینوں سے کام شروع کرنے کا عزم کیا گیا تھا جن کی قیمت ١٠ ارب ڈالر  کے لگ بھگ تھی۔ توقع کے عین مطابق یہ تحقیق کہیں پر بھی شروع نہیں ہوئی۔ مالی وسائل ایک دوسرے سادے منصوبے کے لئے دستیاب کر دیئے گئے جس میں ایک احتیاط سے رمز کیا ہوا پیغام خلائی مخلوق کو خلائے بسیط میں بھیجا گیا۔ ١٩٧٤ء میں ایک رمز کیا ہوا پیغام جو ١٦٧٩ بٹس پر مشتمل تھا اس کو پورٹو ریکو میں نصب دیو ہیکل آ ریسیبو ریڈیائی دوربین کے ذریعہ سے عالمگیر جھرمٹ ایم – ٣١ میں زمین سے لگ بھگ پچیس ہزار ایک سو نوری برس کے فاصلے پر بھیجا۔ اس مختصر سے پیغام میں سائنس دانوں نے ایک ٢٣ X ٧٣ کی جہت کے ایک جالی کے جیسے نمونے میں ہمارے نظام شمسی کا محل وقوع بیان کیا ہے اور ایک انسانوں کا خاکہ اور مختلف کیمیائی فارمولے بھی اس میں شامل ہیں۔ ( کیونکہ وہاں تک کا فاصلہ کافی لمبا ہے لہٰذا پہلے پہل جواب موصول ہونے کا عرصہ آج سے کل ملا کر باون ہزار ایک سو چوہتر سال ہو گا۔ )

کانگریس ان منصوبوں کی اہمیت سے متاثر نہیں ہوئی یہاں تک کہ ایک پر اسرار ریڈیائی اشارہ ١٩٧٧ء میں ملا جس کا نام "واہ ” اشارہ رکھا گیا۔ یہ اشارہ ایک ایسے سلسلے پر مشتمل تھا جس میں کچھ بے ترتیب حروف اور اعداد شامل تھے اور ایسا لگتا تھا کہ کوئی ذہین مخلوق اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ (کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس اشارے کو دیکھا لیکن وہ اس سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے تھے۔ )

١٩٩٥ء میں وفاقی حکومت کی مالی تعاون کی عدم توجہی کی بنا پر کچھ ماہرین فلکیات نے نجی طور پر غیر منافعی تنظیم کی حیثیت سے سیٹی انسٹیٹیوٹ کو شروع کیا جو ماؤنٹ ویو، کیلی فورنیا میں واقع ہے۔ اس تنظیم کا مقصد سیٹی کی تحقیقات کا ایک مرکز بنانا تھا۔ یہاں پر ایک منصوبہ شروع کیا گیا جس کا نام فینکس تھا۔ اس کا مقصد سورج جیسے ایک ہزار کے قریب ستاروں کا جائزہ ١٢٠٠ سے ١٣٠٠ میگا ہرٹز کے درجوں کے درمیان لینا تھا۔ ڈاکٹر "جل ٹارٹر” ([Jill Tarter]فلم کنٹیکٹ میں جوڈی فوسٹر نے ان کا کردار ادا کیا تھا ) کو اس کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ (اس منصوبے میں استعمال ہونے والے آلات اس قدر حساس ہیں کہ وہ دوسو نوری برس کے فاصلے پر موجود ایئرپورٹ کے ریڈار کے نظام سے نکلے ہوئے اشاروں کو بھی پکڑ سکتے ہیں۔ )

١٩٩٥ کے بعد سے سیٹی انسٹیٹیوٹ نے ایک ہزار سے زائد ستاروں کو چھانا جس پر سالانہ پچاس لاکھ ڈالر کی لاگت آ رہی ہے۔ لیکن سردست ابھی تک کوئی بھی قابل ذکر نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر، "سیتھ شوسٹاک” (Seth Shostak) جو سیٹی کے ایک سینیئر ماہر فلکیات ہیں، وہ رجائیت پسندی کے ساتھ اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ ساڑھے تین سو انٹینے پر مشتمل ایلن ٹیلی اسکوپ ایرے جو سان فرانسسکو سے ڈھائی سو میل شمال مشرق میں بنائی جا رہی ہے ٢٠٢٥ء تک کام کرنا شروع کر دے گی۔

ایک اور جدید طریقہ سیٹی ایٹ ہوم منصوبہ ہے جو برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین فلکیات نے ١٩٩٩ء میں شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں ان لاکھوں کمپیوٹر کے مالکوں کو ہدف بنایا گیا جن کے کمپیوٹر گھر پر زیادہ تر فالتو پڑے رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس میں حصّہ لینا چاہتے ہیں وہ ایک سافٹویئر کو ڈاؤنلوڈ کر کے کچھ ریڈیائی اشاروں کو غیر مرموز کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ ریڈیائی اشارے ایک ریڈیائی دوربین سے اس وقت حاصل کیے جاتے ہیں جب حصّے دار کے کمپیوٹر پر اسکرین سیور چل رہا ہوتا ہے اس طرح سے ذاتی کمپیوٹر کو استعمال کرنے والے حصّے دار کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ابھی تک اس منصوبے میں دو سو ملکوں کے پچاس لاکھ استعمال کنندہ نے اپنے آپ کو رجسٹر کروایا ہے۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی بجلی انتہائی کم قیمت پر استعمال کی ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اب تک کا سب سے رجائیت پسند منصوبہ ہے۔ یہ ایک طرح سے دوسرے وسیع کمپیوٹر کے ذرائع کو استعمال کر کے حساب کتاب کرنے والے منصوبوں کے لئے ایک نمونہ عمل ہو سکتا ہے۔ ابھی تک کوئی بھی اشارہ ذہین مخلوق کی طرف سے سیٹی ایٹ ہوم کو نہیں ملا ہے۔

عشروں کی سخت محنت کے بعد، ماورائے ارض حیات کی طرف سے اشارے ملنے کے سلسلے میں کوئی واضح پیش رفت نہ ہونے کے سبب اس تحقیق کو اپنے مخالفوں کے سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی ایک ظاہری خامی تو صرف ریڈیائی اشاروں کو ایک مخصوص تعدد ارتعاش میں تلاش کرنا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ خلائی مخلوق ریڈیائی اشاروں کے بجائے لیزر کی شعاعیں استعمال کرتی ہوں۔ لیزر کے استعمال کو ریڈیائی لہروں پر کافی طرح سے برتری حاصل ہے۔ لیزر کی مختصر لہروں کی وجہ سے ایک لہر میں ریڈیو کی لہروں کی با نسبت زیادہ اشاروں کو سما یا جا سکتا ہے۔ لیکن کیونکہ لیزر کی شعاع بلند درجے کی سمٹی اور صرف ایک ہی تعدد ارتعاش پر مشتمل ہوتی ہیں لہٰذا یہ ان کو بالکل صحیح تعدد میں پکڑنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے۔

دوسرا ممکنہ ظاہری نقص سیٹی کے محققین کا صرف مخصوص ریڈیائی تعدد کے دائرہ اثر میں انحصار کیے ہوئے ہونا ہے۔ اگر کوئی خلائی حیات موجود ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی دابی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوں یا ممکنہ طور پر پیغام کو چھوٹے بنڈلوں میں پھیلا دیتے ہوں اس طرح کی تیکنیک آج کل انٹرنیٹ پر استعمال ہوتی ہے۔ مختلف تعدد میں پھیلے ہوئے دابی پیغامات کو سننے سے ہمیں صرف بے ترتیب آوازیں ہی سنائی دیں گی۔

ان تمام خوفناک مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے جن سے سیٹی نبرد آزما ہے ، یہ بات معقول لگتی ہے کہ اس صدی میں ہی ہم ماورائے ارض تہذیبوں کے کچھ اشاروں کا سراغ لگانے کے قابل ہو جائیں گے  بشرطیکہ وہ تہذیبیں موجود ہوں اور اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھے گا۔

 

                وہ کہاں ہیں ؟

 

اس بات کی حقیقت کے پیش نظر کہ ابھی تک سیٹی نے کائنات میں موجود کسی بھی ذہین مخلوق کی طرف سے آتے ہوئے کسی اشارے کا سراغ نہیں لگایا، سائنس دان مجبور ہو گئے ہیں وہ فرینک ڈریک کی ذہین مخلوق کے دوسرے سیاروں پر موجود ہونے سے متعلق مساوات کو سرد مہری کے ساتھ اہمیت دینا ختم کر دیں۔ حالیہ فلکی دریافتوں نے ہمیں اس بات کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ١٩٦٠ء کی دہائی میں فرینک ڈریک کے ذہین خلائی مخلوق کو کھوجنے کے اندازے حقیقت میں کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ ذہین خلائی مخلوق کے کائنات میں موجود ہونے کے نصیب دونوں رجائیت اور قنوطیت پسندوں کے پچھلے اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں۔

سب سے پہلے تو نئی دریافتوں نے ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع دیا کہ حیات اس طرح سے بھی نشو نما پا سکتی ہے جس کو ڈریک کی مساوات نے نظر انداز کر دیا تھا۔ پہلے سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مائع پانی صرف سورج کے گرد گولڈی لاکس زون میں ہی پایا جا سکتا ہے۔ (زمین کا سورج سے فاصلہ بالکل مناسب ہے۔ یہ نہ تو اتنا زیادہ سورج سے قریب ہے کہ سمندر ابل پڑیں نہ اتنا زیادہ دو ر ہے کہ سمندر جم جائیں، بلکہ حیات کے زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لئے بالکل مناسب ہے۔ )

لہٰذا مشتری کے منجمد چاند یوروپا کی سطح پر موجود جمی ہوئی برف کے نیچے پائے جانے والے پانی کے ثبوتوں نے سائنس دانوں کو مبہوت کر دیا ہے۔ یوروپا گولڈی لاکس زون کے کافی باہر کی جگہ ہے۔ لہٰذا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈریک کی مساوات میں کہیں نہیں سماتا۔ اس کے باوجود مدو جزر کی قوّتیں یوروپا کی سطح پر پھیلی ہوئی برف کو پگھلا کر ایک مستقل سمندر بنا سکتی ہے۔ یوروپا  جب مشتری کے گرد اپنے مدار میں چکر لگاتا ہے تو سیارے کے عظیم جاذبی میدان کسی ربڑ کی گیند کی طرح سے اس کو نچوڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کی قلب کی گہرائی میں رگڑ کی قوّت پیدا ہوتی ہے جو برف کو پگھلا دیتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سو سے زائد چاند موجود ہیں۔ لہٰذا گولڈی لاکس زون کے باہر صرف ہمارے نظام شمسی میں ہی ایسے کئی چاند ہو سکتے ہیں جہاں حیات موجود ہو۔ سردست ڈھائی سو سے زائد دیو ہیکل ماورائے شمس سیارے خلاء میں دریافت ہو چکے ہیں غالب امکان یہ ہے کہ ان کے بھی منجمد چاند ہو سکتے ہیں جو حیات کی کفالت کر نے کے قابل ہوں۔

مزید براں سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی ایسے آوارہ گرد  (یتیم) سیارے بھی موجود ہیں جو کسی بھی ستارے کے گرد چکر نہیں لگا رہے ہیں۔ مد و جزر کی قوّتوں کی بدولت کوئی بھی چاند جو ان آوارہ گرد سیاروں کے گرد چکر لگا رہا ہو گا اس میں بھی برف کی سطح کے نیچے مائع سمندر موجود ہو سکتے ہیں لہٰذا امکان ہے کہ وہاں حیات بھی پائی جا سکتی ہے ، لیکن ایسا کوئی بھی چاند ہم اپنی دوربینوں کی مدد سے دیکھ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے آلات میزبان تارے یا مورث ستارے سے آتی ہوئی روشنی کی مدد سے ہی دوسرے اجسام کی کھوج کر سکتے ہیں۔

کائنات میں چاندوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہو سکتا ہے کہ نظام ہائے شمسی میں موجود سیاروں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوں اور ان آوارہ گرد سیاروں کی تعداد کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے جو ایک اندازے کے مطابق ایک کہکشاں میں ہی کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے ، کائنات میں زندگی کی کفالت کرنے والے فلکیاتی اجسام ہمارے پچھلے لگائے گئے اندازوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف ماہرین فلکیات نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر، کسی ایسے سیارے پر زندگی کے آثار جو گولڈی لاکس زون میں موجود ہو ڈریک کے لگائے گئے اندازے سے کہیں زیادہ کم ہیں۔

سب سے پہلے تو کمپیوٹر کے پروگرام اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ مشتری کے حجم کے سیارے کا کسی بھی نظام شمسی میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ خلاء سے آتے ہوئے شہابیوں اور سیارچوں کو وہ دور دھکیل سکے۔ اس طرح سے وہ مسلسل نظام شمسی کی صفائی کر کے اس کو حیات کے لئے ایک موزوں جگہ بناتا ہے۔ اگر ہمارے نظام شمسی میں مشتری موجود نہیں ہوتا، تو زمین شہابیوں اور دم دار تاروں سے چھلنی ہو چکی ہوتی جس کے نتیجے میں یہاں زندگی کا پروان چڑھنا انتہائی مشکل ہو جاتا۔ ڈاکٹر” جارج ویتھریل” (George Wetherill)  جو کارنیگی انسٹیٹیوشن ان واشنگٹن، ڈی سی میں ایک فلکیات دان ہیں اندازہ لگا کر بتاتے ہیں کہ مشتری اور زحل جیسے سیاروں کی ہمارے نظام شمسی میں غیر موجودگی کی صورت میں زمین ایک ہزار گنا زیادہ سیارچوں کے تصادموں کا نشانہ بنتی۔ ان تصادموں میں کافی سارے ایسے تصادم ہوتے جو حیات کے لئے خطرہ بن سکتے تھے  (جیسا کہ ایک وہ تصادم تھا جس نے ڈائنو سارس کو آج سے چھ کروڑ پچاس سال پہلے ختم کر دیا تھا) ۔ ایسے تصادم ہر دس ہزار سال کے بعد وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "یہ بات تصوّر کرنا بھی محال ہے کہ حیات کس طرح سے انتہائی یورش میں بھی باقی رہ سکتی ہے۔ ”

دوسرے ہمارے سیارے کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے پاس ایک بڑا چاند ہے جس نے زمین کو اپنے محور پر گھومنے میں سہارا دیا ہوا ہے۔ نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون کو کروڑوں سال پر کھینچ کر سائنس دان اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شاید ایک بڑے چاند کے بغیر ہمارے زمین کا محور غیر پائیدار ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں زمین لڑ کھڑا سکتی ہے اور حیات کی پرورش ناممکن ہو سکتی ہے۔ فرانسیسی فلکیات دان ڈاکٹر” جاک لاسکر” (Jacques Lasker) اندازہ لگاتے ہیں کہ ہمارے چاند کے بغیر زمین اپنے محور پر صفر درجے سے لے کر چون درجے تک جھولتی رہتی  جس کے نتیجے میں انتہاء کے موسم جنم لیں گے جو حیات سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتے ہوں گے۔ لہٰذا ایک بڑے چاند کی موجودگی کی شرط کو بھی ڈریک کی مساوات میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ (مریخ کے صرف دو ننھے چاند ہیں، جو اتنے چھوٹے ہیں کہ اس کے چکر کو پائیداری فراہم نہیں کر سکتے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مریخ ماضی بعید میں لڑکھڑایا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی دوبارہ سے لڑکھڑا جائے۔ )

تیسرے ، حالیہ حاصل ہوئے ارضیاتی ثبوت اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ مستقبل میں کئی مرتبہ حیات زمین سے تقریباً معدوم ہو گئی تھی۔ دو ارب سال پہلے زمین مکمل طور پر برف میں ڈھکی ہوئی تھی، اس وقت زمین برف کی ایک گیند جیسی تھی جو بمشکل حیات کو سہارا دے سکتی تھی۔ دوسری طرف آتش فشانوں اور شہابیوں کے تصادموں نے بھی زمین پر سے حیات کے خاتمے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لہٰذا حیات کی تخلیق اور اس کا ارتقاء عمل ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ نازک ہے۔

چوتھے ، ذہین حیات ماضی میں تقریباً معدومیت تک جا پہنچی تھی۔ تازہ ترین ڈی این اے سے حاصل کردہ ثبوتوں کی روشنی میں آج سے لگ بھگ ایک لاکھ سال پہلے شاید صرف چند ہزار انسان ہی موجود تھے۔ دوسرے جانوروں کی انواع کے برعکس جو خلقی طور پر آپس میں کافی زیادہ ایک دوسرے سے الگ ہیں تمام انسان خلقی طور پر ایک جیسے ہی ہیں۔ اگر ہم عالم حیوانات سے موازنہ کریں تو حضرت انسان تقریباً ایک دوسرے کے کلون جیسا ہی ہے۔ اس مظہر کو صرف ایک بات سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں کبھی ایسی بند گلی بھی آئی ہو گی جس میں زیادہ تر نوع انسانی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ مثال کے طور ایک بڑے آتش فشاں کے پھٹنے سے موسم اس طرح سے تبدیل ہو کر سرد ہو گیا ہو گا کہ لگ بھگ ساری نوع انسانی ختم ہو گئی ہو گی۔

حیات کے زمین پر پھلنے پھولنے کے لئے ان تمام باتوں کے علاوہ مزید کچھ حسن اتفاقات کا وقوع پذیر ہونا ضروری تھا جیسے :

ایک مضبوط مقناطیسی میدان۔ یہ کائناتی شعاعوں کو خم دینے کے لئے انتہائی ضروری ہے ورنہ وہ زمین پر موجود حیات کو ختم کر سکتی ہیں۔

میانہ محوری سیاروی گھماؤ۔ اگر زمین بہت آہستہ اپنے محور کے گرد چکر لگائے تو سورج کی جانب رخ کرنے والا حصّہ جھلسا دینے والا حد تک گرم جب کہ دوسری طرف والا حصّہ لمبے عرصے کے لئے منجمد کر دینے والا سرد ہو جائے گا۔ دوسری طرف اگر زمین بہت تیزی سے گھومے گی تو انتہائی خطرناک موسمی حالت جیسا کہ عفریت نما ہوائیں اور طوفان پیدا ہوں گے۔

محل وقوع کا کہکشاں کے قلب سے مناسب اور موزوں فاصلہ۔  اگر زمین ملکی وے کہکشاں کے قلب سے بہت نزدیک ہوتی تو اس کو خطرناک شعاعوں کے ٹکراؤ کا سامنا رہتا، اگر یہ کہکشانی مرکز سے بہت زیادہ دور ہوتی تو ہمارے سیارے کے پاس وہ بھاری عناصر نہیں ہوتے جو ڈی این اے کے سالموں اور پروٹین کو بنانے کے لئے درکار ہیں۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر ماہرین فلکیات اب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حیات گولڈی لاکس زون کے باہر کسی چاند پر یا کسی آوارہ گرد سیارے پر بھی موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن زمین جیسے کسی سیارے کی گولڈی لاکس زون میں موجودگی کا امکان جو حیات کو سہارا دے سکے ان اندازوں سے انتہائی کم ہے جتنا کہ ہم نے پہلے لگائے تھے۔ مجموعی طور پر ڈریک کی مساوات سے کہکشاں میں تہذیب کی تلاش کے حاصل کردہ تخمینہ جات اس کے اصل میں لگائے گئے اندازوں سے انتہائی کم ہیں۔

جیسا کہ پروفیسر "پیٹر وارڈ” (Peter Ward)  اور” ڈونلڈ براؤن لی” (Donald Brwonlee)  نے لکھا ہے "ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ حیات خورد بینی جرثوموں یا ان جیسی دوسری شکل میں کائنات میں انتہائی عام ہے ، یہ شاید اس سے بھی زیادہ عام ہو جتنا کہ ڈریک اور کارل ساگاں نے تصوّر کیا تھا۔ بہرحال پیچیدہ حیات جیسے کہ جانور اور اعظم پودے کائنات میں اس سے کہیں زیادہ نایاب ہیں جتنا کہ ہم نے شروع میں اندازہ لگایا تھا۔ ” حقیقت میں وارڈ اور براؤن لی نے اس بات کے امکان کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ شاید زمین کہکشاں میں ایک منفرد جگہ ہو جو جانداروں کی حیات کا مسکن بنی ہے۔ (اگرچہ یہ نظریہ ہماری کہکشاں میں ذہین مخلوق کی تلاش کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ، اس کے باوجود بھی یہ دوسری دور دراز کی کہکشاؤں میں حیات کی موجودگی کے امکان کو کھلا رکھتا ہے۔ )

 

                زمین کے جیسے سیارے کی تلاش

 

ڈریک کی مساوات یقینی طور پر خالص قیاس پر مبنی ہے۔ خلائے بیکراں میں حیات کی تلاش نے ماورائے ارض سیاروں کے پانے کے بعد تیزی پکڑ لی ہے۔ ماورائے ارض سیاروں کی تلاش میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ماری دوربینوں کے ذریعہ نظر نہ آنا ہے  کیونکہ ان کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ عام طور سے وہ اپنے میزبان تارے کے مقابلے میں کروڑوں سے لے کر اربوں گنا تک دھندلے ہوتے ہیں۔

ان کو ڈھونڈنے کے لئے ماہرین فلکیات کو میزبان تارے کی ننھی ڈگمگاہٹوں کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے جو ایک بڑے مشتری کے حجم کے جتنے سیارے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ڈگمگاہٹ اپنے مورث ستارے کی روشنی میں ہلکی سی تبدیلی لانے کا اہل ہوتا ہے۔ (ذرا تصوّر کریں کہ جیسا ایک کتا اپنی دم کو پکڑ رہا ہو۔ بالکل اسی طرح میزبان تارہ اور اس کا مشتری کے حجم کا سیارہ ایک دوسرے کو، ایک دوسرے کے گرد گھوم کر پکڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوربین مشتری کے حجم کے سیارے کو اس لئے نہیں دیکھ سکتی کہ اس کی اپنی روشنی نہیں ہوتی۔ جبکہ میزبان تارہ واضح طور پر قابل دید ہوتا ہے اور جب سیارہ، ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے یا اس کو عبور کرتا ہے تو مورث ستارہ ڈگمگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ )

پہلا اصلی ماوراء شمس سیارہ ١٩٩٤ء میں پنسلوانیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر "الیگزینڈر وولزک چن” (Alexander Wolszczan) نے دریافت کیا۔ انہوں نے ایک گھومتے ہوئے مردہ ستارے – نابض (پلزار) کے گرد چکر کاٹتے ہوئے سیاروں کو دیکھا۔ کیونکہ میزبان تارہ شاید ایک سپر نووا دھماکے میں پھٹ پڑا تھا لہٰذا وہ سوختہ مردہ سیارے لگتے تھے۔ اس کے اگلے سال جنیوا کے رہائشی دو سوئس ماہرین فلکیات، ” مچل میئر” (Michel Mayor) اور” دیدیار کوئیلوز” (Didier Queloz) نے اعلان کیا کہ انھیں ایک اور امید افزا سیارہ ملا ہے جس کا حجم مشتری جتنا ہے اور وہ ایک ستارے پیگاسی ٥١ کے گرد چکر لگا رہا ہے اور اس کے بات تو جیسے سیاروں کی دریافت کا نلکا ہی کھل گیا۔

پچھلے دس برسوں کے درمیان ماورائے ارض سیاروں کی کھوج میں شاندار تیزی رہی ہے۔ بولڈر میں واقع یونیورسٹی آف کولوراڈو کے ماہر ارضیات” بروس جیکوسکی” (Bruce Jakosky)  کہتے ہیں "یہ دور انسانیت کی تاریخ کا خصوصی عہد ہے۔ ہم وہ پہلی نسل ہیں جن کے پاس حقیقی موقع ہے کہ وہ دوسرے سیارے پر حیات کو تلاش کر سکیں۔ ”

ابھی تک کوئی بھی ماورائے شمس نظام ہائے شمسی میں کوئی بھی نظام ہمارے نظام شمسی جیسے نہیں ملا ہے۔ حقیقت میں سب کے سب ہمارے نظام شمسی سے انتہائی مختلف ہیں۔ پہلے ماہرین فلکیات یہ سمجھتے تھے کہ ہمارا نظام شمسی کائنات میں پائے جانے والے دوسرے نظام ہائے شمسی کی طرح ہی کا ہو گا جس میں سیاروں کے دائروی مدار اور تین حصّوں میں اجسام میزبان تارے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے : پہلے حصّے میں سیاروں کی چٹانی پٹی ستارے سے قریب ہو گی، اس کے بعد دیو ہیکل سیاروں کی پٹی ہو گی اور اس کے بعد دم دار ستاروں پر مشتمل منجمد برفیلے تودے ہوں گے۔

ماہرین فلکیات کی توقعات کے برعکس دوسرے نظام ہائے شمسی میں موجود سیاروں میں سے کوئی بھی اس سیدھے سادے اصول پر عمل پیرا نہیں تھا۔ خاص طور پر، مشتری کے حجم کے سیاروں کے بارے میں یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ میزبان تارے سے کافی دور واقع ہوں گے ، لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنے میزبان تارے سے انتہائی نزدیک (عطارد کے سورج کے فاصلے سے بھی زیادہ قریب ) یا انتہائی بیضوی مداروں میں موجود ہیں۔ دونوں طرح سے چھوٹے زمین جیسے سیارے کی موجودگی جو گولڈی لاکس زون کے اندر مدار میں موجود ہو ممکن نہیں ہے۔ اگر مشتری کے حجم جتنے سیارے اپنے میزبان تارے سے انتہائی نزدیک ہوں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ عظیم فاصلہ طے کرتے ہوئے بتدریج اپنے نظام شمسی کے مرکز کی طرف گھومتے ہوئے آرہے ہیں (شاید دھول کی رگڑ کی وجہ سے ) ۔ اس طرح سے مشتری کے حجم جتنے سیاروں نے چھوٹے زمین جیسے سیاروں کو خلاء کی بے کراں گہرائیوں میں دھکیل دیا ہو گا۔ اور اگر مشتری کے حجم جتنے سیارے بلند بیضوی مداروں میں گردش کر رہے ہوں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ اکثر گولڈی لاکس زون میں سے بھی گزریں گے نتیجتاً وہ پھرسے زمین جیسے کسی سیارے کو  خلائے بسیط میں پھینک دیں گے۔

ان دریافتوں نے سیارہ کھوجی اور ماہرین فلکیات کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جس میں وہ زمین جیسے سیاروں کی تلاش میں تھے مگر پس بین ان دریافتوں کی تو امید کی جا رہی تھی۔ ہمارے آلات اتنے خام ہیں کہ وہ صرف بڑے مشتری جتنے حجم کے تیز رفتار اجسام کو ہی تلاش کر سکتے ہیں جو اپنے میزبان تارے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ آج کی دوربینیں صرف وہ دیو ہیکل سیارے دریافت کر سکتی ہیں جو انتہائی تیزی کے ساتھ خلاء میں حرکت کرتے ہیں۔ اگر ہمارے نظام شمسی کے جیسا کوئی دوسرا نظام موجود ہو گا تو ہمارے آلات اس قدر بنیادی سے ہیں کہ وہ ان کو نہیں تلاش کر پائیں گے۔

یہ صورتحال کوروٹ، کیپلر اور ٹیررسٹریل پلانیٹ فائنڈر کے خلاء میں چھوڑے جانے کے بعد سے تبدیل ہو سکتی ہے ، یہ تینوں مصنوعی سیارچے خاص طور پر زمین جیسے سینکڑوں سیاروں کو خلاء میں تلاش کرنے لئے بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر کوروٹ اور کیپلر سیارچے زمین جیسے سیارے کے اپنے مورث ستارے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس پر بننے والے سائے کا تجزیہ کریں گے کیونکہ ستارے کو عبور کرتے ہوئے سیارہ اپنے مورث ستارے کی روشنی کو معمولی سی کم کر دے گا۔ ہرچند زمین جیسا سیارہ نظر نہیں آئے گا لیکن اس کے باوجود ستارے کی روشنی میں ہونے والی کمی کو مصنوعی سیارچہ پکڑ لے گا۔

فرانسیسی سیارچہ کوروٹ (جو فرانسیسی میں کنویکشن اسٹیلر روٹیشن اینڈ پلانیٹیری ٹرانزٹ کا مخفف ہے ) دسمبر ٢٠٠٦ء میں کامیابی کے ساتھ خلاء میں چھوڑ دیا گیا۔ اس نے ماورائے شمس پہلے سیاروی خلائی کھوجی ہونے کا سنگ میل عبور کیا ہے۔ سائنس دان امید کرتے ہیں کہ دس سے لے کر چالیس تک زمین جیسے سیارے انھیں مل جائیں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ سیارے گیسی نہیں چٹانی ہوں گے اور صرف زمین سے تھوڑے سے ہی بڑے ہوں گے۔ اس بات کی بھی امید ہے کہ کوروٹ مشتری کے حجم جتنے مزید سیارے بھی ڈھونڈ کر پہلے سے خلاء میں تلاش کئے ہوئے اس قسم کے سیاروں میں مزید اضافہ کرے گا۔ "ہم زمین پر رہتے ہوئے جو کچھ کر سکتے تھے اس کے برعکس کوروٹ اس قابل ہو گی کہ وہ ہر قسم اور نسل کے ماوراء شمس سیارے تلاش کر سکے۔ ” کلاڈ کتالا (Claude Catala)  فلکیات دان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ کل ملا کر سیارچہ ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب ستاروں کی جانچ کرے گا۔

کسی بھی دن کوروٹ زمین جیسے کسی بھی سیارے کے ثبوت کو پا سکتا ہے۔ وہ دن یقینی طور پر نہ صرف فلکیات کی دنیا بلکہ انسانیت  کی تاریخ میں ایک نیا موڑ ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں لوگوں کو رات کو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس بات کا جھٹکا لگے کہ وہاں پر ایسے سیارے موجود ہیں جو ذہین زی شعور حیات کا مسکن بن سکتے ہیں۔ مستقبل میں جب ہم آسمان فلک کی طرف نگاہ کریں  تو ہمیں اس بات پر حیرت ہو گی کہ ممکنہ طور پر کوئی ہمیں بھی وہاں سے دیکھ رہا ہو گا۔

کیپلر سیارچہ ٢٠٠٨ء میں ناسا کی طرف سے خلاء میں چھوڑے جانے کے لئے تیار ہے۔ یہ اس قدر حساس ہے کہ یہ زمین جیسے سینکڑوں سیارے خلائے بسیط میں ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ ایک لاکھ ستاروں کی روشنی کو ناپے گا تاکہ کسی بھی سیارے کی اس حرکت کو دیکھ سکے جب وہ اس ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے۔ اگلے چار سالوں میں وہ کام شروع کر دے گا۔ کیپلر زمین سے ١٩٥٠ نوری برسوں تک کے فاصلے پر موجود دور دراز کے ستاروں کو جانچے اور ان پر نظر رکھے گا۔ اپنے مدار میں چھوڑے جانے کے پہلے سال سائنس دان اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ وہ مندرجہ ذیل چیزیں تلاش کر لے گا :

٥٠ زمین کے حجم جتنے سیارے ،

١٨٥ سیارے جو زمین سے ٣٠ فیصد زیادہ بڑے ہوں گے ، اور

٦٤٠ سیارے جو زمین سے ٢۔ ٢ گنا زیادہ بڑے ہوں گے۔

ٹیررسٹریل پلانیٹ فائنڈر کے پاس زمین جیسے سیارے کو ڈھونڈنے کا سب سے زیادہ اچھا موقع ہے۔ کافی تاخیر کے بعد اب اس کو ٢٠١٤ میں چھوڑنے کا منصوبہ ہے ، یہ ١٠٠ سیاروں کو ٤٥ نوری برس کے فاصلوں تک نہایت درستگی کے ساتھ تلاش کر سکے گی۔ اس میں دو قسم کے آلات دور دراز کے سیاروں کو ڈھونڈنے کے لئے لگے ہوں گے۔ پہلا کورنو گراف (ستارے کے حلقہ شعاعیہ کا مطالعہ کرنے کا آلہ ) ، ایک خصوصی دوربین جو میزبان ستارے کی روشنی کو ایک اربویں حصّہ تک روک کر کم کر سکے گی۔ یہ دوربین ہبل خلائی دوربین سے تین سے چار گنا زیادہ تک بڑی اور اس سے ١٠ گنا زیادہ درست نتائج دے گی۔ کھوجی میں دوسرا آلہ ایک” تداخل پیما” (Interferometer)  ہو گا جو روشنی کی لہروں کی مداخلت کو استعمال کرتے ہوئے میزبان تارے سے آتی ہوئی روشنی کو دس لاکھویں حصّے تک کم کرے گا۔

اسی دوران یورپین اسپیس ایجنسی اپنا خود کا سیارہ کھوجی ڈارون خلاء میں ٢٠١٥ء یا اس کے بعد بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس میں تین دوربینیں لگانے کا منصوبہ ہے جس میں سے ہر ایک ٣ میٹر قطر کی ہوں گی۔ یہ خلاء میں اڑتا ہوا سب سے بڑا تداخل پیما ہو گا جو سیٹی کی کوششوں کو بار آ ور بنانے کی کوشش کرے گا۔ اس کا مقصد بھی زمین جیسے سیاروں کی تلاش کا ہی ہو گا۔

 

                وہ کیسے لگتے ہوں گے ؟

 

دوسرے سائنس دان طبیعیات، حیاتیات اور کیمیا کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا قیاس کر رہے ہیں کہ خلائی مخلوق دیکھنے میں کیسی ہو گی۔ مثال کے طور پر آئزک نیوٹن اس بات پر حیران ہوتا تھا کہ ان تمام جانوروں کو جنہیں وہ دیکھ سکتا تھا کیوں دو رویہ تشاکلی دو آنکھیں، دو بازو اور دو پیر متشاکل طور پر موجود ہوتے ہیں۔ کیا یہ خوش قسمتی ہے یا خدا نے ایسا جان کر بنا یا ہے۔

آج ماہرین حیاتیات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کیمبیری انفجار کے دوران جو آج سے ٥٠ کروڑ سال پہلے ہوا تھا قدرت نے وسیع ننھی  شکل و صورت کے جتھوں ساتھ تجربات کیے جس کے نتیجے میں کثیر خلوی مخلوق نمودار ہوئی۔ کچھ کی ریڑھ کی ہڈیاں "X”، "Y” یا "Z” کی شکل کی تھیں۔ کچھ ستارہ مچھلی کی طرح متشاکل نصف قطر کی تھیں۔ اتفاقی طور پر ایک کی ریڑھ کی ہڈی "I” کی دو رویہ متشاکل شکل کی بن گئی۔ یہی وہ نوع تھی جو زمین پر موجود زیادہ تر فقاری جانوروں کے پیش رو بنی۔ لہٰذا نظری طور پر انسان نما دو رویہ متشاکل صورت ، ویسی ہی شکل جو ہالی ووڈ والے اپنی فلموں میں دکھاتے ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام ذہین مخلوق پر لاگو ہو۔

کچھ ماہرین حیاتیات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مختلف انواع کی حیات کیمبیری انفجار کے بعد اس لئے پھلی پھولی کہ "بازوؤں کی ایک دوڑ ” شکار اور شکاری میں شروع ہو گئی تھی۔ پہلے کثیر خلوی جانداروں کے ظہور نے جو دوسرے جانداروں کو نگل رہے تھے ، دونوں (شکار اور شکاری)  کے ارتقائی عمل کو تیز کیا۔ جس میں دونوں (شکار اور شکاری) ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں جت گئے۔ بعینہ ایسے ہی جس طرح سے سرد جنگ کے دوران سابقہ سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں زور بازو کی جنگ چلی تھی۔ جس میں دونوں اطراف ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں لگے رہتے تھے۔ حیات کے ارتقاء کو اس سیارے پر جانچ کر ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح سے ذہین زی شعور مخلوق زمین پر ارتقاء پذیر ہوئی ہو گی۔ سائنس دان  کی تحقیق سے حاصل کردہ نتائج سے انہوں نے یہ اخذ کیا کہ ذہین مخلوق کو درج ذیل چیزیں درکار ہوں گی :

کسی قسم کی بصارت یا حساس نظام جو ماحول کو کھوجنے میں مدد دے ؛

کسی قسم کے انگوٹھے جو چیزوں کو پکڑنے میں استعمال ہو سکیں یہ سونڈ یا پنچوں کی شکل میں بھی ہو سکتے ہیں ؛

کوئی گفتگو کرنے کا نظام جیسا کہ بولنا۔

یہ تین صفتیں ارد گرد کے ماحول کا احساس کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور اس کے ذریعہ ہی ماحول کے ساتھ ساز باز کی جا سکتی ہے جو ذہین مخلوق کا خاصہ ہے۔ لیکن ان تین بنیادی صفتوں کے علاوہ  دوسری کوئی بھی چیز چل سکتی ہے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والی خلائی مخلوق کے برعکس، ماورائے ارض حیات کو زمین پر موجود حیات کا ہمشکل ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ بچوں جیسی، حشرات الارض کی آنکھیں رکھنے والی خلائی مخلوق جو ہم ٹیلی ویژن اور فلموں میں دیکھتے ہیں درحقیقت ١٩٥٠ء کی دہائی کی دوسرے درجے کی فلموں میں دکھائی جانے والی مخلوق ہے جو لاشعوری طور پر ہمارے دماغ میں جا کر دفن ہو گئی ہے۔

(کچھ ماہر بشریات ذہین مخلوق کے لئے ایک چوتھی خاصیت بھی ڈال دیتے ہیں جو پر تجسس حقیقت کو بیان کرنے کی ہے : انسانی ذہانت جنگل میں زندہ رہنے کے لئے درکار ذہانت سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا دماغ خلائی سفر، کوانٹم نظرئیے اور اعلی درجے کی ریاضی  کا عادی ہو سکتا ہے جو جنگل میں شکار اور مردہ خوری کے لئے انتہائی غیر ضروری چیزیں ہیں۔ یہ غیر ضروری دماغی قوّت موجود کیوں ہے ؟ قدرت میں جب ہم کچھ جانوروں میں مثلاً چیتے اور غزال میں وہ غیر معمولی صلاحیتیں دیکھتے ہیں جو ان کے زندہ رہنے سے کہیں زیادہ ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم چلتی ہے کہ ان کے درمیان مسابقتی تسلط حاصل کرنے کی دوڑ چل رہی ہوتی ہے۔ اس طرح سے کچھ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک چوتھی خاصیت حیاتیاتی مسابقتی تسلط نے انسانی ذہانت کو آگے بڑھایا۔ شاید یہ مسابقتی تسلط کی دوڑ ہمارے انواع کے دوسرے ارکان کے درمیان تھی۔ )

ذرا کرۂ ارض پر موجود تمام غیر معمولی حیات کو تصوّر میں لیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم ہشت پا کی کوئی چنی ہوئی نسل کو لے کر کئی کروڑوں سال تک پالیں تو اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی ذہانت حاصل کر لے۔ (ہم بندروں سے ٦٠ لاکھ سال پہلے علیحدہ ہوئے تھے شاید اس لئے کہ ہم نے افریقہ کے ماحول کو صحیح طرح سے قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس ہشت پا نے چٹانوں کے نیچے کے ماحول سے اپنے آپ کو اچھی طرح سے ہم آہنگ کر لیا لہٰذا انہوں نے کروڑوں برس پہلے ہی ارتقائی عمل کو چھوڑ دیا۔ ) حیاتی کیمیا دان” کلف فورڈ پک اوور” (Clifford Pick over) کہتے ہیں کہ جب وہ” ان تمام پاگل کر دینے والے خول دار جانداروں، مسلی ہوئی گیرہ دار جیلی فش، بے ڈھنگے متناقص الا وصف کیڑوں (دو جنس والے )  اور فطر لعاب ( کھمبی کی طرح کا نامیہ جو دلدلی جگہوں میں گلتی سڑتی لکڑی میں پیدا ہو جاتا ہے ) کو دیکھتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ خدا میں مزاح کرنے کی کافی حس ہے اور ہم ان تمام چیزوں کا عکس کائنات میں دوسری اشکال میں بھی دیکھیں گے "۔

بہرحال ہالی ووڈ والے ذی شعور مخلوق کو گوشت خور دکھانے میں بالکل بجا ہیں۔ گوشت خور خلائی مخلوق نہ صرف ان کی فلم کی بِکْری زیادہ کرتی بلکہ یہ حقیقت سے زیادہ قریب تر بھی ہے۔ عام طور سے شکاری اپنے شکار سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ شکاریوں کو مہارت کے ساتھ منصوبہ بندی، شکار کا پیچھا کرنا، ان سے چھپنا اور ان پر حملہ کرنا ہوتا ہے۔ لومڑیوں، کتوں، چیتوں اور شیروں کی آنکھیں ان کے چہرے کے سامنے کے حصّے میں ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے فاصلے کا اندازہ کر سکیں۔ اپنی دو آنکھوں کی مدد سے وہ سہ جہتی نظروں کی بدولت شکار پر نظریں جما سکتے ہیں۔ دوسری طرف شکار جیسے کہ ہرن اور خرگوش کے لئے اتنا کافی ہے کہ شکاری سے دور کیسے بھاگا جائے۔ ان کی آنکھیں چہرے کے اطراف میں ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے گرد موجود شکاری کا ٣٦٠ درجے زاویے  میں ہر وقت جائزہ لے سکیں۔

دوسرے الفاظ میں، باہری خلاء میں موجود ذہین مخلوق ممکنہ طور پر اپنے شکاریوں سے بچنے کے لئے ایسی آنکھوں یا دوسرے حساس  اعضاء کے ساتھ قدرتی طور پر پروان چڑھی ہو گی جو اس کے چہرے کے سامنے ہوں۔ ان میں سے چند ایک کا رویہ گوشت خور، جارح اور علاقائی ہو گا جیسا کہ زمین پر ہمیں، بھیڑیوں، شیروں اور انسانوں میں ملتا ہے۔ (لیکن کیونکہ ایسی حیات ممکنہ طور پر بالکل الگ ڈی این اے اور پروٹین کے سالمات سے بنی ہو گی لہٰذا ان کی دلچسپی ہمیں کھانے یا ہم سے جسمانی تعلقات رکھنے میں بالکل بھی نہیں ہو گی۔ )

ہم طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی جسامت کا قیاس کر سکتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ وہ زمین جیسی ہی حجم کے سیارے پر رہتے ہیں اور وہاں پانی کی کثافت بھی کرہ ارض جتنی ہے ، تو زمین پر موجود حیات ہی کی طرح، بہت بڑی اور جسیم مخلوق کا وہاں پر موجود ہونا میزان قانون کی رو سے ممکن نہیں ہے ، یہ قانون ہمیں بتاتا ہے کہ قوانین طبیعیات کسی بھی شئے کے  حجم کو بڑھانے سے شدت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔

 

                عفریت اور میزان قانون

 

 

مثال کے طور پر اگر کنگ کانگ حقیقت میں وجود رکھتا تو وہ نیویارک شہر میں دہشت نہیں پھیلا سکتا تھا۔ شہر میں تباہی پھیلانے کے برعکس، وہ جیسے ہی پہلا قدم اٹھاتا اس کی ٹانگ ٹوٹ جاتی۔ اس کی وجہ ہے اگر آپ ایک بن مانس لیں اور اس کا حجم ١٠ گنا بڑھا دیں تو اس کا وزن مقداری تناسب سے یا ١٠ x١٠ x ١٠ =١٠٠٠ گنا بڑھ جائے گا۔ لہٰذا وہ ایک ہزار گنا زیادہ بھاری تو ہو جائے گا لیکن اس کی قوّت ہڈیوں کی موٹائی اور پٹھوں کے تناسب سے بڑھے گی۔ ہالی ووڈ میں دکھائے گئے بن مانس کی ہڈیاں اور پٹھے اس وقت صحیح بیٹھیں گے جب یہ ذہین خلائی مخلوق گوشت خور ہو۔ صرف گوشت خور خلائی مخلوق اپنے حجم کو بڑھانے کی بات کی ضمانت دیتی ہے۔ اس تصویر کشی کو سچائی میں بدلنے کے لئے ایک اور عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں کنگ کانگ اگر دس ١٠ گنا زیادہ بڑا ہو گا تو اس کوسو گنا زیادہ مضبوط ہونا ہو گا جبکہ اس کا وزن ہزار گنا زیادہ ہو گا۔ لہٰذا جب ہم بن مانس کا حجم بڑھائیں گے تو اس کا وزن اس کی قوّت کے مقابلے میں کافی تیزی سے بڑھے گا۔ وہ ایک عام بن مانس کی نسبت دس گنا زیادہ کمزور ہو گا اور اس ہی وجہ کی بدولت وہ اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے گا۔

ابتدائی اسکول میں مجھے یاد ہے کہ میرے استاد  چیونٹی کی قوّت کو بیان کرتے ہوئے کافی متحیر ہوتے تھے جو اپنے سے زیادہ وزن کی پتی کو اٹھا سکتی تھی۔ میرے استاد نے اس کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر چیونٹی گھر کے حجم کی ہو تو وہ پورے گھر کو اٹھا سکتی ہے۔ مگر ان کا یہ اندازہ اس وجہ سے غلط تھا جو ہم نے کنگ کانگ کے ضمن میں دیکھا تھا۔ اگر چیونٹی گھر کے حجم جتنی ہو گی تو اس کی ٹانگیں بھی اسی قانون کے تحت کمزور ہو کر ٹوٹ جائیں گی۔ اگر آپ ایک چیونٹی کو ایک ہزار گنا بڑا کر دیں تو وہ ایک عام چیونٹی کی بنسبت ایک ہزار گنا زیادہ کمزور ہو جائے گی لہٰذا وہ اپنے وزن تلے ہی ڈھیر ہو جائے گی۔ (اس کا دم بھی گھٹ جائے گا۔ ایک چیونٹی اپنے جسم کے اطراف میں موجود سوراخوں کی مدد سے سانس لیتی ہے۔ ان سوراخوں کا رقبہ فی مربع نصف قطر کے بڑھ جائے گا، مگر چیونٹی کی ضخامت پر مکعب نصف قطر کے بڑھے گی۔ لہٰذا اس ایک ہزار گنا بڑی چیونٹی کو ایک عام چیونٹی کے مقابلے میں سانس کے لئے درکار ایک ہزار گنا کم ہوا ملے گی۔ یہ ہوا اس کے پٹھوں اور جسمانی خلیوں کے لئے درکار آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسکیٹر اور جمناسٹک کے چیمپئن اوسطاً انسانوں سے چھوٹے قد کے ہوتے ہیں اگرچہ ان میں دوسرے انسانوں کی طرح کا ہی اعضا ئی تناسب ہوتا ہے۔ پاؤنڈ برائے پاؤنڈ ان میں زیادہ متناسب پٹھوں کی قوّت لمبے لوگوں کی بہ نسبت ہوتی ہے۔ )

میزان قانون کو استعمال کرتے ہوئے ہم قریب قریب زمین پر موجود کسی بھی جاندار اور شاید خلائی مخلوق کی بھی جسامت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کسی بھی جانور سے حرارت کا اخراج اس کے سطحی رقبے میں اضافے کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے حجم میں ١٠ گنا اضافے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی حرارت کو ١٠ x ١٠ = ١٠٠ گنا سے خارج کرے گا۔ لیکن جسم کے اندر حرارت کا نصاب اس کی ضخامت کے تناسب سے ہوتا ہے یا ١٠ x ١٠ x ١٠ =١٠٠٠۔ لہٰذا بڑے جانور حرارت کو چھوٹے جانوروں کی نسبت آہستگی سے خرچ کرتے ہیں۔ (یہ ہی وجہ ہے کہ سردیوں میں ہمارے کان اور انگلیاں پہلے جمتے ہیں، کیونکہ ان کا سطحی رقبہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کی نسبت جلدی ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ یہ بات اس وجہ کو بیان کرتی ہے کہ اخباری کاغذ کیوں جلدی آگ پکڑ لیتا ہے کیونکہ اس کا سطحی رقبہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ شہتیر نہایت آہستگی سے جلتا ہے کیونکہ اس کا تناسبی سطحی رقبہ کم ہوتا ہے۔ )  یہ اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ آرکٹک میں موجود وہیل کیوں گول جسامت کی ہوتی ہیں کیونکہ ایک کرہ میں سطحی رقبہ فی اکائی کمیت کے حساب سے سب سے کم ہوتا ہے۔ اور گرم علاقوں میں موجود کیڑے کیوں چرخ کی شکل میں ہوتے ہیں جس میں فی اکائی کمیت سطحی رقبے کے حساب سے زیادہ ہوتی ہے۔

ڈزنی کی فلم "ہنی آئی شرنک مائی کڈز” میں ایک گھرانا سکڑ کر چیونٹی کے حجم کا ہو جاتا ہے۔ بارش کے طوفان میں ہم جہان خورد میں دیکھتے ہیں کہ بارش کے ننھے قطرے تالاب میں گرتے ہیں۔ حقیقت میں چیونٹی کو بارش کا قطرہ ایک ننھے قطرے کے بجائے پانی کے ایک بڑے تودے یا نیم کرہ کی طرح دکھائی دے گا۔ ہماری دنیا میں نیم کرہ کی شکل کا پانی کا تودہ غیر پائیدار اور قوّت ثقل کی بدولت اپنے ہی وزن سے منہدم ہو جائے گا۔ لیکن جہان خورد میں سطحی تناؤ تناسبی لحاظ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے نیم کرہ کی شکل کا پانی کا تودہ مکمل طور پر پائیدار ہو گا۔

اسی طرح قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ہم دور دراز خلاء میں موجود سیاروں پر پائے جانے والے جانداروں اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا ضخامت کی نسبت سطحی تناؤ کیسا ہو گا۔ ان قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ہم نظری طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ باہر ی خلاء میں موجود خلائی مخلوق کی جسامت سائنسی افسانوں میں دکھائے جانے والے عفریت نما جانداروں کے بجائے ہم سے کافی مشابہ ہو گی۔ (سمندری پانی میں اچھال کی وجہ سے وہیل بہرحال حجم میں کافی بڑی ہو سکتی ہیں۔ اس سے ہمیں وہیل کے ساحل سمندر کے پاس مرنے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے  کیونکہ وہ اپنے وزن سے ہی دب جاتی ہیں۔ )

میزان قانون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین جہان خورد کی گہرائی میں جانے کے ساتھ ہی بدل جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیں کوانٹم نظرئیے کی عجیب و غریب نظر آنے کی وجہ کو بیان کرتی ہے۔ کوانٹم کے قوانین اتنے عجیب و غریب ہیں کہ وہ کائنات سے متعلق ہماری سادی سمجھ بوجھ یا عقل کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا قانون میزان اس شناسا خیال کو رد کر دیتا ہے جس میں جہاں در جہاں کو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یعنی کہ وہ خیال کہ ایٹم کے اندر ایک پوری کائنات موجود ہو سکتی ہے یا ہماری پوری کہکشاں ایک بڑی کائنات کا ایک ایٹم ہو سکتی ہے۔ یہ خیال ایک فلم "مین ان بلیک” میں دکھایا گیا تھا۔ فلم کے آخری حصّے میں کیمرہ زمین سے دور ہوتا جاتا ہے ، وہ سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں سے بھی دور چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہماری کہکشاں ایک چھوٹی سی گیند کی طرح نظر آنے لگتی ہے جو انتہائی عظیم بین النجم اس کھیل کا حصّہ ہوتی ہے جو دیو ہیکل خلائی مخلوق کھیل رہی ہوتی ہے۔

حقیقت میں ستاروں بھری کہکشاں ایٹم سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی، ایٹم کے اندر الیکٹران اپنے خولوں میں، سیاروں سے بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تمام سیارے ایک دوسرے سے انتہائی الگ اور منفرد ہیں اور اپنے میزبان تارے سے کسی بھی دوری پر اس کے گرد مدار میں چکر لگا سکتے ہیں۔ مگر ایک ایٹم میں تمام ذیلی ذرّات ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے مرکزے سے دور کسی بھی مدار میں چکر لگانے کے بجائے مخصوص مداروں میں ہی چکر لگا سکتے ہیں۔ (مزید براں یہ کہ سیاروں کے برعکس الیکٹران انتہائی عجیب برتاؤ کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو ہماری عقل سلیم سے باہر ہوتا ہے جیسا کہ ایک ہی وقت میں دو جگہ موجود ہو سکتے ہیں اور ان میں موجوں کی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ )

 

                 اعلی یا جدید تہذیب کی جسامت

 

یہ بھی ممکن ہے ہم طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے خلاء میں موجود تہذیب کا ایک بنیادی خاکہ بنا سکیں۔ اگر ہم اپنی تہذیب کی ترقی کو پچھلے ایک لاکھ برسوں میں دیکھیں تو ہم اس کہانی کو توانائی کی ضرورت میں اضافے سے بیان کر سکتے ہیں کیونکہ جدید انسان افریقہ سے نمودار ہوئے ہیں۔ روسی فلکی طبیعیات دان "نیکولائی کاردیشوف” (Nikolai Kardeshev)  کے خیال میں کائنات میں ماورائے ارض تہذیبوں کے مدارج میں پیش رفت کو ان کی توانائی کی ضرورت کے لحاظ سے درجہ بند کیا جا سکتا ہے۔ قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے اس نے ممکنہ تہذیبوں کو تین گروہوں میں درجہ بند کیا ہے :

قسم I تہذیب : اس میں وہ تہذیبیں شامل ہیں جنہوں نے سیارے پر موجود تمام توانائی بشمول مورث ستارے سیارے پر پہنچنے والی تمام روشنی کو استعمال کرنے کا طریقہ نکال لیا ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے آتش فشانوں کی توانائی کو بھی اپنے قابو میں کر لیا ہو، موسموں کو اپنے حساب سے انضباط کر لیا ہو، زلزلوں کو بھی اپنے تابع کر لیا ہو اور سمندر میں شہر بسا لئے ہوں۔ سیارے پر موجود تمام توانائی ان کے زیر تصرف ہو۔

قسم II تہذیب : یہ تہذیب اپنے پورے ستارے کی توانائی کا استعمال کر سکتی ہے ، نتیجتاً یہ تہذیب I کے مقابلے میں دس ارب گنا زیادہ طاقتور ہو گی۔ اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی "سیاروں کا وفاق” تہذیب II سے تعلق رکھتی تھی۔ تہذیب II ایک طرح سے ابدی ہے۔ معلوم سائنس کی کوئی بھی آفت مثلاً برفانی دور، سیارچوں کے تصادم یہاں تک کہ سپرنووا بھی ان کو ختم نہیں کر سکتے۔ (اس حالت میں جب ان کا میزبان تارہ پھٹنے کے قریب ہو گا تو یہ ہستیاں دوسرے نظام ہائے شمسی کی طرف ہجرت کر سکتی ہیں یا شاید اپنے دوسرے کسی علاقائی سیارے کی جانب روانہ ہو سکتی ہیں۔ )

قسم III تہذیب: یہ وہ تہذیب ہے جو اپنی پوری کہکشاں کی قوّت کو استعمال کر سکتی ہے۔ یہ قسم II سے دس ارب گنا زیادہ طاقتور تہذیب ہو گی۔ اسٹار ٹریک میں موجود بورگ، اسٹار وارز میں موجود امپائر، اورایسی موف فاؤنڈیشن سلسلے میں بین النجم تہذیب اس قسم III کی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے ارب ہا نظام ہائے شمس کو آباد کر دیا تھا وہ اس بات پر بھی قدر تھے کہ کہکشاں کے قلب میں موجود بلیک ہول کی قوّت کو بھی استعمال میں لا سکیں۔ وہ آزادی کے ساتھ کہکشاؤں کے درمیان گھوم سکتے تھے۔

کاردیشوف نے اندازہ لگایا کہ کوئی بھی تہذیب جو اعتدال پسندی کی شرح کے لحاظ سے ہر سال اپنی توانائی کے استعمال میں چند فیصد اضافہ کرے گی انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل صرف چند ہزار برسوں سے لے دسیوں ہزار برسوں تک کے قلیل عرصے میں ہو جائے گی۔

جیسا کہ میں اپنی پچھلی کتابوں میں اس بات پر بحث کر چکا ہوں کہ ہماری اپنی تہذیب قسم0 میں آتی ہے۔ (یعنی کہ ہم مردہ پودوں، تیل اور کوئلے کو جلا کر اپنی مشینوں کو چلاتے ہیں ) ۔ ہم تو اپنے سیارے پر پڑنے والی سورج کی روشنی کا انتہائی معمولی سا حصّہ ہی استعمال کر پاتے ہیں۔ مگر ہم اس سے پہلے ہی زمین پر قسم I کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ انٹرنیٹ قسم I کے ٹیلی فون نظام کی شروعات ہے جس نے پورے سیارے کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ قسم I کی معیشت کو یوروپی یونین کی صورت میں شروع ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کو نافٹا (نارتھ امریکن فری ٹریڈ اگریمنٹ ) سے مقابلہ کرنے کے لئے بنایا تھا۔ مادری زبان کے بعد پوری دنیا کے لئے انگریزی پہلے ہی اول درجے کی زبان بن گئی ہے۔ مزید براں یہ سائنس، مالیات اور تجارت کی زبان بھی بن چکی ہے۔ میں اس بات کا تصوّر کر سکتا ہوں کہ یہ قسم I کی زبان بن جائے گی جو مجازی طور پر ہر کوئی بول سکے گا۔ زمین پر ہزاروں کی تعداد میں مقامی ثقافت اور رسم و رواج کے پانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مگر اس رنگ برنگے لوگوں کی ثقافت کے اوپر منطبق سیاروی ثقافت ہو گی  جو شاید نوجوانوں کی ثقافت یا تجارتی ثقافت کے زیر اثر ہو گی۔

ایک تہذیبی قسم سے دوسرے تہذیبی قسم میں جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سب سے خطرناک منتقلی قسم 0 سے قسم I میں ہو گی۔ قسم 0 کی تہذیب میں ابھی بھی فرقہ واریت، بنیاد پرستی اور نسلی تعصب کی بو رچی بسی ہے اور ان خرابیوں کے بڑھنے کی علامت اب بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ فی الوقت ہم اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ قبائل اور مذاہب کے جوش و جذبے اس تبدیلی کے عمل میں مغلوب ہوں گے یا نہیں۔ (ہو سکتا ہے کہ ہمیں کہکشاں میں قسم I اس لئے نظر نہیں آتی ہے کہ یہ منتقلی کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئی یعنی کہ انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی تباہ کر لیا۔ ایک دن جب ہم دوسرے ستاروں کے نظام میں جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں ان تہذیبوں کی باقیات وہاں مل سکیں جنہوں نے اپنے آپ کو مختلف طریقوں سے ختم کر لیا ہو گا مثال کے طور پر ان کی فضا ریڈیائی طور پر انتہائی عامل یا اس قدر گرم ہو گئی ہو گی کہ زندگی وہاں قائم نہیں رہ سکی ہو گی۔ )

اس وقت تک جب کوئی تہذیب قسم III تک پہنچے گی اس کے پاس وہ توانائی اور سفر کرنے کا علم موجود ہو گا جس کی بدولت وہ آزادی کے ساتھ تمام کہکشاں میں کہیں بھی گھوم پھر سکے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ زمین پر بھی پہنچ جائے۔ جیسا کہ فلم ٢٠٠١ء میں ایسی تہذیب نے اپنی خود کی نقل کے کھوجی روبوٹ پوری کہکشاں میں بھیجے تا کہ وہ ذہین مخلوق کی تلاش کر سکیں۔

لیکن قسم III کی تہذیب ہم کو دیکھنے یا فتح کرنے کے لئے نہیں آئیں گے جیسا کہ فلم” انڈیپنڈنس ڈے "میں دکھایا گیا تھا جہاں ایسی کوئی تہذیب لوکاٹس کے  طاعون کی طرح سے جتھوں کی شکل میں کرۂ ارض پر پھیل گئی تھی تا کہ وہ ہمارے توانائی کے ذرائع کو خالی کر سکے۔ حقیقت میں انگنت مردہ سیارے خلاء میں موجود ہیں جن میں وسیع مقدار میں معدنیات کی دولت دفن ہے جس کو وہ بغیر کسی مقامی آبادی کی مزاحمت کے نکال سکتے ہیں۔ ان کا ہم سے برتاؤ ویسا ہی ہو گا جیسا کہ ہمارا برتاؤ کسی چیونٹیوں کی بستی کے ساتھ ہو گا۔ ہماری کوشش یہ نہیں ہو گی کہ چیونٹیاں ہمارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گمان یہ ہے کہ ہم  ان کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ معمولی دانہ دنکا ہی دیں گے۔

چیونٹیوں کو اصل خطرہ اس سے نہیں ہوتا کہ انسان ان کو فتح کرنا چاہتے ہیں یا ان کو ختم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم ان کو اپنے راستے میں آنے کی وجہ سے روند ڈالتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہماری قسم 0 کی تہذیب اور قسم III کی تہذیب میں توانائی کے استعمال میں اس سے کہیں وسیع فاصلہ موجود ہے جتنا کہ ہم میں اور چیونٹیوں میں موجود ہے۔

 

                یو ایف او (ان آئیڈ ینٹی فائیڈفلائنگ آبجیکٹ ) – نا شناختہ طائر ی اشیاء یا اڑن طشتریاں

 

کچھ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ ماورائے ارض مخلوق نا شناختہ طائری اشیاء ( جن کو ہم عرف عام میں اڑن طشتریوں کے نام سے جانتے ہیں ) کی صورت میں پہلے ہی زمین کا چکر لگا چکی ہیں۔ سائنس دان اڑن طشتریوں کا ذکر سنتے ہی پہلے ہی اپنی آنکھیں چڑھا لیتے ہیں اور اس بات کے ممکنہ ہونے کو رد کر دیتے ہیں کیونکہ ستاروں کے درمیان فاصلے نہایت وسیع ہیں۔ مگر سائنس دانوں کے رد عمل کے باوجود مستقل ایسی رپورٹیں آتی رہی ہیں جس کی وجہ سے اڑن طشتریوں کا ذکر ختم نہیں ہوا ہے۔

اڑن طشتریوں کو دیکھنے کا ریکارڈ اس وقت سے ملتا ہے جب سے تاریخ لکھنی شروع ہوئی ہے۔ بائبل میں حضرت حزقیؑل رمزی طور پر ذکر کرتے ہیں ” آسمانوں میں پہیوں کے اندر پہیے ” ان کا ایسا کہنا کچھ لوگوں کے نزدیک یو ایف او کی نشاندہی ہے۔ ١٤٥٠ قبل مسیح میں مصر میں فرعون” طوط موس سوم” (Thutmose III)  کے دور میں مصری کاتب نے ایک ایسا واقع لکھا جس میں سورج سے بھی زیادہ روشن "آگ کے دائروں ” کا ذکر ہے جو حجم میں ٥ میٹر کے تھے اور کافی دنوں تک نظر آتے رہے بہرحال یہ آخر میں آسمان میں غائب ہو گئے تھے۔ ٩١ قبل مسیح میں رومی مصنف جولیس آبسی کونز ” (Julius Obsequens) نے ” ایک گول جسم جیسی دنیا کے بارے میں لکھا کہ ایک گول یا دائروی ڈھال نے اپنا راستہ آسمان میں بنایا۔ ” ١٢٣٥ میں جنرل” یوریتسوم (Youritsume) اور اس کی فوج نے عجیب سی روشنی کی رقص کرتی ہوئی گیندوں جیسی چیزیں آسمان پر جاپان کے علاقے کیوٹو کے قریب دیکھیں۔ ١٥٦١ میں کافی تعداد میں چیزوں کو نوریمبرگ جرمنی میں آسمان پر اس طرح سے دیکھا گیا جیسے کہ وہ ہوائی لڑائی میں مصروف ہوں۔

حالیہ دور میں یو ایس کی فضائی فوج نے ایک بڑے پیمانے پر اڑن طشتریوں کی تحقیقات سر انجام دی۔ ١٩٥٢ء میں فضائی افواج نے ایک منصوبہ "بلیو بک ” کے نام سے شروع کیا جس میں کل ملا کر ١٢، ٦١٨ واقعات کی جانچ کی۔ رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زیادہ تر واقعات قدرتی مظاہر، روایتی ہوائی جہازوں یا افواہوں کی وجہ سے نمودار ہوئے تھے اس کے باوجود اس میں سے ٦ فیصد ایسے واقعات تھے جس کی کوئی وجہ نہیں مل سکی تھی۔ کونڈون رپورٹ کا نتیجہ بھی ایسا ہی نکلا تھا جس نے یہ بات اخذ کی تھی کہ ایسی کسی بھی تحقیق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پروجیکٹ بلیو بک کو ١٩٦٩ء میں بند کر دیا گیا۔ یو ایس فضائی فوج کا یہ بڑا معلوم آخری منصوبہ تھا۔

٢٠٠٧ء میں فرانسیسی حکومت نے یو ایف او پر مشتمل ضخیم ترین فائل عام عوام کے لئے مہیا کی۔ اس رپورٹ کا اجرا انٹرنیٹ پر فرنچ نیشنل سینٹر فار اسپیس نے کیا تھا جس میں ١٦٠٠ یو ایف او واقعات کا ذکر تھا جو پچھلے ٥٠ برسوں میں رونما ہوئے تھے۔ جس میں ایک لاکھ چشم دید گواہوں کے کھاتے ، فلمیں اور آڈیو ٹیپ شامل تھیں۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا تھا کہ اس میں سے ٩ فیصد واقعات مکمل طور پر بیان کیے جا سکتے ہیں جبکہ ٣٣ فیصد کی بھی کوئی توجیح ہو سکتی ہے مگر اس کے بعد بچے ہوئے واقعات کی وجوہات بیان کرنے سے وہ قاصر تھے۔

خود مختار طور پر ان واقعات کی تصدیق کرنا کافی مشکل کام ہے۔ حقیقت میں زیادہ تر اڑن طشتریوں کی رپورٹوں انتہائی محتاط جائزے کے بعد درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر درکیا جا سکتا ہے :

١۔ سیارہ زہرہ چاند کے بعد سب سے زیادہ روشن جسم ہے۔ زمین سے اس کی زبردست دوری کی وجہ سے جب آپ کار میں بیٹھ کر جا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سیارہ آپ کا پیچھا کر رہا ہے جس کی وجہ سے اکثر یہ دھوکا ہوتا ہے کہ اس کو کوئی چلا رہا ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح سے چاند ہمارا پیچھا کرتا ہے۔ ہم فاصلوں کا اندازہ آس پاس کی چیزوں کو دیکھ کر لگاتے ہیں۔ چاند اور زہرہ سیارہ  وہ ہمارے گرد موجود چیزوں کے مقابلے میں حرکت کرتے ہوئے نہیں نظر آتے جس کی وجہ سے ہمیں بصری دھوکہ ہوتا ہے کہ وہ ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔

٢۔ دلدلی گیسیں۔ دلدلی علاقوں میں درجہ حرارت کی تقلیب کی وجہ سے گیس زمین سے بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تھوڑی سی روشن ہو جاتی ہے۔ اس سارے قضیے میں ہو سکتا ہے کہ چھوٹے گیس کے حصّے بڑے حصّوں سے الگ ہو جاتے ہوں۔ نتیجتاً ایسا گمان ہونے لگتا ہے کہ ایک بڑے خلائی جہاز سے چھوٹے خلائی جہاز نکل رہے ہیں۔

٣۔ شہابیے۔ روشنی کی لمبی سی پٹی رات کے آسمان میں چند سیکنڈوں کے لئے سفر کرتی ہوئی نظر آسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ ایسا سراب پیدا کرتی ہے جیسے کوئی جہاز کو اڑا رہا ہو۔ یہ بھی الگ ہو سکتی ہیں جس سے وہی تاثر ملتا ہے کہ جیسے ایک بڑے خلائی جہاز سے کئی چھوٹے خلائی جہاز نکل رہے ہوں۔

٤۔ ماحولیاتی بے ضابطگیاں۔ ہر طرح کے برق و باراں کے طوفان اور غیر معمولی ماحولیاتی واقعات آسمان کو عجیب طریقے سے روشن کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اڑن طشتریوں کو دیکھنے کا دھوکہ ہوتا ہے۔

بیسویں اور اکیسویں صدی میں درج ذیل مظہر بھی اڑن طشتریوں کو دیکھنے کے واقعات کا سبب بن سکتے ہیں :

ریڈار کی گونج۔ ریڈار کی موجیں بھی پہاڑ سے ٹکرا کر واپس آ کر گونج پیدا کرتی ہیں۔ جس کو ریڈار کے مانیٹر پکڑ سکتے ہیں۔ ایسی موجیں صرف گونج ہونے کی وجہ سے ایک ٹیڑھے سیدھے نمونہ کی شکل میں زبردست سمتی رفتار سے اڑتی ہوئی نظر آسکتی ہیں۔

موسمی اور تحقیقاتی غبارے۔ ایک متنازع رپورٹ میں حربی فوج نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ١٩٤٧ء میں روز ویل، نیو میکسیکو میں ہونے والا مشہور زمانہ خلائی حادثہ ایک پروجیکٹ موگل کے  گشتی غبارے کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ ایک انتہائی خفیہ منصوبہ تھا جس کا مقصد فضا میں تابکاری کی سطح کو خدا نخواستہ نیوکلیائی جنگ چھیڑ جانے کی صورت میں جانچنا تھا۔

ہوائی جہاز۔ تجارتی اور حربی خلائی جہاز بھی یو ایف او کی رپورٹوں کا سبب بنے ہیں۔ زیادہ تر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی جدید جہاز جیسے کہ اسٹیلتھ بمبار اپنی آزمائشی پرواز کر رہا ہوتا ہے۔ (یو ایس افواج اصل میں اڑن طشتریوں کی افواہوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تا کہ لوگوں کی توجہ انتہائی خفیہ منصوبوں سے ہٹی رہے۔ )

جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی افواہیں۔ کچھ مشہور زمانہ تصاویر جو اڑن طشتریوں کی لی گئی ہیں وہ اصل میں فریب ہیں۔ ایک مشہور زمانہ اڑن طشتری جس میں کھڑکی اور اس کے اترنے کی جگہ بھی دکھائی ہے اصل میں ایک تبدیل کیا ہوا مرغی کے دانے کا برتن تھا۔

اصل میں ٩٥ فیصد ایسے واقعات کو درج بالا وجوہات کی بنا پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ فیصد باقی بچنے والے واقعات کو ناقابل تشریح قرار دینے کی وجہ سے کچھ سوالات کو جنم لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ بھروسے مند یو ایف او کے واقعات میں درج ذیل شامل ہیں :

(الف) کثیر واقعات جو مختلف خود مختار بھروسے مند چشم دید گواہوں نے دیکھے ہیں اور

(ب) کثیر ذرائع سے حاصل کردہ ثبوت جیسا کہ آنکھوں اور ریڈار دونوں سے حاصل کیے گئے ثبوت۔

ایسی رپورٹوں کی نظر انداز کرنا تھوڑا مشکل کام ہے کیونکہ انہیں کافی چھان بین کے بعد رپورٹ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ١٩٨٦ء میں ایک اڑن طشتری دیکھے جانے کا واقع جے اے ایل فلائٹ ١٦٢٨ میں ا لاسکا پر سے گزرتے ہوئے رپورٹ ہوا جس کی تفتیش ایف اے اے نے کی۔ اڑن طشتری کو جہاز کے مسافروں نے بھی دیکھا اور اس کی تصدیق ریڈار سے بھی کی گئی تھی۔ اسی طرح سے بہت زیادہ تعداد میں ریڈار میں کالے تکون ١٩٨٩ء اور ١٩٩٠ء میں بیلجیئم میں دیکھے گئے جس کو ناٹو اور جیٹ انٹرسیپٹر نے بھی دیکھا۔ ١٩٧٦ء میں ایک واقعہ تہران، ایران میں بھی دیکھا گیا جہاں F – ٤ جیٹ انٹرسیپٹر کے نظام میں کافی گڑبڑی کی رپورٹیں  سی آئی اے کی دستاویزات میں موجود ہیں۔

سائنس دانوں کے لئے جو سب سے بڑی مایوسی ان ہزار ہا مندرج واقعات میں ہوتی ہے وہ ان میں سے کسی کا طبعی ثبوت موجود نہ ہونے کا ہے۔ طبعی ثبوت کی مدد سے سائنس دانوں کے لئے اس کو تجربہ گاہ میں دہرانا ممکن ہو سکتا ہے۔ کسی خلائی مخلوق کا ڈی این اے ، ان کے کمپیوٹر کی چپ یا کوئی ایسا جسمانی ثبوت جس میں ان کے اترنے کی کوئی جگہ ہو کبھی نہیں ملی۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کرتے ہیں کہ ایسی اڑن طشتریاں اصل میں سراب کے بجائے کوئی جہاز ہیں تو ہم اپنے آپ سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ خلائی جہاز دیکھنے میں کیسے ہوں گے ؟ یہاں پر ان کی کچھ ایسے خصائص بیان کئے جا رہے ہیں جو دیکھنے والوں نے بتائی ہیں :

الف۔ وہ ہوا کے درمیان آ ڑھے ترچھے دکھائی دیتے ہیں۔

ب۔ وہ کار کے قریب سے گزرنے پر کار کی اگنیشن پر اثر انداز ہوتے ہوئے اس کی برقی قوّت میں خلل ڈال دیتے ہیں۔

ج۔ وہ خاموشی سے ہوا میں معلق رہتے ہیں۔

درج بالا بیان کی گئی کسی بھی بات میں ایسی کوئی بھی خصوصیت ایسی نہیں ہے جو کسی راکٹ پر پوری اترتی ہو جو ہم نے زمین پر بنائے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام بنائے گئے راکٹ نیوٹن کے حرکت کے تیسرے قانون پر انحصار کرتے ہیں (ہر عمل کا ایک برابر اور مخالف رد عمل ہوتا ہے ) ؛ اس کے باوجود دیکھے جانے والے یو ایف او میں کوئی بھی چیز باہر نکلتی ہوئی نہیں دیکھی گئی۔ اور جو جی فورس ان آڑھے ترچھے اجسام نے پیدا کی تھی وہ زمین کی کشش ثقل کے مقابلے میں ایک سو گنا زیادہ ہے۔ یہ جی فورس کسی بھی زمینی مخلوق کو زمین پر چپٹا کر دینے کے لئے کافی ہے۔

کیا اڑن طشتری کی ایسی کوئی بھی خاصیت جدید سائنس کے نقطہ نگاہ سے بیان کی جا سکتی ہے ؟ فلموں میں مثلاً "ارتھ ورسس فلائنگ سوسر” میں ہمیشہ خلائی ہستیوں کو ان جہازوں کو خود چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ زیادہ امید یہ ہے کہ اگر کوئی ایسے جہاز موجود ہوں گے تو وہ خلائی مخلوق کے بغیر ہوں گے (یا پھر اس کو آدھی نامیاتی اور آدھی میکانکی طرح کی ہستیاں چلا رہی ہوں گی) ۔ خلائی مخلوق کے بغیر خلائی جہاز یا نامیاتی اور میکانکی ملغوبے کی مخلوق ہی ایسے خلائی جہازوں کو اڑا سکتی ہے جو اڑتے ہوئے ایسے آڑے ترچھے نمونے بنائیں جس کے نتیجے میں ایک عام جاندار کی جان لیوا پیمانے کی جی فورس پیدا ہوتی ہے۔

کار کے اگنیشن کو جام کر دینے اور خاموشی سے ہوا میں اڑنے والا جہاز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ مقناطیسی قوّت کے ذریعہ چل رہا ہے۔ مقناطیسی قوّت کے زور پر چلنے والے جہازوں کا مسئلہ  یہ ہے کہ مقناطیس میں ہمیشہ دو قطب ہوتے ہیں ایک شمالی قطب اور ایک جنوبی قطب۔ اگر آپ کسی مقناطیس کو ہوا میں معلق کریں گے تو زمین کے مقناطیسی میدان اس کو ہوا میں یو ایف او کی طرح اٹھانے کے بجائے گھما دیں گے (جس طرح سے قطب نما کی سوئی گھومتی ہے ) کیونکہ جنوبی قطب ایک طرف حرکت کر رہا ہو گا اور شمالی قطب دوسری طرف لہٰذا مقناطیس گھومتے ہوئے کہیں کا بھی نہیں رہے گا۔

اس مسئلہ کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ صرف یک قطبی مقناطیس استعمال کیا جائے یعنی کہ صرف ایک قطب والا مقناطیس جس میں چاہے شمالی قطب ہو یا جنوبی۔ عام طور سے جب آپ کسی مقناطیس کو دو حصّوں میں توڑتے ہیں تو آپ کو دو علیحدہ قطب والے مقناطیسی نہیں ملتے اس کے برعکس آدھے ٹوٹے ہوئے مقناطیس خود سے مکمل مقناطیس بن جاتے ہیں جن میں ہر ایک کا شمالی اور جنوبی قطب موجود ہوتا ہے۔ یعنی وہ پھر سے دو قطب والے مقناطیس بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ مقناطیس کو توڑنے کا عمل جاری رکھیں گے تو آپ کو ہمیشہ جنوبی اور شمالی قطب کے جوڑے ملتے رہیں گے۔ (دو قطبی مقناطیس کو توڑنے کا عمل ایٹمی پیمانے تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ جس میں آپ کو ہر مرتبہ دو قطبی مقناطیس ہی حاصل ہوں گے۔ ایٹم بھی اپنے آپ میں دو قطبی ہوتے ہیں۔ )

سائنس دانوں کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ یک قطبی مقناطیس انہوں نے کبھی بھی تجربہ گاہ میں نہیں ملا۔ طبیعیات دانوں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے آلات میں حرکت کرتے ہوئے یک قطبی کا سراغ لگا کر اس کی تصویر لے سکیں مگر ہر مرتبہ وہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔ (سوائے ایک فرد واحد واقع میں، جہاں ایک انتہائی متنازع تصویر جو ١٩٨٢ء میں اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں لی گئی تھی۔ )

اگرچہ یک قطبی کبھی بھی حتمی طور پر تجربات میں نہیں دیکھے گئے ، ماہرین طبیعیات اس بات پر کافی یقین رکھتے ہیں کہ بگ بینگ کے موقع پر کائنات میں کسی وقت وافر مقدار میں یک قطبی موجود تھے۔ یہ نظریہ بگ بینگ کے تازہ ترین کائناتی نظرئیے کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ لیکن کیونکہ کائنات بگ بینگ کے بعد انتہائی تیزی سے پھیلی لہٰذا یک قطبیوں کی کثافت یکدم پوری کائنات میں کم ہوتی چلی گئی، یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ان کو اب تجربہ گاہوں میں نہیں دیکھ سکتے۔ (درحقیقت یک قطبیوں کی کمی ہی وہ اہم مشاہدہ تھا جس نے طبیعیات دانوں کو کائنات کے افراطی دور کی طرف نشاندہی کرنے کی تجویز فراہم کی۔ )  لہٰذا یک قطبیوں کی باقیات کا موجود ہونا طبیعیات کی دنیا میں مسلم بات ہے۔

اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ خلاء میں دور دراز کی مخلوق اس قابل ہو کہ وہ قدیمی یک قطبی حاصل کر لے جو بگ بینگ کے بعد باقی بچے ہوں اور جن کو بڑے مقناطیسوں نے باہر ی خلاء میں پھینک دیا ہو۔ ایک مرتبہ وہ کافی سارے یک قطبی حاصل کر لیں  تو پھر وہ خلاء میں سفر کرتے ہوئے ان مقناطیسی خطوں کا استعمال کرتے ہوئے پوری کہکشاں یا کسی بھی سیارے پر بغیر اخراج کے جہاز لئے گھوم سکتے ہیں۔ کیونکہ بہت سارے ماہرین کونیات کی زبردست دلچسپی ان یک قطبیوں میں موجود ہے لہٰذا ایسے کسی جہاز کا وجود ہمارے مروجہ علم طبیعیات کی سوچ سے موافقت رکھتا ہے۔

آخر میں کوئی بھی خلائی تہذیب جو اتنی جدید ہو کہ وہ اپنے بین الستارہ جہاز پوری کائنات میں بھیج سکے یقینی طور پر نینو ٹیکنالوجی میں بھی انتہاء درجے کی ماہر ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بین الستارہ خلائی جہازوں کو دیوہیکل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں قابل رہائش سیاروں کی تلاش میں روانہ کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے چاند پر بھی ایسی کوئی تہذیب جس کو ہم نے قسم III کے درجے پر فائز کیا ہے ماضی میں ہمارے نظام شمسی کا چکر لگا چکی ہو جیسا کہ ایک فلم ٢٠٠١ء میں دکھایا گیا ہے۔ اس میں خلائی مخلوق سے ملنے والا منظر شاید حقیقت سے سب سے زیادہ قریب ہو گا۔ ہماری توقعات کے برخلاف ایسا کوئی بھی جہاز خلائی مخلوق کے بغیر ، کسی روبوٹ کے قابو میں ہو گا۔ اور اس جہاز کو چاند پر رکھا گیا ہو گا۔ (ہماری ٹیکنالوجی کو اس قابل ہونے میں مزید ایک صدی لگے گی جب ان کی مدد سے ہم پورے چاند کی شعاعوں  میں موجود بے ضابطگیوں کی چھان بین کر کے اس قابل ہو سکیں کہ کسی نینو جہاز کے وہاں پر چکر لگا کے جانے کا کوئی قدیمی ثبوت حاصل کر سکیں۔ )

اگر کبھی حقیقت میں ماضی میں ہمارے چاند پر کسی نے چکر لگایا ہو یا وہاں پر کوئی نینو ٹیکنالوجی کی کوئی جگہ موجود ہو تو اس اڑن طشتری کے بڑے نہ ہونے کی وجہ کو بیان کر سکتی ہے۔ کچھ سائنس دان تو یو ایف او کا تمسخر اڑاتے ہیں کیونکہ ان کو کوئی بھی ایسا جسیم دھکیلنے والے انجن کا خاکہ نہیں ملتا جو آج کے انجینیروں کے دماغ میں ہے ، جیسا کہ دو شاخہ گداختی انجن، جسیم لیزر کی طاقت استعمال کرنے والے بادبان، اور نیوکلیائی ضربی انجن جو صرف چند میل پر محیط ہوں۔ یو ایف او کسی بھی جیٹ انجن کے جتنے چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ اگر چاند پر کوئی مستقل اڈہ کسی پچھلی چکر لگانے والی خلائی مخلوق کا چھوڑا ہوا ہو گا، تو پھر یو ایف او کو بڑا ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ وہ چاند کے قریب اڈے سے اپنے جہازوں میں ایندھن بھر سکتے ہیں۔ لہٰذا چاند پر موجود اڈے سے آنے والے بغیر کسی ہستی کے جہاز ایسے کسی واقع کا سبب بن سکتے ہیں۔

سیٹی اور ماورائے شمس سیاروں کی انتہائی تیز رفتار دریافتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ماورائے ارض حیات سے رابطہ، اس بات کا قیاس کرتے ہوئے کہ وہ ہمارے آس پاس موجود ہیں، ہو سکتا ہے کہ اسی صدی میں ہو جائے جس کے نتیجے میں اس کو میں جماعت "I” کی ممکنات میں رکھ رہا ہوں۔ اگر خلائی تہذیب خلائے بسیط میں وجود نہیں رکھتی تو پھر اگلا سوال ہو گا کہ کیا ہمارے پاس ان تک پہنچنے کے ذرائع کبھی دستیاب ہوں گے ؟ اور مستقبل بعید میں ہمارا اپنا کیا مستقبل ہو گا، جب سورج پھیلنا شروع کرتے ہوئے زمین کو نگل لے گا ؟ کیا ہمارا مقدر واقعی ستاروں سے وابستہ ہے ؟

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید