FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

شاعراتِ ارضِ پاک

 

(حصہ اوّل)

 

 

               شبیر ناقِدؔ

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

اُن شاعرات کے نام

جن کی عرق ریزیوں کی بدولت

اقلیمِ شعر و سخن فاخرو نازاں ہے

 

 

 

طبقۂ اِناث کی شعری کاوشیں

 

 

اللہ تعالیٰ نے وسیع و عریض کائناتِ ارضی و سماوی تخلیق فرمائی، جس میں لاتعداد مخلوقات کو اقامت گزیں فرما دیا۔ فرشتے، جنات، حیوانات اور حشرات الارض کی قبیل سے تعلق رکھنے والی ہم جنس جانیں پیدا فرمائیں پھر اس کائناتِ بسیط میں حضرتِ انسان کو مرکزی کردار عطا فرمایا جس کی حیات ولولہ انگیز بھی ہے اور عبرت آموز بھی۔ بنی نوعِ انسان کو قدرت نے طرح طرح کے اوصاف سے بہرہ افروز فرما دیا ان اوصافِ حمیدہ میں سے ایک وصفِ جمیل قوتِ متخیلہ اور صلاحیتِ شعر و سخن ہے ابتدائے میں طبقۂ ذکور کو میدانِ ادب میں اجارہ داری حاصل تھی لیکن بعد میں رفتہ رفتہ بناتِ حوا بھی اس خارزارِ گلزار نما میں گامزن ہوتی نظر آئیں جن کی تعداد ابتدا میں آٹے میں نمک کے برابر تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ذہنی بیداری اور فکری آزادی کے اس دور میں جب کہ حیران کن طریقے سے عالمِ نسواں محوِ پیش رفت ہے اور انقلابی انداز میں تگ و تازِ حیات میں مصروفِ جدوجہد ہے میدانِ شعر و سخن میں بھی خواتین کے تعدد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ماضی قریب میں چند ایک شاعرات ایسی تھیں جنہوں نے شعر و ادب میں نام کمایا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی عصرِ حاضر میں یہ شاعرات خوشۂ محدودیت سے نکلتی ہوئی عرصۂ لا محدودیت میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔

یہاں ہم مادرِ گیتی کے حوالے سے شاعرات کے تذکرے سے دامنِ ادب کو مملو کر رہے ہیں یہ امر اپنے لیے باعثِ نازش ہے کہ صنفی امتیاز سے قطع نظر ہم نے ہر قبیل کے سخنوروں کو زینت خامہ و قرطاس کیا ہے لیکن عصری ضرورت کے پیش نظر ایک کتاب شاعراتِ پاکستان کے حوالے سے مرتب کی گئی ہے جس میں ہمارے معروف شاعر و ادیب شبیر ناقدؔ نے خیال آرائی کی ہے ان کے ناقدانہ تبصرے ملک کے طول و عرض میں چھپنے والے ادبی جرائد کی زینت بنے ہیں ادارہ رنگِ ادب کے عظیم ناشر شاعر علی شاعرؔ کی تجویز کی تکریم کرتے ہوئے ناقدؔ جی نے یہ کارِ دشوار اپنے ذمے لیا اور اُن کی شبانہ روز کاوش کے نتیجے میں جو تالیف معرضِ وجود میں آئی شاعراتِ ارض پاک کے عنوان سے آپ کے خوبصورت ہاتھوں میں ہے امید واثق ہے کہ یہ کتاب جہاں طبقۂ نسواں کی خوشیِ خاطر کا ذریعہ ثابت ہو گی وہاں نسائی ادب کے لیے ایک تاریخی حوالہ ثابت ہو گی جہاں اصحاب ذوق کی تسکین طبع کا سامان ہو گا وہاں صاحبانِ تحقیق کے لیے بھی کتابِ ہذا ایک ماخذ و مرجع کا درجہ رکھے گی واضح رہے کہ دنیا میں کوئی کام آسان نہیں بلکہ درحقیقت ایسی کاوشیں تو خصوصی عرق ریزی کی خواستگار ہوا کرتی ہیں نقاد موصوف نے کس کاوش سے اور کس ریاضت سے کام لیا اس کا اندازہ تو وہ خود کرسکتے ہیں یا پھر ان کی محنتِ شاقہ کا کچھ ادراک قارئین کرام کو ہوسکے گا تاہم یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ شبیر ناقدؔ کی نگارشات کا یہ مجموعہ عالمِ تنقید میں ایک نیا قدم ہے ایک تازہ پیش رفت ہے اور ایک جدید سلسلۂ شذرات ہے جو خود میں بے بہا جواہر درخشاں لیے ہوئے ہے جو بہت سی نادرہ کار ادبی شخصیات کے حوالے سے ناقدانہ آراء کا مخزنِ گراں بہا ہے نہ صرف خوبصورت اشعار کا گلدستہ ہے بلکہ بہت سی حسین و جمیل شخصیات کا عکسِ دلکش بھی ہے جس کے گرد شبیر ناقدؔ کی ناقدانہ حاشیہ آرائی ایک خاص لطف پیدا کر رہی ہے ایسی گراں قدر کتابوں کی طباعت کی نسبت سے شاعر علی شاعرؔ لائق ہدیۂ تبریک ہیں ہماری دعا ہے کہ یہ دونوں حضرات ایسی شاندار ادبی خدمات کے تناظر میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں اور ان کی نگارشات کو بقائے جاوید مقام حاصل ہو۔ (آمین)

ابو البَیّان ظہور احمد فاتحؔ

فاتحؔ منزل تونسہ شریف

٭٭٭

 

 

 

 

فہمیدہ ریاض کی نظم اور غیر روایتی تخیلات

 

 

دنیائے شعر بہت گنجان آباد ہے۔ آوازوں کے اس ہجوم میں جہاں آواز کے دب جانے کا قوی امکان ہوتا ہے، وہاں ا پنی ایک منفرد پہچان رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ جس کے لیے روایت و جدت کا تعین ضروری ہے، اس کے بغیر آپ اپنے فن میں ندرت نہیں پیدا کر سکتے۔ غیر روایتی تخیلات کے لیے ضروری ہے کہ اسلوب میں بھی جدت کے مظاہر موجود ہوں۔ بے جان اور سپاٹ قسم کا اسلوب نہ ہو۔ فہمیدہ ریاض ایک ایسی شاعرہ ہیں جنہوں نے اپنے افکار کی بدولت دنیائے شعر وسخن میں ایک نمایاں مقام پایا ہے، جن کے اسلوب میں غیر روایتی اسلوب اور احساسات شامل ہیں۔ اُردو زبان اپنے اندر لا تعداد فارسی و عربی الفاظ سموئے ہوئے ہے۔ مذہبی تعصبات کے باعث ہندی الفاظ کا چلن عربی و فارسی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مرور ایام کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ترقی کے باعث لسانی رواداری میں خاطر خواہ اضافہ  ہوا ہے جس کے باعث ہندی لفظیات کو اُردو میں جگہ دی گئی۔ فہمیدہ ریاض ان معدودے چند ابتدائی لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اُردو میں ہندی کے اثر کو قبول کیا۔ قبل ازیں فکر تونسوی نے بھی ہندی لفظیات کو انتہائی قرینے سے برتا اور ہندی تہذیب و تمدن کے خد و خال اجاگر کرنے کی بھی کوشش کی اور فہمیدہ ریاض نے اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کی سعیِ جمیل کی ہے۔ ان کے ادراکات میں ایک عمیق عمرانی اور تہذیبی شعور ملتا ہے، کچھ تلخ شواہد بھی ہیں جو ان کے تجربات و مشاہدات کا حاصل ہیں۔ ان کی شاعری دنیائے سخن کے سنجیدہ قاری کو زیادہ متاثر کرتی ہے کیوں کہ ان کے ہاں نجی اور سطحی الفاظ و جذبات کا فقدان ہے۔ ان کا اسلوب دقیقہ سنجی کا مظہر ہے، یہ دقیقہ سنجی لسانی اور فکری دونوں حوالوں سے ہے۔ اس شذرے میں ہم ان کے شعری مجموعہ ’’دھوپ‘‘ مطبوعہ 1976ء کی منتخب نظموں کے اقتباسات شامل تجزیہ کرتے ہیں۔

ان کے موضوعات میں جدت و شدت کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو کسی تخلیق کار کی پذیرائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا سخن قلب و خرد پر گہرے نقوش ثبت کرتا ہے۔ ان کے موضوعات میں سماجی بے حسی، عصری کرب اور شدید نوعیت کا احساسِ تنہائی ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تنہائی کی اذیت کتنی قیامت خیز ہوتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے اسے ذاتی حوالے سے پیش کیا ہے، لیکن اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ عصرِ حاضر کے انسان کا اجتماعی مسئلہ بھی ہے جس کے اسباب میں مذہبی عوامل شامل ہیں جو نسلی بے راہ روی کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ ایک پر آشوب عہد کی نمائندہ ہیں ، آشوب زدگیوں کا عکسِ جمیل ان کے کلام میں جا بجا جلوہ سامانی کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی ایک نظم ’’رات تلملاتی ہے‘‘ کا ثُلثِ اوّل دیکھتے ہیں   ؎

رات تلملاتی ہے

بے بسی کے پنجے میں

ہنستی غصیلی رات

پنکھ پھڑپھڑاتی ہے

میری کوکھ میں ہر آن

پل رہا ہے سناٹا

اور میری تنہائی

چوستی ہے سینے سے

گرم دودھ کا دھارا

ان کی منظومات میں تسلسل اور ربط و ضبط پایا جاتا ہے، ان کے خیالات قاری کو اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں جس کے باعث وہ کئی طرح کی دلچسپیوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔

ان کا پیرایۂ اظہار غیر معمولی اور سوچ غیر روایتی ہے جو اپنے اندر ایک نئی فضا رکھتی ہے ان کے پاس ایک دعوتِ غور و عمل ہے اور تحرک کے اثرات ہویدا ہیں۔ وہ سماج میں محبتیں بکھیرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے ہم وطنوں کے لیے جذبۂ الفت سے سرشار ہیں۔ ان کی نظم کے دو مصرعوں میں فکری ربط دور اندیشی کا غماز ہے۔ ان کی نظم ’’پتھر کی زبان‘‘ میں ان کے تلخ اور عمیق مشاہدات کی جھلک دیکھتے ہیں نظم کا ثُلثِ اوّل ملاحظہ کریں   ؎

پتھروں پر دمکتا اکیلا لہو

جھلملاتا لہو بہہ رہا ہے

میرے بیٹے یہاں دیدہ ور کون ہے؟

جو نظارہ کرے

دامنِ کوہ میں

کیسے چمکے ہیں یاقوت و مرجاں

ہم وطن تو کوئی سننے والا نہیں

پتھروں نے سنیں

کرب کی سسکیاں

آخری ہچکیاں

ان کی نظموں میں احساسِ یگانگت بھرپور نوعیت کا ہے جس کے باعث ان کا شدید نوعیت کا احساسِ خلوت ہے۔ جہاں جسمانی اور روحانی آسودگیاں میسر نہیں ہیں۔ حوالے کے طور پر ہم نے ان کی صرف دو نظمیں شامل کیں اور طول بیان سے کام نہیں لیا تاکہ قارئین کی طبعِ ناز کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تاکہ ان کی دلچسپی فہمیدہ ریاض کے فکر و فن سے وابستہ رہے۔ ان کے ہاں ایک احساسِ اپنائیت کے ساتھ ساتھ ایک احساسِ اجنبیت بھی جلوہ افروز ہے جو عصری مزاج کی غمازی کرتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ فہمیدہ ریاض نے اپنے عہد کو متاثر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے اور قاری ان کے سخن سے بہت کچھ مستفید ہو سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

فہمیدہ ریاض

 

               گرہستن

 

 

سنگیت کے دائرے بناتی ہوئی چال

آنگن سے رسوائی کی طرف جاتی ہوئی

اک ہاتھ دھرے کمر کی گولائی میں

چٹکی میں سارا کام نبٹاتی ہوں

 

ہنستا بالک ہری بھری گود میں

سکھ چین سہاگ کا سبھاؤ میں رچا

ہونٹوں پہ چٹکتے ہیں رسیلے بوسے

سب تن سے چھلکتی ہوئی جیون مدرا

 

 

گھر کی بیوہار میں سویرے سے لگی

چہرے پہ تھکاوٹ کا کہیں نام نہیں

گدرائے بدن میں ہے جوانی کا تناؤ

پربت بھی کاٹ دے تو کچھ کام نہیں

 

دوجے کو تاکتی ہے چنچلتا سے

لمبی چوٹی کمر پہ بل کھاتی ہے

ہنستی جاتی ہے چلبلاہٹ سے بھری

ساجن کو جھلک دکھا کے اُکساتی ہے

 

دیکھو تو سہاگنی کے مکھڑے کی دمک

اپنے پریتم کی آنکھ کا تارا ہے

جیون کھیتی کو سینچتی جائے گی

امرت کی ندی کا رس بھرا دھارا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

               ایک کتاب

 

 

یہ کیسا جگ مگ سونا ہے؟

ان حرفوں میں

ان لفظوں میں

یہ کچا سونا، جس کی ڈلک سے میرے نین دمک اُٹھے

میرے تاریک لہو میں کیسا نڈر اجالا در آیا؟

اور سارے تن میں پھیل گیا

یہ کیسی سچی سانسوں کی گرمی سے کتاب پگھلتی ہے؟

یہ کس دل کی دھڑکن، دھک دھک

میرے دل سے ٹکراتی ہے

میں کان لگا کر سنتی ہوں دروازے پر کیسی دستک؟

اس گھر میں تو اندھیارا تھا

پھر کون جھروکا کھلتا ہے؟

یہ کہاں سے آئی چندر کرن؟

جس سے روشن سارا آنگن

میرا دل ایسے چونکا ہے

حیرت سے آنکھیں بھر آئیں

یہ آنسوپیار کا آنسو ہے

یہ آنسو اجلا آنسو ہے

اس آنسو میں تو ہنستا ہے

وہ کچا سونا، جس کی ڈلک سے میرے نین دمک اُٹھے

٭٭٭

 

 

 

 

بسمل صابری۔ روایت و جدت کا سنگم

 

 

ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا ’’عظیم شاعری روایت سے جُڑی ہوتی ہے‘‘ روایت تہذیبی و ثقافتی عوامل کے زیرِ اثر ہوتی ہے جس میں جغرافیائی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں تخلیق کار کا اپنی دھرتی سے تعلق مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اس لئے اس کی تخلیقات میں اپنی دھرتی کے رنگ ہوتے ہیں اور اس کی بوباس رچی بسی ہوتی ہے اگر کسی سخن گستر کا روایت سے کوئی تعلق نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے افکار و خیالات بنیاد سے محروم ہیں اور اُسے ہم فطری شاعر نہیں کہہ سکتے کیونکہ روایت کسی بھی سخنور کے کلام میں فطری طور پر رچی بسی ہوتی ہے بہت سے شعراء و شاعرات جدت کے زعم میں اپنے کلام کو لایعنی خیالات کا پلندہ بنا لیتے ہیں اُن کی فکر اور اُن کا اسلوب جاذبیت کی دولت سے یکسر محروم ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو عظیم جدت پسند کہلوانے کے زعم میں مبتلا ہوتے ہیں وہ شعری لطافتوں اور نزاکتوں سے یکسر نابلد ہوتے ہیں اُن کے پاس لطیف جذبات و احساسات کا فقدان ہوتا ہے وہ ایک بے جان اور بے روح قسم کا کلام تخلیق کر رہے ہوتے ہیں وہ سپاٹ قسم کے اسلوب کے ساتھ ساتھ اپنی فکر کو بھی سپاٹ کر رہے ہوتے ہیں جو سخن دان صحیح معنوں میں جدت و ندرت کے حامل ہوتے ہیں وہ انھیں اپنی فہرست کے آخری سیریل پر بھی برداشت کرنے کے رودار نہیں ہوتے اُس شاعری کو معیاری کلام نہیں کہا جا سکتا جدت کی بنیاد روایت ہے اور جس جدت کی بنیاد ہی نہ ہو چہ معنی دارد:

جدت سے مراد یہ ہے کہ تشبیہات و ترکیبات جدید نوعیت کی حامل ہوں استعارات میں تنوع ہو اسلوب میں ایک نیا رنگ، ڈھنگ اور افکار نادر النظیر ہوں لغت میں بھرپور قسم کا تاثر ہو روایت سے مطابقت یا اختلاف ہو جملہ امور جاذبیت سے معمور ہوں جدت کا ایک روپ یہ بھی ہے ’’اک رنگ کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھو‘‘ علی ہذا القیاس عصری رجحانات و میلانات سے ہم آہنگ اندازِ سخن کہا جا سکتا ہے جس میں جدت پر بدعت کا گماں نہ ہو روایت و جدت کا حسیں امتزاج ایک عمدہ اور معیاری شاعری کو جنم دیتا ہے۔ آوازوں کے اس ہجوم میں بہت کم شعراء اور شاعرات اس نوع کی پہچان رکھتے ہے شاعرات کی کھیپ میں بہت کم شاعرات ہیں جو نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں اُن میں سے بسمل صابری کا نامِ نامی بھی خاص اہمیت رکھتا ہے جن کا شعری سفر نصف صدی پر محیط ہے۔ وہ دنیائے اردو میں اپنی ایک شعری پہچان رکھتی ہیں اور پاک بھارت کی ہر دل عزیز شاعرہ ہیں ہم نے جب اُن کے شعری مجموعہ ’’پانی کا گھر‘‘ اور ’’روشنیوں کے رنگ‘‘ کا مطالعہ کیا تو ہمیں اُن کے شعری مزاج میں روایت اور جدت کا حسیں امتزاج نظر آیا اُن کے اوّلین شعری مجموعہ ’’پانی کا گھر‘‘ جو 1998ء میں منصہ شہود پر آیا جس نے بے پناہ داد و تحسین کی دولت سمیٹی۔ 2008ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا اس مجموعے کا یہ شعر اتنا مقبول ہوا کہ زباں زدِ عام ہو گیا    ؎

وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

مجموعہ ہٰذا میں زیادہ تر غزلیات، کچھ آزاد منظومات، قطعات اور نمونے کے گیت شامل ہیں۔

شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے دوسرے شعری مجموعہ روشنیوں کے رنگ مطبوعہ 2011ء کے منتخب غزلیہ اشعار کا فکری و فنی تجزیہ روایت و جدت کے تناظر میں کریں گے۔ اُن کے اس مجموعہ میں بھی زیادہ تر غزلیات، چند پابند منظومات نمونے کے گیت اور کچھ قطعات شامل ہیں اُن کے اس شعری مجموعے کے حوالے سے فرخ سہیل گوئندی، علی سردار جعفری ڈاکٹر خورشید رضوی، پروفیسر سہیل اختر (چیف ایڈیٹر سہ ماہی فراست بہاولپور) ڈاکٹر کنول فیروز (چیف ایڈیٹر ماہنامہ شاداب لاہور) اظہر جاوید (مدیر اعلیٰ ماہنامہ تخلیق لاہور) پروفیسر اکبر شاہ،جعفر شیرازی اور پروفیسر حسن عسکری کاظمی جیسے عظیم المرتبت اربابِ دانش کی غیر منظوم آراء شامل ہیں علاوہ ازیں ان کے حوالے سے راغب مراد آبادی جیسے جلیل القدر شاعر کی آراء قلم برداشتہ قطعات پر مبنی ہیں بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔

موجودہ عصری حالات میں دہشت گردی نے بھیانک صورتِ حال اختیار کر لی ہے دہشت گردی کی نوعیات میں تنوع پایا جاتا ہے اس کی کئی صورتیں ہیں جو تمام تر کرب انگیز ہیں دہشت گردی کی ایک صورت تو دھماکوں کی صورت میں ہے جس میں بہت سے افراد آنکھ جھپکتے ہی لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ دہشت گردی کی کلاسیکی صورت ہے جس سے کوئی انسان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جس کا نشانہ پیر و جواں بچے اور عورتیں بھی بنتی ہیں اس سماجی کرب کی غمازی اُن کی غزل کے اس شعر میں دیدنی ہے    ؎

لو بیبیاں بھی دھماکوں کی زد سے بچ نہ سکیں

چھپے ہیں درد رداؤں میں دیکھ لو آ کر

جہاں اُن کے کلام میں سماجی روئیے موجود ہیں وہاں سماجی کرب بھی فکر انگیز اور درد خیز انداز میں پایا جاتا ہے اُن کے افکار میں ایک ہمہ گیری اور پہلو داری پائی جاتی ہے۔ اُن کے خیالات آفاقیت کے مظہر ہیں انھوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں ایک روایتی المیے کو یوں روایتی انداز میں بیان کیا ہے   ؎

سوچو ذرا وہ زیست کو کیسے بسر کریں ؟

جو لوگ آج بھوک سے اتنے نڈھال ہیں

اسی حوالے سے راقم الحروف اپنی غزل کے دو اشعار میں کچھ یوں گویا ہیں   ؎

دن بھی کرب سے میرا گزرا

شب بھر مجھ کو نیند نہ آئی

اپنے بچے بھوک سے پاگل

جب سے آئی ہے مہنگائی

جہاں اُن کے ہاں افکار روایت کے حسیں پیرہن میں مکمل کروفر کے ساتھ پائے جاتے ہیں وہاں اُن کے ہاں جدید خیالات کی بھی کمی نہیں ہے اُن کی غزل کے دو جدت آمیز اشعار  زیبِ قرطاس کرتے ہیں :

خامشی بھی مری بغاوت ہے

زیر لب کچھ بیان بولتے ہیں

میں تو چپ رہ کے بھی ہنر بانٹوں

میرے اندر جہان بولتے ہیں

اُن کے ہاں حزنیہ جذبات و احساسات بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں اور وہ بھی لطیف انداز میں ہیں وہ اپنی فکر کو کرب انگیز نہیں ہونے دیتے بس غم کی ہلکی سی آنچ محسوس ہوتی ہے مصرعہ سازی کا عمل خوبصورت قرینے سے طے پاتا ہے مصرعوں کے درو بست میں ایک جاذبیت کا پہلو پنہاں ہوتا ہے کہیں کہیں معاملہ بندی بھی ایک حسن پیدا کرنے لگتی ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر زیرِ مطالعہ لاتے ہیں جہاں روایت اور جدت ساتھ ساتھ ہیں۔

شام ہوتے ہی جلا دیتے ہیں راہوں میں چراغ

مثلِ مہتاب وہ کب آئے گا ظلمات کے بعد ؟

بسمل صابری کے پاس روایت بھی اپنا ایک خاص حسن لیے ہوئے جو اُن کی طربیہ شعری طبع کو چار چاند لگا دیتی ہے اُن کے طربیہ تاثر کے حامل اشعار روح افزا ہیں اُن کی تشبیہات میں بھی ایک کیف و سرور کی فضا ہے اس پر طُرّہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شعری صداقتوں سے آگاہ ہیں وہ حقیقت کی دنیا میں سانس لیتی ہیں دنیائے خواب و خیال انھیں مرغوب و مطلوب نہیں ہے۔ اکثر اوقات اُن کا لہجہ رواں دواں ہوتا ہے اُن کے کلام میں سلاست و روانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار قارئین شعر و سخن کی نذر کرتے ہیں :

یوں مہکتا ہے مرے دل میں تصور تیرا

باغ میں جیسے کوئی پھول کھلا ہوتا ہے

مجھ کو بسمل نہیں مرغوب خیالی باتیں

میرا ہر شعر میرے دل کی صدا ہوتا ہے

وہ محبتوں کا فروغ چاہتی ہیں انھیں امن و آشتی مطلوب ہے اُن کے خیالات خلوص و مروَّت پر مبنی ہیں وہ نامساعد حالات کا شکوہ کرتی ہیں اور اُن کے سلجھاؤ کی خواہش مند ہیں ایک رمزِ آموز گاری کا حامل اُن کی غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں جو اُن کی صلح جو طبیعت کی غمازی کر رہا ہے:

محبتوں کے مسائل سلجھ تو سکتے ہیں

فضا نہیں ہے زمانے کی سازگار ابھی

شعری روایت میں محبوب اپنے تمام اثر طرفہ خیالات کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے وہ ظلم و زیادتی کرنے کے بعد بھی معصوم ہوتا ہے وہ قتل کرنے کے بعد بھی قاتل متصّور نہیں ہوتا۔ اُس کی ہر خطا ایک دلکش ادا کا روپ دھار لیتی ہے۔ جفا جو ہونے کے باوجود بھی اُس کی پارسائی کے دعوے بدستور قائم رہتے ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کا جدید طرز کا حامل مطلع دیکھتے ہیں :

کبھی کھُلا نہ بھرم تیری بے وفائی کا

جفا کرے بھی تو دعویٰ ہے پارسائی کا

وہ ادب برائے زندگی کی قائل ہیں وہ حقیقی زندگی کا عمیق ادراک رکھتی ہیں وہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہتی ہیں اور دوسروں کو بھی عزم و حوصلے کا درس دیتی ہیں۔ زیست کی کٹھنائیوں اور اوکھائیوں کی جانکاری دیتی نظر آتی ہیں وہ غمِ زیست سے نالاں نہیں دکھائی دیتیں بلکہ اِس کے ادراک پر زور دیتی ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کا مطلع پیش ہے:

ایک ہی اشک نہ پلکوں پہ سجایا جائے

سب کو مفہومِ غم زیست بتایا جائے

راہِ عشق میں انسان تب امر ہوتا ہے جب اُس کے اندر اذیت پسندی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اگر انسان کے ہاں ظلم سہنے کا یارا ہو اور دولتِ ضبط ہو تو محبت کی راہوں میں کامیابی انسان کے قدم چومتی ہے وفاؤں کو تو ہر کوئی راحتِ جاں گردانتا ہے اگر کوئی جفاؤں کو راحتِ جاں کہے تو پھر بات بنے جفاؤں پر شاکر و قانع رہنا اور اذیت میں کیف و سرور محسوس کرنا محبت کی معراج ہوتی ہے بقول بسمل صابری:

بارہا اُس کی جفائیں راحتِ جاں ہو گئیں

وادیاں تو خواہشوں کی پھر گلستاں ہو گئیں

یہ اُن کا کمالِ فن ہے کہ جفا کے عالم میں بھی رجا کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ بہار افزا کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ایک جشنِ طرب کا سماں ہے ایک نشاط و مسرت کی لہر ہے۔

اُن کے ہاں جدید اور روایتی طرزِ فکر پایا جاتا ہے۔ اسلوب انتہائی سادہ و شستہ ہے ایک عام سی بات کو اُن کا طرزِ اظہار ندرت آمیز کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے اُن کا غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں :

پائی ہے کب کسی نے یہاں منزلِ مراد

میری کہانی مفت میں بدنام ہو گئی

الغرض اُن کے ہاں روایت اور جدت کے حسیں شواہد اپنی پوری آب و تاب سے پائے جاتے ہیں اُن کی مقبولیت کا راز ہی اُن کی روایت پسندی اور جدت پسندی میں مضمر ہے اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُن کے کلام میں عروضی محاسن بخوبی پائے جاتے ہیں انھوں نے مفرد اور مرکب ہر قسم کی بحور میں لکھا ہے اور زحافات کا استعمال بھی صحیح صورت میں ہوا ہے۔ مشکل و سنگلاخ زمینوں میں بھی سخن گستری کی ہے۔ خالقِ شعر سے دعا ہے کہ اُن کے کلام کو دولتِ دوام سے نوازے۔ (آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

بسملؔ صابری

 

 

وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

پیام بر ہے وہی تو مری شبِ غم کا

وہ اک ستارہ جو چشمِ سحر میں رہتا ہے

کھلی فضا کا پیامی، ہوا کا باسی ہے

کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے

جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے

وہ شعر بن کے بیاضِ نظر میں رہتا ہے

گزرتا وقت مرا غمگسار کیا ہو گا؟

یہ خود تعاقبِ شام و سحر میں رہتا ہے

مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے

بگولہ سا جو تری رہگزر میں رہتا ہے

نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسملؔ؟

ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جینا پڑا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

بیٹھے کہیں نہ سایۂ اشجار دیکھ کر

تم نے تو غم کو اور بھی سر پر چڑھا دیا

ہم تو ملے فقط تمہیں غمخوار دیکھ کر

شاید یہ گھر ہے دیکھ ذرا اے خیالِ دوست

کیا یاد آ گیا در و دیوار دیکھ کر؟

کیا پھول سی ہنسی پہ گمانِ حیات تھا؟

خنداں ہے وقت مجھ کو سرِ دار دیکھ کر

ہم پھر سے آ گئے اسی کچے مکان میں

اونچے گھروں میں دشت کے آثار دیکھ کر

کتنی کٹھن ہے راہِ وفا تو بھی چل کے دیکھ؟

بسملؔ بھٹک نہ جانا کہیں پیار دیکھ کر

٭٭٭

 

 

 

 

پروین شاکر احساسِ محبت کے آئینے میں

 

 

عمومی مشاہدے کی بات ہے کہ مرد کی نسبت صنفِ نازک میں احساسِ الفت فزوں تر پایا جاتا ہے۔ نسائی احساسات اس امر کی غمازی کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہندی گیتوں میں عورت کی حیثیت عاشق کی سی ہوتی ہے۔ اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ بنتِ حوا کا دامن محبت کے جواہر پاروں سے مالا مال ہے۔ اس لیے عمومی رومانوی افکار کو نسائی جذبات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ گویا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عورت چاہت کی پتلی ہے، الفت کی دیوی ہے۔ آج ہمارا موضوعِ سخن پروین شاکر کی محبت سے لبریز شاعری ہے۔ آج ہم ان کے دوسرے شعری مجموعہ ’’خوشبو‘‘ کے ربع اوّل کے منتخب غزلیہ اشعار زیرِ تجزیہ لاتے ہیں۔

ان کے خیالات نادر النظیر ہیں۔ اسلوب جاذبیت سے لبریز ہے۔ عمومی احساسات بھی اپنے اندر اپنائیت کا پہلو خود میں سموئے ہوئے ہیں۔ ان کے افکار قارئین کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں اور وہ ایک دل دوز کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اسی حوالے سے ان کی غزل کے چار اشعار لائقِ التفات ہیں   ؎

تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں

مرا تن مور بن کر ناچتا ہے

مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے

وہ میرے سب حوالے جانتا ہے

میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ

مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل

بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے

بعض اوقات ان کے ہاں بیزاری بھی خوشگواری کا روپ دھار لیتی ہے۔ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن جانتی ہیں۔ اس لیے ان کے کلام میں اختصار و جامعیت ہے جو انہیں دیگر ہم عصر شاعرات سے ممتاز و منفرد کرتی ہے۔ اکثر اوقات ان کے ہاں نسائی خیالات بھی غیر روایتی انداز میں ملتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو اشعار دیکھتے ہیں   ؎

آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو

رات بھر جاگی ہوئی دُلہن کی خوشبو

پیرہن میرا مگر اس کے بدن کی خوشبو

اس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو

ان کے افکار محبت سے لبریز ہیں جن میں پھولوں کی خوشبو بھی ہے، زخموں کا کرب بھی، ہجر و وصال کے فسانے بھی ہیں کہیں روٹھنے کا مذکور ہے تو کہیں منانے کا ماجرا۔ ان کا عشق جنوں کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ قارئین کے ذوقِ طبع کی نذر ان کی غزل کے پانچ اشعار ہیں   ؎

قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے

وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے

میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے

وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے

اس سے اک بار تو روٹھوں میں اس کی مانند

اور وہ میری طرح مجھ کو منانے آئے

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں

وہ کسی اور کے ملنے کے بہانے آئے

اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتا

وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے

محبت یا رومان ان کے کلام کا مستقل حوالہ ہے۔ جا بجا وہ چاہتوں کے پھول بکھیرتی نظر آتی ہیں ، گویا وہ سراپا رومان ہیں۔ ان کی ایک غزل بدونِ تبصرہ دنیائے سخن کے متوالوں کے لیے زیبِ قِرطاس ہے   ؎

چہرہ میرا تھا نگاہیں اس کی

خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی

میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں

شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی

شوخ لمحوں کا پتا دینے لگیں

تیز ہوتی ہوئی سانسیں اس کی

ایسے موسم بھی گزارے ہم نے

صبحیں جب اپنی تھیں شامیں اس کی

دھیان میں اس کے یہ عالم تھا کبھی

آنکھ مہتاب کی یادیں اس کی

رنگ جوئندہ وہ آئے تو سہی

پھول تو پھول ہیں شاخیں اس کی

فیصلہ موجِ ہوا نے لکھا

آندھیاں میری بہاریں اس کی

خود پہ کھلتی نہ ہو جس کی نظر

جانتا کون زبانیں اس کی؟

نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر

کس طرح کٹتی ہیں راتیں اس کی

دور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں

مجھ کو تھامے ہوئے بانہیں اس کی

ان کا اسلوب انتہائی شستہ اور رواں دواں ہے، ان کے ہاں ایک خود کلامی کا سا انداز ہے، معاملہ بندی ہے، مکالمہ نگاری ہے۔ الغرض تمام شعری خصائص موجود ہیں جو ایک صحت مند شعری روایت کا حصہ ہیں ، جذبوں میں شدت و حدت ہے، حزن و الم اپنی انتہا کو چھوتا نظر آتا ہے، ان کے ہاں تنقیدی رویے وفور سے پائے جاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک کرب و سوز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں حقیقی زندگی کے خدشات بھی اپنے کر و فر سے ملتے ہیں۔ ان کے ہاں وسیع و عمیق مشاہدات کا فروغ بھی ہے، ان کی ایک پوری غزل لائقِ توجہ ہے   ؎

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی

اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

کانپ اُٹھتی ہوں میں سوچ کے تنہائی میں

میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی

جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ

اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے

خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں

اب کسی اُمید سے دروازے سے نہ جھانکے کوئی

کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ کہیں

آس کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی

ان کے ہاں حسرتوں کا دکھ بھی ہے، ادھورے سپنے بھی ہیں ، آس اور امید کے بھی کئی پہلو ملتے ہیں۔ ان کے ہاں رجائیت بھی پورے طور پر پَرتَو فگن ہے، کہیں کہیں ان کے ہاں دعائیہ انداز بھی ملتا ہے۔ ان کے موضوعات میں تنوع ہے، طرح طرح کے خیالات قاری کے لیے آغوش کشا نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار دل کے تاروں کو چھونے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی ان کی مقبولیت اور پذیرائی کا سبب ہے۔ ایک اور غزل کے دو اشعار قابلِ غور ہیں   ؎

کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بھیجے

کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو

کبھی تو ہو مرے کمرے میں ایسا منظر بھی

بہار دیکھ کے کھڑکی سے مسکرائی ہو

وہ انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتی ہیں۔ وہ اپنے محبوب کے حوالے سے تمام تر جزئیات کو شعری پیرہن عطا کرتی ہیں۔ ان کی غزل رومان سے شروع ہوتی ہے اور رومان پر ختم ہوتی ہے جس کا ابتدائیہ، وستانیہ اور اختتامیہ سب رومان ہی ہے۔ نسائی احساسات کی کسک بھی ہے جو اپنے مخصوص رنگ و آہنگ کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ ان کی شاعری جوان جذبوں کی شاعری ہے، اس لیے وہ نوجوان طبقے میں بے حد مقبول ہیں۔ ہر موسم اور ہر رُت میں ان کے افکار سدا بہار نوعیت کے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری ہر عہد کی شاعری ہے۔ ان کی ایک جذبۂ محبت سے لبریز غزل ملاحظہ ہو   ؎

بعد مدت سے اسے دیکھا لوگو!

وہ ذرا بھی نہیں بدلا لوگو!

خوش نہ تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی

اس کے چہرے پہ لکھا تھا لوگو!

اس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں

رات بھر وہ بھی نہ سویا لوگو!

اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی

تھا کسی وقت میں اپنا لوگو!

دوست تو خیر کوئی کس کا ہے؟

اس نے دشمن بھی نہ سمجھا لوگو!

رات وہ درد مرے دل میں اُٹھا

صبح تک چین نہ آیا لوگو!

پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہوئی

ابر پھر ٹوٹ کے برسا لوگو!

ان کے ہاں محبت کے جذبے نرالے اور اچھوتے انداز میں ملتے ہیں۔ سوز و گداز بھی ہے، تنہائی اور رسوائی بھی ہے۔ جاں سپاری بھی ہے اور فرماں برداری بھی۔ ان کی غزل کے پانچ اشعار دیدنی ہیں   ؎

ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں

آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں

تو مرا کچھ نہیں لگتا مگر جانِ حیات

جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں

ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح

انگ انگ اپنا اسی روپ میں مہکتا دیکھوں

تو میری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب

جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

پروین شاکر کے کلام کے بنظرِ غائر مطالعے سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ وہ رومان نگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ان کے جذبات و احساسات نسائیت آمیز بھی ہیں جن سے ایک اپنائیت کا احساس چھلکتا ہے۔ پروین شاکر ایک ایسی شاعرہ ہیں جنہیں ہر عہد میں پڑھا اور سراہا جائے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پروین شاکر کے محبت آمیز، لطیف نسوانی جذبات کے عمیق کے ساتھ ساتھ قدرتِ کلام اور حسنِ بیان بھی پورے طور پر بہار آفریں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خوبصورت الفاظ ہاتھ باندھے ہوئے ان کی قرینہ کاری کے منتظر ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

پروین شاکر

 

 

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے؟

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مرے پاس آیا؟

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

تیرا پہلو، تیرے دل کی طرح آباد رہے

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے

جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

٭٭٭

 

 

 

 

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سے اُس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں

میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا

میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے؟

میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی؟

اب اس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب

میں کس کی نظم اکیلے میں گنگناؤں گی؟

بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود

وہ سو کے اُٹھے تو خوابوں کی راکھ اُٹھاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا

وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر نزہت عباسی کا شعری کینوس

 

 

خالقِ کائنات نے جب عالمِ رنگ و بو کو تخلیق کیا تو تمام مخلوقات کے جوڑے پیدا کئے اور انہیں تذکیر و تانیث کے صیغوں میں باندھا۔ مالکِ جہاں کی ہر تخلیق میں کوئی نہ کوئی مقصد کار فرما ہے ’’ہیچ چیز بدوں مصلحت نیست‘‘ اس کارخانۂ قدرت میں کوئی چیز بے کار اور نکمّی نہیں ہے اسی طرح انسان کو بھی جوڑے کی صورت میں پیدا کیا گیا اس لئے دونوں کا وجود ناگزیر ہے اور کسی کی اہمیت کم نہیں ہاں مرد کو کچھ فوقیت ضرور دی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ صنفِ نازک کی صلاحیت سے انکار کیا جائے اقبال نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘ لیکن ہمارے سماج میں معاملہ کچھ اور ہی ہے زندگی کے تمام شعبوں میں عموماً اور ادب کے شعبے میں خصوصاً بنتِ حوا کی صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا شعر و سخن کی دنیا میں شاعرات کے شعری شعور کی قدر نہیں کی جاتی اور عام طور پر یہ رائے دی جاتی ہے کہ شاعرات کے کلام میں شعری وجدان، شعری رموز و وقائع، ضائع بدائع اور عروضی محاسن کا فقدان پایا جاتا ہے اور شاعرات کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عروض کا نام سنتے ہی انہیں مہینے بھر کا بخار چڑھ جاتا ہے ناقِدانِ ادب پر الزام ہے کہ وہ خوبروؤں ناقدان کے روا دار ہوتے ہیں لیکن راقم الحروف کا نظریہ یہ ہے    ؎

ہے بجا عورت پرستی کے تو ہم قائل نہیں

ہاں اگر ہو حسنِ فن تو لائقِ تعظیم ہے

شاعرات کے حوالے سے جہاں دیگر اعتراضات آج کی عصری تنقید میں ہیں وہاں ایک اعتراض یہ بھی پایا جاتا ہے کہ غالبؔ، جوشؔ اور اقبالؔ کے ادوار میں ان کے پائے کی شاعرہ کیوں منظرِ عام پر نہیں آئی لیکن یہ بات کرنے سے پہلے ہم بنتِ حوا کے اُس وقت کے سماجی حالات کو زیر بحث نہیں لاتے اور یہ نہیں دیکھتے کہ حوا کی بیٹی کو اس وقت کے معاشرتی حالات میں اتنی آزادی تھی آج کے دور میں بھی جتنی مرد کو آزادی حاصل ہے اتنی عورت کو نہیں آج کل بھی جو شاعرات اپنی ادبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ان کے لئے یہ امر کسی جہاد سے کم نہیں جب ہم نے ڈاکٹر نزہتؔ عباسی کے شعری ادراک کو بغور دیکھا تو ہمیں ان تمام عصری الزامات کا تسلی بخش جواب مل گیا جو آج کے تنقیدی رویوں میں شامل ہیں ان کے شعری محاسن اور شعری خصائص لائق تحسین و صد ستائش ہیں ان کے کلام میں وہ جملہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک صحت مند شعری روایت کا حصہ ہیں آج ہم ان کے مجموعہ کلام ’’سکوت‘‘ کے تناظر میں ان کے شعری کینوس کا تجزیہ کرتے ہیں    ؎

ان کی غزل کے دور شعر زیرِ تبصرہ لاتے ہیں

مجرم بھی وہی ہیں جو منصف ہیں بنے بیٹھے

ان جیسے خداؤں کی تعظیم نہ ہو جائے

بے سود نظریئے ہیں بے سود نتیجے ہیں

اغیار کے مکتب میں تعلیم نہ ہو پائے

شعرِ اول میں سماج کے دوہرے رویے کی نشاندہی ہے اور ان نام نہاد فرشتہ صفت لوگوں کو بے نقاب کیا ہے جن کا وجود انصاف کے حسین چہرے پر دھبے کی مانند ہے مجرموں نے منصفوں کا روپ دھار لیا ہے وہ کہتی ہیں میں ان جیسے سماج کے خداؤں کی تعظیم نہیں کرتی اور انہیں ناجائز معزز خیال کرتی ہوں ان کا یہ شعر نعرۂ انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے شعرِ دوم میں لادینی تعلیمی نظام کی مذمت کی گئی ہے اور غیر مسلموں کے مدارس کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اور کہا کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل نہ کی جائے اور ان کے نظریات و نتائج عبث اور بے سود ہوتے ہیں جیسے اقبال نے مغربی تعلیمی نظام پر تنقید کی ہے     ؎

یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت

پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

اب ان کی غزل کے چار اشعار دامنِ التفات کھینچ رہے ہیں    ؎

جانے کتنے سائلوں نے اپنے دامن بھر لیے؟

میری جانب آتے آتے ہر خوشی گم ہو گئی

میری تنہائی نے میری ذات کو افشا کیا

محفلوں کی رونقوں میں بے خودی گم ہو گئی

موت ہاتھوں میں اٹھائے رو رہے ہیں لوگ سب

میرے شہروں میں کہاں پر زندگی گم ہو گئی؟

زندگی کے پیچ و خم میں دل اُلجھ کر رہ گیا

یاد بھی تیری نہ جانے کس گھڑی گم ہو گئی؟

پہلا شعر ذاتی محرومیوں کا اک حوالہ ہے اور وہ کہہ رہی ہیں کتنے لوگوں نے خوشیوں سے اپنے دامن لبریز کر لئے اور میری جانب خوشی آتے آتے گم ہو گئی اس شعر میں بھی حسنِ بیاں کی قدرت نمایاں ہے دوسرے شعر میں صنعتِ تضاد کا دو بار ورود ہوا ہے تنہائی کے مقابلے میں محفلوں کی بات ہے اور افشا کے لئے گم لایا گیا ہے جو ان کی اُستادانہ مہارت کی غمازی ہے وہ کہتی ہیں کہ میری تنہائی نے میرے جوہرِ ذات کو نمایاں کیا ہے اور اس لئے محفلوں میں بے خودی معدوم ہو گئی ہے تیسرے شعر کی کیفیت شہر آشوب کی سی ہے کہ ہر طرف مرگ ہی مرگ ہے اور لوگ موت کو ہاتھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں اور میرے شہروں میں زندگی گم ہو گئی ہے یہ شعر عصرِ حاضر کی دہشت گردی کا عکاس بھی ہے چوتھے شعر میں تذکرہ ہے زندگی کے نشیب و فراز کا جس میں وہ کہتی ہیں کہ زندگی کی پیچ و خم میں میرا دل الجھ کر رہ گیا اور یہ خبر بھی نہ رہی کہ یادِ جاناں کس گھڑی گم ہو گئی اس شعر میں عام آدمی کے شب و روز کی کہانی ہے اور حوادث کا بیان بھی ہے۔

یادِ جاناں کے حوالے کا حامل ایک یاد گار شعر ملاحظہ ہو    ؎

گو کہ اک عمر رائیگاں کی ہے

یاد تیری تو جاوداں کی ہے

وہ کہہ رہی ہیں اپنے محبوبِ دل نواز سے کہ ہم نے اپنی تمام زندگی بتا دی لیکن تمہاری یاد کو جاوداں کر دیا اس شعر میں ایک عمیق تجربے کی عکاسی موجود ہے کہ عمر لٹانی پڑتی ہے پھر جا کر یاد جاوداں ہوتی ہے۔

زندگی کے تلخ تجربے کا حامل ایک شعر دق الباب کر رہا ہے    ؎

کچھ دوستی کے داغ تھے کچھ دشمنی کے زخم تھے

اب تجھ سے کیا کہوں مجھے کس کس سے کیا ملا؟

اس شعر میں زندگی کے مصائب و آلام کی ایک باز گشت سنائی دیتی ہے اور بتایا گیا ہے کہ دوستی اور دشمنی کا حاصل داغوں اور زخموں سے نسبت رکھتا ہے اس شعر کے پہلے مصرع میں صنعتِ تضاد کا بے ساختہ استعمال بھی ہے اسی نوعیت کا ایک ان کا یہ شعر بھی ہے    ؎

صحرا نوردیوں نے چلو یہ تو سکھادیا

ریت کے تھے لوگ جو اکثر ملے مجھے

اسی تناظر میں راقم الحروف کا یہ مقطع ہے     ؎

چھائی ہے بے حسی قلب و نظر میں بھی

کہ ناقد وفا شعار اب خلقت نہیں رہی

ندرتِ فکر کے حامل دو شعر نذر قارئین ہیں    ؎

مکیں کو مکاں تو بدلنا پڑے گا

نئے راستوں پر بھی چلنا پڑے گا

عجب وقت آیا ہے پندار پر یہ

نہ ٹوٹے اگر ہم تو جھکنا پڑے گا

پہلے شعر میں ایک رمزِ آموز گاری ہے اور ترغیب دی جا رہی ہے کہ وقت کی جدتوں کا ساتھ دینا پڑے گا پرانے اصول و ضوابط بدلنے ہوں گے پرانے مسکن چھوڑنے ہوں گے اور نیا مکان بنانا ہو گا قدامت پرستی چھوڑنی ہو گی اور نئے راستوں پر چلنا ہو گا دوسرے شعر میں وقت اور پندار کی بات کی گئی ہے کہ ہمارے پندار ہستی پر ایسا وقت آ گیا ہے اگر ہم نہ ٹوٹے تو ہمیں مجبوراً جھکنا پڑے گا وقت کی ناچاقی کا بھرپور اظہار ہے۔

ایک غزل کا تنہا شعر ملاحظہ ہو   ؎

لمحہ لمحہ اپنی صورت مٹتی جاتی ہے

خود سے غافل ہوتے رہنا اچھا لگتا ہے

اس شعر میں امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں زندگی کی شکست کا مذکور ہے اور زیست کے مٹنے کا تذکرہ ہے جب حالات نامساعد ہوں تو انسان فطری طور پر ان سے سمجھوتا کر لیتا ہے اور حالات کی برائی بھی اچھائی معلوم ہوتی ہے اور انسان اپنی ذات سے اعراض برتنے میں بھی اچھائی محسوس کرتا ہے اس شعر میں ایک گہرا نفسیاتی فلسفہ پیش کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتی ہیں۔

غزل کے پانچ اشعار استقبال کر رہے ہیں    ؎

غم سوا ہے خوشی نہیں باقی

زیست میں زندگی نہیں باقی

کھیل سانسوں کا ختم ہو جائے

اس میں کچھ دلکشی نہیں باقی

چھپ گیا آج چاند بھی جلدی

اس میں بھی روشنی نہیں باقی

ایسا بدلا ہے کائنات کا رنگ

اب لبوں پہ ہنسی نہیں باقی

کتنی بنجر سی ہو گئی آنکھیں ؟

اب تو ان میں نمی نہیں باقی

مذکورہ اشعار روح عصر کے خوبصورت ترجمان ہیں جب وہ خوشی اور غمی کی بات کرتی ہیں تو ان کے لہجے میں گہرا کرب ہوتا ہے ایک سوز و گداز ہوتا ہے اور وہ نقیب مہرو وفا نظر آتی ہیں یہ پانچ اشعار بھی ان کی اسی طرز سوچ کے آئینہ دار ہے پہلے شعر میں وہ کہتی ہیں کہ غم زیادہ ہے زندگی میں اور خوشی معدوم ہے زیست میں زندگی باقی نہیں کہہ کر انہوں نے حسن بیاں کے تقاضے بھی پورے کئے ہیں اور احسن ایمائیت کو بھی زبردست قرینے سے برتا ہے دوسرے شعر میں میر و فانی کی طرح زندگی سے بیزاری کا حوالہ ہے وہ کہتی ہیں کہ سانسوں کے کھیل کو بند ہونا چاہئے کیونکہ اس میں کوئی دلکشی اور رعنائی نہیں رہی وہ زندگی کی جمالیاتی اقدار سے بخوبی آگاہ ہیں اگر زندگی سے احساسِ تجمل ختم ہو جائے تو پھر شہنازِ مرگ کو خوش آمدید کہنا چاہیے ان کے یہ اشعار اپنے اندر داخلی و خارجی دونوں عوامل سموئے ہوئے ہیں تیسرے شعر میں ان کی خارجیت ملاحظہ کریں جو ان کی داخلیت کی پیداوار ہے کیونکہ انسان کے دروں کا منظر نامہ ہی اس کے بیرونی حالات کا مظہر ہوا کرتا ہے اس شعر میں زندگی کے دیگر مصائب و آلام کی طرح وہ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ آج چاند بھی جلدی روپوش ہو گیا ہے کیونکہ اس میں بھی روشنی باقی نہیں رہی یہ ہے وہ سوز دروں جو میر و فانی کے علاوہ شاذ ہی کہیں پایا جاتا ہے آمدہ شعر بھی اسی طرز احساس کے علمبردار ہیں چوتھے شعر میں کائناتی تغیّر و تبدل اور زندگی کی شکست و ریخت کا حوالہ ہے کہ زندگی کے مصائب و آلام نے کائنات کے رنگ کو بدل کر رکھ دیا ہے اور مسرتیں چھین لی ہیں نوبت بہ ایں جارسید کہ اب کسی انسان کے لبوں پر ہنسی کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں رہا پانچواں شعر حسن ایمائیت کی ایک نادر نظیر ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ میری نہیں دھرتی بنجر اور ویران ہو گئی ہے نیر بہانے کا بھی یارا نہیں رہا آنکھوں میں نمی نہیں باقی رہی کہ اشک بہا سکیں اس تمام غزل میں ان کی آشوب نگاری غضب کی ہے جس نے سودا کی یاد کو تازہ کر دیا ہے۔

ایک اور شعر دعوتِ مطالعہ دے رہا ہے ذرا آپ بھی دیکھیں اور ان کی شعریت کی چاشنی سے محظوظ ہوں    ؎

مجھ سے پوچھو نہ اب پتا میرا

جانتا ہے مجھے خدا میرا

یہ ایک فطری نوعیت کا شعر ہے جس میں خداوند قدوس کو انسانیت کا مظہر قرار دیا گیا ہے کہ مالکِ قدرت ہی انسان کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے انسان عاجز و بے بسر ہے انسان اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتا خدا کی ذات ہی انسان کی اصلیت کو جانتی ہے ان کا یہ شعر سہل ممتنع کے رنگ کا حامل ہے انتہائی سادگی سے بہت بڑی بات کی گئی ہے۔

اب ان کی رومان پروری کے حوالے سے دو شعر ملاحظہ ہوں   ؎

تیری یادوں سے دوستی کر لی

کتنی بے چین زندگی کر لی؟

تیرے جانے کے بعد بھی ہم نے

خود اندھیرے سے دوستی کر لی

قارئین کرام آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ دھیمے لہجے اور سرگوشی کے انداز میں وہ کتنی گہری باتیں کر گئی ہیں پہلے شعر میں وہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ کی یادوں سے دوستی کر لی اور اپنی زندگی بے چین کر لی محبوبِ دل نواز کی یادوں نے زندگی کو مضطرب کر دیا دوسرے شعر میں بھی وہی ہجر کا سوزوگداز کار فرما ہے کہ تیرے جانے کے بعد ہم نے روشنی سے منہ موڑ لیا اور اندھیرے کو ہمسفر کر لیا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محبوب کے جانے کے بعد روشنی کی کوئی اہمیت نہیں رہتی روشنی روشنی نہیں رہتی بلکہ اندھیرے کا روپ دھار لیتی ہے۔

ان کا یہ شعر بھی کس قدر دلکش ہے   ؎

اب کبھی بہتے نہیں آنکھوں سے میرے اشکِ غم

قطرہ قطرہ کر کے اس نے دل کو دریا کر دیا

اس شعر میں محبوب دلفریب کی دلفریبیوں کا تذکرہ نہایت خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے وہ کہتی ہیں کہ اب میری آنکھوں سے اشک نہیں بہتے بلکہ میرے اشکوں نے میرے دل کے اندر دریا کی روانی کی سی کیفیت پیدا کر لی ہے ان کے حُزن و ملال کا یہ عالم خدائے غزل میرؔ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔

آمدہ غزل کے چار اشعار میں ذرا خیال کی ندرت سامانی تو دیکھئے    ؎

دل میں تمہارے عکس ہمارا نہیں رہا

ہم کو بھی اب خیال تمہارا نہیں رہا

سود و زیاں کا دونوں کو رہتا رہا خیال

اپنی شکست میں بھی خسارہ نہیں رہا

اک بار دیکھنے سے بینائی چھِن گئی

اچھا ہوا یہ جرم دوبارہ نہیں رہا

اب زندگی کو تیری ضرورت نہیں رہی

اچھا ہوا کسی کا سہارا نہیں رہا

ان اشعار میں وہ اپنے محبوب جاں نواز سے مخاطب ہیں وہ پہلے شعر میں کہتی ہیں کہ تمہارے دل میں ہمارا عکس باقی نہیں رہا اور جواباً ہمیں بھی تمہارا خیال نہیں ہے عام طور پر اُردو شعری روایت میں محبوب کی ہر زیادتی برداشت کی جاتی ہے محبوب کے بھول جانے کے بعد بھی محب اپنے محبوب کو یاد رکھتا ہے اور اس کی یاد کو وظیفۂ شام و سحر بناتا ہے جبکہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے جس سے کلام میں ندرت آمیزی آشکار ہوتی ہے دوسرا شعر بھی اس سے ملتی جلتی عکاسی کر رہا ہے وہ اپنے محبوب سے مخاطب ہیں کہ ہم دونوں نے محبت میں سودوزیاں کو ملحوظِ خاطر رکھا اس لئے ہماری شکست میں خسارے گا کوئی جواز نہیں رہا اس شعر میں بھی اظہار غیر معمولی نوعیت کا ہے تیسرے شعر میں وہ کہتی ہیں کہ میں نے محبوب کو ایک بار دیکھا اور اس کے درشن کی تاب نہ لائی جس سے بصارت سے محروم ہو گئی صد شکر یہ جرم مجھ سے ایک بار ہوا اگر دوبارہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا چوتھے شعر کا موضوع بھی خلاف روایت ہے وہ محبوب دلفریب کی ضرورت سے بے نیاز ہو کر کہتی ہیں کہ یہ خوب ہوا کہ مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی ان غیر روایتی اشعار نے غزل میں چاشنی پیدا کر دی ہے۔

مندرجہ بالا توضیحات و معروضات اس اطمینان کے عکاس ہیں کہ ڈاکٹر نزہت عباسی کا شعری کینوس بہت وسیع ہے انہوں نے بہت ہی تھوڑے عرصے میں اپنے ابلاغ میں وسعت پیدا کی ہے ان کے علاوہ بھی ان کے بے شمار اشعار ہیں جو حوالے کے طور پر دیئے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ طولِ بیاں قاری پر گراں گزرے گا اور اگر سب کچھ آشکار کر دیا جائے تو پھر اشتیاق و طلب کا پہلو ہاتھ سے جاتا رہے گا اس لئے ہم اپنے شذرے کو یہاں حتمی شکل دیتے ہیں اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ان کی مشاطگی فن جاری و ساری رہی تو شعر و سخن کی دنیا میں امر ہو جائیں گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

نزہتؔ عباسی

 

 

وہ کون سی شے ہے جو تقسیم نہ ہو پائے؟

اب کون سے جذبے میں ترمیم نہ ہو پائے؟

مجرم بھی وہی ہیں جو منصف ہیں بنے بیٹھے

ان جیسے خداؤں کی تعظیم نہ ہو پائے

سوچوں میں تراشے ہیں لفظوں کے کئی پیکر

کیوں جانے مگر ان کی تجسیم نہ ہو پائے

مبہم سے ہوئے آخر رشتوں کے معانی بھی

آسان سی باتوں کی تفہیم نہ ہو پائے

بے سود نظریے ہیں ، بے سود نتیجے ہیں

اغیار کے مکتب میں تعلیم نہ ہو پائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس نے کیا احسان کیا؟

جیون ہم نے دان کیا

پہنی رشتوں کی زنجیر

گھر ہی کو زندان کیا

اتنا ہی ٹوٹا ہے من

جس پہ جتنا مان کیا

غم کا اتھاہ سمندر تھا

خود کا بھی جب گیان کیا

کوئی نہیں سب پُروا تھی

آہٹ پہ جب دھیان کیا

٭٭٭

 

 

 

 

حجابؔ عباسی کا شعری شعور

 

 

انسانی شعور فہم و فراست، دانش و حکمت، عقل و بصیرت اور وجدان ذاتِ ایزدی کی عنایات سے عبارت ہے جس میں فطری اور کسبی عوامل کارگر ہوتے ہیں انسان کے شعور کے معیار میں لا شعور اہم کردار ادا کرتا ہے افکار کی گتھیاں سلجھانے اور بڑے بڑے فلسفے تخلیق کرنے میں لاشعور اور شعور ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں اس حوالے سے انسان کی ذاتی حسیات ایک کلیدی تلازمے کے طور پر کام کرتی ہے کوئی بھی کتاب اپنے قاری پر گھل کر سرایت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی معلم اپنا تمام علم کسی بھی طالبعلم کو ودیعت کرتا ہے ذاتی حسیات کی بدولت انسان نئی منزلوں کا کھوج لگاتا ہے جس کے باعث وہ کامیاب و کامران ٹھہرتا ہے اقلیمِ شعر و ادب میں بھی تخلیق کار اپنی فکری و فنی استعداد کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی حسیات کی بدولت ممتاز و منفرد مقام پر پہنچتا ہے اسی طرح فن شعر کے شعبے میں جس شاعر کے ہاں ذاتی حسیات کی جلوہ سامانی بھرپور طریقے سے ہو گی وہ زیادہ معتبر اور مؤثر ہو گا ہم نے جب حجابؔ عباسی کے شعری مجموعے ’’تحیرِ ہجر‘‘ کا مطالعہ کیا تو اُن کے شعری شعور میں ہمیں ذاتی حسیات کا فروغ نظر آیا یہ اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو 2011ء میں منصہ شہود پر آیا جس میں چند منظومات کے علاوہ تمام تر غزلیات شامل ہیں اور ان کا تخلیقی جوہر نظم کی بجائے غزل میں زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اُن کی شعری طبع نظم کی بجائے غزل کے لیے زیادہ موزوں ہے واضح رہے قبل ازیں 2007ء میں اُن کا اوّلین شعری مجموعہ ’’تجدیدِ ہجر‘‘ زیورِ طباعت طباعت سے آراستہ ہوا تھا اُن کے فکری و فنی معیار اور ملنے والی پذیرائی کی بدولت یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک اپنے عہد کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں جہاں تک اُن کی شخصیت کا تعلق ہے تو وہ مزاج کے اعتبار سے انتہائی وضع دار ہیں کھوٹ اور منافقت اور ہر قسم کی گروہ بندی انھیں سخت ناپسند ہے وہ انتہائی خلوص اور خشوع و خضوع کے ساتھ گلشنِ شعر کی آبیاری کر رہی ہیں اُنھیں نہ صلے کی تمنا ہے اور نہ کسی قسم کی ستائش کی پرواہ ہے اُن کا مقصد تو صرف شعر و سخن کی خدمت ہے۔

عصرِ جدید میں جہاں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں جنھیں فزیکل اور میٹا فزیکل یا مرئی اور غیر مرئی تغیر و تبدل بھی کہا جا سکتا ہے انسانی افکار میں بھی تغئیر حال کے باعث حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جن کے باعث انسان جو پیکرِ حساس بھی ہے سخت پریشان اور نالاں دکھائی دیتا ہے اس صورتِ حال سے تخلیق کار خصوصی طور پر متاثر ہوا ہے جس کے باعث انسانی رویوں اور مزاجوں میں انقلاب بپا ہوا ہے انسان پر معاشی احتیاجات غالب آئیں معاشی تفاعل کے باعث انسان اخلاقی اور رومانی اقدار سے بہت دور چلا گیا لیکن کچھ دیدہ ور لوگ اب بھی رومان کے جذبے سے سرشار ہیں اُن کی ترجیحات نہیں بدلیں اگرچہ کچھ امکانات مزاج کا حصہ بنتے رہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ حیاتِ انسانی کو ہجرتوں کا کرب بھی سمیٹنا پڑا ہے کرۂ ارض پر انسان کا ورود اس کی پہلی ہجرت ہے وہ ایک ان دیکھی دنیا سے دوسری دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے اور وہ شخص انتہائی خوش قسمت ہوتا ہے جس کا قرطاس و قلم رختِ سفر ہو انھیں فرخندہ نصیبوں میں حجاب عباسی بھی شامل ہیں انھیں خیالات کی حامل اُن کی غزل کے دو اشعار دنیائے سخن کے متوالوں کی نظر ہیں :

زمانے کے تغیر نے بہت بدلا مزاج اپنا

مگر کارِ محبت پھر مرے افکار میں آیا

میں جب دنیا میں آئی تھی وہ میری پہلی ہجرت تھی

اُسی ہجرت میں قرطاس و قلم سامان میں آیا

دنیا کے تخلیقی ادب کا بیشتر حصہ حُزنیہ طرزِ فکر پر مبنی ہے کیونکہ حزن کو دولتِ دوام میسر ہے جبکہ مسرت و شادمانی لمحاتی و عارضی نوعیت کی ہوتی ہے حزنیہ تخلیق تخلیق کار کے ذاتی کرب کا نتیجہ ہوتی ہے کربِ ذات کوئی کار ہنر نہیں ہے جبکہ اس کی حیثیت فطری ہوتی ہے پُر آشوب کیفیات میں تخلیق ہونے والا ادب حزنیہ ہوتا ہے حالات کی آشوب زدگی کے باعث شاعر کی قوتِ متخیّلہ پر خارجی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جن کے باعث وہ حزن و ملال کے جذبے تخلیق کر پاتا ہے اُن کی غزل کا ایک شعر اسی تناظر میں زینتِ قرطاس کرتے ہیں :

لکھوائے ہیں سخن یہ مرے کربِ ذات نے

یوں تو یہ کربِ ذات ہنر بھی نہیں کوئی

ہر تخلیق کار کو اپنے ذاتی ادراکات کا شعور ہوتا ہے قلم کار کے ادراکات کی تہیں قاری پر بعد میں کھلتی ہیں۔ احساسِ فن کے باعث اُس کے اندر ایک خود اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے جب وہ اپنی نظروں میں معتبر ہو جاتا ہے تو پھر اُسے یاران ادب بھی معتبر نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن اعتبار اور اعتماد کی منزل پر پہنچنے کے لیے ایک طویل ریاضت درکار ہوتی ہے جس کے بعد امر ہونے کا مقام آتا ہے فن ایک بے انت سمندر ہے جس میں غوطہ زنی کے بعد اُس کی صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آتی ہیں راقم الحروف نے اپنی مختصر ترین نظم ’’رازِ نمو‘‘ میں اس راز سے پردہ اُٹھایا ہے:

فن بے انت سمندر

پہلے ڈوبو

پھر نکلو گے

حجابؔ عباسی نے بھی جب بے مثال ہونے کی ٹھان لی تو پھر اپنے آپ کو ہر نادر النظیر سے آگے پایا اسی امر کی غمازی اُن کی غزل کا یہ شعر کر رہا ہے جو کہ اُن کے احساسِ فن کی عمدہ مثال ہے:

جب خود کو بے مثال بنانے کی ٹھان لی

ہر ایک مثال سے آگے نکل گئی

خالقِ ارض و سما نے بنی نوعِ انسان کو تسخیرِ کائنات کی دعوت دی ہے اور اس حوالے سے قرآن مجید فرقانِ حمید میں ربانی ارشادات موجود ہیں خود انحصاری کی منزل کا حصول انسان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے جسے پندارِ انا کا پاس ہو تو پھر وہ دستِ سوال دراز نہیں کرتا جب انسان ذاتِ ایزدی کو مالکِ کائنات تسلیم کرتا ہے تو اپنی احتیاجات کے حوالے سے بھی اُس سے رجوع کرتا ہے جب وہ ایک اعلیٰ ارفع اور حی و قیوم ذات کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے اور کسی اور ذات کے آگے جھکنے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے اقبال نے فرمایا ہے:

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

جب انسان خدا کی ذات پر یقین کر لیتا ہے تو اُس کے لیے باقی تمام سہارے بے وقعت اور ہیچ ہو جاتے ہیں بقول راقم الحروف:

سہارے یہ سب عارضی سے ہیں ناقد

سہارا ہے اک ان سہاروں سے آگے

جب انسان تسخیر کائنات کے گُر سیکھ لیتا ہے تو اس عالمِ آب و گل کی ہر چیز اُس کے اشاروں کی محتاج ہو جاتی ہے لیل و نہار ارض و سما اور شمس و قمر اُس کے اشاروں کے محتاج ہو جاتے ہیں اور یہ مقام ہر کسی کو میسر نہیں آتا جو چشم بینا رکھتا ہے وہ اس مقام پر پہنچتا ہے حجاب عباسی بھی انھیں احساسات و ادراکات سے مرصع ہیں اُن کی غزل کے اسی طرز کے حامل دو اشعار پیش خدمت ہیں :

اب ہاتھ نہ پھیلائیں گے ہم غیر کے آگے

رکھتے ہیں حجاب ارض و سما اپنی نظر میں

اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو انھوں نے رواں دواں بحور میں سخن سنجی کی ہے لیکن مشکل و سنگلاخ زمینوں میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں اُن کا اسلوب انتہائی شستہ ہے دقیقہ سنجی سے گریز اُن کی فطرت میں شامل ہے وہ ادق و دقیق ترکیبات و تشبیہات و استعارات سے اپنا دامن بچا کے رکھتی ہیں اُن کی تراکیب و استعارات و تشبیہات جاذبیت کا ایک پہلو اپنے اندر رکھتی ہیں۔

تخلیق کار ایک پیکرِ حساس ہوتا ہے وہ اجتماعی احساسات سے مرصع ہوتا ہے وہ ذاتی مفاد سے ہٹ کر اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھتا ہے کسی کا غم ہو یا کسی کی پریشانی وہ اسے اپنا ذاتی کرب سمجھتا ہے جیسے امیر مینائی نے کہا تھا:

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

غم اپنی نوعیتیں اور صورتیں بدلتا رہتا ہے کبھی کسی روپ میں جلوہ افروز ہوتا ہے تو کبھی کسی رنگ میں ہویدا ہوتا ہے ہر کیفیت دردناک اور کرب خیز ہوتی ہے حجاب عباسی نے بھی انھیں خیالات کی ترجمانی کچھ یوں کی ہے:

تجھے بس ذات کا غم ہے

مجھے ہر بات کا غم ہے

کبھی کچے مکاں کا دُکھ

کبھی برسات کا غم ہے

اُن کے افکار و نظریات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کی قائل ہیں اور وہ آس کی شمعیں روشن رکھنا چاہتی ہیں وہ لفظ کے تقدس کی قائل ہیں اور ہر حال میں حرف کی حرمت کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہیں ذرا اُن کی سوچ کے زاوئیے دیکھتے ہیں :

کبھی لفظوں کو بے توقیر کرنے کا نہیں سوچا

لکھوں جو بھی سخن وہ شاملِ افکار ہو جائے

زندگی ایک عمیق راز داری کی متقاضی ہوتی ہے یہی راز داری خوداعتمادی اور خود انحصاری کی طرف پیش رفت ہوتی ہے جو پہلا قدم قرار پاتی ہے ہم ایک بے حسی کے عہد میں زندہ ہیں اور فرداً یہ بے حسی فزوں سے فزوں تر ہو گی نفسا نفسی کا عالم مہیب صورت اختیار کرتا جا رہا ہے کوئی کسی سے مخلص نہیں اور نہ ہی کوئی کس کا یار و مددگار ہے انھی احساسات کا رنگ حجاب عباسی کے ہاں کچھ یوں پایا جاتا ہے اُن کی غزل کے دو اشعار در التفاف پر دستک دے رہے ہیں :

کبھی سُنائی نہیں کسی کو بھی داستانِ دلِ دریدہ

بہت قرینے سے زخم لکھے بہت سلیقے سے خار لکھے

رفاقتوں کے نگر میں دیکھا اکیلا پن تھا محیط ہر سو

طلب کسی کو نہیں کسی کی نہ اب کوئی غمگسار لکھے

سخن گستر ایک حقیقی دنیا کا متلاشی ہوتا ہے۔ سماج کا دُہرا معیار اسے کسی طور گوارا نہیں ہوتا وہ مطلب پرستی اور خود غرضی کے خلاف ہوتا ہے جب کہ زندگی میں اس طرح کے روئیے اُسے ہر گام پر ملتے ہیں جن کے خلاف وہ مزاحمت کرتا ہے اور اُنھیں ہدفِ تنقید بناتا ہے معاشی احتیاجات نے انسان کو اتنا کمزور و بے بس کر دیا ہے کہ اُس کے لیے پندارِ انا کی بات ایک خواب و خیال کی مانند ہے اہلِ ثروت طبقے سے مشکل کشائی چاہنا انتہائی کم ظرفی کی دلیل ہے۔

وقت ایک جیسا رہتا ہے لیکن عصری اقدار بدلتی رہتی ہیں قدریں کس لیے بدلتی ہیں کیونکہ ہم انھیں خود بدل دیتے ہیں انھیں خیالات کا اظہار راقم الحروف نے اپنی نظم ’’بدلتی قدریں ‘‘ میں کچھ یوں کیا ہے:

زمانہ کب بدلتا ہے؟

فقط قدریں بدلتی ہیں

یہ قدریں کیوں بدلتی ہیں ؟

انھیں ہم خود بدلتے ہیں

وقت نہیں بدلتا کیونکہ سورج ایک ہی طرز میں طلوع ہوتا ہے اور ایک ہی رنگ میں غروب ہوتا ہے تمام اجرامِ فلکی اپنے معمول میں رہتے ہیں لیکن وقت کے تقاضے ضرور بدلتے ہیں سخنور کا کام ان اسرار و رموز سے پردہ اٹھانا اچھے اور بُرے کی تمیز کرانا ہے منفی رویّوں پر سرزنش اور مثبت رویّوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے انھیں خیالات کی ترجمانی ذرا حجاب عباسی کی زبانی ملاحظہ کریں :

کبھی دولت کبھی چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا ہے

میں حیراں ہوں تمھیں کتنے خداؤں کی ضرورت ہے

گئے وہ دن کہ جب آگے سبھی غدار ہوتے تھے

سو اب اگلی صفوں میں رہنماؤں کی ضرورت ہے

سخن میں تضاد خیالی ایک حسنِ التزام کا تقاضا کرتی ہے شعر میں صنعت تضاد کا ورود اور وہ بھی فطری انداز میں کارِ استادی کا مصداق ہے جو کسی کہنہ مشق شاعر کو طویل المیعاد مشاطگیِ عروسِ سخن کے باعث میسر آتا ہے اس نادرہ کاری کے پسِ منظر میں ایک عمیق ریاضت کارفرما ہوتی ہے اُن کے فن کی یہی کرشمہ کاری اُن کی غزل کے مطلع میں دیدنی ہے:

کون کہتا ہے آئینہ چپ ہے؟

بولتا ہے مگر صدر چپ ہے

حالات اکثر و بیشتر دگرگوں رہتے ہیں زندگی پر آشوب کیفیات سے دوچار رہتی ہے انسان جو کچھ حقیقی دنیا میں دیکھتا ہے وہی مناظر اُسے عالمِ خواب میں دکھائی دیتے ہیں عالمِ خواب اور عالمِ حقیقت صرف یک گام کی مسافت پر ہیں فرق صرف کیفیات کی حد تک ہوتا ہے وہ کیفیات حالتِ بیدار اور عالم خواب ہیں صرف سوتی اور جاگتی آنکھ کا فرق ہے مناظر ایک جیسے ہیں دنیا میں دو طرح کے انسان آباد ہیں ایک وہ ہیں جو ہر معاملے کے مثبت پہلوؤں کو دیکھتے ہیں جنھیں رجائیت پسند کہا جاتا ہے دوسرے وہ ہیں جو منفی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں وہ قنوطیت پسند، قنوطی یا یاسیت پسند کہلاتے ہیں۔ پہلی صورت امید افزا ہے جبکہ دوسری حالت یاسیت آمیز ہے رجائی جذبے امید کی کرنیں روشن کرتے ہیں جن کے باعث حیات کی رعنائی اور جلوہ آرائی بحال رہتی ہے اور ایسے جذبے اقلیمِ ادب کی جان ہوا کرتے ہیں اور یہ نکاتِ زریں افتخار ادب کہلاتے ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر توجہ مبذول کراتا ہوا محسوس ہوتا ہے جسے آپ کے ذوق کی نذر کیا جاتا ہے:

جو ہم نے خواب میں دیکھا ہے اکثر ٹوٹتا تارا

وہ کچھ بھی ہو بچھڑنے کا اشارہ ہو نہیں سکتا

عزم و ہمت، فہم و فراست، جرأت و  بصالت، بغاوت و مزاحمت کسی بھی شخصیت کی صفاتِ عالیہ سے تعبیر کی جاتی ہے جو اُس کے افکارِ تاباں کی عکاس ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں اسی حوالے سے اُن کے تین اشعار قارئینِ ادب کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کیے جاتے ہیں :

منظر میں بھی میں تھی پسِ دیوار بھی میں تھی

اور وقت کی چالوں سے خبردار بھی میں تھی

جب وقت کے حاکم کو سلامی نہیں دی تھی

پھر شہر نگاراں میں سرِدار بھی میں تھی

میں نے ہی بغاوت کا علم تھام رکھا تھا

مٹتی ہوئی قدروں کی نگہ دار بھی میں تھی

مذکورہ تصریحات کے علی الرغم یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ حجاب عباسی کا شعری شعور اور افکار نادر النظیر ہیں اُن کا اسلوب ہر طرح کے قاری کی ذہنی سطح کے قریب ترین دکھائی دیتا ہے جو قاری کو مانوس کرتا ہے اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو انھوں نے مفرد و مرکب ہر طرح کی بحور میں بڑے اعتماد کے ساتھ سخن سنجی کی ہے اور زحافات کا استعمال بخوبی کیا ہے وہ مشکل و سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنے پر بھی قادر ہیں اُن کا شمار دنیائے اردو کی کہنہ مشق شاعرات میں ہوتا ہے جو فکری و فنی اسرار و رموز سے آشنا ہیں اُن کے کلام میں عروضی محاسن بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں فکر و فن میں ایک بالیدگی کی فضا ہے جو اُن کی فکری و فنی بلوغت پر دال ہے ان کے ہاں حسنِ شعر کے جملہ تقاضے پورے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں خدائے لم یزل سے دعا ہے کہ اُنھیں عمرِ خضر اور فکر و فن کی مزید وسعتوں سے نوازے۔  (آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

حجابؔ عباسی

 

 

خوابوں کی دہلیز پہ لا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

اس نے بجھتے دیے ہٹا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

عشق کے کاروبار میں کچھ تو گروی رکھنا پڑتا ہے

نیندیں کھو کر خواب بچا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

جب نظروں پہ بار ہوئے ہیں منظر یہ خوں ریزی کے

پھر ہم نے مقتل میں جا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

تیز ہوا کی زد پر روشن دیے کہاں رہ پائیں گے

ہم نے ہر ایک موڑ پہ جا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

کم بینی کے دام ملیں گے جب سے یہ اعلان ہوا

ہر اک نے بازار میں لا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

سامنے تجھ کو پا کے آخر یہ کارِ دشوار کیا

راہِ طلب میں خار بچھا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

آنے کو ہے دید کا موسم لائی صبا پیغام حجابؔ

تم نے ابھی سے بام پہ لا کر اپنی آنکھیں رکھ دی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب بھی اپنی زیست کہانی لکھیں گے

وقت کی اس میں ہر نادانی لکھیں گے

تیرا ہی کردار رکھیں گے نظروں میں

آج محبت کو ہم فانی لکھیں گے

کیونکر ہم ہجرت کی زد میں آئے تھے؟

کیوں کی ہم نے نقل مکانی لکھیں گے؟

آج مہکتے لفظ جو ہم سے روٹھے ہیں

ہر کاغذ پر رات کی رانی لکھیں گے

در و دریچے بند کریں گے سوچوں کے

یادوں میں اک شام سہانی لکھیں گے

جس تحریر پہ ہو گی اپنی عمر تمام

اس میں اپنی رائیگانی لکھیں گے

شعر کہیں گے کچھ کچھ میرؔ کے لہجے میں

وقت کی آنکھوں میں حیرانی لکھیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

شبہ طراز نظمِ جدید کی شاعرہ

 

 

جب ہم نظمِ جدید کی بات کرتے ہیں تو مراد ندرت آمیز اظہار اور جدت انگیز افکار ہوتے ہیں جس کے لیے ہیئت کا جدید ہونا بھی ضروری ہے پرانی بوتل میں نئی شراب ڈالنے کو جدت نہیں کہا جا سکتا آج ہم شبہ طراز کی نظم گوئی کے حوالے سے گویا ہیں اُن کی نظمیں فکری و فنی اعتبار سے جدید رنگ، ڈھنگ اور پیرایۂ اظہار رکھتی ہیں وہ چونکہ ایک افسانہ نگار بھی ہیں اس لیے اُن کی نظموں میں افسانوی انداز بھی دکھائی دیتا ہے اُن کا سوچنے کا انداز الگ تھلگ نوعیت کا حامل ہے اس لیے وہ نظم کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں ابھی تک اُن کے دو شعری مجموعے ’’جھیل جھیل اُداسی‘‘ اور ’’ریپنزل‘‘ منصہ شہود پر آ چکے ہیں آج ہم اُن کے مؤخر الذکر شعری مجموعے منتخب نظمیہ اقتباسات کا فکری و فنی تجزیہ پیش کریں گے۔

اُن کی نظموں میں زندگی کی واضح اور حقیقی تصویریں دکھائی دیتی ہیں اکثر و بیشتر نظموں میں اُن کا انداز فلسفیانہ نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے اُن کے ہاں نجی اور سطحی خیالات معدوم ہیں وہ عمومی معاملات کو ایک خاص پیرائے میں بیان کرتی ہیں جس کی بدولت اُن کے افکار اعلیٰ و ارفع دکھائی دیتے ہیں اُن کے جذبات و احساسات کی رفعت میں اُن کا اسلوب کلیدی کردار ادا کرتا ہے اُن کی قوتِ متخیّلہ بڑے بڑے فلسفے تخلیق کرنے پر قادر نظر آتی ہے ذیل میں ہم اُن کی نظم ’’خود شناسی‘‘ دیکھتے ہیں جو اجتماعی ادراکات کی عمدہ دلیل ہے جس میں مسئلہ جبر کو انتہائی عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔

ہم کہ ہیں جہد مسلسل کی کوئی ادنیٰ مثال

ہم کہ ہیں عالمِ معلوم کی بے بس بستی

رو بہ زوال

کچھ نہ سہی، پھر بھی ہیں

فکر کی رو میں بھٹکتا ہوا اٹکا لمحہ

خلق کی زد میں بھٹکتا سا

اچھوتا سا خیال

غزل کی ریاضت کے باعث اُن کی آزاد نظم میں قوافی اور ردیفوں کا فطری التزام و انصرام ملتا ہے اُن کے تخیل میں ایک زبردست روانی پائی جاتی ہے انھوں نے کلائمکس نوعیت کی نظمیں بھی کامیابی سے کہی ہیں وہ اپنی نظم کو منطقی انجام تک پہنچانے کا مکمل ادراک رکھتی ہیں اُن کے موضوعات اچھوتے اور نادر النظیر ہیں اُن کی ایک نظم ’’موت اندر سے شروع ہوتی ہے‘‘ جو ایک وارداتِ قلبی کا مظہر ہے لائق التفات ہے:

کسی کے انتظار میں

کسی کے گرد پیار میں

پیار کے حصار میں

سفر تمام کٹ گیا

کسی کو دل کے حال کا

خیال تک بھی نہ رہا

وہ رعایتِ لفظی سے نظم میں حسنِ ایمائیت پیدا کرتی ہیں اُن کے معمولی لفظی تغیر و تبدل سے تخیل میں جان پیدا ہو جاتی ہے اُن کے ہاں ایک تجسس کا عنصر پایا جاتا ہے جو قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے اُن کی نظم ’’نئی کہانی‘‘ زیبِ قرطاس ہے:

کسی کی میں کہانی تھی

کوئی میری کہانی ہے

کہانی وہ ادھوری تھی

کہانی یہ ادھوری ہے

مکمل اب اسے ہونا پڑے گا

کہانی کی روایت سے

نشانِ ہجر اب دھونا پڑے گا

اُن کی نظموں میں اکثر و بیشتر اُن کے اندر کی شاعرہ کے ساتھ ساتھ ایک افسانہ نویس بھی دکھائی دیتی ہے اسی نسبت سے اُن کی نظم ’’نئے حادثے کی تلاش میں ‘‘ قابلِ ذکر ہے:

کہانی نجانے کہاں کھو گئی ہے

یہیں تو کھڑی تھی وہ میرے برابر

چمکتے ستاروں بھرے آسمانوں کے نیچے

مہکتے گلابوں کے اوپر

سمندر کی اٹکھیلیاں کرتی لہروں کے سنگ بہہ رہی تھی

مناظر کے پردے سے ٹکرا کے کچھ کہہ رہی تھی

اُٹھایا تھا میں نے اسے جنگلوں کی اندھیری گپھا سے

کہانی جو غصے سے بل کھاتے دریا کی موجوں کے سنگ ڈولتی ہے

کہ موسم کی شدت تمازت سے ڈر کے نہ لب کھولتی تھی

اُن کی متعدد نظمیں منظر نگاری اور تجریدی آرٹ کا شاہکار ہیں جن کی امیجری فنِ کمال کی حدوں کو چھوتی نظر آتی ہے اور آنکھوں کے سامنے دلکش اور جاذبِ نظر مناظر دکھائی دیتے ہیں یہی سبب ہے کہ اُن کی نظم منفرد نوعیت کی حامل ہے اُن کے کلام میں جو روانی اور جولانی ہے وہ اپنی مثال ہے اُن کے ہاں کہیں کہیں خود کلامی اور مکالماتی فضا پائی جاتی ہے اس حوالے سے اُن کی نظم ’’پورٹریٹ‘‘ دیدنی ہے۔

اُس نے پوچھا کون ہو تم؟

میں یہ بولی وقت کہانی بہتا پانی

روپ کی رانی اک دیوانی

اُس نے پوچھا کس کوچے میں رہتی ہو؟

میں یہ بولی دل کی نگری یاد کی گلیاں

تنہائی میں غم کا مسکن میرا گھر

اُس نے پوچھا مجھ سے کیسا رشتہ ہے؟

میں یہ بولی رشتوں سے کیا ہوتا ہے؟

لفظوں کی سب ہیرا پھیری

عشق محبت الفت چاہت

حرفوں کے سب تانے بانے

کون کسی کا سب انجانے ؟

یہ کہہ کر تصویر ہوئی میں

مشمولہ نظمیں اس امر کی غماز ہیں کہ فکری و فنی اعتبار سے شبہ طراز کی نظم جدت کی حامل ہے البتہ اُن کے فن کو مزید ریاضت اور پختگی مطلوب ہے یہ تو اُن کی منظومات کی چند جھلکیاں تھیں ان کے علاوہ بھی اُن کی بے شمار نظمیں ہیں جو قابلِ ذکر ہیں جن میں ’’قربِ قیامت‘‘، ’’جلترنگ‘‘، ’’رفت وقت اور میں ‘‘، ’’کمینگی‘‘، ’’سپنوں کے باہر کھڑی دعا‘‘، ’’تمنا کے جزیرے کا دوسرا کنارہ‘‘، ’’سب کچھ میں اور کچھ نہیں ‘‘ اور ’’ریپنزل‘‘ شامل ہیں۔ دعا ہے کہ خدائے لم یزل اُن کی نظم کو فزوں تر معیارات رونق و رعنائی بخشے۔ (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

 

شبہؔ طراز

 

 

سب امتحان عشق کے اپنے کڑے رہے

ہم کوزہ گر کے چاک پہ برسوں پڑے رہے

ان کی نگاہیں شوخ تھیں ہم تھے حیا پسند

مشتاق وہ، ہم اپنے کہے پر اَڑے رہے

سوچا تھا ساتھ مل کے جئیں گے تمام عمر

مصروف تھے وہ کام ہمیں بھی بڑے رہے

دونوں جہاں سے رابطہ رکھنا تھا برقرار

آنکھیں فلک پہ پاؤں زمیں میں گڑے رہے

بجھنے دیا نہ رات بھر ہم نے چراغِ شوق

پلکوں پہ رت جگوں کے نگینے جڑے رہے

خوابوں سے نیند مانگ کے لائے تھے مستعار

وہ ساری رات خواب میں ہم سے لڑے رہے

بیٹھے رہے ہم رات کی راہوں کے خواب گر

دن مرحلۂ دید میں حائل کھڑے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

ساتھ ہے رنجِ رائیگانی بھی

کاٹنی ہے یہ زندگانی بھی

اب تلک جل رہے ہیں کچھ لمحے

حالانکہ آنکھ میں ہے پانی بھی

کچھ محبت سے بات کر لی تھی

کام آئی زبان دانی بھی

ایک تحریر تو سنائی تھی

ایک تصویر ہے دکھانی بھی

سب اُسی کے لیے ہیں سرگرداں

سنت، سادھو، ولی، گیانی بھی

توڑ کر رکھ دیا ہے دل میرا

ساتھ لے جاؤ یہ نشانی بھی

بھول جاتے ہو جب بچھڑتے ہو

یاد ہو جاؤ ناں زبانی بھی

٭٭٭

 

 

 

 

بشریٰؔ فرخ لطیف جذبوں کی شاعرہ

 

 

کدورتوں کے سماج میں نفرتوں کے رواج میں محبتوں کی بات کرنا کارِ دشوار ہے فکری خلفشار کے پُر آشوب عہد میں موانست کے جذبے اعجازِ مسیحائی سے کم نہیں زندگی کی ناآسودگیوں میں رومان پرور افکار ایک رجائی حوالہ ہیں جدت پسندوں نے دنیائے سخن سے رومانوی عناصر کو زائل کرنے کی جس قدر کوشش کی ہے انھیں ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا گویا جذبۂ رومان شعری روایت کا مستقل حوالہ ہے جس کے کئی رنگ اور کئی موسم ہیں کبھی وصل کی رُت ہے کبھی عالمِ ہجراں ہے کبھی لمس کی لذت ہے کبھی قرب کی یادیں تو کبھی رُسوائی کا خوف ہے بشریٰ فرخ کے ہاں یہ سارے رنگ اور سارے موسم اپنی پوری آن بان کے ساتھ موجود ہیں اُن کے ہاں جدید نظم کا مزاج بھی پایا جاتا ہے اُن کی غزل بھی تغزل سے لبریز ہے علاوہ ازیں انھوں نے ہندکو میں بھی اعلیٰ پائے کی سخن سنجی کی ہے اس حوالے سے اُن کا مجموعۂ کلام ’’محبتاں دے مزاج وکھرے‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آ چکا ہے آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’ادھوری محبت کا پورا سفر‘‘ کے منتخب غزلیہ اشعار کا فکری و فنی تجزیہ پیش کریں گے۔

اُن کے کلام کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے جذبات و احساسات میں دولتِ ضبط بھی ہے اور یادوں کے انمٹ نقوش بھی ہیں قرب کی شدید حسرت کے ساتھ ساتھ حیاتِ بے ثبات کا ادراک بھی ہے وارداتِ دل بھی ہیں اور کیفیات دل بھی اسی حوالے سے اُن کی غزل کے تین اشعار قارئینِ شعر و سخن کی نذر ہیں :

ٹوٹنے پائے نہ اے دل پھر طنابِ ضبطِ غم

پھر کسی کی یاد اپنی ہم سفر ہونے کو ہے

دل کی ضد ہے اس سے پھر اک بار ملنا چاہیے

اور جاں کہتی ہے اب جاں سے گزرنا چاہیے

لاکھ پردوں میں چھپایا آپ نے بشریٰ مگر

اک زمانہ حالِ دل سے باخبر ہونے کو ہے

عالمِ ہجراں میں بھی پُر امید رہنا کارِ فرہاد سے کم نہیں فرقت کو مداوائے وصل سمجھنا بھی تخیل کی طرفگی اور ندرت کی علامت ہے کتابِ ہستی کے حرف حرف میں محبوب کا جلوہ نما ہونا بھی لازوال جذبوں کی دلیل ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار لائقِ التفات ہیں :

ہر اک انداز میں اب ہجر تیرا

علاجِ وصل بنتا جا رہا ہے

کتابِ ذات بشریٰؔ جب بھی کھولوں

وہ ہر اک حرف میں بکھرا پڑا ہے

بشریٰؔ فرخ کے ہاں محبت کے عمیق جذبے پائے جاتے ہیں اُنھیں کو بہ کو چار سو اپنے محبوب کا سراپا نظر آتا ہے جیسے خواجہ میر درد نے کہا تھا:

جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

وہ راہِ الفت میں بھی قناعت کی پاسدار ہیں جو اُن کی درویشی اور استغنا کا مظہر ہے وہ حرص و ہوس سے مبرا و ماورا ہیں ان خیالات کی ترجمانی اُن کی غزل کے دو اشعار میں ملاحظہ کریں :

حسرتوں کو مری روندے چلے جانا ترا

اور مجھے تیرے سوا کچھ نہ دکھائی دینا

آخری بار بس اک شام مرے نام کرو

اور پھر چاہو تو تا عمر جدائی دینا

اُن کے ہاں غمِ وجہ اذیت نہیں ہے بلکہ شعورِ  حیات کا ذریعہ ہے اُن کے نزدیک حُزن و ملال آموز گارِ حیات ہے جو زندگی کے تمام سلیقے سکھاتا ہے اُن کی غزل کا ایک شعر اسی تناظر میں دیکھتے ہیں :

قرینے زندگی کے جو نہ برسوں میں سمجھ پائے

وہ اک لمحے میں سیکھے ہیں تمھارے غم کے موسم سے

وہ محبت کے تمام معاملات کا مکمل ادراک رکھتی ہیں اور وہ اسی جانکاری سے اپنے قاری کو آشنا کرتی نظر آتی ہیں اُن کے ہاں جہاں خارجی اظہار کے حوالے ملتے ہیں وہاں داخلی عوامل بھی نمو پاش ہو رہے ہیں اُن کے خیالات میں ایک ندرت کا پہلو کارگر ہے اُن کا اسلوب اور زبان و بیان کا معیار بھی اعلیٰ و ارفع ہے اُن کے ہاں رومان کے جذبے اسی انداز میں پائے جاتے ہیں کہ جنھیں قاری اپنی وارداتِ قلبی سمجھتا ہے اُن کا طرزِ اظہار اور اُن کی فکر جدت آمیز ہے انھیں معاملات کا رنگ اُن کی غزل کے ان اشعار میں صاف دیکھا جا سکتا ہے:

محبت کی فسوں کاری نظر کیا آئے باہر سے؟

یہ دیمک تو بدن کو چاٹتی ہے اندر سے

اک ان دیکھی سی طاقت روکتی ہے راستہ میرا

بلاوے ورنہ آتے ہیں بہت رسوائی کے گھر سے

اُن کے ہاں حقیقی زندگی کا مکمل شعور ملتا ہے جہاں اُن کے کلام میں حزنیہ تاثرات ہیں وہاں طربیہ افکار بھی پائے جاتے ہیں اُن کے ہاں زیست کا ولولہ اور قرینہ موجود ہے جو اُن کے مشاہدات و تجربات ہیں وہ اپنی غزل کے ایک شعر میں یوں گویا ہیں :

زندگی ہے ضبطِ غم کا اک مسلسل سلسلہ

دل کے زخموں کو چھپا کر مسکرانا چاہیے

اُن کے رومانوی افکار کی مزید جھلک کے طور پر اُن کی ایک غزل بدونِ تبصرہ شاملِ شذرہ ہے:

مرے بے وفا مرے چار سو تری آرزو کا حصار ہے

وہی بے یقین سی گرد ہے وہی بے گماں سا غبار ہے

مرے خوب سے تری آنکھ تک جو ہے ایک موڑ کا فاصلہ

مرے ہم سفر وہی فاصلہ مرے راستوں کا شمار ہے

وہ محبتوں کے قلم سے جو سرِ لوحِ دل تھا لکھا کبھی

وہ ایک حرفِ وفا سدا ترے غم کا آئینہ دار ہے

تری جستجو میں بھٹک رہی ہوں میں ایک دشتِ سراب میں

کبھی بے قراری سکون ہے کبھی بے سکونی قرار ہے

ترے دل کی رہگزر پہ ہے جہاں ہجومِ پری وشاں

وہی ایک کونے میں منتظر مری حسرتوں کی قطار ہے

اُن کے ہاں معاملاتِ عشق مکمل اہتمام کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ اُن کے جذبوں میں عقل و شعور اور فہم و فراست کارفرما ہے گویا اُن کی قوتِ متخیّلہ اُن کی خرد نوازی کا ثمر ہے اُن کا کلام ایک وجدانی عمل کا عکاس ہے وہ پندارِ انا کی بات بھی کرتی ہیں اُن کے ہاں دولتِ ضبط بھی ہے اور وفاؤں کا بھرم بھی ہے اس شذرہ کی آخری کڑی کے طور پر اُن کی ایک غزل دنیائے شعر کے متوالوں کے ذوقِ طبع کے لیے پیشِ خدمت ہے:

بے تابیوں کو حد سے گزرنے نہیں دیا

اس پیار کے طلسم کو بڑھنے نہیں دیا

سو چھید پڑ چکے ہیں مگر سر سے آج تک

یادوں کی اوڑھنی کو اُترنے نہیں دیا

اس عشق نارسا نے کیا دین بھی خراب

دنیا کا کوئی کام بھی کرنے نہیں دیا

انگلی پکڑ کے اس کی چلے ہیں تمام عمر

ہم نے تمھارے غم کو بچھڑنے نہیں دیا

اک بار جس سے مل کے بہت کچھ تھا پوچھنا

اُس نے کوئی سوال بھی کرنے نہیں دیا

ٹوٹی ہے کتنی بار قیامت یہاں مگر؟

اس شہرِ دل کو ہم نے اُجڑنے نہیں دیا

مذکورہ استشہادات دال ہیں کہ بُشریٰؔ فرخ بغض و عناد کے اس عہد میں جہاں بے حسی عروج پر ہے اور چار سو نفسانفسی کا عالم ہے محبتوں اور مروتوں کی امین ہیں اُن کے ہاں لطیف جذبے خوشگوار احساسات کے حامل ہیں وہ اُن معدودے چند شاعرات میں سے ہیں جن کا فن سنجیدگی اور متانت کا مظہر ہے تغزل اُن کا ایک وصفِ خاص ہے اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُنھوں نے مفرد و مرکب بحور میں انتہائی کامیابی سے شاعری کی ہے اور زحافات کو بھی بخوبی برتا ہے خالقِ شعر سے دعا ہے کہ اُن کے کلام کو مزید جولانیوں اور تابانیوں سے نوازے۔ (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

 

بشریٰؔ فرخ

 

 

زمینِ دل میں تھوڑا سا کٹاؤ بھی ضروری ہے

کہ اوروں کی طرف اس کا جھکاؤ بھی ضروری ہے

جبینِ عشق پر کچھ تو تناؤ بھی ضروری ہے

جو باقی رہ گیا وہ ایک داؤ بھی ضروری ہے

یہ پیلے رنگ کا موسم جو لگتا ہے ادھورا سا

کہیں منظر میں اک جلتا الاؤ بھی ضروری ہے

کہاں تک گھومتے پھرتے کسی دشتِ تمنا میں ؟

مسافت کی صعوبت میں پڑاؤ بھی ضروری ہے

سو تشنہ لب کنارے پر کھڑے یہ سوچ کر چپ ہیں

مخالف سمت دریا کا بہاؤ بھی ضروری ہے

اثاثہ عمر کا جس پر لگا بیٹھے بنا سوچے

تو اس سودے میں تھوڑا بھاؤ تاؤ بھی ضروری ہے

میں شامل ہوں کسی کی زندگی میں اس طرح بشریٰؔ

کہ لفظِ خواب میں اک حرفِ واؤ بھی ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جدائی کی بلا اب سر سے ایسے ٹالی جائے گی

اسے دیکھے بنا جینے کی عادت ڈالی جائے گی

جلے پاؤں کی بلی کی طرح بے چین پھرتی ہوں

یہ بے چینی سکوں میں کس طرح اب ڈھالی جائے گی؟

ہمارے گلشنِ دل پر تو جو بیتی، سو بیتی ہے

مگر اب کس کی باری ہے کہاں پامالی جائے؟

اگر مل بیٹھنا ہے تو ابھی سے کیوں نہ مل بیٹھیں ؟

کہ دل کی بات کل پرسوں پہ کب تک ٹالی جائے گی؟

یہ غنچہ پیار کا پل پل نئے رنگوں میں ڈھلتا ہے

ہمارے صحنِ دل سے کس طرح ہریالی جائے گی؟

اسی احساس کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے دل

حسیں جذبوں کی رُت تیرے ملن سے خالی جائے گی

ہم اس ڈر سے نہیں اس کی طرف اب دیکھتے بشریٰؔ

نگاہوں کی یہ لغزش دل کے سر ہی ڈالی جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

حمیرا راحتؔ، تحیّرِ عشق کی شاعرہ

 

 

شاعری ایک خداداد ملکہ ہے یہ جس فہم و ذکا کو ودیعت ہوتا ہے وہ اپنے فکر و فن کی بدولت گلشن شعر کو رنگا رنگ پھولوں سے سجا دیتا ہے اور گوناگوں خوشبوؤں سے مہکا دیتا ہے عصرِ حاضر میں بہت سے شعراء اور شاعرات نے اپنی عرق ریزیوں سے اقلیمِ سخن کو مالا مال کر رکھا ہے ایسے ہی اصحابِ کمال میں سے حمیرا راحتؔ کا نام فکری و فنی اعتبار سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اُن کے جذبات و احساسات ندرت سے لبریز ہیں انہوں نے فکر کے فرسودہ طرز کو منتخب نہیں کیا بلکہ نئے خیالات کو جادۂ منزل بنایا وہ ایک طویل عرصے سے ریاض سخن میں محو ہیں اُن کے ہاں فکری اعتبار سے وہ جولانی اور تابانی پائی جاتی ہے جو قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے اُن کا کلام از آغاز تا اختتام دولتِ تحیر سے معمور ہے مصرع در مصرع شعر در شعر غزل در غزل نظم در نظم بین السطور ان کے افکار ضو فشانی کر رہے ہیں ان کی شاعری میں نسائی احساسات کا رنگ بھی چوکھا ہے اسی حوالے سے وہ خواتین کی نمائندہ شاعرہ بھی کہلانے کا استحقاق رکھتی ہیں شذرہ ہٰذا میں اُن کے شعری مجموعہ تحیرِ عشق کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ حمدیہ غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو   ؎

میں تیرا نام جب لیتی ہوں دل سے

مقدر پاؤں میرے چومتا ہے

شعرِ ہٰذا ایک سادگیِ حسن کا حامل ہے وہ گویا ہیں کہ ذکر خدا ایسا بابرکت و مقدس ہے جب میں اس عظیم ہستی کا نام لیتی ہوں تو مقدر مجبورِ پاپوسی ہو جاتا ہے یہ شعر ایک فطری نوعیت کا حامل ہے جو ہر نوع کے تصنع سے مبرا و ماورا ہے    ؎

محبت کی عدیم الفرصتی میں

اُسے چاہا مگر سوچا نہیں ہے

حمیرا راحتؔ کی سب سے بڑی فکری و فنی خاصیت یہ ہے کہ وہ انتہائی سادگی کے ساتھ گہری رمز کی بات کر جاتی ہیں اور یہ امر اُن کے اسلوب کا خاصہ ہے اس شعر میں محبت میں فرصت کی نایابی کا مذکور بھی ہے کہ محبوب کو چاہا ہے اور سوچا نہیں ہے یہاں لفظ سوچا خود میں ایک جہانِ معنی سموئے ہوئے ہے غور و فکر بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور نقدِ احساس بھی۔ یہ شعر اُن کی فکری و فنی ندرت پر دال بھی ہے۔

احساسِ ذات کے حوالے کا حامل شعر دیکھیں    ؎

بھری کائنات میں قید ہوں

میں حصارِ ذات میں قید ہوں

مطلع ہذا میں مصرع اول ایک احساسِ تنہائی پر دلالت کر رہا ہے وہ اپنے آپ کو بھری کائنات میں قید متصور کر رہی ہیں جس سے دنیا سے بیزاری کا احساس نمو پا رہا ہے ایک صوفیانہ سوچ کی غمازی ہے اور ایک اسلامی فکر کی عکاسی ہے کہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ ہے دوسرا مصر ع ذاتی عرفان پر مبنی ہے کیوں کہ انسان کے دروں میں بھی ایک دنیا آباد ہوتی ہے کچھ لوگ اس میں کھونے کے بعد سلوک کی دیگر منازل طے کرتے ہیں یہ شعر اُن کی داخلیت کا بھرپور مظہر ہے اور دروں بینی کی عمدہ مثال ہے اور ’’میں قید ہوں ‘‘ کی ردیف بھی اسلوبیاتی قرینہ کاری ہے۔

ایک اور شعر میں اُن کی فکری کرشمہ کاری دیدنی ہے   ؎

کیوں گھور اندھیرا ہے مقدر میں تمہارے؟

بجھتے ہوئے سورج کی کرن پوچھ رہی ہے

کسی بھی شاعر یا شاعرہ کا کمالِ فکر یہ ہوتا ہے کہ اُس سے مظاہرِ فطرت ہم کلام ہوں یہی سلیقہ اُن کے اس شعر میں جلوہ نما ہے یہ شعر اُن کی خزینہ شعری طبع کی عکاسی بھی کرتا ہے وہ پر ملال جذبوں کی امین بھی ہیں۔

اب اُن کی قناعت پسندی کے حوالے کا شعر دامنِ توجہ تھام رہا ہے   ؎

اک کرن چاندنی کی مل تو گئی

یہ بھی مہتاب کی نوازش ہے

اس شعر میں فکری طور پر وہ بہت قانع نظر آ رہی ہیں وہ حریص نہیں ہیں بلکہ شاکرو صابر ہیں وہ حرص و ہوس جیسے سماجی خبائث سے ماورا ہیں چاندنی کی ایک کرن میسر آنے پر بھی وہ اسے مہتاب کی نوازش سے تعبیر کرتی ہیں اُن کی فکر سے سلوک کی راہیں نکلتی ہیں جو قاری کو اس مخصوص فضا میں لے جاتی ہیں جہاں دل و دماغ کو سکون مطلوب ہے۔

ایک طرفہ تخیل کا حامل شعر لائقِ التفات ہے   ؎

اک لمحۂ موجود مرے پاس کھڑا ہے

اک لمحۂ معدوم مجھے ڈھونڈ رہا ہے

یہ شعر ندرتِ تخیل کا شاہکار ہے جس میں صنعتِ تضاد کا دربار ورود ہوا ہے موجود کے لیے معدوم لایا گیا ہے پاس کے لیے ڈھونڈ برتا گیا ہے اس شعر میں اُن کی قوتِ مُتخیلہ پورے طور پر جلوہ گر ہوئی ہے۔

اُن کی غزل کا ایک مطلع توجہ طلب ہے    ؎

زمانہ آشنا ہونا پڑے گا

مجھے تجھ سے جدا ہونا پڑے گا

یہ ایک ایسا شعر ہے جسے آپ معرفت و مجاز دونوں پر مہمیز کرسکتے ہیں اسی لیے وہ اپنے محبوب سے عرض پرداز ہیں کہ زمانے سے آشنائی کے لیے تجھ سے جدا ہونا ضروری ہے عشق و دنیا دو الگ الگ تلازمے ہیں دونوں کا ایک ساتھ ہونا محالات میں سے ہے۔

حمیرا راحت کے شعری تجزیہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوئی ہے کہ اُن کے فکری کینوس میں وفورِ عشق و الفت کے احساسات پائے جاتے ہیں اور تحیّر جس کا مرکزی و کلیدی خاصہ ہے اگرچہ انہوں نے پر زور اور مؤثر نظمیں بھی کہی ہیں لیکن اُن کی غزل ان کی نظم سے کہیں آگے ہے ان کا کلام فکری اور اسلوبیاتی حوالے سے بھی قاری کے لیے دلچسپی کا سامان رکھتا ہے بہرحال ابھی انہیں غزل کے میدان میں مزید ریاضت کی ضرورت ہے ابھی ان کے فکر و فن کو مزید بالیدگی مطلوب ہے اگر ان کی مشاطگیِ عروسِ سخن جاری رہی تو ان کی شاعری میں اور نکھار پیدا ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

حمیرا راحتؔ

 

 

محبت ہر طلب سے ماورا ہے

تو کیوں دل اس کو پانا چاہتا ہے؟

مرے ہاتھوں میں اک جلتا دیا ہے

اور اک آندھی کا مجھ کو سامنا ہے

دکھا دے کوئی تیرے ساتھ چل کے

نبھانا تجھ کو میرا حوصلہ ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ تجھ کو

پلٹ جانے کا رستہ مل گیا ہے

گلے، شکوے، ملامت، نارسائی

یہی میری محبت کا صلہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اُفق پر ایک آندھی سی اُٹھی ہے

دیئے کی لو بہت سہمی ہوئی ہے

کسی کردار کے آنسو ہیں شاید

کہانی میز پر بھیگی پڑی ہے

شکستہ خواب، آنسو اور جدائی

محبت میں بڑی دردِ سری ہے

ابھی تک میں سمجھ نہ پائی نہیں جاناں

تمہارے بعد یہ کیسی کمی ہے؟

اندھیروں کے حوالے کر گیا جو

اسی کے دم سے مجھ میں روشنی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کھوسہ— عشق و الفت کی شاعرہ

 

 

عشق و الفت کے جذبے اقلیمِ سخن کی جان ہوا کرتے ہیں اگرچہ جدید ادبی عصری روئیوں نے انھیں مسخ کرنے کی کوشش کی جنھیں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جدت پسندوں کی تمام تر کاوشوں کے باوجود غزل سے رومان کے وجود کو ختم نہ کیا جا سکا یہ جذبے تمام شعرا و شاعرات کے ہاں کم یا زیادہ پائے جاتے ہیں ہم نے جب ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کے دوسرے شعری مجموعہ ’’میں آنکھیں بند کرتی ہوں ‘‘ کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا تو ہمیں عشق و الفت کے احساسات وفور کے ساتھ نظر آئے مجموعہ ہذا اپریل 2010ء میں منظرِ عام پر آیا ان کا اوّلین شعری مجموعہ ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ بھی قارئینِ شعر سے خراجِ تحسین حاصل کر چکا ہے آج ہم اُن کے دوسرے شعری مجموعہ ’’میں آنکھیں بند کرتی ہوں ‘‘ کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ عشق و الفت کے حوالے سے کریں گے اگرچہ انھوں نے بھرپور قسم کی نظمیں بھی کہیں ہیں لیکن اُن کی غزل اُن کی نظم سے کہیں آگے ہے اُن کی غزل میں تغزل بھرپور انداز میں پایا جاتا ہے غزل کا اسلوب انتہائی شستہ، سادہ اور رواں ہے جاذبیت جس کا وصفِ خاص ہے۔

عشقِ حقیقی کے حوالے صوفیاء کے ہاں دو نظریے پائے جاتے ہیں دو مکتبِ فکر ہیں جن کی تصوف سے وابستہ لوگ پیروی کرتے ہیں جنھیں ’’ہمہ اوست‘‘ اور ہمہ از اوست‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جن کے اصطلاحی مفاہیم یہ ہیں کہ سب کچھ خدا ہے اور ہر چیز اُس سے نسبت رکھتی ہے یا اس کا پرتو ہے ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کے ہاں یہ دونوں نظرئیے پائے جاتے ہیں اُن کی حمد کے تین اشعار میں انھیں افکار کا رنگ پورے کروفر سے پایا جاتا ہے:

جہاں جہاں گئی نظر، وہاں وہاں ملا ہے تو

ہر اک جگہ، ہر اک نگر خدا ہے تو

ہیں رنگ و نور چار سو ترا وجود کو بہ کو

چمن چمن دمن دمن جمالِ دلربا ہے تو

ہر ایک بحر و بر میں تو وجودِ خیر و شر میں تو

ہر ایک سمت جلوہ گر، جہاں میں اے خدا ہے تو

عالمِ ہجراں کرب اور سوز و گداز سے عبارت ہوا کرتا ہے عشق کے لیے یہ کیفیت کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی ہوش و حواس مفقود ہو جاتے ہیں انسان کو اپنی خبر تک نہیں ہوتی یہ عشق کی پُر آشوب کیفیت ہوتی ہے ایک عالمِ جنون ہوتا ہے یہ صورتِ حال اجنبی اور انجان بنا دیتی ہے یہی کرب اُن کے ہاں ملاحظہ کرتے ہیں :

ہجر کی وحشت نے دل کو کر دیا رنجور اب

بھولتی جاتی ہیں اب صورتیں دیکھی ہوئی

رجائیت آمیز شاعری اس دورِ پر آشوب میں ایک ٹانک کا درجہ رکھتی ہے جس کے باعث زندگی کی رعنائی اور توانائی بحال ہے اور معمول کے ساتھ پورے جوش و جذبے سے گزر رہی ہے ہجر کی پُر اذیت وحشت میں بھی دامنِ امید تھامے رکھنا امید افزا ہے اسی تناظر میں اُن کی غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں :

ہجر میں بھی یہ مری سانس اگر باقی ہے

اس کا مطلب ہے محبت میں اثر باقی ہے

ہم سب ایک عہدِ بے حسی میں زندہ ہیں جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے جہاں اخلاقی اقدار پامال ہو رہی ہیں خلوص و الفت ناپید ہے بقولِ راقم الحروف:

کیا خبر کس دیس میں ہم آ گئے؟

پیار عنقا ہے جہاں نفرت فزوں

ہر انسان اپنی ذات کے خول میں مقید ہے اور خود اسیری کی زندگی بسر کر رہا ہے حصارِ ذات نے انسان کو بہت سی خود فریبیوں میں مبتلا کر دیا ہے اور ہر کوئی اپنی ذات میں مگن ہے اسی حوالے کا حامل اُن کی غزل کا ایک شعر لائقِ التفات ہے:

ہر ایک اپنی ذات کے حصار میں اسیر تھا

کہ خود فریبیوں میں ہی ہر ایک موجزن ملا

حصولِ محبت کی اوّلین شرط یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اُس معیار پر لے جائے جہاں پہنچ کر انسان محبت کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے استحقاق جتا سکتا ہے پہلے خود کو وفاؤں کا خوگر کرنا ہو گا پھر انسان کی سوچ یہ ہو گی کہ میرا محبوب بھی میری طرح وفا کا استعارہ ہو جب اُسے ایسی ہستی نہیں ملے گی تو پھر وہ مجبور بیاں ہو جائے گا یہی تاثر اُن کے ہاں کچھ یوں پایا جاتا ہے:

ہم لوگ محبت سے بتا کس کو پکاریں ؟

دنیا میں کوئی ہم سا، ہمارا نہیں ملتا

عام طور پر یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ عشق وہ ہے جو انسان کو مجنوں اور دیوانہ بنا دے حواس باختہ کر کے مخبوط الحواس بنا دے اور انسان مجذوب بن جائے یہ عشق کے حوالے سے ایک منفی تاثر ہے جو عشق کے حسین چہرے کو داغدار کر رہا ہے جبکہ اس کی حقیقی صورت یہ ہے کہ عشق ایک عنبر ہے ایک خوشبو ہے جو تن من کو مہکائے رکھتی ہے جیسے اقبال نے کہا تھا:

من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق

تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا فکر و فن

محبوب حسن اور احساسِ حسن کا مرقع ہوتا ہے یہی سبب ہے وہ محب سے وفا کرنا لازمی نہیں گردانتا لیکن محب پل پل اُس کی یادیں دل میں بسائے پھرتا ہے عشق کا روگ بھی عجیب و غریب ہے جو تغیر حال کا باعث بنتا ہے اگر عشق کامیاب ہو جائے تو صحرا کو گلزار بنانے پر قادر ہے اگر ہزیمت سے دو چار ہو تو پھر گلزار کو صحرا میں ڈھال دیتا ہے عشق کے اندر ایسی خصوصیت ہے کہ یہ انسانی روح کو جلا بخشتا ہے عشق کی مثال ایک چراغ کی مانند ہے جو تیرگی اور شبِ ظلمت کے راج کو ختم کرتا ہے اس حوالے سے اُن کی غزل کے چار اشعار ہدیۂ قارئین ہیں :

وہ آواز، وہ لہجہ اس کے خال و خد

کس کی یاد میں من مہکائے پھرتی ہوں

جو مجھ کو پہچان نہ پایا آج تلک

دل میں اُس کی یاد بسائے پھرتی ہوں

عشق کا روگ بھی روگ عجیب سا ہوتا ہے

صحرا کو گلزار بنائے پھرتی ہوں

شاہیںؔ  اس سے روشن میری روح بھی ہے

میں جو ایک چراغ جلائے پھرتی ہوں

ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کی شاعری سے قاری کو ایک خوشگوار اور لطیف احساس ہوتا ہے آج کے پر آشوب عہد میں جہاں آس اور امید کی شمعیں گل ہو چکی ہیں اس بھیانک صورتِ حال میں بھی رجائی جذبوں کی پاسداری یقیناً خوش آئند اور مستحسن اقدام ہے جس سے زندگی کو نیا ولولہ، نیا حوصلہ اور نیا جوش و جذبہ عطا ہوتا ہے اُن کے ہاں یہ فکری تلازمے بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں وہ درسِ امید دے رہی ہیں اور رجا کی شمعیں روشن کر رہی ہیں وہ ذاتی حوالے سے بات کر کے اجتماعی تاثر پیدا کرتی ہیں اس طرح ذات سے لے کر کائنات تک کا سفر جاری رہتا ہے اُن کی غزل کا ایک رجائیت آمیز شعر آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے پیشِ خدمت ہے:

میں اپنے آنگن کو دے رہی ہوں نئے اُجالے

وہ میری راہوں میں پھول کلیاں بچھا رہا ہے

اُن کے کلام میں عشق و الفت کا جذبہ اپنے خالص روپ میں موجزن ہے جہاں غم کی ہلکی سی آنچ ہوتی ہے وہاں امید افزا امکانات بھی موجود ہوتے ہیں وہ اپنے شعری احساسات میں وفا کے اعلیٰ و ارفع مقام پر دکھائی دیتی ہیں محبت میں محبوب پر اندھا اعتماد کیا جاتا ہے اُس کی ہر غلط بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ یہ معاملہ خرد کا نہیں ہے بلکہ عشق و جنوں کا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے:

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے

وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے

وہ بھی اپنے محبوب کی ہر بات کا یقین کرتی ہیں اور اسے من و عن تسلیم کرتی ہیں اُن کی غزل کے اسی شعر میں اُن کی وفا کا رنگ دیکھتے ہیں :

بات جو نہیں سُنتا اُس سے بات کرتی ہوں

اس پہ ہے یقیں مجھ کو جو گمان جیسا ہے

اُن کے ہاں کہیں کہیں غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے لیکن غمِ جاناں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہتا ہے اور اسے فوقیت حاصل رہتی ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کا مطلع لائق توجہ ہے:

دن تو اپنے غمِ دوراں میں گزر جاتے ہیں

شام ہوتے ہی ترے غم میں بکھر جاتے ہیں

اُن کے ہاں رومان کے سارے رنگ پائے جاتے ہیں جن میں کیفیاتِ دل بھی ہیں اور وارداتِ دل بھی۔ عشق و عاشقی کے تمام رنگ موجود ہیں ان کے کلام کے مطالعے کے بعد قاری ایک لطیف اور خوشگوار احساس میں کھو جاتا ہے ان کے ہاں مجاز معتبر، مستقل اور تندرست و توانا حوالے کے طور پر پایا جاتا ہے ان کا کلام دل زدوں کے لیے ایک سامانِ دل بستگی ہے ان کے ہاں محبت کے جذبات و احساسات مکمل اخلاص کے ساتھ پائے جاتے ہیں مصرعوں کے درو بست میں ایک حسنِ التزام ہے اسلوب میں ایک چاشنی اور شیرینی موجود ہے غم کے ساتھ ساتھ خوشی کا ایک خوشگوار احساس بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے جس کے باعث غم کی شدت کم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تصورِ محبوب ایک مرکزی تلازمے کے طور پر اُبھرا ہے محبوب کے بغیر وہ ہستی کو ہستی نہیں گردانتی محبوب کے بغیر خوشی کا تصور ناپید ہے اُن کے رِجا کا عالم یہ ہے کہ اُنھیں عالمِ ہجراں میں بھی ایک دلکشی کا پہلو دکھائی دیتا ہے اُن کے نزدیک ذکرِ یار کے بغیر شاعری نہیں ہوتی انھیں خیالات کے حامل اُن کی غزل کے چار اشعار آپ کے ذوق لطیف کی تسکین کے لیے زیبِ قرطاس ہیں :

تم سے گر دوستی نہیں ہوتی

زندگی زندگی نہیں ہوتی

تم تبسم ہو میرے ہونٹوں کا

بن تمہارے ہنسی نہیں ہوتی

وحشتِ ہجر گر نہ مل پائے

زیست میں دلکشی نہیں ہوتی

ذکر اُس کا اگر نہ شاہیںؔ

ہم سے پھر شاعری نہیں ہوتی

اُن کے اسلوب کی سادگی ہی اُن کے کلام کا حسن ہے انھوں نے نسبتاً رواں دواں بحور میں لکھا ہے جن میں ایک خاص آہنگ اور موسیقیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔

اُن کے نزدیک محبت غمِ دوراں کو بھلانے کا حسیں طریقہ ہے وہ اہل دل ہیں اُن کا تعلق دل کی دنیا سے ہے وہ زندہ دلی سے زندگی گزارنا چاہتی ہیں بقول ابو البیان ظہور احمد فاتح:

زندگی زندہ دلی سے جو گزاری ہم نے

موت بھی دے کے ہمیں جامِ بقا گزرے گی

اسی تناظر میں اُن کی غزل کا مطلع پیش ہے:

آؤ کہیں یہ بزمِ محبت سجائیں ہم

غم ہائے روزگار ذرا بھول جائیں ہم

اُن کے ہاں معاملہ بندی بھی ہے اور منظر نگاری بھی پائی جاتی ہے اُن کے ہاں وصل کے قصّے بھی ہیں اور ہجر کے فسانے بھی ہیں عمومی محبتوں کا فقدان بھی ماضی کی دلکشی بھی ہے اور حال کا وجدان بھی ہے کہیں وہ خوش و خرم نظر آتی ہیں تو کہیں شکوہ کناں ہیں اس سلسلہ کی آخری کڑی کے طور پر اُن کی غزل کا ایک دل گداز شعر آپ کی نظر ہے:

وہ قربت کی باتیں ، وہ مہکی سی راتیں کہاں کھو گئیں ہیں ؟

محبت کی پونی کہاں جا کے کاتیں دعا رو رہی ہے؟

مشمولہ توضیحات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کا کلام فکری و فنی اعتبار سے لائقِ اعتنا و صد ستائش ہے اسلوبیاتی جاذبیت اُن کے کلام میں اور دلکشی بنا رہی ہے ان کے ہاں کہیں کہیں نسائی احساسات و خیالات بھی پائے جاتے ہیں اگر رومانی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ ساحر لدھیانوی، اختر شیرانی، احمد فراز اور ابو البَیّان ظہور احمد فاتحؔ کی صف میں کھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کے کلام میں بہت سے روشن امکانات موجود ہیں جو اُن کے بہتر ادبی مستقبل کی بشارت دے سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کھوسہ

 

 

 

شام کی دہلیز پر لیں درد نے انگڑائیاں

جاگ اٹھے ہیں غم سبھی اور رو پڑیں تنہائیاں

راستوں پر خاک ہے پھولوں سے خوشبو کھو گئی

دن کا اب امکاں نہیں ہے کھو گئیں رعنائیاں

جب وفا گھائل ہوئی دنیا میں جب سائل ہوئی

گم ہوئی خوشیاں سبھی، ہم کو ملیں رسوائیاں

ایسے تحریریں مٹیں اور ساری تنویریں بجھیں

ہچکیوں کی ہے اخیر اب سو گئیں پروائیاں

بے بسی کی شام پر سسکی ہے پہروں زندگی

خواب کی خواہش میں ہم تو کھو چکے بینائیاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

روشنی کرنی تھی جس نے وہ دھواں کرتا گیا

رنج و غم کو وہ مرا کیوں آسماں کرتا گیا؟

زعم تھا وہ پاسباں دل کا ہے دل کے ہی قریب

پر مرے دل کو وہ کیسے بدگماں کرتا گیا؟

جو مجھے گلزار کرنا چاہتا تھا دیکھیے

مجھ کو ویراں کر کے خود کو گلستاں کرتا گیا

کیا خبر تھی ایک دن کر دے گا زخمی روح کو؟

کام دشمن کا تھا جو اک مہرباں کرتا گیا

وہ کہانی کا عجب کردار تھا شاہینؔ جو

وہ حقیقت تھی مجھے ہی داستاں کرتا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

ایم زیڈ کنول ندرتِ خیال کی شاعرہ

 

 

شاعری فکر و فن سے عبارت ہے تخیل کو اقلیمِ سخن میں وہ اہمیت حاصل ہے جو جسم میں روح کی ہے فنی تلازمات کے ساتھ ساتھ اگر خیالات بھی نادر النظیر ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے افکار کے منفرد ہونے میں قلمکار کی شخصیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے شذرہ ہٰذا میں آج ہم ایم زیڈ کنول کے کلام میں ندرتِ خیال کے حوالے سے گویا ہیں جن کا پورا نام مسرت زہرا کنول ہے جن کی پیدائش پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ میں ہوئی وہ اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں اُن کا تعلق تعلیم و تعلم کے کے شعبے سے ہے آج کل وہ لاہور میں اقامت پذیر ہیں وہ ایف جی ماڈل اسکول وائس روڈ لاہور کینٹ میں پرنسپل ہیں اور انتظامی امور کا وسیع تر تجربہ رکھتی ہیں وہ ہر موضوع کو ایک خاص انداز میں دیکھتی اور سوچتی ہیں اس لیے اُن کے سوچنے کا انداز بھی اُن کی جودتِ طبع کی غمازی کرتا ہے آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’چہرے گلاب سیـ‘‘ کے تناظر میں منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ پیش کریں گے۔

وہ معاملات کو نجی اور سطحی زاویوں سے نہیں دیکھتیں اس لیے اُن کے کلام میں رفعتِ تخیل کا عنصر پایا جاتا ہے وہ غم کو آلہ مجذوبیت نہیں سمجھتیں بلکہ حزن و الم کے تقدس سے آشنا ہیں بقولِ راقم الحروف:

غموں نے مجھ کو امر کیا ہے

مرے دروں میں ہیں داغ روشن

اسی حوالے سے ایم زیڈ کنول کی سوچ کا زاویہ دیکھتے ہیں :

شبِ فراق جلائے ہیں یوں نظر کے چراغ

کہ داغ ہائے جگر بن گئے سحر کے چراغ

وہ محبت کو ایک پوتر جذبہ گردانتی ہیں اس لیے دنیائے رومان سے علاقہ رکھنے والا ہر فرد اُنھیں عزیز ہے اس حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے:

ہم نے اُس کو دل میں جگہ دی زہے نصیب

دیکھا ہے جس کا نام محبت کے باب میں

وہ محبت میں راسخ العقیدہ ہیں اور رجائی جذبات و احساسات کی حامل ہیں محبوب اُنھیں تمام تر زیادتیوں کے ہمراہ قابلِ قبول ہے وہ جفاؤں کو بھی وفاؤں کا رنگ دینے کی قائل ہیں کہیں بھی وہ آس اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتیں اُن کے جذبے اور اُمنگیں جوان اور سدا بہار ہیں اُن کی محبتوں میں ایک اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

وفاؤں میں یہ ہنر اختیار کرنا ہے

وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے

دنیا مصائب و آلام کی آماجگاہ ہے بے حسی اور نفسانفسی کی اجارہ داری ہے سماج خلوص و مروت کے جذبات کو سمجھنے سے عاری ہے انھیں خیالات کی ترجمانی ایم زیڈ کنول کی غزل کے دو اشعار میں قابلِ غور ہے:

وفورِ شوق میں اس کی جفا کو بھی وفا سمجھے

کہ ہر اک بات ظالم کی ادائے دلربا سمجھے

کوئی پُرساں نہیں اپنا الٰہی شہرِ خوباں میں

بھری بستی میں کوئی تو ہمارا مدعا سمجھے

وہ حزن و ملال سے نباہ کرنے کا فن جانتی ہیں اس لیے وفورِ غم اُنھیں پریشان و مضطرب نہیں کرتا انتہائی کرب انگیز صورتِ حال میں بھی وہ شاداں و فرحاں اور فاخر و نازاں نظر آتی ہیں یہ امر اُن کی بلند حوصلگی کا غماز ہے اور اُن کے زندہ دل ہونے کا جواز ہے۔

پہچانے جانے اور چاہے جانے کی آرزو فطری طور پر ہر انسان میں موجود ہوتی ہے یہی عوامل انسانی جدوجہد کا محور ہوتے ہیں۔ جن پر انسان اپنی سانسیں نچھاور کر دیتا ہے یہی خصائص انسان کی شناخت اور مقبولیت کا وسیلہ بنتے ہیں اسی نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں :

سسکیاں بھرتے ہوئے خونِ تمنا کی قسم

اپنے ہر داغ کو سینے پہ سجایا میں نے

مجھ کو پہچان سکے کوئی جہاں میں شاید

اسی امید پہ ہر سانس لُٹایا میں نے

اُن کے کلام میں مزاحمتی رویے بھی بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں وہ انقلاب کی متمنی ہیں سماج میں مثبت تبدیلی کی خواستگار ہیں معاشرے کے محروم طبقے سے اُنھیں ہمدردی ہے وہ دہشت زدہ ماحول میں پریشان و نالاں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ منزل کی متلاشی ہیں اور اُن کی منزل امن و آشتی ہے ذیل کے چار اشعار میں اُنھیں خیالات کی عکاسی ملتی ہے:

قاتل ہو تو سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے؟

منصف ہو تو انصاف دِلا کیوں نہیں دیتے؟

باطل کی ہوائیں بھی بجھا پائیں نہ جس کو

وہ مشعلِ ایمان جلا کیوں نہیں دیتے؟

ہیں چاروں طرف آج بھی بکھرے ہوئے لاشے

عیسیٰ ہو تو ’’قُم‘‘ کہہ کے اُٹھا کیوں نہیں دیتے؟

دم توڑتے ہونٹوں پہ فقط ایک دعا ہے

رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے؟

ایم زیڈ کنول کے کلام میں زندگی کے تلخ حقائق کا بیانِ ذیشان ہے اور اُن کے تخیل میں عصری شعور رچا بسا ہے اُن کے ہاں تلمیحی حوالے بھی ملتے ہیں اُن کے اسلوب میں ایک اپنائیت کا احساس ملتا ہے اُن کی شاعری کے مطالعے سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ اُن کی قوت متخیّلہ نادر النظیر تخیلات کی امین ہے ابھی انھوں نے بہت آگے جانا ہے دعا ہے کہ فکر و فن کے اس سفر میں اللہ تعالیٰ اُن کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

 

 

ایم زیڈ کنولؔ

 

 

چھین کر رات کا سکُوں مجھ سے

پھر صبح آ گئی مجھے ڈسنے

اُڑ گئے شاخوں سے طائِر بھی

شمع کی لَو بھی اب لگی بُجھنے

حُسن مقتل میں آ کے بیٹھ گیا

رقص کرتے ہوئے مِلے فِتنے

پھر محبت نے ایسی چال چلی

درد نے لِکھ لئے نئے نغمے

کہکشائیں لہو لہو روئیں

برف زاروں نے کھو دِئیے سپنے

آب زاروں کو خاک کر کے کنولؔ

مِری سانسوں میں آ گئے بسنے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مِرے وجود میں اُترا ہے استخارہ ابھی

میں مان جاؤں گی کہتا ہے اِستخارہ ابھی

وفا کے باب میں میرا بھی نام شامل ہے

مِرے عُدو نے نکالا ہے اِستخارہ ابھی

شِکستہ ماتھے کی شکنیں یہ سب سے کہتی ہیں

رِیاضتوں کا سِتارا ہے اِستخارہ ابھی

ابھی سے کٹ گئیں پاؤں کی بیڑیاں کیوں کر

ہوا کے دوش پہ رکھّا ہے اِستخارہ ابھی

سحَاب رات میں جلتا رہا مرا آنگن

درِ نجوم میں آیا ہے اِستخارہ ابھی

تمام خاروں کو بھر کے کنولؔ کی آنکھوں میں

یہ کِس نے آب کا لکھّا ہے اِستخارہ ابھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

میمونہ غزلؔ کا شعری کرب

 

 

حیات جذبات و احساسات اور کیفیات سے عبارت ہوتی ہے جس میں داخلی اور خارجی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں ذاتی اور معاشرتی حالات افکار کی سمت کا تعین کرتے ہیں تخلیق کار کی قوت متخیّلہ ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے فکر کو فن کے سانچے میں ڈھال کر ایک نیا رنگ اور آہنگ دیا جاتا ہے شاعر یا شاعرہ کا حزن و ملال غم و الم اور سوز و گداز اُس کے کربِ ذات سے علاقہ رکھتا ہے آج ہم میمونہ غزل کے  شعری کرب کے حوالے سے رقم طراز ہیں اس تناظر میں ان کے فکری و فنی تجزیے سے پہلے ان کی ذات و کائنات کا اجمالی تعارف ناگزیر ہے کیونکہ کسی بھی تخلیق یا فن پارے کے مصنف کو پرکھے بغیر اُس کی تنقید سے انصاف نہیں کیا جا سکتا دراصل ہر تصنیف اپنے مصنف کا پرتو ہوتی ہے جس سے اُس کی شخصیت جھلکتی ہے میمونہ غزل ریاست حیدرآباد دکن صوبہ اورنگ آباد ضلع پر بھنی میں اکتوبر 1925ء میں پیدا ہوئیں اُن کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا والدہ نے اُن کا نام میمونہ خاتون رکھا جو بچپن میں انتقال کر گئیں اُن کے والد سید عمر ترمذی ایک وکیل تھے جنھوں نے اُن کی پرورش اور تربیت کی شعور سنبھالتے ہی تعلیم و تعلم کی ابتدائی منازل طے کیں اُن کے والد زمیندار اور وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ عالمِ دین، شاعر، لیڈر اور صحافی بھی تھے وکالت کو انھوں نے پیشے کے طور پر اختیار نہیں کیا اُن کا مؤقف یہ تھا کہ قانون مظلوم کی حفاظت کے لیے بنا ہے اگر پیشہ بنا لوں تو ظالم اور مظلوم کا امتیاز باقی نہیں رہے گا وہ نواب بہادر یار جنگ کے قانونی مشیر اور بے تکلف دوست تھے۔ میمونہ غزل نے حیدرآباد دکن کے علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی 1960ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئیں ا ور کراچی میں اقامت پذیر ہوئیں اُن کے کلام میں ہجرت کا کرب پایا جاتا ہے دکن کی ادبی یادیں بھی اُن کے ہاں کروفر کے ساتھ موجود ہیں بقول اُن کے شادی کے بعد شاعری کا سلسلہ بڑی حد تک ختم ہو گیا والد کی شہادت اور گھر بار لٹنے کا کرب بھی اُن کے شعری تخیلات کا حصہ ہے اُن کے شعری مجموعہ ’’راس آئی تنہائی‘‘ اُن کے خود نوشت سوانحی تعارف میں اُن کی عائلی زندگی کے حوالے سے روشنی نہیں پڑتی اور نہ کسی خوشگواری اور ناخوشگواری کا مذکور ہے اُن کی بیٹی عائشہ شاہین کے تاثرات بھی اس حوالے سے خالی ہیں اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اُن کی خانگی زندگی دولتِ تمکنت سے محروم تھی جس کا باعث اُن کا ادبی سفر بھی ہوسکتا ہے بقولِ غضنفر عباس تنگوانی:

نہ مجھ پہ کوئی فرد نہ تعزیر ہے یارو

میں اپنے تخیل کی سزا کاٹ رہا ہوں

ہفتہ 6؍ جون 1987ء کو کراچی میں وہ شہناز مرگ سے ہم آغوش ہوئیں ہجرت کا دُکھ، گھر بار کے لُٹنے کا غم، سماجی اور معاشرتی پُر آشوب حالات اُن کے شعری کرب کا حصّہ ہیں اُن کے سوانحی حوالے سے یوں تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارا وّلین مقصد اُن کا فکری و فنی تجزیہ ہے۔

ہم اُن کے شعری مجموعہ اور ’’راس آئی تنہائی‘‘ ہی سے منتخب غزلیہ اشعار کو شامل تجزیہ کریں گے کتابِ ہٰذا اُن کی وفات کے بعد 1990ء اُن کے بیٹے سلیم احمد اور اُن کی بیٹی عائشہ شاہین کی کاوشوں کی بدولت زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئی۔

اُن کے شعری کرب میں غمِ تنہائی اور احساسِ خلوت بنیادی اہمیت رکھتا ہے جس کا اثر اُن کے اشعار میں جا بجا ملتا ہے۔ اُن کے ہاں غم کی لہر انتہائی تیز نظر آتی ہے اُن کا احساسِ تنہائی اُن کے ذاتی اور سماجی کرب کے باعث ہے اُن کے ہاں غم کے نقوش تیکھے اور بے حد گہرے ہیں اس حوالے سے اُن کی غزل کے تین اشعار ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں :

اپنی مسرت تنہا تنہا اور اپنا غم تنہا تنہا

ایک جھمیلا گرد ہمارے اور رہے ہم تنہا تنہا

ہنستے ہنستے رونے لگنا روتے روتے چپ ہو جانا

پہروں ہم پہ طاری رہتا ہے یہ عالم تنہا تنہا

دن تو گزارا جوں توں کر کے کالی ناگن آئی ڈسنے

کیسے بتائیں کیسے گزاری ہم نے شبِ غم تنہا تنہا

اسی حوالے سے اُن کی ایک ا ور غزل کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں :

راس آئی تنہائی عمر کی بسر تنہا

زندگی کی منزل کا طے ہوا سفر تنہا

کاٹنے کو آتا ہے آج میرا گلہ تنہا

دیکھ کر ڈراتے ہیں مجھ کو بام و در تنہا

دوست ہیں نہ دشمن ہیں غیر ہیں نہ اپنے ہیں

کس طرح ہو طئے آخر راہِ پُر خطر تنہا

اُن کی زندگی انتہائی کرب خیز اور درد انگیز تھی جو اُن کے فکر و فن میں ممد و معاون ثابت ہوئی جس سے اُن کے ہاں حزینہ شاعری وجود میں آئی اُن کی غزل صرف قافیے کے بل بوتے پر پروان نہیں چڑھی بلکہ اُن کا غم و سوز اور افکار کی گہرائی اور گیرائی اُن کی غزل کا تانا بانا بنتی ہے اُنھیں اُن کے حالات نے عالمِ مجذوبیت تک پہنچا دیا تھا جس کی گونج اُن کے اشعار میں نمایاں طور پر سنائی دیتی ہے اُن کی رودادِ حیات اُن کے افکار میں جلوہ افروز ہوتی ہے اُن کا کلام اُن کی خود نوشت سوانح عمری ہے اُن کا شعری کرب اُن کی قوتِ متخیّلہ کی کرشمہ کاری نہیں ہے بلکہ اُن کی زندگی سے متعلق حقائق کی نادرہ کاری ہے اُن کی ایک غزل کے تین اشعار اسی امر کے غمازی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں :

کوئی پوچھے جو میرا حال تو اتنا بتا دینا

بڑی ویران راہوں پہ نکل آیا ہے سودائی

حیاتِ حسرت ناکام کی پُر پیچ راہوں پر

کہاں ہے تیری منزل پوچھتی ہے تنہائی

اگر کھولی زباں میں نے وفا پہ حرف آئے گا

مجھے خاموش رہنے دو مری ہونے دو رسوائی

اُنھیں اُن کے مصائب و آلام نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا وہ خود سراپا سوال بن گئیں جس کا جواب اُنھیں عمر بھر نہیں مل سکا وہ غم و آلام کا مداوا چاہتی تھیں لیکن کبھی زندگی نے یاوری نہیں کی جس کا اُنھیں تا حیات قلق رہا اسی کی ترجمانی انھوں نے اپنی غزل کے مقطع میں کچھ یوں کی ہے:

تھی مسرت ہی مسرت تیرے چہرے سے عیاں

اے غزل یہ کیا ہوا کیوں بن گئی تصویرِ غم؟

ہمارے سماج کی ہر دور میں یہ ایک تلخ حقیقت رہی ہے وہ باصلاحیت ہستیوں کو اپنے پاؤں تلے روند دیتا ہے لیکن اُن کی فغاں لامتناہی بازگشت بن کر سنائی دیتی ہے اُسی بازگشت کو سُن کر ہم اُسے عظیم گردانتے ہیں کچھ ایسا ہی سانحہ میمونہ غزل کے ساتھ پیش آیا ہم صرف قحط الرجال کی شکایت کرتے ہیں ہم اپنی کج روی کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھتے اگر اربابِ فکر و دانش سے ہمارا یہی رویہ رہا تو میمونہ غزل جیسی عظیم المرتبت ہستیاں تمام عمر محو فغاں رہ کر سوئے عقبیٰ سدھارتی رہیں گی وفورِ غم و الم کے باعث انسانی فطرت حزن و ملال سے مانوس ہو جاتی ہے کیونکہ پھر یاس و حسرت شریکِ حیات بن جاتی ہے جس سے مانوسیت ایک فطری امر بن جاتا ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کا مطلع لائقِ التفات ہے۔

مطربہ! چھیڑ وہ غزل جس سے

درد بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا

بقولِ راقم الحروف:

مرے حزن کو استقامت ملے

غزل میرؔ کی اک سنا دیجیے

جب زیست کلبۂ رنج بن جائے جب حیات و مرگ میں حدِ فاصل نہ رہے جب سانسیں کٹاری بن جائیں اور تنفس اذیت بن جائے تو پھر موت زنجیروں کا روپ دھار لیتی ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کا مطلع درِ التفات پر دق الباب کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے:

موت اور زیست کی پہنے ہوئے زنجیریں دو

آتی جاتی ہوئی سانسیں ہوئیں شمشیریں دو

جب یاسیت اور قنوطیت کی جڑیں گہری ہو جائیں تو پھر رجائیت اپنی بساط سمیٹ کر فرو ہو جاتی ہے پھر انسان کو چار سو غم و آلام کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں پھر گلستاں بھی ویرانی کا منظر پیش کرتے ہیں گل رونق افروزی کی بجائے آتش فشانی کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں خارج و باطن میں ایک جیسا سماں دکھائی دیتا ہے پھر داخلی اور خارجی اظہار کی ایک سی کیفیت ہوتی ہے کچھ ایسا ہی منظر اُنھیں ہر طرف دکھائی دیتا ہے اپنی غزل کے ایک شعر میں وہ کچھ یوں گویا ہیں :

شور برپا ہے عنادل میں صفِ ماتم ہے

لگ گئی آگ گلوں سے ہی گلستانوں میں

ایک اور غزل میں وہ اپنے غم و آلام کا احاطہ کچھ یوں کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں :

زمانے بھر کے دُکھ بھی کچھ اس طرح ہم نے سمیٹے ہیں

کہ بس ہونے کو ہے یہ دامنِ دل تار تار اپنا

اُن کی تمام تر شاعری سراپا ملال ہے اُن کا شعری کرب انتہائی شدید نوعیت کا حامل ہے غم کی آنچ بے حد گہری ہے جو قاری کو محوِ حُزن ہونے پر مجبور کر دیتی ہے ذیل میں دئیے گئے اشعار اُن کے تخلیقی کرب کے غماز ہیں :

ہنستے ہوئے ملتے تو ہیں ہر ایک سے لیکن

پوچھا نہ کسی نے ہمیں ، کس حال میں ہم ہیں ؟

کس طرح چھپاؤں گی غزل حالتِ دل تم؟

گیسو ہی پریشاں نہیں آنکھیں بھی تو نم ہیں

آدمی سے آدمی کو خوف سا آنے لگا

ہائے یہ غم بھی مجھے رہ رہ کے تڑپانے لگا

زخم گہرے ہوتے ہوتے بن گئے ناسورجب

کب رہا احساسِ سوزش لطف سا آنے لگا؟

٭

اللہ اللہ زندگی کی یہ تلاطم خیزیاں

لاکھ طوفاں سے بچا ٹکرا گیا ساحل سے دل

نیم جاں کیوں چھوڑ کر صیاد رخصت ہو گیا؟

پوچھتا رہتا ہے بسمل دل سے اور بسمل سے دل

٭

رعنائی حیات بھی واپس نہ لائے گی

اب دور جا چکے ہیں بہت زندگی سے ہم

الغرض میمونہ غزل کا تمام تر کلام قبائے کرب و سوز اوڑھے ہوئے ہے اُن کے ہاں حزن و ملال کا ایک بحرِ بیکراں ہے جس میں ہر وقت جولانی اور طغیانی کی فضا قائم رہتی ہے وہ دکنی تہذیب کی پروردہ تھیں اُن کے اسلوب پر اس کے اثرات غالب ہیں اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو انھوں نے مفرد بحروں میں خامہ فرسائی کی ہے اور زحافات کا استعمال احسن طریقے سے کیا ہے اگرچہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن اُن کی شعری کاوشیں رہتی دنیا تک لائقِ صد تحسین و صد ستائش رہیں گی حزینہ شعری طبع کے حوالے سے وہ میر و فانی کی صف میں کھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں خدائے بزرگ و برتر اُن کے شعری سرمائے کو دولتِ دوام سے نوازے۔ (آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

 

میمونہ غزلؔ

 

 

کہاں ہے دل کو سکوں روح کو قرار ابھی؟

نہ جانے کس کا شبِ غم ہے انتظار ابھی؟

جو تھام لیتے تھے الفت سے دامنِ دل کو

گلوں کی بات تو کیا، یاد ہیں وہ خار ابھی

ہے وقت دامنِ دل کو نچوڑ لیں اپنے

کسی کی آنکھیں ہیں یاد میں اشکبار ابھی

بتا رہی ہیں یہ نیرنگیاں زمانے کی

’’زمانہ اور بھی پلٹے گا ایک بار ابھی‘‘

مرے چمن کی فضاؤ! اِدھر بھی آ جاؤ

بسی ہے دیدۂ گریاں میں وہ بہار ابھی

مرے چمن کے گلوں میں وفا کی ہے خوشبو

کلی کلی کی اداؤں میں ہے وقار ابھی

نہ چھیڑ آج بہار آفریں غزلؔ مطرب

ربابِ دل کا شکستہ ہے تار تار ابھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

غم انھیں کو نصیب ہوتے ہیں

زیست کے جو نقیب ہوتے ہیں

منزلِ شوق دور ہے لیکن

دل کے رستے قریب ہوتے ہیں

دولتِ دل نصیب ہو نہ جنہیں

وہ تونگر غریب ہوتے ہیں

ہم بھی پھولوں کے مستحق تھے کبھی

آج کانٹے نصیب ہوتے ہیں

دیکھیے اور دیکھیے یہ ستم

دشمنِ جاں حبیب ہوتے ہیں

دل فگاروں کو مسکرانے کے

چند لمحے نصیب ہوتے ہیں

بدلیاں غم کی پھر سے چھانے لگیں

پھر اندھیرے مہیب ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

حنا گلؔ فطرت کی شاعرہ

 

 

کسی فلسفی کا مقولہ ہے کہ دنیا کے تین کام زبردستی نہیں کیے جا سکتے وہ شاعری، موسیقی اور سخاوت ہیں۔ فطری طور پر اگر انسان کے اندر ان امور کی خصوصیات موجود نہ ہوں تو انسان سے نہیں ہو پاتے ہمارا سروکار صرف شاعری سے ہے شاعر بنائے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں۔ فطری خصائص کے ساتھ ساتھ کسبی کاوشیں فن کو جِلا بخشنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں طبعی طور پر پیدا ہونے والے جذبات و احساسات منظوم اور غیر منظوم دونوں طرح کے ہوتے ہیں اگر منظوم ہوں تو یہ شعری عمل آمد کہلاتا ہے اگر غیر منظوم ہوں تو اُنھیں شعری قالب میں ڈھالنے کی کاوش آورد کہلاتی ہے انسان کی اقلیمِ خرد پر جو غیر منظوم خیالات وارد ہوتے ہیں وہ اگرچہ فنی اعتبار سے غیر موزوں ہوتے ہیں لیکن ناموزوں نہیں ہوتے ہیں وہ فطری حسن سے مالامال ہوتے ہیں کچھ شعرا ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو فنی گورکھ دھندوں میں اتنا نہیں الجھاتے اس لئے اُن کا فن خام رہ جاتا ہے اور فکری میں ناپختگی رہ جاتی ہے اُن میں سنجیدگی کا فقدان ہوتا ہے وہ کلام کی فطری صباحت پر زور دیتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے حوالے سے کوئی معتبر تنقیدی رائے نہیں بنتی ہماری اس ساری تمہید کی غرض و غایت یہ ہے کہ فطری شاعر وہ ہوتا ہے جس کے افکار و خیالات فطری نوعیت کے ہوں اور فنی اسرار و رموز سے آگہی بھی ناگزیر ہے۔

ہم نے جب حنا گلؔ کی شاعری کا مطالعہ کیا تو ہمیں اُن میں فطری جذبات و احساسات نظر آئے ساتھ ساتھ فنی تلازمات بھی پائے اُن کی سوچیں حسین ہیں اور خیالات معصوم ہیں ہیئت کے اعتبار سے انھوں نے زیادہ تر غزلیں ، نثری نظمیں ا ور آزاد نظمیں کہی ہیں اگرچہ اُن کی غزل اپنے اندر دلچسپی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے لیکن وہ بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ ہیں کیونکہ انھوں نے غزل کی نسبت نظم میں وافر خامہ فرسائی کی ہے اس لئے نظم اُن کا بنیادی حوالہ ہے اور غزل ثانوی حوالے کے طور پر شامل ہے اُن کے شعری مجموعہ ’’سرحدیں محبت کی‘‘ کو بغور پڑھا جس سے ایک لطیف اور خوشگوار احساس نے جنم لیا جس نے اقلیم خرد پر حسیں اثرات مرتب کیے ہم اس شذرے میں اُن کی غزل کے منتخب اشعار اور نظم کے منتخب اقتباسات کا فکری و فنی تجزیہ کر رہے ہیں ہم سب سے پہلے غزلیہ اشعار کو زیرِ تجزیہ لاتے ہیں۔

بہت سارے فطری جذبات میں سے محبت ایک مرکزی جذبہ ہے جسے تمام افکار پر فوقیت حاصل ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے شدت وحدت حاصل ہے اور بھرپور تاثر سے مالامال ہے محبت مختلف کیفیات و واردات سے عبارت ہوتی ہے جن میں سے عالمِ ہجراں ایک ایسی صورتِ حال ہے جو سوز و گداز کی فضا پیدا کر دیتی ہے جہاں چار سُو اندھیرے ہوتے ہیں جہاں شبِ تیرہ کا راج ہوتا ہے جہاں راستے اوجھل ہوتے ہیں اور منزل کا دور دور تک نشاں نہیں ہوتا انسان پیار کے سمندر میں اُتر کر ساحل تلاش کرتا رہتا ہے وہ ساحل کیا ہے وہ قربِ محبوب ہے جس کی حسرت و طلب انسان کو بے چین اور مضطرب رکھتی ہے عشق حقیقی ہو یا مجازی، عاشق کو محوِ اضطراب رکھتا ہے گویا مسلسل عذاب راہِ عشق کا نصاب ہے بقول راقم الحروف:

جو الفتوں کے نصاب لکھے

عذاب ہی بس عذاب لکھے

پیت نگر میں میت کے بغیر پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں اور کہیں راستہ سجھائی نہیں دیتا آبلہ پائی کے اس سفر میں انسان کا تمام وجود زخمی ہو جاتا ہے انھی فطری امور کا مذکور حنا گلؔ کی زبانی اُن کی غزل کے تین اشعار میں کچھ یوں ہے:

چار سو اندھیرا ہے کچھ نظر نہیں آتا

کوئے یار اوجھل ہے در بدر ہوئے جاناں

پیار کے سمندر میں پاؤں میں نے رکھا ہے

ہے کہاں ، کدھر ساحل کچھ پتہ تو دے جاناں

لڑکھڑاتے پاؤں ہیں راستہ تو دے کوئی

جسم سارا گھائل ہے دیکھ آبلے جاناں

حنا گلؔ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے فنی تقاضوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا اور اپنے کلام کے فطری حسن کو بھی پامال نہیں ہونے دیا مذکورہ اشعار میں جہاں اسلوب کی سادگی ایک حسن پیدا کر رہی ہے وہاں اُن کے رومان پرور افکار بھی اپنی بہار دکھا رہے ہیں اُن کا کلام سراپا رومان ہے عشقیہ خیالات وفور کے ساتھ پائے جاتے ہیں جو جاذبیت کی دولت سے مالامال ہیں اور جو دل زدوں کے لیے مسیحائی کی نوید ہیں قلبی تسکین کا ایک ذریعہ ہیں۔

جہاں اُن کا سوز و گداز غمِ ہجراں کا نتیجہ ہے وہاں اُن کے ہاں کرب ذات بھی پایا جاتا ہے جہاں حزن و ملال کی آنچ انتہائی گہری دکھائی دیتی ہے اور انسان گوشہ نشینی پر مجبور ہو جاتا ہے اور اپنے حصارِ ذات سے خود کو رُستگاری نہیں دِلا پاتا اسی حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں :

حصارِ ذات میں ہم نے مقید خود کو کر ڈالا

ہم اپنے آپ کے قیدی اور دل ہیں جیل خانوں سے

اُن کے اکثر و بیشتر اشعار میں عشقیہ رنگ غآلب ہے اسی تناظر میں اُن کی غزل کے چار اشعار دیکھتے ہیں۔

کس طرح سے روکوں میں رُک نہیں پاتا؟

دل کے سب محاذوں پر پھیلتا ہی جاتا ہے

دل کے سب علاقوں پر اُس کی حکمرانی ہے

اس کے سب دریچوں میں وہ ہی مسکراتا ہے

اُس کے سب گھروندوں پر کام اُس کا جاری ہے

اک طرف بناتا ہے توڑتا بھی جاتا ہے

دل کے ایک کمرے میں اُس کا تخت شاہی ہے

بیٹھ کر وہ بادشاہ حکم بھی چلاتا ہے

اُن کا پیرائے اظہار بھرپور تاثر کا حامل ہے وہ دھیمے انداز میں بات نہیں کرتیں اُن کی آواز تندرست و توانا ہے۔ جو اپنے اندر بلا کی جاذبیت رکھتی ہے اور قاری اُس کے سحر میں کھو جاتا ہے یہی امر اُن کی مقبولیت اور کامیابی کا راز ہے اُن کی ایک غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں :

میرے گھر میں آ کے دیکھو کوئی آسماں نہیں ہے

میرے ساتھ ہے زمانہ کوئی راز داں نہیں

مجھے اُس سے تھی محبت مجھے اُس سے ہے محبت

میری چاہتوں پہ لیکن کوئی مہرباں نہیں ہے

نہ وہ دل کا سبز آنگن نہ وہ چاہتوں کی بارش

میں کھڑی ہوں بیچ صحرا کوئی سائباں نہیں ہے

اُن کے ہاں محبت کے حوالے سے ایک اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے اور انھیں اپنی محبت پر مان ہے جسے وہ ناقابلِ فراموش اور ناقابلِ شکست سمجھتی ہیں اُن کی غزل کا ایک تنہا شعر پیش خدمت ہے:

نہ جاؤ چھوڑ کر تنہا سُنو پچھتاؤ گے اک دن

میں اتنا یاد آؤں گی مجھے جتنا بھلاؤ گے

اب ہم اُن کی نظم کی نسبت بات چلاتے ہیں ان کی غزل کی نسبت نظم میں فکری وسعت زیادہ پائی جاتی ہے وہ اپنے موضوع سے متعلق تمام تر جزئیات زیرِ بحث لاتی ہیں اور خیالات کے درمیان ایک ربط و ضبط پایا جاتا ہے اُن کا اسلوب سادگی پر مبنی ہے جس میں بے ساختگی کا غالب عنصر پایا جاتا ہے اُن کے رویّے بے تکلفی کے رنگ کے حامل ہیں اُن کے ہاں محبت کے متنوع معاملات پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات اُن کے خیالات نادر النظیر ہوتے ہیں اُن کی ایک نظم کا ربع اوّل درِ التفات پر دق الباب کر رہا ہے۔ ملاحظہ کریں۔

کسی بگڑے ہوئے بچے کی صورت

محبت روٹھ کر بیٹھی ہوئی ہے

کھلونا بستر یہی لینا ہے مجھ کو

وگرنہ کچھ نہیں لینا

کھلونا قیمتی تو ہے

مگر وہ دام رکھتا ہے

کھلونا مل ہی جائے گا

کسی ننھے شگوفے کو

خریدیں کیسے چاہت کو ؟

کسی انساں کی قربت کو

اُن کے فکر و فن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انتہائی سادہ الفاظ میں گہری رمز کی بات کر جاتی ہیں جو قاری کو کافی دیر تک مبتلائے حیرت و استعجاب رکھتی ہے اُن کی نظموں میں اپنائیت کا ایک بھرپور تاثر پایا جاتا ہے جو قاری کا دل موہ لیتا ہے اُن کی ایک اور نظم لائق توجہ ہے:

درد کے سمندر میں

پاؤں رکھنے والوں کو

کب خبر یہ ہوتی ہے؟

یہ کہاں تک گہرا ہے؟

کس قدر یہ کھارا ہے؟

درد تو سمندر ہے

اور اس میں زخموں کے

بے شمار موتی ہیں

بے حساب کانٹے ہیں

زخم زخم یادوں کے

ان گنت جزیرے ہیں

درد کے سمندر میں

پاؤں رکھنے والوں کو

کب خبر یہ ہوتی ہے ؟

لوٹ کر نہیں جانا

صرف ڈوب جانا ہے

اُن کے ہاں زندگی کے تلخ حقائق اور تجربات بھی ہیں جن کا وہ برملا اظہار کرتی ہیں اور ہر بات کو خوب کھول کھول کر بیان کرتی ہیں وہ ابلاغ پر زور دیتی ہیں انھیں علامتی شاعری مرغوب نہیں ہے اس لیے وہ اشاروں اور کنائیوں میں بات نہیں کرتیں نہ ہی مشکل تشبیہات و ترکیبات اور استعارات کا سہارا لیتی ہیں اُن کی نظم ’’محبت آزمائش ہے‘‘ قابلِ غور ہے:

محبت آزمائش ہے

کبھی ہم نے یہ سوچا ہے

سفر پہ ساتھ نکلیں گے

کبھی تتلی کو پکڑیں گے

کبھی جگنو کو ڈھونڈیں گے

ہماری چاہ ننھی سی

کبھی ہم نے نہ سوچا تھا

سفر یہ ساتھ چھوڑے گا

بنیں گے ہم پرائے سے

محبت آزمائش ہے

اُن کا اندازِ بیاں استدلالی نوعیت کا ہے اس لیے اُن کا اظہار مبنی بر حقیقت نظر آتا ہے وہ جو بھی بات کرتی ہیں بڑے اعتماد کی فضا میں کرتی ہیں۔ کہیں بھی لہجہ تھرتھراتا نہیں ہے اور نہ اُن کی زبان رُکتی نظر آتی ہے نظم ’’خواب اور خوشبو‘‘ کا ابتدائیہ نذرِ قارئین ہے:

کیا تم خوشبو باندھ سکو گے؟

یا پھر اس کو قید کرو گے

خواب اور خوشبو قید نہ ہوں

پھرتے ہیں آوارہ یہ

کس کو ڈھونڈنے نکلے ہیں ؟

خواب اور خوشبو ساتھ مرے

حنا گلؔ کے شعری تخیل میں اُن کی زندگی کے تجربات و مشاہدات کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے ایک خود کلامی ہے ایک خود آموزی ہے جو دوسروں کے لیے اکتسابِ فیض کا سامان رکھتی ہے اس سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر اُن کی نظم ’’مشورہ‘‘ اربابِ ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہے:

کسی کے ساتھ چلنے میں

کسی کو سنگ کرنے میں

ذرا ٹھہرو ذرا سوچو

کہاں تک چل سکو گے تم

ہے کتنا حوصلہ اُس کا؟

تمہیں گر ساتھ چلنا ہے

اور اُس کو ساتھ کرنا ہے

سفر پہ ساتھ وہ چھوڑے

گلہ اُس سے نہ کرنا تم

کہ اکثر ایسا ہوتا ہے

جو لگتا ہے بہت پیارا

وہی دھوکہ بھی دیتا ہے

بڑھا کے ہاتھ چاہت کا

سفر پہ چھوڑ جاتا ہے

مذکورہ تصریحات کے علی الرغم یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ حنا گلؔ ایک فطری شاعرہ ہے اُن کے کلام میں روایت کا عکس واضح طور پر دکھائی دیتا ہے وہ خالص جذبوں کی امین ہیں جس میں بناوٹ اور تصنع جیسی آلائشوں کی گنجائش قطعاً نہیں ہے اگر اسی تواتر سے اُن کی مشاطگی عروسِ سخن جاری رہی تو اُن کے کلام میں مزید نکھار پیدا ہو گا ابھی اُن کے فکر و فن کو کافی ریاضت کی ضرورت ہے۔ خدائے سخن سے التماس ہے کہ انھیں فزوں تر شعری بلاغت اور بالیدگی سے ہمکنار کر دے۔ (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

 

حنا گلؔ

 

لے کر تکیہ درد کا آنسو رو جاتی ہیں

آنکھیں وصل کا سپنا لے کر سو جاتی ہیں

ہجر کی گود میں جن کا بیتے جوبن تو

مٹیاریں جلدی وہ بوڑھی ہو جاتی ہیں

دیکھتی ہیں جب پیار سے مجھ کو آنکھیں تیری

شکوے شکایت دل سے پل میں دھو جاتی ہیں

بارشیں اس کے رحم کی جب بھی برسیں تو

دل دھرتی پر آس امیدیں بو جاتی ہیں

انساں ہوں میں اور میں بھی خطا کا پتلا ہوں

انجانے میں دیکھ خطائیں ہو جاتی ہیں

خواب جنہیں آباد بہت دن رکھتے ہیں

آنکھیں وہ اک دن بنجر ہو جاتی ہیں

کھیل کھلونے چھوڑ کے سارے آنگن میں

بیٹیاں گھر سے کیوں رخصت ہو جاتی ہیں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

رائیگانی میں رائیگانی تھی

زندگی پھر جاودانی تھی

اور تو کچھ نہیں تھا کاغذ پر

لفظ میرے تری کہانی تھی

آئینے بھی بدل کے دیکھے ہیں

ان میں صورت وہی پرانی تھی

کچھ دیے آس کے بھی جلتے رہے

شام ہجراں بڑی سیانی تھی

شعر لکھے تھے میں نے کاغذ پر

دولتِ درد تو لٹانی تھی

اس پہ قربان کیوں نہیں کر دی؟

جان ویسے بھی تو یہ جانی تھی

شہر دل میں ہزار چہرے تھے

ہاں مگر تیری حکمرانی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

ثمینہ گلؔ جاگتے جذبوں کی شاعرہ

 

 

خدائے لم یزل نے صرف بنی نوع انساں کو خلق نہیں فرمایا بلکہ اسے مختلف حسیات و جذبات سے بھی نوازا ہے یہی احساسات، رویہ سازی، شخصیت کے ارتقا اور فکری مزاج کے آئینہ دار ہوتے ہیں شاعر یا تخلیق کار کی قوتِ متخیلہ اُس کے جذبوں اور نظریوں کی امین ہوتی ہے اور اُس کے افکار اُس کی پہچان بنتے ہیں جذبات اپنی فکر یا اسلوبِ نگارش کی بدولت لمحاتی یا دیرپا قرار پاتے ہیں لاشعور اور شعور میں صداقتوں کی آمیزش ہو تو خلوص کی چاشنی جذبوں کو امر کرنے پر قادر ہوتی ہے بہت سے شعراء و شاعرات اپنے کلام میں روایتی افکار کو روایتی طرزِ اظہار سے آشکار کرتے رہتے ہیں جو اُن کی ادبی بقا کے ضامن نہیں ہوتے لیکن کچھ شعراء و شاعرات اپنے تخیل میں جذبوں کی سچائی کے علمبردار ہوتے ہیں اُن کے تخیلات دیرپا اور جاگتے جگمگاتے نظر آتے ہیں انہیں معدودے چند ہستیوں میں ایک نام ثمینہ گل کا بھی ہے جنہوں نے اپنے جذبوں کی جاذبیت کی بدولت مقبولیت پائی ان کے فکری کینوس میں جہاں حمد و نعت کا قرینہ ہے وہاں حب الامام بھی ایک نگینہ ہے حب الوطنی کا شعور اور اس کے اظہار کا سلیقہ بھی ہے رومان کی ایک روح پرور فضا اپنی بہار دکھا رہی ہے اُن کی فکر کے دامن میں جہاں بہت سی شعری اصناف ہیں وہاں مختلف موضوعات بھی ہیں آج کے شذرے میں ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’آنچل کی اوٹ سے‘‘ کے تناظر میں اُن کی غزلیات کے منتخب اشعار اور اقتباسات کی روشنی میں فکری و فنی تجزیہ پیش کرنے کی جسارت کریں گے مجموعہ ہٰذا کا نام جہاں ایک نسوانی احساس کا پہلو رکھتا ہے وہاں شعور و آگہی بھی خود میں سموئے ہوئے ہے۔

لیجیے رومانیت سے لبریز ایک پوری غزل ملاحظہ کریں    ؎

محبت کے سبھی جذبے تمہارے نام کرتی ہوں

وفا کے دلنشیں قصے تمہارے نام کرتی ہوں

سجایا ہے جنہیں میں نے محبت کے گلابوں سے

تر و تازہ وہ گلدستے تمہارے نام کرتی ہوں

لیے دامن میں خوشبو پیار کی بادل جو برسے گا

وہ ساون کے حسیں لمحے تمہارے نام کرتی ہوں

تمہیں جی میں بسایا ہے تمہیں اپنا بنایا ہے

میں اپنی ذات کے حصے تمہارے نام کرتی ہوں

کہا گلؔ نے عقیدت سے وطن کی چوم کر مٹی

میں اپنے چاند سے بیٹے تمہارے نام کرتی ہوں

غزلِ ہٰذا ایک مسلسل غزل ہے جس میں رومانی احساسات کی جزئیات کا ورود ہوا ہے صرف مقطع کا موضوع جداگانہ ہے ان کی غزل کی خوبی یہ ہے کہ اس میں رومان کا بھرپور تاثر پایا جاتا ہے محبت کے جذبات کا وفور ہوتا ہے ان کی غزل تکمیل کے لیے کسی اور موضوع کی متقاضی ہوتی ہے تاہم محبت کا رنگ چوکھا رہتا ہے اس مقطع کے علاوہ تمام اشعار کا انتساب محبوبِ دلنواز کے نام کیا گیا ہے جب کہ مقطع کا انتساب وطن کی مٹی کے نام کیا گیا ہے جو حب الوطنی کا دلکش حوالہ ہے اس غزل میں ایک اور وصف جو نمایاں طور پر سامنے آیا ہے وہ شاعرہ کا احساسِ طرب ہے جس نے غزل کو خوشگواری عطا کی ہے۔ ایک اور غزل کا مطلع اور ایک شعر پیشِ خدمت ہے   ؎

جینا سکھا دیا ہے جدائی کی آگ نے

کندن بنا دیا ہے جدائی کی آگ نے

آنکھوں سے میری ضبط کے چشمے اُبل پڑے

اتنا رُلا دیا ہے جدائی کی آگ نے

قارئین کرام اصل میں یہ پوری غزل سراپا سوزوگداز ہے لیکن طولِ بیاں کے خوف سے ہم نے دو اشعار آپ کی نذر کیے ہیں غزل کی ردیف ندرت آمیز اور جاذبِ نظر ہے جس نے اشعار کو ایک سوگواری کا احساس بخشا ہے مطلع میں وہ کہتی ہیں کہ جدائی کی آگ کی بدولت میں نے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے اور میں اسی جدائی کی بھٹی میں جل جل کر یوں کندن ہو گئی ہوں جیسے سونا آگ کی بھٹی میں جل کر کندن ہو جاتا ہے کندن کی تشبیہ فکر و نظر کو خیرہ کر رہی ہے دوسرے شعر میں وہ یوں گویا ہیں کہ میرے نینوں سے نیر چشموں کی صورت ابل پڑے یوں لگا جیسے ضبط چشمے آپے سے باہر آ گئے ہوں اصل میں اس کیفیت کا پیش خیمہ جدائی کی آگ اور سوزوگداز ہے جو محبوبِ دل نواز کے ہجر کی عطا ہے آنکھوں سے ضبط کے چشموں کا اُبلنا صنعتِ مبالغہ کا بہترین مظہر ہے جس سے وفورِ جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایک اور غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

تمہاری ذات سے انکار ہو کب مجھ میں ہمت ہے؟

تمہاری ہاں میں ہاں رکھوں یہی میری عبادت ہے

تمہارے واسطے ہی تو سب اپنے چھوڑ آئی ہوں

مجھے اپنا بنا رکھنا یہی منت سماجت ہے

ثمینہ گلؔ کی شاعری میں جہاں موضوعات و اصناف کا تنوع ہے وہاں رومانی جذبات و احساسات بھی وفور سے پائے جاتے ہیں مطلع میں وہ کہتی ہیں کہ اسے میرے محبوبِ دلنشیں تمہاری ذات سے انکار کی مجھ میں جسارت نہیں ہے یہ کیفیت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب محبت کو استحکام میسر آتا ہے جو محبت کے تقدس پر دال ہے دوسرے مصرع کی مناسبت سے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے   ؎

اب وفا میں یہی ہنر اختیار کرنا ہے

وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے

اُن کی شاعری میں جہاں محبت کے حامل خیالات کثرت سے پائے جاتے ہیں وہاں ان میں ایک احساسِ نسواں بھی آشکار ہوتا ہے دوسرا شعر بھی اسی تناظر میں ہے جیسے ایک دلہن بیاہ کر اپنے پیا کے گھر جاتی ہے تو پھر اس کا اپنے دل کے راجا سے یہی تکلم ہوتا ہے کہ میں تمہاری خاطر اپنے والدین، بہن، بھائی، عزیز و اقارب اور اپنی سکھیوں کو چھوڑ کر آئی ہوں اور میری التجا بھی یہی ہے کہ مجھے اپنا بنائے رکھنا میں یہی منت سماجت کرتی ہوں کہ کہیں مجھ کو ٹھکرا نہ دینا اس قسم کے خیالات اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ایک ناری کو نئے گھر میں بہت سے خدشات کا سامنا ہوتا ہے اہلِ خانہ خاوند کے روئیوں اور سلوک کی کوئی تسلی نہیں ہوتی تب یہ خیالات من میں اُجاگر ہوتے ہیں۔

اسی غزل کے ایک اور شعر میں ان کی طرف سے یقینا دہانی کا انداز دیکھیں    ؎

یہ مانا تو مرے دل میں بسا ہے پیار کی صورت

تجھے میں بھول جاؤں یہ کہاں میری دیانت ہے؟

غزل کے چار اشعار بابِ التفات پر دق الباب کر رہے ہیں   ؎

من کا رشتہ سچا ہے اور صدیوں ساتھ نبھائے گا

تن کا رشتہ جھوٹا ہے جو مٹی میں مل جائے گا

دل میں اب تک آس یہی ہے مجھ سے روٹھنے والا پھر

میری زلفیں ہاتھ سے اپنے آ کر خود سلجھائے گا

اہل نظر کی مجھ پر نظر ہے لفظ میری پہچان بنے

بات جو میرے منہ سے نکلی وقت اُسے دہرائے گا

سات سمندر پار چلا جا بات مری پر یاد رہے

گلشن کو تو بھول بھی جائے گلؔ کو بھول نہ پائے گا

ثمینہ گلؔ کا شعری شعور جاگتے جذبوں کا امین ہے یہ جذبات و احساسات زمان و مکان کی قیود سے مبرا و ماورا ہیں ان کے جذبے سدابہار نوعیت کے حامل ہیں ان کا کلام تاثر کی دولت سے مالا مال ہے یہی کیفیت ان اشعار میں بھی جلوہ افروز ہو رہی ہے پہلے شعر کے پہلے مصرع میں محبت کا روحانی پہلو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو کہ خود میں تقدّس کی سعادت رکھتا ہے وہ گویا ہیں کہ من کے رشتے لازوال اور صدیوں پر محیط ہوتے ہیں جب کہ تن کا رشتہ بے ثبات ہے جو دوام سے محروم ہے کیونکہ جلد فنا ہو کر مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے دوسرے شعر میں محبت کی عمومی ادا کا مذکور ہے جسے احسن اور خوبصورت قرینے سے بیان کیا گیا ہے وہ کہتی ہیں کہ دل میں میرے اب یہی آس ہے کہ میرا پیار مجھ سے روٹھ گیا ہے لوٹ کر پھر آئے گا اور میری زلفوں کو اپنے ہاتھوں سے سلجھائے گا ہاتھوں سے زلفیں سلجھانا راہِ محبت کی عمومی ادا ہے تیسرے شعر میں ایک شاعرانہ تعلی لائی گئی ہے وہ کہتی ہیں کہ اہل نظر یعنی اہل خرد کی مجھ پر نظر ہے اور لفظ میری پہچان بنے ہیں اور میرا فن ایک داستان کی صورت اختیار کر گیا ہے جس کی بدولت سماج مجھے نگاہِ استحسان سے دیکھتا ہے مجھے یقینِ واثق ہے کہ میری فکر اور میرا فن امر ہو گا اور زمانہ اسے دہرائے گا اقلیمِ شعر و سخن میں شاعرانہ تعلی کا جواز یہ ہے کہ اپنے فکر و فن کا ادراک سب سے پہلے شاعر کو ہوتا ہے جس کا اظہار اس کی فکری و فنی بصارت و بساط کو جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے چوتھے شعر میں وہ اپنے محبوب دلفریب سے گویا ہیں کہ تو اگر سات سمندر پار بھی چلا جائے لیکن میری بات یاد رکھنا کہ تمہیں میری یاد ضرور آئے گی مصرع ثانی میں انہوں نے اپنے تخلص کی رعایت سے کام لیا ہے اور اسے انتہائی قرینے سے خصوصی مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے۔

شعورِ حیات کے حامل تین اشعار دعوتِ غور دے رہے ہیں    ؎

مقدر آزمانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

مرادیں دل کی پانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

محبت زندگی میں گو بڑی مشکل سے ملتی ہے

مگر اس کو نبھانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

کوئی پوچھے تو اکر بے بسی تنخواہ داروں کی

مکاں جن کو بنانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

مذکورہ اشعار میں ایک عمیق تہذیبی فکر کار فرما ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے اُن کے احساس کی جڑیں اُن کی روح میں پیوست ہیں ایک گہرا سماجی شعور کارفرما ہے اسلوب اور فکر جاذبیت کے حامل ہیں مصرعوں کی نشست و برخاست فنی ادراک کا پتا دیتی ہے جس سے ان کی فنی بلوغت کی دلیل ملتی ہے مطالعے کے دوران کہیں قاری کی دلچسپی کا دامن میلا نہیں ہو پاتا الفاظ کے انتخاب میں بھی وہ خاصی مہارت رکھتی ہیں اُن کے الفاظ میں رد و بدل کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے شعرِ اول میں وہ کہتی ہیں کہ اپنے مقدر کو آزمانے میں زندگی بیت جاتی ہے زمانے گزر جاتے ہیں دل کی مرادیں پانے میں بھی ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے شعرِ دوم میں ایک رومانی شعور کارفرما ہے کہ زندگی میں محبت بڑی مشکل سے ملتی ہے لیکن اس کو نبھانے میں صدیاں بیت جاتی ہیں شعرِ ثالث میں ایک معاشرتی اور معاشی شعور جلوہ افروز ہو رہا ہے جس میں بے کسی کا اظہار پرسوز اور دلکش پیرائے میں کیا گیا ہے جس میں درمیانے طبقے کی معاشرت کا کرب بیان کیا گیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو اپنا مکان جسے کٹیا کہنا زیادہ مناسب ہو گا بنانے میں زمانے بیت جاتے ہیں اس شعر سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ وہ حقیقی زندگی کا وسیع ادراک اور مشاہدہ رکھتی ہیں۔

اب ان کی غزل کے مطلع اور ایک شعر میں رجائی انداز ملاحظہ کریں   ؎

روشنی کی آرزو میں دل جلانا سیکھیے

سوکھے پتوں سے خزاں میں جب بجے پازیب سی

دل کے بربط پر خوشی سے گنگنانا سیکھیے

اُن کے فکری کینوس میں جہاں خوشی و غم حیرت و حسرت کے موضوعات موجود ہیں وہاں یاسیت و قنوطیت کی تیرگی کو چاک کرنے والی اور نگاہوں کو خیرہ کرنے والی رجائیت بھی موجود ہے یہی کیفیت ان دو اشعار میں پائی جاتی ہے مطلع میں وہ کہتی ہیں کہ روشنی کی تمنا کی خاطر اپنے دل کو جلانے کا ہنر سیکھیں اور اپنی ظلمت زدہ راہوں سے تیرگی کو مٹانے کا وطیرہ اپنائیں شعرِ ہٰذا میں موصوفہ نے کامیاب زندگی گزارنے کے گروں کی آموزگاری کی ہے دوسرے شعر میں رجائیت کی جڑیں پر زور انداز میں پھوٹ رہی ہیں پہلے مصرع میں ایک انتہائی سوگوار بات کر کے دوسرے مصرع میں اس کے برعکس انتہائی خوشگوار امر کا جواز پیش کیا ہے رجائی حوالے سے بھی ان کا کلام قاری کے لیے دلچسپی کا حامل ہے اس شعر میں نادر تشبیہ اور استعارہ لایا گیا ہے پہلے مصرع میں پازیب جبکہ دوسرے مصرع میں بربط بیان میں دلکشی پیدا کر رہے ہیں کہ جب موسمِ خزاں ہو اور سوکھے پتے پازیب کی مثل بجیں پھر دل کے بربط پر خوشی سے گنگنانا سیکھیں مقصد و مدعا یہی ہے کہ جب غم و آلام کے بادل منڈلا رہے ہوں یاسیت و قنوطیت کی جڑیں تقویت پکڑ رہی ہوں ایسے عالم میں بھی مسرت و شادمانی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے ان اشعار سے یہ امر آشکار ہوتا ہے کہ اُن کا فکر و فن محض الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں اور نہ ہی تفننِ طبع کے لیے بلکہ تاثیر کا لا انتہا سمندر ہے جس میں قاری غوطہ کھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔

یہ تو اُن کی شعری ریاضت کی چند جھلکیاں تھیں جو ہم نے قاری پر آشکار کرنے کی جسارت کی ان کے علاوہ بہت سے اشعار ہیں جو پیش کیے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں اصل میں ان کی غزل بھرپور تاثر کی حامل ہے تغزل جس کا نمایاں وصف ہے اُن کی غزل قاری کو مجبوراً مائل بہ التفات کرتی ہے اور قاری اعراض برتنے سے قاصر ہوتا ہے ان کے اشعار گنجِ جاذبیت ہیں اور تاثیر کی دولت سے لبریز ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ثمینہ گلؔ

 

 

غم دکھ درد اور جان اٹھائے پھرتے ہیں

اشکوں کا سامان اٹھائے پھرتے ہیں

من کا آنگن سونا ہے تنہائی ہے

صدیوں سے ویران اٹھائے پھرتے ہیں

پل میں ملیامیٹ کریں ہم دشمن کو

ایسا ہم طوفان اٹھائے پھرتے ہیں

اپنی بات میں جھوٹی قسمیں کھا کر وہ

ہاتھوں میں قرآن اٹھائے پھرتے ہیں

کر کے جھوٹا سودا اپنے سر کا یہ

دل سے یہ ایمان اٹھائے پھرتے ہیں

چاند ستارے دھرتی پر بھی اگ آئیں

کیسا یہ ارمان اٹھائے پھرتے ہیں ؟

رنگ و بو میں جس کا نہ کوئی ثانی ہو

ایسا ہم گلدان اٹھائے پھرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رہِ حیات پہ چلنا تمہیں سکھا دیں گی

’’یہ لغزشیں ہی سنبھلنا تمہیں سکھا دیں گی‘‘

یہ بحرِ رنج و الم شور کر رہا ہے تو کیا؟

یہ تند موجیں ابھرنا تمہیں سکھا دیں گی

ہے مشورہ کہ بہاروں سے دوستی کر لو

گلوں کی طرح مہکنا تمہیں سکھا دیں گی

تم اپنے دستِ مشقت میں بجلیاں لے لو

اندھیری شب سے نکلنا تمہیں سکھا دیں گی

بلند کوہ کی مانند ہیں وہی موجیں

سمندروں میں اُترنا تمہیں سکھا دیں گی

ہے انتظار بہاروں کا کیوں چمن زارو؟

ثمینہ گلؔ ہی مہکنا تمہیں سکھا دیں گی

٭٭٭

 

 

 

 

فرزانہ جاناںؔ  ایک رومان پرور شاعرہ

 

 

لفظ انسان عبارت ہے اُنس، پیار، موانست، چاہت، محبت اور پریم سے یہ ایک فطری جذبہ ہے جو پیکرِ خاکی کو ودیعت کیا گیا ہے اس جذبے کی پاسداری میں جو شبد معاون ثابت ہوتے ہیں وہ نکات زریں افتخارِ ادب قرار پاتے ہیں اقلیم شعر و سخن انہیں کی بدولت مالا مال ہے بے شمار شعرا و شاعرات نے اپنی نگارشات میں اس جذبے کی پیوند کاری کی ان میں  فرزانہ جاناں کا نامِ نامی ممتاز و منفرد مقام رکھتا ہے اُن کا ایک شعری مجموعہ جو کہ ’’بزمِ جاناں ‘‘ سے معنون ہے 2009ء میں زیر طباعت سے آراستہ ہوا اُن کی شعری ریاضت مسلسل جاری رہی اور اپنی کشیدِ جاں سے ’’خواب زندہ ہیں ‘‘ کے نام سے 2011ء میں دوسرا مجموعۂ کلام قارئین شعر و سخن کو مہیا کیا ’’بزمِ جاناں ‘‘ سے ’’خواب زندہ ہیں ‘‘ تک کا شعری ارتقا کا سفر اُن کی مشاطگی فن کا غماز ہے آج ہم اُن کے انہی شعری مجموعوں کے تناظر میں رومان جو اُن کی شاعری کا مستقل و توانا حوالہ ہے اُس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم سب سے پہلے اُن کے اولین مجموعۂ کلام اور بزمِ جاناں سے اُن کی شاعری کے مستقل حوالہ کو آشکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیجیے جاناں کے پہلے شعری مجموعہ کی اولین غزل ملاحظہ کیجیے    ؎

دوست کا اعتبار کرنا ہے

ہجر میں انتظار کرنا ہے

زیست میں مشکلیں تو آتی ہیں

پھر بھی ہنس ہنس کے پیار کرنا ہے

منتظر ہوں تمہاری آمد کی

شام کو خوشگوار کرنا ہے

زندگی میں رہی خزاں ہر دم

آ کے تم نے بہار کرنا ہے

جتنی مایوسیوں نے گھیرا ہے

میں نے اُن کو شمار کرنا ہے

مجھ کو تو اس سے ہو چکا جاناںؔ

اُس نے کب مجھ سے پیار کرنا ہے؟

قارئین کرام آپ نے مشاہدہ کیا کہ جاناں نے کتنی خوبصورتی سے چھ اشعار کی اس غزل میں انتہائی سادگی سے محبت کی عمومی کیفیات کا برملا اظہار کیا ہے شعرِ اول میں وہ اعتبار اور امید کا درس دے رہی ہیں اور نہایت ہی پر عزم انداز میں فرما رہی ہیں کہ دوست کا اعتبار کرنا ہے کیونکہ دوستی اعتبار سے عبارت ہوا کرتی ہے جب اعتبار معدوم ہو جاتا ہے تو پھر دوستی گریز پا ہو جاتی ہے ہجر عاشق کی سیہ بختی سے موسوم کیا جاتا ہے اس کی پر وحشت کیفیات میں بھی اپنے محبوب کا انتظار کرنا چاہیے شعر دوم میں وہ کہتی ہیں کہ جیون کٹھنائیوں اور اوکھائیوں سے عبارت ہے لیکن ان مشکلوں میں پریشان و مضطرب نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہنس ہنس کر رومان پروری کرنی چاہیے اس شعر میں ایک عزمِ صمیم کا اظہار بھی ہے اور زندگی کا وقار بھی ہے شعرِ سوم میں انتظارِ جاناں کی عکاسی ہے اور شام کو خوشگوار کرنے کا ولولہ بھی ہے انتظارِ آمد کے ساتھ شامِ خوشگوار کا اظہار بہت ہی دلفریب تصور ہے شعرِ چہارم میں جہاں شومیِ قسمت کا تذکرہ ہے وہاں بہار کی نویدِ سعید بھی ہے اور شعر میں صنعتِ تضاد کا فطری التزام ہے شعرِ پنجم میں مایوسیوں کے گھیراؤ کا منظر بھی ہے اور انہیں شمار کرنے کا ارادہ بھی ہے شعرِ آخر کے مصرع اول میں اعترافِ محبت کا بیانِ ذیشان بھی ہے اور ایک وشواس بھی ہے کہ کیا خبر کب اُس نے مجھے پیار کرنا ہے مجموعی طور پر پوری غزل رومانیت سے لبریز ہے۔

اب اُن کی دوسری غزل کی طرف بڑھتے ہیں جو دامنِ التفات کھینچ رہی ہے    ؎

آواز دے کے مجھ کو بلایا تھا کس لیے؟

ہاتھوں میں لے کے ہاتھ دبایا تھا کس لیے؟

ترکِ تعلقات ہی مقصود تھے اگر!

اے دوست دل کو دل سے لگایا تھا کس لیے؟

رستے میں چھوڑ کر مجھے جانا تھا گر تجھے!

راہِ وفا پہ گام بڑھایا تھا کس لیے؟

اب منع کر رہے ہو صنم پوجنے سے تم

پتھر کا تم نے خود کو بنایا تھا کس لیے؟

آپ نے دیکھا اُن کی یہ غزل سراپا رومانیت ہے انتہائی سادگی سے معاملاتِ عشق و الفت کا سلاست کے پیرائے میں اظہار کیا جا رہا ہے ان کے قاری کو لغت ملاحظہ کرنے کا تکلف نہیں کرنا پڑتا عام آدمی بھی ان کے جذبات و احساسات و فرمودات سے آسانی سے آشنا ہوسکتا ہے پہلے شعر میں یہ فرمایا گیا ہے محبوب سے تخاطب ہے کہ آپ نے مجھے آواز دے کر کس لیے بلایا تھا اور پھر اپنے ہاتھوں میں میرے ہاتھ کو کس لیے دبایا تھا اگر آپ نے مجھ سے پیار نہیں کرنا تھا تو سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی ہاتھوں میں ہاتھ کو دبا نا یہ بھی راہِ الفت کی ایک عمومی ادا ہے دوسرے شعر میں ترکِ تعلقات کی بات کی گئی ہے محبوب سے واشگاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ آپ کا مقصد اگر ترکِ تعلقات پر منتج تھا تو پھر آپ نے اپنے دل کو میرے دل سے کس لیے لگایا تھا اس غزل میں ردیف ’’کس لیے‘‘ ایک دلچسپ ندرت پیدا کر رہی ہے جو اُن کی جودت طبع کی غماز ہے تمام غزل میں ایک استفسار کا انداز پایا جاتا ہے تیسرے شعر میں محبوبِ دلنواز سے یہ پوچھ گُچھ کی جا رہی ہے کہ اگر آپ نے مجھے بیچ منجدھار کے چھوڑ کے جانا ہی تھا تو الفت کی اس ڈگر پر قدم کیوں رکھا چوتھے شعر میں یہ عکاسی موجود ہے کہ محبوبِ دلفریب بات بات پر بگڑ جاتا ہے اور اس سے پوچھا جا رہا ہے کہ اگر آپ نے یہ رویہ اختیار کرنا تھا تو آرزوئے الفت کو کیوں پروان چڑھایا تھا آخری شعر میں ندرتِ خیال اور خیال آفرینی ملاحظہ کیجیے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اے میرے محبوبِ دلنشیں آپ نے اپنے آپ کو پتھر کے صنم کی طرح سخت کر لیا ہے اور میں آپ کو پوجنا چاہتی ہوں اور آپ کس لئے منع فرما رہے ہیں اس قسم کے خیالات کلاسیکی اور روایتی شاعری میں تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عصرِ حاضر میں شاذ ہی نظر آتے ہیں۔

ایک اور ان کی غزل دیکھتے ہیں   ؎

کچھ نہ جب بن پائے سب کو چھوڑ کے

میرے پاس آ جائے سب کو چھوڑ کے

کاش ایسا ہو کہ لے کر میرا نام

اپنا دل بہلائے سب کو چھوڑ کے

پوچھتی ہوں اس کو اور ہے آرزو

وہ میرا ہو جائے سب کو چھوڑ کے

اس کو جاناںؔ  یاد آئے گی ضرور

جب بھی وہ گھبرائے سب کو چھوڑ کے

جاناں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی غزل رومانس سے شروع ہوتی ہے اور رومانس پر ختم ہوتی ہے وہ اس لطیف صنف کو دیگر آلائشوں سے مبّرا و ماورا رکھتی ہیں جیسے انہوں نے اپنے آپ کو اس موضوع کے لیے وقف کر رکھا ہو اصل میں کائنات کا سرنامۂ موضوع پریم ہی ہے باقی موضوعات اس موضوع کے امدادی موضوعات ہیں شعرِ اول میں مذکور ہے محبوب کی نسبت سے کہ جب کچھ نہ بن پڑے سب کو چھوڑنے کے بعد بھی تو میرے پاس چلے آنا دوسرے شعر میں ایک ایسی آرزو کا اظہار ہے جو ہر عاشق کے دل میں لگن کی طرح ہوتی ہے کہ میرا محبوب میرا نام لے کر اپنا دل بہلائے اور باقی سب کو چھوڑ دے تیسرے شعر میں ایک معصوم خواہش کا برملا ذکر ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ میں اپنے محبوب کو اس لیے پوجتی ہوں کہ وہ سب کو چھوڑ کر میرا ہو جائے چوتھے شعر میں کہا گیا ہے کہ میرے دلربا کو میری یاد ضرور آئے گی کیونکہ جب وہ سب کچھ تج دینے کے بعد گھبرائے گا تو اُسے ضرور میرا پیار یاد آ جائے گا اس قسم کا احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی کو اپنی وفا پر مان ہوتا ہے اس غزل میں ’’سب کو چھوڑ کے‘‘ کی ردیف ندرت آمیز ہے اور بہار آفریں بھی ہے غزل کے لطف کو دوبالا کر رہی ہے۔

اب ایک اور غزل کے تین اشعار پڑھتے ہیں   ؎

زندگی کے ہر ایک پہلو میں

تیری چاہت کے پھول کھلتے ہیں

دل سے کم ہو کبھی نہ پیار تیرا

دل میں ارماں یہی تو پلتے ہیں

جس طرف تم نظر کرو اپنی

لوگ اس سمت کو ہی چلتے ہیں

زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں جس کی زندگی کا ہر روپ عکاسِ الفت ہوتا ہے تو وہ چاہے جانے اور سراہے جانے کے قابل ہوتا ہے اسی طرح کی کیفیت جاناں کی غزل کے پہلے شعر میں پائی جاتی ہے اور اس میں یہ آدرش دیا جا رہا ہے کہ میری زندگی کے ہر پہلو میں محبت کی پاسداری اور علمداری ہے زیست کا ہر گوشہ جاناں کے پیار کا حوالہ ہے اور جگہ جگہ چاہت کے پھول کھل رہے ہیں دوسرے شعر میں ایک دعائیہ انداز ہے کہ کبھی بھی میرے دل میں آپ کا پیار کم نہ ہو اور یہی ارمان ہی دل میں پنپ رہا ہے کہ آپ کا پیار فزوں سے فزوں تر ہوتا چلا جائے تیسرے شعر میں محبوب کی ہر دلعزیزی کا بیانِ ذیشان ہے اور محبوب کو اس چیز کا احساس دلایا جا رہا ہے کہ تم جس طرف نظر کرو لوگ اس طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں یعنی تم زمانہ ساز ہو زمانے کا رخ پھیر دیتے ہو اس جذبے کا مقصد محبوب کو اس کی اپنی اہمیت باور کرانا ہے۔

اب ان کی ایک چہار شعری غزل ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

زیست آسان ہو گئی ہے اب

تجھ سے پہچان ہو گئی ہے اب

اب ہے دونوں کے پاس موبائل

زیست آسان ہو گئی ہے اب

چھین لوں کیسے تجھ سے یاد اپنی؟

میرا ایمان ہو گئی ہے اب

حال کیا پوچھتے ہو جاناںؔ  کا؟

وہ تری جان ہو گئی ہے اب

وہی سادگی جو جاناں کا خاصا ہے اس غزل سے بھی عبارت ہے پہلے شعر میں محبوب سے تخاطب ہے کہ اسے میرے محبوب جب سے تجھ سے پہچان ہوئی ہے تو میری زندگی آسان ہو گئی ہے گویا تجھ سے شناسائی کی بدولت زیست مہربان ہو گئی ہے دوسرے شعر میں تذکرہ ہے رابطوں کا کہ اے میرے محبوب تمہارے پاس بھی موبائل ہے اور میرے پاس بھی موبائل اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کو اپنے دل کے احوال ارسال کرتے رہیں گے فون کالز کے ذریعے اور پیغامات کے ذریعے لہٰذا اب پریشانی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ تیسرے شعر میں کہا جا رہا ہے کہ اے میرے محبوب میں تجھ سے اپنی یاد کیسے چھین لوں کیونکہ تمہارے دل میں میری یاد ایمان ہو گئی ہے یادیں جب ایمان بنتی ہیں پھر محبت کی معراج ہوتی ہے چوتھا شعر جو غزل کا آخری شعر ہے جس میں جاناں یہ کہہ رہی ہیں جاناں تم میرا حال کیا پوچھتے ہو میں تمہاری جان ہو گئی ہوں شعرِ ہٰذا محبت کی اس اسٹیج کا تذکرہ ہے جب محبت میں یک جان یک قالب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور من  و تو میں فرق ناپید و معدوم ہو جاتا ہے۔

اب ہم جاناں کی دوسری کتاب ’’خواب زندہ‘‘ ہیں۔ کی بابت بات چلاتے ہیں جاناں کے شعری ارتقا کا سفر جب ’’بزم جاناں ‘‘ سے ’’خواب زندہ ہیں ‘‘ پر پہنچتا ہے تو ان کے اسلوب میں مزید جاذبیت اور چاشنی پیدا ہو جاتی ہے اسلوبیاتی ندرت جہاں شوکتِ الفاظ بھی ہے وہاں طاقتِ پرواز بھی ہے جاناں کے تخیل کا کینوس وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے استعارں اور تشبیہات کا ایک نیا جہان آباد ہے ’’بزمِ جاناں ‘‘ سے ’’خواب زندہ ہیں ‘‘ کی جاناں منفرد و نمایاں نظر آتی ہے۔

ذاتی حوالے کی حامل ایک غزل زیرِ تجزیہ لاتے ہیں   ؎

کسی منظر میں ڈھلنا چاہتی ہوں

شفق کے ساتھ چلنا چاہتی ہوں

بریدہ ہیں مرے پر تو ازل سے

ہواؤ میں بھی اڑنا چاہتی ہوں

کہاں ہیں جھیل کے رنگین منظر؟

انہیں کے ساتھ سجنا چاہتی ہوں

سجے تھے آئینہ میں عکس جن کے

میں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں

سحر جاناںؔ  بھی اب آئے نہ آئے

میں خوابوں کو ہی بُننا چاہتی ہوں

یہ غزل اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ ’’بزم جاناں ‘‘ اور ’’خواب زندہ ہیں ‘‘ کے اسلوب اور فکری زاویوں میں بھی فرق ہے یہ غزل تمام تر ذاتی خواہشات کا حوالہ ہے پہلے شعر میں اس آرزو کی بات ہے کہ میں کسی منظر میں ڈھلنا چاہتی ہوں اور شفق کے ساتھ بھی چلنا چاہتی ہوں دوسرے مصرع میں ایک عالمگیریت کی خواہش موجزن ہے کہ وہ شفق کے ساتھ چلنا چاہتی ہیں کیونکہ شفق تو تمام کائنات پر محیط ہے دوسرے شعر میں ایک اظہار مجبوری ہے کہ میرے پر تو کٹے ہوئے ہیں ازل سے اور ہواؤں سے مخاطب ہیں کہ تمہارے ساتھ اڑنا چاہتی ہوں تیسرے شعر میں احساسِ جمال کا پر تو بھی ہے جو ان کے جمالیاتی احساسات کا مظہر ہے وہ کہتی ہیں کہاں ہیں جھیل کے رنگین منظر میں ان کے ساتھ سجنا چاہتی ہوں جمالیات اور روحانیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور انہوں نے اس کا ساتھ بخوبی نبھایا ہے چوتھا شعر بھی ذوق جمال پر دال ہے وہ کہتی ہیں جو عکس آئینہ میں تھے میں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں مقطع میں ایک شانِ بے نیازی کی ادا ہے وہ سحر کے آنے نہ آنے سے بے نیاز ہیں جہاں کی تیرگی انہیں آلودہ نہیں کرسکتی اور وہ صرف خوابوں کو بُننا چاہتی ہیں۔

رومانوی افکار کی حامل ایک اور غزل پڑھتے ہیں   ؎

میرے دل پر وہ اب چھانے لگا ہے

مجھے دن رات تڑپانے لگا ہے

میرے دل کو ہتھیلی پر سجا کر

جہاں کو سحر سکھلانے لگا ہے

میں اب سسی ہی بنتی جا رہی ہوں

کوئی پُنّوں نظر آنے لگا ہے

مرا تو ذہن بھی چلتا نہیں اب

مجھے ہر بات سمجھانے لگا ہے

یقین بن کر سجا ہے دل میں میرے

سمجھ کر وہ گماں جانے لگا ہے

پانچ شعروں کی اس غزل میں جاناں نے گلشنِ رومان میں طرح طرح کے گل کھلائے ہیں جن کی بوباس منفرد ہے شعرِ اول میں محبت کی طاقت اور سحر انگیزی کا بھرپور اظہار ہے کیا گیا ہے کہ وہ محبوبِ جاں نواز میرے دل پر چھانے لگا ہے اور میرے دل پر غلبہ حاصل کر رہا ہے اور دن رات اس  کی یاد مجھے تڑپانے لگی ہے حسنِ ایمائیت کے حامل غزل کے دوسرے شعر میں مذکور ہے کہ میرا محبوب میرے دل کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر ابنائے زمانہ کو اپنی جادوگری کا درشن کرا رہا ہے اگلا شعر احساسِ خود محبوبی کی عمدہ نظیر ہے جس میں جاناں کہتی ہیں کہ میں سسی بنتی جا رہی ہوں یعنی میں کسی کی محبوبِ نظر بن رہی ہوں مجھے اب کوئی پُنّوں نظر آنے لگا ہے ایک کلاسیکی رومانوی داستان کا حوالہ ہے اس میں اور جاناں کی خواہش کا اظہار بھی ہے چوتھے شعر میں ایک عالمگیر حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ محبت میں انسان کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے اور ذہن کام کرنا چھوڑ جاتا ہے۔ یہی کیفیت اب ان کی بن گئی ہے اور انہیں محبوب ہی سب کچھ سمجھانے لگا ہے آخری شعر میں صنعتِ تضاد کا بے ساختہ انصرام ہے پہلے مصرع میں یقین کی بات کی گئی ہے تو دوسرے مصرعے میں گمان کی وہ کہتی ہیں کہ میرا محبوب یقین بن کر میرے دل میں چھایا ہوا ہے اور اب وہ گماں بن کر جانے لگا ہے خیالات میں سادگی اور تسلسل ہی ان کی خوبی ہے جو ان کی تمام تر غزلوں میں دکھائی دیتی ہے۔

اب دیکھئے ایک اور غزل کے دو اشعار کی رومان سامانیوں کو اور حظ اُٹھایئے   ؎

موسمِ ہجر آزماتا ہے

وصل کا چاند یاد آتا ہے

دیکھ کر پھول میرے جوڑے میں

کوئی بھنورا ہے مسکراتا ہے

وہی روانی ہے وہی تسلسل ہے جو ان کی غزل کی جان بنا ہوا ہے اور وہی رومان آفرینی ہے جو ان کی غزل کی امتیازی علامت سے پہلے شعر میں وہ کہتی ہیں کہ ہجر کا موسم مجھے آزماتا ہے کیونکہ عشاق کے لیے ہجر ایک بہت بڑی آزمائش و ابتلا ہے وصل کی یادیں ہجر میں قیامت بن جایا کرتی ہیں یہی کیفیت اس شعر میں بیان کی گئی ہے دوسرے شعر میں یہ کہہ رہی ہیں میرے جوڑے میں پھول دیکھ کر کوئی بھنورا ہے مسکراتا ہے بھنورا چونکہ عاشقی کا استعارہ ہے اس لئے اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ان کی ایک اور غزل ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

کچھ بھی چاہت کے سوا یاد نہیں

میرے لب پر کوئی فریاد نہیں

دل کی بستی جو تھی ویران بہت

اب کہوں کیسے کہ آباد نہیں ؟

ہیں گرفتار محبت سارے

اس نگر میں کوئی آزاد نہیں

خواب زندہ ہیں ابھی دل میں میرے

اس قفس کا کوئی صیاد نہیں

پیار تم کرتے رہو جاناںؔ  سے

کوئی اس جیسا بھی برباد نہیں

پہلا ہی شعر غمازِ محبت ہے جسم و جاں عقل و شعور جب محبت کے اسیر ہوتے ہیں تو انسان کو کچھ یاد نہیں رہتا اور نہ لب پر کوئی فریاد رہتی ہے بلکہ انسان شاکر و قانع ہو جاتا ہے انہی خیالات کا اظہار پہلے شعر میں کیا گیا ہے کہ مجھے چاہت کے سوا کچھ یاد نہیں ہے اور میرے لبوں پر کوئی فریاد نہیں ہے دوسرے شعر میں وہ کہتی ہیں کہ میرے دل کی بستی جو بہت ویران تھی اب میں کیسے کہوں کہ وہ آباد نہیں ہے تیسرے شعر میں ایک گنگا جمنی کیفیت پائی جاتی ہے دونوں مصرعے ایک ہی فکر کی عکاسی کر رہے ہیں کہ دنیا میں سب محبت زدہ ہیں اور اس نگر میں کوئی بھی آزاد نہیں ہے کسی کو بھی محبت سے مفر ممکن نہیں ہے اس شعر میں ایک فطری حقیقت کی ترجمانی بھی موجود ہے جو اس شعر کے لطف کو سہ بالا کر رہی ہے چوتھے شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ ابھی تک میرے دل میں میرے خواب زندہ ہیں اور اس قفس کا کوئی صیاد نہیں ہے دل کو قفس سے تشبیہ دی گئی ہے اور ایک حسنِ ایمائیت پیدا کیا گیا ہے جو ان کی فنی پختگی کی کرشمہ کاری ہے اور فنی بلوغت کی ایک مثالِ باکمال ہے مقطع میں ایک رحم کی اپیل کا سا انداز ہے کہ تم جاناں سے پیار کرتے رہو دنیا میں اس جیسا کوئی شخص برباد نہیں ہے مذکورہ بالا غزل بھی ایک سادگی و پرکاری کا شاہکار ہے۔

اب ان کی ایک اور غزل دیکھتے ہیں   ؎

دل لگ گیا جو کسی کے حسن و جمال سے

تھے اور ہی طرح کے نئے خدوخال سے

دیوانگی مری تو مجھے مار دے گی پر

کیسے نکل سکیں گے ستم گر کے جمال سے؟

کیوں دسترس میں آ کے بھی میرا نہیں ہوا

کچھ بھی عیاں نہیں ہے صنم تیری چال سے

ہوتا ہے ہم کلام وہ شام و سحر مگر

آنکھوں میں لگ رہے تھے نئے کچھ سوال سے

جاناںؔ  تو اس کی یاد میں کیسے سما گئی؟

پوچھیں گے ایک دن اسی باکمال سے

غزل چونکہ ایک صنفِ لطیف ہے کیونکہ لطیف خیالات و احساسات کی حامل ہوتی ہے غزلِ ہٰذا بھی لطیف احساساتِ سے مرصع ہے جاناں غزل کی تمام تر باریک بینیوں سے آشنا ہیں شعرِ اول میں یہ کہا گیا ہے کہ میرا دل لگ گیا ہے کسی کے حسن و جمال سے اور میں کسی کی شیدا و شیفتہ ہو گئی ہوں اور محبوب کے خدوخال کی جدت کا بھی مذکور ہے شعرِ دوم میں ایک ایسے اندیشے اور جوکھم کی نشاندہی ہے کہ میری دیوانگی مجھے مار ڈالے گی اور میں کیسے ستمگر کے جال سے مفر حاصل کر پاؤں گی شعرِ ثالث میں ایک استفہامیہ انداز ہے کہ میرا محبوب میری دسترس میں آ کے بھی میرا کیوں نہیں ہوسکا اور اس کی چال میں ایک طرفگی ہے جس کی کچھ سمجھ نہیں آتی شعر چہارم میں محبوب سے شام و سحر کے مکالمے کی بات ہے کہ وہ شام و سحر مجھ سے باتیں کرتا ہے اور اِس کی آنکھوں میں مجھے کچھ نئے سوال دکھائی دیتے ہیں شعرِ آخر میں بھی ایک استفسار ہے کہ اے جاناںؔ  تو اس کی ذات میں کیسے سما گئی اور ہم یہ راز ایک دن اپنے محبوب کی بدولت افشا کریں گے غزل میں ندرتِ خیال بھی ہے اور اظہارِ کمال بھی ان دو خصوصیات نے اس غزل کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔

اب ایک اور غزل کا مقطع و مطلع ملاحظہ فرمائیں

کسی کے دل میں بسنا چاہتی ہوں

سبو  سے جام بھرنا چاہتی ہوں

تری خوشبو بدن میں گھومتی ہے

میں جاناںؔ  ساتھ چلنا چاہتی ہوں

مطلع میں کسی کے دل میں بسنے کی آرزو اور سبو سے جام بھرنے کی خواہش یہ دونوں تلازمے کسبِ عاشقی ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کے دل میں تھوڑی سی جگہ چاہتی ہیں جیسے سبو سے جام بھرنے سے سبو پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا وہ کہتی ہیں آپ اگر مجھے اپنے دل میں بسنے دیں تو یہی میری تمنا ہے یہی میرا تقاضا ہے

ایک اور غزل کے چار اشعار دیکھیں

بہت مجبور ہوتی جا رہی ہوں

میں تم سے دور ہوتی جا رہی ہوں

ازل سے کر رہی ہوں تیرا پیچھا

تھکن سے چور ہوتی جا رہی ہوں

ہو تم اگر روشنی کوئی ہالہ

تو میں پر نور ہوتی جا رہی ہوں

تمہاری یاد پھر سے آ رہی ہے

تبھی مخمور ہوتی جا رہی ہوں

تسلسل جاناں کی غزل کا ایک وصفِ خاص ہے مندرجہ بالا غزل میں بھی یہی خصوصیت ہے پہلے شعر میں وہ اپنے محبوب سے کہتی ہیں کہ میں بہت مجبور ہوتی جا رہی ہوں اور اس کا سبب یہ ہے کہ تم سے دور ہوتی جا رہی ہوں دوسرا شعر راہِ محبت میں مسلسل کاوشوں کا عکاس ہے وہ اپنے محبوبِ دل نواز سے کہتی ہیں کہ میں ازل سے آپ کا پیچھا کر رہی ہوں کیونکہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں اور اس کاوش میں تھکن سے چور ہوتی جا رہی ہوں محبوب کی تلاش میں تھکن سے چور ہونا بھی عشاق کے لیے کارِ ثواب سے کم نہیں جس کا انہوں نے تذکرہ کیا ہے تیسرے شعر میں یہ فرمایا کہ اگر تم روشنی کا ہالہ ہو تو میں بھی تمہارے توسط اور تمہاری برکت سے پر نور ہوتی جا رہی ہوں چوتھے شعر میں کہا گیا ہے کہ مجھے تمہاری یاد آ رہی ہے پھر سے۔ یہی وجہ ہے کہ میں مخمور ہوتی جا رہی ہوں۔

مندرجہ بالا معروضات اس امر کے شاہدِ عادل ہیں کہ جاناں نے اپنے سخن میں رومان پروری کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی یہی وجہ ہے کہ رومان ان کی شاعری کا مستقل حوالہ ہے ان کی رواں دواں اور رومانیت سے لبریز غزلیں دل زدوں کے لیے مسیحائی کا ساماں رکھتی ہیں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر تواتر سے ان کی شعری ریاضت جاری رہی تو وہ جلد شعر و سخن کی دنیا میں ممتاز و منفرد مقام پالیں گی۔

٭٭٭

 

 

 

فرزانہ جاناں

 

 

 

اب اس کا کوئی خط بھی جلانا تو نہیں تھا

وحشت کا کوئی گھر بھی بنانا تو نہیں تھا

جلتا تھا جو چراغِ محبت میرے دل میں

اس روشن کی لو کو بجھانا تو نہیں تھا

اب شام سے ہی دل کا یہ در کھلنے لگا ہے

یادوں کا دشت میں بھی ٹھکانا تو نہیں تھا

اب تو وصالِ یار کی خواہش بھی نہیں تھی

موسم بھی شہرِ آس میں سہانا تو نہیں تھا

دریا کو پار کرنا وہ بھی کچے گھڑے پر

اب چاک پر گھڑے کو گھمانا تو نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

تیری آنکھیں کمال کرتی ہیں

جانے کیا کیا سوال کرتی ہیں ؟

میرے دل میں جو تیرے باعث تھیں

دھڑکنیں اب ملال کرتی ہیں

ذات کے میں حصار سے نکلوں

خواہشیں اب دھمال کرتی ہیں

خوب ہیں یہ پیار کی گھڑیاں

زرد رت کو گلال کرتی ہیں

پتلیاں گھومتی ہیں آنکھوں میں

رقص مثلِ غزال کرتی ہیں

اس کی یادیں عجیب ہیں جاناںؔ

مجھ کو غم سے نڈھال کرتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آمنہ عالم کی نظم نگاری

 

 

کسی بھی شاعر کی فکری وسعت کا اندازہ اُس کی نظم سے لگایا جا سکتا ہے کیونکہ غزل اختصار و جامعیت کا امتزاج ہوتی ہے جبکہ نظم خیالات کے پھیلاؤ کی حامل ہوتی ہے نظم ایک سمندر ہے ایک بحرِ بیکراں ہے غزل ہو یا نظم محض ہیئت کی بنیاد پر پروان نہیں چڑھتی بلکہ تخیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے بھرپور تخیل کی بدولت نظم میں جاذبیت پیدا ہوتی ہے تاثر سے لبریز نظم ہی قاری کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہوتی ہے اگر ہم آمنہ عالم کی نظم نگاری کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے اعلیٰ پائے کی نظم تخلیق کی ہے انھوں نے مسدس، مخمس، مثمن، معریٰ، نظم آزاد اور غزل کی ہیئت میں نظمیں کہی ہیں اُن کی افتادِ طبع زیادہ تر پابند شاعری کی طرف مائل ہے جو اُن کے فنی جوہر کی غماز ہے طوالت کے اعتبار سے اُنھوں نے طویل اور درمیانے درجے کی نظمیں کہی ہیں آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’خوشبو سے لکھی فرد‘‘ کے نظمیہ اقتباسات کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

عرفانِ ذات اور عرفانِ خالقِ کائنات معرفت کی منازل ہوتی ہیں معرفت کا ادراک افکار کی رفعت کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے جس کا اظہار حمد، نعت اور مناجات کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ آمنہ عالم بھی انھیں احساسات سے مرصع ہیں اس لیے اُن کے ہاں حمد، نعت اور مناجات کا سلسلہ ملتا ہے اُن کی فکر پر مذہبی اثرات غالب ہیں اس لیے انھوں نے متعدد قرآنی سورتوں کے منظوم تراجم بھی کیے ہیں اُن کی حمد رفعتِ تخیل کی حامل ہے جو اپنے اندر مناجات کا رنگ بھی سموئے ہوئے اُن کی حمد کے تین اشعار نذرِ قارئین ہیں :

کبھی یقیں کو گمان کر دے کبھی گماں کو یقین کر دے

بس ایک کن سے جو چاہے پل میں وہ خالقِ عالمین کر دے

میں ایک ذرہ ہوں بے حقیقت وجود ہے بس تری بدولت

تو چاہے تیرہ نصیب رکھے تو چاہے ماہِ مبیں کر دے

اُن کا پیرایۂ اظہار بھرپور تاثر کا حامل ہے اُن کے جذبوں میں شدت و حدت شامل ہے۔ زبان و بیان پر انھیں قدرت حاصل ہے۔

ماں سے محبت ایک فطری تقاضا ہے ممتا کی یادیں تا حیات انسان کی شریکِ سفر رہتی ہیں ماں خلوص و وفا کا استعارہ ہوتی ہے روئے ارض پر اگر کوئی ہستی زیادہ پیار کرنے والی ہے تو وہ ماں ہے اس پیکرِ شیریں سے وہ اپنی موانست کا اظہار یوں کرتی ہیں :

گال پہ میرے ماں کا بوسہ، آج تلک بھی تازہ ہے

گونج رہے ہیں لوری بن کر میٹھے بول فضاؤں میں

اُن کے قلم میں بلا کی روانی اور جولانی پائی جاتی ہے ایک خلوص اور چاشنی ہے جس سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے اور اُسے کہیں بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا اُن کے موضوعات وسعت کے حامل ہیں جن کے باعث اُن کے ہاں جزئیات نگاری پائی جاتی ہے اُن کے رومانوی افکار میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے جس کی بدولت قاری کو محبت کی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اُن کی نظم ’’محبت سے تہی دل‘‘ کا نصف اوّل ملاحظہ کریں :

محبت چاندنی بھی روشنی بھی ہے

محبت نغمگی بھی ہے شاعری بھی ہے

محبت آگہی بھی زندگی بھی ہے

محبت ہے خدائی، بندگی بھی ہے

خمیر انسان کا اُٹھا ہے اک چٹکی محبت سے

پگھل سکتے ہیں پربت اس حرارت سے

کوئی جذبہ نہیں افضل محبت سے

نظر تم مت چُرانا اس صداقت سے

محبت ایک آفاقی حقیقت ہے

یہاں پر زندگی کو محبت کی ضرورت ہے

محبت بے تقاضا ہے محبت بے محابہ ہے

محبت سے تہی دل اک خرابہ ہے

جہاں سنسان گلیاں ہیں

جہاں ویران رستے ہیں

جہاں ہیں خوف کے جالے

جہاں آسیب بستے ہیں

اُن کے کلام میں فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے وہ ابلاغ پر زور دیتی ہیں اُن کا اسلوب شستہ اور رواں ہے وہ فکری و فنی اسرار و رموز سے آشنا ہیں اُن کا شعری شعور اُن کی فنی بلوغت پر دلالت کرتا ہے اُن کے تنقیدی ادراکات کی جھلک اُن کی نظم ’’شاعری کیا مانگتی ہے‘‘ کے دو اقتباسات میں دیکھتے ہیں :

شاعری ایک نیا طرزِ ادا مانگتی ہے

مختلف سے کسی لہجے کی دعا مانگتی ہے

زخمِ دل مانگتی ہے اس کی دوا مانگتی ہے

یعنی امید کا اک جلتا دیا مانگتی ہے

ہر قلم کار سے یہ فکرِ رسا مانگتی ہے

شاعری میرؔ سا پھر آج خدا مانگتی ہے

قلب و اذہان پہ اک کیف سماں مانگتی ہے

زاویے فکر کے یہ حسنِ بیاں مانگتی ہے

اپنے اظہار کو یہ علمِ بیاں مانگتی ہے

ساتھ ہی اس کے لطافت کی زباں مانگتی ہے

تازہ تازہ سی زمینوں پہ مکاں مانگتی ہے

یہ تصرف کے لیے ایک جہاں مانگتی ہے

وہ اپنی نظم میں اپنے موضوع کی وسعت کا احاطہ کرنے کا فن جانتی ہیں اس لیے اُن کے ہاں بھرپور انداز میں جزئیات نگاری پائی جاتی ہے جس کی بدولت قاری کے ذہن میں مناظر اُجاگر ہو جاتے ہیں اور وہ اُسے اپنی رودادِ حیات سمجھ لیتا ہے اُن کی منظومات حقیقی زندگی کی عکاس ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کی قائل ہیں اُن کی نظم ’’کتابِ ہستی‘‘ کے دو اقتباسات نذرِ قارئین ہیں :

یہ پیری میں یادوں کے اوراق سے

اُبھرتے ہیں ذہنوں پہ ماضی کے باب

جو لکھو تو دفتر کے دفتر سیاہ

جو سوچو تو پل میں مرتب کتاب

وہ پہلے ورق پر

ہیں دھندلی سی یادیں

وہ جھولے کی پینگیں

وہ لوری کی تانیں

وہ گڑیا کی شادی

وہ تتلی کا پیچھا

وہ بادل وہ بارش

وہ جگنو کی خواہش

وہ مٹتی اُبھرتی سی بچپن کی یادیں

ہیں دھندلی سی یادیں

مذکورہ نظم میں انھوں نے عہدِ طفلی کی تمام داستان دُہرا دی ہے جس میں بچپن کے تمام رنگ پورے جوش و جذبے کے ساتھ موجود ہیں۔

اُن کے کلام میں ترقی پسند افکار بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ انقلاب کی خواہاں ہیں وہ ایک انقلابی تبدیلی چاہتی ہیں۔ وہ نظام کو مثبت خطوط پر استوار کرنے کی متمنّی ہیں جس سے مفلوک الحال طبقے سے اُن کی ہمدردی کا اندازہ ہوتا ہے اس حوالے سے اُن کی نظم ’’انقلاب کی آہٹ‘‘ کے دو اقتباس نذرِ قارئین ہیں :

 

اقتدار بدلیں گے انتظام بدلیں گے

جو لہو پہ پلتا ہے وہ نظام بدلیں گے

جس میں ہو ریا کاری وہ امام بدلیں گے

راستے سنواریں گے گام گام بدلیں گے

اختیارِ آقا کو اب غلام بدلیں گے

اپنی قسمتوں کو اب خود عوام بدلیں گے

٭

دین دب گیا آخر ریت اور رواجوں میں

قوم بٹ گئی ساری ان گنت سماجوں میں

بھر گئی ہیں غربت سے تلخیاں مزاجوں میں

بِک رہے ہیں جسم و جاں چند سیر اناجوں میں

ان کی قدر بدلی تو ان کے دام بدلیں گے

اپنی قسمتوں کو اب خود عوام بدلیں گے

یہ تو اُن کی منظومات کی چند جھلکیاں تھیں جو ہم نے پیش کی ان کے علاوہ بھی اُن کی بے شمار نظمیں ہیں جو حوالے کا استحقاق رکھتی ہیں اُن کی دیگر نظموں میں اُمید، تجلیِ خیال، آنکھیں ، سونامی، محبت جاوداں ہے اور نسلِ رائیگاں بھرپور قسم کی نظمیں ہیں اگر اُن کی نظم کا سفر تواتر سے جاری رہا تو اُن کی نظم انھیں ساحر لدھیانوی اور ن م راشد کی صف میں شامل کر دے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

آمنہ عالم

 

 

درد کی آگ کو ہوا دی جائے

عشق کو ہجر کی دعا دی جائے

اک وہی ہے پکار سننے والا

آخری سانس تک صدا دی جائے

رقتِ قلب میں کسر ہے باقی

رنج کی آنچ کچھ بڑھا دی جائے

دل پہ تحریر جو لہو سے لکھی

حکم آیا ہے سب مٹا دی جائے

وصل میں جسم ہو رہا ہے حائل

سو یہ دیوار اب گرا دی جائے

روح یہ روح سے چلی ہے ملنے

راہِ افلاک تک سجا دی جائے

تعزیت کر کے جا چکے ہیں آنسو

یہ صفِ غم بھی کیا اٹھا دی جائے؟

٭٭٭

 

 

 

 

لرزے قدم پہ اس کے کرم سے گئے سنبھل

دیا ہے وہ ہی خاک کو اکسیر میں بدل

ماحول سے خفا ہے نہ تقدیر کا گلہ

کیچڑ کے باوجود بھی پاکیزہ ہے کنول

ہنستا ملا گلاب وہ کانٹوں کے درمیاں

لب پر شکایتیں ہیں نہ ماتھے پہ اس کے بل

شکوہ کبھی نہ آب نے حالات کا کیا

پتھر کو خود ہی توڑ کے چشمے گئے ابل

دیکھا کر کے وہ شوق سے بس منزلوں کے خواب

جس کا نہیں ہو اپنے ارادے پہ کچھ عمل

ممکن نہیں کہ حشر تلک کھل سکے یہ آنکھ

اک ایسی نیند آنکھ کو دے جائے گی اجل

٭٭٭

 

 

 

 

شگفتہؔ شفیق نظم کے آئینے میں

 

 

ہیئت کے اعتبار سے شاعری کی دو اصناف ہیں غزل اور نظم، نظم کی کئی ہیئتیں ہیں جن میں مثنوی، ثلاثی قطعہ بند، مخمس، مسدس، مثمن، مستزاد، نظمِ معریٰ، آزاد نظم اور نثری نظم شامل ہیں آزاد نظم کی کامیابی کے بعد نثری نظم کے امکانات روشن ہونے لگے نثری نظم میں وزن، قافیہ، ردیف اور مصرعوں کے چھوٹا یا بڑا ہونے کی کوئی پابندی نہیں ہے آزاد نظم میں ارکان کی کمی بیشی روا ہوتی ہے لیکن نثری نظم میں ارکان سرے سے معدوم ہوتے ہیں بلکہ سطور چھوٹی اور بڑی ہوتی ہیں جس طرح غزل اور نظم میں ہئیت کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے اسی طرح ان اصناف کے فکری مزاج میں بھی مغائرت پائی جاتی ہے نظم میں فکری اعتبار سے وسعت پائی جاتی ہے اس لیے اس میں زیادہ تصریح و توضیح کی گنجائش ہوتی ہے جس کے باعث منظر نگاری، مکالمہ نگاری اور محاکات نگاری بخوبی کی جا سکتی ہے تسلسل نظم کا تلازمہ ہے خیالات زنجیر کی کڑیوں کی صورت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں نثری نظم بطورِ خاص سلاست کا مظہر ہوتی ہے نثری نظم میں فنی حوالے سے بہت گنجائش پائی جاتی ہے تاہم فکری اعتبار سے کسی قسم کا سمجھوتہ روا نہیں ہے مذکورہ بحث تمہید ہے اُس شذرے کی جو ہم شگفتہ شفیق کے حوالے سے رقم کر رہے ہیں تاکہ ہم اُن کی نظم کے فکری و فنی خدوخال اُجاگر کرسکیں شذرہ ہٰذا میں ہم شگفتہ شفیق کے دوسرے شعری مجموعے ’’یاد آتی ہے‘‘ کے حوالے سے اُن کی نظم کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرتے ہیں مجموعہ ہذا جنوری 2013ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا قبل ازیں ان کا اولین شعری مجموعہ ’’مرا دل کہتا ہے 2010ء میں منصہ شہود میں آیا جس میں غزل، پابند نظم اور زیادہ تر آزاد نظمیں شامل ہیں زیر تجزیہ کتاب میں بقول اُن کے آزاد نظمیں شامل ہیں لیکن ہم انھیں نیم آزاد قرار دینے پر مجبور ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں غیر شعوری یا شعوری طور پر کہیں کہیں عروضی تلازمات پائے جاتے ہیں قوافی اور ردیفیں بھی خال خال نظر آتی ہیں اب ہم اُن کی منتخب نظموں کا تجزیہ کرتے ہیں۔

اُن کے افکارو موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے اور مختلف کیفیات کی جلوہ افروزی ہے کہیں بزمِ طرب سجی ہوئی ہے تو کہیں آشاؤں کے میلے ہیں کہیں اُداسی کی شاموں کا ذکر ہے تو کہیں بہار پُر نکھار ہے کہیں جمالیاتی حوالے ہیں تو کہیں رومان کی روح پرور فزا ہے اُن کی ایک نظم ’’گلابوں کا موسم‘‘ میں اُن کی منظر نگاری ملاحظہ کریں۔

 

’’گلابوں کا موسم‘‘

 

موسم دھوپ اور

روشن کرنیں

تتلیاں آئی تھیں

پھولوں سے ملنے

باغوں میں تھے پھول کھلے اور

خوابوں کا سا میلہ تھا

بہار کا موسم

ساتھ سجن کا

نہلے پر بس دہلا تھا

 

نظمِ ہٰذا میں جہاں منظر نگاری کمال کی ہے وہاں جمالیاتی حوالہ بھی انتہائی دلفریب ہے خیالات کا تسلسل بھی دیدنی ہے لغت کا استعمال بھی فطری انداز رکھتا ہے اسلوب کی سادگی بھی اپنا ایک حسن رکھتی ہے اور رومان کا بھی پرکشش حوالہ شامل ہے۔

رومان ہر عہد میں اقلیمِ سخن کی جان رہا ہے اگرچہ عصرِ حاضر کے افکار نے اسے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی رومانی حوالے کی حامل اُن کی نظم ’’تم‘‘ زینتِ قرطاس کی جاتی ہے۔

 

’’تم‘‘

 

تم دل کے پاس رہنا، میرے ساتھ ساتھ رہنا

جو بھی ہوں من کی باتیں ، ہر بات مجھ سے کہنا

پڑے تم پہ کوئی مشکل تو اکیلے تم نہ سہنا

یوں ہی خون کی طرح سے، مری سب رگوں میں بہنا

جب ہو مری ضرورت، مجھ کو پکار لینا

میرے آنسوؤں کو چھوڑو، بس تم کبھی نہ رونا

کانٹے ہیں سارے میرے بس تم گلاب لینا

کہنا ہے تم سے یہی

تم دل کے پاس رہنا

 

یہ نظم رومانیت کے احساسات سے لبریز ہے سلاست اور سہل نگاری سے خوبصورت جذبات کو فطری انداز میں بیان کیا گیا ہے مختلف کیفیات کے دلفریب حوالے ہیں اور یارِ ہزار شیوہ سے بے پایاں محبت کا اظہار بھی ہے۔

رومانی حوالے کی حامل اُن کی ایک اور نظم ’’احساسِ خیالِ دوست‘‘ آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہے   ؎

 

’’احساس خیال دوست‘‘

 

مری اک بات سن لو جی

میں الفت تو نہیں کرتی

مجھے ہے اُنسیت تم سے

تمہارے بن بھی جیتی ہوں

بڑی خوش باش رہتی ہوں

جو مل پاؤں اگر تم سے

چمک آنکھوں کی بڑھتی ہے

اُمنگ جینے کی ملتی ہے

کچھ ایسا مجھ کو لگتا ہے

الگ دنیا کی باسی ہوں

جہاں شامیں سہانی ہیں

اور رنگوں کی فراوانی

جہاں غم دور رہتے ہیں

وہاں سے ہر طرف مروت

اور احساسِ خیال یار

 

اس نظم میں شگفتہ شفیق کی تخلیقی طبع کھل کر سامنے آئی ہے جس کی وجہ سے خیالات کا ایک فطری بہاؤ مشاہدے میں آیا ہے جس میں برجستگی و بے ساختگی اور بے تکلفی کے جواہر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

غم زندگی کا جزو اور دائمی جذبہ سے جو زندگی پر انمٹ نقوش مرتب کرتا ہے حُزن و ملال کی کیفیات کا اظہار اکثر و بیشتر شعرا کے ہاں پایا جاتا ہے جو شعرا حُزنیہ شعری طبع رکھتے ہیں اُن کا کلام خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مقبولیتِ میرؔ کا باعث بھی فکری حوالے سے اُن کی خزینہ شاعری ہے غم کئی طرح کا ہوتا ہے اُس کی نوعیت کچھ بھی ہوسکتی ہے غم دوراں بھی ہوسکتا ہے وہ غمِ جاناں بھی ہوسکتا ہے اور غمِ ذات بھی۔ وہ محرومی کا دُکھ بھی ہوسکتا ہے اُن کی نظم سانحہ ہیں اُن کے حزن و ملال کی جھلک دیکھتے ہیں   ؎

 

’’سانحہ‘‘

ششش1         عجب سا سانحہ ہوا یہ

ٹہنیاں ساری

رہ گئیں خالی

پتے سارے ہوا کے ساتھ گئے

چار سو چھا گئی

وہ زرد خزاں

جس کو کوئی پسند نہیں کرتا

کوئی طلبگار اس کا ہے ہی نہیں

پھر بھی وہ ڈھیٹ

لپٹی جاتی ہے

انجان سفر دکھاتی ہے

اور اُداسی

بکھیر جاتی ہے

شگفتہ شفیق کا فکری کینوس بہت وسیع ہے کہ موضوعات میں رنگارنگی پائی جاتی ہے مختلف خیالات اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں شذرہ ہٰذا کی آخری اکائی کے طور پر اُن کی نظم ’’مکافاتِ عمل نذرِ قارئین ہے۔

 

’’مکافاتِ عمل‘‘

 

مجھے گلہ ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے بات نہیں کرتا

چُپ چاپ بیٹھا رہتا ہے، مسئلے شیئر نہیں کرتا

تیس برس میں پیچھے جاؤں تو مجھ کو یاد آتا ہے

میں بھی یوں ہی کرتا تھا

جب میری بوڑھی ماں مجھ سے باتیں کرتی تھی

میں گھر سے بھاگنا چاہتا تھا

پر اتنی ہمت مجھ میں نہیں تھی

مجبوری کی یاری تھی

پر میرا بیٹا بولڈ بہت ہے

مجھ سے کہہ کے جاتا ہے

بیٹھیں آپ سکون سے کھائیں

بیچ میں ٹانگ اڑائیں نہ

نئے زمانے کی باتیں ہیں

آپ مجھے سمجھائیں نہ

 

اس نظم میں انہوں نے اپنے موضوع کے ساتھ مکمل وفاداری کی ہے کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے انسان جو رویہ آج کسی سے روا رکھتا ہے کل کو اُسے اُسی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے معاملہ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی ‘‘ کے مصداق ہو جاتا ہے اس نظم سے ایک اور فکری پہلو بھی سامنے آتا ہے جسے نسلی خلا یا جنریشن گیپ کہتے ہیں جسے نئی نسل اور پرانی نسل کی ذہنی تفاوت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شگفتہ شفیق کے فکری مخزن میں طرح طرح کے جواہر موجود ہیں جن سے قاری اکتساب فیض بھی کرتا ہے اُن کے ہاں مقصدیت کے پہلو بھی پائے جاتے ہیں اور تفریحِ طبع کے آثار بھی۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ شگفتہ شفیق کی نظم نیم آزاد نوعیت کی حامل ہے لیکن اسلوب اور افکار جاذبیت کی دولت سے مالا مال ہیں مطالعے کے دوران کہیں بھی قاری کی دلچسپی کا دامن میلا نہیں ہوتا بلکہ اس کا شوق فزوں سے فزوں تر ہوتا چلا جاتا ہے اُن کی فکر قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے اور قاری اُس کے سحر میں گھر جاتا ہے خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ انہیں فکر و فن کے اسرار و رموز کی جانکاری سے نوازے اور فکری و فنی بالیدگی ودیعت فرمائے۔  (آمین)

٭٭٭

 

 

 

شگفتہؔ شفیق

 

 

میں نے رسمِ وفا نبھائی ہے

یہ مری عمر کی کمائی ہے

دل پہ بے حد اداسی چھائی ہے

بچھڑے لوگوں کی یاد آئی ہے

یاد چپ چاپ لوٹ آئی ہے

نارسائی سی نارسائی ہے

دھول اُڑتی ہے دور تک دل میں

جیسے صحرا میں آندھی آئی ہے

مجھ سے وہ کہہ رہے تھے چپکے سے

پھر ملیں گے ابھی جدائی ہے

تیرے خوابوں سے تیرے پیکر سے

میں نے بھی انجمن سجائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لگن زندگی کی جگانی پڑے گی

خوشی سب کی خاطر منانی پڑے گی

گھرانے کی عزت بچانی پڑے گی

ہنسی تو لبوں پر سجانی پڑے گی

ابھی مل گئے ہم کبھی یہ بھی ہو گا

کہ رسمِ جدائی نبھانی پڑے گی

تجھے کھو کے جینا بھی کیا زندگی ہے؟

مگر زندگی یہ بتانی پڑے گی

تیرا شیوہ چلتی ہواؤں سے لڑنا

ہر اک بات تجھ سے چھپانی پڑے گی

تیرے تیکھے تیور بتاتے ہیں مجھ کو

کہ ہستی تو اپنی مٹانی پڑے گی

٭٭٭

 

 

 

 

نیئر رانی شفقؔ کی ادبی خدمات

 

 

نیئر رانی شفق کا شمار ملک کے مایہ ناز افسانہ نگاروں ناول نگاروں ، کہانی نویسوں ، فیچر رائٹروں اور شاعرات میں ہوتا ہے اُن کا فن افسانہ، ناول، کہانی، فیچر اور شاعری کی مختلف اصناف پر محیط ہے اُن کی ہر تخلیق شعور و آگہی کا ایک دھارا ہے وہ مثبت سوچ کی آئینہ دار اور علمبردار ہیں خارزارِ ادب میں وارد ہونا ایک خاتون کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں وہ ملک کی چیدہ چیدہ ادبی خواتین میں سرفہرست ہیں صائمہ الماس مسرور، ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، معصومہ شیرازی، بسمل صابری،فہمیدہ ریاض، نوشی گیلانی اور پروین شاکر کی طرح اُن کے ہاں بھی نسوانی جذبات و احساسات وفور کے ساتھ پائے جاتے ہیں انہوں نے عورت کی مظلومیت اور کسمپرسی کا ذکر بڑے شدومد سے کیا ہے۔

انہوں نے بچوں کے ادب کے حوالے سے بھی بہت کام کیا بچوں کی کہانیوں کے حوالے سے اُن کی دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جو کہ وطن خوشبو اور ضیائے وطن سے معنون ہیں اور علمی و ادبی حلقوں سے خراج تحسین پاچکی ہیں وطن خوشبو پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے اور حکومت پنجاب کی طرف بہترین فیچر رائٹر کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں انہوں نے ایک عورت کی حیثیت سے سماج میں عورت پر ہونے والے مظالم کو بے نقاب کرنے کی سعیِ بلیغ کی ہے وہ تعلیم و تعلم کے پیشہ سے وابستہ ہیں اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث وہ ادب کو صحیح وقت نہیں دے پا رہیں، مشاعروں اور تقریبات سے قصداً گریز کرتی ہیں اور نمود و نمائش سے ماورا ہو کر گلشنِ شعر و ادب کی آبیاری کا کٹھن فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔

وہ روزنامہ جنگ کی آرٹیکل رائٹر بھی ہیں اُن کا مختلف اصناف میں بکھرا ہوا کام انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے امورِ خانہ داری اور پیشہ ورانہ تدریسی مصروفیات کے باوجود بھی انہوں نے گراں قدر ادبی خدمات سرانجام دی ہیں اُن کا ادبی کینوس بہت وسیع ہے اُن کی شخصیت کی کئی جہتیں اور ہر جہت ایک روشن کرن کے مماثل ہے۔

آخر میں اُن کا نمونۂ کلام ملاحظہ ہو    ؎

لاشے گرے زمیں پہ تو اختر بھی رو پڑے

اب کے تو میرے شہر کے پتھر بھی رو پڑے

ٹوٹی ہیں کِن سہاگنوں کی، حیف چوڑیاں ؟

ماؤں کی گود اُجڑی مقدر بھی رو پڑے

گلزار اشک بار ہیں کوہسار سوگوار

دریا کے ساتھ ساتھ سمندر بھی رو پڑے

گزریں وہ آفتیں کہ قیامت گزر گئی

دیکھا ہمارا حال تو محشر بھی رو پڑے

میرے وطن میں آئے نہ فصلِ خزاں شفقؔ

ایسا نہ ہو چمن میں گلِ تر بھی رو پڑے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نیئر رانی شفقؔ

 

 

سچ کا سورج لے کر نکلی جھوٹوں کی اس بستی میں

زخمی زخمی جسم ہے میرا پتھر کیسے کھائے ہیں ؟

شفقؔ ابھی سے چھوڑ گئی دل کیا تجھ کو معلوم بھی ہے؟

راہِ حقیقت میں کس کس نے سر اپنے کٹوائے ہیں ؟

٭

 

               نئے سال کا سورج

 

نفرت، غربت، آگ اور خون

پچھلے برس کی فصلیں تھیں

ان فصلوں کو آگ لگا کر

دولت دین اور مہر وفا کی

اب فصلیں کاشت کرائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

زیب النساء زیبیؔ کا کلام اور تنقیدی روئیے

 

 

یہ امر ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک حقیقی تخلیق کار سماج کا غیر جانبدار نقاد ہوتا ہے وہ معاشرے کے محاسن و معائب کو گہری نگاہ سے دیکھتا ہے خوبیوں کو سراہتا ہے جس سے انھیں فروغ ملتا ہے خامیوں کو ہدفِ تنقید بناتا ہے اور اُن کا علاج و تدارک تجویز کرتا ہے ان امور کا تعلق ادب برائے زندگی کے شعبے سے ہے ہم نے جب زیب انساء زیبیؔ کے شعری مجموعہ ’’تم میرے ہو‘‘ کا مطالعہ کیا تو ہمیں اُن کے ہاں تنقیدی روئیے وفور کے ساتھ نظر آئے زیب انساء زیبی اقلیم شعر و ادب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ادبی حوالے سے وہ ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں وہ شاعر بھی ہیں افسانہ نگار بھی ناول نویس بھی ہیں کالم رائٹر بھی اس کے علاوہ ان کا تعلق تحقیق سے بھی ہے ابھی تک مجموعی طور پر نظم و نثر پر مبنی ان کی ایک درجن کتب منصہ شہود پر آ چکی ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے تیسرے شعری مجموعہ ’’تم میرے ہو‘‘ کے ربع دوم کا فکری و فنی تجزیہ تنقیدی روئیوں کے حوالے سے کریں گے اور ان کے غزلیہ اشعار بطور استشہاد لائیں گے۔

ہمیں کسی سخن گستر کے تنقیدی روئیوں کو زیر بحث لانے سے پہلے ان کے اسباب و وجوہات اور جوازات کو زیرِ بحث لانا ہو گا پھر جا کر افہام و تفہیم کا عمل واضح ہو گا دراصل شاعری ایک مقصد ہے ایک مشن ہے ایک تبلیغ ہے ایک ذریعۂ اصلاح ہے سخن دان کی حیثیت ایک نقاد اور مصلح کی ہوتی ہے وہ اپنے تنقیدی روئیوں کی بدولت سماج کی کج ادائیوں کو طشت از بام کرتا ہے اس کے افکار و نظریات کی بدولت قارئین راہنمائی پاتے ہیں وہ صرف نشاندہی نہیں کرتا بلکہ معاشرے کے مصائب کا حل بھی بتاتا ہے اور دل کھول کر محاسن کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے تاکہ معیشت کو مثبت خطوط پر استوار کرنے میں آسانی ہو جس سخن دان کا کلام تنقیدی روئیوں کا حامل ہو اُس کا مطالعہ عمرانی نقطۂ نگاہ سے خصوصی دلچسپی کا حامل ہوتا ہے تنقیدی روئیوں کی پاسداری میں شاعر کا بنیادی مقصد اصلاح معاشرہ ہے اس حوالے سے اُس کا طرزِ بیان ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اگر اس کی بات عوام کی ذہنی سطح اور نفسیات کے بہت زیادہ قریب ہے تو اُسے اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی ہو گی اس کے لیے ضروری ہے کہ تخلیق کار کا دل خیر خواہی کے جذبات سے لبریز ہو درد مند جذبوں کا امین ہو ہم نے جب زیب النساء زیبیؔ کے کلام کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا تو ہمیں متذکرہ خصائص بدرجہ اتم نظر آئے۔

ان کا پیرایۂ اظہار ایک خاص رنگ رکھتا ہے ان کے خیالات نادر النظیر ہیں اسلوب میں سادگی اور خیالات میں طرفگی ہے وہ معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کا وافر احساس رکھتی ہیں سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں سے انھیں انتہائی ہمدردی ہے ان کے دکھ کو وہ اپنا دکھ سمجھتی ہیں معاشرے کے دوہرے روئیوں کو ہدفِ تنقید بناتی ہیں تصنع اور منافقت کی وہ شدید مخالف ہیں ان کے ہاں حب الوطنی کے جذبات بھی موجزن ہیں وہ سیاسی قیادت پر بھی طنز کے تیر چلاتی ہیں انھیں افکار کی حامل اُن کی ایک پوری غزل زیبِ قرطاس ہے   ؎

جو خوں کے آنسو رلاتی ہے بھوک پیاس یہاں

یہ بھوکے لوگ خدا جانے کس جہان کے ہیں ؟

یہ اہل زر کہ جو رزاق بنے ہوئے ہیں خود

زمیں پہ رہتے ہیں انداز آسمان کے ہیں

عجیب لوگ ہیں جو خود بے امان رہ کر بھی

تمام وصف بہم ان میں سائبان کے ہیں

کہیں کہیں ہے درندہ یہ اشرف المخلوق

کہ ایک چہرے پہ چہرے کئی گمان کے ہیں

ابھی کچھ اور دُکھوں سے گزرنا ہے زیبیؔ

کہ مرحلے ابھی کچھ اور امتحان کے ہیں

قارئینِ کرام آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ اسلوب میں سادگی ہے اور افکار میں ندرت ہے تلخ حقائق کا بیان ہے متنوع خیالات ہیں جو اُن کی تلون مزاجی کا حصہ ہیں جذبات شدت وحدت کے حامل ہیں ایک گہرا سماجی کرب ہے جو قاری کو سرسری گزرنے نہیں دیتا ایک اپنائیت کا احساس ہے انھیں خصوصیات کے با وصف زیب النساء زیبی کا کلام اپنی ہم عصر شاعرات کی نسبت ممتاز و منفرد ہے۔

ان کے یہ تنقیدی روئیے تمام انسانی حیات پر محیط ہیں ان کے ہاں موضوعات کی وسعت ہے سماجی معاملات ہوں یا عشقیہ واردات ہوں یا مذہبی حالات ہر حوالے سے ان کے ہاں ایک تنقیدی پہلو پایا جاتا ہے ہر چیز کو وہ نقدِ نظر کے انداز میں دیکھتی ہیں اسی حوالے سے اُن کی ایک اور غزل ملاحظہ کریں۔

عزتِ حسن نہیں ، عشق کی توقیر نہیں

جان نثاروں کی دوا کوئی بھی اکسیر نہیں

عزم و ہمت ہو تو حالات بدل جاتے ہیں

تیرا افلاس مقدر کہیں تقدیر نہیں

اپنی پابندی کا الزام مرے سر پہ نہ رکھ

کیا یہ پازیب ترے پاؤں کی زنجیر نہیں ؟

ہیں زمانے میں محبت کے معانی عنقا

یہ وہ اجمال ہے جس کی کوئی تفسیر نہیں

چلتی رہتی ہے جو قینچی کی طرح تیری زباں

کون سمجھے کہ تری بات میں تاثیر نہیں ؟

ہاتھ کیوں کھانے سے روکا ہے جنابِ واعظ

کھائیے مرغِ مسلم ہے یہ خنزیر نہیں

خط میں افشائے محبت ہے یقیں کیسے کروں

جو ہے محبوب مرا اس کی یہ تحریر نہیں

دل زباں ایک نہیں ہے تو اثر کیا ہو گا

جھوٹی باتوں میں نظر آئے گی تاثیر نہیں

وہ حقیقی زندگی کا وسیع و عریض ادراک رکھتی ہیں وہ انسانی روئیوں کو بھی ہدفِ تنقید بناتی ہیں وہ اخلاقی اقدار کی پامالی کا رونا بھی روتی ہیں اُن کے ہاں صرف فضائے حزن و ملال نہیں ہے ان کا شعری شعور صرف یاسیت و قنوطیت تک محدود نہیں ہے ان کے ہاں امید افزا مکانات بھی ہیں وہ کبھی رجائیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتیں وہ اپنے فکری و فنی شعور سے بھی آگاہ ہیں انھیں اس امر کا قوی یقین ہے کہ ان کے تخلیقی نوشتے ایک دن حقیقت کا روپ دھار لیں گے اسی تناظر میں ان کی غزل کے تین اشعار قابلِ غور ہیں    ؎

یہ دلوں کے کنول ہیں مسل جائیں گے

تلخ باتوں سے رستے بدل جائیں گے

پتھروں کو عقیدت سے پوجیں اگر

ہے یقیں یہ کہ پتھر پگھل جائیں گے

میرے افسانے تحقیر سے مت پڑھو

یہ کسی دن حقیقت میں ڈھل جائیں گے

زیب النساء زیبیؔ کی قدرتِ متخیلہ میں روایت کو ایک خاص مقام حاصل ہے اگرچہ اُن کے بہت سے اشعار جدت آمیز ہیں لیکن روایت بھی انھیں عزیز ہے ان کے تنقیدی افکار دنیا و عقبیٰ کو اپنے احاطۂ قدرت میں لئے ہوئے ہیں کبھی وہ روحانی معاملات کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں کبھی دل زدوں کو ان کی طنز کا نشانہ بننا پڑتا ہے تو کبھی ان کی طرفداری کی بات کر کے اہلِ دنیا کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اُن کے ہاں خیالات و الفاظ کا تکراری پہلو معدوم ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کے پانچ اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

کوئے صحرا بھی نہیں ناقۂ لیلیٰ بھی نہیں

ہم بھلا بیٹھے روایات بیابانوں کی

درد خواہوں کا الگ شور سا ہے حشر کے دن

نیچی نظریں ہیں الگ زود پشیمانوں کی

کس طرح محفلِ جاناں میں رسائی ہوتی؟

ہم نظر سے نہ بچے ان کے نگہبانوں کی

فلسفہ ان کا الگ ان کا تخیل بھی جدا

گفتگو جب بھی سنی ہے تیرے دیوانوں کی

پھبتیاں خوب کسی جاتی ہیں بازاروں میں

کیا ہنسی اُڑتی ہے ان چاک گریبانوں کی؟

جب ظالم و مظلوم، مسیحا و قاتل جابر و مجبور میں امتیاز باقی نہ رہے تو اس وقت دہر دوزخ سماں منظر پیش کرتا ہے حق و باطل کا امتیاز محالات میں ہو جاتا ہے یہ ناروا روئیے سماج کے ہر فرد کے لئے اذیت ناک ہوتے ہیں اور عمرانی تنزلی کا سبب بنتے ہیں اسی صورتِ حال کی عکاسی وہ کچھ ایسے کرتی نظر آتی ہیں اس حوالے سے ان کی غزل کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے جو ایک مبہم معاشرے کی غمازی کرتا ہے   ؎

دونوں ہیں ہمشکل بھی دونوں کی یکساں بات چیت

فرق کچھ پاتے نہیں مقتول میں قاتل میں ہم

جہاں خود غرضی، نفسا نفسی، جھوٹ اور مکر و ریا دیکھ کر وہ نالاں نظر آتی ہیں منافقت سے انھیں سخت نفرت ہے وہ نظریات کی دنیا کی باسی ہیں وہ مثالی دنیا چاہتی ہیں لیکن وہ یہاں معاملہ برعکس دیکھتی ہیں تو وہ پھر مجبورِ بیاں ہو جاتی ہیں ان کی ایک غزل کے ایک شعر میں ان کی زبانی سنتے ہیں   ؎

جھوٹے رشتے، جھوٹے ناطے

سچے خواب کہاں سے لائیں ؟

ان کا زاویۂ تنقید بہت بسیط ہے کبھی قدرت بھی ان کی تنقید کا نشانہ بن جاتی ہے انسان کی بد عملی اور بے راہروی کو دیکھ کر وہ خالقِ کائنات سے یوں گویا ہیں    ؎

یہ تم نے کائنات میں کیا گل کھلا دیا؟

انساں بنا دیا کہ تماشا بنا دیا

آج ہمیں قحط الرجال کا سامنا ہے اس لئے ہر انسان شاکی و نالاں نظر آتا ہے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے شرم و حیا اپنی بساط سمیٹ چکی ہے وفا و مروت عنقا ہو چکی ہے انسان بک رہے ہیں کائنات منڈی بن گئی ہے اور ہر چیز بکاؤ مال کا روپ دھار چکی ہے کسی چیز کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے تمام عالم لکشمی کا اسیر ہو چکی ہے اور ہر کوئی اسے حاصل کرنے کے چکر میں ہر جائز و ناجائز عمل سے گزر رہا ہے اسی حوالے سے ان کی غزل کا ایک شعر دیدنی ہے    ؎

اس دور میں ہزاروں انسان سستے داموں

اخلاق بیچتے ہیں کردار بیچتے ہیں

متذکرہ تجزیات شاہد ہیں کہ زیب النساء زیبی کا کلام سراپا تنقید ہے جس میں انسان دوستی کے مظاہر موجود ہیں ان کی تنقید تعمیری نوعیت کی ہے ان کے تنقیدی روئیے اپنے اندر اصلاح و خیر خواہی کے جذبے رکھتے ہیں اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو انھوں نے زیادہ مرکب بحور میں خامہ فرسائی کی ہے کہیں کہیں مفرد بحریں بھی اپنی مکمل آن بان کے ساتھ موجود ہیں انھوں نے زحافات کا استعمال بھی چابکدستی سے کیا ہے وہ مشکل و سنگلاخ زمینوں میں بھی زبردست مضمون آفرینی کر لیتی ہیں ان کے اسلوب اور زبان کا معیار ایک عام آدمی کی ذہنی سطح سے ہم آہنگ ہے بہرحال ان کے کلام میں بہت سے روشن امکانات موجود ہیں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والا دور زیب النساء زیبیؔ کا دور ہو گا خدائے لم یزل انھیں ذوق و شوق سے اور تواتر سے عروسِ سخن کی مشاطگی کی توفیق دے (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

زیب النساء زیبیؔ

 

 

امیرِ شہر نے تانی ہیں اپنی شمشیریں

کہ اہلِ فن کے لیے بن رہی ہیں زنجیریں

ہمارے پاس نہ سرمایہ اور نہ جاگیریں

ہمارے پاس ہیں ، خوابوں کی صرف تعبیریں

ہوا کے رخ پہ جو دوڑیں وہ راج کرتے ہیں

کبھی بدلتی نہیں اہلِ حق کی تقدیریں

ہمارے بچے ہی سچائی کی علامت ہیں

کہاں ملیں گی یہ معصومیت کی تصویریں ؟

جو اہلِ فن ہیں انہیں دوستو! سلام کرو

ہیں ان کے پاس ہنر مندوں کی جاگیریں

یزیدِ وقت کی بیعت بھی کیوں کریں زیبیؔ

ہمیں قبول ہیں ظلم و ستم کی زنجیریں

وہ خواب دیکھیے زیبیؔ کہ جن کا حاصل ہوں

سدا بہار خلوصِ وفا کی تعبیریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی جو تم سے ملاقات ہو گئی ہوتی

تو تیز دھوپ میں برسات ہو گئی ہوتی

جو ساتھ ان کے مری ذات ہو گئی ہوتی

نگاہِ شوق بھی سوغات ہو گئی ہوتی

شکست و ریخت سے میں بھی اگر گزر جاتی

تو کامیاب مری ذات ہو گئی ہوتی

غموں سے دل بھی اگر میرا بھر گیا ہوتا

تو آنسوؤں کی بھی برسات ہو گئی ہوتی

ذرا سی دیر بھی زیبیؔ جو ان سے مل سکتے

خوشی ہی زیست کی سوغات ہو گئی ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

ماریہ روشنیؔ عصری صداقتوں کی شاعرہ

 

 

تخلیق کار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے اور اُس کی کامیابی کا راز اس امر میں مضمر ہوتا ہے کہ وہ اپنی تخلیقات میں روحِ عصر کی عکاسی کس حد تک کر پاتا ہے جن شعراء کا کلام عصری تقاضوں اور صداقتوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے وہ خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس ضمن میں شاعر کی ذات کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کو کن زاویوں سے دیکھتا ہے جب ہم نے ماریہ روشنی کے کلام کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا تو ہمیں عصری صداقتیں وفور سے نظر آئیں انھوں نے اپنے عہد کی بجا طور پر ترجمانی کی ہے اور عصرِ حاضر کی صاف اور شفاف تصویر قاری کے سامنے رکھ دی ہے جس میں اُس کے تمام محاسن و معائب موجود ہیں آج ہم اسی حوالے سے اُن کے شعری مجموعہ ’’میں تم کو چھوڑ سکتی ہوں ‘‘ کے تناظر میں مذکورہ موضوع کی نسبت سے منتخب غزلیہ اشعار کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرتے ہیں کتابِ ہذا کی اشاعت 12؍ فروری 2011ء میں عمل میں آئی اگرچہ اس مجموعے کا نام عمومی نوعیت کا حامل ہے مگر ایک عام قاری کے لیے ایک دلچسپی کا پہلو اپنے اندر رکھتا ہے اگرچہ اُن کی نظم فنی اعتبار سے نیم آزاد نوعیت کی حامل ہے اور اسے مزید پختگی درکار ہے مگر اُن غزل فکری و فنی اعتبار سے اعلیٰ و ارفع ہے اُن کی فکر میں ایک سنجیدگی کا عنصر پایا جاتا ہے ہے جو کہ اُن کی فنی ریاضت کی دلیل ہے۔

کلام میں مزاحمتی احساسات عصری تقاضوں اور صداقتوں کے آئینہ دار ہیں اس کی اصل وجہ حالات کا آشوب زدہ ہونا ہے جب امنِ ہستی پامال ہو گا جب انسان کو گوشۂ عافیت میسر نہیں ہو گا جب بے حسی کا دور دورہ ہو گا جب مکارمِ اخلاق زوال پذیر ہوں گے تو ایسے حالات میں مزاحمتی شاعری کا عمل میں آنا ایک فطری تقاضا بن جاتا ہے انھیں جذبات و خیالات کی ترجمانی ماریہ روشنی کی زبانی اُن کی غزل کے تین اشعار میں مشاہدہ کرتے ہیں :

بجا ہر ظلم ہے تیرا مگر اے شہر کے حاکم

ستم حد سے گزر جائے تو پھر سہنا بھی مشکل ہے

ہے دورِ مصلحت ہر سو غرض کا دور دورہ ہے

غلط کو اس زمانے میں غلط کہنا بھی مشکل ہے

لٹیروں کے لیے اے روشنیؔ جنت ہے یہ دھرتی

یہاں حساس انساں کے لیے رہنا بھی مشکل ہے

وہ موجودہ سامراجی نظام پر بھی تنقید کے نشتر برساتی ہیں اور اُسے حالات کے ناگفتہ بہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں وہ اپنی غزل کے ایک شعر میں یوں گویا ہیں :

حکمراں دیکھ ہر اک سمت بپا موت کا رقص

رکھ دیا تو نے مرے شہر کو مقتل کر کے

اُن کے ہاں کہیں کہیں نسائی احساسات بھی جلوہ ریز ہو رہے ہیں اور اُنھوں نے صنفِ نازک کے مصائب و آلام کو موضوعِ سخن بنایا ہے بنتِ حوا کو شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کہیں بھی جائے اماں میسر نہیں ہوتی جیسے بانو قدسیہ نے کہا ہے کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا اسی حوالے سے روشنی کی غزل کا ایک شعر زیبِ قرطاس ہے:

میں بیٹی، بہن، بیوی، ماں ہوں لیکن یہ حقیقت ہے

یہاں اے روشنی کوئی بھی گھر میرا نہیں ہوتا

منافقت اور ریاکاری نے بھی ایک عصری صداقت کا روپ دھار لیا ہے یہی سبب ہے کہ ہمارے قول و فعل میں ایک تضاد پایا جاتا ہے ماریہ روشنی اؔس رویے کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہیں :

فاصلے دل کے مٹائے نہیں جاتے ہم سے

ہاتھ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے؟

وہ نظام کو بدلنا چاہتی ہیں وہ اسے مثبت خطوط پر استوار دیکھنے کی خواہاں ہیں وہ ایک انقلابی تبدیلی کی طلبگار ہیں اس لیے سیاست دان جا بجا اُن کی تنقید کا نشانہ بنتے نظر آتے ہیں وہ سیاسی قیادت کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھتیں اُن کے نزدیک ملکوں پر حکومت کرنا کوئی کارنامہ نہیں ہے بلکہ دلوں پر حکمرانی انسانیت کی معراج ہے اسی حوالے اُن کا نقطۂ نظر دیدنی ہے:

یہ ملکوں پر حکومت کرنے والے

کسی دل پر حکومت کر کے دیکھیں

جہاں میں مہر و محبت مفقود ہے خلوص و مروت رو بہ زوال ہے خود غرضی اور مطلب پرستی نے ہمارے سماج میں اپنی جڑیں پیوست کر لی ہیں اس لیے انسان شدید قسم کے احساس تنہائی کا شکار ہے داخلی اور خارجی طور پر اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرتا ہے اور ایک خود اذیتی کے عمل سے گزر رہا ہے ماریہ روشنی ایک عام آدمی کے مسائل کو اپنے ذاتی حوالے سے بیان کرتی ہیں یعنی سماجی اثرات اُن کی ذات پر غالب ہیں اس لیے وہ شدید قسم کے احساسِ کرب میں مبتلا ہیں یہ صرف اُن کا ذاتی غم نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ایک عمرانی المیہ ہے جس کے باعث اُنھیں معاشرہ حبس زدہ دکھائی دیتا ہے۔

میں ایک عمر سے عہدِ خزاں میں رہتی ہوں

خود اپنی ذات کے کرب و بلا میں رہتی ہوں

جہاں پہ تازہ ہوا کو بھی جاں ترستی ہے

میں ایسے شہر کی آب و ہوا میں رہتی ہوں

اہلِ محبت کے لیے اہلِ درد ہونا انتہائی ضروری ہے ورنہ محبت وجہِ رسوائی بن جاتی ہے محبت انسانیت کو آفاقیت سے ہمکنار کرتی ہے جس کی بدولت فکر کو وسعت ملتی ہے وہ چاہت کے تقدس کی قائل ہیں وہ ایسی الفت کی قائل نہیں جس میں پندارِ انا نہ رہے اور عشق وجہ رسوائی ٹھہرے اسی حوالے سے اُن کی غزل کے تین اشعار لائق التفات ہیں :

جہاں والے جو اہلِ درد ہوتے

محبت وجہ رسوائی نہیں تھی

محبت دل میں بس جانے سے پہلے

مری سوچوں میں گہرائی نہیں تھی

مجھے تھی باپ کی عزت بھی پیاری

میں اک تیری تمنائی نہیں تھی

کائناتِ ہستی میں تغیر و تبدل اور شکست و ریخت کا عمل جاری ہے ایسی ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں کہ انسانی عقل دنگ ہو جاتی ہے:

ایک پل میں بدل گیا سب کچھ

جانے کیا ہو گیا زمانے کو

عورت ایک استعارہ ہے خلوص و وفا کا اور ایک علامت ہے فرمانبرداری کی عاجزی و انکساری کی خدمت اور تواضع کی بقول راقم الحروف:

یہ سکھ بھی ہے انسان کی آتما کا

تصور بہت خوب خدمت کا عورت

کارزارِ تخیل میں انھوں نے اپنے اندر کی عورت کو مرنے نہیں دیا اس حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر درِ التفات پر دق الباب کر رہا ہے:

ہیں آپ مرے تاج مرے سر پہ رہیں گے

پاپوش ہوں میں آپ کے پاؤں میں رہوں گی

اُن کے جذبات نسائی احساسات کی قبا اوڑھے ہوئے ہیں وہ اپنے اردگرد کے حالات دیکھ کر ششدر ہو جاتی ہیں انھوں نے عورت کے مسائل کو اپنے کلام میں اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور معاشرے کی بے حسی کو جھنجھوڑنے کی سعیِ جمیل کی ہے۔ اسی حوالے سے اُن کی غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں :

کس دورِ بے حسی میں اُتارا گیا مجھے

جیتا گیا مجھے کبھی ہارا گیا مجھے

جنموں سے تھی پرائی مگر جب جواں ہوئی

سر سے بشکلِ قرض اُتارا گیا مجھے

وہ اس دہرِ ناتواں میں انقلاب کی متمنی ہیں وہ بے حسی کے جمود کو توڑنا چاہتی ہیں وہ ایک روشن تبدیلی کی خواہش مند ہیں لیکن یارانِ جہاں کی بے حسی سے خوفزدہ ہیں اُسے تمام عالم خواب کی حالت میں دکھائی دیتا ہے حتیٰ کہ جنھوں نے تحفظ کرنا تھا ہمارا وہ بھی فصیل شہر پر سوگئے ہیں۔

نہیں آئی جو تبدیلی یہاں پر

یہاں اہلِ نظر سوئے سوئے ہیں

جگاؤں تو میں کس کس کو جگاؤں

یہاں تو گھر کے گھر سوئے ہوئے ہیں

ہمارے شہر کے سارے محافظ

فصیلِ شہر پر سوئے ہوئے ہیں

مذکورہ بالا شواہد اس امر کے کافی و شافی شاہد ہیں کہ ماریہ روشنی کی فکر روحِ عصر کی عکاس ہے اور عصری صداقتوں کا فروغ ہے خدا اُنھیں اس امر کی مزید توفیق دے کہ وہ عکسِ جہاں کو قرطاس پر اُتارتی رہیں۔ (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

ماریہ روشنیؔ

 

 

اداس دل جہاں میں طلب کوئی تو ہے

اشک اشک نگاہیں سبب کوئی تو ہے

کہیں تو رکنا پڑے گا اے آرزوئے وصال

محبتوں میں بھی حدِ ادب کوئی تو ہے

وہ بچپنے کا مرا دوست دور ہے لیکن

سمجھتا ہے مرا نام و نسب کوئی تو ہے

اسے اداس جو دیکھا خوشی ہوئی مجھ کو

مری طرح سے یہاں جاں بلب کوئی تو ہے

اے روشنیؔ اسے ڈھونڈو اسے تلاش کرو

فصیل دل میں لگی ہے نقب کوئی تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کون سمجھائے گا دم توڑتی نیندوں کو مری؟

مسئلہ خاک کا در پیش آنکھوں کو مری

ناقدِ شہر سخن پر مجھے حیرت ہے بہت

شاعری کہتا ہے الجھی ہوئی باتوں کو مری

وہ تری یاد ہے یا ہجر کا سناٹا ہے

ایک وحشت سی ڈرا دیتی ہے راتوں کو مری

ایک لمحے میں سمٹ آتا ہے آنچل میں مرے

ایک لمحے میں جھٹک دیتا ہے بانہوں کو مری

ایسے لمحات بھی گزرے پسِ وحشتِ دل

چھیڑتا تھا کوئی تنہائی میں زلفوں کو مری

ایک عورت ہی سمجھتے ہیں مجھے سب کی طرح

کب خبر ہو گی مرے چاہنے والوں کو مری

میں اگر اس پہ فدا ہوں تو غلط کیا ہے کہ وہ

روز آنکھوں سے لگاتا ہے کتابوں کو مری

٭٭٭

 

 

 

 

حمیدہ سحرؔ کی شعری نیرنگیاں

 

 

فنِ شاعری فنونِ لطیفہ کا وہ شعبہ ہے جسے ہر عہد میں فروغ میسر رہا ہے، لیکن طبقۂ اناث کے سخن کو عصرِ حاضر میں پذیرائی ملی ہے۔ اس کی اصل وجہ اس طبقے کی عدم توجہی ہے۔ موجودہ دور میں بہت سی شاعرات میدانِ شعر میں اُتریں ، ان میں سے معدودے چند شاعرات ایسی ہیں جو حلقۂ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرانے میں کامیاب ہوئیں۔ انہیں شاعرات میں ایک نام حمیدہ سحر کا بھی ہے جن کا کلام بہت سی نیرنگیوں کا حامل ہے۔ آج ہم ان کی شعری بیاض سے چیدہ چیدہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

سماج اجتماعی بے حسی کا شکار ہے۔ ہر انسان شدید قسم کے احساسِ تنہائی سے دو چار ہے۔ ماحول کے جملہ مظاہر پر تنہائی کا آسیب چھایا ہوا ہے۔ یہ صورتِ احوال ان کے کلام سے ہویدا ہوتی ہے۔ ان کے ہاں پریم کے پوتر جذبات اپنے پورے کروفر سے پائے جاتے ہیں۔ عشقیہ خیالات ان کے شعری کینوس پر چھائے ہوئے ہیں۔ جمالیاتی احساسات بھی ان کے شعری شعور کا حصہ ہیں۔ اس حوالے سے ان کی غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

گھر بھی ہے مثلِ رہ گزر تنہا

جس پہ جاری ہے اب سفر تنہا

دل جلوں میں کرو شمار مرا

ہو گئی میں بھی معتبر تنہا

حسن کی بزم میں شریک رہی

عشق نے کر دیا مگر تنہا

روایت سے ان کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ اس لیے ان کا کلام روایت کا بھرپور غماز ہے۔ روایتی خیالات ان کے میں سخن جا بجا نظر آتے ہیں۔ وہ بھی کلاسیکل شعراء کی طرح مقدر سے شاکی نظر آتی ہیں اور تقدیر کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں۔ ان کی غزل کا مطلع ملاحظہ کریں   ؎

مجھ کو تقدیر نے رلایا ہے

اک نیا زخم پھر سے کھایا ہے

وہ حیات کی کٹھنائیوں کا مشاہدہ کرتی ہیں۔ وہ زیست سے ہم کلام نظر آتی ہیں۔ وہ بھی فطری طور پر ہر انسان کی طرح پُر امن رہنا چاہتی ہیں۔ انہیں زندگی سے بے انتہا محبت ہے اس لیے وہ راحت و فرحت کی خواست گار نظر آتی ہیں   ؎

رہِ حیات اتنی بھی خار دار نہ ہو

کہ ایک پل بھی میسر مجھے قرار نہ ہو

بعض اوقات ان کے تخیلات میں حیرت و استعجاب کا ایک جہان آباد ہوتا ہے۔ جا بجا پُر اسراریت قارئین سے ہم آغوش ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ہاں تنقیدی رویے بھی وفور سے ملتے ہیں۔ اس لیے وہ جگہ جگہ سراپا سوال دکھائی دیتی ہیں   ؎

اتنی مدھم یہ راگنی کیوں ہے؟

آج محفل میں خامشی کیوں ہے؟

ہم سے کیا خطا ہو گئی مالک؟

اتنی دشوار زندگی کیوں ہے؟

پوچھتی ہے یہ تلخیِ دوراں

اتنی لہجے میں چاشنی کیوں ہے؟

ہم سے روشن چراغِ مہر و وفا

تم کو شکوہ کہ روشنی کیوں ہے؟

ان کے ہاں صرف نالہ و شیون یا آہ و فغاں نہیں ہے بلکہ کہیں کہیں احساسِ سپاس گزاری بھی جھانکتا نظر آتا ہے۔ صرف ہجر و وصال یا حزن و ملال کے فسانے نہیں ہیں ، بلکہ رفعتِ تخیل کے ساتھ ساتھ طربیہ و رجائی تاثرات بھی اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ صرف مجاز کے صحت مند توانا حوالے نہیں ہیں بلکہ معرفت بھی کہیں کہیں جلوہ ریز نظر آتی ہے   ؎

صناعیِ قدرت پہ سدا میری نظر ہے

دل جھوم رہا ہے گل و گلزار ہوا ہے

کیا بات ہے اس میں کہ اب اس کا تصور

ہر لحظہ سحر شامل افکار ہوا ہے

رومانوی افکار و خیالات بھی ان کے ہاں پوری شدت و حدت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ رومان کے حوالے سے ان کے جذبات و احساسات جاذبیت سے لبریز ہیں جو دل کے تاروں کو چھیڑنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور دل زدوں کے لیے سامانِ دل بستگی ہیں۔ اس سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر ان کی غزل کے دو اشعار نظرِ قارئین ہیں   ؎

آئے وہ میرے سامنے آ کر چلے گئے

دیدار کا وہ جام پلا کر چلے گئے

میرے خیال و خواب کی دنیا بدل گئی

آنکھوں سے وہ شراب پلا کر چلے گئے

مندرجہ بالا اشتہادات سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ حمیدہ سحر کی قوتِ متخیلہ اپنے اندر بے پناہ نیرنگیاں سموئے ہوئے ہے۔ ان کا شعری کینوس وسیع و بسیط ہے۔ اگر ان کی شعری ریاضت، شوق، لگن اور بھرپور محنت سے جاری و ساری رہی تو ان کے فکر و فن میں مزید پختگی آئے گی۔ اِن شاء  اللہ

٭٭٭

 

 

 

حمیدہ سحرؔ

 

 

یادوں کا آج کوئی ستارہ ہو میرے سنگ

تم نہ سہی کوئی تو سہارا ہو میرے سنگ

چھو لے پھر آج میرے بدن کو تری ہوا

ساحل کی ریت اور کنارہ ہو میرے سنگ

پھر انجمن میں آج تجھے ڈھونڈتی ہوں میں

تیری طرف سے کوئی اشارہ ہو میرے سنگ

راہِ وفا میں میرے لیے کم تو نہیں تھا یہ

تم نے جو ایک پل بھی گزارہ ہو میرے سنگ

وہ بھی عجیب شام تھی جب ہم ملے سحرؔ

وہ اتفاق تھا تو دوبارہ ہو میرے سنگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ دل ہے کہ اُلجھن میں گرفتار ہوا ہے

کیا بات ہے کیوں اُس سے مجھے پیار ہوا ہے

معلوم نہیں تھا کہ اُسے پیار تھا مجھ سے

کیا کیجیے تاخیر سے اقرار ہوا ہے

مشکل سے مری بات سمجھ آئی ہے اُس کو

مشکل سے وہ اک نیند سے بیدار ہوا ہے

ہر روز نیا فلسفہ، ہر رات نئی بات

یک رنگ تسلسل بھی انھیں بار ہوا ہے

صنّاعیِ قدرت پہ سدا میری نظر ہے

دل جھوم رہا ہے گل و گلزار ہوا ہے

کیا بات ہے اس میں کہ اب اس کا ہی تصور

ہر لحظہ سحرؔ شاملِ افکار ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

شبیر ناقدؔ کا سوانحی اور فنی تعارف

 

 

اصل نام غلام شبیر اور ادبی نام شبیر ناقد ہے۔ یکم فروری 1976ء کو جنوبی پنجاب کے مردم خیز علاقے ڈیرہ غازی کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں ہیرو شرقی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کا امتحان 1992ء کو گورنمنٹ ہائی اسکول ہیرو شرقی سے پاس کیا۔ 1994ء گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے ڈی کام کیا شاعری کا باضابطہ آغاز 1996ء میں کیا اور ادبی فیض ابو البیان ظہور احمد فاتح سے پایا۔

جولائی 1999ء میں پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی تا دم تحریر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 2001ء کو بی اے کا امتحان بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی سے نجی طور پر پاس کیا۔ 2003ء کو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا اور 2007ء کو مذکورہ یونیورسٹی سے ایم اے پنجابی کیا۔

دسمبر 2007ء میں ان کا اولین اردو شعری مجموعہ ’’صلیب شعور‘‘ جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا زیور طباعت سے آراستہ ہوا اپریل 2010ء میں ان کا سرائیکی شعری مجموعہ ’’من دی مسجد‘‘ منظر عام پر آیا جس میں غزلیں ، نظمیں ، قطعات اور دوہڑے شامل تھے۔ اپریل 2011ء میں ان کا دوسرا اردو شعری مجموعہ ’’آہنگِ خاطر‘‘ منصہ شہود پر آیا جس میں نظم کی اکثر و بیشتر ہیئتیں شامل ہیں اس میں غزلیں بھی شامل ہیں۔ قارئین کرام ان کے اردو شعری مجموعوں کی اردو سخن ڈاٹ کام پر وزٹ بھی کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی شاعرات پر تنقیدی و تحقیقی نوعیت کا کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی کڑی کتاب ہٰذا شاعرات ارض پاک ہے جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے تنقید کے حوالے سے مندرجہ ذیل کتب زیر طبع ہیں۔

۱۔        ابو البیان ظہور احمد فاتح کا کیفِ غزل

(پروفیسر ظہور احمد فاتح کی شخصیت اور غزل ایک مطالعہ)

۲۔       شاعراتِ ارض پاک (حصہ دوم) تنقیدی مضامین۔

۳۔      ابو البیان ظہور احمد فاتح کا منشورِ نظم

۴۔      زیبِ ادب، زیب النساء زیبیؔ (شخصیت و فن ایک مطالعہ)

۵۔      نقد فن (تنقیدی مضامین)

۶۔       تجزیات          (تنقیدی مضامین)

۷۔      زاوئیے           (تنقیدی مضامین)

علاوہ ازیں بچوں کے لیے شاعری بھی کرتے ہیں ان کا کلام ملک بھر کے بچوں کے رسائل کی زینت بنتا رہتا ہے۔ پاکستان کے معروف ادبی جرائد میں ان کی شعری و نثری تخلیقات تواتر سے چھپتی رہتی ہیں۔

شبیر ناقد نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے آدرش میں وسعت پیدا کی ہے اور تخلیق و تنقید دونوں میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے طبعاً سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں مگر بے تکلفی انہیں بہت پسند ہے ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ان کے شب و روز ادب کی سیوا میں صرف ہوتے ہیں انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی زندگی علمی و ادبی اور عسکری خدمات میں صرف ہو رہی ہے قارئین کرام ان کے کلام کی وزٹ اردو پوائنٹ اور یوٹیوب پر بھی کر سکتے ہیں۔

الغرض شبیر ناقد راہِ ادب کے ایک انتھک راہی ہیں جو خلوص، محبت اور لگن پر یقین رکھتے ہیں ربِ ادب سے استدعا ہے کہ ان کے فکر و فن کو دوام نصیب فرمائے آمین ثم آمین

٭٭٭

 

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے اس کی فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید