FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

شادؔ عارفی: شخصیت اور فن

 

 

                عروج زیدی

(ماخذ: ’شاد عارفی، حیات و جہات‘، مرتبہ فیروز مظفر)

 

 

 

 

 

کسی بھی زبان کا سرمایہ اس کے فن کار اور اس کا ادب ہوتا ہے۔ جب اس خیال سے ہم اُردو پر نظر ڈالتے ہیں، اس کے سرمایۂ ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو اردو کو اس کے فن کاروں، صحت مند تخلیقات اور معیاری کتب سے مالا مال پاتے ہیں۔ اس اظہار حقیقت میں مبالغہ کو قطعاً دخل نہیں ہے کہ میرؔ سے داغؔ تک اور داغؔ سے عارفی تک ہزاروں ادبی معجزات ظہور میں آئے ہیں :

شاعری جزویست از پیغمبری

دنیائے شعر و ادب میں ایسے معتبر اساتذہ اور با کمال فنکاروں کی کمی نہیں ہے جن کا کلام فنی اور لسانی اغلاط سے پاک ہے، صحتِ زبان و بیان کا آئینہ ہے، خوش بیانی کی جان اور تیز زبانی کا ایمان ہے مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ بر صغیر ہند و پاک میں ایسے شاعر معدودے چند ہیں اور انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جن کا فکر انگیز کلام شمع کی طرح روشن اور دریا کی طرح رواں ہے جنھوں نے روایت سے بغاوت کی ہے، جو ایک منفرد لب و لہجہ کے حامل ہیں، جن کے اسلوب ادا میں جدّت اور ندرت کو بڑی حد تک دخل ہے۔ جو ’’ متاع فکر بیجا نہیں اچھالتے اور جن کے شعروں میں کسی کی آواز باز گشت مشکل سے ملتی ہے۔ ایسے صاحبِ طرز اور بلند پایہ ادیبوں اور شاعروں کو اپنی شگفتہ فکر اور پیرایۂ بیان میں نئے پن کی وجہ سے حلقۂ اربابِ علم و ادب میں درجۂ قبول حاصل ہے اور اس طرۂ امتیاز کے وہ بجا طور پر مستحق بھی ہیں :

’’ چراغ مُردہ کُجا، شمع آفتاب کجا‘‘

یہ کسی حیض بیض اور کسی پس و پیش کے بغیر میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ جب اپنے لیے نئی نئی راہیں نکالنے والے اور زبان و بیان پر حاکمانہ قدرت رکھنے والے بیسویں صدی کے شاعروں کا کوئی جامع تذکرہ ترتیب دیا جائے گا تو کوئی تنگ دل اور تنگ نظر سے تنگ نظر تذکرہ نویس بھی اس شاد عارفی کے نام کو نظر انداز نہیں کر سکے گا جس نے شائستہ طنز کی روایت کو آگے بڑھایا ہے، جس نے اظہارِ حقیقت کے سلسلے میں کبھی اپنے قلم کا گلا نہیں گھونٹا ہے، جو اپنی شخصیت کے مزاج اور فن کے رچاؤ کو اپنی تخلیق میں سمونے کی پوری کوشش کرتا ہے، جس کے کلام میں  ایک مخصوص انفرادیت گونجتی ہے اور جس کی آواز ’’ فضائے غزل‘‘ میں ایک نئی آواز ہے :

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں ہے

احمد علی خاں شادؔ عارفی لڈن خاں افغانی الاصل ہیں۔ اُن کے نانا مولوی سید ولی خاں بزمانۂ نواب علی خاں مدرسۃ العالیہ رام پور میں تحصیل علم کی خاطر افغانستان سے تشریف لائے تھے۔ ان کا شمار منطق، فقہ اور فلسفہ کے مشہور عالموں میں ہوتا ہے، تذکرۂ کلاں رامپور میں اُن کے سوانح حیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انھوں نے رامپور کے ایک مشہور پٹھان خاندان میں شادی کر کے یہیں سکونت اختیار کر لی مگر وہ جو احسن مارہروی نے کہا ہے :

کشاں کشاں مجھے جانا پڑا وہاں احسنؔ

جہاں جہاں میری قسمت کا آب و دانہ تھا

انھیں بہ سلسلۂ ملازمت رام پور کی بود و باش ترک کر کے لوہارو اسٹیٹ میں اقامت گزیں ہونا پڑا۔ وہاں وہ نواب لوہارو ( نواب ضیاء الدین خاں ) کے بچوں کے اتالیق اور پھر قاضیِ شہر کے منصب پر فائز رہے۔ شادؔ عارفی کے والد خان محمد عارف اللہ خاں اور چچا عجیب اللہ خاں بھی اسی زمانہ میں ہندوستان آئے تھے اول الذکر بھی مولوی صاحب موصوف کی ہمراہی میں لوہارو گئے جہاں محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر ان کا تقرر عمل میں آیا اور مولوی سید ولی خاں نے اپنی بڑی لڑکی خورشید بیگم سے ان کا عقد مسنون کر دیا۔ اُن کے چچا دولت خاں اور دیگر اعزا ہنوز افغانستان میں ہیں جن سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے۔

شادؔ عارفی نے ۱۹۰۳ء میں اس بزمِ آب و گل میں بمقام لوہارو پہلی بار آنکھ کھولی بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ (۱) سید احمد خاں ( ۲) سعید اللہ خاں ( ۳) احمد علی خاں۔

شادؔ عارفی نے شاعری کے ماحول اور فن کے آغوش میں پرورش نہیں پائی ہے۔ ان کے والدین دینی اور مذہبی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے فارسی، عربی کی تعلیم دلا کر اور مولویانہ ذہن بنا کر ان پر ’’ زاہدِ خشک‘‘ کا ٹھپہ لگانے کی کوشش کی گئی مگر اُن کا جمالیاتی ذوق اور مزید تحصیل علم کی آرزو رنگ لائی۔ خاندان والوں نے ان کی شاعری اور انگریزی پڑھنے کی بڑے شد و مد سے مخالفت کی بہ ایں ہمہ وہ نچلے بیٹھنے والے نہ تھے، ابتدا ہی سے دھن کے پکے تھے انھوں نے حامد ہائی اسکول رام پور میں انگریزی تعلیم شروع کر دی۔ جہاں درجہ پنجم میں رازؔیزدانی مرحوم اُن کے ہم جماعت رہے شعر گوئی کی محرک محمد اسمٰعیل میرٹھی کی وہ نظمیں ہیں جو اس زمانہ کے نصاب میں عام طور پر پسند خاص و عام تھیں۔

اُس زمانہ میں اُن کے معمولات دوسرے نوخیز رام پوری لڑکوں سے مختلف نہ تھے۔ وہ کبوتروں کو بادلی دیتے تھے، غلیل سے چھپکلیاں مارتے تھے، پتنگ اڑاتے تھے لیکن سنِ شعور تک پہنچتے پہنچتے ایک ایسا بھی وقت آیا کہ درسی کتب میں منظومات کے مطالعہ سے ان کے اندر کا فنکار مچلنے لگا اور اسکول کے نیم شعری ماحول میں سانس لینے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کے اندر چھپے ہوئے فنکار نے قلم سنبھال لیا اور اپنے وجدان کی مدد سے صرف آٹھ سال کی عمر میں یہ شعر نظم کیا:

ہو چکا ہے خیر سے ہشیار تو

اپنے دشمن پر اٹھا تلوار تو

یہ اوَلین شعر جو ان کی صغر سنی میں قرطاس پر منتقل ہوا ان کی افتاد طبع کی پورے طور پر غمازی کرتا ہے آئندہ زندگی میں انھیں تلوار چلانے کا تو موقع نہیں ملا لیکن ’برش تیغ طنز‘ سے انھوں نے بعض لوگوں کے اذہان کو ایسے زخم پہنچائے ہیں جو ناسور تو بن سکتے ہیں مندمل نہیں ہو سکتے۔

شادؔ عارفی اپنے اس رویّہ پر نادم نہیں ہیں وہ خود کو ’’ حق بجانب‘‘ ثابت کرنے کے لیے پہلے تو شکایتاً فرماتے ہیں :

جن کے پینے میں ہوں نہ کھانے میں

منہمک ہیں مجھے ستانے میں

اور پھر مخالفین کے ’’ عمل‘‘ کا ’’ رد عمل‘‘ بتاتے ہوئے کہتے ہیں :

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

وہ غزل جس کا ہر شعر زہر میں بجھا ہوا ہوتا ہے۔

شادؔ عارفی شاعر بعد کو ہیں پہلے پٹھان ہیں مشکلات و مصائب کے زہرہ گداز طوفان میں ہچکولے کھا رہے ہیں مگر اپنے مزاج اور طبیعت کے خلاف ایک بات بھی سننے کے روا دار نہیں ہیں۔ مخالفین اور معاندین کی ریشہ دوانیوں کے جواب میں جب وہ اپنے ’’ طنز‘‘ کا سہارا لے کر جوابی اقدام کرتے ہیں تو جارحانہ کارروائی کرنے والوں میں ’’ صف ماتم‘‘ بچھ جاتی ہے۔ میں نے تو ایسے مواقع پر شاکی حضرات کے سامنے ہمیشہ یہ شعر پڑھ دیا ہے :

الا لا یجہلن احد علینا

فنجہل فوق الجاہلینا

(ہاں ہمارے ساتھ کوئی جہالت نہ کرے ورنہ ہم تمام جہالت کر نے والوں سے بڑھ کر جہالت کریں گے )

شادؔ عارفی محبت کے اصولی تحفہ سے بھی محروم نہیں رہے ہیں۔ زندگی کے تیرہویں سال میں ایک طرح دار اور باغ و بہار لڑکی ’ص۔ بیگم‘‘ کا التفات حاصل ہوا ساتھ کھیلے کی محبت رنگ لائی۔ ان کے سینہ میں اس کے پیار کی شمع روشن ہو گئی کچھ سہانے خواب ان کا پیچھا کرنے لگے اور دلی لگاؤ نے رفتہ رفتہ ’’ عشق‘‘ کی صورت اختیار کر لی۔ اس تجربہ کی روشنی میں شادؔ صاحب کا یہ مقطع منظر عام پر آیا:

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں

اُ ن کی غزلوں کے البم میں مشرقی تصورِ محبت کی بڑی جاندار تصویریں ملتی ہیں ان کی عشقیہ اور بہاریہ شاعری میں ’’ روایتی محبوب‘‘ کی سنی سنائی یا کتابی باتوں کی جگہ ذاتی تجربات کے نقوش ہیں ان کے تخیل میں رنگینی بھی ہے اور جذبات میں گرمی بھی۔ ان کی غزل گوئی مومن اور حسرت کی طرح انسانی اور مجازی محبت کی آئینہ دار ہے لیکن انھوں نے نفسانی اغراض کی بندگی نہیں کی۔ جنسیت اور مادّّیت کے باوجود وہ اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ ’’عشق‘‘ ہوسناکی کا روپ اختیار کرے اس دور کے اشعار سے ان کی بلند کرداری، جذبہ عشق کی طہارت اور پاکیزگیِ عمل کا اندازہ کر لینا بہت آسان ہے :

احترام جلوہ چینی یہ بھی کچھ تھوڑا نہیں

آنکھ نے جس پھول کو دیکھا اسے توڑا نہیں

………

عشق بانہیں مروڑنے میں نہیں

شاعری پھول توڑنے میں نہیں

چونکہ ’’ ص۔ بیگم‘‘ دور کی رشتہ دار تھیں، ذہنی اور جذباتی طور پر دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب تھے۔ اُس ہم آہنگی کے پیش نظر عقد نکاح کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن خاندانی اونچ نیچ کی بناء پر یہ مساعی نا مشکور ثابت ہوئیں۔ ’’ اقارب‘‘ ’’ عقارب‘‘ بن گئے۔ بعض اعزا مخالفت میں زنجیر بن کر اُن کے قدموں سے الجھ گئے۔ بالآخر ’’ لیلیٰ‘‘ کی طرح ’’ ص بیگم‘‘ کی شادی دوسری جگہ ہو گئی، مسکراتی ہوئی آشاؤں نے دم توڑ دیا اور شادؔ صاحب زبانِ حال سے یہ کہتے رہ گئے :

تم کار و بارِ شوق میں تنہا نہیں رہے

میرا کسی نے ہاتھ بٹایا نہیں ہنوز

لیکن یہ بھی اپنی جگہ پر ایک روشن حقیقت ہے کہ مستقل مفارقت کے باوجود دلوں کا رخ آج تک نہیں بدلا جا سکا۔

جب تمناؤں کی دنیا جوان تھی وہ سازِ دل کے تاروں پر محبت کے نغمے الاپتے تھے۔ ’’کار محبت‘‘ میں ناکام ہونے پر شادؔ عارفی نے ایک ’’وفا نہاد‘‘ عاشق کی طرح تمام عمر شادی نہ کرنے کا عہد کیا۔ اس ’’ المیہ ‘‘ نے ان کی شاعری میں واقعیت اور خلوص کو جگہ دے کر انھیں چند بڑی پُر اثر و دل آویز نظمیں اور غزلیں دیں جن میں ’’ محاکاتی انداز‘‘ قدم قدم پر ملتا ہے۔

یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ شاد عارفی کی محبوبہ اُن کے دل سے گزر کر ان کی دہلیز تک نہیں پہنچی تھی انھوں نے اس ضمن میں اپنی ابتدائی شاعری میں خود واضح اشارے کیے ہیں۔ پر کیف اور نگین اشعار ان کی غزلیہ شاعری کے اس دور کی نمائندگی کرتے ہیں جب ’’ آتش جوان ‘‘ تھا:

سانولا رنگ کشیدہ قامت

نہ پری ہے نہ کوئی حور ہے وہ

…………

کہنا پڑے گا شوخی اشعار دیکھ کر

لکھی ہے یہ غزل نگہِ یار دیکھ کر

………

وہ مرے سامنے آ جائے تو جائے نہ بنے

سبب اس کا کوئی پوچھے تو بتائے نہ بنے

………

چارہ گر الفت کی نفسیات سے واقف نہیں

لے کے نام اس کا کوئی دیکھے مرے چہرے کا رنگ

لائے ہیں تشریف تکیوں پر دلائی ڈال کر

حسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے

………

شیرینیِ لہجہ سے بڑھا دیتا ہے ظالم

دلچسپیِ الفاظ جو اب اور زیادہ

………

’شب مہتاب‘  ’ وہ ‘  ’ پھولوں کا زیور‘  ’ منتشر زلفیں ‘

بقول راز داں کیا خوش نما منظر رہا ہو گا

………

کہتا ہوں میں جب مجھ سے حجاب اور زیادہ

اٹھ جاتی ہے چہرے سے نقاب اور زیادہ

………

انگلیاں اس کی مرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ

ہاتھ کھنچے نہ بنے جام گرائے نہ بنے

………

چومتے چلتے ہیں ہم نقشِ قدم

وہ سمجھتے ہیں کہ پیچھے رہ گئے

………

کیا لکھ رہے ہیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر

میں نے دیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں

………

میرے ہاں وہ اور کبھی میں اس کے گھر

اک قدم پھولوں پہ، اک تلوار پر

………

پاؤں سونے کی اذیت کا بہانہ بے سود

تیرے زانو پہ وہ سر ہے جو اٹھائے نہ بنے

………

میں اس کو دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ

ابھی تو جیسے محبت کی ابتدا بھی نہیں

 

کام کی شے ہیں ’’ کروٹن‘‘ کے یہ گملے اے شادؔ

وہ نہ دیکھے مجھے میں اس کا نظارا کر لوں

………

جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا

میں نے جب اُسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

………

گدگدائے نہ بنے ہاتھ دبائے نہ بنے

بن کے لیٹی ہو جوانی تو جگائے نہ بنے

………

دل کو دل سے راہ کی بابت میں ایمان سے کہہ سکتا ہوں

اس کوچے سے میں جب گزرا اس کو دروازے پر دیکھا

………

مخاطب ہے وہ ایسے زاویے سے

جسے دیکھو مرا منھ تک رہا ہے

………

کیا قیامت ہے وہاں جاتے ہوئے

ٹوکتے ہیں لوگ ’’ اے حضرت ! کدھر‘‘

………

بارہا خط دے کے واپس نامہ بر سے لے لیا

اور یہ سب جانتے ہیں جس نظر سے لے لیا

………

خود بینی کا حق ہے لیکن ہٹ دھرمی سے کام نہ لے

اے کترا کر جانے والے ! کوئی دامن تھام نہ لے

………

جو ہے وہ کہتا ہے اوس میں سو کر اپنی حالت خراب کر لی

کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں میں

…………

دُشمن چھپے ہوئے تھے جہاں تاک میں وہاں

میری نظر گئی نہ تمھاری نظر گئی

………

مری جسارت نظر میں آپ بھی شریک ہیں

جو چھینٹ مجھ سے بچ گئی وہ چھینٹ آپ پر گئی

………

اب تک تو بہر حال مگر ناصح مشفق!

تکلیف نہ فرمائیں جناب اور زیادہ

………

صبر کرنا چاہیے اے دل ! مگر

کہہ نہیں سکتا کہاں تک صبر کر

………

کہتے ہیں پوچھا گیا جب چھپ کے رونے کا سبب

دردِ دل کا کام اس نے دردِ سر سے لے لیا

………

بھیجا ہے اس لحاظ سے شادؔ ! اس کو آئینہ

کیا حال ہو گیا ہے محبت چھپا کے دیکھ

………

عشق کو جب زبان مل جاتی ہے تو وہ رسوا ہو جاتا ہے۔ شادؔ عارفی بھی اپنے انجام محبت سے ناواقف نہ تھے جب ماحول میں ان کی ’’ محبت‘‘ پر بے جا نقد و نظر ہونے لگا اور سماج کی ہٹ دھرمی حدسے تجاوز کر گئی تو انھوں نے اپنے یہ شعر ’نذر ماحول‘ کر دیے :

اٹھ رہی ہیں انگلیاں ہم پر تو کوئی غم نہیں

یہ نتیجہ تھا ہمارا آپ کا سوچا ہوا

………

دل مل جانا کفر نہیں

ہٹ دھرمی کا نام سماج

………

ص۔ بیگم کے معاشقہ میں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد انھوں نے ’’ تارا‘‘ کے ’’ریشمیں آنچل‘‘ کا سہارا لیا۔ ’’ اس کار و بار عاشقی‘‘ میں بھی کُندن کی سی دمک ہے کھوٹ کی آمیزش نہیں۔ ’’ رخ و گیسو‘‘ غالباً اسی زمانہ کی رومان پرور رنگین نظموں اور حسین غزلوں کا مجموعہ ہے جو ’’ ایشیا پبلشرز کراچی‘‘ نے چھاپنے کے لیے منگایا تھا مگر ہنوز زیورِ طباعت سے آراستہ نہیں ہوا ہے۔

ابتدائے شاعری میں ان کے پختہ کار حریف رازؔ یزدانی( مرحوم) نے تو عیاں یزدانی تلمیذ بیاں یزدانی میرٹھی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور شادؔ عارفی، محمود صاحب شفقؔ کے شاگرد ہو گئے اور تقریباً آٹھ دس سال ان سے غزلوں پر اصلاح لیتے رہے۔ انھوں نے نو دس غزلوں پر فصاحت جنگ جلیل مانک پوری ( مرحوم) سے بھی اصلاح لی۔ اس زمانہ کا رنگ کلام یہ ہے :

ابھی ہنگامہ آرا دل میں ہے اک عشرت رفتہ

ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے میرے بستر سے

میں پھر آغاز الفت کا نتیجہ سوچنے بیٹھوں

مجھے تم گُدگُدا کر پھر نکل جاؤ برابر سے

شادؔ عارفی نے غالباً پندرہ سال کی عمر میں پہلے مشاعرہ میں شرکت کی تھی اور ان کی پہلی نظم بعنوان ’’ اضطرار‘‘ ۱۹۲۳ء کے ماہ نامہ ’’ ہمایوں لاہور‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔

انھوں نے زندگی کی ذمہ داری جس شدت سے محسوس کی اُن کی نظروں سے انبساط زندگی کے نقوش اسی قدر غیر واضح اور دھندلے ہوتے گئے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ابھی ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے کہ ان کے والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس سانحہ ارتحال سے گھر کی پوری ذمہ داری ان کے دوش نا تواں پر آ گئی۔ اس فرض کو بحسن و خوبی انجام دینے کے لیے اور معاشی مسائل حل کرنے کے لیے انھیں ٹیوشن سے واسطہ پڑا۔ جب ان کی بڑی بھاوج ( اہلیہ سید احمد خاں ) نے داعیِ اجل کو لبیک کہا تو شادؔ عارفی نے اپنے بھتیجے ( فدا احمد خاں ) کی تعلیم جاری رکھنے اور اپنی بیوہ بھتیجی ( الیاسی بیگم) کے بچوں کی صحت مندمسکراہٹ کو زندگی بخشنے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا۔ دانستہ طور پر انھوں نے اپنی آرزوؤں اور امنگوں کی قربانی دے دی۔ وہ اپنی حیات کو وہ روپ اور رنگ نہیں دے سکے جس کی وہ بجا طور پر مستحق تھی۔ چنانچہ ایک جگہ خود فرماتے ہیں :

یہ غمِ حالات اور یہ خدمت شعر و سخن

دشمنوں کو بھی مرے انجام نے چونکا دیا

خدا کا شکر ہے کہ گھریلو اور جذباتی الجھنوں نے اس صاحب طرز فن کار کے بلند تخلیقی احساسات کو مضمحل نہیں کیا اور وہ اپنے فکر و فن کو بلندیوں کی طرف بڑھا تا رہا۔

شاعری کے لیے جس چاق و چوبند شعور کی ضرورت ہے شاد عارفی اُس سے مالا مال ہیں وہ ادب کو انکشافِ حقیقت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پابند نظم کے حامی ہیں۔ ذاتی اعتبار سے بڑے رنگین مزاج اور من چلے ہیں، نظر بلند ہے اور حوصلہ فراز۔ خوشی ان کے لیے ایسا شجر ممنوعہ ہے جسے وہ دور سے دیکھ تو سکتے ہیں مگر اس کی ٹھنڈی چھاؤں تلے سُستا نہیں سکتے وہ مر مر کے جیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ جذبات یاس و حرماں کے ترجمان نہیں ہیں۔ ابتداء ً غزلوں میں بڑی رنگینی اور شوخی ہوتی تھی، نا مساعد حالات نے ان کی شاعری کو نیا موڑ دیا اور ان کی رنگیں نوائی نے ’’ طنز‘‘ کی تلخ لَے اختیار کر لی۔ انھیں خود بھی اس امر کا اعتراف ہے۔

وہ رنگیں نوائی، یہ شعلہ بیانی

کئی موڑ آئے مری شاعری میں

شادؔ عارفی نے طنز کی روش بصد شوق اختیار نہیں کی ہے۔ میں اپنے دعوے کے ثبوت میں اُن کا ایک شعر پیش کر رہا ہوں جو اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ وہ اس ڈگر پر بہ خوشی نہیں انتقاماً چل رہے ہیں :

بے کسوں پر ظلم ڈھا کر طنز فرمایا گیا

طنز کی جانب میں خود آیا نہیں لایا گیا

دشمنوں کی تخریبی مساعی سے جو ذہنی اور روحانی چرکے لگے انھوں نے شادؔ کی طنزیہ شاعری کی اعانت اور سر پرستی کی۔ مصائب کی بھی حد ہوتی ہے اُن کے حریفوں اور بد خواہوں نے ایسی ایسی ریشہ دوانیاں کی ہیں جن کو سُن کر شیطان عالم وجد میں آ سکتا ہے۔ ان کو معاشی طور پر مفلوک الحال اور دیوالیہ بنانے کے لیے ان کی ٹیوشنیں چھڑوائی گئیں نازیبا اور مکر وہ الزام تراشی کی گئی، سازشوں کے ذریعہ قید و بند کے لیے راستہ ہموار کیا گیا، اسٹیٹ پریس کی نوکری ترک کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ریاست لوہارو سے والدہ کی پنشن بند ہوئی، حکومت کی طرف سے ان کی برطرفی کے باوجود پراویڈنٹ فنڈ کے ۵۳۰ روپیہ کی واپسی آج تک عمل میں نہیں آئی۔ بیمار و ضعیف والدہ کے علاج کے لیے مکان فروخت کر کے خانہ بدوشی اختیار کرنی پڑی۔ ایسی خانہ بدوشی کہ شادؔ صاحب کو اُسے اپنا موضوع فکر بنانا پڑا:

شادؔ میں لکھتا کرائے کے مکانوں پہ غزل

اتنا موقع کبھی گھر گھر کے سفر نے نہ دیا

تملق اور چاپلوسی بالطبع نا پسندہونے کے باعث ملازمت کو خیر باد کہنا پڑا۔ اپنی والدہ کے اصرار اور اُن کی محرومی  بصارت کے پیش نظر چالیس سال کی عمر میں ’’ نوشاہ‘‘ بننا پڑا لیکن ’’شریکِ زندگی‘‘ نے بھی صرف ڈیڑھ سال حق رفاقت ادا کر کے اپنی جان ’’ جان آفریں ‘‘ کے سپرد کر دی۔ اندوہ و الم کی ویسے بھی کمی نہ تھی مگر اس موت کا غم ان کے دل کی امانت بن گیا۔ ادھر غلط سنج ناقدین کی دل آزار تنقیدوں نے ان کے دل پر چرکے لگائے، وہ سچی عزت اور خلوص کے بھوکے ہیں مگر ابن الوقت اور خود غرض لوگوں نے ان کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھایا اور دوستی کے پردے میں انھیں قدم قدم پر دھوکے دیے۔ ان حوصلہ فرسا اور صبر آزما حالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شادؔ عارفی نے گردشِ ایام سے ضد باندھی ہے۔ بہ ایں ہمہ ان کے کلام میں مایوسی کا سراغ نہیں ملتا، نہ شوق مرتا ہے نہ حوصلہ ٹوٹتا ہے۔ ذہنی جراحتوں کے باوجود ان کے عزم اور حوصلے میں فرق آیا نہ کام کی رفتار میں۔ میکشؔ اکبر آبادی نے تو اپنے تجربے کے بعد کہا تھا:

یہ مانا زندگی میں غم بہت ہیں

ہنسے بھی زندگی میں ہم بہت ہیں

لیکن شادؔ عارفی تو برائے نام شادؔ ہیں انھیں تو زندگی میں ہنسنے کا بہت کم موقع ملا ہے۔ انھوں نے اپنے الفاظ میں اپنی زندگی کی مسلسل نا مرادی کا بڑے فنکارانہ انداز میں احاطہ کرتے ہوئے آپ سے تائید چاہی ہے :

حیدر آباد میں فانی پہ جو بیتی اے شادؔ

مجھ پہ یوپی میں وہی ظلم ہنر ہے کہ نہیں

………

وہ ہم سے گفتگو کریں ہماری داستاں سنیں

جو کہہ رہے ہیں ظلم کی مثال بھی تو چاہیے

شادؔ عارفی زندگی کے طربیہ پہلو سے آشنا ہوں یا نہ ہوں لیکن زندگی کی پر شوری سے قریب ہیں اب وہ بزم کیف و نشاط آراستہ نہیں کرتے۔ انھیں جس ماحول میں سانس لینے کا موقع ملا ہے، اس نے انھیں ایسا آتش فشاں پہاڑ بنا دیا ہے جو لاوا اگل رہا ہے۔ کم و بیش اسی قسم کے حالات نے یگانہؔ چنگیزی کے لہجہ میں ایسی خشونت اور ایسی جھلاہٹ پیدا کر دی تھی جس نے شعریت کو مجروح کر دیا تھا۔ لیکن شادؔ عارفی کا طنز بڑا سنبھلاہوا طنز ہے اس میں ’’نشتریت‘‘ کے ساتھ ’’ شعریت‘‘ کا بھی لطیف امتزاج ہوتا ہے۔ ان کے طنز میں تیکھا پن بھی ہے اور نیا پن بھی۔

ان کی شاعری سامعین کی فکر اور شعور کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ ان کی قوت مشاہدہ ہمہ گیر ہے۔ ان کا ذہن صاف ہے، بے باکی اور حق گوئی ان کا شعار ہے۔ وہ جائز تنقید سے کبھی نہیں جھجکتے چنانچہ خود فرماتے ہیں :

نقد ماحول کہ فن ہے میرا

ہر طرف روئے سخن ہے میرا

اب میں آپ کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے شادؔ عارفی کے کچھ اشعار بطور نمونہ پیش کر رہا ہوں :

یہاں چراغ تلے لوٹ ہے اندھیرا ہے

کہاں چراغ جلانے کی بات کرتا ہوں

………

فسانۂ ستم بڑے ہنر سے کہہ رہا ہوں میں

چناں چہ چنیں کے ساتھ اگر مگر سے کہہ رہا ہوں میں

………

آپ طاقت ور ہیں ساری مملکت بھی آپ کی

ہے تو گستاخی، پہ عالی جاہ اس قابل نہیں

………

میں اپنے لفظ واپس لے رہا ہوں

یہ رہزن تھا میں سمجھا رہنما ہے

………

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے آج

کیا اسی کو کہیں گے جنتا راج

………

صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا

اور اخبار میں اعلان ضرورت دیں گے

………

اندھیرے کو اندھیرا ہی کہیں گے دیکھنے والے

سواد شام کو ’’ صبح وطن‘‘ کہہ دوں تو کیا ہو گا؟

………

مختصر سے وقفے میں نوجوان دیکھے ہیں آپ کی نگاہوں نے، موٹروں کے شیشوں سے

کاش غور فرماتے ؟ عمر کی رعایت سے ان کے قلب کے اندر، بوند بھی لہو کی ہے

رنگ کو دھوپ کھا گئی، بو کو ہوا اڑا گئی

کہیے اس اعتبار سے آئی بہار یا گئی؟

………

یہی کہیں گے کہ آنکھیں ہمارے پاس بھی ہیں

جو کم نگاہیِ ارباب فن پہ چوٹ کروں

………

التماسِ حالِ دل پر کچھ اور تڑپایا گیا

یعنی کم ظرفوں کا طرز فکر اپنایا گیا

………

دیکھ لینا کہ ہر ستم کا نام

عدل ہو گا کسی زمانے میں

………

تو بُرے وقت سے واقف ہی نہیں اے گلچیں

خار کیا پھول بھی پیوست رگِ جاں ہوں گے

…………

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منھ آپ کی تلوار کا

………

وہ ہمیں تلقین فرماتے ہیں ایسے مشورے

جیسے اندھے سے کہا جائے کہ ’’ بائیں ہاتھ کو‘‘

………

اصطلاحاً بُرے کو بھلا کہہ دیا

یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا

………

غالبؔ کے شعر نام سے میرے سناکے دیکھ

پھر اعتراض ناقد فن آزما کے دیکھ

………

منظور ہے بد نظمی محفل پہ اشارہ

ہم بزم سے اٹھنے کی اگر ٹھان رہے ہیں

……

آپ کے تیور بتاتے ہیں بُرا مت مانیے

……

آپ سے کوئی اصولی کام ہونے سے رہا

 

ہمسایوں کو ذہن میں رکھ کر

اپنے گھر کو آگ لگا دی

………

کسی کے حسنِ سماعت پہ چوٹ ہے یہ بھی

کہ ہم فسانۂ غم بار بار کہتے ہیں

………

دم گھٹنے کی بات الگ ہے

طوقِ گلو کو زیور کہیے

………

عمر، بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں

بتائیے ان کی اس روش پر جو سر نہ پیٹیں تو مسکرا دیں

………

ہر غلط بات پر بھی ہاتھ اٹھاؤ

یہ نمائندگی نہیں شرماؤ

………

کان میں کہنے کی باتوں کا زمانہ لد گیا

نظم محفل جس کو سونپا ہے وہ اس قابل بھی ہے

………

سوچنا پڑتا ہے کس نے کیا کہا۔ کس جا کہا

نسبتاً بھٹّی سے بالا تر ہے مے خانہ کی بات

………

مے کدہ میں اور سب کچھ ہے مگر

صرف ساقی کا سلوک اچھا نہیں

………

ہے تو احمق چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے

 

چاپ سُن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی

شیح صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

………

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

شادؔ عارفی کے عہد شباب کی شاعری میں بعض مقامات پر تقلید، اخذ اور توارد کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں ان کی شاعری میں حسرتؔ کا عشقیہ رنگ پایا جاتا ہے جس میں رنگین اور پُر معنی بندشیں بھی ہیں اور تربیت یافتہ معاملہ بندی بھی۔ وہ جرأت کی طرح ننگا ہونا پسند نہیں کرتے۔ شادؔ نے جرأت اور انشا کی شوخی کی ہو بہو نقل اتاری۔ اپنے ان پیش روؤں کے رنگ کو انھوں نے پھکّڑ پن اور ابتذال سے بچا کر اپنایا۔ اپنی ابتدائی شاعری کے بارے میں انھوں نے خود بھی اظہار خیال کیا ہے :

شادؔ حالیؔ کی طرح میں نے بھی

کچھ دنوں قافیہ پیمائی کی

………

دس پانچ برس حضرت حالیؔ کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

………

شادؔ!ہجر و وصل تک محدود تھی میری نظر، اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے، سوچنے کی بات ہے

………

مجھے بھی شاد! ریشمین شاعری کا شوق تھا

مگر وہ عمر سرخوشی کی تھی یہ آگہی کی ہے

………

شادؔ عارفی کا شمار ان شاعروں میں نہیں ہوتا جن کے لیے اقبالؔ نے جاوید نامہ میں کہا ہے :

اے بسا شاعر کہ از سحرِ ہُنر

رہزنِ قلب است و ابلیسِ نظر

………

وہ اس قبیل کے شعروں سے گریزاں و محترز  ہیں :

لذتِ وصل جوانی میں جو وہ جان گئے

پھر تو جس بات پہ روٹھے تھے وہی مان گئے

(نامعلوم)

مل جائے پہلے مجھ کو کاش اس کے بعد اُبھرے

وہ چیز جو اُبھر کر کُرتے میں جھول ڈالے

(مضطرؔ خیر آبادی)

گرمیِ حسن ہے سینہ سے پسینہ پوچھو

بہہ نہ جائیں یہ جوانی کے ثمر پانی میں

شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کبھی اُن کا مطمحِ نظر نہیں رہا وہ موزوں و مناسب الفاظ اور فن کی باریکیوں پر بھی بحدِّ معلومات نظر رکھتے ہیں اور پورے حزم و احتیاط کے ساتھ شعر کہتے ہیں ویسے انسان خطا و نسیان کا پُتلا ہے اور غلطی لازمۂ بشریت ہے، وہ اقبالؔ کی طرح نکتہ چینیوں سے یہ کہہ کر دامن نہیں چھڑاتے :

الفاظ کے پیچوں میں، اُلجھتے نہیں دانا

غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے ؟

اُن کا نظریۂ حیات بلند ہے وہ ایسے آرٹ کو پسند کرتے ہیں جس میں جوش، ولولہ اور عمل کی تحریک ہو اُن کا خیال ہے کہ قنوطیت پسند ادب زندہ نہیں رہ سکتا قوم کی زندگی کے لیے اس کے لٹریچر کا رجائیت پسندہونا ضروری ہے وہ فن برائے فن، اور غزل برائے غزل کے قائل نہیں ہیں وہ شاعری کو ’’ آفاقی‘‘ دیکھنے کے حق میں ہیں اور ’’ ادب برائے حیات‘‘ کے علم بردار ہیں، اس موضوع پر شعری زبان میں اُن کے خیالات ملاحظہ ہوں، ان میں ’’ ادب برائے ادب‘‘ پر تبصرہ بھی ہے اور مشورہ بھی:

اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے

کیا موقع رنگینیِ اشعار رہا ہے

………

فن برائے فن کا رجحان کہن میری طرف

شال کے اندر بڑھاتا ہے کفن میری طرف

………

شباب و خلوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے

غزل برائے حیات لکھیے غزل برائے غزل نہ کہیے

………

وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزم عیش میں

اِس غزل کا شادؔ کیا ماحول بھی قائل نہیں

………

فن برائے فن میں الفت لازمی مضمون ہے

اور یہ مضموں جدھر پایا اُدھر سے لے لیا

اُن کے شعر ریت کا پہاڑ نہیں ہیں، ان میں تخلیق ہے، تقلید نہیں۔ میرؔ کی سی وضاحت ہے، غالبؔ کی سی رمزیت نہیں، کہیں کہیں ’’ ضاحکانہ‘‘ رنگ بھی ملتا ہے مگر ’’ سوقیانہ‘‘ نہیں، راہِ ’’طنز‘‘ اختیار کرنے کے بعد ان کی یہ صدائے عام فضا میں گونجی تھی:

وارفتگیِ شوق میں طوفان آ گیا

اب میرے ہاتھ جس کا گریبان آ گیا

مگر خیر سے ان کا جوش پابند ہوش ہے۔

ادب میں اسلوب اظہار ہمیشہ بدلتا رہا ہے اور نئے تجربات ہی ادب کی رگوں میں زندگی کا گرم خون دوڑاتے رہتے ہیں لیکن ان تجربات کے پیچھے وسیع اور گہرے شعور کی کارفرمائی ہوئی ہے۔ شادؔ عارفی نے اپنی شعری صلاحیتوں سے کام لیا ہے۔ وہ اپنے دور کے اہم شاعر ہیں ہیں اُن کی شاعری تاریخی شعور کی نفی نہیں کرتی۔ شعر و ادب کی ایک طویل تاریخ اُن کے نام سے وابستہ ہے۔ انھوں نے گیسوئے اُردو کی مشاطگی کی ہے۔ اس کے پیچ و خم میں جاذبیت اور دل کشی پیدا کرنے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انھوں نے اپنا خون جگر جلا کر اُردو کا چراغ روشن کیا ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی کے اساسی سوال میں ہر خامی پر ان کی بالغ نظر ٹھہر جاتی ہے جسے وہ نظر انداز نہیں کرتے۔ اس پر جم کر تنقید کرتے ہیں ان کے کلام میں نئی طرز کا احساس و فکر تہہ در تہہ معنویت اور ایک نیا عنوانِ اظہار ملتا ہے کلام کا بڑا حصہ خیال انگیز و معنی خیز ہے جو کچھ کہا ہے وہ اُردو غزل پر ایک نئے باب کا حکم رکھتا ہے۔ ان کا موضوع غور و فکر معاشرہ بھی ہے اور سیاست بھی۔ انھوں نے ایسی آواز نہیں پائی ہے جو اُبھرے، ڈوبے اور خاموش ہو جائے وہ اندھیرے میں تیر نہیں چھوڑتے، ان کا ’’ نشانۂ طنز‘‘ کبھی خطا نہیں کرتا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ’’ الحق مرٌّ‘‘ کی صداقت کو جاننے کے باوجود وہ ایسے موقعوں پر اپنے بسمل سے بڑی معصومیت کے ساتھ پوچھتے ہیں :

پہنچی ہیں مرے طنز کی چھینٹیں تو سبھی پر

یہ کیا کہ فقط آپ بُرا مان رہے ہیں

گویا وہ شورش کاشمیری کے الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں :

موقعِ بحث نہیں صاحبِ اقبال ہیں آپ

میری ہر بات بُری آپ کی ہر بات اچھی

اور قمرؔ بدایونی ( مرحوم) کے اس شعر کی تائید کر کے مصلحتِ وقت کی آڑ لیتے ہیں :

یہ تو ممکن ہے کہ دل میں کہوں منھ پر نہ کہوں

یہ نہ ہو گا کہ ستمگر کو ستم گر نہ کہوں

وہ جو کہتے ہیں بڑی بے خوفی اور بے جگری سے کہتے ہیں ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں اس ایک مطلع سے ہی اُن کے مزاج کا اندازہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ شادؔ عارفی کے اس مطلع میں اُن کی تیزیِ طبع اور کردار کی جھلک ملتی ہے :

زمانہ ساز کو ہونٹوں میں کیوں بُرا کہہ دوں

مرا مزاج تو یہ ہے کہ برملا کہہ دوں

انھیں اعلانِ حق کی پاداش میں دار و رسن قبول مگر خودی کوٹھیس لگے یہ کسی طرح منظور نہیں ’’ دروغ مصلحت آمیز‘‘ پروہ ’’ راستیِ فتنہ انگیز‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں میں یہ نہیں جانتا کہ وہ اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہیں البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ کسی محل اور کسی موقع پر بھی ان کی غلط بیانی کا پردہ چاک ہو جانے سے ان کی بات ہمیشہ کے لیے بے وزن اور اُن کی شخصیت ہمیشہ کے لیے بے وقار ہو جائے چنانچہ ایک جگہ خود فرماتے ہیں :

پئے تحسینِ وطن طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

ان کی بے باکی خود ان کی ذات تک محدود نہیں ہے وہ دوسروں سے بھی صاف بیانی، حق گوئی اور صداقت شعاری کے متمنی ہیں ـ:

چبا چبا کے جو کہنے چلے ہیں وہ ہم سے

مزا تو جب ہے کہ بے اختیار فرمائیں

………

یوں تو اُس کوچے نہ اُس در تک گئے

آپ کو شک ہے تو ہم بے شک گئے

………

شادؔ عارفی سرمایہ پرستی کے خلاف ہیں اور اس حد تک خلاف کہ ’’ امارت‘‘ کے منھ پر تھوک دیتے ہیں۔ سرمایہ داری کے منھ پر طمانچہ مارتے ہیں۔ گدھوں کی گردنوں میں ’’ طوق زریں ‘‘ دیکھ کر ان کا خون کھولنے لگتا ہے :

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

………

تو شادؔ کیا بانجھ ہو گئی مادرِ فنون و علو م و حکمت

تجوریوں کے شکم سے ہونے لگے جو عزت مآب پیدا

 

رات کو عشرت کدوں میں چھپ کے پینے کے عوض

تشنہ کاموں کے سروں پر جام چھلکایا گیا

………

رہبروں میں کچھ اور ہوں کہ نہ ہوں

آدمی ہوں بڑے گھرانے کے

………

جو پیش آئیں غریبوں سے انکسار کے ساتھ

تو ہم کو ضد بھی نہیں اہلِ اقتدار کے ساتھ

………

یہ اور اسی قسم کے دوسرے اشعار ان کے مخصوص زاویہ فکر و نظر پر روشنی ڈالتے ہیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ فرائڈ، مارکس یا روسی نظام سے متاثر نہیں ہیں بالفرض اگر وہ اشتراکی ہیں تو اس حد تک کہ خدا اور مذہب کے ساتھ گستاخی برداشت نہیں کر سکتے وہ دل سے ’’ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَام‘‘ ( بے شک اللہ کے نزدیک سچا دین اسلام ہے ) کے قائل ہیں۔

ان کی نظمیں اور غزلیں ماحول کے لیے جمود شکن ہیں، ان کی نظموں کا ایک مجموعہ ’’سماج‘‘ کے نام سے اور غزلوں کے دو انتخاب چھپ کر اربابِ  شعر و ادب کے ہاتھوں میں آ چکے ہیں ان کی نظموں میں یکسانیت اور بے رنگی نہیں ہے وہ ایسی باتیں اور ایسے مضامین بھی بڑی بے تکلفی اور بے ساختگی سے نظم کر دیتے ہیں جن کو بیان کرنے کے لیے دوسروں کی زبانیں اور قلم ساتھ نہیں دے سکتے۔ انھیں اس حقیقت کا علم بھی ہے اور احساس بھی۔ ایک جگہ خود فرماتے ہیں :

تلخیِ گفتار کی تائید میں خطرہ ہے شادؔ

لکھ رہا ہے مجھ پہ ہر نقادِ فن ڈرتا ہوا

’’ نقد ماحول‘‘ ان کا فن ہے وہ اپنے اشعار میں دوسروں پر ہی تنقید نہیں کرتے اکثر اپنا جائز ہ بھی لیتے ہیں :

دوسروں پر تو سبھی طنز کیا کرتے ہیں

عیب اپنے نہ دکھائے وہ نظر کچھ بھی نہیں

اس ذیل میں ان کی یہ اور اسی قبیل کی دوسری نظمیں قابلِ ذکر ہیں :

’’ یہ میرے زن مُرید بھتیجے کی ساس ہے ‘‘

………

’’ مِرے پڑوس میں کچّی شراب بکتی ہے ‘‘

’’ میرے محلہ کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘‘

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے تخریبی جذبات میں بھی تعمیری رنگ ہے۔ زبان کی صحت، بیان کی سلاست، تعبیر پر قدرت اور فن کارانہ مہارت داد طلب ہیں اس قحط الرجال میں ان کا دم غنیمت ہے، وہ نہ لکیر کے فقیر ہیں نہ کسی کے مقتدی ہیں جو خوب سے خوب تر نہ کہہ سکیں۔ انھوں نے ’’اسلوب ادا‘‘ کی نئی نئی راہیں نکالی ہیں۔ ان کے منفرد رنگ کلام کے متعلق یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا:

سب سمجھتے ہیں کہ کِس سے ملتا جُلتا رنگ ہے

لاکھ تو کہتا پھرے میرا تو اپنا رنگ ہے

(ظفر اقبال)

ان کے انداز بیان کی تقلید بھی آسان نہیں ہے جس طرح کوّا ہنس کی چال چل کر اپنی بھی چال بھول جاتا ہے بالکل اسی طرح شادؔعارفی کے مقلدین کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں :

عمر بھر ڈھونڈتے پھرتے رہے اپنی آواز

اس کی آواز میں آواز ملانے والے

لاریب اُن کا فن بال سے باریک اور تیغ سے تیز تر ہے ذرا سی چوک ذرا سی لغزش فنکار کو فلک الافلاک سے تحت الثریٰ میں پہنچا دیتی ہے اس عرفان حقیقت کے پیش نظر شادؔ عارفی بڑی حد تک محتاط روی سے کام لیتے ہیں۔

شادؔ عارفی نحیف الجثہ اور دھان پان سے آدمی ہیں مگر کلام بڑا توانا اور مضبوط ہے، وہ بوڑھے ہیں مگر ان کی شاعری جوان ہے ان کا شمار اس زمرۂ شعرا میں نہیں ہوتا جو شاعر ہیں ہم دروغ ہمارا کلام ہیں کہہ کر اُس پر ناز کرتے ہیں، ان کی نگارشات زیادہ تر صداقت کی آئینہ دار ہوتی ہیں جابر خواہ کسی لباس میں ہو و ہ اس کی متشدد فطرت کے ہر پہلو کو شاہِ راہِ عام پر ننگا کر دینے میں کامیاب ہیں ان کے جسمانی انحطاط کے ساتھ شاعری میں نکھار پیدا ہو رہا ہے۔ دورانِ ملازمت میں شرکتِ مشاعرہ کے لیے نذرانہ تو کُجا زادِ سفر بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ انہیں ’’ نئے ہندوستان‘‘ میں بھی چین نہیں ملا فارغ البالی کو اُن کے گھر کی راہ یاد نہیں آئی اور آج اُن کی گزر اوقات اس رقم سے ہوتی ہے جو اخبارات و رسائل ان کا کلام چھاپنے کے معاوضہ میں پیش کرتے ہیں

ع  ’’انقلابات ہیں زمانہ کے ‘‘

آج کل ہند و پاک میں اُن کے کلام کی دھوم ہے معیاری رسائل میں کلام شائع ہوتا ہے جس کو پڑھ کر احباب لطف اندوز ہوتے ہیں اور حاسدان بد شگال انگاروں پر لوٹتے ہیں۔

اُن کی افتاد طبع پر روشنی ڈالنے کے لیے اور اس امر کے ثبوت میں کہ ماحول پر ان کی کتنی بالغانہ اور ناقدانہ نظر ہے میں ان کے کچھ قطعات و اشعار بلا انتخاب اور بلا تبصرہ پیش کر رہا ہوں :

سامنے رکھا ہے اُلٹا آئینہ

عقل ارباب مسائل ایک ہے

کس سے بد نظمی پہ کیجے گفتگو

یہ تو سب محفل کی محفل ایک ہے

………

یہ تغزل کے پرستار پُرانے شاعر

زلف کو عارضِ گلنار پہ دیتے ہیں شرف

اس کا مطلب ہے جوانوں کو وہ اپنے ہمراہ

روشنی سے لیے جاتے ہیں اندھیروں کی طرف

………

کسی شہکار کی تخلیق کے بعد

کاٹ لیتے تھے جو معمار کے ہاتھ

اب وہ سفّاک نہیں ہیں پھر بھی

غیر محفوظ ہیں فنکار کے ہاتھ

………

چاند کو صرف خوش خیالی کر دو

آسمانوں کی پائمالی کر دو

تم فضا میں محل بناؤ مگر

اب ہماری زمین خالی کر دو

………

جس کی فطرت ہو بے تابی

ایسی قوم کہیں تھمتی ہے

 

اے آسائش کے متوالو

موج پہ کائی کب جمتی ہے

………

ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا

جس نے گھور کے دیکھا مجھ کو میں نے اُس کو ہنس کر دیکھا

………

موسم گل کا شگوفوں پہ اثر کچھ بھی نہیں

مُبتدا اتنا اہم اور خبر کچھ بھی نہیں

………

ٹھہر ٹھہر کے کریں گے وہ راستہ کھوٹا

چلے ہیں گھر سے جو یارانِ تیز گام کے ساتھ

 

ناجائز پیسے کی تعمیروں کے اُجلے ماتھوں پر

آپ نے لکھا دیکھا ہو گا ’’ یہ سب فضلِ باری ہے ‘‘

………

نظر انداز نہ ہو جائیں وہ مے کش ساقی

جن کو از راہِ خودی ہاتھ بڑھائے نہ بنے

………

چمن کے چہرے پہ یہ خراشیں، انھیں شگوفے کہیں کہ لاشیں

بہار نے مشقِ ناز کی ہے خزاں کا پھیرا نہیں ہوا ہے

………

یا تو ساقی جانتا ہے یا مجھے معلوم ہے

جس طرح محفل میں مجھ تک جام پہنچایا گیا

………

چور کی داڑھی میں تنکے کا منظر اکثر  اکثر دیکھا

میرے ’’ رہزن‘‘ کے فقرے پر راہ نمانے مڑ کر دیکھا

………

وقت کے تیور سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں ہم

’’ چین سے ڈرتے نہیں ہیں ‘‘ ’’ چین سے ڈرتے ہیں ہم‘‘

………

ہم نہیں ہیں جاں نثارِ ملک و ملت ہائے ہائے

آپ کی اس ’’ ندرتِ الزام‘‘ نے چونکا دیا

………

آپ کا رُتبہ سلامت آپ من مانی کریں

دوسروں کو درسِ حکمت ہو وہ نادانی کریں

………

سیجیں ہوں یا قبر کی چادر

پھولوں کا انجام بُرا ہے

………

بڑھتے جاتے ہیں فریادی

آزادی حد پر پہنچا دی

………

رہزن و راہی کی بابت سوچنا ہو گا ہمیں

راہِ منزل میں اگر نقشِ قدم پایا گیا

………

ہم بھی تو گلستاں کے نگہبان رہے ہیں

جو آپ سے ہونا ہے وہ ہم جان رہے ہیں

………

بہار آکے غالباً دبے قدم گزر گئی

نہیں گزر گئی تو پھر کہاں گئی؟ کدھر گئی؟

………

تمھیں بھی واسطہ پڑنا ہے جن سے

وہ کانٹے کس لیے بوتے ہیں یارو

………

آپ کی کیا ہے زمیں کو آسماں کہنے لگیں

ہم کسی گلچیں کوکیسے باغباں کہنے لگیں ؟

………

باغباں کا عذر بھی معقول ہے

آشیاں پھولوں سے شاید ڈھک گئے

………

تمیز نقد انجمن کچھ اس قدر نکھر گئی

جہاں جہاں بھی جھول تھا وہیں وہیں نظر گئی

………

ہوں اب اس الجھن میں، پی لوں، پھینک دوں، واپس کر دوں

جام لینے کو تو ساقی کے اثر سے لے لیا

………

جب گریباں گیر ہو جاتا ہے ٹھکرایا ہوا

ظلم تب گھبرا کے کہتا ہے ارے یہ کیا ہوا؟

………

کہہ رہے ہیں جو ہمیں ہوش میں آنے کے لیے

اُن سے پوچھو انھیں اپنی بھی خبر ہے کہ نہیں

………

اونگھنے والوں سے پھر بہتر ہیں وہ

بیٹھتے اُٹھتے جو منزل تک گئے

………

ہنسو نہ بے پردگی پہ اُن کی نہیں ہے جن کو نقاب پیدا

مگر وہ زربفت پوش جن کا حجاب غائب، شباب پیدا

………

ہم جانتے ہیں جھول کہاں ہے کہاں نہیں

وہ اپنی انجمن کا ہمیں اختیار دے

 

کہہ رہے تھے جگمگا دیں گے زمین و آسماں

ایک جگنو بھی مگر اُن سے نہ چمکایا گیا

………

جب حقیقت پر قیاس آرائیاں ہونے لگیں

’’ ختم شد‘‘ کہہ کر بنا دی میں نے افسانے کی بات

 

اُدھر منھ پھیر کر ہنسنے لگو گے

ادھر منھ دیکھ کر روتے ہو یارو

………

وہ بھی زندہ ہیں کہ جن کا پاسباں کوئی نہیں

پاسبانوں پر مدارِ حفظِ جاں کوئی نہیں

………

بجائے اس کے ہمیں آپ کچھ سہارا دیں

حضور اپنے قدم استوار فرمائیں

………

ماحول بھی تو مژدۂ فصل بہار دے

یہ کیا کہ باغباں سر گلشن پکار دے

………

وقت کیا شے ہے پتا آپ کو چل جائے گا

ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھیں گے تو جل جائے گا

………

دیکھنے کی چیز ہو جاتا ہے اُس سائل کا دل

جس سے کہہ دے صاحب خانہ یہاں کوئی نہیں

………

وہ مجھے کانٹا سمجھنا چھوڑ دے

میں گریبانِ بہاراں چھوڑ دوں

………

دوستو! پیروی کے یہ معنی نہیں

ہر نشانِ قدم پر قدم رکھ دیا

………

یہ تو موسم ہیں بدلتے ہی رہیں گے اے دوست

باغبانوں کے بدلنے کی خبر ہے کہ نہیں

………

بے کسی میں سابقہ پڑنے سے اندازہ ہوا

آپ کو میں دوست سمجھا تھا بڑا دھوکا ہوا

………

رہزن کے ڈر سے کچھ راہی ایسے ڈھب سے کانپ رہے ہیں

جیسے دور سے پیدل چل کر آئے ہیں اور ہانپ رہے ہیں

 

پاسباں سے غالبِؔ مرحوم کی شامت کے بعد

احتیاطاً شادؔ ہر دربان سے ڈرتے ہیں ہم

………

رہ نماؤں سے تمیز نور و ظلمت اُٹھ گیا

دھوپ کی عینک لگائے پھر رہے ہیں رات کو

………

جن کی منزل طلبی اپنے لیے ہوتی ہے

اُن کے نقش کفِ پا مٹ کے اُبھرتے ہی نہیں

………

آپ ہی مجھ سے کھنچے رہتے ہیں

میں تو کانٹوں سے بھی دامن نہ بچاؤں

………

چراغِ منزل نہ بن سکیں گے الگ الگ ضو فشاں ستارے

یونہی جو بکھرے رہیں گے ذرّے تو ہو چکا آفتاب پیدا

………

دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھا دینے کے بعد

آدمی تکلیف پہنچاتا ہے اپنی ذات کو

………

بننے کو تو ان کی محفل میں سب گونگے بہرے بن بیٹھے

ماتھوں پر شکنیں پڑتی ہیں جب سچی سچی کہتا ہوں

………

روش روش پہ بچھا دو ببول کے کانٹے

چمن سے لطف اُٹھانے کی بات کرتا ہوں

………

بے کسوں پر طنز کے پتھر تو بھاری چیز ہیں

ٹھیس پھولوں سے پہنچ جاتی ہے احساسات کو

………

ہمارے حق میں علامہ ہے اے شادؔ

جو ناقد ’’ چیل‘‘ کو کہہ دے ہما ہے

………

شادؔ عارفی ایک مبصر کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں کو بھی معاف نہیں کرتے وہ ان پر چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

انجمن میں جاں پرور جام شعر چلتے ہیں

جن میں تیل ہوتا ہے وہ چراغ جلتے ہیں

 

جنابِ شادؔ یہ چربے اتارنے والے

ہماری طرح مضامیں شکار فرمائیں

………

وہ آپ جن کا حاصل مطالعہ صفر کہیں

وہ آپ جن کی عمر فنِ شعر میں گزر گئی

………

زمانہ ان کے باب میں کرے گا شادؔ فیصلہ

وہ کھوکھلے کہ جن کو فنِ شعر پر عبور ہے

………

وقت ہی وہ آ گیا ہے ورنہ شادؔ عارفی

ہم سے ناواقف بھی دعوائے زباں دانی کریں

………

شراب و شاہد کے تذکرے اُن سے چھین لیجے تو کیا کریں گے

شراب و شاہد کے تذکروں تک ہی جن کی جادو بیانیاں ہیں

………

دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں

………

میرے نغمے نہ سمجھنے والے

سب سمجھتے ہیں مگر بنتے ہیں

………

مجھے اے شادؔ ان رجعت پسندوں سے تو کیا لینا

کرے گی یاد مستقبل کی تہذیب جواں مجھ کو

………

گلے میں اے شادؔ جن کے رس ہے جنھیں تھرکنے پہ دسترس ہے

مشاعرے میں پرائی غزلوں پہ داد پائیں، خراج مانگیں

………

وہ اس قسم کے اشعار کہہ کر:

لفظ و معنی کے دھنی ہیں حسن پر مرتے ہیں ہم

فن برائے فن کی حد میں شاعری کرتے ہیں ہم

………

شاد! انھیں شعروں پر تم کو

ہم سے دعوایِ اُستادی

………

خود ہی ایک سوال پیدا کر دیتے ہیں :

اے شاد! یہ نقادِ غلط سنج بنائیں

کیا میں نے جو لکھا، جو کہا میرے لیے ہے

………

۴۰۔ ۴۵ سال کی مسلسل مشق و مزاولت اور مخصوص انداز فکر سے ان کا اسلوب پختہ ہو گیا ہے یا خود ان کا اپنا ایک مخصوص رنگ اور متعین انداز ہے۔ خود اعتمادی نے اب اُن سے یہ شعر کہلوائے ہیں :

میں کسی رنگ میں مجبور نہیں ہوں اے شاد!

ورنہ ہر شخص کا اک طرزِ بیاں ہوتا ہے

………

شادؔ! مجھے یہ دھُن رہتی ہے

اپنا نغمہ، اپنی لَے ہو

………

وہ شادؔ ہوں گے پشیمان آگہی اک دن

لگاؤ جن کو نہیں ہے مرے کلام کے ساتھ

………

ان کے شعروں میں دوسروں کی طرح حکومت اور سیاست پر بھی گہرا طنز ملتا ہے۔ روایات مختلف ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کے اعتبار سے وطن پرست ہیں اور خلقی رجحان کے اعتبار سے بائیں بازو کے ایک فرد۔ ان کے نزدیک ایسے تو ہزاروں ہیں جو تصویر کا صرف روشن پہلو دیکھتے ہیں اور اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن تاریک رُخ کو دیکھنے والے کم اور بہت کم ہیں وہ خود معاشرہ و ماحول کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور ان کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ عسرت اور فلاکت نے جینا حرام کر دیا ہے لیکن معیشت کے نام پر بھی وہ ترک وطن کے قائل نہیں ہیں۔ میں اپنے دعوے کے ثبوت میں شادؔ عارفی کا ایک قطعہ پیش کر رہا ہوں :

منتظر ہے پاکستان اور میں نہ جاؤں گا

برہمن کے مصرع پر طبع آزماؤں گا

 

چاہتا ہوں بھارت کا نام اور اونچا ہو

سوچتا ہوں مسجد سے جوتیاں چراؤں گا

اس قطعہ کے چوتھے مصرع کی بنیاد پر آپ اسے ’’ ضاحکانہ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ قطعہ شاعر کی پختگی عزم اور جذبۂ وطن دوستی کا آئینہ دار ہے۔ اسی سلسلہ میں دوسری جگہ فرماتے ہیں :

چمن سے باہر نکال دو گے چمن سے باہر گزار لیں گے

چمن کہا یہ نہیں کہا ہے وطن سے باہر گزار لیں گے

 

زاہد کہتا ہے جنت میں بے ایمان نہیں جائے گا

لیکن شاد! مسلماں ہو کر پاکستان نہیں جائے گا

………

اس مسموم ماحول میں جب فرقہ وارانہ فسادات اپنے پورے شباب پر تھے شادؔ عارفی نے پرچمِ اتحاد و یگانگی بلند کرتے ہوئے یہ نغمہ چھیڑا تھا:

ہم جو مل جل کے شریکِ غمِ انساں ہوں گے

نہ یہ آئین رہیں گے نہ یہ زنداں ہوں گے

 

سوچیے آئے گی پھر سعی رفوگر کیا کام

جب نہ دامن ہی رہیں گے نہ گریباں ہوں گے

 

ہم کو اے ہم وطنو! اس کا بھی احساس نہیں

ہو چکے ہیں کہ ابھی بے سرو ساماں ہوں گے

………

اہل گلشن بھی پرائے تو نہیں

اہل گلشن سے بہ ہر طور نِبھاؤں

………

انھوں نے ایک جگہ ’’ سیرِ پاکستان‘‘ کے بعد ہندوستان واپس آنے والوں کے حوالہ سے پاکستان کے بارے میں بایں الفاظ اظہارِ خیال کیا ہے :

آئے ہیں جو ٹھوکریں کھانے کے بعد

سندھ میں لاہور اور مُلتان میں

 

کہتے ہیں افلاس و عورت کے سوا

اور کیا رکھا ہے پاکستان میں

………

شعر و ادب سے اُن کی وابستگی بڑی والہانہ ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اپنی سخت ترین علالت کے زمانہ میں بھی وہ فکر و تحریر سے کنارہ کش نہ ہوئے وہ شعر گوئی اور تحقیق و مطالعہ کے لیے ہمیشہ وقت محفوظ رکھتے ہیں چنانچہ سوسائٹی سے وہ اپنا واسطہ عملی طور پر قریب قریب ختم کر چکے ہیں، ساری جد و جہد اور دوسری سرگرمیاں سمٹ سمٹا کر مطالعہ، فکر شعر اور اصلاح شعر میں مرتکز ہو گئی ہیں، ان کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ہندو بھی ہیں مسلمان بھی، سکھ بھی ہیں عیسائی بھی، مقامی بھی ہیں غیر مقامی بھی، ہندوستانی بھی ہیں پاکستانی بھی، بعض نامور اور مشہور مسلمان شاگردوں کے علاوہ کیرتی سرن ماہؔ، کرتار سنگھ تاجؔ، اوم پرکاش نزہتؔ، منّو لال شرما عارفیؔ، کشوری لال سنبل، این آر سہائے راہبؔ اور دوسرے اُن کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہیں۔

شادؔ عارفی ایک اچھے اختراعی ذہن کے مالک ہیں۔ ایک غزل ہی کیا بلا مبالغہ ہر صنف سخن پر دسترس ہے۔ کلام میں لا کلام فنی چابک دستی اور خلاقانہ اظہار بیان ہے ان کے دم سے بے اصولی اور طنز میں ایک زندہ رابطہ قائم ہے۔ اکثر حضرات کا خیال ہے کہ ان کے مزاج میں ٹھیراؤ نہیں ہے، وہ بے حد بد دماغ، زود رنج، متلون مزاج اور کانوں کے کچے ہیں مگر اسے خواہ میرا حسنِ ظن کہہ لیجیے یا اُن کا مخصوص التفات نظر کہ رام پور کے سہ سالہ دوران قیام میں آج تک ان کی ذات سے مجھے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی وہ میری ہر خوشی اور ہر غم میں شریک رہے۔ اپنے دولت کدہ پر امکانی خاطر و مدارات میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے، بڑے اخلاص اور اخلاق سے پیش آتے ہیں کبھی کبھی غریب خانہ پر بھی تشریف لاتے ہیں۔ میں اکثر اُن کی گُل افشانیِ گفتار سے لطف اندوز ہوا ہوں وہ میرے معاملہ میں کسی ظاہر داری سے کام نہیں لیتے مجھے یقین کامل ہے کہ وہ میرے لیے حاضر و غائب یکساں ہیں چنانچہ میں ان کے یہ شعر دُہرانے میں حق بجانب ہوں :

میں نے نزدیک سے دیکھا ہے اسے

وہ نہیں ہے کہ جو مشہور ہے وہ

 

شادؔ کے فن سے پچکنے والے

کہتے پھرتے ہیں کہ مغرور ہے وہ

حقیقت یہ ہے کہ وہ جذباتی بھی ہیں اور سادہ لوح بھی، جلد مشتعل ہو جاتے ہیں اور جلد ہی ان کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ منافق اور مفسد قسم کے لوگ ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں، مختلف لوگوں کے بارے میں اُن سے جھوٹی باتیں لگا کر انھیں بد گمان کر دیتے ہیں لیکن جب دو بدو گفتگو ہوتی ہے اور اصلیت سامنے آتی ہے تووہ قدرے پشیمانی کے ساتھ بڑی معصومیت سے فرما دیتے ہیں :

اگر غلط ہے جو کچھ اُس نے مجھ سے آ کے کہا

تو یہ جسارتِ تحریفِ راز داں ہو گی

اُن کی شعلہ مزاجی، انتہا پسندی، لہجہ کی کرختگی اور معاشی پریشانیوں نے ان کے ارد گرد خار دار جھاڑیاں پیدا کر دی ہیں۔ ان کے کلام کے مداح بھی ان کے پاس جاتے ہوئے گھبراتے ہیں، لوگ انھیں دل آزار اور مردم بیزار سمجھتے ہیں گویا ماحول ان کا طرف دار نہیں ہے۔ اس کا خود انھیں بھی احساس ہے وہ کبھی ’’ تمکین بے نیازی‘‘ کے ساتھ فرماتے ہیں :

اے شاد ! جو تھے تلخیِ افکار کے حامی

وہ بھی مرے شعروں سے بُرا مان رہے ہیں

کبھی فرماتے ہیں :

وہی دو چار ہیں غم خوار حوادث اے شادؔ

وہی دو چار بھی جو اپنے تھے پرائے نہ بنے

اُن کی قلندر مزاجی، وارستگی اور تنہائی کو دیکھ کر میری زبان پر اکثر یہ مقطع آ جاتا ہے :

شہرہ ہے یگانہؔ تیری بے گانہ روی کا

واللہ یہ بے گانہ روی یاد رہے گی

شادؔ عارفی اس وقت فکر شعر کرتے ہیں جب طبیعت میں اعتدال ہو کبھی برہمی کے عالم میں اپنی رات کی نیند حرام کر کے طویل نظمیں کہہ لیتے ہیں جو طنز یہ، کڑوی اور کسیلی ہوتی ہیں۔ صبح کی چائے پینے کے بعد اُن پر بالعموم ایک خاص موڈ طاری ہوتا ہے جس میں فکر شعر کے وقت انفرادیت اپنے جوہر دکھاتی ہے ان کے طنز کی حیثیت کبھی ایک مزاحیہ تبصرہ کی ہوتی ہے جو اُن کی خوش طبعی اور بذلہ سنجی پر دلالت کرتا ہے اور کبھی انداز طنز میں ثقل اور کاٹ پیدا ہو جاتی ہے جس سے ’’ قاری‘‘ کے دل میں نا گواری کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ ان کے اسلوب ادا اور طنز نے ان کے فن کے مداح تو پیدا کیے لیکن قدیم دوستوں اور ہم جلیسوں تک کو ان سے دور کر دیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ اس رفتار حالات سے نا واقف محض ہوں، انھیں اس ’’ مبینہ بد توفیقی‘‘ کا احساس ہے اور قوی احساس، وہ اسے اپنی زندگی کی ٹریجڈی قرار دینے کے باوجود اپنے ’’ مزاج‘‘ کے ماتحت اُس کے ترک پر قادر نہیں ہیں۔ انھوں نے خود ایک جگہ میرے بیان کی تصدیق اور تائید بہ ایں الفاظ کی ہے :

یہ فنِّ طنز مِرے حق میں در حقیقت شادؔ

بہت بڑا المیہّ ہے اختصار کے ساتھ

یہ مضمون غیر ارادی طور پر طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے میں اُن کے کلام پر اپنا ’’ حق نقد‘‘ کسی دوسرے موقع کے لیے محفوظ کر رہا ہوں۔ تفصیل سے اجمال کی طرف آتے ہوئے مجھے کہنے دیجیے کہ یہ تو ممکن ہے ہم اُن کے ادبی اجتہادات، ان کے زاویۂ غور و فکر ’’تذکیر و تانیث‘‘ کے معاملہ میں کسی خاص اسکول کا عدم تتبع، عربی و فارسی حروفِ علت کے سقوط، متروکات اور شکست ناروا کی عدم پیروی اور ان کے سیاسی معتقدات و نظریات سے متفق نہ ہوں لیکن یہ کہنے کا امکان نہیں ہے کہ ان کا شعری لب و لہجہ دل نشین نہیں ہے یا بڑی شاعری کا لب و لہجہ نہیں ہے۔

اپنے اور پرائے سبھی ان کے کمال فن کے مداح اور معترف ہیں چند لوگوں کے انکار سے ان کا کمال ’’ محل نظر‘‘ نہیں ہو سکتا۔ آفتاب شب پرہ چشموں کی تائید کے بغیر بھی آفتاب ہے۔

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر، جنہوں نے اصل کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید