فہرست مضامین
- سمندر نے تم سے کیا کہا
- افضال احمد سید
- جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
- اگر میں لوٹ کر نہ آ سکا
- شاعر کا دل
- مٹی کی کان
- بادشاہ کا خواب
- لاگ بک
- کیا آگ سب سے اچھی خریدار ہے
- ایک دن اور زندہ رہ جانا
- تل زعتر سے نشیب
- ہمیں ہمارے خوابوں میں مار دیا جاتا ہے
- زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
- میں ڈرتا ہوں
- میں مار دیا جاؤں گا
- اگر انہیں معلوم ہو جائے
- ایک لڑکی
- تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو
- جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
- زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کر دی گئی ہے
- جنگل کے پاس ایک عورت
- آخری دلیل
- اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے
- ایک تلوار کی داستان
- ہمیں بھول جانا چاہیئے
- ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
- جنگل کے پاس ایک عورت
- ایک نئی زبان کا سیکھنا
- تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو
- محبت
- وہ اپنے آنسو ایک نازک ہیر ڈرائیر سے سکھاتی ہے
- اگر ہم گیت نہ گاتے
- ایک دن اور زندہ رہ جانا
- کون شاعر رہ سکتا ہے
- جہاں تم یہ نظم ختم کرو گی
- صرف غیر اہم شاعر
- فیصلہ
- سمندر نے تم سے کیا کہا
- دو زبانوں میں سزائے موت
- وقت ان کا دشمن ہے
- ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
- ہمارا قومی درخت
- شاعری میں نے ایجاد کی
- ایک افتتاحی تقریب
- ہدایات کے مطابق
سمندر نے تم سے کیا کہا
افضال احمد سید
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں…..
جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
میں تمھارے لیے ایک گیت لکھ چکا ہوں گا
جتنی دیر میں ایک مشکیزہ بھرے گا
تم اسے یاد کر کے گا چکی ہو گی
اجنبی تم گیت کاہے سے لکھتے ہو
نمک سے
روٹی کاہے سے کھاتے ہو
نمک سے
مشکیزہ کاہے سے بھرتے ہو
نمک سے
لڑکی تم گیت کاہے سے گاتی ہو
پانی سے
روٹی کاہے سے کھاتی ہو
پانی سے
مشکیزہ کاہے سے بھرتی ہو
پانی سے
پانی اور نمک مل کر کیا بنتا ہے
سمندر بنتا ہے
جتنی دیر میں میرے گھوڑے کی نعل ٹھک جائے گی
ہم سمندر سے ایک لہر توڑ چکے ہوں گے
جتنی دیر میں گھنٹی کی آواز پر قلعی ہو چکی ہو گی
ہم ایک جنگلی کشتی کو سدھا چکے ہوں گے
اجنبی تم گھوڑے کی نعل کاہے سے ٹھونکتے ہو
ٹوٹے ہوئے چاند سے میری جان
تم گھنٹی کی آواز کاہے سے قلعی کرتے ہو
ٹوٹے ہوئے چاند سے میری جان
تم مجھے کاہے سے تشبیہ دو گے
ٹوٹے ہوئے چاند سے میری جان
لڑکی تم سمندر سے لہر کاہے سے توڑتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
تم جنگلی کشتیوں کو کاہے سے سدھاتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
تم مجھے کاہے سے زیادہ پسند کرتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
جتنی دیر میں یہ سمندر طے ہو گا
میں اور تم بچھڑ چکے ہوں گے
جتنی دیر میں تم مجھے بھول چکی ہو گی
میں مر چکا ہوں گا
اجنبی تم سمندر کاہے سے طے کرو گے
اپنی ضد سے
میں تمھیں کاہے سے بھول چکی ہوں گی
اپنی ضد سے
اجنبی تم کاہے سے مر چکے ہو گے
اپنی ضد سے
اپنی ضد سے
لڑکی ہم کاہے سے بچھڑ چکے ہوں گے
مجھے نہیں معلوم
میں کاہے سے مر چکا ہوں گا
مجھے نہیں معلوم
روٹی کتنی دیر میں پک چکی ہو گی
مجھے نہیں معلوم
٭٭٭
اگر میں لوٹ کر نہ آ سکا
میں اندھے چیتوں
رنگین مچھلیوں
اور تیز بادلوں کو پکڑتا ہوں
اندھے چیتے
کند کدالوں سے کھدے گڑھوں میں
رنگین مچھلیاں
ریشم کی ڈوریوں سے بنے جال میں
اور تیز بادل
مقناطیس سے پکڑے جاتے ہیں
یہ میرا کنواں ہے
یہ میرا تندور
اور یہ میرا قبر
ان سب کو میں نے خود کھودا ہے
جسے اپنی زنجیر خود کاٹنی ہوتی ہے
اپنی آری خود اُگاتا ہے
مجھے اپنا سمندر خود کاٹنا ہے
میں اپنی کشتی خود حاصل کروں گا
میری کشتی کسی ساحل پہ رنگ ہونے کے بعد سوکھ رہی ہے
کسی غار میں رکی ہے
کسی درخت میں قید ہے
یا کہیں نہیں ہے
مگر میرے پاس ایک بیج ہے
جس کا نام میرا دل ہے
میرے پاس تھوڑی سی زمین ہے
جس کا نام محبت ہے
میں دل کا درخت بناؤں گا
اور ایک دن
اسے کاٹ کر
ایک کشتی بنا کر نکل جاؤں گا
اگر میں لوٹ کر نہ آ سکا
میری رنگین مچھلیوں کو میرے کنویں میں
میرے اندھے چیتوں کو
میرے تندور میں
اور میرے تیز بادلوں کو
میری قبر میں رکھ دینا
جو میں نے بہت گہری کھودی ہے
٭٭٭
شاعر کا دل
جہاں محبت کی حدود پر ختم لکھ دیا گیا
وہاں بند دروازے کے اوپر
میں نے پورا چاند دیکھ کر
نئے چاند کے دیکھنے پر مانگی جانے والی دعا مانگ لی
تم نے میرے دل کو زنجیر سے باندھ دیا
اور میں نے بھونکنا شروع کر دیا
اگر تم چاہو
تو اتنی نازک زنجیر سے
ایک ٹوٹی ہوئی شاخ
ایک نشان لگے درخت سے باندھ سکتی ہو
جس کو ٹھیکے دار
اس موسم میں کاٹ لے جائے گا
زنجیر سے بندھے ہوئے دل نے
تمھارے قدموں کو چاٹنا شروع کر دیا
اور تم نے کہا
یہ کتا پاگل ہو گیا ہے
جیسا کہ ایک کہانی میں
ایک اندھے آدمی نے اپنی بینائی پانے کے بعد
اپنے کتے کو دھتکار دیا تھا
اگر تم چاہو
تو میں تمھیں ایک نظم سناؤں
جو میں نے اس وقت پڑھی تھی
جب میں باتیں کیا کرتا تھا
اور نہیں جانتا تھا
میرے دانت پیسنے کی آواز
کتنے دروازے پار کر سکتی ہے
شاعر نے کہا تھا:
’’میرا دل ایک شکاری کتا ہے
جسے میں تمھارے کپڑوں کی بو سنگھا رہا ہوں
تم مجھ سے بے وفائی کر کے
ایک اور مرد کے ساتھ بھاگ گئی ہو
میرا دل اس مرد کے تناسل کے اعضا بھنبھوڑ ڈالے گا
اور تمھیں
تمھاری پنڈلیوں میں دانت گاڑ کر
میرے پاس گھسیٹ لائے گا ‘‘—
شاعر کا دل شکاری کتا ہوتا ہے
اور زنجیر میں بندھے ہوئے آدمی کا دل
زنجیر میں بندھا ہوا کتا
یہ کتا پاگل ہو گیا ہے
اس نے اپنی زنجیر نگل لی ہے
اور شاید تمھاری انگلیاں بھی
جو لوہے کی طرح سنگدل ہیں
اور اس زنجیر کی طرح بے وفا
جس سے کوئی بھی کتا باندھا جا سکتا ہے
تم نے جانوروں کا علاج کرنے والے کو بلایا
اور اس کی آنکھوں میں مسکرا کر
میری قسمت کا فیصلہ کر دیا
شاید محبت کی حدود پر ختم
تم نے نہیں
کسی اور نے لکھا تھا
جس کا طرزِ تحریر
اس راز کی طرح
میرے دل میں محفوظ ہے
جس پر میں نے پہلی بار
بھونکنا سیکھا تھا
٭٭٭
مٹی کی کان
میں مٹی کی کان کا مزدور ہوں
کام ختم ہو جانے کے بعد ہماری تلاشی لی جاتی ہے
ہمارے نگران ہمارے بند بند الگ کر دیتے ہیں
پھر ہمیں جوڑ دیا جاتا ہے
ہمارے نگران ہمیں لاپروائی سے جوڑتے ہیں
پہلے دن میرے کسی حصے کی جگہ
کسی اور کا کوئی حصہ جوڑ دیا گیا تھا
ہوتے ہوتے
ایک ایک رواں
کسی نہ کسی اور کا ہو جاتا ہے
خبر نہیں
میرے مختلف حصوں سے جڑے ہوئے مزدوروں میں کتنے
کان بیٹھنے سے مر گئے ہوں گے
مٹی چرانے کے عوض
زندہ جلا دیے گئے ہوں گے
مٹی کی کان میں کئی چیزوں پر پابندی ہے
مٹی کی کان میں پانی پر پابندی ہے
پانی مٹی کی حاکمیت کو ختم کر کے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے
اگر نگرانوں کو معلوم ہو جائے
کہ ہم نے مٹی کی کان میں آنے سے پہلے پانی پی لیا تھا
تو ہمیں شکنجے میں الٹا لٹکا کر
سارا پانی نچوڑ لیا جاتا ہے
اور پانی کے جتنے قطرے برآمد ہوتے ہیں
اتنے دنوں کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے
مٹی کی کان میں آگ پر پابندی نہیں ہے
کوئی بھی نگران آگ پر پابندی نہیں لگاتے
آگ کان کے مختلف حصوں کے درمیان دیوار کا کام کرتی ہے
میں بھی آگ کی چار دیواریوں کے درمیان کام کرتا ہوں
کوئی بھی مزدوری آگ کی چار دیواریوں کے بغیر نہیں ہو سکتی
مٹی کی کان میں آگ کا ایک اور کام بھی ہے
کبھی کبھی نگران ساری کان کو اچانک خالی کرانا چاہتے ہیں
اس وقت کان میں آگ پھیلا دی جاتی ہے
اس دن اگر کوئی سلامت نکل جائے تو اس کی تلاشی نہیں لی جاتی
مٹی اسی دن چرائی جا سکتی ہے
میں نے ایک ایسے ہی دن مٹی چرائی تھی
وہ مٹی میں نے ایک جگہ رکھ دی ہے
ایک ایسے ہی آگ بھڑکائے جانے کے دن
میں نے بے کار اعضا کے انبار سے
اپنے ناخن اور اپنے دل کی لکیر چرائی تھی
اور انھیں بھی ایک جگہ رکھ دیا ہے
مجھے کسی نہ کسی طرح آگ لگنے کی خبر ہو جاتی ہے
اور میں چوری کے لیے تیار ہو جاتا ہوں
میں نے کوڑے کے ڈھیر پر ایک پاؤں دیکھ رکھا ہے
جو میرا نہیں ہے
مگر بہت خوبصورت ہے
اگلی آگ لگنے کے وقت اسے اٹھا لے جاؤں گا
اور اس کے بعد کچھ اور— اور کچھ اور— اور کچھ اور
ایک دن میں اپنی مرضی کا ایک پورا آدمی بناؤں گا
مجھے اس پورے آدمی کی فکر ہے
جو ایک دن بن جائے گا
اور مٹی کی کان میں مزدوری نہیں کرے گا
میں اس کے لیے مٹی چراؤں گا
اور تحقیق کروں گا
کان میں آگ کس طرح لگتی ہے
اور کان میں آگ لگاؤں گا
اور مٹی چراؤں گا
اتنی مٹی کہ اس آدمی کے لیے
ایک مکان، ایک پانی انبار کرنے کا کوزہ، اور ایک چراغ بنا دوں
اور چراغ کے لیے آگ چراؤں گا
آگ چوری کرنے کی چیز نہیں
مگر ایک نہ ایک ضرورت کے لیے ہر چیز چوری کی جا سکتی ہے
پھر اس آدمی کو میرے ساتھ رہنا گوارا ہو جائے گا
آدمی کے لیے اگر مکان ہو، پینے کے پانی کا انبار ہو اور چراغ میں آگ ہو
تو اسے کسی کے ساتھ بھی رہنا گوارا ہو سکتا ہے
میں اسے اپنی روٹی میں شریک کروں گا
اور اگر روٹیاں کم پڑیں
تو روٹیاں چراؤں گا
ویسے بھی نگران ان مزدوروں کو جو کان میں شور نہیں مچاتے
بچی کھچی روٹیاں دیتے رہتے ہیں
میں نے مٹی کی کان میں کبھی کوئی لفظ نہیں بولا
اور اس سے باہر بھی نہیں
میں اپنے بنائے ہوئے آدمی کو اپنی زبان سکھاؤں گا
اور اس سے باتیں کروں گا
میں اس سے مٹی کی کان کی باتیں نہیں کروں گا
مجھے وہ لوگ پسند نہیں جو اپنے کام کاج کی باتیں گھر جا کر بھی کرتے ہیں
میں اس سے باتیں کروں گا
گہرے پانیوں کے سفر کی
اور اگر میں اس کے سینے میں کوئی دھڑکنے والا دل چرا کر لگا سکا
تو اس سے محبت کی باتیں کروں گا
اس لڑکی کی جسے میں نے چاہا ہے
اور اس لڑکی کی جسے وہ چاہے گا
میں اس آدمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا
کسی بھی آدمی کو کوئی ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا
میں اس میں سفر کا حوصلہ پیدا کروں گا
اور اسے اس خطے میں بھیجوں گا
جہاں درخت مٹی میں پانی ڈالے بغیر نکل آتے ہیں
اور وہ ان بیجوں کو میرے لیے لے آئے گا
جن کے اگنے کے لیے
پانی کی ضرورت نہیں ہوتی
میں روزانہ ایک ایک بیج
مٹی کی کان میں بوتا جاؤں گا
بوتا جاؤں گا
ایک دن کسی بھی کے بیج کے پھوٹنے کا موسم آ جاتا ہے
مٹی کی کان میں میرا لگایا ہوا بیج پھوٹے گا
اور پودا نکلنا شروع ہو گا
میرے نگران بہت پریشان ہوں گے
انھوں نے کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا ہے
وہ بہت وحشت زدہ ہوں گے اور بھاگیں گے
میں کسی بھی نگران کو بھاگتے دیکھ کر
اس کے ساتھ کان کے دوسرے دہانے کا پتا لگا لوں گا
کسی بھی کان کا دوسرا دہانہ معلوم ہو جائے تو اس کی دہشت نکل جاتی ہے
جب میری دہشت نکل جائے گی
میں آگ کی دیوار سے گزر کر
مٹی کی کان کو دور دور جا کر دیکھوں گا
اور ایک ویران گوشے میں
اوپر کی طرف ایک سرنگ بناؤں گا
سرنگ ایسی جگہ بناؤں گا
جس کے اوپر
ایک دریا بہہ رہا ہو
مجھے ایک دریا چاہیے
میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنا دریا بیچ کر
ایک پل خریدا تھا
اور چاہا تھا کہ اپنی گزر اوقات
پل کے محصول پر کرے
مگر بے دریا کے پل سے کوئی گزرنے نہیں آیا
پھر میں نے پل بیچ دیا
اور ایک ناؤ خرید لی
مگر بے دریا کی ناؤ کو کوئی سواری نہیں ملی
پھر میں نے ناؤ بیچ دی
اور مضبوط ڈوریوں والا ایک جال خرید لیا
مگر بے دریا کے جال میں کوئی مچھلی نہیں پھنسی
پھر میں نے جال بیچ دیا
اور ایک چھتری خرید لی
اور بے دریا کی زمین پر مسافروں کو سایہ فراہم کر کے گزر کرنے لگا
مگر دھیرے دھیرے
مسافر آنے بند ہونے گئے
اور ایک دن جب
سورج کا سایہ میری چھتری سے چھوٹا ہو گیا
میں نے چھتری بیچ دی
اور ایک روٹی خرید لی
کسی بھی تجارت میں یہ آخری سودا ہوتا ہے
ایک رات
یا کئی راتوں کے بعد
جب وہ روٹی ختم ہو گئی
میں نے نوکری کر لی
نوکری مٹی کی کان میں ملی
٭٭٭
بادشاہ کا خواب
بادشاہ نے ایک خواب دیکھا
اس نے وہ خواب
اپنے وزیر کو سنایا
وزیر نے خواب کو اپنے استعفے میں لکھا
اور روپوش ہو گیا
بادشاہ نے وہ خواب
اپنے سپہ سالار کو سنایا
سپہ سالار نے خواب کو اپنی تلوار پر لکھا
اور ایک لاکھ آدمیوں کو قتل کر دیا
بادشاہ نے وہ خواب
شہزادی کو سنایا
شہزادی نے خواب کو اپنے جسم پر لکھا
اور بازار میں بیٹھ گئی
بادشاہ نے وہ خواب
مذہبی پیشوا کو سنایا
پیشوا نے وہ خواب مقدس کتاب میں لکھ دیا
اور اعتکاف میں چلا گیا
خواب کی کوئی تعبیر نہ پا کر
بادشاہ نے خواب کو قید کروا دیا
خواب کی تعبیر
خواب کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھی
اسے تلوار کے ایک وار کے ذریعے خواب سے جدا کر دیا گیا تھا
خواب بادشاہ کے پاس چلا گیا
اور تعبیر ایک فقیر کے پاس
فقیر نے تعبیر کو اپنے کشکول پر لکھ دیا
اور ایک دن جب اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا
کشکول نگل کر مر گیا
تعبیر ایک کسان کے پاس چلی گئی
کسان نے تعبیر کو اپنے ہل پر لکھ دیا
اور ایک دن جب اس کے پاس بونے کو کوئی بیج نہیں رہا
اس نے ہل کو زمین میں بو دیا
تعبیر ایک جنازے کے پاس چلی گئی
اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی
چونکہ مرنے والے کی قبر کو کوئی کتبہ میسر نہیں ہوا تھا
تعبیر قبر کے سرہانے کھڑی ہو گئی
ایک دن
قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک سپاہی نے
تعبیر کو مشکوک حالت میں دیکھ کر
گرفتار کر لیا
بندی خانے میں
خواب اور تعبیر
دونوں ایک ہی زنجیر سے جکڑ دیے گئے
اور اسی وقت
بادشاہ مر گیا
٭٭٭
لاگ بک
لاگ بک میں لکھا ہے
یہ جہاز ڈوب چکا ہے
جہاز ڈوب چکا ہے
اور سمندر زندہ ہے
اور نمکین
اور ان مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے
جن کو اس جہاز کے ڈوبنے کا یقین ابھی نہیں آیا
لاگ بک میں جہاز کے ڈوبنے کے اندراج کے بعد
میرے دستخط ہیں
جن کی سیاہی میرے ہاتھوں میں محفوظ ہے
کیا اسی کا نام موت ہے
کیا یہ کسی اور جہاز کی لاگ بک ہے
کیا میں کسی اور جہاز کا ناخدا ہوں
کیا تمام لاگ بکوں میں یہی لکھ دیا جاتا ہے
’’یہ جہاز ڈوب چکا ہے‘‘
مگر یہ جہاز ڈوب چکا ہے
اس پر کوئی مسافر، کوئی ملاح، کوئی سامان نہیں ہے
ایک ڈوبے ہوئے جہاز کو
کسی بندرگاہ پر اتارنے کی ذمہ داری
کسی بھی ناخدا پر عائد نہیں ہوتی
میں اس جہاز کو چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتا ہوں
اور مرنے سے پہلے
یہ جان سکتا ہوں
کہ یہ سمندر زیادہ سے زیادہ کتنا نمکین ہو سکتا ہے
٭٭٭
کیا آگ سب سے اچھی خریدار ہے
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں نہیں ڈوبتے
اور دیواروں سے ٹانگے جا سکتے ہیں
شاید انھیں یاد ہوتا ہے
کہ آرا کیا ہے
اور درخت کسے کہتے ہیں
ہر درخت میں لکڑی کے آدمی نہیں ہوتے
جس طرح ہر زمین کے ٹکڑے میں کوئی کارآمد چیز نہیں ہوتی
جس درخت میں لکڑی کے آدمی
یا لکڑی کی میز
یا کرسی
یا پلنگ نہیں ہوتا
آرا بنانے والے اسے آگ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں
آگ سب سے اچھی خریدار ہے
وہ اپنا جسم معاوضے میں دے دیتی ہے
مگر
آگ کے ہاتھ گیلی لکڑی نہیں بیچنی چاہیے
گیلی لکڑی دھوپ کے ہاتھ بیچنی چاہیے
چاہے دھوپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی کو دھوپ سے محبت کرنی چاہیے
دھوپ اسے سیدھا کھڑا ہونا سکھاتی ہے
میں جس آرے سے کاٹا گیا
وہ مقناطیس کا تھا
اسے لکڑی کے بنے ہوئے آدمی چلا رہے تھے
یہ آدمی درخت کی شاخوں سے بنائے گئے تھے
جبکہ میں درخت کے تنے سے بنا
میں ہر کمزور آگ کو اپنی طرف کھینچ سکتا تھا
مگر ایک بار
ایک جہنم مجھ سے کھنچ گیا
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں بہتے ہوئے
دیواروں پر ٹنگے ہوئے
اور قطاروں میں کھڑے ہوئے اچھے لگتے ہیں
انھیں کسی آگ کو اپنی طرف نہیں کھینچنا چاہیے
آگ
جو یہ بھی نہیں پوچھتی
کہ تم لکڑی کے آدمی ہو
یا میز
یا کرسی
یا دیا سلائی
٭٭٭
ایک دن اور زندہ رہ جانا
بہت دور ایک ساحل پر
اسکریپ سے بنے ہوئے ایک جہاز کا
بوائلر پھٹ جاتا ہے
سیکنڈ انجینئر اسی دن مر جا تا ہے
تھرڈ انجینئر
دوسرے دن
اور میں
فورتھ انجینئر
تیسرے دن مر جاتا ہوں
سیکنڈہینڈ جہازوں پر
فرسٹ انجینئر نہیں ہوتے
ورنہ
میں ایک دن اور زندہ رہ جاتا
٭٭٭
تل زعتر سے نشیب
(تل زعتر: 1976 کے بیروت میں فلسطینیوں کا ایک کیمپ)
میں بادلوں کا وہ ٹکڑا ہوں
جسے پتھر سے باندھ کر
ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے
میرا کوئی خاندانی قبرستان نہیں ہے
کرائے کے فوجیوں کا گھرانہ
وطن سے دور مرنے کی رسم
آٹے کی چکی کی بستیوں میں
مجھے آدمیوں سے خوف آتا ہو گا
میں اس گھاٹ پر نہاتا ہوں
جہاں جانور نہاتے ہیں
ماں میرے سر میں ناریل کا تیل چپڑ دیتی ہو گی
میں گھگھیانا شروع کر دیتا ہوں
میں نے کبھی کوئی لوری نہیں سنی
میں کبھی نہیں سویا ہوں گا
میں شاعروں کی طرح تتلیوں کے پیچھے بھاگتا
مگر ضدی گندے بہن بھائیوں کو بہلانے کے لیے روک دیا جاتا رہا ہوں گا
ہمارے گھر کوئی مہمان نہیں آتا تھا
کوئی تہوار نہیں آتا تھا
ہم مُردوں کا تہوار تک نہیں مناتے تھے
میرا پسندیدہ کھلونا
چوہے دان رہا ہو گا
میری دوپہریں وباؤں کی بستیوں میں آہ و بکا سننے میں گزری ہوں گی
شام کو جب منحوس پرندے شور مچانے لگتے
میں گھر آ جاتا
اور اپنے پاؤں سے زمین کریدنے لگتا
کوئی خزانہ ہمارے گھر کے نیچے دفن ہے
مگر میرا باپ مجھے لہولہان کر دیتا ہے
مجھے اپنے باپ سے محبت رہی ہو گی
جبھی اس کی قبر پر اتنی سبز گھاس اُگی
میرا بچپن ننگی بارشوں میں گزرا ہو گا
دلدلوں پہ شارعِ عام لکھا ہے
میں وہ بارہ سنگھا ہوں
جس کی سینگیں رات کے جنگل میں الجھ جاتی رہی ہوں گی
میں لکڑہارا بن جاتا
مگر ہر درخت پر محبت کرنے والوں کے نام کھدے رہے ہوں گے
میں سورج مکھی کے پھول اگاتا
مگر سورج کو پوجنا بند کر دیا گیا ہو گا
جب شہزادیاں
خواجہ سراؤں کے ساتھ بھاگ رہی تھیں
میں تمھیں کسی پیڑ کے نیچے کھڑا کر کے
کچی جامنیں نہیں جھڑجھڑا سکا
جب کنیزیں
پنجڑے میں بند پرندوں کو نرم اور سبز پتیاں کھلا رہی تھیں
میں تمھیں وہ گھونگھا نہیں بنا سکا
جس کو کان پر لگانے سے
میرا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سنائی دیتا رہا ہو گا
میں تمھاری الگنی پر نہیں سوکھا
تمھارے گھڑے سے نہیں چھلکا
میں تمھیں گدی سے تلووں تک اپنے نام سے نہیں داغ سکا
سیلاب آنے سے پہلے
تمھاری بستی چھوڑتے وقت
میں نے اپنی انگلی کاٹ کر چہیتوں کے دن کی نشانی لوٹا دی
مگر جب بہار کی آنچ سے مٹی تمتمانے لگی
تم اپنی جلی ہوئی روٹی
اور آدھ چمچے شوربے میں مجھے شریک نہیں کر سکیں
ساری کپاس
شہزادوں کے کفن بنانے میں صرف ہو گئی
سارا ریشم
شہزادیوں کی جرابوں پر
فاتح اور مفتوح فوجی
بھیڑوں کو اون سمیت کھا گئے
گلی میں یتیم کتے
اپنی کھالوں کو دوہرا کیے اوڑھے ہوں گے
اکڑی ہوئی اینٹوں پر سوئے ہوئے بچوں کو
دودھ میں مردہ شکر ڈال کر پلائی جا رہی ہے
روشنی آنتوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی ہو گی
گزشتہ سال کے تمام دنوں کو ایک ہی قبر میں سلاتے ہوئے
غلطی سے نئے سال کا پہلا دن بھی
دفن کر دیا گیا
اب مرنے کا چھوت تمام دنوں کو لگ رہا ہے
جب باہر بھیڑیے گھوم رہے تھے
ماں سے میں نے کہا
جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤ
جب باہر لٹیرے گھوم رہے تھے
بہن سے میں نے کہا
کنویں سے پانی بھر لاؤ
جب بادل کو آسمان پر
اور پنیریوں کو کھیتوں پر پھیلانے کا وقت تھا
میں اپنی تنہائی کو ہتھوڑے سے کوٹ رہا ہوں گا
جب بادل کو کھیتوں پر
اور پرندوں کو خوشوں پر آنے سے روکنے کا موسم رہا ہو گا
میں اپنی تنہائی کو
چاک پر چڑھا کر ایک خوبصورت پیالہ بنا رہا ہوں گا
میرے دوستوں نے
اپنے ہاتھ دیواروں میں بو دیے ہوں گے
اور ساحل پر پڑی ہوئی کشتیوں کے پیندے میں اپنے سر
وہ سورج کو ڈوبتا دیکھ کر
سڑی ہوئی مچھلی کی طرح پگھل جاتے رہے ہوں گے
انھوں نے کبھی زمین کا چقماق جلا کر
شعلے نہیں کاشت کیے
اپنے مویشیوں اور بال بچوں کے ساتھ
ایک ناند میں کھانا کھانے کے بعد
وہ اپنی بیویوں کے ساتھ سو جانے کے لیے اپنے بچوں کے آنکھیں موند لینے کا
انتظار نہیں کرتے ہوں گے
برسوں جرابوں کی طرح پہنی ہوئی ان کی بیویوں کے منھ سے
چراندھ آ رہی ہو گی
ان کے بچے
خون کی زندہ جلتی ہوئی بوند رہے ہوں گے
چاند آسمان پر شہد کا چھتا ہے
میں اسے ریچھ بادلوں کے حملے سے بچانے جا رہا ہوں
میرے نیزے روشنی سے تیز چلتے ہیں
بادل میری کشتیوں کے بادبان ہیں
میری توپیں سورج داغتی ہیں
سمندر سرکشی پر آمادہ ہے
میں اسے ہواؤں کے گھوڑوں سے جوتنے والا ہوں
روشنی جو اس شہر کے کھمبوں پر سرنگوں ہے
میں اسے کوڑے مار مار کر اوپر بھیجوں گا
میں انھیں گرد اور غبار کے دریا میں اپنے اعضا ڈھونڈنے پر مجبور کر دوں گا
جن کی پلکیں ہوا چلنے سے جھڑ جاتی ہیں
جن کی آنکھیں روشنی میں تڑخ جاتی ہیں
جن کی گائیں سیاہ دودھ دیتی ہیں
میں اپنے زخموں میں گندھک سے
فتح کا اعلان لکھوں گا
اور
تمھاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں
انھیں اپنی تلوار کے دستے پر لگاؤں گا
٭٭٭
ہمیں ہمارے خوابوں میں مار دیا جاتا ہے
ہمیں ہمارے خوابوں میں مار دیا جاتا ہے
پہلے بارش ہوتی ہے
پھر کیچڑ پھیل جاتی ہے
پھر ہمیں مار دیا جاتا ہے
ان اسلحوں سے
جن کا نشانہ
تعزیرات کی کتاب میں
ہمیشہ کے لیے درست بنا دیا گیا ہے
ہم اپنے خواب میں لیمپ روم کی طرف جاتے ہیں
جس میں بیٹھے ہوئے چور
اپنے دانتوں سے کتری ہوئی رات کا ٹکڑا
ہمارے آگے پھینک دیتے ہیں
جسے ہم چباتے ہیں
اور جاگ جاتے ہیں
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
اس درخت کو پانی دو
اس میں تمھاری رات ہے
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
اس سمندر میں اتر جاؤ
اس کی تہہ میں ایک جہاز ڈوب گیا ہے
جس میں تمھاری رات سفر کر رہی تھی
ہماری رات چوری ہو گئی ہے
سیاروں کے کسی اور نظام کے لیے
پھولوں کی نمائش کے دروازے پر کھڑی ہوئی لڑکی پوچھتی ہے
تمھاری رات کہاں ہے؟
اور بارش ہونے لگتی ہے
سمندر الٹ پلٹ ہو جاتا ہے
اور مجھے کھینچ کر چاندماری کے میدان کی طرف لے جایا جاتا ہے
بگھی میں جاتی ہوئی لڑکی گردن باہر نکال کر مجھے دیکھتی ہے
اور بارش میں بھیگ جاتی ہے
اگر میرے دونوں ہاتھ
میری پشت پر بندھے ہوئے نہ ہوتے
تو میں اسے الوداع کہتا
کتنی عجیب بات ہے
کل میں نے خواب میں اس لڑکی کا بوسہ لیا تھا
صرف ایک بوسہ
اور بارش ہونے لگتی ہے
بارش ہونے لگتی ہے
یہاں تک کہ چاندماری کی آدھی دیوار پانی میں ڈوب جاتی ہے
بھیگی ہوئی رسی
ہمارے ہاتھوں کو اور سختی سے جکڑ دیتی ہے
ہم بارش میں ننگے پاؤں
اس طرح چلتے ہیں
جیسے زمین ننگے پاؤں چلنے والوں کے لیے بنی ہو
بارش ہو رہی ہے
ہم بھیگ رہے ہیں
اب ہم یہ کپڑے کبھی نہیں بدلیں گے
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تمھارے پاس دوسرا جوڑا تو ہو گا
دوسرے جوڑے کے لیے
اپنے گھر
یا کسی اور کے گھر میں نقب لگانی ہو گی
اور ہمارے دونوں ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تم نے برساتی کیوں نہیں خریدی
اب
جب چاندماری کی دیوار سامنے نظر آنے لگی ہے
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تم نے برساتی کیوں نہیں خریدی
ہم اپنے خوابوں سے کہتے ہیں
اب بارش بہت تیز ہو گئی ہے
جاؤ
اور جا کر
برساتیوں کی دکان کے سائبان میں سو رہو
برساتی میں ملبوس ایک شخص
بھیگے ہوئے رجسٹر میں میرا نام پکارتا ہے
کوئی مجھے دھکا دے کر آگے کر دیتا ہے
اب مجھے مار دیا جائے گا
اتنی بارش میں
مجھے مار دیا جائے گا
میں اتنی دیر میں کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہوں
آتشدان کے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی سے
کوئی کہتا ہے
تم نے بگھی کی کھڑکیاں بند رکھی ہوتیں
میں اتنی دیر میں کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہوں
کوئی اسے
خوبصورت سی شال میں لپیٹ کر کہتا ہے
تمھیں اتنی بارش میں باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا
٭٭٭
زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
میرے دریا حریف کی صفوں سے گزر کر مجھ تک پہنچے
میں نے ہمیشہ جوٹھا پانی پیا
مجھے ایک موسم بارشوں کے نام پر خالی چھوڑنا پڑا
میرے لیے وصیت نامہ اس نے چھوڑا
جو کبھی بارشوں میں ننگے پاؤں نہیں پھرا
مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے گود میں لیے ایک عورت گھڑ سواروں کے آگے گڑگڑا رہی تھی
اور جو گھوڑے کے نتھنوں سے نکلنے والی بھاپ سے
اپنا چہرہ بچانے کی کوشش عمر بھر کرتی رہتی ہے
مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے اس کی ماں نے پالنے میں رسیوں سے باندھ رکھا تھا
میں اپنی ماں کی گود
اور اپنے پالنے سے بار بار گر جاتا تھا
کیونکہ میں ایک کنویں میں پیدا ہوا تھا
جس کو کبھی پانی سے نہیں بھرا گیا
اور ایک مکان میں رہنے لگا
جو ایک کشتی کے ٹوٹے ہوئے تختوں سے بنایا گیا تھا
میں نے سرکنڈوں کی کشتی بنائی
اور اسے پتھر کے چپوؤں سے کھیا
میں نے اس کے شہر کے غیرآباد ساحل پر
ایک فصل بوئی
اور ایک کاٹی
ہاتھی دانت کا چاند
سوسن کے پھولوں کی نگہبانی کرتا ہے
وہ اپنے شہد اور روغن کے مرتبانوں کی نگرانی کرتی ہے
پتا نہیں
میرے آسمان پر ہاتھی دانت کا چاند بھی اسی نے دریافت کیا ہو
جیسا کہ اس نے میرے لیے قطب ستارہ دریافت کیا
اور پرانی نہر کھدوائی
مجھے پتا ہے
کہ اس کا باپ
منہیارے سے سوداگر کس طرح بن جاتا ہے
کس طرح
میں رقص گاہ میں اس تک درخواست لیے جاتے جاتے
نرسنگھا بجا کر خیرات دینے والوں کے سامنے
قطار میں کھڑا ہو جاتا ہوں
حالانکہ
میں تو وہ ہوں
جو گیلی سیڑھیوں پر
سورج کا راستہ روکنے کے لیے ہے
اس دن بھی
جب آگ دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا ہے
اگر بیل سے انگوروں کا انبار ناند میں منتقل ہو جائے
اس کی وادیوں کو دوہا نہ جائے اور
ان کا اون اتار نہ لیا جائے
تو اسے کہنا
کوئی قیدی کسی ناراض دیوتا پر قربان کر دیا گیا
اور
یہ موقع وہ تھا
جب مائیں اپنے پہلوٹی کے بچے
رتھوں کے آگے لٹا دیتیں
میں ایک جلائے ہوئے شہر میں لایا گیا ہوں
شہر وہی اچھے ہیں
جو لڑکیوں کے نام پر بسائے اور دیوتاؤں کے نام پر جلائے جائیں
لڑکیاں وہی خوبصورت ہیں
جو اُدھڑی ہوئی قبروں میں سے نکلے ہوئے ہاتھوں پر
فصل میں پہلی بار توڑے ہوئے پھل رکھتی چلی جائیں
اگر شاعری محبت کی کفایت کرتی
تو میں سمندر کے دونوں کناروں کو اپنی شاعری سے جوڑ دیتا
مگر امان نامہ میرے ہاتھوں میں ہے
اور اس کے خداوند کے اہلکار
میری پناہ گاہ ڈھا رہے ہیں
کیا یہ سمندر میرا پردیس رہ سکے گا
جو مجھے یقین دلاتا تھا کہ میں
جب تک اس کے کناروں پر رہوں گا
آدم زاد جیسا رہوں گا
پتا نہیں کب وہ جہاز آ کے رکے
جس کا ناخدا میرے لیے الاؤ روشن کرتا
پتا نہیں کب
وہ دیوی جو اس شہر کی مالکہ ہے
مجھے اپنی خوشنودی عطا کرے
کہ میں ان کے لشکر کے ساتھ نہیں تھا
جنھوں نے اس کی کارواں سرایوں میں صرف ایک رات گزاری
جب دعا سے پہلے
سیب میں خوشبو
اور بددعا سے پہلے
سانپ میں زہر پیدا ہو جائے
کسی جلے ہوئے شہر کے پتھروں سے
کوئی جلا ہوا شہر بن رہا ہو
میں اپنے وطن واپس چلا جاؤں —
یہ سمندر پسپا ہو جائے گا
اور بستیوں پر چڑھ آئے گا
جیسا کہ سمندروں کا دستور ہے
اس کے شہر میں صرف ایک عورت بچے گی
جو وہ ہو گی
اور ایک خواجہ سرا بچے گا
جو کوئی بھی ہو سکتا ہے
شاید
اس کے دل میں
کوئی شہتوت کا پیڑ نہیں تھا
مگر میرا دل
ایک ریشم کا کیڑا ہے
میں اس کیڑے کو اپنے شناخت نامے سے نکال چکا ہوں
اور اس کے ساتھ ساتھ
رینگتا ہوں
’’اب جو میرے ساتھ نہیں
وہ میرے خلاف ہے ‘‘—
٭٭٭
میں ڈرتا ہوں
افضال احمد سید
303
میں ڈرتا ہوں
اپنے پاس کی چیزوں کو
چھو کر شاعری بنا دینے سے
روٹی کو میں نے چھوا
اور بھوک شاعری بن گئی
انگلی چاقو سے کٹ گئی
اور خون شاعری بن گیا
گلاس ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا
اور بہت سی نظمیں بن گئیں
میں ڈرتا ہوں
اپنے سے تھوڑی دور کی چیزوں کو
دیکھ کر شاعری بنا دینے سے
درخت کو میں نے دیکھا
اور چھاؤں شاعری بن گئی
چھت سے میں نے جھانکا
اور سیڑھیاں شاعری بن گئیں
عبادت خانے پر میں نے نگاہ ڈالی
اور خدا شاعری بن گیا
میں ڈرتا ہوں
اپنے سے دور کی چیزوں کو
سوچ کر شاعری بنا دینے سے
میں ڈرتا ہوں
تمہیں سوچ کر
دیکھ کر
چھو کر
شاعری بنا دینے سے
٭٭٭
میں مار دیا جاؤں گا
افسوس کہ
بہت سا وقت
ان ہاتھوں کو ہموار بنانے میں ضائع ہو گیا
جو ایک دن میرا گلا گھونٹ دیں گے
ژاں ژینے کی بالکنی کے نیچے
موسیقی فروش
اور کباب بھوننے والے
مجھے بتاتے ہیں کہ
مجھے ایک دن یہیں کھڑا کر کے مار دیا جائے گا
میری قبر بے شناخت رہ جائے گی
اس عمارت کی پہلی منزل پر
دانتے کا جہنم ہے
اور اس سے اگلی منزلوں پر خدا کا
مگر میرے ساتھ ایک دریا ہے
جس کو ابھی سیڑھیوں پر چڑھنا نہیں آتا
مجھے سؤروں کے باڑے میں سلا دیا گیا
جبکہ جس معاوضے پر
میزبان مجھے اپنی بیوی کے بستر میں سلا دیتا
وہ میری جیب میں موجود تھا
افسوس کہ
میری نیندیں
میری راتوں پر ضائع ہو گئیں
افسوس کہ
میں نے جان ڈن کے گرتے ہوئے ستارے کو پکڑ لیا
افسوس کہ
افسوس کرنے میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا
اتنا وقت کہ
اینٹوں سے ایک مکان بنایا جا سکتا تھا
نظموں سے ایک مجموعہ چھاپا جا سکتا تھا
ایک عورت سے ایک بچہ پیدا کیا جا سکتا تھا
افسوس کہ
میرا بچہ
ایک عورت کے بطن میں ضائع ہو گیا
جبکہ مجھے مارا جانا چاہیے تھا
جبکہ
یا بدیر
میں مار دیا جاؤں گا
میں مار دیا جاؤں گا
جیسے کہ تادیوش روزے وچ کی نظموں کے
کرداروں کو مار دیا جاتا ہے
٭٭٭
اگر انہیں معلوم ہو جائے
وہ زندگی کو ڈراتے ہیں
موت کو رشوت دیتے ہیں
اور اس کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتے ہیں
وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے ہیں
اور امید رکھتے ہیں
ہم خود کو ہلاک کر لیں گے
وہ چڑیا گھر میں
شیر کے پنجرے کی جالی کو کمزور رکھتے ہیں
اور جب ہم وہاں سیر کرنے جاتے ہیں
اس دن وہ شیر کا راتب بند کر دیتے ہیں
جب چاند ٹوٹا پھوٹا نہیں ہوتا
وہ ہمیں ایک جزیرے کی سیر کو بلاتے ہیں
جہاں نہ مارے جانے کی ضمانت کا کاغذ
وہ کشتی میں ادھر ادھر کر دیتے ہیں
اگر انہیں معلوم ہو جائے
وہ اچھے قاتل نہیں
تو وہ کانپنے لگیں
اور ان کی نوکریاں چھن جائیں
وہ ہمارے مارے جانے کا خواب دیکھتے ہیں
اور تعبیر کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں
وہ ہمارے نام کی قبر کھودتے ہیں
اور اس میں لوٹ کا مال چھپا دیتے ہیں
اگر انہیں معلوم بھی ہو جائے
کہ ہمیں کیسے مارا جا سکتا ہے
پھر بھی وہ ہمیں نہیں مار سکتے
٭٭٭
ایک لڑکی
لذت کی انتہا پر
اس کی سسکیاں
دنیا کے تمام قومی ترانوں سے زیادہ
موسیقی رکھتی ہیں
جنسی عمل کے دوران
وہ کسی بھی ملکۂ حسن سے زیادہ
خوب قرار پا سکتی ہے
اس کے بلوپرنٹ کا کیسٹ
حاصل کرنے کے لیے
کسی بھی فساد زدہ علاقے تک جانے کا
خطرہ لیا جا سکتا ہے
صرف اس سے ملنا
نا ممکن ہے
٭٭٭
تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو
تم خوب صورت دائروں میں رہتی ہو
تمہارے بالوں کو
ایک مدور پن
فرض شناسی سے تھامے ہوئے ہے
ایک بیش قیمت زنجیر
تمہاری گردن کی اطاعت کر رہی ہے
کبھی غلط نہ چلنے والی گھڑی
تمہاری کلائی سے پیوست ہے
ایک نازک بلٹ
تمہاری کمر سے ہم آغوش ہے
تمہارے پیر
ان جوتوں کے تسموں سے گھرے ہیں
جن سے تم ہماری زمین پر چلتی ہو
میں ان چھپے ہوئے دائروں کا ذکر نہیں کروں گا
جو تمہیں تھامے ہوئے ہو سکتے ہیں
انہیں اتنا ہی خوب صورت رہنے دو
جتنے کہ وہ ہیں
میں نے تم پر کبھی
خیالوں میں کپڑے اتارنے کا کھیل نہیں کھیلا
تم خوب صورت دائروں میں رہتی ہو
اور میں مشکل لکیروں میں
میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں
سوائے
اپنے منہ میں اس گیند کو لے کر تمہارے پاس آنے کے
جسے تم نے ٹھوکر لگائی
٭٭٭
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
اسے نہیں جانا چاہیئے
واپس
آخری دروازہ بند ہونے سے پہلے
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
اسے نہیں پھرنا چاہیئے
بے قرار
ایک خوب صورت راہداری میں
جب تک وہ ویران نہ ہو جائے
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
اسے نہیں جدا کرنا چاہیئے
خون آلود پاؤں سے
ایک پورا سفر
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
اسے نہیں معلوم کرنی چاہیئے
پھولوں کے ایک دستے کی قیمت
یا دن تاریخ اور وقت
٭٭٭
زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کر دی گئی ہے
زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کر دی گئی ہے
ہم کسی بھی رعایتی فروخت میں
کتابیں
کپڑے جوتے
حاصل کر سکتے ہیں
جیسا کہ گندم ہمیں امدادی قیمت پر مہیا کی جاتی ہے
اگر ہم چاہیں
کسی بھی کارخانے کے دروازے سے
بچوں کے لیے
رد کردہ بسکٹ خرید سکتے ہیں
تمام طیاروں ریل گاڑیوں بسوں میں ہمارے لیے
سستی نشستیں رکھی جاتی ہیں
اگر ہم چاہیں
معمولی ضرورت کی قیمت پر
تھئیٹر میں آخری قطار میں بیٹھ سکتے ہیں
ہم کسی کو بھی یاد آ سکتے ہیں
جب اسے کوئی اور یاد نہ آ رہا ہو
٭٭٭
جنگل کے پاس ایک عورت
نیند کے پاس ایک رات ہے
میرے پاس ایک کہانی ہے
جنگل کے پاس ایک عورت تھی
عورت بچہ پیدا کرنے کے درد سے مر رہی تھی
ایک شکاری وہاں پہنچ گیا
اور بچے کی آنکھوں کے عوض
عورت کی مدد کرنے پر آمادہ ہو گیا
عورت نے جڑواں بچے جنے
شکاری کے ہاتھ
آنکھوں کی دو جوڑیاں آئیں
اس وقت سکے ایجاد نہیں ہوئے تھے
ایک جوڑی آنکھ کے بدلے
زندگی بھر کا سامان خریدا جا سکتا تھا
جو لوگ دوسروں کی آنکھیں حاصل نہیں کر سکتے
اپنی آنکھوں کا سودا کر لیتے
ہر سودے کی طرح
بیچتے وقت
آنکھوں کی صرف آدھی قیمت حاصل ہوتی تھی
آنکھیں بیچنے والے
صرف آدھی زندگی خرید سکتے تھے
عورت نے شکاری سے جدا ہو کر
اپنے بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا
جیسا کہ اس نے اپنے شوہر کو
سمندر میں چھوڑ دیا تھا
بچے بھیڑیوں میں پل کر بڑے ہوئے
ان میں سے ہر ایک
دوسرے کو
اپنی ماں کی کوکھ کا غاصب
اور اپنی آنکھوں کے سودے کا باعث سمجھنے لگا
جب
بیلوں میں پاؤں ٹوٹنے کی بیماری پھیل جانے کی وجہ سے
اندھے غلاموں کی مانگ بڑھ گئی
ایک بردہ فروش
انہیں بھیڑیوں کے غول سے چرا لے گیا
زمین میں جتے ہوئے اندھے بھائی
ہل لے کر اتنی مخالف سمت میں چلتے کہ
ان کے آقا کو
خدا سے درخواست کر کے
ایک کھڑکھڑانے والا سانپ ان کے پیچھے لگانا پڑا
میں بہت دنوں پہلے
اس شہر کا محاصرہ کرنے آیا تھا
میرے پرچم پر رہنے والا عقاب اڑ گیا
میرے سپاہیوں نے
اپنی تلوار ٹکسالوں میں بیچ دیں
گھوڑے نے اپنی کھال
مشکیزہ بنانے والے کو ہدیہ کر دی
شہر کی دیواروں میں
شگاف کہاں ہے
یہ اس کے چرواہوں کو بھی معلوم ہے
اور ان کی بھیڑوں کو بھی
مگر یہ جنگ
غداروں اور چوپایوں کو بھی خرید کر نہیں جیتنا چاہتا
میں سمندروں کو کشتیوں سے
اور تلوار کو تلوار سے ناپتا ہوں
میں غلام عورت کا
غلام مرد سے پیدا ہوئی اولاد نہیں
جو ایک غلام شاخ سے کمان
اور دوسری غلام شاخ سے تیر بناتا ہے
میں اس کھڑکھڑانے والے سانپ کو کچل دوں گا
اور جڑواں بھائیوں کے کندھے سے جو اتار کر
اسے گہری کھائی میں پھینک دوں گا
میں انہیں لے کر جنگل میں نکل آؤں گا
اور اس شکاری کو تلاش کروں گا
جو بچہ پیدا کرنے کے عوض اس کی آنکھیں طلب کرتا ہے
اور اس ماں کو تلاش کروں گا
جو بغیر آنکھوں کے بچے کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے
ایک دن بیچی ہوئی آنکھیں
شکاری سے سودا کر وہ شخص کو پہچان لیں گی
اور اندھے بچے
اس آدمی سے آہنی آنکھیں چھین کر
اپنے شکاری کو ڈھونڈ نکالیں گے
اور شکاری سے اس عورت کا پتا پوچھ کر رہیں گے
جو انہیں جنگل میں چھوڑ کر چلی گئی تھی
چاہے وہ عورت میری بیوی ہی کیوں نہ ہو
٭٭٭
آخری دلیل
تمہاری محبت
اب پہلے سے زیادہ انصاف چاہتی ہے
صبح بارش ہو رہی تھی
جو تمہیں اداس کر دیتی ہے
اس منظر کو لا زوال بننے کا حق تھا
اس کھڑکی کو سبزے کی طرف کھولتے ہوئے
تمہیں ایک محاصرے میں آئے دل کی یاد نہیں آئی
ایک گم نام پل پر
تم نے اپنے آپ سے مضبوط لہجے میں کہا
مجھے اکیلے رہنا ہے
محبت کو تم نے
حیرت زدہ کر دینے والی خوش قسمتی نہیں سمجھا
میری قسمت جہاز رانی کے کارخانے میں نہیں بنی
پھر بھی میں نے سمندر کے فاصلے طے کیے
پر اسرار طور پر خود کو زندہ رکھا
اور بے رحمی سے شاعری کی
میرے پاس ایک محبت کرنے والے کی
تمام خامیاں
اور آخری دلیل ہے
٭٭٭
اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے
اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے
اس میں ایک بازگشت شامل کر لو
پرانی داستانوں کی بازگشت
اور اس میں
ایک شاہزادی
اور شاہزادی میں اپنی خوبصورتی
اور اپنی خوبصورتی میں
ایک چاہنے والے کا دل
اور چاہنے والے کے دل میں
ایک خنجر
٭٭٭
ایک تلوار کی داستان
یہ آئینے کا سفر نامہ نہیں
کسی اور رنگ کی کشتی کی کہانی ہے
جس کے ایک ہزار پاؤں تھے
یہ کنویں کا ٹھنڈا پانی نہیں
کسی اور جگہ کے جنگلی چشمے کا بیان ہے
جس میں ایک ہزار مشعلچی
ایک دوسرے کو ڈھونڈ رہے ہوں گے
یہ جوتوں کی ایک نرم جوڑی کا معاملہ نہیں
جس کے تلووں میں ایک جانور کے نرم
اور اوپری حصے میں اس کی مادہ کی کھال ہم جفت ہو رہی ہے
یہ ایک اینٹ کا قصہ نہیں
آگ پانی اور مٹی کا فیصلہ ہے
یہ ایک تلوار کی داستان ہے
جس کا دستہ ایک آدمی کا وفادار تھا
اور دھڑ ایک ہزار آدمیوں کے بدن میں اتر جاتا تھا
یہ بستر پر دھلی دھلائی ایڑیاں رگڑنے کا تذکرہ نہیں
ایک قتل عام کا حلفیہ ہے
جس میں ایک آدمی کی ایک ہزار بار جاں بخشی کی گئی
٭٭٭
ہمیں بھول جانا چاہیئے
اس اینٹ کو بھول جانا چاہیئے
جس کے نیچے ہمارے گھر کی چابی ہے
جو ایک خواب میں ٹوٹ گیا
ہمیں بھول جانا چاہیئے
اس بوسے کو
جو مچھلی کے کانٹے کی طرح ہمارے گلے میں پھنس گیا
اور نہیں نکلتا
اس زرد رنگ کو بھول جانا چاہئے
جو سورج مکھی سے علیحدہ دیا گیا
جب ہم اپنی دوپہر کا بیان کر رہے تھے
ہمیں بھول جانا چاہیئے
اس آدمی کو
جو اپنے فاقے پر
لوہے کی چادریں بچھاتا ہے
اس لڑکی کو بھول جانا چاہیئے
جو وقت کو
دواؤں کی شیشوں میں بند کرتی ہے
ہمیں بھول جانا چاہیئے
اس ملبے سے
جس کا نام دل ہے
کسی کو زندہ نکالا جا سکتا ہے
ہمیں کچھ لفظوں کو بالکل بھول جانا چاہئے
مثلاً
بنی نوع انسان
٭٭٭
ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
خنجر کے پھل پر
ایک طرف تمہارا نام لکھا ہے
اور دوسری طرف میرا
جنہیں پڑھنا آتا ہے
ہمیں بتاتے ہیں
ہمیں قتل کر دیا جائے گا
جو درخت اگاتا ہے
ہمیں ایک سیب دے دیتا ہے
ہم خنجر سے سیب کے
دو ٹکڑے کر دیتے ہیں
ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
اور کسی کو بتائے بغیر
محبت کرتے ہیں
میں نے گنتی سیکھی
اور یاد رکھا
تم تک پہنچنے کے لئے مجھے
کتنی سیڑھیاں طے کرنی پڑتی ہیں
ایک دن تم یہ ساری سیڑھیاں
نظموں کی کتاب میں رکھ کر
مجھے دے دو گی
ایک دن میں تمہیں بتاؤں گا
سمندر وہاں سے شروع ہوتا ہے
جہاں سے خشکی نظر آنی ختم ہو جائے
پھر ہم جب چاہیں گے
نظموں کی کتاب سے
ایک ورق پھاڑ کر کشتی بنا لیں گے
اور
دوسرا ورق پھاڑ کر
سمندر
پھر ہم جب چاہیں گے
زمین کی گردش روک کر
رقص کرنے لگیں گے
ناچتے ہوئے آدمی کے دل کا نشانہ
مشکل سے لیا جا سکتا ہے
٭٭٭
جنگل کے پاس ایک عورت
نیند کے پاس ایک رات ہے
میرے پاس ایک کہانی ہے
جنگل کے پاس ایک عورت تھی
عورت بچہ پیدا کرنے کے درد سے مر رہی تھی
ایک شکاری وہاں پہنچ گیا
اور بچے کی آنکھوں کے عوض
عورت کی مدد کرنے پر آمادہ ہو گیا
عورت نے جڑواں بچے جنے
شکاری کے ہاتھ
آنکھوں کی دو جوڑیاں آئیں
اس وقت سکے ایجاد نہیں ہوئے تھے
ایک جوڑی آنکھ کے بدلے
زندگی بھر کا سامان خریدا جا سکتا تھا
جو لوگ دوسروں کی آنکھیں حاصل نہیں کر سکتے
اپنی آنکھوں کا سودا کر لیتے
ہر سودے کی طرح
بیچتے وقت
آنکھوں کی صرف آدھی قیمت حاصل ہوتی تھی
آنکھیں بیچنے والے
صرف آدھی زندگی خرید سکتے تھے
عورت نے شکاری سے جدا ہو کر
اپنے بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا
جیسا کہ اس نے اپنے شوہر کو
سمندر میں چھوڑ دیا تھا
بچے بھیڑیوں میں پل کر بڑے ہوئے
ان میں سے ہر ایک
دوسرے کو
اپنی ماں کی کوکھ کا غاصب
اور اپنی آنکھوں کے سودے کا باعث سمجھنے لگا
جب
بیلوں میں پاؤں ٹوٹنے کی بیماری پھیل جانے کی وجہ سے
اندھے غلاموں کی مانگ بڑھ گئی
ایک بردہ فروش
انہیں بھیڑیوں کی غول سے چرا لے گیا
زمین میں جتے ہوئے اندھے بھائی
ہل لے کر اتنی مخالف سمت میں چلتے کہ
ان کے آقا کو
خدا سے درخواست کر کے
ایک کھڑکھڑانے والا سانپ ان کے پیچھے لگانا پڑا
میں بہت دنوں پہلے
اس شہر کا محاصرہ کرنے آیا تھا
میرے پرچم پر رہنے والا عقاب اڑ گیا
میرے سپاہیوں نے
اپنی تلواریں ٹکسالوں میں بیچ دیں
گھوڑے نے اپنی کھال
مشکیزہ بنانے والے کو ہدیہ کر دی
شہر کی دیواروں میں
شگاف کہاں ہے
یہ اس کے چرواہوں کو بھی معلوم ہے
اور ان کی بھیڑوں کو بھی
مگر یہ جنگ
غداروں اور چو پاؤں کو بھی خرید کر نہیں جیتنا چاہتا
میں سمندروں کو کشتیوں سے
اور تلوار کو تلوار سے ناپتا ہوں
میں غلام عورت کا
غلام مرد سے پیدا ہوئی اولاد نہیں
جو ایک غلام شاخ سے کمان
اور دوسرے غلام شاخ سے تیر بناتا ہے
میں اس کھڑکھڑانے والے سانپ کو کچل دوں گا
اور جڑواں بھائیوں کے کندھے سے جوتا اتار کر
اسے گہری کھائی میں پھینک دوں گا
میں انہیں لے کر جنگل میں نکل آؤں گا
اور اس شکاری کو تلاش کروں گا
جو بچہ پیدا کرنے کے عوض اس کی آنکھیں طلب کرتا ہے
اور اس ماں کو تلاش کروں گا
جو بغیر آنکھوں کے بچے کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے
ایک دن بیچی ہوئی آنکھیں
شکاری سے سودا کردہ شخص کو پہچان لیں گی
اور اندھے بچے
اس آدمی سے آہنی آنکھیں چھین کر
اپنے شکاری کو ڈھونڈھ نکالیں گے
اور شکاری سے اس عورت کا پتہ پوچھ کر رہیں گے
جو انہیں جنگل میں چھوڑ کر چلی گئی تھی
چاہے وہ عورت میری بیوی ہی کیوں نہ ہو
٭٭٭
ایک نئی زبان کا سیکھنا
سمندر کے قریب
ایک عمارت میں
جہاں میرے
اور پڑوس کے کتے کے سوا
کوئی تنہا نہیں پہنچتا
میں ایک نئی زبان سیکھ رہا ہوں
اپنے آپ سے باتیں کرنے کے لیے
٭٭٭
تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو
تم نیند میں بہت خوب صورت لگتی ہو
تمہیں سوتے میں چلنا چاہئے
تمہیں سوتے میں ڈوریوں پر چلنا چاہئے
کسی چھتری کے بغیر
کیونکہ کہیں بارش نہیں ہو رہی ہے
٭٭٭
محبت
محبت کوئی نمایاں نشان نہیں
جس سے لاش کی شناخت میں آسانی ہو
جب تک تم محبت کو دریافت کر سکو
وہ وین روانہ ہو چکی ہوگی
جو ان لاشوں کو لے جاتی ہے
جن پر کسی کا دعویٰ نہیں
شاید وہ راستے میں
تمہاری سواری کے برابر سے گزری ہو
یا شاید تم اس راستے سے نہیں آئیں
جس سے
محبت میں مارے جانے والے لے جائے جاتے ہیں
شاید وہ وقت
جس میں محبت کو دریافت کیا جا سکتا
تم نے کسی جبری مشق کو دے دیا
پتھر کی سل پر لٹایا ہوا وقت
اور انتظار کی آخری حد تک کھینچی ہوئی
سفید چادر
تمہاری مشق ختم ہونے سے پہلے تبدیل ہو گئے
شاید تمہارے پاس
اتفاقیہ رخصت کے لئے کوئی دن
اور محبت کی شناخت کے لئے
کوئی خواب نہیں تھا
اس وقت تک جب تم
محبت کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ سکتیں
وہ وین روانہ ہو چکی ہوگی
جو ان خوابوں کو لے جاتی ہے
جن پر کسی کو دعویٰ نہیں
٭٭٭
وہ اپنے آنسو ایک نازک ہیر ڈرائیر سے سکھاتی ہے
وہ اپنے آنسو
ایک نازک ہیر ڈرائیر سے سکھاتی ہے
جب اس کی مصنوعی پلکیں
اس کا بدن چھپانے میں ناکام ہو جاتی ہیں
دس ناخن تراش
اس کے ناخنوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں
وہ بچوں کی طرح برتے جانے سے
تنگ آ چکی ہے
پر کشش بدن کو ملنے والے تمغوں کے درمیان سے
وہ مچھلی کی طرح
تیر کر نکل جاتی ہے
اپنے تلووں کے نیچے
وہ گہرائی اور ڈراما چاہتی ہے
اس کے بال
شیمپو کی شیشی پر لکھی ہوئی ہدایات پر
سختی سے عمل کرتے ہیں
ماحولیاتی آلودگی کا خیال کرتے ہوئے
وہ کوئی بوسہ نہیں دیتی
اس کا تکیہ
دنیا کے تمام عاشقوں کے آنسو
جذب کر سکتا ہے
٭٭٭
اگر ہم گیت نہ گاتے
ہمیں معنی معلوم ہیں
اس زندگی کے
جو ہم گزار رہے ہیں
ان پتھروں کا وزن معلوم ہے
جو ہماری بے پروائی سے
ان چیزوں میں تبدیل ہو گئے
جن کی خوبصورتی میں
ہماری زندگی نے کوئی اضافہ نہیں کیا
ہم نے اپنے دل کو
اس وقت
قربان گاہ پر رکھے جانے والے پھولوں میں
محسوس کیا
جب ہم
زخمی گھوڑوں کے جلوس کے پیچھے چل رہے تھے
شکست ہمارا خدا ہے
مرنے کے بعد ہم اسی کی پرستش کریں گے
ہم اس شخص کی موت مریں گے
جس نے تکلیفوں کے بعد دم توڑا
زندگی کبھی نہ جان سکتی
ہم اس سے کیا چاہتے تھے
اگر ہم گیت نہ گاتے
٭٭٭
ایک دن اور زندہ رہ جانا
بہت دور ایک ساحل پر
اسکریپ سے بنے ہوئے ایک جہاز کا
بوائلر پھٹ جاتا ہے
سیکنڈ انجینئر اسی دن مر جاتا ہے
تھرڈ انجینئر
دوسرے دن
اور میں
فورتھ انجینئر
تیسرے دن مر جاتا ہوں
سیکنڈ ہینڈ جہازوں پر
فرسٹ انجینئر نہیں ہوتے
ورنہ
میں ایک دن اور زندہ رہ جاتا
٭٭٭
کون شاعر رہ سکتا ہے
لفظ اپنی جگہ سے آگے نکل جاتے ہیں
اور زندگی کا نظام توڑ دیتے ہیں
اپنے جیسے لفظوں کا گٹھ بنا لیتے ہیں
اور ٹوٹ جاتے ہیں
ان کے ٹوٹے ہوئے کناروں پر
نظمیں مرنے لگتی ہیں
لفظ اپنی ساخت اور تقدیر میں
کمزور ہو جاتے ہیں
معمولی شکست ان کو ختم کر دیتی ہے
ان میں
ٹوٹ کر جڑ جانے سے محبت نہیں رہ جاتی
ان لفظوں سے
بد صورت اور بے ترتیب نظمیں بننے لگتی ہیں
سفاکی سے کاٹ دئیے جانے کے بعد
ان کی جگہ لینے کو
ایک اور کھیپ آ جاتی ہے
نظموں کو مر جانے سے بچانے کے لیے
ہر روز ان لفظوں کو جدا کرنا پڑتا ہے
اور ان جیسے لفظوں کے حملے سے پہلے
نئے لفظ پہنچانے پڑتے ہیں
جو ایسا کر سکتا ہے
شاعر رہ سکتا ہے
٭٭٭
جہاں تم یہ نظم ختم کرو گی
جہاں تم یہ نظم ختم کرو گی
وہاں ایک درخت اگ آئے گا
شکار کی ایک مہم میں
تم اس کے پیچھے ایک درندے کو ہلاک کرو گی
کشتی رانی کے دن
اس سے اپنی کشتی باندھ سکو گی
ایک انعام یافتہ تصویر میں
تم اس کے سامنے کھڑی نظر آؤگی
پھر تم اسے
بہت سے درختوں میں گم کر دو گی
اور اس کا نام بھول جاؤ گی
اور یہ نظم
٭٭٭
صرف غیر اہم شاعر
صرف غیر اہم شاعر
یاد رکھتے ہیں
بچپن کی غیر ضروری اور سفید پھولوں والی تام چینی کی پلیٹ
جس میں روٹی ملتی ہے
صرف غیر اہم شاعر
بے شرمی سے لکھ دیتے ہیں
اپنی نظموں میں
اپنی محبوبہ کا نام
صرف غیر اہم شاعر
یاد رکھتے ہیں
بدتمیزی سے تلاشی لیا ہوا ایک کمرہ
باغ میں کھڑی ہوئی ایک لڑکی کی تصویر
جو پھر کبھی نہیں ملی
٭٭٭
فیصلہ
ریڈیولوجسٹ ان ایکسروں کو پڑھ رہی ہے
جن پر میری گزشتہ نظم کی تاریخ پڑی ہے
ان لوگوں کے زخم
اتنی تاخیر
اتنی سفاکی سے پڑھے جا رہے ہیں
جو ابھی تک زندہ رہنے کا امتحان دینے میں مصروف ہیں
”آدمی اپنی غلطی سے مرتا ہے”
یہ سرجن جنرل کا فیصلہ ہے
”تم سے غلطی ہوئی ہے”
شام کو جب میں اسے بتاؤں گا
میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں
تو وہ یہ کہے گی
٭٭٭
سمندر نے تم سے کیا کہا
سمندر نے تم سے کیا کہا
استغاثہ کے وکیل نے تم سے پوچھا
اور تم رونے لگیں
جناب عالی یہ سوال غیر ضروری ہے
صفائی کے وکیل نے تمہارے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
عدالت نے تمہارے وکیل کا اعتراض
اور تمہارے آنسو مسترد کر دئیے
آنسو ریکارڈ روم میں چلے گئے
اور تم اپنی کوٹھری میں
یہ شہر سطح سمندر سے نیچے آباد ہے
یہ عدالتیں شہر کی سطح سے بھی نیچے
اور زیر سماعت ملزموں کی کوٹھریاں
ان سے بھی نیچے
کوٹھری میں کوئی تمہیں ریشم کی ایک ڈور دے جاتا ہے
تم ہر پیشی تک ایک شال بن لیتی ہو
اور عدالت برخاست ہو جانے کے بعد
اسے ادھیڑ دیتی ہو
یہ ڈور تمہیں کہاں سے ملی
سپرنٹنڈنٹ آف پریزنز تم سے پوچھتا ہے
یہ ڈور ایک شخص لایا تھا
اپنے پاؤں میں باندھ کر
ایک بلا کو ختم کرنے کے لیے
ایک پر پیچ راستے سے گزرنے کے لیے
وہ آدمی اب کہاں ہے
ٹھنڈے پانی میں تمہیں غوطہ دے کر پوچھا جاتا ہے
وہ آدمی راستہ کھو بیٹھا
سمندر نے تم سے یہی کہا تھا
٭٭٭
دو زبانوں میں سزائے موت
ہمیشہ پر سکون رہنے والی
مالازیبتبام
کیمپ گارڈ سے نکل گئی
اس کے ساتھ
ایڈورڈؔ بھی
جو اس پر عاشق تھا
”مجھے ہاتھ مت لگاؤ”
پھر سے گرفتار ہونے پر
اس نے کہا
ہاتھ گاڑی میں ڈال کر
اس کا جسم
دور تک لے جایا گیا
بچ نکلنے کے باوجود
ایڈورڈؔ
اس دن واپس آ گیا
اسے دو زبانوں میں
سزائے موت دی گئی
کیوں؟
٭٭٭
وقت ان کا دشمن ہے
وہ کسی گیلیلیو کا انتظار نہیں کر رہے ہیں
ایک بڑی گھڑی تیار کرنے کے لیے
جسے شہر کی ایک یادگاری دیوار میں نصب کیا جا سکے
اس خلا میں
ہماری تاریخ کی عکاسی کے علاوہ
خواتین کے عالمی دن پر
جھولا ڈالا جا سکتا ہے
چینی طائفہ
بانس سے اچھل کر اس میں سے گزر سکتا ہے
اس میں
ایک لاش کو مختصر کر کے لٹکایا جا سکتا ہے
اسے موہن جودڈو کی اینٹوں سے
چنا جا سکتا ہے
٭٭٭
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
مارے جانے والے لوگوں کے قدموں میں رکھنے کے لیے،
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
بوریوں میں پائی جانے والی لاشوں کے چہرے ڈھانکنے کے لیے،
ایک پوری سالانہ پھولوں کی نمائش
ایدھی سرد خانے میں محفوظ کر لینی چاہیئے
نامزد مرنے والوں کی
پولس قبرستان میں کھدی قبروں کے پاس رکھنے کے لیے،
خوبصورت بالکنی میں اگنے والے پھولوں کا ایک گچھا چاہیئے
بس سٹاپ کے سامنے
گولی لگ کر مرنے والی عورت کے لیے،
آسمانی نیلے پھول چاہئیں
یلو کیب میں ہمیشہ کی نیند سوئے ہوئے دو نوجوانوں کو
گدگدانے کے لیے،
ہمیں خشک پھول چاہئیں
مسخ کئے گئے جسم کو سجا کر
اصلی صورت میں لانے کے لیے،
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
ان زخمیوں کے لیے
جو ان اسپتالوں میں پڑے ہیں
جہاں جاپانی یا کسی اور طرح کے راک گارڈن نہیں ہیں،
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
کیونکہ ان میں سے آدھے مر جائیں گے
ہمیں رات کو کھلنے والے پھولوں کا ایک جنگل چاہیئے
ان لوگوں کے لیے
جو فائرنگ کی وجہ سے نہیں سو سکے،
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
بہت سارے افسردہ لوگوں کے لیے،
ہمیں گمنام پھول چاہئیں
بے ستر کر دی گئی ایک لڑکی کو ڈھانپنے کے لیے
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
ہمیں بہت سارے پھول چاہئیں
بہت ساری رقص کرتی بیلوں پر لگے
جن سے ہم اس پورے شہر کو چھپانے کی کوشش کر سکیں
٭٭٭
ہمارا قومی درخت
سفید یاسمین کی بجائے
ہم کیکر کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں
جو امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپس پر نہیں اگتا
کسی بھی ٹراپکل گارڈین میں نہیں لگایا جاتا
اکی بانا خواتین نے اسے کبھی نہیں چھوا
نباتات کے ماہر اسے درخت نہیں مانتے
کیونکہ اس پر کسی کو پھانسی نہیں دی جا سکتی
کیکر ایک جھاڑی ہے
جس سے ہمارے شہر، ریگستان
اور شاعری بھری ہے
کانٹوں سے بھرا ہوا کیکر
ہمیں پسند ہے
جس نے ہماری مٹی کو بحرِ عرب میں جانے سے روکا۔
——
اکی بانا پھول سجانے کا جاپانی طریقہ
نباتاتِ زمین سے اگنے والی چیزیں
**
شاعری میں نے ایجاد کی
کاغذ مراکشیوں نے ایجاد کیا
حروف فونیشیوں نے
شاعری میں نے ایجاد کی
قبر کھودنے والے نے تندور ایجاد کیا
تندور پر قبضہ کرنے والوں نے روٹی کی پرچی بنائی
روٹی لینے والوں نے قطار ایجاد کی
اور مل کر گانا سیکھا
روٹی کی قطار میں جب چیونٹیاں بھی آ کر کھڑی ہو گئیں
تو فاقہ ایجاد ہو گیا
شہتوت بیچنے والے نے ریشم کا کیڑا ایجاد کیا
شاعری نے ریشم سے لڑکیوں کے لیے لباس بنایا
ریشم میں ملبوس لڑکیوں کے لیے کٹنیوں نے محلسرا ایجاد کی
جہاں جا کر انھوں نے ریشم کے کیڑے کا پتا بتا دیا
فاصلے نے گھوڑے کے چار پاؤں ایجاد کیے
تیز رفتاری نے رتھ بنایا
اور جب شکست ایجاد ہوئی
تو مجھے تیز رفتار رتھ کے آگے لٹا دیا گیا
مگر اس وقت تک شاعری محبت کو ایجاد کر چکی تھی
محبت نے دل ایجاد کیا
دل نے خیمہ اور کشتیاں بنائیں
اور دور دراز کے مقامات طے کیے
خواجہ سرا نے مچھلی کا کانٹا ایجاد کیا
اور سوئے ہوئے دل میں چھو کر بھاگ گیا
دل میں چھپے ہوئے کانٹے کی ڈور تھامنے کے لیے
نیلامی ایجاد ہوئی
اور
جبر نے آخری بولی ایجاد کی
میں نے ساری شاعری بیچ کر آگ خریدی
اور جبر کا ہاتھ جلا دیا
٭٭٭
ایک افتتاحی تقریب
فلورا لک
لہریئے دار سکرٹ
نیم برہنہ شانوں
اور کالی کروشیا کی بیریٹ میں
مختصر جلوس کے ساتھ
کیماڑی تک گئی
وہ سکاچ چرچ میں رکی
اس نے غیر دلچسپ تقریریں سنیں
صبح اسے
ٹرالیوں کے
گیلونائزڈ لوہے کی چھتوں والے گودام
اور ساٹھ گھوڑوں کے اصطبل کا دورہ کرایا گیا
ٹرام وے کی افتتاحی تقریب میں
کراچی کی سب سے خوبصورت لڑکی
خوش نظر آ رہی تھی
اگر اس کا کوئی محبوب ہوتا
وہ اسے اس دن بہت بوسے دیتی
اس کی خوشی کے احترام میں
کراچی ٹرام وے
نوویں سال تک پٹریوں پر دوڑتی رہی
اور جب
مضبوط ٹرانسپورٹروں نے
ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ دیں
شہر اجڑنا شروع ہو گیا
٭٭٭
ہدایات کے مطابق
وزیرِ اعظم جنوب کی طرف نہیں جائیں گی
صدر
صرف عمودی پرواز کریں گے
سپاہی
ڈھائی گھر چلیں گے
جلاوطن رہنما
ساڑھے بائیس ڈگری پر گھومیں گے
لوگ گھروں سے نہیں نکلیں گے
ایمبولینس زگ زیگ چلیں گے
تاریخ
پہلے ہی اینٹی کلاک وائز چل رہی ہے
٭٭٭
ماخذ: انٹر نیٹ کی مختلف سائٹس
کچھ مواد ہندی سے: رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں