FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں……

قرآن: عظیم ترین دولت

عزیزانِ گرامی!

آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے گھروں میں ایک ایسی کتاب ہے جس کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ اُس کتاب کو ہم عمدہ غلاف میں لپیٹ کر گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھتے ہیں کہ اس کی بے ادبی نہ ہو۔ کبھی کبھی گھر کا کوئی بزرگ اسے کھول کر بہت اہتمام سے با وضو ہو کر پڑھ بھی لیتا ہے۔ خاص طور پر بعض دینی گھرانوں میں گھر کے سب افراد باقاعدگی سے اُسے پڑھتے ہیں اور بچوں کو بھی اس کی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن آج کل اکثر گھروں میں اس کتاب کو پڑھنے کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا اور اسے محض ایک مقدس کتاب کے طور پر گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے۔

آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جس کتاب کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ قرآن مجید ہے۔ یہ قرآن اُس اللہ کا کلام ہے جو زمین و آسمان کا خالق و مالک اور ہمارا ربّ ہے اور یوں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اِس قدر ہیں کہ ہم زندگی بھر اُس کا شکر ادا کرتے رہیں تب بھی وہ اُن احسانات کا بدل نہیں ہو سکتا، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان کون سا ہے! ہمارے نبیؐ نے بتایا ہے کہ اس کائنات میں انسانوں پر اللہ کا سب سے بڑا انعام اور سب سے عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کو اپنا کلام یعنی قرآن مجید عطا فرمایا ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید وہ نعمت ہے کہ اگر ہم اس سے وابستہ رہتے ہیں تو ہماری دنیا بھی سدھر جاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ غور کیجیے اگر کسی شخص کے ہاتھ کوئی ایسا نسخہ آ جائے کہ جس کی بدولت اُسے دنیا میں بھی عزت و کامرانی حاصل ہو اور آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت مل جائے تو کیا ایسے شخص کے لیے وہ نسخہ ہی عظیم ترین دولت نہ ہو گا۔ اب ہم مسلمانوں کی بد قسمتی دیکھیے کہ ہمارے پاس وہ نسخۂ ہدایت موجود ہے جو ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے لیکن ہم اس کی عظمت سے ناواقف ہیں۔

ہماری مثال اُس فقیر کی سی ہے جس کے کشکول میں ہیرا موجود ہو لیکن وہ اپنی نادانی میں اُسے کانچ کا ٹکڑا سمجھ کر دوسروں سے بھیک مانگتا پھرتا ہو۔

چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو قرآن کی قدر و قیمت کا شعور حاصل کریں۔ قرآن کی عظمت کی شان تو یہ ہے کہ اس قرآن سے جو شخص بھی وابستہ ہو گا وہ حضورؐ کے ایک فرمان کے مطابق تمام انسانوں میں بہترین قرار پائے گا اور جو قوم قرآن کو مضبوطی سے تھامتی ہے اُسے اِس دنیا میں ہی عروج عطا کر دیا جاتا ہے۔ گویا قرآن تو وہ نسخہ کیمیا ہے جو قوموں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتا ہے۔ بقول مولانا حالیؔ

؎ اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

لیکن یہ جان لیجیے کہ اگر اللہ نے ہم پر اتنا بڑا احسان فرمایا ہے کہ قرآن جیسی عظیم دولت ہمیں عطا فرمائی ہے تو ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس احسان پر اللہ کا بھرپور انداز میں شکر ادا کریں۔

اللہ کا شکر ہم کس انداز میں ادا کریں؟ اسے ایک مثال سے سمجھئے! دیکھیے اگر کسی سعادت مند لڑکے کو اُس کے والد کوئی اچھی سی کتاب تحفے کے طور پر دیں تو سوچئے کہ اس کا طرز عمل کیا ہو گا! وہ بچہ سب سے پہلے تو زبان سے اپنے والد کا شکریہ ادا کرے گا، پھر شکر و احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اُس کتاب کا مطالعہ کرے گا اور پھر اس کتاب کے مطالعے سے جو اچھی باتیں اسے سمجھ میں آئیں گی اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ در اصل اسی طرح کا طرز عمل ہمارا قرآن کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ یعنی یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم:

(۱) قرآن پر ایمان لائیں۔

(۲) اس کی تلاوت کریں۔

(۳) اس کو سمجھیں اور اس پر غور و فکر کریں۔

(۴) اس پر عمل کریں۔

(۵) اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔

اگر ہم قرآنِ مجید کے اِن حقوق کو ادا کریں گے تو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہمارے حصے میں آئیں گی لیکن اگر ہم نے ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا تو یہی قرآن اللہ کی عدالت میں ہمارے خلاف بطور دلیل پیش ہو گا۔ تو آئیے ان حقوق کو تفصیل میں سمجھنے کی کوشش کریں۔

پہلا حق:  قرآن پر ایمان لایا جائے

یہ بات بظاہر عجیب سی معلوم ہو گی کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لایا جائے حالانکہ قرآن مجید پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ بات آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے اگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک زبان سے اقرار کرنا اور دوسرا ہے دل سے تصدیق کرنا۔ اور ایمان مکمل تبھی ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو جائے۔ [أ‌] اس لیے کہ جس چیز پر ہمارا یقین ہو ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں جا سکتا۔ آگ جلاتی ہے اس لیے کوئی شخص آگ میں انگلی نہیں ڈالتا، بلکہ ہمارا تو یہ طرز عمل ہے کہ جس چیز پر ہمیں شک ہو ہم اس کے بارے میں بھی محتاط نہیں ہو جاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اکثر سانپ زہریلے نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی کبھی سانپ کو پکڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن مجید پر کامل یقین ہے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے اس لیے کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اس کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اس لیے ثابت ہوا کہ در اصل ہمارا ایمان کمزور ہے۔ ہم زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ اللہ ربّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی دولت سے ہم محروم ہیں۔ ورنہ جسے یقین حاصل ہو جائے اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ انہیں قرآن سے کس درجہ محبت تھی!

جیسے ہی قرآن کی آیات نازل ہوئیں ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ انہیں جلد از جلد یاد کر لیں۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کمی کو کیسے پورا کیا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خود قرآن مجید ہے۔ بقول مولانا ظفر علی مرحوم

؎ وہ جنس نہیں ’’ایمان‘‘ جسے لے آئیں دکان فلسفہ سے ڈھونڈے سے ملے گی قاری کو یہ قرآں کے سیپاروں میں

جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آ جائے گا۔ پھر ہمیں محسوس ہو گا کہ اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے قرآن سے بڑھ کر کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت نہیں ہے۔[ب‌]  دوسرا حق قرآن کی تلاوت کی جائے

ہم مسلمانوں پر قرآن حکیم کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں، اس لیے کہ کسی اچھی کتاب کو نہ پڑھنا بڑی ناقدری کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب الٰہی کے اصل قدر دانوں کی یہ کیفیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے:

﴿اَلَّذِینَ اٰتَینٰہُمُ الکِتٰبَ یَتلُونَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ﴾ (البقرۃ: ۱۲۱)

یعنی ’’ جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم قرآن مجید کا حق تلاوت ادا کر سکیں (آمین)۔

اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ جاننا ہے کہ قرآن حکیم کی بار بار تلاوت کیوں ضروری ہے!

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے یہاں تک کہ فرشتوں نے بھی اسے سجدہ کیا تھا اور اس کی برتری تسلیم کیا تھا۔

لیکن اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ اس کی تخلیق میں جہاں مٹی اور گارا شامل ہے وہیں روح ربانی بھی اس میں پھونکی گئی تھی۔[ت‌] گویا انسان کی تخلیق کے دو حصے ہیں۔ ایک اس کا گوشت پوست کا جسد ہے جو مٹی سے بنا ہے اور دوسرا حصہ اس ’’روح‘‘ پر مشتمل ہے جس کی نسبت خود اللہ نے اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے۔ اس گوشت پوست والے حصے کی تمام تر ضروریات زمینی وسائل ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہ اسی زمین سے حاصل ہوتا ہے، ہمارا لباس جن چیزوں سے تیار ہوتا ہے وہ بھی اسی زمین سے حاصل ہوتی ہیں۔ اور ہمارے مکانات تو مٹی گارے ہی سے تیار ہوتے ہیں۔ لیکن روح کا تعلق چونکہ اس زمین سے نہیں بلکہ علم ملکوت سے ہے، لہذا اس کی غذا بھی زمین سے حاصل نہیں ہوتی،  وحی الٰہی کی شکل میں آسمانوں سے آتی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن حکیم در اصل ہماری روح کے لیے غذا کا کام دیتا ہے اور اس کی تلاوت روح کی نشو و نما اور اسے تر و تازہ رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح ہم اپنے جسم کو صحت مند اور توانا رکھنے کے لیے مسلسل محنت کرتے ہیں اور اچھی سے اچھی غذا کا اہتمام کرتے ہیں اسی طرح اپنی روح کو تر و تازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بار بار قرآن حکیم کی تلاوت کیا کریں اور اسے اچھے سے اچھے انداز میں پڑھنے کی کوشش کریں۔ تلاوتِ قرآن کا حق ادا کرنے کے لیے درج ذیل باتوں کا اہتمام ضروری ہے۔

دوسرا حق: اس کی تلاوت کی جائے

تجوید

قرآن مجید کی درست تلاوت کے لیے تجوید کا سیکھنا بہت ضروری ہے۔ تجوید سے مراد ہے عربی حروف کی پہچان،  ان کی صحیح ادائیگی اور قرأت کے بنیادی اصولوں سے واقفیت حاصل کرنا۔ تجوید کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن کی صحیح تلاوت ممکن نہیں بلکہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں قرآن کے معنوں میں رد و بدل نہ ہو جائے۔ مثلاً ً ’’قُل‘‘ کا مطلب ہے ’’کہو‘‘ لیکن اگر اسے ’’کُل‘‘ پڑھ دیا جائے، تو اس کا مطلب ہو جائے گا ’’کھاؤ‘‘۔ اِسی طرح ’’اَنْعَمْتَ‘‘ کا مطلب ہے ’تو نے انعام کیا‘   لیکن اگر اسے ’’اَنْعَمْتُ‘‘ پڑھ دیا جائے تو اس کا مطلب ہو جائے گا ’ میں نے انعام کیا‘ ۔ آپ نے دیکھا کہ زبر اور پیش کی معمولی سی غلطی سے مفہوم میں کتنا فرق واقع ہو گیا۔ ثابت ہوا کہ تجوید کا سیکھنا تلاوت کی بنیادی شرط ہے۔

باطنی و ظاہری آداب

قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے چند آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ جن میں سے بعض ظاہری نوعیت کے آداب ہیں اور بعض کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ ظاہری آداب میں با وضو ہونا، لباس کا پاک ہونا اور قبلہ رُو ہو کر با ادب بیٹھنا شامل ہیں۔ اسی طرح آدابِ تلاوت میں سے یہ بھی ہے کہ تلاوت کی ابتداء

اَعوُذ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم

اور

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سے کی جائے۔

باطنی نوعیت کے آداب یہ ہیں کہ دل میں اللہ اور اس کے کلام کی عظمت کا احساس ہو اور اللہ تعالیٰ کے محاسبے کا خوف اور اس کی محبت کا جذبہ دل میں پیدا کرنے کی نیت ہو۔ اسی طرح تلاوت ہمیشہ ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے کرنی چاہیے اور دل میں یہ ارادہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ سمجھ میں آیا اس پر عمل کروں گا۔ قرآن کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کے رُخ کو موڑ دوں گا۔

روزانہ کا معمول

قرآن حکیم کی تلاوت کا حق ادا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی تلاوت کو باقاعدہ اپنے روزانہ کے معمولات میں شامل کیا جائے۔ روزانہ کتنی تلاوت کی جائے، اس میں کمی و بیشی کی کافی گنجائش موجود ہے۔ مختلف لوگوں کے لیے اس کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن تین دن سے کم کی مدت میں قرآن مجید کی تلاوت کی تکمیل درست نہیں ہے۔ یعنی روزانہ دس سیپاروں سے زیادہ تلاوت کرنا حضورﷺ کے فرمان کے مطابق مناسب نہیں ہے۔ تاہم روزانہ کم سے کم ایک پارہ ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ ایک ماہ میں قرآن حکیم کی تلاوت مکمل ہو جائے۔ صحابہ کرامؓ کا معمول یہ تھا کہ روزانہ ایک حزب کی تلاوت کر کے سات دن میں قرآن مکمل کر لیا کرتے تھے۔ اور یہ بات تو آپ کو معلوم ہو گی کہ قرآن مجید کے کُل سات احزاب ہیں اور ہر حزب تقریباً ساڑھے چار پاروں پر مشتمل ہوتا ہے جس کی تلاوت انتہائی سکون اور آرام سے دو گھنٹوں میں کی جا سکتی ہے۔

خوش الحانی

اللہ کے رسولﷺ نے تاکیداً فرمایا ہے کہ

’’زَیِّنُو الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ‘‘

یعنی قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو اور اس معاملہ میں کوتاہی پر بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے:

’’مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْاٰنِ فَلَیْسَ مِنَّا‘‘

یعنی جو شخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی کوشش کی حد تک قرآن کو بہتر سے بہتر انداز میں اور اچھی سے اچھی آواز سے پڑھنا چاہیے۔

ترتیل

قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اسے ترتیل کے انداز میں پڑھیں۔ ترتیل کا مطلب ہے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ یعنی قرآن کی ہر آیت پر رُکتے ہوئے اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھتے ہوئے، اور اس کے اثرات کو دل میں سموتے ہوئے پڑھا جائے۔ خود نبی کریمﷺ کو شروع ہی میں یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ:

(یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲ …… وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾)

یعنی ’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (محمدؐ) رات کو (اپنے ربّ کے سامنے ) کھڑے ہوا کرو … اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو‘‘۔ علامہ اقبالؔ نے اس رات کے قیام کی کتنے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے کہ ؏

’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی‘‘۔

حفظ

قرآن کی تلاوت ہی کا ایک گوشہ حفظ قرآن بھی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حفظ القرآن پورے کے پورے قرآن کو زبانی یاد کر لینے کا نام ہے اور یہ کام کسی خاص طبقے کے لوگوں کے کرنے کا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال درست نہیں۔ بلکہ حفظ قرآن سے مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان زیادہ سے زیادہ قرآن کو یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے تاکہ وہ اِس قابل ہو سکے کہ نفل نمازوں میں اور خاص طور پر تہجد کی نماز میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکے۔ اس لیے کہ نبی اکرمﷺ کا معمول یہی تھا کہ آپ تہجد کی نماز میں طویل قرأت کیا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایک ایک رکعت میں کئی کئی پاروں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور یاد کرے … اور قرآن مجید کے آخری تین چار پارے تو ہم میں سے ہر شخص کو یاد ہونے چاہئیں اس لیے کہ آخری پاروں میں سورتیں زیادہ طویل نہیں ہیں اور عام طور پر نمازوں میں انہی کو پڑھا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پورے قرآن کو حفظ کرنے کا اہتمام کرتا ہے تو یقیناً اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے جس کا تذکرہ حضورﷺ کی احادیث میں موجود ہے۔

تیسرا حق : قرآن کو سمجھا جائے

قرآن مجید کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے۔ قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لیکن یہی وہ سب سے زیادہ مظلوم کتاب بھی ہے جو سب سے زیادہ بغیر سمجھے پڑھی جاتی ہے۔ ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ خدانخواستہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ آنحضورﷺ کا وہ فرمان مبارک ہمارے سامنے ہے جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں۔ پھر آپؐ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’الٓمّٓ ۚ﴿۱﴾ّ‘‘ تین حروف ہیں، ان کی تلاوت پر تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ آپ کے اس قول مبارک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر سمجھے تلاوت کرنا بھی ثواب سے خالی نہیں۔

لیکن ہمارے لیے قابل غور بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے میں تمام زندگیاں کھپا دیں لیکن اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے بنیادی عربی تک نہ سیکھ سکے، وہ اللہ کے ہاں کیا جواب دیں گے؟ ہم اگر دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیس سال لگا دیتے ہیں اور دولت کمانے کی خاطر ہر قسم کی اجنبی زبان سیکھنے کے لیے ہر دَم تیار رہتے ہیں لیکن اللہ کے پاک کلام کو سمجھنے کی خاطر عربی زبان سیکھنے کی کوشش تک نہیں کرتے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہماری نگاہوں میں اللہ کے کلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اپنے اس طرز عمل سے جو گویا قرآن کی تحقیر کے مرتکب ہو رہے ہیں جو بہت بڑا جرم ہے۔ لہٰذا وہ تمام لوگ جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے یعنی ایف اے، بی اے یا ایم اے وغیرہ کیا ہے ان کے لیے عربی زبان سیکھنا از بس ضروری ہے۔

قرآن مجید کے سمجھنے اور اس سے نصیحت اخذ کرنے کے دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ ’’تذکُرّ‘‘ کا ہے۔ تذکُرّ کا لفظ ’’ذکر‘‘ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے یاددہانی۔ یہ بات آپ کے علم میں ہو گی کہ قرآن اپنے آپ کو ’’ذکریٰ‘‘ بھی کہتا ہے یعنی مجسم یاددہانی اور نصیحت۔ یاددہانی ہمیشہ کسی بھولی بسری بات کی کرائی جاتی ہے اور یاددہانی کے لیے کوئی نشانی بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے کسی عزیز دوست نے چند سال قبل آپ کو تحفے میں کوئی عمدہ قلم دیا۔ وہ قلم آپ اپنی الماری کے کسی گوشے میں رکھ کر بھول گئے۔ اُس دوست سے بھی کئی سال سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اب اچانک کسی دن آپ کو الماری میں دوست کا دیا ہوا وہ قلم نظر آ جاتا ہے۔ اس نشانی کو دیکھتے ہی اس دوست کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن کی آیات بھی نشانی کا کام کرتی ہیں۔ ہم اپنی غفلت کی وجہ سے اللہ کو بھول جاتے ہیں، لیکن جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اُس کا ایک ایک جملہ نشانی کا کام کرتا ہے۔ اور اس پر غور کرنے سے اللہ کی یاد دل میں تازہ ہو جاتی ہے۔ اس اعتبار سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’وعدۂ الست‘‘[ث‌]جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اُس وقت لیا تھا جب ابھی صرف ارواح کی تخلیق ہوئی تھی، اس کو یاد دلانے کے لیے قرآن مجید کو نازل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے ہر جملے کو آیت کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے نشانی۔ یعنی قرآن کی آیات کو اگر ہم سمجھ کر پڑھیں تو اللہ پر ایمان اور اس کی بندگی کے عہد کی یاددہانی ہو جاتی ہے۔ اور چونکہ اِس یاددہانی کی ضرورت ہر شخص کو ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس پہلو سے نہایت آسان بنا دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

’’وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ‘‘ (القمر)

یعنی ’’ہم نے قرآن کو یاددہانی کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ تو ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھانے والا؟‘‘

قرآن مجید کو سمجھنے اور اس سے نصیحت اخذ کرنے کا دوسرا درجہ ’’تدبر‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی قرآن میں غور و فکر اور سوچ بچار کرنا، اس میں سے علم و حکمت اور معرفت کے موتی چن کر نکالنا۔ آنحضورؐ نے فرمایا ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کے مطالعے سے علماء کبھی سیر نہ ہو سکیں گے۔ اور نہ ہی کثرتِ تلاوت سے اس کے لطف میں کمی واقع ہو گی اور نہ ہی اس کے (علم کے ) عجائبات کا خزانہ کبھی ختم ہو گا، اس انداز سے قرآن کا مطالعہ کرنے اور قرآنی علم کے عجائبات سے حقیقی طور پر فیض یاب ہونے کے لیے اعلیٰ درجے کی علمی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہر شخص کے لیے لازم بھی نہیں ہے لیکن ہر دَور میں کچھ افراد ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو اس انداز سے قرآن کا مطالعہ کریں، پوری زندگی قرآن پر غور و فکر میں کھپا دیں اور اس کی حکمتوں اور معارف کو عام کریں۔

چوتھا حق: اس پر عمل کیا جائے

قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اور اسے اپنی زندگی کے لیے رہنما بنائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا تبھی زیادہ مفید ہو گا جب اس پر عمل بھی کیا جائے۔ قرآن تو ﴿ھُدًی لِلنَّاس﴾ یعنی تمام لوگوں کے لیے راہنمائی ہے۔ اس میں ہمارے لیے ہر ہر معاملے کے لیے ہدایات موجود ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے اور کن کاموں سے بچنا چاہیے۔ اس میں انفرادی احکام بھی ہیں اور اجتماعی قوانین بھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی ہدایات اسی لیے ہمیں عطا کی ہیں کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کی شریعت کو نافذ نہیں کرتے تو یہ بڑی نا شکری کی بات ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے:

(وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۴۴﴾)

یعنی ’’جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے (قرآن) کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، وہی تو کافر ہیں ‘‘۔ اسی بات کو نبی اکرمﷺ نے ایک اور انداز سے واضح فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

(مَا اٰمَنَ بِالْقُرْاٰنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ )

’’جس شخص نے کسی ایسی چیز کو اپنے لیے جائز ٹھہرایا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہو تو ایسا شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا‘‘۔

یہ ہمارے لیے بڑی چونکا دینے والی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہو تو ایسے شخص کے بارے میں حضورؐ یہ فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو اس ارادے سے پڑھیں اور سمجھیں کہ ہمیں ہر صورت قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے، چاہے ہمیں کتنی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں اور کیسی ہی قربانیاں دینی پڑیں۔ اس کے بغیر قرآن پر عمل کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کی صرف تلاوت کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ان کے لیے قرآن کی تلاوت کچھ زیادہ مفید نہیں ہو گی بلکہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ اس طرح کی تلاوت ان کے حق میں مُضر ثابت ہو۔ امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قرآن کے بعض پڑھنے والے ہیں کہ جنہیں سوائے لعنت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اس لیے کہ جب وہ قرآن میں یہ پڑھتے ہیں کہ:

 ’’لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین‘‘

یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو،  اور اگر وہ خود جھوٹ بولتے ہیں تو یہ لعنت خود انہی پر ہوئی۔ اسی طرح کم تولنے، تھوڑا ناپنے، پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے اور طعنہ دینے والے قرآن حکیم کو پڑھتے ہوئے خود قرآن مجید کی دردناک سزاؤں کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

جب ہم حضورﷺ اور ان کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں قرآن رچا بسا ہوا تھا۔ ان کا ہر ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ انہوں نے قرآن کو واقعتاً اپنا راہنما بنایا ہے اور انہوں نے اپنی مرضی کو قرآن کے فیصلے کے آگے جھکا دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک صحابیؓ نے یہ سوال کیا کہ نبی اکرمﷺ کی سیرت کیسی تھی! انہوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’انؐ کی سیرت قرآن ہی تو تھی‘‘۔ یعنی حضورؐ کی زندگی اس طرح کے احکامات کے مطابق تھی،  گویا آپؐ کا ایک چلتا پھرتا قرآن تھے۔ ہمارے لیے اس میں رہنمائی یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زندگی گزاریں تو ہمارے لیے حضورﷺ کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے۔ گویا حضورؐ کے نقش قدم پر چلنا،  قرآن پر عمل کرنے کا ذریعہ ہے۔

قرآن کے کچھ احکام انفرادی زندگی سے متعلق ہیں اور بعض اجتماعی معاملات سے ہے۔ ایسے تمام معاملات جن کا تعلق کسی فرد کی ذاتی زندگی سے ہے مثلاً نماز،  روزہ،  حج،  زکوٰۃ،  حلال رزق کمانا،  دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا وغیرہ،  یہ احکام ہر مسلمان کے لیے ہر دَم لازم ہیں۔ لیکن وہ احکام جو اجتماعی معاملات سے متعلق ہیں مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا،  سودی نظام کا خاتمہ وغیرہ، ایسے احکام پر اُس وقت تک عمل نہیں کیا جا سکتا جب تک طاقت اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ چنانچہ ایسے حالات میں جبکہ مسلمانوں کے پاس اقتدار اور حکومت نہ ہو،  تمام مسلمانوں پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ غلبہ اسلام کے لیے جد و جہد کریں تاکہ قرآن کے تمام احکام پر عمل کرنا ممکن ہو جائے۔ اس لیے کہ قرآن کے بعض احکام پر عمل کرنا اور بعض کی خلاف ورزی کرنا اللہ کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ یہودیوں میں گمراہی پیدا ہو گئی تھی کہ وہ تورات کی بعض ہدایات پر عمل کرتے تھے اور بعض احکام کو توڑ ڈالتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو۔ تو تم میں سے جو کوئی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُسے دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں دھکیل دیا جائے ‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو ترک کر دیا ہے۔ ہم قرآن حکیم کے بعض احکامات پر تو عمل کرتے ہیں لیکن اکثر احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ قرآن سے ہماری لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ قرآن میں ہمیں کیا ہدایات اور احکامات دیئے گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے آج سے نصف صدی قبل اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

پانچواں حق : قرآن کو دوسروں تک پہنچایا جائے

قرآن حکیم کا پانچواں اور آخری حق یہ ہے کہ اسے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ یعنی اس کے پڑھنے ،  سمجھنے اور اس پر عمل کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام لوگوں تک اس کے پیغامِ ابدی کو پہنچائیں۔ اس لیے کہ اگر ہم مسلمان اس قرآن کو پوری دنیا تک نہیں پہنچائیں گے تو اور کون پہنچائے گا؟ حضورﷺ تو اللہ کے آخری نبی تھے۔ اب قیامت تک کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ لہذا جن لوگوں تک اللہ کا پیغام ابھی تک نہیں پہنچا ان تک اس پیغام کو پہچانے کی ذمہ داری اب حضورﷺ کی امت پر ہے۔ حضور اکرمﷺ نے مسلسل ۲۳ سال اسی قرآن کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا۔ اور یاد رکھیے کہ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ بہت پُر مشقت اور محنت طلب کام تھا۔ اس راہ میں آپ کو ہر قسم کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن آپؐ نے ہر مصیبت کو پورے صبر و تحمل سے برداشت کیا اور اپنے مشن کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ ۲۳ سال کی بھرپور جد و جہد کے نتیجے میں آپؐ نے عرب کے پورے خطے میں نہ صرف یہ کہ اللہ کے پیغام اور اس کے آخری ہدایت نامے کو بھرپور انداز میں پہنچا دیا بلکہ اس ہدایت کی بنیاد پر ایک نظامِ حکومت قائم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی صحیح ترین راستہ ہے اور اللہ کا دین دنیا کے تمام نظاموں سے بہتر ہے۔ پھر اپنے آخری خطبہ حج کے موقع پر پہلے تو آپؐ نے تمام صحابہؓ سے یہ گواہی لی کہ کیا میں نے اللہ کا دین اور اس کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ اور جب تمام صحابہؓ نے بلند آواز سے یہ کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے تب آپؐ نے فرمایا: ’’اب جو لوگ یہاں موجود ہیں اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے دین اور اس کے پیغام کو اُن تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ‘‘۔ یعنی حضورﷺ نے اپنے مشن کو پورا فرمانے کے بعد اب قیامت تک آنے والی بقیہ پوری نوع انسانی تک اللہ کے کلام کو پہچانے کی ذمہ داری اُمت کے کندھوں پر ڈال دی۔ گویا ؎

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!

مسلمانوں کی اسی ذمہ داری کو حضورﷺ نے ایک اور انداز سے واضح فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

بَلِّغُوا عَنِّی وَ لَوْ ایَٰۃٌ ’’

پہنچاؤ میری طرف سے خواہ ایک ہی آیت‘‘۔ یعنی اگر کسی شخص نے ابھی صرف ایک ہی آیت سیکھی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسی ایک آیت کو دوسروں تک پہنچائے اور اس طرح تبلیغ قرآن کے نبوی مشن میں اپنا حصہ ادا کرے۔ معلوم ہوا کہ قرآن کی تبلیغ کرنا ہر مسلمان کے ذمے ہے۔ جس نے جتنا قرآن پڑھا اور سیکھا ہو،  وہ اُس کی تبلیغ کرے اور جتنا جتنا سیکھتا جائے اتنا ہی دوسروں تک پہنچاتا جائے۔ دیکھیے کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ قرآن کا پڑھنا اور پڑھانا کوئی ہلکے درجے کا کام ہے۔

حضورﷺ کا یہ فرمان تو بہت مشہور ہے کہ:

’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَ عَلَّمَہٗ‘‘

یعنی ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے ‘‘۔ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے بہترین کیرئیر کا انتخاب کرے، کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو کوئی انجینئر بننے کے لیے محنت کرتا ہے تاکہ دنیا میں عزت سے زندگی بسر کرے، لیکن آپ غور کریں کہ ہمارے نبیؐ نے ہمارے لیے جس بہترین کیرئیر کا انتخاب کیا ہے وہ نہ صرف دنیا میں عزت و وقار کا باعث ہے بلکہ آخرت کی کامیابی کا ضامن بھی ہے۔ تو ہم میں سے کون ہے جو اس کیرئیر کو اپناتے ہوئے قرآن کے پڑھنے پڑھانے ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے!

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مجید کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

٭٭٭

ماخذ:

https://tanzeemdigitallibrary.com/Book/Quran_e_Hakeem_Aur_Hamari_Zimmadarian/11/26/93/25558

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

[أ‌] (۱): صفت ایمان مجمل کے الفاظ:

اٰمنت باللّٰہ کما ہو بآسماۂ و صفاتہ و قبلت جمیع احکامہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب

کے الفاظ اس کی تشریح کر رہے ہیں۔

[ب‌] ایک حدیث میں آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو قرآن ایسی دولت عطا ہوئی اور پھر بھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی کو اس سے بڑھ کر نعمت ملی اس نے قرآن کی قدر و منزلت کو نہیں پہچانا۔

[ت‌]  جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: ﴿ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۷۲﴾﴾۔ (صٓ) ’’ میں مٹی سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ ‘‘

[ث‌] اس عہد کا ذکر سورۃ الاعراف(آیت۱۷۲)میں ہے۔اسرار

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل