FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سمندر اور سِلوٹیں

(پہلا مجموعۂ کلام)

 

اطہر شکیلؔ نگینوی

غضب کی سِلوٹیں پڑتی ہیں سطحِ آب پر اطہرؔ

سمندر لمحہ لمحہ کرب کے عالم میں رہتا ہے

 

 

ماں کی تصویر نگاہوں میں ابھر آتی ہے

جب بھی تاخیر سے ہم گھر میں قدم رکھتے ہیں

 

سپردِ خاک تو کر آئے ماں کو تم اطہرؔ

غموں کی دھوپ میں سایہ کہاں سے پاؤ گے

 

سر سے اک دن ماں کا سایہ چھین لے گا آسماں

کیا خبر تھی ہم بھی اطہرؔ بے اماں ہو جائیں گے

 

چاند گہتا ہے مدت میں اک آدھ بار

گھر کے آنگن میں ہر روز گہتی ہے ماں

 

 

انتساب

 

اللہ کی اُس نعمتِ عظمیٰ کے نام جو ماں کی شکل میں مجھے بھی عطا ہوئی تھی، لیکن ۱۰؍جنوری ۱۹۹۸ ء صبح ساڑھے تین بجے موت کے بے رحم ہاتھوں نے جسے مجھ سے چھین لیا۔ {اِنّا للّہِ و انّا اِلیہِ رَا جعون }

 

 

اطہر شکیلؔ نگینوی

 

 

 

 

 

 

پروفیسر محمد عرفان

 

بڑے شاعر کی نشانی

 

مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ "سمندر اور سِلوٹیں ” کے عنوان والی غزلوں کا دوسرا ایڈیشن جلدی منظرِ عام پر آ رہا ہے ۔ یہ جناب اطہر شکیلؔ اور ان کی شاعری کے مقبولِ عام ہونے کی زندہ دلیل ہے ۔ اور اس حقیقت کی ضمانت ہے کہ اردو عوام کی نہ صرف زبان ہی ہے بلکہ عوام کے دلوں کی دھڑکن بھی ہے اور اہلِ اردو، غزل کی زبان اور غزل کے فنکاروں کو اپنی آنکھوں میں جگہ دے رہے ہیں ۔

"سمندر اور سِلوٹیں "والی غزلوں میں عوامی جذبات کے علاوہ عالمی اور معلوماتی اشعار کی موجودگی اطہر شکیلؔ کے بڑے شاعر ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے مثلاً ذیل کے شعر میں لفظ "تغیّر”یعنی زوال پذیر تبدیلی کی فکر مندی اس کا بھر پور ثبوت ہے ۔

بے شک یہ کائنات تغیّر پذیر ہے

منظر بدل رہے ہیں نگاہوں کے سامنے

کچھ لوگ تغیّر کے معنی اچھی تبدیلی کے لیتے ہیں جو کہ غلط ہے ۔ اطہر شکیلؔ کے یہاں اس کے صحیح معنیٰ نظر آتے ہیں۔جس سے ان کی لغات شناسی کا بھی پتا چلتا ہے ۔ جو ایک بڑے شاعر کی نشانی ہے ۔

پروفیسر محمد عرفانؔ مصنف طرز غالب

۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۲ ء

 

 

 

شجاع الدین قمرؔؔ

 

نژادِ نو کا شاعر

 

ضلع بجنور کے نژاد نو کے شعراء میں جہاں مجھے شکیل جمالیؔ، طیب آزادؔ اور شناورؔ کرتپوری پسند ہیں ۔ وہاں ایک نام اطہر شکیلؔ کا بھی ہے جو ایک اچھا اور سچا شاعر کہلانے کا مستحق ہے ۔ یہ جوان و رعنا، خوش فکر و خوش آہنگ شاعر اپنی تخلیقات سے شعر و سخن کی دنیا میں غزل کے وقار میں بھر پور انداز میں اضافہ کر رہا ہے ۔اس کے اشعار دلوں کو چھو لیتے ہیں ۔ یہ شاعر اس دورِ پر آشوب میں کھری اور سچی بات کہنے سے نہیں چوکتا ۔ ضلع میں اور ضلع کے باہر منعقد ہونے والے مشاعروں میں شکیلؔؔ میاں کو میں نے کئی بار سنا۔ ان کی شاعری ایک طرف سماعتوں کے اُفق پر چراغ روشن کرتی ہے تو دوسری طرف لفظ لفظ میں لَو دیتی ہے ۔ موجودہ دور کی شاعری کا اگر جائزہ لیا جائے تو انتخاب میں اطہر شکیلؔ کا نام نا گزیر ٹھہرے گا۔

جہاں اطہر شکیلؔ کا کلام خوبصورت ہے وہاں اس کا ترنم سونے پر سہاگے کا کام کرتا ہے ۔ ان کی غزلیات میں روایت اور جدّت کا ایک انوکھا رابطہ قائم ہے ۔ ان کے کلام میں ایسے ایسے اشعار ملتے ہیں جو ماضی و حال بلکہ مستقبل کو آئینہ دکھا تے ہیں چند مثالیں پیش کر رہا ہوں ۔

یوں محبت سے اس کو رخصت کر

جانے والا تجھے بھلا نہ سکے

 

دل کی باتیں کہہ کر تم سے غم ہلکا کر لیتے ہیں

ورنہ کس نے کس کی یارو!بگڑی بات سدھاری ہے

 

طے ہو گا کس طرح یہ مسافت کا مرحلہ

انجان ہمسفر ہیں، تو رستے پرائے ہیں

 

دشمنوں کو گلے لگا کے شکیلؔ

ہم نے خود پر ہی مہربانی کی

 

رہ نہ جاؤ کہیں دنیا میں اکیلے اک دن

اپنے معیار پہ ہر شخص کو پر کھا نہ کرو

 

بدلتے وقت میں ملت پناہیں کیسے پائے گی

نہ اِس کی سوچ آفاقی، نہ اِس کی آنکھ آفاقی

 

یہ شاعر مبارک باد کا مستحق ہے کہ کم عمری میں شاعری کے کمال کا مرحلہ طے کر رہا ہے اور اپنا مجموعۂ کلام منظرِ عام پر لانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اللہ رب العزت اسے کامیابی عطا فرمائے ۔(آمین)

 

شجاع الدین قمرؔسیوہاروی         (ایم۔اے ۔بی۔ایڈ)

۲۵؍اپریل ۱۹۹۸ء

 

 

اپنی بات

 

اردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں مجھے سب سے زیادہ غزل پسند ہے، غزل روایتی ہو یا جدید، سیاسی ہو کہ جمالیاتی غزل سے مجھے عشق ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ فطری طور پر غزل کا شیدائی ہونے کے باوجود میں اچھی اور سچّی غزل کہنے میں کس حد تک کامیاب ہوا یہ فیصلہ قارئین فرمائیں گے، میں نے جو کچھ کہا اسے خواص و عوام کی عدالت میں پیش کر دیا ہے ۔

جہاں تک کتاب چھپوانے کا معاملہ ہے تو یہ میرے ایک محسن ڈاکٹروسیمؔ اقبال کی دین ہے جن کو حال ہی میں پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایوارڈ ہوئی ہے، اُن کو بلا مبالغہ مجھ سے بے پناہ محبت ہے، ان کے مسلسل اصرار پرہی میں نے یہ قدم اٹھایا۔اوّل اوّل تو میں اُن سے وعدے کرتا رہا اور ٹالتا رہا، بالآخر مجھے اُن کی بے انتہا محبت اور خلوص کے سامنے مجبور ہو نا پڑا، اب مسئلہ یہ تھا کہ کچھ اساتذہ کرام کی نظر مسودہ پر پڑنی چاہیئے اور اُن کے تاثرات شامل کتاب ہونے چاہئیں جس سے مجھے اندازہ ہو سکے کہ میں نے جو کوشش کی ہے کس حد تک مناسب ہے ۔بہر حال میری نظر نشترؔ خانقاہی پر گئی جن کا غائبانہ تعارف تو مجھے عرصہ دراز سے تھا لیکن ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا، جنوری۱۹۹۸ ء کو میں اپنے مسودے کے ساتھ اُن سے ملا، نشترؔ خانقاہی نے مجھے مفید مشوروں اور اپنے تاثرات سے نوازا، جس کے لئے میں ان کا شکرگزار ہوں ۔ دوسری شخصیت ہلالؔ سیوہاروی کی ہے جن کے پاس فروری۱۹۹۸ ء کو جانا ہوا، انہوں نے بھی میری حوصلہ افزائی کی اور کچھ مشورے بھی دیئے ۔اِن دونوں شخصیات کے مشوروں کو پوری طرح قبول کرنے سے میں قاصر رہا جس کے لئے مجھے شرمندگی ہے ۔ایک اور شخصیت حال ہی میں جن کی دو کتابوں کا اجرا ہوا، نواب شجاع الدین قمرؔسیوہاروی کی ہے انھوں نے اپنی زندگی ادیبوں اور شاعروں کے لئے وقف کر دی ۔اُن کا خلوص دیکھ کر آدمی حیران رہ جا تا ہے ۔کہ ایسے دور میں جب اردو کے شعرا و ادیب اُردو کے نام پر لاکھوں رو پے کما رہے ہیں لیکن نہ تو اردو کو فروغ دے رہے ہیں، اور نہ اردو والوں کو۔قمرؔ سیوہاروی کا سارا گھر ادیبوں، شاعروں کی حوصلہ افزائی و پذیرائی میں مصروف ہے ۔ میرے جیسے طالبِ علم کو بھی انھوں نے اپنی دعاؤں سے نوازا، میں اُن کا بھی ممنون ہوں ۔

آخر میں ایک مطلع اور دو اشعار کے ساتھ اپنی بات کو ختم کر کے آپ سے اجازت چاہوں گا۔

زندگانی ہے تری، آسان یا دشوار کر

شاخِ گُل اس کو بنا لے یا اسے تلوار کر

٭

زمانہ کوئی بھی، کیسا بھی ہو ادب کے طفیل

رہیں گے ہم بھی غزل تیری آبرو ہو کر

٭

جو کہا ہم نے وہ محسوس کیا ہے اطہرؔ

ہم نہیں جانتے اشعار میں ندرت کیا ہے

 

اطہر شکیلؔ نگینوی

۱۴؍اپریل۱۹۹۸ ء

 

 

نشترؔ خانقاہی

 

اطہر شکیلؔ کی شاعری اور میرا تأثّر

 

جب کوئی معاشرہ زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ردّ و قبول کے عمل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہوئے ردّ عمل کے اثرسے گزر رہا ہوتا ہے تو اس وقت ایسا نہیں ہوتا کہ پرانی چیزوں سے آپ یکسر اپنا تعلق قطع کر لیں اور نئی چیزوں کو ایک دم اور بِنا پس و پیش اپنا لیں ۔ بہت لمبے عرصے تک ایک ایسا عبوری دور چلتا ہے جس میں آدمی پرانے روّیوں کو پوری طرح چھوڑ نہیں پا تا اور نئی ترغیبات کی طرف دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے ۔ذہنی تبدیلی کی رفتار سماجی زندگی میں تبدیلی کی رفتار سے زیادہ سست ہو تی ہے ۔ آدمی جب اپنی روزمرّہ کی سماجی زندگی میں واضح تغیّرات قبول کر چکا ہوتا ہے تب بھی وہ ذہنی و نفسیاتی طور پر قدیم رویّوں سے اپنا رشتہ ختم نہیں کر پاتا۔تبدّل و عدم تبدّل کی یہ کشمکش یا ردّ و قبول کا یہ سلسلہ ہم شروع سے اب تک ہر عہد کے تخلیقی ادب میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔مثال کے طور پر جب ہم اپنے عہد کے ترقی پسندادب کا مطالعہ کر رہے ہو تے ہیں تو ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ لفظیات، پیرایۂ اظہار اور موضوعات میں نیا پن لا نے کی دانستہ کوششوں کے ساتھ قدیم رنگِ سخن کی جھلکیاں بھی اکثر شعراء کے  یہاں موجود ہیں اسی طرح جب ہم جدید ادب کی تخلیقات کا مطالعہ کر رہے ۔ہوتے ہیں تب ہم پھر اس احساس سے گزرنے لگتے ہیں کہ لفظیات، پیرایۂ، اظہار، اور موضوعات میں بنیادی تبدیلیاں آ جانے کے باوجود قدیم روّیوں سے ہمارا رشتہ منقطع نہیں ہوا ہے ۔کسی جدید یا ترقی پسند شاعر کی پا نچ سات شعروں کی ایک غزل لیں تو با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ تین چارا شعار اگر جدید رویوّں کی نشان دہی کر رہے ہوں گے تو دو تین شعر روایتی ہوں گے، میں اس کو عیب نہیں مانتا، یہ نا گزیر ہے، میرا زور اس بات پر رہتا ہے کہ روایتی اور قدیم طرزِ اظہار کے نمائندہ اشعار بھی سلیقے سے کہے گئے ہوں اور ان کا اظہارو بیان ترفّع کا احساس پیدا کرتا  ہو، جمود کا نہیں ۔

میں نے یہ تمہید اطہر شکیلؔ کے کلام پر نظر ڈالنے کے بعد اس لئے باندھی تاکہ میں ان کے قارئین کو اس صورت حال سے آگاہ کر سکوں کہ قدیم و جدید رویّوں کی آمیزش لمبے عرصے تک چلتی رہتی ہے، ہمیں کسی عہد کے کسی نو آمدہ شاعرسے یہ توقع ہر گز نہیں کرنی چاہیئے کہ ہمیں اس کے یہاں اس عبوری دور کے اثرات دیکھنے کو نہیں ملیں گے جن کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا ہے، اطہر شکیلؔ کے یہاں قدیم لب و لہجہ بھی ہے اور جدید اسلوب بھی، وہ ابھی ردّ و قبول کے عمل سے گذر رہے ہیں ۔ نو آمدہ شعراء میں تو یہ صورت عموماً پائی جاتی ہے کہ کبھی کبھی تو بعض پختہ کار بھی اپنے آپ کو اس رجحان سے نہیں بچا پاتے ۔ اچھی بات یہ کہ اطہر شکیلؔ اپنے جدید اور روایتی دونوں ہی رویّوں میں اظہار کے بہتر طریقے کو بنائے رکھتے ہیں جس سے شعر اچھے شعر کے مرتبہ کو پہنچتا ہے ۔یہاں میں یہ بھی واضح کر دوں کہ روایتی شعر اگر اپنے اظہار میں چست، پُراثر اور خیال انگیز ہے تو بیڈھنگے پن سے کہے گئے جدید شعر کے مقابلے میں کہیں اچھا ہو گا۔ میں یہ بات مانتا ہوں اور اس پر اصرار بھی کرتا ہوں ۔ اپنے ان مفروضات کے حوالے سے اطہر شکیلؔ کی شاعری کا پس منظر ابھارتے ہوئے اب میں نمونے کے طور پر چند اشعار دینا چاہوں گا تا کہ اپنی بات کا جواز تلاش کر سکوں ۔ انھوں نے اپنے اشعار پر خود ہی ایک طرح کا شعری تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ۔

جو کہا ہم نے وہ محسوس کیا ہے اطہرؔ

ہم نہیں جانتے اشعار میں ندرت کیا ہے

٭

بات صاف ہو گئی کہ اطہر شکیلؔ اپنے اب تک کے تخلیقی سفر میں ندرت اور قدامت یا قدیم اور جدید جیسے مفروضوں کے چکر میں پڑنے کو تیار نہیں ہیں ۔وہ ذاتی سطح پر جو محسوس کرتے ہیں، اپنی طرح سے اس کا اظہار کر دیتے ہیں وہ ندرت کو اوڑھتے نہیں، فطری طور پر اس کی طرف بڑھتے جانے کو ترجیح دیتے ہیں، انھوں نے کہا بھی ہے ۔

بے شک یہ کائنات تغیر پذیر ہے

منظر بدل رہے ہیں نگاہوں کے سامنے

 

اطہر شکیلؔ کا یہ شعر بالکل سچّا، حسبِ حال اور ان کے تخلیقی سفر کی صحیح طور پر نمائندگی کرنے والا شعر ہے ۔ وہ کھلی آنکھوں سے اپنے عہد کو دیکھ رہے ہیں، اپنی اور اپنے عہد کے دوسرے انسانوں کی زندگی کو دیکھ رہے ہیں، دنیا کو دیکھ رہے ہیں وہ محسوس کر رہے ہیں، ان کی نگاہوں کے سامنے سے ایک کے بعد ایک منظر بدلتا جا رہا ہے ۔تبدیلیوں کی رفتار تیز ہے وہ ان تبدیلیوں کو اپنے ذہن کی گرفت میں لئے جا رہے ہیں ۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ منظر جس تیزی سے بدلتا ہے، آدمی اُس تیزی سے نہیں بدلتا ہے اس لئے وہ اپنے اظہارات کو جو لباس پہناتے ہیں وہ کبھی تبدیلیوں کے عین مطابق ہوتا ہے اور کبھی عام روایت کے مطابق لیکن عام روایت کے مطابق بھی وہ اپنے اظہار کو چست و درست بنائے رکھنے کا پورا دھیان رکھتے ہیں یہی اُن کی خصوصیت ہے ۔چند شعر نمونے کے اور دیکھئے ۔

کہاں پر آ گئی حوّا کی بیٹی

نہ وہ آنچل نہ وہ زیور رہا ہے

٭

یہ تماشا زمین پر کیوں ہے ؟

خیر کم، بے حساب شر کیوں ہے ؟

 

قدم پلکوں کی حد سے آنسؤو! باہر نہ رکھ دینا

کہ مر جائیں گے ہم ان کو اگر رسوا کیا تم نے

٭

پھول کی خستگی کو دیکھا تھا

عمر بھر ہونٹ مسکرا نہ سکے

اوپر کے چاروں اشعار اظہارو بیان کے نقطۂ نظر سے چست اوردرست ہیں بلیغ ہیں ۔لیکن میں انھیں اس فہرست میں رکھنا پسند کروں گاجو میں نے عبوری دور کے ردّ و قبول کی بحث میں تبدیلیوں کی طرف بڑھنے، لیکن اپنا ذہنی ناطہ روایتی پیرایۂ اظہار کے ساتھ جوڑے رکھنے کے عام رویّے کو سامنے رکھ کر مرتب کی تھی پھر بھی یہ اشعار بھونڈے ڈھنگ سے کہے گئے جدید لب و لہجہ کے اعتبار سے بہتر ہیں ۔اب ان کے مقابلے میں کچھ ایسے اشعار بھی دیکھیں جو بدلے ہوئے رنگ و آہنگ میں سامنے آتے ہیں اور جو اس عہد کی بہترین نمائندگی کر رہے ہیں ۔

رہ نہ جاؤ کہیں دنیا میں اکیلے اک دن

اپنے معیار پہ ہر شخص کو پر کھا نہ کرو

٭

پہلے ہوتا تھا دوستوں سے گلہ

اب کسی سے گلہ نہیں ہو تا

٭

کس کو خبر ہے کون کرے کیا معاملہ

رخصت کے وقت اپنا کسی کو پتا نہ دے

٭

دوستی اس نے دفعتہً کی تھی

بے وفائی بھی نا گہانی کی

٭

کام وہ بھی جو طبیعت پہ گراں ہے میری

میرے حالات یہ کہتے ہیں کہ کرنا ہو گا

٭

اوپر کے سبھی اشعار پڑھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ جیسے ہم ایک نئی اور بالکل بدلی ہو ئی دنیا میں سانس لے رہے ہیں ۔یہ وہ دنیا نہیں ہے جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں، یا جو ہمیں اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملی تھی بلکہ جہاں اب اعلیٰ اخلاقی معیار پر لوگوں کو پرکھ کر ان سے تعلق جوڑنے کا مطلب اکیلا رہ جانا ہو گیا ہے ۔وہ معیار اب نہیں رہے ۔انھیں تلاش کرنے کی کوشش فضول ہے ۔اسی طرح آج کی دنیا کے لوگ، لوگ نہیں بلکہ دوست بھی دوستوں کی شکایت پر شرمندہ ہونا چھوڑ چکے ہیں ۔پہلے احباب سے گلہ کرنے کا کچھ نہ کچھ مفہوم تھا۔اب یہ مفہوم نہیں رہا ہے ۔ بے اعتباری بڑھ گئی ہے وشواس گھات بڑھ گیا ہے ۔آج کا آدمی اب یہ سوچتا ہے کہ وداع کے وقت اب کسی شخص کو بھی اپنا پتا دینا خطرہ سے خالی نہیں ۔ کیا خبر کون کیا معاملہ کرے ۔

یہ اشعار ایک بدلی ہوئی دنیا کا احساس دلاتے ہیں ۔ایک ایسی دنیا کا جہاں لوگ تعلق بھی فوری ردّ عمل کے نتیجہ میں جوڑتے ہیں اور ترکِ تعلق بھی نا گہانی طور پر کر لیتے ہیں ۔آج ایک ایسی دنیا کا سامنا ہم کر رہے ہیں جس میں استقلال نہیں ہے پائیداری نہیں ہے ۔یہاں اب آدمی ایسے کام کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے جو اصول اور ضمیر کے خلاف ہیں، اطہر شکیلؔ کے ان اشعار میں آج کی بدلی ہوئی دنیا کی وہ تصویر یں اجاگر ہوتی ہیں، جو احساس دلاتی ہیں کہ اس دنیا کا وہ روپ اب نہیں رہا ہے جو کبھی تھا۔

اطہر شکیلؔ کی شاعری، فکر، جذبہ، اور احساس تینوں کا توازن لے کر سا منے آتی ہے ۔ اسے میں ان کی خو بی مانتا ہوں ۔مجھے امید ہے کہ ان کا یہ پہلا مجموعۂ کلام اردو قارئین کے لئے ایک اچھا نذرانہ ثابت ہو گا۔

آخر میں اطہر شکیلؔ کے کچھ اور اچھے اشعار کے ساتھ آپ کو چھوڑ تے ہوئے رخصت لیتا ہوں ۔

اپنی زمیں کو جبرو تشدّد سے پاک کر

سفّاک دِل کو تاب و تواں اے خدا نہ دے

٭

دنیا کا طور کیا ہے سمجھ لو اسے شکیلؔ

میں جس کو راہ دوں، وہ مجھے راستہ نہ دے

٭

زمانہ کوئی بھی، کیسا بھی ہو، ادب کے طفیل

رہیں گے ہم بھی غزل تیری آبرو ہو کر

 

نشترؔ خانقاہی

جا ٹان بجنور

۱۵؍مارچ۱۹۹۸ ء

 

 

ہلالؔ سیوہاروی

 

تعارفِ شاعر

 

یوں تو میں طنز  و مزاح کا شاعر ہوں، غزل ایک الگ صنفِ شاعری ہے، مگر ہر طنز و مزاح کے شاعر کے حالاتِ زندگی جاننے کا کسی ملاقات میں جب اتفاق ہوا تو پتا چلا کہ وہ بھی مجھ جیسے ہی تھے ۔۱۹۵۷ ء تک میں نے بھی غزل گوئی کی اور۱۹۶۰ ء میں میرا مجموعۂ کلام "فریبِ سحر”جو شائع ہوا اس میں بیشتر غزلیں ہی ہیں ۔ بہرحال قدرت نے جو تھوڑا بہت غزل سننے اور پڑھنے یا سمجھنے کا شعور عطا کیا ہے اسی کے مطابق میں نے اطہر شکیلؔ کی غزلیات کو پڑھا اور سمجھا ہے ۔

ان کے کلام کی بہت سی خوبیوں کا تذکرہ اگر نہ بھی کیا جائے تو یہ کہنا ہی کیا کم ہو گا کہ ان کے متعدد اشعار سے ان کی انفرادیت خود ابھر کرسامنے آ جاتی ہے ۔ میرے حافظے میں مختلف شعراء اُردو کے ہزاروں اشعار محفوظ ہیں ان کے پیشِ نظر جب اطہر شکیلؔ کے چند اشعار پر غور کیا تو وہ انہیں منفرد بھی کر دیتے ہیں اور نمایاں بھی ۔ مثلاً نئی نسل کے لئے بہت اختصارسے کام لیتے ہوئے اک طنز کر گئے اور شمع رہگزر بھی سامنے رکھ دی۔

چھوڑ کر قصۂ اسلاف یہ بہتر ہے کہ اب

اپنے کردار سے تاریخ بنائی جائے

ساتھ ہی وہ ذہنی کشمکش کا شکار بھی ہیں اور اس الجھن کو یوں بیان کر تے ہیں ۔

طے ہو گاکس طرح یہ مسافت کا مر حلہ

کچھ ہمسفر ملے ہیں، تو رستے پرائے ہیں

٭

میری منزل نہ کہیں تھی نہ کہیں میں ٹھہرا

ہم سفر ہار گئے ہیں مِرا پیچھا کر کے

٭

خیر بات غزل کی ہو رہی تھی، آج کی غزل جس روش پر چل پڑی ہے اُس روش کا یہ شعر اطہر شکیلؔ نے کیا خوب کہا ہے ۔ترکِ تعلق اور تعلق کا کیا پہلو نکالا ہے ۔

٭

رابطہ مجھ سے، توڑنے والا

میرے سکھ دکھ سے باخبر کیوں ہے

٭

تعلقات پر ہی ایک اور اچھا شعر کہہ گئے دورِ حاضر کی دوستی کے سینے میں جس شعر نے نیزہ مار نے کا کام کیا ہے ۔

جن دوستوں نے زخم دئے، ان سے پوچھئے

کیوں دشمنوں سے ہاتھ ملانے پڑے مجھے

یہاں میں دو شعر اور نقل کروں گا جو قافیہ نہ ملنے کے سبب غزل میں تھوڑی سی الفاظ کی ترتیب بدل کر شامل کئے گئے ہیں ۔

یہ خبر کب تھی کہ خود اپنے ہی گھرسے اک دن

ایک آنسو کی طرح مجھ کو نکلنا ہو گا

٭

عشق سورج ہے اِسے چاند سمجھنے والو!

آزمائش کی کڑی دھوپ میں جلنا ہو گا

٭

آخر میں ایک شعر اور ملاحظہ کر لیں اور یہ شعر جس بچے کی ماں نہ ہو بس اس بچے کو سنا کر دیکھ لیں ۔

٭

ماں کی تصویر نگاہوں میں اُبھر آتی ہے

جب بھی تا خیر سے ہم گھر میں قدم رکھتے ہیں

٭

آخر میں ایسے تین شعر جو غزل کی طوالت کے سبب شاملِ غزل نہیں کئے گئے، ملاحظہ کریں ۔

یوں بے صدا ہوا ہے یہ رقصِ حیات پھر

جیسے کسی کے پاؤں سے گھنگرو نکل پڑے

٭

میراؔ نے جب پہاڑ پہ چھیڑی ہے راگنی

جنگل کے کونے کونے سے سادھو نکل پڑے

٭

میں نے یہ سوچ کر بھی ہٹائی نہیں نظر

شیشے کے اس فریم سے کب تو نکل پڑے

٭

مجھے اُمید ہے کہ اطہر شکیلؔ کے مجموعۂ کلام کی پذیرائی صاحبِ نظر حضرات ضرور فر مائیں گے ۔

ہلالؔ سیو ہاروی

۲۲؍فروری۱۹۹۸ ء

 

 

ستارہ نورؔ

 

اُن کی شاعری خدا کی سوغات

 

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

 

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شاعر ایک شعر کہتا ہے لیکن اس کی نگاہ میں کوئی منفرد شخصیت نہیں ہوتی بلکہ اس کا وہ شعر نوعِ انسانی پر کہا گیا ہوتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی ایسابھی ہو جاتا ہے کہ شاعر کا شعر کسی شخصِ منفرد کی زندگی کی عکاسی کر جا تا ہے ۔

میری نگاہ میں علامہ کا یہ شعر اطہر شکیلؔ کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے ۔ اطہر شکیلؔ وہ بچہ ہے جس نے گڈولنے کے بغیر چلنا سیکھا ہے ۔جہاں تک میرا خیال ہے اطہر شکیلؔ نے کسی سے بھی تلمّذ حاصل نہیں کیا ۔ اور شاعری ان کو خدا کی طرف سے ودیعت ہے ۔وہ نہ شاعر بنے ہیں اور نہ ہی بنائے گئے ہیں بلکہ وہ شاعر پیدا ہوئے ہیں ۔

میری اور اطہر شکیلؔ کی ملاقات ایکT.V.پروگرام میں ہوئی۔ یوں تو ہم دونوں ہی نگینہ کے باشندے ہیں لیکن کبھی شعر و شاعری کے تعلق سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ میں عام طور پر نور صاحب کے انتقال کے بعد مشاعروں میں نہیں جاتی اور نگینہ کے مشاعروں میں تو قطعی نہیں اسلئے کبھی شکیلؔ کا کلام سننے کا موقع نہیں ملا۔

وہ سنیچر کی رات تھی کو ئی رات کے دس بجے ہوں گے ۔ میں آرام کرسی پر آدھی لیٹی ہوئیE.T.V.اردو سے نشر ہوا مشاعرہ سن رہی تھی ایک لڑکا سانولی سلونی سی رنگت والا خم دار بال گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں لئے بڑی ہی خوش الحانی سے غزل پڑھ رہا تھامیں آنکھیں بند کئے اس کے لحنِ داؤدی سے محظوظ ہو رہی تھی اس نے جب یہ شعر پڑھا تو میں چونک گئی۔

خود کو اونچا اُٹھانا ہے تجھ کو اگر

سب کو نیچا دکھانے کی ضد چھوڑ دے

میں ایک جھٹکے کے ساتھ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔سوچنے لگی یا اللہ یہ عمر اور یہ فلسفہ؟اس میں تو "عیسیٰ” اور "گوتم” کا رنگ جھلکتا ہے ۔ غزل ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ تھے جناب اطہر شکیلؔ نگینوی ضلع بجنور کے نو عمر ابھرتے شاعر۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اگر کوئی قابل باغباں مل جائے تو نگینہ کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس سے بھی یقیناً کوئی پطرسؔ بخاری، ہلالؔ سیو ہاروی، نورؔ بجنوری اور نشترؔ خانقاہی جیسے انمول نگینے پیدا ہو سکتے ہیں ۔

آج اطہر شکیلؔ مجھے اپنا مجموعۂ کلام "سمندر اور سلوٹیں ” دے کر گئے ہیں تاکہ میں اس بارے میں کچھ لکھ سکوں لیکن میں تو ایک بہت ہی غیر معروف ادب کی خادمہ ہوں، نہ معلوم کس جذبے کے تحت شکیل میاں نے مجھ سے فرمائش کی ہے ۔ بہر حال میں انہیں نا امید نہیں کروں گی اور کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں گی۔

اطہر شکیلؔ کس کے چشم و چراغ ہیں اور کیا ان کی شخصیت ہے میں ان گہرائیوں میں نہیں جانا چاہتی، میری اور اطہر شکیلؔ کی بہت کم ملاقات رہی ہے، پھر بھی میں نے جہاں تک سمجھا ہے اور ان کا مجموعۂ کلام پڑھا ہے یہی کہہ سکتی ہوں کہ اچھی کوشش ہے، لیکن میں یہ بھی بتانا چاہوں گی کہ بغیر لگام کے گھوڑے اکثر”بے لگام”ہو کر لیک سے ہٹ جاتے ہیں اس لئے ہر فنکار کو شروعاتی دور میں ایک استاد ضروری ہے ۔ادب کے دائرے میں ہر ادیب ایک طفل مکتب ہے خواہ وہ نثرنگار ہو یا شاعر، طنز و مزاح کا عنصر اس پر غالب ہو یا وہ نقاد ہو ہر فنکار کو سجا سنوار کر جو پیش کرتا ہے اسے استاد کہتے ہیں ۔یہ حقیقت صرف شاعروں اور ادیبوں پر ہی نافذ نہیں ہوتی بلکہ اس زمرے میں تمام ہی فنکار آتے ہیں خواہ وہ رقص وموسیقی ہو یا کُشتی و اداکاری سب ہی کے لئے ایک استاد ضروری ہے ۔

اطہر شکیلؔ کی شاعری کا سفر ابھی شروعاتی دور میں ہی ہے، لیکن ابھی سے ان کا کوئی کوئی شعر تو بلندیوں کو چھو جا تا ہے ۔مثلاً یہ شعر۔

خواہشیں، امتحاں، کشش، کوشش

یوں بسر ہم نے زندگانی کی

٭

کتنی سادگی اور آسانی سے زندگی کی حقیقت کو اُجاگر کیا ہے ۔یقیناً زندگی امتحان بھی لیتی ہے، آزماتی بھی ہے، بہت پر کشش ہے، لیکن اسے کامیاب بنانے کے لیے کوشش شرط ہے، اور یہی کامیاب زندگی کی حقیقت ہے ۔ ایک اور بہت اچھا شعر ہے ۔

اُس گھڑی ملحد تجھے بھی یاد آتا ہے خدا

جب بھنور میں ناؤ ہو اور دور تک ساحل نہ ہو

ہندوستان کے بہت سے جوانوں کی طرح وہ بھی حالات کا شکار نظر آتے ہیں ان کے لئے بھی بیکاری ایک مسئلہ بن گئی ہے ۔

ہے بڑی چیز مقدر بھی وگرنہ دن رات

چاہتے ہم بھی ہیں تقدیر جگائے رکھنا

اطہر شکیلؔ نے کئی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ذرا دیکھئے ۔

٭

کیوں خدا جانے اتر جاتے ہیں چہرے ان کے

بزمِ احباب میں ہم جب بھی قدم رکھتے ہیں

 

ان کے کچھ اشعاراس رنگ کی بھی تشہیر کرتے ہیں ۔

٭

میں بھی عزّت دار تھا مجھ کو بھی حاصل تھا وقار

مفلسی تیرا بھلا ہو تو نے رسوا کر دیا

 

دنیا کے ظلم، جور و تشدّد کہ مفلسی

تنہا کھڑا ہوں اتنی بلاؤں کے سا منے

 

دو دشمن ہیں راہ میں حائل کیسے اس تک پہنچوں میں

ایک طرف ہے دولت اس کی ایک مِری ناداری ہے

مندرجہ ذیل اشعار سےاندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ جانتے ہیں ۔

لوگ لمحوں میں پرکھ لیتے ہیں سب کچھ اطہرؔ

غم کو دنیا کی نگاہوں سے بچائے رکھنا

وہ ایک جذباتی نو جوان نظر آتے ہیں انھیں جو کہنا ہے وہ کہہ جاتے ہیں ۔بغیر یہ سوچتے ہوئے کہ”لوگ لمحوں میں پرکھ لیتے ہیں سب کچھ”اور اس شدّت کو انہوں نے ایک شعر میں کہا بھی ہے ۔

جو کہا ہم نے وہ محسوس کیا ہے اطہرؔ

ہم نہیں جانتے اشعار میں ندرت کیا ہے

ان کے ایک شعر میں شہادت اور عبادت کے معنی کچھ اس طرح سے واضح کئے گئے ہیں کہہ د ل و دماغ دونوں کو قبول کرتے ہیں ۔

٭

جذبۂ حق جو نہیں ہے تو شہادت کیا ہے

گر عقیدت نہیں دل میں تو عبادت کیا ہے

وہ ہمت اور جرأت کے ساتھ اپنے آپ کو موردِ الزام بھی ٹھہراتے ہیں ۔

٭

کیوں کسی کو موردِ الزام ٹھہرائیں شکیلؔ

اپنے قاتل صرف ہم ہیں، دوسرا کوئی نہیں

کس کو ہم الزام دیں جب خود ہی مجرم ہیں شکیلؔ

ہم نے خود ہی منتشر اپنا قبیلہ کر دیا

 

ایک اور حقیقت جو دو مصرعوں میں پیش کی گئی ہے ۔

رہ نہ جاؤ کہیں دنیا میں اکیلے اک دن

اپنے معیار پہ ہر شخص کو پرکھا نہ کرو

وہ مشورہ بھی دیتے ہیں جو میرے خیال میں تو صحیح ہے ذرا دیکھیں آپ کیا کہتے ہیں ۔

کس کو خبر ہے کون کرے کیا معاملہ

رخصت کے وقت اپنا کسی کو پتا نہ دے

٭

اطہر شکیلؔ کی شاعری مکمل آمد ہے جس میں آورد کا اثر نظر نہیں آتا۔اس لئے میرے زاویۂ نظر میں ان کی شاعری کو خدا کی سوغات سمجھنا صحیح ہو گا۔ویسے اطہر شکیلؔ ایک نو عمر، سنجیدہ، با ہمت، حوصلہ مند نئی نسل کے ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں ۔میں دعا کرتی ہوں کہ خدا ان کو اور ان کی شاعری کو کامیابی اور عزّت کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے ۔آمین ثمّ آمین

خیر طلب

ستارہؔ نور

مورخہ۸ ؍نومبر۲۰۰۰ ء

 

 

ڈاکٹر وسیم اقبال

 

اطہر شکیل کی غزل گوئی

 

اطہر شکیلؔ صاحب کی غزل گوئی کی بنیادی خوبی اُن کی سلاست ہے، اِس سلاست سے شعر کہنا اساتذہ کا حصّہ تھا۔ مگر اطہر شکیلؔ صاحب کا پورا کلام دیکھ جائیے کہیں سلاست ہاتھ سے نہیں جاتی اور نہ ادائیگی میں گنجلک پیدا ہوتا، پھر اِس اُستادانہ سلاست روی کے ساتھ ساتھ زبان بالکل جدید، اور سہل ہے، مندرجہ ذیل اشعار جو اُن کی پہلی کتاب ’’ سمندر اور سلوٹیں ‘‘ سے ماخوذ ہیں ملاحظہ فرمائیں خالص غزل کے چراغ روشن ہوتے چلے جائیں گے ۔

یاد تیری بڑی شرمیلی ہے تب آئی ہے

جب یہ دیکھا ہے اکیلا ہوں میں تنہائی ہے

٭

جُڑا ہے ملنا بچھڑنا کسی کا بارش سے

نظر میں کتنے مناظر پھُوار لے آئی

انگریزی میں گھٹاؤں کا آنا، بادلوں کا چھا جانا اور بارش کا ہونا فسردہ دلی کا اشاریہ ہوتا ہے ۔ لیکن اُردو میں برسات کا سماں گویا بہار کی آمد کا پتہ دیتا ہے ۔ دیکھئے اس شعر میں کیسی اِٹھلاتی ہوئی بہار آئی ہے کہ دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے ۔

ہر ایک شاخِ شجر برگ و بار لے آئی

گھٹا جو آئی چمن میں بہار لے آئی

ایک جگہ ایک شعر میں جب دوست کا ملنا خواب ہو گیا یا وہ خوشبو کی طرح سے چلا گیا تو اب اُس کو کیسے پائیں شاعر یہی سوال کرتا ہے اِن خوبصورت الفاظ میں :۔

خوابوں کی طرح آنا، خوشبو کی طرح جانا

ممکن ہی نہیں لگتا اے دوست تجھے پانا

’’سمندر اور سلوٹیں ‘‘ کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر معاملہ بندی کا شہنشاہ ہے ۔ فارسی میں جس صنف کو وقوع گوئی کہتے ہیں ۔ یعنی عاشق و معشوق کے درمیان جو معاملات پیش آتے ہیں وہ بھی ان کی شاعری کا موضوع ہے ۔ لیکن عام معاملہ بندی سے مجموعہ پُر ہے، جیسے یہ اشعار :۔

دِل کی باتیں کہہ کر تم سے غم ہلکا کر لیتے ہیں

ورنہ کس نے کس کی یارو! بگڑی بات سدھاری ہے

٭

اپنوں سے یوں لڑی ہے کچھ اپنی بقاء کی جنگ

جیسے کوئی چراغ ہواؤں کے سامنے

٭

سلوک اب اِس سے بہتر تم جو کرتے بھی تو کیا کرتے

لہو‘ دِل کو تو آنکھوں کو مِری دریا کیا تم نے

٭

ظرف درکار ہے دوستی کے لئے

شے یہ ہوتی نہیں ہر کسی کے لیے

دیکھئے حقوق العباد کو کیسے اچھّے پیرایہ میں بیان کیا ہے : –

سجدہ ریزی کو سب نے عبادت کہا

ہم جیے دوسروں کی خوشی کے لئے

اِسی کے ساتھ دنیا میں ناداری کا غم ملاحظہ ہو، انسان کا د عویٰ ہے چاند ستاروں پر پہنچنے کا، شمس و قمر کومسخّر کرنے کا جب کہ اس کرۂ ارض پر کتنے انسان بھوک سے مضمحل کشا کشِ زندگی کے شکار ہیں ۔

سوٗنا سوٗنا گلشن کیوں ہے مرجھائی پھلواری ہے

چاند ستارے چھونے والو! گھر گھر کیوں لا چاری ہے

یہ سچ ہے کہ عشق و محبت کی داستان اتنی ہی پرانی ہے جتنا انسان ہے اور یہ داستان تب تک چلتی رہے گی جب تک انسان دنیا میں رہے گا اطہر شکیلؔ نے یہ بات کس تیکھے پن سے کہی ہے :۔

٭

محبت کوئی لفظِ متروک ہے کیا

رکا کیوں تمہارا قلم چلتے چلتے ؟

شاعر کا کلام گوں نا گوں معاملات سے پُر ہے لیکن قوم کی غیرت جگانے کے جذبے سے بھی معمور ہے اور شہادت کے جذبے سے بھی، اِس میں نئی راہیں نکالنے کی جستجو بھی ہے اور ناداروں کی ناداری دور کرنے کی بھی، غرض کہ ایک نوجوان شاعر کے جذبات سے معمور ہے اِسی کے ساتھ دنیا کے ڈھنگ اور دنیا کی پہچان جو نظر یاتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی شاعر کی شاعری کا مضمون ہیں :۔

بے شک یہ کائنات تغیّر پذیر ہے

منظر بدل رہے ہیں نگاہوں کے سامنے

تیرا آفاق کس کے لیے اے خدا؟

آدمی کے لیے، آدمی کے لیے

جن کو ہم سمجھتے ہیں بوجھ ارضِ خاکی کا

اُن ضعیف کاندھوں پر آسمان ہوتے ہیں

چنانچہ شاعر کے دِل میں ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی جو حسرت ہے وہ ملاحظہ ہو :۔

 

جو نظروں سے نہیں گزرے ہیں وہ منظر بنا تا ہوں

خیالوں میں، میں اک دنیا نئی اکثر بناتا ہوں

معاملہ بندی کا ایک شعر اور دیکھ لیجئے :۔

آس تو مانو، شیشہ ہے، گر چوٹ لگی تو ٹوٹے گی

اتنی دیر الگ مت رہنا دنیا کے بہکانے سے

٭

اپنی بات کو ختم کرنے سے پیشتر ایک مطلع دو شعر اور نقل کرنا چاہوں گا۔

چھوڑ جائے گی کہیں اس کا بھروسا نہ کرو

زند گانی سے تعلق کوئی گہرا نہ کرو

٭

دل میں پتھر کے شرر تک نہیں بجھنے پاتے

بھول جانے کی مجھے کوششِ بیجا نہ کرو

٭

رہ نہ جاؤ کہیں دنیا میں اکیلے اِک دن

اپنے معیار پہ ہر شخص کو پرکھا نہ کرو

میری دعا ہے کہ اطہر شکیلؔ دنیا کے عظیم ترین شعرا میں اپنا شمار کرا پانے میں کامیاب ہوں اور علم و عمل کی دنیا میں سرفراز ہوں آمین:۔

 

ڈاکٹر وسیم اقبال صدّیقی

ایم۔اے ۔پی۔ایچ۔ڈی۔(علیگ)

لیکچرار (اُردو) کرشن گوپالی ڈگری کا لج نگینہ

ضلع بجنور(یو۔پی)جنوری۱۹۹۸ ء

 

 

حمد

 

 

آب و گِل کا یہ جہاں، یہ گلستاں قدرت تری

چاند تارے کہکشاں یہ آسماں قدرت تری

 

خواب بخشے نیند کو، تو جاگتی آنکھوں کو آس

میری ہستی پر ہے کتنی مہرباں قدرت تری

 

ایک کیڑا پا رہا ہے پتھروں میں اپنا رزق

ایک پنچھی بُن رہا ہے آشیاں قدرت تری

 

موسموں کا یہ تسلسل، یہ زمستاں، یہ بہار

یہ ہَوا، یہ کھیت، یہ ابرِ رواں قدرت تری

 

شعلہ بن جانے سے پہلے ہی بجھا لیں ہوشمند

آگ سے پہلے نکلتا ہے دھواں قدرت تری

 

نطقِ اطہرؔ پر ثنا تیری، ترا انعام ہے

پُر ہوئے معنیٰ سے گر لفظ و بیاں قدرت تری

٭٭٭

 

 

 

یہ تماشا زمین پر کیوں ہے

خیر کم، بے حساب شر کیوں ہے

 

کیا دعاؤں نے ساتھ چھوڑ دیا؟

وسوسوں سے بھرا سفر کیوں ہے

 

رابطہ مجھ سے توڑنے والا

میرے سکھ دکھ سے با خبر کیوں ہے

 

دیکھنا ہے تو غور سے دیکھو

یہ اچٹتی ہوئی نظر کیوں ہے

 

شب کو آنگن میں خشک موسم تھا

بھیگی بھیگی سی پھر سحر کیوں ہے

 

وہ تو سب کو عزیز رکھتا تھا

زد میں شعلوں کی اس کا گھر کیوں ہے

 

ہمسفر ساتھ ہے مِرے پھر بھی

سونی سونی سی رہ گزر کیوں ہے

 

وہ جو کل تک رئیس تھا اطہرؔ

اس کی اولاد دَر بدر کیوں ہے

 

 

گُڈّے گُڑیوں کی راجہ رانی کی

یاد آتی ہے اِک کہانی کی

 

لاکھ اوروں نے بد زبانی کی

عادتاً میں نے گُل فشانی کی

 

دوستی اُس نے دفعتہً کی تھی

بے وفائی بھی نا گہانی کی

 

ہاتھ سے آئنہ گرا، ٹوٹا

یہ حقیقت ہے زندگانی کی

 

اس نے جب اپنی موند لیں آنکھیں

ختم میں نے بھی تب کہانی کی

 

گھر میں رہتے ہیں ہم، مگر یہ بھی

ایک صورت ہے بے مکانی کی

 

خواہشیں، امتحاں، کشش، کوشش

یوں بسر ہم نے زندگانی کی

 

دشمنوں کو گلے لگا کے شکیلؔ

ہم نے خود پر ہی مہربانی کی

 

 

 

رنگ محلوں کو تصّور کے سجائے رکھنا

دل سے تنہائی کا احساس بھُلائے رکھنا

 

پھول یادوں کے یوں ہی دل میں کھلائے رکھنا

اس کی خوشبو سے ہر اک سانس بسائے رکھنا

 

اتنا آساں تو نہیں روز کہانی سے تری

اپنی تنہائی کو رنگین بنائے رکھنا

 

کوئی ہمراز ہے دنیا میں نہ مخلص کوئی

دل کے رشتوں کو زمانے سے چھپائے رکھنا

 

ہے بڑی چیز مقدّر بھی وگرنہ دن رات

چاہتے ہم بھی ہیں تقدیر جگائے رکھنا

 

لوگ لمحوں میں پرکھ لیتے ہیں سب کچھ اطہرؔ

غم کو دنیا کی نگاہوں سے بچائے رکھنا

 

 

 

غیرتِ قوم کچھ اس طرح جگائی جائے

اپنے اسلاف کی تاریخ بتائی جائے

 

زورِ حق سے سرِ باطل کو کچلنا ہے اگر

دوستو! پھر کوئی تنظیم بنائی جائے

 

یہ الگ بات نہ جاگے تری غیرت لیکن

تیرے احساس پہ اک ضرب لگائی جائے

 

خامشی چیخ میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے

اپنا حق پانے کو آواز اٹھائی جائے

 

خود سمجھ جائے گا تو اپنی حقیقت ناداں

تجھ کو پھر تیری ہی تصویر دکھائی جائے

 

چھوڑ کر قصۂ اسلاف یہ بہتر ہے کہ اب

اپنے کردار سے تاریخ بنائی جائے

 

اتنے فرقوں میں جو تقسیم کرے ہم کو شکیلؔ

اب کدورت کی وہ دیوار گرائی جائے

 

 

 

احتیاط اپنی بہت اہلِ ستم رکھتے ہیں

ہم سے دیوانے جو بستی میں قدم رکھتے ہیں

 

اعتماد ان سے ہُوا ہے مِرا پارہ پارہ

اپنے ہونٹوں پہ جو ہر لمحہ قسم رکھتے ہیں

 

کوئی رنجش کبھی ظاہر نہیں ہونے والی

ہم بہت اپنے تعلق کا بھرم رکھتے ہیں

 

ماں کی تصویر نگاہوں میں ابھر آتی ہے

جب بھی تاخیر سے ہم گھر میں قدم رکھتے ہیں

 

دھیان رکھنا ہمیں کمزور سمجھنے والو!

بازوؤں میں وہی ہم پہلا سا دم رکھتے ہیں

 

کیوں خدا جانے اتر جاتے ہیں چہرے ان کے

بزمِ احباب میں ہم جب بھی قدم رکھتے ہیں

 

سامنے ان کے جھکا کرتی ہے دنیا اطہرؔ

رب کے آگے سرِ تسلیم جو خم رکھتے ہیں

 

 

 

سُونا سُونا گلشن کیوں ہے ؟ مرجھائی پھلواری ہے

چاند ستارے چھونے والو! گھر گھر کیوں لاچاری ہے ؟

 

دل کی باتیں کہہ کر تم سے غم ہلکا کر لیتے ہیں

ورنہ کس نے کس کی یارو! بگڑی بات سُدھاری ہے

 

اس نے تراشی ایسی چاہت وضع پرانی بھینٹ چڑھی

قول کسی کا یاد آیا تب، دین سے دنیا بھاری ہے

 

مانگنا کوئی عیب نہیں، گر عقل کا دامن پھیلا ہو

اتنا دیکھو در ہے کس کا، در پر کون بھکاری ہے

 

نورِ مجسم کی چاہت میں آنکھیں موندے بیٹھے ہیں

کیسا روشن خواب تھا کل کا جس میں رات گزاری ہے

 

دو دشمن ہیں راہ میں حائل کیسے اس تک پہنچوں میں

ایک طرف ہے دولت اس کی ایک مِری ناداری ہے

 

جھٹلانا آسان نہیں ہے اطہرؔ اس سچّائی کو

جس کے آگے جگ جھکتا ہے وہ تہذیب ہماری ہے

 

 

 

سچ پیش کر کے وقت کے شاہوں کے سامنے

مجرم ہوئے ہیں سب کی نگاہوں کے سامنے

 

اب اس کا غم نہیں ہے کہ انجام ہو گا کیا

جھکنا نہیں ہے وقت کے شاہوں کے سامنے

 

بے شک یہ کائنات تغیّر پذیر ہے

منظر بدل رہے ہیں نگاہوں کے سامنے

 

رکھتے ہیں ہم حساب ہر اک پَل کا اے خدا

کم نیکیاں پڑیں نہ گناہوں کے سامنے

 

دنیا کے ظلم، جور و ستم اور حادثے

دم توڑتے گئے مِری آہوں کے سامنے

 

کتنی بھی پُر سکوں ہو فضا شہر کی مگر

ٹِکتی کہاں ہے شہر پناہوں کے سامنے

 

اطہرؔ سفر کی ساری تھکن دور ہو گئی

آیا جو اپنے گھر کی میں راہوں کے سامنے

 

 

 

آدمی گر آپ اپنی ذات سے غافل نہ ہو

بھیڑ میں خود کو چھپائے پھر کوئی قاتل نہ ہو

 

سخت تر کوہِ گراں سے ہیں ہمارے حوصلے

دیکھ اے طوفاں ! ہماری راہ میں حائل نہ ہو

 

اس گھڑی ملحد، تجھے بھی یاد آتا ہے خدا

جب بھنور میں ناؤ ہو اور دُور تک ساحل نہ ہو

 

جنگ میں تلوار اور کردار دونوں شرط ہیں

چھوٹ جائے ایک بھی توسر نگوں باطل نہ ہو

 

وہ محبت لائقِ معراج ہو سکتی نہیں

جس محبت میں ترا خونِ جگر شامل نہ ہو

 

ہم جسے انصاف کا پیکر سمجھتے ہیں شکیلؔ

روپ میں منصف کے یہ کوئی چھپا قاتل نہ ہو

 

 

 

میں اک مغرور دریا تھا مجھے قطرہ کِیا تم نے

دکھا یا آئنہ مجھ کو بہت اچھا کِیا تم نے

 

بہاروں میں اجاڑا آشیاں، یہ کیا، کِیا تم نے

ہمارے ساتھ کیوں اے آندھیو! دھوکا کِیا تم نے

 

سلوک اب اس سے بہتر تم جو کرتے بھی تو کیا کرتے

لہو دل کو تو آنکھوں کو مِری دریا کِیا تم نے

 

ذرا سی بات پر دی ہے سزا تنہائی کی ہم کو

اکیلے خود بھی جیتے ہو! تو کیا اچھا کِیا تم نے

 

شکایت یہ نہیں اپنا ہمیں سمجھا کہ بیگانہ

حیا تو ٹھیک تھی پر ہم سے بھی پردہ کِیا تم نے

 

قدم پلکوں کی حد سے آنسوؤ! باہر نہ رکھ دینا

کہ مَر جائیں گے ہم ان کو اگر رسوا کِیا تم نے

 

دلِ خوش فہم کی اک آخری اُمید بھی توڑی

چلو اچھا کِیا جو ختم ہر قصّہ کِیا تم نے

 

 

 

دوستی کے لئے دشمنی کے لئے

اک شناسا مِلے اجنبی کے لئے

 

ظرف درکار ہے دوستی کے لئے

شئے یہ ہوتی نہیں ہر کسی کے لئے

 

سجدہ ریزی کو سب نے عبادت کہا

ہم جیئے دوسروں کی خوشی کے لئے

 

زندگی تو بہت بے فا ہے مگر

جان دیتے ہیں ہم زندگی کے لئے

 

ترکِ الفت کا جب بھی ارادہ کیا

دل نہ راضی ہُوا خود کشی کے لئے

 

ساری دنیا کو ہم قہقہے بانٹ کر

خود ترستے رہے اک ہنسی کے لئے

 

تیرا آفاق کس کے لئے اے خدا؟

آدمی کے لئے، آدمی کے لئے

 

جس نے تحفے میں دیں تہمتیں، ذلّتیں

پھر چلے ہیں شکیلؔ اس گلی کے لئے

 

 

 

عشق کے پوشیدہ جذبے داستاں تک آ گئے

دیکھ! تیری جستجو میں ہم کہاں تک آ گئے

 

اب نظر انداز کس کس کو کرے گا میرِ شہر

میرے شکوے رفتہ رفتہ ہر زباں تک آ گئے

 

سختیاں میرے عزائم کو سبق دیتی رہیں

حوصلے لے کر مجھے برقِ تپاں تک آ گئے

 

ایسی آزادی سے بہتر تھی کہیں قیدِ قفس

ہم بہت خوش تھے، قفس سے آشیاں تک آ گئے

 

میرا مسکن جان کر جن کو ہوا دی تھی کبھی

اب وہی شعلے تمہارے آشیاں تک آ گئے

 

جن کو دیوانہ سمجھ کر دَر گزر کرتے رہے

اب وہ دیوانے تمہارے آستاں تک آ گئے

 

بے نیازانہ رہِ الفت میں چلئے گا شکیلؔ

اس سے کچھ مطلب نہیں ہے، ہم کہاں تک آ گئے

 

 

 

خیال خون کے رشتوں کا آ گیا کیسے

ضرورتوں سے جُڑا ہے یہ سلسلہ کیسے

 

بس اس خیال سے کتنے ملول ہیں احباب

بچھڑ کے بھائی مِرا مجھ سے آ مِلا کیسے

 

ہَوا تو تیز نہیں تھی مگر یہ حیرت ہے

جلا کے اُس نے دیا، خود بجھا دیا کیسے

 

وہ درد دے کے مجھے، چاہتا تھا خوش ہونا

میں ایسے وقت میں اشکوں کو روکتا کیسے

 

ضرور تیسرا کوئی رہا ہے ان کے بیچ

وگرنہ دوست یہ ہوتے جُدا جُدا کیسے

 

شکیلؔ بنتے سنورتے تھے جس کو لے کر تم

تمہارے ہاتھ سے چھُوٹا وہ آئنہ کیسے

 

 

 

 

 

مِلے گا سنگ عوض میں گلاب دے دوں گا

میں رات لے کے انھیں آفتاب دے دوں گا

 

نظر بھی سامنے اٹھنے نہ پا ئی جس کے کبھی

میں اس کی بات کا کیسے جواب دے دوں گا

 

ترے کرم سے زیادہ نہیں گناہ مِرے

حساب چا ہے تو تجھ کو حساب دے دوں گا

 

کبھی جو اس نے مِرے دل کا حال پو چھا تو

میں اس کے ہاتھ میں اپنی کتاب دے دوں گا

 

کبھی وہ مجھ سے یہ کہہ کر چلا گیا تھا شکیلؔ

اندھیرے گھر کو ترے ماہتاب دے دوں گا

 

 

 

راستے پُر خطر بتاتے ہو

رہبرو! کیوں ہمیں ڈراتے ہو

 

راستہ ہے نہ راہبر کوئی

کس جگہ مجھ کو چھوڑے جاتے ہو

 

اور بڑھتی ہے رو ٹھ جا نے سے

کیوں محبت کو آزماتے ہو

 

ساتھ لفظوں کا لب نہیں دیتے

کیا بتاتے ہو کیا چھپاتے ہو

 

ہم نے ما نا کہ پیار ہے ہم سے

روز تم کس لئے جتا تے ہو

 

غم ہے کیا، لب پہ اپنے ہر لمحہ

اک تبسم جو تم سجاتے ہو

 

کس قدر شوقِ خود نمائی ہے

جو چھپانا تھا، وہ دِکھاتے ہو!

 

لُٹ چُکے ہو جہاں پہ تم اطہرؔ

پھر اسی راستے پہ جاتے ہو!

 

 

 

وفا کے عہد و پیماں چھوڑ آئے

جو تھا مِلنے کا امکاں چھوڑ آئے

 

چراغِ بزم مدھم ہو گئے تھے

جلا کر دل چراغاں چھوڑ آئے

 

بھٹکتے پھر رہے ہیں آج تک ہم

دعاؤں کا جو داماں چھوڑ آئے

 

بڑا مشکل ہے شوقِ خود پرستی

سنبھل جانے کا امکاں چھوڑ آئے

 

سزاؤں میں کمی کچھ ہو گئی تھی

اسی خاطر وہ زنداں چھوڑ آئے

 

بڑی لذّت تھی پیمانِ وفا میں

سلگتے دل کے ارماں چھوڑ آئے

 

شکیلؔ اطہر میں اکثر سوچتا ہوں

بھری بستی کو ویراں چھوڑ آئے

 

 

 

 

 

شہر میں اک میں ہوں، مجھ سا دو سرا کوئی نہیں

فخر ہے مجھ کو کہ مجھ سا با  وفا کوئی نہیں

 

تو کہ لا ثانی ہے اپنے آپ میں یکتا ہے تو

میرے خالق تجھ سا بس تیرے سِوا کوئی نہیں

 

قہقہوں کا شور ہے اب جس جگہ بھی دیکھئے

دوسروں کے غم سے شاید آشنا کوئی نہیں

 

خوب ہے مجھ پر کرم اَے گردشِ دوراں ترا

وہ تو یہ کہیے کہ مجھ کو جانتا کو ئی نہیں

 

کیا کرے کوئی کسی سے غم گُساری کی امید

غم کسی کا بھی جہاں میں بانٹتا کوئی نہیں

 

کیوں کسی کو موردِ الزام ٹھہرائیں شکیلؔ

اپنے قاتل صرف ہم ہیں دو سرا کو ئی نہیں

 

 

 

 

 

عقل نے جب کچھ نہ پایا دیر تک

دِل کی وحشت نے ہنسایا دیر تک

 

پیار خود میں ہی نہ اُس سے کر سکا

زندگی نے تو لُبھایا دیر تک

 

جستجو میں تیری وہ آیا مقام

میں نے خود کو بھی نہ پایا دیر تک

 

ہر قدم مجھ کو نیا سا تھی مِلا

ساتھ کوئی چل نہ پایا دیر تک

 

آنکھ نم، مجبور ہو نٹوں پر ہنسی

جا نے والا یاد آیا دیر تک

 

زند گی کا اپنی حا صل دیکھ کر

مرنے والا مسکرایا دیر تک

 

جب فریبِ دوستی کھایا کبھی

تیری یادوں نے رُلایا دیر تک

 

 

کیا ہُوا؟ ترکِ تعلق کا خیال

اُن کے دِل میں رہ نہ پایا دیر تک

 

کیوں ہو خوفِ گردشِ دوراں شکیلؔ

’’دھوپ رہتی ہے نہ سایا دیر تک‘‘

 

 

 

 

جبر اُس شوخ کے یوں پیار میں ڈھالے ہم نے

اپنی ہر سانس بھی کی اُس کے حوالے ہم نے

 

سختیاں جھیل کے بھی کچھ نہیں کہنا، ہنسنا

کس سے سیکھے ہیں یہ انداز نرالے ہم نے

 

یہ بھی دن ہیں کہ سوالی میں چمک ہے تم سے

وہ بھی دن تھے کہ بکھیرے تھے اجالے ہم نے

 

کون اِس ضبطِ مسلسل کا سبب سمجھے گا

فرطِ غم میں بھی تو آنسو نہ نکالے ہم نے

 

مانگنے سے نہ مِلا نور کا ٹکڑا کو ئی

اپنا گھر پھو نک کے پائے ہیں اجالے ہم نے

 

کِس کی رسوائی کا اندیشہ تھا! اپنی کہ تِری؟

دو ستوں میں بھی ترے ذکر جو ٹالے ہم نے

 

کون اطہرؔ یہاں رودادِ سفر پو چھے گا

کیوں بچا رکھے ہیں یہ پاؤں کے چھا لے ہم نے

 

 

 

 

پوچھتے مجھ سے ہیں، کیوں چپ ہو، مصیبت کیا ہے

کیا بتاؤں میں انھیں وجہِ اذیّت کیا ہے

 

اُن سے سُن لیتے ہیں دِل رکھنے کو قصّے اُن کے

ورنہ اِن جھوٹے فسانوں کی حقیقت کیا ہے

 

تجربے ہیں کہ مقدّر کو لیے بیٹھے ہیں

ذہن کہتا ہے کہ ہمّت ہو تو قسمت کیا ہے

 

اُس کے آنچل پہ اگر گرتے تو ہوتے انمول

اپنے دامن پہ بہے اشکوں کی قیمت کیا ہے

 

روٹھ جا تے ہیں وہ از راہِ تکلّف ہم سے

بے سبب اُن کو منانے کی ضرورت کیا ہے

 

دِل لگی جان کے کر لی تھی شرارت اُن سے

ہم کو معلوم کہاں تھا کہ محبت کیا ہے

 

جو کہا ہم نے وہ محسوس کیا ہے اطہرؔ

ہم نہیں جانتے اشعار میں ندرت کیا ہے

 

 

 

خود اپنے ہی دل کو اب یہ بات ہے سمجھانا

حالات بناتے ہیں اپنوں کو بھی بیگانہ

 

خوابوں کی طرح آنا، خو شبو کی طرح جانا

ممکن ہی نہیں لگتا اے دوست! تجھے پانا

 

کچھ اپنے ارادے سے واقف تو کیا ہوتا

اِتنا ہی ضروری تھا گر ہم سے بچھڑ جانا

 

ہے دُور ابھی منزل، الزام اُسے کیوں دُوں

رستے میں سمجھ بیٹھوں کیسے اُسے بیگانہ

 

تم ترکِ تعلق کا کیوں مشورہ دیتے ہو

اچھا نہیں لگتا ہے یارو! مجھے سمجھانا

 

محفل میں سبھی نظریں پو چھیں گی کہاں ہو تم

ممکن ہو تو آ جا ؤ، تم آ کے چلے جانا

 

اِس رہ میں فنا ہونا معراج وفا کی ہے

اَے دِل! نہ محبت کے  انجام سے گھبرانا

 

دیکھا ہے شکیلؔ اُن کو بس میں نے محبت سے

ڈر ہے نہ بنا ڈالے دنیا کوئی افسانہ

 

 

 

جینے کی ادا کوئی اَے دیدۂ نم! دے دے

جو راس ہمیں آئے ایسا کو ئی غم دے دے

 

مو ہوم سی اک خواہش سینے میں مچلتی ہے

وہ آ کے یکا یک پھر جینے کی قسم دے دے

 

میں تیری عنایت کو تقدیر سمجھ لوں گا

ساقی مِرے حصّے میں، لا کم ہے تو کم دے دے

 

وہ تو نہ وفاؤں کو سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے

اِس سے تو مجھے یا رب ! پتھر کا صنم دے دے

 

میں دیکھ نہیں سکتا آنکھوں میں تری آنسو

خوشیاں مِری تو لے لے، اپنا مجھے غم دے دے

 

ہر اہلِ محبت کو جو حوصلہ مندی دیں

راہوں کو شکیلؔ ایسے کچھ نقشِ قدم دے دے

 

 

 

سنگ دِل ہم نے تجھے پھول سا پیکر جانا

ہم سے پیا سے نے سرابوں کو سمندر جانا

 

چاہتے ہم تو کوئی اور بھی مِل سکتا تھا

ہم نے ناکام محبت کو مقدّر جانا

 

سادہ دِل تھے کہ کِیا تجھ پہ بھروسا ہم نے

رہزنی تیری نہ سمجھی، تجھے رہبر جانا

 

دلِ مضطر نے مِرے آج سکوں پایا ہے

آ گئے ہو تو ذرا دیر ٹھہر کر جانا

 

میں نے رو کا بھی ہے لوگوں کو غلط را ہوں سے

’’مجھ کو لوگوں نے مگر راہ کا پتھر جانا‘‘

 

آستینوں میں سدا اُن کی ملے ہیں خنجر

عمر بھر خیر سے ہم نے جنھیں رہبر جانا

 

شہر اپنا ہے مگر کس کا بھروسا ہے شکیلؔ

رات آدھی ہے، نہ اب گھر سے نکل کر جانا

 

 

 

واعظِ کم فہم یہ کیسا تماشہ کر دیا؟

پیاس کے ماروں سے اتنی دور دریا کر دیا

 

مصلحت کا نام لے کر ہر جگہ، موقع پرست

نوجوانوں کے لہو کو تو نے ٹھنڈا کر دیا

 

چند سکّوں کے عوض تقسیم کر کے قوم کو

رہنما نے دیش کی قسمت کا سودا کر دیا

 

بیچ کر اسلاف کی میراث یوں ہی جا بجا

ہم نے بازارِ جہاں میں خود کو رسوا کر دیا

 

میں بھی عزّت دار تھا، مجھ کو بھی حاصل تھا وقار

مفلسی تیرا بھلا ہو تو نے، رسوا کر دیا

 

غیر کو موقع مِلا میرے مٹانے کے لئے

جب مِرے ہم مشربوں نے مجھ کو تنہا کر دیا

 

بیچ کر خود رہبرانِ قوم نے اپنا ضمیر

اپنا دامن اپنے ہی ہاتھوں سے کالا کر دیا

 

کس کو اب الزام دیں، ہم اپنے مجرم ہیں شکیلؔ

ہم نے خود ہی منتشر اپنا قبیلہ کر دیا

 

 

 

 

ہر ایک شاخِ شجر، برگ و بار لے آئی

گھٹا جو آئی چمن میں بہار لے آئی

 

خود اپنی الجھنیں سلجھی نہ تھیں کہ یہ دنیا

ہمارے پاس مسائل ہزار لے آئی

 

جُڑا ہے مِلنا، بچھڑنا کسی کا بارش سے

نظر میں کتنے مناظر پھوار لے آئی

 

نظر کے سامنے دھُندلا گیا ہر اک منظر

ہَوا اُڑا کے یہ کیسا غبار لے آئی

 

مصالحت نہ اُصولوں سے ہو سکی اطہرؔ

اَنا ہماری، ہمیں سوئے دار لے آئی

 

 

 

گھر غریبوں کے امیرو! کبھی جا کر دیکھو

تم سکوں پاؤ گے روتوں کو ہنسا کر دیکھو

 

گھر پڑوسی کا بٹا ہے تو مسرّت کیسی

اپنے آنگن میں بھی دیوار اٹھا کر دیکھو

 

دوستی خون کے رشتوں سے بھی برتر ہے مگر

ہاتھ کے ساتھ ذرا دِل بھی مِلا کر دیکھو

 

پیار کا درد اِدھر، کوچۂ بے درد اُدھر

جس جگہ میں ہوں وہاں تم بھی تو آ کر دیکھو

 

ایک تصویر میں سو رُوپ ہیں دلکش دلکش

دِل بہل جائے تو تصویر اٹھا کر دیکھو

 

تم بھُلا پاؤ گے کیا خون کے رشتے اطہرؔ

اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو مٹا کر دیکھو

 

 

 

 

اپنے ہی خون کے دریا سے گزرنا ہو گا

زندہ رہنے کی تمنّا ہے تو مرنا ہو گا

 

کام وہ بھی جو طبیعت پہ گراں ہے میری

میرے حالات یہ کہتے ہیں کہ کرنا ہو گا

 

یہ خبر کب تھی کہ خود اپنے ہی گھر میں اک دن

اشک بن کر مجھے دامن پہ اترنا ہو گا

 

تم ہو کاغذ کا کوئی پھول تمہارا کیا ہے

مجھ کو خوشبو کی طرح روز بکھرنا ہو گا

 

عشق تو آگ ہے اور وہ بھی لہو کی اپنے

مجھ کو خود اپنے ہی شعلوں سے گزرنا ہو گا

 

ڈھونڈ ہی لے گا ہر اک درد مداوا اپنا

وقت کے ساتھ ہر اک زخم کو بھرنا ہو گا

 

ہاتھ جب پیار سے تھامے وہ تمہارا اطہرؔ

تم کو اس لمحہ زمانے سے نہ ڈرنا ہو گا

 

 

 

بکھرے گیسو، ساکت لہجہ، کچھ نہ کہو دیوانے سے

کوئی غرض اپنے سے نہ اس کو اور نہ ہے بیگانے سے

 

پتھّر کھا کر وہ دیوانہ شہر کو کب کا چھوڑ گیا

پوچھ رہے ہو اس کا پتا اب بستی سے ویرانے سے

 

آس تو مانو، شیشہ ہے، گر چوٹ لگی تو ٹوٹے گی

اِتنی دیر الگ مت رہنا دنیا کے بہکانے سے

 

دیکھ کے ہم کو جن چہروں پر کلیاں سی کھِل جاتی تھیں

بات ہوئی کیا آج وہ ہم سے مِلتے ہیں بیگانے سے

 

کیسی فضا کی قسمت جاگی، کیسے ہَوا کے بھاگ کھُلے

چار جہت میں خوشبو مہکی زلفوں کے بکھرانے سے

 

ٹوٹنا تھا یہ راہِ وفا میں، ٹھوکر کھا کے ٹوٹ گیا

لاکھ سعی کی، دِل کب مانا لوگوں کے سمجھانے سے

 

دولت والوں سے ملئے تو غیروں جیسے لگتے ہیں

اپنا پَن ملتا ہے اطہرؔ چھوٹوں کو اپنانے سے

 

 

 

ذرا سا چھونے سے اِک بار پیرہن اس کا

شکیلؔ گُل کی طرح کھِل گیا بدن اس کا

 

لبوں سے پھول برستے ہیں گفتگو بن کر

الگ جہانِ سخن سے لگا سخن اس کا

 

یہ کائنات بھلا کیوں ثنائے رب نہ کرے

زمین، چاند، ستارے، فضا، گگن اس کا

 

وہ توڑ دے گا تعلق خبر نہیں تھی مجھے

بٹے گا گھر تو بدل جائے گا چلن اس کا

 

بس اتنی بات سے کیسا سکوں مِلا اطہرؔ

وہ ہم سخن مِرا ٹھہرا، میں ہم سخن اس کا

 

 

 

بے کسوں کو ستانے کی ضد چھوڑ دے

خونِ ناحق بہانے کی ضد چھوڑ دے

 

سنگ پر گُل کھِلانے کی ضد چھوڑ دے

خوں رُلا کر ہنسانے کی ضد چھوڑ دے

 

آگ اپنا، پرایا نہیں دیکھتی

گھر کسی کا جلانے کی ضد چھوڑ دے

 

خود کو اونچا اٹھانا ہے تجھ کو اگر

سب کو نیچا دکھانے کی ضد چھوڑ دے

 

مان جا! دوستوں میں منافق بھی ہیں

سب سے مِلنے مِلانے کی ضد چھوڑ دے

 

کچھ پڑوسی بہت خوش ہیں بھائی مِرے

گھر میں دیوار اٹھانے کی ضد چھوڑ دے

 

یہ فضا مِل نہ پائے گی تجھ کو کہیں

گاؤں سے شہر جانے کی ضد چھوڑ دے

 

تجھ کو تڑپائے گی دوست! یادِ وطن

تو وطن چھوڑ جانے کی ضد چھوڑ دے

 

ٹوٹنا ہو گا اطہرؔ تجھے ایک دن

سچ جہاں کو بتانے کی ضد چھوڑ دے

 

 

 

عزّت، عظمت، دولت کتنے ایوانوں سے روٹھ گئی

آنکھ ذرا جو وقت نے بدلی فرزانوں سے روٹھ گئی

 

ان کے اصول اپنے ہوتے ہیں، ان کا بِکنا کھیل نہیں

سوچ الگ ہے دیوانوں کی احسانوں سے روٹھ گئی

 

آنکھ مِری بھر آئی ہے جب ہجر کے قصیّ میں نے سُنے

دھڑکن دل کی تیز ہوئی اور ارمانوں سے روٹھ گئی

 

دھوکا اپنوں سے کھایا تھا غیروں سے کیا لینا تھا

اتنی تھی حساس طبیعت، انسانوں سے روٹھ گئی

 

اس کے گھر میں برکت یارو! پھر کیسے آ پائے گی

نیت جس کی اپنے گھر کے مہمانوں سے روٹھ گئی

 

حکم شاہی کی شاید اس دور میں وقعت کوئی نہیں

فطرت اپنی اطہرؔ  شاہی فرمانوں سے روٹھ گئی

 

 

 

بھوک میں پلے بچّے جب جوان ہوتے ہیں

حوصلے زمینوں کے آسمان ہوتے ہیں

 

حادثے سفر میں جب بے امان ہوتے ہیں

حوصلے مسافر کے تب جوان ہوتے ہیں

 

خواب ٹوٹ جاتے ہیں بس پلک جھپکنے میں

زندگی میں ایسے بھی امتحان ہوتے ہیں

 

لاکھ ظلم سہہ کر بھی لب کُشا نہیں ہوتے

کیا جہاں میں ایسے بھی بے زبان ہوتے ہیں

 

جن کو ہم سمجھتے ہیں بوجھ ارضِ خاکی کا

اُن ضعیف کاندھوں پر آسمان ہوتے ہیں

 

میں غمِ زمانہ سے اے شکیلؔ واقف ہوں

میرے شعر لوگوں کی داستان ہوتے ہیں

 

 

 

 

اپنے ہونٹوں پہ تبسّم کو سجانے والے

اشک کر دیں نہ عطا تجھ کو زمانے والے

 

کچھ تعلق تو یقیناً ہے مِرے غم سے ترا

اپنی آنکھوں سے مِرے اشک بہانے والے

 

جگ ہنسائی کے لئے خود ہی بناتے ہیں فضا

اپنا غم سارے زمانے کو سنانے والے

 

اب ترستے ہیں بہاروں کو تو حیرت کیوں ہے

آپ ہی کل تھے ببولوں کو لگانے والے

 

تو نے دامن کبھی دیکھا نہیں شاید اپنا

انگلیاں مجھ پہ سرِ بزم اٹھانے والے

 

مجھ سے ٹکرائے تو کھائی ہے ہمیشہ ہی شکست

جب مقابل مِرے آئے ہیں زمانے والے

 

آج گُم گشتۂ منزل وہ ہوئے ہیں اطہرؔ

راہ، بھٹکے ہوئے لوگوں کو دکھانے والے

 

 

 

 

روز یہاں یادوں کا جیسے میلہ لگتا ہے

شہرِ ستمگر! تجھ میں سب کچھ اچھا لگتا ہے

 

عشق کی میرے جانے کون سی منزل ہے بابا

اپنی حالت پر اب رونا اچھّا لگتا ہے

 

جس کی آنکھیں ہجر میں میرے ساون بھادوں تھیں

اب وہ انساں مجھ کو پتھر جیسا لگتا ہے

 

ظلم و ستم کی سب تعمیریں کچّی ہوتی ہیں

بِن طوفاں بھی محل تمہارا گرتا لگتا ہے

 

بستی کے جانے کتنے گھر آگ کی بھینٹ ہوئے

سب آنکھوں میں اب کے ساون جیسا لگتا ہے

 

کم سے کم تم میری وفا کو نامِ غرض مت دو

اہلِ وفا کے دل کو لوگو! دھکّا لگتا ہے

 

جھوٹی تعریفیں تو سب کو اچھی لگتی ہیں

یہ بھی سچ ہے، سچ دنیا کو کڑوا لگتا ہے

 

 

 

وہ تو کیا چیز ہے ہر شخص بدل سکتا ہے

پیار کی آنچ سے پتھر بھی پگھل سکتا ہے

 

ظلمتوں کو مِری تقدیر نہ سمجھو لوگو!

یہ اندھیرا بھی اجالے میں بدل سکتا ہے

 

اک ذرا سوچ لے، پھر دست و گریباں ہونا

میں تو شعلہ ہوں، ترا ہاتھ بھی جل سکتا ہے

 

تم سدا کے لئے کمزور نہ سمجھو اِس کو

گرنے والا بھی کسی وقت سنبھل سکتا ہے

 

طنز، پر طنز کیے جاتی ہے دنیا مجھ پر

دل کا کانٹا کبھی کانٹے سے نکل سکتا ہے

 

اِن میں اک آگ بھی پوشیدہ ہے گلچیں سُن لے

نرم پھولوں سے ترا ہاتھ بھی جل سکتا ہے

 

نیک کردار وہ سانچہ ہے حقیقت میں شکیلؔ

جس میں ڈھل کر تو زمانے کو بدل سکتا ہے

 

 

 

چھوڑ جائے گی کہیں اِس کا بھروسا نہ کرو

زندگی سے کوئی گہرا کبھی رشتہ نہ کرو

 

جیسے اب ہو وہی کل ہو گے، یہ دعویٰ نہ کرو

خود پہ اتنا بھی تو اے دوست بھروسا نہ کرو

 

دل میں پتھر کے شرر تک نہیں بجھنے پاتے

بھول جانے کی مجھے کوششِ بے جا نہ کرو

 

اب تو ماضی سے بہت دور چلا آیا ہوں

جاؤ، گزرے ہوئے لمحو! مِرا پیچھا نہ کرو

 

کتنے ہی سانحے ہر گام چھپے بیٹھے ہیں

بھیڑ میں رُک کے مِری سمت اشارہ نہ کرو

 

رہ نہ جاؤ کہیں دنیا میں اکیلے اک دن

اپنے معیار پہ ہر شخص کو پرکھا نہ کرو

 

رازِ غم راز ہی رہنے دو کسی سے نہ کہو

دَرد کا اپنے کسی اور سے چرچا نہ کرو

 

وہ تمہیں اور نہ تم ان کو بھُلا پاؤ گے

بھول جانے کا شکیلؔ ان کو ارادہ نہ کرو

 

 

تم جب رہِ حیات کو پُر نور کر گئے

ہم وادیِ جنوں سے سلامت گزر گئے

 

دیکھیں کسی نے کب تری آنکھوں کی وحشتیں

الزام میرے چاک گریباں کے سر گئے

 

مدّت سے روشنی کی کوئی بھی کرن نہیں

لگتا ہے میرے گھر میں اندھیرے ٹھہر گئے

 

بیمارِ غم کو دیکھنے آئیں گے وہ کبھی

اِس آرزو میں ہم کو زمانے گزر گئے

 

رفتارِ وقت دیکھ رہے ہیں ابھی تو ہم

ایسا نہیں کہ وقت سے ہم لوگ ڈر گئے

 

ساحل پہ جب تھے ہم تو قیامت کا شور تھا

رکھتے ہی پاؤں بحر میں طوفاں ٹھہر گئے

 

اب ہم شکیلؔ جرأتِ پرواز کیا کر یں

آئی اِدھر بہار اُدھر بال و پر گئے

 

 

تو جو مجھ کو مِلا نہیں ہوتا

دل مِرا آئنہ نہیں ہوتا

 

پہلے ہوتا تھا دوستوں سے گِلہ

اب کسی سے گِلہ نہیں ہوتا

 

سب سے یکساں سلوک کرنا تھا

کوئی فتنہ بپا نہیں ہوتا

 

سامنا بزدلوں سے تھا ورنہ

تیرِ میرا خطا نہیں ہوتا

 

گھر میں بیٹھا ہوں ایک مدّت سے

اب کوئی حادثہ نہیں ہوتا

 

لوگ جتنے تھے ساتھ چھوڑ گئے

درد دل سے جدا نہیں ہوتا

 

کتنی دشوار زندگی تھی شکیلؔ

دھیان گر ایک کا نہیں ہوتا

 

 

 

اندھیری رات میں ڈوبے رہے ہیں غم خانے

ہمارے بعد چراغاں کِیا ہے دنیا نے

 

گھروں کو رکھ سکو محفوظ تو رکھو، ورنہ

بنا چکا ہے فلک بستیوں کے ویرانے

 

پھر آج شہرِ ستمگر کی سمت جاتے ہیں

صدائیں دیتے ہیں پھر بستیوں کو ویرانے

 

نہ رنگ و نور گُلوں پر، نہ دلکشی، نہ نکھار

بہار چپکے سے کیا کر گئی خدا جانے

 

جھٹک دیا ہے وہیں ہاتھ مصلحت نے مِرا

چلا ہوں گیسوئے دوراں کو جب بھی سلجھانے

 

رہِ طلب میں اک ایسا مقام بھی آیا

تمہیں بھی ہم تو خدا کی قسم نہ پہچانے

 

تمام عمر یہی کشمکش رہی اطہرؔ

سفر میں ساتھ جو ہیں، دوست ہیں کہ بیگانے

 

 

 

اب کِس کو کیا مِلا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

یہ کون دیکھتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

دل پھر سے جی اٹھا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

اک حوصلہ مِلا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

جینے کی تھی اُمنگ نہ مرنے کا حوصلہ

سب کچھ مجھے مِلا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

تو جیسے میرے خوابِ پریشاں کی دین ہے

محسوس یہ ہُوا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

بیشک قضا حیات سے بڑھ کر حسین ہے

مجھ کو یہ لگ رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

تو میرا کون ہے، مجھے یہ تو خبر نہیں

دل کو سکوں مِلا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

تیرے سِوا خدا سے نہ چاہوں گا کچھ کبھی

میں نے یہ طے کیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

خود کو شکیلؔ تو نے تماشا بنا لیا

ہر شخص ہنس رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 

 

راہِ دل سے یادوں کے آج قافلے نکلے

ساتھ جو ہمارے تھے غم وہ آپ کے نکلے

 

دوست جن کو دعویٰ تھا جاں نثار کرنے کا

سانپ آستینوں میں ان کی ہی چھپے نکلے

 

کون روک سکتا ہے سچ کو عکس بننے سے

پتّھروں کی بستی میں کتنے آئنے نکلے

 

جو حلف اٹھاتے تھے ساتھ ساتھ رہنے کا

وہ بھی تو وفاداری اپنی بیچنے نکلے

 

کس سے بند ہو پائے زندگی کے دروازے

ایک راہ چھوٹی تو کتنے راستے نکلے

 

ماسِوا تمہارے تھے اور بھی تو دیوانے

کیوں مِرا تماشہ ہی لوگ دیکھنے نکلے

 

آنسوؤں میں کل تک تھے تم بھی تر بتر اطہرؔ

آج وہ بھی بارش میں گھر سے بھیگتے نکلے

 

 

 

کبھی نادانیاں تیری، کبھی دانائیاں تیری

مجھے پاگل بنا دیں گی کرم فرمائیاں تیری

 

میں رسوائی سے گھبراتا نہیں لیکن یہ خدشہ ہے

مِری رسوائیوں کے ساتھ ہیں رسوائیاں تیری

 

تو اِک ایسا سمندر ہے کہ جس کی تہہ نہیں ملتی

کبھی تو جان پاتا دوست! میں گہرائیاں تیری

 

تجھے بھی چڑھتے سورج دیکھ لیں گے شام ہونے تک

اتر جائیں گی سینے میں ترے پر چھائیاں تیری

 

نظر آتی ہے شاخِ گُل لچکتی جب کہیں کوئی

اچانک یاد آتی ہیں مجھے انگڑائیاں تیری

 

انہیں دارائیوں سے منسلک ہے بندگی اب تو

خدا رکھے سلامت دوست! یہ دارائیاں تیری

 

ترے سپنوں کو آنکھوں میں لیے اطہرؔ یہ کیوں پو چھے

مِرے خوابوں سے کیا سجتی نہیں تنہائیاں تیری

 

 

 

کیا کِیا؟ ترکِ تعلق کا ارادہ کر کے

اور نزدیک ہوئے اُن کے ہم ایسا کر کے

 

میری منزل نہ کہیں تھی، نہ کہیں میں ٹھہرا

ہم سفر ہار گئے ہیں مِرا پیچھا کر کے

 

تیری رسوائی کا باعث نہ بنوں گا اے دوست!

میں چلا جاؤں گا خود تجھ سے کنارہ کر کے

 

راز داری کا مگر ظرف نہ دیکھا تم میں

رازِ دل تم سے کہا، تم پہ بھروسا کر کے

 

کیا کِیا ہم نے مروّت کی شعاعیں روکیں

اختلافات کی دیوار کو اونچا کر کے

 

مجھ کو اس شرط پہ منظور ہے رسوا ہونا

تم کو شہرت تو مِلے کچھ مجھے رسوا کر کے

 

جانے بر آتی ہیں کِس کِس کی مرادیں اطہرؔ

ہم تو نادِم ہوئے اظہارِ تمنّا کر کے

 

 

 

جو نظروں سے نہیں گزرے ہیں وہ منظر بناتا ہوں

خیالوں میں، مَیں اک دنیا نئی اکثر بناتا ہوں

 

مِری پرواز کو بادِ مخالف کیسے روکے گی

اُڑانوں کے لئے اپنی نئے امبر بناتا ہوں

 

امیرِ شہر قتلِ عام کروانے پہ کہتا ہے

میں بارش سے لہو کی، شہر کو بہتر بناتا ہوں

 

نئی دنیا کا جنگجو اپنی پسپائی پہ کہتا ہے

میں بارودی مشینیں جوڑ کر لشکر بناتا ہوں

 

پسِ رونق نظر آئیں وہ شر انگیزیاں اکثر

میں بستی چھوڑ، ویرانے میں اپنا گھر بناتا ہوں

 

مِری اب پتھروں کے شہر سے ہجرت نہیں ممکن

بدل لیتا ہوں اپنے آپ کو آزر بناتا ہوں

 

وہی گمراہ کرتا ہے مجھے کس واسطے اطہرؔ

جسے محسن سمجھتا ہوں، جسے رہبر بناتا ہوں

 

 

 

تلقین تیری! دِل کو مِرے پھر دُکھا نہ دے !

اے دوست! میرے مجھ کو کوئی مشورہ نہ دے

 

اک دن تو لَوٹ آئے گا، اُمید چھوڑ جا!

تنہائیوں میں جینے کی مجھ کو سزا نہ دے

 

اب کھڑکیوں کو مُوند لوں جھکنے لگی ہے رات

جھونکا کوئی چراغ کو میرے بجھا نہ دے

 

اپنی زمیں کو جبر و تشدّد سے پاک کر

سفّاک دل کو تاب و تواں اے خدا نہ دے

 

کِس کو خبر ہے کون کرے کیا معاملہ

رخصت کے وقت اپنا کسی کو پتا نہ دے

 

سُن اے ! امیرِ شہر مجھے دربدر نہ کر

میرے جنوں کی آگ ترا گھر جلا نہ دے

 

دنیا کا طور کیا ہے سمجھ لو اسے شکیلؔ

میں جس کو راہ دوں، وہ مجھے راستہ نہ دے

 

 

 

اس طرح یہ دن اپنے تیرگی میں ڈھلتے ہیں

معتبر تھے جو کل تک، رخ بدل کے چلتے ہیں

 

دوستوں سے کیا شکوہ، کیا گِلہ زمانے سے

وقت کے بدلنے سے آدمی بدلتے ہیں

 

آشنا ہیں سب لیکن، بس یہ دھیان رکھنا تم

ناگ جانے کتنوں کی آستیں میں پلتے ہیں

 

تم ہماری رِندی کو تہمتیں نہ دو لوگو!

بے پیے بہکتے ہیں، پی کے ہم سنبھلتے ہیں

 

زندگی کی راہوں میں، میَں کہاں اکیلا ہوں

حادثے زمانے کے میرے ساتھ چلتے ہیں

 

بے اثر نہ سمجھو تم آتشِ محبت کو

اس تپش میں پتھر بھی موم سے پگھلتے ہیں

 

کون کتنا بدلا ہے، کچھ خبر نہیں ہم کو

اے شکیلؔ اب تو ہم گھر سے کم نکلتے ہیں

 

 

 

تم جیسے بھی چاہو گے اب ویسے ہی جی لیں گے

ہم چاک گریباں کو ہر حال میں سی لیں گے

 

تم ترکِ تعلق کو مجبوری جو کہتے ہو

یہ زہر سہی لیکن ہم زہر بھی پی لیں گے

 

مَر جائیں گے فرقت میں سہہ سہہ کے اذیّت ہم

احسان تسلّی کا تم سے نہ کبھی لیں گے

 

جو دکھ ہیں زمانے کے وہ آپ ہمیں دے دیں

ہم درد کے طالب ہیں، راحت تو سبھی لیں گے

 

سیکھیں گے زمانے سے جینے کا سلیقہ ہم

پھولوں سے تبسم تو شبنم سے نمی لیں گے

 

جو شافعِؐ محشر ہیں، ایمان کا مظہر ہیں

انعام میں ہم اطہرؔ، اب اُن کی گلی لیں گے

 

 

 

آپ بچ کر مِری راہوں سے اگر جائیں گے

نقشِ پا میرے ہی پائیں گے، جدھر جائیں گے

 

وقت وہ آئے گا شکوہ نہ کرینگے ہم بھی

آپ بھی عہدِ وفا کر کے مُکر جائیں گے

 

میں بھی سمجھوں گا سنور جائے گی دنیا میری

اُس کے بکھرے ہوئے گیسو جو سنور جائیں گے

 

داستاں اپنی تباہی کی کسی کو نہ سُنا

سارے الزامِ تباہی ترے سر جائیں گے

 

ظلم کے سامنے سر اپنا جھکے گا نہ کبھی

یہ الگ بات کہ ٹوٹیں گے بکھر جائیں گے

 

کتنی جانیں گئیں اک آپ کی راحت کے لیے

اور سرکار! ابھی کِتنوں کے سر جائیں گے

 

چاند بھی چھپنے لگا، بجھنے لگے دیپ شکیلؔ

آپ اب کس کے لئے لَوٹ کے گھر جائیں گے

 

 

 

جتنے بھی زیرِ فلک انسان ہیں

فرشِ خاکی پر وہ سب مہمان ہیں

 

تم بھی رُخصت ہو گے گھر کو چھوڑ کر

ہم بھی بس کچھ روز کے مہمان ہیں

 

یاد کرتے ہیں، تو یاد آتے نہیں

کِس کے ہم پر کِس قدر احسان ہیں

 

لڑ رہے ہیں مذہبوں کے نام پر

لوگ آخر اتنے کیوں نادان ہیں

 

جانے کب آئے گا نادانوں کو ہوش

سر پہ منڈلاتے ہوئے طوفان ہیں

 

کرتے ہیں نفرت محبت بھول کر

اس زمانے کے بھی کیا انسان ہیں

 

تنگ دامانی پہ کیا رونا شکیلؔ

اپنے گھر کے آپ بھی سلطان ہیں

 

 

 

ہر ایک شخص کو دشمن اگر بناؤ گے

مزاج پوچھنے والا کہاں سے لاؤ گے

 

جو سب کو اپنے ہی معیار پر پرکھتے رہے

تو زندگی میں کسے ہم سفر بناؤ گے

 

چراغ جلنے لگیں گے تمہاری راہوں میں

جو دوسروں کے گھروں میں دیئے جلاؤ گے

 

یہ عہد تم سے اگر ہو سکے تو کر لینا

ہمارے بعد کسی کا نہ دل دکھاؤ گے

 

نہیں جھکو گے اگر اک خدا کے آگے تم

نہ جانے کتنے دروں پر یہ سر جھکاؤ گے

 

وہ تم سے روٹھ گئی جو مکاں کی رونق تھی

غریب خانے کو اب کس لئے سجاؤ گے

 

سپردِ خاک تو کر آئے ماں کو تم اطہرؔ

غموں کی دھوپ میں سایہ کہاں سے پاؤ گے

 

یہ بے حسوں کی ہے بستی تو پھر شکیلؔ یہاں

صداقتوں کا کسے آئنہ دکھاؤ گے

 

 

 

رُکے راستے میں جو ہم چلتے چلتے

تھا یہ بھی تمہارا کرم چلتے چلتے

 

محبت کوئی لفظِ متروک ہے کیا

رُکا کیوں تمہارا قلم چلتے چلتے

 

جدائی کو عرصہ ہُوا، اس گلی میں

ٹھٹکتے ہیں اب تک قدم چلتے چلتے

 

ہے دورِ غرض اس میں بہتر یہی ہے

نکل جائے جس کا بھی دم چلتے چلتے

 

خلوص و وفا، دوستی ہیں مسافر

بچھڑتے ہیں کتنے صنم چلتے چلتے

 

اکیلے سفر زندگی کا نہ کٹتا

نہ ملتے جو راہوں میں ہم چلتے چلتے

 

یہیں ہم کہیں رہ گئے تھے بچھڑ کر

ہوئی سوچ کر آنکھ نم چلتے چلتے

 

کوئی ہمسفر ہے نہ رہبر ہے اطہرؔ

مٹے دِل کے کتنے بھرم چلتے چلتے

 

 

 

کبھی ہم کو ہنسا دے گی، کبھی ہم کو رُلا دے گی

تری چشمِ کرم اَے دوست! دیوانہ بنا دے گی

 

قدم اپنا بڑھا کر دیکھ لو راہِ محبت میں

محبت تم کو آدابِ محبت خود سکھا دے گی

 

تعلق کو مِرے اے دوستو! نامِ غرض مت دو

روِش میری، تمہاری آنکھ سے پردہ اُٹھا دے گی

 

سہارا مانگتے ہیں ہم خدا کا وقت پڑنے پر

ہمیں معلوم ہے یہ نا خدائی ہم کو کیا دے گی

 

نہ دو اَے دوستو! تم مشورہ ترکِ تعلق کا

تمہاری غمگساری مجھ کو دیوانہ بنا دے گی

 

شکیلؔ افسردہ کیوں ہوتے ہو تم راہِ محبت میں

لگن دل کی یقیناً تم کو منزل سے مِلا دے گی

 

 

یاد تیری بڑی شرمیلی ہے، تب آئی ہے

جب یہ دیکھا ہے اکیلا ہوں میں، تنہائی ہے

 

یوں لگا جیسے مجھے یاد کیا ہے تم نے

بیٹھے بیٹھے جو طبیعت مِری گھبرائی ہے

 

اُس کی آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں آنسو میرے

ایک مدّت میں دعا میری اثر لائی ہے

 

ساتھ رہتا ہے مِرے سُکھ کے ہجومِ غم بھی

کیوں یہ کہہ دوں کہ اکیلا ہوں میں تنہائی ہے

 

آئنہ جب بھی دکھایا ہے تجھے ماضی کا

یہ شِکن کیوں ترے ماتھے پہ اُبھر آئی ہے

 

کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اطہرؔ اس کو

کیسے الزام لگا دوں کہ وہ ہرجائی ہے

 

 

 

تم نے تنقیدیں لکھی ہیں چاہتوں کے واسطے

ہم قصیدے لکھ رہے ہیں نفرتوں کے واسطے

 

جن سے کتراتے تھے کل ان چاہتوں کے واسطے

اب ترستے ہیں بہت ان صحبتوں کے واسطے

 

کاٹنی ہے فصل نفرت کی تمہی کو ایک دن

کل تمہی پچھتاؤ گے ان نفرتوں کے واسطے

 

یوں بھی اب لفظِ محبت سُن کے ڈر جاتا ہے دل

لوگ دیوانے ہوئے ہیں چاہتوں کے واسطے

 

نفرتوں سے ختم نفرت ہو نہیں سکتی کبھی

خون کے دریا بھی کم ہیں نفرتوں کے واسطے

 

رات دن پِسنا ہے بس گھر کی ضرورت کے لئے

کس سے شکوہ کیجیے اب مہلتوں کے واسطے

 

ماں کے قدموں کے تلے محفوظ تھیں اطہر شکیلؔ

عمر بھر کوشاں رہے جن جنتوں کے واسطے

 

 

 

غم اتنے زندگی میں اٹھانے پڑے مجھے

پلکوں پہ اپنی اشک سجانے پڑے مجھے

 

اس کی عنایتوں کے عوض میں نہیں تھا کچھ

سب قرض آنسوؤں سے چکانے پڑے مجھے

 

جن دوستوں نے زخم دیئے ان سے پوچھیے

کیوں دشمنوں سے ہاتھ مِلانے پڑے مجھے

 

تقسیم ہو رہے تھے تبسّم بھی اشک بھی

آنسو مِرا نصیب تھے لانے پڑے مجھے

 

اس کو کسی کے سامنے شرمندگی نہ ہو

اس ڈر سے اس کے ظلم چھپانے پڑے مجھے

 

رسوائیوں کے خوف نے یہ بھی کِیا شکیلؔ

اس نے جو خط لکھے تھے جلانے پڑے مجھے

 

 

 

دیکھی ہے خوشی ہم نے آلام بھی دیکھیں گے

ہم اپنی محبت کا انجام بھی دیکھیں گے

 

کہتے ہیں کہ رسوائی تقدیرِ محبت ہے

چاہت میں تری ہو کر بدنام بھی دیکھیں گے

 

امید تو کیا کیا تھی لیکن یہ خبر کب تھی

ہم خود کو محبت میں ناکام بھی دیکھیں گے

 

بے جا ہے بھرم دل کو سورج کے تصرّف پر

دیکھی ہے سحر ہم نے، اب شام بھی دیکھیں گے

 

کہتے ہیں جسے دنیا، گھر عیش و الم کا ہے

نغمے بھی سنے ہم نے کہرام بھی دیکھیں گے

 

آتی تھی نظر جس میں جمشید کو یہ دنیا

ہم ساقیِ میخانہ وہ جام بھی دیکھیں گے

 

انجام تو دیکھا ہے اوروں کا یہاں ہم نے

اب اپنی وفاؤں کا انعام بھی دیکھیں گے

 

 

کس کو رنج کہتے ہیں، کیسی شادمانی ہے

وہ بھی اک کہانی تھی، یہ بھی اک کہانی ہے

 

راس اس کو آتا ہے، دو دلوں کا ملنا کب

بے وفا زمانے کی ریت یہ پرانی ہے

 

دیکھ کر مجھے ساکت، میرا درد پہچانو!

خامشی مِری گویا، میری ترجمانی ہے

 

تیرے غم کو سینے سے یوں لگائے پھرتا ہوں

یہ تری عنایت ہے، یہ تری نشانی ہے

 

اپنے حال سے ہمدم، حال جان لے میرا

جو ترا فسانہ ہے، وہ مِری کہانی ہے

 

یہ سمجھ کے بھی لوگو! لڑ رہا ہوں طوفاں سے

ناؤ میری ساحل پر جاکے ڈوب جانی ہے

 

کیا خلوص ہوتا ہے، میرے بعد سوچیں گے

جیتے جی وفاؤں کی قدر کس نے جانی ہے

 

حال اَے شکیلؔ اپنا کس کو کیا بتائیں ہم

کوئی چوٹ تازہ ہے اور کوئی پرانی ہے

 

 

 

اک سوا میرے کسے اس کا پتا ہے یارو!

میرا گھر میرے چراغوں سے جلا ہے یارو!

 

اشک آنکھوں میں ہیں اور مہرِ خموشی لب پر

یہ بھی جیسے کوئی جینے کی سزا ہے یارو!

 

موت اور زیست میں کل اتنی قرابت کب تھی

اب سے پہلے کبھی ایسا بھی ہُوا ہے یارو!

 

ذہن میں جیسے کوئی خواب ہُوا ہو محفوظ

بے وفا دہر میں یوں نامِ وفا ہے یارو!

 

نا خدا بھی ہے خفا، تُند ہے طوفاں بھی بہت

اب تو کشتی کا نگہبان خدا ہے یارو!

 

کھویا کھویا سا نظر آتا ہے ہر وقت شکیلؔ

حال کیا اس کا محبت میں ہوا ہے یارو!

 

 

 

ایسے کئی مقام محبت میں آئے ہیں

روئے ہیں ہم کبھی، تو کبھی مسکرائے ہیں

 

کہتے رہے ہیں ہر کَس و ناکس سے اپنا غم

ہم نے ہی اپنی راہ میں کانٹے بچھائے ہیں

 

پہلی سی نکَہتیں ہیں نہ پہلی سی تازگی

اس بار فصلِ گُل نے عجب گُل کھِلائے ہیں

 

لوگوں نے کچھ فریب تو ہم کو دیے مگر

تھوڑے فریب ہم نے بھی دانستہ کھائے ہیں

 

مجھ کو گماں ہوا ہے کہ منزل قریب ہے

میرے قدم جہاں بھی کہیں لڑکھڑائے ہیں

 

طے ہو گا کس طرح یہ مسافت کا مرحلہ

انجان ہم سفر ہیں تورستے پرائے ہیں

 

چھوڑا گیا وفا کا نہ دامن کبھی شکیلؔ

دھوکے قدم قدم پہ بہت ہم نے کھائے ہیں

 

 

 

ایک مرکز پہ سب جو آ نہ سکے

چاہتوں کے دیے جلا نہ سکے

 

یوں محبت سے اُس کو رُخصت کر

جانے والا تجھے بھُلا نہ سکے

 

جُرم ہے جُرم، تشنگی اُس کی

بڑھ کے ساغر جو خود اٹھا نہ سکے

 

لاکھ محتاط ہر قدم پہ رہے

خود کو تہمت سے ہم بچا نہ سکے

 

پھول کی خستگی کو دیکھا تھا

عمر بھر ہونٹ مسکرا نہ سکے

 

کیا گریباں مِرا بچا پاتے

اپنا دامن بھی جو بچا نہ سکے

 

روز و شب حادثے ہوئے اطہرؔ

پر مِرے پاؤں ڈگمگا نہ سکے

 

 

 

بربادی مجھے اپنی یوں بھی تو گوارا ہے

کچھ میری تباہی میں اُن کا بھی اشارہ ہے

 

تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے

وہ ظرف تمہارا تھا، یہ ظرف ہمارا ہے

 

کیا نام دیا جائے اُس شخص کی فطرت کو

غر قاب کیا جس نے اُس نے ہی اُبھارا ہے

 

دشواریِ منزل سے یوں بھی نہیں ڈرتا ہوں

ہمراہ مِرے اُن کی یادوں کا سہارا ہے

 

بڑھتی ہی گئی دوری ساحل سے سفینے کی

یہ کیسا تموّج ہے، یہ کیسا کنارا ہے

 

دل نذر کیا جس نے دنیائے محبت میں

ہر بار غمِ دوراں اُس شخص سے ہارا ہے

 

طوفان سے ٹکرا نا فطرت ہے شکیلؔ اپنی

طوفان سے کچھ آگے دیکھا تو کنارا ہے

 

 

 

محبتوں کی ہے تعمیر ٹوٹ جائے گی

نہ ساتھ چھوڑ، یہ زنجیر ٹوٹ جائے گی

 

ہمارے صبر و تحمل کو ٹوک مت دینا

تمام عمر کی تعمیر ٹوٹ جائے گی

 

میں لکھ رہا ہوں مسلسل، جو آئی تیری یاد

تو یہ روانیِ تحریر ٹوٹ جائے گی

 

وہ زلزلہ ہے کہ دیوار و دَر لرزتے ہیں

یہ خوف ہے تری تصویر ٹوٹ جائے گی

 

تو جا نتا ہی نہیں میری سخت جانی کو

کِیا جو وار تو شمشیر ٹوٹ جائے گی

 

خلل پڑا جو کسی طَور محوِیت میں مِری

ترے خیال کی زنجیر ٹوٹ جائے گی

 

شکیلؔ راہ میں کانٹے بچھا رہے ہیں لوگ

غلط، کہ ہمتِ رہ گیر ٹوٹ جائے گی

 

 

 

دنیائے غم سے میرا کوئی واسطہ نہ تھا

جب تک رہِ طلب میں مجھے تو مِلا نہ تھا

 

مخلص تھا، با وفا تھا، محبت نواز بھی

بس اس میں یہ کمی تھی، کہ خوفِ خدا نہ تھا

 

بدلی تری نظر تو زمانہ بدل گیا

ایسا لگا کہ کوئی مِرا ہم نوا نہ تھا

 

شکوہ مجھے غلط تھا کہ منزل نہ مِل سکی

میں جس طرف چلا تھا اُدھر راستہ نہ تھا

 

سنسان کس قدر تھی نہ پوچھو رہِ وفا

حدِّ نگاہ کوئی بھی اپنے سوا نہ تھا

 

تم سے مِلا تھا عشق کا انجام سوچ کر

اپنی تباہیوں سے میں نا آشنا نہ تھا

 

پانے کی تجھ کو کوششیں ناکام ہو گئیں

میری ہتھیلیوں پہ کہیں تو لکھا نہ تھا

 

مجھ کو شکیلؔ بحرِ محبت کا پاس ہے

ڈوبا ہوں جان کر میں، مجھے ڈوبنا نہ تھا

 

 

 

اب نہیں ہے کوئی شکوہ نہ گِلہ، رہنے دو

مجھ کو خود میری ہی ہستی سے جدا رہنے دو

 

مِل چکے مجھ کو بہت زخم، کراہیں، آہیں

دوست اب اور وفاؤں کا صِلہ رہنے دو

 

کِس لئے کرتے ہو پیمانِ محبت، رسماً

کر نہ پاؤ گے وفا، عہدِ وفا رہنے دو

 

راس آ جائیں گے یادوں کے اجالے اک دن

مجھ کو فرقت کے اندھیرے میں پڑا رہنے دو

 

جیتے جی چین نہ مل پائے گا مجھ کو لوگو

اب مِرے واسطے جینے کی دعا رہنے دو

 

اور بڑھ جائے گی اس سے تو مِرے دل کی تڑپ

غمگساری کی نہ دو مجھ کو سزا رہنے دو

 

دل دعا کرتا ہے دشمن کے لئے بھی اطہرؔ

اپنا انداز زمانے سے جدا رہنے دو

 

 

ہر بد دعا پہ اُن کے لئے میں دعا کروں

میرا برا جو چاہیں، میں ان کا بھَلا کروں

 

مانے کوئی نہ مانے یہ فطرت نہیں مِری

اپنے بھلے کے واسطے سب کا برا کروں

 

تو مطمئن نہیں ہے کسی حال میں کہیں

اے زندگی بتا مجھے ! آخر میں کیا کروں

 

اک درد دے کے تم تو یہاں سے چلے گئے

مجھ سے کہو یہ قرض میں کیسے ادا کروں

 

دیکھوں خفا خفا سا تو کچھ اور لطف آئے

میں سوچتا ہوں پھر کوئی ایسی خطا کروں

 

خود سے تو منہ کو موڑنا آسان ہے مگر

کس دل سے میرے دوست! میں تجھ کو جدا کروں

 

بخشا امانتاً ہے مجھے اس نے جو شکیلؔ

اس درد کو بڑھاؤں کہ اس کی دَوا کروں

 

 

 

 

کیا ان کی یاد دردِ جگر ہوکے رہ گئی

کیوں آستین اشکوں سے تر ہوکے رہ گئی

 

اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہے نگاہ میں

دہلیز اس کی حدِّ نظر ہو کے رہ گئی

 

چاہا تھا اس کو دل میں رکھیں راز کی طرح

ظاہر وہ ہم سے بات مگر ہو کے رہ گئی

 

بچ کر مصیبتوں سے گزرتا گیا مگر

اِک عشق کی بَلا تھی جو سر ہو کے رہ گئی

 

مدّت سے ڈھونڈتی تھی کسی کو مِری نظر

ان کی طرف گئی تو اُدھر ہوکے رہ گئی

 

جانے سے اس کے دل کا سکوں کیا گیا شکیلؔ

دنیا ہی میری زیر و زَبر ہو کے رہ گئی

 

 

 

جانے کیوں اتنا مخالف ہے زمانہ میرا

نام میرے ہی فسانے سے مٹایا میرا

 

چل کسی ایسے جہاں میں کہ محبت ہو جہاں

زندگی مان لے اک بار تو کہنا میرا

 

راہ چلتا ہوں تو قدموں سے لپٹ جاتا ہے

ایک معصوم سا بچّہ ہے یہ سایہ میرا

 

جس سے منسوب سمجھتی ہے یہ دنیا مجھ کو

کاش وہ حال کبھی پوچھنے آتا میرا

 

جُرم چاہت کو سمجھ کر مجھے رسوا مت کر

کیوں دکھاتا ہے زمانے کو تماشا میرا

 

اک اشارے سے نئے دوست کے ٹوٹا اطہرؔ

کتنا نازک تھا مِرے دوست سے رشتہ میرا

 

 

 

 

 

اب ان سے، ان کی شرائط پہ رابطہ رکھنا

شکیلؔ ایسا تعلق بھی ہم کو کیا رکھنا

 

قدم قدم پہ سفر میں اذیّتیں ہیں بہت

دلوں کو صبر و تحمّل سے آشنا رکھنا

 

خلوصِ دل سے اگر ہو تو ٹھیک ہے ورنہ

محبتوں کی بِنا مصلحت پہ کیا رکھنا

 

گزر بھی سکتا ہے جھونکا بہار کی رُت کا

تُو شہرِ دل میں امیدوں کا دَر کھُلا رکھنا

 

سنوارنا تمہیں خود کو اگر نہیں ہے تو پھر

نظر کے سامنے بیکار آئنہ رکھنا

 

ہزار چاہا مگر تم نہ سیکھ پائے شکیلؔ

خیالِ یار دل و ذہن سے جدا رکھنا

 

 

جو لوگ زمانے سے وفا مانگ رہے ہیں

وہ رات کی ظلمت سے ضیاء مانگ رہے ہیں

 

کل ہم نے سکھائی تھی جنہیں شعلہ بیانی

افسوس کہ ہم ان سے نوا مانگ رہے ہیں

 

اب دَرسے ترے دیکھئے ملتا ہے ہمیں کیا

اوقات سے ہم اپنی سِوا مانگ رہے ہیں

 

رشتہ جو محبت سے وفا کا نہیں رکھتے

وہ بھی تو تعلق کی جزا مانگ رہے ہیں

 

وہ دوست نہیں، دشمنِ جانی ہے مگر ہم

اس شخص کے حق میں بھی دعا مانگ رہے ہیں

 

کس بات پہ روٹھے ہیں، شکیلؔ اُن سے یہ پوچھو

ہم اُن سے نہ کچھ اُن کے سوا مانگ رہے ہیں

 

 

 

دِل کے تُو ٹکڑے نہ کر، آنگن میں مت دیوار کر

ورنہ دریا کاٹ کر تلوار سے دو دھار کر

 

زندگانی ہے تری آسان یا دشوار کر

شاخِ گُل اس کو بنا لے یا اسے تلوار کر

 

توڑ دے غفلت کی نیندیں اب ہمیں بیدار کر

پھونک کر اک صورِ بیداری جگا، ہشیار کر

 

سر پٹک کر لَوٹ جائیں وسوسوں کی آندھیاں

پختگی لا فکر میں کوہسار سا کردار کر

 

اَے مسافر! آگ کا دریا ہے تیرے سامنے

مومیا کشتی نہ لے، فولاد بَن، پھر پار کر

 

زندگی کیا ہے تری، ریشم بھی ہے فولاد بھی

پھول رکھ آنگن میں گھر کے، جنگ میں تلوار کر

 

ایک گوشے میں کھڑے گونگے تماشائی بَنے

عمر بھر مَرتے رہے ہم زندگی سے ہار کر

 

مصلحت کیسی ہے آخر، کیا ہے مجبوری شکیلؔ

آئنہ جھوٹا نہیں ہے، آئنے سے پیار کر

 

 

 

عجب اُس شہر کا منظر رہا ہے

سبھی کے ہاتھ میں پتھر رہا ہے

 

بہت نزدیک جب دلبر رہا ہے

بچھڑ جانے کا تب بھی ڈر رہا ہے

 

عجوبہ یہ ہے میں زندہ ہوں لیکن

مِرے اندر کا انساں مر رہا ہے

 

کہاں پر آ گئی حوّا کی بیٹی

نہ وہ آنچل نہ وہ زیور رہا ہے

 

عجب خوشبو سی ہے ویران دل میں

کوئی مہمان میرے گھر رہا ہے

 

بنی ہے اُن سے ہی تاریخ، جن کا

شکستہ بورِیا بستر رہا ہے

 

 

میں عاصی ہوں، میں عاصی ہوں یہ مانا

مگر اشکوں سے دامن تر رہا ہے

 

غمِ دوراں جسے کہتی ہے دنیا

وہ فتنہ بھی ہمارے سر رہا ہے

 

اُسی بستی کو تم اب پھونکتے ہو

جہاں کل تک تمہارا گھر رہا ہے

 

نہیں تھا جب کوئی پُرساں ہمارا

غمِ دنیا ہمارے گھر رہا ہے

 

رہا دل کب مِرا جلوؤں سے خالی

نظر میں نِت نیا پیکر رہا ہے

 

تبھی آنکھوں میں تھے چاہت کے آنسو

بغل میں جب تری خنجر رہا ہے

 

فقیرِ بے اثاثہ ہے یہ اطہرؔ

کھُلا اِس کا ہمیشہ دَر رہا ہے

 

 

 

 

آپ سے کس نے کہا ہے آسماں بن جائیے

آئیے جلتے سروں پر سائباں بن جائیے

 

جس کی حد کوئی نہ ہو وہ سائباں بن جایئے

آیئے ! اور سر پہ میرے آسماں بن جایئے

 

میری رسوائی کو شہرت سے بدلنے کے لئے

آپ میری زندگی کی داستاں بن جایئے

 

تیز آندھی آنے والی ہے اُڑانے کو اگر

زرّہ زرّہ مِل کے اِک کوہِ گراں بن جایئے

 

بے زبانی ہی تو دیتی ہے ستم کو حوصلہ

آپ سے کس نے کہا ہے بے زباں بن جایئے

 

پھول کے کشکول میں بن جایئے شبنم کی بوند

ریگ زاروں کے لئے آبِ رواں بن جایئے

 

رات کتنی منجمد ہے اُن سے اب کہیے شکیلؔ

سرد بستر پر مِرے آتش فِشاں بن جایئے

 

 

 

ہوش مندوں میں اِسے ڈھونڈ نہ فرزانوں میں

اب وفا ملتی ہے اپنوں میں نہ بیگانوں میں

 

اپنے ہاتھوں جو جلا دیتے ہیں گلشن اپنا

سر پھرے ایسے نہ دیکھے کہیں دیوانوں میں

 

بَن کے واعظ سہی دو چار قدم آئے تو

شیخ صاحب نظر آنے لگے میخانوں میں

 

اب کہاں جائیں کہ دل اپنا بہلتا ہی نہیں

گاؤں میں، شہر میں، بستی میں نہ ویرانوں میں

 

زندگی اپنی بنا لیں گے ہر اک غم کو شکیلؔ

غم سے گھبرا کے نہیں جائیں گے میخانوں میں

 

 

 

میں سِدھارا تو یہاں کس کی نظر جائے گی

دُور تک ساتھ مِرے گردِ سفر جائے گی

 

میرے کہنے سے نہ ٹھہری ہے نہ ٹھہرے گی کبھی

زندگی خود کسی مرکز پہ ٹھہر جائے گی

 

جرعۂ مے بھی علاجِ غمِ دوراں نہ ہُوا

تلخئی زیست میں سمجھا تھا اُتر جائے گی

 

تم کو معلوم ہے ؟ الزام تم ہی کو دے گا

میری بربادی پہ جس کی بھی نظر جائے گی

 

دھڑکنیں اور سِوا ہو گئیں تم سے مِل کر

میں یہ سمجھا تھا کہ اب رات گزر جائے گی

 

آپ احسان کی تکلیف گوارا نہ کریں

زندگی جیسے بھی گزرے گی گزر جائے گی

 

کون دنیا میں شکیلؔ اُن کے کرم دیکھے گا

میرے مِٹ جانے کی تہمت مِرے سر جائے گی

 

 

 

 

کہیں خوشیوں میں رہتا ہے، کسی کے غم میں رہتا ہے

وہ سج دھج کر سدا اخبار کے کالم میں رہتا ہے

 

یہاں اک دوسرے کا دَرد ہے ہونٹوں کی جنبش تک

میں اپنے غم میں رہتا ہوں، وہ اپنے غم میں رہتا ہے

 

سمندر! اے سمندر! تیرے طوفانوں پہ ہے بھاری

یہ اک قطرہ جو میرے دید ۂ پُر نم میں رہتا ہے

 

فقط اک بوند پانی میں سمٹ جاتا ہے نور اُس کا

کوئی دیکھے تو سورج قطرۂ شبنم میں رہتا ہے

 

بدل کر بھیس اپنا بھسم کر دیتا ہے بستی کو

وہ پہچانا ہوا چہرہ جو اکثر ہم میں رہتا ہے

 

غضب کی سِلوٹیں پڑتی ہیں سطحِ آب پر اطہرؔ

سمندر لمحہ لمحہ کرب کے عالم میں رہتا ہے

 

 

آشنا سا یہ پسِ دیوارِ زنداں کون ہے

مجھ میں ہی پوشیدہ میرا مونسِ جاں کون ہے

 

روکتا ہے کون ہر لغزش سے پہلے میرے پاؤں

ذات کے اندر مِری میرا نگہباں کون ہے

 

اس کے ہاتھوں میں ہیں پتھر میرے دامن میں گلاب

اب یہ دنیا طے کرے گی گُل بداماں کون ہے

 

بارہا تو نے پڑھی میری کتابِ زندگی

تو بتا تیرے علاوہ میرا عنواں کون ہے

 

کم نہیں وحشت میں اپنی ابنِ آدم آج بھی

آدمی کہتے ہیں جس کو تب یہ حیواں کون ہے

 

میرے جیسے ان گِنت ہیں، کیوں کہوں، کیسے کہوں ؟

پھر بھی مجھ جیسا زمانے میں پریشاں کون ہے

 

سامنے کوئی نظر آتا نہیں جب اَے شکیلؔ

پھر صدا دیتا سرِ گورِ غریباں کون ہے

 

 

 

 

نہیں جو ذکر مِرا آپ کے فسانے میں

تو کیا جھجھک ہے مجھے، رازِ دل سنانے میں

 

ترا خیال رہا ہے قدم قدم ہمراہ

قدم قدم پہ مِرا حوصلہ بڑھانے میں

 

ان ہی نے راہ دکھائی ہے زندگی کی مجھے

جو حادثات مِلے منزلوں کو پانے میں

 

بزرگ جس کے فنا ہو گئے صداقت پر

جھجھک رہا ہے وہ آوازِ حق اٹھانے میں

 

ہر ایک شخص محبت سے یوں تو ملتا ہے

ہم اعتبار کریں کس کا اِس زمانے میں

 

ہزار بار جنہیں آزما کے دیکھ لیا

گنواؤ وقت نہ اب ان کے آزمانے میں

 

شکیلؔ کس لیے محروم رہ گیا یا رب

وگرنہ کون کمی تھی ترے خزانے میں

 

 

 

 

آج نادم ہیں گناہوں پہ تو رو لیتے ہیں

اپنے دامن پہ لگے داغوں کو دھو لیتے ہیں

 

نفرتیں بانٹنے والو ! یہ سمجھ لو اک دن

کاٹنا پڑتا ہے وہ ہم کو، جو بو لیتے ہیں

 

ہار کی طرح گلے میں ہیں ترے غم اب تک

کوئی دکھ تجھ سے مِلے اس میں پرو لیتے ہیں

 

حال اپنا بھی ہے اب تو کسی بچے کی طرح

ہسنے لگتے ہیں، ذرا دیر میں، رو لیتے ہیں

 

رات بھر جاگ کے کرنا ہے سفر اے اطہرؔ

اس لیے آج ذرا دن میں ہی سو لیتے ہیں

 

 

گِلے تمام ہوئے ان سے گفتگو ہو کر

وہ آ گئے مِرے پہلو میں، تم سے، تو ہو کر

 

کسی یتیم سے بچے کی آرزو ہو کر

حیات کاٹ دی کس نے ؟ لہو‘ لہو‘ ہو کر

 

کہاں وہ جذبۂ پاکیزہ اور کہاں یہ دل

لگایا دل سے مجھے اُس نے با وضو ہو کر

 

تمام عمر رہے ساتھ اس کا ربِّ کریم

دعا یہ کرتے ہیں ہم آج قبلہ رُو ہو کر

 

زمانہ کوئی بھی‘ کیسا بھی ہو ادب کے طفیل

رہیں گے ہم بھی غزل! تیری آبرو ہو کر

 

ہیں دُور رہنے پہ شکوے، شکایتیں،  اطہرؔ

وہ کب گِلہ کوئی کرتے ہیں رُو برو ہو کر

 

 

دلوں کے ساتھ ہی شانے تھِرکنے لگتے ہیں

ادائے ناز سے آنچل ڈھلکنے لگتے ہیں

 

ہَوا کے دوش پہ خو شبو تمہاری آتی ہے

تمہارے آنے سے رستے مہکنے لگتے ہیں

 

تمام عمر انھیں منزلیں نہیں مِلتیں

وہ جن کے حوصلے راہوں میں تھکنے لگتے ہیں

 

لِیا بھی کرتی ہے یہ امتحاں خیال رہے

کہ دولت آ نے سے پا وٗں بہکنے لگتے ہیں

 

زمانہ بیت گیا پھر بھی اک تصور سے

پرانے زخم ابھی تک مہکنے لگتے ہیں

 

جو ساتھ بیٹھ لیں اپنے اہالیانِ وطن

سیاسی لوگوں کے ماتھے ٹھنکنے لگتے ہیں

 

نہیں ہے اس میں خطا کوئی اس کی اے اطہرؔ

جو کم بھرے ہوں وہ برتن چھلکنے لگتے ہیں

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید