سلسلۂ روز و شب
ڈاکٹر سلیم خان
حصہ سوم
فہرست مضامین
- یہاں لوگ نقشِ قدم دیکھتے ہیں
- مری وفا پہ کبھی انحصار مت کرنا
- جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا
- تبت کی آفت
- شاخِ نازک پہ آشیانہ
- آ گ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
- یوروپی انتہا پسندی و دہشت گردی
- اک نئے عہد کی تعمیر کا موسم آیا
- شیشہ ہو کے موتی جام کہ در جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
- گاندھی جی کی عینک
- گاندھی جی کے بندر
- انسان کے اندر چھپا ہوا بندر
- تعلیم کی سیاست اور تجارت
- بچوں کو بچوں کی نظر سے دیکھو
- جرأتِ انحراف
- احسانِ غزل اصل میں عرفانِ غزل ہے
یہاں لوگ نقشِ قدم دیکھتے ہیں
(قسط دوم)
صدر براک اوبامہ ہندوستان کے دورے پر آندھی کی مانند آئے اور طوفان کی طرح نکل گئے گویا ہوا سے نمودار ہوئے اور ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ اپنے اس طوفانی دورے میں انہوں نے مندرجہ ذیل پانچ کام کئے :
• سیرو سیاحت
• رقص و سرود
• تعلیم و تربیت
• تجارت و معیشت
• سیاست ونصیحت
جہاں تک سیروتفریح کا سوال ہے جب شمالی امریکہ میں موسمِ سرما اپنی غضب ناکی دکھلانے لگتا ہے تو خوشحال امریکی گرم ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اس طرح ہزاروں امریکی سیاح ہندوستان بھی آ جاتے ہیں ان میں اوبامہ خاندان کے اضافہ سے کو ئی خاص فرق نہیں پڑا سوائے اس کے کہ اوبامہ کی رہائش اورسفر کے دوران تحفظ کے پیشِ نظر عوام کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور عام لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر یہ مصیبت کیوں ہم پر مسلط ہو گئی؟ اگر یہ وہیں امریکہ میں بیٹھے بیٹھے ان لوگوں کو بلوا بھیجتا جن سے ملنے کی غرض سے یہاں آیا تھا تو یہ تمام لوگ سر کے بل حاضر ہو جاتے اور ہماری جان چھوٹتی۔ ہمیں تو یہ سب ڈرامہ ٹی وی کے پردے پر دیکھنا تھا سو ہم دیکھ لیتے اور خوش ہو جاتے۔ ہمارے لئے اور خود ان کے لئے دہلی اور واشنگٹن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ناچ رنگ کی خاطر دیوالی کے تہوار کا مہورت نکالا گیا۔ حالانکہ اس کام کے لئے اگر امریکہ سے محترمہ مشعل اوبامہ کے بجائے مائیکل جیکسن کی بہن جینٹ جیکسن تشریف لاتیں تو عوام زیادہ محظوظ ہوتے۔ جہاں تک تجارت و معیشت کا سوال ہے اس کے لئے بھی امریکی صدر کو زحمت گوارہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی یہ کام تو ایک اعلیٰ سطحی تجارتی وفد بخیر و خوبی کر سکتا تھا۔ دھندہ بیوپار کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس کا دار و مدار عہدہ و منصب کے بجائے منافع پر ہوتا ہے۔ اگر فائدہ ہو تو چپراسی کو بھی سلام کیا جاتا ہے اور نقصان ہو رہا تو صدر مملکت سے بھی منہ پھیر لیا جاتا ہے۔ براک اوبامہ سنا ہے کچھ عرصہ تعلیم و تدریس کے پیشے سے بھی جڑے رہے اس لئے اپنے اس پرانے شوق کو پورا کرنے کی خاطر پروفیسر براک اوبامہ سینٹ زیویرس کالج پہونچ گئے جہاں انہیں طلباء سے نہ صرف خطاب کرنا تھا بلکہ ان کے سوالات کا جواب بھی دینا تھا، ذرائع ابلاغ نے ملک کے عوام کو براک اوبامہ کے حوالے سے جن خوش فہمیوں کا شکار کر رکھا تھا اس کا غبارہ وہاں جانے کے بعد اس وقت پھوٹ گیا جب ایک لڑکی نے سوال کر دیا کہ امریکہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست کیوں نہیں قرار دیتا؟ اس سوال کا جواب نہ تو اوبامہ مثبت ہی دے سکتے اور نہ منفی اس لئے انہوں نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ پاکستان کا استحکام خود ہندوستان کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ کا ش کہ اوبامہ پر سیاسی مجبوریوں کا دباؤ نہ ہوتا اور وہ اس سوال کا کھرا کھرا جواب دے پاتے۔ اس جواب کو سن کر بیچارے بی جے پی والے بھی آتش کا یہ شعر گنگنانے پر مجبور ہو گئے ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
صدر صاحب کی مصروفیات میں آخری نمبر پر سیاست و نصیحت کی ذمہ داری تھی جس کی ادائے گی کے لئے انہیں ملک کے ایوانِ بالا اور زیریں کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کرنا تھا۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس کے لئے امریکی صدر کا آنا ضروری تھا اور غالباً یہی وہ کام تھا جس کے لئے جنابِ صدر وارد ہوئے تھے۔ براک اوبامہ امریکہ کے چوتھے صدر ہیں جنھیں اس اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ان کے پیش رو دونوں صدور کا تعلق ڈیموکریٹس پارٹی سے تھا اور وہ ہندوستان کے سوشلزم سے کنارہ کش ہونے کے بعد نازل ہوئے تھے لیکن آزادی کے فوراً بعد پنڈت نہرو ہی کے زمانے میں جبکہ سرد جنگ زور و شور سے جاری تھی اور ہندوستان کا جھکاؤ امریکہ کے مخالف سوویت یونین کی جانب تھا اس کے باوجود ریپبلکن پارٹی کے صدر آئزن ہاور کو ایوان سے خطاب کا موقع دیا گیا۔ اس وقت آئزن ہاور کھلی گاڑی میں بیٹھ کر ایوان میں آئے اور عوام و خواص سب نے دل کھول کران کا خیر مقدم کیا۔ ہندوستانیوں کی امریکی مرعوبیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ براک اوبامہ کے پارلیمانی خطاب سے قبل پارلیمانی امور کے وزیر نے ممبرانِ ایوان کو متنبہ کیا کہ مہمان کی موجودگی کے دوران وہ اپنے عزت و وقار کا پاس و لحاظ رکھیں۔ جناب پون کمار کو حاضرین سے کسی بدتمیزی کی توقع ہر گز نہیں تھی اس لئے کہ ’ایسے مہا پاپ کی کلپنا بھی اسمبھو ہے ‘ بلکہ ۲۰۰۰ء میں بل کلنٹن سے مصافحہ کرنے کی خاطر پارلیمنٹ کے ممبرس جس طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے تھے اس منظر کا اعادہ دوبارہ نہ ہو جائے اس اندیشے کے پیشِ نظریہ یاددہانی کرائی گئی۔ ایوان کی صدر میرا کماری نے اس نوٹس پر اعتراض کیا تو انہیں مطمئن کرنے کی خاطر اس وقت کی ویڈیو دکھلائی گئی۔ اس طرح غلامانہ ذہن کے حامل ممبرانِ پارلیمان کیا اپنے آقا و مالک کی تقریر کا جائزہ لیں گے اور زر خرید ذرائع ابلاغ جس نے اپنے ضمیر کو نیلام کر دیا ہے کس منہ سے اوبامہ کی تقریر کا پوسٹ مارٹم کرے گا۔ ان بیچاروں پر قابل اجمیری کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے ؎ (شاعر سے معذرت کے ساتھ)
مقاماتِ فکر و نظر کون سمجھے، یہاں لوگ نقشِ قدم دیکھتے ہیں
بصد رشک امریكی آوارگی کو ، غزالانِ دیر و حرم دیکھتے ہیں
ہندوستان اپنی تمام تر ترقی پذیری بلکہ بقول اوبامہ ترقی یافتگی کے باوجود ایک قدیم روایت پسندملک ہے یہاں اب بھی ہر کام شبھ مہورت کو نکال کر کیا جاتا ہے۔ فلمی دنیا ہو سیاست کا میدان جنتری کی مدد کے بغیر کوئی پروگرام نہیں بنایا جا تا۔ مندر بنانے سے قبل اگر شیلا نیاس کیا جاتا ہے تو تھیٔٹر بنانے سے پہلے بھومی پوجا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ارجن سنگھ جیسا روشن خیال رہنما بھی اپنے دورِ اقتدار میں چھٹی کے دن الکشن کمیشن کا دفتر کھلوا کر اپنا کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتا ہے تاکہ ستاروں کی گردش کے عتاب سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔ کاش کے صدر اوبامہ بھی اپنے ہندوستان کے دورے کا مہورت کسی ماہر نجومی سے نکلواتے تو شاید وسط مدتی انتخاب میں اس زبردست ناکامی کے بعد یہاں نہ آتے۔ صدر براک اوبامہ نے ممبئی میں جو دو دن ضائع کئے اس کے متعلق ایک قیاس آرائی یہ بھی ہے کہ وہ دراصل چھٹیاں منا رہے تھے۔ جمہوری نظام میں سیاستدانوں کا سب سے اہم کام انتخاب لڑنا ہوتا ہے اور اسی کام کو وہ نہایت محنت و لگن کے ساتھ کرتا ہے۔ صدر اوبامہ بھی گزشتہ ماہ کانگریس (امریکی پارلیمان)کے انتخابی مہم میں مصروف تھے اور ظاہر ہے اس زبردست محنت و مشقت نے انہیں تھکا دیا ہو گا اس لئے اس دوڑ دھوپ کے بعد نتائج سے قطع نظر سرکاری خرچ پر چھٹی منانے کی خاطر صدر صاحب نے ایشیا کا یہ دورہ ترتیب دیا تاکہ کچھ غم غلط ہو جائے دل بہل جائے، گھریلو سیاست سے کچھ وقت کے لئے چھٹکارہ ملے اور یقینی ناکامی کی جانب سے ذرائع ابلاغ کی توجہ ہٹا کر انہیں ایک نیا موضوع فراہم کر دیا جائے تاکہ عوام اسے بھول جائیں لیکن صدر اوبامہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانے سے مسائل حل نہیں ہو جاتے بلکہ ایسا کرنے سے اکثر ان کی پیچیدگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جہاں تک امریکی اخبارات کا تعلق ہے صدر اوبامہ کی ہندوستان میں آمد کو کسی بڑے اخبار نے اپنی شاہ سرخی میں جگہ نہیں دی۔ کچھ نے پہلے صفحہ پر نیچے ایک تصویر لگانے پر اکتفا کیا تو کچھ نے ایسا کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ امریکی عوام آج بھی اپنے بنیادی مسائل سے پریشان ہیں انتخابی مہم کے دوران اوبامہ معاشی مسائل کے لئے جارج بش کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے اور درمیان نام نہاد یمنی بموں کا تماشہ بھی کیا لیکن عوام ان کے جھانسے میں نہیں آئے وہ تو گویا اوبامہ سے کہہ رہے تھے ؎
نہ اِدھر اُدھر کی تو بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
امریکہ کا سیاسی نظام بظاہر جیسا سیدھا سادہ نظر آتا ہے حقیقت میں ویسا ہے نہیں۔ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے عوام چونکہ براہِ راست سربراہ کا انتخاب کرتے ہیں اس لئے صدر محترم کو سارے اختیا رات حاصل ہو تے ہیں یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ امریکی صدر بھی ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کے آگے اسی طرح مجبور و لاچار ہوتا ہے جس طرح عوام ان سب اداروں کے سامنے بے یارو مددگار ہوتے ہیں۔ جمہوری نظامِ سیاست کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس میں عوام کو اپنے غم و غصہّ کے اظہار کا بھر پور موقع بار بار حاصل ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے علاوہ کچھ اور ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے وہاں پر صدارتی انتخاب تو ہر چار سال بعد ہوتا ہے لیکن ایوان کے انتخابات ہر دوسال میں ہوتے ہیں اوراس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ناراض عوام اپنی گزشتہ غلطی کا کفارہ ادا کرتے ہوئے صدر کی مخالف جماعت کو ایوان میں اکثریت سے نواز دیتے ہیں۔ ایسا کر کے وہ اپنے آپ کو نہ صرف اپنے سربراہ کے شر سے محفوظ کرنے کی ایک کو شش کر تے ہیں بلکہ اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ جارج بش کے آخری زمانے میں دونوں ایوان ان کے مخالف ڈیموکریٹس کے قبضہ میں تھے اور یہ لوگ ان کی پالیسیوں کی بھرپور مخالفت کیا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈیموکریٹس نے اقتصادی بحران سے ملک کو ابھرنے نہیں دیا اور اس کا فائدہ اٹھا کر ری پبلکن کو صدارتی انتخاب میں ناکام کر دیا۔ براک اوبامہ امریکی عوام کے لئے امید کی ایک کرن بن کر نمودار ہوئے تھے۔ اوبامہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کی جماعت کو دونوں ہی ایوانوں میں اکثریت حاصل تھی لیکن افسوس کہ انہوں نے اس نادر موقع کو گنوا دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنے ابتدائی ایام میں وہ عوام کی فلاح و بہبود کی جانب خاص توجہ دیتے قوم کو معاشی کساد بازاری سے نکالنے کی بھرپور جدو جہد کرتے اور عوام کے اندر پائی جانے والی بے روزگاری کو کم کرنے کی کو شش کرتے تاکہ عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو لیکن انہوں نے بھی اپنے پیش رو جارج بش کی مانند اندرونِ ملک کے بجائے بیرونی دنیا کا ناٹک شروع کر دیا وہی پرانا دہشت گردی کا راگ، وہی افغانستان کے عزائم، فوجوں میں اضافہ، ڈرون کے حملے اور قاہرہ میں نمائشی تقریر وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ اس بار عوام پریشان زیادہ تھے اور ان کی توقعات کافی بڑھی ہوئی تھیں اس لئے مایوسی میں اضافہ بھی اسی قدر تیزی کے ساتھ ہوا۔ ری پبلکن کو سرمایہ داروں کی جماعت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اس نے خزانہ کے خالی ہونے کے باوجود ٹیکس میں کمی کر کے صنعت کاروں کی خوشنودی حاصل کی تھی ڈیموکریٹس نے اس کی مخالفت تو کی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ٹیکس کی اس ناروا سہولت کو ختم کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ اوبامہ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران عوام کی فلاح و بہبود کے پیشِ نظر صحت عامہ کا ایک بل پیش کرنے کا وعدہ کیا لیکن ایوان میں اس کی منظوری کو ٹالتے رہے یہاں تک کہ انتخاب آن دھمکا اور اس میں کامیابی کے بعد ری پبلکن نے اس کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ کاش کہ اوبامہ اس بل کی توثیق اس وقت کرا چکے ہوتے جب ان کو دونوں ایوانوں میں نہ صرف واضح بلکہ دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ ایوانِ زیریں میں ری پبلکن کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے اور ایوانِ بالا میں گو کہ ڈیموکریٹس کو معمولی اکثریت حاصل ہے لیکن دستوری ترمیم کے لئے وہ ناکافی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ صدارتی انتخاب میں اس صورتحال کا فائدہ بھی ریپبلیکن پارٹی کو ہی ہو گا بلکہ اگر اوبامہ کی مقبولیت میں کمی کی یہ شرح قائم رہی تو ممکن ہے آئندہ انتخاب میں ڈیموکریٹس ان کے بجائے کسی نئے چہرے کو میدان میں اتاریں اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ براک اوبامہ کے لئے بہت بڑی رسوائی کا باعث ہو گا۔
جمہوری نظام کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس کا باطن و ظاہر یکساں نہیں ہوتا جو کچھ باہر نظر آتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا مثلاً بیرونی دنیا کے لئے امریکی طاغوت ایک اکائی ہے۔ لیکن اندرونِ ملک ایسا نہیں ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کی مخالفت چند لوگ کرتے ہیں مثلاً القاعدہ اور طالبان، شمالی کو ریا یا برازیل، ایران و شام، حماس، حزب اللہ، اخوان المسلمون اور جماعتِ اسلامی وغیرہ لیکن امریکہ کے اندر اوبامہ کے دو دشمن اورہیں ایک تو حزبِ اختلاف جو چاہتا ہے کہ اوبامہ اپنی کوششوں میں ناکام ہو جائے اور اس کا فائدہ اٹھا کر وہ آئندہ انتخاب میں پھر بر سرِ اقتدار آ جائیں اور دوسرے خود اوبامہ کی اپنی پارٹی ڈیموکریٹس کے اعلیٰ رہنما مثلاً ہیلری کلنٹن جو گزشتہ بار امیدوار بننے سے چوک گئی تھیں۔ انہیں قوی امید ہے اوبامہ کی ناکامی ان کے لئے نیک شگون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سیاسی رسہ کشی کا سیدھا فائدہ ان سرمایہ داروں کو ہوا ہے جوٹیکس کی کٹوتی کو باقی رکھنا چاہتے تھے اور نقصان ان عوام کا ہوا جو صحتِ عامہ کی سہولت سے بہرہ ور ہونا چاہتے تھے۔ سرمایہ دار ذرائع ابلاغ پر بے دریغ خرچ کر کے اوبامہ کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں لگے ہوئے ہیں ری پبلکن پارٹی اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور عوام اس کا خسارہ برداشت کر رہے ہیں۔
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ری پبلکن پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھی اور ڈیموکریٹس کا گدھا ہے۔ جی ہاں گدھا۔ اگر ہندوستان میں یہ نشان الکشن کمیشن کسی جماعت کو عطا کر دے تو وہ ہتک عزت کا دعویٰ کر دے اس لئے اس پارٹی کا نشان ہی بذاتِ خود اس کی حقیقت کا بیان بن جائے گا لیکن امریکی جمہوریت کا کیاکہنا کہ اس کا گدھا بھی نہ صرف امریکی عوام بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کا منظورِ نظر ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوری نظام ایک چار پیروں والا خونخوار جانور ہے جس کی اگلی دو ٹانگیں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف جماعتیں ہیں اور پچھلی دو ٹانگیں عوام و خواص (سرمایہ دار ) ہیں۔ یہ نظام ساری دنیا میں اسی لئے مقبول و معروف ہے کہ اپنی آمد سے قبل یہ عوام کو آمریت اور ملوکیت سے خوفزدہ کر کے ان کی بصیرت چھین لیتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ اندھوں کے درمیان ہاتھی والی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی اسے پوری طرح نہیں دیکھتا ہر کوئی اس کے کسی ایک حصہ کو چھو کر ایسی قیاس آرائی کرتا ہے جو نہ صرف مختلف و متضاد بلکہ خلافِ حقیقت بھی ہوتی ہے۔ فتنہ دجال سے متعلق ایک روایت میں آتا ہے کہ اس کے پاس آگ اور پانی دونوں ہوں گے لیکن آگ برف کی مانندسرد اور پانی شعلہ کی طرح گرم ہو گا۔ گویا وہ ایک فریبِ نظر ہو گا کہ لوگ اس کے قریب اپنی ٹھنڈ سے نجات حاصل کرنے کی خاطر آئیں گے تو ٹھٹھر کر رہ جائیں گے اور جب اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس کی جانب لپکیں گے تو جھلس جائیں گے۔ جمہوری نظام اس دجالی فتنہ سے کسی قدر مشابہ ہے کہ اس میں عوام کے سامنے دو متبادل ہوتے ہیں ایک کی گرمی ان کی پیاس بڑھاتی ہے اور دوسرے کی سردی اس کے دانت بجاتی ہے۔ وہ ایک سے پریشان ہو کراس امید میں دوسرے کی جانب لپکتے ہیں کہ شاید اس کے پاس ان کے غم کا مداوا ہو لیکن جب قریب پہونچتے ہیں تو اپنی پریشانی میں کمی کے بجائے اضافہ پاتے ہیں اب پھر مایوس ہو کر پہلے کی جانب پلٹنے کے سوا کوئی اور چارۂ کار نہیں ہوتا۔ اس دوڑ دھوپ میں کبھی ان کا جسم ٹھٹھرتا ہے تو کبھی ان کا وجود جھلستا ہے اس لئے کہ عوام بیچارے آگ نما پانی اور پانی نما آگ کو تو دیکھتے ہیں لیکن اس دجال کو نہیں دیکھتے جو اپنے ساتھ انہیں لے کر آیا ہے۔ جمہوری نظام کے ہاتھی والے اور گدھے والے آگ اور پانی کا فریب بیچتے ہیں اسی لئے عوام کے مسائل سلجھنے کے بجائے الجھتے چلے جاتے ہیں بقول قابل اجمیری ؎
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے، فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
٭٭٭
مری وفا پہ کبھی انحصار مت کرنا
(قسط سوم)
صدر براک اوبامہ کے ہندوستانی دورے کی گر د و غبار وقت کے ساتھ بیٹھنے لگی ہے اور ذرائع ابلاغ کا جادو جو سر چڑھ کر بول رہا تھا اب زائل ہو نے لگا ہے۔ بے شمار نمائشی سرگرمیاں (شوبزنس کے تحت) ان کے دورے سے منسلک کر دی گئی تھیں اس لئے عوام و خواص یہ دیکھنے میں مگن تھے کہ براک اور مشعل اوبامہ کر کیا رہے ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ جو کچھ بول رہے تھے یہ سننے کی فرصت کم ہی لوگوں کو تھی اور اس پر غور کرنے کی زحمت کوئی گوارہ نہ کرتا تھا۔ لیکن اب جبکہ جوش ٹھنڈا ہو چکا ہے اور لوگ ہوش میں آرہے ہیں، ان کے بیانات خاص طور پر پارلیمانی تقریر کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ لازمی ہے، ان کے زورِ بیان کے پیچھے پوشیدہ مضمرات کو جاننے کی ضرورت ہے، اسبات کا پتہ لگانا بھی اہم ہے کہ ان کی تقریر کے اندر حقیقت کا عنصرکس قدر پایا جاتا تھا اور فسانے کا تناسب کتنا تھا، ساتھ ہی اس پہلو کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ اگر ہندوستان کی حکومت ان کے ناقص مشوروں پر سعادتمندی کے ساتھ عمل درآمد کرنے میں جٹ جائے تو اس کی کیا قیمت یہاں کی غریب عوام کو چکانی پڑ سکتی ہے۔ ان سنجیدہ سولات پر غور و فکر کا یہی صحیح موقع ہے ورنہ اوبامہ کی نہایت ذہانت و ذکاوت کے ساتھ کہی جانے والی لچھے دار باتیں ملک و قوم کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہیں ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اوبامہ الفاظ کے دھنی ہیں ان کی شخصیت پر اپنی تمام تر منافقت اور ریا کاری کے باوجود ڈاکٹر عاصم واسطی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ذہین شخص تھا اس نے کمال باتیں کیں
مثال بن گئی وہ بے مثال باتیں کیں
صدر براک اوبامہ کا ہندوستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب تین نکات پر مشتمل تھا:
• ترقی و خوشحالی
• سلامتی و تحفظ
• جمہوریت و انسانی حقوق
صدر براک اوبامہ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا میں دنیا کی وسیع ترین جمہوریت کی خدمت میں جو سو کروڑ افراد پر مشتمل ہے دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کی جانب سے جس میں تیس لاکھ ہندوستانی نژاد امریکی بھی شامل ہیں میں خراجِ عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ اپنی تقریر کے اختتامیہ رسمی کلمات سے قبل دوبارہ اوبامہ نے برما میں جمہوری وانسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا گویا جمہوریت اور انسانی حقوق کے غلاف میں لپیٹ کر انہوں نے اپنے دل کی بات بیان کر دی اس لئے اس جائزے کو بھی جمہوریت کے لباس میں لپٹا ہوا ہونا چاہئے۔ گویا ابتدا میں جمہوریت اور اختتام انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر ہی مناسب ترتیب ہے۔ صدر اوبامہ نے اندرونِ ملک انسانی حقوق کے ذکر سے خاص طور پر صرفِ نظر کیا اور جمہوریت کے بارے میں سکہ کا ایک پہلو اس قدر چمکا کر پیش کیا کہ دوسرا اپنے آپ چھپ گیا۔
براک اوبامہ نے ہندوستانی جمہوریت کی دل کھول کر تعریف کی لیکن شاید انہیں نہیں پتہ کہ اس نام نہاد جمہوریت کی کیا قیمت ہندوستان کے عوام چکا رہے ہیں۔ چند ماہ قبل لوک سبھا میں ایک نادر احتجاج دیکھنے میں آیا جس میں سماجوادی پارٹی کے شانہ بشانہ ان کے نظریاتی دشمن شیوسینا کے ممبران کھڑے ہوئے تھے۔ اور بہار میں ایک دوسرے کے سیاسی حریف آر جے ڈی کے ہمراہ جنتا دل (یو)کے لوگ نعرے بازی کر رہے تھے۔ بہو جن سماج پارٹی کی آواز میں اکالی دل والے آواز ملا تے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ نادر اتحاد کسی قومی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ اپنی تنخواہ میں اضافہ کے لئے تھا۔ اس معاشی کساد بازاری کے زمانے میں جبکہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے نانِ جویں کے محتاج ہیں، ان کے نمائندے اپنی تنخواہ میں تین گنا اضافے سے ناراض تھے اور چار گنا اضافہ چاہتے تھے۔ ہندوستان میں ایک جاہل اور بے فائدہ ممبر پارلیمان کو ہر سال سرکاری خزانے سے ۶۰ لاکھ روپئے مل جاتے ہیں۔ اس طرح ان لوک سبھا کے ممبران پر ہر پانچ سال کی میقات میں ۱۶۰۰کروڑ خرچ ہو جاتے ان کے علاوہ راجیہ سبھا کے ممبران ہیں اور پھر ریاستوں میں ودھان سبھا اور ودھان پریشد کے ممبران۔ اس پر گورنر اور صدرو نائب صدر جیسے نمائشی عہدے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے لیکن ملک کے خزانے پر عیش ضرور کرتے ہیں۔ اگر یہی سرمایہ عوام کو بنیادی سہولیات مثلاً تعلیم اور صحت عامہ فراہم کرنے پر خرچ ہو تو عوام الناس کا کس قدر فائدہ ہو گا اس کا اندازہ صدر اوبامہ تو نہیں لگا سکتے لیکن ہندوستانی عوام کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جنھیں بلا معاوضہ جمہوریت کا بوجھ اپنے کاندھوں ڈھونے کے لئے مجبور کر دیا گیا ہے۔ عوام اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ان کے نمائندے محض سرکاری خزانے سے حاصل ہونے والی آمدنی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کی رشوت کی کمائی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ابھی حال میں وزیرِ مواصلات اے راجہ کوسرکاری خزانے کے ہزاروں کروڑ روپئے کا نقصان کرنے کے الزام میں استعفیٰ دینا پڑا۔ یہ کروڑوں روپئے بالو نے خیرات نہیں کئے بلکہ اس کا بڑا حصہ یقیناً ان کے اپنے ذاتی خزانے میں پہنچ گیا ہو گا۔ اس کے علاوہ سیاستداں جس طرح سرکاری املاک پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں اس کی مثال آدرش سوسائٹی گھوٹالہ میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوہان نے پیش کی جن کو دودھ کا دھلا سمجھا جاتا تھا اور جو اوبامہ کے پہلے میزبان بھی تھے۔ دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں بدعنوانی و شفافیت کے حوالے سے ہندوستان کا نمبر ۸۴ ہے لیکن سوئس بنکوں میں کالا دھن کے معاملے ہندوستان اول نمبر پر آتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر سال ہندوستانی عوام اپنی بنیادی سہولیات کے حصول کی خاطر ۱یک ہزار کروڑ روپئے رشوت دینے پر مجبور کئے جاتے ہیں اور بدلے میں انہیں جو کچھ ملتا ہے اسے ساری دنیا نے دہلی کے لکشمی نگر میں ایک چار منزلہ عمارت کے منہدم ہونے پر دیکھ لیاجس کے نتیجہ میں ۶۵ غریب لوگوں نے اپنی جان گنوائی نیز۸۰زخمی ہوئے حکومت کے پاس دولت مشترکہ کے کھیل کود منعقد کرنے کے لئے ۸۰۰۰ کروڑ روپئے کی خطیر رقم ہے لیکن غریبوں کو رہائش فراہم کرنے کے لئے سرمایہ نہیں ہے۔
براک اوبامہ جانتے تھے ہندوستانی عوام کی ان سے کیا توقعات ہیں وہ امریکی صدر کی زبان سے اپنی تعریف سن کرکس طرح پھولے نہیں سماتے۔ اس لئے وہ ہندوستان کی قدیم تہذیب اور مذہب کی تعریف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ ان کے باعث ساری دنیا کو عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا سبق ملا ہے حالانکہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ ہندوستان کے سناتن دھرم اور اس میں پائے جانے والے ورن آشرم (ذات پات کا نظام)نے انسانی اقدار کو جس طرح پامال کیا اس کی کوئی اور مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ براک اوبامہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہندوستان فی الحال سلامتی کا ؤنسل کا مستقل ممبر بننے کے خواب بن رہا ہے اس لئے انہوں نے وہ گاجر بھی بڑی خوبی سے دکھلایا لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جس وقت اقوام متحدہ میں سکریٹری جنرل کے عہدے کے لئے ڈاکٹر ششی تھارور کو ہندوستان نے اپنا امیدوار بنایا تھا، اس وقت امریکہ ہی نے بن کی مون کی حمایت کر کے ہمارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔ بقول شاعر(معذرت کے ساتھ) ؎
تمہیں بتاؤں یہ دنیا غرض کی دنیا ہے
مری وفا پہ کبھی انحصار مت کرنا
سیاست و جمہوریت کے ایک نہایت اہم پہلو کی جانب براک اوبامہ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا اس دہائی میں ہندوستان کے اندر دو متضاد نظریات کی حامل جماعتوں نے امریکہ کی دو مخالف جماعتوں کے اقتدار کے باوجود دوستی کے عمل کو جاری رکھا یہ اس بات کا ثبوت ہے ظاہری طور پر کانگریس و بی جے پی کے درمیان نظر آنے والا فرق اور ری پبلکن یا ڈیموکریٹس کے درمیان دکھائی دینے والے تضاد کی حقیقت میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ امریکی ہاتھی اور گدھے کے اندر ایک ہی روح کارفرما ہے بی جے پی کے کمل اور کانگریس کے نشان پنجہ کے درمیان زبردست یکسانیت پائی جاتی ہے اگر چہ پنجے میں پانچ انگلیاں ہیں تو کمل کی پنکھڑیاں بھی پانچ ہی ہیں اسی پنجہ کو تھوڑا سا موڑو تو بڑی آسانی سے کمل بن جاتا ہے۔ اس راز سے اوبامہ تو واقف ہیں لیکن ہندوستان کی بھولے بھالے عوام اسے نہیں سمجھ پاتے۔
خوشحالی اور ترقی کے باب میں براک اوبامہ نے اور ہندوستان کے ترقی یافتہ ملک ہونے کا اعلان بڑے زور و شور سے کیا لیکن اس سے زمینی حقائق تو نہیں بدلتے۔ ایک نئے مطالعاتی جائزے کے مطابق بھارت کی آٹھ ریاستوں میں رہنے والے غریب افراد کی تعداد سب صحارہ افریقہ کے غریب ترین ۲۶ ممالک سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں جنوبی ایشیا ئی اور افریقی ممالک میں غربت کا موازنہ کیا گیا ہے۔ مطالعاتی جائزے میں غربت کی پیمائش کے لیے صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی تک رسائی اور بجلی کی دستیابی جیسے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا ہے۔ بہار میں غریبی کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگر ۴۰ فی صد ہے تو اڑیسہ میں ۴۳ فی صدہندوستان کی اوسطاًفی فرد آمدنی ۱۰۳۰ ڈالر سالانہ ہے اور اس طرح اس کا نمبر دنیا بھر کے ممالک میں ۱۳۹ واں ہے۔
صدر براک اوبامہ نے آزادی کے بعد کئے جانے والے معاشی اصلاحات کی تحسین کرنے کے بعد ۱۹۹۱ء میں ہندوستان کے ذریعہ سوشلزم کو خیرباد کہہ کر سرمایہ دارانہ نظام کے اختیار کر لینے کی بڑی تحسین فرمائی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج جو ترقی و خوشحالی نظر آتی ہے وہ اسی ابتدائی دور کی عوامی فلاح و بہبود کی بدولت ہے جس میں سرزمینِ ہند پر تعلیم کے زیور سے آراستہ ایک خود کفیل نسل تیار ہو گئی۔ کھلی منڈی کا نظریہ اختیار کرنے کے نتیجے میں یہ تو ضرور ہوا کہ ۲۰۰۹ء کے اندرسوکروڑ ڈالر سے زیادہ دھن دولت رکھنے والی عالمی امیر ترین برادری میں ہندوستانیوں کی تعداد ۲۷ سے بڑھ کر ۵۴ ہو گئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے ملک کی ۲۵ فی صد دولت ان ۵۴ افراد کی جیب میں سمٹ گئی اور بقیہ ۱۲۰ کروڑ لوگوں کے لئے صرف ۷۵ فیصد رہ گیا اس تفاوت کی گہری کھائی کو ترقی کا نام دینے والا شخص ہی براک اوبامہ سے بڑا احمق ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے اندر ملک میں بے روزگاری کی شرح ۵ فی صد سے بڑھ کر ۱۰ فیصد ہو گئی گویا صد فی صد اضافہ اور ہندوستان جیسے زراعتی ملک میں ایک لاکھ کسان خودکشی پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ سرمایہ داری کا وہ حسین تحفہ ہے جس سے ہندوستان کو امریکی استعماریت نواز چکی ہے۔ فی زمانہ ہندوستان کے کسان مزدور یوں محسوس کر رہے ہیں گویا ’’منڈی میں کوئی روز مجھے بیچ رہا ہے۔ ‘‘
تحفظ و سلامتی کے حوالے سے براک اوبامہ نے القاعدہ کا مشترک خطرہ بتا کر ہندوستان کو اپنا فطری حواری قرار دے دیا۔ ممبئی میں تاج پر حملہ سے متاثر ہونے والوں سے ملاقات اسی کو شش کی ایک کڑی تھی لیکن لفاظی سے قطع نظر سیکیورٹی کے معاملے میں امریکی انتظامیہ ہندوستان پر کس قدر اعتماد کرتا ہے اس کا ثبوت تو خود براک اوبامہ کے ذاتی حفاظتی انتظامات نے پیش کر دیا اور یہ ظاہر کر دیا امریکہ ہندوستان کو چین و افغانستان کے مدمقابل تو کسی قدر مفید جانتا ہے لیکن جب خود اپنے صدر کی حفاظت کا معاملہ آتا ہے تو ہندوستان کو نا اہل قرار دیتا ہے اگر یقین نہ آتا ہو براک اوبامہ کے حفاظتی انتظامات پر غائر نظر ڈالیں۔ اوبامہ کی حفاظت پر ۳۴ امریکی جنگی جہازوں کا دستہ تعینات تھا جن میں سے ایک ہوائی جہاز بردار سمندری جہاز بھی تھا جو ممبئی کے ساحل پر گشت کر تا رہا تھا۔ اوبامہ نے ہوائی اڈے سے قلابہ تک کا سفر فوجی ہیلی کاپٹر میں کیا۔ اوبامہ کے لئے جدید مواصلاتی نظام سے لیس دو جیٹ طیارے اور چالیس گاڑیوں کا دستہ مہیا کیا گیا تھا۔ تاج ہوٹل اور حیات ریجنسی کے سارے کمرے اوبامہ اور اس کے محافظوں کے لئے مختص کر دئیے گئے تھے۔ اوبامہ کی آمد سے قبل ۱۳ بھاری بوجھ اٹھانے والے جہاز جدید اوزاروں کیساتھ ہندستان پہنچ چکے تھے ان کے ساتھ تین ہیلی کاپٹر بھی تھے۔ مشینوں کے علاوہ نہ صرف۵۰۰ امریکی اہلکار بلکہ محافظ کتے بھی امریکہ سے آئے تھے گو یا انسان تو انسان ہندوستانی کتوں کو بھی امریکی انتظامیہ نے اعتماد کے قابلِ اعتماد نہیں سمجھا۔ ایسے میں ہندوستان کے ساتھ ۲۱ ویں صدی کی یادگار دوستی کا دعویٰ بالکل کھوکھلا نظر آتا ہے بلکہ اوبامہ کے اندر پائی جانے والی بے اعتمادی اور خوف و ہراس کو دیکھ کر عاصم واسطی کا یہ شعر یاد آتا تھا ؎
یہ روشنی کا سفر ختم کر رہا ہے اسے
جو اپنے سائے کی جنبش سے ڈرنے والا تھا
اپنی تقریر کے آخر میں صدر اوبامہ نے ہندوستانی حکومت کو اپنی مستقبل کی عظیم ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ ہماری جمہوریت کی بقاء اس کو دوسرے ممالک میں برآمد کرنے پر منحصر ہے نیز ہندوستان کو دوسرے ممالک میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش رہنے کا طرز عمل بدلنا ہو گا۔ یہ دونوں ہی مشورے نہایت خطرناک ہیں۔ خود براک اوبامہ نے سر زمینِ ہند پر برما اور ایران پر تنقید کی لیکن کشمیر اور نکسلوادی مزاحمت پر انہوں نے چپی سادھ لی۔ اور وہ بولتے بھی تو کیا بولتے عراق جیسے وسیع و عریض ملک پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے لئے امریکہ نے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار فوجی روانہ کئے جبکہ کشمیر جیسی ننھی سی ریاست میں ہندوستان کے ۷ لاکھ فوجی گزشتہ ساٹھ سالوں سے تعینات ہیں۔ امریکی تو عراق سے واپس جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں لیکن ہندوستانی فوجیوں کا کشمیر سے انخلاء کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ جہاں تک شمال مشرقی علاقوں میں پائی جانے والی نکسلوادی مزاحمت کا سوال ہے یہ ایک خطرناک استعماری سازش کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے قدرت کے خزانے ان قبائلی علاقوں کی زمینوں میں دفن ہے جن کی جانب سے ہمیشہ ہی حکومتوں نے بے توجہی برتی اور انہیں پسماندہ چھوڑ دیا۔ لیکن ا ب حکومت ایک خاص مقصد کے تحت انہیں بنیادی سہولیاتِ زندگی سے محروم رکھنے کی سازش میں شریک ہو گئی ہے تاکہ ان لوگوں کو اپنے علاقے خالی کر کے شہروں کی جھگی جھونپڑیوں میں منتقل ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔ حکومت کے اہلکاروں نے ان علاقوں کی معدنیات کو نکال اپنے آپ کو مالامال کرنے کی خاطر بین الاقوامی سرمایہ داروں سے معاہدے کر لئے ہیں۔ اب اگر وہ قبائلی اپنی آبائی زمین کو خالی کرنے سے انکار کرتے ہیں تو نہ صرف ان پر ظلم و ستم توڑا جاتا ہے بلکہ انہیں دہشت گرد قرار دے یا جاتا ہے اور وزیرِ اعظم سے لیکر وزیر داخلہ تک سب ان کے خلاف ایک زبان ہو جاتے ہیں اس لئے کہ یہ سب معدنیات کی فروخت میں شریک کار ہیں اور ان غریبوں کو اپنی خوشحالی کی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ سرکاری فوجی و نیم فوجی دستوں کو ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور جو قبائلی غم و غصہ کا شکار ہو جاتے ہیں سیاستداں دور بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں اور بیان بازی کرتے ہیں۔ خود اوبامہ کے ساتھ سرمایہ داروں کی بڑی فوج موجود تھی جن کی نظر زیرِ زمین خزانوں پر ہے ایسے میں اوبامہ سے یہ توقع کرنا کہ وہ قبائلی مظلوموں کے حقوق کی بات کریں گے احمقوں کی جنت میں رہنے کی سی توقع تھی۔ بین الاقوامی استعمار، قومی سرمایہ دار اور سیاستدانوں کے استحصال کی چکی میں پسنے والے غریب ادیباسی عوام کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ؎
خود اہلِ کشتی کی سازشیں ہیں کہ نا خدا کی نوازشیں ہیں
وہیں تلاطم کو ہوش آیا جہاں کناروں نے ساتھ چھوڑا
دوسرے ممالک میں جمہوریت کی برآمد کا کھیل اور زیادہ خطرناک ہے اس کی زندہ مثال خود عراق کی تباہی و بربادی ہے۔ عراق کسی زمانے ایک نہایت خوشحال، تیل کی دولت سے مالامال، طاقتور ترین عرب ملک ہوا کرتا تھا۔ امریکہ نے اس کے ذریعہ سے ایران میں جمہوریت کو بحال کرنے کا منصوبہ بنایا جس طرح کہ ہندوستان کے ذریعہ افغانستان میں خدمت لینے کی تیاری ہے۔ سیاسی اعتبار سے بھی ایران اور افغانستان میں کسی قدر مماثلت ہے، جس طرح آجکل افغانی حکومت امریکہ کی باجگذار ہے وہی صورتحال شاہ ایران کے زمانے میں ایران کی تھی۔ دونوں مقامات پر امریکی پٹھووں کا کام تمام کرنے کے فرائض اسلام پسندوں نے ادا کئے۔ ایسے میں عراق کو اپنی خدمات کا صلہ امریکہ نے فوج کشی اور ایک لاکھ سے زائد معصوموں کو شہید کر کے دیا۔ جو لوگ زخمی ہوئے اور ہجرت پر مجبور کئے گئے ان کی تعداد بے شمار ہے۔ ترقی و خوشحالی کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا امریکہ سے دوستی کے یہی ثمرات خدا نا خواستہ ہندوستان کے حصہ میں بھی آسکتے ہیں، اس لئے امریکہ سے پینگیں بڑھانے سے قبل حکومتِ ہند کو دوسروں کے انجام سے عبرت پکڑ لینا چاہیے۔
ہندوستان کا دورہ ختم کر کے صدر وابامہ انڈونیشیا روانہ ہوئے یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ہندوستان دنیا کا سب بڑا ہندو اکثریتی ملک ہے اور مسلمان یہاں سب سے بڑی اقلیت ہیں اس کے برخلاف انڈونیشیا سب سے کثیر آباد ی والا مسلم ملک ہیں جہاں ہندو سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ لیکن انڈونیشیا سے اوبامہ آتش فشاں کے خوف سے اپنا دورہ مختصر کر کے بھاگ کھڑے ہوئے اور جاپان پہنچ کر چین پر بلاواسطہ دباؤ بنانے کی کوشش کی لیکن کو ئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ جنوبی کوریا کے ساتھ کاروباری معاہدہ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد دھن دولت سے مالامال جی ۲۰ ممالک کی کانفرنس میں چین کے خلاف سخت قرار دپاس کروانے کی کوشش کی لیکن اس پر بھی لوگوں کو راضی نہ کر سکے۔ گویا اندرونِ ملک انتخابی ناکامی پردہ ڈالنے کے لئے صدر اوبامہ نے چین کو گھیرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس میں ان کے ہاتھ ناکامی و نامرادی کے سوا کچھ اور نہیں آیا، اس ایشیائی ممالک کے طویل دورے کے باوجود صدر اوبامہ کی حالت اس طرح ہے کہ ؎
خشک رت میں جس جگہ ہم نے بنایا تھا مکاں
یہ نہیں معلوم تھا یہ راستہ پانی کا ہے
٭٭٭
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا
(قسط اول)
سرزمینِ ہند پر فی الحال غیر ملکی مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے ساتھ چایس افراد کا وفد لے کر آئے اور۷۰۰ ملین ڈالر کا کاروبار کر کے واپس ہوئے۔ اس امید پر کہ اس سے دو سو برطانوی بیروزگاروں کے ذریعہ معاش کا بندو بست ہو جائے گا۔ فرانس کے نکولس سرکوزی کے ساتھ ساٹھ افراد کا وفد تھا لیکن وہ ہندوستان کو ۱۵بلین کے لڑاکا جہاز اور ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کے علاوہ کوئی اور قابلِ ذکر تجارتی کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ امریکہ کے براک اوبامہ کے ساتھ دوسو پندرہ تاجروں پر مشتمل وفد تھا اور انہوں نے ۱۰ بلین کا کاروبار کیا تاکہ پچاس ہزار امریکیوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ یہ نہایت دلچسپ صورتحال ہے جس میں نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کے رہنما ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک کے دروازے پر دستک دینے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔ کسی زمانے میں دنیا بھر کے لوگ اپنے آپ کو خوشحال بنانے کے لئے امریکہ اور یوروپ کا رخ کیا کرتے تھے لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ امریکی اور یوروپی حکومتیں اپنے شہریوں کی بیروزگاری کو دور کرنے کے لئے دنیا بھر میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔ انگریزوں کی کھیپ کی کھیپ عرب ممالک میں نہ صرف کاروبار بلکہ ملازمت کی خاطر دوڑ لگا رہی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں زمانے کے الٹ پھیرجس کی پیشن گوئی علامہ اقبال نے اس طرح کی تھی ؎
دیار مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہو گا
ایک زمانہ ایسا بھی تھا جبکہ انگریزوں کو اپنی اقتصادی ترقی پر بڑا ناز تھا اپنے احساسِ برتری کے زعم میں وہ ساری دنیا کو اپنے آگے حقیر سمجھتے تھے۔ جوہری ٹکنالوجی کو وہ اپنی اجارہ داری سمجھتے تھے۔ دوسروں کو اس سے محروم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہ خیالِ خام تھا کہ اس کی مدد سے وہ اقوامِ عالم کو بلاواسطہ اپنا غلام بنائے رکھیں گے لیکن آج حالت یہ ہے کہ کئی یوروپی ممالک یکے بعد دیگرے دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ سرکاری خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بڑی بڑی حکومتوں کو قرض پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ عرصہ دراز تک جوہری دھماکوں کے باعث ہندوستان کا شمارناپسندیدہ ممالک میں کیا جاتا تھا لیکن آج مغربی ممالک نہ صرف بھارت کو بلکہ عرب مملکتوں کو بھی جوہری ٹکنالوجی فروخت کر رہے ہیں۔ ایٹمی تکنیک گویا زرِ کم عیار ہو گئی ہے اور سر بازار نیلام ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ تینوں نے ہندوستان کونہ صرف ٹکنا لوجی بلکہ جوہری ایندھن تک فراہم کرنے کی یقین دہانی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان تینوں ممالک کے رہنماؤں نے اپنے دورے کے دوران ایک طرف تو کشمیر جاری و ساری سرکاری دہشت گردی سے آنکھیں موند لیں اور دوسری طرف حکومتِ ہند کی دلجوئی کے لئے اپنے قدیم حلیف پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے میں بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔
ان ابن الوقتوں کے بعد چین سے وین جیاباؤ ہندوستان تشریف لائے۔ ان کے ساتھ ۴۰۰ تاجروں کی فوج تھی اور ان لوگوں نے ۲۰بلین کے تجارتی معاہدوں پر دستخط کئے۔ لیکن اس زبردست تجارتی کامیابی کو حاصل کرنے کے لئے وین جیاو نے اپنے پیش رو انگریزوں کی طرح ہندوستان کو نہ تو اسلحہ یا جوہری ٹکنا لوجی فروخت کرنے کی کوشش کی اور نہ سلامتی کاؤنسل کی رکنیت کا گاجر دکھلایا۔ جیاؤ باؤ نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے ہر قسم کی دشنام طرازی سے گریز کیا۔ یہ گویا منافقت اور چاپلوسی سے پاک یہ ایک خالص تجارتی دورہ تھا۔ سفارتی سطح پر حکومتِ ہند اپنے تمام تر رسوخ کے باوجود کشمیریوں کو چینی حکومت کی جانب سے عطا کردہ ویزے کی خصوصی رعایت سے باز نہ رکھ سکی۔ ہندوستان سے واپسی میں وین جیاؤ پاکستان گئے۔ پاکستان میں وین کا اسی طرح سے استقبال ہوا جیسا کہ ہندوستان میں براک اوبامہ کا ہوا تھا۔ انہوں نے ایوان کے اجلاس سے خطاب کیا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو سراہا۔ نیز ۲۴ بلین ڈالرسرمایہ کاری کے علاوہ پاکستان میں جوہری توانائی کا نیا ری ایکٹر تعمیر کرنے کا بھی یقین دلایا۔ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ اس سے پہلے بھی پاکستان کو جوہری ٹکنا لوجی سے لیس کرنے کا اعزاز امریکہ بہادر کو نہیں بلکہ چین ہی کو حاصل ہے۔
دہلی کے مشترکہ اعلامیہ میں وین نے کہا کہ ہندوستان اور چین ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ شریک ہیں اور من موہن سنگھ نے بھی اس کی تائید میں کہا کہ دونوں ممالک کے لئے (اقتصادی)نشوونما کی خاصی گنجائش موجود ہے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں چین اقتصادی اور فوجی میدان میں آج جہاں کھڑا ہے اس مقام پر پہنچنے کے لئے ہندوستان کو اسی تیز رفتاری کے ساتھ مزید بیس سال ترقی کرنی ہو گی اور اس وقت تک چین نہ جانے کہاں سے کہاں پہونچ چکا ہو گا اس لئے باہمی حریفائی بے معنیٰ ہے ہاں اشتراکِ عمل یقیناً دونوں ممالک کے لئے فائدہ بخش ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات وین جیا باؤ کے دورے کے بعد امکان ظاہر کرتے ہیں کہ ۲۰۱۵ء تک آپسی تجارت ۱۰۰ بلین کو چھو لے گی۔ ان روشن تجارتی امکانات کے باوجود ہندوستان کی فکر مندی میں اضافہ ہوا ہے اس لئے کہ گزشتہ سال کی برآمدات میں چین کے ساتھ ہندوستان نے ۲۵ بلین کا خسارہ اٹھایا ہے یعنی ہندوستان کی برآمد چین سے ہونے والی درآمد کے مقابلے میں ۲۵ بلین ڈالر کم رہی ہے اور آئندہ بھی اس خسارے میں اضافہ ہی متوقع ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ان اقتصادی نا ہمواریوں کے باوجود یہ دونوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے کی بہت بڑی ضرورت بن گئے ہیں۔ چین فی الحال صنعتی پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے جبکہ ہندوستان اس معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے اس کے بر عکس ہندوستان نے کمپیوٹر اور آوٹ سورسنگ کے میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کر کے اپنے آپ کو خوشحال کر لیا ہے اور اس کے باعث ہندوستان کی داخلی کھپت میں زبردست اضافہ ہوا ہے جبکہ چین کا اندرونی بازار ابھی گھٹنوں کے بل رینگ رہا ہے۔ اس صورتحال میں ہندوستان کی معیشت درآمد کا تقاضہ کرتی ہے اور چین کی ضرورت برآمد ہے۔ امریکی ا ور یوروپی منڈیوں کے معاشی بحران کا شکار ہو جانے کے بعد چین کواپنی مصنوعات برآمد کرنے کے لئے نئے بازاروں کی تلاش ہے اور ہندوستان کو امریکی و یوروپی سامان کے مقابلے سستی اشیاء چین سے حاصل ہو جاتی ہیں اس لئے یہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کی فطری تکمیل بن گئے ہیں اورباہمی تعاون و اشتراک سے اپنی اپنی خوشحالی میں اضافہ کر سکتے ہیں اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ ان دو ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کے درمیان اعتمادِ باہم کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔
ہند چینی تعلقات کے حوالے سے ان سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جانا چاہئے کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کے شمال مشرقی ریاست اروناچل پر دیش کے دورے کی مخالفت چین آخر کیوں کرتا ہے ؟ دلائی لامہ کے ایٹا نگر جانے پر وہ کیوں بپھر جاتا ہے ؟ چین کی جانب سے نیپال، برما، بنگلہ دیش، سری لنکا اور پاکستان کو اپنا ہمنوا بنا کر ہندوستان کو چہار جانب سے گھیرنے کی وجہ کیا ہے ؟ نیپال کی سرحد تک اسے ریلوے لائن بچھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟نیز دیگر جنوبی ایشیا کے ممالک مثلاً برما، بنگلہ دیش، سری لنکا اور پاکستان میں بندرگاہیں تعمیر کر کے ان کو اپنے بحری بیڑے کے لئے سازگار کرنے کی حکمت عملی چین نے کیوں اختیار کررکھی ہے ؟ پاکستان کو جوہری اسلحہ سے لیس کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ ہندوستان سے لگی اپنی ۳۶۰۰ کلومیٹر لمبی سڑک کو صرف ۲۰۰۰ کلومیٹر کی بتلانے کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں ؟ اور جموں کشمیر کے باشندوں کو اپنے ملک میں داخلے کے لئے براہ راست ویزا مہیا کر نے کا فیصلہ کس لئے کیا گیا ہے ؟
چین کی جانب سے کئے جانے والے ان اقدامات کو ہندوستان بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتا بلکہ وہ بھی اینٹ کا جواب پتھرسے دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف وہ چین کے سب سے بڑے حریف امریکہ سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ دوسری جانب چین کے سب سے قریبی دوست پاکستان کی گھیرا بندی تنگ سے تنگ تر کرتا جار ہے۔ چین کی سرحد پر واقع سکّم اور بھوٹان کو وہ چینی اعتراض کے باوجود پوری طرح نگل چکا ہے۔ چینی وحدت کے نظریہ یعنی تائیوان سے تبت واحد چین کو حکومتِ ہند کی تائید حاصل نہیں ہے نیز بین الاقوامی معاملات میں ہندوستان چین کے مقابلے میں یوروپ اور امریکہ کا ہمنوا ئی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کی تازہ مثال چین کے جلاوطن باغی رہنما لیاؤ ژیاوبو کو اوسلو میں نوازے جانے والے نوبل انعام کی تقریب میں شرکت ہے۔ چین نے بشمول ہندوستان کے کئی ممالک سے اس تقریب کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی اس لئے کہ لیاوژاو کو نوبل انعام کا دیا جانا چین کے خیال میں اندرونِ ملک ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں کی حمایت کے مترادف ہے۔ ہندوستان نے چین کی اپیل کو ٹھکراتے ہوئے انعامی تقریب میں شرکت کی جبکہ اس کا مقاطعہ کرنے والوں میں نہ صرف روس بلکہ پاکستان، عراق، ایران اور سعودی عرب شامل تھے۔ یہ تقریب دراصل عالمی افق پر نمودار ہونے والے ایک نئے سیاسی توازن کا پتہ دیتی ہے۔ اس لئے کہ بائیکاٹ کرنے والوں میں امریکہ کے حریف روس اور ایران کے ہمراہ اس کے حلیف سعودی عرب، عراق اور پاکستان بھی نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں جملۂ معترضہ کے طور پر لبنان کے بعد قطر کے فرمانروا شیخ حماد بن خلیفہ الثانی کا اس ہفتہ وقوع پذیر ہونے والا ایرانی دورہ اور ایران و قطر کے درمیان کی جانے والی باہمی فوجی مشقیں قابلِ ذکر ہیں۔ ایک اور چونکا دینے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ باوجود امریکی دوستی کے سعودی عرب میں سرکاری چینی کمپنیوں کو ایسی خصوصی مراعات حاصل ہیں جن سے یوروپی و امریکی تجارتی ادارے محروم ہیں، یہ حقائق اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب خود امریکہ کے مقابلے چین کوسب سے بڑی عالمی طاقت بن کر ابھرنے میں باحواسطہ مدد کر رہا ہے۔ ایسالگتا ہے کہ اقتصادی بازی ہارنے کے بعد اب فرنگی جواریوں کی سیاسی بساط بھی الٹنے لگی ہے اور جہانِ نو کے پیدا ہونے کی مبارک ساعت کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں ؎
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا، عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ
٭٭٭
تبت کی آفت
(قسط دوم)
چینی چہرے کی بناوٹ کچھ ایسی ہوتی ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے آیا یہ شخص ہنس رہا ہے یا رو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستانی اور چینی رہنما جب اپنے سیاسی اختلافات پر گفتگو کرتے ہیں تو ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ہونٹ مسکرارہے ہوتے ہیں اور دل رو رہا ہوتا ہے۔ چینی وزیرِ اعظم وین جیاو باو نے اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہندوستانی دورے کے اختتام پر کہا ’’گو کہ ماضی قریب کے اندر ہند چینی تعلقات میں خاصے اتار چڑھاؤ آئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان دونوں ممالک کے درمیان دوستی و تعاون کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’ تمام مسائل کو مکمل طور حل کر لینا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے صبر درکار ہے اور وقت لگے گا۔ اخلاص، باہم اعتماد اور حوصلہ ہی ہمیں ایک ایسے منصفانہ اور معقول حل سے ہمکنار کر سکتا ہے جو دونوں فریقوں کے لئے قابلِ قبول ہو‘‘۔ اس بیان میں استعمال ہونے والے الفاظ کا انتخاب حکمتِ چین کی جیتی جاگتی تصویر ہے لیکن اس رجائیت کے باوجود دہلی میں مقیم چینی سفیرژانگ یان یہ کہنے سے نہیں چو کتے کہ ہمارے آپسی رشتے نہایت نازک ہیں اور بڑی آسانی سے بگڑ سکتے ہیں اس لئے یہ خصوصی توجہ کے طلبگار ہیں ورنہ پھر سے انہیں درست کرنا ایک نہایت مشکل کام ہو گا۔ چینی سفیر کا خیال کوئی سیاسی بیان بازی نہیں ہے اس لئے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کو ابھی نصف صدی نہیں گزری ہے۔
بھارت اور چین تعلقات اس وقت تک استوار نہیں ہو سکتے جب تک کہ بنیادی اختلاف کی نوعیت کو سمجھا نہ جائے اور اس کا پائیدار حل نہ تلاش کر لیا جائے وگرنہ تجارتی تعلقات کو بگڑنے میں وقت نہیں لگتا۔ ہندوستان اور چین کے درمیان اختلاف کشمیر کے تنازعہ کی طرح ہے اور ان کے درمیان کا کشمیر دراصل تبت ہے۔ یہ دونوں مسائل اپنی کیفیت کے لحاظ سے یکساں ضرور ہیں لیکن ان کی کمیت میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہندوستان میں بہت سارے لوگ تبت کو کوئی چھوٹا سا گاؤں اور وہاں کے بظاہر مظلوم نظر آنے والے مذہبی رہنما دلائی لامہ کو ایک بے ضررانسان سمجھتے ہیں لیکن چین کا نقطہ نظر اس سے متضاد ہے۔ تبت دراصل چین کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے اور چین میں ہندوستان کی طرح ۲۹ چھوٹی چھوٹی ریاستیں نہیں ہیں۔ تبت کا رقبہ اتر پر دیش سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اتر پر دیش جیسی پانچ ریا ستوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو وہ تبت کے برابر ہوں گی بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ ہندوستان کے مجموعی رقبے کا ۳۶فی صد ہے۔ دلائی لامہ اس تبت کی آزادی کے خواہاں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ یہ علاقہ چین سے الگ ہو جائے۔ ہندوستان نے دلائی لامہ اور وہاں سے بھاگ کر آنے والے ہر رہنما کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے اور تو اور ان لوگوں کی جلا وطن حکومت دھرم شالا کے مقام پر قائم ہے گویا ہندوستان کی نظر میں یہی تبت کی اصل حکومت ہے اور آج نہیں تو کل یہ پورے تبت کو چین سے الگ کر کے وہاں قائم ہو جائے گی۔ اس کارِ خیر کے لئے سارا مغرب دلائی لامہ کی اخلاقی اور مالی حمایت کرتا ہے لیکن ہندوستان نے اضافی طور پر پرورش اور دیکھ بھال کی بھی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔
تبت کی صورتحال اور ہندوستان کے رویہ کو ایک اور مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کیجئے کل کو ایک تہائی ہندوستان نکسلوادیوں کے زیرِ اثرآ جاتا ہے اور وہ ہندوستان سے بغاوت کر کے اپنی آزادی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ نکسلی رہنما کشن جی ہندوستان سے بھاگ کر نیپال چلے جاتے ہیں جہاں ماؤوادیوں کو اقتدار حاصل ہے۔ نیپال کی حکومت انہیں نہ صرف پناہ دیتی ہے بلکہ ان کے لئے جلا وطن حکومت کے قیام کا سارا انتظام بھی کر دیتی ہے تاکہ وہ بہار کی سرحد پر بیٹھ کر اپنی آزادی کی جدو جہد جاری رکھ سکیں اور اسی کے ساتھ ساری دنیا کی ہند مخالف طاقتیں نیپال حکومت کے ذریعہ کشن جی کی مدد کرنے لگتی ہیں۔ ایسے میں کشن جی دنیا بھرکے دورے کر کے ہندوستان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرتے پھریں اور انہیں نیپالی حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہو تو کیا اس صورتحال میں ہند نیپال تعلقات استوار رہ سکیں گے ؟ کیا محض تجارت کی بنیاد پر یہ دونوں پڑوسی ایک دوسرے کے دوست بنے رہیں گے ؟ کیا اس وقت ایسا نہیں ہو گا کہ ہندوستان نیپال کی ناکہ بندی کر کے اس کا جینا مشکل کر دے ؟جیسا ایک بار کر چکا ہے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جائے تو ہندوستان سے نیپال کی سرحدوں کے اندر ڈرون حملے ہونے لگیں اگر یہ حکمتِ عملی بھی کامیاب نہ ہو تو ہندی فوجیں نیپال کی سرحدوں میں گھس کر نہ صرف جلاوطن حکومت کو اکھاڑ پھینکے جو ہندوستان میں شورش برپا کر کے اس کے حصے بخرے کرنا چاہتی ہو بلکہ اس نیپالی حکومت کو بھی سبق سکھائے جس کے بل بوتے پر بغاوت پروان چڑھ رہی ہو۔ آپ کہیں گے یہی ہو گا اور ہندوستان ایسا کرنے میں حق بجانب ہو گا بشرطیکہ یہ اس کے لئے ممکن ہو۔ اگر بین الاقوامی دباؤ کے باعث ہندوستان کے لئے ایسا کرنا ممکن نہ بھی ہو تب بھی ان دو ہمسایوں کے درمیان تعلقات تو یقیناً بگڑ جائیں گے۔ بھارت کے خلاف چین کی گھیرا بندی، پاکستان کی مدد، کشمیر کی سرحد کو ہندوستانی سرحد تسلیم نہ کرنا اور کشمیریوں کو ویزا کی خصوصی سہولت فراہم کرنا دراصل چینی بے اعتمادی اور غم و غصے کا نہ صرف اظہار ہے بلکہ مستقبل کی پیش بندی بھی ہے۔
ہندوستان کی جانب سے ’وحدتِ چین‘ کو تسلیم نہ کئے جانے کی اصل وجہ تبت کا تنازعہ ہے۔ ماضی کے تاریخی حالات اس صورتحال اور مملکتِ ہند کے رویہ کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ جس وقت ہندوستان میں آزادی کی جنگ جاری تھی چین میں ماؤزے تنگ کی قیادت میں اشتراکی انقلاب برپا ہو رہا تھا ۱۹۴۹ء میں یہ مسلح انقلاب کامیاب ہو گیا اور اقتدار سے محروم ہونے والی چینی حکومت نے تائیوان میں حکومت قائم کر لی۔ یوروپ اور امریکہ نے شکست خوردہ جلاوطن سرکار کی بھر پور پشت پناہی کی اور بیجنگ کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا نیز اقوامِ متحدہ میں بھی چینی قوم کی نمائندگی وہی تائیوانی حکومت کرتی رہی۔ اس نازک وقت میں چین کو نہ صرف اپنے نظریاتی حریف یعنی سرمایہ دار یوروپ کی مخالفت کا سامنا تھا بلکہ اشتراکی سوویت یونین بھی اس کا مخالف بنا ہوا تھا اس لئے کہ وہ بھی چین کو اپنا حریف سمجھتا تھا، ہندوستان برما کے بعد دوسرا غیر اشتراکی ملک تھا جس نے بیجنگ حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اقوامِ متحدہ میں اس کی نمائندگی کے لئے اپنی ساری قوت صرف کر دی اور وہیں سے ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا لیکن اس شیشہ میں تبت کی وجہ سے بال پڑ گیا۔ دراصل تبت کے وفد نے ۱۹۴۷ء ہی میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور اس پر چینی حکومت نے تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن حکومتِ ہند نے اس کو نظر انداز کر دیا۔ پنڈت نہرو کے لئے اس وقت یوروپ اور امریکہ کی پذیرائی زیادہ اہمیت کی حامل تھی جس طرح آج من موہن سنگھ کے لئے امریکی خوشنودی قابلِ تر جیح ہے۔ دلائی لامہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انہیں سی آئی اے کی جانب سے مدد ملتی رہی ہے۔ اس سال فروری میں وہ وائٹ ہاؤس کے اندر صدر اوبامہ سے ملاقات کر چکے ہیں۔ حکومت ہند نے دلائی لامہ کے سبب خود کو چینیوں کی نگاہ میں مشکوک بنا لیا۔ ۱۹۵۹ء میں جب اس تبتی رہنما کو پناہ دی گئی توچاواین لائی نے اس کے نتائج سے متنبہ کیا لیکن پنڈت جی نے پرواہ نہیں کی۔ دہلی کا دورہ کر کے باز رکھنے کی ناکام کو شش کی سو وہ بھی بے فائدہ رہی۔ بالآخر چینی رد عمل ۱۹۶۲ء کی جنگ کی صورت میں نمودار ہوا۔ ۲۰ ستمبر کو جنگ کا آغاز ہوا سرخ آندھی نے ہندی فوج کو بری طرح کھدیڑ کر رکھ دیا۔ جنگ کے ایک ماہ بعد ۲۴اکتوبر کو چین کی جانب سے تین شرائط پر جنگ بندی کی پیش کش ہوئی جسے حکومت ہند نے مسترد کر دیا چینی افواج کی پیش رفت جاری رہی یہاں تک کہ ۱۹ دسمبر کو چین نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا اور اپنی فوج کو از خود لائن آف کنٹرول پر لے گیا۔ کولمبو معاہدے کے بعد ہندوستان بھی راضی ہو گیا۔ اس جنگ میں دونوں جانب کے ۵۰۰ فوجی مارے گئے اور ہندوستان نے الزام لگایا کہ اس کے ۳۳۰۰۰ ہزار مربع کلومیٹر علاقے کو چینیوں نے غصب کر لیا۔ اس کے برعکس چین کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا ۹۰۰۰۰ہزار مربع کلو میٹر علاقہ ہندوستان کے قبضہ میں ہے۔ ان علاقوں کو ہندوستان نے جنگ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا بلکہ آزادی سے قبل انگریزوں نے شمال مشرقی سرحدپر چین کے بڑے علاقے پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا تھا جسے وہ جاتے جاتے ہندوستان کو وراثت میں دے گئے۔ اروناچل پر دیش کو چینی اپنے ملک کا حصہ گردانتے ہیں اسی لئے چینی حکومت وہاں کے باشندوں کو ویزا سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے اور دلائی لامہ یا منموہن سنگھ کے ایٹا نگر جانے پر ناراضگی جتاتی ہے۔
۱۹۶۲ء کی جنگ میں جن علاقوں سے ہندوستان کو ہاتھ دھونا پڑا ان میں سے ایک کیلاش پربت بھی ہے، ہندو عقائد کے مطابق ان کا معبود شیو اپنی زوجہ پاروتی کے ساتھ وہاں قیام کرتا ہے۔ اس مقام پر موجود مانسرورجھیل کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے اسے اندر نے خود اپنی نگرانی میں بنوایا تھا اور اس کے مقدس پانی میں ڈبکی لگانے والے کو نروان حاصل ہو جاتا ہے۔ اس علاقے کو ہندو مذہب کے علاوہ بودھ، جین اور تبت کے قدیم دین بون میں بھی مقدس مانا گیا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ رام جنم بھومی کے لئے ہنگامہ کرنے والا سنگھ پریوار کبھی بھی شیو استھان کی بازیابی کا کلمہ اپنی زبان پر نہیں لاتا بلکہ اٹل جی وزیر خارجہ بنتے ہیں تو چین کا دورہ فرماتے ہیں۔ ویسے بی جے پی جس نے خود اپنے صدر دفتر کے اندر بابری مسجد کی شہادت کے بعد تعمیر ہونے والے شیو پاروتی کے مندر کو میڈیا سینٹر بنانے کی خاطرمسمار کر دیا کیلاش پربت کی بازیابی کی بات کس منہ سے کر سکتی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ شیو سینا بھی چین سے دوستانہ تعلقات کی وکالت کرتی ہے جبکہ اس کا نام نامی شیوجی سے منسوب ہے۔ بال ٹھاکرے کی ادارت میں نکلنے والے سامنا اخبار نے اپنے ادارئیے میں اعتراف کیا کہ ہم چین سے لڑنے کی جرأت اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے بہتر ہے کہ امریکہ اور روس کے بجائے اس سے دوستی کر لی جائے۔ اس کا کم از کم فائدہ یہ ہو گا کہ ہم پاکستان کے حامی کو توڑ کر اسے کمزور کر دیں گے۔ بالا صاحب ٹھاکرے شاید اس حقیقت کو بھول چکے ہیں کہ جس زمانے میں سوویت یونین چین سے زیادہ طاقتور تھا افغانیوں نے اسے شکست دی تھی اور گزشتہ دس سالوں سے وہ امریکہ اور اس کے حواریوں سے نبرد آزما ہیں، ناٹو فوجیں انہیں زیر کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور وہاں سے فرار کے بہانے تلاش کر رہی ہیں، امریکی سکریٹری برائے افغان و عراق اسی صدمہ سے پرلوک سدھار چکے ہیں۔ اس سرکاری رپورٹ کی اشاعت سے قبل جس میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں کامیابی ناممکن ہے رابرٹ ہولبروک اس دارِ فانی سے چل بسے۔ اس لئے اگر حکومتِ ہند سامنا کے اس احمقانہ مشورے کو مان لے اور بال ٹھاکرے کی توقعات کے مطابق چین پاکستان سے تعلقات توڑ کر ہندوستان کا ہمنوا بن جائے تب بھی وہ دونوں مل کر پاکستان کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ اس لئے کہ دس سالہ طویل جنگ میں روس اور امریکہ کی حمایت کے باوجود عراق کو ایران میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جب دشمنوں کے آلہ کار بنتے ہیں ذلیل و خوارہوتے ہیں لیکن جب اللہ کے بھروسے جہاد کرتے ہیں تو کامیابی و کامرانی انہیں کے قدم چومتی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎
ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے
پورے ہوئے جو وعدے کئے تھے حضورؐ نے
٭٭٭
شاخِ نازک پہ آشیانہ
امریکی ذرائع ابلاغ میں اسامہ بن لادن کے بعد ایک افریقی مسلم مطلقہ محترمہ نفیسہ تاؤدیالو موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ گیانہ سے تعلق رکھنے والی یہ ۳۲ سالہ مہاجرخاتون اپنی جوان بیٹی کے ساتھ برونکس میں رہتی ہے اور نیویارک کے امیر ترین علاقے مین ہیٹن میں واقع سوفی ٹیل ہوٹل میں ملازمت کرتی ہے۔ اس کا الزام ہے کہ ہوٹل کے ایک گاہک نے اس پر دست درازی کی۔ اگر وہ دست درازی کرنے والا شخص ایک عام آدمی ہوتا تو شاید یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہیں بنتی اس لئے کہ جنس زدہ امریکی معاشرے میں عصمت دری ایک معمولی جرم ہے جو آئے دن سرزد ہوتا رہتا ہے قومی اعداد و شمار کے مطابق ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہر منٹ کے اندر۱ء ۳ خاتون کی عصمت دری ہوتی ہے گویا ہر گھنٹہ میں ۷۸ اور سالانہ۶۸۳۲۸۹ خواتین کو اس اذیت ناک جرم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ سروے کے دوران یہ خوفناک حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ اس نام نہاد ترقی یافتہ ملک میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی ایک بار اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہر چار میں سے ایک طالبہ یا تو اس ظلم کا شکار ہوتی ہے۔ گو کہ نفیسہ کا تعلق نیگرو نسل سے ہے لیکن اعدادو شمار اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ عصمت دری کا شکار ہونے والوں میں ۸۱ فی صد گوری اور صرف ۱۸ فیصد کالی خواتین ہیں۔ امریکہ اس معاملے میں جرمنی سے چار گنا اور برطانیہ سے ۲۰ گنا آگے ہے۔
نفیسہ کے معاملے میں چونکہ ملزم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کا سربراہ ڈومنق سٹراس کاہن تھا جسے اب ذلیل و خوار کر کے اس کے عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ اس لئے یہ عالمی سطح پر ایک بہت بڑی خبر بن گئی۔ کاہن کو اول تو گرفتار کیا گیا اور پھر اسے ہتھکڑیوں سمیت میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس کی دس لاکھ ڈالر کی درخواستِ ضمانت مسترد کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا اس خیال سے کہ ۶۲ سالہ امیر کبیر، لحیم شحیم سرمایہ دار کہیں فرار ہو کر اپنے ملک فرانس نہ پہونچ جائے۔ فرانس کے اندر کسی مجرم پر ہاتھ ڈالنا امریکہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ تو صرف زرداری کی لاچاری کے چلتے پاکستان میں ہوسکتا ہے یا پھر مشرف جیسا بے ضمیر جنرل سینہ پھلا کر بڑے فخر سے اس طرح کی رسوائی کو برداشت کر سکتا ہے۔ اب ناقدین کا یہ اعتراض ہے کہ امریکی انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلاتے جو گونا گوں وجوہات کی بناء پر وہ نہ کر سکے تو اب کھسیانی بلی کی مانند اپنے عدلیہ کو مصروف رکھنے اور اپنے ملکی قانون کی بالا دستی کا ڈنکا بجانے کی خاطر کاہن کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
اس موقع پر یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے جس چستی اور پھرتی کا مظاہرہ ڈومنق کاہن کے معاملے میں کیا ویسا کچھ صدر بل کلنٹن کے ساتھ کیوں نہ ہوا ؟جبکہ وہ ان پر بھی اسی طرح کا ا لزام دورانِ صدارت نہ صرف لگا بلکہ ثابت بھی ہو گیا۔ معاشی میدان میں ابھی گزشتہ ہفتہ امریکی انتظامیہ نے وہاں کے پانچ بڑے بنکوں کو تقریباً ۳۰ بلین ڈالر کے گھپلے میں ملوث پایا لیکن ان کے سربراہان کے ساتھ بھی ایسا کوئی معاملہ نہیں ہوا۔ اس سے قبل امریکی شیئر بازار (وال اسٹریٹ) سے ایک ٹریلین ڈالر چرا کر امریکہ کو معاشی کساد بازاری کے شعلوں میں جھونکنے والے سرمایہ دار بھی اس طرح کے سلوک سے محفوظ و مامون رہے۔ برٹش پٹرولیم کے سربراہ ٹونی ہیورڈجو بحیرہ برازیل میں عظیم ماحولیاتی تباہی کے مجرم ہیں اس طرح کی رسوائی سے بچے رہے بلکہ جارج بش جو اپنی حماقت کے سبب دس لاکھ عراقیوں کی ہلاکت کا سبب بنا اس کی جانب بھی عدلیہ نے کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کی۔ وہ تو ایک ایسا جنگی مجرم ہے جس پر نہ صرف امریکہ بلکہ ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔
ایک اور اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی بنک کا سربراہ رابرٹ ذوئلک جو امریکی شہری ہے اگر فرانس کے اندر اسی طرح کے الزام میں گرفتا ر ہوا ہوتا اور اسے میڈیا کے سامنے اس طرح رسوا کیا جاتا۔ اس کی ضمانت رد کر کے اسے جیل بھیج دیا جاتا تو کیا یہ امریکی ذرائع ابلاغ جو کاہن کے خلاف تین دنوں میں ۳۰۰۰ مضامین لکھ کر اسے مجرم ٹھہرا چکا ہے رابرٹ کی بھی اسی طرح کردار کشی کر رہا ہوتا ؟یا اس کی فوری رہائی کی گہار لگا رہا ہوتا ؟نیز فرانس کے اندر انسانی حقوق کی پامالی کا چرچا کر رہا ہوتا ؟ ذرائع ابلاغ کو چھوڑیں جس کی حیثیت فی الحال ڈگڈگی بجانے والے مداری کی سی ہو گئی ہے تصور کریں کہ اس فرضی صورتحال میں امریکی حکومت کا رد عمل کیا ہوتا ؟ جو انتظامیہ ریمنڈ ڈیوس جیسے سفاک کرائے کے قاتل کو چھڑانے کے لئے اپنی کانگریس کے تین تین وفد روانہ کر دیتا ہے وہ اپنے ملک کے اس قدر اہم سرمایہ دار کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا ؟ صدر اوبامہ کا سرکوژی کو فون کتنے منٹ کے اندر موصول ہو جاتا؟ اوراس پر پتھر اور نہ جانے کس کس زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دی جاتی۔ ان گیدڑ بھپکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اگر نکولس سرکوژی اپنے موقف پر اڑا رہتا تو کتنی دیر میں ان کے ملک میں امریکی فوج داخل ہو جاتی اور پیرس کے آسمان سے ایف ۱۶ و ڈرون کی بارش شروع ہو جاتی ؟ ایسے میں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرانسیسی صدر سرکوژی نے ایک رسمی سا سہی احتجاج کیوں نہیں درج کروایا؟ کم از کم ایک فون کر کے یا اخباری بیان جاری کر کے کاہن کو اپنے ملک بھجوانے اوراس پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ یہ تو کم از کم اقدامات ہیں جنھیں فرانس جیسی ویٹو پاور رکھنے والی ایٹمی طاقت تو کجا ہندوستان جیسا مسکین ملک بھی کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور اس کی وجہ امریکہ کا خوف نہیں بلکہ فرانس کی داخلی جمہوری سیا ست ہے۔
فرانس میں آئندہ سال انتخاب ہونے والے ہیں اور اباحیت پسند سرکوژی کو پھر ایک بار انتخاب میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ فسطائی ذہن کے مالک اس شخص نے برسوں تک مسلم دشمنی اور نسلی امتیاز کی بنیاد پر اپنی سیاسی دوکان چمکائی لیکن اب انتخابی شکست کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اسی لئے اپنے بد مزاج رائے دہندگان کی دلجوئی کے لئے اس نے برقعہ کے خلاف ہوّا کھڑا کیا اور پھر حجاب مخالف قانون منظور کروا کر ان کی تسکین کا سامان کیا۔ اس کے بعد لیبیا میں ناٹو کے ساتھ پیش قدمی کر کے اپنے آپ کو نپولین کا حقیقی وارث ثابت کرنے کی کو شش میں لگ گیا۔ سرکوژی کی اس اٹھا پٹخ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت میں اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے سیاستدانوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن اس کے باوجود معاشی ابتری اس کے پاؤں کی زنجیر بنی ہو ئی ہے۔ ایسے میں ان کی قدامت پرست یو ایم پی کے خلاف محاذ آرا سوشلسٹ پارٹی کا سب سے طاقتور امیدوار کوئی اور نہیں بلکہ ڈومنک سٹراس کاہن ہی تھا جو آئندہ ماہ سے اپنی پارٹی کی باقاعدہ مہم کا آغاز کرنے والا تھا۔ بین الاقوٍامی مالی ادارے کا صدر اور سوشلسٹ پارٹی کا امیدوار یہ دونوں باتیں ان لوگوں کو متضاد ضرور لگیں گی جو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولرانتخابی سیاست میں اصول و نظریہ نام کی کوئی شئے پائی جاتی ہے۔ کاہن ایک سوشلسٹ دانشور کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ فرانس کی سوشلسٹ پارٹی میں اس کا اعلیٰ و ارفع مقام ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ داروں سے اس کے گہرے مراسم بھی ہیں جنکی وہ اپنے ادارے کے ذریعہ دامے درمے سخنے قدمے مدد کرتا رہتا ہے تاکہ وہ سارے عالم کا استحصال جاری و ساری رکھ سکیں۔ اس طرح گویا سرکوژی کو اپنے سب سے طاقتور حریف سے نجات حاصل ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کاہن کی گرفتاری پر مضطرب و بے چین ہونے کے بجائے شاداں و فرحاں ہے۔ اس واقعہ سے قبل سرکوژی کی مقبولیت محض ۲۱ فی صد تھی اور کاہن کی ۲۶ء ۵فی صد گویا ان دونوں کے درمیان ۵ء ۵ فی صد کا فرق تھا لیکن اب جبکہ کاہن دوڑ سے باہر ہو چکا ہے اس کی جگہ لینے والے سوشلسٹ امیدوار فراکوس ہالنڈی کو صرف ایک فی صد کی سبقت حاصل ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ فی الحال سرزمین فرانس میں انتہا پسند لی پین سب سے زیادہ مقبول چل رہی ہے لیکن مسلمانوں کے اندر انتہا پسندی کا شور مچانے والے مغرب کو ہندوستان کے اڈوانی اورفرانس کے لی پین سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
فرانس کے اندر کاہن کی گرفتاری کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں جن سے اس قوم کے فکری انحطاط و اخلاقی پستی کا اندازہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ کاہن جیسا عیاش شخص ایک افریقی ملازمہ کے لئے اپنے سیاسی مستقبل کو داؤں پر نہیں لگا سکتا اس لئے ممکن ہے وہ کسی خوبصورت امریکی طوائف کا انتظار کر رہا ہو گا اور ایسے میں غلطی سے وہ ملازمہ وہاں پہنچ گئی نیز کاہن اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ گویا غلطی کاہن کی نہیں ملازمہ کی ہے۔ کاہن کا کسی طوائف کا انتظار کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو کسی قدر افسوس کاہن کے انجام سے تو ہے لیکن افریقی ملازمہ سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں اس لئے کہ یہ بیچارے کسی خاتون کو انسان ہی کب سمجھتے ہیں ؟صنف نازک تو ان کے لئے نمائش و سامانِ تلذّذ سے زیادہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی اسی لئے وہ انہیں ہمیشہ بے حجاب رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سال کے اوائل میں خود کاہن کا اعتراف اس خیالِ خام کی تر دید کرتا ہے۔ کاہن نے پیرس سے شائع ہونے والے دائیں بازو کے روزنامہ لبریشن (حریت)کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ صدارت کی دوڑ میں اس کے راستے کی تین کی رکاوٹیں ہیں ’’دولت، عورت اور میرا یہودی ہونا’’فرانس کے دیہی علاقوں میں آج بھی یہودیوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور انتہا پسند لی پین اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لیکن کاہن کی پیش گوئی اس حد تک سچ ثابت ہوئی کہ انتخاب سے قبل ہی اس کی زن پرستی نے اس کی لٹیا ڈبو دی اور اس کے دھن دولت کے خزانے دھرے کے دھرے رہ گئے
فرانس کے عوام کے اندر سوشلزم کا حامی طبقہ قوم پرست فرانسیسی عوام سے دو ہاتھ آگے ہے۔ ان کے خیال میں نفیسہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہے۔ چونکہ امریکی انتظامیہ صدرسرکوژی کا حامی ہے اس لئے اس نے جان بوجھ کر یہ سازش رچی اور کاہن کا سیاسی مستقبل تباہ و برباد کر دیا تاکہ۲۰۱۲ء کے انتخابات میں سرکوژی کی مشکلات کم کی جاس کیں اور وہ پھر ایک بار آسانی سے منتخب ہو جائے۔ ان لو گوں کا کہنا ہے کہ نیویارک کے بڑے ہوٹلوں میں صفائی کی خاطر کوئی ملازم تنہا کمرے میں نہیں جاتا بلکہ وہ کم از کم دو ہوتے ہیں اور خاص طور پر کاہن جیسی نہایت اہم شخصیت کے کمرے میں تو کوئی اکیلے جا ہی نہیں سکتا گو یا یہ نام نہاد اہم ترین شخصیات انسان نہیں بلکہ خونخوار درندے ہیں۔ ان کے مطابق پولس کی بیجاسختی اور میڈیا کی غیر معمولی دلچسپی بھی اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ نفیسہ کوئی ’ماتا ہاری ‘نہیں ہے جو حقیقت میں فرانس کی ایجنٹ تھی لیکن پہلی جنگ عظیم کے دوران جسے جرمنی کے لئے جاسوسی کرنے کا الزام لگا کر فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے ۱۹۱۷ء میں گولیوں سے بھون دیا تھا اور بعد میں پتہ چلا کہ اس پر لگایا جانے والا الزام بے بنیاد تھا اور وہ معصوم تھی۔
ایک تازہ سروے کے مطابق فرانس کے ۷۰ فی صد سوشلسٹ رائے دہندگان کے خیال میں کاہن معصوم ہے اور ۵۴ فیصد عام ووٹرس بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ اس کو سیاسی سازش میں پھنسایا گیا ہے گویا ۳۰ گھنٹے جیل میں گزارنے کے بعد بھی فرانسیسی رائے عامہ کاہن کے حق میں ہے۔ یہ مغرب کے اس ملک کا حال ہے جہاں سے کسی زمانے میں یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا تھا۔ جس نے مغرب کو حریت و جمہوریت سے نوازا۔ کاہن کے واقعہ نے اس حقیقت کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے کہ لادینیت کی شاخِ نازک پر مغربی جمہوریت کا یہ نا پائیدار آشیانہ فی الحال آندھی کی زد میں ہے۔ اس کے باوجود اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اقتدار کی منتقلی کا مہذب ترین طریقہ ہے تو ایسے لوگوں کی مغرب زدگی پر ماتم کرنا صرف اور صرف اپنے وقت کا ضیاع ہے۔
سیاست کے علاوہ کاہن کی اپنی اقتصادی دنیا کے بھی بہت سے لوگ ان واقعات پر خوشی منا رہے ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق ابھرتی ہوئی معیشتوں سے ہے مثلاً ہندوستان، جنوبی افریقہ اور ترکی وغیرہ۔ کاہن کے جانشین کے طور پر ترکی کے کمال درویش کی دعویداری سب سے پہلے سامنے آئی اور اس کے بعد مونٹیک سنگھ اہلو والیا کا نام بھی اچھالا جا رہا ہے۔ یہ ممالک دراصل بین الاقوامی مالی ادارے پر سے یوروپی تسلط کا خاتمہ چاہتے ہیں اور کاہن کا بے آبرو ہو کر کوچے سے نکالا جانا ان کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ بن کر سامنے آیا ہے۔ مشرق کی آپسی رقابت کا فائدہ مغرب اٹھاتا رہا ہے بلکہ وہ مختلف ممالک کے اندر اپنے مفاد کے پیشِ نظر مخاصمت بھی پیدا کرتا رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ہوا کا رخ بدلنے لگا ہے۔ یوروپ و امریکہ کی معاشی ابتری نے کہیں انہیں قلاش کر دیا ہے تو کہیں وہ قرض کے بوجھ تلے چرمرا رہے ہیں۔ اب دولت کے بازار میں ان کا وہ رعب داب خاصہ کم ہو گیا ہے، ماضی کی تاریخ تو یہ ہے کہ گذشتہ ۳۳ سالوں میں سے ۲۶ سال آئی ایم ایف کی سربراہی فرانسیسیوں نے کی۔ اس ادارے کے کل ۲۴ ڈائرکٹرس ہیں جن میں سے ۹ یوروپ سے آتے ہیں۔ برازیل سے آنے والا ڈائرکٹر ۹ ممالک کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ اس کے ووٹ کی قیمت ۶ء ۲ فی صد ہے اس کے بالمقابل امریکہ کے نمائندہ کا ووٹ اس سے چار گنا زیا دہ قیمتی ہے لیکن ایسا کب تک چلے گا؟۔ اب تو چین بھی اپنی کامیابی کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے اور یوروپی نمائندوں کی سازش کے باوجود اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اس بار آئی ایم ایف کے اوپر سے یوروپ کی اجارہ داری ختم کر دی جائے گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو اس میں یقیناًنفیسہ کا حصہ قابلِ قدر ہو گا۔ ماضی میں اس بدمعاش کی درندگی کا شکار ہونے والی کئی خواتین کو اب ہمت بندھی ہے اور وہ ڈومنق کاہن کے خلاف بیانات دینے لگی ہیں۔ یہ سب اس نام نہاد اعلیٰ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ترقی پسندخواتین ہیں جن کو آزاد و خود مختار سمجھا جاتا ہے لیکن ان میں سے کسی نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف منہ کھولنے کی جرأت نہیں کی اس میدان میں بھی الم بغاوت بلند کرنے کا شرف مظلوم و مقہور گردانی جانے والی مسلم خاتون نفیسہ کے حصہ میں آیا۔ یہ تلخ حقیقت یوروپ اور امریکہ کے لئے تازیانۂ عبرت ہے۔
٭٭٭
آ گ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
(قسط اول)
اوسلو میں وزیر اعظم جینس اسٹوٹنبرگ کی کوٹھی کے باہر جس وقت بم دھماکہ ہوا امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کشمیری رہنما اور دانشور غلام نبی فائی کو پریشان کر رہی تھی اور ممبئی پولس انڈین مجاہدین کا پیچھا کر رہی تھی۔ جب اوسلو سے بیس میل کے فاصلے پر یوٹویا نامی جزیرے میں ایک وحشی درندہ حکمراں لیبر پارٹی کے نوجوانوں پر گولیاں برسا رہا تھا امریکی صدر براک اوبامہ نیوزی لینڈ کے وزیرِ اعظم سے ملاقات کر رہے تھے۔ گولی باری کی اس دھماکہ خیز خبر پر بھلا امریکی صدر کیونکر چپ رہ سکتا تھا اس لئے اوبامہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنے پیش رو جارج بش کی مانند بول پڑے ’’یہ بین الاقوامی برادری کے لئے ایک یاددہانی ہے کہ اس طرح کی دہشت کو روکنا ان کی اولین ذمہ داری ہے اور ہمیں انٹلی جنس کے معاملے میں تعاون نیز حملوں کی روک تھام کے عملی اقدامات میں باہم تعاون کرنا چاہئے گویا اوبامہ نے ان واقعات کو بلاواسطہ اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑ دیا۔ مثل مشہور ہے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے اس لئے نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جان کیی نے اوبامہ کی تائید میں کہا اگر یہ عالمی دہشت گردی کا واقعہ ہے تو میرے خیال میں اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کوئی بڑا یا چھوٹا ملک ان خطرات سے محفوظ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ افغانستان میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاکہ امریکہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے دنیا کو محفوظ تر بنایا جا سکے۔ بیچارے جان کیی کا کوئی قصور نہیں اگر ان کی جگہ پاکستان کا صدر یا ہندوستان کا وزیر اعظم ہوتا تب بھی اپنے آقا کے آگے اسی طرح دُم ہلاتا۔ ویسے اگر ممبئی پولس کے اردلی کی رائے طلب کی جاتی تو اس میں اور اوبامہ یا جان کیی کے بیان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا اسے کہتے ہیں ذہنی ہم آہنگی اور باہم یکجہتی لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ لوگوں کا ہم جہت ہو جانا اور اس جہت کا حق بجانب ہونا یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ اکثر لوگوں کا آہنگ یکساں تو ہو جاتا ہے لیکن وہ آہنگ درست نہیں ہوتا مثلاً اس سے پہلے کہ ناروے کی پولس اس خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کرتی نیویارک ٹائمز نے امریکی ماہر محقق میک کینٹ کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ انصار الجہاد العالمی یعنی جہاد اسلامی کے عالمی مددگار نامی ایک دہشت گرد گروہ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس خیالی تنظیم اور انڈین مجاہدین میں نام کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں ہے۔
‘‘اوسلو‘‘ کے اس قابلِ مذمت واقعہ پر اگر امریکی صدر ’’گوسلو’’ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے تو بہتر تھا لیکن معیشت تو ویسے ہی دھیمے دھیمے اپنی اکھڑتی ہوئی سانسیں گن رہی ہے۔ ریپبلکن کسی صورت قرض کی حد بڑھانے پر راضی نہیں ہو رہے ہیں امریکہ دن بدن تیزی کے ساتھ اپنے دیوالیہ پن کی جانب گامزن ہے ایسے میں اوبامہ جیسا گھاگ سیاست دان اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے والے اس نادر موقع کو کیونکر گنوا سکتا تھا۔ دراصل امریکی حکام اور ان کے حواریوں نے سوچا کہ یہ ان کی ہی کسی پالتو تنظیم کا کام ہو گا جو کبھی سامنے نہیں آئے گی اور یہ لوگ اس کے پسِ پردہ اسلام کی مخالفت کے اپنے گھناؤنے ارادوں کو بروئے کار لائیں گے لیکن قدرت کو اس بار کچھ اور منظور تھا ۳۲ سالہ بریوک نے بڑی بہادری کے ساتھ اپنی کارکردگی کا اعتراف کر لیا جسے وہ جرم نہیں سمجھتا۔ اس کے اپنے وہم و گمان کے مطابق وہ حالت جنگ میں ہے اور ایسی صورتحال میں چونکہ یہ ضروری ہو گیا تھا کہ معصوموں کی خونریزی کی جائے اس لئے یہ کوئی گناہ نہیں بلکہ کار خیر ہے۔ یہ ہے نصرانی مغرب کا معیار اخلاق جس کو خوشنما پردوں میں چھپا کر ساری دنیا کے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ اس کام کو کس طرح انجام دیا جاتا ہے اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں۔
امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی نے ۲۰۰۵ء میں جب دہشت گردی کے متعلق اپنی تحقیقات کو شائع کیا تو ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ سارے دہشت گرد مسلمان ہیں سوائے ۹۴ فیصد کے جی ہاں ۱۹۸۰ء سے لیکر ۲۰۰۵ء تک امریکی سرزمین پر ہونے والے دہشت گردی کے اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ ان میں سے ۶ فیصد کا تعلق مسلمانوں سے تھا۴۲ فیصد لاطینی، ۲۴ فیصد انتہا پسند دایاں بازو جیسے ہندوستان کے نکسلوادی اور تو اور امریکیوں کے منظور نظر انتہا پسند یہودی بھی مسلمانوں سے آگے ہیں اور ان کا حصہ ۷ فی صد تھا۔ عام دائیں بازو کی جماعتیں ۵ فیصد حملوں کے لئے ذمہ دار پائی گئیں اور دیگر لوگوں کا مجموعی حصہ ۱۲ فیصد تھا۔ یاد رہے یہ ایف بی آئی کے سرکاری اعداو و شمار ہیں۔ یورو پول کے مطابق یوروپ میں ۲۰۰۷ء سے ۲۰۰۹ء کے دوران۶ء ۹۹ دہشت گردی کی وارداتوں میں غیر مسلم ملوث پائے گئے۔ جن میں سے ۴۸ء ۸ فی صد علیٰحدگی پسند لوگوں کے حملے تھے اور باقی ۱۶ فیصد دائیں بازو کی جماعتوں کا کارنامہ تھا صرف ۴ء ۰فی صد دہشت گردی میں یوروپین پولس نے مسلمانوں کو ملوث پایا۔ ۲۰۰۹ء کے مقابلے ۲۰۱۰ء میں دائیں بازو والوں کے حملے ۲۱ سے بڑھ کر ۴۵ ہو گئے گویا ۱۰۰ فیصد سے زیادہ کا اضافہ اس کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی نام نہاد جنگ نہ صرف ذرائع ابلاغ میں بلکہ میدان عمل میں زور و شور کے ساتھ چھڑی ہوئی ہے۔
ناروے میں ہونے والے واقعہ کے بعد شہر اوسلوکے ایک مسلمان کے بیان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مہم کس قدر کامیاب ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار سٹیفن اوناس کے مطابق اوسلو شہر میں علی نامی ایک شخص نے بتایا کہ ’’بہت سارے افراد کا شروع میں یہ خیال تھا کہ بم دھماکہ میں القاعدہ ملوث ہے۔ ناروے ایک ایسا ملک ہے جو ہر کسی کو قبول کرتا ہے اور ہر کسی کو خوش آمدید کہتا ہے لیکن جب میں نے دیکھا کہ ایک نارویجن نے یہ کام کیا ہے تو مجھے دھچکا لگا، وہ شخص نفرت سے لبریز تھا‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے بہت سارے لوگوں نے ایسا کیوں سوچا کہ اس میں القاعدہ ملوث ہے۔ نیز جس طرح کا دھچکا علی اور اس جیسے لوگوں کو اس وقت کیوں لگا جبکہ انہیں پتہ چلا کہ اس میں ایک مقامی شخص انڈریو بیرنگ بریوک ملوث ہے جو عیسائی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی دائیں بازو کی سوچ کا حامی بھی ہے۔ کیا اس طرح کی حیرت کا اظہار اس وقت بھی کیا جاتا جبکہ انہیں بتایا جاتا کہ یہ حملہ القاعدہ نے کیا ہے ؟یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب اس طرح کے حملوں کو مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے تو اس کی حمایت میں نقلی ویڈیوبنا کر ٹیلی ویژن سے نشر کی جاتی ہیں اور یو ٹیوب کے ذریعہ ان کی جی بھر کے تشہیر کی جاتی ہے اس کے بر عکس بیرنگ بریوک کی ایک اصلی ویڈیو کو جس میں اس نے اپنے عزائم کا اظہار اور جرائم کا عتراف کیا تھادوسرے ہی دن یو ٹیوب سے ہٹا لیا گیا۔ ناروے کے ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ویڈیو بریوک نے بنائی تھی جس میں اسلام، مارکسزم اور کثیر الثقافتی معاشرے کے خلاف غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔
انرش بیرنگ بریوک نے ایک ہزار پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک دستاویزمرتب کی جسے وہ خودساختہ منشور کہتا ہے اوراس نے اسے یوٹیوب پر موجود ایک ویڈیو کے ساتھ یورپ بھر میں ڈھائی سو افراد کو حملے سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے قبل ای میل کیا۔ بیلجیم میں دائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان تانگوئے وِیز کو بھی اسی طرح کا ایک ای میل کیا گیا۔ تقریباً ایک چوتھائی افراد جنہیں ای میل کیا گیا برطانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ جرمنی، اٹلی، فرانس اور دیگر ممالک کے لوگ بھی ای میل وصول کرنے والوں میں شامل ہیں لیکن سب سے بڑی تعداد برطانیہ کی ہے۔ انرش بریوک کا نام استعمال کرتے ہوئے بھیجے گئے ای میل اور اس میں موجود یوٹیوب کی ویڈیو کے لنک میں لکھا گیا ہے ’مغربی یورپ کے محب وطن‘ اور ایک جگہ لکھا گیا ہے ’یہ آپ کے لیے ایک تحفہ ہے۔ ۔ ۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اسے اپنے ہر جاننے والے کو بھیجیں۔ تانگوئے ویز نے انرش کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انرش بریوک کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رہا ہے۔ کسی نے ویز کے بیان پر شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیا بلکہ اسے من و عن تسلیم کر لیا اس لئے اس کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے اور نہ ہی بریوک کے پس پردہ لوگوں کا سراغ لگانے کی خاطر کسی بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا گیا بلکہ اس کے بر خلاف ایک انٹرویو میں ناروے کی داخلی انٹیلی جنس کی سربراہ جین کرسٹیانسین نے کہا ’میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ اب تک ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی ایسا اشارہ ملا ہے کہ وہ کسی بڑی تحریک کا حصہ ہے یا پھر وہ دیگر تنظیموں سے رابطے میں ہے یا کوئی اور بھی حملے میں ملوث ہے ویسے انہوں نے اعتراف کیا کہ بریوک دیوانہ نہیں ہے جیسا کہ اس کے وکیل کا دعویٰ ہے بلکہ وہ شاطر، چالباز اور شہرت کا بھوکا ہے ‘۔
انرش بریوک پربم دھماکے اور یوتھ کیمپ پر فائرنگ کے الزام میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق دہشت گردی کے ان واقعات میں ایک اور شخص ملوث ہو سکتا ہے۔ تا دمِ تحریر کسی اور کو اس معاملے میں گرفتار تو درکنار کسی سے تفتیش تک نہیں کی گئی جو انتظامیہ کے ہمدردانہ رویہ کا واضح ثبوت ہے۔ حراست کے تیسرے دن بریوک کو عدالت میں پیش کر کے اس پر معاشرے اور حکومت کے ضروری امور کو تہہ و بالا کرنے کے الزامات لگائے گئے اور اعتراف کیا گیا کہ اس کی اس دہشت گردی سے عوام میں زبردست خوف و ہراس پھیلا ہے۔ انرش بریوک نے حملوں کی ذمہ داری تو قبول کر لی لیکن دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کر دیا، انرش جانتا ہے کہ دہشت گردی کے الزامات تو صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے مختص ہیں کوئی بھوری آنکھوں اور سفید جلد کا حامل بھلا دہشت گرد کیونکر ہو سکتا ہے اس شخص کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی حرکت کو ’وحشیانہ‘ مگر ’ضروری‘ قرار دیتا ہے۔ جج کم ہیگر نے استغاثہ کی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے کہ ملزم عدالت میں پیشی کو ایک سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر سکتا ہے بند کمرے میں سماعت کا حکم دیا جس کے دوران ذرائع ابلاغ اور عوام کو عدالت کی کارروائی دیکھنے کی اجازت نہیں ہو گی حالانکہ انرش بریوک کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کا مؤکل عوام کے سامنے بیان دینا چاہتا ہے۔ بتیس سالہ انرش بیرنگ بریوک کو ناروے کے موجودہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ اکیس سال کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ سفاک مغرب کی نظر میں پھانسی کا پھندا اور گولیوں سے بھون کر لاش کو دریا برد کر دینے کا مستحق مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
مغرب کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس نام نہاد دہشت گردی کی قیمت مسلمانوں سے کیسے زبردستی وصول کی گئی ہے اس کے اعداد و شمار ہوش ربا ہیں ۳۰ جنوری ۲۰۱۰ء تک کی صورتحال یہ تھی کہ امریکہ کے حلیفِ اول پاکستان میں ۱۰۰۰۰ لوگ مارے جاچکے تھے جن میں سے ۷۰۰ افراد تو بالواسطہ امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہوئے تھے۔ گزشتہ ڈیڑھ سالوں کے اندر ان حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظراس مغربی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں بھی دو سے تین گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ تحریکِ طالبان جس کا اصل طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ جو ہندوستان کی سرپرستی میں امریکہ کے اشارے پر دہشت گردی کرتی پھرتی ہے ہزاروں اموات کے لئے ذمہ دار ہے۔ ۲۰۰۸ء میں شائع ہونے والی ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ۵ لاکھ اور عراق میں ۱۲ لاکھ افراد امریکی جارحیت کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ کرتا کوئی اور ہے اور بھرتا کوئی اور مسلمانوں کو انصاف اس لئے نہیں ملتا کہ بقول شاعر ؎
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے کیا مرے حق میں فیصلہ دے گا
٭٭٭
یوروپی انتہا پسندی و دہشت گردی
(قسط دوم)
انڈریو بیرنگ بریوک بلا شبہ ایک عالمی اسلام مخالف فکر اور تحریک کا حصہ ہے اسی لئے وہ خود تو بائیں بازو کا انتہا پسند عیسائی ہے اس کے باوجود اسرائیل کے یہودی انتہا پسندوں کو اپنا عم زاد بھائی قرار دیتا ہے اور بھارت کے ہندو قوم پرستوں کا بہت بڑا مداح ہے۔ بھارت سے عقیدت کا اظہار اس کے اپنے ’منشور‘ میں ۱۰۲ مقامات پر کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ’ہندو قوم پرست دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کا تختہ پلٹنے میں اس کے اہم اتحادی ہیں اور وہ بھارت سے مسلمانوں کو نکالنے میں ان کی مدد کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ پندرہ سو صفحات کے اس منشور میں بریوک نے اپنے عزائم کو بیان کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ کس طرح وہ ’تہذیبی مارکسی نظام‘ (جس میں مختلف نسلوں کے لوگ بغیر کسی تفریق کے مل کر رہیں، یا ملٹی کلچرل ازم) کو ختم کرنے کے لیے وہ ایک مہم شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطراس مہم کی ابتدا دہشت گردی کی کارروائیوں سے کر کے اسے ایک ایسی عالمی جنگ میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے جس میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جائے۔ سنگھ پریوار سے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بریوک لکھتا ہے ’ہندو قوم پرستوں کو انڈین کلچرل مارکسوادیوں کی جانب سے اسی طرح کی زیادتیوں کا سامنا ہے جیساکہ ان کے یورپین بھائیوں کو ہے اور بھارت میں کانگریس کی قیادت کرنے والی یو پی اے حکومت ہر قیمت پر مسلمانوں کی خوش آمد میں مصروف ہے ‘ ہندو دہشت گردوں کی جانب سے مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کو بھی بریوک حق بجانب قرار دیتا ہے اور ان کی بھرپور تعریف و تائید کرتا ہے مگراس حکمت عملی کو فائدے کی بجائے نقصان دہ بتلاتا ہے۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ بی جے پی سابق ایم پی، بی پی سنگھل یہی بات بریوک کے بارے میں کہتے ہیں ان کے مطابق بریوک کا مؤقف حق بجانب ہے لیکن اس کا طریقہ کار غلط ہے جس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔
بیرنگ بریوک سرزمین ہند پر پائے جانے والے اپنے ہمنوا بجرنگیوں کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملے کرنے کے بجائے بھارت میں غداروں کو نشانہ بنائیں اور عسکری سیل منظم کریں تاکہ کلچرل مارکسی حکومت کا تختہ پلٹا جا سکے۔ بریوک کے الفاظ میں ’’ہمیں ایک دوسرے سے (بریوک کی تنظیم اور ہندو قوم پرست) تعاون کرنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے کیونکہ ہمارے مقاصد ایک جیسے ہیں ’’۔ ویسے بریوک کے اس زرّین مشورے کے قبل ہی کرنل پروہت جیسے لوگوں نے سناتن پربھات اور اکھنڈ بھارت جیسی عسکری تنظیموں کے تحت مالیگاؤں، اجمیر، حیدر آباد اور نہ جانے کہاں کہاں اپنی دہشت گردی کا آغاز کر دیا ہے لیکن ان کی توجہ مارکسوادیوں کے بجائے مسلمانوں کی جانب ہے۔ بریوک کے منشور میں جہاں ایک طرف سنگھ پریوار کی ویب سائٹس کی لنک موجود ہیں وہیں سنگھی دانشوروں کی کتابوں کے حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس نے اپنی تنظیم کا نشانِ امتیاز ہندوستان کے شہر بنارس سے بنوایا لیکن ایسا اس لئے نہیں کیا گیا کہ بنارس ہندوؤں کا مقدس شہر ہے بلکہ روپیہ بچانے کی یہ ایک حکمت عملی تھی چونکہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا سارا زور تارکین وطن کی یوروپ میں آمد کے خلاف ہے اس لئے وہ اپنے ہمنوا ہندو انتہا پسندوں کو بھی اس معاملے میں کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے کا روادار نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر احسان کرنا چاہتا ہے کہ انقلاب کے بعد بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کے غیر مسلم باشندوں پر مشتمل ایک سروینٹ کلاس (نوکروں کا طبقہ) بنایا جائے گا اور یہ لوگ یورپ میں اپنے قیام کے دوران دن میں بارہ گھنٹے کام کریں گے، وہ ہر بڑے شہر کے باہر الگ آباد یوں میں رہیں گے اور ان کے کانٹریکٹ کی مدت چھ سے بارہ مہینے ہو گی جس کے بعد انہیں ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔ بریوک کے ذہن میں یہ گھناؤنے خیالات یقیناً منو سمرتی کا مطالعہ کرنے کے بعد آئے ہوں گے۔ اس خواب کا بہترین پہلو یہ ہے کہ بریوک کی اس رسوائی کا شکار مسلمان نہیں ہو ں گے اس لئے کہ وہ وہاں کا رخ ہی نہ کریں گے نیز ہزاروں سال تک شودروں کو اپنے آگے جھکانے والے براہمن ضرور اس ذلت کے آگے ما تھا ٹیک دیں گے۔
مثل مشہور ہے کند ہم جنس با ہم جنس پرواز اس لحاظ سے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی دہشت گرد ہنود کا مداح ہو اور اس کے یہود سے تعلقات نہ ہوں ؟ بریوک کا بھی یہی معاملہ ہے اس کا نہ صرف اسرائیل میں بی جے پی کی ہم پلہ اسرائیل بئٹینو نامی جماعت سے بلکہ اسرائیل کے بد دماغ وزیر خارجہ اویگور لئیبرمن سے بھی گہرے مراسم ہیں۔ امریکہ میں موجود صیہونی دانشور مثلاً دانیال پائپس، رابرٹ سپانسر اور پامیلا گیلر جس کی زندگی کا واحد مقصد مساجد کی مخالفت ہے سے بھی وہ لگاؤ رکھتا اور فیض حاصل کرتا ہے۔ اس نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جبکہ فلسطینیوں کو دی جانے والی احمقانہ حمایت کو بند کر دیا جائے اور اپنے تہذیبی عم زاد بھائی اسرائیل کی حمایت کی جائے۔ بریوک کی اس دھمکی سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ ناروے ایک غیر جانبدار اور پر امن ملک ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ناروے ناٹو کا رکن ہے اور امریکی سامراجیت کا ہمنوا ہے۔ فی الحال افغانستان اور لیبیا میں امریکہ کے شانہ بشانہ بر سرِ جنگ ہے۔ تمام ہی یوروپی ملکوں کی طرح ناروے میں بھی انتہا پسند بائیں بازو کی قدامت پرست جماعتیں پائی جاتی ہیں۔ ناروے کے دارالخلافہ کو امریکہ نے فلسطین کی سر زمین پر اسرائیلی قبضہ کا جواز فراہم کرنے والی مہم میں استعمال کیا تھا جو آگے چل کر اوسلو امن معاہدہ کی شکل اختیار کر گئی۔
یوروپ کے اندر جدید قدامت پرستی کا آغاز برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر نے ۱۹۷۸ء میں کیا انہوں نے ببانگِ دہل اس اندیشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ مختلف تہذیبوں کے حامل افراد کے بہاؤ میں بہہ جائے گا اور اس سے آگے بڑھ کر ۱۹۸۹ء میں تھیچر نے یہاں تک کہہ دیا کہ انسانی حقوق کا آغاز انقلابِ فرانس سے نہیں ہوا بلکہ اس کی حقیقی جڑیں یہودیت اور مسیحیت کے اتحاد میں پائی جاتی ہیں۔ یوروپ اور امریکہ میں بائیں بازو کی دہشت گردی کوئی نئی اور اجنبی شئے نہیں ہے۔ تیس سال قبل ۱۹۸۰ء میں اس طرح کی ایک لہر نے یوروپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ماہِ اگست میں بولوگنا ریلوے اسٹیشن کے بم دھماکے میں ۸۴ افراد ہلاک اور ۱۸۹ زخمی ہوئے تھے۔ ایک مہینے بعد میونخ میں ہونے والا دھماکہ ۱۱ لوگوں کی موت کا سبب بنا اور اکتوبر کے اندرپیرس کی ایک یہودی عبادتگاہ کے باہر ہونے والے دھماکے میں ۴ لوگوں نے اپنی جان گنوائی۔ امریکہ کے اوکلاہامہ شہر میں ۱۹۹۵ء کے اندر ٹموتھی مک ویگ نے برویک کی طرح کھاد سے بم تیار کیا اور حکومت کی عمارت کو بم سے اڑا دیا جس میں ۱۶۸لوگ ہلاک ہوئے لیکن اسی کے ساتھ یوروپ میں فسطائی سیاسی رجحانات کی حامل سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا رسوخ بڑھایا ۱۹۹۰ء میں جورگ حیدر کی لبرل پارٹی نے آسٹریا کے انتخابات میں ۲۲ فی صد ووٹ حاصل کئے اوراسی زمانے میں ناروے کے اندر کارل ایگار کی پروگریس پارٹی سب سے بڑی حزب اختلاف بن کر ابھری ناروے کی اس انتہا پسند جماعت نے ۲۰۰۹ء میں پھر ایک بار۲۳ فیصد ووٹ حاصل کئے اور سب سے بڑی حزب اختلاف بن کر ابھری۔ گیانو فرانکو فینی کے قومی محاذ۱۵کو اٹلی میں ۱۲ء ۳ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔ بیلجیم کے اندر ولام کے محاذ کو۳ء ۱۲ فی صد حاصل ہوئے اور فرانس کے اندر حزب اقتدار جماعت کو پانچ ریاستوں میں قومی محاذ کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ سویڈن میں گزشتہ سال مالمو کے ایک شخص کو ۱۲ افراد کے قتل میں گرفتار کیا گیا اور پہلی بار بائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ۵ء ۴فیصد ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں پہنچی۔ ڈنمارک جہاں اہانت رسول کے کارٹون بنائے جاتے رہے دائیں بازو کی ڈانش پیوپلس پارٹی نے ۱۷۸ میں سے ۲۵ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ نیدرلینڈ کا گیرٹ ویلڈر جو قرآن مجید کو ہٹلر کی کتاب مین کامف کا ہم پلہ قرار دیتا ہے نے ۱۵ء ۵فیصد ووٹ حاصل کئے اور یہ دونوں جماعتیں باہر سے اقلیتی حکومت کی حمایت کر کے اپنا رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح کی کامیابی بی جے پی کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے انتخابات میں حاصل ہوئی تھی اور یہی کچھ مودی کے ساتھ گجرات میں ہوا گویا اس طرح کے تشدد نے ہمیشہ ہی بائیں بازو کو انتخابی فائدہ پہنچایا ہے لیکن اس کے باوجود وشوا ہندو پریشد کے بی ایل شرما اور اکھنڈ بھارت کے کرنل پروہت جیسے لوگ دہشت گردی پر اتر آتے ہیں انہیں میں سے ایک بریوک بھی ہے۔
عوام کے اندر انتہا پسندرجحانات کا فروغ دیگر رہنماؤں کو بھی اس کی تائید کے لئے مجبور کر رہا ہے مثلاً گزشتہ سال جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل نے اعلان کیا کہ کثیر ثقافتی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ برطانوی صدر نے اعلان کیا کہ کثیر ثقافتی نظام نے مختلف تہذیبوں کے حامل افراد میں علیٰحدگی پسندطرززندگی کو فروغ دیا ہے۔ نکولس سرکوزی نے تو صاف فرما دیا کہ کثیر ثقافتی نظام ناکام ہو گیا اس لئے کہ ہماری جمہوریت نے تارکین وطن کے تشخص پر مقامی لوگوں سے زیادہ توجہ دی یہ وہی لہجہ ہے جو ممبئی کی سڑکوں پر راج ٹھاکرے کے اندر دکھلائی دیتا ہے۔ سرکوزی نے انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لئے پہلے تعلیم گاہوں میں اسکارف پر پابندی لگائی پھر برقعے کو نشانہ بنایا اس کے باوجود فی الحال اسے مارین لی پین نامی انتہا پسند رہنماسے صدارتی انتخاب میں مقابلہ کرنا ہے جو مسلمانوں کے سڑکوں پر نماز پڑھنے کو ہٹلر کی جارحیت سے مماثل سمجھتی ہے یہی مسئلہ کسی زمانے میں شیوسینا نے ممبئی میں اپنی مقبولیت میں اضافے کی خاطر اٹھایا تھا۔ بریوک جمہوری ذرائع کے بجائے اپنی تحریک نائٹ ٹمپلر کی مدد سے فوجی انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قابض ہونے کا خواہشمند ہے اور اپنے مقصد میں کامیابی کی خاطر ۴۵۰۰۰ ہزار مارکسیوں کی ہلاکت اور دس ہلاک کے زخمی ہونے کی توقع کرتا ہے۔ وہ۸۰۰۰ ہزار افراد سے رابطہ قائم کر رکھا ہے اور اپنی جان یہودی و مسیحی تہذیب کی بقاء کے لئے قربان کر دینا چاہتا ہے۔
انرش بیرنگ بریوک نے جو کہا سوکیا۔ اس نے اپنے منشور کی تشہیر کے لئے ۹۳ معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی اور اپنے گھناؤنے مقصد میں کامیاب رہا اس لئے کہ اگر وہ کوئی پر امن ذریعہ اختیار کرتا تو اس قدر جلد ایسی زبردست مقبولیت نہیں حاصل کر پاتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی مقصد میں کامیابی کے لئے معصوم لوگوں کی جانوں سے اس طرح کھیلا جا سکتا ہے ؟مغربی دہشت گردوں کے لئے اس سوال کا جواب مثبت ہے اس لئے کہ وہ انسانیت سے خالی وحشی درندے ہوتے ہیں۔ بریوک کی ذاتی ڈائری اس حقیقت کی شاہد ہے کہ وہ ۸۲دنوں تک اپنے منصوبے پر کام کرتا رہا۔ ۴۱ روز قبل جب وہ وسط میں پہونچا تو نہایت دلچسپ الفاظ اس نے صفحۂ قرطاس پر ثبت کئے وہ لکھتا ہے۔ ’’آج بڑے دنوں کے بعد میں نے پہلی بار عبادت کی، میں نے خدا کو سمجھایا اگر وہ نہیں چاہتا کہ مارکسی و اسلامی محاذ یوروپ پر قابض ہو جائے تو اسے چاہئے کہ یوروپی عیسائیت کا تحفظ کرنے والے جنگجوؤں کی کامیابی کو یقینی بنائے ‘‘اپنی اس جرأت رندانہ کے بعد آخری دن وہ کچھ یوں رقمطراز ہے۔ ’’۲۰ دھماکوں کا بارود میرے پاس ہے مجھے اپنے طے شدہ مقامات پر دھماکوں کے سلسلے کی ابتدا کرنی ہے۔ اگر سب کچھ ناکام ہو گیا تو میں دوبارہ نجی تحفظ کے ادارے میں ملازمت اختیا ر کروں گا تاکہ کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ کما کر قرض ادا کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ میرا آخری اندراج ہے اس لئے کہ رات کے ۱۲ء ۱۵ہو چکے ہیں۔ آئندہ بہار میں پولس افسر کا نیالباس جب میں زیب تن کروں گا تو کیا خوب لگوں گا۔ اس کے بعد حاشیئے میں لکھتا ہے تصور کریں کہ اگر کل انتظامیہ کا عملہ میرے پاس آئے اور اس غلط خیال کے ساتھ کہ میں دہشت گرد ہوں۔ گویا اسے یقین ہے کہ دوسروں کی نظر میں تو وہ دہشت گرد ہے لیکن خود اپنی نظر میں نہیں۔ آخری سطر اس طرح ہے نیک تمناؤں کے ساتھ انڈریوبریوک۔ جسٹیشئر نائٹ کمانڈر۔ نائٹس ٹمپلر یوروپ۔
اس ڈائری کو پڑھنے کے بعد یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے آخر اس انتہا پسندی کا محرک کیا ہے، وہ کون سی چیز ہے جو بریوک جیسے نوجوانوں کے لئے دہشت گردی کو مرغوب بناتی ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کچھ اس طرح دیتا ہے کہ ’’اے ایمان والو خبردار غیروں کو اپنا راز دار نہ بنانا یہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے – یہ صرف تمہاری مشقت و مصیبت کے خواہش مند ہیں – ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے . ہم نے تمہارے لئے نشانیوں کو واضح کر کے بیان کر دیا ہے اگر تم صاحبانِ عقل ہو۔ (آل عمران ۱۱۸)
٭٭٭
اک نئے عہد کی تعمیر کا موسم آیا
(قسط اول)
ستمبر ۲۰۰۱ء امریکی تاریخ کا تاریک ترین مہینہ تھا اور ستمبر۲۰۱۱ء اسرائیل کے لئے منحوس ترین مہینہ بننے جا رہا ہے ایسا لگتا ہے صہیونی ریاست پر چہار جانب سے مشیت نے اپنا شکنجہ کس لیا ہے۔ اس شش جہت حملے میں اس کا دایاں ہاتھ ترکی مروڑ رہا ہے اور بائیں پنجے کو مصر کچل رہا ہے۔ یہ دونوں ہاتھ عرصۂ درازسے اسرائیل کی وہ خدمت کر رہے تھے جواس کے کسی اور حلیف کے لئے ممکن نہیں تھی۔ آگے سے محمود عباس آنکھیں دکھلا رہے ہیں اور پیچھے سے وزیر خارجہ اویگڈور لائیبرمن چھرا گھونپنے کی تیاری میں ہیں۔ ا یک طرف سرسے امریکی سرپرستی کا سایہ اٹھتا جا رہا ہے تو عوامی مظاہرے قدموں تلے کی زمین کھسکا رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لئے یہ اشارات کافی ہیں لیکن چونکہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کو اپنے داخلی مسائل سے فرصت نہیں اس لئے تفصیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اس سال ۱۱ ستمبر کو قاہرہ کی عدالت میں ایک مقدمہ کی سماعت ہونے والی ہے جس میں نورہ الفرع نامی وکیل نے حکومت مصر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قاہرہ میں واقع اسرائیلی سفارتخانہ بند کر دے۔ ایک اور مقدمے میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مصری سپاہیوں کا قصاص پانچ بلین ڈالر طلب کیا گیا ہے۔ ایلاط کے سانحہ کے خلاف منعقد ہونے والے مظاہروں کے درجِ ذیل مطالبات بھی دوررس نتائج کے حامل ہیں :
• اسرائیل کی جانب سے معذرت کی درخواست
• حادثہ کی مشترکہ تفتیش
• اسرائیل کے سفیر کی ملک بدری
• مصری سفارتکاروں کی تل ابیب سے واپسی
• ۱۹۷۹ء میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں ترمیم
وسطِ اگست سے ایلاط کی سرحد پر اسرائیلی گولی باری میں ہلاک ہونے والے مصری اہلکاروں کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس دوران ایک مرتبہ اسرائیلی ریڈیو کی ویب سائٹ کو اور اس کے بعد وزیر اعظم نتن یاہو کی ویب سائٹ کو مصریوں نے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس پر اسرائیل کے خلاف مواد اور تصاویر لگا دیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی سفارتخانے کی ۲۲ منزلہ عمارت کی چھت پر ایک شخص تمام حفاظتی انتظامات کو پھلانگ کر پہنچ گیا اور وہاں موجود اسرائیلی پرچم کو پھاڑ کر مصری جھنڈا لہرا دیا۔ پھٹا پرچم جب نیچے آیا تو اسے موجود مظاہرین نے جلا دیا۔ اس واقعہ نے راتوں رات احمد سہلات نامی نوجوان کو مصری اسپائیڈر مین کی حیثیت سے مقبولِ عام کر دیا۔ ایلاط کے مقام پر اسرائیلی فوجی بس پر مجاہدین نے گھات لگا کر حملہ کیا تھاجس میں ۸ یہودی فوجی ہلاک ہوئے اس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے نہ صرف ۵ مصری حفاظتی اہلکاروں کو شہید کیا بلکہ ۱۵ شہریوں کو غزہ میں بمباری کر کے ہلاک کر دیا۔
ان بزدلانہ مظالم کے باوجود وزیر اعظم نتن یاہو نے غزہ پر فوجی کارروائی کی دھمکی دے دی دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نتن یاہو کو حزب اختلاف قدیمہ کی رہنما زیپی لیفنی کی تائید حاصل ہو گئی اور اس نے پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کر دی لیکن اس بار سخت گیر وزیر اعظم اور ان کے بد دماغ وزیر خارجہ بھی ۲۰۰۸ کی حماقت دوہرانے کی جرأت نہ کر سکے اور اس تجویز کوواضح اکثریت کے ساتھ نامنظور کر دیا گیا جس کی وجہ یہ بتلائی گئی کہ موجودہ صورتحال میں مصر کو مزید ناراض نہیں کیا جا سکتا، ایسا کرنے کے نتیجے میں اسرائیل یک و تنہا ہو جائے گا اور ایک ایسی مشکل میں پھنس جائے گا جس سے وہ ہر صورت بچنا چاہتا ہے نیزاسرائیل کے پاس اس فوجی کارروائی کے لئے وافر جواز موجود نہیں ہے۔ یہ کسی مبصر کے نہیں بلکہ وزیر اعظم کے الفاظ ہیں جو اس کی کمزوری کا ببانگِ دہل اعتراف کرتے ہیں۔ مصر میں برپا ہونے والے عوامی انقلاب سے قبل اس بات کا تصور بھی محال تھا لیکن اب مصرحسنی مبارک کے اس نا مبارک چنگل سے نکل چکا جس نے اسرائیلی حملے کے وقت غزہ کی سرحد کو بند کر کے خود کو عذابِ الٰہی کا مستحق بنا لیا تھا۔
ایک زمانے تک مصر سے بھی زیادہ اسرائیل کا حامی ترکی ہوا کرتا تھا لیکن اسرائیل نے غزہ کی جانب آنے والے امدادی قافلہ فلوٹیلا پر حملہ کر کے ۸ ترکی باشندوں کے ساتھ ایک ترکی نژاد امریکی شہری کو شہید کر دیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔ اقوامِ متحدہ نے اس واقعہ کی تفتیش کر کے بالکل ویسی ہی رپورٹ تیار کر دی جیسی کہ بابری مسجد تنازعہ میں الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا اس میں عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر تمام فریقوں کو خوش کرنے کی کوشش میں سبھی کو ناراض کر دیا۔
نتن یاہو نے رپورٹ کو ملتوی کرنے کی لاکھ کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ مذکورہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ اسرائیل نے طاقت کا بیجا استعمال کیا مگر غزہ کے محاصرے کو جائز قرار دیا گیا جبکہ خود اقوام متحدہ کی دیگر قرارداد اس کے خلاف ہیں۔ چونکہ یہ حملہ بین الاقوامی سمندر میں نہتے لوگوں پر کیا گیا اس لئے پوری طرح غیر قانونی تھا مگراس بابت مکمل خاموشی برتی گئی۔ ترکی حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نہ صرف یہ مطالبہ کیا کہ اسرائیل اپنی اس حرکت کے لئے غیر مشروط معافی مانگے بلکہ شہید ہونے والوں کے ورثہ کو فی کس ۱۰ہزار ڈالے قصاص ادا کرے اور اسی کے ساتھ غزہ کا غیر انسانی محاصرہ بھی فی الفور ختم کرے۔ ترکیوں نے اپنے مطالبے کے پیش نظر اسرائیلی سفیر کو واپس بھیج دیا اور اسرائیل کی سفارتی حیثیت کو کم کر دیا نیز تمام فوجی معاہدوں کو منسوخ کر ڈالا۔ اب ترکی حکومت اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے جا رہی ہے اور ممکن ہے اس ستمبر میں وہ مقدمہ قائم ہو جائے۔ اس مقدمہ میں ترکیوں کو کامیاب کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کافی شواہد موجود ہیں جسے سیاستدانوں نے تو نظر انداز کر دیا لیکن کسی عدالت کے لئے ایسا کرنا خاصہ مشکل ہے۔
اسرائیل کی حمایت جس طرح مصر اور ترکی کی حکومتیں کر رہی تھیں اسی طرح فلسطینیوں کے گھر کا بھیدی محمود عباس بھی کرتا رہا ہے۔ محمود عباس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ حماس ہے جس نے پی ایل او کی اجارہ داری نہ صرف ختم کر دی بلکہ گزشتہ انتخابات میں اسے شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ خود محمود عباس کی صدارتی میقات ایک سال قبل ختم ہو چکی ہے اور وہ دوبارہ انتخاب لڑنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے۔ اسرائیل کی دوستی نے ایک طرف ان کے اعتبار کو بری طرح متاثر کیا دوسری جانب اسرائیل کی بدعہدی نے ان کا بیڑا غرق کر دیا۔ نوآبادیات کی توسیع بلا توقف جاری رہی اور اس سے نام نہاد امن گفتگو ایک ایسے تعطل کا شکار ہو گئی کہ خود امریکہ بھی بے دست وپا ہو کر رہ گیا۔ اب ہر طرف سے مایوس ہو کر محمود عباس نے اسرائیل سے ناراضگی کی قیمت پر اپنی مقبولیت میں اضافے کا داؤں رچایا اور اقوامِ متحدہ میں فلسطینی ریاست کی باقاعدہ رکنیت کے لئے جدو جہد میں لگ گئے ہیں، محمود عباس کے اس موقف سے اسرائیل و امریکہ دونوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ اب محمود عباس کو معاشی امداد کے منسوخ کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے لیکن یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔
جلاوطن فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان تو پی ایل او نے ۱۹۸۸ء میں کر دیا تھا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد فلسطینی نمائندے کو اقوامِ متحدہ میں مستقل مشاہد کی حیثیت سے شامل کیا گیا اور باقاعدہ ممبران کے بعد سب سے پہلے اسی کو بحث میں شامل کیا جانے لگا لیکن وہ ہنوز رائے دینے کے حق سے محروم ہے۔ اس بیچ یہ ہوا کہ اقوام متحدہ کے ۱۹۳ ممبران میں سے ۱۳۰نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیا اور ان ممالک میں فلسطین کے سفارت خانے قائم کر دئیے۔ اس بار باقاعدہ رکنیت کے لئے جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کاؤنسل کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے ہیں۔ سیکیورٹی کاؤنسل میں یقیناً امریکہ اسے ویٹو کرسکتا ہے لیکن اگر جنرل اسمبلی کی دو تہائی اکثریت اس کے حق میں رائے دے دے تو امریکہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ۱۲۵ ممالک نے تجویز کے پیش ہونے سے قبل ہی اپنی حمایت کا اعلان کر دیا اور باقی لوگ تجویز کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس دوران ۲۳ ستمبر کو اقوامِ متحدہ کے ہونے والے اجلاس کے جاری شدہ پروگرام نے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ۲۳ستمبر جمعہ کا دن ہے جسے دینِ اسلام میں تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ عالم اسلام میں تمام احتجاجی مظاہروں کے لئے اسی مبارک دن کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے۔ ویسے تو مصری مسلمانوں نے عیدالفطر کے دن بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان خوشی اور غم کے ہر موقع پر اپنے احتجاجی فرائض ادا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں محمود عباس کے لئے دوپہر ۱۲ بجے کا وقت مختص کیا گیا جو بڑے سربراہانِ مملکت کے لئے خاص ہوتا ہے اور اس وقت سارے ہی ممبران حاضر ہوتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے لئے رات نو بجے کا وقت تجویز کیا گیا ہے جبکہ اکثر لوگ واپس جاچکے ہوتے ہیں۔ اسرائیل نے مذہبی بنیاد پر ا س کے یوم السبت میں ہونے کے باعث اعتراض کیا ہے۔ اس اجلاس میں شریک ہونے کے لئے امریکہ اور اور اسرائیل کی آنکھوں کا کانٹا سمجھے جانے والے ایرانی صدر احمدی نژاد بھی بنفس نفیس شریک ہو رہے ہیں گویا اسرائیل کے زخموں پر نمک کے چھڑکاؤ کا انتظام زور شور سے ہو رہا ہے۔ گردشِ زمانہ نے اسرائیل کی وہی حالت پی ایل او کے سامنے کر دی ہے جو کبھی اس کے آگے پی ایل اوکی ہوا کرتی تھی کہ اسرائیل کا زر خرید غلام بھی اسے آنکھیں دکھا رہا ہے۔
اسرائیلی حکومت کی پشت میں چھرا گھونپنے کی تیاری خود وزیرِ خارجہ اویگڈورلائبرمن کر رہا ہے۔ یہ شخص چند سال قبل روس سے ہجرت کر کے اسرائیل میں آیا اور صدیوں سے وہاں بسنے والے مسلمانوں سے اسرائیلی حکومت کی وفاداری کا مطالبہ کرنے لگا اس کا کہنا ہے کہ اگر عرب اس کے لئے تیار نہیں ہوتے تو انکو شہریت کے حق سے محروم کر دیاجانا چاہئے۔ وہ یہودی مہاجرین کے حقوق کا بھی بہت بڑا حامی ہے۔ پہلے یہ سرمایہ دار لکڈ پارٹی میں شامل تھا مگر بعد میں اس نے اپنی مادرِ وطن پارٹی بنا لی اور گزشتہ انتخاب میں ۱۵ نشستوں پر کامیابی درج کر لی۔ بنجامن نتن یاہو کو چونکہ اس بار واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی اس لئے اس نے لائیبر من کی حمایت حاصل کر کے اسے وزیر خارجہ بنا دیا لیکن لائبرمن پر دس سال قبل غبن کا الزام ہے اور ڈیڑھ سال قبل اس کو رشوت ستانی کے معاملے میں بھی ملوث پایا گیا ہے۔ پہلے تو وہ کہتا تھا کہ اگر میرے خلاف مقدمہ قائم ہو گیا تو میں استعفیٰ دے دوں گا لیکن اب وہ اپنے وعدے سے مکر گیا ہے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اسے استعفیٰ دینا پڑا تو نتن یاہو کی مخلوط حکومت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اب اپنی حکومت کو بلیک میل کر کے اس پر دباؤ بنانے کے لئے اس نے نئی افواہ پھیلا دی ہے فلسطینی ایک بہت بڑے پر تشدد مظاہرے کی تیاری کر رہے ہیں اس لئے حکومت کو پی ایل او سے روابط توڑ لینے چاہئیں۔ یہ اس قدر بے بنیاد افواہ ہے کہ فلسطینی حکام کے علاوہ خود اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے بھی اس کی تردید کر دی ہے۔
لائبر من کے اس مطالبے نے اسرائیلی حکومت کے لئے نئے مسائل کھڑے کر دئیے ہیں۔ ایک طرف محمود عباس کو اقوامِ متحدہ میں قرار داد پیش کرنے سے روکنے کے لئے اسرائیل انہیں کسی صورت مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے اور دوسری جانب یہ احمق قومی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے حکومت کو گرا کر دوبارہ انتخاب کروانا چاہتا ہے تاکہ اس کی سیاسی حیثیت مضبوط تر ہوسکے اور وہ متوقع ۱۰ سال کی سزا سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ اسرائیلی سیاستدانوں کے بارے میں جو غلط فہمی پائی جاتی تھی وہ اپنے ملک کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اسے وندے ماترم کا کلمہ پڑھنے والے لائبرمن نے دور کر دیا ہے۔
اسرائیل کی بقاء اور استحکام کی بنیادی وجہ اس کی داخلی قوت نہیں بلکہ بیرونی حمایت رہی ہے۔ اس کے قیام کی حمایت کے لئے دو ازلی دشمن امریکہ اور سوویت یونین یکجا ہو گئے تھے اور اس کے بعد سارا مغرب اسرائیل کا ہمنوا بنا رہا اور تو اور اب اسے ہندوستان کی بھی نصرت و مدد حاصل ہو گئی ہے لیکن فی الحال امریکی ریاست اور امریکی صدر دونوں کی حالت بہت پتلی ہے اور وہ دونوں خود اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کے لائبرمین اور زیپی لیونی کی طرح امریکہ کی حزبِ اختلاف جماعت بھی اوبامہ کا بیڑہ غرق کرنے کے لئے قومی مفادات سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ اوبامہ اپنی مقبولیت میں اضافے کے پیش نظر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں تاکہ آئندہ انتخاب میں کامیابی حاصل کی جائے لیکن ریپبلکن ان کو اپنے اس ہدف سے محروم کرنے کے لئے ان کاموں میں روڑا اٹکاتے ہیں تاکہ اوبامہ کی ناکامی کا سہارا لے کر خود اپنی سیاسی روٹیاں سینک سکیں۔ اس رسہ کشی میں ری پبلکن پارٹی اپنی کانگریس (پارلیمان) کے اندر اکثریت کے باعث کامیاب ہو جاتی ہے۔ ہاتھی اور گدھے کی اس لڑائی میں ایک طرف جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے اور دوسری طرف عوام کا نقصان ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اس چکی میں عوام پس رہے ہیں۔
اسرائیل کے سر پر جو سب سے مضبوط سائبان امریکہ کا تھا اس میں ہر روز ایک نیا چھید ہو رہا ہے۔ اس کے دست و بازو مفلوج ہو رہے ہیں۔ یہودیوں نے اللہ کو چھوڑ کر جن کا سہارہ پکڑا تھا ان کی مثال مکڑی کے جال کی سی تھی جیسا فرمانِ خداوندی ہے ’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دُوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے کاش یہ لوگ علم رکھتے ‘‘(۴۱:۲۹)تاریخ شاہد ہے کہ ایسے تمام لوگ جو کمزور سہاروں کی بنیاد پر اپنا گھر بناتے ہیں وہ بالآخر اس آیت کی زندہ تفسیر بنا دئیے جاتے ہیں جس میں فرمایا گیا ’’آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا، اور کسی کو غرق کر دیا اللہ اُن پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے ‘‘۔ (۴۰:۲۹)
اس تباہی و بربادی کی فضا میں حق کا سراپا منتظر شاعر انتظار نعیم امید کی ایک نئی کرن دیکھ لیتا ہے اور کہتا ہے ؎
اک نئے عہد کی تعمیر کا موسم آیا
قصرِ طاغوت ہواؤں میں بکھرتا دیکھوں
٭٭٭
شیشہ ہو کے موتی جام کہ در جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
(دوسری قسط)
شیش محل میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں اٹھایا کرتے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب محلوں میں رہنے والوں کے اندر شیشے کی نزاکت کا شعور پایا جاتا تھا لیکن دورِ حاضر میں یہ احساس ختم ہو گیا لوگوں نے شیشے کی چادر کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار سمجھ لیا ہے۔ وہ اپنے محلوں سے توپ و تفنگ سے لیس ہو کر اکڑتے ہوئے نکلتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ بقول فیض ؔ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ؎
شیشہ ہو کے موتی جام کہ در جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
صیہونی فتنہ اور صلیبی طاغوت کے ظلم و ستم کی طغیانی نے جب عالمِ انسانیت کو بری طرح لہولہان کر دیا تواس کے جواب میں معتوبوں نے اینٹ کے جواب میں پتھر اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پھر کیا تھادیکھتے دیکھتے شیش محل میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ پہلے اس رد عمل سے قدموں تلے ارتعاش پیدا ہوا اور اب اس کی کرچیں شہ رگ کو کھرچنے لگی ہیں کبر و غرور کا آسمان میں اٹھا ہوا سر زمین کی جانب جھکنے لگا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت گزشتہ ہفتہ ہونے والا کابل کے امریکی سفارتخانے اور ناٹو کے صدر دفتر پر طالبان کا حملہ ہے اور اسی کے ساتھ ترکی کے وزیر اعظم طیب اردغان کا یہ اعلان کہ اب آئندہ غزہ کی جانب جانے والی امدادی کشتی کے ساتھ فوجی رسد بھی موجود ہو گی تاکہ اسرائیلی فوج کو منہ توڑ جواب دے سکے۔ یہ تو خیر بیرونی مسائل کی سونامی ہے جن سے اسرائیل جوجھ رہا ہے لیکن اس شیش محل کے اندر ہونے والی عوامی اتھل پتھل نے مسائل کی سنگینی میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے اور اس کے حکمرانوں کی نیند حرام کر دی ہے۔ مسلم دنیا میں برپا ہونے والے انقلابات نے اسرائیل کے یہودیوں کو خوابِ خرگوش سے بیدار کر دیا ہے اور وہ بھی اپنی حکومت اور نظام کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں یہ صدائے احتجاج اس مسلم بیداری کی مرہونِ منتّ ہے جس کا نقشہ انتظار نعیم کچھ اس طرح کھینچتے ہیں ؎
ملکوں ملکوں شہروں شہروں ایک نئی بیداری ہے
جاء الحق و زھق الباطل سب کی زباں پر جاری ہے
تل ابیب سمیت مختلف شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں میں لوگوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ جولائی کے اواخر میں یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی تین ماہ کے اندر اس میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ تل ابیب کا ہبیما چوک اب تحریر چوک کے نام سے مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں ’’استعفیٰ دو مصر یہاں ہے ‘‘۔ واجبی قیمت پر گھروں کی خاطر شروع ہونے والی تحریک اب ٹیکس کے نظام میں اصلاح اور فلاحی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے۔ مظاہرے میں شامل طلبا رہنما شمولی کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ملک کی خاطر جان لڑا سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم ہم آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اس ملک میں زندہ رہنے دیں گے۔ اس اعلان میں نوجوان نسل کی جانب سے یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ اگر حالات نہیں بدلے تو ہم ترکِ وطن کر کے باہر نکل جائیں گے۔ جن لوگوں کے لئے فلسطینیوں کو بے وطن کیا گیا تھا اب وہی اپنی نام نہاد مملکتِ خداداد سے فرار کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ سٹاف شافر جو اس تحریک کے بانیوں میں سے ایک ہے کہتا ہے کہ ’’ہمارا مطالبہ وزیر اعظم کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کا ہے۔ ‘‘
جس نظام کی تبدیلی کے لئے اسرائیلی عوام سڑکوں پر اترے ہیں وہ حسنی مبارک یا معمر قذافی کی مانند کوئی فوجی آمریت نہیں بلکہ مغربی جمہوریت ہے۔ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسرائیل کو حاصل ہونے والی مغربی شفقت کی ایک وجہ یہی قدرِ مشترک ہے اور ہندوستان سے انسیت بھی اسی سبب سے ہے۔ گو کہ اسرائیل مغرب کا حلیف ہے اس کے باوجود وہاں کے صیہونی نظام حکومت اور ہندوستانی براہمنی طرز سلطنت میں غیر معمولی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسرائیل میں برطانیہ کی طرح نہ تو کوئی ملکہ براجمان ہے اور نہ ہی امریکہ کی مانند صدارتی نظام رائج ہے بلکہ ہندوستان جیسی خالص پارلیمانی جمہوریت کا دور دورہ ہے بلکہ ہندوستان پر بھی اس معنی ٰ میں اسے فوقیت حاصل ہے کہ وہاں کسی نہرو خاندان کی اقتدار پر اجارہ داری نہیں پائی جاتی۔ اس سونے پر سہاگہ کا کام مسلم دشمنی ہے۔
اسرائیل میں انتخابات کا سلسلہ کبھی بھی نہیں رکا۔ ہندوستان ہی کی طرح اسرائیل میں بھی بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں جو انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ ان میں لکڈ پارٹی کا نگریس کی طرح ہے۔ اس سے الگ ہو کر بننے والی قدیمہ کی حالت جنتا دل کی مانند ہے۔ لائیبرمن کی مادرِ وطن پارٹی کے عزائم اور لب و لہجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے شباہت صاف نظر آتی ہے اور لیبر پارٹی کا حال نظری و عملی سطح پرکمیونسٹوں جیسا ہے۔ یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ فی الحال ہندوستان ہی کی طرح وہاں بھی ہر جماعت واضح اکثریت سے محروم ہے اس لئے مخلوط حکومت کی مجبوریاں ہر دو مقام پر لاحق ہیں اور حکومت سازی سے قبل ہونے والی ابن الوقتی اور سودے بازیاں بالکل ایکدوسرے کی ہمزاد ہیں بلکہ اسرائیل کے اڈوانی لائیبرمن کو اپنے سارے اختلافات بھلا کر لکڈ سے ہاتھ ملا لینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی بشرطیکہ اسے وزارتِ خارجہ کا قلمدان تھما دیا جائے۔ لیبر پارٹی جو انتخاب سے قبل حزبِ اختلاف قدیمہ کی حکومت میں شامل تھی اب بڑی بے حیائی کے ساتھ پالہ بدل کرجمہوریت کی بقاء کی خاطر لکڈکے ساتھ آ کر وزارتِ دفاع پر قبضہ جما لیتی ہے۔ بدعنوانی کے الزامات میں سابق وزیر اعظم یہود اولمرٹ کوملوث پایاجاتا ہے اور صدر مملکت اپنی سکریٹری کے ساتھ دست درازی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ انتخابی کرتب بازی بھی ملتی جلتی ہی ہے۔ یہاں کانگریس اپنے رائے دہندگان کو خوش کرنے کے لئے میرٹھ اور ملیانہ جیسے فرقہ وارانہ فسادات کرواتی ہے تو وہاں صابرہ اور شتیلہ کے مہاجرین کیمپوں کو بمباری کر کے لالہ زار کیا جاتا ہے۔ بی جے پی کارگل کی جنگ اور گجرات کی نسل کشی کے نام پر ووٹ مانگتی ہے تو قدیمہ غزہ پر حملہ بول کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کی کوشش کرتی ہے۔ دونوں ہی ممالک پر جمہوری دیوِ استبداد کا یکساں رنگ روپ ہے۔
اسرائیل میں جمہوریت نوازوں نے فلسطینیوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا ہے جس کا شکار کشمیر کے مسلمان ہیں۔ اور تو اور پنجاب کے سکھوں اور میزورم کے عیسائیوں کو بھی سرکاری جبر و ظلم کا اسی طرح نشانہ بنایا گیا جیسا کہ غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو بنایا جاتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح اسرائیل اپنے پڑوسی مصر اور شام سے بر سرِ جنگ رہا ہے ویسی ہی جنگیں ہندوستان اور اس کے پڑوسی چین و پاکستان کے درمیان بھی ہو چکی ہیں۔ جس طرح اسرائیل نے لبنان میں عیسائی اقلیت کو مسلح کر کے وہاں خانہ جنگی پھیلائی ایسی ہی سازش ہندوستان نے مشرقی پاکستان کی مکتی باہنی اور سری لنکا کی تمل ٹائے گرس کی مدد سے کی۔ جس طرح اسرائیل سے اس کے ہم سایہ ممالک نالاں ہیں بالکل وہی صورتحال بھارت کی بھی ہے کہ بشمول نیپال سارے ہی پڑوسی اس سے شاکی اور خوفزدہ ہیں۔ نئی عالمی سیاسی صورتحال نے ہند اور اسرائیل کے درمیان ایک اور خطرناک مماثلت پیدا کر دی ہے۔ جس طرح مسلم دنیا کے خلاف اسرائیل امریکہ کا آلۂ کار بنا ہوا ہے اسی طرح کا کردارہندوستان کی حکومت امریکہ کے لئے چین کے خلاف ادا کرنے جا رہی ہے۔ اسرائیل نے جس طرح حسنی مبارک سے تعلقات استوار کر رکھے تھے اسی طرح ہندوستان نے افغانستان کی بدعنوان اور کٹھ پتلی حکومت سے سانٹھ گانٹھ کر لی ہے۔ تبت کے دلائی لامہ جس طرح دلی کے منظورِ نظر ہیں اسی طرح محمود عباس کی تل ابیب میں پذیرائی کی جاتی رہی ہے۔
تہذیب و تمدن کی سطح پر ہندو برہمنیت اور یہودی صیہونیت کے درمیان مطابقت حیرت انگیز ہے۔ دونوں کی بنیادنسلی تفاوت و امتیاز پر اٹھائی گئی ہے۔ دونوں کو اپنی قدامت کا زعم ہے۔ دونوں اپنے آپ کو مظلومیت کا شکار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہندو دانشوروں کو بابر اور جناح سے وہی شکایت ہے جو یہودیوں کو ہٹلر سے ہے لیکن جمہوری نظام اس فتنہ پر اثر انداز ہو نے کے بجائے اس سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو گیا ہے اور یہ گٹھ جوڑ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے توہندوستان نے جس زمانے میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی اسی دور میں اسرائیلی ریاست نے انگریزی سامراج کے بطن سے جنم لیا گویا دونوں مقامات پر اس فاسدنظام کی داغ بیل ایک ہی وقت میں پڑی۔ آمریت کے آسیب کو اس کی جڑیں کھوکھلا کرنے کا موقع ان دونوں ممالک میں نصیب نہیں ہوا اس لئے وقت کے ساتھ اس کی جڑیں زمین میں گہری اور شاخیں آسمان میں پھیلتی چلی گئیں اور اب جبکہ اس کے پھلنے پھولنے کا وقت آیا ہے تو یہ یکساں پھل دے رہا ہے۔ نظام کوئی بھی ہو جب اس کا بیج زمین میں پڑتا ہے تو لوگوں کو اس سے کچھ امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں۔ جب نازک سی کونپل بیج کے سخت خول سے باہر سر ابھارتی ہے تو معصوم بچے کی مانند خوشنما لگتی ہے۔ جب وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوتی ہے لوگوں کا دل لبھاتی ہے۔ جب اس کی شاخیں سایہ دار ہو جاتی ہیں تو عوام کو راحت محسوس ہوتی ہے لیکن پھر جب اس درخت کو پھل لگتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ شجر طیب ہے یا خبیث ہے۔
جمہوریت کا شجر خبیثہ فی الحال یوروپ، امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل سبھی کو یکساں پھلوں سے نواز رہا ہے، یوروپ کے ممالک یکے بعد دیگرے کنگال ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں اٹلی کا قلاش صدر اپنا دامن پھیلانے کے لئے امریکہ کے بجائے چین کا رخ کرتا ہے۔ امریکہ میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ دہائیوں میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ۱۵ فی صد عوام غریبی کی سطح سے نیچے پہنچ گئے ہیں جن میں نوجوان۲۲ فیصد ہیں۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہندوستان میں پٹرول کی قیمت میں اضافے کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہو رہے ہیں اس لئے کہ پچھلے دس ماہ میں یہ دسواں اضافہ ہے۔ مہنگائی کے معاملے میں اسرائیل بھی ہندوستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ آٹے کا بھاؤ ۱۹ فی صد بڑھا ہے کھانے کے تیل میں ۲۳ فی صد اضافہ ہوا ہے شکر کی قیمتیں ۴۰ فیصد تو اچھے قسم کے گیہوں کی قیمت میں ۱۰۶فیصد کی بڑھوتری دیکھنے کو آئی ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کو بے گھر کر کے اپنے عوام کو رہائش فراہم کرنے کا دعویٰ کرنے والی صیہونی حکومت کا حال یہ ہے کہ ۹۳ فیصد زمین پر قابض ہونے کے باوجود وہ اس محاذ پر بری طرح ناکام ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے اندر گھروں کا کرایہ ۳۵ سے ۴۰ فی صد بڑھا ہے۔ دو یا تین آرامگاہ والے معمولی گھر کی قیمت۶ لاکھ سے ۱۰ لاکھ امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ ابتدا میں اسی پریشانی نے عوام کو راستوں پر خیمے لگا کر مظاہرہ کرنے پر مجبور کر دیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل میں معاشی ترقی کی شرح دیگر صنعتی ممالک سے بہتر ہے لیکن اس ترقی کا فائدہ ہندوستان کی مانند ٹاٹا اور امبانی جیسے سرمایہ داروں کو تو ہو رہا ہے لیکن عام آدمی اس سے محروم ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۵ فی صد لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ امریکہ میں ۲۲۰۰ ڈالر ماہانہ کمانے والا غریب کہلاتا ہے جبکہ اسرائیل میں ۹۰۰ ڈالر ماہانہ سے زیادہ کمانے والے خاندان کو غریب شمار نہیں کیا جاتا۔ ۲۰۰۸ء کے مقابلے اس شرح میں ۳ء ۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل میں ہر تین میں سے ایک بچہ غریب ہے اور جن ملازمین کو کم از کم تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑتا ہے ان میں خواتین کی تعداد ۷۰ فی صد ہے۔ ہٹلر کے مظالم کا شکار ہونے والے جو لوگ اسرائیل میں خوشحالی کے خواب سجا کر آئے تھے ان میں سے ۴۰ فیصد غربت کا شکار ہیں۔ ڈاکٹروں نے اپنی تنخواہ میں اضافے کی خاطر ہڑتال کر رکھی ہے۔
اسرائیل کی حکومت بجٹ کا بڑا حصہ قومی تحفظ پر خرچ کر دیتی ہے اس لئے سماجی فلاح و بہبود کے وسائل سکڑگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مظاہرین گھروں کی قیمتوں سے آگے بڑھ کر پورے معاشی نظام اور معاشرے میں مکمل تبدیلی پر زور دے رہے ہیں۔ وہ ٹیکس کا نیا نظام چاہتے ہیں بجلی کی نرخ میں اضافے کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، مفت تعلیم و بچوں کی فلاح و بہبود پر زور دیتے ہیں سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس بات کا ا مکان ہے کہ اگر مصر اسرائیل کو سستے داموں ایندھن کی سپلائی بند کر دیتا ہے جس کا اشارہ مصری وزیر اعظم نے حال میں بلا واسطہ یہ کہہ کر دیا کہ کوئی معاہدہ مقدس نہیں ہے سبھی پر نظرِ ثانی ہو سکتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسرائیلی معیشت کی کمر ٹوٹ سکتی ہے۔ اسرائیل کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً بیس سرمایہ دار خاندانوں نے سارے ملک کی معیشت کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ ان خاندانوں کی ملکیت میں ۲۵ سب سے بڑی کمپنیاں مثلاً بنک، سپر مارکیٹ، ٹیلی فون، زمین جائداد، پٹرول پمپ اور دیگر ہیں اور ۵۰ فی صد اسٹاک مارکیٹ پر ان کا قبضہ ہے۔ سابق وزیر اعظم یہود اولمرٹ کے زمانے میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز افسر یورم ٹربووکز اعتراف کرتے ہیں کہ یہ سرمایہ دار حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں۔ مخلوط حکومت میں شامل مادِ وطن پارٹی ان سرمایہ داروں کی ایجنٹ ہے وہ حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرنے سے روکتی ہے اور کبھی عربی کے خلاف تحریک چلانے لگتی ہے تو کبھی فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے یہودیوں کو غدارِ وطن ثابت کر کے ان کے خلاف قانون بنانے میں جٹ جاتی ہے۔ وزیر اعظم نتن یا ہو کے ایک جانب اقتدار کی کرسی اور عوام کے مسائل ہیں اور دوسری جانب مادرِ وطن پارٹی اور سرمایہ دار ہیں ان دونوں کے درمیان جمہوری نظام کی چکی میں عوام پس رہے ہیں۔ یہ مسئلہ اسرائیل، امریکہ یا ہندوستان کا نہیں بلکہ ان ممالک میں رائج نظامِ سیاست کا ہے جو بذاتِ خود اپنے متبادل کا مطالبہ کرتا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے ’’اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے ‘‘ باطل نظام کی سب سے بڑی شناخت اس کی بے ثباتی ہوتی ہے جس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب بادِ مخالف سے اس کی جڑیں ہلنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ مغربی جمہوریت کے ساتھ شرق و غرب میں ہو رہا ہے۔ اس کا متبادل صرف اور صرف اسلامی خلافت ہے جس کے بارے میں فرمایا ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں۔ ‘‘
اسرائیلی ریاست مغربی تحفظ کے بل بوتے مسلمانوں کی مخالفت کا مقابلہ کرتی رہی لیکن اب مغرب کے اپنے چل چلاؤ کا دور آن پہنچا ہے اور وہ خود اپنی بقاء کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے ایسے میں بھلا کسی اور کی حفاظت اس کے بس کا رو گ نہیں۔ نیز اسلامی تحریک جو کبھی ایک نازک سی کونپل تھی اب ایک تناور پھلدار درخت بن گئی ہے جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اب باطل کے لئے ناممکن ہو گیا ہے کہ وہ اس کا بال بیکا کر سکے۔ گردشِ زمانہ نے امریکہ اور اسرائیل کو جس طرح یک و تنہا کر دیا ہے اس پر غالب کا شعر(مع ترمیم)صادق آتا ہے ؎
قیس انڈیا میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
٭٭٭
ادب و مزا ح
گاندھی جی کی عینک
(قسط اول)
ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں وردھا کے مقام پر۱۹۳۶ء میں گاندھی جی نے اپنا ایک گھر بنایا تھا جو آگے چل کر سیوا گرام نام کے آشرم میں تبدیل ہو گیا۔ جب گاندھی جی حیات تھے تو اس آشرم سے گاؤں والوں کی سیوا کی جاتی تھی اب گاندھی جی کی سیوا بھاونا (خدمتِ خلق کا جذبہ) کی مانند یہ آ شرم بھی پرکھوں کی ایک یادگار بن چکا ہے جہاں ہر سال ۳ لاکھ زائرین گاندھی درشن کے لئے آتے ہیں اور ان کی نوادرات پر حیرت جتاتے ہیں۔ گاندھی آشرم میں ان کے استعمال کی اشیاء فی زمانہ نمائش کا سامان بنی ہوئی ہیں قوم کے نزدیک اس کی اہمیت اور ضرورت اس سے زیادہ نہیں ہے۔ اس سال سیوا گرام آشرم کے حکام اپنی ڈائمنڈ جوبلی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک موصوف کی عینک کے چوری ہونے کی خبر منظرِ عام پر آئی ہے اور ذرائع ابلاغ پر چھا گئی۔ چوری کی اس واردات کو چھ ماہ تک صیغہ راز میں رکھا گیا تھا ایسا کیوں ہوا ؟اس کی تحقیق و تفتیش کر کے ناظرین کو حقیقت سے واقف کرانے کی ذمہ داری ’تول کے بول‘چینل نے مجھے سونپی اور اس کام کے لئے ہم سب سے پہلے معروف گاندھیائی مفکر اور دانشور شری سنکی لال اگروال کی خدمت میں جا پہنچے۔
گاندھی جی کے چشمے کی چوری کو اس قدر طویل عرصہ کیوں چھپایا گیا ؟ یہ سوال جب ہم نے سنکی لال اگروال سے پوچھا تو وہ کہنے لگا
لگتا ہے آپ گاندھیائی فلسفہ یات کے بارے میں نہیں جانتے ورنہ یہ سوال نہیں کرتے ؟
ہم نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا یہ بات درست ہے کہ ہم نہیں جانتے لیکن گاندھی جی کے اصول و نظریات کو اس دور میں کون جانتا ہے ؟
وہ ناراض ہو کر بولے ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ بات کہہ رہے ہیں یہ تو ہماری توہین ہے
ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ہم نے شرمسار ہو کر معذرت طلب کی اور کہا کہ اچھا تو آپ ہی گاندھیائی فلسفۂحیات کی روشنی میں اس تاخیر کی وجہ بتلا دیں
وہ بولے گاندھی جی کی چوکی پر تین بندر رکھے ہوتے تھے اور آج تک انہیں کسی نے چرانے کی جرأت نہیں کی، وہی اس بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔
اچھا یہ یہ چوکی کیا ہوتی ہے ؟ہم نے حیرت سے پوچھا
وہ ہمارے اس سوال پر چونک پڑے اور بولے آپ چوکی نہیں جانتے ؟ ارے میز سمجھ لیں ایسی میز جس کے پیچھے کرسی نہ ہو ؟
اچھا تو کیا انسان اس کے پیچھے کھڑا ہو کر کام کرتا ہے ؟
ارے نہیں بیٹھ کر میرا مطلب زمین پر بیٹھ کر۔ گاندھی جی زمینی آدمی تھے اس لئے زمین پر بیٹھ کر اپنے سارے کام کیا کرتے تھے۔
گویا گاندھی جی انہیں آج کل کے سیاستدانوں کی طرح کرسی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ؟
جی نہیں وہ تو بے غرض مہاتما تھے
لیکن آپ ان نے بندروں کے بارے میں بتلا رہے تھے ؟ کیا وہ اب بھی حیات ہیں ؟ ان کی عمر کیا ہو گی؟ہم نے سوال کیا
یہ سن کر سنکی لال اگروال صاحب کا پارہ چڑھ گیا وہ بولے آپ تو بالکل جاہل اور کندۂ نا تراش معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بندر کبھی بھی حیات نہیں تھے وہ تو ان کے مجسمے تھے جو نہ زندہ ہوتے ہیں اور نہ مرتے ہیں اسی لئے اب بھی موجود ہیں
اچھا تو وہ پتھر کے بت چشمے کی چوری کا راز فاش کریں گے ؟
ارے بھئی وہ بندر نہیں بولیں گے اور اگر بولیں بھی تو ہم ان کی زبان کیونکر سمجھ سکتے ہیں
تو پھر آخر اس سوال کا جواب کون دے گا ؟
میں دوں گا۔
اور وہ بندر کیا کریں گے ؟
وہ! وہ کچھ نہ کریں گے میں ان کی مدد سے جواب دوں گا ؟
اچھا تو آپ ان سے پوچھ کر جواب دیں گے ؟ لیکن ابھی تو آپ نے کہا کہ ان کی زبان آپ نہیں سمجھتے
ارے بھئی مدد کا مطلب پوچھنا نہیں ہوتا یہ کہہ کر انہوں نے اپنے میز کی دراز سے تین بندروں کے مجسمے کو نکالا اسپر کافی گردو غبار چڑھا ہوا تھا اسے صاف کیا اور پوچھا اچھا بتلاؤ کہ یہ کیا ہے ؟
یہ ! یہ تو وہی تین بندر ہیں جن کا ابھی آپ ذکر کر رہے تھے
اچھا یہ کیا کر رہے ہیں ؟
یہ سوال مشکل تھا ہم نے کہا یہ کچھ بھی نہیں کر رہے۔ اصلی بندر ہوتے تو کچھ نہ کچھ کرتے۔ یہ بے جان بندر کیا کر سکتے ہیں بھلا ؟
اصل میں تم صرف آنکھوں سے دیکھنے کا کام لیتے ہو دماغ سے سوچنے کا کام نہیں لیتے اسی لئے یہ جواب دے رہے ہو۔
مجھے ان کی بات پر غصہ آیا میں نے کہا صاحب میرا کام سوال کرنا ہے اور جواب دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ پچھلے نصف گھنٹے سے میرے ایک معمولی سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے الجھائے ہوئے ہیں۔
تم کافی جلد باز اور بے صبر قسم کے انسان ہو مفکر نے متفکر ہو کر کہا۔ یہ پوری قوم گزشتہ نصف صدی سے اس بھول بھلیاں میں الجھی ہوئی ہے اور مطمئن ہے جبکہ تم صرف آدھے گھنٹے کے اندر بے چین ہو گئے۔
میں نے کہا صاحب اس سے پہلے کہ میں ان بندروں میں شامل ہو جاؤں آپ میرے سوال کا جواب دے دیں ورنہ یہ تین کے بجائے چار ہو جائیں گے۔
یہ تم نے پتہ کی بات کہی۔ گاندھی جی یہی چاہتے تھے کہ ساری قوم ان کی مانند ہو جائے۔
ان بندروں کی مانند ؟ ہم نے حیرت سے پوچھا
جی ہاں کیاتم نے ان بندروں کو کوئی معمولی چیز سمجھ رکھا ہے کیا ؟ اگر گاندھی جی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جاتا تو آج کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے بلکہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔
لیکن جناب مجھے اس دور کے سارے مسائل سے کیا غرض میرا تو ایک آسان سا مسئلہ ہے۔ اس بات کا پتہ چلانا کہ آخر گاندھی جی کے چشمے کی چوری کی خبر کو اتنے دنوں تک صیغۂ راز میں کیوں رکھا گیا؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب آپ کے یا گاندھی جی کے ان تین بندروں کے پاس موجود ہے ؟
کیوں نہیں ایسا کوئی سوال نہیں ہے جس کا جواب ہم چاروں نہیں جانتے۔ دانشور صاحب نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو ان بندروں کے ساتھ شامل فرما دیا۔
آپ لوگ تو سب جانتے ہی لیکن میں نہیں جانتا اس لئے برائے مہربانی مجھے بھی از خود یا ان کے توسط سے بتلا دیجئے۔
کاش کہ تم میں چھٹانک بھر عقل ہوتی اور تم اس کا استعمال کر کے خودبخود اپنے اس سوال کا جواب جان لیتے۔
یہ سن کر ہمارا پارہ چڑھ گیا اور ہم بولے ٹھیک ہے جناب ہم تو آپ جیسے دانشور پرشاد ہیں نہیں اور نہ ان بندروں جیسے عقلمند اس لئے اب اجازت دیجئے ہم اس سوال کا جواب کسی اور سے معلوم کر نے کی کوشش کر یں گے۔ اب ہمیں آپ اجازت دیں۔
یہ سن کر سنکی لال اگروال صاحب آگ بگولہ ہو گئے اور کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ یہاں سے سنتشٹ ( مطمئن) ہوئے بغیر چلے جائیں اور ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے پھریں کے ہم اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں یہ تو ہماری توہین ہے
لیکن حقیقت بھی ہے۔ ہم نے سر جھکا کر کہا
جی نہیں یہ حقیقت نہیں ہے ہم ہر سوال کا جواب جانتے ہیں ہم نے گاندھیائی فلسفہ کی تحقیق میں اپنی عمر کھپا دی ہے۔
اچھا اگر آپ واقعی جانتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟
وہ بولے دیکھو یہ پہلا بندر کس حالت میں ہے ؟
ہم نے اسے غور سے دیکھا اور کہا یہ تو آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ اسے عینک کی کوئی ضرورت نہیں۔
وہ ڈانٹ کر بولے تم سے یہ کس نے پوچھا کہ اسے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں جس قدر سوال کیا جائے اسی قدر جواب دو کیا سمجھے ؟
ہم نے کہا سرکار غلطی ہو گئی کاش کے ان میں سے کسی بندر نے سر پر بھی ہاتھ رکھا ہوتا؟
سر پر ؟سر پر کیا ہے ؟
اوپر تو نہیں اندر دماغ ہوتا ہے۔ ہم اس کا استعمال نہیں کرتے اور فاضل جواب نہ دیتے۔
خیر کوئی بات نہیں یہ بتاؤ کہ آنکھوں پر ہاتھ رکھنا کس بات کی علامت ہے ؟
ہم نے جواب دیا کچھ نہ دیکھنے کی علامت ہے صاحب۔ یہ بھی کوئی سوال ہے ؟
تمہارا جواب غلط ہے برخوردار۔ اگر یہ تمہاری طرح معمولی بندر ہوتا تو تمہاری بات صحیح ہو تی لیکن یہ گاندھی جی کا تربیت یافتہ بندر ہے اس لئے اس پر یہ اصول صادق نہیں آتا۔
اچھا تو اس بندرکے آنکھوں پر پٹی رکھنے کے معنیٰ کیا ہیں ؟ہم نے ایک بندرانہ سوال کیا۔
اس کے معنیٰ ہیں برا مت دیکھو؟
ہمیں اس جواب پر حیرت ہوئی ہم نے پوچھا کہ صاحب اگر کسی نے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا تو اسے کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے سامنے جو کچھ ہے وہ اچھا ہے یا برا ہے ؟
میرے اس سوال پر وہ سنکی لال اگروال کچھ گھبرائے لیکن فوراً اپنے آپ کو سنبھال کر جواب دیا ارے بھئی اس بندر نے اپنی آنکھوں پر ہمیشہ سے ہاتھ نہیں رکھا ہوا ہے بلکہ جب کوئی برائی اس کے سامنے آتی ہے تو وہ ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ گاندھی جی کی عینک کا چوری ہونا کوئی اچھی بات تھی یا بری بات؟
وہ تو بہت بری بات تھی جناب اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے بارے بات کرنے کے لئے مجھے آپ تک کیوں بھیجا جاتا؟
تو کیا آپ کا چینل صرف بری باتوں کی اشاعت کے لئے قائم کیا گیا ہے ؟
یہ کس نے کہا؟آپ تو ہمارے چینل پر بیٹھ کرہ مارے ہی چینل پر دشنام طرازی کر رہے ہیں
اچھا تو کیا ایسا کرنے کے لئے میں کسی اور چینل پر جاؤں ؟ کیا آپ لوگ اس طرح کا مواد نشر نہیں کرتے ؟ انہوں نے معصومانہ سوال کیا۔
جی نہیں جناب ایسی بات نہیں آپ کو پوری آزادی ہے آپ تو بس یہ کریں کہ ہمارے چینل پر دوسروں پر من چاہے الزامات لگائیں۔ بہتان ترازی فرمائیں۔ ہم آپ کے اظہار رائے کی آزادی کا پورا احترام کریں گے لیکن اسی کے ساتھ وہ عینک والا معاملہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے انہیں یا دلایا۔
وہ بولے جی ہاں ! جب ہمارے آشرم کے ایک ملازم نے یہ برائی دیکھی تو اس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور اس طرح دو ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ پھر اسے کچھ لوگوں نے ڈرایا کہ کہیں تجھ پر چوری کا الزام نہ دھر دیا جائے۔ یہ جان کر وہ ڈر گیا اور اپنی ملازمت بچانے کے لئے یہ بات سربراہِ آشرم کے گوش گذار کر دی۔
اچھا تو وہ سربراہ چار ماہ تک کیوں خاموش رہا؟
ارے بھئی وہ بھی گاندھی وادی آدمی ہے اس نے دوسرے بندر کے اسوہ پر عمل کر تے ہوئے اپنے کان بند کر دئیے۔ گاندھی جی نے بری بات کو سننے سے منع کر رکھا ہے۔
اچھا تو پھر کیا ہوا؟
دو ماہ کا عرصہ دیکھتے دیکھتے گزر گیا اور پھر آشرم کی ڈائمنڈ جوبلی منانے کی خاطر بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ میں یہ بات بتلا کر ڈائرکٹر صاحب اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ اس لئے کہ وہ صرف اور صرف بورڈ کے سامنے جوابدہ ہیں۔
لیکن بورڈ نے اس سنگین واردات کو سننے کے بعد کیوں چپی سادھ لی ؟
سنکی لال اگروال صاحب مسکرائے اور بولے کاش کے تم نے تیسرے بندر کو غور سے دیکھا ہوتا تو یہ سوال نہیں کرتے۔
ہم نے چونک کر تیسرے بندر کی جانب دیکھا تو وہ منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہوا تھا ہمیں بڑی شرمندگی ہوئی ہم بولے اچھا تو پھر یہ راز فاش کیسے ہوا ؟
انہوں نے کہا وہ تو آشرم میں کام کرنے والے ایک گائیڈ نے زائرین کے سامنے اپنی رٹی رٹائی تقریر کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ جو آپ لوگ سامنے دیکھ رہے ہیں یہ گاندھی جی کی عینک ہے۔ چونکہ عینک وہاں پر موجود نہیں تھی ایک برطانوی سیاح نے جن کے خلاف گاندھی جی نے آزادی کی تحریک چلائی تھی اسے بھانپ لیا وہ کم بخت تو تھا ہی گاندھی جی کے نظریہ کا دشمن اس نے اخبار والوں کو یہ بات بتلا دی اور تم میرا وقت ضائع کرنے کے لئے چلے آئے
ہم نے کہا صاحب اس بات کا فیصلہ کرنا تو خاصہ مشکل ہے کہ کس نے کس کا وقت ضائع کیا ہے ؟خیر میں اس کے لئے بندروں سے رجوع کروں گا
وہ بولے مجھے امید ہے کہ تمہیں اپنے سارے سوالات کا جواب گاندھی جی کے فلسفہ کی روشنی میں مل گیا ہو گا ؟
ہم بولے جناب گاندھی جی تو کجا ان کے بندر بھی صد فی صد حق بجانب ہیں لیکن آپ کے ایک استنباط سے مجھے اختلاف ہے
اچھا ! وہ کیا؟
آپ نے دورانِ گفتگو کہا تھا اگر قوم گاندھی جی کے ان بندروں کی طرح بن جاتی تو نہ مسائل پیدا ہوتے اور نہ ان کے حل کی ضرورت پیش آتی
جی ہاں میں اب بھی یہ کہتا ہوں، سنکی لال اگروال (عرف)سنکیشور جی خوش ہو کر بولے لیکن اس میں غلط کیا ہے ؟
میرا خیال یہ ہے آج کے سارے مسائل کی وجہ یہی ہے کہ ساری قوم گاندھی کے بندروں کی طرح بن گئی ہے وہ برائیوں کو دیکھتی ہے تو ان سے چشم پوشی کرتی ہے وہ بری بات کوسن کر اسے روکنے کے بجائے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی ہے اور اس کے خلاف لب کشائی نہیں کرتی منہ بھی بند ہی ہوتا ہے۔
ہماری اس بات کو سن کر سنکی لال اگروال صاحب نے اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر اور دوسرا منہ پر رکھ لیا۔ ہم نے آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کے کانوں پر رکھ کر کہا ناظرین اس گفتگو کو اپنے ذہن سے محو کر دیں اور ٹی وی کے سامنے اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے سماج میں پائی جانے والی برائیوں کے خلاف اقدام کریں
سنکی لال اگروال صاحب کے چہرے پرایک خوش مگیں مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اس لئے کہ وہ نہ دیکھ رہے تھے۔ نہ سن رہے اور نہ بول ہی رہے تھے۔
٭٭٭
گاندھی جی کے بندر
(قسط دوم)
معروف گاندھیائی مفکر اور دانشور شری سنکی لال اگروال کے دفتر سے جب ہم نکلے تو ان کی میز پر سے تینوں بندر غائب تھے۔ ہم وہاں سے نکل کر سیدھے وردھا کے سیوا گرام پولس تھانے پہنچ گئے۔ دروازے پر سپاہی عجیب سنگھ بیٹھا اونگھ رہا تھا وہ گویا بیک وقت گاندھی جی کے تینوں بندروں کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔ نہ دیکھ رہا تھا نہ سن رہا تھا اور نہ ہی کچھ بول رہا تھا۔ ہم نے سوچا موقع غنیمت ہے ورنہ اس کی سیوا کے بغیر اندر حاضری ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔ ویسے ہم لوگوں کو اپنے دفتر اس سرکاری افسران کی خدمت پر ایک محدود رقم خرچ کرنے کی پیشگی اجازت دے رکھی تھی اگر کوئی غیر معمولی مطالبہ کیا جاتا تو اس کی خصوصی اجازت لینی پڑتی تھی۔ پہلے اس کی نوبت کم ہی آتی تھی لیکن اب یہ معمولی بات ہو گئی تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا ہم سیواگرام آشرم سے گاندھی جی کی عینک کی چوری اور اس شکایت میں تاخیر کی تحقیق و تفتیش کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔
پولس تھانیدار کھڑک سنگھ کا دفتر ویران پڑا تھا۔ ہم نے سوچا کہ تھانیدار صاحب بھی شاید اسی مہم پر کہیں باہر نکلے ہوئے ہیں اس خوش فہمی میں گرفتار ہم واپس لوٹے تو اچانک ہمیں آواز آئی ابے یہ تو اب بھی سورہا ہے؟ ہم نے چاروں طرف دیکھا ہمارے آس پاس نہ کوئی آدم نہ آدم زاد!ایک سپاہی تھا جو سورہا تھا پھر یہ آواز کیسی؟اس سے پہلے کہ ہم کسی نتیجے پر پہنچتے دوسری آواز آئی اوئے چپ کر ورنہ جاگ جائے گا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ اس بار ہم نے کان لگا کر آواز کوسننے کی کوشش کی تو ہمیں محسوس ہو ا گویا یہ آوازیں ہمارے جھولے کے اندر سے آ رہی ہیں۔ ہمارے لئے یہ دلچسپ انکشاف تھا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے اپنے جھولے میں ہاتھ ڈالا تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جھولے کے اندر وہ تینوں بندر براجمان تھے۔ ہم نے ان میں سے ایک کو باہر نکالا تو وہ کمبخت اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔ ہم نے کڑک کر پوچھا تم کون ہو؟
وہ بولا صاحب میں۔ میں تان سین ہوں تان سین۔
اور تمہارے ساتھ یہ دونوں کون ہیں ؟
ان میں سے ایک تو نین سکھ ہے اور دوسرا مونی بابا ؟
اچھا تو یہ اندر باتیں کون کر رہا تھا ؟ وہ بولا صاحب یہ میں کیسے جان سکتا ہوں ؟ آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں میرے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھسی ہوئی ہیں۔
ہم نے سوچا بندر کی بات درست ہے ہمیں اس سے یہ سوال ہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اب ہم نے دوسرا ہاتھ جھولے میں ڈالا اور دوسرے بندر کو باہر نکال لیا اس نے اپنی آنکھوں کو ڈھانک رکھا تھا ہم سمجھ گئے یہ نین سکھ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ہم نے پوچھا کیوں تم نے ابھی ابھی کچھ کہا یا نہیں ؟ وہ بولا صاحب آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں اس تان سین سے نہیں پوچھتے جو آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے ؟
یہ الزام ہمارے لئے بڑا تضحیک آمیز تھا ہمیں بندر کی بات پر بہت غصہ آیا اور ہم اپنا بنیادی سوال بھول گئے۔ ہم نے پوچھا کیوں ؟بھلا یہ ہمیں کیوں کر بے وقوف بنا سکتا ہے ہم تو پہلے ہی سے اچھے خاصے احمق آدمی ہیں۔
نین سکھ بولا اچھا تو آپ اب بھی نہیں سمجھے اس کا مطلب ہے آپ نہ صرف بے وقوف بلکہ سچے آدمی بھی ہیں۔
ہم نے کہا ہو سکتا ہے لیکن یہ تو تم نے ہمیں دوسری بڑی گالی دے دی خیر یہ بتاؤ کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ؟
کامن سینس صاحب کامن سینس ! اگر یہ ہماری باتیں نہیں سن سکتا تو اس نے آپ کا سوال کیسے سن لیا؟اور آپ کو جواب کیسے دے دیا ؟
ایک معمولی سے بندر نے ہماری عقل کے چودہ طبق روشن کر دئیے تھے اور ہمیں ڈارون کے فلسفے پر یقین آنے لگا تھا لیکن اس سے پہلے کے ہم سنبھلتے تان سین بول پڑا۔ صاحب یہ جھوٹا ہے اول درجے کا ریا کار آپ اس کی ایک نہ سنیں آپ تو نہایت عقلمند آدمی ہیں۔ تان سین کی زبان سے اپنی تعریف سن کر ہم پسیج گئے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اس کائنات کی سب سے عقلمند ہستی اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ اس بندر کی ذات ہے جو ہمیں عقلمندی کا سپاس نامہ عطا کر رہی ہے ورنہ اس سے قبل ایسی غلطی کسی سے سرزد نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے مسکرا کر پہلے بندر کا شکریہ ادا کیا اور کہا تمہاری بات درست ہے لیکن آخر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ؟
تان سین مسکرایا اور بولا آپ عقل کے اندھے تو نہیں ہیں لیکن آپ کی بینائی کے بارے میں میرے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ کہیں آپ گاندھی جی کی عینک خود اپنے لئے تو تلاش نہیں کر رہے ؟
اپنے چہیتے بندر کی اس بات نے ہمیں چونکا دیا ہم نے کہا گاندھی جی کی عینک استعمال کریں میرے دشمن۔ میری تو آنکھیں ابھی تک صحیح سلامت ہیں ماشا اللہ۔
سو تو میں دیکھ رہا ہوں۔ بڑی خوبصورت غزال آنکھیں ہیں آپ کی لیکن میں اس کے اندر پائی جانے والی قوت بصارت کی بات کر رہا تھا۔
اپنی آنکھوں کی اس تعریف کے بعد ہم یکسر شرما گئے اور لجاتے ہوئے اٹھلا کر بولے کیسی باتیں کرتے ہو ؟ میری بصارت کو کیا ہو گیا ہے ؟ اچھی بھلی تو ہے۔
اچھا اگر ایسا ہے تو آپ دیکھ نہیں رہے کہ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اب جس کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہو وہ بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا ؟
نین سکھ بولا جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کرنے کی خاطر آنکھوں کی نہیں کان کی ضرورت پڑتی ہے میری تو آنکھیں بند ہیں لیکن اس کاذب نے کانوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود سب کچھ سن رہا ہے اور پٹر پٹر بول رہا ہے۔ نین سکھ کی بات نہایت معقول تھی لیکن چونکہ تان سین کے خلاف تھی جو ہماری تعریف اور توصیف بیان کرتا رہا تھا اس لئے اس کی دلیل کو تسلیم کرنا ہمارے لئے مشکل ہو گیا۔ آخر حقِ نمک بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے ؟ ہم نے کہا کہ بھائیو میں تم دونوں کے دلائل سے خاصہ کنفیوز ہو چکا ہوں اور فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ کون حق پر ہے کون باطل۔
میری یہ بات سن کر تان سین باغ باغ ہو گیا گویا اس کی من مراد پوری ہو گئی ہو۔ وہ بولا آپ واقعی نہایت حق پسند اور صاف گو صحافی ہیں۔ آپ خود اپنے خلاف بھی کسی حقیقت کا اعتراف کرنے سے نہیں کتراتے۔ ہم نے پھر ایک مرتبہ اپنی پیٹھ تھپتھپائی اور دعا کی کہ کاش یہ بندر حکومت کی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں موجود ہوتا جو صحافیوں کی تکریم کرتی ہے اور انہیں اعزاز سے نوازتی ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو ہمیں بھی صحافت کے میدان میں پدم بھوشن نہ سہی پدم شری کا خطاب تو مل ہی جاتا۔ ہم نے شکر و احسان کے جذبات سے سرشار ہو کر اپنے پسندیدہ بندر کی جانب دیکھا اور اس کی زلفوں میں ہاتھ پھیرنے لگے۔
اس منظر کو دیکھ کر نین سکھ جس نے آنکھوں پر ہاتھ ر کھا ہوا تھا چراغ پا ہو گیا اور بولا جناب یہ آپ کو اپنی باتوں میں الجھا رہا ہے آپ کی بیجا تعریف بیان کر کے آپ کو بہلا پھسلا رہا ہے۔
یہ تہمت ہمارے لئے ناقابلِ برداشت تھی۔ ہم بولے دیکھو تم اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہو۔ ڈارون نے تمہارے بارے میں جو بھی کہا ہو لیکن تم یہ نہ بھولو کہ تم آخر ایک بندر ہو بندر کیا سمجھے۔
میری یہ تضحیک آمیز جھڑکی تان سین پر گراں گزری۔ اس لئے کہ وہ جو بھی تھا تو بالآخر ایک بندر ہی اور یہ اس کی ساری برادری کی توہین تھی۔ اس نے رسوائی کے اس کڑوے گھونٹ کو کسی طرح زہر مار کیا اور بولا جناب آپ اس احمق کے باعث ہماری برادری کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کریں اگر اپنے کنفیوژن کو دور ہی کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے تیسرے بھائی مونی بابا کا تعاون لیں جو آپ کے جھولے سے ہنوز بند ہے ؟
نین سکھ نے اس تجویز پر زوردار قہقہہ لگا کر کہا لو اس کی سنو یہ اس مونی کو اپنے حق میں گواہ بنا رہا ہے جس نے از خود اپنی زبان بند کر رکھی ہے۔ اس کے ایک منہ پر دو دو ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دلیل بھی معقول تھی۔ نین سکھ ویسے تو ساری باتیں معقول کرتا تھا لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف ہماری تعریف بیان کرنے سے احتراز کرتا تھا بلکہ وقتاً فوقتاً ہماری تذلیل بھی کر دیتا تھا۔ اس کے باعث ہمارے دل میں اس کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑکنے لگے تھے جو اس کی ہر معقول بات کو جلا کر بھسم کر دیتے تھے۔
اس موقع پر تان سین پھر ہماری مدد کے لئے آگے آیا اور کہنے لگا اس عقل کے اندھے کو دیکھئے۔ کیا صحیح بات کو کہنے کے لئے بھلا زبان لازمی ہے ؟
ہمارے پاس اس سوال کا جو جواب تھا وہ اس نین سکھ کے حق میں تھا جو ہمارا دشمن تھا اور تان سین کے خلاف تھا جو ہمارا دوست تھا اس لئے ہم نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔ لیکن نین سکھ اس موقع پر خاموش نہیں رہا بلکہ بولا جناب عالی آپ اس کے سوال پر خاموش کیوں ہیں بولتے کیوں نہیں ؟ کیا انسان زبان پر تالا لگا کر سچ بات کہہ سکتا ہے ؟
اس سے قبل کہ ہم مجبور ہو کر اپنی من بھر بھاری زبان کو جنبش دیتے تان سین بول پڑا۔ دراصل یہ احمق آج بھی اس پتھر کے زمانے میں جی رہا ہے جب اظہار رائے کے لئے زبان کی مجبوری تھی، سائنسی ترقی سے بالکل بے بہرہ ہے بیچارہ۔
نین سکھ نے جب اپنے بارے میں بے بہرہ کا لقب سنا تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا اور چیخ کر بولا بہرہ ہو گا تو اور تیرا باپ۔ میری تو سماعت الحمد للہ سلامت ہے۔
تان سین مسکرایا اور بولا اس بیچارے کو اردو بھی ٹھیک سے نہیں آتی یہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ بے بہرہ کسے کہتے ہیں اور بے بہرہ جو بھی ہو کم از کم بہرہ نہیں ہوسکتا۔ بے لگا دینے سے ہر لفظ اپنی ضد میں تبدیل ہو جاتا ہے مثلاً بے نقاب، بے ایمان، بے ادب، بے عقل، وغیرہ وغیرہ۔ ہم تان سین کی اس دلیل پر جھوم اٹھے اور کہا کیا بات کہی تم نے لاجواب دلیل ہے صاحب۔
ہماری اس تعریف سے کھسیا کر نین سکھ بولا اچھا تو تمہارے اپنے یعنی بے وقوف اور بے فضول کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
تان سین میری جانب دیکھ کر بولا دراصل بے وقوف کون ہے اور عقلمند کون ہے اس کا فیصلہ کرنے کے حقدار تو ہمارے صاحب ہیں لیکن چونکہ وہ ذرا کنفیوژ ہو گئے ہیں اس لئے میں ہمارے بھائی کی مدد لے رہا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھائی ہے یا قصائی۔ پہلے تو یہ آپ کی توہین کر رہا تھا اب اپنے بزرگ مونی بابا کا مذاق اڑا رہا ہے۔
نین سکھ بولا اوئے چرب زبان بندر اپنی چاپلوس چونچ کو بند کر اور یہ بتلا کہ وہ جھولے کے اندر بند بیٹھا مونی کیسے اپنا فیصلہ سنائے گا ؟
تان سین بولا اب ہوئی نا کام کی بات اگر کوئی بات معلوم نہ ہو تو سمجھدار لوگوں سے پوچھا جاتا ہے۔ لیکن یہ کام ادب و تمیز کے ساتھ کیا جاتا ہے خیر کوئی بات نہیں جب تو نے پوچھ ہی لیا تو سن۔ فیصلے نہ صرف سنائے جاتے ہیں بلکہ انہیں تحریری شکل میں تم جیسے ڈھیٹ لوگوں کے منہ پر لکھ کر دے مار ا جاتا ہے اور ایسے میں منصف کو فیصلہ لکھنے کے بعد اپنا قلم توڑ دینا پڑتا ہے۔
ہم پھر ایک بار پہلے بندر کی شاندار دلیل پر جھوم اٹھے اور کہا کیا بات ہے ؟ کیا بات ہے میرے شیر ! تمہیں تو بندر کے بجائے لومڑی ہونا چاہئے تھا۔
نین سکھ بولا لومڑی کیوں ؟
اس لئے کہ اسی کو سب سے عقلمند جانور مانا جاتا ہے۔
تان سین کے چہرے پر میری اس تعریف سے پھر ایک بار ناگواری کے آثار نمودار ہو گئے وہ بولا صاحب ویسے آپ آدمی تو بہت نیک طبع ہیں لیکن بے جا مرعوبیت کا شکار ہیں۔
ہم نے پوچھا ارے بھئی ہم نے ایسی کون سی بات کہہ دی جو تمہارے حسنِ طبع پر گراں گزری ؟
تان سین بولا بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے آگے لومڑی اور شیر کس کھیت کی مولی ہیں۔ اس سے پہلے تو ہم بس حضرت انسان کو اپنے سے اعلیٰ و ارفع خیال کرتے تھے لیکن آپ سے ملنے کے بعد ہم اپنے اس خیال پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اپنے چہیتے بندر تان سین کی دیگر بہت سی باتوں کی طرح یہ بات بھی ہمارے سر کے اوپر سے نکل گئی لیکن ہم نے حسبِ عادت استفسار کرنے سے گریز کیا اور سوال کیا بھائی فیصلے تو عدالت میں یقیناً لکھے جاتے ہیں لیکن یہ تمہارا بھائی اپنا فیصلہ کیسے لکھے گا؟
یہ تو بڑا عجیب سوال آپ کر رہے ہیں ارے بھئی جیسے کو ئی پڑھا لکھا انسان لکھتا ہے اسی طرح لکھے گا۔ ہمارے مونی بھی کوئی کم عالم فاضل تھوڑے ہی ہیں وہ تو اس کی انکساری ہے جو انہوں نے اپنی تھیسس نہیں لکھی ورنہ انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینا آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی درسگاہوں کے لئے اعزاز کی بات ہوتی۔
نین سکھ بولا یار اب تو تم کچھ زیادہ ہی بول گئے کیا کیمبرج وغیرہ کی ڈگری پیڑوں کی شاخوں پر لٹکی ہوئی ہوتی ہیں جو کوئی لنگور پھدک کر اچک لے ؟
تان سین اس بات پر چراغ پا ہو گیا اور بولا تم جیسے احساسِ کمتری کا شکار لوگوں کی وجہ سے اس دنیا میں ہماری نسل عزت و توقیر سے محروم ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے ساری دنیا کی درسگاہوں پر ہمارا بول بالا ہوتا۔
ان دونوں بندروں کی لڑائی میں ہمیں غور و فکر کرنے کا نادر موقع مل گیا۔ ہم نے کہا تم کیسے گاندھی وادی بندر ہو جو عدم تشدد کا راستہ چھوڑ کر لڑائی جھگڑے پر تلے ہوئے ہو؟ہم نے بندر بانٹ کا پانسہ ڈالتے ہوئے کہا میں مانتا ہوں کہ تمہارا بھائی لکھنا پڑھنا جانتا ہے لیکن فی الحال میرے پاس قلم قرطاس بھی تو نہیں جو اس پر فیصلہ لکھوایا جا سکے۔
تان سین بولا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی آج کل لوگ قلم دوات سے لکھتے ہی کب ہیں ؟
نین سکھ نے حیرت سے پوچھا۔ اچھا اگر قلم دوات سے نہیں تو کس چیز سے لکھتے ہیں بھلا؟
بھئی زمانہ بدل گیا تان سین اکڑ کر بولا آجکل تو لوگ کمپیوٹر یا فون کے ‘کی بورڈ ’سے لکھتے ہیں اور کاغذ کے بجائے مانیٹر پر اسے پڑھ لیتے ہیں۔
ہاں ہاں وہ تو مجھے پتہ ہے لیکن کیا تمہارا مونی بابا بھی کمپیوٹر چلانا جانتا ہے ؟
آپ یہ کیسا سوال کر رہے ہیں کمپیوٹر تو کیا وہ ہوائی جہاز چلانا بھی جانتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنے منہ سے بولتے نہیں اس لئے کوئی ان کی قدر نہیں کرتا۔
تان سین اور مونی بابا کے آگے ہمیں اپنی کم مائے گی کا احساس ہوا ہم نے کمرے میں ایک جانب اپنا لیپ ٹاپ نکال کر کھولا اور جھولے سے مونی بابا کو نکال کر اس کے سامنے بٹھا دیا۔ مونی بابا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ لپک کر کمپیوٹر چلا دیا اور ایم ایس ورڈ کا صفحہ کھولا۔ کی بورڈ کی سیٹنگ کو بدل کر اسے اردو فونیٹک میں تبدیل کیا اور فیصلہ لکھنے کی ابتداء کر دی۔ سب سے اوپر درمیان میں لکھا شروع اللہ کے نام سے۔ پھر نیچے بائیں جانب کنارے تمہید لکھا اور اس کے آگے یوں لکھنے لگا۔ ہم سب ریا کار ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں لیکن دیکھتے نہیں۔ ہم سنتے ہیں مگر وہی جو ہم چاہتے ہیں اور ہم بولتے ہیں مگر وہ نہیں جو ہمیں بولنا چاہئے۔ اس بیچ پہرے پر بیٹھے ہوئے سپاہی کی آنکھ کھل گئی اس نے دیکھا سامنے ایک بندر کمپیوٹر پر کچھ لکھ رہا ہے اسے لگا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے بھیانک خواب گھبرا کراس نے پھر اپنی آنکھیں موند لیں اور خوابِ خرگوش میں کھو گیا۔
٭٭٭
انسان کے اندر چھپا ہوا بندر
(قسط سوم)
وردھا کے پولس تھانے میں حوالدار عجیب سنگھ نے اپنی آنکھیں بند کیں تو ہم نے عافیت کی سانس لی اور اپنے چہیتے بندروں کی جانب دیکھا۔ نین سکھ (یا مونی بابا؟)بے تکان اپنا فیصلہ ٹائپ کر رہا تھا۔ ہمیں لگا جلد ہی یہ قلم کے بجائے کمپیوٹر کو توڑ دے گا۔ اب ہماری نگاہ نین سکھ کی جانب اٹھی تو دیکھا کہ وہ بھی کنکھیوں میں فیصلے کو پڑھ رہا ہے اور تان سین کے لبوں پر حسبِ معمول مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔ ہم نے بھی مسکرا کر جواب دیا تو وہ بولا صاحب عجیب سنگھ کے دوبارہ سونے کو غنیمت جانئے اور یہاں سے بھاگ چلئے۔
کیوں کیا ہم کوئی چور ڈکیت ہیں جو تم ہمیں اس طرح سے ڈرا رہے ہو؟ نین سکھ بولا
کیا تم نہیں جانتے کہ جب دو بڑے لوگ بات کر رہے ہوں تو درمیان میں ٹپک پڑنا بد اخلاقی میں شمار ہوتا ہے۔ تان سین نے اپنی لن ترانی جاری رکھی۔
دیکھو تان سین میں نے ایک سیدھا سا سوال کیا تھا جس کا جواب دینے کے بجائے تم کچھ اور ہی بکواس کرنے لگے۔
یہ بکواس نہیں حقیقت ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ فی الحال ہم لوگ پولس والوں کے نرغے میں ہیں۔ کسی بھی وقت کھڑک سنگھ وارد ہوسکتا ہے بلکہ دوبارہ عجیب سنگھ بیدار بھی ہو سکتا ہے۔
ہوتا ہے تو ہو جائے اور آتا ہے تو آ جائے، ہمارے یہاں آنے کا مقصد ہی ان سے ملاقات کرنا ہے ؟ہم نے جواب دیا
تان سین بولا صاحب ہمیں احتیاط و ہوشیاری سے کام لینا چاہئے
احتیاط کیسا احتیاط؟ہم لوگ پولس تھانے میں ہیں یہاں کون سے خطرات ہو سکتے ہیں
اسی لئے تو احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہم تھانے میں ہیں اس سے زیادہ خطرناک جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے ؟
کیا مطلب ہم نے حیرت سے پوچھا؟
تان سین بولا صاحب آپ صحافی ہیں اخبار لکھتے ضرور ہیں لیکن انہیں پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ورنہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ آپ کو پتہ بھی ہے کہ یہ پولس والے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ؟
انہیں نہیں پتہ تو میں بتلائے دیتا ہوں نین سکھ بولا حالانکہ نہ میں اخبار پڑھ سکتا اور نہ ہی ٹی وی دیکھ سکتا ہوں
اوہو تم تو بڑے انتریامی ہو گئے ؟تان سین نے فقرہ کسا
اس میں انتریامی ہونے کی کیا بات ہے اگر انسان اپنے کان کھلے رکھے تو یہی کافی سے زیادہ ہے۔ میں نے سنا ہے پچھلے دنوں پولس والوں نے مدھیہ پردیش کے ضلع ستنا میں بیچ سڑک پر ایک نیم پاگل آدمی کو لاٹھیوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا
اچھا تو گویا پولس والوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شخص اگر نیم پاگل ہے تو وہ مکمل طور پر پاگل ہیں تان سین نے پھر چٹکی لی
نین سکھ بولا تم عجیب آدمی ہو ایک معصوم انسان کی جان گئی اور تم اس سے مزہ لے رہے ہو۔ تم بندر ہو کر بھی ان انسانوں سے گئے گزرے ہو گئے ہو جو وہاں تماش بین بن کر کھڑے ہوئے تھے
کون کہتا ہے کہ وہ خاموش تماش بین تھے ؟ میں نے تو سنا ہے اس ظلم کی ابتدا عوام ہی نے کی تھی پولس نے تو صرف یہ کیا کہ اسے انتہا تک پہنچا دیا۔ یہ بات مونی بابا نے اپنے فیصلے کے دوران سرخ رنگ میں لکھی اور ہمیں دکھلا کر مٹا دیا
تان سین بولا لیکن لوگ بیچارے کر ہی کیا سکتے تھے ؟
ہم نے کہا کیسی باتیں کرتے ہو تان سین ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک آزاد ملک ہے وہاں انسانی جان و مال کو دستوری تحفظ حاصل ہے بلکہ یہاں جمہوری نظام رائج ہے جو عوام کا اپنا ہے عوام کے ذریعہ قائم ہوتا ہے اور عوام کی خاطر چلایا جاتا ہے۔
یہ آپ کس ملک اور کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں یہ تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ گزشتہ دنوں جب چار لوگ آندھرا پردیش کے ایس آر نگر میں ایک ایسے ہی قتل کی رپورٹ لکھوانے کے لئے تھانے پہونچے تو پولس والوں نے انہیں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا اب بھلا ایسے میں کون پولس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت کرسکتا ہے ؟
ہم نے کہا یہ سب اس عظیم ملک کو بدنام کرنے کی خاطر اڑائی جانے والی بے بنیاد خبریں ہیں۔ تم نہیں جانتے ہمارے ملک میں عوام کے سامنے بڑے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ پسار کر آنا پڑتا ہے۔
یقیناً انتخاب سے پہلے ایسا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جب یہی عوام ہاتھ پسار کر اپنے حقوق کی خاطر میدان میں آتی ہے تو کیا ہوتا ہے ؟نین سکھ نے پوچھا
تان سین بولا اب تم ہی بتلاؤ کہ کیا ہوتا ہے ؟
میں کیا بتلاؤں تم خود ہی یو ٹیوب پر نالندہ میں خواتین مظاہرین پر ہونے والی پولس کی بہیمانہ لاٹھی چارج کا مشاہدہ کر لو
اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا تم بھی ان خواتین کے ساتھ زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ؟تان سین نے فقرہ کسا
نین سکھ بولا تم بھی انسانوں کی چاپلوسی کرتے کرتے بالکل عقل سے پیدل ہو گئے ہو میں نے خود یو ٹیوب پر اس فلم کو دیکھا، نہیں معاف کرنا سنا ہے
فلم دیکھی جاتی ہے یا سنی جاتی ہے ؟تان سین نے پوچھا
دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں مجھ جیسے اندھے اسے سنتے ہیں اور تم جیسے بہرے اسے دیکھتے ہیں
یہ کون دیکھنے اور سننے کی باتیں کر رہا ہے ؟ عجیب سنگھ نیند ہی میں منمنایا
تینوں بندر پھدک کر پھر جھولے میں پہنچ گئے اور بولے صاحب نکل چلئے اس سے پہلے کہ یہ ہمیں نیند میں خلل کے سبب دہشت گرد بنا کر پوٹا کے تحت گرفتار کر لے۔ اس کے بعد ہم دہشت گرد ہیں یا نہیں یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ہمارے ہی سر آن پڑے گی۔ آپ کی مدد کے لئے تو صحافیوں کی یو نین آ جائے گی ہم بندروں کا کیا ہو گا ہمارے لئے تو اس کل یگ میں نہ بجرنگ بلی ہے اور نہ بجرنگی۔ یہ مونی بابا بول رہا تھا گھبراہٹ کے مارے اس نے اپنا مون برت تو ڑ دیا تھا۔
ہم بھی ان بندروں کے دلائل سے اچھے خاصے مرعوب بلکہ خوفزدہ ہو چکے تھے اس لئے پہلے تو باہر آئے پھر پوچھا اب جانا کہا ں ہے ؟
تان سین بولا کیوں آپ کا کوئی گھر نہیں ہے کیا ؟ اگر نہیں تو گاندھی جی کی طرح کوئی آشرم بنا لیجئے ورنہ وہیں چلئے۔
ہم نے جھولے کے اندر ہاتھ ڈال کر اندازے سے تان سین کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر آ گئے۔
دوسرے دن صبح جب ہم اپنے مہمان خانے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بندر تو غائب ہیں ان کی جگہ ایک باریش سوامی بھگوا وستر دھارن کئے بیٹھے ہیں۔ سوامی جی کے بغل میں ایک مضحکہ خیز بزرگ سر پر گاندھی ٹوپی لگائے براجمان ہیں اور ایک کونے میں ایک شخص نصف آستین کا ڈیزائنر کرتا پہنے ہوئے اٹالین عینک میں فون پر گودھرا سے سالگرہ کی مبارکباد وصول کر رہا ہے۔ ہم نے سوچا یہ کون لوگ ہیں جو بلا اجازت ہمارے گھر میں گھس آئے اور انہوں نے ہمارے بندروں کو کہاں بھگا دیا؟ ہم نے انہیں پرنام کیا اور پوچھا۔ آپ لوگ کب، کیوں اور کہاں سے یہاں آن پہنچے ؟
عینک والے صاحب نے اپنی خشخشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تم مجھے نہیں جانتے۔ امریکی انتظامیہ نے مجھے ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کے لئے مناسب ترین امیدوار قرار دیا ہے اور تم تو جانتے ہی ہوہندوستانی عوام امریکہ سے کس قدر مرعوب ہے۔ اب تو بس انتخاب کا انتظار ہے جب وہ میرے نام پر مہر لگائیں گے اور میں ہندوستان کے تخت طاؤس کو برطانیہ سے واپس لا کر اس پر براجمان ہو جاؤں گا۔
عوام کوتو خیر بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے لیکن تمہاری اپنی جماعت کے خواص کا کیا بنے گا؟ہم نے سوال کیا
بھئی دیگر خواص کی مانند ہمارے خواص بھی بکاؤ مال ہیں انہیں وزارت اور دولت کی قیمت پر خرید لیا جائے گا
وہ بھی ٹھیک ہے لیکن میرے وہ بندر کہاں چلے گئے ؟
حضور آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں ہی تو ہوں آپ کا چہیتا تان سین
اچھا اور یہ دونوں حضرات کون ہیں ؟
یہ مونی بابا ہیں جو یوگا کرنے میں مصروف ہیں اور یہ گاندھی ٹوپی اپنے نین سکھ نے سر پر سجا لی ہے اس لئے آپ اسے پہچان نہیں پا رہے ہیں
لیکن راتوں رات میں یہ سب کیا ہو گیا۔ اس قدر انقلاباتِ زمانہ ایسی تیزی کے ساتھ پہلے تو برپا نہیں ہوتے تھے ؟ہم نے استفسار کیا
نین سکھ بولا آپ نے ٹھیک کہا زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ کل یگ ہے کل یگ۔ پہلے جس کام کو کرنے کے لئے صدیاں درکار ہوتی تھیں اب وہ کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں زمانہ جمل کے بجائے جیٹ کی رفتار سے دوڑ رہا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن راتوں رات داڑھی و چوٹی کا اگ آنا اور دم کا غائب ہو جانا مجھے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہو گیا ؟
ارے بھئی ڈارون نے اپنی مرگِ مفاجات کے فلسفے میں یہی تو کہا تھا کہ جس چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی وہ جھڑ جاتی ہے اور جس کی ضرورت پیدا ہوتی ہے وہ نمودار ہو جاتی ہے۔
یہ سب فلسفے کی باتیں ہیں ان کا حقیقت سے کیا تعلق ؟ہم نے اپنی بے یقینی پر اصرار کیا
تعلق کیوں نہیں ؟ تان سین بولا پرانے لوگوں کو کتنے پہاڑے یاد ہوتے تھے اب کیلکولیٹر نے ان کی ضرورت کواس طرح ختم کیا کہ پہاڑ جیسے پہاڑے روئی کے گالے بن کر اڑ گئے۔
نین سکھ نے پہلی مرتبہ تان سین کی تائید کی اور بولا جی ہاں اس میں کیا شک ہے آپ ہی بتلائیے کہ پہلے آپ کو اپنے دفتر، گھر اور دوست و احباب تک کے ٹیلی فون نمبر زبانی یاد ہوتے تھے جبکہ اب آپ کو اپنا موبائل کا نمبر بھی یاد نہیں رہتا جو آپ کا حقیقی شریکِ حیات بن گیا ہے۔ گویا یادداشت کی ضرورت کم ہوئی تو اسے مشینوں نے نگل لیا۔
بندروں کے دلائل کا قائل ہونے کے بعد ہم نے پوچھا لیکن یہ یوگی بابا تو بہت بولتے تھے اب انہیں کون سا سانپ سونگھ گیا جو مون برت رکھ لیا۔
تان سین بولا آپ نے صحیح کہا جب آدمی بہت زیادہ بولنے لگے تو اس کی بولتی بند کر دی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پہلے زمانے میں ہم لوگ بلیوں کو بانٹ کر اپنا کام چلاتے تھے لیکن آجکل ایک اطالوی بلی ہم لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے۔ بابا ہندوستان کی سیاہ دولت کا شور مچاتے تھے جو بیرونِ ملک ہے۔ بلی نے یہ کیا کہ ان سے ان کی سفید دولت کا حساب مانگ لیا جو ملک کے اندر ہے۔ پھر کیا تھا ان کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے اور ایسے میں جب ان کا دستِ راست آگے آیا تو پتہ چلا کہ وہ نہ صرف نیپالی ہے بلکہ غیر قانونی طور پر ان کے آشرم میں عیش کر رہا ہے۔
تان سین کی باتیں سن کر مونی بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ صبر کر گئے اور اپنے یوگ آسن سے باہر نہیں آئے سب کچھ چپ چاپ دیکھتے اور سنتے رہے لیکن کچھ نہیں بولے اب انہیں اس کی عادت ہو چکی تھی انہوں نے از خود اپنی زبان پر قفل لگا لیا تھا لیکن نین سکھ اسے برداشت نہ کر سکا اور بولا تان سین تم کیسے غدار بندر ہو انسانوں کو خوش کرنے کے لئے خود اپنی برادری کو بدنام کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے
شرم مجھ کو نہیں تم لوگوں کو ان کاموں پر آنی چاہئے جس کے عیاں ہونے سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ تان سین نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تم خود باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہو لیکن اپنی آنکھوں پرسے اس زعفرانی پٹی کو نہیں ہٹاتے جو تمہارے حامیوں نے باندھ رکھی ہے۔ وہ لوگ جو تم سے بولتے ہیں وہی تم لوگوں سے بولتے ہو۔
ان الزامات کو سن کر ہمارا دل دہل گیا اس لئے کہ ہم خود نین سکھ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ہم نے پوچھا میرے پیارے تان سین ویسے تو تمہاری ہر بات مجھے صحیح لگتی ہے لیکن پھر بھی ان سنگین الزامات کو میں بغیر ثبوت کے تسلیم نہیں کر سکتا۔
تان سین بولا ویسے تو ثبوت بے شمار ہیں لیکن میں دو مثالیں دیتا ہوں۔ اس نین سکھ نے پہلے حقِ معلومات کی تحریک چلا کر اپنی شہرت بڑھائی اور پھر بدعنوانی کا محاذ کھول کر بیٹھ گیا۔ اس دوران خود اس کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف شور شرابا کرنے کے بجائے عملاً کام کرنے والی شہلا مسعود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس بیچاری نے اسی کی شہ پر اپنی معلومات کا حق استعمال کر کے بدعنوانوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس نے شہلا کے بہیمانہ قتل پر اتنا بھی احتجاج نہیں کیا جتنا کہ کیجریوال پر لگے حقیقی الزامات کی حمایت میں کیا تھا۔ اس لئے کہ شہلا مسعود کے قتل کی سوئی زعفرانی ریاستی سرکار اور سنگھی رہنماؤں کی جانب مڑتی تھی۔ اسے چدمبرم اور چوہان کی ترنگی بدعنوانی دکھلائی دیتی ہے لیکن ریڈی اورامراسے نظر نہیں آتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صرف بولتا اور سنتا ہے مگر دیکھتا اور سوچتا نہیں ہے۔ اپنے دماغ کا استعمال نہیں کرتا یہ تو بس بھوپوں ہے بھوپوں۔
تان سین کی لمبی تان سن کر نین سکھ تو بیچارہ بے ہوش ہو گیا لیکن مونی بابا نے اپنا برت توڑ دیا اور بولے اوئے تان سین میں نے تجھ جیسا نمک حرام نہیں دیکھا تو جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں سوراخ کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو نے کیشو کے پیر چھوئے اور پھر اسی کے قدم اکھاڑ دئے۔ اس کے بعد توگاڑیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر اس کا گلا دبا دیا۔ اپنے بچپن کے دوست پنڈیا تک کو موت کے گھاٹ اتارنے سے تو نہیں ہچکچایا۔ اڈوانی کی رتھ کامہا رتھی بنا اور اب اسی کی ہوا نکال دی۔ امیت شاہ کے ذریعہ ونجارہ سے فرضی انکاؤنٹر کرواتا رہا اور پھر دونوں کو بلی کا بکرا بنا کر ٹھکانے لگا دیا۔ تجھے مسلمانوں کا ووٹ بنک نظر آتا ہے لیکن عشرت جہاں اور سہراب الدین کے خون کے دھبے نہیں دکھلائی دیتے کل تک تومسلمانوں کے قتل عام کو جائز قرار دے کر ہندوؤں کے ووٹ مانگتا رہا اور اب ان کی مسیحائی کا دم بھرنے لگا ہے۔ شرم تو تجھے آنی چاہئے بلکہ چلو بھر پانی میں تجھے ڈوب مرنا چاہئے۔ تو صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے اور اس کے لئے بے تکان بولتا ہے۔ تجھے نہ تو فساد زدگان کی آہ وبکا سنائی دیتی ہے اور نہ ہی سنجیو بھٹ جیسے پولس افسر کے ضمیر کی آواز۔ تو سمجھتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دے گا لیکن یہ سب اس قدر آسان نہیں جتنا کے تو سمجھتا ہے۔
یوگی بابا کی تقریر سن کر نین سکھ کی آنکھیں کھل گئیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر لگی پٹی کو اتارا اور بولے یوگی بابا آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں دراصل ہم نے بنیادی غلطی یہ کی کہ ہم انسانوں سے مرعوب ہو گئے اور انسان بننے کی کوشش کرنے لگے یہی ہماری سب سے بڑٰی غلطی تھی یہ کہہ کر نین سکھ نے اپنی گاندھی ٹوپی کھڑکی سے باہر ہوا میں اچھال دی مونی بابا نے کہا تم نے صحیح کہا نین سکھ یہ چوٹی اور یہ چولہ یہ سب کچھ پاکھنڈ(منافقت) ہے۔ یہ ہمیں نہیں انسانوں ہی کو زیب دیتا ہے۔ یوگی بابا نے جیسے ہی سر پر ہاتھ پھیرا چوٹی غائب ہو گئی اور اندرسے وہی پرانا بندر نمودار ہو گیا جو چولے کی حاجت سے بے نیاز تھا۔ تان سین نے دو دیرینہ ساتھیوں کو اپنی پرانی حالت میں جاتے دیکھا تو اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا اور کھڑکی سے باہر کود گیا۔
دوسرے دن گلی کے نکڑ پر جہاں تان سین کی لاش ملی تھی ہنومان چالیسا کا پاٹھ ہو رہا تھا ماروتی کے نئے مندر کا سنگِ بنیاد رکھا جا چکا تھا اور بے شمار نئے اور پرانے بندر جمع ہو کر جئے بجرنگ بلی کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔
٭٭٭
تعلیم کی سیاست اور تجارت
ہندوستان میں نافذ ہونے والے تعلیم کے لازمی قانون سے ساری دنیا حیرت زدہ ہے لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا تعلیم کا حصول بھی کوئی ایسا حق ہے جس کو مہیا کرنے کے لئے دستورکی ترمیم واجب ہوتی ہے حالانکہ یہ تو ایساہی ہے جیسے سانس لینے اور کھانے پینے کا حق یہ بنیادی حقوق کسی دستور کے محتاج نہیں ہیں بلکہ کسی دستور کی ترمیم کے ذریعہ نہ انہیں سلب کیا جا سکتا ہے اور نہ انہیں بحال کیا جاتا ہے۔ مسلم عوام تو اسے اپنے حق سے آگے فرض کے درجے میں رکھتے ہیں لیکن ہندوستان کے عوام کو اس پر کوئی تعجب نہیں ہو ا اس لئے کہ صدیوں تک یہاں نووارد براہمن اقلیت نے ملک میں بسنے والی عظیم اکثریت کو شودر قرار دیکر تعلیم کے حق سے محروم کر رکھا تھا ہمارے ارباب اقتدار شاید ا ب بھی رام راجیہ کے سپنوں میں کھوئے رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ رام کا راجیہ صدیوں پہلے ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا جس میں علم حاصل کرنے کے جرم کی پاداش میں مریادہ پرشوتم رام نے شمبو کا نام کے شودر کا سر اپنے ہاتھوں سے قلم کر دیا تھا اس رام راجیہ کو کل یگ میں دوبارہ قائم کرنے کا خواب پہلے مہاتما گاندھی نے دیکھا مگر کل یگ کے رام بھکت ناتھو رام گوڈسے نے انہیں گولیوں سے بھون دیا اس کے بعد راجیو گاندھی نے ایودھیا میں جا کر اس عزم کا اعادہ کیا تو راون کے ونشجوں نے ان کا کام تمام کر دیا اڈوانی جی بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ اپنا رام رتھ لیکر سوم ناتھ سے نکلے لیکن ان کا سیاسی رتھ قائد اعظم کے مزار پر پہونچ کر پنچر ہو گیا حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہندوستان میں آ مدسے جو تحفہ اس خطہ ارض کو ملا وہ تاج محل یا لال قلعہ نہیں بلکہ ذات پات کے غیر منصفانہ تفریق کا خاتمہ اور سارے عوام کے لئے تعلیم اور عزت نفس کے حق کی بحالی تھا انگریزوں نے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی بلکہ گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر تعلیم کے فروغ میں مدد کی لیکن اب انگریز جا چکے ہیں ہم آزاد ہو گئے ہیں اس کے باوجود تعلیم کا بنیادی حق ہمیں ۶۴ سال بعد ایک دستوری ترمیم کی بدولت حاصل ہو رہا ہے یہ ہماری جمہوری سیاست کا ایک طرہ امتیاز ہے۔
جمہوریت میں سیاست ایک تجارت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اس کاروبار میں دوکاندارامیرسیاستدان ہیں اور گاہک غریب عوام ہوتے ہیں چونکہ یہ ایک سوداگری ہے اس لئے اس میں بھی لین دین لازمی ہے سو وہ بھی ہوتا ہے عوام کو وعدے اور سپنے دیئے جاتے ہیں کچھ خیالی تحفظات ان کی جھولی میں ڈال دیئے جاتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی مثلاً انسداد فرقہ واریت کا بل کچھ بلاوجہ کی پابندیاں ان پر تھوپ دی جاتی ہیں جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی مثلاً خاندانی منصوبہ بندی کا شوشہ یا کچھ ایسے حقوق سے انہیں نواز دیا جاتا ہے جو ان کے پاس پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیں اس کی تازہ مثال حکومت ہند کا نیا احسان لازمی بنیادی تعلیم کا حق ہے جس کا چرچا بہت زور و شور کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں کیا جا رہا ہے لیکن یہ سب مفت میں نہیں ہوتا سیاسی ٹھیکیدار ان بے قیمت اشیا ء کے بدلے عوام سے ان کا ووٹ مانگتے ہیں اور جب وہ اپنی اس جعل سازی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو خوب جی بھر کے نوٹ چھاپتے ہیں اس حقیقی دولت اور عیش و عشرت پر کوئی زبان نہیں کھولتا جو لوگ اس کی جرأت کرتے ہیں انہیں یہ اژدہا اپنے بل سے باہر آ کر نگل جاتا ہے اس طرح اپنے سیاسی ظلمت کدے میں حکمران سرکاری خزانے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتے رہتے ہیں اور سوئس بنک کے اپنے ذاتی خزانے بھرتے رہتے ہیں اسی طرز عمل نے ہندوستانی سیاستدانوں کو کالے دھن والوں کی فہرست میں اول نمبر پر پہونچا دیا ہے۔
بنیادی تعلیم کے حق کی دستوری ترمیم گذشتہ سال اگست کے اندر عمل میں آئی لیکن اس کے نفاذ میں آٹھ ماہ کی تاخیر کی گئی حالانکہ ممبران پارلیمان کے مہنگائی بھتہ میں ہونے والا اضافہ اس طرح کے التوا کا شکار نہیں ہوتا اور اب اس پر خوشی کے ایسے تازیانے بجائے جا رہے ہیں گویا ساری قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ قانون توا س شرمناک تلخ حقیقت کا اعتراف ہے کہ نام نہاد آزادی کے ۶۴ سال بعد بھی بچوں کی ایک تہائی تعداد اسکول نہیں جا پاتی اور ایسا اس لئے نہیں ہے کہ وہ بچے کے حق سے محروم ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر ماں باپ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں اور ہر بچہ پڑھنا بھی چاہتا تو پھر آخر یہ کروڑوں بچے اسکول کیوں نہیں جاتے ؟ اس سوال کا جوا ب ہے مجبوریاں ؟ ا ب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بل سے کوئی چراغ کا جن نمودار ہو گا اور وہ پلک جھپکتے ا ب ساری مجبوریوں کو نگل جائے گا؟ اگر کوئی اس طرح کی خام خیالی میں گرفتار ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
جمہوریت میں چونکہ ایوان حکومت حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں تقسیم ہوتا ہے اور حزب اختلاف کا فرض منصبی مخالفت کرنا ہوتا ہے اس لئے بحث و مباحثہ کو مخالفت کے ہم معنی ٰ سمجھا جاتا ہے کئی بار ارباب اقتدار اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرتے ہیں مثلاً جب کبھی عوامی فلاح و بہبود کا کوئی ناٹک رچایا جاتا ہے حزب اختلاف مشکل میں پھنس جاتا ہے ایسے موقع پر حمایت اور مخالفت دونوں ہی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اس لئے اپوزیشن والے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اقتدار والے مجبوریوں پر بحث کرنے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ ان مجبوریوں کے لئے وہ ذمہ دار ہوتے ہیں ویسے کبھی کبھار انہیں عوام کی مجبوریوں کا شعور تک نہیں ہوتا اگر ہوتا بھی ہے تو اسے دور کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اس لئے نہ ہی خاطر خواہ بحث ہوتی اور نہ ہی ان قوانین سے حقیقی فائدہ حاصل ہو پاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ان رکاوٹوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے جن کے باعث ماں باپ اپنے بچوں کو خواہش کے باوجود اسکول روانہ نہیں کر پاتے مثلاً:
• غربت، بیروزگاری اور مہنگائی
• تعلیم کی خاطر ناکافی سرکاری بجٹ
• علم کے بجٹ کی غلط ترجیحات
• بدعنوانی کی لوٹ ما ر
• ناقص نصاب غیر معیاری وسائل
• سرکاری مدارس کا معیار تعلیم
• تعلیم کی تجارت کا فروغ
• مقصدیت و اخلاقی اقدار کا فقدان
غربت، بیروزگاری اور مہنگائی: وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پارلیمان کے اندر اس بل کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے ایک نہایت جذباتی تقریر کی اور اس میں اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے ان مشکل حالات کو بیان فرمایا جن میں انہوں نے اپنے آپ کو تعلیم سے ا ٓراستہ کیا تھا اور اعتراف کیا کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں اسی تعلیم کی بدولت ہیں ویسے یہ آدھا سچ ہے اس لئے کہ بہت سے دوسرے بچوں نے بھی انہیں حالات میں اسی طرح کی جدوجہد کر کے تعلیم حاصل کی لیکن وہ بیچارے ملک کے وزیر تو کجا سفیر بھی نہ بن سکے اس لئے کہ انہیں عالمی بنک کے گورنر بننے کا موقع نہ مل سکا جسکی بدولت من موہن پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعظم کے عہدے تک پہونچ گئے۔ ویسے یہ من موہن کے نصیب ہیں کہ ان کے زمانے میں ہندوستان نے امریکی سامراجیت کے آگے سپر ڈال دی امریکہ بہادر کو ان کے اندر اپنے مفادات کے تحفظ کا بہترین محافظ نظر آ گیا اور گاندھی خاندان کی وراثت ایک غیر ملکی خاتون سونیا کے پاس چلی گئی نیز ان کا بیٹا راہل جوکانگریس پارٹی کی نگاہ میں دہلی کے تخت کا اصلی حقدار ہے ابھی سن بلوغ کو نہیں پہونچا ایسی بہت ساری وجوہات ہیں جن کے باعث من موہن سنگھ جو کچھ آج ہیں سو ہیں خیر ان سب سے قطع نظر من موہن کے بچپن میں دو اہم اسباق ہیں اول تو یہ انگریزی سامراج کے اس دور غلامی میں بھی ہندوستان کے عام شہریوں کو تعلیم کا حق حاصل تھا دوسرے یہ کہ جن شدید حالات کا انہوں نے ذکر کیا وہ آزادی کے بعد نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود اب بھی جوں کے توں ہیں بلکہ بہت سوں کے لئے شدید تر ہو گئے ہیں اس افسوس ناک صورتحال کی ذمہ داری ویسے توساری سیاسی جماعتوں پر مشترک ہے لیکن بڑا حصہ کانگریس کے سر آتا ہے اس لئے اسے سب سے زیادہ عرصہ ملک پر حکومت کرنے کا شرف حاصل ہوا یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس نے اپنے دور اقتدار میں حالات کو بہتر بنانے کے بجائے ان کا استحصال کر کے اپنے انتخابی مفاد کو حاصل کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کیا۔ کبھی غریبی ہٹاؤ کے نام پر عوام کو رجھایا تو کبھی عام آدمی کے نام پر خاص لوگوں کے مفادات کی حفاظت کی۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ گلوبلائزیشن کے فتنے کے بعد ملک میں بیروزگاری بڑھی ہے کانگریس کی حکومتوں کے دوران مہنگائی میں بے دریغ اضافہ ہوا ہے۔ کسان کا بیٹا من موہن جب وزیر اعظم بنا تو کسانوں کی خودکشی کے واقعات عام ہو گئے۔ عوام کی غربت و افلاس انہیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے روکتی ہیں۔ گذشتہ اگست میں جب سے یہ بل پاس ہوا سوقت سے ضروری اشیا کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اگر وزیر اعظم اس کو قابو میں کرتے تو شاید اس قانون کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی لیکن اگر ان خوبصورت نعروں کے پس پردہ مہنگائی کا عفریت پھلتا پھولتا رہے گا تو اس جیسے قوانین پاس ہوتے رہیں گے لیکن جہالت کا اندھیرا کبھی بھی دور نہ ہو گا مفلسی کی آندھیاں تعلیم کے چراغ کو پنپنے نہیں دیں گی اس کے لئے کم از کم خوشحالی کا ایندھن ضروری ہے اس لئے کہ خالی پیٹ حروف تہجی سے نہیں دو وقت کی روٹی سے بھرتا ہے اور فاقہ کش کے دماغ کا روشن دان تعلیم کی کنجی سے نہیں کھلتا۔
تعلیم کی خاطر نا کافی بجٹ:تعلیم کے فروغ میں محض عوام کی مفلسی نہیں بلکہ حکومت کی بخیلی بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے بجٹ میں تعلیم کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کا تناسب افریقہ کے کئی پسماندہ ممالک سے بھی کم ہے یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں خواندگی کی شرح ہندوستان سے بہتر ہے ہمارے یہاں باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن ان پر عمل در آمد کم ہی ہوتا ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بہت سارے پسماندہ سمجھے جانے والے مسلم ممالک مثلاً اردن اور لبنان تک میں خواندگی کی شرح ہندوستان سے کہیں زیادہ بہتر ہے حالانکہ وہ بھی ہماری طرح تیل کی دولت سے مالامال نہیں ہیں۔ خود ہندوستان کے اندر بھی کیرالہ جیسی ننھی سی ریاست نے کئی سال قبل صد فی صد خواندگی کے ہدف کو حاصل کر لیا اس کے لئے ان لوگوں نے دکھاوے قوانین بنانے کے بجائے ٹھوس اقدامات کئے حالانکہ قدرتی وسائل کے لحاظ سے کیرالہ بہت زیادہ خوشحال نہیں ہے لیکن وہاں کی اکثریت متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے بہت امیر اور نہایت غریب لوگ اس ریاست میں نہیں پائے جاتے نیز ریاستی حکومتوں نے تعلیم کی جانب خاص توجہ دی ہے۔ تمل ناڈو کی ریاستی حکومتوں نے تعلیم کے فروغ کی خاطر اسکولوں میں دوپہر کے مفت کھانے کا اہتمام کیا اور اس کے باعث وہاں خواندگی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ جب تک کہ حکومت اس طرح کے منصوبوں پر رقم خرچ نہیں کرتی اسوقت تک محض اعلانات سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ من موہن حکومت مفت تعلیم کی بات ایسے کر رہی ہے جیسے یہ کوئی نیا وردان ہو حالانکہ ہماری نسل کی اکثریت نے سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم حاصل کی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ وہی پرانی شراب ہے جسے ایک نئی بوتل میں بھر کے پھر سے پروسنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تعلیم کے بجٹ کی غلط ترجیحات:تعلیم کے بجٹ کو غیر موثر بنانے والی ایک شئے غیر معقول ترجیحات ہیں۔ بنیادی تعلیم کے مقابلے اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم کا تناسب بھی مناسب حال نہیں ہوتا۔ اعلیٰ تعلیم کے چند ادارے بجٹ کا بڑا حصہ نگل لیتے ہیں جن سے مٹھی بھر خوشحال طبقے کا فائدہ ہوتا ہے لیکن غریب عوام کی اکثریت اس سے محروم رہتی ہے عام اسکولوں کی عمارتوں کو مرمت نصیب نہیں ہوتی، وہاں پر تخت سیاہ تک موجود نہیں ہوتا اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں لایعنی موضوعات پر تحقیق ہوتی رہتی ہے مہنگے سے مہنگے آلات کو در آ مد کر کے نصب کیا جاتا ہے تا کہ بیرونی ممالک سے آنے والے آقاؤں کو خوش کر کے ان سے مزید مدد حاصل کی جا سکے نیز دیگر مہمانوں کو مرعوب کر کے اپنی ترقی کا لوہا منوایا جا سکے۔ چونکہ قوم کے اصحابِ حل و عقد کے طبقہ کا مفاد اس بیجا ترجیح سے وابستہ ہو گیا ہے اس لئے وہ جانتے بوجھتے اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
مجھے یاد ہے دہلی میں جامعہ ملیہ سے چند فرلانگ پر واقع ایک شامیانے میں لگے سرکاری اسکول کو دیکھ کر میں نے اپنے دوست سے پوچھا تھا کہ کیا یہاں پڑھنے والا کوئی طالبعلم کبھی جامعہ میں داخل ہو سکے گا؟ اس کا جواب تھا جامعہ میں داخل ہونا تو دور کیا ان میں سے کوئی ہائی اسکول تک بھی پہونچے گا اسمیں مجھے شک ہے ؟ یہ صورتحال راجدھانی دہلی کی ہے تو اس ملک کے دیہاتوں میں پائے جانے والے اسکولوں کی حالت کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔
بدعنوانی کی لوٹ ما ر: بدعنوانی ہمارا قومی شعار بن گیا ہے۔ سرکاری بلکہ نجی اداروں میں اکثر کاموں کے لئے رشوت کا سہارہ لینا پڑتا ہے بوفورس معاملے میں دلالی سے اپنے ہاتھ کالے کرنے سے قبل راجیو گاندھی نے اس بات کا اعتراف کیا تھا ہمارے بجٹ کا پندرہ فی صد اپنا حق ادا کرتا ہے بقیہ درمیان میں غائب ہو جاتا ہے گذشتہ بیس سالوں میں بدعنوانی کے اضافہ کا تصور کریں اور اندازہ لگائیں کہ جو رقم بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لئے حکومت مختص کر رہی ہے اس کا کتنا فیصد اس پر خرچ ہو گا اور اس کے کیا نتائج نکلیں گے ؟ بدعنوانی کے مرض نے سرکاری مشنری کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اس لئے اس شاخ نازک پر نہ کوئی آشیانہ تعمیر ہو پاتا اور نہ اسے پائیداری نصیب ہوتی ہے۔
ناقص نصاب غیر معیاری وسائل: لارڈ میکاولی نے ہندوستانی غلاموں سے اپنے سامراج کی خدمت کروانے کے لئے جو نصاب تیار کیا تھا اس کی خطوط کار سے قوم کے دانشور اور ماہرین تعلیم ابھی تک آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ان کو لگتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا آزادی فکر و عمل کا فقدان ہے کسی متبادل پر غور کرنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا اپنی ضرورتوں کا جائزہ لیکر مناسب حال تبدیلیوں سے خوف محسوس ہوتا ہے اس لئے نصاب کے اندر ضروری تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں۔ آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پہ اڑنے کی روش ہمارے پیروں کی زنجیر بن گئی ہے .ایک مسئلہ معیاری وسائلِ تعلیم کا بھی ہے سرکاری اسکولوں کے طلبا کو آگے چل کر نجی مدارس کے جن طلبا سے مسابقت کرنی ہوتی ہے وہ جدید ترین وسائل کے ذریعہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ایسے میں سرکاری اسکولوں کے طلبا کے اندر احساس کمتری اور مایوسی کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے اگر کسی خاندان کا ایک بچہ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مسابقت میں پیچھے رہ جاتا ہے تو اس کا منفی اثرسارے خاندان پر پڑتا انہیں یہ سب تضیع اوقات محسوس ہونے لگتا ہے۔ مختلف اداروں کے درمیان تعلیم کے معیار کا فرق پہلے بھی تھا لیکن اب یہ کھائی کافی وسیع ہو گئی اور فوری توجہ کی طلبگار ہے۔
سرکاری مدارس کا معیار تعلیم: تعلیم کا سب سے اہم وسیلہ اساتذہ ہوتے ہیں لیکن سرکاری اساتذہ کے اند ر( الا ماشا اللہ چند ایک استثنائی لوگوں کو علیٰحدہ کر دیا جائے تو) جذبہ عمل کا فقدان پایا جاتا ہے جس کے لئے کلی طور پر انہیں قصور وار ٹھہرایا نہیں جا سکتا عمومی ماحول سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے خاص لوازمات کی ضرورت ہوتی جو ہر استاد کو مہیا نہیں ہوتے اس لئے جو بھی اس نمک کی کان میں داخل ہوتا ہے وہ وقت کے ساتھ نمک بن جاتا ہے۔ احساس جوابدہی کا دفتری تصور سرکاری دفتر میں جہاں ملازمت کو ایک خاص تحفظ حاصل ہو کار آمد ثابت نہیں ہو پاتا۔ کار کردگی کو جانچنے کے موثر وسائل اور اس پر اقدامات کے مواقع اکثر و بیشتر مہیا نہیں ہوتے ایسے میں جن کے دلوں میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا عقیدہ جا گزیں ہے وہ تو اپنی ذمہ داری ادا کر پاتے ہیں لیکن باقی لوگوں کے لئے یہ خاصہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار اچھا نہیں ہوتا اور طلبا کے ساتھ ساتھ والدین کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔
تعلیم کی تجارت کا فروغ:کسی زمانے میں دو طرح تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے ایک سرکاری اور دوسرے نجی۔ نجی تعلیمی ادارے بھی نیم سرکاری ہی ہوتے تھے ان میں نصاب تعلیم اور اساتذہ کی تنخواہ تک حکومت سے آتی۔ صرف عمارت اور انتظامی امور کسی فلاحی ادارے کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ ان اداروں کو مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ چلاتے تھے لیکن ان میں سے اکثر و بیشتر اعزازی طور پر اپنی خدمات کو پیش کرتے تھے ان کا اپنا ذریعہ معاش ہوتا تھا تعلیمی ادارے سے معاشی فائدہ اٹھانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا اس نظام کے بھی بہت سارے مسائل تھے لیکن کم از کم ایک بات ضرور تھی کہ وہاں خدمت کا پہلو کسی نہ کسی طور کار فرما ہوتا تھا غریب امیر کی تفریق نہیں تھی بلکہ میرا اپنا مشاہدہ یہ ہے کہ غریب طلبا خصوصی توجہ اور احترام کے حقدار ہوتے تھے لیکن جب سے تعلیم کی دوکانیں کھل گئیں طلبا اور اساتذہ نیز تعلیم گاہ کا تعلق خالص مادی ہو کر رہ گیا طالبعلم ایک گاہک میں تبدیل ہو گیا اساتذہ پیشہ ور ماہرین تعلیم یا علم کے سوداگر اور تعلیم گاہ ایک سپر مارکیٹ بن گئی جہاں سے اسفادہ کے لئے اولین شرط جیب میں پایا جانے والا فلوس بن گیا مفلس کے لئے اس کے دروازے بڑے پیار سے بند کر دئیے گئے۔ یہ وبا کچھ اس تیزی کیساتھ پھیلی کہ اس کے منفی اثرات کو وہ لوگ بھی محسوس نہ کرسکے جن کو اس خلاف علم بغاوت بلند کرنا تھا۔ اس رجحان کے چلتے کل تک من موہن سنگھ جیسے عام آدمی کے بچوں کے لئے جو ترقی کے دروازے کھلے تھے وہ بند ہو گئے اب اگر اس نے من موہن کی مہربانی سے بنیادی تعلیم حاصل کر بھی لے تو آگے کچھ زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر کچھ خاص نہیں کر سکتا تو بنیادی تعلیم حاصل کرنے پر اپنے نو سال ضائع کرنے کے بجائے کسی ایسے فن میں مہارت کیوں نہ حاصل کرے جوساری عمر اس کے کام آنے والی ہے اس قسم کی سوچ پروان چڑھ سکتی ہے۔
مقصدیت و اخلاقی اقدار کا فقدان:مادہ پرستی کا نظریہ اور اس پر سرمایہ دا رانہ نظام نے مل کر فی الحال دنیا کے بڑے حصہ پر ‘کریلا اور نیم چڑھا’ کی صورتحال پیدا کر دی ہے انسانی زندگی اعلیٰ مقاصد سے بے بہرہ ہو گئی اور اس کا سب سے اولین شکار اخلاقی اقدار ہوئے ہیں معیار زندگی کو بہتر بنانے کی دوڑ میں انسان تمام اخلاقی حدود و قیود سے آزاد ہو چکا ہے بدقسمتی سے جن تعلیمی اداروں کواس معاملے میں ایک دیوار بن کر کھڑا ہو جانا چاہئے تھا وہ اس کی خاطر دروازہ بن گئے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو مادہ پرست جانور بنانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ یہ بات عام تعلیمی اداروں کی ہے جو لوگ ہنوز اس بیماری سے محفوظ ہیں وہ یقیناً قابل قدر ہیں۔
اس نئے رجحان کے چلتے عام لوگوں کے نزدیک تعلیم یافتہ افراد کااحترام مجروح ہوا ہے اس لئے کہ عام آدمی کسی پڑھے لکھے شخص سے کسی خیر کی توقع نہیں کرتا۔ وہ اپنے استحصال کرنے والوں کے شانہ بشانہ تعلیم یافتہ ماہرین کو کھڑا پاتا ہے سیاستدانوں کی منصوبہ بندی کرنے والے آئی اے ایس آفیسرس ہوں یا سرمایہ داروں کی جھولی بھرنے والے ماہرین معاشیات سب کے سب اعلیٰ تعلیم گاہوں سے نکل کر آنے والے فارغین ہوتے ہیں اس مفاد پرست طبقہ کے خلاف ساری دنیا میں ایک رد عمل پیدا ہو رہا ہے۔ امریکہ جیسے مادہ پرست سرمایہ دار ملک میں ماہر یا پیشہ ور صلاح کار ایک گالی بنتا جا رہا ہے لوگ اس کی جانب پہلے شک کی نگا ہ سے دیکھتے تھے لیکن اب نفرت سے دیکھنے لگے ہیں ایک عام رجحان یہ ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں یعنی بش سینئر کے بعد سے ان ماہرین نے مل کر ملک کا بھٹا بٹھا دیا پہلے خارجہ پالیسی کا ستیا ناس کر کے بلاوجہ کی جنگوں میں قوم کو جھونک دیا اور پھر اندرون ملک کساد بازاری پھیلا کر معاشی بحران کا شکار کر دیا ان آفات انسانی سے عام آدمی کا جینا دشوار ہو گیا لیکن ان کا بال بیکا نہیں ہوا۔ تعلیم کے آب حیات میں مادہ پرستی کا زہر نہ صرف مغرب بلکہ مشرق میں بھی شامل ہو گیا اور جب تک کہ اس زہر کا تریاق نہ ملے محض پارلیمان میں ایک بل پاس کر کے اپنی پیٹھ تھپتھپانے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔
ویسے ملک کے عوام فی الحال خوش ہیں کہ تعلیم کی بابت حکومت وقت استاد شاعر قمر جلالوی کی مصداق ‘وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا’ کے مرحلے سے تو گذر گئی لیکن ارباب حکومت پریشان ہیں کہ تعلیم کا حق بھی دے دیا (تعلیم ملے نہ ملے ) مگر انتخاب کو کافی وقت باقی ہے عوام ہماری دیگر کوتاہیوں کی طرح اس احسان عظیم کو بھی فراموش کر دیں گے اس لئے انہیں آگے چل کر مزید کون سا حق فراہم کیا جائے ؟ تاکہ ووٹو ں کا بازار گرم ہو اس مسئلہ کا ایک حل ہم تجویز کئے دیتے ہیں ’ذرائع ابلاغ سے لازمی استفادہ کا حق‘ اس معاملے میں کچھ مشکلات ضرور ہیں لیکن ان کا آسان حل بھی موجود ہے اور جو فائدے ہیں ان کا کیا کہنا!
ذرائع ابلاغ کا لازمی بل جب بن جائے گا تو لوگ طرح طرح کے اعتراضات کریں گے مثلاً روزی روٹی کمانے کی فرصت نہیں ہے یا ہمارے پاس وقت نہیں ؟تو اس کے جواب میں کام کے مقامات مثلاً دفاتر اور دوکانوں پر ٹی وی کا لگانا لازمی قرار دیا جائے گا اور اس کے لئے کم سود پر قرض مہیا کیا جائے گا۔ جو گھر پر ٹی وی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اس کو سرکاری دفاتر سے نکالے ہوئے پرانے ٹی وی سیٹ مفت فراہم کئے جائیں گے جو اپنی بینائی کی شکایت کرے گا اسے انشورنس کمپنی کی جانب رجوع کرنے کا مشورہ دیا جائے گا اور اگر وہ پریمیم ادا کرنے سے قاصر ہو تو اسے سننے پر اکتفا کرنے کی تلقین کی جائے گی جو یہ کہے گا کہ ذرائع ابلاغ پر پھیلائے جانے والے جھوٹ پر وہ اعتبار نہیں کرتا تو اس کا علاج کروانے کے لئے ماہرین نفسیات کے پاس پاگل خانے میں بھیج دیا جائے گا تاکہ پاگل ہو کر واپس آئے اور اس کا اعتماد بحال ہو جائے جو اس بل کے خلاف احتجاج کرے گا اسے بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیکر گونٹے نامو بھیج دیا جائے اس طرح حزب اختلاف سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اس حق کے یقینی بنائے جانے پر انتخاب میں کامیابی یقینی ہو جائے گی گویا کہ تعلیم کے بل کہ یہ ذرائع ابلاغ کا حق مات دے دے گا۔
٭٭٭
بچوں کو بچوں کی نظر سے دیکھو
ایک بچے کی تعلیم و تربیت میں جس قدر بڑا حصہ حکومت اور دوستورساز اداروں کا ہوتا ہے، نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے، اساتذہ، نصاب اور کتابوں کا ہوتا ہے اسی قدر بلکہ اس سے کچھ زیادہ اہم کردار والدین کا ہوتا ہے۔ اسی لئے شاید تعلیمی میدان سے وابستہ ایک دوست نے گذشتہ مضمون سے ناراض ہو کر مجھے برا بھلا سناتے ہوئے ایک دلچسپ بات کہی، وہ بولے سرکاری بل کے بارے میں تو تم نے بہت کچھ لکھ مارا لیکن اس بل کا کیا جس میں بچہ رہتا ہے ؟ بل میں بچہ رہتا ہے ؟میں نے حیرت سے سوال کیا تو وہ بولے میری مراد گھر ہے اور والدین کا کیا؟تم نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا اس لئے کہ تمہارا اپنا تعلق اسی طبقے سے ہے گویا تعلیم کی تجارت بتلاتے ہوئے بھی تم خود سیاست کر گئے۔ فون پر تو نہایت معصومیت کے ساتھ میں ان کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ ان کی بات صحیح ہے یہ کوتاہی یقیناً مجھ سے سرزد ہوئی ہے۔ اس لئے یہ مضمون اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ اس مضمون میں بل کے بجائے دل کی بات ہو گی انشا اللہ۔
انسان کا تمدنی سفرارتقارہنمائی اور آزادی کے دو پہیوں پر آگے بڑھتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی تمام مخلوقات کو ہدایت سے نوازا اور ان سب کو اس رہنمائی کا پابند کر دیا۔ چاند ستارے، چرند پرند بلکہ فرشتوں تک کو اس بات کی اجازت نہیں کی وہ ان ہدایات سے سرِ مو انحراف کر سکیں وہ سب کی اپنی تمام قوت و عظمت کے باوجود آزادی کی بیش بہا نعمت سے یکسر محروم ہیں اس لئے کہ اس نعمت کے عوض عائد ہونے والی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی ہمت و سکت وہ اپنے اندر نہیں جٹا سکے قرآن مجید میں پہاڑوں کے حوالے سے یہ بات تمثیل کے طور پر کہی گئی ہے اس لئے ان کی تعمیل و اطاعت قابل صد احترام ضرور ہے لیکن چونکہ وہ اس پر مجبور ہیں اس لئے اس کی تعریف و توصیف بیان نہیں کی جاتی ساتھ ہی اس فرمانبرداری کے باوجود ان کے اندر کوئی تمدنی ارتقا عمل میں نہیں آتا ہے۔ ہزارہا سال سے شمس و قمر اسی محور میں گردش کر رہے ہیں جن میں انہیں محصور کر دیا گیا ہے، شیر اور ہرن اسی طرز پر زندگی گذار رہے ہیں جن پر صدیوں پہلے زندگی گذارا کرتے تھے ان کا رہن سہن ایک خاص نہج پر منجمد کر دیا گیا ہے وہ اس سے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے بارے میں سوچنے تک کے سزاوارنہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا اس فلسفہ سے کیا تعلق؟ دراصل آگے جو بات میں کہنے جا رہا ہوں اس کو سمجھنے کے لئے شخصیت کے ارتقا کے ساتھ رہنمائی اور آزادی کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہدایت و رہنمائی:کائنات کی ساری مخلوقات کو ان کے خالق و مالک نے جبلی ہدایت سے معمور فرمایا اس کے باوجود بکروں کے ریوڑ میں کوئی شریف یا بد معاش بکرا نہیں پایا جاتا ان کا تقویٰ اور پرہیزگاری انہیں بلند تر روحانی مدارج پر فائز نہیں کرتی ان کی ہدایت کے لئے کتا بیں نازل نہیں کی جاتیں اور پیغامبر مبعوث نہیں کئے جاتے ان کے لئے حساب کتاب حشر و نشر اور جنت و دوزخ نہیں سجائی جاتی لیکن حضرت انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ تو جنت سے آنے اور جانے کے درمیان عرصہ حیات میں اپنے خالقِ حقیقی سے یہ کہنے کی جرأتِ رندا نہ تک کر جاتا ہے کہ ؎
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے ا ب میرا انتظار کر
علامہ اقبال کے اس شعر میں کار جہا ں سے مراد انسانی ارتقا کی بلند تر مراحل ہیں جن کو سر کرنے کی غرض سے رب کائنات نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے تعلیم و تربیت کا اصلی ہدف ا سی ارتقا کے عمل میں اعانت و تعاون ہونا چاہئے۔
آزادی و حریت: فرد کی آزمائش کے لئے فکر و عمل کی محدودسہی لیکن آزادی اولین شرط ہے اجتماعی سطح پر انسانی معاشرہ ان قوموں کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اس ارتقائی عمل میں دوسروں سے مسابقت کر کے آگے نکل جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مسابقت میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا ایک فطری خواہش ہے جو زمان و مکان کی محدودیت سے ماورا ہے ہر دور اور ہر خطہ ارضی کے انسانوں نے جمود کو زندگی کی نہیں بلکہ موت کی علامت گردانا ہے ارتقاسے محرومیت کو انسانی ضمیر اپنی تمدنی ہلاکت قرار دیتا ہے اور انسان اپنی تہذیبی ہلاکت پر طبعی موت کو قابل ترجیح سمجھتا ہے وہ آزادی و حریت کی بقا کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے کو سعادت جانتا ہے اس لئے کہ جب کسی قوم کی آزادی سلب کر لی جاتی ہے تو اس کا انفرادی اور اجتماعی ارتقا رک جاتا ہے اور وہ بستی ایک چلتی پھرتی لاش کے قبرستان میں تبدیل ہو جاتی ہے -ربّ کائنات کی حکمت یہ ہے کہ جس مخلوق سے ارتقا مطلوب تھا اسے ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد آزادی کے جوہر سے بھی ہم کنار کیا تاکہ وہ اخلاقی اور مادی ترقی سے بہرہ ور ہوسکے۔
والدین کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنی اولاد سے بڑی حد تک لا پرواہ ہوتے ہیں وہ انہیں خس و خاشاک کی طرح پوری طرح آزاد چھوڑ دیتے ہیں ان کی رہنمائی کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے یا اپنے آ پ کو اس کام کا اہل نہیں پاتے ان والدین کے بچے رہنمائی کے نہ ہونے کے باعث بہت ساری ٹھوکریں کھاتے ہیں لیکن پھر بھی گرتے سنبھلتے چل پڑتے ہیں کبھی کبھار سنبھل نہیں پاتے تو تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے بھٹک جانے کا بھی اندیشہ باقی رہتا ہے اس کے بر عکس دوسری قسم ایسے والدین کی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کے بارے میں ضرورت سے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں وہ ان کی فکری و عملی رہنمائی کی ذمہ داری تو کما حقہ ادا کر دیتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بچے کی آزادیِ فکر و عمل کو پوری طرح کچل کر رکھ دیتے ہیں بظاہر دوسری قسم کے والدین کو معاشرے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے انہیں اپنی اولاد کا بڑا خیر خواہ سمجھا جاتا ہے لیکن نادانستہ طور پر ان سے ہونے والی غلطی بچہ کے اندر جدت و ندرت کا خاتمہ کر دیتی ہے اکثر اسطرح کے بچوں میں خوداعتمادی کی بھی کمی پائی جاتی ہے ان کے اندر عزم و حوصلہ اور قوت فیصلہ کا فقدان ہوتا ہے اس لئے کہ والدین ان کے سارے فیصلے خود کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ نوجوانی کی دہلیز میں داخل ہو جاتے ہیں یہ دونوں طرح کی انتہا پسندی بچے کی شخصیت کے ارتقا کے لئے مضر ہے ان دونوں کے درمیان ایک الٰہی اسلوب جس میں رہنمائی کے ساتھ ساتھ آزادی ہے نگرانی کے باوجود دھونس اور زبردستی نہیں ہے جو والدین اس حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کے بچہ بہترین شخصیت کے حامل ہوتے ہیں ان کے اندر صلاحیت اور صالحیت یہ دونوں عناصر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں، صلاحیت اس آزادی کے باعث پروان چڑھتی ہے جو اسے اپنے ماں باپ سے ملتی ہے اور صالحیت کا تعلق اس رہنمائی اور نگرانی سے ہوتا ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بچپن کی کلی کھلتی ہے مندرجہ بالا گفتگو کا تعلق والدین کے طرز فکر سے تھا ا ب آئیے کچھ عملی مسائل پر بھی غور کیا جائے۔
بچوں اور بڑوں کی نفسیات میں ایک بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ بہت کم سوچتے ہیں بس ضرورت بھر سوچتے اور جو ٹھیک لگتا ہے کر گذرتے ہیں اس کے علاوہ بچوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ لوگ کیا سوچیں گے اوروں کی پسند اور ناپسند سے ان کے فیصلے متاثر نہیں ہوتے اس لئے وہ بروقت فیصلے کرتے ہیں بچے اپنی خوشی اور ناراضگی کا اظہار فوراً اور بلا تکلف کر دیتے ہیں وہ ادا کاری یا مکاری نہیں کرتے منافقت کے مرض سے محفوظ ہوتے ہیں اور سب سے بڑی خوبی ان کے اندر یہ ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ بہت جلدی بھول جاتے ہیں اس لئے کسی غیر معمولی کیفیت (abnormal phase)میں زیادہ عرصہ نہیں رہتے بہت جلد نارمل ہو جاتے ہیں –
والدین کا معاملہ بالکل مختلف ہوتا ہے وہ بہت زیادہ سوچتے ہیں اور اکثر غیر ضروری اندیشوں کا شکار ہو جاتے ہیں یہ تذبذب کی کیفیت انہیں کسی نتیجے پر پہونچنے نہیں دیتی۔ والدین کو اس بات کی فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ اگر چہ بات صحیح ہے لیکن لوگ کیا کہیں گے ؟والدین گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر اپنے جذبات و احسا سات کے اظہار سے گریز فرماتے ہیں اور تلخیوں کو آسانی سے بھلا نہیں پاتے اس بنیادی فرق کے باوجود والدین بچوں سے یہ بیجا توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کی طرح سوچیں۔ ہم بچوں سے تو ان کی فطرت کے خلاف توقع کرتے ہیں لیکن خود اپنے مزاج کے خلاف بچہ بن کر نہیں سوچتے۔ بڑے اگر چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں لیکن نہیں کرتے اور بچہ اگر چاہے بھی تو ایسا نہیں کرسکتا اس کے باوجود ہماری یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اس لئے بچوں کی اس ہیئت کو سمجھنے کے لئے بڑوں کو بچہ بن کر سوچنا پڑے گا تب جا کر بات بنے گی۔
بچہ اپنی ضرورتوں کو اصرار کے ساتھ طلب کرتا ہے لیکن وہ اپنے مسائل کی فہرست بنا کر اپنے والدین کے سامنے پیش نہیں کرسکتا اس لئے کہ ایسا کرنے کے لئے جس غور چھاوقا ا فقدو فکر کی ضرورت ہے وہ اس کے بس کے باہر کی بات ہے والدین کو اس بات کا احساس ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ بچہ کی طرح نہیں سوچتے اس لئے اس کے حقیقی مسائل تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے اور اس لئے مرض کی تشخیص میں غلطی کر جاتے ہیں نتیجتاً والدین کی ان مخلصانہ کوششوں کے باوجود بچوں کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں قدرے اضافہ ہو جاتا ہے دانا حکیم اپنے مریض کی تکلیف سمجھنے کی خاطر پہلے اس کی سطح پر جاتا اور پھر واپس آ کر علاج تجویز کرتا ہے اس معاملے میں اگر وہ نسخہ لکھنے میں جلد بازی کرے تو مریض کو علاج کے بجائے غالب کی غزل ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
بچوں کی ضرورتیں نہ تو پوری طرح مشترک ہوتی ہیں اور نہ بالکل مختلف اس لئے والدین کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر بچہ کی ضرورت کا انفرادی سطح پر اندازہ کریں یہ کام قومی سطح پر مشکل بلکہ ناممکن ہے لیکن خا ندان کے اندر نہایت سہل اورآسان ہے خاندانی منصوبہ بندی کے عذاب نے اسے آسان تر بنا دیا ہے ضرورتوں ہی کی طرح ہر بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں پائی جانے والی رکاوٹیں بھی مختلف ہو تی ہیں ان کا بھی درست اندازہ لگانا نہایت ضروری ہے، ضرورتوں کو سہولتوں سے پورا کیا جا سکتا ہے جیسی ضرورت ہو ویسی سہولت ہو مثلاً اگر کو ئی مادی ضرورت ہے تو اسے فکری تربیت پورا نہیں کر سکتی اسی طرح علمی و فکری ضرورتوں کی بھر پائی مادی وسائل سے ممکن نہیں ہے۔ بچوں کے ارتقا میں پائی جانے والی رکاوٹوں کی نوعیت اکثر و بیشتر نفسیاتی ہوتی ہے اور یہ زیادہ لطیف اور نازک مراحل ہوتے ہیں اور انہیں دور کرنے کے لئے بڑی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ضرورتوں اور رکاوٹوں کے معاملے میں ترجیحات کا تعین نہایت اہم کردار ا دا کرتا ہے اس لئے یہ بات مناسبِ حال معلوم ہوتی ہے کہ والدین ہر دو فہرست کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیں اول تو وہ ضرورتیں جو بچے کی نشوونما کے لئے ناگزیر ہوں اور ثانیاً وہ جن کے نہ ہونے سے کچھ مشکلات کے باوجود کام چل سکتا ہوایسا کرنے سے وسائل کے استعمال کو مؤثر بنایا جا سکتا ہے ورنہ اکثر و بیشتر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ فروعی ضرورتوں پر ساری توانائی صرف ہو جاتی ہے اور ناگزیر ضرورتیں تشنہ کام رہ جاتی ہیں اس خرابی کا واحد علاج ترجیحات کا مناسب تعین ہے۔ رکاوٹوں کے حوالے سے بھی اس طرح کی تقسیم لازمی ہے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ والدین ان رکاوٹوں کو دور کرنے پر اپنا سارا زور صرف کر دیتے ہیں جن کے باوجود بچہ تھوڑی بہت محنت و دقت کیساتھ آگے بڑھ سکتا ہے لیکن ان رکاوٹوں کی جانب سے صرفِ نظر ہو جاتا ہے جو ناگزیر ہوتی ہیں اور آگے چل کر پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے ایسی صورتحال میں والدین کے ساتھ ساتھ خود بچے کی ساری محنتیں اور کاوشیں بے ثمر ہو جاتی ہیں ایسے میں ہر دو فریق پریشان ہوتے ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود متوقع نتائج کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا ہے ؟ان حالات میں اکثر غیر متعلق چیزوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنے دل کی بھڑاس اتاری جاتی ہے حالانکہ یہ کوئی حل نہیں بلکہ بجائے خود ایک مسئلہ ہے اور اس کے لئے صرف اور صرف والدین ذمہ دار ہیں۔
بچہ ایک نرم نازک کونپل کی مانند ہوتا ہے جس طرح ایک کسان یا باغ کا مالی پودے کی نشو و نما کے لئے مناسب کھاد پانی کا بندوبست کرتا ہے اسی طرح والدین کو اپنے بچوں کی ضرورتوں کو بہم پہونچانا چاہئے اسی کے ساتھ کسان اپنی فصل کی مضر کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت کے لئے جراثیم کش ادویات کا استعمال بھی کرتا ہے والدین کو بھی چاہئے کہ وہ بچے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ایسی ہی فکر کریں۔ ایسا کرتے وقت باغبان ان اشیا کی مقدا رِ ضرورت کا خاص پاس و لحاظ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ ان کی کثرت و قلت دونوں ہی پودوں کے لئے یکساں طور پر مضر ہیں۔ اگر اس معاملے میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو کسان کی ساری محنت و مشقت رائے گاں چلی جاتی ہے یہ قانونِ فطرت آفاقی نوعیت کاہے۔
شوق اور خوف دو ایسے عوامل ہیں جونفسیاتی سطح پر کسی بھی کام کو انجام دینے میں اہم ترین کردار ا دا کرتے ہیں تقویٰ دراصل اسی خوف اور شوق کا حسین ترین امتزاج ہے جس میں ایک طرف انسان کو اللہ کی ناراضگی کا ڈر ہوتا ہے اوردوسری جانب اللہ کی محبت اس کے اندر ذوق و شوق پیدا کرتی ہے۔ دیگر دنیوی معاملات میں انسان کو نقصان کا خوف ہوتا ہے اور فائدے کا لالچ گویا ایک قوت پیچھے سے دھکا دیتی ہے تو دوسری آگے کی جانب کھینچتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ خوف خارجی اشیا سے ہوتا ہے اور کشش داخلی جذبۂ عمل ہے۔ لیکن یہ سارا ما جرا پختہ کار ذہنیت کا ہے بچے کے اندر عام طور پر ان دونوں کے اثرات بہت کم ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ ’فریبِ سود و زیاں ‘سے محفوظ و مامون ہوتا ہے۔ بچہ تو اس کام کو کرتا جس میں اس کو مزہ آتا ہے اور اس کام کو نہیں کرتا جو اس کے دل کو نہیں بھاتا۔ اس پر فائدے کی لالچ اور نقصان کا اندیشہ اثرا نداز نہیں ہو پاتا اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ بچوں کے سامنے اچھے کام مزیدار بنا کر پیش کئے جائیں اور ڈرا دھمکا کر ان سے کام لینے کی کوشش نہ کی جائے اس لئے کہ اگر کسی کام میں بچوں کو مزہ آنے لگے تو منع کرنے کے باوجود وہ اسے کر گذرتے ہیں اور جس کام میں ان کا دل نہ لگے لاکھ جتن کے باوجود وہ کام ان سے کرایا نہیں جا سکتا۔
بچے کی ایک بہت بڑی ضرورت اس کی مصروفیت ہے وہ بیکار نہیں بیٹھ سکتا اس کو کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کام چاہئے ا ب یہ بڑوں کا کام ہے کہ وہ اس کے سامنے ایسی مصروفیات رکھیں جن سے اس کا فکری و جسمانی ارتقا عمل میں آئے اکثر والدین ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے ان کو ایسے مشاغل میں مصروف کر دیتے ہیں جو ان کے نازک ذہن پر دیرپا منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب بنتے ہیں یہ سب غیر شعوری طور پر ہوتا ہے مثلاً مختلف کمپیوٹر کھیل انہیں پکڑا دئے جاتے ہیں یا کارٹون فلموں میں انہیں الجھا دیا جاتا ہے۔ بچہ ان کے اثرات کے حوالے سے کوئی تمیز وتفریق نہیں کرسکتا وہ بصد شوق ان میں مصروف ہو جاتا ہے لیکن جو والدین ان اثرات کا ادراک کرسکتے ہیں وہ بھی ایسا کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے یا تو انہیں اس کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی یا وہ اس کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔ مختلف تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بظاہر ان بے ضرر نظر آنے والے کھیلوں اور فلموں سے بچوں کے اندر تشدد کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ جن دینی درسگاہوں کو مغرب کے مفکرین اور دانشور تشدد کے لئے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے طلبا اس بیماری سے محفوظ ہیں یہ پر تشدد مواد مغرب کے کارخانے سے ڈھل کر ساری دنیا میں تباہی و بربادی برپا کر رہا ہے اور آئندہ نسل کے ذہن میں بارود بھر رہا ہے جو کارٹون فلمیں تشدد کو ہوا نہیں دیتیں ان کے بھی دو مضر اثرات ہوتے ہیں ایک تو بچہ جسمانی محنت و مشقت سے محروم کر دیا جاتا نتیجے میں وہ پھول تو جاتا ہے لیکن مضبوط نہیں ہوتا لیکن اس سے بھی بڑا نقصان فکری سطح پر ہوتا ہے یہ مغرب میں بننے والی کارٹون فلمیں اکثر و بیشتر بچوں کو مغربی تہذیب سے مرعوب و مغلوب کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آجکل دیندار اور وضعدار گھروں کے بچوں میں بھی امی، ابو، بھیا، آپا، چاچا، چاچی کے بجائے ڈیڈی، ممی، انکل، آنٹی کی اصطلاحات رائج ہو گئی ہیں جب سے والدین اپنے بچوں سے انگریزی میں بات کرنے کو قابلِ فخر سمجھنے لگے ہیں بچوں نے اپنی مادری زبان اور آبائی تہذیب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف خاصہ مشکل ہوتا ہے اور اس معاملے میں بچے صد فی صد بے قصور ہیں۔
بچے کی نفسیات نہایت سادہ وآسان ہوتی ہے وہ جو سنتا ہے وہ بولتا ہے اور جو دیکھتا ہے سو کرتا ہے۔ بچے کے سامنے بہترین نمونہ اس کے والدین کا اخلاق و کردار ہوتا ہے وہ انکو جیسا کرتا ہو دیکھتا ہے ویسا ہی خود کرتا ہے اس پر والدین کے پند و نصائح کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہوتا لیکن ان کی حرکات و سکنات اس پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتی ہے۔ کسی بچہ کے لئے اس بات کو تسلیم کرنا نہایت دشوار ہے کہ جو بات اس کے والدین کے لئے مفید ہے تو اس کے لئے مضر کیونکر ہے گویا والدین کو پہلے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے بچے کو کیسا انسان بنانا چاہتے ہیں اور پھر خود ویسا بننا پڑے گا باقی کام اپنے آپ ہو جائے گا عام طور پر والدین ایک ایسی ذمہ داری اپنے سر لے لیتے ہیں جو ان کے اختیار میں نہیں ہوتی مثلاً مجھے اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا ہے یا کرنل بنانا ہے وغیرہ اور روپیوں کے زور سے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کارِ دارد ہوتا ہے کئی بار خود بچے کے مزاج سے والدین کی توقعات میل نہیں کھاتیں ایسے میں بچہ جو نہیں کرسکتا وہ کرنے کے لئے اسے مجبور کیا جاتا ہے اور جو کچھ کر سکتا ہے اس سے اسے روک دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جو ان لوگوں کے ذریعہ کیا جاتا جو اس کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ویسے اگر والدین چاہیں تو وہ اپنے بچے کو اچھا انسان بنا سکتے ہیں لیکن بد قستی سے اس اچھائی کو بازار سے خریدا نہیں جا سکتا اس کے لئے ما ں با پ کو خود اچھا بننا پڑتا ہے جو خاصہ مشکل کام ہے۔ دوسروں کو اچھا بنانے کی خواہش جس قدر آسان ہے اپنے آ پ کو صالح بنانا اسی قدر مشکل کام ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جن کے والدین صالح نہیں ہوتے ان کی اولاد لازماً بگڑ جاتی ہے لیکن ایسے بچوں کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اس کے مقابلے اگر والدین خود اپنے آپ کو سدھار لیں تو بچوں کے لئے ایک غیر معمولی آسانی فراہم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں والدین کو اپنے گریبان میں جھانک کر اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اپنے اخلاق و کردار سے اپنی اولاد کو احسن الخالقین بنانا چاہتے ہیں یا اسفل السافلین؟ اس فیصلے میں خودان کا اپنا مفاد بھی پوشیدہ ہے اس لئے کہ یہ فرشتہ صفت پھول اس دنیا کی زندگی میں بھی اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے لئے راحتِ جاں بن جاتے ہیں بصورتِ دیگر ابلیس صفت کانٹے اس دنیا میں بھی چبھتے ہیں اور آخرت میں بھی عذابِ جاریہ کی وجہ بن سکتے ہیں۔
٭٭٭
جرأتِ انحراف
(یعقوب تصور کی کتاب انحراف پر تاثراتی اظہار خیال)
یعقوب تصور کون ہیں ؟ وہ کیسے ہیں ؟بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جیسے بھی ہیں ویسے کیوں ہیں ؟اگر آپ ان پیچیدہ سوالات کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو تصورِ خیال کو زحمت دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آپ توبس یہ کریں کہ یعقوب تصور صاحب کے قطعات کا مجموعہ خریدیں اور اس کا مطالعہ کر لیں ساری تشنگی فی الفور کافور ہو جائے گی۔ میں نے لفظ ’’خریدیں ‘‘ سہواً نہیں بلکہ قصداً استعمال کیا ہے اس لئے کہ اچھی کتابوں کی اشاعت کے لئے نہ صرف اچھے قلمکار کی بلکہ اچھے خریدار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جب سے اردو قاری میں مفت خوری کی بیماری در آئی ہے اچھی کتابوں کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ اردو جیسی زرخیز زمین پر قحط سالی کا جو دور دورہ دکھلائی دیتا ہے اس کا بنیادی سبب اچھے فنکاروں کی کمی نہیں بلکہ پر وقار قاری کی غیر موجودگی ہے جس کا نتیجہ بقول غالب یہ ہے کہ ـ
و ہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دوکان اپنی اٹھا گئے
تصور صاحب کے قطعات کا مجموعہ اس عمومی زبوں حالی سے خوشگوار انحراف ہے۔ اگر یقین نہیں آتا ہو تو یہ قطعہ ملاحظہ فرمائیں :
وفا کی نہج پہ خطرات جب نظر آئے
بہت سے چاہنے والوں نے انحراف کیا
بس اک چراغ شبِ امتحان گل کر کے
ہو اکی لہر نے کیا کیا نہ انکشاف کیا
ان چار مصرعوں میں کس قدر تنوع ہے کہ ابتدا رومانیت کے پیرائے میں ہوتی ہے اور دوسرے مصرعے میں بات انسانی نفسیات کی جانب گھوم جاتی ہے۔ تیسرا مصرعہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا لازوال واقعہ یاد دلاتا ہے جو اپنے اندر حکمت و تواضع کی لاثانی مثال ہے لیکن آخری مصرعہ اس رویہ کو ماضی کے حصار سے نکال کر عمومیت عطا کر دیتا ہے اور ایک ایسی آفاقی حقیقت کی حیثیت سے پیش کر تا ہے جو زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد ہے۔ شاعر ہمیں ابن آدم کے اس رویہ سے روشناس کرواتا ہے کہ جس کا اظہار کل ہوا تھا آج پھر ہوسکتا ہے اور آنے والے کل میں بھی اس کا امکان بدستور موجود رہے گا۔ اس کے انکشاف کی خاطر کسی بڑی آزمائش کے بجائے ہوا کا ایک جھونکا کافی ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک اور قطعہ دیکھتے چلیں یعقوب صاحب فرماتے ہیں ؎
مہر آئے نہ ماہتاب آئے
کاش جگنو ہی وسط خواب آئے
خار آئے جو شاخِ ویراں پر
ہے اشارہ کہ بس گلاب آئے
یہ قطعہ شاعر کے اندرون کا تعارف کرواتا ہے اس کے اندر پائی جانے والی شانِ قلندری جو قناعت کی صفت پیدا کرتی ہے اس کی بدولت وہ مہر و ماہ کی توقع نہیں کرتا بلکہ جگنو پر اکتفا کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اور پھر اگر حقیقی جگنو سے بھی محروم رہ جائے تب بھی مجازی جگنو کا خواب سجاتا ہے اس کے باوجود رجائیت کا یہ عالم کہ وہ پھول کے بجائے خار کے نمودار ہونے پر بھی کسی قسم کے حزن و ملال کا شکار نہیں ہوتا بلکہ پر امید ہو جاتا ہے کہ یہ کانٹا درحقیقت گلاب کے پھول کی آمدکاشاخسانہ ہے۔ میرے خیال میں یہ قطعہ یعقوب تصور کی معرفتِ ذات کا نمائندہ ہے جس میں حسن و جمال کے ساتھ ساتھ نیرنگیِ خیال کی خوشبو اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ اسے پڑھ کر قاری کی طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے۔
معرفتِ ذات کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جس طرح چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح کا معاملہ انسان کا بھی ہے کہ وہ اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے خارج کا جہاں تسخیر کرتا رہتا اپنے پرائے سبھی سے دست و گریباں ہوتا ہے لیکن اپنے آپ سے دو بدو نہیں ہوتا۔ زندگی بھر خواہشوں کے ہجوم میں کچھ ایسا کھویا رہتا ہے کہ اسے خود اپنی ذات کے لئے فرصت ہی نہیں ملتی؎
زندگی کا یہ گھماؤ پھیر اپنے آپ سے
لگ گیا ہے خواہشوں کا ڈھیر اپنے آپ سے
بس یہی حسرت کبھی اتنی تو تنہائی ملے
گفتگو کر لوں ذ را سی دیر ا پنے آپ سے
ظاہر بینی کا گناہ بے لذت ناظر کو دوسروں کے متعلق کبھی غلط فہمی تو کبھی خوش فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ویسے اگر غیروں کے بارے میں انسان حقیقت تک پہنچ بھی جائے تب بھی چونکہ ان پراس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اس لئے اس کی ساری سعی و جدوجہد تعلیم و تلقین کے دائرے میں محصور ہوتی ہے۔ اس باب میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سوائے اپنی ذات کے کسی اور کے لئے جوابدہ نہیں ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ حضرتِ انسان ان کی فکر زیادہ کرتا ہے جن کے بارے میں وہ مسؤل نہیں ہے اور خود اپنے آپ سے غافل رہتا ہے جس پر اسے اختیار عمل حاصل ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری ہر حرکت میزانِ عمل میں رکھی جانی ہے اور نہ صرف عبادات بلکہ معاملات کی بھی باز پرس ہونی ہے اس باب میں یعقوب تصور کی تذکیر ملاحظہ فرمائیں ؎
ہر تخیل کو عمل بھی چاہئے
قصر بردوش ہوا بنتا نہیں
بندگی کی ہیں شرائط اور بھی
صرف سجدوں سے خدا ملتا نہیں
انسان اگر دنیا کی رنگ رلیوں میں کھو جائے اور خدا کی معرفت کو گنوا بیٹھے تو اس کے نتیجے میں خود فراموشی کے تاریک سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔ گمراہی کے اس بحر ظلمات میں اسے خدا کے بجائے بندوں کا خوف ستانے لگتا ہے ؎
یوں اندھیرے ہوئے جزوِ حیات
ہر بشر روشنی سے ڈرتا ہے
اب خدا سے نہ کوئی کھائے خوف
آدمی آدمی سے ڈرتا ہے
فرد بشر ایسا کیوں کرتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا اسے کرب خود آگاہی سے دوچار کر دیتا ہے۔ اوروں کی عیب جوئی انسان کے لئے جس قدر خوش کن مشغلہ ہے اپنی خود احتسابی و عیب شناسی اسی قدر تکلیف دہ تجربہ ہے اس لئے انسان اپنے من کی آنکھیں موند لیتا ہے اور مادی تشنگی کے تعاقب میں خوابوں کے سراب کا پیچھا کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ بے حسی اسے کس عذاب میں گرفتار کر دیتی ہے اس کا نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیں ؎
بے حسی کا عذاب دیکھے جا
بے عمل صرف خواب دیکھے جا
ریت میں فصل تشنگی کی اگا
پھل کی صورت سراب دیکھے جا
اعتراف ذات بجائے خود ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن اظہار ذات کی منزل مشکل ترہے۔ جہاں لوگ دوسروں کے بارے میں سچ بولنے سے کتراتے ہوں وہاں خود اپنے بارے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دینا جوئے شیر لانے سے آسان نہیں ہوتا اس کے لئے فنکار کو فرہاد کا تیشہ درکار ہوتا ہے اپنے آپ کو بغیر کسی بناؤ سنگھار کے اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دینا اکثر لوگوں کے لئے خاصہ مشکل ہوتا ہے لیکن یعقوب تصور کا معاملہ ان سے بر عکس ہے ؎
دل جو روتا ہو تو چہرے پر سجالوں خوشیاں
درد سینے میں نہ ہو آنکھ میں آنسو پالوں
میں ممثل تو نہیں ہوں کہ بہ رنگ تمثیل
اپنا کردار کہانی کے مطابق ڈھالوں
انسان چونکہ سماجی مخلوق ہے وہ اپنے خارج سے کسی صورت منقطع نہیں ہوسکتا۔ ہر فرد کے ساتھ پیش آنے والے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً ہر کسی کو غریب الوطنی کا درد نہیں سہنا پڑتا ویسے یہ اس خود ساختہ مصیبت میں انسان اپنے آپ کو برضا و رغبت مبتلا کر لیتا ہے بظاہر کوئی زور زبردستی نہیں ہوتی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو اس پر کیوں آمادہ کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب وہ نہیں دے سکتے جو وطن سے دوری کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتے بلکہ یعقوب تصور جیسے لوگ ہی دے سکتے ہیں جواس امتحان سخت جاں سے گذر چکے ہوتے ہیں ؎
ہوا کے دوش پہ آئے شجر کو چھوڑ دیا
فضائے غیر میں آئے نگر کو چھوڑ دیا
تلاش رزق و سکوں، امن کی ضرورت نے
کیا کچھ ایسا پریشان گھر کو چھوڑ دیا
عام طور پر لوگ کن توقعات کے ساتھ یہاں آتے ہیں اور پھراس صعوبت میں عمر عزیز کھپا دینے کے بعد کیا پاتے ہیں اس کا بھی نہایت خوبصورت بیان ملاحظہ فرمائیں ؎
تلاش رزق کے ارماں نکالتے گذری
حیات ریت کے سکے ہی ڈھالتے گذری
مسافرت کی صعوبت میں عمر بیت گئی
بچی تو پاؤں سے کانٹے نکالتی گذری
یہ تو اس فرد کا حال ہے جو صحرا نشینی کو اپنا مقدر بنا لیتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ مساعی بالکل ہی رائیگاں جاتی ہوں ؎
لمحہ لمحہ صرف فن تدبیر کیا
سامان تزئین رخ تدبیر کیا
صحراؤ ں میں عمر ہماری ریت ہوئی
گھر والوں نے تاج محل تعمیر کیا
یعقوب تصور جیسارجائیت پسند شاعراس صورتحال پر ملول و غمگین نہیں ہوتا بلکہ وہ مشیت ایزدی کی اس کارفرمائی پر راضی بہ رضا نظر آتا ہے اور کہتا ہے ؎
نصیب گردش ماہ منیر رکھتے ہیں
دلوں میں ہجر کے پیوست تیر رکھتے ہیں
ہم اس کئے ہوئے صحرا کی وسعتوں کے اسیر
ہتھیلیوں پہ سفر کی لکیر رکھتے ہیں
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ مختلف لوگ جو یکساں حالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں یکساں اثرات قبول نہیں کرتے ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو مختلف افراد ایک ہی صورتحال سے متضاد نتائج اخذ کریں حالات و واقعات کے پسِ پردہ مختلف وجوہات و اسباب کا گمان کرنے لگیں۔ ایسا ہونا عین قرینِ قیاس ہے اور اس کی وجہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے علیٰحدہ طرز فکر ہوتا ہے جو انہیں منفرد طرز زندگی سے ہمکنار کرتا ہے۔ زندگی کی معرفت اور اس سے منسلک آزمائش کا بیان انحراف میں یوں ہوتا ہے کہ ؎
اس نے تو زندگی کا یہ معیار رکھ دیا
روشن دیا کیا سرِ دیوار رکھ دیا
بازی گہِ جہاں میں کی روشن شمعِ حیات
پھر سر پھری ہوا کا بھی کردار رکھ دیا
ہجرتِ مکانی کو لوگ اپنی ذات اور اپنے حالات کے آئینے میں دیکھتے ہیں لیکن یعقوب تصور اسے وسعت دے کر ایک ازلی واقعہ سے جوڑ دیتے ہیں جو ان کی وسعت فکر کی غمازی کرتا ہے ؎
عرش سے فرش زمین تک کا سفر
عین فطرت تھا فسانہ بن گیا
اپنی منزل تو تصور تھی یہی
دانۂ گندم بہانہ بن گیا
ہجرت اور اس کا فلسفہ جب تصور خیال سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے تو اپنی مانوس دھرتی سے دور کسی اجنبی دیس میں آن بسنے والا اولاً کیسا محسوس کرتا ہے اس کی منظر نگاری بھی دیکھیں۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے وہ تمام لوگ گذر چکے ہیں جنھوں نے ہجرت مکانی کی ہے لیکن کسی شئے کومحسوس کرنا اور بات ہے اور مگر اسے حسن و خوبی کے ساتھ بیان کر دینا جہانِ دیگر ہے ؎
چہرہ چہرہ بھانپ رہے ہیں
خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں
اس جنگل میں آن بسے ہیں
جس میں صدیوں سانپ رہے ہیں
کسی نئے ملک میں آنے کے بعد انسان سب سے پہلے وہاں کے آداب و اطوار سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ امن و سکون سے دن کاٹ سکے اور اس کوشش میں جو انکشافات اسے ہوتے ہیں سو یوں ہیں ؎
الفاظ کو جذبات کا غماز نہ کرنا
اس شہر کا دستور ہے آواز نہ کرنا
جسکی نہ کوئی قدر ہو بازار طلب میں
سکہ کوئی بھی ایسا پس انداز نہ کرنا
ایک عام آدمی کے لئے تو یہ ممکن ہے کہ وہ حالات سے مصالحت کر کے خودساختہ طور پر اپنے آپ کو دستورِ زباں بندی پر راضی کر لے اور ان قصیدہ خوانوں کی بھیڑ میں شامل ہو جائے جن پر یہ قطعہ صادق آ تا ہے کہ ؎
ہمہ تن گوش ہیں یہاں کے لوگ
پھر بھی خاموش ہیں یہاں کے لوگ
گوش و چشم و زباں تو رکھتے ہیں
مصلحت کوش ہیں یہاں کے لوگ
شہرِ غریباں میں پائے جانے والے مصنوعی امن و امان کا قصیدہ پڑھنے والے مصلحت پسندوں سے یعقوب تصور کیا خوب سوال کرتے ہیں بلکہ سوال بھی ایسا کہ جس میں جواب پنہاں ہو ؎
چمن میں اپنی خوشی کا سماں رہے کیسے
حنوط ہوں جو پرندے تو چہچہے کیسے
نظام امن ہے ہر سمت کار فرما اگر
تو ہر درخت سے لپٹے ہیں اژدہے کیسے
اس قطعہ کو کہنے کے لئے ضروری تھا کہ یعقوب صاحب ابو ظبی آتے اس لئے کہ پاکستان میں رہ کر اس کا تصور محال تھا۔ یہ اژدہے اتنی دور تو کیا اپنے آس پاس بھی دکھلائی نہیں دیتے لیکن ہاں ان کی سرسراہٹ ہر کوئی محسوس کرتا ہے۔ اس احساس خوف نے شہر کی فضا میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دی ہے ؎
محبت ہی کسی رخ پر نہ بیزاری نظر آئے
عجب اک کیفیت انسان پر طاری نظر آئے
محض احکام کی تعمیل بے رد و قدح ہر دم
یہ سارا شہر ہی جذبات سے عاری نظر آئے
اس شہر میں رہنے والے سبھی حضرات کو ان حالات سے سبھی کو سابقہ پیش آتا ہے لیکن کم لوگ ہوتے ہیں جو اس پر لب کشائی کی ہمت اپنے اندر پاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان حقائق کا پردہ فاش کرنے والوں کو اس کے ساتھ وابستہ خطرات کاسامنا کرنے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے ؎
یہ مانا جھوٹ سے بے زار بھی ہے
صداقت کا اسے اقرار بھی ہے
اگر وہ آئینہ بردار بھی ہے
تو کیا مرنے کو وہ تیار بھی ہے
حق گوئی کی جرأت رندانہ شاعر کے اندر کردار کی یہ خوبی بھی پیدا کرتی ہے کہ بلا خوف خطر اپنے انجام کی پرواہ کئے بغیر سچ بولتا چلا جاتا ہے۔ کسی کا جاہ و جلال اس کی آئینہ برداری کو مرعوب نہیں کر پاتا؎
جرأت کا تقاضہ ہے یہ کردار کی خوبی
اظہارِ صداقت میں نہ خاموش رہا جائے
پتھر نہ کہا جائے زر و سیم و گہر کو
خشت و خس و خاشاک کو سونا نہ کہا جائے
حق کے لئے سر کٹانے سے پس و پیش نہ کرنا بلکہ اسے اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھنا یعقوب تصور کواپنے ہم عصروں کے درمیان فائق و ممتاز کر دیتا ہے ؎
حق و صفا کبھی باطل میں ضم نہیں کرتے
شکست و صدق کے ساماں بہم نہیں کرتے
ہمارا سلسلہ کرب و بلا سے ملتا ہے
سوہم سروں کو کٹاتے ہیں خم نہیں کرتے
وطن عزیز سے دوری کے باوجود یعقوب تصور اپنی دھرتی سے قریب نظر آتا ہے۔ اپنی مٹی سے فاصلے بڑھ بھی جائیں تب بھی اس کی خوشبو انسان کے آس پاس رچی بسی رہتی ہے۔ وہ اپنے ملک کے حالات سے بے بہرہ نہیں ہو پاتا اسی لئے کہتا ہے ؎
جیسے ہی باہر گیا گھبرا کے اندر آگیا
خوف کا طوفان کیسا یہ نگر میں آگیا
سمجھو اس کو مل گئی اک اور دن کی زندگی
جو پرندہ شام سے پہلے شجر میں آگیا
مندرجہ بالا قطعہ میں جس بے یقینی کا اظہار کیا گیا ہے اس کا احساس کراچی میں نہایت سہل ہے لیکن یعقوب تصور اسے بڑی آسانی سے ابوظبی کے اندر محسوس کرتے ہیں۔ ملک و ملت کی اس دگرگوں حالت کے اسباب اگر آپ یعقوب تصور سے جاننا چاہتے ہیں تو سنئے ؎
طے مسافت زیست کی کرنا کڑی اک شرط ہے
حاصلِ منزل سفر تو ہے، سفر کیسے کریں
رہبروں میں راستے کے علم کا فقدان ہے
رہزنوں کو کارواں کا راہبر کیسے کریں
یعقوب صاحب جیسے لوگوں نے تو راہبر اور راہزن میں فرق کر کے اپنے آپ کو باز رکھا لیکن بھولے بھالے عوام اپنے تئیں یہ تفریق نہیں کر پاتے اور تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں ایسے میں ذرائع ابلاغ مونس و غمخوار بن کر آگے آتے ہیں اور جورو استبداد کو اس قدر خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں کہ عوام و خواص دونوں اس طوقِ سلاسل کو اپنے گلے کا ہار سمجھنے لگتے ہیں ؎
خبر ہوتی نہیں ہر گز کسی کو
یہ استبداد کا انداز کیا ہے
وہی جانے جو اس محشر سے گزرے
شکستِ قلب کی آواز کیا ہے
ملک وقوم کی رہنمائی اگر رہزنوں کے ہا تھ آ جائے اور اگر یہ سلسلہ طویل ہو جائے تو اک گونہ بے حسی چہار جانب چھا جاتی ہے اور عوام مظالم کے اس قدر خوگر ہو جاتے ہیں کہ سماج سے ظالم و مظلوم کی تمیز مٹ جاتی ہے اور شاعر کو یہ کہنا پڑتا ہے ؎
اب یہ معاشرہ کسی قابل نہیں رہا
منصف نہیں رہا کوئی عادل نہیں رہا
جو ظلم سہ رہا ہے وہ مظلوم اب نہیں
جو قتل کر رہا ہے وہ قاتل نہیں رہا
اس سنگین صورتحال کے باوجود انحراف کے قطعات میں نہ ہی خوف اور نہ مایوسی نظر آتی ہے بلکہ اس کے برعکس امید اور حوصلہ کا ٹھاٹیں مارتا ہو سمندر موجزن دکھلائی دیتا ہے۔ اس لئے شاعر شکوہ شکایت کے چکر میں نہیں پڑتا۔ اس کے پاس غم دنیا کا ماتم کرنے کے لئے فرصت نہیں پائی جاتی بلکہ وہ اپنے قاری کو فطرت کے مظاہر کی عکاسی کر کے روشن مستقبل کا یقین دلاتا ہے ؎
آ کے ہر صبح یہ دیتا ہے دلاسے سورج
ہے اندھیروں کے تعاقب میں سدا سے سورج
روشنی ہو گی ہر اک سمت یقیں ہے لیکن
سر نکالے ذرا بادل کی ردا سے سورج
یہی مثبت سوچ اور رجائیت پسندی انحراف کی روح ہے جسے الفاظ کے نہایت خوشنما پیراہن میں یعقوب تصور صاحب نے پیش فرمایا ہے۔ یہ ان کا اپنا حصہ بلکہ خاصہ ہے۔ میں امید کے ان روشن چراغوں کو سلام کرتا ہوں جو شریر ہوا کے جھونکوں سے بر سرِ پیکار ہوتے ہیں اور جب ہوا ان کی جانب ہاتھ بڑھاتی ہے تو روشنی تیز تر ہو جاتی ہے ؎
آئینہ بر سر حیات رکھا
عکس مخفی درونِ ذات رکھا
روشنی اور بڑھ گئی اس کی
جب ہوا نے دئے پہ ہاتھ رکھا
ہم دعا کرتے ہیں کہ ان چراغوں کی روشنی سے ظلمات کے اندھیرے دور ہوں نیز دربدر کی ٹھوکر کھانے والے انسانی قافلے کو اس کے ذریعہ راہِ ہدایت کاسراغ ملے۔ یعقوب تصور صاحب جس طرح اپنے آپ سے پر امید ہیں اسی طرح ہم بھی ان سے مستقبل میں اسی طرح کے بہترین امکانات کی توقع رکھتے ہیں ؎
مصائب جھیلنے سے میں نہیں ڈرتا محبت میں
جوان عزم مصمم ہے بدن میں جان باقی ہے
بہت کچھ کر چکا ہوں میں تصور زندگانی میں
بہت کچھ کر گزرنے کا ابھی امکان باقی ہے
٭٭٭
احسانِ غزل اصل میں عرفانِ غزل ہے
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی معرفت، روما نیت اور علامت کی منفرد آواز ہے اگر یقین نہ آتا ہو تو ان کی نئی کتاب ’’ترا احسان غزل ہے ‘‘ دیکھیں۔ عرفان اگر اعلیٰ و ارفع نہ ہو تو وہ معرفت کہلانے کا حقدار نہیں ہوتا اور اگر رومانیت سے لطافت نکل جائے تو وہ مختلف قسم کی کثافتوں سے آلودہ ہو جاتی ہے۔ علامت و تمثیل کا مقصد ہی سہل نگاری ہے اگر وہ افہام کے بجائے ابہام کا سبب بن جائے تو اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔ عاصم واسطی کی شاعری میں ان تینوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ کسی ایک تحریر میں تینوں اوصاف کا احاطہ طوالت کا باعث ہو جائے گا اس لئے اس بار میں اپنے موضوع کو معرفت کے دائرے میں محدود رکھوں گا۔ اپنی بات کے آغاز کے لئے میں نے اس غزل کا انتخاب کیا جسکو عاصم صاحب نے کتاب کے اختتام پر رکھا، یہ غزل بھی ہے اور دعا بھی ہے۔ حسنِ ترتیب کا تقاضہ ہے کہ ابتداء حمد سے ہو اور اس کے بعد نعتیہ اشعار ہوں [عاصم بھائی کے لئے حمد و نعت بھی غزل کے پیراہن میں الہام ہوتی ہے ] لیکن خاتمہ بہر حال دعا پر ہو کہ اس میں شکر و طلب دونوں موجود ہوتا ہے۔ دعا کون نہیں کرتا ؟ لیکن سبھی کی دعا یکساں نہیں ہوتی اور اس فرق کی وجہ طالب و مطلوب کے درمیان پایا جانے والا تعلق ہے دراصل یہی تعلق معرفت کی سنگِ بنیاد ہے عاصم کا اپنے رب سے تعلق ملاحظہ فرمائیں۔
بے ارادہ بھی کوئی حرفِ دعا یاد آ جائے
کوئی تکلیف نہ ہو اور خدا یا د آ جائے
اردو غزل کا دامن غمِ جاناں کے پہلو بہ پہلو غمِ دوراں سے تار تار ہے لیکن اس نیرنگی کے باوجود محبوب کے خانے میں مجازی بت کے علاوہ کسی اور کا گذر شاذونادر ہی ہوتا ہے حالانکہ جب تک عشق مجازی کی جگہ عشقِ حقیقی مزیّن نہ ہو حسن کی احسان کے مقامِ بلند و بالا تک رسائی ممکن نہیں ہے اس مرحلہ میں شاعر خالقِ نطق و بیان کے احسانات کا اعتراف کرتے ہوئے شکر و نیاز مندی سے جھک جاتا ہے اس کی نگاہِ بلند اپنے معبود کی حقانیت و رحمانیت کی جانب سے جب پلٹ کر واپس آتی ہے تو اسے اپنے گریبان کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا وہ اس میں جھانک کر دیکھتا ہے اور اپنے گناہوں پر کچھ اسطرح شرمسار ہوتا ہے۔
یوں بھی ہو، یوں ہی خیال آئے کہ رحمٰن ہے تو
اور پھر کوئی گنہ کوئی خطا یاد آ جائے
عاصم واسطی کی شاید ہی کوئی غزل ایسی ہو کہ جس میں وہ خدا سے یکسر غافل ہو، کسی نہ کسی بہانے، بلواسطہ یا بلا واسطہ اپنے رب کو یاد نہ کرے اور جس میں ربِّ ذوالجلال کی تعریف و توصیف بیان نہ ہو لیکن عاصم کی غزلوں میں جہاں ایک طرف خدا کی ذاتِ والا صفات موجود و مشہود ہے وہیں کسی نہ کسی کونے اس کا معصوم سا یہ بندہ بھی حاضر و شاہد ہے۔ نہ تنہا خدا ہے اور نہ بندہ تنہا ہے یہی غزل کا امتیاز ہے جس میں عاشق و معشوق دور ہوں یا پاس ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ بلندی افکار کے ساتھ اندازِ بیان اور لب و لہجہ نے عاصم واسطی کی غزلوں کے حسن کو احسان کے درجہ پر فائز کر دیا ہے عاصم کی شاعری میں محبوب کی جگہ معبود کا وجود بہت نمایاں ہے تقریباً ہر غزل میں ذکر الٰہی کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شخص ہمیشہ اپنے رب کی معیت میں رہتا ہے اسے یاد کرتا ہے اسے یاد رکھتا اور انتظارِ دید سے محظوظ ہوتا رہتا ہے اگر یہ کیفیت نہ ہو تو ممکن نہیں کہ یہ شعر ہو جائے ؎
بتا کتنے برس کا فاصلہ ہے ؟
مری آنکھوں سے تیری روشنی تک
آگے چل کر عاصم واسطی کی خود کلامی ملاحظہ فرمائیں کہتے ہیں ’’ تیرے ہر اک گمان سے ہے ما ورا خدا‘‘ لیکن اک حدیثِ قدسی میں یہ بھی ہے کہ ’’میں اپنے بندے کے گمان و خیال کے ساتھ ہوں۔ جیسا بھی وہ میرے ساتھ گمان رکھے ‘‘ عاصم چونکہ ہر ہر موقع پر خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اس لئے موقع اور محل کے لحا ظ سے اللہ تعالیٰ کے متعلق نت نئے گمان نت نیا خیال کلامِ سخن میں جھلکتا رہتا ہے۔ خدائے واحد کے یہ دھنک رنگ خیال ایسے منفرد اور انوکھے کہ بس خدا جیسے۔ ان کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن چھو کے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ رعنائی خیال کی ندرت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ایسا لگتا ہے گویا ہر ہر لمحہ عاشق اپنے محبوبِ حقیقی کے ساتھ ہے ان دونوں کے درمیان فاصلے کی چلمن اٹھ چکی ہے قربت کا اندازہ لگانے کے لئے اس شعر میں ’’تھپک تھپک ‘‘کے اندر پائی جانے والی محبت و شفقت پر توجہ دیں ؎
ہر اک تڑپ کو سلایا تھپک تھپک اس نے
ہر اضطراب کے اندر قرار اس کا ہے
احسانِ غزل کی اس حمدیہ غزل میں تڑپ و اضطراب کے شانہ بشانہ قرار بھی ہے بندے کا اضطراب اور آقا کا قرار جب یکجا ہوتے ہیں توایسا شعر اپنے آپ ہو جاتا ہے۔ حدیث کا اگلا حصہ یوں ہے کہ ‘‘میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے ‘‘۔ انسان اگر اس سعادت کا اندازہ کر لے کہ وہ کس کے ساتھ ہوتا جب وہ اسے یاد کرتا ہے تو پھر وہ ہر کسی کی یاد اور ساتھ سے بے نیاز ہو جائے وہ اس دنیائے فانی میں سودوزیاں کے جھگڑے سے آزاد ہو جائے جیسا کہ عاصم کہتا ہے ؎
ہے آسماں کے خزانوں پہ اب نظر میری
زمین کا تو بہت مال و زر سمیٹ لیا
حدیث آگے بڑھتی ہے ’’جب وہ مجھے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے آپ میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی اجتماع یا محفل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں بھی اس کا ذکر ایک ایسی جماعت میں کرتا ہوں جو اس سے بہتر ہے۔ ‘‘ اس حدیثِ پاک کی روشنی میں جب میں سوچتا ہوں کہ اگر کسی انسان پر ’’الہام کے مالک کا احسان غزل ‘‘ہو اور وہ شخص اعترافِ نعمت سے سر بسجود ہو شکر کے جذبات سے سرشار اپنے اشعار میں رحمان و رحیم کا ذکر تنہائی میں اور محفلوں میں یوں کرتا ہو کہ؎
کسی کو اٹھ کے یہاں سے کہیں نہیں جانا
سجی ہے بزم کہ موضوعِ گفتگو تو ہے
تو ربِّ کریم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا وہ یقیناً اسے یاد کرے گا، لیکن کیسے ؟ اس کا گمان ہم نہیں کر سکتے لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ صدقِ دل سے اشعار کے پیرائے میں اپنے رب کو یاد کرنے والے کو اس کا رب بھی اشعار میں یاد کرتا ہو گا اور جب عاصم ہماری محفل میں مالک الملک کو یاد کرتے ہیں تو ربِّ ذوالجلال بھی بہتر ین محفلوں میں ان کا ذکر اچھے اچھے اشعار میں کرتا ہو گا کاش کے ایسی کسی محفل میں شریک ہونے کا موقع خالقِ کائنات ہمیں بھی عطا فرمائے۔ ۔ آمین
مندرجہ بالا شعر میں ’’تو‘‘ کے حوالے سے اگر کسی کے ذہن میں کوئی خلجان ہو تو وہ غزل کا مطلع دیکھ کر اطمینان کر لے ؎
کہاں تلاش میں جاوں کہ جستجو تو ہے
کہیں نہیں ہے، یہاں اور چار سو تو ہے
جو لوگ عاصم واسطی کو نہیں جانتے وہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کسی صوفی سنت کا ذکر ہو رہا ہے جو کسی جنگل بیابان میں دھنی رمائے ہوئے ہے جی نہیں وہ بھی ہمارے آپ کی طرح ہنسنے بولنے والا ایک عام سا آدمی ہے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کی مصداق وہ دنیا کے اندر ضرور رہتا ہے دنیا اس کے اندر نہیں رہتی اس لئے کہ یہ پانی جس جہاز میں داخل ہو جاتا ہے اسے لے ڈوبتا ہے لیکن بہر حال کشتی کا مقصدِ وجود پانی میں تیرنا ہے اسی لئے تمام تر خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عاصم پانی میں قدم رکھتے ہوے کہتے ہیں ؎
جابر مچھلی، تند بھنور، سفاک مگر مچھ، گہرائی
سب معلوم تھا پھر بھی ہم نے پاوں رکھا ہے پانی میں
حیاتِ دنیا اس طرح کی آزمائشوں میں گھری ہوئی ہے کہ جب دنیا کا ادنیٰ پانی دل کے نہاں خانے میں داخل ہو جاتا ہے تو اعلیٰ و ارفع لا شریک کی یاد وہاں سے نکل جا تی ہے فرمانِ رسولِ اکرم صلی ا للہ علیہ وسلّم کے مطابق ایسا دل کسی کھنڈر کی مانند ہو جاتا ہے اور سمندر کی تہہ میں اترنا اس تاریک و ویران جہاز کے لئے مقدر کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں کشتیِ دل کے لئے حفظ و امان کا سب سے مضبوط حصار یادِ الٰہی ہے اسی لئے عاصم کہتا ہے ؎
اسی کے ہاتھ ہے ساری حفاظتوں کا نظام
کسی بھی ا ور کو ا پنا حصار مت کرنا
انسان اس قدر ظاہر بین اور خود سر واقع ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں سے جن چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا ان کے وجود کا انکار کر دیتا ہے حالانکہ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ جن چیزوں کو ہم دیکھتے ہیں ان سے کہیں زیادہ ایسی چیزیں ہمارے آس پاس موجود تو ہوتی ہیں مگر ہماری نگاہ سے اوجھل ہوتی ہیں ڈاکٹر حضرات آلات کی مدد سے چند پوشیدہ اشیاء کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن آلات کی بھی اپنی محدودیت ہے، شاعر اپنے چشمِ تصور سے ظاہر کا پردہ اٹھا کر باطن کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اگرچہ کے اس کے پاس روشن دل ہو۔ ڈاکٹر روح پر پڑی جسم کی چادر کو دیکھتے ہیں اور شاعر روح میں لپٹے ہوئے جسم کا مشاہدہ کرتا ہے انسان پر یہ حقیقت اس وقت بھی نہیں کھلتی جب موت کی آندھی اس روحانی چادر کو اڑا لے جاتی ہے اور ہیرے موتی کی طرح چمکنے والی روشن آنکھیں چشمِ زدن میں پتھرا جاتی ہیں۔ غیر محسوس روحانی قبا کا ادراک ڈاکٹر عاصم واسطی کے اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎
اوڑھ لیتا ہے بدن روح کی چادر عا صم
اور ہوتی ہے مرے تن پہ قبا رات کے وقت
خدا ہر وقت ہر جگہ موجود تو ہوتا ہے محسوس نہیں ہوتا معرفت کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ انسان ہر وقت خدائے بر حق کو اپنے ہمراہ محسوس کرے ہر دکھ سکھ میں اس کی آہٹ کو سنے کچھ مل جانے پر یا کھو جانے کی صورت میں اس کو اپنے آس پاس پائے بظاہر یہ سب مشکل نظر آتا ہے لیکن جو شخص ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہو جس کا دل زندہ ہو ضمیر روشن ہو اس کے لئے تاریکیوں کے سارے بادل چھٹ جاتے ہیں اور وہ اعتماد کے ساتھ کہتا ہے ؎
اس قدر اپنے خدا پر ہے بھروسہ مجھ کو
جب ضرورت کوئی ہو گی وہ مدد کر دے گا
مادیت کا شکار ذہن معرفت کو اپنی ضرورت نہیں سمجھتا حالانکہ انسان کی سب پہلی ضرورت اور سب سے بڑی سعادت، معرفت ہی ہے اس اولین ضرورت کو بھی وہی مہیا کرتا ہے جو انسان کی ساری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اس لئے عاصم اس ضرورت کے لئے بھی یکسو ہو کراسی کی جانب رجوع کرتے ہیں ؎
وہ جو کرے سو کرے اختیار اس کا ہے
مری تو نوکری ہے کاروبار اس کا ہے
شاعری بھی انسان کی طرح جسم و روح کا مرکب ہے شاعری کا جسم حسنِ بیان ہے اور روح حسنِ خیال ہے اگر بیان میں غنائیت و رعنائی موجود نہ ہو تو اشعار بد صورت ہو جاتے ہیں اور اگر خیال سے نزاکت و گہرائی ندارد ہو جائے تو شعر بے جان ہو جاتا ہے جسمانی اعضاء کی طرح الفاظ کا توازن شعر کا حسن ہے اور روح کی مانند خیال کی گہرائی و گیرائی اشعار کا عروج ہے اچھا شعر ان دو پہلوؤں کے درمیان ایک حسین امتزاج و توازن سے جنم لیتا ہے مثلاً ؎
دل اور مرے خون کا دوران غزل ہے
ہر سانس توازن ہے کہ میزان غزل ہے
شعر و شاعری کے بازارِ حسن میں لب و رخسار کا چرچا تو خوب پایا جاتا ہے لیکن فکروخیال کی جدّت وندرت کم ہی دکھا ئی دیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مالک کون و مکاں نے اس کائناتِ ہستی کو حضرتِ انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے اس لئے جب کوئی فنکار اپنے افکارو ادراک کی پرواز کو کائنات کے حصار میں محدود کر لیتا ہے تو لازماً تنگیِ دامانی کے کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے بقول عاصم؎
پھیلاؤ ہوا ہے مرے ادراک سے پیدا
وسعت مرے اندر ہے سمندر میں نہیں ہے
وسعتِ فکر تو لامحدود جستجو کا تقاضہ کرتی ہے جو انسان کی حدِ پرواز سے پرے ہو اور جسکی خاطر فنکار بلند سے بلند تر منزلوں کوسر کرتا چلا جائے اس کے ارتقاء کا سفر کبھی بھی ختم نہ ہواوراس کے تکمیل فن کی پیاس سے کبھی بھی نہ بجھے اس حقیقت کا اعتراف اس شعر میں دیکھیں ؎
صدیوں سے ہو رہا ہے مرا ارتقاء مگر
اپنی نظر میں اب بھی مکمل نہیں ہوں میں
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے نامکمل ہونے پر عاصم نہ پریشان ہے اور نہ پشیمان بلکہ وہ اس کیفیت کو اپنے لئے غنیمت جانتا ہے اور کہتا ہے ؎
جستجو، شوق، لگن، مشق، تجسس، محنت
مجھ میں کچھ بھی نہ رہے گا مری تکمیل کے بعد
بفضلِ تعالیٰ ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی بڑے زور و شور کیساتھ اپنی ذات و فن کی تکمیل کی جانب رواں دواں ہیں زور تو اشعار کے اندر ہے اور شور ہے سو باہر سنائی دیتا ہے وہ اپنی انتہاؤں سے بے نیاز نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ محوِ سفر ہیں اس کے لئے انہوں نے برضا و رغبت اپنی سواری کی باگیں کسی اور کے حوالے کر رکھی ہیں اور اپنے اس فیصلے پر نازاں و فرحاں، مالک و پروردگار پر کامل توکل کا اظہار کرتے ہوے وہ چلے جا رہے ہیں۔ عاصم بھائی کے پہلے شعر میں اقبال کا رنگ تھا اور اولین مجموعہ میں فیض کا آہنگ دوسرا مجموعہ جسے میں دیکھ نہ سکا ہوسکتا ہے فراز کا سا ہو لیکن یہ تیسری کتاب یقیناً خالصتاً عاصم واسطی کی اپنی انفرادیت کی حامل ہے اسے پڑھتے ہوئے کسی شاعر کا خیال نہیں آتا ‘‘ترا احسان غزل ‘‘میں صرف اور صرف عاصم واسطی کی چھاپ ہے ایک ایسی منفرد پہچان کہ نہ وہ کسی کے جیسے اور نہ کوئی ان جیسا خود ان کے اپنے الفاظ میں ؎
ویسے تو کئی اور تعارف بھی ہیں عاصم
ہر بزمِ سخن میں مری پہچان غزل ہے
٭٭٭
تشکر: مصنف جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
بہت پسند آیا ۔ ۔ کُچھ تصو کے بارے میں ۔ ۔
محترم اعجاز عبید صاحب
السلام علیکم و رحمت اللہ
آپ نے کتاب کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے اس کی افادیت میں اضافہ فرما دیا ہے۔
اس پرخلوص سعی کیلئے میں آپ کا تہہ دل سے شکرگذار ہوں ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم سے نوازے۔
خیراندیش
سلیم