FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

سفیران محمدی

               شیخ فضل الرحمن

دیار کفر میں اسلام کی پہلی سفارت کاری کے سعادتمند

سنہ ۶ ہجری میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار کی تخریبی کاروائیوں سے کچھ سکون ملا تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے تبلیغ اسلام کے لیے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف بادشاہوں اور رؤسا کی طرف اپنے سفیروں کو خطوط دے کر بھیجا۔  ان سفیروں نے بلاد کفر میں اسلام کی تبلیغ وسفارت کا بخوبی حق ادا کیا۔  ان پاکباز ہستیوں نے انتہائی نا ساعد حالات میں بھی اعلائے کلمۃ اللہ کے علم کو بلند رکھا۔

انہی مقدس شخصیات کے بارہ میں مختصر اور مستند معلومات ہدیہ قارئین کی جا رہی ہیں،  (ادارہ)

 

سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

عمرو بن عاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن شہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوئی القرشی السہمی

کنیت : ابو عبد اللہ

یہ جلیل القدر صحابی فتح مکہ سے پہلے آٹھ سن ہجری میں مشرف باسلام ہوئے ان کا شمار عرب کے بہادر اور جرأت مند لوگوں میں ہوتا تھا جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی بہادری سے متاثر ہو  کر انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

ان کے اسلام لانے کا واقعہ الاستیعاب کے مصنف نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ حبشہ میں بادشاہ نجاشی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس نے ایک دن ان سے کہا اے عمرو تمہارا اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے،   میرا تو خیال ہے کہ وہ واقعی نبی ہے،   عمرو نے یہ سنا تو کہا کہ کیا واقعی تم اسے نبی سمجھتے ہو تو وہ کہنے لگا ہاں اللہ کی قسم!

تو اسی دن سے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ارادہ بنا لیا کہ وہ اسلام قبول کرنے کی غرض سے مدینہ ہجرت کرے گا پھر وہ حبشہ سے چلے اور مکہ سے ہوتے ہوئے مدینہ جا پہنچے۔  مکہ سے سیدنا خالد بن ولید اور سیدناعثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما بھی اسلام قبول کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ ہو لیئے۔  جب یہ لوگ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا : ( قد رمتکم مکۃ بافلاذ کبدھا)

’’ مکہ نے تمہاری صورت میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ہماری طرف پھینکا ہے۔ ‘‘

بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو معرکہ ذات السلاسل کا سپہ سالار بنا کر بھیجا جس میں یہ کامیاب لوٹے۔  پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں عمان کی طرف امیر بنا کر بھیجا یہ عمان میں ہی تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وفات پا گئے۔

وفات :

جب ان کا وقت اجل قریب ہوا تو یہ دعا پڑھتے پڑھتے اللہ کو پیارے ہو گئے: اللہم إنک أمرتنی فلم أأتمر،  وزجرتنی فلم أنزجر

ووضع یدہ فی موضع الغل،  وقال:

اللہم لا قوی فأنتصر،  ولا بریء فأعتذر،  ولا مستکبر بل مستغفر،  لا إلہ إلا أنت۔ فلم یزل یرددہا حتى مات۔

اللہ رب العزت ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے،   آمین

               بطور سفیر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں عمان کے بادشاہ جیفہ بن جلندی کی طرف سفیر بنا کر بھیجا،   ( الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب لامام ابی عمر یوسف بن عبد البرصفحہ نمبر 571،   مکتبہ دار المعرفۃ بیروت )

سیدناعمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

عمرو بن امیہ بن خویلد بن عبد اللہ بن ایاس بن عبید بن ناشرۃ بن کعب بن جدی بن ضمرۃ الضمری

سیدنا عمرو بن امیہؓ رضی اللہ عنہ جنگ بدر اور احد میں مشرکین کیساتھ حالت کفر میں شریک ہوئے پھر جب احد سے واپس پلٹے تو مسلمان ہو کر مدینہ آ گئے۔  عرب میں ان کی بہادری اور دلیری مشہور تھی اسی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کو اکثر خارجی امور میں بطور سفیر وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں تحائف دے کر ابو سفیان بن حرب کی طرف مکہ بھیجا جو بعد میں مسلمان ہو گئے۔

یہ معرکہ بئر معونہ میں شریک ہوئے اور اسی دوران گرفتار کر لئے گئے بعد میں رہا ہو کر واپس مدینہ پہنچ گئے یہ ان کا پہلا معرکہ تھا جو مسلمان ہونے کے بعد لڑا،

وفات :

یہ جلیل القدر صحابی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک زندہ رہے پھر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

اللہ رب العزت ان کی قبر کو منور فرمائے۔  آمین

(الاستیعاب،   صفحہ نمبر :562)

               بطور سفیر

سن چھ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف سے سفیر بنا کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے ہاں بھیجا تو نجاشی مسلمان ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کو بطور تحفہ نجاشی کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان سے شادی کر لے۔

 

سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

دحیہ بن خلیفہ بن مروۃ بن فضالہ بن زید بن امرؤ القیس بن خزرج بن عامر بن بکر بن عامر الاکبر بن عوف الکلبی،

ان کا تعلق قبیلہ بنو کلب سے تھا اس لئے انہیں دحیہ کلبی کہا جاتا ہے۔

یہ جنگ بدر جو کہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ میں ہونے والے پہلی جنگ ہے اس کے بعد مسلمان ہوئے اور معرکہ احد میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوئے پھر اس کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں شریک رہے۔

یہ خوبصورت سیرت و صورت کے مالک حسین نوجوان تھے جن کی حسن و خوبصورتی کو بطور مثال بیان کیا جاتا تھا اور جب پہلے بھی جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تو وہ انہی کی شکل میں آیا کرتے تھے۔

وفات :

یہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پا گئے۔ اللہ ان پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے۔  آمین۔ (الاستیعاب،   صفحہ نمبر :248)

               بطور سفیر

سن چھ یا سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں روم کے بادشاہ ہرقل بن قیصر کی طرف بھیجا جو مسلمان ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے لئے یہ دعا فرمائی (ثبت اللہ ملکہ) اللہ اس کی حکمرانی قائم رکھے۔

سیدناسلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

سلیط بن عمرو بن عبد شمس بن عبد ود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی القرشی العامری

ان کا شمار ان اصحاب رسول میں ہوتا ہے جنہوں نے دو ہجرتیں کیں،   ایک ہجرت مکہ سے حبشہ کی طرف جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا۔  دوسری حبشہ سے مدینہ کی طرف،   پھر حبشہ سے سب مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

اس طرح ان کا شمار سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں ہوتا ہے،   امام ابو موسی لکھتے ہیں کہ یہ معرکہ بدر میں شریک ہوئے تھے لیکن ان کے علاوہ کسی بھی مورخ نے یہ نہیں لکھا۔

وفات :

یہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سن 14 ہجری کو دنیا فانی سے رحلت فرما گئے۔

(الاستیعاب،   صفحہ نمبر 333)

               بطور سفیر

رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سن چھ یا سات ہجری میں اپنی طرف سے سفیر بنا کے یمامہ کہ سرداروں ہوذہ بن علی اور ثمامہ بن آثال کی طرف بھیجا تھا۔

سیدناعبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

عبد اللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی بن سعد بن سھم القرشی سہمی

کنیت : ابو حذافہ

انہوں نے مکہ سے ہجرت کی اور حبشہ چلے گئے وہاں کچھ عرصہ رہے پھر جب ان کو اطلاع ملی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے ہیں تو یہ حبشہ سے مدینہ ہجرت کر گئے۔  اس لئے ان کو ذو ہجرتین کہا جاتا ہے،   یہ جنگ بدر میں بھی شریک ہوئے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی وجہ سےغصہ آ گیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا کہ مجھ سے کسی بھی قسم کا سوال پوچھو گے میں تمہیں جواب دوں گا تو سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے مزاحاً پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بتائیے میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ بن قیس ہے۔

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو کسی لشکر کا امیر بنا کر بھیجا جب یہ اپنے لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں کسی وجہ سے اپنے لشکر پہ غصہ آ گیا اور ان کو حکم دیا کہ لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ جلائی جائے جب انہوں نے آگ جلا دی تو سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ اس آگ میں کو د جاؤ تو لوگوں نے انکار کر دیا،   فرمانے لگے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا۔  تو لوگوں نے کہا کہ آگ سے بچنے کیلئے ہی تو ہم نے اسلام قبول کیا ہے۔  جب یہ لشکر مدینہ واپس لوٹا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں نے انکار کر کے اچھا کیا اگر تم اس آگ میں کود جاتے تو قیامت تک اس آگ میں جلتے رہتے پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَلاَ تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ

’’تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق

جس کام میں اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہو اس کام میں کسی کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘

سن 19 ہجری میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو لشکر دے کر روم کی طرف روانہ کیا تو رومیوں نے مسلمانوں کے کچھ لوگ گرفتار کر لیے جن میں یہ بھی شامل تھے وہ لوگ قیدیوں کو اپنے بادشاہ قیصر کے پاس لے گئے اس نے سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی تو سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اس نے کہا کہ اگر تم اسلام کو چھوڑ دو تو میں تمہیں اپنی آدھی سلطنت دوں گا۔ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر تم اپنی ساری سلطنت اور پورے عرب کی حکمرانی بھی دو تب بھی میں ایسا کرنے والا نہیں ہوں۔  تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو صلیب پر باندھ دیا جائے اور تیر اندازوں کو حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں اور پیروں کے قریب قریب تیر چلاؤ،   شاید کہ ڈر کر ہی یہ عیسائیت قبول کر لے لیکن انہوں نے تب بھی انکار کر دیا تو قیصر نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بھی ماننے والا نہیں ہے اس نے حکم دیا کہ ایک بڑی دیگ لا کر اس میں تیل ڈال کر گرم کیا جائے جب تیل ابلنے لگا تو قیصر نے مسلمانوں کے دو قیدیوں کو یکے بعد دیگرے اس میں پھینکوا دیا وہ دیکھتے ہی دیکھتے جل کر کوئلہ بن گئے پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر کہا عیسائیت قبول کر لو ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہو گا لیکن سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی دیگ میں پھینک دیا جائے سپاہی ان کو دیگ کی طرف لے جانے لگے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جب اس نے دیکھا کہ یہ تو رو رہا ہے اس نے کہا اسے میرے قریب لاؤ اور پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو کیا موت کے ڈر سے رو رہے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ کر رو رہا ہوں کہ کاش میرے پاس ایک جان کی بجائے میرے جسم کے بالوں کے برابر جانیں ہوتیں اور میں سب کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا یہ سن کر قیصر ان کی بہادری اور جرأت مندی پر بہت حیران ہوا اور کہنے لگا اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو رہا کر دوں گا تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر کا بوسہ لیا تو اس نے ان کو رہا کر دیا جب یہ لشکر واپس مدینہ پہنچا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے :

حق علی کل مسلم ان یقبل رأس عبد اللہ بن حذافہ وأنا أبدأ بہ

’’ ہر مسلمان پر یہ ضروری ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سر کا بوسہ لے اور میں اس کی ابتداء کرتا ہوں۔ ‘‘

پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے سر کا بوسہ لیا۔

وفات :

انہوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی،   (الاستیعاب : صفحہ نمبر : 445)

               بطور سفیر

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سن چھ یا سات ہجری میں ان کو سفیر بنا کر فارس کے بادشاہ کسریٰ کی طرف بھیجا جب اس نے خط پڑھا تو غصہ میں آ کر خط پھاڑ دیا اور عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو اپنے محل سے نکلوا دیا جب اس واقعے کی خبر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو آپ نے کسریٰ کیلئے بد دعا کرتے ہوئے کہا ( مزق اللہ ملکہ ) اللہ رب العزت اس کی سلطنت کو برباد کرے۔

تو کچھ دنوں بعد اس کو اس کے بیٹے نے ہی قتل کر دیا اور خود بادشاہ بن گیا۔

سیدناعلاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

علاء بن عبد اللہ بن عمار بن اکبر بن عویف بن مالک بن خزرج بن ایاد بن صرف

ان کے والد کا لقب حضرمی تھا اس لئے ان کو علاء بن حضرمی کہا جاتا ہے۔

ان کے بھائی عمرو بن حضرمی وہ پہلا مقتول ہے جس کو کسی مسلمان نے قتل کیا اور اس کا مال وہ پہلا مال ہے جس میں سے خمس نکالا گیا اور ان کا دوسرا بھائی عامر بن حضرمی وہ بئر معونہ نامی کنویں کا مالک تھا جسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بحرین کا امیر بنایا اور یہ بحرین میں ہی تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وفات پا گئے پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت شروع ہوا انہوں نے ان کو بحرین پر ہی بطور امیر برقرار رکھا پھر بعد میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں ان کو بحرین پر برقرار رکھا اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مستجاب الدعوات تھے یعنی ان کی دعا رد نہیں ہوتی تھی۔

وفات :

یہ سن ۲۱ ہجری میں بحرین میں اپنا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

( الاستیعاب،   ص:525)

               بطور سفیر

ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خط دے کر بحرین کے بادشاہ منذر بن ہاوی کی طرف بھیجا تھا۔

سیدناحاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

حاطب بن ابی بلتعہ عمرو بن عمیر بن سلمہ بن صعب بن سہل بن عتیک بن سعاد بن راشدہ

کنیت : ابو محمد

یہ مکہ میں مشرف باسلام ہوئے اور پھر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے یہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کے ایمان کی گواہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے۔  فرمان باری تعالیٰ ہے :

یٰا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَآءَ   ( الممتحنہ : ۱)

’’اے ایمان والو! تم اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ ‘‘

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس آیت کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے سیدنازبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو بلا کر روضہ خاخ نامی جگہ پر بھیجا اور کہا کہ تم وہاں ایک عورت کو پاؤ گے اس کے پاس ایک خط ہے وہ لے کر میرے پاس آؤ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو ہمیں ایک عورت ملی ہم نے اس سے کہا کہ تمہارے پاس جو خط ہے وہ ہمارے حوالے کر دو اس نے کہا میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہم نے کہا : خط نکالتی ہو یا ہم خود نکالیں تو اس نے اپنے بالوں کی چٹیا کھولی اور خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کو لکھا گیا تھا جس میں انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا حاطب! یہ کیا ماجرا ہے،   توسیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بولے اے اللہ کے رسول !میں نے یہ کام کسی وجہ سے کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے آئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہجرت کر کے آیا لیکن ہمارے اہل و عیال مکہ میں ہی تھے باقی مسلمانوں کے تو رشتہ دار مکہ میں تھے جو ان کے اہل و عیال کا خیال رکھتے لیکن میرا کوئی رشتہ دار مکہ میں نہیں تھا جو میرے اہل وعیال کا بھی خیال رکھتا تو میں نے سوچا کہ مشرکین کو خط لکھ کر پر اعتماد کر لوں تاکہ وہ میرے بیوی بچوں کا خیال رکھیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں نے یہ کام مرتد یا کافر ہو کر نہیں کیا۔

تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو معاف کر دیا اورفرمایا کہ تم جنگ بدر میں شریک ہوئے ہو اور اللہ رب العزت نے معرکہ بدر میں شریک ہونے والے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:  آج کے بعد تم جو بھی عمل کرو گے تم سے حساب نہیں لیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔

وفات :

یہ جلیل القدر صحابی ۳۰ سن ہجری کو فوت ہوئے اور ان کی نماز جنازہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔  انہوں نے ۶۵ سال عمر پائی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لامام ابن الاثیر،   ج/۱، ص:۳۶۱،   مکتبہ دار احیاء التراث العربی،   بیروت)

               بطور سفیر

سن چھ ہجری میں نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سفیر بنا کر اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کے ہاں بھیجا۔

سیدناشجاع بن وہب رضی اللہ عنہ

نام ونسب :

شجاع بن وہب بن ربیعہ بن اسد بن صھیب بن مالک بن کبیر بن عنم بن دوران بن اسد بن خزیمہ الاسدی

ان کا شمار بھی ان اصحاب میں ہوتا ہے جو ابتدائے اسلام میں ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے پھر جب نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو جو لوگ حبشہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے ان کو ذو الہجرتین کا لقب دیا گیا۔

یہ ان لوگوں میں بھی شامل تھے جو یہ جھوٹی خبر سن کر مکہ واپس آ گئے تھے کہ اہل مکہ نے اسلام قبول کر لیا ہے۔

پتلے دبلے اور لمبے قد کے کڑیل نوجوان تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اورسیدنا حولیٰ رضی اللہ عنہ کے مابین بھائی چارہ قائم کیا،

وفات :

یہ جلیل القدر صحابی جنگ یمامہ میں شریک ہوئے اور اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔  انہوں نے چالیس سال سے زیادہ عمر پائی۔ (الاستیعاب،  ص:۳۶۰)

               بطور سفیر

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنی طرف سے سفیر بنا کر دمشق کے بادشاہ حارث بن ابی شمر کی طرف بھیجا۔

قارئین کرام! ان جانثاران محمد کا تذکرہ صرف اسی مقصد کے تحت کیا گیا ہے تاکہ ہم ان مقدس ہستیوں کے بارہ میں بنیادی معلومات حاصل کرسکیں جنہوں نے دیارِ کفر میں دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام سفارہ کاری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔

رضی اللہ عنہم

٭٭٭

ماخذ:

http://www.usvah.org/index.php/component/sectionex/137-embassy-muhammadi

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید