FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

سفر سے کچھ غزلیں

 

                احمد علوی

(ماخذ:مجموعہ ’پین ڈرائیو‘ سے الگ کی ہوئی ای بک)

 

 

 

 

 

 

دل اگر آئینہ نہیں ہوتا

دل میں عکس خدا نہیں ہوتا

 

چاہے مجبوریاں ہوں کتنی بھی

با وفا بے وفا نہیں ہوتا

 

انکساری بڑا بناتی ہے

قد سے کوئی بڑا نہیں ہوتا

 

وقت حالات برے ہوتے ہیں

کوئی انساں برا نہیں ہوتا

 

دو جہانوں کا پتہ رکھتے ہیں

جن کو اپنا پتہ نہیں ہوتا

 

درد سے اتنے ہو گئے مانوس

درد اب با خدا نہیں ہوتا

 

صرف اشعار بڑے ہوتے ہیں

کوئی شاعر بڑا نہیں ہوتا

 

 

 

 

 

 

تھی ہوائے غم زیادہ کیا کریں

اڑ گیا سارا برادہ کیا کریں

 

بے ارادہ خواب میں آتے ہیں وہ

ان کو پانے کا ارادہ کیا کریں

 

دل کے بدلے چاہتے ہیں جان وہ

عاشقی میں کم زیادہ کیا کریں

 

ایک دن مرنا یقیناً ہے ہمیں

زندگی سے جھوٹا وعدہ کیا کریں

 

دیکھیئے دورِ ترقی دیکھیئے

نر ہوئے جاتے ہیں مادہ کیا کریں

 

عمر گذری عشق فرماتے ہوئے

بن گئے ہیں دادی دادا دیکھیئے

 

 

 

 

 

 

اپنے ہونے کا وہ اس طرح پتہ دیتا ہے

مجھ سے بے علم سے اشعار لکھا دیتا ہے

 

یوں تمسخر نہ اڑا میری تہی دستی کا

خشک دریا بھی سمندر کا پتہ دیتا ہے

 

کوئی سورج سے نہیں آنکھ ملانے والا

ہر کوئی صرف چراغوں کو ہوا دیتا ہے

 

کس لیئے ظلِّ الٰہی کی قدم بوسی ہو

رزق بن مانگے ہی جب سب کو خدا دیتا ہے

 

کہساروں کو ڈبو دیتے ہیں دریا پل میں

ابر کا ٹکڑا بھی سورج کو چھپا دیتا ہے

 

مسئلہ سارا انا کا ہے یہاں پر علوی

جھکنے والا تو زمانے کو جھکا دیتا ہے

 

 

 

 

خوشبو گلاب چاندنی بادِ صبا بھی ہے

ملنے سے پہلے سوچ لو وہ بے وفا بھی ہے

 

ایسا کبھی ہوا ہے کہ پتھر مہک اٹھے

دو پتیوں نے پھول کی مجھ کو چھوا بھی ہے

 

خود کو نہ بے مثال سمجھنے کی بھول کر

آئینہ دیکھ تجھ سا یہاں دوسرا بھی ہے

 

جو تیرے میرے بیچ ہیں یہ بد گمانیاں

میرا بھی کچھ قصور ہے تیری خطا بھی ہے

 

ہے زندگی کا سب سے کڑا امتحان یہ

جینا ہے مجھ کو اور تجھے بھولنا بھی ہے

 

علوی بس اس کے حوصلے کی داد دیجئے

آندھی میں جو چراغ جلا بھی بجھا بھی ہے

 

 

 

 

 

 

آندھیوں میں جلے دیئے کیسے

تم نے یہ معجزے کیئے کیسے

 

داغ دامن پہ اور نہ خنجر پہ

سر قلم آپ نے کیئے کیسے

 

چاند میرا نہیں سبھی کا ہے

توڑ لاؤں ترے لیئے کیسے

 

پوچھیئے اپنی مست آنکھوں سے

لڑکھڑاتے ہیں بن پیئے کیسے

 

تم تو ماہر تھے گھر جلانے میں

ہاتھ تم نے جلا لیئے کیسے

 

تم ہی قاتل ہو تم ہی منصف ہو

خود کو خود یہ لقب دیئے کیسے

 

 

 

 

 

 

نور صبحوں کو اور شاموں کو شفق دیتا ہے

میرا مولیٰ ہے جو حقدار کو حق دیتا ہے

 

وہ ہواؤں کو بدل دیتا ہے طوفانوں میں

یوں بھی مغرور درختوں کو سبق دیتا ہے

 

کیسے ہو اس کی محبت کا بھروسہ مجھ کو

درد دیتا ہے مسّرت نہ قلق دیتا ہے

 

میرے بارے میں غلط فہمی ہے کوئی اس کو

جو لغت میں نہ ملے لفظ ادق دیتا ہے

 

وہی عیسیٰ وہی سرمد وہی منصور میں تھا

زندگی کی وہی مردوں کو رمق دیتا ہے

 

کوئی پیغام لکھانا ہے یقیناً مجھ سے

کیوں قلم سونے کے چاندی کے ورق دیتا ہے

 

 

 

 

 

 

حادثے سڑکوں پہ بیٹھے ہیں کچلنے کے لیئے

حوصلہ درکار ہے گھر سے نکلنے کے لیئے

 

زلزلے اب کے مری بنیاد خالی کر گئے

اب ضروری ہے بہت گرنا سنبھلنے کے لیئے

 

ہو گئے بے نور جگنو بجھ گئے سارے چراغ

اب فضا ہموار ہے سورج نکلنے کے لیئے

 

میری راہوں میں بچھے ہیں دور تک شیشے کے پھول

کون ہے تیار میرے ساتھ چلنے کے لیئے

 

چائے پی کر جائیے گا مدتّوں بعد آئے ہو

رکھ دیا ہے دھوپ میں پانی ابلنے کے لیئے

 

ہو گئے وہ بادباں بھی تو ہوا کے ساتھ ساتھ

جو گئے تھے رُخ ہواؤں کا بدلنے کے لیئے

 

 

 

 

 

 

جب بھی یاد کرتے ہیں جب بھی یاد آتے ہیں

نرم گرم پلکوں سے پھول ٹوٹ جاتے ہیں

 

اپنا جی بھی کرتا ہے آسمان چھونے کو

روز سولیوں پر ہم اپنا قد بڑھاتے ہیں

 

ہم وہیں سے بچھڑے تھے شام کو جہاں اکثر

گاؤں کے بڑے بوڑھے حقہ گڑ گڑاتے ہیں

 

دور تک یہاں کوئی بے پڑھا نہیں رہتا

میرے صحن میں پتھر پھر کہاں سے آتے ہیں

 

پوچھیئے پرندوں سے کون ہے خدا ان کا

مسجدوں میں سوتے مندروں میں کھاتے ہیں

 

تم نے نرم مٹّی بھی بانجھ کر کے رکھ دی ہے

پتھروں کے سینے سے پھول ہم اگاتے ہیں

 

 

 

 

وفا کم ہے نظر آئی بہت ہے

بڑے شہروں میں دانائی بہت ہے

 

ہمارے پاؤں میں پتھر بندھے ہیں

تری آنکھوں میں گہرائی بہت ہے

 

بنانے کو ہمالہ نفرتوں کے

غلط فہمی کی اک رائی بہت ہے

 

نظر میں کس کی ہے پاکیزگی اب

کہ اس تالاب میں کائی بہت ہے

 

ہمارا ساتھ رہنا بھی ہے مشکل

بچھڑنے میں بھی رسوائی بہت ہے

 

سبھی کی زندگی ہے اپنی اپنی

بھرے گھر میں بھی تنہائی بہت ہے

 

ادب میں زندگی پانے کو علوی

فقط لہجے میں سچائی بہت ہے

 

 

 

 

آ رہے ہیں ذہن میں مصرعے بہت

لگ رہے ہو آج تم اچھے بہت

 

موت کو بھی آزما کر دیکھ لیں

زندگی نے تو دیئے دھوکے بہت

 

رفتہ رفتہ بھول جائیں گے تجھے

ہم بھی تیری طرح ہیں جھوٹے بہت

 

کیا ہوا گر ایک در بند ہو گیا

اور کھل جائیں گے دروازے بہت

 

صاف گوئی مجھ کو تنہا کر گئی

دوستو کو مجھ سے ہیں شکوے بہت

 

بیچ ڈالو تم یہاں سب آئینے

ہیں ہمارے شہر میں اندھے بہت

 

جسم کیا ہے روح بھی چھلنی ہوئی

تیر سے بھی تیز تھے جملے بہت

 

 

 

 

نکتہ چینی ہے یہ نکتہ دانی نہیں

میں سمندر ہوں پینے کا پانی نہیں

 

ساحلوں سے چنیں ساتھ ہم سیپیاں

اب کوئی شام اتنی سہانی نہیں

 

دشمنی کی ضرورت جو محسوس ہو

دوستی اپنی اتنی پرانی نہیں

 

تیری خوشبو تھی وہ بھی کہیں کھو گئی

اب تری مجھ پہ کوئی نشانی نہیں

 

سوکھ جائیں نہ تیرے غموں کے گلاب

ایک مدّت سے آنکھوں میں پانی نہیں

 

دوریاں اپنے نزدیک کیوں آ گئیں

میں زمینی ہوں تو آسمانی نہیں

 

گم سبھی کچھ لکیروں میں ہاتھوں کی ہے

کوئی پیغام اس کا زبانی نہیں

 

میرا حصہ ہے تو تیرا حصہ ہوں میں

اس سے بڑھ کر حقیقت بیانی نہیں

 

 

 

 

 

 

چار دن کو جدا اس سے بس ہو گئے

جیسے بچھڑے ہوئے سو برس ہو گئے

 

کل دسمبر کے سورج کی صورت تھے ہم

لیکن اب راستوں کی امس ہو گئے

 

بہہ گئے آنسوؤں میں ترے خواب بھی

خالی آنکھوں کے سب کیمپس ہو گئے

 

دوستو سے کبھی مل کے سوچا ہے یہ

مائینس ہو گئے یا پلس ہو گئے

 

خوف کی سلطنت ہے ہر اک شہر پر

سورجوں کے جزیرے تمس ہو گئے

 

زندگی کی یہاں انتہا ہے کوئی

ایک سے دو ہوئے دو سے دس ہو گئے

 

 

 

 

 

 

مسکراتے گل نہیں کھیتوں سے گندم چاہیئے

غم زدہ بچوں کے ہونٹوں کو تبسم چاہیئے

 

صرف اک جگنو ہو لیکن دسترس میں ہو مری

کون کہتا ہے کہ مجھ کو ماہ و انجم چاہیئے

 

تم کنارے سے اٹھا کر کوئی پتھر پھینک دو

جھیل کے خاموش پانی کو تکلم چاہیئے

 

نا مکمل ہیں ہمارے ناقدانِ فن ابھی

اور سب کچھ لگ چکا چھوٹی سی اک دم چاہیئے

 

 

 

 

 

 

اشکوں کی رہگذر پہ خوشبو کا اک مکاں ہے

سنتے ہیں کہ ہمارا کوئی منتظر وہاں ہے

 

جب سے چراغ میرے زد میں ہے آندھیوں کے

اک آپ کیا ہیں مجھ سے ہر شخص بد گماں ہے

 

میں خوشبوؤں کی فصلیں آخر کہاں اگاؤں

تیری زمین پر تو ہر خطہ آسماں ہے

 

سب وقت کی ہیں باتیں سب کھیل قسمتوں کے

ہم جس سے بچ رہے تھے وہی دھوپ سائباں ہے

 

یارو محبتوں کی یہ کون سی ہے منزل

میں اس سے بد گماں ہوں وہ مجھ سے بد گماں ہے

 

دریا کے دو کنارے آخر ملیں گے کیسے

اک فاصلوں کا رشتہ دونوں کے درمیاں ہے

 

 

 

 

 

 

کہیں بھی بیٹھے ہوئے اک بٹن دبا دو گے

مرے گلاب کی سب ٹہنیاں جلا دو گے

 

کسی کی جیب میں سکّے شرافتوں کے نہیں

فقیر! شہر میں کس کس کو بد دعا دو گے

 

اداس اداس ہیں پلکیں مری کئی دن سے

کسی کی آنکھ سے آنسو چرا کے لادو گے

 

میں تیرگی سے جب عریانیت چھپاؤں گا

مجھے یقین ہے تم بتیاں جلا دو گے

 

دریدہ ہو گیا ملبوس زندگانی کا

حسین خواب کے پیوند کیا لگا دو گے

 

ہمیں یقین ہے پتھر رہو گے تم علوی

جسے بھی چھو گئے سونا اسے بنا دو گے

 

 

 

 

 

 

ہر اک قلم نے حقیقت سے انحراف کیا

درست ہم نے زمانے کا شین قاف کیا

 

یہاں پہ جسم جلیں گے الاؤ کی صورت

اگر ہوا نے چراغوں سے اختلاف کیا

 

سزا نہ کر سکی تجویز کیا عدالت تھی

ہر ایک جرم کا مجرم نے اعتراف کیا

 

یونہی گذر گئے جاڑے حسیں گلابوں کے

کبھی گھٹا تو کبھی اوس کو لحاف کیا

 

تمام شہر میں وہ ایک دوست تھا میرا

مری انا نے اسے بھی مرے خلاف کیا

٭٭٭

تشکر:

www.kitaabapp.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید