FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سایہ نورد

غزلیں

آفتاب اقبال شمیم

جمع و ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل
پی ڈی ایف فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں …..

سایہ نورد

آفتاب اقبال شمیم

جمع و ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید

زمیں کی کشت میں بو، آندھیوں میں پال مجھے

غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے

میں اپنے ظرف میں ٹھہرا ہوا سمندر تھا

چھلک رہا ہوں، ذرا دے میرے مثال مجھے

جلا چراغ تو شب سائیں سائیں کرنے لگی

ذرا سی موج طرب کر گئی نڈھال مجھے

میں اپنی اصل کو دیکھوں تری نگاہوں سے

مرے وجود سے باہر ذرا نکال مجھے

میں پیش وقت ہوں مجرم ہوں اس زمانے کا

نئی سیاستیں شاید کریں بحال مجھے

کسی کے ہارے ہوئے عزم کی ضمانت ہوں

بنا رکھا ہے زمانے نے یرغمال مجھے

میں اپنی ذات میں ہوں سرحدوں کا باشندہ

منافقت نے سکھایا ہے اعتدال مجھے

٭٭٭

مثال سیلِ بلا نہ ٹھہرے، ہوا نہ ٹھہرے

لگائے جائیں ہزار پہرے، ہوا نہ ٹھہرے

کہیں کہیں دھوپ چھپ چھپا کر اتر ہی آئی

دبیز بادل ہوئے اکہرے، ہوا نہ ٹھہرے

ورق جب الٹے، کتاب موسم دکھائے کیا کیا

گلاب عارض، بدن سنہرے، ہوا نہ ٹھہرے

وہ سانس امڈی کہ وہ حسوں نے غضب میں آ کر

گرا دیے جس کے کٹہرے، ہوا نہ ٹھہرے

کبھی بدن کے روئیں روئیں میں حواس ابھریں

کبھی کرے گوش ہوش بہرے، ہوا نہ ٹھہرے

اسی کی رفتار پا سے ابھریں نقوش رنگیں

کہیں پہ ہلکے، کہیں پہ گہرے، ہوا نہ ٹھہرے

صدائے ہر سو کے گنبد ہیں گونجتی ہے

ہوا نہ ٹھہرے، ہوا نہ ٹھہرے، ہوا نہ ٹھہرے

٭٭٭

وہ ہدف ہے کہ زد تیر سے باہر ہی رہے

جب بھی کھینچوں اسے، تصویر سے باہر ہی رہے

رشتۂ موجد و ایجاد کی منطق سمجھو

یہ جہاں دست جہاں گیر سے باہر ہی رہے

جبر مجبور ہے، چھپ کر بھی نہیں چھپ سکتا

شور زنجیر کا زنجیر سے باہر ہی رہے

یوں کہ کچھ عکس نمائی کا ہمیں شوق نہ تھا

چشمِ آئینہ ٔ تشہیر سے باہر ہی رہے

وہ ارادہ مجھے دے، اے مری ترکیب وجود!

جو عمل داریِ تقدیر سے باہر ہی رہے

المیے میرے زمانے کے مجھے سہنے پڑے

چشم غالب سے، دل میر سے باہر ہی رہے

٭٭٭

گھر کو اتنا بھی نہیں تاریک رکھنا چاہیے

وا ذرا سا روزن تشکیک رکھنا چاہیے

ہے اسی کے بھید سے حاضر میں غائب کی نمود

دور کو ہر حال میں نزدیک رکھنا چاہیے

در پئے آزار ہے سنجیدگی کا پیشہ ور

پاس اپنے دشنۂ تضحیک رکھنا چاہیے

پردۂ حیرت میں رہنا اس کا منشا ہی سہی

پر اسے پردہ ذرا باریک رکھنا چاہیے

خود بخود آ جائے گا کعبہ جبیں کی سیدھ میں

بس ذرا اندر کا قبلہ ٹھیک رکھنا چاہیے

٭٭٭

الف اکائی کے رشتے سے کٹی ہوئی

ایک زمیں اور سرحد سرحد بٹی ہوئی

پاؤں میں گھمسان برستے پانی کا

سر پر چھتری جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی

ایک تماشا عالم گیر خسارے کا

ہر پل دیکھوں جیون پونجی گھٹی ہوئی

کل کی کالک دھو کر آج کی تختی پر

لکھتے رہئے ایک ہی املا رٹی ہوئی

نشے میں ہے اور طرح کی یکسانی

روز کی یکسانی سے قدرے ہٹی ہوئی

٭٭٭

پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شب کی چٹان پر

ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر

برسوں درون سینہ سلگنا ہے پھر ہمیں

لگتا ہے قفل حبس ہوا کے مکان پر

اک دھاڑ ہے کہ چاروں طرف سے سنائی دے

گرداب چشم بن گئیں آنکھیں مچان پر

موجود بھی کہیں نہ کہیں التوا میں ہے

جو ہے نشان پر وہ نہیں ہے نشان پر

اس میں کمال اس کی خبر سازیوں کا ہے

کھاتا ہوں میں فریب جو سچ کے گمان پر

سرکش کو نصف عمر کا ہو لینے دیجیے

بک جائے کا کسی نہ کسی کی دکان پر

٭٭٭

بھیجا ہے مے کدے سے کسی نے پیام غم

آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلام غم

لے جائے اب جہاں کہیں شبدیز زندگی

تھامی ہوئی ہے ہاتھ میں ہم نے زمام غم

یوں اپنے ظرف کا نہ تمسخر اڑائیے

سر پر انڈیلئے، یہ بچا ہے جو جام غم

آئے گا ایک رقعۂ خالی جواب میں

اس کے بجائے بھیجئے نامہ بہ نام غم

مفرور معتبر ہیں، ملیں گے یہیں کہیں

اپنے زیاں کے کھوج میں والا کرام غم

سب کو بلائے عشرت ارزاں نے کھا لیا

اب تو ہی رہ گیا ہے برائے طعام غم

٭٭٭

مے گساری سے ذرا ربط زیادہ کر لو

اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو

وہ کہ نا خواندۂ جذبہ ہے نہیں پڑھ سکتا

اپنی تحریر کو تم جتنا بھی سادہ کر لو

ایسا سجدہ کہ زمیں تنگ نظر آنے لگے

یہ جبیں اور، ذرا اور کشادہ کر لو

امتحاں کمرۂ دنیا میں اگر دنیا ہے

روز گردان کے فعلوں کا اعادہ کر لو

پھر بتائیں گے تمہیں چشمۂ حیواں ہے کہاں

گھر سے دفتر کا ذرا ختم یہ جادہ کر لو

ٹالنے کی تمہیں ٹل جانے کی عادت ہے ہمیں

پھر سہی، اگلی ملاقات کا وعدہ کر لو

٭٭٭

بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری

رہ گئی

کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی

رزق سے بڑھ کر اسے کچھ اور بھی درکار تھا

کل وہ طائر اڑ گیا پنجرے میں چوری رہ گئی

تھی بہت شفاف لیکن دن کی اڑتی گرد میں

شام تک یہ زندگی رنگت میں بھوری رہ گئی

کیوں چلے آئے کھلی آنکھوں کی وحشت کاٹنے

اس گلی میں نیند کیا پوری کی پوری رہ گئی؟

بس یہی حاصل ہوا ترمیم کی ترمیم سے

حاصل و مقصود میں پہلی سی دوری رہ گئی

کس قرینے سے چھپا یا بھید لیکن کھل گیا

غالباً کوئی اشارت لاشعوری رہ گئی

٭٭٭

ہوں انا الصحرا کبھی پوچھو مجھے کیا چاہیے

آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہیے

اتنا سنجیدہ نہ ہو، سب مسخرے لگنے لگیں

زندگی کو نیم عریانی میں دیکھا چاہیے

جانتا ہوں کیوں یہ آسانی مجھے مشکل لگے

طے نہ کر پاؤں کہ کس قیمت پہ دنیا چاہیے

یہ رہا سامان دنیا، یہ رہے اسباب جاں

کوئی بتلاؤ مجھے ان کے عوض کیا چاہیے

کچھ نہیں تو اس کے تسکین تغافل کے لیے

ایک دن اس یار بے پروا سے ملنا چاہیے

یا زیاں کو سود سمجھو یا کہو سر پیٹ کر

سوچ کو حد مروج ہی میں رہنا چاہیے

٭٭٭

پلا کے مست کرو، مست کر کے ڈھیر کرو

اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو

کمال کار سیاست اسی کو کہتے ہیں

خبر وہی رہے لفظوں کا ہیر پھیر کرو

جریدۂ فن شہزادگی میں لکھا ہے

کہ اسپ چوب سے تیغ و سناں کو زیر کرو

جنم جنم سے میں آ آ کے ہار ہار گیا

پتہ نہیں کہ تم آنے میں کتنی دیر کرو

تمہارا جبر وہی اور اپنا صبر وہی

سہار لیں گے، بڑے شوق سے اندھیر کرو

یہ خلق یورش زر سے نہ ہار جائے کہیں

اسے بصیرتیں بخشو، اسے دلیر کرو

٭٭٭

نے ستائش نہ داد مانگتا ہوں

بس توجہ زیاد مانگتا ہوں

کتنا سادہ ہوں پیر دنیا سے

طفل کا اعتماد مانتا ہوں

حرف ڈھونڈوں الف سے پہلے کا

فکر و فن طبع زاد مانگتا ہوں

پیکر خاک ہوں نمو کے لیے

آتش و آب و باد مانگتا ہوں

اتنی آگیں کہ رات، دن سی لگے

دل میں ایسا فساد مانگتا ہوں

سنگ کر دے نہ دید گم شدگاں!

اپنے نسیاں سے یاد مانگتا ہوں

٭٭٭

کرے ہے آنکھ کے گوشوں کی تیرگی روشن

پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن

تمام صحن شب یاد جگمگا اٹھا

ہوئی جو آنکھ میں اشکوں کی پھلجھڑی روشن

تو کیا چراغ ہوں میں طاق روزمرہ کا

کبھی بجھا ہوا ہوتا ہوں اور کبھی روشن

سرور دینے لگا ہے مجھے اندھیرا بھی

لگے کہ اس کے بدن میں ہے چاندنی روشن

مٹے نہ فرق سفید و سیاہ سورج سے

مٹے لہو سے، کرے جس کو آدمی روشن

جما ہے تن کے رہ برف و باد میں کیسے

رکھو، مثال شجر جان کی نمی روشن

٭٭٭

کچھ مصلحت بھی جوڑ کے خود داریوں کے ساتھ

کرتا ہوں زندگی ولے نا چاریوں کے ساتھ

خوشحال ہو گئے ہیں مگر خود کو بیچ کر

آسانیاں بھی جھیلئے دشواریوں کے ساتھ

لگتی نہیں تھیں ایڑیاں جس کی زمین پر

بیٹھا ہوا ہے فرش کی ہمواریوں کے ساتھ

سونے دیا نہ جاگنے والے کے خبط نے

یہ رات بھی کٹی بڑی بیزاریوں کے ساتھ

تنہائیوں کا کنج معطر ہے اس لیے

چلتی ہے میری سانس مری یاریوں کے ساتھ

دور بعید شاہ پرستی کا فرد ہوں

پھر کیا ہو واسطہ مرا درباریوں کے ساتھ

٭٭٭

ہوں دیکھنے میں عام سا مظہر زمین کا

منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا

زنجیر سی پڑی ہے دلو ں کے کواڑ پر

یہ سرحدیں ہٹا کر کھلے در زمین کا

بدلے لہو کے رنگ سے، وہ بھی ذرا سی دیر

رہتا ہے ورنہ ایک سا منظر زمین کا

مجھ کو مرے شعور کی برکت سے مل گیا

اس شہر کائنات میں یہ گھر زمین کا

سو جائیں فکرِ شعر میں بے فکریوں کے ساتھ

چادر ہو آسمان کی بستر زمین کا

جیتا ہوں خود کو بیچ کے بازار نثر میں

میں رہنے والا شاعری کی سرزمین کا

٭٭٭

بات ایک جیسی ہے، ہجو یا قصیدہ لکھ

بے نیازیاں اس کی، ہو کے آبدیدہ لکھ

جمع کر یہ آوازیں میری خود کلامی کی

اور ان کی املا سے درد کا جریدہ لکھ

ذہن کی ہدایت ہے، کاتب زمانہ کو

عقل کی دلیلوں سے آج کا عقیدہ لکھ

رنگ و روشنائی کی حد اوج سے اوپر

ہو سکے تو اندازاً قامت کشیدہ لکھ

دیکھ ان خلاؤں میں نقطہ ہائے نور اس کے

تو بھی ایک خالق ہے شعر چیدہ چیدہ لکھ

٭٭٭

سپردگی میں نکل گیا وہ زمیں سے آگے

نشانِ سجدہ پڑا تھا اس کا، جبیں سے آگے

رواں سمندر کا چلتا ساحل ہے آدمی بھی

اسی کی زد میں کہیں سے پیچھے کہیں سے آگے

ضرور ہم بھی مسائل دل پہ غور کرتے

نکلنے پاتے کبھی جو نانِ جویں سے آگے

ابھی تو نو مشق جستجو ہوں، ابھی سفر میں

ہے اور کچھ بھی حدود عقل و یقیں سے آگے

سفر کا خاکہ لگے کہ پرکار سے بنا ہے

وہی ذرا سی نمود ہاں کی، نہیں سے آگے

پلٹ گیا خوش مشام طائر، سراغ پا کر

کہ بوئے سازش اڑی تھی جائے کمیں

سے آگے

٭٭٭

زخم کھائے ہوئے پانی کا تماشا دیکھیں

قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں

گاہے پستی کا مکیں، گاہے بلندی پہ رواں

وقت کی نقل مکانی کا تماشا دیکھیں

جانتے ہیں کہ بنے واقعہ، قصہ کیسے

ہم کہانی میں کہانی کا تماشا دیکھیں

اتنی خلقت میں مگر آدمی ناپید ملے

جنس ارزاں کی گرانی کا تماشا دیکھیں

دن میں سورج کبھی دو بار نکل آئے تو

ہم بھی دو بارہ جوانی کا تماشا دیکھیں

دیمکیں چاٹ چکی ہوں گی صلیبیں کتنی

ہم کہاں کس کی نشانی کا تماشا دیکھیں

پیرہن لمس میں ہوں جیسے بھرے بدنوں کے

لفظ اندر سے معانی کا تماشا دیکھیں

٭٭٭

کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا

مجھے ان آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا

کھلی آنکھوں سے کب تک جستجو کا خواب دیکھوں گا

حجاب ہفت پردہ اپنے چہرے سے اٹھاؤ نا

ستارے پر ستارہ اوک میں بہتا چلا آئے

کسی شب کہکشاں انڈیل کر مجھ کو پلاؤ نا

جو چاہو تو زمانے کا زمانہ واژگوں کر دو

مگر پہلے حدود جاں میں ہنگامہ اٹھاؤ نا

سبک دوش زیاں کر دیں زیاں اندیشاں دل کی

ذرا اسباب دنیا راہ دنیا میں لٹاؤ نا

لیے جاتے ہیں لمحے ریزہ ریزہ کر کے آنکھوں کو

نہایت دیر سے میں منتظر بیٹھا ہوں، آؤ نا

٭٭٭

ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا

نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا

کچھ روشنیِ طبع ضروری ہے وگرنہ

ہاتھوں میں اتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا

وہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدم

چھٹنے ہی نہیں دیتا مقدر کا اندھیرا

کیا کیا نہ ابوالہول تراشے گئے اس سے

جیسے یہ اندھیرا بھی ہو پتھر کا اندھیرا

دیتی ہے یہی وقت کی توریت گواہی

زر کا جو اجالا ہے وہ ہے زر کا اندھیرا

ہر آنکھ لگی ہے افق دار کی جانب

سورج سے کرن مانگتا ہے ڈر کا اندھیرا

٭٭٭

بیٹھا ہوں ہونٹوں کے نیچے اوک رکھے

کوئی بن برسے بادل کو روک رکھے

ایک ابد تک یونہی چلتے رہنا ہے

پاؤں کے اندر کانٹے کی نوک رکھے

کھو دینے اور پا لینے کے دھندے میں

یہ دنیا تو بندے کو ڈرپوک رکھے

دیکھا دیکھی فیصلہ کرنے والے کو

نا آسودہ رستے کا ہر چوک رکھے

ایک شعور غم دینے کے بدلے میں

کوئی ہم پر ظلم روا بے ٹوک رکھے

سطح ہوا پر سانس کی چند لکیروں سے

نقش بنانے کا کوئی کیا شوق رکھے

٭٭٭

اگر ہر شہر اپنی ذات میں بغداد ہو جائے

یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے

وہ ریگستاں جسے مؤ رخ بھی قاصر تھے جلانے سے

کہاں ممکن ہے تیری آگ سے برباد ہو جائے

کرشمہ دیکھئے اس کی خبر سازی کی صنعت کا

ستم احسان بن جائے، کرم بے داد ہو جائے

کہاں تک تجربہ پر تجربہ کرتے چلے جائیں

سبق وہ دو، ہمیشہ کے لیے جو یاد ہو جائے

اگر تقدیر سے اک خواب بھی سچا نکل آئے

تو اس دوران غم کی مختصر میعاد ہو جائے

ابھی اس شہر میں سچ بولنے کی رت نہیں آئی

تو اس پت جھڑ میں کوئی شعر ہی ارشاد ہو جائے

٭٭٭

سزائے جذبہ و احساس کاٹتے رہئے

ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے

اس اژدحام حریصاں کو ہے یہی مطلوب

کہ ایک دوسرے کا ماس کاٹتے رہئے

ہر ایک شکل ملے مثل نخل بے چہرہ

یہی کہ شہر میں بن باس کاٹتے رہئے

یہ کار زندگی ہے کار کوہکن سے کٹھن

بصارتوں سے یہ الماس کاٹتے رہئے

بہ فیض نکتہ وری موسمِ بہار میں بھی

خزاں کی چھوڑی ہوئی گھاس کاٹتے رہئے

اس انتظار کی لا حاصلی پہ زور ہی کیا

پرائے وقت کو بے آس کاٹتے رہئے

٭٭٭

آخرکار سمیٹیں گے اسے اہل نبرد

ہے کف باد میں جو، موسم افسوس کی گرد

ایک ہی جور پہ اندازِ دگر برپا ہے

مژدہ کیا لائے کہیں سے بھی ترا شہر نورد

موسموں کا یہ بدلنا بھی مقدر ٹھہرا

زرد سے سبز کبھی اور کبھی سبز سے زرد

جان دینے سے بھی آگے کا کوئی معرکہ ہو

طے کرے جو میرے اس مثبت و منفی کی نبرد

٭٭٭

ہاں اسی دن دھوپ میں ہریالیاں شامل ہوئیں

اس زمیں کی زردیوں میں لالیاں شامل ہوئیں

باد آزادی میں ہم سب ناچنے والوں کے ساتھ

پھول پہنے، رقص کرتی ڈالیاں شامل ہوئیں

بوئے گل سے جانیے کیوں بوئے خوں آنے لگی

باغ میں جب سے تری رکھوالیاں شامل ہوئیں

قہر تو اس وقت ٹوٹا تھا، صفِ اعدا میں جب

چشم و لب سے قتل کرنے والیاں شامل ہوئیں

خیر کو شر اور شر کو خیر کرنے میں یہاں

جانیے کن کن کی بد اعمالیاں شامل ہوئیں

اتنا پیارا ہو گیا ہوں دوستوں کو، کیا کہوں

جب بھی میرا ذکر آیا گالیاں شامل ہوئیں

٭٭٭

نشۂ مے ہے اگر نشۂ غم مل جائے

رند کو تاج عرب، تخت عجم مل جائے

وقت کے چارہ گرو کوئی کرامات کرو

ارض بیمار کو ٹوٹا ہوا دم مل جائے

ہم کہ بگڑی ہوئی تقدیر کے پیارے ٹھہرے

ڈھونڈنے جائیں خوشی اور الم مل جائے

مصلحت نامۂ ہر روز پڑھا کر، اس میں

کیا خبر تجھ کو ترا نام رقم مل جائے

اک سرایت سی ترے لمس کی محسوس کروں

جیسے پتے کو دم باد کا نم مل جائے

میں کہ ذرہ ہوں مرا ظرف تمنا دیکھو

چاہتا ہوں کہ مجھے لوح و قلم مل جائے

٭٭٭

یہ وقت آساں، کبھی عدو پر گراں بھی ہو گا

وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا

یہی سجھائے ہمیں یہ ٹھہرا ہوا ستارہ

کہ جو بظاہر رکا ہوا ہے رواں بھی ہو گا

اگر سفر میں رہا نہ آگے سے اور آگے

تو پھر وہ شہر مثال ہم پر عیاں بھی ہو گا

اداس مت ہو خدا اگر واقعی خدا ہے

ضرور ان بستیوں پہ وہ مہرباں بھی ہو گا

چلو تو یاروں کی چاہتیں ساتھ لیتے جاؤ

کہ راستے میں قبیلۂ دشمناں بھی ہو گا

بگاڑ بیٹھے ہو دل سے ان دنیا داریوں میں

کہا نہ تھا ایسے فائدے میں زیاں بھی ہو گا

٭٭٭

میں بھی کتنا سادہ مزاج تھا کہ یقیں گمان پہ کر گیا

کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اٹھا کبھی مر گیا

چلو یار وعدہ نواز سے کسی روز جا کے پتہ کریں

وہ جو اس کے در کا اسیر تھا، اسے کیا ہوا، وہ کدھر گیا

وہ شب عجیب گزر گئی، سو گزر گئی مگر اس طرح

کہ سحر کا آئینہ دیکھ کر میں تو اپنے آپ سے ڈر گیا

تری آس کیا، کہ ہے ابر کا تو ہوا کے رخ سے معاملہ

جو سنور گیا تو سنور گیا، جو بکھر گیا تو بکھر گیا

میری رہگزار میں رہ گئی یہی باز گشت صداؤں کی

کوئی بے نمود سا شخص تھا وہ گزر گیا، وہ گزر گیا

ہوئے منکشف مری آنکھ پر کئی اور زاویے دید کے

کوئی اشک ضبط اگر کبھی پس چشم آ کے ٹھہر گیا

٭٭٭

حدوں میں رہ کر، حدوں سے باہر، بہے سمندر

دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر

زمیں کی آغوش پر سکوں میں سکوں نہ پائے

ہوا کی راہوں میں ابر بن کر، بہے سمندر

یہ جان و جنبش ثمر ہیں پانی کی ٹہنیوں کے

بدل کے شکل نوید گھر گھر، بہے سمندر

یہ سب کے سب ہیں پڑاؤ اس کی روانیوں کے

پہاڑ یا برف یا صنوبر، بہے سمندر

ہری کویتا کے شبد مٹی پہ لکھتا جائے

زبان اسرار کا سخن ور، بہے سمندر

یہ وجہ فعل وجود اصل وجود بھی ہے

یہی ہے دریا یہی شناور، بہے سمندر

اسی حوالے سے آنکھ پر منکشف ہوئے ہیں

زمین، افلاک اور خاور، بہے سمندر

رکے تو ایسے بسیط و ساکت، ہو موت جیسے

بنام ہستی بہے برابر، بہے سمندر

فنا کرے تو بقا کی گنجائشیں بھی رکھے

ہو جیسے انسان کا مقدر، بہے سمندر

٭٭٭

تمیز فرزند ارض و ابن فلک نہ کرنا

تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا

یہ جمع و تفریق، ضرب و تقسیم کی صدی ہے

عقیدہ ٹھہرا عدد کی منطق پہ شک نہ کرنا

پس خرابات بند جاری ہے مے گساری

سکھایا جام و سبو کو ہم نے کھنک نہ کرنا

چھلاوے بن جائیں آگے جا کر یہی غزالاں

تعاقب ان مہ وشوں کا تم دور تک نہ کرنا

یہ غم کہ معنی تجھے لگے ہے سراب معنی

اکیلے سہنا، اسے غم مشترک نہ کرنا

٭٭٭

کبھی خود کو درد شناس کرو، کبھی آؤ نا!

مجھے اتنا تو نہ اداس کرو، کبھی آؤ نا!

مری عمر سرائے مہکے ہے، گل ہجراں سے

کبھی آؤ آ کر باس کرو، کبھی آؤ نا!

مجھے چاند میں شکل دکھائی دے، جو دہائی دے

کوئی چارۂ ہوش و حواس کرو، کبھی آؤ نا!

اسی گوشۂ یاد میں بیٹھا ہوں، کئی برسوں سے

کسی رفت گزشت کا پاس کرو، کبھی آؤ نا!

کہیں آب و ہوائے تشنہ لبی، مجھے مار نہ دے

اسے برکھا بن کر راس کرو کبھی آؤ نا!

سدا آتے جاتے موسم کی، یہ گلاب رتیں

کوئی دیر ہیں، یہ احساس کرو، کبھی آؤ نا!

٭٭٭

(ژن ژن تھیاؤ کی خالق محترمہ تائے آوے لیان کی نذر)

صحنِ گلشن میں گونجی صدائے صبا، ہر کوئی ناچتا ہے

رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے

کچھ گھڑی پیشتر حبس ہی حبس تھا، پھر اچانک ہوا کا

نعرۂ مست بستی میں اونچا ہوا، ہر کوئی ناچتا ہے

پھر بپا ہو گیا ایک جشن کہن قریۂ پر فضا میں

پھر قبیلۂ نخلاں ہے نغمہ سرا، ہر کوئی ناچتا ہے

آبجوئے سر شہر نے لہر میں آ کے سرگوشیاں کیں

خود میں ٹھہرے ہوئے جوہڑوں کے سوا ہر کوئی ناچتا ہے

ایک پردے کا ہے فاصلہ زاہد و زہد کے درمیاں بھی

کوئی مانے نہ مانے درون قبا، ہر کوئی ناچتا ہے

پھر بدن کا لہو وجد میں آ گیا، دیکھ کر اس حسیں کو

دھڑکنوں نے کہا دھڑکنوں نے سنا، ہر کوئی ناچتا ہے

عرش و ابر و ستارہ و مہتاب سب، ڈگمگانے لگے جب

سمفنی چھیڑ دے نغمہ گر بحر کا، ہر  کوئی ناچتا ہے

٭٭٭

میری سیر کی تمنا، تھی مگر کہیں زیادہ

کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ

ترا دست شعبدہ گر، کھلا بعد وقت مجھ پر

ترے بازوؤں سے نکلی تری آستیں زیادہ

کبھی جیت کر نہ جیتے، کبھی ہار کر نہ ہارے

کہ دکھایا ظرف ہم نے کہیں کم کہیں زیادہ

ہے فراق میں بھی یوں تو، وہ مہِ منیر جیسا

ہو اگر قریں زیادہ تو لگے حسیں زیادہ

بڑا سخت واقعہ تھا، جسے سہہ لیا ہے میں تو

میرے حوصلے سے شاید مرا غم نہیں زیادہ

ہے وہی حریف امکاں جو گماں سے منحرف ہو

وہ منکروں میں ٹھہرے جو کرے یقیں زیادہ

٭٭٭

روز کی یکساں مسافت پر مکرر جائیے

یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے

یہ زمانے بھر کی باتیں ختم ہوتی ہیں کہاں

رات کافی ہو چکی اب جائیے گھر جائیے

بیٹھیے سر تان کر گاہے صلیبوں کے تلے

اور گاہے آپ اپنی چاپ سے ڈر جائیے

تب ہو آغازِ سفر جب آنکھ لو دینے لگے

اس شبِ تاریک میں ہو کر منور جائیے

آنکھ کو حسرت کہ بہر دید سو عمریں ملیں

اور دل چاہے کہ اس بے مہر پر مر جائیے

ایک ان سلجھی پہیلی ہے جسے دنیا کہیں

آئیے اوسان لے کر اور ششدر جائیے

نا امیدی میں بھی وابستہ رہیں امید سے

ہو سکے تو اس کی خاطر کچھ نہ کچھ کر جائیے

٭٭٭

تشنہ لب سوال کو دیکھئے کب شفا ملے

کوئی جواب مثل آب سادہ و جاں فزا ملے

اپنی پرانی اصل پر آتا ہوں لوٹ لوٹ کر

سمجھوں میں انتہا جسے وہ مجھے ابتدا ملے

سرد حقیقتوں سے دور جبر یقین سے پرے

پائیں نمو، یہ ذہن و دل ایسی کوئی جگہ ملے

اپنے ہی آپ میں رہے گنج لئیم کی طرح

اس بتِ خود پسند سے دل کی نیاز کیا ملے

ہار گیا ہوں بار بار، اتنا مگر ضرور ہے

ہاتھ قمار باز کا بدلا ہوا ذرا ملے

اس جا تمہاری آس کیا اور ہماری یاس کیا

دھوپ جہاں سفر میں ہو سایہ گریز پا ملے

٭٭٭

جو دل میں ہے اسے کہنا ہے صاف صاف مجھے

ہے اس کی ساری خدائی سے اختلاف مجھے

مرے سخن اسے اچھے لگیں، لگیں نہ لگیں

جو کر سکے تو کرے زندگی معاف مجھے

کسی گدا کی طرح کوئے رزق و جنس میں کیوں

تمام عمر ہی کرنا پڑا طواف مجھے

یہ جور و جبر میں کس کے حساب میں ڈالوں

بجا کہ اپنی کمی کا ہے اعتراف مجھے

یہ نصرتیں، یہ شکستیں ۔ تمام بے معنی

نہال کر گیا آخر یہ انکشاف مجھے

ہر ایک شکل پس شکل مسخروں جیسی

یہ کار فکر و متانت لگے ہے لاف مجھے

٭٭٭

اس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا

ریت سے جھلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا

آخرش وہ اور اس کی بوریا ہی رہ گئے

دل کی طغیانی نے شاہ و شہ نشیں کو  دھو دیا

دل میں اس کی شکل کے سو عکس اب بنتے نہیں

ایک ہی آنسو نے چشم بے یقیں کو دھو دیا

دھوپ کو ابر مقدس ارغوانی کر گیا

بوسۂ باراں نے ہر شے کی جبیں کو دھو دیا

ظلم برپا تو ہوا لیکن کہاں برپا ہوا

میری غفلت نے کسی کی آستیں کو دھو دیا

جسم پر چھائی ہوئی شہوت کے ابر نار کا

قہر وہ برسا کہ ہر نقش حسیں کو دھو دیا

٭٭٭

ایک بلندی سے یوں، آئی صدائے خیال

بول رہا ہو کہیں، جیسے خدائے خیال

اسم بہار آفریں یاد نہیں، دیکھئے

کب وہ مسیحا ہمیں دے گا شفائے خیال

سیرِ فلک ہو گئی، جو نہ ملا مل گیا

کیسے عجب معجزے کر کے دکھائے خیال

کیسے اسے دیکھتی آنکھ نظر کے سوا

وہ جو کفِ گل پہ ہے رنگ جنائے خیال

دور زر و زور کے منطقۂ گرم سے

راس مجھے آ گئی آب و ہوائے خیال

جوئے ستارہ بہے باغ شبِ ہجر میں

تخت صبا پر اسے دور سے لائے خیال

دشت تضادات میں کھو نہ گیا ہو کہیں

آئی نہیں دیر سے کوئی صدائے خیال

٭٭٭

لات و منات جہل کے فرزند ہیں بہت

اس شہر میں ہمارے خداوند ہیں بہت

کھلتے نہیں یہ زور مسلسل کے باوجود

آلودگیِ کہنہ سے در بند ہیں بہت

دے وقفۂ سکون پر اٹھا ہوا قدم

راہِ سفر میں سختیاں ہرچند ہیں بہت

کھوئیں گے کیا یہ معرکہ دو بارہ ہار کر

فکر زیاں کریں جو خرد مند ہیں بہت

پوشیدگی ہے ایک طرح کی برہنگی

دلق گدا پہ مکر کے پیوند ہیں بہت

ان کو شعور رفتہ و آئندہ دیجیے

یہ لوگ رسم وقت کے پابند ہیں بہت

٭٭٭

یہ وسعتیں تا آسماں، گہرائیاں پاتال تک

ہوں قید ان کے درمیاں میعاد ماہ و سال تک

کیسے، کہاں ڈھونڈوں اسے وہ جو ورائے چشم ہے

آئینہ دکھلاتا نہیں، اپنے ہی خدوخال تک

میری کتاب ہست میں، محفوظ ہے لکھا ہوا

ہر واقعہ، ہر حادثہ، روزِ ازل سے حال تک

اس پیر دانش مند کی عمر طویل الٹے اگر

دیکھے، ہے کتنا فاصلہ اقوال سے افعال تک

شاید کہ تم ہو جانتے، چہرہ شناسی کا ہنر

آیا ہوں کتنی دیر سے، پوچھے نہیں احوال تک

٭٭٭

کچھ ہم مزاج خطۂ مرعوب ہے یہی

شاید اسی لیے ہمیں محبوب ہے یہی

اتنا نہ غور کر کہ ترا دل ہی ٹوٹ جائے

اس نازنین دہر کا اسلوب ہے یہی

اس خواب کے صلے میں یہ ساری اذیتیں

سہ لے، کہ آدمی کے لیے خوب ہے یہی

ہستی ہے ایک سلسلہ رد و قبول کا

یعنی صلیب و صالب و مصلوب ہے یہی

ٹھہرے گناہ گار جو سب سے ہو بے گناہ

کارندگان عدل کو مطلوب ہے یہی

دیکھو! ہم اس کی زد میں خس و خاک ہو چلے

دستِ قضا میں وقت کا جاروب ہے یہی

چلئے اسے یہ کاغذ خالی ہی بھیج دیں

لکھا گیا نہ ہم سے، وہ مکتوب ہے یہی

ایمان مستقیم رہا کفر کے طفیل

اس بے وفا سے واقعہ منسوب ہے یہی

٭٭٭

منزل قریب آئی تو ایسے بہک گئے

رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے

نکلے کبھی نہ اپنے مضافات سے پرے

اپنی تلاش میں جو بہت دور تک گئے

اک نسل کے لہو سے چراغاں تھے راستے

یہ کیا ہوا کہ قافلے پھر بھی بھٹک گئے

خبروں کے شعبدے وہ دکھا کر دمِ سحر

شہ سرخیوں سے چشم بصارت کو ڈھک گئے

آئے نظر چراغ سے چہرے فضاؤں میں

یادیں جو ٹمٹمائیں، اندھیرے مہک گئے

دیکھو نا اب بھی ہال کی خالی ہیں کرسیاں

ہم تو دکھا دکھا کے کرامات تھک گئے

٭٭٭

مرنا اگر ضرور ہے تو جینا چاہیے

ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہیے

چاہے کہ دیکھ کر بھی نہ دیکھا کرے کوئی

اس حکمراں کو خلقت نابینا چاہیے

دیکھیں کہ عکس کوئی بدلتا ہے کس طرح

اک اور آئینہ پس آئینہ چاہیے

بیٹھے رہیں مرقعٔ ایام کھول کر

قربت میں کوئی ہمدمِ دیرینہ چاہیے

طے کر سکو گے راہِ محبت کی منزلیں!

دل میں بہت غرور بڑا کینہ چاہیے

آ اس طرح سے حسن کو نا مطمئن کریں

اس زخم شاعری کو کبھی سینا چاہیے

٭٭٭

عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے

دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے

چہرے کو بے چہرہ کر کے، بدلے میں

چلئے کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے

سچ کہتے ہو، روز کی دنیا داری میں

اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے

جزیہ ہے جو روز کے زندہ رہنے کا

ہم سے وہ مزدوری تو ہو جاتی ہے

سچ وہ مرشد، جس کی ایک سفارش سے

عرضی کی منظوری تو ہو جاتی ہے

اہلِ جنوں آسودہ ہوں جس مٹی میں

وہ مٹی کستوری تو ہو جاتی ہے

الف انا کے پوری قد میں چلتا ہوں

شرط فقیری پوری تو ہو جاتی ہے

٭٭٭

جو ہونا چاہیے اس کے علاوہ کیا نہیں ہوتا

کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا

بچھڑنا حادثہ بن جائے خود جاں سے بچھڑنے کا

کس کے ساتھ ایسا ربط بھی اچھا نہیں ہوتا

حقیقت پر گماں، پھر اس گماں پر بھی گماں کرنا

یہ صورت ہو تو عکس افروز آئینہ نہیں ہوتا

ہمیں نظارہ کرواتا ہے بے ساحل سمندر کا

وہ آنسو جو ہماری آنکھ پر افشا نہیں ہوتا

ہم اپنے آپ کو اس شہر کا حاکم سمجھتے ہیں

ہمیشہ کی طرح جب جیب میں پیسہ نہیں ہوتا

لگا ہے قفل پر چہرے پر نامانوس چہرے کا

کہیں پہچان کا دروازہ ہم پر وا نہیں ہوتا

٭٭٭

عکس رخسار سے جب آنکھ گلابی ہووے

لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے

ایک دوری ہے جو کٹتی ہی نہیں قربت سے

بے حجابی بھی حقیقت میں حجابی ہووے

ہم کہ چلتی ہوئی راہوں کے مسافر ٹھہرے

دوستو! اگلی ملاقات شتابی ہووے

آنکھ بھر دیکھ تو لوں اس کو مگر سوچتا ہوں

زندگی بھر کے لیے کون شرابی ہووے

بحر زادہ ہوں، کسی روز تو اے میرے خدا!

یہ ٹھکانا مرا صحرائی سے آبی ہووے

٭٭٭

یہی نا! قد و قامت میں ذرا سے مختصر ہوتے

اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے

انہیں اپنے لیے گملوں کی آسائش پسند آئی

یہ پودے رنج سہہ لیتے تو جنگل کے شجر ہوتے

عجب خواہش کہ فرش سنگ سے ڈھانپی زمینوں میں

گلوں کو شہرتیں ملتیں، پرندے نام ور ہوتے

اگر کھلتے نہ اس آنگن میں باغیچے تماشوں کے

تو روز و شب مکان وقت میں کیسے بسر ہوتے

ہوا نے ساز شاخوں پر ابھی چھیڑا نہیں، ورنہ

سماعت کی تہی جھولی میں نغموں کے ثمر ہوتے

جہاں خطاط زر لفظوں کی تقدیریں بناتا تھا

وہاں مقبول کیوں سادہ نویسوں کے ہنر ہوتے

٭٭٭

کہیں چھاؤں نہیں لیکن ہمیں چھاؤں میں رہنا ہے

تمنا کی تصور زاد دنیاؤں میں رہنا ہے

ہمیں اگلا سفر شاید کہ لا محدود کر دے گا

وہاں تک اک نہ اک زنجیر کو پاؤں میں رہنا ہے

مناسب ہے ان آنکھوں کا بہا دینا سرابوں میں

کہ آخر عمر بے معنی کے صحراؤں میں رہنا ہے

یہی ہم پر کھلا، رد عقیدہ بھی عقیدہ ہے

کلیساؤں سے باہر بھی کلیساؤں میں رہنا ہے

ہوا اک بار پھر ناکام منصوبہ بغاوت کا

ابھی اس کشت زار جبر کے گاؤں میں رہنا ہے

گرفت ریگ سے کچھ کربلائیں تم بنا لو گے!

رواں رہنے کا پھر بھی عزم دریاؤں میں رہنا ہے

٭٭٭

یا پھونک سے چراغ، بجھا دے حواس کا

یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا

دم گھٹ گیا ہے لمس لطافت سے اے خدا

اعلان کر ہواؤں میں مٹی کی باس کا

ہر آب جو پہ ریت کا پہرہ لگا ہوا

یہ زندگی ہے یا کوئی صحرا ہے پیاس کا

جب دے سکا نہ کوئی گواہی سر صلیب

جرمانہ شہر پر ہوا خوف و ہراس کا

گھر کے سکوت نے تو ڈرایا بہت مگر

وجہ سکوں تھا شور میرے آس پاس کا

ہر دست پر فسوں، یدِ بیضا دکھائی دے

اے روشنی پرست! یہ منظر ہے یاس کا

دستک ہر اک مکان پہ دنیا پڑی مجھے

مقصود تھا سراغ مرے غم شناس کا

٭٭٭

نظر یوں شام آئی، ڈوبتی کرنوں کی چلمن سے

کہ جیسے پیرہن سرکے، کسی کے سانولے تن سے

میں اپنی پستیوں میں رہ ہی لیتا مطمئن ہو کر

مگر یہ آسماں ہٹتا نہیں ہے میرے روزن سے

توقع اس سے رکھیں معتدل ہی دوست داری کی

وہ جس نے ٹوٹ کر نفرت نہ کی ہو اپنے دشمن سے

مکاں کی تنگیوں میں وسعتوں کی روشنی آئے

ہٹاؤ بھی ذرا یہ پردۂ دیوار، آنگن سے

سفر کا تجربہ، اتلاف مال جاں کے بدلے میں

بطور رخت فردا، ہم بچا لائے ہیں رہزن سے

سفر در پیش ہے شاید خزاں کی خیمہ بستی کا

ہوا ہجرت کی باتیں کر رہی ہے اہل گلشن سے

یہی بے معنویت، غالباً حاصل ہے جذبوں کا

ہمیشہ راکھ سی اڑتی رہے شعلے کے دامن سے

خلل شاید کبھی رب نمو کی نیند میں آئے

گرائے جا شرر بیداریوں کے چشم روشن سے

٭٭٭

دکھائی جائے گی شہرِ شب میں سحر کی تمثیل، چل کے دیکھیں

سر صلیب ایستادہ ہو گا خدائے انجیل، چل کے دیکھیں

گلوں نے بندِ قبا ہے کھولا، ہوا سے بوئے جنوں بھی آئے

کریں گے اس موسم وفا میں، ہم اپنی تکمیل، چل کے دیکھیں

خلاف اصحاب فیل اب کے، زیاں ہوئی غیب کی بشارت

پڑا ہوا خاک پر شکستہ، پر ابابیل، چل کے دیکھیں

چنے ہیں وہ ریزہ ریزہ منظر، لہو لہو ہو گئی ہیں آنکھیں

چلو نا! اس دکھ کے راستے پر سفر کی تفصیل چل کے دیکھیں

فضا میں اڑتا ہوا کہیں سے، عجب نہیں عکس برگ آئے

خزاں کے بے رنگِ آسماں سے اٹی ہوئی جھیل، چل کے دیکھیں

لڑھک گیا شب کا کوہ پیما، زمیں کی ہمواریوں کی جانب

کہیں، ہوا گل نہ کر چکی ہو انا کی قندیل، چل کے دیکھیں

٭٭٭

عشرت خواب سے دہکا کے بدن آنکھوں کا

بے خزاں رکھتے ہیں ہم لوگ چمن آنکھوں کا

رہ گئی شام سی ٹھہری ہوئی سر کنڈوں میں

کھا گیا سارے مناظر کو گہن آنکھوں کا

کیا خبر انگلیوں کو ذائقے چھونے کے ملیں

اور نغموں سے مہکنے لگے بن آنکھوں کا

آ کہ اس دھوپ کے پردیس میں آباد کریں

چشم و گیسو کے تصور سے وطن آنکھوں کا

رنج کیسا کہ زمانے کا طریقہ ہے یہی

وقت کے ساتھ بدلتا ہے چلن آنکھوں کا

تو کہ پس ماندۂ خواہش ہے، طلب کر خود سے

وہ زر خون جسے کہتے ہیں، دھن آنکھوں کا

٭٭٭

ہم خود دار کبھی یہ جرأت کر جاتے

جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے

دجلۂ خاک میں خواہش کی طغیانی تھی

جسم سفینے کیسے پار اتر جاتے

آنکھوں کی تربیت ہم پر لازم تھی

اپنے آپ سے ورنہ خود ہی ڈر جاتے

٭٭٭

ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا

آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا

کیوں یہ ہم صورت رواں ہیں مختلف اطراف میں

ہے کہیں سے قافلے کا سلسلہ ٹوٹا ہوا!

وائے مجبوری کہ اپنا مسخ چہرہ دیکھئے

سامنے رکھا گیا ہے آئنہ ٹوٹا ہوا

خود بخود بدلے تو بدلے یہ زمیں، اس کے سوا

کیا بشارت دے ہمارا حوصلہ ٹوٹا ہوا

خواب سے آگے شکستِ خواب کا تھا سامنا

یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا

کچھ تغافل بھی خبر داری میں شامل کیجیے

ورنہ کر ڈالے گا پاگل، واہمہ ٹوٹا ہوا

٭٭٭

اک فنا کے گھاٹ اترا، ایک پاگل ہو گیا

یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا

جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی

کون کہتا ہے اس کا حوصلہ شل ہو گیا

ذہن پر بے سمتیوں کی بارشیں اتنی ہوئیں

یہ علاقہ تو گھنے راستوں کا جنگل ہو گیا

اس کلید اسم نا معلوم سے کیسے کھلے

دل کا دروازہ کہ اندر سے مقفل ہو گیا

شعلہ زار گل سے گزرے تو سر آغاز ہی

اک شرر آنکھوں سے اترا، خون میں حل ہو گیا

شہر آئندہ کا دریا ہے گرفت ریگ میں

بس کہ جو ہونا ہے، اس کا فیصلہ کل ہو گیا

موسم خیراتِ گل آتا ہے کس کے نام پر

کون ہے جس کا لہو اس خاک میں حل ہو گیا

اس قدر خوابوں کو مسلا پائے آہن پوش نے

شوق کا آئین بالآخر معطل ہو گیا

٭٭٭

نئے شعور، نئے وقت کا طلسم لگے

کہ اپنا اسم مجھے ہر کسی کا اسم لگے

ہمیشہ اپنی فنا میں بقا تلاش کرے

بڑی عجیب مجھے جستجوئے جسم لگے

گرا جو نار زمانہ میں، سرفراز ہوا

یہ آگ آتشِ نمرود کی ہی قسم لگے

یہ واہمہ ہے کہ افسوں، کہ وصفِ خاص اس کا

کبھی وہ سایہ لگے اور کبھی وہ جسم لگے

جو دور ہو تو جگائے ہوس فسوں کیا کیا

قریب آئے تو ہر چیز بے طلسم لگے

٭٭٭

جب وہ اقرار آشنائی کرے

گل کف شاخ کو حنائی کرے

جس کو کم کم نیاز جاں ہو نصیب

کوئی اقدام انتہائی کرے

پھر سے تالیف دل ہو، پھر کوئی

اس صحیفے کی رو نمائی کرے

ہائے یہ نازنین مرد افگن

کون دنیا سے آشنائی کرے

٭٭٭

دنیا کے راستے پہ لگایا نہ جا سکا

پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا

وہ پیاس تھی کہ بات گلے میں اٹک گئی

خواب شب گناہ سنایا نہ جا سکا

ظلمت تو آشکار ہوئی کشف نور سے

پر روشنی کا پردہ اٹھایا نہ جا سکا

سورج سفر میں ساتھ تھا نصف النہار پر

میری جلو میں خود مرا سایہ نہ جا سکا

یہ جبر کا نظام، یہ خود رو مجسمہ

ڈھایا گیا مگر کبھی ڈھایا نہ جا سکا

اک چوب نم گرفتہ سلگتی رہی مدام

سینے میں جشن شعلہ جگایا نہ جا سکا

بے نام سا گزر گیا خود اپنی اوٹ میں

وہ کون تھا، اسے کبھی پایا نہ جا سکا

٭٭٭

ثبت ہیں دن کی راہ میں، نیلے سائے شام کے

جیسے پشت دست پہ حرف کھدے ہوں نام کے

انہونی سی آرزو، لپکے اٹھے ہاتھ سے

جاؤں اپنے دیس کو اڑتے بادل تھام کے

ڈیوڑھیوں کے بیچ سے، جاتا ہے یہ راستہ

بند کیے جا کھول کے، دروازے ایام کے

عمروں کے ملبوس پہ کل کے سکھ کی آس میں

کاڑھیں دکھ کی دیویاں سپنے عام عوام کے

کس تربیت کار نے پیدا کیں یہ سختیاں

کند ہوئے احساس پہ دندانے دشنام کے

جب سمتوں کی رات میں، میں بے حالت ہو گیا

چھلکے اک اک چیز سے لشکارے پیغام کے

٭٭٭

چاپ گرتے پتوں کی، مل رہی ہے خوشبو میں

رنگ کچھ ادھورے سے، تھرتھرائے آنسو میں

میرے پاؤں کے نیچے دلدلیں ہیں سایوں کی

شام آ پڑی شاید پربتوں کے پہلو میں

وصف دیوتاؤں کے، ڈھونڈتے ہو کیا مجھ میں

کون تاب سورج کی، پا سکا ہے جگنو میں

عدل ہے یہ آمر کا، اس طرح اسے سہہ جا

آندھیاں تلیں جیسے برگ کے ترازو میں

تالیاں بجا کر رو، دیکھ اس تماشے کو

المیے کا ہیرو ہے، مسخرے کے قابو میں

سہہ رہا ہوں برسوں سے یورشیں زمانے کی

لوچ ہے شجر کی سی میرے دست و بازو میں

٭٭٭

زمین پنج آب! تیری چاہتوں کے طاس میں

بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں

نکل نہیں رہیں گھروں سے، سوہنیوں کی

خیر ہو

دھوئیں کا ذائقہ ہے آج دھوپ کی مٹھاس میں

اگر مشقتوں کا ہے معاوضہ برہنگی

لگائیں کیوں نہ چل کے آگ پھولتی کپاس میں

ابھی بہے گی خلوتوں سے روشنی شراب کی

بجیں گی نرم قہقہوں کی گھنٹیاں گلاس میں

بنام چشم و گوش آئیں فیصلے شکوک کے

مچی ہوئی ہے اک عجیب ابتری حواس میں

وہ عرضِ مدعا میں پیچ ڈھونڈتے ہی رہ گئے

بہت زیادہ سادگی تھی میرے التماس میں

کہاں ہوں! آئنے سے کٹ گیا ہے میرا عکس کیا؟

کہ میری شکل آ نہیں رہی مرے قیاس میں

٭٭٭

خدائے برگ! مجھے خاک سے اٹھا کے دکھا

اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا

میں سنگ شام سے سر پھوڑنے چلا ہوں ذرا

کنول سے خواب مجھے میری ابتدا کے دکھا

میں نیل نیل ترا حلفیہ بیاں تو پڑھوں

فگار پشت سے کرتا ذرا اٹھا کے دکھا

تجھے میں ہدیۂ تائید دوں مگر پہلے

مرے وجود سے حرف نفی مٹا کے دکھا

تو پربتوں کو زمیں پر پچھاڑ دے تو کیا

ہوس کو جسم کے گھمسان میں ہرا کے دکھا

اسی کے نام کی ہر سو اذاں سنائی دے

نقیب شہر! ہمیں معجزے صدا کے دکھا

نظر فروز ہو جو کل کی سرخیوں کی طرح

وہ لفظ آج سر طاق لب جلا کے دکھا

٭٭٭

گزری آنکھیں میچ کے، شام نگر سے شانتی

کایا شیتل دھوپ کی، میرا دکھ کیا جانتی

تو دھرتی تھی پیار کی، رہتی کیوں بے آسماں

اپنے جلتے جسم پر میرا سایہ تانتی

ایک اشارت خوف کی، ایک بلاوا خون کا

عقل عجب حیران تھی، کس کا کہنا مانتی

رستے رستے آنکھ سے، برسیں زرد اداسیاں

لوٹ کے خالی آ گئی سارے منظر چھانتی

کیسے میں اس بھیڑ میں آتا اس کے دھیان میں

ایک اکیلی زندگی کس کس کو پہچانتی

٭٭٭

تو تعصب کے مقامات سے آگے نہ گیا

کچھ سدھائے ہوئے جذبات سے آگے نہ گیا

یہ بھی انداز تھا حالات کے مفروروں کا

ذہن پر پیچ سوالات سے آگے نہ گیا

معرکہ ہائے شر و خیر کا اک سلسلہ تھا

جو کبھی جیت، کبھی مات سے آگے نہ گیا

کیا سجھائے کہ حد لمس سے آگے کیا ہے

ہاتھ تو خاص مقامات سے آگے نہ گیا

کر دیا سحر سیاست نے دھڑوں کو تقسیم

کوئی اس شہرِ طلسمات سے آگے نہ گیا

لفظ اترا نہ کبھی حاشیے کے ساحل سے

میں بھی چلتا ہی رہا، رات سے آگے نہ گیا

٭٭٭

ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا

واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا

سرسراہٹ رینگتے لمحے کی سرکنڈوں میں تھی

تھا نشہ ساری فضا میں ناگنوں کے زہر کا

تھی صدف میں روشنی کی بوند تھرائی ہوئی

جسم کے اندر کہیں دھڑکا لگا تھا قہر کا

دل میں تھیں ایسے فساد آمادہ دل کی دھڑکنیں

ہو بھرا بلوائیوں سے چوک جیسے شہر کا

آسماں اترا کناروں کو ملانے کے لیے

یہ بھی پھر دیکھا کہ پل ٹوٹا ہوا تھا نہر کا

عیشِ بے میعاد ملتی، پر کہاں ملتی تجھے

میری مٹی کی مہک میں شائبہ ہے دہر کا

٭٭٭

لو حسرت ناداری، ہم دل سے نکال آئے

تھے جیب میں جو سکے، رستے میں اچھال آئے

سر کہنیوں پر ٹیکے، بیٹھے ہیں پیاسے ہم

منہ بند شرابوں میں شاید کہ ابال آئے

تاریک مناظر نے آنکھوں کے نگر لوٹے

ہم منزل خواہش سے بے نقد خیال آئے

برسیں مری آنکھوں پر جب ٹوٹ کے دوپہریں

شاید مرے اندر کے سایوں کو زوال آئے

ہم خوار ہوئے کتنے انکار کے صحرا میں

سوچوں میں بگولے سے بن بن کے سوال آئے

جو جان کے گوہر سے قیمت میں زیادہ تھی

لو طاق زیاں میں ہم وہ چیز سنبھال آئے

نہیں کہ آگ تری انگلیوں کے مس میں نہیں

لہو کا ولولہ شاید مری ہوس میں نہیں

کروں زبانِ غزل میں اسے ادا کیوں کر؟

وہ راز جو کہ اشاروں کی دسترس میں نہیں

یہ فصلِ گل ہے، مگر اے ہوائے آوارہ

وہ خوشبوؤں کا ترنم ترے نفس میں نہیں

برائے سیر، خزاں کو کہاں پسند آئے

وہ راستہ کہ گزرگاہ خار و خس میں نہیں

سمٹ گیا مرے اندر کا ریگ زار کہ اب

جو تھی کبھی وہ کسک نغمۂ جرس میں نہیں

٭٭٭

سو بہ سو زرد رنگوں کی پھیلی ہوئی تیرگی چھٹ گئی

دلہنیں فرشِ گل پر چلیں، دور تک ان کی آہٹ گئی

کون جانے کہ ہم راہ پر ہیں کہ گم کردۂ راہ ہیں

منزلوں کے دیے کیا بجھے آنکھ میں روشنی گھٹ گئی

سانس نے چھو لیا کس کی سانسوں کی بھیگی ہوئی آگ کو

فرش سے لے کے پاتال تک جسم میں سنسناہٹ گئی

تھا شکنجے میں سارا بدن، حادثہ رونما نہ ہوا

ایک پل کے گزرنے میں ایسے لگا اک صدی کٹ گئی

آنکھ پر سوچ کے ان گنت ماخذوں کی شعاعیں پڑیں

راستوں سے نکلتے ہوئے راستوں میں نظر بٹ گئی

کیوں پر کاہ کے زور سے جبر کے کوہ اڑنے لگے

کیا ذرا سی انا آمر وقت کے سامنے ڈٹ گئی

٭٭٭

جاتی رت کا شور ہے بے آواز صداؤں میں

گھنگھرو سایوں کے بجیں ڈھلتی دھوپ کے پاؤں میں

بدن چرائے دھوپ سے نکلی نہر سے سانولی

چھلکے رنگ غروب کے دن دوپہرے گاؤں میں

عکس ابھرتا آنکھ میں کیسے کل کے خواب کا

نیلا کانچ تھا آسماں پیلی زرد خزاؤں میں

سورج جس کا تاج تھا، دنیا جس کا تخت تھی

وہ بھی شامل ہو گیا بالآخر تنہاؤں میں

بیٹھے آمنے سامنے کہنیاں ٹیکے میز پہ

چٹکے چہرے پھول سے شہر کی شام سراؤں میں

گزرا اپنی اوٹ میں دیکھا کس نے زید کو

ہوتی کیوں سرگوشیاں بستی کی لیلاؤں میں

٭٭٭

تنگ سائے کے بدن پر کس قدر پوشاک تھی

دھوپ کی زریں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی

در پہ ہوتی ہی رہیں بن کھٹکھٹائے دستکیں

ایک نامعلوم اندیشے کی گھر میں دھاک تھی

شہرِ دل میں تھا عجب جشنِ چراغاں کا سماں

ٹمٹماتی گرم بوندوں سے فضا نمناک تھی

مدتوں سے آشتی اپنی تھی اپنے آپ سے

اس رواداری میں لیکن عافیت کیا خاک تھی

تھے حد امکاں سے باہر بھی ارادے کے ہدف

حادثوں کو ورنہ کیوں دائم ہماری تاک تھی

ہم نے پایا تجربے کا بے بہا انعام تو

گو شکستِ خواب کی ساعت اذیت ناک تھی

حال آزادوں کو دور جبر میں کیا پوچھنا

اس فضا میں تو ہوا بھی حبس کی خوراک تھی

٭٭٭

اس کی جرات کو عجب معجزہ کرتے دیکھا

دو بجے رات کے، سورج کو ابھرتے دیکھا

تختۂ دار پہ اقرار کے اکے لمحے نے

اپنی دہلیز پہ صدیوں کو ٹھہرتے دیکھا

آج جو ہو گیا سولی کے بھنور میں روپوش

چشم فردا نے اسے پار اترتے دیکھا

اپنے مرنے کا لیا موت سے پہلے بدلہ

یوں بھی ہم نے کسی سفاک کو مرتے دیکھا

کر گئیں گر کے اسے اپنی فصیلیں عریاں

شہر کا شہر ہواؤں میں بکھرتے دیکھا

جبر کی چھاؤنی میں قہر کا سناٹا تھا

دیوار سے سے آواز کو ڈرتے دیکھا

دور کی ڈوریوں سے خود بھی وہ پا بستہ تھا

ہم نے پتلی کا تماشا جسے کرتے دیکھا

رات کی خاک سے پھوٹا گلِ منظر ایسا

سو بہ سو ایک مشفق زار نکھرتے دیکھا

٭٭٭

نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں

اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں

نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں

رہنے دو، جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں

آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں

منزل بھی بلاتی ہے، صلیبیں بھی کھڑی ہیں

کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا

آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں

خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے

پاتال سے گہری ہیں سمندر سے بڑی ہیں

بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے

کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں

٭٭٭

پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے

کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے

جب بھی اقرار کی کچھ روشنیاں جمع کروں

میری تردید میری بے بصری کر جائے

معدن شب سے نکالے کوئی زر کرنوں کا

کچھ تو کم تیری مری کم نظری کر جائے

وہ جو منصف بھی ہے، محرم بھی ہے مجبوری کا

فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے

٭٭٭

یہ کارِ خیر تا روز ابد کرتا رہوں گا

تمہارے جبر کو میں مسترد کرتا رہوں گا

چراغ خواب یونہی تو نہیں روشن رکھا ہے

میں کل کے آنے والوں کی مدد کرتا رہوں گا

خبر سازی کے دن ہیں اور یہ ہے کار مشکل

مگر میں امتیاز نیک و بد کرتا رہوں گا

٭٭٭

میں جب بھی چھونے لگوں تم ذرا پرے ہو جاؤ

یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ

یہ کارِ عشق مگر ہم سے کیسے سر زد ہو

الاؤ تیز ہے صاحب! ذرا پرے ہو جاؤ

تمہاری عمر بھی اس آب کے حساب میں ہے

نہیں کہ اس کے برسنے سے تم ہرے ہو جاؤ

یہ گوشہ گیر طبیعت بھی ایک محبس ہے

ہوا کے لمس میں آؤ، ہرے بھرے ہو جاؤ

کبھی تو مطلعِ دل سے ہو اتنی بارش اشک

کہ تم بھی کھل کے برستے ہوئے کھرے ہو جاؤ

٭٭٭

اس کو پیدا کر کے خود ناپید ہو جاتا ہوں میں

نقش اک زنداں ہے جس میں قید ہو جاتا ہوں میں

کیا نشانہ ہے کہ اک چشم غلط انداز سے

کتنی آسانی سے اس کا صید ہو جاتا ہوں میں

اک فقیر بےنوا ہوں اپنی جلوت میں مگر

تخلیے میں قیصر و جمشید ہو جاتا ہوں میں

بھیڑ جیسے فرد کا مرقد ہو جس کے درمیاں

میں نہیں رہتا ہوں کوئی زید ہو جاتا ہوں میں

٭٭٭

اسیر حافظہ ہو، آج کے جہان میں آؤ

مکالمے کے لیے عصر کی زبان میں آؤ

پئے ثبات، تغیر پکارتے ہوئے گزرے

چھتیں شکستہ ہیں نکلو، نئے مکان میں آؤ

زمیں کا وقت سے جھگڑا ہے خود نپٹتے رہیں گے

کہا ہے کس نے کہ تم ان کے درمیان میں آؤ

یہ آٹھ پہر کی دنیا تمہیں بتاؤں کہ کیا ہے!

نکل کے جسم سے کچھ دیر اپنی جان میں آؤ

تمہیں تمہاری الف دید میں میں دیکھنا چاہوں

نظر بچا کے زمانے سے میرے دھیان میں آؤ

٭٭٭

محبت کے ابد آباد میں اک گھر بنانا چاہتا ہوں

بنانا جس کا ممکن تو نہیں ہے، پر بنانا چاہتا ہوں

یہ لامحدود آزادی مگر میرے مقدر میں نہیں ہے

کہ میں دیوار میں دیوار جتنا در بنانا چاہتا ہوں

یہ آنسو جو بہت شوریدہ سر ہے، ضبط میں رکھا ہوا ہے

میں اس کی پرورش کر کے اسے گوہر بنانا چاہتا ہوں

کہیں امکان سے باہر نہ ہو یہ خواہش تعمیر میری

کہ میں دنیا کو دنیا سے ذرا بہتر بنانا چاہتا ہوں

زمیں پیرانہ سالی میں جھکے افلاک سے تنگ آ گئی ہے

نیا سورج، نئے تارے، نیا امبر بنانا چاہتا ہوں

یہ دنیا ان گنت اصنام کا اک بت کدہ لگتی ہے مجھ کو

انہیں مسمار کر کے ایک ہی پیکر بنانا چاہتا ہوں

٭٭٭

عجب خواب و حقیقت کے جہاں میں رہ رہا ہوں

میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں

رواں رہتا ہوں عالم گیر ہجرت کے سفر میں

زمیں پر رہ رہاں ہوں اور زماں میں رہ رہا ہوں

ذرا پہلے گماں آباد فردا کا مکیں تھا

اور اب نسیاں سرائے رفتگاں میں رہ رہا ہوں

مرے پرکھوں نے جو میرے لیے خالی کیا تھا

میں اگلے وارثوں کے اس مکاں میں رہ رہا ہوں

مکاں میں لامکاں کا چور دروازہ بنا کر

ہمیشہ سے ہجوم دلبراں میں رہ رہا ہوں

زمین و آسماں کا فاصلہ ہے درمیاں میں

میں سجدہ ہوں تمہارے آستاں میں رہ رہا ہوں

٭٭٭

فقیر ہوں مجھے لٹنے کا ڈر زیادہ نہیں

کہ میرے کیسۂ خواہش میں زر زیادہ نہیں

کرن کی قید میں ہے آئینے کی بینائی

میں اس کو دیکھ تو سکتا ہوں پر زیادہ نہیں

ہمارے دور میں تو واقعہ بھی کرتب ہے

یہ ہم جو دیکھتے ہیں، معتبر زیادہ نہیں

اور ان میں ایک در مے کدہ بھی شامل ہے

غموں سے بچ کے نکلنے کے در زیادہ نہیں

میں اس کی شکل بناتا ہوں، پر نہیں بنتی

قلم کی نوک میں تاب ہنر زیادہ نہیں

میں اہلِ دل کی ثنا خوانیوں میں رہتا ہوں

بلا سے، نام مرا مشتہر زیادہ نہیں

٭٭٭

دار پر اس کی گواہی کا ہے حوالہ ہے بہت

عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت

ناتوانی کو توانائی کا یہ معجزہ ہے

ہر ہلاکو کے لیے ایک فلوجہ ہے بہت

اے انا الوقت! محبت کے کسی روپ میں آ

خود کو برباد نہ کر لوں، مجھے خطرہ ہے بہت

حسن دریا ہے مری آنکھ میں گرنے والا

پھر بھی پیاسا ہوں اگرچہ تجھے دیکھا ہے بہت

اتنا سادہ ہوں تو کچھ وجہ بھی ہو گی شاید

ضبط میں میری انا نے مجھے رکھا ہے بہت

اور اس وہم سے بھی جا کے نمٹ لے پیارے

شہر فردا میں سنا ہے ترا چرچا ہے بہت

زندگی جیسے سبھی موسموں کا میلہ ہو

سیر کے واسطے یہ گلشن دنیا ہے بہت

٭٭٭

اسے تو وعدۂ فردا کا ہی بہانہ بہت ہے

ہمیں بنام وفا اس نے آزمانا بہت ہے

نئے سفر پہ چلے ہو، اسے اتارتے جاؤ

تمہارا پیرہن زندگی پرانا بہت ہے

دیارِ غیر میں کیوں خفتیں سمیٹنے جاؤں

مرے لیے مری مٹی کا یہ ٹھکانا بہت ہے

میں اپنی ارض حسیں سے سلوک جیسا کروں

مجھے ہے اس سے محبت، یہی بہانہ بہت ہے

عدو سے دوستی کر لی تو کیا برائی ہے اس میں

مگر یہ کار سیاست منافقانہ بہت ہے

مجھے بھی عرش کے آدرش سے اترنا پڑے گا

کہ میری وقت کا معیار درمیانہ بہت ہے

میں اس سے صلح بھی کر لیتا، کچھ بعید نہیں

مگر وہ اپنے رویے میں درمیانہ بہت ہے

٭٭٭

مسئلہ آدمی کا حل نہیں ہونے والا

وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا

ایک تعمیر جو ہر دم زد تخریب میں ہے

اس جگہ کچھ بھی مکمل نہیں ہونے والا

جھیل ہے آنکھ مری، ایک پرت پانی کی

جس سے جلوہ ترا اوجھل نہیں ہونے والا

اس عنایت میں کوئی اس کی غرض بھی ہو گی

یہ کرم تم پہ مسلسل نہیں ہونے والا

شوق سے بوجھ مصائب کا بڑھاتے جاؤ

یہ جو ہے دوش مرا، شل نہیں ہونے والا

٭٭٭

میں اپنے واسطے رستہ نیا نکالتا ہوں

دلیل شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں

بہت ستایا ہوا ہوں لئیم دنیا کا

سخی ہوں، دل کی پرانی خلش نکالتا ہوں

زمانہ کیا ہے؟ کبھی من کی موج میں آؤں

تو نوک نقش پہ اپنی اسے اچھالتا ہوں

یہ میرا کنج مکاں، میرا قصر عالی ہے

میں اپنا سکۂ رائج یہیں پہ ڈھالتا ہوں

مری غزل میں زن و مرد جیسے باہم ہوں

اسے جلالتا ہوں، پھر اسے جمالتا ہوں

ذرا پڑھیں تو مری اختیار میں نہ رہیں

یہ نونہال جنہیں مشکلوں سے پالتا ہوں

٭٭٭

پاؤں پاؤں ڈولتا، اور سنبھلتا آدمی

نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی

آتی جاتی کثرتیں کار گہ ایام کی

قالب جیسی روح پہ، جسم بدلتا آدمی

جسم دہکتا کوئلہ پھونک بناتی سانس سے

عمر کے آتش دان کی آگ میں جلتا آدمی

مٹی کے باغات میں تیز ہوا کا شور ہے

گر ہی نہ جائے شاخ سے پھولتا پھلتا آدمی

٭٭٭

اسی کا عکس ہے مجھ میں، خدا کی بخشش ہے

بقا بھی آئینہ دار بقا کی بخشش ہے

میں کس عذاب میں یہ بارِ سر اٹھائے ہوئے

جیا ہوں اور یہ میری انا کی بخشش ہے

یہ اس کی پرسش یک لفظ اس زمان میں

میرے خیال میں تو انتہا کی بخشش ہے

نظیر اس کی زمیں پر کہیں نہیں ملتی

یہ شاعری اسی آب و ہوا کی بخشش ہے

٭٭٭

میں کائنات کے مانند ہوں خدائی میں

زمین ایک خلل ہے مری اکائی میں

میں دل کا اتنا سخی ہوں، خدا معاف کرے

کہ ڈھونڈ سکتا ہوں نیکی، تری برائی میں

یہ جسم شخص لگے روح کے علاقے کا

عجیب لطف دو عالم ہے آشنائی میں

رکا ہوا کوئی لمحہ نہ مجھ کو روک سکے

خدا کرے کہ رہوں رات دن رہائی میں

ملا تھا نقد سرِ راہ اس کے جلوے کا

گزر بسر ہوئی اپنی اسی کمائی میں

میں روز جیتا رہا اور روز مرتا رہا

مرا بھی نام لکھو کل کی کارروائی میں

٭٭٭

لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا

اک اشک فراموش مرے دھیان میں آیا

خوں ہو کہ یہ دل طاق ہوا عرضِ ہنر میں

یہ ساز سدا ٹوٹ کے ہی تان میں آیا

تھا خواب بھی اک کرمک شب تاب کی صورت

جو روز میرے تیرہ شبستان میں آیا

کچھ یوں بھی مجھے عمر کے گھٹنے کا قلق تھا

کچھ سخت خسارہ میرے ارمان میں آیا

اے ربِ سخن! میں کوئی ایسا تو نہیں تھا

کیا جانیے، کیسے تیری پہچان میں آیا

وہ دید بھی کیا دید تھی، پر کیسے بتاؤں

اک عمر ہوئی میں نہیں اوسان میں آیا

٭٭٭

اسی گماں کا سراپا دل و دماغ میں آئے

وہ شہ گلاب میری زندگی کے باغ میں آئے

پڑھوں تو صبح تلک ہچکیوں میں پڑھتا ہی جاؤں

کشید حرف کچھ ایسی مرے ایاغ میں آئے

خلا بھی خالی نہیں ہے ادھر نگاہ کروں تو

پلٹ کے روشنی سی دل کے داغ داغ میں آئے

عذاب کارِ جہاں سے اسے نکلنا سکھاؤں

اسے کہو کہ مرے حجلۂ فراغ میں آئے

میں شب کے طاقچۂ لامکاں میں رکھا گیا ہوں

میری ہی چشم نما روشنی چراغ میں آئے

کرن کی تاب فزودہ سے جو بنایا گیا ہو

وہ مہر زادہ کہاں آنکھ کے سراغ میں آئے

٭٭٭

ذات کی نظربندی میں ادب پڑا ہے کیا

یا قلم کی ہمت سے واقعہ بڑا ہے کیا

بھر گیا ہے لاشوں سے، آئینہ خراشوں سے

اپنے آپ سے کوئی رات بھر لڑا ہے کیا

عین ہیں اکائی میں خط و قوس ابجد کے

اس نے عین فرصت میں وہ بدن گھڑا ہے کیا

اپنے آپ کو دیکھوں اور دیکھتا جاؤں

آئینے کے اندر بھی آئینہ جڑا ہے کیا

عزم لے کے جاتا ہوں اور لوٹ آتا ہوں

سنگِ میل قسمت کا راہ میں گڑا ہے کیا؟

اس سپاہ پسپائی، سے سوال کیا پوچھوں

جان سے گزرنے کا مرحلہ کڑا ہے کیا؟

٭٭٭

اک چادر بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں

اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں

آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامہ دنیا پر

اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں

کیفیت بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں

بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں

میں کون ہوں! ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں

اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں

جو قرض کی مے پی کر تسخیر سخن کر لے

ایماں اسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں

٭٭٭

وہ عطر خاک اب کہاں پانی کی باس میں

ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں

کل رات آسمان میرا میہماں رہا

کیا جانے کیا کشش تھی مرے التماس میں

ممنون ہوں میں اپنی غزل کا، یہ دیکھئے

کیا کام کر گئی میرے غم کے نکاس میں

میں قید ہفت رنگ سے آزاد ہو گیا

کل شب نقب لگا کے مکان حواس میں

پھر یہ فساد فرقہ و مسلک ہے کس لیے

تو اور میں تو ایک ہیں اپنی اساس میں

٭٭٭

وقت کے ساتھ بدلنے کی جنہیں عادت ہو

ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو

جیسے دیوار میں در وقفۂ آزادی ہے

کیا خبر جبر و ارادہ میں وہی نسبت ہو

روزمرہ کے مضافات میں ہم گھوم آئیں

اتنی فرصت ہو، مگر اتنی کسے فرصت ہو

آدمی روز کی روٹی پہ ہی ٹل جاتا ہے

اور بیچارے پہ کیا اس سے بڑی تہمت ہو

ایک رفتار میں یوں وقفہ بہ وقفہ چلنا

کیا عجب، وقت کو چلنے میں کوئی دقت ہو

سرخ منقار کا میں سبز پرندہ تو نہیں

کیوں نہ تکرار کی خو میرے لیے زحمت ہو

٭٭٭

زمیں کے ساتھ میری آنکھ بھی مدار میں ہے

میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے

سفر ہے پیش قدم صد ہزار صدیوں کا

تمہاری شہرت دو گام کس شمار میں ہے

بندھی ہوئی ہیں اکائی میں کثرتیں ساری

ہر ایک اور کسی اور کے حصار میں ہے

خرد تو آج کا زنداں ہے اس سے باہر بھی

یہ آنکھ وہم و تصور کے اختیار میں ہے

انا کے نشے میں ورنہ خدا ہی بن جاتا

یہی تو جیت ہے جو آدمی کی ہار میں ہے

کبھی جو دھیان میں لاؤں تو ڈگمگا جاؤں

عجیب نشہ تری آنکھ کے خمار میں ہے

بلا سے، آج کسی نے اگر نہ پہچانا

وہ دیکھ! کل کا جہاں میرے انتظار میں ہے

٭٭٭

اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام

منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام

ڈگمگاتی ہوئی ہر گام سنبھلتی ہوئی شام

خواب گاہوں سے ادھر خواب میں چلتی ہوئی شام

گوندھ کر موتیے کے ہار گھنی زلفوں میں

عارض و لب پہ شفق سرخیاں ملتی ہوئی شام

اک جھلک پوشش بے ضبط سے عریانی کی

دے گئی، دن کے نشیبوں سے پھسلتی ہوئی شام

ایک سناٹا رگ و پے میں سدا گونجتا ہے

بجھ گئی جیسے لہو میں کوئی جلتی ہوئی شام

وقت بپتسمہ کرے آب ستارہ سے اسے

دست دنیا کی درازی سے نکلتی ہوئی شام

٭٭٭

بادۂ شعر سے تو مفت کی مے پیتا رہ

اے میرے مست ہمہ وقت، سدا جیتا رہ

کار بیگار تمنا سے رہائی کیسی

زخم جو سل نہیں سکتا ہے اسے سیتا رہ

کیا تصور میں بھی پینے کی سرا ہوتی ہے

جو نہیں ہے تو سرِ عام اسے پیتا رہ

خاک نسیاں سے بھلا کون اٹھائے گا تجھے

تو کہ اک واقعہ تھا، بیت چکا، بیتا رہ

٭٭٭

وقت کی ہر آفت کو اپنے سر سے ٹالے رکھتا ہوں

یادوں کا تعویذ ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھتا ہوں

خواب کے روزن سے در آئی روشنیوں کا کیا کہنا

گھور اندھیرے میں بھی اپنے پاس اجالے رکھتا ہوں

ہر مایوسی سہہ لیتا ہوں شاید اس کی برکت سے

یہ جو انہونی کا سپنا دل میں پالے رکھتا ہوں

کیا معلوم کہ جانے والا سمت شناس فردا ہو

تھوڑی دور تو ہر مرکب کی باگ سنبھالے رکھتا ہوں

اپنے اس انکار کے باعث دین کا ہوں نہ ہی دنیا کا

ہر خواہش کو پاؤں کی ٹھوکر پہ اچھالے رکھتا ہوں

زہر کا پیالہ، سوکھا دریا اور صلیب و دار و رسن

میں بھی اپنے ہونے کے دو چار حوالے رکھتا ہوں

٭٭٭

وہ اختلاف نظر درمیاں میں آیا رہا

کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا

وہاں کی روشنیاں بھی مثال ظلمت تھیں

جہاں جہاں مری نا دیدنی کا سایا رہا

یہی کہ نذر تب و تاب زر ہوئیں آنکھیں

غبار بے بصری بستیوں پہ چھایا رہا

یہ معجزہ تھا سر چشم ایک آنسو کا

تمام منظرِ شب دھوپ میں نہایا رہا

بنام عشق اسے قرض جاریہ کہیے

کہ نقدِ جاں بھی ادا کر کے جو بقایا رہا

٭٭٭

نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا

ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں

پتہ تو ہے کہ اسے عمر بھر نہیں آنا

بس ایک اشک پس چشم تم چھپائے رکھو

بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا

ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی

وگرنہ تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا

یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی

جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے

اسی لیے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا

کروں مسافتیں نا آفریدہ راہوں کی

مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا

٭٭٭

وہ کون اور کہاں ہے ابھی یہ طے ہی نہیں

میں ڈھونڈتا ہوں جسے غالباً وہ ہے ہی نہیں

بغیر اس کے کہاں کثرتیں اکائی بنیں

کہ سا ز ہفت نوا میں وہ ایک لے ہی نہیں

فریب نشہ بھی نشے کی ایک صورت ہے

کہ پی رہا ہوں پیالے میں گرچہ مے ہی نہیں

نکال دے جو سمندر کو اپنے ساحل سے

سرشت آب میں وہ موج پے بہ پے ہی نہیں

میں کائنات ہوں اپنے وجود کے اندر

مرے قریب یہ دنیا تو کوئی شے ہی نہیں

٭٭٭

اس درجہ ہو گیا ہوں سبک غم کے بار سے

جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے

جب چاہے جس کو پھینک دے، منہ زور

ہے بہت

وہ دیکھو! زین ہو گئی خالی سوار سے

خوش ہوں کہ تجھ سے ایک تعلق بنا رہا

ٹوٹا کبھی نہ ربط مرا انتظار سے

بے کار ہی سہی ولے شعروں کے شغل نے

مجھ کو بچا لیا ہے مرے انتشار سے

قربت کے ساتھ خواہش دیگر بھی چاہیے

باہر ہے لطف لمس مرے اختیار سے

خوشبوئیں لڑکیوں کی طرح گھومتی پھریں

کیا مشورہ ہے، آؤ نا پوچھیں بہار سے

٭٭٭

بدل بھی سکتی ہیں اس چمن کی فضا یہ نظمیں

خیال کی باغبانیاں کر ، اگا یہ نظمیں

یہ رات مانگے جنوں سے نذرانہ روشنی کا

جلا جلا کر سروں سے اونچی اڑا یہ نظمیں

مجھے بہت ہے یہ میری گمنامیوں کی خلوت

مگر کسی دن قبول کر لے خدا یہ نظمیں

سخی صلے میں کسی سے کچھ مانگتا نہیں ہے

یہ لوگ بہرے ہیں ان کو اکثر سنا یہ نظمیں

تمام اوصاف ان میں جیسے ہوں دلبروں کے

حسین و خود بیں، وفا سے نا آشنا یہ نظمیں

میں غیب و حاضر کا نامہ بر ہوں، یہ میرا منصب

یہاں وہاں بانٹتا رہوں گا سدا یہ نظمیں

٭٭٭

مرد نسیاں برد کا نام و نشاں کیا پوچھئے

ہو گیا جزو زمین و آسماں، کیا پوچھئے

نا مقرر راستوں کی سیر ممنوعہ کے بعد

کیوں ہنسی کے ساتھ آنسو ہیں رواں، کیا پوچھئے

ہر نئے ظاہر میں پوشیدہ ہے اک ظاہر نیا

ایک حیرت ہے نہاں اندر نہاں کیا پوچھئے

خود کو نا مشہور کرنے کے یہی تو ڈھنگ ہیں

آفتاب اقبال کا طرزِ بیاں کیا پوچھئے

کیوں اسے پرتوں کی پرتیں کھو جنا اچھا لگے

کیوں کیے جاتا ہے کار رائیگاں کیا پوچھئے

لیکھ ہی ایسا تھا یا آدرش میں کچھ کھوٹ تھی

زندگی ہم سے رہی کیوں بدگماں کیا پوچھئے

ہم نے سمجھا یا تو تھا لیکن وہ سمجھا ہی نہیں

آج کا یہ سود ہے کل کا زیاں کیا پوچھئے

ہم سبھی جس داستاں کے فالتو کردار ہیں

زندگی ہے ایک ایسی داستاں، کیا پوچھئے

٭٭٭

نام کی خواہش مرے وجدان پر بھاری نہیں

مانگ جن کی ہے میں ان چیزوں کا بیوپاری نہیں

سوچتا ہوں کس سے لکھواؤں سند پہچان کی

شہر کے شہرت نویسوں سے میری یاری نہیں

دے خداوندا مجھے بعد بصیرت کا سراغ

آنکھ کا یہ زخم گہرا ہے مگر کاری نہیں

شعر مشکل کی سماعت نا پسند آئے انہیں

اور آساں ہو تو کہتے ہیں کہ تہ داری نہیں

مشکلیں سہنے کا جینے میں سلیقہ آ گیا

اب تو مر جانے میں مجھ کو کوئی دشواری نہیں

خیر ہو اے یار! تیری دلبری کی خیر ہو

عاشقوں نے ہار کر بازی ابھی ہاری نہیں

٭٭٭

بدن میں جاں، زمیں میں آسماں پوشیدہ رکھتی ہے

وہ ہستی اپنے ہونے کے نشاں پوشیدہ رکھتی ہے

شئے نازک ذرا سی ضرب سے تقسیم ہو جائے

کہ آئینے کی وحدت کرچیاں پوشیدہ رکھتی ہے

ذرا پرہیز ہے مجھ کو زر دنیا کی نعمت سے

یہ میرے سود میں میرا زیاں پوشیدہ رکھتی ہے

جسے بانٹوں تو سب ناداریاں دنیا کی مٹ جائیں

زمیں اپنا وہ گنجینہ کہاں پوشیدہ رکھتی ہے

ہے اپنی ذات میں جو رنگ و نسل لفظ سے بالا

خموشی اپنے اندر وہ زباں پوشیدہ رکھتی ہے

یہ اولاد مسیحا اصل میں آل سکندر ہے

دکھاوے کی صلیبوں میں سناں پوشیدہ رکھتی ہے

٭٭٭

تضادوں کے سمجھنے میں مجھے دشواریاں بھی ہیں

خدا والا ہوں لیکن دہریوں سے یاریاں بھی ہیں

کہیں سوتے نہ رہ جائیں زن خواہش کے پہلو میں

ہمیں درپیش کل کے کوچ کی تیاریاں بھی ہیں

بجا ہے اور بڑھ جاتی ہے زیر پائے لنگ آ کر

مگر اس راہ صد جادہ میں ناہمواریاں بھی ہیں

یہ خالی پن کہاں پیمانۂ مقدار میں آئے

مزے کے انت میں بے انت کی بیزاریاں بھی ہیں

میں سوتے جاگتے کی داستاں دہراتا رہتا ہوں

مری بیداریوں میں خواب کی سرشاریاں بھی ہیں

٭٭٭

وہ شہرِ بے انا کو کثرت اشیا سے بھر دیں گے

زر تہذیب کے بدلے اسے تہذیب زر دیں گے

کبھی تعبیر سے ان کی کھلا تھا باغ دنیا کا

اگر یہ خواب سچے ہیں تو دو بارہ ثمر دیں گے

ترا پیغام برحق ہے، مگر تعمیل مشکل ہے

زیادہ سے زیادہ ہم تجھے داد ہنر دیں گے

کرشمے دیکھتے جاؤ خداوندان مغرب کے

کہ وہ انسان کو آخر میں نا انسان کر دیں گے

شکوہ سبز بے موسم صلہ ہے سخت جانی کا

تمہیں اس کی گواہی برف زاروں کے شجر دیں گے

٭٭٭

یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے، بدلتا ہی نہیں

واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں

آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لاؤں

موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں

یہ مری خمس حواسی کی تماشا گاہیں

تنگ ہیں، ان میں مرا شوق بہلتا ہی نہیں

پیکر خاک ہیں اور خاک میں ہے ثقل بہت

جسم کا وزن طلب ہم سے سنبھلتا ہی نہیں

غالباً وقت مجھے چھوڑ گیا ہے پیچھے

یہ جو سکہ ہے میری جیب میں چلتا ہی نہیں

ہم پہ غزلیں بھی نمازوں کی طرح فرض ہوئیں

قرض ناخواستہ ایسا ہے کہ ٹلتا ہی نہیں

٭٭٭

عرض سنتے ہی مرا کام بنا دیتا ہے

میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے

خاک و افلاک میں رشتہ ہے، شعور اتنا ہی

خاص کو ہم نسب عام بنا دیتا ہے

چھاؤں بھر دھوپ کی مہلت میں شجر میرے لیے

ایک خس خانۂ آرام بنا دیتا ہے

ثبت و محکم بھی تغیر کی حد و زد میں ہے

جب بھی چاہے وہ اسے خام بنا دیتا ہے

تجربہ جیسے کوئی نسخۂ بینائی ہو

میرے دکھ کو مرا انعام بنا دیتا ہے

جو یہاں آیا یہاں سے کبھی نکلا ہی نہیں

شہر، رستوں کا عجب دام بنا دیتا ہے

اپنی قامت بھی ضروری ہے کہ پہچانے جاؤ

یوں تو نقاد بڑا نام بنا دیتا ہے

٭٭٭

کل جو آمر تھا اسے اب دیکھ مسند کے بغیر

بوزنہ سا رہ گیا ہے، قامت و قد کے بغیر

آدمی کو اک ذرا انسان ہو لینے تو دو

تم کو ہر بستی نظر آئے گی سرحد کے بغیر

خواب میں یہ بھی کرشمہ ہے اسی کے خواب کا

یعنی دن نکلا ہوا ہے اس کی آمد کے بغیر

تم بتاؤ وہ بڑے آدرش والے کیا ہوئے

کیا برا ہے ہم اگر زندہ ہیں مقصد کے بغیر

٭٭٭

فرد فرد

یہ فرش و بام یہ دیوار و در سوال کریں

مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے

سمجھ میں آئے اگر شک پہ شک کیا جائے

اگر یقین پہ نہ آئے یقیں تو کیا کیجے

یہی ہے قصد و قضا، وقت کرتا رہتا ہے

نہیں کو ہاں کبھی ہاں کو نہیں تو کیا کیجے

حیران ہوں کرشمۂ خطاط دیکھ کر

یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی

سر پھوڑیے ضرور مگر احتیاط سے

دیوار پر یہی ہے ہدایت لکھی ہوئی

ایام کی کتاب میں مرقوم کچھ نہیں

کیا مقصد وجود ہے معلوم کچھ نہیں

رہ جائے گا سماں وہی میلے کی شام کا

یہ سب ہجوم اور یہ سب دھوم کچھ نہیں

تم ابھی چپ رہو صبر خود بولتا ہے

نشۂ خون میں، جبر خود بولتا ہے

شرط ہے تن پہ اک تازیانہ لگے

زیر زور ہوا ابر خود بولتا ہے

٭٭٭

ماخذ:

https://sukhansara.com/

تشکر:  یاور ماجد جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل
پی ڈی ایف فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل