ساقی الحرمین حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب
خالد محمد خالد
ہلاکت کے سال’’عام الرمادہ‘‘ میں جب انسان و حیوان اور نباتات و جمادات سخت قحط کا شکار ہو گئے تو امیرالمومنین حضرت عمرؓ کھلی فضا میں مسلمانوں کے ساتھ نماز استسقا پڑھنے اور اللہ رحیم و کریم سے باران رحمت کے لیے گڑگڑا کر دعا کرنے کے لیے باہر نکلے۔
پھر حضرت عمرؓ ایک مقام پر کھڑے ہو گئے اور اپنے دائیں ہاتھ سے حضرت عباسؓ کا دایاں ہاتھ تھام کر آسمان کی طرف بلند کر کے دعا گو ہوئے:
’’اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبیﷺ کی وساطت سے بارش کی دعا کرتے تھے اور اس وقت نبیﷺ ہمارے درمیان موجود تھے۔
اللہ! آج ہم تیرے نبیﷺ کے چچا کی وساطت سے بارش طلب کرتے ہیں، اللہ!ہم پر بارش برسا!‘‘
مسلمان ابھی یہاں سے ہل نہیں پائے تھے کی بارش آ گئی اور اس قدر برسی کہ چہروں پر تازگی کی لہر دوڑا دی، ہر طرف پانی پانی کر دیا اور زمین کو سرسبز و شاداب کر ڈالا۔
صحابہ ؓ حضرت عباسؓ کے پاس گئے، ان سے بغل گیر ہونے لگے، ان کی پیشانی کے بوسے لینے لگے اور یہ کہتے ہوئے ان کو بابرکت قرار دینے لگے کہ:
’’اے(اہل) حرمین کی پیاس بجھانے والے شکریہ!‘‘
قارئین کرام یہ ’’ساقی الحرمین‘‘ کون ہے؟
یعنی یہ شخص کون ہے جس کو حضرت عمرؓ اللہ تعالیٰ کے حضور بطور وسیلہ پیش کر رہے ہیں اور عمر فاروق ؓ بھی وہ جن کا تقویٰ و سبقت اور مقام و مرتبت اللہ و رسولﷺ اور مومنوں کے ہاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
سنیے! یہ رسول اللہﷺ کے چچا ’’حضرت عباسؓ ‘‘ ہیں۔
یہ جس قدر رسول اللہﷺ سے محبت رکھتے تھے رسول اللہﷺ بھی اسی قدر ان کو عزت و اکرام دیتے تھے۔ آپﷺ ان کی تعریف وستائش کرتے اور ان کی خوبیوں کا ذکر جمیل فرمایا کرتے تھے۔
آپﷺ فرماتے:
’’یہ میرے باپ دادا کی نشانی ہیں۔‘‘
’’یہ عباس بن عبدالمطلب ہیں قریش کے سب سے بڑے سخی اور رشتوں کا سب سے زیادہ لحاظ رکھنے والے۔‘‘
جس طرح حضرت حمزہؓ رسول اللہﷺ کے چچا بھی تھے اور ہم جو لی بھی ا سی طرح حضرت عباس ؓ آپﷺ کے چچا بھی تھے اور ہم عمر بھی!
رسول اللہﷺ اور حضرت عباسؓ کی عمروں میں دو یا تین برسوں کا فرق ہے، حضرت عباسؓ رسول اللہﷺ سے تین برس بڑے تھے۔ اس طرح رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے چچا عباسؓ ایک ہی عمر کے بچے اور ایک ہی نسل کے جوان تھے۔
ایک اور چیز جس کو انسانیت کے پرکھنے میں نبیﷺ کے نزدیک ہمیشہ اولین حیثیت حاصل رہی وہ حضرت عباسؓ کا اخلاق اور اچھی صفات تھیں۔
حضرت عباسؓ سخی تھے، بہت بڑے سخی۔۔۔گویا وہ ان اچھی خوبیوں کے بھی چچا ہی تھے۔ آپؓ رشتہ داروں اور اہل و عیال کے ساتھ جڑ کر رہنے والے انسان تھے۔ ان دونوں رشتوں کا لحاظ رکھتے تھے۔
اس سلسلے میں آپؓ اپنے مال و متاع یا سعی و جہد اور اثر و رسوخ میں سے کسی بھی اعتبار سے بخل نہیں کرتے تھے۔ آپؓ عام رشتہ داری اور خاندانی قرابت داری کے معاملے میں حد درجہ دانشمندی سے کام لیتے تھے۔ آپؓ کی اسی دانشمندی و ذہانت نے آپؓ کو قریش کے درمیان بلند مقام سے سرفراز کر رکھا تھا یہاں تک کہ جب رسول اللہﷺ نے دعوت کا برملا اظہار کیا تو حضرت عباسؓ اس قابل تھے کہ رسول اللہﷺ کو پہنچائی جانے والی بہت سی تکلیفوں کو آپ ﷺ سے رفع کر سکیں۔
حضرت حمزہؓ قریش کے ظلم و عدوان اور ابو جہل کی درشتیوں کا علاج اپنی ’’مٹا ڈالنے والی تلوار‘‘ کے ذریعے کرتے تھے جب کہ حضرت عباسؓاپنی ذہانت و ہوشیاری اور چالاکی کو استعمال میں لاتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں نے اسلام کو اسی طرح نفع پہنچایا جس طرح دفاع کرنے والی تلواروں نے اسلام کی حمایت و حفاظت کا حق ادا کیا۔
حضرت عباسؓ نے قبولیتِ اسلام کا اعلان فتح مکہ کے موقع پر فرمایا جس کی بنا پر بعض مورخین نے آپؓ کو ’’مؤخر الاسلام‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے جبکہ دوسری تاریخی روایات اس بات کی خبر دیتی ہیں کہ آپؓ اسلام قبول کرنے والے اولین لوگوں میں سے ہیں لیکن آپؓ نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔
رسول اللہﷺ کے خادم حضرت ابورافعؓ کہتے ہیں :
’’میں عباس بن عبدالمطلب کا نوکر تھا اور اس وقت اسلام اس گھر کے افراد میں داخل ہو چکا تھا۔ عباس مسلمان ہو گئے اور میں بھی مسلمان ہو گیا مگر عباس اپنااسلام چھپا کر رکھتے تھے۔‘‘
حضرت ابو رافعؓ کی یہ روایت غزوۂ بدر سے قبل حضرت عباسؓ کے قبولیت اسلام کی وضاحت کرتی ہے۔ رہی بات ہجرت نبویﷺ کے بعد مکہ میں ان کے ٹھہرے رہنے کی تو یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی جس نے بہترین طریقے سے اپنے اہداف کو حاصل کیا۔
قریش حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کے ارادوں میں شکوک و شبہات کو کب چھپا رہنے دے سکتے تھے مگر مسئلہ یہ تھا کہ جناب عباسؓ کے مقابل میں آنے کا بھی ان کے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ کیونکہ بظاہر ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اسی دین اور طریقے پر تھے جس کو قریش پسند کرتے تھے۔ یہاں تک کہ غزوۂ بدر کا موقع آ گیا، اور قریش کو حضرت عباسؓ کے دل میں چھپے ارادوں کا امتحان لینے کا موقع مل گیا۔ جناب عباسؓ قریش کی اس مکروہ تدبیر سے بھلا کب لاعلم رہنے والے تھے۔
آپؓ اگرچہ قریش کی حرکات و سکنات کی خبریں مدینہ میں رسولﷺ کو پہنچانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن قریش بھی عنقریب انھیں اس معرکہ میں شرکت کے لیے نکال باہر لانے میں کامیاب ٹھہرنے والے تھے جس معرکہ میں شرکت پر جناب عباسؓ ایمان رکھتے تھے نہ کوئی ارادہ، تاہم یہ جنگ جناب عباسؓ کے لیے ایک مقررہ متعین کامیابی تھی جو الٹا قریش کے لیے ہی تباہی و بربادی لانے والی تھی۔
غزوۂ بدر میں دونوں طاقتیں آمنے سامنے آتی ہیں اور تلواریں ہر گروہ اور فریق کے انجام کا تعین کرتے ہوئے پوری خوفناکی کے ساتھ آپس میں ٹکرانے کے لیے تیار ہیں، رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کو مخاطب فرماتے ہیں۔
ترجمہ: ’’کچھ بنو ہاشم سے، اور کچھ بنو ہاشم کے علاوہ لوگ مجبوُر کر کے نکالے گئے ہیں، انھیں ہمارے ساتھ لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، ان میں سے کسی کا سامنا تم میں سے کسی کے ساتھ ہو جائے تو وہ اسے قتل نہ کرے۔
جو شخص ابو البختری بن ہشام بن حارث بن اسد کو پائے وہ اسے قتل نہ کرے۔
اور جو عباس بن عبدالمطلب کو پالے وہ بھی ان کو قتل نہ کرے، ان کو تو مجبوُر کر کے جنگ میں لایا گیا ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ اس حکم کے ساتھ اپنے چچا عباس کی کسی خوبی کو مخصوص نہیں کر رہے تھے، خوبیاں بیان کرنے کا یہ موقع تھا نہ وقت! اگر رسول اللہﷺ کے نزدیک آپﷺ کے چچا مشرکین میں سے ہوتے تو آپﷺ ایسے نہ تھے کہ اپنے صحابہؓ کے سروں کو میدان جنگ میں متحرک دیکھتے اور پھر بھی اپنے چچا کے لیے سفارش کرتے۔۔۔اللہ اکبر
رسول اللہﷺ کے چچا ابوطالب جن کی آپﷺ اور اسلام کے لیے بہت سی قربانیاں تھیں، رسولﷺ کو اس چچا کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ عقل و شعور کا فیصلہ یہی ہے کہ ایسا رسول غزوۂ بدر میں جائے تو اپنے مشرک آباء و اخوان کو قتل کرنے والوں سے کہے کہ میرے چچا کو قتل نہ کرنا!
جب رسول اللہﷺ اپنے چچا کی حقیقت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ چچا کا سینہ اسلام کے لیے کھل چکا ہے اور اسی طرح کی نظر نہ آنے والی اور بہت سی خدمات کو بھی آپﷺ جانتے تھے جو چچا نے اسلام کے لیے انجام دیں اور آپﷺ اس آخری بات کو بھی جانتے تھے کہ چچا کو مجبُور کر کے جنگ میں لایا گیا ہے۔ لہٰذا اس وقت آپﷺ کا فرض تھا کہ آپﷺ اس شخص کی جان کو بچانے کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے۔
اِدھر ’’ابو البختری بن ہشام‘‘ تو وہ ہے جس کے بارے میں نہ یہ مشہور تھا کہ اس نے اپنے اسلام کو چھپا رکھا ہے اور نہ اس نے اسلام کی اس طرح مدد و نصرت کی تھی جس طرح جناب عباسؓ نے کی تھی۔ ’’ابو البختری بن ہشام‘‘ کی تمام تر بڑائی اور فضیلت یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے اوپر قریشی سرداروں کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم میں ان کا شریک نہ تھا اور نہ ان کی ان حرکتوں پر خوش تھا اور بدر میں صرف مجبوُر ہو کر ہی آیا تھا۔
جب ’’ابو البختری‘‘ اپنی اس روش کی بنا پر رسولﷺ کی اس قدر پر زور سفارش کا مستحق ٹھہرتا ہے کہ اس کا خون نہیں بہایا جا سکتا اور اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا تو کیا ایک ایسا مسلمان جو اپنے اسلام کو چھپاتا ہو وہ اس بات کا مستحق نہیں کہ اسے رسولﷺ کی سفارش نصیب ہو۔۔۔اور آدمی بھی ایسا کہ اسلام کے لیے اس کی نصرت و حمایت کے واقعات ایک دنیا دیکھ چکی تھی اور بہت سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل بھی تھے۔!
آئیے ذرا تاریخ کا سفر کر کے اس دور میں داخل ہو کر جناب عباسؓ سے ملاقات کریں !
بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر موسم حج میں جب تہتر مرد اور دو خواتین انصاریوں کا وفد مکہ آیا تاکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے بیعت کریں اور رسول اللہﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے سلسلے میں باہمی صلاح مشورہ کریں تو اس موقع پر رسول اللہﷺ نے اس وفد کے آنے اور بیعت کرنے کی خبر اپنے چچا عباسؓ تک پہنچائی کیونکہ رسول اللہﷺ کو اپنے چچا کی ہر طرح کی رائے پر اعتماد و وثوق تھا۔ ملاقات کا وقت ہوا جو خفیہ ہونی تھی تو رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے چچا عباسؓ اس جگہ پہنچ گئے جہاں انصار منتظر بیٹھے تھے۔
ہم اس گفتگو کا بیان وفد کے ارکان میں سے ہی ایک رکن پر چھوڑتے ہیں۔ یہ رکنِ وفد حضرت کعب بن مالکؓ ہیں، فرماتے ہیں :
’’ہم گھاٹی کے اندر بیٹھے تھے، رسول اللہﷺ کا انتظار کر رہے تھے یہاں تک کہ آپﷺ ہمارے پاس آ گئے اور آپﷺ کے ساتھ عباس بن عبدالمطلب تھے۔ عباس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: اے خزرج! تمھیں معلوم ہے کہ محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے ان کو اپنی قوم سے اس طرح بچا کر رکھا ہے کہ وہ اپنی قوم میں ایک معزز و با وقار حیثیت رکھتے ہیں اور علاقے میں محفوظ بھی ہیں۔ لیکن وہ یہ سب کچھ چھوڑ کر تمھارے پاس آرہے ہیں۔
اگر تم سمجھتے ہو کہ جس چیز کی طرف تم نے انھیں بلایا ہے اس سے وفاداری کرو گے اور انھیں ہر اس شخص سے بچا لو گے جو ان کی مخالفت کرے گا تو پھر تم جو کر رہے ہو خوشی سے کرو۔
اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم ان کو اپنے پاس لے جا کر بے یارو مدد گار چھوڑ دو گے اور انھیں رسوا کرو گے تو پھر ابھی سے پیچھے ہٹ جاؤ اور انھیں نہ لے جاؤ۔‘‘
جناب عباسؓ اپنے یہ کاٹ دار اور فیصلہ کن الفاظ کہہ رہے تھے تو ان کی آنکھیں انصار کے چہروں پر گڑی تھیں۔ آپؓ اپنی باتوں کے جواب اور ان کے فوری رد عمل کا انتظار کر رہے تھے۔
حضرت عباسؓ کی عظیم ذہانت عملی ذہانت ہونے کی بنا پر مادی میدان میں حقیقت کا احاطہ کر لیتی تھی، وہ ایک باخبر نگران اور تفتیش کار کی طرح دور دور تک حقیقت کا پیچھا کرتے تھے، لہٰذا آپؓ نے اسی گفتگو پر اکتفا نہ کیا بلکہ انصار سے ایک اہم سوال کر کے بات کو نئے سرے سے شروع کیا کہ: ’’ مجھے بتاؤ کہ تم اپنے دشمن سے کس طرح جنگ کرتے ہو؟‘‘
حضرت عباسؓ اپنی ذہانت اور قریش کے ساتھ اپنے تجربے کی بنا پر یہ جانتے تھے کہ اسلام اور شرک کے درمیان جنگ ناگزیر ہے کیونکہ قریش کبھی اپنے عناد، سرداری اور دین کو چھوڑ نہیں سکتے اور اسلام جو ہمیشہ حق ہوتا ہے وہ کبھی باطل کے لیے اپنے قانونی حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ تو کیا انصار جو اہل مدینہ ہیں، مستقبل میں پیش آنے والی اس جنگ کے متحمل ہوسکیں گے؟ اور کیا وہ کر و فر اور جنگ کے ماہر قریش کے تکنیکی اعتبارسے ہم پلہ ہوسکتے ہیں ؟ یہی وجہ تھی کہ آپؓ نے انصار سے مذکورہ سوال کیا!
انصار بھی وہ لوگ تھے جو جناب عباسؓ کی گفتگو کو یوں ہمہ تن گوش ہو کر سن رہے تھے گویا وہ انسانی چٹانیں ہوں۔ حضرت عباسؓ اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو انصار نے بات شروع کی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام نے جناب عباسؓ کے مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’ہم۔۔۔اللہ کی قسم۔۔۔اہل حرب ہیں، ہمیں جنگ کی غذا دی گئی ہے، س کا عادی بنا دیا گیا ہے اور اپنے آباء سے نسل در نسل ہمیں یہ وراثت میں ملی ہے۔
ہم پہلے تیر اندازی کرتے ہیں یہاں تک کہ تیر ختم ہو جاتے ہیں۔پھر ہم نیزہ اندازی کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہم میں سے جو پہلے موت کے منہ میں جانے والا ہوتا ہے وہ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، یا پھر ہمارا دشمن موت کا شکار ہو جاتا ہے!‘‘
حضرت عباسؓ نے خوش ہو کر جواب دیا:’’پھر تو تم اہل حرب ہو، کیا تمھارے پاس زر ہیں بھی ہیں ؟‘‘
انصار نے جواب دیا: ہاں۔۔۔ہمارے پاس پورے جسم کو ڈھانکنے والی زرہیں ہیں !
اس کے بعد رسول اللہﷺ اور انصار کے درمیان تاریخی اور عظیم گفتگو ہوئی۔
یہ تھا جناب عباسؓ کا بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر موقف! اس روز وہ اسلام کی صداقت کی گواہی دل میں چھپائے ہوئے ہوں یا اس کے بارے میں مسلسل غور و فکر کر رہے ہوں، ان کا یہ عظیم موقف چھٹتی ہوئی تاریکی اور طلوع ہوتے ہوئے سورج کے درمیان ان کی حیثیت و مقام کا تعین اور ان کی مردانگی و دوراندیشی اور راسخ الفکری کی تصویر کشی کرتا ہے۔
فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین پیش آیا کہ اس مستقل مزاج اور نرم پہلو مرد کی فدا کاری کو حق ثابت کر دکھائے اور اس طرز کی ایسی شجاعت و بسالت کو میدانِ جنگ میں نمایاں کر دے جس شجاعت کو ضرورت آواز دے تو وہ اپنے جوہر سے زمان و مکان کو بھر دیتی ہے اور اپنے اس مظاہرے سے دنیا کو خوفزدہ کر دیتی ہے۔ جبکہ یہ شجاعت بہت سے دیگر لوگوں کی پسلیوں کے اندر چھپی رہتی ہے اور روشنی کے سامنے نہیں آتی!
ہجرت نبویؐ کے آٹھویں برس یعنی اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اپنے دین اور رسولﷺ کے لیے فتح کر دیا تھا۔ جزیرۂ عرب کے بعض سردار قسم کے قبائل پر یہ گراں گزرا کہ ایک بالکل نیا دین اس تیزی کے ساتھ اس قدر بڑی فتح حاصل کر لے۔ لہٰذا ہوازن، ثقیف، نضر، جشم اور دوسرے قبائل اکٹھے ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ برپا کرنا طے کر لیا۔
یہاں لفظ ’’قبائل‘‘ سے ان جنگوں کی کیفیت کے بارے میں دھوکا نہیں کھانا چاہیے جن میں رسول اللہﷺ ساری زندگی مشغول رہے کہ یہ تو بس چھوٹے چھوٹے پہاڑی قبیلوں کی جھڑپیں تھیں، کوئی بڑی جنگیں نہ تھیں جو یہ قبائل اپنے قلعوں میں لڑتے تھے۔
یہ قبائل شدید ترین جنگجوؤں کی بے شمار صفوں کی صورت جمع ہو گئے۔ مسلمان 12ہزار کی تعداد میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلے۔
12ہزار۔۔۔؟ کن لوگوں میں سے 12ہزار۔۔۔؟
ان لوگوں میں سے جنھوں نے ابھی کل ہی مکہ فتح کیا تھا اور بت اور بت پرستی کو اس کی آخری اور بدترین جگہ پر پہنچا دیا تھا، ان کشور کشاؤں کے پرچم آسمان کے افق پر اس طرح بلند ہو رہے تھے کہ ان کے سامنے کوئی قوت مزاحمت نہ کر رہی تھی!
یہ سو چ کچھ غرور پیدا کر دیتی ہے اور مسلمان شر کے آخری پھیر میں آ جاتے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ فخر و تکبر کا شکار ہو گئے جو ان کی کثرتِ تعداد اور مکہ کی فتح نے پیدا کر دیا تھا۔ انھوں نے یہ کہہ دیا کہ: ’’ اب ہم قلتِ تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوسکتے۔‘‘
جب آسمان انھیں جنگ سے بڑے اور اعلیٰ مقاصد کے لیے تیار کر رہا تھا، اس وقت ان کا اپنی عسکری قوت اور جنگی فتح کے غرے میں آ جانا ایک نامناسب عمل تھا جس سے انھیں جس قدر جلد ممکن ہوسکتا نجات دلانا ضروری تھا خواہ نجات صدمہ پہنچا کر دلائی جائے۔
یہ صدمہ شافیہ لڑائی کے آغاز میں بہت بڑی شکست کی صورت میں رونما ہوا۔ یہاں تک کہ مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اور آپس کے دامنوں کو چھوڑ کر اللہ کے دامن سے چمٹ گئے، اپنی قوت پر بھروسا چھوڑ کر اللہ کی قوت پر توکل کرنے لگے۔ تب جا کر یہ شکست فتح میں بدلی اور مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں :
ترجمہ:’’اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمھاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غزوۂ حنین کے روز اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) اُس روز تمھیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا۔ مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔‘‘
اس روز حضرت عباسؓ کی آواز اور ثابت قدمی سکینت و بہادری کے نمایاں ترین مظاہر میں سے ایک مظہر تھا۔ ہوا یوں کہ مسلمان اپنے دشمن کی آمد کے انتظار میں تہامہ کی ایک وادی میں جمع ہونے والے تھے کہ مشرکین ان سے پہلے ہی وادی میں پہنچ گئے اور وادی کے نشیب و فراز میں گھاتیں لگا کر بیٹھ گئے اور اچانک مسلمانوں پر بھرپور حملہ کیا اور انھیں اس قدر خوفزدگی کے عالم میں دور تک مار بھگایا کہ کوئی مسلمان پیچھے مڑ کر دوسرے مسلمان کو نہیں دیکھتا تھا۔
رسول اللہﷺ نے اچانک حملہ آور ہونے والے دشمن کی یہ کارروائی دیکھی تو فوراً اپنے سفید خچر پر سوار ہوئے اور بآواز بلند پکارنے لگے:
’’لو گو بھاگ کر کہاں جا رہے ہو؟ میری طرف واپس آ جاؤ! یہ ہرگز جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں، میں عبدالمطلب کا پوتا ہوں۔‘‘
اس لمحے نبیﷺ کے اردگرد ابو بکر، عمر، علی بن ابوطالب، عباس بن عبدالمطلب، عباس کے بیٹے فضل، جعفر بن ابی طالب، ربیعہ بن حارث، اسامہ بن زید، ایمن بن عبید اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی تھوڑی سی نفری موجود تھی۔
اس موقع پر یہاں ایک خاتون تھیں جنھوں نے اپنی شجاعت و بسالت سے بہادروں کے درمیان بلند مقام پایا۔ یہ خاتون ’’اُمِ سُلَیم بنتِ ملحان‘‘ رضی اللہ عنہا تھیں۔ انھوں نے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑتے دیکھے تو فوراً اپنے خاوند ابو طلحہؓ کے اونٹ پر سوارہوئیں ور اسے بھگاتے ہوئے رسول اللہﷺ کے پاس آ گئیں۔ ان دنوں یہ عظیم خاتون اپنے رحم میں کسی خوش نصیب کی پرورش کر رہی تھیں۔
اونٹ کے بھاگنے کی وجہ سے بچے نے رحم کے اندر حرکت کی تو انھوں نے اپنی چادر اتار کر مضبوطی سے پیٹ پر باندھ لی اور ہاتھ میں خنجر لہراتے ہوئے جب خدمتِ رسولﷺ میں پہنچیں تو آپﷺ مسکرا دیے پھر فرمایا: ’’اُمِ سُلیم ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:’’ ہاں۔۔۔یا رسول اللہﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! ان لوگوں کو قتل کر ڈالیے جو آپﷺ کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، جس طرح آپﷺ ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو آپﷺ کے ساتھ جنگ کر رہے ہوں۔ یہ اسی لائق ہیں۔‘‘
چہرۂ رسالت پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور ام سلیم سے فرمایا:
’’اے ام سلیم ان کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ جو کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔‘‘
اس موقع پر جبکہ رسول اللہﷺ ایسے سخت حالات میں تھے حضرت عباسؓ آپﷺ کے پہلو بلکہ آپﷺ کے قدموں میں کھڑے آپﷺ کے خچر کی لگام پکڑے موت اور خطرے کو مقابلے کا چیلنج کر رہے تھے! رسول اللہﷺ نے آپؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو بلند آواز سے بلاؤ۔ چونکہ حضرت عباس بھاری جسم کے آدمی ہی نہ تھے بلکہ بلند آہنگ بھی تھے۔ آپؓ نے لوگوں کو بلانا شروع کیا:’’ اے انصار یو! اے بیعت والو!‘‘
یہ آواز جونہی اچانک حملہ سے بھاگ اٹھنے والے اور وادی میں اِدھر اُدھر منتشر ہو جانے والے لوگوں کے کانوں سے ٹکرائی تو ان سب نے بیک آواز جواب دیا:’’ ہم حاضر ہیں۔۔۔ہم حاضر ہیں۔‘‘
یہ سارے لوگ آندھی کی مانند تیزی سے واپس آئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ یا گھوڑا اَڑ گیا تو وہ اسے وہیں چھوڑ کر اپنے تیر کمان اور زرہ وغیرہ اٹھائے پیدل ہی اس طرف بھاگنا شروع ہو گیا جہاں سے جناب عباسؓ کی آواز آ رہی تھی۔
اب معرکہ نئے سرے سے اپنی سختی اور خوفناکی کے ساتھ شروع ہوا۔ رسول اللہﷺ نے آواز بلند فرمائی: ’’میدان اب گرم ہوا ہے۔‘‘
میدان گرم ہوا تو ہوازن و ثقیف کے جنگجو ڈھیر ہوئے، اللہ کا لشکر لات کے جتھوں پر غالب آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔
رسول اللہﷺ اپنے چچا عباسؓ سے بے پناہ محبت کرتے تھے یہاں تک کہ جس روز غزوۂ بدر اپنے انجام کو پہنچا اور آپ کے چچا نے حالتِ اسیری میں رات گزاری تو آپﷺ رات بھر سو نہ سکے۔
جب آپﷺ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فتح عظیم سے سرفراز فرمایا ہے پھر کیوں سونہیں سکے؟ تو آپ نے جواب دیا:
’’مجھے بیڑیوں میں جکڑے عباس کی کراہیں سنائی دے رہی تھیں۔‘‘
کسی مسلمان نے آپﷺ کے یہ الفاظ سنے تو فوراً قیدیوں میں جا کر حضرت عباسؓ کی مشکیں ڈھیلی کر دیں اور آ کر خبر دی کہ: یا رسول اللہﷺ میں نے عباس کی بیڑیاں کچھ ڈھیلی کر دی ہیں !
لیکن صرف ایک عباسؓ کی ہی بیڑیاں کیوں ڈھیلی کی گئی ہیں !
آپﷺ نے اپنے صحابی کو حکم دیا کہ:
’’ جاؤ اور تمام قیدیوں کے ساتھ یہ نرمی کر دو۔‘‘
جب قیدیوں سے فدیہ لینا طے ہوا تو رسول اللہﷺ نے اپنے چچا سے فرمایا:
ترجمہ:’’اپنا، اپنے بھائی کے بیٹے عقیل بن ابی طالب کا، نوفل بن حارث کا، بنی حارث بن فہر کے بھائی اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا فدیہ ادا کرو، تم مالدار ہو!‘‘
حضرت عباسؓ کا ارادہ تھا کہ بغیر فدیہ کے ہی اپنی قید ختم کرالوں، لہٰذا آپﷺ سے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ میں تو مسلمان ہوں، میری قوم مجھے مجبوُر کر کے لے آئی!‘‘
لیکن رسول اللہﷺ نے فدیہ لینے پر اصرار کیا، اس موقع پر قرآن مجید بھی نازل ہوا جو حضرت عباسؓ کے دل کی کیفیت پر ایک بلیغ تبصرہ بھی ہے اور خوشخبری بھی:
ترجمہ:’’اے نبیﷺ،تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں اُن سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمھارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمھیں اس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمھاری خطائیں معاف کردے گا، اللہ درگزر کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
اس طرح حضرت عباسؓ نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا فدیہ دیا اور مکہ کی راہ لی۔ اس کے بعد قریش انھیں ان کی عقل و دانش اور دین و ہدایت کے معاملے میں دھوکا نہ دے سکے۔
آپﷺ نے اپنا مال و متاع اکٹھا کیا اور خیبر کے مقام پر رسول اللہﷺ سے جا ملے تاکہ قافلہ اسلام میں شریک ہوسکیں۔ اس طرح آپؓ مسلمانوں کی طرف سے عظیم اکرام و محبت کا مرکز قرار پائے۔ کیونکہ مسلمان رسول اللہﷺ کی ان کے ساتھ محبت و تکریم اور آپﷺ کے فرمان سے بخوبی آگاہ تھے کہ آپﷺ نے فرمایا ہے:
’’لوگو! سن لو کہ عباس میرے لیے باپ کی جگہ ہیں، جس نے عباس کو تکلیف دی گویا اس نے مجھے تکلیف دی۔‘‘
حضرت عباسؓ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی بابرکت اولاد کا باپ بنایا، امت حضرت عبداللہ آپؓ کے بیٹوں میں سے ایک ہیں۔
14رجب بروز جمعہ32ہجری کو مدینہ کے باشندوں نے کسی اعلان کرنے والے کو یہ اعلان کرتے سنا کہ ’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عباسؓ بن عبدالمطلب کو دیکھا۔‘‘
لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ حضرت عباسؓ وفات پا گئے ہیں۔
جناب عباسؓ کے جنازے میں اس قدر عظیم تعداد میں لوگ نکلے کہ مدینہ نے اس سے پہلے اس کا مشاہدہ نہ کیا تھا۔ خلیفۂ مسلمین حضرت عثمانؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ مدینہ کے قبرستان البقیع میں ابو الفضل جناب عباس بن عبدالمطلبؓ کا جسدخاکی محو استراحت ہے۔ آپؓ ان نیک لوگوں کے ساتھ محو خواب ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے اپنے عہد کو پورا کیا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://urdudigest.pk/2013/07/saqe-ul-hermain-hazrat-abbas-r-a-bin-abdul-mutlab#sthash.14XDR3U8.dpuf
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید