FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               محمد عادل منہاج

 

(۱)

وہ جیپ آہستہ روی سے کچی سڑک پر لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ یہ ایک غیر آباد میدانی علاقہ تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مٹی کے ٹیلے نظر آ رہے تھے۔ جا بجا گڑھے تھے جن میں سے بعض خاصے گہرے تھے۔ کچھ فاصلے پر دائیں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا سلسلہ تھا۔ یہ پہاڑیاں زیادہ تر مٹی اور پتھروں پر مشتمل تھیں۔ سبزے کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ جیپ کا رخ بھی پہاڑیوں ہی کی طرف تھا۔ کچھ دیر مزید لڑکھڑانے اور ڈگمگانے کے بعد جیپ ایک پہاڑی کے دامن سے کچھ فاصلے پر رک گئی۔ پھر جیپ سے چند افراد نیچے اترے۔ یہ تعداد میں پانچ تھے۔ ان میں ایک بوڑھا تھا۔ اس کے چہرے پر سفید داڑھی بھی تھی مگر جسمانی طور پر چاق و چوبند نظر آتا تھا۔ ایک غالباً ڈرائیور تھا جو جیپ کے دروازے سے لگا کھڑا تھا۔ باقی تین درمیانی عمر کے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں کیمرہ تھا اور ایک کے پاس بیگ تھا۔

’یہی وہ جگہ ہے جہاں پرسوں رات شہاب ثاقب کے ٹکڑے گرے تھے۔ ‘ ایک شخص بولا۔

’ہاں۔ یہاں کافی تعداد میں پتھر کے ٹکڑے ادھر ادھر نظر تو آ رہے ہیں۔ شہاب ثاقب زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعد کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور اس کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے زمین سے ٹکرائے تھے۔ ہمیں اس کے بڑے ٹکڑے تلاش کرنے چاہئیں۔ آؤ آگے چلتے ہیں۔ ‘ بوڑھا اور چاروں افراد آگے بڑھے۔ ڈرائیور البتہ وہیں کھڑا رہا۔

’یہ تو شکر ہے کہ شہاب ثاقب اس غیر آباد جگہ گرا۔ اگر آبادی پر گرا ہوتا تو اچھی خاصی تباہی مچا دیتا۔ ‘ لمبے قد والا شخص بولا۔

’ہاں جب یہ خبر شایع ہوئی تھی تو پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ ‘ دوسرا بولا۔

’قدرتی بات ہے۔ مگر شہاب ثاقب زمین سے ٹکرانے سے پہلے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو بالکل راکھ ہو جاتے ہیں اس لیے اتنا نقصان نہیں پہنچاتے۔ ‘ بوڑھا بولا۔

’ارے ! وہ دیکھیے پروفیسر۔ ۔ ۔ اس کھائی میں۔ ‘کیمرے والے شخص نے اشارہ کیا۔ سب نے ادھر دیکھا۔ یہ خاصی گہری کھائی تھی اور اس کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا کالا پتھر پڑا تھا۔

’اوہ! یہ تو شہاب ثاقب کا بہت بڑا ٹکڑا ہے۔ ‘

’تم ٹھیک کہتے ہو ندیم۔ ہمیں کھائی میں اتر کر اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ ‘بوڑھے پروفیسر نے کہا۔

’اس طرف سے اترنے کا راستہ ہے۔ ‘کیمرے والا بولا۔

’اف!!‘اسی وقت ندیم کے منہ سے نکلا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ اچانک ہی اس کے جسم سے پسینہ پھوٹ نکلا اور پھر اس کے منہ سے عجیب سی آواز میں نکلا۔ ’خبر دار! تم میں سے کوئی اس پتھر کی طرف بڑھنے کی کوشش مت کرنا۔ ‘

سب نے حیران ہو کر اس کا جملہ سنا۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ندیم؟ اور یہ تمہاری آواز کو کیا ہوا؟‘پروفیسر نے حیرانگی سے کہا۔

’میں ندیم نہیں بلکہ زمین بول رہی ہوں۔ ‘ ندیم نے اسی طرح عجیب سی آواز میں کہا۔

’زمین بول رہی ہوں۔ کیا مطلب!!‘لمبے قد والے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

’ہاں اس علاقے کی زمین کو زندگی مل گئی ہے۔ میں نے اس شخص یعنی ندیم کے دماغ پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کی زبان سے درحقیقت میں یعنی زمین بول رہی ہوں۔ ‘ ندیم نے کہا۔

’یہ تم کیا ڈرامہ کر رہے ہو۔ ختم کرو یہ مذاق۔ ‘ کیمرے والے کو غصہ آ گیا۔

’یہ مذاق نہیں ہے۔ ‘ ندیم تیز لہجے میں بولا۔ ’میں تم لوگوں کو وارننگ دیتی ہوں کہ اس ایک مربع میل کے علاقے سے دور نکل جاؤ اور یہاں سے شہاب ثاقب کا کوئی ٹکڑا اٹھانے کی کوشش مت کرنا۔ ‘

’تمہیں مزہ چکھانا ہی ہو گا۔ ‘کیمرے والا غصے میں ندیم کی طرف بڑھا۔

’خبردار! رک جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے۔ ‘ ندیم دھاڑا مگر کیمرے والے کے قدم نہ رکے۔ اسی وقت ایک زوردار گڑگڑاہٹ گونجی اور جہاں کیمرے والے کے قدم تھے وہاں سے زمین پھٹ گئی۔ ایک گہری دراڑ نمودار ہوئی اور کیمرے والا دراڑ میں جا گرا۔ اس کے گرتے ہی دراڑ بند ہو گئی اور کیمرے والا سینے تک زمین میں دھنس گیا۔

’مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بچاؤ پروفیسر۔ ‘کیمرے والا بھیانک آواز میں چلایا۔

پروفیسر اور لمبے قد والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں پروفیسر۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ کوئی خواب ہے ؟‘

’خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔ ‘ کیمرے والا چلا رہا تھا۔

’کیوں۔ ۔ ۔ اب آیا یقین۔ یہ میری پہلی وارننگ تھی۔ لو میں اس بے وقوف شخص کو آزاد کر رہی ہوں۔ فوراً یہاں سے ایک میل دور چلے جاؤ ورنہ تم سب کو زندہ دفن کر دوں گی۔ ‘ندیم نے کہا۔

ان الفاظ کے ساتھ ہی پھر گڑگڑاہٹ گونجی اور زمین پھٹ گئی۔ کیمرے والا زور سے اچھلا جیسے کسی نادیدہ قوت نے اسے اچھال پھینکا ہو۔ دراڑ فوراً بند ہو گئی اور کیمرے والا نیچے آ گرا۔ پھر فوراً ہی وہ اٹھا اور چیختا چلاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ پروفیسر اور لمبے قد والے نے بھی اس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ اسی وقت ندیم کو اک جھٹکا سا لگا۔ اس نے حیران ہو کر ان سب کو بھاگتے دیکھا۔ پھر وہ چلایا۔ ’ کیا ہوا؟ آپ لوگ کہاں بھاگے جا رہے ہیں ؟‘ یہ کہ کر وہ بھی ان کے پیچھے دوڑا۔

جیپ کے ڈرائیور نے حیران ہو کر یہ منظر دیکھا۔

’خخ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر تو ہے ؟‘اس کے منہ سے نکلا مگر اس کی بات کا جواب دیے بغیر سب جیپ میں بیٹھ گئے۔

’فوراً واپس چلو۔ ‘ پروفیسر بولے۔

’آخر ہوا کیا ہے ؟‘ اس نے پریشان ہو کر پوچھا۔

’میں نے کہا ہے فوراً واپس چلو۔ ‘ پروفیسر غصے میں چلائے۔ اور ڈرائیور نے پریشان ہو کر فوراً جیپ سٹارٹ کر دی۔ اسی وقت ندیم چلایا۔ ’آپ لوگ مجھے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟‘

اس کے ساتھ ہی ایک دم ندیم اوپر اچھلا اور جیپ کے اندر آ گرا۔ جیپ بغیر چھت کے تھی۔ کیمرے والے نے بمشکل اسے سنبھالا۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔

***

پروفیسر ادریس کا تعلق خلائی تحقیق کے ادارے سے تھا۔ چند دن پہلے ادارے کی طرف سے یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ ایک شہاب ثاقب کا رخ زمین کی طرف ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ ان کے ملک پر گرے گا۔ یہ خبر پڑھ کر پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ اگرچہ شہاب ثاقب تو وقتاً فوقتاً زمین پر گرتے ہی رہتے ہیں مگر جب وہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو رگڑ کی وجہ سے جل جاتے ہیں اور راکھ کی صورت میں زمین پر گرتے ہیں اس لیے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ مگر اس شہاب ثاقب کا سائز بہت بڑا تھا اور خطرہ تھا کہ یہ جلنے کے بعد بھی بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں گرے گا۔ پھر شکر ہے کہ خطرہ ٹل گیا اور شہاب ثاقب کے ٹکڑے ملک کے شمالی صوبے کے ایک غیر آباد علاقے میں گرے۔ پروفیسر ادریس اور ان کے ساتھی آج انہی ٹکڑوں کا جائزہ لینے یہاں آئے تھے کہ یہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔

قریبی شہر پہنچتے ہی انہوں نے بے ہوش ندیم کو ہسپتال میں داخل کیا اور ٹیلیفون پر ادارے کے چیئرمین کو ساری صورت حال بتائی۔ اس کی حیرت کا کیا پوچھنا۔ اس نے کہا کہ وہ پہلی فلائٹ سے یہاں پہنچ رہا ہے۔

***

شام کا وقت تھا۔ بہت سے لوگ اس شہر کے ایک ریسٹ ہاؤس میں جمع تھے۔ ان میں سائنسداں٬ پریس رپورٹر علاقے کا کمشنر اور دوسرے ذمہ دار لوگ تھے۔

’آپ کا کیا خیال ہے پروفیسر۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بے جان زمین زندہ ہو جائے ؟‘چیئرمین نے پوچھا۔

’میرا خیال ہے کہ یہ اس شہاب ثاقب کے گرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ‘ پروفیسر نے کہا۔

’کیا مطلب!‘ کمشنر کے منہ سے نکلا۔

’جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے شہاب ثاقب کاربن٬ ہائیڈروجن اور دوسرے عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ زندگی کے لیے سب سے ضروری چیز کاربن ہے۔ جب کاربن کے ایٹم ایک خاص ترتیب سے جڑ جاتے ہیں تو ایک مرکب امائنو ایسڈ بناتے ہیں جو زندگی کی بنیاد ہے۔ میرے خیال میں شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے زمین میں کچھ تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور کاربن کے ایٹم اس خاص ترتیب میں آ گئے جس سے زمین میں زندگی نمودار ہو گئی۔ ‘

’عجیب الجھی ہوئی سی بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ زندگی صرف ایک خاص حصے میں ہی کیوں پیدا ہوئی۔ پوری زمین میں کیوں نہ ہوئی؟‘ ایک اخباری رپورٹر بولا۔

’ابھی میں یقین سے کچھ نہیں کہ سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی جہاں شہاب ثاقب ٹکرایا ہے وہاں کی زمین زندہ ہو گئی ہو اور یہ زندگی آہستہ آہستہ پھیلتی جائے۔ جس طرح چھوٹا سا پودا بڑھ کر بھرپور درخت بن جاتا ہے۔ اسی طرح اس چھوٹے سے علاقے کی زندگی پوری زمین میں بھی پھیل سکتی ہے۔ مگر حتمی بات تو اس علاقے کی مٹی کا تجزیہ کر کے ہی بتائی جا سکتی ہے۔ ‘ پروفیسر نے کہا۔

’اوہ! مگر وہاں سے مٹی کس طرح حاصل کی جائے ؟ وہاں تو جو بھی جائے گا زمین اسے اندر دھنسا دے گی۔ ‘ لمبے قد والا گھبرا کر بولا۔

’ہاں مگر ہمیں ہر حالت میں وہاں سے مٹی کا نمونہ حاصل کرنا ہے۔ ورنہ آہستہ آہستہ پوری زمین زندہ ہو گئی تو کیا ہو گا؟‘ پروفیسر دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولے۔

’اوہ۔ ۔ ۔ ۔ ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ ‘ کیمرے والا چونک کر بولا۔

’وہ کیا!!‘ کئی آوازیں بیک وقت ابھریں۔

’ہیلی کاپٹر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں ہیلی کاپٹر استعمال کرنا چاہیے۔ ‘اس نے جواب دیا۔

***

ہیلی کاپٹر کے پر تیزی سے گھوم رہے تھے اور وہ ہواؤں کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔

’بس روک لو۔ ‘ پروفیسر ادریس چلائے۔ ’یہاں سے وہ علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ ‘

’ہمیں تھوڑا سا آگے بڑھنا چاہیے اور مٹی کا نمونہ ذرا آگے سے لینا چاہیے۔ ‘لمبے قد والا بولا۔

’ہاں مگر زیادہ آگے جانا بھی خطرناک ہو گا۔ نہ جانے یہ زمین کیا کر بیٹھے۔ خیر ذرا سا آگے چلو۔ ‘

ہیلی کاپٹر کچھ فاصلہ طے کر کے ہوا میں معلق ہو گیا۔ پھر ایک شخص دروازے سے نکلتا نظر آیا۔ اس کی کمر سے ایک باریک مگر مضبوط تار بندھا تھا۔ لمبے قد والا آہستہ آہستہ چرخی گھما رہا تھا اور لٹکا ہوا شخص نیچے ہوتا جا رہا تھا۔ یہ ندیم تھا۔ کل رات اسے ہوش آ گیا تھا اور ہوش میں آنے کے بعد جب ساری بات اسے بتائی گئی تو اسے قطعاً یقین نہ آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے بالکل یاد نہیں کہ زمین نے اس کے دماغ پر قبضہ جما کر کیا کچھ کہلوایا تھا۔

’بس اتنا کافی ہے۔ ‘ پروفیسر بولے اور لمبے قد والے نے چرخی گھمانا بند کر دی۔ ندیم زمین سے ذرا سا اوپر لٹک رہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹی سی کھرپی اور دوسرے میں پلاسٹک کی تھیلی تھی۔ اس نے تیزی سے کھرپی زمین پر چلائی تاکہ ذرا سی مٹی کھود کر تھیلی میں ڈال لے مگر کھرپی جونہی زمین سے لگی پھر باہر نہ نکل سکی۔ ندیم نے پوری طاقت لگا کر اسے کھینچنا چاہا مگر زمین نے تو گویا اسے جکڑ لیا تھا۔

’پروفیسر۔ کھرپی زمین میں پھنس گئی ہے۔ نکل نہیں رہی۔ ‘ وہ منہ اوپر کر کے چلایا۔

’اوہ! تو گویا یہ ہمیں مٹی نکالنے نہیں دے گی۔ ‘ ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

اسی وقت زوردار گڑگڑاہٹ گونجی۔ سب چونک اٹھے اور ادھر ادھر دیکھا۔ پھر انہیں ایک عجیب منظر نظر آیا۔ سامنے موجود پہاڑی بری طرح لرز رہی تھی۔ پھر ایک دھماکہ ہوا اور کئی چھوٹے بڑے پتھر پہاڑی سے اڑتے ہوئے آئے اور ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گئے۔ ہیلی کاپٹر بری طرح ڈگمگایا۔ کئی پتھر تار سے لٹکے ہوئے ندیم کے جسم پر بھی لگے۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔

’اف خدا! اس زمین نے تو پہاڑی کو اڑا دیا ہے۔ پائلٹ فوراً واپس چلو۔ اگر کوئی پتھر ہیلی کاپٹر کے پروں سے ٹکرا گیا تو یہ تباہ ہو جائے گا۔ ‘ پروفیسر ادریس زور سے چلائے۔ پائلٹ نے بوکھلا کر تیزی سے ہیلی کاپٹر کو موڑا تو لمبے قد والا لڑکھڑا گیا اور اس کا ہاتھ چرخی کے بٹن پر جا پڑا۔ چرخی تیزی سے گھومی اور ندیم دھپ سے زمین پر جا گرا۔

’چرخی واپس گھماؤ بے وقوف۔ ‘ پروفیسر ادریس خوف زدہ انداز میں چلائے مگر انہیں دیر ہو چکی تھی۔

جونہی ندیم زمین پر گرا۔ ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ زمین پھٹ گئی اور ندیم نمودار ہونے والی گہری دراڑ میں جا گرا۔ فوراً ہی دراڑ بند ہو گئی۔ ندیم زمین میں زندہ دفن ہو چکا تھا۔ اس کی کمر سے بندھی تار زمین سے نکلی نظر آ رہی تھی۔ ادھر پائلٹ جو ہیلی کاپٹر کو اوپر اٹھا رہا تھا اسے ایک زوردار جھٹکا لگا کیوں کہ چرخی پوری گھوم چکی تھی اور اس کا ایک سرا زمین میں دفن تھا۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا ہوا پروفیسر؟‘ لمبے قد والا بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

اسی وقت گڑگڑاہٹ پھر گونجی اور ایک بار پھر کئی پتھر پہاڑی سے اڑتے ہوئے ادھر آئے۔

’فوراً تار کاٹ دو۔ ‘ پروفیسر چلائے۔

’مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ندیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘لمبے قد والے کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے اور کئی پتھر زوردار انداز میں ہیلی کاپٹر ے ٹکرائے۔

’دیر مت کرو۔ تار کاٹ دو۔ ندیم اب ہم سے بچھڑ چکا ہے۔ اگر ہم نے اور دیر کی تو ہمارا بھی یہی انجام ہو گا۔ ‘

 اور لمبے قد والے نے ایک تیز دھار والے پلاس سے تار کاٹ دی۔ تار لہراتی ہوئی نیچے جا گری۔ اس کے ساتھ ہی پائلٹ نے تیزی سے ہیلی کاپٹر کو آگے بڑھایا اور اس کی رفتار بڑھاتا چلا گیا۔

***

وہ سب مغموم انداز میں ریسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔

’یہ زمین تو بہت خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اگر بقول پروفیسر ادریس یہ زمینی زندگی بڑھنا شروع ہو گئی اور اس کا اثر آبادی والے علاقوں تک پھیل گیا تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘چیئرمین کہتے کہتے رک گیا۔

’واقعی یہ بات خطرناک ہو گی۔ ہمیں اس سے پہلے ہی کسی طرح زمین میں موجود زندگی کو ختم کرنا ہو گا۔ ‘

’ختم تو جب کریں گے جب ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ یہ زندگی ہے کس قسم کی؟اور اس کے لیے مٹی کا معائنہ ضروری ہے۔ ایک بار ہم اس جگہ کی مٹی کا تجزیہ کر لیں کہ اس میں زندگی کس طرح نمودار ہوئی اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہے تو پھر ہی اس کا کوئی توڑ کیا جا سکتا ہے۔ ‘ ایک غیر ملکی سائنسدان بولا۔

آج صبح اخباروں میں اس واقعے کی اشاعت کے بعد پوری دنیا کے سائنسدان اس طرف متوجہ ہو گئے تھے اور بہت سے تو یہاں پہنچ بھی گئے تھے۔

’ایک طریقہ میرے ذہن میں آ رہا ہے۔ ‘ایک اور غیر ملکی بولا۔

’وہ کیا؟‘ پروفیسر نے بے چین ہو کر پوچھا۔

’یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہم اس زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے اور نہ اسے کھود سکتے ہیں۔ کیوں نہ اس پر بم برسائے جائیں۔ اس طرح گرد و غبار کا ایک طوفان اٹھے گا اور ہمیں کسی طرح اس گرد کو کسی سلنڈر میں محفوظ کر لینا چاہیے۔ ‘

’اوہ! طریقہ تو اچھا ہے مگر اس میں خطرہ بہت ہے۔ آپ سن ہی چکے ہیں کہ اس زمین نے ہیلی کاپٹر پر پتھر برسائے تھے۔ ‘

’ہاں مگر رسک لیے بغیر تو کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘ اس کا جملہ ختم ہوتے ہی کمرہ بری طرح لرزنے لگا جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔

’بھاگو۔ زلزلہ آ رہا ہے۔ ‘ کوئی چلایا۔

سب تیزی سے اٹھے۔ اسی وقت کمرے کی ایک دیوار اور چھت کا کچھ حصہ دھڑام سے گر پڑا۔ سب افراتفری کے عالم میں باہر دوڑے۔ زمین پر بار بار جھٹکے لگ رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے اوپر گرتے پڑتے ٬ چیختے چلاتے ریسٹ ہاؤس سے باہر نکلے۔ ان کے نکلتے ہی پورا ریسٹ ہاؤس ایک دھماکے سے زمین بوس ہو گیا۔ وہ سب دھک سے رہ گئے۔ اگر انہیں نکلنے میں ایک سیکنڈ کی دیر ہو جاتی تو وہ بھی اس ملبے تلے دفن ہو چکے ہوتے۔ ابھی وہ اس صدمے سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ زور دار گڑگڑاہٹ کے ساتھ سڑک دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ وہ غیر ملکی جس نے زمین پر بم برسانے کی تجویز پیش کی تھی وہ دراڑ میں جا گرا۔

ایک بھیانک چیخ اس کے حلق سے نکلی اور زمین کے دونوں سرے آپس میں مل گئے۔

’اف میرے خدا یہ زلزلہ نہیں تھا بلکہ وہ زمینی زندگی یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ ‘ لمبے قد والا حلق پھاڑ کر چلایا اور سب پاگلوں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے۔

بادلوں کے گرجنے کی سی آواز گونجی اور ریسٹ ہاؤس کے ملبے سے اینٹیں اور پتھر اڑ اڑ کر ان لوگوں پر برسنے لگے۔ پتھروں کی بارش سی ہونے لگی۔ بہت سے لوگ شدید زخمی ہو گئے۔ کچھ گر کر تڑپنے لگے مگر اس وقت کسی کو کسی کی پروا نہ تھی۔ سب اندھا دھند بھاگے جا رہے تھے۔ نہ جانے وہ کتنی دیر تک بھاگتے رہے آخر بے دم ہو کر گر پڑے۔

’شش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید ہم محفوظ جگہ تک پہنچ چکے ہیں۔ یہاں کی زمین زندہ نہیں۔ ‘پروفیسر بری طرح ہانپتے ہوئے بولے۔

’یہ شہر اس غیر آباد علاقے سے چند میل کے فاصلے پر ہے اور وہ ریسٹ ہاؤس شہر کے بالکل سرے  پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی شہر کے کنارے تک پہنچ چکی ہے اور ایک دو دن میں پورے شہر کی زمین زندہ ہو جائے گی۔ اف میرے خدا ! اس شہر کے لوگ تو سخت خطرے میں ہیں۔ ‘

’میرا خیال ہے شہر کو فوراً خالی کروا لینا چاہیے۔ ‘

’ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ابھی حکام سے بات کرتا ہوں۔ ‘ کمشنر بولا اور کھڑا ہو گیا۔

***

کل تک جو شہر لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ ہر طرف چہل پہل تھی۔ وہ آج سنسان نظر آ رہا تھا۔ کل سارا دن بار بار ریڈیو اور ٹی وی پر اعلان کیا گیا کہ اس شہر کے لوگ فوراً شہر خالی کر دیں اور اس علاقے سے دور کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔ ریسٹ ہاؤس میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیل سن کر سب لوگ خوفزدہ ہو گئے اور اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ہر کوئی خوفزدہ تھا کہ کہیں زمین اسے بھی نہ نگل لے یا اس کا گھر بھی توڑ پھوڑ نہ ڈالے۔

پورے ملک میں شور مچ چکا تھا۔ لوگ مطالبہ کر رہے تھے کہ فوراً اس فتنے کا سد باب کیا جائے ورنہ تو آہستہ آہستہ یہ زمینی زندگی پورے ملک میں پھیل جائے گی اور پھر دوسرے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ کئی ملکوں کے سائنسدان پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے مگر وہ اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتے تھے جب تک اس زندہ زمین سے تھوڑی سی مٹی نکال کر اس کا تجزیہ نہ کر لیا جائے۔ اور آج پھر ایک ہیلی کاپٹر اسی مقصد کے لیے اس پراسرار علاقے کی طرف محو پرواز تھا۔

’ہیلی کاپٹر روک لیں۔ یہی وہ پراسرار زمین ہے جہاں شہاب ثاقب گرا تھا اور جہاں سب سے پہلے زندگی نمودار ہوئی۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔ ہیلی کاپٹر فضا میں رک گیا۔

’ہوں ٹھیک ہے تو پھر سب تیار ہو جائیں۔ ‘ پائلٹ بولا۔ فوجیوں نے شیشے کے سلنڈر ہاتھوں میں لے لیے اور چہروں پر ہیلمٹ چڑھا لیے۔

’ایک دو تین۔ ۔ ۔ ۔ ‘ پائلٹ بولا اور اس کے ساتھ ہی ہیلی کاپٹر نے ایک جھٹکے سے نیچے کی طرف غوطہ لگایا۔ ہیلی کاپٹر سے کئی طاقتور بم تیر کی طرح نکلے اور زمین پر جا گرے۔ ایک زبردست دھماکہ ہوا اور جس جگہ بم پھٹے وہاں سے گرد کا ایک بگولہ سا اٹھا اور سانپ کی چھتری نما گرد و غبار کا یہ بگولہ بلند ہونے لگا۔ ہیلی کاپٹر کمان سے نکلے تیر کی طرح اس بگولے میں جا گھسا۔ فوجیوں نے سلنڈر کھڑکیوں سے باہر نکالے اور مٹی ٬ دھول اور گرد دھڑا دھڑ سلنڈروں میں گھسنے لگی۔ پورا ہیلی کاپٹر بھی گرد آلود ہو گیا۔ بس چند سیکنڈ میں سب کچھ ہو گیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ تیزی سے فضا میں بلند ہوتا چلا گیا۔

اسی وقت گڑگڑاہٹ کی زوردار آواز گونجی اور پہاڑی پھر لرزنے لگی اور ایک دھماکے سے پھٹی۔ چھوٹے بڑے بے شمار پتھر اچھلے مگر ہیلی کاپٹر اب بہت اونچائی پر پہنچ چکا تھا۔ وہ تیزی سے اس علاقے سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ کوئی بھی پتھر اسے نہ لگ سکا۔ وہ اپنا مشن پورا کر کے صاف بچ نکلا تھا۔

پھر گویا اس علاقے میں زلزلہ سا آ گیا۔ زمین اوپر نیچے ہونے لگی۔ اس علاقے سے ملحقہ شہر بری طری لرزنے لگا۔ شہر کی ساری عمارتیں کانپ رہی تھیں۔ جیسے انہیں جاڑے کے بخار نے آ لیا ہو۔ اور پھر عمارتیں دھڑادھڑ گرنے لگیں۔ شہر ملبے کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔ زمین غصے میں عمارتوں کے گرنے والے ملبے کو اچھال رہی تھی۔ اینٹیں، پتھر،کھڑکیاں ،دروازے اچھل اچھل کر اوپر جاتے اور پھر بارش کی صورت میں واپس نیچے آ گرتے۔ انسان کی کامیابی پر زمین کو بے حد غصہ آ گیا تھا۔ وہ تو شکر تھا کہ لوگ شہر خالی کر کے پہلے ہی جا چکے تھے ورنہ آج قیامت کا دن ہوتا۔

***

پراسرار زمین سے بہت دور ایک شہر میں ایک اہم میٹنگ ہو رہی تھی۔ میٹنگ میں ملک کے اعلی عہدیدار ٬ سائنسدان ٬ ڈاکٹر اور دوسرے لوگ شریک تھے۔ اس علاقے سے حاصل کی جانے والی مٹی کا تجزیہ ملک اور دنیا بھر سے آئے ہوئے بہترین ڈاکٹروں نے کیا تھا اور اب ڈاکٹر رفیع اس کی تفصیل بتا رہے تھے۔

’جیسا کہ آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ کاربن کے ایٹموں کا ایک خاص ترتیب میں جڑ جانا زندگی کا باعث ہوتا ہے۔ کاربن کے ایٹموں کے مختلف انداز میں جڑنے سے مختلف قسم کی زندگی نمودار ہوتی ہے۔ مثلاً انسان کے خلیے میں کاربن کے ایٹموں کی ترتیب مختلف ہے اور درخت یا پودے کے خلیے میں یہ ترتیب دوسری طرح ہوتی ہے۔ اس بار جب شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تو زمین میں کیمیائی تبدیلیاں آ گئیں اور اس علاقے کی زمین میں کاربن کے ایٹم ایک بالکل نئی ترتیب میں آ گئے۔ اور یوں زمین میں ایک نئی قسم کی زندگی نمودار ہو گئی۔ زندگی کی یہ قسم ہمارے لیے بالکل نئی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ زمین زندہ ہو چکی ہے۔ ‘

’اور یہ زمینی زندگی پھیلتی بھی تو جا رہی ہے۔ ‘ پروفیسر ادریس بولے۔

’اوہ ! یہ تو بہت خطرناک بات ہے۔ کیا کسی طرح اس زندگی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا؟‘ایک عہدیدار نے پریشان ہو کر پوچھا۔

’ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسانی زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ‘ ڈاکٹر رفیع بولے۔

’یعنی۔ ۔ ؟‘ ایک غیر ملکی نے سوالیہ انداز میں کہا۔

’اگر انسان کو زہر دیا جائے تو وہ مر جاتا ہے۔ اسی طرح زمین کو بھی زہر دینا ہو گا ایسا زہر جو کاربن کے ایٹموں کی ترتیب توڑ دے اور زمین مر جائے۔ ہم ایک ایسا زہر تیار کریں گے جو اس زندگی کا خاتمہ کر دے۔ ‘ ڈاکٹر رفیع نے کہا۔

’لیکن زمین کو زہر کس طرح دیا جائے گا؟‘ کسی نے سوال کیا۔

’سیدھی سی بات ہے۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس پورے علاقے پر زہر کا چھڑکاؤ کر دیا جائے گا۔ ‘

***

ٹھیک تین دن بعد ایک ہیلی کاپٹر اس زندہ زمین کے علاقے پر پرواز کر رہا تھا۔ ان تین دنوں میں ڈاکٹر ایسا زہر تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو اس زمینی زندگی کا خاتمہ کر سکے۔ ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے شہر پر سے ہوتا ہوا وہ میدانی علاقے پر پہنچ گیا۔ پھر وہ ذرا سا نیچے ہوا اور اس نے زمین پر چھڑکاؤ کرنا شروع کر دیا۔ ہیلی کاپٹر کے نچلے حصے سے ایک پھوار کی صورت میں زہر زمین پر برس رہا تھا۔ پھر اچانک ہیلی کاپٹر مزید نیچے ہو گیا۔ ہیلی کاپٹر میں بیٹھا فضائیہ کا ایک پائلٹ گھبرا گیا۔ اس نے ہیلی کاپٹر کو اوپر اٹھانا چاہا مگر ناکام رہا۔ اس نے پریشان ہو کر کنٹرول روم سے رابطہ کیا۔

’ہیلو۔ ۔ ۔ سر ہیلی کاپٹر میرے کنٹرول میں نہیں رہا۔ یہ زمین کی طرف کھنچا جا رہا ہے۔ ‘

’ہیلی کاپٹر اوپر اٹھانے کی کوشش کرو۔ شاباش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمت کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھبراؤ مت۔ ۔ ‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔

’نن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ ‘ پائلٹ چلایا۔ اس نے اپنی پوری قوت صرف کر دی۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت ہیلی کاپٹر کو نیچے کھینچ رہی ہے۔ اور پھر ہیلی کاپٹر تیر کی طرح نیچے جا گرا اور ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ پائلٹ نے اس کے گرنے سے پہلے ہی چھلانگ لگا دی تھی۔ مگر زمین پر گرتے ہی اسے بادلوں کے گرنے کی آواز آئی۔ اس نے چونک کر دیکھا۔ سامنے موجود ٹوٹی پھوٹی پہاڑی کانپ رہی تھی۔ پھر زلزلہ سا آ گیا اور پہاڑی سے کئی پتھر اچھلے اور پائلٹ کی طرف آئے۔ پائلٹ خوفزدہ انداز میں دوڑا۔ اسی وقت ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ زمین پھٹ گئی اور پائلٹ دوڑتا ہوا دراڑ میں جا گرا۔ دراڑ فوراً ہی بند ہو گئی۔ زمین اپنے تیسرے شکار کو ہڑپ کر چکی تھی۔

***

 

یہ۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟‘فضائیہ کے سربراہ حیرت سے پوچھ رہے تھے۔

’میں خود حیران ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس علاقے کی زمین کی کشش ثقل کی قوت بہت بڑھ گئی ہے اور زمین نے کشش ثقل کی قوت کے ذریعے ہیلی کاپٹر کو نیچے کھینچ لیا۔ ‘پروفیسر ادریس بولے۔

’اوہ! پھر اب کیا ہو گا؟ اس طرح تو اس زمین پر فضائی راستے سے بھی کوئی کاروائی کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ‘ ایک فوجی عہدیدار پریشان ہو کر بولے۔

’میرا خیال ہے کہ وہ ہیلی کاپٹر کچھ نیچی پرواز کر رہا تھا۔ اسی لیے زمین اسے کھینچنے میں کامیاب ہو گئی۔ ہمیں ایک بار پھر کاروائی کرنا چاہیے اور اس بار جہازوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ جہاز ایک تو خاصی اونچی پرواز کریں گے دوسرے ان کی رفتار تیز ہو گی۔ لہذا زمین انہیں کشش ثقل کے ذریعے نہیں کھینچ سکے گی۔ ‘ پروفیسر ادریس نے کہا۔

’لیکن اتنی اونچائی اور تیز رفتار پروازوں کے ذریعے تو زہر کا اسپرے صحیح طرح نہیں ہو سکتا۔ ‘ایک صاحب نے اعتراض کیا۔

’ہاں بات تو ٹھیک ہے۔ ‘ پروفیسر ادریس نے سر ہلایا۔

’میری ایک تجویز ہے کہ زہر اسپرے کرنے کی بجائے کیوں نہ زہر کے کیپسول بنائے جائیں اور انہیں خولوں میں بند کر کے گولیوں کی طرح زمین پر برسایا جائے۔ اس طرح کیپسول زمین میں دھنس کر پھٹ جائیں گے اور زہر زمین میں مل جائے گا۔ ‘ ڈاکٹر رفیع نے کہا۔

***

اس بار بیک وقت تین طیارے اس علاقے پر حملہ آور ہوئے اور زندہ زمین پر پہنچتے ہی انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ تڑا تڑ گولیاں برسنے لگیں۔ ان گولیوں میں زہریلے کیپسول تھے جو زمین میں دھنس کر پھٹ جاتے۔ اس وقت جہاز تباہ شدہ شہر پر گولیاں برسا رہے تھے۔ ایک دم شہر زلزلے کی مد میں آ گیا اور ایک بار پھر عمارتوں کا گرا ہوا ملبہ ٬ اینٹیں اور پتھر اوپر اچھلنے لگے۔ زمین ان جہازوں کو نشانہ بنانا چاہتی تھی مگر جہاز خاصی اونچائی پر تھے لہذا پتھر وہاں تک نہ پہنچ سکے اور اچھل اچھل کر واپس آ گرتے۔ ادھر جہاز گولیاں برساتے ہوئے آگے نکل گئے۔ جہاز تیزی سے نیچے کو آتے۔ تڑا تڑ فائرنگ کرتے اور اگلے ہی لمحے پھر اوپر اٹھ جاتے۔ لہذا زمین ان پر کشش ثقل کی قوت لگانے میں ناکام رہی۔ فائرنگ کرتے ہوئے وہ غیر آباد میدانی علاقے اور پہاڑی علاقے پر آ گئے۔ زمین ایک بار پھر پہاڑی سے پتھر اچھالنے لگی مگر اس بار اسے اپنے ہر وار میں ناکامی ہو رہی تھی۔ جہاز بڑی کامیابی سے فائرنگ کرتے ہوئے دور نکل جاتے۔ پھر مڑ کر واپس آتے اور فائرنگ کرتے ہوئے دوسری طرف نکل جاتے۔ فائرنگ کا یہ کھیل کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ ارد گرد کے تمام علاقے پر گولیاں برسائی گئیں اور بے تحاشہ برسائی گئیں یہاں تک کہ ساری گولیاں ختم ہو گئیں۔ جہاز اپنا مشن مکمل کر کے واپس لوٹ گئے۔

***

اب یہ کیسے پتہ چلے کہ زمین زندہ ہے یا مر چکی ہے۔ ‘لمبے قد والا بولا۔

وہ پروفیسر ادریس اور چند دوسرے لوگ اس وقت ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تھے اور ہیلی کاپٹر اس پراسرار زمین سے کافی بلندی پر فضا میں معلق تھا۔

’یہ تو مٹی کا دوبارہ تجزیہ کر کے ہی بتایا جا سکتا ہے۔ ‘ پروفیسر ادریس بولے۔

’میرا خیال ہے کہ میں مٹی کھودنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’مگر اس میں تو خطرہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ زمین ابھی زندہ ہو۔ ‘

’رسک تو لینا پڑے گا۔ ‘

پھر لمبے قد والے کی کمر سے تار باندھی گئی اور اسے ہیلی کاپٹر سے نیچے لٹکایا گیا۔ چرخی گھمائی جانے لگی اور وہ آہستہ آہستہ نیچے ہونے لگا۔

زمین کے کافی قریب پہنچ کر اس نے اشارہ کیا اور چرخی گھومنا رک گئی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کھرپی زمین پر چلائی۔ جب ندیم نے ایسا کیا تھا تو زمین نے کھرپی جکڑ لی تھی اور وہ واپس نہ نکل سکی تھی۔ مگر اس بار ایسا نہ ہوا اور لمبے قد والے نے آسانی سے ذرا سی مٹی کھود کر تھیلی میں ڈال لی۔ اب اسے واپس اوپر کھینچا گیا اور وہ ہیلی کاپٹر میں پہنچ گیا۔

’مبارک ہو۔ میں مٹی لانے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین واقعی مر چکی ہے ورنہ وہ اتنی آسانی سے مٹی نہ لینے دیتی۔ ‘ لمبے قد والا خوش ہو کر بولا۔

آخر وہ واپس ہوئے اور مٹی ڈاکٹر رفیع کے حوالے کی گئی۔ انہوں نے مٹی کا تجزیہ کرنے کے بعد بتایا کہ اس میں کسی قسم کی زندگی کے آثار نہیں ہیں۔ زمین واقعی مر چکی ہے۔

یہ سن کر سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

یہاں سب خوش ہو رہے تھے اور وہاں اس پراسرار علاقے میں اس گہرے گڑھے میں گرا ہوا شہاب ثاقب کا ٹکڑا آہستہ آہستہ تھرتھرا رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ انسان نے مجھے ختم کرنے کی پوری کوشش کر ڈالی مگر شکر ہے کہ میری طرف ان کا دھیان نہیں گیا۔ اب میں اس گڑھے سے اپنی زندگی کا دوبارہ آغاز کروں گا اور انسانوں سے اپنی بربادی کا انتقام لوں گا۔ مگر مجھے انتظار کرنا ہو گا اس وقت تک جب تک کہ میں اچھے خاصے علاقے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لوں اور اپنی طاقت نہ بڑھا لوں۔ وہ وقت اب دور نہیں جب ساری دنیا کے انسان میرے غلام ہوں گے۔

***

 

(۲)

می شنگ اپنے آفس میں بیٹھا ایک فائل کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘ وہ بڑبڑایا۔ پھر اس نے میز پر رکھے فون کا ریسیور اٹھایا اور ایک نمبر دبا کر بولا۔ ’چیانگ فوراً میرے پاس آؤ۔ ‘

اس کی آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ جلد ہی آفس کا دروازہ کھلا اور ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔

’سر۔ ۔ آپ نے یاد کیا۔ ‘ وہ سرسراتی آواز میں بولا اور می شنگ کو ایک بار پھر جھٹکا سا لگا۔ وہ پہلے بھی چیانگ کی آواز سن کر اور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا جب اس نے یہ رپورٹ اسے لا کر دی تھی۔

’بیٹھو چیانگ۔ میں نے تمہاری رپورٹ پڑھ لی ہے۔ اس کے مطابق اس علاقے میں تیل کی تلاش کرنا بے سود ہے کیوں کہ وہاں سے تیل ملنے کی کوئی امید نہیں۔ لہذا ہمیں اپنا کام سمیٹ لینا چاہیے۔ ‘می شنگ بولا۔

’یس سر۔ میں نے یہی لکھا ہے۔ ‘ وہ سپاٹ آواز میں بولا۔

’مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے ! ہمارے ابتدائی سروے کے مطابق اس علاقے سے تیل ملنے کی قوی امید تھی۔ اور ابھی پچھلے ہفتے تم نے بھی مثبت رپورٹ دی تھی کہ وہاں تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ اب ایک دم تم نے بالکل مختلف رپورٹ لکھ دی ہے۔ میں اس سے کیا سمجھوں ؟‘ می شنگ نے کہا۔

’پچھلی رپورٹ غلط تھی۔ یہی حقیقت ہے کہ وہاں تیل ملنے کی کوئی امید نہیں۔ ہمیں اپنا وقت اور سرمایہ برباد نہیں کرنا چاہیے اور یہاں سے کوچ کر جانا چاہیے۔ ‘چیانگ سرد آواز میں بولا۔

می شنگ کی نظریں اس کی نظروں سے ٹکرائیں تو وہ کانپ اٹھا۔ نہ جانے ان نگاہوں میں کیا تھا۔ ’آخر میں اپنے ماتحت سے خوفزدہ کیوں ہو رہا ہوں ؟‘ اس نے سوچا پھر سخت لہجے میں بولا۔

’ٹھیک ہے میں کل خود علاقے کا دورہ کروں گا اور جائزہ لوں گا کہ کیا صورت حال ہے۔ میں تمہاری اس رپورٹ پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ آخر یہ کمپنی کی ساکھ کا سوال ہے۔ ہم نے کئی ماہ لگا کر سروے کیا اور یہاں کی حکومت کو بتایا کہ اس علاقے میں تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اب میں ایک دم منفی رپورٹ کیسے دے دوں۔ ‘

’آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ کو وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپنا عملہ اور مشینری وہاں سے واپس منگوا لیں اور یہاں سے چلیں۔ ‘ چیانگ سخت لہجے میں بولا۔

’یہ تم مجھ سے کس لہجے میں بات کر رہے ہو؟تم مجھے حکم دینے والے کون ہوتے ہو؟‘ می شنگ غصے میں بولا۔

’میری بات مان لیں ورنہ پچھتائیں گے۔ ‘چیانگ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے سے نکل گیا۔ می شنگ اسے دیکھتا رہ گیا۔

***

جیپ کے رکتے ہی گرد کا ایک طوفان سا اٹھا۔ می شنگ نے گرد چھٹنے کا انتظار کیا پھر جیپ سے اترا اور آگے قدم بڑھائے۔ سامنے بھاری مشینری اور کرینیں وغیرہ نظر آ رہی تھیں۔ بہت سے لوگ کام میں مصروف تھے۔ می شنگ کو آگے بڑھتا دیکھ کر ایک شخص چونکا اور تیزی سے اس کی طرف لپکا۔

’سر آپ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک یہاں !‘ وہ بولا۔

’ہاں زوباؤ۔ یہ بتاؤ کام کی کیا رپورٹ ہے ؟‘ می شنگ نے سنجیدگی سے پوچھا۔

’کام بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے سر۔ جلد ہی آپ خوشخبری سنیں گے۔ ‘ زوباؤ اس کے ساتھ قدم اٹھاتا ہوا بولا۔

’خوشخبری؟‘ می شنگ کا لہجہ سوالیہ تھا۔

’جی ہاں تیل نکلنے کی خوشخبری۔ ‘ زوباؤ بولا اور می شنگ دھک سے رہ گیا۔ اس کے ذہن میں ہزاروں سوالات سر اٹھانے لگے۔ آخر چیانگ اس سے جھوٹ کیوں بول رہا تھا۔ اور یہ کیوں چاہتا تھا کہ وہ غلط رپورٹ دے کر یہاں سے واپس چلے جائیں۔ کیا وہ کسی بڑی طاقت کا آلہ کار ہے جو نہیں چاہتے کہ یہاں تیل کی تلاش کا کام کیا جائے ؟یا پھر وہ اس کی کمپنی کو بدنام کرنا چاہتا ہے مگر کیوں ؟

’خیریت تو ہے سر؟آپ پریشان نظر آ رہے ہیں۔ ‘ زوباؤ نے پوچھا۔

’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ بتاؤ چیانگ نے تم سے کوئی بات تو نہیں کی؟‘ اس نے پوچھا۔

’کیسی بات سر؟ وہ تو کل اپنی رپورٹ لکھ کر یہاں سے چلے گئے تھے۔ ‘زوباؤ بولا۔

’تم جانتے ہو اس نے رپورٹ میں کیا لکھا ہے ؟‘

’نہیں سر۔ میں نہیں جانتا۔ ‘

’اس نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘می شنگ کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے اسی وقت کوئی زور سے چلایا تھا۔ ’بچوووووو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

دونوں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ پھر جب سر اوپر اٹھایا تو دھک سے رہ گئے۔ دراصل کرین کے ذریعے ایک بھاری مشین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا تھا۔ اس وقت وہ مشین عین ان کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی جب اچانک ہی کرین کو ایک زوردار جھٹکا سا لگا۔ اور کرین آپریٹر کا ہاتھ انجانے میں ایک بٹن پر جا پڑا جس کی وجہ سے وہ چرخی جس پر رسی لپٹی ہوئی تھی، تیزی سے گھوم گئی اور اس سے لٹکی ہوئی بھاری مشین تیزی سے نیچے آئی۔ آپریٹر نے بوکھلا کر بٹن آف کرنا چاہا مگر گھبراہٹ میں وہ بٹن صحیح طرح نہ دبا سکا۔ جب تک می شنگ اور زوباؤ کو خطرے کا احساس ہوا، مشین عین ان کے سر پر پہنچ چکی تھی۔ می شنگ نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ٹنوں وزنی وہ مشین عین اس کے سر پر آ گری۔ وہاں بے شمار چیخیں گونج اٹھیں۔

***

فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ چیانگ تیزی سے غسل خانے سے نکلا اور ریسیور اٹھا کر بولا۔

’ہیلو۔ ۔ ۔ ۔ ہاں میں چیانگ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ تو می شنگ اور زوباؤ مارے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوں سنو فوراً کام روک دو اور سامان پیک کر دو۔ ہم واپس جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو میں کہ رہا ہوں وہ کرو۔ اب میں ہی تمہارا انچارج ہوں۔ اسی وقت سے مشینری پیک کرنا شروع کر دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘اس نے زور سے ریسیور کریڈل میں پٹخ دیا۔

***

لمبے قد کا وہ آدمی ایک عمارت سے باہر نکلا۔ اپنے آپ میں مگن ایک ہاتھ کی انگلی پر چابیوں کا چھلا گھماتے ہوئے وہ پارکنگ میں داخل ہوا۔ جلد ہی اس کی سرخ رنگ کی کار نمودار ہوئی اور سڑک پر دوڑنے لگی۔ یہ عمارت آبادی سے خاصی دور تھی اور یہاں سے ایک سڑک سیدھی دور تک جاتی نظر آ رہی تھی۔ اس وقت سڑک پر صرف اس کی سرخ کار دوڑ رہی تھی۔ کافی دور جا کر سڑک دائیں طرف مڑ گئی۔ یہاں سڑک کے کنارے ایک نیلی کار کھڑی تھی۔ جوں ہی سرخ کار نے موڑ کاٹا، نیلی کار بھی سٹارٹ ہو گئی اور سرخ کار کے پیچھے چلنے لگی۔ لمبے قد والے نے بیک ویو آئینے میں ایک اچٹتی سی نظر نیلی کار پر ڈالی۔ نیلی کار کی رفتار کچھ تیز ہو گئی اور وہ اس کی کار کے برابر میں آ گئی۔ پھر اچانک ہی نیلی کار والے نے سٹیرنگ گھما دیا اور نیلی کار سرخ کار سے بری طرح ٹکرائی۔ لمبے قد والا بوکھلا گیا۔ اس نے بڑی مشکل سے کار کو قابو میں کیا ورنہ وہ الٹ جاتی۔ اس کی کار کچے میں لڑکھڑانے کے بعد رک گئی۔ نیلی کار آگے نکل گئی۔ لمبے قد والا حیرت سے نیلی کار کو دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے غصے میں اپنی کار اسٹارٹ کی اور نیلی کار کے پیچھے دوڑا دی۔ جلد ہی اس نے نیلی کار کو جالیا۔ ایک بار پھر سڑک پر دونوں کاریں برابر برابر دوڑ رہی تھیں۔ لمبے قد والے نے نیلی کار کے ڈرائیور پر نگاہ ڈالی تو اسے الجھن سی محسوس ہوئی۔ نیلی کار والے نے بڑے بڑے کالے شیشوں والی عینک پہن رکھی تھی۔ لمبے قد والے کو اس کا چہرہ جانا پہچانا سا لگا۔

’اے کون ہو تم اور تم نے میری کار کو ٹکر کیوں ماری تھی؟‘ لمبے قد والا چلایا۔ یہ سنتے ہیں نیلی کار والے نے ایک بار پھر اس کی کار کو سائڈ دے ماری۔ لمبے قد والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس نے بڑی مشکل سے کار کو اپنے کنٹرول میں کیا۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو شاید پاگل ہو گیا ہے۔ ‘ وہ بڑبڑایا۔ اور پھر اس نے کار کی رفتار بڑھا دی۔ اسے نکلتا دیکھ کر نیلی کار والے نے بھی رفتار بڑھا دی اور پھر اس نے زور سے اسے پیچھے سے ٹکر ماری۔ اس کی کار ہل کر رہ گئی۔

’اف میرے خدا ! کیا یہ مجھے مارنا چاہتا ہے ؟مگر یہ ہے کون؟‘وہ خوف سے چلایا اور رفتار مزید بڑھا دی۔

آگے پھر موڑ تھا اور یہاں سے شہری حدود شروع ہو رہی تھیں۔ دونوں کاریں ادھر مڑ گئیں۔ نیلی کار والا بدستور اس کے پیچھے تھا۔ اب سڑک پر دوسری گاڑیاں بھی گزر رہی تھیں اس لیے نیلی کار والے کو اس کے برابر آنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ پھر بھی دوسری گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا ہوا وہ اس کے برابر پہنچ ہی گیا۔ ایک بار پھر اسے سائڈ مارنے کے لیے اس نے سٹیرنگ گھمایا مگر اس بار لمبے قد والا ہوشیار تھا۔ اس نے بھی تیزی سے سٹیرنگ گھما دیا۔ وہ ٹکر سے تو بچ گیا مگر سامنے سے آنے والے موٹر سائیکل سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ موٹر سائیکل والے نے گھور کر اسے دیکھا مگر وہ تو آگے نکل چکے تھے۔

آگے چوراہا تھا۔ وہ چوراہے سے ذرا دور تھے کہ لائٹ سرخ ہو گئی۔ لمبے قد والے نے رفتار اور بڑھا دی اور سرخ لائٹ کے باوجود کار نکال کر لے گیا۔ دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں نے زور زور سے ہارن بجائے۔ نیلی کار نے بھی نکلنے کی کوشش کی اور دائیں طرف سے آتی ہوئی کار سے بری طرح ٹکرا گئی۔ وہ کار گھوم کر سڑک سے نیچے جا اتری اور ایک درخت سے ٹکرا گئی جب کہ نیلی کار والا نکلتا چلا گیا۔ لمبے قد والا اب بدحواس ہو چکا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ نیلی کار پھر اس کے سر پر پہنچ چکی تھی۔ اس نے سرخ کار کے برابر آنے کی کوشش کی۔ اسی وقت سامنے سے آنے والے ٹرک نے بھی اوور ٹیکنگ کر کے نکلنے کی کوشش کی۔ لمبے قد والے نے فوراً سٹیرنگ بائیں طرف گھمایا اور اس کی کار ٹرک سے رگڑ کھاتی ہوئی نکل گئی۔ مگر نیلی کار والا نہ بچ سکا اور وہ ٹرک سے ٹکرا گیا۔ ٹرک سے ٹکرا کر نیلی کار اچھلی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی سڑک کے بیچ الٹ گئی۔

لمبے قد والے نے زور سے بریک لگائے اور مڑ کر دیکھا۔ ٹرک والے نے ٹرک سائڈ پر لگا دیا تھا اور ٹرک سے اتر کر الٹی ہوئی کار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسی وقت الٹی ہوئی نیلی کار کی کھڑکی سے ایک شخص نکلتا نظر آیا۔ کھڑکی سے نکل کر وہ سیدھا ہوا اور اس نے دور کھڑی سرخ کار کو دیکھا۔ پھر اس کا ہاتھ تیزی سے جیب میں گیا اور اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں پستول نظر آیا۔ لمبے قد والے کو خطرے کا شدید احساس ہوا۔ اس نے ایک دم ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا اور کار تیزی سے آگے بڑھی۔ ایک فائر کی آواز گونجی اور اس کی کار کا پچھلا شیشہ ٹوٹ گیا۔ اس نے رفتار اور بڑھا دی۔ دو گولیاں اور چلیں مگر اب کار دور جا چکی تھی۔ پھر لمبے قد والے نے مڑ کر نہ دیکھا اور نکلتا چلا گیا۔

***

’یہ تم نے کیسی خبر سنائی ہے۔ میں تو پریشان ہو گیا ہوں۔ ‘ پٹرولیم کا وزیر پریشان ہو کر بولا۔

’سر جو کچھ ہوا اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ می شنگ اور زوباؤ دونوں حادثے کا شکار ہوئے ہیں اور اس واقعے کے وہاں موجود تمام مزدور گواہ ہیں۔ جو کچھ ہوا وہ سب کرین آپریٹر کی غلطی سے ہوا۔ ‘ اس کا سیکریٹری بولا۔

’ہاں یہ تو شکر ہے کہ اس واقعے میں کوئی ملکی شخص ملوث نہیں ورنہ سارا نزلہ ہم پر گرتا۔ پھر بھی ہماری سرزمین پر دو چینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ‘ وزیر فکرمند ہو کر بولا۔

’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سر۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ واپس جا رہے ہیں۔ ‘ سیکریٹری نے کہا۔

’وہ کیوں ؟‘ وزیر نے چونک کر پوچھا۔

’مسٹر چیانگ کا کہنا ہے کہ وہاں تیل ملنے کی کوئی امید نہیں۔ اس علاقے میں مزید تلاش فضول ہے۔ ‘سیکریٹری نے بتایا۔

’مگر انہوں نے ہی اس پورے صوبے کا سروے کرنے کے بعد اس علاقے کو منتخب کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ‘

’ہاں مگر اب چیانگ کا کہنا ہے کہ ان سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے اس نے اپنی فائنل رپورٹ مجھے دے دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس ہفتے سامان سمیٹ کر واپس چلے جائیں گے۔ ‘

’خیر جاتے ہیں تو جائیں مجھے کیا تیل ملے نہ ملے۔ ‘ وزیر منہ بنا کر بولا۔

’بہر حال اگرچہ اس معاملے میں کوئی الجھاؤ نہیں۔ پھر بھی میں نے ضابطے کی کاروائی اور تحقیقات کے لیے آئی جی سے کہ دیا ہے۔ وہ اپنا کوئی بندہ بھیج دیں گے۔ ‘

***

انسپکٹر عمران اس وقت می شنگ کے دفتر میں موجود تھے اور مختلف چیزوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی اور اسے پڑھتے ہوئے ان کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور چیانگ اندر داخل ہوا۔ انسپکٹر عمران نے چونک کر سر اٹھایا اور بولے۔ ’ تو آپ مسٹر چیانگ ہیں۔ ‘

’ہاں میں ہی چیانگ ہوں مگر میں نہیں جانتا کہ آپ یہاں کیا کھوجنے آئے ہیں۔ یہ محض ایک حادثہ تھا۔ ‘ وہ سرسراتی آواز میں بولا۔

انسپکٹر عمران نے چونک کر اسے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہی انہیں ایک جھٹکا سا لگا۔ نہ جانے کیوں خوف کی ایک لہر سی ان کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔

’یہ صرف ضابطے کی کاروائی ہے مسٹر چیانگ۔ ‘ وہ بولے پھر ذرا سا ٹھہر کر انہوں نے کہا۔ ’ میں نے سنا ہے کہ آپ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہاں سے تیل ملنے کی کوئی امید نہیں لہذا آپ کی کمپنی واپس جا رہی ہے۔ ‘

’ہاں یہی بات ہے۔ ‘ وہ بولا۔

’مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ انسپکٹر عمران نے اسے گھورا۔ ’ مجھے می شنگ کی میز کی دراز سے یہ فائل ملی ہے۔ یہ آپ ہی کی لکھی ہوئی ایک ہفتے پہلے کی رپورٹ ہے جس کے مطابق اس علاقے میں تیل موجود ہے۔ آپ نے باقاعدہ جگہوں کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں کنویں کھودے جائیں گے۔ اور اب آپ اس کے بالکل برعکس رپورٹ دے رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا کیوں ہے مسٹر چیانگ۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے ؟‘

چیانگ ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا رہا پھر وہ سانپ کیں طرح پھنکارا۔ ’ میں آپ کو وضاحتیں پیش کرنے کا پابند نہیں ہوں۔ یہ میری فائنل رپورٹ ہے میری کمپی اپنا کام ختم کر کے جا رہی ہے۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔ ‘

’آپ کو میرے ساتھ فیلڈ میں چلنا ہو گا مسٹر چیانگ۔ میں اس علاقے کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں اور عملے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ ‘

’آپ وہاں نہیں جا سکتے نہ میری کمپنی کے لوگوں سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔ چیانگ غرایا۔

’آپ کو میرے ساتھ چلنا ہو گا مسٹر چیانگ۔ ‘ انسپکٹر عمران نے اس کی طرف قدم بڑھائے۔ مگر اسی وقت چیانگ نے میز پر سے پیپر ویٹ اٹھا کر ان کے سر پر دے مارا۔ انسپکٹر عمران نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا اور چیانگ پر چھلانگ لگا دی۔ انہیں یوں لگا جیسے وہ کسی پتھر سے ٹکرائے ہوں۔ وہ اس سے ٹکرا کر گرے تو چیانگ نے ایک ٹھوکر ان کی پسلیوں میں رسید کی۔ انسپکٹر عمران کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی۔ ساتھ ہیں چیانگ ان پر چڑھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے ان کی گردن دبانے لگا۔ انسپکٹر عمران نے دونوں ہاتھ اس کے بازوؤں پر جما دیے اور انہیں گردن سے الگ کرنے کی کوشش کرنے لگے مگر چیانگ تو لوہے کا آدمی لگ رہا تھا۔ اپنی پوری قوت لگانے کے باوجود وہ اس کے ہاتھ گردن پر سے نہ ہٹا سکے۔ اسی وقت ان کی نظر فرش پر گری ہوئی ایک کیل پر پڑی۔ انہوں نے ایک ہاتھ اس کے بازو سے ہٹایا اور کیل اٹھانے کی کوشش کی مگر کیل ان کے ہاتھ سے ذرا سی دور تھی۔ ان کا سانس رکتا جا رہا تھا۔ انہوں نے ذرا سے کھسکنے کی کوشش کی تاکہ کیل سے قریب ہو جائیں۔ یہ کام بھی انہیں بہت مشکل محسوس ہوا۔ ادھر چیانگ پر تو گویا ان کا گلا دبانے کا بھوت سوار تھا۔ اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ آخر دو منٹ کی مسلسل کوشش کے بعد وہ اپنا ہاتھ کیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ اور پھر انہوں نے تیزی سے کیل اٹھائی اور اس کی پشت میں گھونپ دی۔ چیانگ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور اس کی گردن پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ انسپکٹر عمران کے لیے اتنا ہی موقع کافی تھا۔ انہوں نے زور لگا کر اسے الٹ دیا اور تیزی سے کھڑے ہوتے ہی ایک ٹھوکر اس کی کنپٹی پر رسید کی۔ چیانگ کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ انہوں نے ایک ٹھوکر اور دے ماری اور وہ بے ہوش ہو گیا۔

کچھ دیر انسپکٹر عمران اپنا سانس درست کرتے رہے پھر انہوں نے چینگ کو کندھے پر ڈالا اور دفتر سے نکل آئے۔ جلد ہی وہ اسے اپنی جیپ میں ڈالے دارالحکومت کی طرف اڑے جا رہے تھے۔

***

’کافی دیر ہو گئی ہے سر۔ کیا آپ چلیں گے نہیں ؟‘ کمرے کا دروازہ کھول کر ایک نوجوان بولا تو میز پر سر جھکائے ایک موٹی سی کتاب پڑھے ہوئے ڈاکٹر رفیع نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور بولے۔

’تم جاؤ انور۔ میرا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ میں یہ آرٹیکل ختم کر کے جاؤں گا۔ ‘

’اگر آپ کہیں تو میں بھی رک جاتا ہوں۔ ‘ انور بولا۔

’نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم جاؤ۔ ‘ ڈاکٹر رفیع نے کہا اور انور دروازہ بند کر کے چلا گیا۔

ڈاکٹر رفیع دوبارہ کتاب میں کھو گئے۔ بعض جگہ وہ پنسل سے نشانات لگاتے جا رہے تھے۔ اس دوران کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھلا اور کوئی دبے پاؤں اندر داخل ہوا۔ ڈاکٹر رفیع پڑھنے میں اتنا مگن تھے کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی۔ اندر داخل ہونے والا آہستگی سے چلتا ہوا ڈاکٹر رفیع کی پشت پر رکھی ہوئی ایک الماری کی طرف بڑھا اور آہستہ سے الماری کھول دی۔ اندر بے شمار مرتبان رکھے تھے اور ان میں سے کچھ مرتبانوں میں چھوٹے چھوٹے سانپ کلبلا رہے تھے۔ اس نے ایک مرتبان اٹھا کر دیکھا اور پھر واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ مرتبان رکھتے ہوئے ہلکا سا کھٹکا ہوا تو ڈاکٹر رفیع نے چونک کر سر اٹھایا۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا پھر پیچھے نظر پڑی تو زور سے چونکے۔

’اے کون ہو تم اور اندر کیسے آئے ؟‘ وہ پریشان ہو کر بولے۔

’تو آپ ہیں ڈاکٹر رفیع۔ زہروں پر تحقیق کے ماہر۔ آپ نے اسی لیے اتنے سانپ جمع کر رکھے ہیں۔ شاید آج کل ان کے زہر پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ‘ اجنبی بولا۔

’میں نے پوچھا ہے کہ تم کون ہو اور چوکیدار نے تمہیں اندر کیسے آنے دیا؟‘وہ زور سے بولے۔

’میں پچھلی طرف سے آیا ہوں۔ پائپ پر چڑھ کر چھت پر پہنچا اور وہاں سے ادھر آ گیا۔ سب لوگ جا چکے ہیں اور اس وقت عمارت میں صرف آپ ہیں۔ ‘ وہ عجیب سی آواز میں بولا۔

’کیا مطلب؟ تم کیا چاہتے ہو؟‘ ڈاکٹر رفیع گھبرا گئے۔

اجنبی پراسرار انداز میں مسکرایا اور الماری سے سانپوں والا مرتبان اٹھا لیا۔ پھر وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘ ڈاکٹر رفیع خوف کے عالم میں بولے۔

دروازے پر پہنچ کر وہ رکا اور مرتبان کا ڈھکن کھول دیا۔ ڈاکٹر رفیع کا رنگ اڑ گیا۔

’یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ سانپ بہت خطرناک ہیں۔ ‘ وہ کانپ کر بولے۔

’جانتا ہوں ڈاکٹر صاحب۔ ‘ وہ مسکرایا پھر اس کے چہرے پر وحشت کے آثار نمودار ہوئے اور وہ بولا۔ ’ گڈ بائی ڈاکٹر۔ ‘ اس کے ساتھ ہی اس نے کھلا ہوا مرتبان ڈاکٹر پر اچھال دیا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ ڈاکٹر رفیع کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ کئی سانپوں نے انہیں ڈس لیا تھا۔ چیخ کی آواز سن کر چوکیدار دوڑتا ہوا ادھر آیا اور پھر کمرے کے دروازے پر ہی ٹھٹھک کر رک گیا۔ اس کے منہ سے بھی چیخیں نکلیں اور وہ بھاگ کھڑ ہوا۔

***

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تم کیسی کہانی سنا رہے ہو؟‘پروفیسر ادریس نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں۔

’یہ کہانی نہیں پروفیسر صاحب حقیقت ہے۔ کسی نے مجھے مارنے کی کوشش کی ہے۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’مگر کیوں ؟ تمہاری کسی سے دشمنی ہے کیا؟‘ انہوں نے پوچھا۔

’نہیں۔ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ میں خود حیران ہوں کہ وہ نیلی کار والا کون تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’حیرت ہے کسی کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘ پروفیسر بڑبڑائے۔

’ایک لمحے کو میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تھی و مجھے اس کا چہرہ جانا پہچانا سا لگا تھا۔ ‘ لمبے قد والا سوچتا ہوا بولا۔

’اوہ۔ ۔ ۔ کون تھا وہ؟‘ انہوں نے بے چین ہو کر پوچھا۔

’میں مسلسل ذہن پر زور دے رہا ہوں مگر یاد نہیں آ رہا۔ یوں بھی میں اس کی صرف ایک جھلک ہی دیکھ سکا تھا۔ ‘اس نے کہا۔

’تم نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی؟‘انہوں نے پوچھا۔

’نہیں کل رات میں بہت ڈسٹرب تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ آج سب سے پہلے آپ کو بتایا ہے۔ ‘وہ بولا۔

’تو پھر تم فوراً پولیس اسٹیشن جاؤ اور رپورٹ درج کرواؤ۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ‘

’ٹھیک ہے۔ میں رپورٹ درج کروا کر آتا ہوں۔ ‘ وہ بولا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

***

’تمہیں چیانگ کو نہیں پکڑنا چاہیے تھا۔ چین ہمارا دوست ملک ہے اور اس نے تیل کی تلاش کے لیے ٹیم بھیجی تھی۔ اس طرح اس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ ‘آئی جی بولے۔

’میں نے آپ کو بتایا نا سر کہ چیانگ کا کردار مشکوک ہے۔ اس نے ایک ہفتے کے وقفے میں دو مختلف رپورٹیں لکھی ہیں۔ مجھے تو می شنگ اور زوباؤ والے حادثے میں بھی شک ہے کہ اسی کا ہاتھ ہے۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے۔

’نہیں بھئی۔ حادثے کے وقت وہ اپنے دفتر میں تھا فیلڈ سے بہت دور۔ ‘ آئی جی بولے۔

’ہو سکتا ہے کرین آپریٹر اس کا ساتھی ہو اور اس کے اشارے پر ہی اس نے یہ سب کیا ہو۔ ‘

’وہ ہے کہاں ؟‘ آئی جی نے پوچھا۔

’ہسپتال میں۔ ‘ انسپکٹر عمران نے بتایا۔

’ہسپتال میں۔ ۔ ۔ ۔ وہ کیوں ؟‘ آئی جی چونکے۔

’اسے دیکھ کر مجھے عجیب سا احساس ہوا تھا۔ اس کے بولنے کا انداز مشینی سا تھا اور اس کی آنکھوں میں یک نشہ سا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ وہ کسی کے زیر اثر ہے۔ ‘انسپکٹر عمران نے کہا۔

’کسی کے زیر اثر؟‘ آئی جی سوالیہ انداز میں بولے۔

’ہاں جیسے کسی نے اسے ہپناٹائز کیا ہو۔ میرا تو یہی خیال ہے۔ اسی لیے اسے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ دماغ کے ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ‘

’اوہ۔ ۔ ۔ ۔ خیر جو بھی کرو احتیاط سے کرنا۔ کہیں ہمیں دوست ملک کی ناراضگی نہ مول لینا پڑے۔ ‘

’آپ بے فکر رہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ اسی وقت انسپکٹر عمران کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے فوراً جیب سے موبائل نکال کر کان سے لگایا۔ ’ہیلو۔ ۔ ۔ ہاں کیا رپورٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اوہ اچھا میں پہنچتا ہوں۔ ‘ انہوں نے موبائل بند کیا اور بولے۔ ’ مجھے فوراً ہسپتال پہنچنا ہے سر۔ ‘

***

’میں کہتا ہوں مجھے چھوڑ دو ورنہ تمہارا انجام بہت برا ہو گا۔ ‘ چیانگ بری طرح غرا رہا تھا۔ وہ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔

’اسے بے ہوش کر کے تمام ٹیسٹ کیے ہیں ورنہ اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو رہا تھا سر۔ ‘ انسپکٹر عمران کا اسسٹنٹ اشرف بولا۔

’ہوں۔ تو ڈاکٹر کس نتیجے پر پہنچے ؟‘ انسپکٹر عمران نے پوچھا۔

’آئیے ڈاکٹر کمال کے کمرے میں چلتے ہیں۔ وہ دماغ کے بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔ انہیں خاص طور پر یہاں بلوایا گیا ہے۔ ‘ اشرف بولا اور دونوں چیانگ کو چیختا چلاتا چھوڑ کر ڈاکٹر کمال کے کمرے میں آ گئے۔

’سچی بات تو یہ ہے کہ میں کچھ صحیح طرح سمجھ نہیں سکا۔ اس کے دماغ پر اثر تو ہے اور یہ یقیناً کسی کے ٹرانس میں ہے۔ مگر وہ اثر اس قسم کا ہے یہ سمجھ نہیں آیا۔ ‘ ڈاکٹر کمال بولے۔

’اس کی آنکھوں میں دیکھ کر میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس پر ہپناٹائز کیا گیا ہے۔ مگر کیا آپ اس کا توڑ نہیں کر سکتے۔ ‘ انہوں نے پوچھا۔

’جب ہم اسے سمجھ ہی نہیں سکے تو توڑ کس طرح کریں ؟اس کے دماغ سے وہی اثر ختم کر سکتا ہے جس نے اسے ہپناٹائز کیا ہے۔ اگر ہم نے ایسی کوشش کی تو اس کا دماغ الٹ بھی سکتا ہے۔ یہ پاگل بھی ہو سکتا ہے۔ ‘ ڈاکٹر کمال نے کہا۔

’اوہ۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ غیر ملکی ہے۔ ہم اسے زیادہ دیر حراست میں نہیں رکھ سکتے۔ خیر میں حکام بالا سے مشورہ کرتا ہوں۔ آپ کو کوئی نئی بات پتہ چلے تو میرے موبائل پر خبر کر دیجیئے گا۔ ‘ انہوں نے کہا۔

***

پروفیسر ادریس اخبار پڑھنے میں مصروف تھے کہ ان کے آفس کا دروازہ کھلا اور لمبے قد والا اندر داخل ہوا۔

’آؤ بھئی۔ تم نے رپورٹ درج کروا دی تھی۔ ‘ انہوں نے پوچھا۔

’جی ہاں کل ہی کروا دی تھی۔ مگر پولیس نے بھلا کیا کرنا ہے۔ میں تو اس کار کا نمبر بھی نوٹ نہیں کر سکا تھا۔ اب شہر میں تو بے شمار نیلی کاریں ہوں گی۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’خیر چھوڑو تم اس واقعے کا اتنا اثر نہ لو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی پاگل ہو۔ دوبارہ تو نہیں نظر آیا نا تمہیں۔ ‘

’جی نہیں۔ ‘ وہ بولا۔

’بس تو پھر اطمینان سے اپنا کام کرو۔ ۔ ۔ ۔ ارے !‘ اچانک وہ چونک اٹھے۔ ان کی نظریں اخبار کی ایک خبر پر جم گئیں۔

’کیا ہوا پروفیسر؟‘ لمبے قد والے نے پوچھا۔

’ڈاکٹر رفیع ایک حادثے میں مارے گئے۔ ‘ وہ خبر پڑھتے ہوئے بولے۔

’اوہ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر رفیع تو وہی ہیں نا جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے اس زندہ ہو جانے والی زمین کو مارنے کے لیے زہر بنایا تھا۔ ‘ اس نے چونک کر کہا۔

’ہاں وہ زہروں کے بہت بڑے ماہر تھے۔ زہروں پر تحقیق کے لیے ان کی لیب میں کئی زہریلے سانپ موجود تھے۔ انہی کے کاٹنے سے وہ ہلاک ہوئے ہیں۔ ‘ پروفیسر نے بتایا۔

’وہ کس طرح؟‘

’خبر کے مطابق ان سے سانپوں والا مرتبان اٹھاتے ہوئے گر کر ٹوٹ گیا اور سانپوں نے انہیں ڈس لیا۔ ‘

’اوہ۔ بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔ ‘

’ہاں وہ اچھے آدمی تھے۔ ‘

’اچھا پروفیسر میں اپنے کمرے میں چلتا ہوں۔ ‘ لمبے قد والا اٹھ کھڑا ہوا۔

’ہاں ٹھیک ہے۔ ‘ وہ بولے اور لمبے قد والا چلا گیا۔

پروفیسر کچھ دیر بیٹھے سوچتے رہے اور پھر بڑبڑائے۔ ’مجھے تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا چاہیے۔ ‘پھر وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور انٹر کام کا بٹن دبا کر بولے۔ ’ ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے۔ ‘

اپنا کمرہ لاک کر کے وہ چل پڑے۔ راہداری کا موڑ مڑ کر سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں اور دوسری طرف سے اوپر جا رہی تھیں۔ پروفیسر ادریس نے نیچے جانے والی سیڑھیوں پر قدم رکھا۔ اسی وقت کوئی شخص اوپر سے آنے والی سیڑھیوں سے اترا اور اس نے پروفیسر ادریس کو زور سے دھکا دے دیا۔ پروفیسر کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے جا گرے۔ دھکا دینے والا تیزی سے واپس اوپر چڑھ گیا۔ پروفیسر بے حس و حرکت نیچے پڑے تھے۔ کچھ دیر بعد دوسری طرف سے کوئی آتا نظر آیا۔ پھر آنے والا چونکا۔ ’ ارے ! یہ کون پڑا ہے ؟‘ وہ بولا اور تیزی سے آگے بڑھا۔ پھر وہ زور سے چونکا۔ ’پروفیسر صاحب۔ ۔ ۔ ‘ اس کے منہ سے نکلا پھر وہ زور سے چلایا۔ ’ گارڈ فوراً ادھر آؤ۔ ۔ پروفیسر صاحب سیڑھیوں سے گر پڑے ہیں۔ ‘

***

انسپکٹر عمران آئی جی کے دفتر میں داخل ہوئے۔

’بیٹھو عمران۔ میں نے وزیر خارجہ کو ساری صورت حال بتا دی تھی۔ انہوں نے چین میں اپنے ہم منصب سے بات کی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کو چیانگ سمیت فوراً واپس بھیج دیا جائے۔ وہ خود چیانگ کا علاج کریں گے اور اس سے پوچھ گچھ کریں گے۔ دوسرے وہ تیل کی تلاش کے لیے ایک اور ٹیم بھیج رہے ہیں تاکہ حقائق کا پتہ لگایا جا سکے۔ ‘ آئی جی نے تفصیل سے بتایا۔

’اوہ! تو اس کا مطلب ہے کہ میں چیانگ سے مزید تفتیش نہیں کر سکتا۔ میں تو یہ پتہ چلانے کا خواہشمند تھا کہ چیانگ کو کس نے ہپناٹائز کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔ ‘

’معاملہ دوست ملک کا ہے۔ یوں بھی اب یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ چیانگ غلط بیانی کر رہا ہے۔ دوسری ٹیم کے آنے سے معاملات خود بخود سلجھ جائیں گے۔ ‘

’ہوں ٹھیک ہے۔ دیکھتے ہیں نئی ٹیم آ کر کیا رپورٹ دیتی ہے۔ ‘ وہ سوچ میں گم لہجے میں بولے۔

***

پروفیسر ادریس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔

’شکر ہے پروفیسر صاحب آپ کو ہوش تو آیا۔ ‘ ان کے بیڈ کے قریب کھڑا لمبے قد والا خوش ہو کر بولا۔

’مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کیا ہوا ہے ؟‘ پروفیسر پریشان ہو کر بولے۔

’آپ سیڑھیوں سے پھسل کر گر گئے تھے۔ مگر فکر نہ کریں کوئی سیریس چوٹ نہیں لگی۔ ‘

’اوہ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یاد آ گیا۔ کسی نے مجھے دھکا دیا تھا۔ ‘ پروفیسر چونک کر بولے۔

’دھکا۔ ۔ ۔ ۔ !‘ لمبے قد والا حیران ہو کر بولا۔ ’ ہم تو سمجھے تھے کہ آپ سیڑھیاں اترتے ہوئے پھسل کر گر پڑے۔ ‘

’نہیں۔ ۔ ۔ میں سیڑھیاں اتر رہا تھا تو کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دے دیا تھا۔ ‘پروفیسر نے بتایا۔

’اوہ! کیا آپ کو یقین ہے پروفیسر کہ کسی نے آپ کو دھکا دیا تھا؟‘لمبے قد والا الجھن کے عالم میں بولا۔

’ہاں۔ اس میں بے یقینی والی کون سی بات ہے۔ ‘ وہ پر زور لہجے میں بولے۔

’مگر ایسا کس نے کیا؟ کسی کو آپ کو دھکا دینے کی کیا ضرورت تھی؟‘ لمبے قد والا سوچ میں گم بولا۔

’یہ تو میں نہیں جانتا۔ ‘ پروفیسر بے بسی سے بولے۔

’پروفیسر صاحب۔ حالات کچھ عجیب سے ہیں۔ ابھی ایک دن پہلے کسی نے مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کی اور آج آپ کو دھکا دے کر گرایا گیا۔ نہیں۔ ۔ ۔ پروفیسر یہ سب اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ضرور کوئی سازش ہے۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’سازش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسی سازش۔ ۔ ۔ بھلا ہمیں مار کر کسی کو کیا ملے گا؟‘

’یہی تو سمجھ نہیں آ رہا۔ پہلے تو میں اس نیلی کار والے کو پاگل سمجھا تھا۔ مگر وہ پاگل نہیں تھا۔ اس نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مجھے مارنا چاہا۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ کو دھکا دینے والا بھی وہی ہے۔ ‘

’مگر وہ ہے کون؟‘ پروفیسر زور سے بولے۔

’یہ معاملہ ہم سے نہیں سلجھے گا۔ مجھے انسپکٹر عمران سے ملنا ہو گا۔ ‘ وہ بولا۔

’انسپکٹر عمران۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘ پروفیسر چونک کر بولے۔

’ہاں وہ انٹیلی جنس کے انسپکٹر ہیں اور خاصے ذہین آفیسر ہیں۔ میں ان سے بات کرتا ہوں۔ یہ عام پولیس والے تو کچھ نہیں کریں گے۔ ‘

***

انسپکٹر عمران گہری سوچ میں گم تھے۔

’تو آپ کو اس نیلی کار والے کا چہرہ جانا پہچانا لگا تھا۔ ‘ انہوں نے پوچھا۔

’جی ہاں۔ اگر میں غور سے اسے دیکھتا تو شاید پہچان لیتا۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’اور پروفیسر صاحب بھی دھکا دینے والے کو نہیں دیکھ سکے۔ ‘وہ بولے۔

’نہیں۔ انہیں اتنا موقع ہی کہاں ملا تھا کہ وہ مڑ کر دیکھتے۔ وہ تو ایک دم نیچے جا گرے تھے۔ ‘

’آپ دونوں آج کل کسی اہم پراجیکٹ پر تو کام نہیں کر رہے ؟‘

’نہیں۔ بس روٹین کے کام ہیں ہیں۔ ‘

’کبھی کسی شخص کا آپ سے یا پروفیسر سے کوئی جھگڑا ہوا ہو؟‘ وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولے۔

’جی نہیں۔ میں خود ان خطوط پر بہت سوچتا رہا ہوں۔ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ ‘

’ہوں معاملہ کافی الجھا ہوا ہے۔ اگر آپ کو کار والے کی شکل یاد آ جاتی تو کافی آسانی ہو جاتی۔ اب تو یہی طریقہ ہے کہ اسے تلاش کیا جائے۔ ‘

’مگر کیسے ؟ شہر میں تو نہ جانے کتنی نیلی کاریں ہوں گی۔ مجھے تو اس کا نمبر بھی پتہ نہیں۔ ‘

’کام مشکل ضرور ہے مگر کرنا ہو گا۔ میں شہر میں موجود تمام نیلی کاروں کا ریکارڈ اکٹھا کرتا ہوں۔ شاید ان میں آپ کو کوئی جانا پہچانا نام نظر آ جائے۔ ‘ انہوں نے کہا پھر فون کا ریسیور اٹھا کر بولے۔ ’ اشرف تمہیں ایک کام کرنا ہے۔ شہر میں موجود تمام نیلی کاروں کا ریکارڈ جمع کرو۔ ‘

***

جواد احمد بہت ماہر پائلٹ تھا۔ اسے جہاز سے کرتب دکھانے کا بھی بہت شوق تھا۔ اس یوم دفاع کے موقع پر بھی وہ اس ٹیم میں شامل تھا جن کے جہازوں نے فضا میں کرتب دکھانے تھے۔ آج بھی وہ اسی سلسلے میں اپنے چھوٹے جہاز میں پریکٹس میں مصروف تھا۔

اس کا جہاز تیر کی طرح سیدھا جاتا پھر ایک دم قلا بازیاں کھاتا ہوا دائیں یا بائیں مڑ جاتا۔ اس وقت وہ ایک سنسان علاقے پر پرواز میں مصروف تھا۔ ایک بار اپنے جہاز کا کافی نیچائی پر لا کر جب اس نے پھر اوپر اٹھانا چاہا تو اس کی آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی۔ جہاز اوپر نہیں اٹھ رہا تھا۔ پھر ایک دم وہ بائیں جانب کو جھک گیا۔ جواد گھبرا گیا۔ اس نے جہاز کو سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر یوں لگتا تھا جیسے سارے آلات جام ہو گئے ہوں۔ جہاز اس کے کنٹرول میں نہیں رہا تھا۔ اس کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ نکلا۔ اس نے ہر طریقہ آزما لیا مگر جہاز اپنی مرضی سے اڑ رہا تھا۔

اور پھر اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔ سامنے پہاڑ تھا اور جہاز بہت نیچی پرواز کر رہا تھا۔ اگر وہ اسے بروقت اوپر نہ اٹھاتا تو وہ یقیناً پہاڑ سے ٹکرا جاتا۔ جواد نے لیور پر اپنا سارا زور صرف کر دیا مگر جہاز تیزی سے پہاڑ کی طرف بڑھتا رہا۔ اور پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ جہاز کے پرخچے اڑ گئے۔

***

لمبے قد والا گہری سوچ میں گم کار چلا رہا تھا۔ اس کے دماغ میں خیالات کی ایک بھرمار تھی۔

’کیا۔ ۔ ۔ ۔ کیا واقعی ایسا ہو چکا ہے ؟‘ وہ کپکپا اٹھا۔ ’کیا یہ سب محض اتفاقات ہیں ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں میرا دل نہیں مانتا۔ ‘ وہ بڑبڑا رہا تھا۔

پھر جلد ہی اس کی کار ایک کوٹھی کے سامنے رکی۔ دروازے پر پروفیسر ادریس کے نام کی تختی لگی تھی۔ وہ کل رات ہسپتال سے گھر آ گئے تھے۔ تاہم آج اپنے دفتر نہیں گئے تھے بلکہ گھر پر آرام کر رہے تھے۔ اسی لیے لمبے قد والا یہاں آیا تھا۔ اس نے کال بیل پر انگلی رکھی تو اندر ڈنگ ڈونگ کی آواز ابھری۔ جلد ہی ملازم نے دروازہ کھولا۔ وہ اسے پہچانتا تھا لہذا ڈرائینگ روم میں لے آیا۔

قدموں کی آواز ابھری اور پروفیسر ادریس اندر داخل ہوئے۔

’خیر تو ہے تم صبح ہی صبح یہاں۔ ۔ ۔ ۔ ‘ پروفیسر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔

’آپ نے یہ خبر پڑھی پروفیسر۔ ‘ لمبے قد والے نے اخبار کا ایک صفحہ ان کے سامنے کر دیا۔ پروفیسر نے اخبار اس سے لے لیا اور وہ خبر پڑھنے لگے جس پر لمبے قد والے نے نشان لگا رکھا تھا۔

’یہ تو کسی جواد احمد کے بارے میں ہے۔ جس کا جہاز کل پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ ‘وہ خبر پڑھ کر بولے۔

’آپ شاید جواد احمد کو بھول گئے۔ ‘لمبے قد والا بولا۔

’کون ہے یہ؟‘ انہوں نے چونک کر پوچھا۔

’کچھ عرصہ قبل جب شہاب ثاقب کے گرنے سے شمالی صوبے کے ایک حصے کی زمین زندہ ہو گئی تھی تو اسے مارنے کے لیے زہر کے کیپسول فائر کیے گئے تھے۔ جن تین جہازوں نے اس مشن میں حصہ لیا تھا ان میں سے ایک کا پائلٹ جواد احمد تھا۔ ‘ لمبے قد والے نے بتایا۔

’اوہ ہاں مجھے یاد آ گیا۔ تو یہ بے چارہ حادثے میں مارا گیا۔ ‘ پروفیسر افسوس سے بولے۔

’جی ہاں اور ایک دن قبل ہی اس زہر کو بنانے والے ڈاکٹر رفیع بھی حادثے میں مارے جا چکے ہیں۔ مجھے کار کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی اور آپ کو سیڑھیوں سے دھکا دے کر۔ ‘لمبے قد والا سنجیدگی سے بولا۔

’تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘ پروفیسر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’یہی پروفیسر کہ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ اس زمین کو مارنے کی مہم میں حصہ لینے والے تمام لوگ ایک ایک کر کے حادثات میں مارے جا رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ آپ مارے جاتے تو اسے بھی حادثہ کہا جاتا۔ مجھے کار ایکسیڈنٹ میں مارنے کی کوشش کی گئی۔ وہ تو آخری لمحات میں کار والے نے غصے میں مجھ پر فائر کر ڈالے ورنہ وہ اسے کار کا حادثہ ہی بنانا چاہتا تھا۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’مگر یہ سب کون کر رہا ہے ؟‘ پروفیسر نے خوفزدہ انداز میں پوچھا۔

’میں نہیں جانتا مگر نیلی کار والے کا چہرہ مجھے جانا پہچانا لگا تھا۔ یہ جو کوئی بھی ہے ہمارا واقف کار ہے اور اس زمین کی زندگی ختم کرنے والوں کو حادثوں کا شکار بنا رہا ہے۔ ‘

’اف خدا! لگتا ہے کہ تم سچ کہ رہے ہو مگر اس زمینی زندگی کے خاتمے سے تو سب خوش تھے۔ پھر یہ کون ہے جو ہم سے اس زمین کا انتقام لے رہا ہے۔ ‘

’انتقام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں پروفیسر یہ انتقام ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ لمبے قد والا کہتے کہتے رک گیا۔

’کہو۔ ۔ تم رک کیوں گئے۔ ‘ پروفیسر بے چین ہو کر بولے۔

’میرا خیال ہے پروفیسر کہ وہ زمین پھر زندہ ہو چکی ہے اور وہی ہم سب سے انتقام لے رہی ہے۔ ‘ لمبے قد والا بولا اور پروفیسر سناٹے میں آ گئے۔

***

 

(۳)

انسپکٹر عمران بھی لمبے قد والے کا خیال سن کر حیران رہ گئے۔

’آج سے چھ ماہ قبل جب یہ زمین والا معاملہ پیش آیا تھا تو میں ملک سے باہر تھا۔ اور میں نے بہت حیران ہو کر یہ ساری خبریں پڑھی تھیں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ پہلے تو وہ زندگی شہاب ثاقب کے گرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور پھر آپ لوگوں نے اسے زہر سے ہلاک کر دیا تھا۔ تو اب وہ دوبارہ کس طرح پیدا ہو سکتی ہے ؟‘ انسپکٹر عمران نے سوال کیا۔

’شہاب ثاقب کے اسی پتھر کے ذریعے۔ ‘ پروفیسر ادریس نے کہا۔

’کیا مطلب!‘ انسپکٹر عمران چونک اٹھے۔

’اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔ ہم اس پتھر کو تو بھول ہی گئے تھے۔ ہمیں زمین کو مارنے کے ساتھ ساتھ اس پتھر پر بھی خاص طور پر زہر کے کیپسول فائر کرنے چاہیے تھے اور اسے ریزہ ریزہ کر دینا چاہیے تھا۔ مگر ہم زمین کو مارنے کی خوشی میں اسے بھول ہی گئے حالانکہ وہی تو اس زندگی کا اصل منبع تھا۔ اب اس نے اس زمین کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ‘ پروفیسر تھکے تھکے لہجے میں بولے۔

’اگر واقعی ایسا ہے تو پھر تو یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔ مگر آپ لوگوں پر تو قاتلانہ حملے کسی شخص نے کیے تھے۔ وہ اس زمین کا بدلہ کیوں لے رہا ہے ؟‘ انسپکٹر عمران نے اعتراض کیا۔

’جب ہم پہلی بار اس جگہ گئے تھے تو ہمارے ساتھی ندیم کے دماغ پر زمین نے قبضہ کر لیا تھا اور اس کی زبان سے باتیں کی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم پر حملہ کرنے والے کا دماغ بھی اس زمین کے قبضے میں ہے۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’نہیں بھئی۔ ندیم تو اس مخصوص جگہ گیا تھا تو زمین نے اس کے دماغ پر قبضہ کیا تھا۔ وہ بھلا یہاں دارالحکومت کے کسی شخص کو کس طرح قابو میں کر سکتی ہے۔ یہ جگہ تو وہاں سے سینکڑوں میل دور ہے۔ ‘ پروفیسر ادریس نے نفی میں سر ہلایا۔

’ہو سکتا ہے پروفیسر کہ زمین نے اپنی طاقت بڑھا لی ہو۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ یہ شخص اسی علاقے سے آیا ہو۔ ‘لمبے قد والا بولا۔

’بہر حال اصل صورت حال اس شخص کے پکڑے جانے کے بعد ہی پتہ چل سکتی ہے۔ ابھی ہم حتمی طور پر نہیں کہ سکتے کہ یہ سب زمین ہی کر رہی ہے۔ ‘پروفیسر بولے۔

’آپ مانیں یا نہ مانیں میرا تو سو فی صد یہی خیال ہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ جواد احمد کا جہاز بھی جس پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہوا وہ اسی علاقے میں ہے۔ یقیناً اس جہاز کو زمین نے کشش ثقل کی قوت لگا کر کھینچا ہو گا اور پہاڑ سے ٹکرا دیا ہو گا۔ ‘لمبے قد والا بولا۔

’ان کی باتوں میں وزن ہے پروفیسر صاحب۔ اب ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس قاتل کو پکڑ کر حقیقت کا پتہ لگائیں۔ یا پھر آپ ایک بار پھر اس علاقے کی مٹی کا تجزیہ کروائیں۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے۔

’دوسرا طریقہ خطرناک ہے۔ زمین نے یہ حملے چھ ماہ بعد شروع کروائے ہیں۔ آخر چھ ماہ تک وہ کیوں خاموش رہی۔ وہ یقیناً اپنی طاقت بڑھاتی رہی ہے۔ اس بار اس نے خاموشی سے وار کیا ہے۔ کھل کر سامنے نہیں آئی۔ تمام لوگوں کو حادثوں کے انداز میں مارا گیا تاکہ زمین کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے۔ ہم نہیں جانتے کہ ان چھ ماہ کے دوران وہ اپنا اثر کہاں تک پہنچا چکی ہے۔ کتنے شہر اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’اوہ پھر تو وہ کسی بھی وقت ان شہروں کو تباہ کر سکتی ہے۔ ‘ انسپکٹر عمران کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

’ہاں۔ میرا خیال ہے ہمیں رسک لینا ہو گا اور ایک بار پھر پہلے کی طرح وہاں دھماکے کر کے گرد اڑاتے ہیں اور مٹی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسپکٹر صاحب آپ اس شخص کو پکڑنے کی کوشش کریں۔ ‘پروفیسر بولے۔

’ہوں ٹھیک ہے۔ بلکہ مجھے آپ لوگوں کی حفاظت کا بھی بندوبست کرنا ہو گا۔ وہ آپ پر دوبارہ بھی تو حملہ کر سکتا ہے۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے۔

’اوہ!‘ اچانک لمبے قد والے کے منہ سے نکلا۔

’کیا ہوا؟‘ پروفیسر نے پوچھا۔

’اس زمین پر زہر تین جہازوں نے برسایا تھا۔ ایک کا پائلٹ جواد تو مارا جا چکا۔ ابھی دو پائلٹ باقی ہیں۔ ‘وہ بولا۔

’اوہ۔ ۔ ۔ یہ تو ہم بھول ہی گئے۔ وہ دونوں بھی خطرے میں ہیں۔ میں ابھی ان کی حفاظت کا بندوبست کرتا ہوں۔ ان کے نام کیا ہیں ؟‘ انسپکٹر عمران جلدی سے بولے۔

’وہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ احمر اور اشعر۔ ‘

***

’کیسے ہو چیانگ؟‘ پولیس آفیسر مسکرا کر بولا۔ چیانگ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔ اسے کرسی پر بٹھا کر اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے گئے تھے اور دونوں پاؤں بھی رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔

’میں تمہارا دوست ہوں انسپکٹر لی رونگ۔ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ ‘ انسپکٹر دوبارہ بولا۔

’مجھے کھول دولی۔ ‘ وہ غرایا۔

’کھول دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ابھی کھول دیتے ہیں۔ تم تو میرے گہرے دوست ہو چیانگ۔ مجھے بتاؤ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہارے بارے میں کیسی باتیں ہو رہی ہیں۔ تم نے می شنگ اور زوباؤ کو مار ڈالا اور غلط قسم کی رپورٹیں لکھیں۔ ‘ لی بولا۔

’یہ سب بکواس ہے۔ میری رپورٹ غلط نہیں تھی۔ ‘ وہ بولا۔

’کل دوسری ٹیم یہاں سے جا رہی ہے۔ اگر اس نے مختلف رپورٹ ے دی تو تم پھنس جاؤ گے۔ مجھے حقیقت بتا دو میں تمہیں بچا لوں گا۔ ‘ لی بولا۔

’خبردار۔ ۔ اس علاقے میں کسی ٹیم کو نہ بھیجنا ورنہ پچھتاؤ گے۔ ‘چیانگ جلدی سے بولا۔

’کیوں ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کیوں ؟ تم ایسا کیوں چاہتے ہو؟‘لی حیرانگی سے بولا۔

’بس میں نے کہ دیا نا کہ کوئی ٹیم وہاں نہ جائے۔ ‘

’تو تم مجھے اصل بات نہیں بتاؤ گے۔ ‘

’مجھے کھول دو۔ میں تم سب سے سمجھ لوں گا۔ ‘ اس نے دانت پیسے۔

’افسوس چیانگ تم اپنے لیے خود گڑھا کھود رہے ہو۔ خیر تم ایک بار پھر ٹھنڈے دل سے سوچو۔ میں کچھ دیر بعد آتا ہوں۔ ‘لی کمرے سے نکل گیا۔

چیانگ نے غصے سے سر کو جھٹکا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ہلانے کی کوشش کی۔ رسیاں کلائیوں پر بندھی تھیں۔ اس نے انگلیاں موڑ کر گرہ پکڑنے کی کوشش کی مگر ہاتھ گرہ تک نہ پہنچا۔ اسی وقت اس کی نظر میز پر پڑے پیپر کٹر پر پڑی۔ اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی اور اس نے کرسی میز کی طرف کھسکانی شروع کر دی۔ چند منٹ کی کوشش کے بعد وہ میز تک پہنچ گیا۔ اب اس نے کرسی میز سے ٹکرائی۔ کٹر اچھل کر تھوڑا سا آگے آیا۔ اس نے پھر یہی عمل دہرایا تو کٹر کنارے تک آ گیا۔ اب اس نے کرسی موڑی اور پیچھے بندھے ہاتھوں کی مدد سے کٹر اٹھانے کی کوشش کی۔ جلد ہی کٹر اس کے ہاتھوں میں تھا۔ اس پر جوش سوار ہو گیا۔ اس نے کٹر انگلیوں میں پکڑا اور آہستہ آہستہ رسیوں پر چلانے لگا۔ دس منٹ کی کوشش کے بعد اس کے ہاتھ رسیوں سے آزاد ہو گئے۔ اس نے تیزی سے پاؤں کی رسیاں بھی کاٹ ڈالیں اور دروازے کی طرف بڑھا۔ مگر اسی وقت دروازہ کھل گیا اور انسپکٹر لی اندر داخل ہوا۔ وہ اسے آزاد دیکھ کر زور سے چونکا۔

’تم۔ ۔ ۔ ۔ تم نے رسیاں کیسے کھول لیں ؟‘ وہ بولا مگر جواب میں ایک زور دار لات اس کے پیٹ میں لگی۔ وہ تکلیف سے کراہ کر گر پڑا۔ چیانگ نے کھلے دروازے سے چھلانگ لگا دی۔ لی بڑی مشکل سے اٹھا اور دروازے میں آ کر چلایا۔ ’خبردار۔ ۔ ۔ چیانگ بھاگ نکلا ہے۔ فوراً اس کے پیچھے دوڑو۔ ‘

***

لمبے قد والا انسپکٹر عمران کے دفتر میں تھا۔ صبح اس کی باتیں سن کر انسپکٹر عمران نے اسے اور پروفیسر کو دو دو گارڈ مہیا کر دیے تھے اور احمر اور اشعر کے گھر بھی گارڈ بھیج دیے تھے۔ اب شام میں انہوں نے اسے دوبارہ دفتر بلایا تھا۔

’ہم نے شہر میں موجود نیلی کاروں کا ریکارڈ اکٹھا کر لیا ہے۔ خوش قسمتی سے شہر میں نیلی کاریں زیادہ تعداد میں نہیں۔ یہ کل 62 کاریں ہیں۔ آپ اس ریکارڈ کو دیکھ لیں کہ ان میں آپ کی جان پہچان کا کوئی شخص ہے یا نہیں۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے اور ریکارڈ اس کی طرف بڑھا دیا۔ لمبے قد والا ریکارڈ میں کھو گیا۔ پھر کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔

’میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتا سوائے ایک کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔

’مگر کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ بات پوری کریں۔ ‘ انسپکٹر عمران جلدی سے بولے۔

’دراصل ان میں سے ایک کار ندیم کی ہے۔ وہ ہمارا ساتھی تھا اور زمین سے مٹی لانے کے مشن میں وہ زمین میں زندہ دفن ہو گیا تھا۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’اوہ تو اس کی کار اب کس کے استعمال میں ہے۔ ‘ وہ بڑبڑائے۔

’میں نہیں جانتا۔ اس کا ایک ہی بھائی ہے نعیم۔ ماں باپ کا انتقال ہو چکا ہے اور ندیم نے شادی نہیں کی تھی۔ گویا بھائی کے علاوہ اس کا کوئی عزیز نہیں مگر اس کا بھائی ڈرائیونگ نہیں جانتا۔ ‘

’یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ ڈرائیونگ تو کسی بھی وقت سیکھی جا سکتی ہے۔ ‘ انہوں نے کہا۔

’نہیں جناب۔ کم از کم وہ نیلی کار والا نعیم نہیں تھا۔ وہ تو بہت ماہر کار ڈرائیور تھا۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’بہر حال مجھے نعیم کو چیک کرنا ہو گا۔ اگر اس سے کچھ پتہ نہ چلا تو پھر میں سب نیلی کاروں کے مالکان سے ملوں گا۔ ‘

’یہ تو بہت لمبا کام ہو جائے گا۔ ‘

’ہاں مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ آپ نعیم کا پتہ بتا دیں۔ ‘

’میں لکھ دیتا ہوں۔ مگر وہ بے چارہ بہت معصوم سا لڑکا ہے۔ وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔ ‘لمبے قد والا پتہ لکھتا ہوا بولا۔

***

انسپکٹر عمران کی جیپ ندیم کے گھر کے سامنے رکی اور انہوں نے اتر کر گھنی کا بٹن دبایا۔ یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا۔ جلد ہی دروازہ کھلا اور ایک نوجوان کی صورت نظر آئی۔

’تمہارا نام نعیم ہے۔ ‘وہ بولے۔

’جی ہاں۔ ۔ ۔ ۔ مگر آپ کون ہیں ؟‘ وہ پولیس کی وردی دیکھ کر پریشان ہو گیا۔

’مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ آؤ اندر چلیں۔ ‘ نعیم گھبرائے ہوئے انداز میں انہیں ڈرائینگ روم میں لے آیا۔

’تمہارا بھائی ندیم آج سے چھ ماہ پہلے زمین میں دھنس کر ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کے پاس نیلے رنگ کی کار نمبر XY-740تھی۔ وہ کار اب کہاں ہے ؟‘ انہوں نے پوچھا۔

’گیراج میں۔ ‘ وہ پریشان ہو کر بولا۔

’ہوں تم ڈرائیونگ جانتے ہو؟‘

’جی نہیں۔ ‘

’تو پھر ہ کار کون استعمال کرتا ہے ؟‘ انسپکٹر عمران نے اسے گھورا۔

’کک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی نہیں۔ وہ تو گیراج میں کھڑی رہتی ہے۔ ‘

’ہوں ذرا میرے ساتھ گیراج تک چلو۔ میں وہ کار دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘

’کار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر کیوں ؟‘ نعیم اب کافی پریشان لگ رہا تھا۔

’میرا خیال ہے کہ وہ کار اب بھی کسی کے استعمال میں ہے۔ ‘

’نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ایسا نہیں ہے۔ ‘ وہ خوفزدہ ہو گیا۔ انسپکٹر عمران بغور اسے دیکھ رہے تھے۔

’تم اتنے خوفزدہ کیوں ہو۔ جو بات ہے مجھے بتاؤ۔ کیا کوئی اس کار کو استعمال کر رہا ہے ؟‘

نعیم کی آنکھوں میں خوف نظر آیا۔ پھر انسپکٹر عمران زور سے چونکے۔ نعیم ان کی پشت پر دیکھ رہا تھا۔ وہ تیمی سے مڑے۔ ساتھ ہی کوئی ڈرائینگ روم کے دروازے سے دوڑا۔ انسپکٹر عمران نے ایک چھلانگ لگائی مگر اگلا شخص مکان سے نکل چکا تھا۔ وہ بھی دوڑتے ہوئے مکان سے باہر آئے۔ انہوں نے نیلی کار کو تیزی سے گیراج سے نکلتے دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ہوا ہو گئی۔ انسپکٹر عمران تیزی سے اپنی جیپ کی طرف دوڑے اور جیپ اسٹارٹ کرتے ہی کار کے پیچھے لگا دی۔ اس وقت تک کار کافی دور جا چکی تھی۔ انسپکٹر عمران نے اسپیڈ اور بڑھا دی۔ اس دوران اگلی کار ایک موڑ مڑ گئی۔ جب جیپ موڑ تک پہنچی اور ادھر مڑی تو آگے نیلی کار کہیں نظر نہ آئی۔ اس سڑک سے دائیں بائیں کئی گلیاں نکل رہی تھیں۔ نہ جانے کار کس گلی میں مڑی تھی۔ آخر انسپکٹر عمران نے جیپ آگے بڑھائی اور ایک ایک گلی میں جھانکتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ ایک گلی میں دور انہیں نیلی کار جاتی نظر آئی۔ ان پر جوش سوار ہو گیا اور انہوں نے جیپ اس کے پیچھے دوڑا دی۔

گلی سے نکل کر کار ایک اور سڑک پر مڑ گئی۔ انسپکٹر عمران رفتار بڑھاتے چلے گئے اور جلد ہی نیلی کار تک پہنچ گئے۔ اب وہ نارمل رفتار سے چل رہی تھی۔ اس کے قریب پہنچتے ہی انہیں ایک جھٹکا لگا۔ یہ وہ والی کار نہیں تھی۔ اس کا نمبر KL-305تھا اور اسے کوئی خاتون چلا رہی تھی۔ گویا وہ اس کار کو کھو چکے تھے۔ آخر انہوں نے جیپ موڑی اور واپس ندیم کے گھر پہنچے۔ گھر کا دروازہ کھلا پڑا تھا۔ وہ اندر گھس گئے پھر انہیں ایک جھٹکا اور لگا۔ پورے گھر میں نعیم کا کوئی پتہ نہ تھا۔ وہ غائب تھا۔

***

چیانگ نے تیسری مرتبہ  دروازے کی گھنٹی بجائی۔ صبح صبح کا وقت تھا۔ لوگ ابھی شاید سو کر بھی نہیں اٹھے تھے۔ اس بار دروازہ کھل گیا اور ایک نوجوان آنکھیں ملتا ہوا نظر آیا۔

’جی فرمائیے کون ہیں آپ؟‘ اس نے پوچھا۔

’تو تم زیانگ ہو اور اس ٹیم میں شامل ہو جو آج تیل کی تلاش کے لیے جا رہی ہے۔ ‘ چیانگ بولا۔

’جی ہاں مگر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں ؟‘ اس نے حیران ہو کر کہا مگر جواب میں ایک گھونسہ اس کے منہ پر لگا۔ وہ الٹ کر گرا اور چیانگ اندر داخل ہو گیا۔ ساتھ ہی اس نے پاؤں کی ایک ٹھوکر اس کی کنپٹی پر رسید کی۔ نوجوان بے ہوش ہو گیا۔ چیانگ نے دروازہ اندر سے بند کیا اور اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے آیا۔ پھر اس نے کندھے سے لٹکا ہوا چھوٹا سا بیگ اتارا اور اس میں سے کچھ چیزیں نکالیں۔ اب وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے چہرے پر کچھ چیزیں لگانے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ زیانگ کو دیکھتا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد چیانگ کا چہرہ تبدیل ہو چکا تھا اور اب وہ بالکل زیانگ نظر آ رہا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اپنی چیزیں سمیٹیں اور زیانگ کو رسیوں سے جکڑ دیا۔ پھر وہ پراسرار انداز میں مسکرایا اور بولا۔

’میں جانتا ہوں کہ تم یہاں بالکل اکیلے رہتے ہو۔ اب تم یہاں بندھے رہو۔ کسی کو پتہ نہیں چلے گا اور میں تمہاری جگہ اس ٹیم کے ساتھ جاؤں گا۔ ‘

***

انسپکٹر عمران دفتر میں اپنے کام میں مصروف تھے۔ کل رات کی ناکامی کے بعد انہوں نے اس نیلی کار کی تلاش کے لیے ہر طرف آدمی دوڑائے تھے مگر ابھی تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلا تھا۔ اسی وقت ان کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ انہوں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف لمبے قد والا تھا۔

’انسپکٹر صاحب میں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ آج ہم اس زمین سے مٹی کا نمونہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اشعر اور احمر اس مشن کے لیے تیار ہیں۔ ‘وہ بولا۔

’اوہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں پائلٹ!‘ ان کے منہ سے نکلا۔

’ہاں وہی دونوں۔ جب انہیں ساری بات کا پتہ چلا تو انہوں نے خود کو اس مشن کے لیے پیش کر دیا۔ اب اشعر جہاز کے ذریعے اس زمین پر بم برسائے گا اور جب گرد کا طوفان اٹھے گا تو احمر ہیلی کاپٹر نیچے لے جائے گا اور سلنڈروں میں گرد جمع کر کے فوراً واپس آ جائے گا۔ ‘

’میں بھی اس مشن میں آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے۔

’ٹھیک ہے تو پھر آپ ہمارے دفتر آ جائیں۔ ہم ساتھ ہی چلیں گے۔ ‘

***

اشعر کا جہاز اس پراسرار زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔ جلد ہی وہ اس جگہ کے قریب پہنچ گیا جہاں سب سے پہلے زندگی نمودار ہوئی تھی۔ اس نے ہیڈ فون پر کنٹرول روم سے رابطہ قائم کیا اور انہیں پوزیشن بتائی۔ ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے تھا اور ابھی خاصی اونچائی پر تھا۔ پھر جونہی کنٹرول روم سے سگنل ملا اس نے تیزی سے جہاز نیچے کیا اور زمین پر کئی بم برسائے۔ زمین پر زبردست دھماکے ہوئے اور گرد و غبار کا ایک طوفان سا اٹھا۔ اشعر نے بم برسا کر جہاز کو تیزی سے اوپر اٹھا کر نکل جانا چاہا مگر اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ جہاز اوپر نہیں اٹھا تھا بلکہ مزید نیچے ہو گیا۔ اس نے بوکھلا کر آلات کا جائزہ لیا اور پھر یہ حقیقت اس پر کھل گئی کہ سارے آلات جام ہو چکے تھے۔ ادھر جہاز کو بم برساتا دیکھ کر ہیلی کاپٹر تیر کی طرح گرد و غبار کے طوفان میں گھس گیا۔ اندر بیٹھے فوجیوں نے سلنڈر باہر نکالے۔ گرد دھڑادھڑ سلنڈروں میں داخل ہونے لگی۔

’بس ٹھیک ہے اب نکل چلو۔ ‘ ایک فوجی چلایا۔

احمر نے فوراً ہیلی کاپٹر اوپر اٹھانا چاہا مگر پھر اس کا رنگ اڑ گیا۔ ہیلی کاپٹر اوپر نہیں اڑ رہا تھا۔ اس نے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر وہ تو گویا اسی جگہ پر جم کر رہ گیا تھا۔

’کیا کر رہے ہو۔ چلتے کیوں نہیں ؟‘ فوجی نے چلا کر پوچھا۔

’ہیلی کاپٹر میرے کنٹرول میں نہیں رہا۔ یہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہا۔ ‘احمر بولا۔

’اوہ۔ ۔ ۔ !‘ فوجی دھک سے رہ گیا۔ اسی وقت احمر نے دور سے جہاز کو آتے دیکھا۔

اشعر نے جلدی جلدی کنٹرول روم سے رابطہ کر کے ساری صورت حال بتائی تو وہاں کھلبلی مچ گئی۔ اسی وقت اشعر کے جہاز نے خودبخود موڑ کاٹا اور پھر تیر کی طرح نیچے جانے لگا۔

’اف خدا یہ تو نیچے جا گرے گا!‘ اشعر کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔ پھر اسے نیچے ہیلی کاپٹر نظر آ گیا جو فضا میں معلق تھا اور اس کے پر تیزی سے گھوم رہے تھے۔ جہاز کا رخ ٹھیک ہیلی کاپٹر کی طرف تھا۔

’احمر ہیلی کاپٹر یہاں سے ہٹاؤ۔ جہاز میرے کنٹرول میں نہیں ہے۔ ‘ وہ ہیڈ فون میں زور سے چلایا۔

احمر جہاز کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ چکا تھا اور اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔

’مجھے افسوس ہے میرے بھائی کہ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں ہیلی کاپٹر کو ہلا بھی نہیں سکتا۔ ‘ وہ بے بسی سے بولا۔

’نیچے چھلانگ لگا دو۔ ‘ فوجی چلایا۔

’کوئی فائدہ نہیں زمین ہمیں نگل لے گی۔ یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے۔ ‘ احمر بولا۔

’میں تو چھلانگ لگانے لگا ہوں۔ ‘ فوجی چیخا۔

اس وقت تک جہاز بالکل ہیلی کاپٹر کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ادھر فوجی نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا اور ادھر جہاز زوردار طریقے سے ہیلی کاپٹر سے ٹکرایا۔ زوردار دھماکہ ہوا اور دونوں جلتے ہوئے نیچے جا گرے۔

***

کنٹرول روم میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پروفیسر ادریس سکتے کے عالم میں بیٹھے تھے۔

’اس کا مطلب ہے کہ ہمارے خدشات صحیح نکلے۔ وہ زمین پھر زندہ ہو چکی ہے۔ ‘ آخر اس خاموشی کو لمبے قد والے نے توڑا۔

’ہاں اور اس بار وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اب تو وہ جہاز کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب وہاں جہازوں کے ذریعے بھی کوئی کاروائی ناممکن ہے۔ ‘پروفیسر تھکے تھکے انداز میں بولے۔

’ان چھ ماہ کے دوران اس کا اثر کہاں کہاں تک پہنچ چکا ہو گا اور کتنا علاقہ اس کی لپیٹ میں آ چکا ہو گا۔ اب اس بات کا پتہ کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے۔

’مم۔ ۔ ۔ ۔ میں خود حیران ہوں۔ اور پھر اگر اس نے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ہم کتنے شہر خالی کروائیں گے۔ اس کا اثر تو آہستہ آہستہ پورے صوبے اور پھر ملک تک پھیل سکتا ہے۔ ‘ لمبے قد والا خوف سے بولا۔

’پروفیسر صاحب اب آپ ہی کو کچھ کرنا ہو گا۔ دوسرے سائنسدانوں سے مشورے کریں اور اس مسئلے کا جلد کوئی حل نکالیں۔ حالات بہت خوفناک ہوتے جا رہے ہیں۔ ‘انسپکٹر عمران بولے۔

’ہاں اب مجھے حرکت میں آنا ہی ہو گا۔ اب تک تو میں شش و پنج میں تھا مگر اب ساری بات کھل چکی ہے۔ ‘

’ابھی تو شکر ہے کہ یہ زمین صرف اپنے خلاف کاروائی کرنے والوں کو ختم کر رہی ہے۔ اگر اس نے عام شہریوں پر حملے شروع کر دیے تو کیا ہو گا۔ ‘ ایک صاحب کانپ کر بولے۔

’پروفیسر سب سے پہلے کوئی ایسا طریقہ دریافت کریں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ زندگی کتنے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ خطرہ کتنا بڑا ہے۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے۔

’یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ شہاب ثاقب والا زیادہ تر علاقہ غیر آباد ہے۔ ایک کے اطراف پہاڑی سلسلہ ہے جو پیچھے چین تک چلا گیا ہے۔ جب کہ اس سے ملحقہ ایک شہر تو پچھلی بار زمین نے تباہ کر دیا تھا۔ وہ ابھی تک غیر آباد پڑا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے آگے والے ایک دو شہر بھی احتیاطاً خالی کروا لیے جائیں۔ میں فوراً تجربہ گاہ جا رہا ہوں۔ پچھلی بار لیا گیا مٹی کا نمونہ میرے پاس موجود ہے۔ میں اسی سے تحقیق کا آغاز کرتا ہوں۔ ‘ پروفیسر بولے۔

’ٹھیک ہے میں شہر خالی کروانے کا بندوبست کرتا ہوں۔ ‘ انسپکٹر عمران نے کہا۔

***

جہاز میں موجود سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ یہ تیل تلاش کرنے والی ٹیم کے ارکان تھے جو اس سپیشل جہاز میں اپنی منزل کی طرف جا رہے تھے۔ ابھی سفر کو کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پچھلی سیٹ سے ایک نوجوان کھڑا ہوا اور جہاز کے دروازے کی طرف بڑھا۔

’اے زیانگ تم کدھر جا رہے ہو؟‘ ایک شخص بولا۔

زیانگ دروازے پر پہنچ کر مڑا اور مسکرا کر بولا۔ ’ میرا تمہارا ساتھ بس یہیں تک تھا دوستو۔ اب میں چلتا ہوں۔ ‘

’اچھا مذاق ہے زیانگ۔ چلو اب آرام سے بیٹھ جاؤ۔ ‘ دوسرا شخص منہ بنا کر بولا۔

’بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ قسمت کس کے ساتھ مذاق کرنے والی ہے۔ ‘زیانگ نے انہیں گھورا اور پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔

’اے۔ ۔ ۔ ۔ اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تم کیا کر رہے ہو؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘ وہ سب چلا اٹھے۔

’بائی بائی۔ ‘ اس نے ہاتھ ہلایا اور جہاز سے چھلانگ لگا دی۔ وہ سب چیختے رہ گئے۔ وہ تیزی سے نیچے جا رہا تھا پھر ایک دم اس کی کمر پر بندھا ہوا پیرا شوٹ کھل گیا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے دور جاتے ہوئے جہاز کو دیکھا۔ ایک دھماکہ ہوا اور جہاز کے پرخچے اڑ گئے۔

***

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کیسے ہوا انسپکٹر لی۔ کیا جہاز کی چیکنگ نہیں کی گئی تھی۔ ‘کمشنر تیز لہجے میں بولا۔

’جہاز کو اچھی طرح چیک کیا گیا تھا جناب۔ دراصل یہ سب چیانگ کی وجہ سے ہوا۔ ‘ لی بولا۔

’چیانگ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ابھی تک پکڑا نہیں گیا۔ آخر اس نے جہاز کیسے تباہ کر دیا۔ ‘

’اس نے ٹیم کے ایک ممبر زیانگ کا روپ دھارا اور ٹیم کے ساتھ جہاز میں سوار ہو گیا۔ زیانگ نے بڑی مشکلوں سے خود کو رسیوں سے آزاد کروایا ہے۔ ابھی مجھے اس کا فون ملا تھا۔ ‘

’اوہ۔ مگر اس طرح تو وہ خود بھی مارا گیا ہو گا۔ ‘

’نہیں میرا خیال ہے کہ اس نے اپنے بچاؤ کا کوئی بندوبست ضرور کیا ہو گا۔ ‘

’مگر چیانگ آخر کر کیا رہا ہے۔ پہلے اس نے می شنگ اور موباؤ کو مارا۔ اب پوری ٹیم کو اڑا دیا۔ ‘

’وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس علاقے میں جائے۔ اس نے مجھے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر ٹیم وہاں بھیجی تو پچھتاؤ گے۔ ‘

’آخر کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ یہ کیوں چاہتا ہے ؟ لی میں ہر قیمت پر چیانگ کو گرفتار دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘

میں اپنی پوری کوشش کروں گا سر۔ ‘ لی سنجیدگی سے بولا۔

***

انسپکٹر عمران کمرے میں داخل ہوئے تو آئی جی کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔

’خیر تو ہے سر۔ آپ بہت پریشان لگ رہے ہیں۔ ‘انہوں نے پوچھا۔

’بیٹھو عمران۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ‘آئی جی پریشانی کے عالم میں بولے۔

’آخر ہوا کیا؟‘

’چین نے تیل کی تلاش کے لیے جو دوسری ٹیم بھیجی تھی ان کا جہاز راستے میں تباہ ہو گیا۔ ‘انہوں نے بتایا۔

’اوہ!‘ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’میری چین کے متعلقہ حکام سے بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں چیانگ کا ہاتھ ہے۔ ‘

’اسے تو ہم نے ان کے حوالے کر دیا تھا۔ ‘

’ہاں وہ ان کی حراست سے بھاگ نکلا اور اس نے دھمکی دی کہ کوئی اس علاقے کا رخ نہ کرے۔ ‘

’آخر اس علاقے میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ۔ ۔ ۔ اوہ!!‘ اچانک انسپکٹر عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’کیا ہوا؟‘ آئی جی نے حیرت سے پوچھا۔

’مجھے ایک حیرت انگیز خیال آیا ہے۔ ‘

’وہ کیا؟ جلدی بتاؤ۔ ‘ انہوں نے بے چینی سے پوچھا۔

’آپ جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے جس علاقے میں شہاب ثاقب گرا تھا وہاں کی زمین پھر زندہ ہو گئی ہے۔ ‘ انسپکٹر عمران بولے۔

’ہاں یہ سن کر میں خود بہت پریشان ہوں۔ ‘

’اور جس علاقے میں تیل کی تلاش کا کام ہو رہا ہے وہ بھی زندہ زمین والے علاقے سے ملحقہ ہے۔ درمیان میں صرف چند پہاڑ ہیں۔ ‘

’تت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’میرا خیال ہے کہ وہ زمینی زندگی پہاڑوں سے ہوتی ہوئی تیل والے علاقے تک پہنچ چکی ہے۔ اور وہی وہاں کسی کو کام کرنے نہیں دے رہی۔ ‘ وہ بولے۔

’مگر چیانگ کو تم کس خانے میں فٹ کرو گے۔ ‘

’چیانگ کے دماغ پر ضرور اس زمین کا قبضہ ہے اسی لیے وہ ہپناٹائز لگ رہا تھا اور ڈاکٹر بھی اس کے دماغ کو سمجھ نہ سکے۔ اور پھر کرین آپریٹر کا بیان تھا کہ اس کی کرین کو اچانک جھٹکا لگا تھا تو وہ بھاری مشینری می شنگ اور زوباؤ پر جا گری۔ ایسا جھٹکا صرف وہ زمین ہی دے سکتی ہے۔ ‘ انسپکٹر عمران نے کہا۔

’تمہارا خیال ٹھیک ہی لگتا ہے عمران۔ ‘ آئی جی نے سر ہلایا۔

’سر آپ فوراً چین کو اس بات سے آگاہ کر دیں۔ ان سے کہیں کہ چیانگ کو فوراً پکڑنے کی کوشش کریں۔ جب تک اس زمین کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا ہم کوئی ٹیم اس علاقے میں نہیں بھیجیں گے۔ ‘انسپکٹر عمران بولے۔ ساتھ ہی ان کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے موبائل کان سے لگایا۔

’ہیلو عمران میں پروفیسر ادریس ہوں۔ فوراً میرے پاس آئیں۔ ‘

***

اس کے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا اور ایک آواز اس کے دماغ میں گونجی۔ ’تم نے ابھی تک میرے دشمنوں کو ختم نہیں کیا۔ ‘

’مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں پوری کوشش کر رہا ہوں۔ بس پروفیسر اور اس کا ساتھی اتفاق سے بچ گئے۔ ‘وہ بولا۔

’پروفیسر مسلسل میرے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اسے فوراً ختم کر دو اور ہاں انسپکٹر عمران کو بھی راستے سے ہٹا دو۔ وہ بھی بہت آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ ان لوگوں نے میرے خوف سے شہر تو خالی کروا لیے ہیں مگر کب تک بچیں گے۔ ‘آواز ابھری۔

’میں آج پھر پوری کوشش کروں گا کہ پروفیسر کو ٹھکانے لگا دوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ‘وہ بولا۔

’فکر میں نہیں تم کرو۔ اگر تم نے جلد یہ کام نہ کیا تو زندہ دفن کر دوں گی۔ ‘ اس کے دماغ میں غراہٹ ابھری۔

***

’یہ تصویر دیکھو۔ ‘ پروفیسر ادریس نے ایک تصویر انسپکٹر عمران کی طرف بڑھائی۔ انسپکٹر عمران نے تصویر ان سے لے لی۔ یہ ایک بہت بڑے ہال نما کمرے کی تصویر تھی اور اس میں کئی سرخ دھبے سے نظر آ رہے تھے۔

’میں کچھ سمجھ نہیں سکا۔ یہ تو کسی کمرے کی تصویر لگتی ہے مگر یہ اس میں دھبے سے کیسے ہیں ؟‘انہوں نے پوچھا۔

’یہ اس عمارت کے بڑے ہال کی تصویر ہے جہاں بہت سے لوگ کام کر رہے ہیں۔ یہ سرخ دھبے دراصل کام کرنے والے لوگ ہیں۔ ‘

’اوہ۔ مگر یہ دھبوں کی صورت میں کیوں آئے ہیں ؟‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔

’یہ تصویر دراصل خاص قسم کی شعاعوں کی مدد سے لی گئی ہے۔ ان شعاعوں کی خصوصیت یہ ہے کہ جب یہ کسی جاندار چیز پر پڑتی ہیں تو وہ تصویر میں سرخ رنگ کی نظر آتی ہے جب کہ بے جان چیزیں اصل صورت میں ہی نظر آتی ہیں۔ ‘پروفیسر نے بتایا۔

’مگر اس کا مقصد؟‘ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا۔

’اگر ہم بلندی سے زمین پر یہ شعاعیں ڈال کر زمین کی تصویر کھینچیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ تمام علاقے جہاں کی زمین زندہ ہو چکی ہے سرخ رنگ کے نظر آئیں گے۔ اس طرح ہم یہ پتہ چلا لیں گے کہ زمینی زندگی کہاں کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ ‘

’اوہ!‘ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ’ واقعی یہ تو بڑی اہم کامیابی ہے۔ مگر زمین کی تصویر ہم کھینچیں گے کس طرح؟‘

’ہاں یہ مسئلہ ہے۔ اس مقصد کے لیے ہیلی کاپٹر اور جہاز تو استعمال نہیں کر سکتے۔ انہیں تو زمین تباہ کر دیتی ہے۔ بس ایک ہی طریقہ ہے۔ ‘

’وہ کیا؟‘

’ہمیں یہ کام سٹیلائٹ سے لینا ہو گا۔ فضا میں مختلف ملکوں کے بے شمار مصنوعی سیارے گردش میں ہیں۔ کسی طاقتور سٹیلائٹ کے ذریعے شعاعیں ڈال کر زمین کی تصاویر کھینچیں جا سکتی ہیں۔ ‘

’کیا ہمارے پاس اتنا طاقتور سٹیلائٹ ہے ؟‘

’نہیں۔ اس کے لیے ہمیں چین سے بات کرنا ہو گی کہ وہ اپنے سٹیلائٹ کے ذریعے تصاویر کھینچ دے۔ ‘

’ٹھیک ہے میں اس سلسلے میں وزیر خارجہ سے بات کرتا ہوں۔ ‘انسپکٹر عمران بولے۔

***

انسپکٹر عمران پروفیسر سے مل کر باہر نکلے اور اپنی جیپ کی طرف بڑھے۔ اسی وقت لمبے قد والا بھی باہر نکلتا نظر آیا۔

’آپ بھی کہیں جا رہے ہیں۔ ‘ انسپکٹر عمران نے پوچھا۔

’جی ہاں میری طبیعت کچھ خراب ہے اسی لیے گھر جا رہا ہوں۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

انسپکٹر عمران سر ہلاتے ہوئے جیپ میں بیٹھ گئے۔ ان کی جیپ اور لمبے قد والے کی سرخ کار آگے پیچھے چلتی ہوئی نکلیں اور شہر کی طرف بڑھ گئیں۔ شہر میں پہنچ کر ان کے راستے جدا ہو گئے۔ لمبے قد والا اپنی دھن میں جا رہا تھا کہ اچانک وہ چونکا۔ اسے بیک ویو آئینے میں نیلی کار نظر آئی جو اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ بوکھلا گیا۔ اس نے ایک دم رفتار بڑھا دی اور جیب سے موبائل سے نکال کر انسپکٹر عمران کے نمبر ملانے لگا۔ نیلی کار کی رفتار بھی بڑھ گئی تھی۔

’ہیلو انسپکٹر صاحب۔ وہ نیلی کار پھر میرے پیچھے ہے۔ ‘ وہ کال ملتے ہی گھبرا کر بولا۔

’اوہ۔ آپ فکر نہ کریں میں آ رہا ہوں۔ آپ کون سی سڑک پر ہیں ؟‘ انسپکٹر عمران نے پوچھا۔

لمبے قد والے نے انہیں سڑک کا نام بتا کر موبائل بند کر دیا۔ وہ خاصی رفتار پر جا رہا تھا۔ آس پاس کافی ٹریفک تھی اس لیے نیلی کار والا ابھی تک اس کے قریب نہ پہنچ سکا تھا۔ پھر جلد ہی ایک ذیلی سڑک سے انسپکٹر عمران کی جیپ نکل آئی۔ وہ لمبے قد والے کی کار سے آگے تھے۔ انہوں نے جیپ سائڈ میں کرتے ہوئے اسے نکل جانے کا اشارہ کیا۔ لمبے قد والا فوراً آگے نکل گیا اور انسپکٹر عمران اس کے اور نیلی کار کے درمیان آ گئے۔ یہ دوڑ یونہی جاری رہی یہاں تک کہ وہ ایک سنسان سڑک پر آ نکلے۔ یہاں پہنچتے ہی انسپکٹر عمران نے جیپ سڑک پر ترچھی کرتے ہوئے روک دی۔ لمبے قد والا خاصی آگے جا کر رک گیا۔ نیلی کار والے نے بھی زور سے بریک لگائے۔ کار سے نکلتے ہی اس نے انسپکٹر عمران پر فائر کر ڈالا۔ انسپکٹر عمران جھکے جھکے جیپ سے نکلے اور جیپ کی سائڈ میں ہو گئے۔ انہوں نے بھی پستول نکالا اور ذرا سا سر نکال کر اس پر فائر کر دیا۔

نیلی کار کا ایک شیشہ چھناکے سے ٹوٹ گیا۔ جواب میں دو فائر اور ہوئے۔ فائرنگ کا تبادلہ یونہی جاری رہا۔ انسپکٹر عمران نیلی کار والے کی گولیاں گنتے رہے۔ جونہی اس نے چھٹا فائر کیا انہوں نے اس پر چھلانگ لگا دی کیوں کہ اب اس کا پستول خالی ہو چکا تھا۔ وہ اسے رگیدتے ہوئے گرے اور ایک گھونسہ اس کے منہ پر جڑ دیا۔ نیلی کار والے نے فوراً ہی پلٹنی کھائی اور انسپکٹر عمران کو الٹ دیا۔ انہیں اس سے اتنی تیزی کی امید نہ تھی۔ مگر نیلی کار والا جونہی کھڑا ہوا ٬ انسپکٹر عمران نے اس کی ٹانگ کھینچ لی اور اس کے گرتے ہی ایک لات اس کی پسلیوں میں رسید کی۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ انسپکٹر عمران نے اس کو مزید موقع نہ دیا اور دو تین اور ٹھوکریں اس کے رسید کر دیں۔ وہ پیٹ پکڑ کر کراہنے لگا۔ اس کے کس بل نکل چکے تھے۔ لمبے قد والا اس دوران قریب آ چکا تھا۔ نیلی کار والا تکلیف کے عالم میں سیدھا کھڑا ہوا تو لمبے قد والا زور سے چونکا۔ اس کی آنکھیں خوف اور حیرت سے پھیل گئیں۔

’ندیم تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم زندہ ہو!!‘ اس کے منہ سے نکلا۔

***

 

(۴)

انسپکٹر عمران بھی لمبے قد والے کی بات سن کر حیران رہ گئے۔

’کیا مطلب! یہ ندیم ہے۔ ‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔

’ہاں۔ مگر یہ تو زمین میں دھنس گیا تھا۔ ‘ لمبے قد والا بھی حیرت زدہ تھا۔

ندیم ان کی باتیں سن کر تکلیف کے باوجود مسکرایا اور بولا۔ ’ ہاں میں زمین میں نمودار ہونے والی دراڑ میں جا گرا تھا۔ پھر وہ دراڑ اوپر سے تو بند ہو گئی مگر نیچے سے وہ دراڑ ایک غار تک چلی گئی تھی۔ میں سیدھا اس غار میں جا گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو زمین نے مجھے بتایا کہ اس نے مجھے بچا لیا ہے اور میں اس کے لیے کام کروں۔ اب میرے ذہن پر زمین کا قبضہ ہے اور میں جہاں بھی چلا جاؤں یہ اثر برقرار رہے گا۔ ‘

’مگر تم چھ ماہ تک کہاں رہے ؟‘

’وہیں اردگرد کے شہروں میں روپوش رہا۔ پھر زمین نے مجھے حکم دیا کہ اسے مارنے والے سب لوگوں کو ختم کر دوں۔ ‘ ندیم بولا۔

’اوہ شکر ہے کہ تم پکڑے گئے ہو۔ اب جلد ہی ہم زمین سے بھی نمٹ لیں گے۔ زمینی زندگی ختم ہوتے ہی تمہارا دماغ آزاد ہو جائے گا۔ ‘انسپکٹر عمران بولے۔

’یہ تم لوگوں کی بھول ہے۔ تم زمین کو کبھی شکست نہیں دے سکو گے۔ ‘ اچانک ندیم کی آواز بدل گئی اور وہ غرا کر بولا۔

’اوہ بالکل وہی چیانگ والا لہجہ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا خیال درست ہے۔ چیانگ بھی زمین کے زیر اثر ہے۔ ‘انسپکٹر عمران نے چونک کر کہا۔

’ہاں وہ علاقہ بھی اب زمین کے قبضے میں ہے اور زمین وہاں سے تیل نہیں نکالنے دے گی۔ ‘ندیم بولا۔

’خیر پہلے تمہارا بندوبست تو کر دیں۔ ‘ انسپکٹر عمران نے اس کی طرف پستول تانے ہوئے دوسرے ہاتھ سے فون کا ریسیور اٹھایا اور گارڈز کو اندر آنے کو کہا۔

***

انسپکٹر عمران ٬ پروفیسر ادریس ٬ لمبے قد والا اور چند دوسرے لوگ اس وقت چین میں موجود تھے۔ انہیں وہاں کے خلائی مرکز کے انچارج پروفیسر زینگ نے بلایا تھا جنہوں نے سٹیلائٹ کے ذریعے خاص شعاعوں کی مدد سے زمین کی تصاویر اتاری تھیں۔ اس وقت وہ سب خلائی مرکز کے ایک ہال میں بیٹھے ایک بڑی سی اِسکرین پر وہ تصاویر دیکھ رہے تھے۔ اس میں شہاب ثاقب گرنے والا مخصوص علاقہ،  تیل کی تلاش والا علاقہ اور ارد گرد کا خاصہ بڑا حصہ سرخ رنگ سے دہک رہا تھا۔

’اف خدا۔ اس تصویر کے مطابق تو زمینی زندگی آس پاس کے تمام پہاڑی علاقوں میں پھیل چکی ہے اور چین کا بھی کافی علاقہ اس کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ ‘ پروفیسر زینگ بولے۔

’ارے۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دیکھیے اس طرف!‘ اچانک لمبے قد والا بولا۔

’کدھر؟‘ پروفیسر ادریس نے پوچھا۔

’اس کونے میں۔ ذرا تصویر کو بائیں کونے میں لے جائیں۔ ادھر پہاڑ کے دامن میں بڑی سی جھیل ہے جس پر ہم نے ڈیم بنایا ہوا ہے۔ یہ سارا علاقہ سرخ ہے۔ یعنی جھیل اور ڈیم دونوں خطرے میں ہیں۔ ‘ وہ بولا۔

’اوہ۔ ۔ ۔ ۔ !‘ انسپکٹر عمران کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ ’ اگر زمین نے ڈیم کو نقصان پہنچا دیا تو کیا ہو گا۔ ‘

’بڑی تباہی پھیل جائے گی۔ پھر اس پہاڑ سے تو دریا بھی نکلتا ہے جس سے جھیل بنی ہے۔ اگر ڈیم کو نقصان پہنچا تو دریا میں طغیانی آ جائے گی۔ سارا صوبہ سیلاب کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ ‘

’حالات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’پروفیسر ذرا چین کے علاقے کا بھی جائزہ لے لیں۔ ‘ انسپکٹر لی بے چین ہو کر بولا۔

پروفیسر زینگ نے تصویر کو پیچھے چین کی طرف بڑھایا اور پھر نہ جانے کیوں ان کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ علاقہ۔ ۔ ۔ ‘ وہ چین کے ایک علاقے کو دیکھ رہے تھے جو سارا سرخ رنگ سے رنگا تھا۔

’ہاں کیا ہوا؟ یہ تو غیر آباد علاقہ ہے۔ ‘ لمبے قد والا حیران ہو کر بولا۔

’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ‘ پروفیسر زینگ بڑبڑایا۔ اس کی نگاہوں میں بے چینی تھی۔ ادھر انسپکٹر لی بھی خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔

’ہمیں مل اس زندگی کے خاتمے کا کوئی حل فوری طور پر سوچنا ہو گا ورنہ حالات بہت خطرناک ہو جائیں گے۔ مجھے فوری طور پر اپنی حکومت سے بات کرنی ہے۔ آپ لوگ مزید جائزہ لیں۔ ‘ پروفیسر زینگ جلدی جلدی بولا اور تیزی سے ہال سے نکل گیا۔ انسپکٹر عمران حیرت سے چین کے اس غیر آباد علاقے کو دیکھ رہے تھے۔

***

چین کے وزیر اعظم زور سے اچھلے۔ ان کی آنکھیں خوف اور دہشت سے پھیل گئیں۔

’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں پروفیسر زینگ۔ ‘ان کے منہ سے نکلا۔

’یہ سچ ہے جناب۔ اس علاقے کی زمین زندہ ہو چکی ہے اور وہاں ہمارا ایٹمی پلانٹ ہے۔ اگر وہ زندگی آگے بڑھتی رہی تو ایٹمی پلانٹ اس کی زد میں آ جائے گا۔ ‘پروفیسر زینگ بولا۔

’اوہ نہیں۔ اگر پلانٹ کو نقصان پہنچا تو بہت بھیانک تباہی پھیلے گی۔ فوراً کچھ کریں پروفیسر۔ ‘ وزیراعظم گھبرا کر بولا۔

’میرا خیال ہے کہ میں پروفیسر ادریس کے ساتھ مل کر کام کرتا ہوں۔ ان کے پاس پچھلی بار لیا گیا مٹی کا نمونہ موجود ہے۔ ہم اسی پر مزید تجربات کرتے ہیں۔ ‘ پروفیسر بولا۔

’ٹھیک ہے جو کرنا ہے کریں۔ بس میں تو پلانٹ کو محفوظ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘

***

شمالی صوبے کے وزیر اعلی ایک اہم اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ لمبے قد والے نے انہیں ساری صورت حال بتائی تھی۔

’ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر ڈیم کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے نتیجے میں کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور اس سلسلے میں پہلے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’مسٹر منیر آپ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں ؟‘ وزیر اعلیٰ نے آبپاشی کے ایک ماہر سے پوچھا۔

’جناب خوش قسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے بارشیں بہت کم ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ڈیم اور دریا میں پانی کی مقدار زیادہ نہیں۔ اگر خدانخواستہ ڈیم ٹوٹ بھی گیا تو اتنے اونچے درجے کا سیلاب نہیں آئے گا۔ پھر بھی ہم احتیاطا سیلاب کے راستے میں آنے والے سارے گاؤں دیہاتوں کو خبردار کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیں۔ ‘ منیر نے کہا۔

’ٹھیک ہے میں اس سلسلے میں ہدایات جاری کر دیتا ہوں۔ ‘وزیر اعلیٰ نے کہا۔

***

چین کے خلائی مرکز میں پروفیسر ادریس اور زینگ سر جوڑے بیٹھے تھے۔ زینگ کے ماتحت سٹیلائٹ کے ذریعے مسلسل زندہ زمین کے علاقے پر نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ کوئی نئی بات ہو تو فوراً پتہ چل سکے۔

’ہیلی کاپٹر اور جہاز تو اب بے کار ہو چکے ہیں۔ پھر آخر اس زمین پر زہر کس طرح برسایا جائے۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی طریقہ اسے ختم کرنے کا نہیں۔ ‘ پروفیسر ادریس بولے۔

’ہاں ہمیں زہر برسانے کا کوئی محفوظ طریقہ سوچنا ہو گا۔ اور ساتھ ہی شہاب ثاقب کے اس پتھر کو ختم کرنا ہو گا۔ ‘ زینگ نے کہا۔

’ڈیم کا مسئلہ زیادہ نازک ہے۔ اگر زندگی وہاں تک پہنچ گئی تو تباہی آ جائے گی۔ ہمیں جلد کوئی طریقہ سوچنا ہو گا۔ ‘ پروفیسر ادریس بولے۔

’ہاں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں ؟‘

’ارے ایک آئیڈیا میرے ذہن میں آیا ہے۔ ‘ اچانک پروفیسر ادریس چونک کر بولے۔

’وہ کیا؟‘ زینگ نے بے تابی سے پوچھا۔

’ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم اس زندگی کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔ ‘پروفیسر ادریس پر جوش لہجے میں بولے۔

’وہ۔ ۔ ۔ وہ کیسے ؟‘ زینگ بے چین ہو گئے۔

’جہاں تک یہ زندگی پہنچ چکی ہے ہمیں آگے اس کے راستے میں گہری خندق کھودنی ہو گی اور اس خندق کو اگر زہر ملے پانی سے بھر دیا جائے تو زندگی اس زہریلی خندق کو عبور نہیں کر سکے گی۔ یوں اس کا آگے بڑھنا رک جائے گا۔ ‘پروفیسر ادریس نے وضاحت کی۔

’اوہ اوہ ! زبردست ترکیب ہے۔ ‘ پروفیسر زینگ اچھل پڑے اور انہوں نے دل میں سوچا کہ اگر ایٹمی پلانٹ کے چاروں طرف اس طرح خندق کھود دی گئی تو وہ محفوظ ہو جائے گا۔

’میں اپنے ملک خبر کرتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں کہ ڈیم کے گردا گرد خندق بنائی جائے۔ ‘ پروفیسر ادریس فون کی طرف دوڑے اور زینگ بھی فون کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں بھاگا۔

***

ایٹمی پلانٹ میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ ہر شخص پریشان اور خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔ وہاں کا انچارج چیخ چیخ کر ہدایات دے رہا تھا۔ ’پلانٹ کے سارے شعبے بند کر دو۔ یورینیم کی سلاخیں نکال لو اور انہیں احتیاط کے ساتھ کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی تیاری کرو۔ ‘

’سر وہ زمینی زندگی کہاں تک پہنچ چکی ہے ؟‘ ایک ورکر نے پوچھا۔

’پلانٹ سے پانچ کلومیٹر دور تک۔ اور کل تک وہ یہ پانچ کلومیٹر کا فاصلہ بھی طے کر لے گی۔ ‘انچارج بولا۔

اسی وقت ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا۔ ’ سر۔ پروفیسر زینگ کا فون آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوراً پلانٹ کے اردگرد ایک گہری خندق کھودی جائے اور اس میں زہریلا پانی ڈال دیا جائے۔ اس طرح وہ زندگی پلانٹ تک نہیں پہنچ سکے گی۔ تاہم احتیاط کے طور پر یورینیم کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے۔ ‘

’اوہ تو پھر فوراً فوج طلب کر لو۔ خندق کی کھدائی کا کام وہی کرے گی۔ ‘انچارج تیزی سے بولا۔

***

ادھر شمالی صوبے میں بھی فوج طلب کر لی گئی تھی اور سارے ملک سے بھاری مشینری یہاں منتقل کی جا رہی تھی تاکے تیزی سے خندق کھودی جا سکے۔ سیلاب کے خطرے کے پیش نظر گاؤں دیہاتوں کے لوگ پہلے ہی بھاگ چکے تھے۔ ادھر خلائی مرکز میں پروفیسر ادریس اور زینگ زہر برسانے کے کسی محفوظ طریقے پر غور کر رہے تھے۔

’خندق والے طریقے سے کم از کم اب مزید علاقے تو متاثر نہیں ہوں گے۔ ہم نے اس زمینی زندگی کو محدود تو کر دیا ہے مگر اس کے مکمل خاتمے کا طریقہ سوچنا ابھی باقی ہے۔ ‘ زینگ بولے۔

اسی وقت ان کا نائب دوڑتا ہوا آیا اور بولا۔ ’ سر جلدی آئیں ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا ہے۔ ‘

دونوں پروفیسر تیزی سے اس کے پیچھے پیچھے دوسرے ہال میں آئے جہاں بے شمار ٹی وی اسکرینیں نصب تھیں۔ اور ان پر سٹیلائٹ کے ذریعے زندہ زمین والے سارے علاقے پر نظر رکھی جا رہی تھی۔

’وہ دیکھیے۔ اس پہاڑ کی طرف۔ ‘ نائب بولا تو ان کی نظر ایک ا سکرین پر موجود پہاڑ پر پڑیں۔ یہ شمالی صوبے کا ایک پہاڑ تھا جس کی چوٹی پر برف جمی نظر آ رہی تھی۔ اس وقت یہ پہاڑ آہستہ آہستہ لرز رہا تھا۔

’یہ۔ ۔ ۔ یہ کیا ہو رہا ہے ؟‘ پروفیسر ادریس حیرت سے بولے۔

’پہاڑ بری طرح سے لرز رہا ہے اور اس پر موجود برف ٹوٹ رہی ہے۔ ‘ نائب نے کہا۔

’اوہ۔ اسی پہاڑ سے تو وہ دریا نکلتا ہے جس سے جھیل بنی ہے اور جس پر ڈیم بنایا گیا ہے۔ اگر یہ ساری برف ٹوٹ کر پگھل گئی تو دریا میں طغیانی آ جائے گی اور ڈیم بھر جائے گا۔ ‘پروفیسر ادریس خوفزدہ لہجے میں بولے۔

’ہماری خندق والی ترکیب سے گھبرا کر زمین نے یہ چال چلی ہے۔ وہ ڈیم تک تو نہیں پہنچ سکی۔ اس نے پہاڑ کی برف پگھلانا شروع کر دی ہے۔ اگر ڈیم میں پانی زیادہ بھر گیا تو یوں بھی وہ ٹوٹ جائے گا۔ ‘ زینگ کھوئے کھوئے لہجے میں بولے۔

’فوراً اپنے ملک خبر کر دیں۔ پانی ڈیم تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا۔ وہ احتیاطی تدابیر کر لیں۔ ‘ نائب چلایا۔ اور پروفیسر ادریس فون کی طرف دوڑے۔

***

ڈیم کے کنٹرول روم پر لگا سائرن زور زور سے بج رہا تھا۔ وہاں کے انچارج کا چہرہ دھواں ہو رہا تھا۔ وہ چلا کر کہ رہا تھا۔ ’ ڈیم کے سارے دروازے کھول دو۔ سارا پانی دریا میں بہا دو۔ ابھی پہاڑ سے پانی یہاں پہنچنے میں ایک ڈیڑھ دن لگے گا۔ اس سے پہلے پہلے ڈیم بالکل خالی کر دو تاکہ سارا پانی دریا کے ذریعے سمندر میں جا گرے۔ ‘

وہاں افراتفری کا ایک عالم تھا۔ وزیر اعلیٰ اپنے آفس میں پریشان ٹہل رہا تھا۔

’کیا ہمیں صوبے سے نکل جانا چاہیے۔ ‘ وہ بولا۔

’ابھی ڈیم میں اتنا پانی نہیں اور دریا بھی خشک ہے۔ اسی لیے ہم سارا پانی دریا میں چھوڑ رہے ہیں۔ معمولی درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے۔ ہاں اگر پہاڑ سے وافر مقدار میں پانی آ گیا تو پھر مسئلہ ہو جائے گا۔ ‘ ایک وزیر بولا۔

’سارے گاؤں اور دیہات خالی کروا لو اور پروفیسر ادریس سے کہو کہ وہ سٹیلائٹ کے ذریعے پانی پر نظر رکھیں۔ ‘

***

پہاڑ سے برف کے تودے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ برف پگھل رہی تھی اور دریا میں پانی بڑھتا جا رہا تھا۔ پہاڑ سے نکلنے والا یہ دریا یہاں موجود کئی پہاڑوں کے درمیان سے شور مچاتا ہوا گزر رہا تھا۔ اونچی اونچی چھالیں پہاڑوں سے ٹکراتیں اور شور مچاتی ہوئی آگے بڑھ جاتیں۔ ادھر ڈیم سے پانی دریا میں نکالا جا رہا تھا۔ دریا میں پانی کا لیول بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک طرف ڈیم خالی ہو رہا تھا اور دوسری طرف سے پہاڑوں سے ٹکراتا ہوا پانی ڈیم میں پہنچنے کو تھا۔

***

ایٹمی پلانٹ کے پاس ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مشینری پہنچنی شروع ہو گئی تھی اور فوجیوں نے خندق کھودنی شروع کر دی تھی۔ ایک میجر کام کی نگرانی کر رہا تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ وہاں سرچ لائٹیں جلا کر کام جاری رکھا گیا تھا۔ فوجی کام میں مصروف تھے کہ اچانک فائرنگ کی آواز گونجی۔ چند فوجی چیخیں مار کر گرے اور تڑپنے لگے۔

’یہ گولیاں کس نے چلائیں ؟‘ میجر حیرت سے بولا۔ اسی وقت پھر فائرنگ ہوئی۔

’سر ٹیلوں کے پیچھے کچھ لوگ چھپے ہیں۔ وہی فائرنگ کر رہے ہیں۔ ‘ ایک فوجی چلایا۔

ایٹمی پلانٹ کے اردگرد چھوٹے بڑے بے شمار ٹیلے موجود تھے۔

’حیرت ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ تم بھی ٹیلوں کے پیچھے چھپ جاؤ۔ ‘میجر چلایا اور فوجی کام چھوڑ کر دوسری طرف کے ٹیلوں کے پیچھے دوڑے۔ کچھ گولیاں پھر چلیں اور کچھ فوجی بھاگتے ہوئے گرے۔ پھر جلد ہی وہ سب ٹیلوں کے پیچھے چھپ گئے۔ میجر اس صورت حال سے پریشان تھا۔ وہ چونکہ کام کرنے آئے تھے نہ کہ لڑنے لہذا ان کے پاس اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس نے جلدی جلدی وائرلیس پر ساری صورت حال بتائی اور بولا۔ ’فوراً مزید فوج بھجوائیں اور ان لوگوں پر فضائی حملہ کریں۔ نہ جانے یہ کون ہیں۔ ‘

’فکر نہ کرو میجر فوج بھیجی جا رہی ہے۔ تم ان لوگوں کو کچھ دیر الجھائے رکھو۔ ‘دوسری طرف سے کہا گیا۔

’گولیاں احتیاط سے خرچ کرو۔ مزید فوج آنے تک ان لوگوں کو ٹیلوں کے پیچھے سے نہ نکلنے دینا۔ ‘ میجر نے فوجیوں کو ہدایت کی۔

ایٹمی پلانٹ کے ارد گرد کا علاقہ گولیوں سے گونجتا رہا۔ پھر فضا میں کئی ہیلی کاپٹر نمودار ہوئے۔ میجر نے سر اٹھا کر دیکھا اور اس کے چہرے پر مسرت دوڑ گئی۔ ہیلی کاپٹروں نے ٹیلوں کے پیچھے چھپے دشمنوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ دشمنوں نے ہیلی کاپٹروں پر فائرنگ کی مگر ان کا اسلحہ اتنا جدید نہ تھا۔ جلد ہی سارے دشمن مارے گئے۔

اب میجر بھاگتا ہوا ٹیلوں کے دوسری طرف گیا۔ وہاں بے شمار زخمی اور مردہ لوگ پڑے تھے۔

’اے کون ہو تم ؟ اور تم نے ہم پر حملہ کیوں کیا؟‘ اس نے ایک زخمی سے پوچھا۔

’ہمیں اس نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ دولت کا لالچ دے کر یہ ہمیں یہاں لایا تھا۔ ‘ زخمی نے دور پڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ میجر اس کی طرف دوڑا۔ وہ شخص بھی بہت زخمی تھا اور اس کا کافی خون بہ چکا تھا۔

’اے تم نے یہ سب کیوں کیا؟‘میجر نے پوچھا۔

زخمی نے مشکل سے آنکھیں کھول کر میجر کو دیکھا اور پھر اس نے اٹک اٹک کر بتایا۔ ’ میرا نام چیانگ ہے۔ میرے دماغ پر اس زندہ زمین کا قبضہ تھا۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ میں پلانٹ کے گرد خندق نہ بننے دوں۔ میں اس علاقے کے سارے جرائم پیشہ لوگوں کو اکٹھا کر کے یہاں آ گیا تاکہ آپ لوگوں کو لڑائی میں الجھائے رکھوں اور زندگی پلانٹ تک پہنچ جائے۔ مگر افسوس میں ناکام رہا۔ اب۔ ۔ ۔ ۔ اب میں مرنے کو ہوں تو زمین نے میرے دماغ کو آزاد کر دیا ہے۔ مجھے اپنے کیے پر شرمندگی ہے مگر میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا۔ ۔ ۔ مجھے معاف کر دینا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ یہ کہ کر چیانگ کی گردن ڈھلک گئی۔

***

زینگ نے فون کا ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف فوج کا سربراہ تھا۔ ’مجھے سارے حا ات کا پتہ چلا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا اس زمین پر میزائل فائر نہیں کیے جا سکتے۔ ‘

’میزائل !‘ زینگ چونکا۔

’’ہاں ہم زہر کا مواد میزائل میں بھر کر وہاں فائر کر دیتے ہیں۔ اگر زمین نے میزائل فضا میں تباہ بھی کر دیا تب بھی اس کا ہی نقصان ہو گا۔ زہریلا مواد اسی پر گرے گا۔ ‘سربراہ بولا۔

’میرا خیال ہے کہ ہم یہ تجربہ کر سکتے ہیں۔ میں پروفیسر ادریس سے مشورہ کرتا ہوں۔ ‘ وہ بولا اور پھر اس نے پروفیسر ادریس کو ساری بات بتائی۔ وہ بھی یہ سن کر چونکے۔

’بات تو دل کو لگتی ہے۔ پھر میں فوراً واپس جاتا ہوں اور زہریلا مواد فوج کے حوالے کرتا ہوں۔ وہ زمین پر میزائل فائر کر دیں گے۔ ‘پروفیسر ادریس بولے۔

’اور کوشش کریں کہ میزائل ٹھیک اس شہاب ثاقب کے پتھر پر گرے تاکہ وہ ختم ہو جائے۔ ‘زینگ نے کہا۔

***

میزائل کمان سے نکلے تیر کی طرح تیزی سے اپنی منزل کی طرف اڑا جا رہا تھا۔ اور اس کی منزل پراسرار علاقے میں موجود شہاب ثاقب کا پتھر تھا۔ سب کی نظریں ٹی وی اسکرین پر جمی تھیں اور دل دھک دھک کر رہے تھے۔ پھر میزائل پراسرار علاقے میں داخل ہو گیا۔ اس کا رخ بدلا اور زمین کی طرف ہو گیا۔ بس چند منٹوں میں وہ زمین پر گرنے والا تھا۔ پروفیسر ادریس سانس روکے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ مگر پھر ان کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ میزائل زمین کے قریب پہنچتے ہی ایک دم واپس پلٹا جیسے کسی نے اسے دھکا دے دیا ہو۔ پھر وہ مڑا اور جدھر سے آیا تھا واپس اسی طرف چل پڑا۔

’اف خدا ! زمین نے میزائل کو واپس ادھر پھینک دیا ہے۔ اسے راستے میں ہی تباہ کر دیں کہیں یہ آبادی پر نہ گر پڑے۔ ‘ پروفیسر ادریس چلائے۔ وہاں موجود فوج کا نمائندہ تیزی سے باہر کو دوڑا اور جلدی جلدی فضائیہ کو ساری صورت حال بتانے لگا۔

میزائل تیزی سے واپس آ رہا تھا۔ ادھر پروفیسر زینگ بھی سکتے کے عالم میں تھا۔ ’یہ وار بھی خالی گیا۔ ‘ وہ بڑبڑایا۔

پھر فضا میں طیاروں کی گڑگڑاہٹ گونجی اور وہ تیزی سے میزائل کے اوپر پہنچ گئے۔ میزائل ابھی دارالحکومت سے دور ہی تھا کہ طیاروں نے اس پر فائرنگ شروع کر دی اور میزائل ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ پروفیسر زینگ نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ غیر آباد علاقے پر پھٹا تھا۔ پھر اس کی نظر دوسری اسکرین پر پڑی۔ پہاڑ سے آنے والا پانی کا ریلا شور مچاتا پہاڑی علاقے سے گزر رہا تھا۔

’پانی کا یہ ریلا کل صبح تک ڈیم تک پہنچ جائے گا۔ ‘ وہ بڑبڑایا۔ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے۔

’پلانٹ کی کیا صورت حال ہے ؟‘ اس نے پوچھا۔

’خندق تیزی سے بن رہی ہے۔ آج رات تک مکمل ہو جائے گی۔ پھر اسے زہریلے پانی سے بھر دیں گے۔ ‘ اس کے نائب نے بتایا۔

’ہوں مگر پانی کے اس ریلے کا کیا کریں ؟ میں پروفیسر ادریس کو خبردار تو کر دوں۔ ‘ وہ بولا اور فون ملانے لگا۔

***

پروفیسر ادریس اپنے آفس میں پریشان بیٹھے تھے۔

’کل صبح پانی ڈیم میں داخل ہو جائے گا۔ اور اگر ڈیم پورا بھر گیا تو پانی پھر دریا میں چھوڑنا پڑے گا۔ ابھی تو پچھلا پانی ہی دریا میں موجود ہے۔ وہ سمندر تک نہیں پہنچا۔ مزید پانی دریا میں آیا تو یقیناً سیلاب آ جائے گا۔ ‘

’کچھ سمجھ نہیں آتا پروفیسر کہ زمین کو کیسے ختم کریں۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’مسئلہ صرف اس پر زہر برسانے کا ہے۔ آخر کس طرح پورے علاقے پر زہر برسائیں۔ اب تو بہت بڑا علاقہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ ‘ پروفیسر سوچ میں گم بولے۔

’ارے ! یہ تو بارش بھی شروع ہو گئی۔ ‘ لمبے قد والا چونکا۔ وہ پروفیسر کی سیٹ کے پیچھے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔

’بارش۔ ۔ ۔ ۔ ‘ پروفیسر ادریس کے منہ سے نکلا۔

’ہاں پتہ نہیں صرف یہاں ہی ہو رہی ہے یا پورے صوبے میں۔ اگر زندہ زمین والے علاقے میں بھی بارش شروع ہو گئی تو اور مسئلہ ہو جائے گا۔ پہلے ہی پانی کا ریلا ادھر سے گزر رہا ہے۔ ‘ لمبے قد والا بولا۔

’بارش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندہ زمین والے علاقے میں بارش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ!‘ پروفیسر ادریس ایک دم چونک اٹھے۔

’خیر تو ہے۔ آپ کس بات پر حیران ہیں ؟‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

‘بارش۔ ۔ ۔ ۔ اگر پورے شمالی علاقے میں بارش ہو جائے تو۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’تو کیا۔ ۔ ؟‘ لمبے قد والا ابھی تک حیران تھا۔

’ترکیب سمجھ میں آ گئی۔ ‘ پروفیسر خوشی سے چلائے۔ ’اب ہم اس زمین کو ختم کر دیں گے۔ ‘

’آخر کیسے ؟‘ لمبے قد والا الجھ کر بولا۔

’تم جانتے ہو کہ چین نے خشک سالی سے بچنے کے لیے اپنی فصلوں پر مصنوعی طریقے سے بادل بنا کر بارش برسانے کا تجربہ کیا تھا۔ ‘

’جی ہاں مجھے پتہ ہے۔ ان کا تجربہ کافی حد تک کامیاب رہا تھا۔ ‘

’ہمیں بھی اس زمین پر مصنوعی بارش برسانا ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ زہریلی بارش۔ ‘

’زہریلی بارش!‘ لمبے قد والا زور سے چونکا۔

’ہاں میں پروفیسر زینگ سے بات کرتا ہوں کہ وہ زہریلے پانی کے بادل بنائیں اور وہ بادل اس زمین پر بارش برسائیں۔ اس طرح اس پورے علاقے میں زہریلے پانی کی بارش ہو گی۔ ‘

’اوہ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ!‘ لمبے قد والا خوشی سے چلایا۔ ’واقعی۔ اس طرح وہ زمین کچھ نہیں کر سکے گی۔ بادلوں کا بھلا وہ کیا بگاڑ سکے گی اور اگر اس نے بادلوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی بھی تو اس کا ہی نقصان ہو گا۔ اس صورت میں بھی پانی اسی پر گرے گا۔ ‘

’میں ابھی زینگ سے بات کرتا ہوں۔ ‘ انہوں نے فون پر جھپٹا مارا۔

***

 

یہ صبح بے حد چمکدار اور روشن تھی۔ دور دور تک بادل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ پھر اچانک ہی چین کے ایک علاقے سے بڑے بڑے بادل نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ ان بادلوں کا رخ چین کی سرحد کی طرف تھا۔ بادل بڑھتے ہی جا رہے تھے اور پھر سرحد کے پار پاکستان کے شمالی حصے پر بھی بادل چھا گئے۔ بے شمار لوگوں کے سر اوپر کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔ پروفیسر ادریس اپنی رصد گاہ سے بادلوں کو دیکھ رہے تھے۔ شمالی حصے کی عوام کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ وہ آج باہر نہ نکلیں۔ پھر بجلیاں سی چمکیں اور چین کی ایک عمارت سے بے شمار چمکتی ہوئی شعاعیں نکلیں اور بادلوں سے ٹکرائیں۔ بادلوں میں زوردار گڑگڑاہٹ گونجی اور پانی کا ایک قطرہ بادل سے ٹپکا۔ وہ تیزی سے زمین کی طرف لپکا۔ چند اور قطروں نے بھی اس کا تعاقب شروع کیا اور جونہی پانی کے یہ قطرے زمین سے ٹکرائے زمین میں ہلچل سی پیدا ہوئی۔ مگر اب قطروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بارش کا پانی تو آب حیات ہوتا ہے مگر یہ آب حیات نہیں بلکہ زمین کے لیے موت کا پیغام تھا۔ ان قطروں میں زہر ملا ہوا تھا۔

زہریلے بادلوں نے برسنا شروع کر دیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ زمین میں بھونچال آ گیا تھا۔ وہاں موجود پہاڑ لرز رہے تھے۔ بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی تھیں۔ زمین پر دھماکے ہو رہے تھے۔

’پروفیسر کیا ہم کامیاب ہو جائیں گے ؟‘ لمبے قد والے نے پوچھا۔

’انشاء اﷲ۔ آج اس زمین کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ‘ پروفیسر ادریس بولے۔

فون کی گھنٹی بجی تو لمبے قد والے نے فون اٹھا کر سنا اور بولا۔ ’ پروفیسر پانی کا ریلا ڈیم میں داخل ہو گیا ہے۔ ڈیم بھرنا شروع ہو گیا ہے۔ ‘

’اوہ!‘ پروفیسر کے منہ سے نکلا۔

’اگر ڈیم بھر گیا تو شاید یہ پانی دریا میں چھوڑنا پڑے گا۔ ‘

’ہاں مگر افسوس کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ نقصان تو برداشت کرنا ہی ہو گا۔ بس دعا کرو کہ یہ آخری نقصان ہو۔ ‘پروفیسر بولے۔

ڈیم بھرتا جا رہا تھا۔ اور ادھر بارش زور و شور سے جاری تھی۔ سارا پہاڑی علاقہ پانی میں نہا گیا تھا۔ زمین اوپر نیچے حرکت کر رہی تھی۔ پہاڑوں کو توڑ رہی تھی۔ مگر اب اس کی شدت میں کمی آتی جا رہی تھی۔

پھر ڈیم میں پانی خطرے کے نشان سے اوپر ہو گیا اور ڈیم کے دروازے کھول دیے گئے۔ پانی شور مچاتا ہوا دریا میں داخل ہو گیا اور یہ بپھرا ہوا ریلا آگے بڑھتا چلا گیا۔ پانی دریا کے کناروں سے ابل پڑا اور ارد گرد کی بستیوں میں داخل ہو گیا۔ مگر لوگ پہلے ہی گھر بار چھوڑ کر جا چکے تھے اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

بارش کا یہ سلسلہ دوپہر تک چلا۔ پھر اس کی شدت میں کمی آنے لگی۔

’پروفیسر ادریس۔ میں سٹیلائٹ سے نظر رکھے ہوئے ہوں۔ زمین خاصی دیر سے خاموش ہے۔ اس کا لرزنا اور پہاڑوں کو توڑنا رک چکا ہے۔ کیا خیال ہے کیا یہ مر چکی ہے ؟‘پروفیسر زینگ فون پر بولے۔

’یہ تو چیک کر کے ہی بتایا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چند گھنٹے اور بارش ہونے دیں پھر آپ سٹیلائٹ کی مدد سے خاص روشنی کے ذریعے تصاویر لے کر دیکھ لیں۔ ادھر میں مٹی کے نمونے لے کر چیک کرتا ہوں۔ یوں دونوں طرح سے تسلی ہو جائے گی۔ ‘

’ٹھیک ہے۔ اور ہاں جیسے ہی بارش رکے فوراً شہاب ثاقب کے اس پتھر کو اڑا دیں تاکہ زندگی دوبارہ نمودار نہ ہو سکے۔ ‘زینگ بولا۔

’ ہاں ہم یہی کریں گے۔ ‘پروفیسر ادریس نے کہا۔

***

جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود ندیم کے دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اس نے سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور خالی خولی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر وہ سلاخوں کو پکڑ کر چلایا۔

’مجھے باہر نکالو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یہاں سے باہر نکالو۔ ‘

ان حالات کی خبر انسپکٹر عمران کو دی گئی تو انہوں نے ندیم کو اپنے پاس بلوا لیا۔

’میرا خیال ہے کہ اب تم زمین کے اثر سے آزاد ہو گئے ہو۔ ‘وہ بولے۔

’ہاں مجھے سب کچھ یاد آ گیا ہے کہ میں کیا کچھ کرتا رہا ہوں۔ اف خدا۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کیا تھا۔ ‘ وہ کانپ کر بولا۔

’خدا کا شکر کرو کہ تم ٹھیک ہو گئے ہو۔ میرا خیال ہے کہ زہریلی بارش کے بعد اب تک زمین ختم ہو چکی ہو گی۔ جلد ہی ہمیں خبر مل جائے گی۔ ‘

’مم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو اس دوران ڈاکٹر رفیع کو ختم بھی کر چکا ہوں۔ کیا مجھے اس کی سزا ملے گی؟‘ اس نے پریشان ہو کر پوچھا۔

’تم نے جو کچھ کیا زمین کے زیر اثر رہ کر کیا۔ اس لیے تم قصوروار نہیں۔ تاہم ہم عدالت سے بھی وضاحت لے لیں گے۔ تم فکر نہ کرو۔ ‘ انسپکٹر عمران نے اسے تسلی دی۔

’اور۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا بھائی نعیم کہاں ہے ؟‘ اس نے پوچھا۔

’وہ خوف سے کہیں روپوش ہو گیا ہے۔ کل اخبار میں سارے حالات شایع ہو جائیں گے۔ ہم نعیم کے نام اشتہار بھی لگوا دیں گے۔ امید ہے وہ پڑھ کر جہاں بھی ہے آ جائے گا۔ ‘انسپکٹر عمران نے کہا۔

***

زہریلی بارش رک چکی تھی اور کئی ہیلی کاپٹر پراسرار علاقے پر پرواز کر رہے تھے۔ پھر ایک ہیلی کاپٹر اس گڑھے تک پہنچ گیا جس میں شہاب ثاقب والا پتھر پڑا تھا۔ اس نے تڑا تڑ فائرنگ شروع کر دی اور شہاب ثاقب سے آنے والا پتھر ٹوٹ کر بکھر گیا، ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ہیلی کاپٹر میں موجود لمبے قد والے نے خوشی سے نعرہ لگایا۔ پھر ہیلی کاپٹروں نے کئی جگہ سے مٹی کے نمونے اکٹھے کیے اور واپس ہولیے۔

مٹی کے نمونوں کا جائزہ لے کر پروفیسر ادریس نے سکھ کا سانس لیا۔ پروفیسر زینگ نے سیٹیلائٹ کی مدد سے سارے علاقے کی نئی تصاویر لیں۔ اس بار تصویروں میں سارا علاقہ سبز نظر آ رہا تھا۔ کہیں سرخ رنگ کا کوئی دھبہ نہ تھا۔ زمینی زندگی کا اختتام ہو چکا تھا۔ سب لوگ خوشیاں منا رہے تھے۔

***

پراسرار علاقے میں موجود گڑھے میں شہاب ثاقب کے پتھر کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ اچانک اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حرکت میں آیا اور لڑھکنے لگا۔ لڑھکتا ہوا وہ ایک اور چھوٹے سے ذرے کے پاس پہنچا اور دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے۔ پھر وہ بڑا ٹکڑا لڑھکتا ہوا ایک اور ننھے سے ذرے کے پاس پہنچا اور اس سے جڑ گیا۔ چند چھوٹے چھوٹے ذرے اور حرکت میں آئے اور ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ وہ سب آپس میں جڑتے جا رہے تھے۔ یوں کچھ دیر بعد وہاں ایک چھوٹا سا پتھر وجود میں آ گیا۔ وہ پتھر زور سے لرزا اور اس کے اندر سے آواز ابھری۔

’میرا بڑا حصہ ضایع ہو گیا اور میں چھوٹا سا رہ گیا۔ انسان نے مجھ پر بڑا ظلم کیا۔ ساری زمین بھی زہریلی ہو چکی ہے اور میری طاقت بھی کم ہو گئی ہے۔ اس بار مجھے زمین کو زندہ کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرنا ہو گی۔ کہیں زیادہ وقت لگے گا۔ مگر ایک دن آئے گا جب کامیابی میرے قدم چومے گی، پھر میں ان تمام انسانوں سے نمٹ لوں گا جنہوں نے مجھے برباد کیا۔ ‘

***

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے ہی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید