فہرست مضامین
- زمیں تخلیق کرنی ہے
- رانا سعید دوشی
- تو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں
- دو قدم چاند مرے ساتھ جو چل پڑتا ہے
- تم کو تو صرف سیہ رات سے ڈر لگتا ہے
- کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر
- چلو تم کو ملاتا ہوں میں اس مہمان سے پہلے
- سپولے جو گیوں نے اس لیے کِیلے نہیں ہوں گے
- ہمیں دائم کہاں رہنا ہے چلے جانا ہے
- تو جو دیتا نہ آسرا مجھ کو
- دست و پا میں کہاں زنجیر کی گنجائش ہے
- خاموشی کا جنگل تھا تنہائی تھی
- نشانے پر نشانے پڑ رہے ہیں
- یوں بھی جینے کی نئی راہ نکالی میں نے
- جو روح آج بھی ظلمت نبرد میری ہے
- بلا جواز کہاں جان پر بنی ہوئی تھی
- کوزہ گر!خاک مری خواب کے خاکے سے گزار
- یہ آسمان مرا مستقل ٹھکانا ہے
- اوڑھ لی میں نے زمیں جسم کے اوپر میرے دوست
- تنِ بے جان میں اب جان کہاں سے آئے
- کاش اب کے بھی ملاقات میں مدت پڑ جائے
- ایک چنگاری کو جگنو کی چمک سمجھے تھے
- محبت کوئی چھوٹی چیز ہے کیا
- روشنی شب کے تضادات سے ہی بنتی ہے
- وہ اندر سے مقفل ہو گیا ہے
- پیڑ کے کٹنے سے آنگن تو کشادہ ہو گیا
- جھوم رہے ہیں سارے اپنی آنکھ میں لے کے خواب
- اک تاک شکاری کے نشانے کی طرح تھا
- مصیبت ہے مجھے ہر کام بیکاری بھی مشکل ہے
- یونہی بے فیض تجھے ہم نے پکارا، انصاف!
- کب گلہ کوئی کسی دست_حنائی سے کیا
- یہ زخم تجھ کو اگرچہ نڈھال کر دے گا
- کتنی بار مرا ہوں میں اک لمحے میں
- کوئی خوشی مہمان ذرا سی ہوتی ہے
- گلیوں میں بنجارے گردش کرتے ہیں
- خوف چپکے سے مری ذات میں در آیا تھا
- مجھے مشکل میں آسانی بہت ہے
- یہ کوئی خوف ہے تجھ پر کہ نشّہ طاری ہے
- سفر کِیا ہے، مگر کس طرف، نہیں معلوم
- تُو مجھ سے بات نہ کر اتنے سخت لہجے میں
- خوشبو! میں کیا مثال دُوں تیری مثال میں
- جس طرح تخمِ شجر زیرِ زمیں پھوٹتا ہے
- زباں کے ہوتے ہوئے بھی کہا نہیں جاتا
- عام لوگوں نے تجھے خاص بنا رکھا ہے
- قریب ہوتے ہوئے، فاصلے سے گھومتے ہیں
- سانحہ جان پر گزر گیا تھا
- ایک تعبیر کسی خواب میں رکھے ہوئے ہے
- اسے تم ٹھیک سے دیکھو یہ بالکل ٹھیک لکھا ہے
- ہوا میں آدمی اُڑنے لگے ہیں
- محبت غیر فانی شے
- یہ جو شفّاف سا اک عکس ابھی جھیل میں تھا
- چلو تم کو ملاتا ہوں میں اس مہمان سے پہلے
- کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
- Related
زمیں تخلیق کرنی ہے
حصہ دوم، غزلیات
رانا سعید دوشی
تو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں
بس تری مان کے میں کود پڑا پانی میں
یوں ہوئے تھے مرے اوسان خطا پانی میں
سانس لینا بھی مجھے بھول گیا پانی
اس قدر شور کی عادی نہ تھی آبی دنیا
جس قدر زور سے میں جا کے گرا پانی میں
جھیل پہ رات گئے تم یہ کسے ڈھونڈتے ہو
کیا تمہارا بھی کوئی ڈوب گیا پانی میں
اس کے لہجے میں پکارا ہے مجھے موجوں نے
تم کنارے پہ رہو، میں تو چلا پانی میں
جاں نکلتے ہی مرا جسم سرِ آب آیا
جب تلک سانس رہی، میں بھی رہا پانی میں
٭٭٭
دو قدم چاند مرے ساتھ جو چل پڑتا ہے
شہر کا شہر تعاقب میں نکل پڑتا ہے
میں سرِ آب جلاتا ہوں فقط ایک چراغ
دوسرا آپ ہی تالاب میں جل پڑتا ہے
پیاس جب توڑتی ہے سر پہ مصیبت کے پہاڑ
کوئی چشمہ میری آنکھوں سے ابل پڑتا ہے
بے خیالی میں اسی راہ پہ چل پڑتا ہوں ہوں
جانتا بھی ہوں کہ اس راہ میں تھل پڑتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تو دیکھ رہا ہے مڑ کر
جب ہواؤں سے کسی شاخ میں بل پڑتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے محبت کا تسلسل یکسر
‘آج’ کے بیچ میں جس وقت یہ ‘کل’ پڑتا ہے
درد بھی دیتا ہے دروازے پہ دستک دوشی
دل کی دھک دھک سے بھی خوابوں میں خلل پڑتا ہے
٭٭٭
تم کو تو صرف سیہ رات سے ڈر لگتا ہے
ایک میں ہوں جسے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
شہر میں جاتے ہوئے ڈرتا ہوں اب تک ایسے
جیسے ویرانے میں جنات سے ڈر لگتا ہے
سانس کی آنچ سے مجھ کو گلِ حکمت کر دے
کوزہ گر! اب مجھے برسات سے ڈر لگتا ہے
بات ادھوری ہو تو مفہوم بدل جاتے ہیں
تنگیِ وقتِ ملاقات سے ڈر لگتا ہے
میرا بیٹا بھی تو میری ہی طرح سوچتا ہے
اس کے پیچیدہ سوالات سے ڈر لگتا ہے
اپنے دشمن کی کسی چال سے کب ڈرتا ہوں
مجھ کو اندر کے فسادات سے ڈر لگتا ہے
گھر پہ منتر نہ کہیں پھونک دے جادو گرنی
زندگی! تیرے طلسمات سے ڈر لگتا ہے
قہر اب شہر پہ ہے ٹوٹنے والا دوشی
عرش پر جاتی شکایات سے ڈر لگتا ہے
٭٭٭
کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر
جیسے گزرے خاموشی سے وقت گزار سمندر
ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رہا ہو پہلی بار سمندر
آج نہ جانے دوں گا تجھ کو اپنی آنکھ سے باہر
دھاڑیں مار سمندر چاہے ٹھاٹھیں مار سمندر
صحرا پار کیا ہے میں نے کر کچھ سر کا صدقہ
مجھ پر وار سمندر کوئی ٹھنڈا ٹھار سمندر
جنم جنم کی پیاس بھری ہے میری اس مٹی میں
میرے ذرے ذرے کو ہے اب درکار سمندر
جتنی آسانی سے میں نے تجھ کو پار کیا ہے
کیا تو کر سکتا ہے ایسے مجھ کو پار سمندر
اک بحرِ مردار کی صورت اور اک بحر الکاہل
میرے ساتھ کہاں تک چلتے یہ بیمار سمندر
میں سیراب کروں صحراؤ! میری آنکھ میں آؤ
پیاس تمہاری ہے ہی کتنی بس دو چار سمندر
٭٭٭
چلو تم کو ملاتا ہوں میں اس مہمان سے پہلے
جو میرے جسم میں رہتا ہے میری جان سے پہلے
کوئی خاموش ہو جائے تو اس کی خامشی سے ڈر
سمندر چپ ہی رہتا ہے کسی طوفان سے پہلے
مجھے جی بھر کے اپنی موت کو تو دیکھ لینے دو
نکل جائے نہ میری جاں مرے ارمان سے پہلے
مری آنکھوں میں آبی موتیوں کا سلسلہ دیکھو
کہ سو تسبیح کرتا ہوں میں اک مسکان سے پہلے
پرانا یار ہوں دوشی مرا یہ فرض بنتا ہے
تجھے ہشیار کر دوں میں ترے نقصان سے پہلے
٭٭٭
سپولے جو گیوں نے اس لیے کِیلے نہیں ہوں گے
سمجھتے تھے کہ یہ حشرات زہریلے نہیں ہوں گے
جو چبھتے ہی نہ ہوں ان کو بھی کوئی خار کہتا ہے
اگر ہیں خار تو کیا خار نوکیلے نہیں ہوں گے
ہم ایسے لوگ جو پل پل غموں کا زہر پیتے ہیں
تو جانِ من ! ہمارے جسم کیا نیلے نہیں ہوں گے
مجھے سیراب کرنے کا ارادہ ملتوی کر دے
ترے دریا سے میرے ہونٹ بھی گیلے نہیں ہوں گے
یہ ریگستان کا طوفاں بڑا من زور ہوتا ہے
اگر تاخیر سے لوٹے تو یہ ٹیلے نہیں ہوں گے
٭٭٭
ہمیں دائم کہاں رہنا ہے چلے جانا ہے
جس پہ چلتے ہیں اسی خاک تلے جانا ہے
اک ذرا نزع کی تکلیف کا چکھنا ہے مزا
اک یہ خواہش کہ تجھے مل کے گلے جانا ہے
موت لے جائے گی مجھ کو جھپٹ کر تجھ سے
زندگی! تو نے فقط ہاتھ ملے جانا ہے
جانِ من! میں ہوں ترے صحن کا خود رُو پودا
وقت کے ساتھ ہی میں نے بھی پَلے جانا ہے
تمہیں جانا ہے تو یہ شمع بجھاتے جانا
رات بھر کس کے لیے اس نے جلے جانا ہے
٭٭٭
تو جو دیتا نہ آسرا مجھ کو
یہ جہاں مار ڈالتا مجھ کو
تیری آنکھوں میں چھپ گیا تھامیں
اور تو ڈھونڈتا رہا مجھ کو
آئنے مجھ سے خوف کھاتے ہیں
تو نے پتھر بنا دیا مجھ کو
تو نے مشہور کر دیا ورنہ
کوئی بھی جانتا نہ تھا مجھ کو
سانپ کاٹے تو نیند آتی ہے
کانٹا ہو گا رت جگا مجھ کو
میری مجبوریاں سمجھتا تھا
کچھ بھی کہنا نہیں پڑا مجھ کو
ٹھان لی ہے جو چھوڑ جانے کی
میرے گھر تک تو چھوڑ جا مجھ کو
٭٭٭
دست و پا میں کہاں زنجیر کی گنجائش ہے
کیا ابھی اور بھی تعزیر کی گنجائش ہے
جان بخشی کی ذرا سی بھی نہیں گنجائش
ہاں مگر تھوڑی سے تاخیر کی گنجائش ہے
عشق میرا بھی نہیں قیس ترے عشق سے کم
اس میں بس تھوڑی سی تشہیر کی گنجائش ہے
بات سیدھی ہے مجھے جینا نہیں تیرے بغیر
اور اب کون سی تفسیر کی گنجائش ہے
تو نہ طعنہ دے مجھے تنگ دلی کا اے دوست
میرے دل میں تیری تصویر کی گنجائش ہے
٭٭٭
خاموشی کا جنگل تھا تنہائی تھی
میں نے اپنی بستی دور بسائی تھی
کانوں نے آواز کے بالے پہنے تھے
سنّاٹوں نے ایسی دھوم مچائی تھی
برف رتوں میں بے حس ہو کر مر جاتا
خود کو آگ لگا کر جان بچائی تھی
اپنی دنیا آپ بنائی ہے میں نے
تیرے آگے دنیا بنی بنائی تھی
تم کیا سمجھے خود کو بیچ رہا ہوں میں
یہ تو ویسے ہی قیمت لگوائی تھی
٭٭٭
نشانے پر نشانے پڑ رہے ہیں
مجھے پنچھی بچانے پڑ رہے ہیں
تجھے بس ایک دریا پاٹنا تھا
مری رہ میں زمانے پڑ رہے ہیں
زمانے سے میں اُڑتا آ رہا ہوں
مرے یہ پَر پُرانے پڑ رہے ہیں
مجھے قسمت پہ رونا آ رہا ہے
مگر آنسو چھپانے پڑ رہے ہیں
زمانے ! میں تو پھولوں میں پلا تھا
مگر پتھر اٹھانے پڑ رہے ہیں
میں شاعر سے مداری ہو گیا ہوں
مجھے کرتب دکھانے پڑ رہے ہیں
٭٭٭
یوں بھی جینے کی نئی راہ نکالی میں نے
آپ دیوارِ انا خود پہ گرا لی میں نے
بعض احباب تو سچ مچ کا گدا گر سمجھے
اپنی حالت ہی فقیروں کی بنا لی میں نے
کچھ نہ بن پایا تو کشکول میں خود کو ڈالا
خالی جانے نہ دیا گھر سے سوالی میں نے
اب کوئی درد اذیت نہیں دیتا مجھ کو
جتنی تکلیف اٹھانی تھی اٹھا لی میں نے
٭٭٭
جو روح آج بھی ظلمت نبرد میری ہے
اس کے خوف سے رنگت بھی زرد میری ہے
جو خاک برد ہوئی خاک، وہ بھی میری تھی
جو سوئے عرش اڑی وہ بھی گرد میری ہے
فرار کے لیے کافی نہیں ہے کیا یہ جواز
طویل تر میرے جرموں سے فرد میری ہے
یہ فرد فرد فسانے نجانے کس کے ہیں
یہ داستان جو ہے درد درد میری ہے
یہ سرد مہری کسی کی ہے یا کہ برف کی سِل
اسی کے زیرِ اثر آہ سرد میری ہے
یہ خاک چاک پہ جس کی چڑھی ہے، وہ ہے تو
جو اڑ رہی ترے گِرد گَرد میری ہے
کسی کے چاک کے چکر سے بچتا پھرتا ہوں
کہ خاک آج بھی صحرا نورد میری ہے
کسی بھی قول کی بابت کہاں نصیب تجھے
جو آبرو پسِ پیمانِ مرد میری ہے
٭٭٭
بلا جواز کہاں جان پر بنی ہوئی تھی
مری تو پہلی محبت بھی آخری ہوئی تھی
مرا تو عشق وہاں داؤ پر لگایا ہوا تھا
یہاں ہر ایک کو ایمان کی پڑی ہوئی تھی
میں وار آیا ہوں مجنوں کے نقشِ پا پہ اسے
جو آبرو مجھے اسلاف سے ملی ہوئی تھی
گریز عشق سے آخر میں کب تلک کرتا
یہ عاشقی میری تقدیر میں لکھی ہوئی تھی
میں جان دینے چلا ایسے اعتماد کے ساتھ
کہ جیسے عشق میں پہلے بھی جان دی ہوئی تھی
ذرا سی دیر مسیحائی کو رُکا تھا کوئی
ذرا سے دیر ذرا درد میں کمی ہوئی تھی
ذرا سے ہم بھی تعلق میں وضع دار سے تھے
کچھ آشنائی بھی ان سے نئی نئی ہوئی تھی
فلک پہ یونہی تو سورج نکل نہیں آیا
ستارے جاں سے گئے تھے تو روشنی ہوئی تھی
٭٭٭
کوزہ گر!خاک مری خواب کے خاکے سے گزار
کربِ تخلیق!مجھے سوئی کے نالے سے گزار
ہستئ جاں سے گزر جائے مرا پختہ ظروف
فرش پر پھینک اسے اور چھناکے سے گزار
ساحلِ خشک، نمیدہ ہو کبھی بحرِ کرم!
خود گزر یا اسے لہروں کے چھپاکے سے گزار
حدتِ عشق میں پگھلا دے مرے سارے فراز
مجھ کو اس بار کسی خاص علاقے سے گزار
سنگ پاٹوں کی یہ چاکی مجھے کیا پِیسے گی
تو مجھے ارض و سماوات کے چاکے سے گزار
خالِ بنگال ترا جادو چلے گا لیکن
تو مجھے پہلے کسی آنکھ کے ڈھاکے سے گزار
کیوں تکلف میں گنواتا ہے جوانی کا یہ عہد
یہ دھنک دور کم از کم تو جھپاکے سے گزار
٭٭٭
یہ آسمان مرا مستقل ٹھکانا ہے
مگر زمیں پہ بھی صدیوں سے آنا جانا ہے
میں پچھلی بار یہاں قیس بن کے آیا تھا
نجانے اب کے محبت نے کیا بنانا ہے
اے وضع دار کسی روز بے تکلف ہو
کہ ایک خوابِ برہنہ تجھے سنانا ہے
میں جاتی بار تجھے یہ بتا کے جاؤں گا
مرا زمانہ کوئی اور ہی زمانہ ہے
یہ لوگ مجھ سے ترا بار بار پوچھتے ہیں
مجھے بتا تو سہی انہیں کیا بتانا ہے
٭٭٭
اوڑھ لی میں نے زمیں جسم کے اوپر میرے دوست
اور کرتا بھی میں کیا تجھ سے بچھڑ کر میرے دوست
ایک صحرا ہے مری آنکھ سے باہر میری جان
اک سمندر تھا مری ذات کے اندر میرے دوست
تو بس اک بار میرے پیار کی حامی بھر لے
جو بھی ہو آگے مرا اپنا مقدر میرے دوست
میرے سورج نہ مروت میں میرا سایہ بڑھا
اس کو رہنے دے مرے قد کے برابر میرے دوست
دل میں ہوتی نہ اگر تیری تمنا تو بتا
کس لیے ڈھونڈتا پھرتا تجھے در در تجھے دوست
٭٭٭
تنِ بے جان میں اب جان کہاں سے آئے
اس کھنڈر میں کوئی مہمان کہاں سے آئے
شعرسا حسنِ توازن ہے ترے پیکر میں
تُو غزل ہے ترا عنوان کہاں سے آئے
رابطہ دل سے معطل تھا مری سوچوں کا
پھر مری آنکھ میں طوفان کہاں سے آئے
عشق شعلوں کا سفر، عشق ضرر کا سودا
مرحلے عشق کے آسان کہاں سے آئے
دشتِ پرہول میں اب کوئی جناور بھی نہیں
اس کڑے وقت میں انسان کہاں سے آئے
شہرِ عفریت زدہ! میں تجھے دھونی دیتا
مسئلہ یہ ہے کہ لوبان کہاں سے آئے
٭٭٭
کاش اب کے بھی ملاقات میں مدت پڑ جائے
یوں مجھے تجھ سے گدا رہنے کی عادت پڑ جائے
دامن ایسا بھی کہاں ہے مرا براق سفید
اب اگر اس پہ کوئی داغِ محبت پڑ جائے
اپنا اسباب ہی ہجرت میں اٹھانا ہے محال
اس پہ احباب کا بھی بارِ امانت پڑ جائے
لشکرِ جرم تو کام اپنا کرے بے تعطیل
آئے دن دفترِ انصاف میں رخصت پڑ جائے
بس یہی سوچ کے دشمن سے رعایت برتی
شاید ایسے ہی محبت کی روایت پڑ جائے
٭٭٭
ایک چنگاری کو جگنو کی چمک سمجھے تھے
وہ تو پاتال تھا ہم جس کو فلک سمجھے تھے
ہم نے صحرا میں سفر اتنا کیا ہی کب تھا
دشت کے تپتے سرابوں کو سڑک سمجھے تھے
زیست کے اور بھی پہلو ہیں یہ معلوم نہ تھا
ہم تو دینا کو فقط پیار تلک سمجھے تھے
کم نصیبی تھی کہ وہ غیر کا لشکر نکلا
ہم جسے آپ کی جانب سے کمک سمجھے تھے
اس کی دانائی کی ہر بات پہ خاموش رہا
ہم ہی پاگل تھے رویے میں لچک سمجھے تھے
٭٭٭
محبت کوئی چھوٹی چیز ہے کیا
کوئی اس سے بڑی بھی چیز ہے کیا
خسارہ اور محبت میں خسارہ
یہ کوئی کاروباری چیز ہے کیا
فقیری تو نہیں جو تجھ کو دے دوں
خدائی بانٹنے کی چیز ہے کیا
یہاں سارا جہان سمٹا پڑا ہے
مری آنکھوں کی پتلی چیز ہے کیا
پرائی سانس، جیون دان اس کا
بدن میں پھر تمہاری چیز ہے کیا
٭٭٭
روشنی شب کے تضادات سے ہی بنتی ہے
جیت وہ چیز ہے جو مات سے ہی بنتی ہے
وقعتِ عقل کمالات سے بنتی ہو گی
وسعتِ قلب تو جذبات سے ہی بنتی ہے
شہرِ دل سیکھ لے شریانوں کی عزت کرنا
شہر کی شان مضافات سے ہی بنتی ہے
لمس ایسا ہے کہ پوروں سے بھی سُر بولتے ہیں
نغمگی جیسے ترے بات سے ہی بنتی ہے
تو نے بھی کچھ تو کہا ہو گا یقیناً دوشی
بات بہتان کسی بات سے ہی بنتی ہے
٭٭٭
وہ اندر سے مقفل ہو گیا ہے
مکاں جیسے مکمل ہو گیا ہے
یہ جس کے قہقہے تم سن رہے ہو
کسی صدمے سے پاگل ہو گیا ہے
کسی کے دشت پر ہنستا تھا میں بھی
مرا بھی شہر جنگل ہو گیا ہے
دھواں سا تھا برونِ چشم لیکن
درونِ چشم بادل ہو گیا ہے
چلو! اشکوں کے دریا کام آئے
ترا صحرا تو جل تھل ہو گیا ہے
٭٭٭
پیڑ کے کٹنے سے آنگن تو کشادہ ہو گیا
دکھ پرندوں کا مگر حد سے زیادہ ہو گیا
کھِنچ گئی دیوار گھر میں آدھا آدھا ہو گیا
درمیاں جیسے ہمالہ ایستادہ ہو گیا
اے ٹپکتی چھت میں تجھ پر اور مٹی ڈالتا
پر ترا شہتیر ہی بھر کر برادہ ہو گیا
اس برس عریانیت پر احتجاج ایسے ہوا
ہر شجر آندھی کے آگے بے لبادہ ہو گیا
٭٭٭
جھوم رہے ہیں سارے اپنی آنکھ میں لے کے خواب
بول کہاں پر رکھے ہیں میرے حصے کے خواب
دھوکہ دے کے لے گیا آنکھیں بینائی کے ساتھ
میرے پاس بچے تھے باقی بس لے دے کے خواب
روز خیالوں میں آتی ہے ان دیکھی تصویر
میرے خواب ہیں ایسے جیسے نابینے کے خواب
سنی سنائی باتوں سے بنتی ہے یوں تصویر
بیگانی آنکھوں میں جیسے ہوں مانگے کے خواب
لے گیا چھین کے ہاتھ سے بچہ نابینے کی آنکھ
کس لاٹھی سے دیکھے گا وہ اب چلنے کے خواب
میرے جیسا چہرہ اس کا میرے جیسی آنکھ
شاید میرے جیسے ہوں میرے جیسے کے خواب
روٹی روٹی کرتا بچّہ جاگا کچی نیند
کس چولہے پر پکتے ہوں گے اس بچّے کے خواب
خواب ہوئی ہے اب تو دوشی ہر مومی تعبیر
پتھرائی آنکھوں میں ٹوٹے ہیں شیشے کے خواب
٭٭٭
اک تاک شکاری کے نشانے کی طرح تھا
وہ شخص بھی لگتا ہے زمانے کی طرح تھا
سینے پہ یوں ہی سانپ نہیں لوٹ رہے تھے
اک راز مرے دل میں خزانے کی طرح تھا
نشہ سا کوئی لمس کا اترا تھا بدن میں
وہ لمس ترے ہاتھ ملانے کی طرح تھا
جس غم کے سبب سارے زمانے سے خفا ہوں
وہ غم جو ترے چھوڑ کے جانے کی طرح تھا
وہ بار تھا سر پہ کہ زمیں کانپ رہی تھی
وہ بار جو احسان اٹھانے کی طرح تھا
٭٭٭
مصیبت ہے مجھے ہر کام بیکاری بھی مشکل ہے
بہت دشوار خوش رہنا، عزاداری بھی مشکل ہے
میں کیسے چاہنے والوں کے دل کو ٹھیس پہنچاؤں
کہ مجھ سے تو حریفوں کی دل آزاری بھی مشکل ہے
محبت، وہ بھی دشمن دیش کی اس غیر مذہب سے
دلِ کافر! تری تو اب طرفداری بھی مشکل ہے
بہت آسان سمجھے تھے ہم اس کارِ محبت کو
محبت کی تو میری جان اداکاری بھی مشکل ہے
ہم ایسوں کو مسالک کے مسائل میں نہ الجھاؤ
ہم ایسوں سے تو مذہب کی رواداری بھی مشکل ہے
ہم اتنی دیر میں دشتِ جنوں سے ہو کے لوٹ آئے
خرد مندوں سے اتنے میں تو تیاری بھی مشکل ہے
٭٭٭
یونہی بے فیض تجھے ہم نے پکارا، انصاف!
خود جو مجرم ہو کرے کیسے گوارا انصاف
موم کی ناک بنا رکھا ہے تم نے قانون
جس طرف موڑ لو، مڑ جائے بچارا انصاف
آیا جنگل سے کوئی بوزنہ میزان بدست
دونوں پلڑوں سے ہڑپ کر گیا سارا انصاف
جرم _ توہین _ عدالت کی لٹکتی تلوار!
تھر تھراتا ہے ترے خوف کا مارا، انصاف
ہار کے خوف میں جس شخص کو تھی صلح عزیز
جیت امکان میں آتے ہی پکارا، انصاف۔
جان پر کھیل کے پہنچا ہوں شہادت کے لیے
اب بھی "تاخیر” پہ الجھو تو تمہارا انصاف
اپنے بچوں سے کہیں بڑھ کے تجھے وقت دیا
شاعری! کیسا رہا تجھ سے ہمارا انصاف
٭٭٭
کب گلہ کوئی کسی دست_حنائی سے کیا
ایک شکوہ تھا خدا سے جو خدائی سے کیا
سب سپہ گر تھے کوئی قیس نہ تھا پرکھوں میں
عشق آغاز بھی ہم نے تو لڑائی سے کیا
ایک صحرا تھا کہ سیراب مجھے کرنا پڑا
آنکھ میں اشک نہ تھے آبلہ پائی سے کیا
خود سے بھی ہم نے چھپائی ہے ترے عشق کی بات
بس یہی جرم تھا جو ہم نے صفائی سے کیا
اک محبت کا ہی اظہار نہیں ہم سے ہوا
ورنہ ہر کام یہاں ہم نے ڈھٹائی سے کیا
اب مجھے تجھ پہ نہیں، خود پہ ہنسی آتی ہے
کیوں تبابل کسی کہسار کا رائی سے کیا
ناخنوں کے لیے طعنہ تو یقیناً ہو گا
اجتناب اب بھی اگر عقدہ کشائی سے کیا
٭٭٭
یہ زخم تجھ کو اگرچہ نڈھال کر دے گا
مگر نظامِ تنفس بحال کر دے گا
یہ نامراد مرض ایسا جان لیوا ہے
دوا کرو گے تو جینا محال کر دے گا
کسی بھی شخص سے پوچھو گے عشق کا مطلب
ہر ایک اپنے معانی نکال کر دے گا
میں تیرے ظرف سے واقف ہوں تو سمندر ہے
تو ایک سیپ تلک بھی اُچھال کر دے گا
میں آدمی ترے امروز و دوش کا ہوں مجھے
تسلی کیا کوئی فردا پہ ٹال کر دے گا
مرا تو ہوش بھی دوشی جنون جیسا ہے
کوئی کہاں مجھے شمعیں اُجال کر دے گا
٭٭٭
کتنی بار مرا ہوں میں اک لمحے میں
سارا بیت چکا ہوں میں اک لمحے میں
اک لمحے میں کتنی صدیاں ہوتی ہیں
کتنا جی سکتا ہوں میں اک لمحے میں
اک لمحے سے کتنا مجھے نکالا تھا
کتنا اور بچا ہوں اک لمحے میں
وقت کی قیمت آج مجھے معلوم ہوئی
خود کو بیچ رہا ہوں میں اک لمحے میں
واپس آنے میں صدیاں لگ جائیں گی
اتنی دُور گیا ہوں میں اک لمحے میں
٭٭٭
کوئی خوشی مہمان ذرا سی ہوتی ہے
لَب پہ تب مسکان ذرا سی ہوتی ہے
بستا کب ہے کوئی تعجب آنکھوں میں
بس پتلی حیران ذرا سی ہوتی ہے
پھر سے آ جاتا ہے آدم خور کوئی
بستی جب گنجان ذرا سی ہوتی ہے
شاعر لوگ تو چڑیوں جیسے ہوتے ہیں
دل چھوٹا سا جان ذرا سی ہوتی ہے
پیار کا پردہ آ جاتا ہے آنکھوں پر
جب تیری پہچان ذرا سی ہوتی ہے
٭٭٭
گلیوں میں بنجارے گردش کرتے ہیں
ہم بختوں کے مارے گردش کرتے ہیں
تیری آنکھ کا ایک اشارہ ہوتا ہے
ہم سارے کے سارے گردش کرتے ہیں
چلتا ہوں تو چاند بھی پیچھے آتا ہے
میرے گِرد ستارے گردش کرتے ہیں
یا تو بیچ بھنور یہ کشتی گھومی ہے
یا پھر آج کنارے گردش کرتے ہیں
میں بھی ایک مکمل دُنیا ہوں دوشی
مجھ میں بھی سیّارے گردش کرتے ہیں
٭٭٭
خوف چپکے سے مری ذات میں در آیا تھا
شام سے قبل میں اس واسطے گھر آیا تھا
کم ضروری تھے کئی کام ادھورے چھوڑے
جو ضروری تھے زیادہ وہ میں کر آیا تھا
چاند کی سمت اُڑا پھر نہیں آیا پنچھی
اس کا افلاک سے ٹوٹا ہوا پَر آیا تھا
اس قدر شوق سفر کا مجھے کب تھا دوشی
خود مرے پاؤں تلے چل کے سفر آیا تھا
٭٭٭
مجھے مشکل میں آسانی بہت ہے
کہ میری آنکھ میں پانی بہت ہے
پھرو تم قیس بن کر جنگلوں میں
مجھے تو گھر کی ویرانی بہت ہے
فلک سے بھی تہی دست آ رہا ہوں
زمیں کی خاک بھی چھانی بہت ہے
کسی کے کام آنے سے رہا میں
مجھے اپنی پریشانی بہت ہے
میں پانی پانی ہوتا جا رہا ہوں
مجھے اتنی پشیمانی بہت ہے
٭٭٭
یہ کوئی خوف ہے تجھ پر کہ نشّہ طاری ہے
سکوتِ شب! تِری آواز کتنی بھاری ہے
حساب دینا پڑا ایسے لمحے لمحے کا
کہ جیسے زیست کسی اور کی گزاری ہے
فلک ضرور کوئی چال چل رہا ہو گا
بساطِ شب کے ستاروں میں بے قراری ہے
کسی خزانۂ دُنیا سے کیا غرض ہم کو
متاعِ جاں یہی لفظوں کی ریزگاری ہے
یہ میرا جسم نہیں جس کو روک لے گا تُو
یہ آسماں کی طرف رُوح کی اڈاری ہے
٭٭٭
سفر کِیا ہے، مگر کس طرف، نہیں معلوم
کسی بھی تیر کو اپنا ہدف نہیں معلوم
میں جنگ لڑنے چلا ہوں مگر مرا لشکر
بکھر گیا ہے، کہ ہے، صف بہ صف نہیں معلوم
زباں کے ساتھ ساعت بھی یرغمال ہوئی
یہ سسکیوں کی صدا ہے کہ دف، نہیں معلوم
دھرا ہوا ہوں زمانے کے طاقِ نسیاں پر
میں کانچ ہوں کہ ہوں دُرِّ نجف نہیں معلوم
اُٹھا لیا ہے سمندر کی تہہ سے میں نے مگر
صدف ہے یا ہے یہ کوئی خذف نہیں معلوم
٭٭٭
تُو مجھ سے بات نہ کر اتنے سخت لہجے میں
میں خود مثال ہوں اپنی کرخت لہجے میں
ابھی تلک مرے لہجے میں خاکساری ہے
ابھی میں لایا نہیں تاج و تخت لہجے میں
ابھی ابھی تو ترا لہجہ دھوپ ایسا تھا
کہاں سے اُگ پڑے اتنے درخت لہجے میں
دیے کو بھی میں پکاروں تو ٹمٹما کے بجھے
وہ تیرگی ہے مرے تیرہ بخت لہجے میں
شکستہ لہجے میں کس نے مجھے پکارا ہے
میں لخت لخت ہوا لخت لخت لہجے میں
٭٭٭
خوشبو! میں کیا مثال دُوں تیری مثال میں
تشبیہ قید ہے ابھی نافِ غزال میں
فی الحال کچھ نہ ڈال تُو جامِ سفال میں
درویش آ نہ جائے کہیں اشتعال میں
اتنی وسیع کب ہے تمہاری یہ سلطنت
جتنا بڑا سوال ہے دستِ سوال میں
سالار! کون جنگ لڑے گا عدو کے ساتھ
لشکر لگے ہوئے ہیں تری دیکھ بھال میں
کیوں اپنے گِرد خوف کا ریشم بُنا کیے
خود کو اسیر کر لیا اپنے ہی جال میں
شاید اسی طرح تری تنہائی کٹ سکے
تُو آئینہ ہی ڈھونڈ لے قحط الرّجال میں
دل اُس کے نام کر تو دیا اپنے طور پر
اب جانے کتنا وقت لگے انتقال میں
فی الحال زیرِ غور ہے اپنا معاملہ
آئی نہیں اراضیِ دِل اشتمال میں
٭٭٭
جس طرح تخمِ شجر زیرِ زمیں پھوٹتا ہے
عشق انسان کے اندر سے کہیں پھوٹتا ہے
راہِ ہموار میں کچھ خار دبے لگتے ہیں
آبلہ پاؤں کا ہر بار یہیں پھوٹتا ہے
صبحِ کاذب سے بھی امکان کے در کھلتے ہیں
صبحِ صادق کی طرح دل میں یقیں پھوٹتا ہے
میں قلم پیار سے قرطاس پہ رکھ دیتا ہوں
روشنائی سے خیال اپنے تئیں پھوٹتا ہے
ایڑیاں کوئی ترے دشت میں کب تک رگڑے
اب تو اس ریت سے چشمہ بھی نہیں پھوٹتا ہے
٭٭٭
زباں کے ہوتے ہوئے بھی کہا نہیں جاتا
وہ اَن کہا جو کسی سے سنا نہیں جاتا
یہ روز روز مجھے کون توڑ جاتا ہے
کہ روز روز تو مجھ سے بَنا نہیں جاتا
یہی بہت ہے کہ اشکوں کو روک رکھا ہے
ہنسی کی بات پہ بھی اب ہنسا نہیں جاتا
بنا رہا ہے ہدف مجھ کو ایسا تیر انداز
کہ جس کا کوئی نشانہ خطا نہیں جاتا
یقین آئے نہ آئے مری وفا کا تجھے
مزید مجھ سے ذرا بھی جھکا نہیں جاتا
وہاں مجھے یہ جنوں ساتھ لے کے جاتا ہے
جہاں کہیں سے کوئی راستا نہیں جاتا
صدف نکال سمندر سے، پھر صدف سے مجھے
اب اور دیر مقیّد رہا نہیں جاتا
٭٭٭
عام لوگوں نے تجھے خاص بنا رکھا ہے
کانچ کے ٹکڑے کو الماس بنا رکھا ہے
کیا کبھی ختم نہیں ہو گی یہ گردش میری
کیوں مجھے آپ نے کمپاس بنا رکھا ہے
باندھ کر ناچتا پھرتا ہوں سفر کے گھنگرو
وقت کی تال نے رقّاص بنا رکھا ہے
تازیانوں سے نشاں پڑتے ہیں آڑے ترچھے
کیوں مری پشت کو قرطاس بنا رکھا ہے
بات افلاک پہ بھی ہو تو میں سُن لیتا ہوں
اس قدر کانوں کو حسّاس بنا رکھا ہے
جانے کس آن بصارت کا خدا بن بیٹھے
یہ جو اک بت سا مرے پاس بَنا رکھا ہے
٭٭٭
قریب ہوتے ہوئے، فاصلے سے گھومتے ہیں
یہ راستے بھی عجب زاویے سے گھومتے ہیں
مجھے اُڑا کے نہ جانے کہاں پہ لے جائیں
جو اِرد گرد مرے دائرے سے گھومتے ہیں
کبھی کبھی جو میں پنجوں پہ گھوم جاتا ہوں
تو سب نظارے مرے گھومنے سے گھومتے ہیں
کوئی بھی عکس مرے ذہن پر نہیں رُکتا
مری نظر میں فقط آئنے سے گھومتے ہیں
یہ کس گمان کی گردش میں آ گیا ہوں میں
مرے ہر ایک طرف واہمے سے گھومتے ہیں
انہیں دیوں سے ذرا سا بھی ڈر نہیں لگتا
گھروں میں سائے بڑے حوصلے سے گھومتے ہیں
کوئی ہمارا بھی رشتہ ہے دشت سے دوشی
یہاں پہ ہم بھی کسی واسطے سے گھومتے ہیں
٭٭٭
سانحہ جان پر گزر گیا تھا
تُو مجھے چھوڑ کر کدھر گیا تھا
دل مرا اتنی زور سے دھڑکا
اس کے دھڑکے سے میں تو ڈر گیا تھا
وہ تو سینہ چٹان تھا میرا
ورنہ یہ وار کام کر گیا تھا
چاندنی ہو گئی تھی گدلی سی
چاند تالاب میں اُتر گیا تھا
تیرے اُس خواب کا تسلسل ہوں
جو کہیں ٹوٹ کر بکھر گیا تھا
مصلحت نے اسے بچایا ہے
ورنہ شانے سے اس کا سر گیا تھا
گھِر گیا تھا تمہاری یادوں میں
میں بڑی دیر بعد گھر گیا تھا
٭٭٭
ایک تعبیر کسی خواب میں رکھے ہوئے ہے
میرا ساحل مجھے گرداب میں رکھے ہوئے ہے
میں تو آیا تھا یہاں دشت نوردی کرنے
تُو مجھے منبر و محراب میں رکھے ہوئے ہے
سرخرو ہونے تلک میں نہیں جانے والا
ایک تہمت مجھے احباب میں رکھے ہوئے ہے
میرا اثبات تری نفّی بھی کر سکتا تھا
بے سبب تُو مجھے اسباب میں رکھے ہوئے ہے
پھاڑ دے آج سے ہر ایک تعلق کا ورق
ویسے بھی تُو مجھے کس باب میں رکھے ہوئے ہے
٭٭٭
اسے تم ٹھیک سے دیکھو یہ بالکل ٹھیک لکھا ہے
مگر تھوڑی سی خامی ہے ذرا باریک لکھا ہے
مٹا کر کوئی بھی اس کو اُجالا لکھ نہیں پایا
یہ کیسی روشنائی سے شبِ تاریک لکھا ہے
قلم کر دے مرا دستِ ہنر میں تجھ سے بد ظن ہوں
تیقّن کاٹ کر میں نے یہاں تشکیک لکھا ہے
اگر توقیر لکھو گے تو ہم توقیر پڑھ لیں گے
سو، ہم تضحیک پڑھتے ہیں اگر تضحیک لکھا ہے
گداگر ہو کے بھی مجھ کو صدا کاری نہیں آئی
بنا کر اوک ان ہاتھوں کو میں نے ’’بھیک‘‘ لکھا ہے
اکیلے شخص کی مرضی مسلط ہو گئی دوشی
مؤرخ نے کسی کے حکم کو تحریک لکھا ہے
٭٭٭
ہوا میں آدمی اُڑنے لگے ہیں
پرندے اس لیے سہمے ہوئے ہیں
زمیں پر پاؤں جلتے ہیں ہمارے
سَروں پر دھوپ کے سائے کھڑے ہیں
سٹرک شاید کشادہ ہو رہی ہے
شجر بے موت مارے جا رہے ہیں
میں جنگل میں اکیلا رہ گیا ہوں
مجھے یہ رابطے مہنگے پڑے ہیں
اندھیرا آسماں کو کھا گیا ہے
ستارے ٹوٹ کر بکھرے ہوئے ہیں
سمندر ساحلوں سے لڑ رہا ہے
سفینے ہچکیوں سے رو رہے ہیں
مجھے یہ کس جزیرے پر اُتارا
یہاں تو خوف کے خیمے گڑے ہیں
کبھی ہم سانس لے کر سوچتے تھے
مگر اب سانس لیتے سوچتے ہیں
اُٹھا مجھ کو بھی گودی میں زمانے
مرے پیروں میں بھی چھالے پڑے ہیں
٭٭٭
محبت غیر فانی شے
یہ کوئی آسمانی شے
نہیں دھڑکا خسارے کا
منافع بے معانی شے
خداؤں کو تسلی دو
خدائی آنی جانی شے
خصوصاً آپ کا وعدہ
عموماً منہ زبانی شے
نئے انداز میں بوئی
زمینوں میں پرانی شے
٭٭٭
یہ جو شفّاف سا اک عکس ابھی جھیل میں تھا
کوئی چہرہ تھا مگر چاند کی تمثیل میں تھا
بات کیا تھی یہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں
ہاں، ترا ذکر بھی تھا اور بڑی تفصیل میں تھا
اس لئے بھی اُسے پہچاننے میں دیر لگی
وقت کا رخنہ کسی شکل کی تشکیل میں تھا
کوئی پیغام تھا آنکھوں میں سو، آنکھوں میں رہا
مسئلہ اصل تو پیغام کی ترسیل میں تھا
اس نئے نسخے میں تحریف ہوئی ہے ورنہ
ذکر میرا بھی کہیں پیار کی انجیل میں تھا
میں کوئی قیس نہ تھا پھر بھی مجھے سنگ پڑے
ہاں ترا نام مرے جسم کے ہر نیل میں
٭٭٭
چلو تم کو ملاتا ہوں میں اس مہمان سے پہلے
جو میرے جسم میں رہتا تھا میری جان سے پہلے
کوئی خاموش ہو جائے تو اس کی خامشی سے ڈر
سمندر چپ ہی رہتا ہے کسی طوفان سے پہلے
مجھے جی بھر کے اپنی موت کو تو دیکھ لینے دو
نکل جائے نہ میری جاں مرے ارمان سے پہلے
مری آنکھوں میں آبی موتیوں کا سلسلہ دیکھو
کہ سو تسبیح کرتا ہوں میں اک مسکان سے پہلے
پرانا یار ہوں دوشی مرا یہ فرض بنتا ہے
تجھے ہشیار کر دُوں میں ترے نقصان سے پہلے
٭٭٭
کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس! مروت میں مارا جاؤں گا
میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا
میں ورغلایا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا
مرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہو گا
میں دوستوں کی حراست میں مارا جاؤں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
حصص میں بانٹ رہے ہیں مجھے مِرے احباب
میں کاروبارِ شراکت میں مارا جاؤں گا
مجھے بتایا ہوا ہے مری چھٹی حس نے
میں اپنے عہدِ خلافت میں مارا جاؤں گا
بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا
نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبت میں مارا جاؤں گا
٭٭٭
کمپوزنگ: نورالحسن جوئیہ
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید