FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

(حصہ اول)

[مایا نگری کا وہ بطل جلیل جو کبھی شفیق سرپرست بن جاتا تھا تو کبھی سفاک زرپرست]

               ڈاکٹر سلیم خان

 

۱

کھڑکی کے پاس میز پر پڑا کاغذ کا پرزہ خالی گلاس کے نیچے ہوا کے جھونکوں سے پھڑپھڑا رہا تھا۔ روزینہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے دیکھ لیا اور بے ساختہ قریب آ کر لپک لیا۔ اس پر لکھا تھا ۔۔۔

’’میں جا رہا ہوں !!!

میں کیوں جا رہا ہوں یہ میں نہیں جانتا؟اور کہاں جا رہا ہوں یہ بھی نہیں جانتا؟ میں کب آؤں گا، یہ مجھے نہیں پتہ؟ اور آؤں گا بھی یا نہیں، یہ بھی نہیں پتہ؟ میں شرمندہ ہوں روزینہ۔۔۔ اپنے آپ پر۔۔۔ نادم و شرمندہ۔‘‘

جوزف گلاسکوف

روزینہ کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’میں جانتی ہوں، میں سب کچھ جانتی ہوں، جھوٹا کہیں کا!‘‘

روزینہ نے کاغذ کے چار ٹکڑے کر کے اُسے کوڑے دان میں پھینک دیا اور خود کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر باہر کے مناظر دیکھنے لگی۔ دور ائلپس کی پہاڑیوں پر برف باری کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ یہ لاکھوں ٹن برف آخر آتی کہاں سے ہے اور کیوں آتی ہے؟ نیز یہ بھی کہ کب تک یوں ہی بلاوجہ آتی رہے گی؟ اور کب اچانک یہ سلسلہ بند ہو جائے گا؟ یہ سب اسے نہیں پتہ تھا لیکن اس کے خاوند جوزف نے جو سوالات اُٹھائے اور جن سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، ان سب سوالات کے جوابات کا روزینہ کو علم تھا اور شاید جوزف بھی اُن سے واقف تھا۔ روزینہ کو یقین تھا کہ اب جوزف واپس نہیں آئے گا، اب وہ کبھی بھی نہیں لوٹے گا۔

روزینہ اس واردات پر نہ خوش تھی اور نہ ناراض۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کا اسے رتّی برابر بھی افسوس نہیں تھا۔ جوزف کا زندگی سے نکل جانا اُس کی توقع کے عین مطابق تھا، اس لئے اس سانحہ پر اُسے رنج و ملال تو درکنار، حیرت تک نہیں تھی۔ اسے تو تعجب اس بات پر ہوا تھا کہ سب کچھ جانتے بوجھتے جوزف نے اس کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور بہت دُور تک نہ سہی تو کم از کم کچھ دُور تک تو اُس کے ساتھ ہو لیا تھا۔ روزینہ کے لئے یہ نعمتِ غیر مرتقبہ ہی غنیمت تھی۔ یقیناً یہ اس کی زندگی کا سب سے خوشگوار مرحلہ تھا، لیکن وہ جانتی تھی کہ جلد یا بہ دیر اس کا انجام یہی ہو گا۔ اسی لئے وہ مضمحل نہیں بلکہ مطمئن تھی۔

جوزف کی ملاقات سے قبل اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ وہ اسی طرح گزار چکی تھی اور اسے یقین تھا کہ باقی ماندہ حصہ بھی کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائے گا، لیکن وہ سوچ رہی تھی کہ جوزف کے ساتھ گزری ہوئی زندگی کے حسین لمحات کس قدر مختصر تھے۔ گویا کہ زندگی کو پَر لگ گئے تھے۔ وہ اُس کے ساتھ نہ جانے کب اور کیسے ہواؤں اور فضاؤں میں پہنچ گئی تھی۔ اِس دوران پہلی مرتبہ اُس نے ائلپس کی پہاڑیوں کو آسمان کی بلندیوں سے دیکھا تھا۔ اُوپر سے یہ پہاڑ ننھے منّے روئی کے گالوں کی مانند نظر آتے تھے، لیکن آج پھر یہ پہاڑ سربلند ہو گئے تھے۔ انہیں دیکھنے کے لئے روزینہ کو سر اُوپر کی جانب اُٹھانا پڑ رہا تھا۔ وہ پہاڑ کی چوٹیوں کو دیکھ رہی تھی۔ مسلسل ہونے والی برف باری نے پہاڑیوں کی بلندی میں کس قدر اضافہ کر دیا تھا۔ اسے اندیشہ ہوا کہ مبادا اب کی بار یہ بلند قامت برف کی چوٹی آسمان کو چھو لے گی، سورج کو ٹھنڈا کر دے گی۔ روزینہ کو یاد آیا۔۔۔ ایک مرتبہ کسی شام جب اس نے جوزف کے ساتھ سورج کو پہاڑوں کے پیچھے برف میں پگھلتے ہوئے دیکھ کر گھبرا کر پوچھا تھا کہ۔۔۔ ’’جوزف، وہ دیکھو کیا ہو رہا ہے؟ سورج کو سردی لگ رہی ہے۔ وہ ڈوب رہا ہے۔ اب کیا ہو گا؟ جب سورج بجھ جائے گا تو ساری کائنات اندھیرے کی نذر ہو جائے گی۔ ظلمت و تاریکی کا دَور دورہ ہو جائے گا۔‘‘

روزینہ کا سوال سن کر جوزف مسکرایا۔ اس نے روزینہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ ’’نہیں روزینہ، ایسا کبھی نہیں ہو گا۔‘‘

جوزف کے ہاتھ کی گرمی اس کے بیان کی تصدیق کر رہی تھی، پھر بھی روزینہ نے پوچھا۔ ’’کیوں جوزف۔۔۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ ایسا کیوں نہیں ہو گا؟ مجھے بتاؤ جوزف کیوں ؟‘‘

جوزف میرے اس طرح مچل جانے پر حیرت زدہ تھا۔ وہ بولا۔ ’’روزینہ تمہارے ان سوالات کا جواب ایک طویل داستان میں ہے جو میری دادی امی نے بچپن میں مجھے سنائی تھی۔ وہ کہانی جو میں نے کئی قسطوں میں سنی تھی۔ میں اسے سنتے سنتے سو جاتا تھا، لیکن جب دوسرے روز وہ مجھے سلانے کے لئے میرے بستر کے قریب آتیں تو مجھے پھر سب یاد آ جاتا اور وہ آگے کی داستان سنانے لگتیں۔ اسی طرح مجھے سلاتے سلاتے، کہانیاں سناتے سناتے وہ خود  نہ جانے کب ابدی نیند کی آغوش میں پہنچ گئیں اور نہ جانے کہاں کھو گئیں۔‘‘

’’میں جانتی ہوں جوزف کہ تمہاری دادی امی کہاں کھو گئیں۔‘‘ روزینہ نے کہا۔ ’’لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ وہ سورج کی کون سی کہانی تھی جو وہ تمہیں سنایا کرتی تھیں ؟ مجھے وہ کہانی سناؤ۔‘‘

جوزف نے آسمان کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ ’’روزینہ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

روزینہ نے جواب دیا۔ ’’دِن رُخصت ہو رہا ہے اور رات نمودار ہو رہی ہے۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’دن اور رات یعنی امروز اور سندھیا کا صدیوں سے معمول تھا کہ وہ چند لمحوں کے لئے ایک دوسرے سے ملتے اور پھر سے ملنے کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے۔۔۔ گویا بچھڑ جاتے۔ وصال و ہجر کا یہ سفرِ ناتمام نہ جانے کب سے جاری و ساری تھا۔

ایک روز الوداع کہتے ہوئے دن شام سے بولا۔ ’’سندھیا! ملنے بچھڑنے کا یہ سلسلہ آخر کب تک یونہی چلتا رہے گا؟‘‘

سندھیا شرما کر بولی۔ ’’میں نہیں جانتی امروز؟ میں سچ مچ نہیں جانتی۔‘‘

امروز نے بات آگے بڑھائی۔ ’’لیکن کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے؟‘‘

سندھیا ایک لمحہ کے لئے اس سوال پر ٹھٹک کر رہ گئی اور پھر اپنے آپ کو سنبھال کر بولی۔ ’’میرا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔‘‘

امروز نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیسا جواب ہے بھلا، جو بیک وقت ہاں بھی ہے اور نا بھی۔ ان کا باہمی رشتہ تو لیل و نہار کا سا ہے جو کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ایک آتا ہے تو دوسرا اپنے آپ کھسک جاتا ہے۔‘‘

سندھیا بولی۔ ’’آپ بہت دُور نکل گئے اور اپنا سوال بھی بھول گئے۔‘‘

’’اچھا؟‘‘

’’آپ نے ملنے بچھڑنے کی بابت پوچھا تھا اور اس سلسلے میں میری عرض یہ ہے کہ مجھے ملنا ضرور اچھا لگتا ہے لیکن بچھڑنا۔۔۔۔۔۔‘‘ سندھیا کی سانس تیز ہو گئی۔ الفاظ اس کی پلکوں سے آنسو بن کر گرے اور زمین میں جذب ہو گئے۔

امروز کے لئے اِن آنسوؤں میں پیغامِ مسرت پوشیدہ تھا۔ اس کا حوصلہ بڑھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’سندھیا کیوں نا کچھ ایسا کیا جائے کہ ’ہاں اور نا‘ بدل کر ’ہاں جی ہاں ‘ ہو جائیں ؟‘‘

سندھیا نے حیرت سے کہا۔ ’’کیا ایسا بھی ممکن ہے؟ یہ تو ناممکن ہے ؟ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے؟ میں نہیں جانتی۔میں سچ مچ نہیں جانتی۔‘‘

’’میں جانتا ہوں۔‘‘ امروز بولا۔ ’’کیوں نہ ایسا کریں کہ ہم نکاح کر لیں ؟ پھر وصال ہی وصال ہو گا۔ شبِ فراق کا نام و نشان مٹ جائے گا۔‘‘

سندھیا نے اپنے دوپٹے میں انگلی کو لپیٹ لیا اور پیر کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ امروز نے گھبرا کر سوال کیا۔ ’’میری یہ تجویز تمہیں ناگوار تو نہیں گزری؟ اگر ایسا ہے تو۔۔۔‘‘

سندھیا کے چہرے کی سرخی شفق بن کر نیلے آسمان پر پھیل گئی تھی۔ ایک بار پھر شبنم کی پاکیزہ بوندیں سندھیا کے نینوں میں نمودار ہوئیں، جنھیں ہوا نے زمین پر گرنے سے قبل اُچک لیا اور لا کر امروز کی پیشانی پر سجا دیا۔ رات بھیگ رہی تھی۔ دُور گگن میں چاند اِس حسین منظر کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

امروز کے بار بار اصرار پر بھی جب سندھیا چپی سادھے رہی تو قمر میاں سے رہا نہ گیا۔ وہ بولے۔ ’’ائے نہارِ احمق کیا تجھے نہیں پتہ کہ ان معاملات میں خاموشی منظوری کے مترادف ہے۔‘‘

امروز کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس کو عالمِ غیب سے ایک پشت پناہ جو مل گیا تھا۔ وہ چہک کر بولا۔ ’’اگر ایسا ہے تو چاند ماموں آپ ہمارا تعاون فرمائیں۔ ہم آپ کے ممنون و مشکور ہوں گے۔‘‘

’’اس میں شکریہ کی کیا بات ہے؟‘‘ چاند نے کہا۔ ’’یہ تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ مریخ اور مشتری کو گواہ کے طور پر بلوا لیتا ہوں اور عطارد کو وکیل بنا دیتے ہیں۔ آسمان پر پھیلے ہوئے یہ بے شمار سیارے اور ستارے تمہارے باراتی ہیں اور شہنشاہ شمس فی الحال وہ کہیں اور مصروفِ عمل ہیں، اس لئے ٹیلیفون پر دور سے ہی ان کے آشیرواد کا بھی اہتمام کروا دیتے ہیں۔ کیوں ۔۔۔ کیا خیال ہے؟‘‘

’’نیک بلکہ بہت نیک خیال ہے۔‘‘ امروز کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔

زہرہ نے آگے بڑھ کر سندھیا کو اپنے سینے سے لگایا اور اسے سجانے سنوارنے، دلہن بنانے اور نہ جانے کس کہکشاں میں اپنے ساتھ لے گئی۔ جب وہ واپس لوٹی تو محفلِ نکاح تیار تھی۔ چاند ماموں نکاح کا خطبہ پڑھنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ رسمِ ایجاب و قبول نے دیکھتے دیکھتے دو جانوں کو ایک قالب بنا دیا تھا۔ امروز سندھیا کے آنچل میں چھپ کر سو گیا۔ صدیوں کا سفر منٹوں میں طے ہو گیا اور اب سندھیا کی گود میں سحر کھیل رہی تھی۔ صبح انگڑائی لے رہی تھی۔ امروز نے کہا۔ ’’سندھیا مجھے سحر کی خاطر سفر پر نکلنا ہو گا۔ گردشِ ایام ہی ہمارا مقدر ہے۔ میں جلد ہی لوٹ آؤں گا۔ تم شام ڈھلے تک اس ننھی سی جان کا خیال رکھنا اور اپنا بھی۔‘‘

سندھیا نے با دلِ ناخواستہ امروز کو الوداع کہا۔ سورج کی تمازت سے دن روشن ہو گیا اور امروز لمحات کی تسبیح تھامے شام کی جانب رواں دواں ہو گیا۔ فراق کی گھڑیاں ٹک ٹک کر کے دم توڑتی رہیں، یہاں تک کہ وہ دوبارہ اپنی سندھیا کے دل پر دستک دے رہا تھا۔ اب امروز کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ روزانہ صبح سویرے سحر کے سر پر ہاتھ رکھتا، اسے ایک پیار کا بوسہ دیتا اور اپنے سفر پر نکل پڑتا۔ پاس میں کھڑی سندھیا اس دلکش منظر میں کچھ ایسے کھو جاتی کہ اسے احساس ہی نہ ہوتا کہ امروز اس سے دور کہیں دور جا چکا ہے۔ لیکن جب دن ڈھلنے لگتا، رات کا اندھیرا آسمانِ گیتی پر چھانے لگتا، شام جگمگا اُٹھتی تو وہ سحر کو کھلا پلا کر سلا دیتی اور ساری شب اپنے امروز کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے ’’امروز میں یہاں ہوں میرے سرتاج! میں یہاں ہوں ! یہاں ہوں، یہاں ہوں، یہاں ‘‘ کی صدا پر امروز دیوانہ وار لپکتا رہتا۔ یہاں تک کہ ننھی سحر نیند سے سیراب ہو کر بیدار ہو جاتی اور امروز اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اپنے دائمی سفر پر روانہ ہو جاتا۔ لیل و نہار کی گردش کا لامتناہی سلسلہ اس طرح جاری و ساری تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا پیچھا کر رہے تھے لیکن جب کبھی ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو چھونے کے قریب ہوتا، شام یا سحر ان کے درمیان حائل ہو جاتی۔

گرمیوں کا زمانہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا سورج نصف النہار پر ٹھہر گیا ہے۔ دن کا وقفہ اپنے طویل ترین مراحل میں تھا۔ خدا خدا کر کے امروز کی مسافت ختم ہوئی اور تھکے ماندے امروز نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے جواب ندارد تھا۔ چونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا، اس لئے حیران پریشان امروز کی خاطر یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ ورنہ اکثر تو یہ ہوتا تھا کہ اس کی آہٹ سے بام و در کھل جایا کرتے تھے، دستک دینے کی نوبت ہی نہ آتی تھی۔ جب دستک کی سگبگاہٹ بے کار ہو گئی تو اس نے دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا۔ لیکن اس کوشش میں بھی کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی تو وہ تھک کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ ’’سحر اب بڑی ہو گئی ہے، سندھیا کو بہت زیادہ تھکانے لگی ہے۔ اسی باعث آنکھ لگ گئی ہو گی۔ جب دماغ ٹھنڈا ہو گیا تو امروز کو خیال آیا کہ وہ بلاوجہ پریشان ہو رہا ہے۔ گھر کی ایک چابی تو اس کے پاس  موجود ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک اسے کبھی استعمال کرنے کا موقع نہ آیا تھا، اس لئے وہ موجود ہونے کے باوجود غائب سی ہو گئی تھی۔ اس نے پشیمان ہو کر جیب سے کنجی نکالی اور گھر کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہاں چہار جانب خاموشی کا دور دورہ ہے۔ گہری قبرستان کی سی خاموشی نے اس کے گھر اور اہل خانہ کو نگل لیا ہے۔ سندھیا نیند کی گہرائیوں میں تیر رہی ہے اور سحر اس کی آغوش میں سمٹی ہوئی ہے۔ امروز دبے پاؤں کمرے میں داخل ہو گیا اور چپ چاپ منہ ہاتھ دھوکر لباس تبدیل کیا اور اندھیرے کی چادر تان کر خود بھی نیند کی آغوش میں کھو گیا۔

اُس روز سحر کی ہلچل سے جب سندھیا کی آنکھ کھلی تو اس نے امروز کو اپنے پاس سویا ہوا پایا۔ وہ اپنی غفلت پر بے حد نادم تھی۔ وقت کا اندازہ کرنے کی غرض سے اس نے کھڑکی سے باہر ہاتھ نکالا تو شبنم کی بوندیں اس پر چمکنے لگیں۔ سندھیا نے آخری پہر کی تازگی سے امروز کا چہرہ روشن کر دیا۔ امروز ہوشیار ہو گیا۔ دونوں نے پیار سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ سندھیا کی گود میں سحر کھیل رہی تھی۔ امروز نے اسے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا لیا، اس کا ماتھا چوما۔ وہ ’’ابو۔۔۔ ابو‘‘ کہہ کر تالی بجانے لگی۔ امروز کی ساری خفگی اور ناراضگی ہوا ہو گئی۔ اس نے مسکرا کر پھر ایک بار سندھیا کی جانب دیکھا اور ہاتھ ہلا کر اپنے روزانہ کے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ سندھیا کا معمول اب یہ تھا کہ ہر روز سحر کو سب سے پہلے نہلا دھلا کر تیار کرتی۔ اسے صاف ستھرے کپڑے پہناتی اور کھلا پلا کر اس کے ساتھ کھیلنے لگتی۔ ایک عرصے تک تو سندھیا کے لئے سحر ایک گڑیا کی مانند تھی اور سندھیا خود سحر کا ایک کھلونا تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دن بھر کھیلتے رہتے، ایک دوجے میں مگن رہتے۔

 سحر جب کچھ اور بڑی ہو گئی تو اس نے کھلونوں کا مطالبہ کیا اور امروز اس کے لئے بے شمار کھلونے لے آیا۔ لیکن اس کے باوجود اس کا سب سے بڑا اور سب سے چہیتا کھلونا اس کی ماں سندھیا ہی تھی۔ جب وہ اپنے کھلونوں سے بیزار ہو جاتی تو ماں سے کھیلنے لگتی اور جب اپنی ماں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے تھک جاتی تو کھلونوں سے دل بہلانے لگتی۔ وقت کے ساتھ سحر نے اپنی زندگی کا ایک اور مرحلہ طے کر لیا۔ اب وہ پڑھنے لکھنے لگی تھی۔ اس کے باوجود اسے کارٹون فلمیں بہت پسند تھیں۔ موگلی کی تو خیر وہ دیوانی تھی۔ اس کے علاوہ شیر، ہرن، خرگوش اور دیگر جنگلی جانور بھی اسے خوب بھاتے تھے۔ وہ اپنے ٹیلی ویژن کی مدد سے ہر روز جنگل کی سیر پر نکل جاتی تھی اور جب واپس ہوتی تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہوتا۔ سندھیا اسے کھانا کھلا کر سلا دیتی اور خود ٹیلی ویژن پر خاندانی ڈراموں سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہو جاتی۔

 

۲

وقت کے ساتھ امروز نے حالات سے مصالحت کر لی تھی۔ اسے سندھیا کو چوکھٹ پر اپنا انتظار کرتا ہوا دیکھ کر خوشی تو ہوتی ہی تھی مگر جب کبھی اسے دروازہ بند ملتا اور وہ از خود دروازہ کھول کر اندر آتا، نیز ماں بیٹی کو سوتا ہوا پاتا، تب بھی وہ رات کی کالی چادر اوڑھ کر راضی خوشی سو جاتا۔ لیکن ایک دن جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ سارا کمرہ ٹی۔وی کے اجالے سے روشن ہے۔ سندھیا گہری نیند میں سوئی ہوئی ہے اور سحر موگلی کے کارٹون میں کھوئی ہوئی ہے۔ ویسے تو امروز کو ان دونوں پر غصہ آیا لیکن نیند کی آغوش میں دبکی ہوئی سندھیا کی لاش پر غصہ اُتارنا بے سود تھا، اس لئے وہ سحر پر برس پڑا۔ ’’بیٹی۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اتنی رات گئے تم کارٹون دیکھنے میں مشغول ہو؟ سونا نہیں ہے کیا؟‘‘

سحر بولی۔ ’’ابو جی۔۔۔ آج تو غضب ہو گیا۔‘‘

’’کیا؟ کیسا غضب؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘

’’جی ہاں ابو جی! آج تو موگلی کا شیر سے جھگڑا ہو گیا؟‘‘

’’ہو گیا تو ہو گیا، کسی نہ کسی کی کسی نہ کسی سے لڑائی بھڑائی تو ہونی ہی ہے۔ ورنہ تم جیسے لوگ اس کے پیچھے اپنا وقت کیوں ضائع کرو گے؟‘‘ امروز نے بیزاری سے کہا۔

’’نہیں ابو، ایسی بات نہیں ہے۔ جنگل کے جانور تو آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے تھے، لیکن موگلی اور شیر کے درمیان لڑائی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔‘‘

’’ارے بھائی تو اس میں کیا خاص بات ہے۔ صلح اور جنگ کے معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ آج جنگ ہوئی ہے تو کل صلح ہو جائے گی۔ دیکھو، ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔ تم ایسا کرو کہ اپنی امی کی طرح فوراً سوجاؤ۔‘‘

سحر بولی۔ ’’ابو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص بات ہے۔ اس سے پہلے جنگل کے دوسرے جانوروں کی آپس میں لڑائی ہوتی تھی تو شیر یا موگلی کو اپنا ثالث بناتے اور ان سے آپسی تنازعات کا تصفیہ کرواتے تھے۔ اکثر تو یہ ہوتا کہ ایک فریق کا حکم موگلی اور دوسرے کا شیر ہوتا تھا۔ گویا یہ دونوں مل کر لوگوں کے جھگڑے کو چکا دیتے۔

’’ہاں ہاں ۔۔۔ تو گویا دونوں مخالف فریق کے ساتھ ہوتے اور اب بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات ہے؟ میں ان تماشوں کو خوب جانتا ہوں۔‘‘

’’جی نہیں ابو! آپ نہیں جانتے۔ یہ مخالفین کے ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دشمن نہیں، بلکہ دوست ہوا کرتے تھے۔ جب ان میں سے کسی ایک کی جنگل کے کسی دوسرے جانور سے لڑائی ہو جاتی تو یہ دونوں اس کا متحد ہو کر مقابلہ کیا کرتے تھے۔ لیکن آج تو ان دونوں کے درمیان ہی ٹھن گئی۔ میں ۔۔۔ میں اس جنگ کا انجام دیکھے بغیر نہیں سو سکتی۔ مجھے ہرگز نیند نہیں آئے گی۔‘‘

امروز کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے لپک کر ریموٹ سحر کے ہاتھ سے چھین لیا اور ٹیلی ویژن کو بند کر دیا۔ سارے کمرے کو اندھیرے نے نگل لیا۔ لیکن امروز کے کانوں سے معصوم سحر کی ہچکیوں کی آوازیں ٹکرا رہی تھیں۔ امروز اور سحر دونوں جاگ رہے تھے۔ امروز اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ وہ آج پہلی مرتبہ سحر پر اس قدر برسا تھا۔ اسے اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ اس کا احساسِ جرم چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اسے چاہئے تھا کہ ننھی سی جان کو سمجھا کر سلا دیتا۔ لیکن اب تو تیر کمان سے نکل کر خود اس کے سینے میں پیوست ہو چکا تھا۔ خون کا دریا اپنا بند توڑ کر بہہ نکلا تھا اور وہ ان فصلوں کو روند رہا تھا جنھیں کبھی خود اس نے سیراب کیا تھا۔

امروز کی آنکھیں بند ہوئیں اور خواب کا پردہ روشن ہو گیا۔ اس بار ریموٹ کنٹرول ننھی سحر کے ہاتھوں میں تھا۔ امروز اپنے بچپن کو دیکھ رہا تھا۔ امی اسے لوری سنا رہی تھیں لیکن وہ کھیل میں غلطاں کبھی ادھر دوڑ پڑتا تو کبھی ادھر لپک جاتا۔ بالآخر اس کی امی کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور اس نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’سوئے گا یا روئے گا؟‘‘

یہ سن کر ننھا سا امروز دہاڑیں مار مارکر رونے لگا۔ ماں اس نئی صورتحال سے مزید پریشان ہو گئی اور اسے خاموش کرنے کی غرض سے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ پھر کیا تھا۔۔۔ امروز نے چیخ چیخ کر سارے گھر کو سر پر اُٹھا لیا۔

دوسرے کمرے میں بیٹھی دادی امی ہانپتی کانپتی دوڑی ہوئی آئیں اور بولیں۔ ’’بہو بیگم بچے مارنے پیٹنے سے سوتے نہیں روتے ہیں۔‘‘

’’سو تو میں دیکھ ہی رہی ہوں امی جان! میں اسے لوری سناتے سناتے تھک گئی، لیکن یہ ہے کہ کھیلنے سے نہیں تھکتا۔‘‘

’’اوہو!‘‘ دادی امی بولیں۔ ’’دیکھو، اب یہ بڑا ہو گیا ہے۔ اب یہ لوری سن کر نہیں سوئے گا۔‘‘

’’پھر اسے سلانے کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟‘‘ امی نے سوال کیا۔

’’ہاں ۔۔۔ اب اسے سونے کے لئے کہانی درکار ہے۔‘‘

کہانی کا نام سن کر امروز اپنی دادی کی جانب لپکا اور رونا بھول کر کہنے لگا۔ ’’دادی اماں دادی اماں ۔۔۔ مجھے کہانی سنائیے۔۔۔ جنگل کی کہانی۔۔۔ شیر کی کہانی۔۔۔ جانوروں اور پریوں کی کہانی۔۔۔ بھوت کی اور موگلی کی کہانی۔۔۔ موگلی۔۔۔ ارے یہ موگلی کہاں سے آ گیا۔ موگلی تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔‘‘ امروز کے خواب میں سحر کی حقیقت سرائیت کر گئی تھی۔

امروز اپنی دادی کے آنچل میں لپٹ کر سو چکا تھا لیکن سحر کی آنکھوں میں نیند کا دُور دُور تک اتہ پتہ نہیں تھا۔ گھپ اندھیرے کے اندر غرقاب سحر سوچ رہی تھی۔۔۔ ’’اب کیا ہو گا؟ کیا موگلی شیر کو مار دے گا؟ لیکن شیر؟ شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے۔ کیا وہ مر جائے گا؟ اور اگر وہ مر جاتا ہے تو جنگل کا امن و امان غارت ہو جائے گا اور چہار جانب انارکی پھیل جائے گی۔ قتل و غارت گری کا دور دورہ ہو جائے گا۔ سارے جانور بے خوف ہو کر اپنی من مانی کرنے لگیں گے۔ ایک دوسرے سے لڑیں گے، خونریزیاں کریں گے، کوئی ان میں صلح صفائی کرنے والا نہ ہو گا۔ تو ایسے جنگل میں موگلی کیسے رہ سکے گا جہاں امن و سلامتی نہ ہو اور ہر وقت جان کا کھٹکا لگا رہتا ہو؟ ایسے میں کیا موگلی جنگل سے نکل کر بستی میں آنے کے لئے مجبور ہو جائے گا؟‘‘

یہ ایک عجیب و غریب سوال ننھی سحر کے ذہن میں آیا تھا۔ اس نے موگلی کو حقیقی انسان سمجھ لیا تھا اور اس کے بارے میں بے حد فکرمند ہو گئی تھی۔ اس نے سوچا، ’’اپنے جنگل کے دوستوں کے بغیر موگلی کا دل انسانوں کے درمیان کیسے لگے گا؟ اور دوسرے لوگ جنگل سے لوٹ کر آنے والے انسان کو کیوں کر اپنائیں گے۔ وہ اس پر کبھی بھی اعتماد نہ کریں گے۔ اس کو اپنا دشمن سمجھیں گے۔ اس کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اختیار کریں گے۔ جنگل کی آزاد فضاؤں میں رہنے والا موگلی شہر میں گھٹ گھٹ کر مر جائے گا۔ موگلی کا انجام شیر سے بھی بُرا ہو گا۔‘‘ سحر کو موگلی سے بڑی ہمدردی تھی۔ وہ موگلی کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن اس اندھیرے کمرے میں، جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا اور نہ موگلی نظر آتا تھا، وہ اس کی مدد کیسے کر سکتی تھی؟

سحر کو اپنے ابو پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ دوبارہ ٹیلی ویژن چلا دے اور آگے کے مناظر دیکھے۔ لیکن امروز کے ہاتھوں میں سے ریموٹ واپس لینے کی ہمت وہ نہیں جٹا پا رہی تھی۔ اس کے دل میں ایک اور خیال آیا۔۔۔ ’’کیوں نہ امی کو جگا کر ان سے سفارش کروائی جائے؟‘‘ لیکن پھر اُس نے سوچا، جس طرح جنگل کے جانور شیر سے خوف کھاتے ہیں، اُسی طرح اس گھر کے باشندے۔۔۔ سحر اور سندھیا۔۔۔ دونوں ابوجی سے ڈرتے ہیں اور ہر معاملے میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے موگلی اور شیر کی طرح آج اس میں اور ابو میں ان بن ہو گئی تھی۔ سحر نے محسوس کیا، وہ بھی کسی جنگل میں ہے۔ اس کے ابو شیر کی مانند اس جنگل کے بادشاہ ہیں اور اس کے ابو اس گھر میں سبھی کو اسی طرح لگتے ہیں جیسے شیر، جو خوفناک ہونے کے باوجود جنگل کے سبھی جانوروں کے من کو بھاتا ہے۔ اس نے سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو اسے لومڑی خالہ کی بات یاد آئی جس نے ایک مرتبہ موگلی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ’’دیکھو موگلی! تم سب کے چہیتے ہو، لیکن شیر سے سنبھل کر رہنا۔ اس لئے کہ وہ جنگل کا راجہ ہے۔ اگر تم نے کسی اور سے پنگا لے لیا تو بہت سارے جانور تمہاری حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے اور شیر تمہاری مدد کو آئے گا، لیکن اگر تمہاری شیر سے لڑائی ہو جائے تو تم بے یار و مددگار ہو جاؤ گے۔ کیا سمجھے؟‘‘

موگلی نے سوال کیا۔ ’’لیکن اگر میں حق پر ہوں اور شیر کا موقف ناحق ہو، تب بھی میرے ساتھ کوئی نہیں آئے گا؟ تم بھی نہیں ؟‘‘

لومڑی بولی۔ ’’جی ہاں موگلی! نہ میں نہ کوئی اور۔۔۔ کوئی بھی نہیں ؟ تم تنہا ہو جاؤ گے۔‘‘

’’کیوں ؟ اس کی وجہ؟‘‘ موگلی بھی سحر کی مانند ضدی تھا۔

لومڑی کے لئے اس سوال کا صحیح جواب دینا ایک بڑی آزمائش کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ وہ جانتی تھی موگلی میں بچپنا ہے۔ اگر اس نے کہیں اس کا جواب نادانستگی میں بھی شیر کو بتلا دیا تو وہ بے موت ماری جائے گی۔ لیکن موگلی اگر کسی بات کے پیچھے پڑ جاتا تھا تو مانتا کب تھا؟ اس نے بات بناتے ہوئے کہا۔ ’’وہ ایسا ہے کہ شیر جنگل کے سارے جانوروں کو اچھا جو لگتا ہے۔ ہر بادشاہ اپنی رعایا کو اچھا لگتا ہے، اس لئے وہ اس سے بغاوت تو درکنار، اختلاف کی جرأت بھی نہیں کرتے۔‘‘

سحر سوچ رہی تھی لیکن لومڑی کا اندازہ غلط کیسے ہو گیا؟ موگلی نے شیر سے پنگا کیوں کر لے لیا؟ اس سوال کا جواب اس کے ننھے سے ذہن نے فوراً دے دیا۔ موگلی! موگلی جنگل میں رہتا ضرور تھا، اس کے باوجود وہ دوسرے جانوروں کی مانند شیر کی رعایا میں شامل نہیں تھا۔ اس کی حیثیت تمام جانوروں سے مختلف تھی۔ اسی لئے وہ چڈی پہن کر آزادی کے ساتھ کبھی پیڑوں پر اُچھلتا کودتا تھا تو کبھی پانی میں چھلانگ لگا کر تیرتا پھرتا تھا۔ موگلی کو اپنی امتیازی حیثیت کا احساس تھا۔ اسی لئے اس نے دوسرے جانوروں کے علی الرغم جو طاقت اور ڈیل ڈول میں اس سے افضل تھے، بغاوت کی جرأت کر دی تھی اور شیر کے اقتدار کو للکار دیا تھا۔ سحر نے سوچا، ’’کاش کہ وہ بھی موگلی ہوتی؟؟‘‘

جب سحر نے اپنے آپ کا تقابل موگلی سے کیا تو اسے لگا کہ شاید وہ غلطی پر ہے؟ وہ اس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ شیر جنگل کا سرپرست ہے۔ جنگل میں جو حفظ و امان اسے حاصل ہے، وہ صرف اور صرف شیر کی سرپرستی کے سبب ہے۔ سحر سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنے لگی کہ شاید موگلی کا شیر کے خلاف اعلانِ جنگ درست قدم نہیں ہے؟ اب سحر اندیشوں کا شکار ہونے لگی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس جنگ کا انجام کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ اور ممکن ہے کہ شیر موگلی پر غالب آ جائے اور اسے ہلاک کر دے۔ اس خیال نے سحر کے جسم میں جھرجھری پیدا کر دی۔ وہ موگلی کے لئے فکر مند ہو گئی۔ موگلی! موگلی جو اس کا ہیرو ہے، وہ کیسے مر سکتا ہے؟ وہ نہیں مر سکتا! وہ کبھی نہیں مر سکتا؟ موگلی مر نہیں سکتا! اس لئے کہ وہ ہیرو ہے ہیرو۔ ہیرو۔۔۔ ہیرو۔۔۔ سحر چیخ رہی تھی اور قریب ہی اس کے والدین موت کی نیند سو رہے تھے۔

اس روز جب دور پہاڑوں کی اوٹ سے سورج کندھے اُچکانے کی کوشش کر رہا تھا، سحر نیند کی گہری وادی میں قدم رکھ رہی تھی۔ سندھیا کی نیند بہر حال پوری ہو چکی تھی۔ اس نے آسمان کو روشنی کا سرمہ لگاتے دیکھا تو قریب میں پڑے امروز کو جھنجھوڑنے لگی۔ امروز فوراً اُٹھ بیٹھا۔ سب سے پہلے اس کی نظر ننھی سحر پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ اپنی کشتی نما کرسی میں آنکھیں کھولے بے حس و حرکت بیٹھی ہے۔ یہ نہایت خوفناک منظر تھا۔ سندھیا اور امروز نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

سندھیا نے گھبرا کر کہا۔ ’’ہماری بٹیا کو دیکھو۔۔۔ اسے یہ کیا ہو گیا؟ یہ نہ کچھ بولتی ہے اور نہ ہی سنتی ہے۔ یہ خلاؤں میں نہ جانے کیا دیکھ رہی ہے؟‘‘

امروز کو رات کی بات یاد آ گئی، وہ بولا۔ ’’گھبراؤ نہیں۔ یہ سو رہی ہے۔ اسے سونے دو میری جان۔۔۔ اسے نہ جگاؤ!‘‘

’’کیا؟ سورہی ہے؟ یہ تو بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

’’تو کیا ہوا! سونے کے لئے لیٹنا ضروری تو نہیں ؟ میں ہر روز دیکھتا ہوں، لوگ ممبئی کی لوکل گاڑی میں بھیڑ بھاڑ کے اندر کھڑے کھڑے سو جاتے ہیں۔‘‘

’’شاید آپ نے اس کی آنکھوں کو غور سے نہیں دیکھا؟ ان ٹکْر ٹکْر گھورتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بھی کوئی سو سکتا ہے؟‘‘

’’کیوں نہیں ! جب انسان اپنے کان اور منہ کو کھلا رکھ کر سو سکتا ہے، تو آنکھوں کو کیوں نہیں ؟ اور اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ تم اس حقیقت کی فی الحال چشم دید گواہ ہو۔ اس کے باوجود تمہیں اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں ؟‘‘

سندھیا بولی۔ ’’آپ کی منطق تو صحیح ہے لیکن پھر بھی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ انسان سوتے میں آنکھیں بند کر کے خواب تو دیکھ سکتا ہے، لیکن آنکھیں کھلی رکھ کر سب کچھ دیکھتے ہوئے سوئے۔۔۔ اس کا ادراک ذرا مشکل ہی ہے۔‘‘

’’مشکل اس لئے ہے کہ تم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنی کھلی آنکھوں کے باوجود دیکھ نہیں رہی ہے۔‘‘

’’کیوں ؟ کوئی آنکھیں بھی کھلی رکھے اور دیکھے بھی نہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

’’بے شک ممکن ہے۔۔۔ اگر انسان سو رہا ہو تو اس کی آنکھیں کھلی ہوں یا کان کھلے ہوں، وہ نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے۔‘‘

’’لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب ہے آپ کے پاس۔۔۔؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ کبھی کبھار انسان مر جاتا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ قوتِ بصارت سے محروم ہو جاتی ہیں، اس لئے دیکھ نہیں پاتیں۔‘‘

’’یہ تو آپ نے بڑی عجیب سی مثال دے دی، موت اور نیند میں بھلا کیا تقابل۔ ایک اگر آتی ہے تو جاتی نہیں، یہاں تک کہ ساتھ لے جائے لیکن نیند تو اگر آ جائے تو چلی جاتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر نیند آئے نہیں تو جائے کیسے؟‘‘

’’جی ہاں ! اس بنیادی فرق کے باوجود دونوں میں یکسانیت بھی  ہے۔ میں تو کہتا ہوں نیند موت کی چھوٹی بہن ہے۔ وہ بھی موت کی طرح اعضاء کے قوتِ احساس کوسلب کر دیتی ہے۔ اعضاء و جوارح موجود ہونے کے باوجود بے حس ہو جاتے ہیں، یہ نیند کا حصار ہے۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے؟ کیا اسے یوں ہی سونے کے لئے چھوڑ دیا جائے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا جسم بیٹھے بیٹھے اکڑ کر رہ جائے؟‘‘

’’تو ایسا کرو کہ اسے یوں ہی اٹھا کر آہستہ سے بستر پر لٹا دو، ورنہ اس کی آنکھ کھل جائے گی۔۔۔ میرا مطلب ہے نیند ٹوٹ جائے گی۔‘‘ امروز نے فوراً اپنی اصلاح آپ کر دی۔

سندھیا اور امروز نے مل کر آہستہ سے سحر کو اپنی جگہ سے اُٹھایا اور بستر پر سلا دیا۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ اس روز نیند کے گہرے بادل دیر گئے تک آسمان پر چھائے رہے اور رات کے  بطن سے اچانک دن نکل آیا، گویا صبح بیچ سے کہیں غائب ہو گئی تھی۔ عوام نے اسے ایک خلاف معمول واقعہ کے طور پر تسلیم کر لیا۔

 

۳

سندھیا کی اپنی کوئی ساس نہیں تھی، پھر بھی اس کو ٹی۔وی کے پردے پر ’’ساس بہو کی تو تو میں میں ‘‘ بہت اچھی لگتی تھی۔ کبھی کبھار جب اس کا دل اس سے اُوب جاتا تو وہ ریموٹ کنٹرول کی مدد سے دوسرے چینلس کی جانب نکل جاتی اور اپنا ذائقہ بدل کر پھر واپس اپنے پسندیدہ چینل پر لوٹ آتی۔ ایک دن اسی چکر میں وہ ایک انگریزی چینل پر پہنچ گئی جہاں فلم چل رہی تھی۔ عدالت کا منظر تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ مدعی اور مدعا الیہ دونوں خواتین تھیں۔ مقدمہ بڑے زور و شور سے لڑا جا رہا تھا۔ ہر دو جانب کے وکیل جوش و خروش کے ساتھ اپنے گواہ پیش کرتے تھے اور حریفِ مخالف کے گواہ کی دھجیاں اُڑا دیتے تھے۔ سندھیا نے اس چینل پر لنگر ڈال دیا اور ریموٹ کو ایک جانب رکھ کر فلم دیکھنے لگی۔

مقدمہ یوں تھا کہ ملزم خاتون کو نیند میں چلنے کی بیماری تھی۔ وہ نیند کی حالت میں نہ صرف خود چل پڑتی تھی بلکہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر اسے چلانے بھی لگتی تھی۔ یہ تمام کام نیند کی حالت میں ہوتے۔ اسے ذرّہ برابر بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ ایسے میں ڈینس نام کا ایک نوجوان گاڑی کی زد میں آ گیا اور اپنی جان گنوا بیٹھا۔ مقتول کی ماں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر کے اپنے بیٹے کے قاتل کی خاطر سزائے موت کا مطالبہ کر ڈالا۔ تمام تر شواہد مقتول کے حق میں تھے، اس کے باوجود ملزمہ کا وکیل اطباء کی مدد سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ اس کی مؤکل نیند میں چلنے یعنی ’’خواب گردی‘‘ نام کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اب وکیل کی دلیل یہ تھی کہ نیند کی حالت میں چونکہ انسان کا اس کے اعضاء اور جوارح پر اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ حالتِ نیند میں چونکہ اپنے اعضاء کی ان حرکات و سکنات پر اس کے مؤکل کا کوئی اختیار نہیں تھا، اس لئے اسے موردِ الزام ٹھہرانا انصاف کے منافی ہے۔ اس دلچسپ بحث میں فرد اور اس کے اعضا دو مختلف وجود بن کر سامنے آ رہے تھے۔ اس لئے جج صاحب نے وکیل سے استفسار کیا کہ اس کا مؤکل ان میں سے کون ہے؟

وکیل نے بتلایا کہ وہ فرد کی وکالت کر رہا ہے، اعضا کی نہیں۔

’’اور قتل کس نے کیا؟‘‘

’’اعضا نے ؟‘‘

’’لیکن یہ اعضا ء کس کے پاس ہیں۔ مثلاً اگر کوئی قاتل اپنی بندوق سے کسی کو ہلاک کر دے تو بندوق کو نہیں بلکہ اس کو چلانے والے کو سزا دی جائے گی۔ وکیل استغاثہ نے دلیل پیش کی۔

وکیل مدعی بولا۔ ’’جی ہاں، آپ کی دلیل بالکل درست ہے۔ قاتل چونکہ اپنی مرضی سے شعوری طور پر بندوق کا استعمال کرتا ہے، اس لئے وہ مجرم قرار پائے گا۔ لیکن اگر یہ عمل بے اختیاری طور پر وقوع پذیر ہو جائے تو صورتحال بدل جائے گی۔

لیکن انسان کو اگر دیگر اسلحہ کے استعمال پر سزا ہو سکتی ہے تو یہ اس کے اپنے اعضا ہیں۔ وکیل مخالف نے وضاحت طلب کی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کا اپنے اعضا کے اوپر سے اختیار ختم ہو جائے؟

’’کیوں نہیں جناب۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہماری یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ہمیں اپنے ہر عضو پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ ہمارے اعضاء کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک جن کو ہم اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں، مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ۔ لیکن بہت سارے ایسے اعضاء بھی ہیں جو اس کے تابع فرمان نہیں، مثلاً انسان نہ ہی اپنے دل کی دھڑکن پر کوئی اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے جگر کی کارکردگی پر اثر اَنداز ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ سب بھی حالتِ بیداری کی باتیں ہیں۔ نیند کی حالت میں اس کا اختیار تمام اعضا پر سے یکسر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ایسے میں ان کی کسی حرکت کے لئے فرد کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ میری مؤکل جو حادثے کے وقت ہوش کے عالم نہیں بلکہ نیند کی حالت میں تھی۔

اپنی پوزیشن کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ کر مقتول کی ماں خود اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی اور بولی۔ ’’جج صاحب! مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ میرے بیٹے کا قاتل کون ہے؟ میں تو یہ جانتی ہوں کہ میرے لختِ جگر کا ناحق قتل ہوا ہے اور جس کسی نے یہ قتل کیا اسے قرار واقعی سزا ہونی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی کسی کا لعل اس سے چھیننے کا خیال تک اپنے ذہن میں نہیں لائے اور کوئی قانونی منہ شگافی کسی کے کام نہ آئے۔ مطالبہ نہایت مضبوط اور خاصہ جذباتی تھا، لیکن ملزمہ کے وکیل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بولا۔ ’’جناب جج صاحب! چونکہ معاملہ زندگی اور موت کا ہے اس لئے اسے جذبات کی بنیاد پر سلجھانے کی کوشش مزید اُلجھا سکتی ہے۔‘‘

وہ نہایت اعتماد کے ساتھ بول رہا تھا۔ ’’انسانی زندگی اختیار و عمل کی آزادی کا دوسرا نام ہے۔ اس خودمختاری کا خاتمہ اُسے زندہ لاش میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ تبدیلی ابدی بھی ہوتی ہے اور وقتی بھی۔ ویسے ابدی نیند کے بعد بھی انسانوں کو ایک دن حساب کتاب کے لئے اُٹھایا یا جگایا جائے گا، یہ ایک دیگر بحث ہے۔ لیکن موت کے بعد کسی انسان کو کوئی سزا دینے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ میری مؤکل نیند کی حالت میں وقتی طور پر موت کا شکار ہو گئی تھی، جیساکہ ہم سب ہو جاتے ہیں۔ حالتِ مرگ میں اس کے اعضاء نے جو حرکت غیر شعوری طور پر کی، اس کی سزا زندگی کی حالت میں میرے مؤکل کو دینا سراسر ظلم ہے۔ بلا ارادہ قتل کا جواب بلا ارادہ قتل کیونکر ہو سکتا ہے؟ کیا یہ روحِ انصاف کے منافی نہیں ہے؟‘‘

’’اگر ایسا ہے تو قاتل کو نیند کی حالت میں سزا دی جائے۔‘‘ مقتول کی ماں نے عدالت سے گہار لگائی۔

لیکن عدالت کا مسئلہ یہ تھا کہ سزا کے لئے پھانسی کے پھندے پر لے جانے کا عمل نیند کی حالت کو ہوش مندی

میں تبدیل کر دیتا تھا، اور جس کے باعث سزا خود بخود ساقط ہو جاتی تھی۔

جج صاحب نے اس شش و پنج میں مقتول کی ماں سے پوچھا کہ اگر وہ کوئی صورت پیش کرتی ہے، جس کے ذریعہ ملزم کو اسی حالت میں، جس میں اُس سے جرم سرزد ہوا ہے، سزا دی جا سکے تو عدالت کو اسے نافذ کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔

چند لمحات کے لئے عدالت میں خاموشی چھا گئی۔ اس کے بعد مقتول کی ماں اپنی جگہ سے اُٹھی اور بولی۔ ’’میری رائے یہ ہے اس قتالہ کو نیند کی حالت میں گولی مار دی جائے۔‘‘

ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی ملزمہ کی فلک شگاف چیخ عدالت میں بلند ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’میں نے قتل نہیں کیا۔۔۔ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔ مجھے نہ مارو۔۔۔ مجھے ناحق نہ مارو۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔‘‘ دھیرے دھیرے اُس کی آواز کسی غار میں گم ہو گئی اور وہ اپنی جگہ ڈھیر ہو گئی۔ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ ملزمہ کو جیتی جاگتی حالت میں بھری عدالت کے اندر قتل کر دیا گیا تھا۔ انصاف نے سسک سسک کر دم توڑ دیا تھا اور عدل کی لاش عدالت کے اندر سولی پر چڑھائی جا چکی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے پردے پر اندھیرا چھا گیا اور اگلے منظر میں پھر ایک بار عدالت کا دربار سجا ہوا تھا۔ مقتول کی ماں مجرم کے کٹہرے میں کھڑی تھی اور اس پر عمداً قتل کا مقدمہ قائم ہو رہا تھا۔ فلم کا پردہ گرنے لگا۔ سندھیا کے پپوٹے بھاری ہو چکے تھے اور اس روز وہ دوپہر کے بجائے سرِ شام نیند کی آغوش میں جا رہی تھی۔

سحر نے جب آنکھیں کھولیں تو خلافِ عادت سندھیا کو سویا ہوا پایا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور ٹی۔وی پر اپنے پسندیدہ چینل پر کارٹون فلم دیکھنے لگی۔ اپنی امی کی نیند کا خیال کر کے اس نے آواز کو اس قدر دھیمے کر دیا تھا کہ خود اسے بھی صاف سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وقت کے ساتھ سحر سمجھدار ہو چلی تھی، دوسروں کی تکلیف کا پاس و لحاظ کرنے لگی تھی۔ کارٹون فلمیں دیکھتے دیکھتے وہ اس قدر طاق ہو گئی تھی کہ لبوں کی حرکات اور چہرے کے جذبات سے ساری بات سمجھ جایا کرتی تھی۔ الفاظ کو سننے کی ضرورت سے وہ بے نیاز ہو چکی تھی۔ اس لئے اب وہ مختلف زبانوں کی کارٹون فلمیں دیکھنے لگی تھی اور وہ انہیں ایسے انہماک سے دیکھتی کہ دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتی۔

اس روز دن خاصہ طویل رہا اور شام کا وقفہ درمیان سے غائب ہو گیا۔ اچانک رات نمودار ہو گئی اور امروز یکلخت کود کر اپنی حویلی کے آنگن میں پہنچ گیا جہاں قبرستان کا سا سناٹا تھا۔ اس نے چابی نکالنے کی خاطر جیب میں ہاتھ ڈالا تو ہاتھ دوسری جانب سے باہر آ گیا۔ امروز کی جیب کسی گرہ کٹ کی نذر ہو چکی تھی۔ نہ صرف اس کی چابی، بلکہ اس کا بٹوہ، شناختی کارڈ، انشورنس کارڈ، لائسنس اور اے۔ٹی۔ایم کارڈ وغیرہ سب غائب تھا۔ امروز نے موبائل کو ٹٹولا تو وہ بھی غائب، اس کو ایسا لگا جیسے اس کا سب کچھ اس سے چھن چکا ہے۔ وہ کنگال بلکہ ادھورا ہو کر رہ گیا ہے۔ خارجی اشیاء پر اس کا انحصار کس قدر بڑھ گیا ہے، اس کا احساس اسے اس وقت ہوا جب وہ سب اس چھن گئیں اور وہ دُنیا میں بے یارو مددگار ہو کر رہ گیا۔ وہ ایک ہی لمحہ میں اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے خزانے اور صحت کی کنجی گنوا بیٹھا تھا۔ اس کا اپنا تشخص اس سے کھو گیا تھا۔ اس نے دروازے پر لگی کال بیل کو دبانے کی کوشش کی تو اس نے عرصۂ دراز تک عدم استعمال کا احتجاج کرتے ہوئے بجنے سے انکار کر دیا۔ اب وہ اپنی دھول سے اٹی اُنگلی کو صاف کر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ جیسے جیسے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا، دستک کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ لاشعوری طور پر دروازے کو پیٹ رہا تھا لیکن کہاں صدر دروازہ اور کہاں مہمان خانے کے عقب میں بنا مضبوط دروازہ، جو قلعے کی مانند بند تھا۔ باہر آندھی چل رہی تھی اور اندر طوفان سے پہلے کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سحر کارٹون فلم اور سندھیا نیند کے گہرے سمندر میں غرق تھی۔

امروز کے پڑوس میں رات کی کوٹھی تھی، جس کے باہر لیلیٰ صحرائی کندہ تھا۔ اس رات کا دن نہ جانے کب حرص و ہوس کے چکر میں کسی لق و دق صحرا کی جانب نکل گیا تھا اور پھر راستہ بھٹک کر نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔ اپنے محبوب کے غم میں لیلیٰ نے ہوش و حواس کھو دئیے تھے۔ وہ پاگل ہو گئی تھی اور اس کے بعد لوگوں نے اس کا نام لیلیٰ سے بدل کر لیلیٰ صحرائی کر دیا تھا جو اس کے مجنوں سے منسوب تھا۔ صدیوں سے بند اس خوفناک ویران حویلی کا دروازہ دن کے شور و شغف سے پہلی بار چرمرایا اور ایک بھیانک آواز کے ساتھ کھل گیا۔ برسوں پرانی نیند سے ایک شرارت بیدار ہو رہی تھی۔ رات نے شر انگیز انگڑائی لی۔ اس کا سایہ باہر آیا اور امروز کے دروازے تک پھیل گیا۔ ہر طرف تاریکی کا دور دورہ تھا۔

لیلیٰ کی یادداشت لوٹ آئی تھی۔ وہ یاد کرگہی تھی ایک صبح  اس کا دن، جس کا نام النہار تھا، حسب معمول شام میں لوٹ کر آنے کا وعدہ کر کے روانہ ہوا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ اُسے وہ دن بھی یاد آ رہے تھے جب اس کی آنکھیں اپنے دن کے انتظار میں دروازے پر ٹکی رہتی تھیں۔ اسے یقین تھا کہ صبح کا بھولا کسی نہ کسی شام ضرور لوٹ آئے گا۔ لیکن رفتہ امیدوں کے سارے چراغ ایک ایک کر کے گل ہو گئے۔ لوگوں نے اس کے دن کو مجنوں قرار دے دیا اور وہ تنہائی کی گہری وادیوں میں کھو گئی۔ اس کی یادداشت نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ بھول گئی کہ النہار کون ہے اور لیلیٰ کس کا نام ہے؟ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، وہ نہیں جانتی تھی۔ ایک عالمِ بے خودی میں اس کی سانسوں کا تار چل رہا تھا، لیکن آج اچانک ایک نئی جھنکار نے دل کے تار کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ پھر سے زندہ ہو گئی تھی۔ وہ اپنے دل کے دروازے پر ایک دستک محسوس کر رہی تھی۔ اس نے جھروکے کی اوٹ سے جھانک کر باہر دیکھا تو ایک عجیب و غریب منظر نے اسے چونکا دیا۔ امروز نے دروازے سے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنی پیشانی کو لہولہان کر لیا تھا، لیکن دروازہ تھا کہ کھلنے کا نام نہ لیتا تھا۔

لیلیٰ نے اپنا سر باہر نکالا اور آہستہ سے بولی۔ ’’آؤ۔۔۔ یہاں آ جاؤ! رات کافی گہری ہو چکی ہے۔ تم یہاں آ کر سو جاؤ۔‘‘ اس کی آواز میں بلا کی حلاوت و شیرینی گھلی ہوئی تھی۔

امروز نے اپنے عقب کی جانب مڑ کر دیکھا تو لیلیٰ مسکرا رہی تھی، وہ بولا۔ ’’شکریہ۔ لیکن میں اپنے بستر کے علاوہ کہیں اور نہیں سو سکتا۔ اس لئے کہ مجھے نیند نہیں آئے گی۔‘‘

لیلیٰ بولی۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہو؟ نیند کا تعلق بستر سے نہیں، تھکن سے ہے۔ جب کوئی بوجھل ہو تو اسے پتھر پر بھی نیند آ جاتی ہے اور جب وہ تھکا ہوا نہ ہو تو نرم و نازک بستر بھی اس کے لئے بیکار ثابت ہوتے ہیں۔‘‘

امروز بولا۔ ’’نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔ لوگ چھٹی کے دن آرام کرتے ہیں، اس کے باوجود اُنہیں نیند تو آتی ہی ہے۔‘‘

لیلیٰ کو ہنسی آ گئی، وہ بولی۔ ’’تم بہت بھولے ہو امروز۔۔۔ بالکل بچوں جیسی باتیں کرتے ہو۔ لوگ چھٹی کے دن جاگتے جاگتے تھکتے ہیں تو سو جاتے ہیں اور سوتے سوتے تھک جاتے ہیں تو بیدار ہو جاتے ہیں۔ تھکن تبدیلی کی طالب ہوتی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ دن بھر کے سفر نے تمہیں تھکا کر چور کر دیا ہے۔‘‘

’’تمہیں یہ کیسے پتہ؟ میری حالت کا اندازہ تم نے کیسے کر لیا؟‘‘ امروز سوال کر رہا تھا۔

’’مجھے پتہ ہے امروز۔ میرا النہار بھی تمہاری طرح صبح سویرے نکل جایا کرتا تھا اور شام ڈھلے تھکا ماندہ لوٹ کر آتا اور میرے شانے پر سر رکھ کر گہری نیند سو جاتا تھا۔‘‘

’’اچھا! اب کہاں چلا گیا وہ؟ اب وہ کیوں نہیں آتا؟‘‘

’’دیکھو امروز۔۔۔ مجھ سے ایسے سولات کر کے اپنا وقت ضائع نہ کرو جن کا جواب نہ میں جانتی ہوں اور نہ اب جاننا چاہتی ہوں۔ آؤ یہاں سو جاؤ، اس لئے کہ تمہارا سونا بہت ضروری ہے۔‘‘

’’کیوں ۔۔۔ میرا سونا کیوں ضروری ہے؟ اگر میں نہ سویا تو کیا ہو جائے گا؟‘‘ امروز کو لیلیٰ کی باتیں بھلی لگنے لگی تھیں۔

لیلی بولی۔ ’’دیکھو تمہارا سونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ تم اگر سوؤ گے نہیں تو جاگو گے کیسے؟ اور اگر جاگو گے نہیں تو سارا جہان سوتا پڑا رہے گا۔ انسانوں کی ہوشیاری و غفلت تمہارے نظام الاوقات کی مرہونِ منت جو ہے۔‘‘

امروز لیلیٰ کی دلیل کا قائل ہو گیا اور با دلِ ناخواستہ لیلیٰ کی کوٹھی کی جانب بڑھا، لیکن جیسے ہی اس نے چوکھٹ کے اندر قدم رکھا، وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔ لیلیٰ امروز کی سانسوں کو اُکھڑتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا اس کا النہار کسی غیر کی چوکھٹ پر دم توڑ رہا ہے۔ رات کی تاریکی مزید گہری ہو گئی۔ آسمانِ گیتی سے سارے ستارے و چاند ایک لمحہ کے لئے غائب ہو گئے۔ وہ سب کے سب امروز کے جنازے میں شریک تھے۔ امروز کا تابوت ان کے کندھوں پر تھا۔ لیلیٰ بین کرتی ہوئی ان کے پیچھے چل رہی تھی اور اس کی نظریں النہار کو تلاش کر رہی تھیں۔ لیلیٰ کی پلکوں پر امید کا ایک ننھا سا دِیا روشن کر کے امروز اپنے آخری سفر پر آسمانوں کی جانب روانہ ہو گیا تھا۔ لیکن اس سانحہ سے بے خبر باقی مخلوقات بشمول سندھیا اور سحر نیند کی اتھاہ گہرائیوں میں کھوئے ہوئے تھے۔

اگلے دن صبح سے قبل سندھیا نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آس پاس امروز کو ٹٹولنے لگی۔ امروز کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔ شام کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کا دن کہاں کھو گیا؟یہ اچانک اسے کیا ہو گیا ؟گزشتہ شام کی فلم کے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ وہ سوچنے لگی کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کسی نے نیند کی حالت میں اس کے امروز کو روند دیا ہو؟ اس کا دل کہہ رہا تھا یقیناً ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن پھر اس کے ذہن میں ایک اور سوال اُبھرا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والی کوئی اور نہیں، اُس کی اپنی ہی ذات ہے؟ سندھیا!! سندھیا ہی وہ آسیب ہے جس نے اپنے امروز کو نگل لیا؟ اس خیال سے وہ کانپ اُٹھی۔ اس نے سوال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ وہ تو نیند کے خمار میں بھی اپنے امروز کو ایذا نہیں پہنچا سکتی۔

 لیکن استغاثہ کا جملہ اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔ ’’جج صاحب۔۔۔ نیند کی حالت میں انسان کا اختیار ہی سلب ہو جاتا ہے۔ اس کے اعضا و جوارح پر اس کا بس نہیں چلتا اور ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ کچھ بھی۔ وہ ایسے تمام کام کر سکتا ہے جنہیں وہ کرنا نہیں چاہتا اور ان میں سے کوئی ایک بھی کام نہیں کر سکتا جن کو وہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘ سندھیا نیند کی حالت کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ سحر جاگ گئی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’امی۔۔۔ میرے ابو کہاں ہیں ؟ کیا وہ چلے گئے؟ کیا وہ آج مجھ سے ملے بغیر ہی روانہ ہو گئے؟‘‘

’’نہیں بیٹی۔۔۔ تمہارے ابو تم سے ملے بغیر نہیں جا سکتے۔ وہ ابھی نہیں گئے۔‘‘

’’اچھا! اگر گئے نہیں تو میرے ابو کہاں ہیں ۔۔۔ کہاں ہیں میرے ابو۔۔۔ مجھے بتاؤ۔‘‘

’’بیٹی میں یہ تو نہیں جانتی کہ تمہارے ابو کہاں ہیں، لیکن یہ ضرور جانتی ہوں کہ وہ آج اپنی گردش پر نہیں گئے۔‘‘

’’آپ کو پتہ بھی نہیں اور پتہ بھی ہے؟ یہ کیسی کیفیت ہے امی؟‘‘

’’میری بیٹی سحر! ہر آنے والا ایک دن چلا جاتا ہے، گویا جانے کے لیے آنا ضروری ہے۔ اب جو آیا ہی نہ ہو وہ کیسے جا سکتا ہے بھلا؟ وہ نہیں جا سکتا۔۔۔ کہیں نہیں جا سکتا۔ اسی لئے میں کہہ رہی ہوں کہ وہ نہیں گئے۔۔۔ تمہارے ابو کہیں نہیں گئے۔‘‘

 سندھیا بے ربط جملے کہہ رہی تھی جنہیں سمجھنا سحر کے لیے ناممکن تھا۔ اس لئے وہ بولی۔ ’’امی یہ آپ کا آنے جانے کا فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘

سندھیا نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں بیٹی! تمہاری بات درست ہے۔ یہ معاملہ چونکہ میں خود نہیں سمجھتی ہوں تو ایسے میں تمہیں کیسے سمجھا سکتی ہوں ؟ شاید مجھے صرف یہ کہنا چاہیے کہ میں نہیں جانتی تمہارے ابو کہاں ہیں۔ میں یہی جانتی ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘

لوگ سوتے سوتے تھک گئے تھے اور سورج دن کے انتظار میں کھڑا کھڑا تھک گیا تھا۔ ایسے میں سندھیا نے لب کشائی کی، وہ بولی۔ ’’بیٹی تمہارے ابو تو موجود نہیں ہیں لیکن اُن کا فرضِ منصبی تو قائم و دائم ہے۔ اب اس فرض کی ادائیگی کے لیے تمہیں کمربستہ ہونا پڑے گا۔‘‘

اپنی ماں کی اس درد انگیز التجا کو سن کر سحر تیار ہو گئی۔ سندھیا بوجھل قدموں کے ساتھ سحر کے ہمراہ دروازے تک آئی۔ اسے سینے سے لگا کر پیشانی پر محبت کا بوسہ دیا اور الوداع کر دیا۔

جیسے ہی سحر نے آنگن سے باہر قدم رکھا، سورج نے اپنی جگہ سے حرکت کی۔ موذن صبح کاذب کا اشارہ پا کر محراب کی جانب بڑھا۔ نمازی مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ ایک نئی صبح جلوہ نمائی کے لیے بیتاب تھی۔ دن کی روشنی سحر بن کر کائنات کو منور کر رہی تھی اور شام لمحات کی تسبیح کو ہاتھوں میں تھامے اپنی ننھی سحر کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔ روزینہ سوچ رہی تھی کہ جوزف کی یہ کہانی اسے آج اتنے دنوں بعد کیوں یاد آئی؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کہیں وہ خود بھی تو سندھیا کی مانند کسی کا انتظار نہیں کر رہی۔۔۔؟ اپنے امروز کا۔۔۔؟ اس کے اندر سے جواب آیا۔ ’’نہیں۔ ہر گز نہیں۔ اپنی سحر کا۔‘‘

اس سے پہلے کہ وہ اس سوال کا کوئی جواب دیتی، صبح کی پہلی کرن کے ساتھ مٹتے اندھیرے کی کوکھ سے ایک منحنی سی آواز گونجی۔ ’’روزینہ۔۔۔ روزینہ تم کہاں ہو؟ کیا آج دفتر نہیں جانا؟ تم تو کہہ رہی تھیں کہ آج کوئی خاص تقریب ہے، جس کی تیاری کے لئے تمہیں وقت سے پہلے دفتر پہنچنا ہے؟‘‘

 روزینہ کی ضعیف و نحیف امی نے ایک ساتھ کئی سوالات کر ڈالے جن میں سے کسی کا بھی تعلق اس کی اپنی ذات سے نہیں تھا۔ حالانکہ ابھی روزینہ کو اپنی بوڑھی ماں کو بستر سے اُٹھا کر پہیوں والی کرسی پر بٹھانا تھا، حمام میں لے جا کر نہلانا دھلانا تھا، صاف ستھرے کپڑے پہنا کر کھلانا پلانا تھا اور تازہ اخبار اُن کے سرہانے رکھنے کے بعد اُن کا پسندیدہ ٹی۔وی چینل چلانا تھا۔ اس کے بعد ہی کہیں روزینہ کے لئے ممکن تھا کہ وہ دفتر جانے کی تیاری کرے، لیکن اُس کی امی میری جانتی تھی کہ ان سب کے بتلانے کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ برسوں سے یہ سارے کام روزینہ کے معمول میں شامل تھے۔

وہ صبح اُٹھ کر اپنے آپ کسی روبوٹ کی مانند یہ سب کرنے لگتی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ روبوٹ کو اپنے کام سے کوئی خوشی نہ ملتی۔ اُسے کوئی اطمینان و انبساط حاصل نہ ہوتا۔ اس کے برخلاف روزینہ کا معاملہ مختلف تھا۔ اس کے لئے تو یہی مقصد زندگی تھا۔ اس ذمہ داری کے بغیر وہ نامکمل وجود تھی۔

میری نے سوچا، اس حسن اخلاق کا مظاہرہ جو روزینہ برسوں سے کرتی آئی تھی، نہ جانے کب تک اس کا مقدر تھا؟ کب تک وہ اس ہر روز بڑھنے والے بچپن کو سنبھالتی رہے گی۔ میری سوچ رہی تھی، کس قدر فرق ہے روزینہ کے اور اس کے اپنے بچپن میں ؟ روزینہ کا بچپن جو اُس کی گود میں گزرا تھا، ہر روز سمٹ کر مختصر ہو جاتا تھا اور اس کے اپنے بچپن کی چادر جو روزینہ کی بانہوں میں تھی ہر دن کچھ اور پھیل جاتی تھی، وہ نہیں جانتی تھی کہ کب یہ پھیلتے پھیلتے ہوا میں تحلیل ہو جائے گی؟ وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی جاننا نہیں چاہتا۔ اس لئے میری نے اس سوال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا اور اس لئے بھی کہ سراپا زندگی روزینہ روزانہ کی طرح اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی، اسے اپنے پاس بلا رہی تھی۔

 

۴

دفتر کی جانب جاتے ہوئے جب روزینہ کی نظر پیپل کے گھنے پیڑ پر پڑی تو وہ سوچنے لگی۔ ’’یہ کیسا درخت ہے جو کڑوے کسیلے پھل دیتا ہے، پھر بھی لوگ اسے پسند کرتے ہیں ؟ اس کی چھاؤں تلے آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس لئے کہ اس کا گھنا سایہ اپنے اندر کسی قسم کی کڑواہٹ نہیں رکھتا، اور یہ بھی سنا ہے کہ پیپل کے کڑوے پتوں اور بدمزہ پھل میں بڑی شفا ہے۔‘‘ روزینہ کو اس کا تجربہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اسے یہ پیڑ بہت اچھا لگتا تھا۔ شاید اس لیے کہ اسی درخت کے نیچے اس کی جوزف سے پہلی ملاقات ہوئی تھی جو آگے چل کر ازدواجی رشتے میں بدل گئی۔ اس بیچ اسے کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ یہ سایہ دار سرپرست اپنے دامن میں بے شمار کڑوے کسیلے پھل بھی رکھتا ہے۔ حقیقت یہی تھی کہ روزینہ نے ان پھلوں کو چکھنا تو درکنار، کبھی چھوکر بھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن آج پہلی بار وہ اس قدر دُور سے ان میں کڑواہٹ محسوس کر رہی تھی۔ سارا عالم بدمزہ ہو گیا تھا۔

اس درخت کے نیچے جب جوزف نے اس سے پوچھا تھا۔۔۔ ’’روزینہ۔۔۔ آخر کیا کمی ہے مجھ میں ؟ تم مجھ سے شادی کیوں نہیں کر سکتیں ؟‘‘

اس دن یہی پیڑ کس قدر میٹھا ہو گیا تھا جب روزینہ نے جواب دیا۔ ’’کون کہتا ہے کہ تم میں کوئی کمی ہے؟ تم ایک شریف اور مہذب انسان ہو۔ سارا محلہ اور دفتر اس حقیقت کا شاہد ہے کہ صحت مندی اور خوشحالی تمہارے قدم چومتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی لڑکی تم سے شادی کر سکتی ہے۔‘‘

’’جی ہاں، زہے نصیب۔۔۔ مگر وہ لڑکی روزینہ نہیں ہو سکتی؟‘‘ یہ جوزف کا دوسرا سوال تھا۔

روزینہ نے مسکرا کر حامی بھری اور بولی۔ ’’جی ہاں جوزف، تم نے صحیح کہا۔ میں تمہاری تائید کرتی ہوں۔‘‘

’’کیوں روزینہ؟ کیوں نہیں ؟‘‘ جوزف نے حیرانی سے کہا۔ ’’تم نے ابھی ابھی مجھے بتلایا کہ نہ تمہاری شادی ہوئی ہے اور نہ تم کسی سے منسوب ہو۔ پھر تم مجھ سے نکاح کیوں نہیں کر سکتیں ؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر تم کسی کے نکاح میں ہوتیں تو میں طلاق کروا دیتا اور کسی سے منسوب ہوتیں تو رشتہ تڑوا دیتا تاکہ تمہیں اپنا بنا سکوں۔ لیکن اب تو کوئی ایسی مشکل نہیں ہے؟‘‘

’’مشکل ہے۔۔۔‘‘ روزینہ اطمینان سے بولی۔ ’’ایک ایسی مشکل جسے تم اچھی طرح جانتے ہو اور وہ مشکل یہ ہے کہ میں اپنی ضعیف ماں کو اس عمر میں تنہا چھوڑ کر تمہارے گھر نہیں آسکتی۔‘‘

’’ہاں، میں یہ بات جانتا ہوں۔‘‘ جوزف نے جواب دیا۔

’’تو پھر ہمارا نباہ کیسے ہو گا؟ تم اپنے گھر اور میں اپنے گھر؟ کیا کوئی ازدواجی زندگی ایسے بھی چل سکتی ہے؟‘‘

’’نہیں، ایسے نہیں چل سکتی۔‘‘ جوزف بولا۔ ’’لیکن اگر ہر نکاح کے بعد دلہن خاوند کے گھر چلی جاتی ہے تو یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ ایک ایسا بھی نکاح ہو جس کے بعد شوہر بیوی کے گھر چلا آئے۔ میرا مطلب ہے گھر داماد بن جائے؟ کیا تمہیں اس تجویز پر اعتراض ہے؟‘‘

’’مجھے۔۔۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ لیکن تمہارے والدین یقیناً اعتراض کریں گے۔ وہ کبھی بھی اس پر راضی نہ ہوں گے۔ تم ایسا کرو کہ ایک بار اُن سے دریافت کر لو اور اُن کی رائے معلوم کر لو۔‘‘

’’اُن سے کیا پوچھنا؟ اس سے قبل میرے دو بھائی شادی کے بعد اپنا الگ سے گھر بسا چکے ہیں۔ ان پر تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اب جانا تو جانا ہوتا ہے۔ انسان اپنے گھر جائے یا پرائے گھر، اس سے کیا فرق پڑتا ہے بھلا؟‘‘

’’فرق تو ہے۔ اب تم اسے مانو یا نہ مانو، تمہاری مرضی؟‘‘

’’چلو مان لیتا ہوں تمہاری خاطر۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ لطیف سا فرق میرے والدین پر ناگوار نہ گزرے گا اور جب میں تمہارے گھر آ جاؤں گا تو وہ میرا اپنا گھر ہو جائے گا، پرایا کب رہے گا؟‘‘

’’تمہاری منطق درست ہے جوزف۔۔۔ لیکن اگر وہ گھر تمہیں اپنا لگنے لگے تب بھی تمہارے والدین کے لیے تو وہ ہمیشہ ہی غیر کا در ہو گا۔ مجھے خوف ہے کہیں وہ اسے اپنی توہین نہ سمجھ بیٹھیں ؟‘‘

جوزف بولا۔ ’’میں تو اسے تحقیر نہیں سمجھتا۔ اب کوئی اور کیا سمجھتا ہے، اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جوزف تمہارا یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ آخر تم ان کی اولاد ہو، تمہارے دو بھائی پہلے ہی انہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ایسے میں اب تم ان کے اکلوتے بیٹے ہو جو اُن کے پاس رہتے ہو۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے تم انہیں اعتماد میں لو اور پھر آگے  بات  بڑھاؤ۔‘‘

روزینہ نے جوزف کی مشکل کو آسان کرنے کے بجائے مزید اُلجھا دیا تھا۔ اوّل تو اس کی اپنی رضامندی کا مسئلہ تھا۔ اب وہ دو افراد پر پھیل گیا تھا۔

جوزف بیزاری سے بولا۔ ’’روزینہ، تم بلاوجہ ایک سیدھی سی بات کا بتنگڑ بنا رہی ہو۔ میں یہ سب ضروری نہیں سمجھتا۔ میرے لئے تو بس۔۔۔!‘‘

روزینہ بیچ میں بول پڑی۔ ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟ یہی کہنے والے تھے نا تم؟‘‘

’’بالکل! بالکل۔‘‘ جوزف خوش ہو کر بولا۔

’’لیکن میں اُن کی رضامندی کو لازمی سمجھتی ہوں۔ کیا سمجھے جناب جوزف صاحب؟‘‘

’’تم ایسا کیوں سمجھتی ہو؟ کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گی ملکہ روزینہ؟‘‘

’’ہاں کیوں نہیں۔ اگر یہ معاملہ ابتدا ہی میں صاف ہو جائے تو میرے اور اُن کے تعلقات میں آگے چل کر کوئی تلخی نہیں ہو گی۔۔۔ ورنہ۔۔۔‘‘

’’تم ہمیشہ اپنے بارے میں سوچتی ہو۔ میرے بارے میں کبھی نہیں سوچتیں۔‘‘

’’دیکھو جوزف، بچوں جیسی باتیں نہ کرو۔ تم اُن کی اولاد ہو اور تمہارے ساتھ اُن کا خونی رشتہ ہے جو کسی بھی صورت میں ٹوٹ نہیں سکتا، جیساکہ میرا اپنی ماں کے ساتھ ہے۔ اب میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ تو تمہارے والدین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا ہے۔‘‘

’’لیکن محترمہ! آپ جن تعلقات کا رونا رو رہی ہیں، وہ بھلا قائم ہی کیوں کر ہوں گے؟ نہ تم اُن کا گھر بسانے کی لیے جاؤ گی اور نہ وہ تمہارے گھر رہنے کے لیے آئیں گے؟‘‘

’’اے میرے احمق عاشق۔۔۔‘‘ روزینہ مسکرا کر بولی۔ ’’یہ جغرافیائی فاصلوں کا معاملہ نہیں بلکہ جذباتی تعلقات کا سلسلہ ہے۔ کل کو اگر میرے باعث اُن کے تم سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں تو میں سکون کی زندگی گزار نہ سکوں گی۔‘‘

جوزف مسکرا کر بولا۔ ’’پھر میں ؟ روزینہ تم سچ مچ بہت خودغرض ہو۔ اپنے چین و سکون کی خاطر تم میری زندگی کا سکون غارت کرنے پر تلی ہوئی ہو۔ میں تو تمہارے بغیر چین سے تو کیا، بے چینی کے ساتھ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ میرے والدین کیا سوچتے ہیں اور کیا نہیں سوچتے؟ کیا سمجھیں ؟‘‘

’’اچھا۔۔۔ تو خودغرض میں ہوں جو تمہارے والدین کے بارے میں سوچ رہی ہوں ؟ اور تم نہیں ہو جو اُن کی مطلق پرواہ نہیں کرتے۔‘‘

روزینہ کی ضد کے آگے جوزف بے دست و پا ہو گیا۔

روزینہ بولی۔ ’’دیکھو، اس طرح کے معاملات میں جلد بازی مناسب نہیں ہوتی۔ تم اُن سے مشورہ کر لو، پھر ہم بات کریں گے اور ویسے بھی میں کہاں بھاگی جا رہی ہوں ؟‘‘

جوزف ناراض ہو کر بولا۔۔ ’’تم جیسی ضدی لڑکی کا کیا اعتبار؟ کب کون سا فیصلہ کر لے اور اس پر اَڑ جائے؟‘‘

’’نہیں جوزف ایسی بات نہیں۔ مجھ پر بھروسہ رکھو۔ تم میرے دوست ہو اور میں اپنی زندگی کا کوئی اہم فیصلہ تمہارے مشورے  کے بغیر نہیں کروں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے اور تم تو جانتے ہی ہو۔۔۔‘‘

’’ہاں میں تمہیں جانتا ہوں روزینہ۔ یہ آلپس کا پہاڑ تو اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے لیکن روزینہ۔۔۔‘‘

’’اب بس بھی کرو جوزف۔‘‘ دونوں مسکرا کر جدا ہو گئے۔

جوزف کے اعتماد نے روزینہ کو چونکا دیا تھا۔ اسے اپنے آپ سے ڈر لگنے لگا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہیں جوزف کے والدین نے اس رشتے سے انکار کر دیا تو وہ کیا کرے گی؟ کیا وہ بھی انکار کر دے گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو جوزف کا کیا ہو گا؟ پہلی مرتبہ روزینہ نے اپنے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچا تھا۔ اُس جوزف کے بارے میں جو اُسے خودغرض سمجھتا تھا۔ خیر، لیکن اگر ان لوگوں نے حامی بھر لی اور اس کی ماں میری نے انکار کر دیا تو کیا ہو گا؟ پہلے تو اس امکان سے وہ ڈر گئی اور پھر اس نے اس سوال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا، اس لیے کہ یہ ناممکن تھا۔

میری اور روزینہ کے درمیان بڑا دلچسپ رشتہ تھا۔ میری کی شادی کو بیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ اور اس کا شوہر وکٹر اولاد سے بالکل مایوس ہو چکے تھے۔ وکٹر ریٹائرمنٹ کے منصوبے بنا رہا تھا اور میری نے مختلف سماجی کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر لیا تھا، کہ اچانک غیر متوقع تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ جس ڈاکٹر نے میری کے حمل کی تشخیص کی وہ خود حیران و ششدر تھا کہ پینتالیس بہاریں دیکھنے کہ بعد کیا یہ معمر خاتون کسی نونہال کو جنم دے سکتی ہے؟ وکٹر کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا، لیکن جب سونوگرافی کی مدد سے اس نے روزینہ کی آواز بھی سن لی تب وہ مان گیا کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سب ہو بھی سکتا ہے۔

ڈاکٹر نے یوں تو میری کو احتیاط برتنے کی تلقین کی تھی لیکن اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ وکٹر نے دفتر سے لمبی چھٹی لے لی تھی اور وہ میری کا اِس قدر خیال رکھتا تھا کہ اگر اُس کے بس میں ہوتا تو وہ میری کو قدم زمین پر نہ رکھنے دیتا۔ اس نعمتِ عظیمہ کے انتظار نے اسے غیر معمولی اہمیت عطا کر دی تھی۔ غیروں کے بچوں کو حسرت سے دیکھنے والے وکٹر اور میری کی نظر یکسر بدل گئی تھی۔ ان کو ہر بچے میں اپنا بچہ دکھلائی دینے لگا تھا۔ اب ان کی تمام گفتگو کا محور گھر آنے والا نیا مہمان ہوتا تھا۔ وہ دن رات اس کے سپنے سجاتے رہتے تھے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میری جس دن دردِ زہ کے باعث زچہ خانے میں داخل ہوئی، اسی رات وکٹر پر دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہو گیا۔

میری اپنی عظیم ترین خوشی کو وکٹر سے دوبالا کرنے کے لیے بیتاب تھی، لیکن اسے بتایا گیا کہ وکٹر کو اچانک ایک ضروری کام سے کسی دُور دراز کے مقام پر روانہ کر دیا گیا ہے۔ میری کے لیے یہ واردات ناقابلِ فہم تھی۔ وہ اُسے بتلائے بغیر کیسے جا سکتا تھا؟ بلکہ یہ تو ایسا موقع تھا کہ وکٹر کو ملازمت سے استعفیٰ دے کر رُک جانا چاہئے تھا۔ ویسے بھی وکٹر نے لمبی چھٹی لے رکھی تھی۔ میری کو وکٹر کی بات یاد آئی، جب اُس نے کہا تھا کہ اب میں نے ریٹائرمنٹ کا پلان ترک کر دیا ہے۔ اب ملازمت پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔ ہماری ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک ننھے منے پودے کو پال پوس کر تناور درخت جو بنانا ہے۔ میری نے وکٹر کی جدائی کا غم وقتی طور پر برداشت کر لیا لیکن جب وہ گھر آئی تو پتہ چلا کہ یہ غم فرقت اب دائمی داغِ مفارقت بن گیا ہے۔ وکٹر ایک ایسے دیس سدھار چکا ہے جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ وہاں سے نہ کوئی چٹھی آتی ہے اور نہ ہی سندیس آتا ہے۔

میری بہت اداس ہو گئی۔ یکبارگی اس کا جی چاہا کہ وہ خود بھی وکٹر سے جا ملے لیکن ننھی سی جان روزینہ اُس کے پاؤں کی زنجیر بن گئی۔ وکٹر کی کمپنی والوں نے میری کو ملازمت کی پیش کش کی، جسے اُس نے با دلِ ناخواستہ قبول کر لیا۔ وکٹر نے روزینہ کی خاطر چھ ماہ کی جو چھٹی لی تھی، اس کے تین ماہ باقی تھے۔ وہ میری کے شانہ بشانہ اپنی بیٹی کی دیکھ ریکھ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن روزینہ کی تقدیر میں یہ سعادت نہیں تھی۔ وہ نہ صرف ہمیشہ کے لیے اپنے والد سے محروم ہو گئی تھی بلکہ اسے اپنی ماں سے بھی کئی گھنٹے دُور رہنا پڑتا تھا۔ جبکہ وہ ملازمت کے لیے دفتر جانے پر مجبور ہوتی تھی۔ اس دوران پڑوس میں رہنے والی ضعیف کیرولینا اس کو سنبھالتی تھی۔ کیرولینا کو روزینہ میں اپنا بچپن دکھلائی دیتا تھا۔ کیرولینا روزینہ کا بے حد خیال رکھتی تھی۔ وقت تیزی کے ساتھ گزرتا جا رہا تھا۔ روزینہ لڑکپن کی جانب اور کیرولینا اپنی قبر کی جانب یکساں رفتار سے رواں دواں تھے۔ میری کو جب اس کا احساس ہوا تو اس نے کمپنی کی اونچی تنخواہ والی ملازمت کو خیرباد کہہ کر اسکول سے منسلک ہو گئی جہاں تنخواہ تو کم تھی مگر نہ صرف کام کے اوقات کم تھے بلکہ تعطیلات بھی زیادہ تھیں۔ اس طرح میری کو روزینہ کے ساتھ زیادہ وقت ملنے لگا تھا۔ دو سال کی عمر میں روزینہ کا داخلہ اسی اسکول کی نرسری میں کروا دیا گیا۔ اب دفتر میں بھی ماں بیٹی کے درمیان کا فاصلہ مٹ گیا تھا۔ دونوں ساتھ ساتھ اسکول جاتے اور ایک دوسرے کے ہمراہ لوٹ کر آتے۔ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ماں بیٹی کی زندگی کا سہانا سفر طے ہونے لگا۔

روزینہ جب اسکول کی تعلیم سے فارغ ہوئی تو انتظامیہ نے میری کو بھی فارغ کر دیا۔ اب معاملہ بدل گیا تھا۔ میری ریٹائر ہو چکی تھی اور روزینہ نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ روزینہ نے میری کا اسی طرح خیال رکھنا شروع کر دیا تھا جیساکہ کبھی میری اُس کی دیکھ ریکھ کیا کرتی تھی۔ گویا اب روزینہ اپنی ماں کی ماں بن چکی تھی، یعنی خود اپنی نانی، اور میری اپنی بیٹی کی بیٹی، یعنی خود اپنی نواسی۔ روزینہ اور میری ہر ایک کی زندگی اب ڈبل رول میں داخل ہو چکی تھی۔ مگر پردۂ سیمیں پر دکھلائے جانے والے ڈبل رول سے یہ یکسر مختلف کیفیت تھی۔ اس لیے کہ یہاں کوئی چیز مصنوعی نہیں تھی۔ نہ سیٹ، نہ کیمرہ، نہ کہانی، نہ مکالمے، جو بھی تھا صد فی صدی حقیقی تھا۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جس مرحلے میں میری اپنی عمر کے پینتالیسویں سال میں داخل ہوئی تھی۔ وہ موقع روزینہ کی زندگی میں پندرہویں سال میں آ گیا تھا۔ روزینہ اور میری کے رشتوں میں بتدریج تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ ابتدا میں میری ماں اور روزینہ بیٹی تھی،  پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست ہو گئے اور اب روزینہ ماں اور میری بیٹی۔ روزینہ نے اپنی ماں سے جو کچھ پایا اور سیکھا تھا، اسے بہ حسن و خوبی لوٹانا اس کے لیے فرحت و سعادت، دونوں کا سبب تھا۔

روزینہ اور میری کے بدلتے رشتے میں ایک دلچسپ فرق یہ بھی تھا کہ میری جب روزینہ کی پرورش کر رہی تھی، اُس وقت روزینہ بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی۔ وہ کمزور سے طاقتور ہو رہی تھی، انحصار سے خود کفالت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ لیکن اب معاملہ متضاد تھا۔ میری کا بچپن ہر لمحہ جوان ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی کمزوری اور محتاجی میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ روزینہ کی ذمہ داریاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی تھیں۔ لیکن اسے اس کی مطلق پرواہ نہیں تھی۔ وہ دونوں ان خطوط پر کبھی بھی سوچنے کی زحمت نہ کرتی تھیں۔ ان کا فلسفۂ حیات زندگی کو مختصر قسطوں پر گزارنے کا تھا۔ وہ بہت دُور کی نہ سوچتی تھیں اور نہ بلاوجہ کے اندیشوں کا شکار ہوتی تھیں۔ ننھی منی خوشیوں میں مگن رہنا اور چھوٹے موٹے مسائل کو بغیر کسی دباؤ یا شکوہ شکایت کے سلجھا لینا اُن کا شعار تھا۔ دیکھتے دیکھتے روزینہ نے کالج کی تعلیم مکمل کر لی اور اسے اپنے والد کی موبائل بنانے والی کمپنی موکیا میں ملازمت مل گئی۔ یہ تبدیلی اس خاندان کی زندگی میں ایک نیا باب تھا۔ جس طرح میری کسی زمانے میں بیک وقت روزینہ کے لیے ماں اور باپ دونوں تھی، اُسی طرح اب روزینہ بھی والدہ کے ساتھ والد کی ذمہ داری بھی ادا کرنے لگی تھی۔

روزینہ کی نہایت پُرسکون زندگی میں بھونچال پیدا کرنے والا جوزف تھا۔ جوزف گلاسکوف، جو ماسکو کے گرد و نواح کا رہنے والا تھا۔ سوویت یونین کی گھٹن اس کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس لئے وہ وِن لینڈ کی آزاد فضاؤں میں ملازمت کی غرض سے آن بسا تھا۔ اپنی آمد کے بعد مختصر سے عرصے میں اس نے اپنے والدین کو بھی یہاں بلا لیا تھا اور اس کے دو بھائی بھی یہاں آباد ہو گئے تھے۔ گویا جوزف کا سارا کنبہ یہیں کا ہو کر رہ گیا تھا۔ فنی مہارت اور حسنِ اخلاق کے باعث اس کا شمار کمپنی کے مقبول ترین ملازمین میں ہوتا تھا۔

جوزف چونکہ گاہکوں کی خدمت کے شعبہ سے متعلق تھا، اس لیے اکثر و بیشتر لوگ اس سے واقف تھے۔ جوزف کے والدین اس پر زور ڈال رہے تھے کہ وہ بھی اپنے بڑے بھائیوں کی مانند جلد از جلد کوئی مناسب لڑکی پسند کرے اور اپنا گھر بسا لے۔ جوزف ان سے کہتا کہ انہیں اس معاملے میں اس قدر جلدی کیوں ہے؟ جبکہ یہ بجائے خود ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ وہ اُن سے سوال کرتا تھا کہ کیا وہ جوزف کو بھی شادی کروا کر بڑے بھائیوں کی مانند اپنے سے دُور کروانا چاہتے ہیں ؟ جبکہ اب وہی ایک ان کی خدمت کے لیے اُن کے پاس رہ گیا ہے۔ جوزف کے والدین کی دلیل اس سے مختلف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو جیسے تیسے اپنی عمر کا طویل سفر گزار چکے، لیکن جوزف کی زندگی اس کے سامنے آلپس کی پہاڑیوں کی مانند کھڑی ہوئی تھی اور کسی ہمسفر کے بغیر اسے سر کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے جوزف کی تکمیلِ ذات کے لیے وہ اس سے جدائی برداشت کرنے کے لیے تیار تھے۔

جوزف نے اپنے والدین کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ جلد ہی اُن کی خواہش کے مطابق اپنے لیے کوئی مناسب لڑکی تلاش کر کے اس کی اطلاع انہیں دے گا، تاکہ وہ شادی کی بات آگے بڑھا سکیں۔ جوزف کے والدین کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ اس معاملے میں اس کی غیر سنجیدگی نے انہیں سنجیدہ کر دیا تھا اور ان لوگوں نے اسے دھمکی دے دی تھی کہ اگر آئندہ چھ ماہ کے عرصہ میں اُس نے کسی لڑکی کو پسند نہیں کیا تو وہ اپنی مرضی سے کوئی لڑکی پکڑ کر اُس کے گلے باندھ دیں گے۔ اِس الٹی میٹم نے جوزف کو فکرمند کر دیا اور اس نے اپنی ہونے والی بیوی کی تلاش کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ روزینہ کی جانب گئی اور پھر ایسا ہو گیا کہ جب بھی کسی اور پر غور کرتا تو غیر شعوری طور پر اُس کا موازنہ روزینہ سے کرنے لگتا اور بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ جاتا کہ روزینہ کے بالمقابل یہ دوسرا رشتہ ہیچ ہے۔ اس اُدھیڑ بن میں اس نے کئی بار روزینہ کے بارے میں سوچا جبکہ روزینہ خود اپنے بارے میں ہونے والے اس غور و فکر سے ناواقف تھی۔ اسے پتہ ہی نہ تھا کہ بغیر کسی ارادے اور کوشش کے وہ کسی کے خوابوں کی ملکہ بن چکی ہے۔ جب چھ ماہ کی مدت اختتام کے قریب پہنچی تو جوزف نے اپنے دل کی بات روزینہ کے سامنے رکھنے کے لیے اسی پیڑ کا انتخاب کیا تھا۔

جوزف نے جب ڈرتے ڈرتے بیم و رجا کی کیفیت کے اندر روزینہ کے سامنے اپنی تجویز رکھی تو اس کے لیے دو راستے تھے اور بہتر یہ ہوتا کہ وہ اُن میں سے ایک راہ اپناتی۔ اس تجویز کو مسترد کر دیتی یا شرفِ قبولیت عطا کر دیتی۔ لیکن اس نے ان دونوں سے علی الرغم ایک تیسرا راستہ اختیار کیا۔ اس کی ہاں میں نا اور نا میں ہاں پوشیدہ تھی۔ وہ خود تو راضی تھی مگر اس رضامندی پر گھر داماد بن جانے کی شرط لگا کر اس نے جوزف کی تجویز کو والدین کی منظوری  سے مشروط کر دیا تھا۔ روزینہ سوچتے سوچتے بہت آگے نکل چکی تھی۔ پیپل کا وہ پیڑ کافی پیچھے رہ گیا تھا لیکن اس کا سایہ اس قدر طویل تھا کہ دفتر کے احاطے میں داخل ہوا چاہتا تھا۔

جوزف کی ننھی سی وصیت خزاں رسیدہ پیپل کے لیے بہار کا پیغام بن گئی تھی۔ وہ پھر ایک بار اپنے کڑوے کسیلے پھلوں کا نذرانہ لے کر روزینہ کے سامنے سر جھکائے دست بستہ کھڑا تھا۔ روزینہ سوچ رہی تھی، اس پیڑ میں اور جوزف میں کس قدر مشابہت تھی۔ لیکن اچانک اسے محسوس ہوا گویا پیڑ اس سے ہم کلام ہے۔ وہ اس سے کہہ رہا ہے:

’’نہیں روزینہ نہیں ۔۔۔ تمہاری سوچ درست نہیں ہے۔ میں تو نہ جانے کب سے یہیں کھڑا ہوا ہوں۔ دیکھو میرے پائے استقلال میں کبھی کوئی جنبش نہیں ہوتی۔ میں خود نہیں جانتا کہ کب تک یوں ہی اپنی جگہ ٹھہرے رہنا میرا مقدر ہے۔ لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں نے جہاں جنم لیا ہے، میں اُسی مقام پر ایک دن اپنا دم توڑ دوں گا، لیکن اپنی جگہ سے بالشت بھر بھی نہیں ہٹوں گا۔ میری مستقل مزاجی پر زمانہ گواہ ہے۔‘‘

روزینہ کو یاد آیا، پیپل کا یہ پیڑ تو جوزف کے الفاظ کو دوہرا رہا ہے جو اس نے روزینہ سے اس درخت کے سائے میں کہے تھے اور روزینہ نے ان پر اعتبار کر لیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ جوزف کی سرپرستی کا سایۂ عافیت دائماً اس کے سر پر رہے گا۔ لیکن جوزف کی کوئی بات اس پیڑ کی مانند سچی نہ نکلی۔ جوزف کی میٹھی میٹھی باتیں کیونکر سچی ہو سکتی تھیں ؟ اس جہانِ فانی میں ہر سچ کو کڑوا ہونا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کا علم اُسے جوزف کے چلے جانے کے بعد ہوا تھا۔ اُسے محسوس ہوا کہ جوزف کے وعدوں کی کڑواہٹ پیپل کے پھل سے کہیں زیادہ ہے مگر سایہ ندارد۔ روزینہ سوچ رہی تھی، مبادا یہ وہی پیڑ ہے جس کے قریب جانے سے بابا آدم اور ماں حوا کو منع کیا گیا تھا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور جس نے بالآخر حضرت انسان کو جنت سے نکلوا کر چھوڑا۔

 

۵

موکیا کے اندر کام کا عجیب و غریب کلچر تھا۔ سالانہ پارٹی کے دن بھی تمام ملازمین کے لیے لازمی تھا کہ وہ پہلے اپنے دفتر میں آئیں اور ایک گھنٹے کے اندر ضروری کاموں کو نبٹائیں۔ اہم مراسلت کے جواب دیں، ناگزیر فیصلے کر کے انہیں نافذ کریں اور پھر وسیع و عریض اجتماع گاہ میں جمع ہو جائیں۔ یہ ایک گھنٹہ سارے ملازمین کے لیے نہایت قیمتی ہوتا تھا۔ ہر کوئی اپنے کام میں جٹ گیا تھا۔ اس اہم اجتماع میں کوئی تاخیر سے پہنچنا نہیں چاہتا تھا اور نہ کسی کو یہ گوارہ تھا کہ اپنے کسی ضروری کام کو ادھورا چھوڑ کر جائے۔ سالانہ اجتماع کے اندر سال بھر کی کارکردگی لوگوں کے سامنے رکھی جاتی۔ نفع و نقصان کے اعداد و شمار سے ملازمین کو آگاہ کیا جاتا اور ساتھ ہی بونس کا اعلان بھی کیا جاتا۔ ایسا کون سا ملازم ہو سکتا ہے بھلا جسے مؤخر الذکر میں دلچسپی نہ ہو؟

بونس کی مثال زندگی کی اندھیاری گلیوں میں ایک چراغ کی سی تھی۔ تنخواہ سے تو گھر چلتا تھا، روزمرہ کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ لیکن بونس سے مستقبل کے خواب سجتے تھے۔ موکیا کے اندر اس روز ہر کوئی سپنوں کا ایک محل تعمیر کر رہا ہوتا تھا۔ ہر کوئی اس کے بارے میں سوچ رہا ہوتا جو ملنے والا تھا، جو ابھی نہیں ملا تھا۔ اس کے بارے میں شدید بے یقینی تھی، اس کے باوجود سوچ بچار کا عمل جاری و ساری تھا۔ ملازمین کے پُر اُمید ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گزشتہ تیس سالوں میں کبھی بھی موکیا کمپنی نے انہیں مایوس نہیں کیا تھا۔ ہر بار لوگ نہایت جوش و خروش کے ساتھ اس اجتماع میں جاتے اور خوش و خرم واپس ہوتے تھے۔

روزینہ نے اپنا کمپیوٹر کھول کر ای۔میل چیک کیا تو پتہ چلا حیرت انگیز طور پر کسی ضروری کام کا اضافہ نہیں ہوا تھا۔ کل کے کام وہ کل نبٹا کر گئی تھی اور آج اس کے سامنے کوئی ایسا کام نہیں تھا جس کا ابھی، اِسی وقت ہونا ضروری تھا۔ وہ سوچنے لگی، ان کاموں کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا وہ سب بھی جوزف کے ساتھ کسی نامعلوم مقام کی جانب کوچ کر گئے ہیں جن کے بارے میں وہ خود بے خبر ہوں ؟ اُس روز نہ جانے کیوں روزینہ کو ہر جگہ جوزف نظر آ رہا تھا۔ پیپل کا پیڑ یا کمپیوٹر کا مانیٹر، دونوں جوزف کی تصویر بن گئے تھے۔ روزینہ نے کمپیوٹر پر کنٹرول پینل کا بٹن دبایا اور اسکرین سیور پر سے جوزف کی مسکراتی ہوئی تصویر ہٹا دی جو بن بلائے نمودار ہو جاتی تھی۔ لیکن اس تصویر کو کسی اور سے تبدیل کرنا روزینہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ بالآخر اس نے اسے ایک سدا بہار پیپل کے پیڑ کی تصویر سے بدل دیا، جس کے نیچے دو نامعلوم سائے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ وہ کون تھے اور کیا کہہ رہے تھے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ خود روزینہ بھی نہیں۔ روزینہ نے ماؤس کو حرکت دے کر اپنے ڈاکیومینٹس کو کھولا تو اس میں جوزف نام کی فائل اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ اس نے سوچا لاؤ، اِسے بھی کوڑے دان کی نذر کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے اس کا جی چاہا، کیوں نہ اس میں بند تصویروں کو ایک بار دیکھ لیا جائے۔ آخری دیدار کی خواہش نے اسے ایک ایسے فولڈر کو کھولنے پر مجبور کر دیا جس میں اس کا ماضی تصویروں کی زبان میں گفتگو کرتا تھا۔

روزینہ لاشعوری طور پر تصویروں کے حصار میں گرفتار ہو گئی، جوزف اس تصویر میں کس قدر معصوم لگ رہا تھا جب وہ اس کی ماں میری سے ملنے کی خاطر آیا تھا، اور پھر وہ تصویر جس میں وہ جوزف کے ہمراہ اس کے والدین سے ملنے کے لیے گئی تھی، کس قدر بھولی بھالی لگ رہی تھی روزینہ۔۔۔ اور پھر اس کی سگائی اور شادی کی بے شمار تصویریں، جن میں ہر کوئی بے حد خوش نظر آ رہا تھا۔ ایک تصویر وہ بھی تھی جس میں جوزف کے والدین روزینہ کے گھر میں براجمان تھے۔ اب خوشی کی جگہ تناؤ نے لے لی تھی۔ جوزف کے والدین کو یہ توقع تھی کہ روزینہ شادی کے چند ماہ بعد اپنی والدہ سے بیزار ہو کر اُن کے بیٹے کا الگ سے گھر بسا لے گی جو اُن کا اپنا گھر بھی ہو گا یا اُن کے پاس آ جائے گی جو کہ جوزف کا پشتینی مکان ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ وقت کے ساتھ جوزف کے اندر پہلے تو احساسِ ندامت نے جنم لیا جو آگے چل کر احساسِ جرم میں تبدیل ہو گیا، جس کے ازالہ کی خاطر وہ کبھی کبھار اپنے والدین کے پاس جا کر رہ جاتا۔ روزینہ کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا لیکن جوزف کا یہ طریقۂ علاج بیماری سے بدتر تھا، اس لئے کہ وہ اس میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔

روزینہ کی اپنی ماں سے شدید محبت نے اوّل تو جوزف کے والدین کے اندر محرومی کے احساس کو جنم دیا جو آگے چل کر احساسِ شکست میں بدل گیا۔ جوزف بھی دھیرے دھیرے اپنے آپ کو شکست خوردہ محسوس کرنے لگا تھا۔ غیروں کے ہاتھوں ملنے والی ہار وقتی طور پر انسان کو غمزدہ کر دیتی ہے اور انسان کسی طرح اسے برداشت بھی کر لیتا ہے۔ لیکن خود اپنی اہلیہ کے ذریعہ ہاتھ آنے والی شکست تو ایک مستقل عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اس سے اُبھرنا انسان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے۔ جوزف کے لیے جب یہ صعوبت ناقابلِ برداشت ہو گئی تو اس نے روزینہ پر بلاواسطہ دباؤ ڈالنے کی غرض سے یہ تجویز رکھی کہ وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ روزینہ اس پر بصد شوق راضی ہو گئی اور کوئی اعتراض نہ کیا جس سے یہ وار خالی گیا۔ اب جوزف نے کہا کہ وہ چاہتا ہے روزینہ بھی اس کے ساتھ رہے۔ اس کے جواب میں روزینہ نے اسے شادی سے قبل کئے عہد و پیماں یاد دلا دئیے۔ جوزف نے روزینہ سے پوچھا کہ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی ماں کو بھی اس کے گھر منتقل ہونے پر راضی کر لے؟ روزینہ کا جواب نفی میں تھا۔ روزینہ کو اب محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اس نے کچھ زیادہ ہی بے لچک رویہ اختیار کر لیا تھا۔ لیکن اب یہ احساس بے معنی تھا۔

جوزف نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔ اب وہ آخری متبادل پر کام کر رہا تھا۔ اس نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنے والدین کو اس بات کے لیے تیار کر لیا کہ وہ روزینہ کے گھر منتقل ہو جائیں۔ جوزف کے والدین اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے اس پر با دلِ ناخواستہ راضی تو ہو گئے لیکن اس نئے گھر میں وہ اپنے آپ کو خانہ بدوش محسوس کرنے لگے تھے۔ پرائے گھر میں ان دونوں کا دم گھٹتا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار لیا کرتے تھے اور کسی طرح ایک دوسرے کا غم غلط کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اس مختصرسے خاندان میں ایک اور زلزلہ اس وقت  آیا جب جوزف کے والد کا ہسپتال میں معمولی سی بیماری کے بعد انتقال ہو گیا۔ جوزف کی والدہ نے اصرار کیا کہ اس کے شوہر کی لاش کو ہسپتال سے ان کے اپنے گھر لے جایا جائے اور وہیں اس کی آخری رسومات کو ادا کر کے قبرستان روانہ کیا جائے۔ یہ تجویز نہایت معقول تھی جس پر عمل درآمد ہوا۔ لیکن تدفین کے بعد جوزف کی والدہ نے نہایت درد انگیز انداز میں اپنے بیٹے سے التجا کی۔

’’بیٹے جوزف! اب تمہارے والد نہیں رہے۔ اب تو ایسا کر کہ مجھے اپنے پرانے گھر میں لے چل جہاں ان کی یادیں چہار جانب بکھری ہوئی ہیں۔ میں اُن کے سہارے کسی طرح اپنی باقی ماندہ زندگی گزار لوں گی۔‘‘

جوزف کے چہرے پر نمودار ہونے والے ناگواری کے آثار دیکھ کر وہ بولی۔ ’’بیٹے، اگر تیرے لیے یہ مشکل ہے تو ایسا کر کہ اپنے والد کی قبر کے بغل میں ایک اور قبر کھود کر مجھے بھی دفنا دے۔۔۔ یہ میرے لیے بہتر ہے۔‘‘

جوزف کے لیے یہ دوسرا صدمہ تھا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ اپنے پرانے گھر میں لوٹ آیا اور وہیں رہنے لگا۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں والد کا صدمہ کمزور ماں کا دم نہ توڑ دے اور اس کی اپنی حرکت سے وہ ایک اور سرپرست سے محروم ہو جائے۔

جوزف اور روزینہ کی ازدواجی زندگی اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔ ان کا معمول یہ بن گیا تھا کہ وہ دفتر میں ملتے، دونوں ایک ساتھ عشق و محبت کی باتیں کرتے ہوئے دفتر سے نکل کر پیپل کے پیڑ تک آتے جس کی ایک جانب روزینہ کا گھر تھا اور دوسری جانب جوزف کا۔ پھر اس کے بعد شب بخیر کہہ کر ایک دوسرے  سے جدا ہو جاتے۔ گویا وہ پیپل کا پیڑ، جس نے کبھی ان دونوں کو ملایا تھا، اب انہیں ہر روز جدا کر دیا کرتا تھا۔ روزینہ کو جوزف سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ وہ اس بات پر قانع تھی کہ کم از کم جوزف نے اس سے تعلقات کو مکمل طور منقطع نہیں کیا۔ اُس نے کلیّ نہ سہی تو جزوی تعلق پر اکتفا کر لیا تھا۔

یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن جوزف نے اپنے حدود سے تجاوز کر دیا۔ پیپل کا پیڑ گزر گیا لیکن جوزف کے قدم نہ رُکے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے رہے، یہاں تک کہ روزینہ کا گھر آ گیا۔ جوزف سیدھا میری کے پاس گیا، سلام کیا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ روزینہ اس منظر کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔ وہ باورچی خانے کے اندر داخل ہو گئی اور جوزف کی پسند کے کھانے بنانے لگی۔ جوزف اور میری کی باتوں کا سلسلہ یوں جاری ہوا کہ بس چلتا ہی رہا۔ وہ دونوں نہ جانے کیا کیا کہتے سنتے رہے، یہاں تک کہ روزینہ کھانا بنا کر لے آئی۔

اس روز روزینہ پھولی نہیں سما رہی تھی۔ اس لیے کہ وہ اس حسین منظر سے پوری طرح مایوس ہو چکی تھی۔ اس کے خواب و خیال میں بھی یہ نہ تھا کہ ایسا بھی کبھی ہو گا۔ جوزف کے انہماک کا یہ عالم تھا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس کی پسند کے سارے پکوان میز پر سجے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ میری بولی۔ ’’بیٹے، کیوں نہ ہم اپنی گفتگو کو کھانے کی میز پر جاری رکھیں ؟‘‘

روزینہ اپنی ماں کی زبان سے اس جملے کو سن کر خوشی سے پاگل ہو گئی۔ عرصۂ دراز کے بعد میری نے اپنی جگہ سے اُٹھنے کی خواہش کا از خود اظہار کیا تھا۔ وگرنہ صورتِ حال یہ تھی کہ وہ روزینہ کے اصرار پر بھی اپنے بستر سے نہ اُٹھتی تھی۔ روزینہ کے لیے حیرت کا یہ دوسرا جھٹکا تھا۔ جوزف اور روزینہ نے مل کر میری کو سہارا دیا اور کھانے کی میز تک لے آئے۔ ایک طویل مدّت کے بعد تینوں نے مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا۔ میری باتیں کرتے کرتے تھک چکی تھی۔ ان دونوں نے اُسے پھر اپنے بستر پر پہنچایا۔ جس وقت روزینہ اسے لحاف اُڑھا رہی تھی، اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ اس کے لبوں پر دو الفاظ تھے۔۔۔ شب بخیر۔۔۔ اور اس کے نحیف ہاتھوں میں جوزف کا ہاتھ تھا۔ جوزف اور روزینہ نے یک زبان ہو کر کہا شب بخیر امی، اور اپنی خوابگاہ میں آ گئے۔

روزینہ نے اس حیرت انگیز تبدیلی کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے وجہ معلوم کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور اسی کے ساتھ اس کے دل میں یہ اندیشہ بھی جنم لے رہا تھا مبادا کوئی ایسی  وجہ نہ سامنے آ جائے جو فرحت انبساط کے حسین لمحات کو غارت کر دے۔ جوزف کے ساتھ حاصل ہونے والے اس وصال کی قدر و قیمت میں اُن کے فراق نے غیر معمولی اضافہ کر دیا تھا۔ وہ اُن میں سے کسی کو غیر ضروری باتوں میں ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسے ڈر لگ رہا تھا کہ نہ جانے پھر کبھی یہ ساعتیں نصیب ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن جب تک اس کا جوزف اس کے ساتھ تھا، حزن و ملال کا وہاں کوئی کام نہ تھا۔ خوابوں کی رات سپنا بن کر گزر گئی اور جب صبح کا سورج طلوع ہوا تو اس کے سارے خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔ سارے اندیشوں کو وجود مل گیا تھا۔ جوزف ایک ننھی سی وصیت میز پر چھوڑ اپنی ماں کے ہمراہ نہ جانے کہاں جا چکا تھا۔ اس کی معذرت روزینہ کو منہ چڑا رہی تھی۔ روزینہ نے اُسے پھاڑ کر کوڑے دان کی نذر کر دیا  اور جوزف کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیا۔

روزینہ کا کمپیوٹر اس بات سے واقف نہیں تھا کہ جوزف کا وجود روزینہ کے لیے مفقود ہو چکا ہے۔ وہ اب بھی جوزف نام کی فائل کو اپنے دل میں چھپائے بیٹھی تھی۔ ماؤس کی ایک کلک نے اسے بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا لیکن پھر روزینہ کو خیال آیا یہ اس کی خوش گمانی ہے کہ فائل بے وجود ہو گئی ہے۔ وہ تو بس مائی ڈاکیومینٹ سے نکل کر ’’ری سائیکل بن‘‘ میں چلی گئی ہے۔ صرف مقام کا فرق واقع ہوا ہے اور دونوں کے درمیان بس پیپل کے پیڑ کا مہین سا فاصلہ ہے۔ روزینہ نے آگے بڑھ کر ’’ری سائیکل بن‘‘ کو کھولا اور وہاں سے بھی اسے کھرچنے کی کوشش کرنے لگی تو از راہِ انتباہ کمپیوٹر نے سوال کیا۔ ’’کیا آپ اس سے دائمی نجات کی طالب ہیں ؟‘‘ اس سوال کے جواب میں دو متبادل کمپیوٹر کی کھڑکی سے جھانک رہے تھے۔ روزینہ نے بلا توقف ’’جی ہاں ‘‘ کو ’’ہرگز نہیں ‘‘ پر ترجیح دی اور جوزف نہ صرف اس کے کمپیوٹر بلکہ اس کے دل سے اُتر گیا۔

 

۶

روزینہ کی دو سہیلیاں، سکینہ اور نذرینہ اس کے پشت پر کھڑی یہ سارا تماشہ دیکھ رہی تھیں۔

جیسے ہی روزینہ کا ماؤس پر سے ہاتھ اُٹھا، نذرینہ نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’بہت خوب مائی ڈئیر لیڈی روزینہ۔ ہمیں آپ کی جرأت اور دلیری پر ناز ہے۔‘‘

روزینہ نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو سکینہ کہہ رہی تھی۔ ’’ایسا بھی کیا غصہ؟ آج ایک دن جوزف دفتر کیا نہیں آیا کہ تم نے اسے اپنے کمپیوٹر سے نکال باہر کیا؟‘‘

نذرینہ چہک کر بولی۔ ’’کمپیوٹر تو ٹھیک ہے لیکن کہیں اس غریب کو دل سے نہ نکال دینا۔۔۔ اس لیے کہ جو شہ وہاں سے ایک بار نکل جاتی ہے وہ پھر روح کی طرح  جسم میں لوٹ کر واپس نہیں آتی۔‘‘

روزینہ ان کی باتیں سن کر مسکراتی رہی اور بولی۔ ’’باتوں کا بتنگڑ بنانا تو کوئی تم دونوں سے سیکھے۔۔۔‘‘ اور کمپیوٹر بند کرتے ہوئے بولی۔ ’’وہ تو اچھا ہوا میں کچھ لکھ نہیں رہی تھی، ورنہ نہ جانے کون سا وبال ہو جاتا؟‘‘

سکینہ نے ناراض ہو کر کہا۔ ’’اب ہمیں ایسا بُرا بھی نہ سمجھو کہ ہم تمہاری خط و کتابت پڑھنے لگیں۔‘‘

کمپیوٹر کو بند ہوتا ہوا دیکھ کر نذرینہ بولی۔ ’’اوہو۔۔۔ اب تو اسکرین سیور بھی بدل گیا ہے۔ ضرور کوئی خاص بات ہے؟‘‘

روزینہ نے موضوع کو بدلتے ہوئے کہا۔ ’’آج بونس کا دن ہے اس لئے فضول کی باتیں چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ اب کی بار بونس کتنا ملنے والا ہے؟‘‘

نذرینہ بولی۔ ’’روزینہ تمہارا سوال تو یقیناً اہم ہے، مگر اس سوال کا جواب دینا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے کہ ہماری اس کمپنی میں کوئی دو افراد ایسے نہیں ہوتے جن کا بونس یکساں ہوتا ہو۔‘‘

سکینہ نے تائید کی اور بولی۔ ’’لیکن اس کی ایک معقول وجہ ہے۔‘‘

نذرینہ نے تردید کرتے ہوئے کہا۔ ’’وجہ ضرور ہے لیکن ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے جو یہ احمقانہ طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے، اسے معقول کہنا درست نہیں ہے۔‘‘

’’کیوں ۔۔۔؟ اس میں ایسی کیا خرابی ہے جو تم اس قدر چراغ پا ہو رہی ہو؟‘‘ سکینہ نے پوچھا۔

’’خرابی۔۔۔؟ کوئی ایک آدھ خرابی ہو تو انسان اس کی نشاندہی کرے! لیکن یہاں تو سارا نظام ہی چوپٹ ہے۔‘‘ نذرینہ کے اندر کسی یونین لیڈر کی روح بول رہی تھی۔ ’’ایک فرد کے کام کو جانچنے کے لئے مختلف افراد سے مختلف قسم کے سوالات کئے جائیں اور اُن میں وہ خود بھی شامل ہوتا ہے۔ ان سوالات کا نہ کوئی سر ہو نہ پیر اور اُن میں سے ہر سوال پر کتنے نمبر مختص ہیں، اس کا علم صرف سوال کرنے والے کو ہوتا ہے۔ جواب دینے والا مکمل تاریکی میں ہوتا ہے۔‘‘

روزینہ نے نذرینہ کی تائید کی اور بولی۔ ’’یہ صحیح بات ہے۔ ان معروضی سوالات کے جوابات ایک کمپیوٹر کے حوالے کر دینا اور اس کا بونس طے کر دینا۔۔۔ یہ تو سراسر میکانکی طریقۂ کار ہے جس میں انسانی جذبات و احساسات کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔‘‘

سکینہ بولی۔ ’’ویسے انسانوں کی دخل اندازی ہی اکثر اقربا پروری اور جانبداری کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے اس کا کم سے کم ہونا میرے خیال میں اس نظام کا مثبت پہلو ہے۔ یہ کہنا کہ اس میں انسانوں کی پسند و ناپسند کا دخل نہیں ہے، خلافِ حقیقت ہے۔ اس طریقۂ کار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ممتحن کا انتخاب خود کرتا ہے، وہ خود ان لوگوں کے نام تجویز کرتا ہے جن سے اس کے بارے میں سولات کیے جائیں۔ اب اس کے منتخبہ ممتحن ہی اس کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوں تو نظام کا کیا قصور؟‘‘

نذرینہ کو سکینہ کی وکالت پر غصہ آ گیا۔ وہ بولی۔ ’’اب بس بھی کرو۔۔۔ میں جانتی ہوں اس سال سب سے زیادہ بونس تم ہی کو ملنے والا ہے۔ تم جسے خوبی بتلا رہی ہو وہ میری نظر میں عیب ہے۔ جب کسی کو اپنے ممتحن کا انتخاب کرنا ہوتا ہے وہ ڈنڈی مار جاتا ہے۔ جو لوگ اس سے ناراض ہوتے ہیں اُن کو منتخب نہیں کرتا اور جو خوش ہوتے ہیں اُنہیں نامزد کر دیتا ہے۔ ایسے میں کارکردگی پر مقبولیت کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’نذرینہ۔۔۔ آج تو تم کچھ زیادہ ہی تنقید پر اُتر آئی ہو۔ تم یہ کیوں بھول جاتی ہو کہ ممتحن کے انتخاب کی آزادی تو ہر کسی کو حاصل ہے، مگر سوالات کے تعین میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ نیز، سوالات کی نوعیت اس طرح کی ہوتی ہے کہ تبصرہ اپنے آپ ذات سے ہٹ کر کام پر ہونے لگتا ہے۔‘‘

جب نذرینہ کے سارے دلائل اوندھے منہ گر گئے تو وہ  لڑائی جھگڑے پر تل گئی اور بولی۔ ’’اب بس بھی کرو۔ تم لوگوں کا معاملہ ہی چائے سے گرم کیتلی کا سا ہے۔ کمپنی کے اچھے اور بُرے کام کو جواز فراہم کرنے کا فرضِ منصبی تم لوگوں نے از خود اپنے اُوپر اوڑھ لیا ہے۔ کل کو اگر کمپنی نے یہ طریقۂ کار بدل دیا، تب جا کر تم لوگوں کو اس میں کیڑے نظر آئیں گے، اس سے پہلے نہیں۔‘‘

سکینہ نے اسے چھیڑا اور بولی۔ ’’نذرینہ۔۔۔ یہ کمپنی کوئی احمق لوگ تو نہیں چلاتے۔ اگر کل کو وہ اس نظام کی جگہ کوئی بہتر طریقہ رائج کر دیں تو ایسے میں ہمیں اس کا اچھا لگنا فطری عمل ہے۔ اس میں نہ ہمارا کوئی قصور ہے اور نہ ہی اس سسٹم کا۔‘‘

نذرینہ بولی۔ ’’جی ہاں ! سارا قصور میرا ہے جو میں منطقی انداز میں غور کرتی ہوں اور چیزوں کی تہہ میں جانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اب جی حضوری کرنے والے تم جیسے لوگوں کو میں صحیح لگ ہی نہیں سکتی۔‘‘

روزینہ نے جواب دیا۔ ’’نہیں نذرینہ ایسی بات نہیں۔ تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم کسی بھی معاملے میں غور و خوض کرنے سے قبل اپنا نقطۂ نظر طے کر لیتی ہو اور پھر اُس عینک کو لگا کر صورتِ حال کا مطالعہ کرتی ہو جس سے تمہیں حقیقت تک رسائی میں دِقت ہوتی ہے اور اس کے لیے تم خود ذمہ دار ہو۔ مثلاً تین سال قبل جب ہماری کمپنی کو اسکاٹ لینڈ کے سرواٹسن میکارڈے نے خریدا تو تم نے اسے بلاوجہ اپنی قومی توہین سمجھ لیا۔ حالانکہ وہ خالص کاروباری معاملہ تھا۔ سارے لوگ خوشی منا رہے تھے کہ اب موکیا کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن تم اس پر شکست کا ماتم کر رہی تھیں۔ اس کے بعد ہماری کمپنی نے واقعی ترقی کر کے اہم سنگِ میل پار کئے لیکن تم ان کا اعتراف کرنے کے بجائے نئے انتظامیہ کے ہر اقدام کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی رہیں، نامعلوم اندیشوں کا شکار ہو کر ان میں کیڑے نکالتی رہیں۔‘‘

نذرینہ کا پیمانۂ صبر اِس تقریر سے لبریز ہو گیا اور وہ بولی۔ ’’روزینہ! میں تمہارے اِس قصیدے کو مزید سننا نہیں چاہتی، اِس لئے اب تم اپنی یہ چونچ بند کرو۔ مجھے تم جیسے چاپلوس لوگوں سے کسی اور کلمہ کی توقع ہی نہیں ہے۔ اس کمپنی کی ملکیت میں تغیر ہماری قومی حمیت پر ایک بدنما داغ ہے۔ میرا خون کھول جاتا ہے جب مجھے یاد آتا ہے کہ ہماری سب سے بڑی صنعت پر ایک غیر ملکی اژدھا پھن پھیلائے بیٹھا ہے۔‘‘

سکینہ نے کہا۔ ’’اگر کمپنی کا مالک اژدھا ہوتا ہے تو ہوتا ہے۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آیا وہ اژدھا ہم وطن ہے یا غیر ملکی؟ اس لئے کہ زہر کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔‘‘

نذرینہ بولی۔ ’’تم جیسے غلاموں کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن ہم جیسے غیور لوگوں کے لیے تو یہ گالی ہے۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’دیکھو نذرینہ ہم یہاں کوئی حب الوطنی کا نغمہ گانے کے لیے تو نہیں آتے۔ ہم یہاں کام کرنے کے لیے آتے ہیں اور کام کرتے ہیں، اس کا معاوضہ لیتے ہیں۔ نہ احسان کرتے ہیں اور نہ کسی کا احسان اُٹھاتے ہیں۔‘‘

سکینہ بولی۔ ’’ہاں، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ہمارا مالک ہماری کوششوں کو سراہے۔ ہمارے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرے اور ہمارے ساتھ اچھی طرح پیش آئے تاکہ ہم بھی اُسے وہی سب لوٹا سکیں اور ایک خوشگوار ماحول میں کام چلتا رہے۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سرواٹسن کے آنے کے بعد ان تمام معاملات میں بہتری آئی ہے۔‘‘

نذرینہ نے سکینہ کے خلاف احتجاج بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’’سکینہ! تم نے مجھے یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ تم غلام بنتِ غلام بنتِ غلام ہو۔۔۔‘‘

نذرینہ کی یہ گردان ابھی جاری ہی تھی کہ زوردار الارم گونج اُٹھا جو اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ اب اجتماع گاہ میں پہنچنے کے لیے صرف پانچ منٹ کا وقفہ باقی ہے۔ تینوں سہیلیوں نے اپنی گرما گرم بحث کو اچانک بریک لگایا اور اس آڈیٹوریم کی جانب چل پڑیں جسے آج کی تقریب کے لیے دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔

سارے ملازمین قبل از وقت اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے، سوائے درمیانی نشست کے جو کہ خالی تھی۔ اس لئے کہ سرواٹسن میکارڈے ابھی نہیں آئے تھے۔ زبردست تالیوں کی گونج کے درمیان کمپنی کے جنرل منیجر ڈیوڈ مانسمن کو مائک پر آنے کی دعوت دی گئی۔ ڈیوڈ نے سال بھر کی کارکردگی پر اعداد و شمار کی مدد سے روشنی ڈالی اور ہر مرحلے پر ملازمین کو کھلے دل کے ساتھ سراہا۔ لوگ خوشی کے باعث پھولے نہیں سما رہے تھے، لیکن نذرینہ کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا گویا واٹسن نے آج کی تقریب میں غیر حاضر رہ کر سارے ملازمین کی توہین کی ہے۔ یہ کس قدر خودسر اور مغرور انسان ہے جس نے اس اہم تقریب کے لیے بھی اپنے آپ کو فارغ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ تو نہ صرف موکیا کی برسوں پرانی روایت کے خلاف تھا بلکہ ایک قومی توہین تھی۔ آخر یہ اسکاٹش سرمایہ دار اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ دولت کی ریل پیل نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ وہ ایسے مواقع پر بھی ہمارے درمیان آنا ضروری نہیں سمجھتا جبکہ اس کا ہر ایک غلام یہاں اس کی آمد کا منتظر ہے۔ اس کے خدشات کی نشوونما ہو رہی تھی۔ نفرت کے باغ میں گویا بادِ بہاری چل رہی تھی۔ نذرینہ کا ذہن کانٹوں کا چمن بن چکا تھا اور خوب لہلہا رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی، ویسے بھی میکارڈے کو ہم سے کیا غرض؟ اس کو تو اس منافع سے مطلب ہے جو ہمارے خون پسینے سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی تجوری میں بند ہو جاتا ہے۔ نذرینہ طبعی طور پر ہال کے اندر تو ضرور تھی مگر اس کا دماغ کسی اور جہاں کی سیر کر رہا تھا۔ بیچ بیچ میں بجنے والی تالیوں کی گونج پر وہ پیچ و تاب کھاتی تھی لیکن پھر کر بھی کیا سکتی تھی؟

نذرینہ ڈیوڈ مانسمن سے بھی خفا تھی۔ حالانکہ ڈیوڈ نہ ہی غیر ملکی تھا اور نہ سرمایہ دار، وہ بھی نذرینہ ہی کی طرح ایک ملازم تھا۔ نیز اپنی  نجی سکریٹری کی حیثیت سے نذرینہ کا بہت خیال رکھتا تھا۔ نذرینہ کو ڈیوڈ پر غصہ اس لیے آتا تھا کہ وہ بھی سکینہ اور روزینہ کی مانند سرواٹسن کا دلدادہ تھا۔ وہ نذرینہ کی مانند واٹسن سے نفرت نہیں کرتا تھا۔ ڈیوڈ نے گزشتہ تین برسوں کے اندر نذرینہ کے اندر آنے والی ان تبدیلیوں کو محسوس کر لیا تھا، لیکن وہ اس پر صرفِ نظر کرتا رہا تھا۔ دس سال قبل کالج کیمپس کے اندر ہونے والے انٹرویو میں ڈیوڈ نے نذرینہ کا انتخاب محض اس لیے کیا تھا کہ بھولی بھالی نذرینہ میں اسے اپنی وہ بیٹی نظر آتی تھی جو شادی کے بعد امریکہ کے اندر جا بسی تھی۔ نذرینہ کے اندر ڈیوڈ نے اپنی بیٹی کو دیکھا اور اسے اپنا سکریٹری بنا لیا۔ وہ اس کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آتا اور نذرینہ بھی دفتر کے اندر اس کی بیٹی بن جاتی، لیکن یہ سب تین سال قبل کی باتیں ہیں۔

واٹسن کی آمد کے بعد نذرینہ نے سب سے پہلے ڈیوڈ کے سامنے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا اور اسے ملازمت کو لات مار دینے کی تلقین کی۔ حالانکہ اسے نہ تو اس کا اخلاقی حق تھا اور نہ وہ عمر یا تجربہ میں اس کی اہل تھی۔ کمپنی میں اس کی حیثیت ایک معمولی سکریٹری کی تھی۔ اس کے باوجود ڈیوڈ نے ان سب باتوں کا خیال نہیں کیا اور اسے سمجھایا۔ ’’دیکھو بیٹی! ہم لوگ ملازم ہیں۔ ہمارا کام ایمانداری کے ساتھ محنت کرنا اور اپنا معاوضہ لینا ہے۔ پہلے ہمارا مالک مارٹن میکاچوف تھا۔ وہ گو کہ ہمارا ہم وطن تھا، لیکن اس کا مقصد بھی اس کمپنی سے منافع کمانا تھا اور اب واٹسن ہے، اس کا بھی وہی مقصد ہے۔‘‘

’’لیکن سر اُن دونوں میں ایک اور فرق بھی ہے کہ ایک غیر ملکی ہے اور دوسرا   ہم وطن تھا۔‘‘

’’ہاں، یہ فرق تو ہے۔ لیکن تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی سرکاری کمپنی نہیں بلکہ نجی صنعت ہے اور اس کا مالک مارٹن میکاچوف تھا اور اس نے راضی خوشی اس کمپنی کو واٹسن کے ہاتھ فروخت کر دیا۔‘‘

’’ہاں سر! میں جانتی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مارٹن جو چاہے کرے۔ وہ مالک ہے تو کیا ہوا، ہم بھی تو اس کے ملازم ہیں، ہمارا بھی تو کوئی حق بنتا ہے۔‘‘

ڈیوڈ بولا۔ ’’بیٹی۔۔۔ کون کہتا ہے کہ ہمارا حق نہیں بنتا۔ لیکن ہمارا حق ہم پر ہے یا اُن چیزوں پر جو ہماری اپنی ہیں۔ مثلاً یہ میرا اختیار ہے کہ میں اس کمپنی میں کام کروں یا نہ کروں ؟ اگر کل کو میں اسے چھوڑنے کا ارادہ کرتا ہوں تو واٹسن یا مارٹن میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ مجھے کام پر رکھیں یا نہ رکھیں۔ اگر کل کو وہ مجھے جانے کے لیے کہتے ہیں تو میں اُن کا بال بھی بانکا نہیں کر سکتا۔ ہم میں سے ہر شخص اپنے دائرۂ اختیار میں آزاد و خود مختار ہے، دوسرے کے دائرۂ عمل میں نہیں۔‘‘

’’سر۔۔۔ بات ہماری کمپنی کے ایک غیر ملکی فرد کے اختیار میں چلے جانے سے شروع ہوئی تھی، لیکن کہیں اور پہنچ گئی۔‘‘

’’جی نہیں ۔۔۔ بات وہیں ہے۔ اس کمپنی کا مالک مارٹن تھا اور اسے یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر چاہے تو اسے چلائے یا بند کر دے اور اگر ضروری سمجھتا ہے تو فروخت کر دے۔ اب اگر ہمیں اس کا فیصلہ منظور ہے تو ہم اس کے ساتھ منسلک رہیں یا اس کا ساتھ چھوڑ دیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم جب تک دوسروں کی آزادی کا احترام کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہماری اپنی آزادی کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔‘‘

نذرینہ ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہ بولی۔ ’’سر۔۔۔ لیکن کیا آپ ایک ہم وطن اور غیر ملکی میں کوئی فرق نہیں کرتے؟‘‘

’’کرتا ہوں۔‘‘ ڈیوڈ بولا۔ ’’لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب تک یہ گائے دُودھ دیتی رہی، مارٹن نے اس کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور جیسے ہی وہ کمزور ہوئی، اُس نے اسے قصائی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔‘‘

نذرینہ ڈیوڈ کی اس مثال سے خوش ہو گئی اور بولی۔ ’’تو سر! آپ بھی اسے تسلیم کرتے ہیں کہ واٹسن ایک قصائی ہے جو اس گائے کو ذبح کرنے کے لیے آیا ہے۔‘‘

ڈیوڈ بولا۔ ’’جی ہاں نذرینہ! میرا یہی خیال تھا، لیکن اب بدل گیا ہے۔‘‘

’’اچھا، تو اب آپ کیا سوچتے ہیں۔‘‘ نذرینہ نے پوچھا۔

’’مارٹن نے جہاز میں سوراخ ہوتے ہی گھبرا کر اُسے بیچ دیا، جبکہ واٹسن نے اسے خرید کر ڈوبنے سے بچا لیا۔ تم خود ہی سوچو کہ اگر واٹسن اسے نہیں خریدتا اور یہ کمپنی بند ہو جاتی تو ہمارا کیا ہوتا؟‘‘

ڈیوڈ کی اس منطق نے نذرینہ کو باؤلا بنا دیا، لیکن ڈیوڈ کے سامنے وہ اپنی آواز بلند نہ کر سکتی تھی۔ اس لئے پیر پٹخ کر باہر آ گئی۔ ڈیوڈ کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کی بیٹی ثمینہ نے بھی یہی کیا تھا جب ڈیوڈ نے اسے امریکی لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ پیر پٹختے ہوئے اس کے گھر سے کیا نکلی کہ براعظم یوروپ سے نکل کر امریکہ پہنچ گئی اور گئی بھی ایسے کہ پھر لوٹ کر کبھی نہیں آئی۔ اب ثمینہ کی جگہ نذرینہ نے لے لی تھی۔ اس لئے ڈیوڈ اس کی کسی بات کا بُرا نہیں مانتا تھا۔ اس روز نذرینہ نے اپنے کمپیوٹر کے اسکرین سیور سے ڈیوڈ کی تصویر ہٹا کر ایک خزاں رسیدہ چمن کی تصویر لگا لی تھی اور اپنے آپ کو ڈیوڈ کی بیٹی سے محض ایک سکریٹری کے مقام پر فائز کر دیا تھا۔

ڈیوڈ جانتا تھا کہ اسے نذرینہ کے اس فیصلے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نذرینہ کی دفتری ذمہ داریوں میں نہ یہ شامل تھا کہ وہ ڈیوڈ کو اپنا باپ سمجھے اور نہ یہ کہ اس کی تصویر کو عقیدت سے اپنا اسکرین سیور بنائے۔ نذرینہ کی ان ساری حرکات کے باوجود اس کے تئیں ڈیوڈ کے رویہ میں کوئی فرق واقع نہ ہوا تھا۔ اس کے لیے آج بھی نذرینہ کی حیثیت ثمینہ جیسی ہی تھی۔ ڈیوڈ کی تقریر اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئی تھی۔ اس نے خاتمۂ کلام میں سارے ملازمین کی خدمت میں سرواٹسن میکارڈے کی معذرت پیش کی اور انہیں اطلاع دی کہ وہ وقفۂ طعام کے بعد ہمارے درمیان موجود ہوں گے اور ہم سب سے ایک اہم ترین مسئلہ پر خطاب فرمائیں گے، ساتھ ہی ڈیوڈ نے سب سے درخواست کی کہ وہ کھانے سے فارغ ہو کر دوبارہ ہال میں تشریف لائیں۔

 

۷

ڈیوڈ کے بعد منیجر برائے انسانی وسائل اسٹوین کو مائک پر بلایا گیا۔ اسٹوین نے ۳۶۰؍ درجہ پر محیط ملازمین کی کارکردگی کو جانچنے کے طریقۂ کار کی وضاحت کی اور اس مہم میں شریک ہونے والے ملازمین کا شکریہ ادا کیا۔ اسٹوین نے بتلایا کہ ہر فرد کے کام سے متعلق دس افراد سے رائے معلوم کی گئی ہے جن میں سے سات کا تعلق اندرونِ دفتر سے ہے تو تین بیرونی افراد ہیں۔ مثلاً گاہک، سامان کی رسد پہنچانے والے یا سرکاری ملازمین، جس کا جس کسی سے سابقہ پیش آتا۔ اسٹوین نے اعادہ کیا اس طریقۂ کار میں اپنے ممتحن کا انتخاب ہم میں سے ہر ایک نے کیا اور اگر کسی نے اس پروگرام میں حصہ لینے سے معذرت ظاہر کی تو اسے بدل دیا گیا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایسا کرنے والوں کی تعداد ایک فیصد سے کم ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سارے ملازمین اس ذمہ داری کو بصد شوق ادا کرتے ہیں۔ نتائج کا اعلان کرنے سے قبل اسٹوین نے بڑے فخر سے انکشاف کیا کہ موکیا میں جس ملازم کو سب سے کم بونس ملے گا، وہ بھی ہمارے حریفِ اوّل موٹورولا اور سامسنگ کے سب سے زیادہ بونس پانے والے ملازم سے زیادہ ہو گا۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ہماری کمپنی اپنے افراد کی محنت و صلاحیت کی کس قدر پذیرائی کرتی ہے۔ اس اعلان پر روزینہ اور سکینہ نے مڑ کر اپنے درمیان میں بیٹھی ہوئی نذرینہ کی جانب دیکھا۔ لیکن وہ احمق خلاؤں میں نہ جانے کیا دیکھ رہی تھی۔ سارا ہال تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونج رہا تھا، مگر اس کے کان بہرے ہو چکے تھے۔

اب نتائج کے اعلان کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے کم نمبر اور کم بونس پانے والے ۲۴ افراد کے کوڈ نمبر سامنے لگے پردے پر نمودار ہوئے۔ اس طریقۂ کار کا فائدہ یہ تھا کہ ہر فرد کو یہ تو پتہ چل جاتا تھا کہ اسے کتنا بونس ملا ہے، لیکن نہ دوسروں کو اس کا پتہ چلتا تھا اور نہ اس کو دوسروں کا، اس لیے کہ ہر ایک کا کوڈ نمبر صرف اُسی کو کمپیوٹر کے ذریعہ بتلایا گیا تھا۔ اس فہرست میں نذرینہ کا نمبر بھی تھا لیکن اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ فہرست کے بعد ان کو ملنے والی رقم کا اعلان بھی ہوا۔ ہال تالیوں سے ضرور گونجا لیکن اس پر جوش و خروش کے بجائے شکست و ریخت کا سایہ تھا۔ اس کے بعد ان سے زیادہ بونس پانے والے ۸۵۱؍ لوگوں کی فہرست ظاہر ہوئی جو گزشتہ کے مقابلے ۵۰ فیصد زیادہ کے مستحق ہوئے تھے۔ اس بار جو تالیاں بجیں، اُن میں فتح و کامرانی کا ہلکا سا عنصر شامل ہو گیا تھا۔ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ اپنی کامیابی کو دوسروں کے تقابل سے جانچتا ہے۔ اسے چاہے جو مل جائے، اگر اس کے اپنے ساتھیوں سے کم ہے تو غمگین ہو جاتا ہے اور اس کا جو چاہے کھو جائے، اگر دوسروں سے کم ہے تو خوش ہو جاتا ہے۔ دراصل انسان اپنے کھونے یا پانے سے زیادہ اہمیت اوروں کی کامیابی و ناکامی کو دیتا ہے۔ غیروں کو از خود اپنے لیے کسوٹی بنا لیتا ہے اور اپنے آپ کو ان کے حوالے کامیاب و ناکام قرار دیتا ہے۔ حالانکہ ہر ایک کا اپنا مقدر جدا جدا ہے۔ کسی کا کسی سے کوئی تعلق نہیں، لیکن احمق انسان اس حقیقت کو نہیں جانتا اور اگر جانتا بھی ہے تو نہیں مانتا۔

نت نئی فہرستوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہر نئی فہرست کے لوگ گزشتہ پر اپنی فتح کا جشن مناتے، لیکن جیسے جیسے یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، خوش ہونے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی رہی۔ اس کے برعکس خوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور بیچارے مایوس ہونے والے، تو ان کی کمیت و کیفیت دونوں میں بتدریج بڑھ رہی تھیں۔ پردے پر تو صرف نمبر نمودار ہو رہے تھے۔ لیکن اس کھیل میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے اپنے نمبر کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح اپنے حریف ملازم کا نمبر بھی معلوم کر لیا تھا اور ان تمام لوگوں کو ہال میں اپنے حریف کے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہ آتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو بھی بھول گئے تھے۔ اس دوران اسٹوین نے کہا۔

’’مجھے امید ہے کہ آپ تمام نے اپنے کوڈ نمبر کو کسی نہ کسی فہرست میں دیکھ لیا ہو گا۔ میں انتظامیہ کی جانب سے آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں اور اب اُس خوش قسمت کا اعلان کرتا ہوں جس کا نمبر کسی فہرست میں نہیں تھا۔ اس لئے کہ وہ فرد موکیا کی عظیم ترین چوٹی پر تنہا کھڑا ہوا ہے۔ اس کا کوئی ساجھی، کوئی شریک نہیں۔ میرا مطلب اس سال کا ’’مین آف موکیا‘‘۔۔۔ یہ ایک ایسا خطاب ہے دوستو کہ جس کو پانے کے لیے اور جس کے بارے میں جاننے کے لیے نہ صرف اس ہال کے لوگ بیتاب ہیں، بلکہ ساری دُنیا کی نگاہیں اس کی جانب لگی ہوئی ہیں اور ابھی چند لمحے بعد اس کا شمار دُنیا کے مقبول ترین لوگوں کے اندر ہو جائے گا۔ آج رات سارے ٹی۔وی چینلس سے اس کی تصویر نشر ہوں گی۔ اس کے انٹرویو کا ایک ایک لفظ موتیوں کی مانند چنا جائے گا۔ کل جو ہر اخبار کی زینت بنے گا، جسے لوگ نہ صرف حسرت و شوق بلکہ رشک و یاس سے دیکھیں گے۔‘‘

روزینہ جانتی تھی کہ یہ سب جھوٹ اور لاعلمی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ وہ بے حد اُداس ہو گئی تھی۔ اسٹوین بتلا رہا تھا کہ بعد از طعام سرواٹسن میکارڈے خود اس کے نام کا اعلان کریں گے اور اسے اپنے ہاتھوں سے انعام و اکرام سے نوازیں گے اور اس شخص کے بونس کا تعین چونکہ کمپیوٹر نہیں بلکہ وہ بذاتِ خود کرتے ہیں، اس لئے اس بابت صرف اور صرف وہی سب کچھ جانتے ہیں، ہم کچھ نہیں جانتے۔

روزینہ نے کہا۔ ’’اس معاملے میں اسٹوین اور واٹسن میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، اس لئے کہ دونوں کچھ نہیں جانتے۔‘‘

طعام کے وقفے کے اعلان سے قبل ہی روزینہ اُٹھ کر حمام کی جانب چلی گئی۔ اس کی آنکھیں ساون بھادوں بن گئی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش جوزف نے اپنا فیصلہ ایک دن کے لیے ملتوی کر دیا ہوتا۔۔۔ صرف اور صرف ایک دن کے لیے۔۔۔ خود اپنے لیے۔۔۔ اپنی ماں کے لیے۔۔۔ اسے ایسا کرنا چاہئے تھا۔ لیکن افسوس کہ روزینہ اسے ایک دن مزید روک نہ سکی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتی تو ایسا کر سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ جوزف اس کی درخواست کو کبھی بھی رد نہیں کر سکتا تھا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ روزینہ نے اس سے کبھی کوئی درخواست ہی نہیں کی تھی۔ درخواست تو جوزف کی جانب سے آتی تھی اور وہ انہیں شرفِ قبولیت عطا کرنے کا اعلان کر دیتی تھی۔

بیچارہ جوزف آئے دن کوئی نہ کوئی التجا روزینہ سے کرتا، جن میں سے کچھ وہ منظور کر لیتی اور کچھ ٹھکرا دیتی۔ اپنے اس حق کے استعمال کا موقع روزینہ نے جوزف کو کبھی دیا ہی نہ تھا۔ وہ تو ہمیشہ ہی اس سے محروم رہا۔ ایسا لگتا ہے محرومیت ہی جوزف کا مقدر تھی۔ زندگی کے ہر موڑ پر نہ جانے کہاں سے محرومیت نمودار ہوتی اور اسے اپنی آغوش میں لے لیتی تھی۔

سکینہ اور نذرینہ نے روزینہ کو ندارد پایا۔ وہ اس خیال سے  طعام گاہ کی جانب چل پڑیں کہ آخر آنا تو اسے وہیں ہے۔ نذرینہ نے پوچھا۔ ’’یہ روزینہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح کہاں غائب ہو گئی؟‘‘

سکینہ بولی۔ ’’وہ اپنے سکون کی تلاش میں نکل گئی ہو گی۔ جوزف سے ملے بغیر اسے چین کہاں نصیب ہوتا ہے؟‘‘

’’ارے ہاں !‘‘ نذرینہ بولی۔ ’’جوزف تو صبح سے ہی نظر نہیں آیا۔ شاید کسی وجہ سے تاخیر ہو گئی ہو۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ فی الحال وہ بھی روزینہ کو تلاش کر رہا ہو گا۔‘‘

’’ہاں نذرینہ! مجھے بھی یہی لگتا ہے، عجیب و غریب جوڑی ہے یہ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں سے شمع کون ہے اور پروانہ کون ہے؟ دونوں ہی ایک دوسرے پر مر مٹنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔‘‘

دونوں ہی سہیلیاں اس امر میں ایک دوسرے سے متفق تھیں اور غلطی پر تھیں۔ اس داستانِ عشق کے پروانے نے کل رات کے اندھیرے میں اپنی شمع کو بجھا کر تاریکی کی نذر کر دیا تھا اور اس عظیم حادثے پر شمع کی آنکھوں میں ایک آنسو کی سوغات بھی نہیں تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ شمع اپنے اوپر مر مٹنے والے پر آنسو بہاتی ہے، لیکن روزینہ نے اس غلط فہمی کو دُور کر دیا تھا۔ اب، جبکہ روزینہ آنسوؤں کے سیلاب میں غوطہ زن تھی، بہت دیر ہو چکی تھی۔ پانی سر سے اُونچا ہو چکا تھا۔ کسی محبت کا انجام ایسا عبرتناک بھی ہو سکتا ہے، یہ کسی نے سوچا نہ تھا۔ روزینہ کو اس بات کا غم نہیں تھا کہ جوزف اس کی زندگی کو تاریک کر کے کہیں اور کیوں چلا گیا؟ لیکن اسے اس بات کا افسوس ضرور تھا کہ جوزف نے خود اپنے مستقبل کو کیوں تاریکی میں جھونک دیا۔ اس کے سورج پر عروج کی بلندیوں کے دن گہن لگ گیا تھا اور گہن بھی ایسا کہ اس نے سورج مکمل طور پر نگل لیا تھا۔ روزینہ سوچ رہی تھی کہ کہیں وہ گہن اس کی اپنی ذات تو نہیں ہے؟

انسان جس سے محبت کرتا ہے، اس کا فائدہ اُسے اپنے فائدے سے زیادہ عزیز تر ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنا خسارہ کر کے اپنے محبوب کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس کی خوشی کی خاطر اپنے آپ کو غمزدہ کر لیتا ہے۔ آج سے پہلے روزینہ کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، لیکن آج اچانک سب کچھ بدل گیا تھا۔ روزینہ کو بالکل بھی یاد نہ تھا کہ وہ کس فہرست میں تھی اور اسے کتنا بونس ملا تھا۔ اپنی ذات سے بے نیاز روزینہ جوزف کا نمبر تلاش کرتی رہی تھی جو ہر فہرست سے ندارد تھا اور اب اس کی کامیابی کو دیکھ کر غمگین ہو گئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جوزف کی اس عظیم کامیابی پر وہ فرحت و انبساط سے جھوم اُٹھتی۔۔۔ اور یقیناً ایسا ہوتا اگر وہ موجود ہوتا۔ لیکن اس کی غیر موجودگی نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔

طعام گاہ کے اندر بھی جب روزینہ نظر نہ آئی تو نذرینہ نے موضوع کو بدلتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں سکینہ۔۔۔ دیکھ لیا نا تم نے۔۔۔ اس نئے نظام کا انجام۔ اس بدصورت ایڈیٹا کا نمبر سب سے آخری فہرست میں آ گیا۔ گویا وہ بدمعاش سب سے زیادہ بونس پانے والوں میں شامل ہو گئی۔‘‘

’’تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ کسی نہ کسی کو تو اس فہرست میں شامل ہونا ہی تھا، سو ایڈیٹا شامل ہو گئی۔۔۔ اور پھر وہ اعزاز صرف ایڈیٹا تک محدود تھوڑے ہی ہے! اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ اس کے شریک ہیں۔‘‘

نذرینہ چڑ کر بولی۔ ’’دیکھو سکینہ، میں دوسروں کو نہیں جانتی۔ ان سے مجھے کیا مطلب؟ لیکن کلموہی ایڈیٹا کو خوب جانتی ہوں۔ وہ دن بھر کوئی کام نہیں کرتی، بس چپڑ چپڑ باتیں کرتی رہتی ہے۔‘‘

سکینہ بولی۔ ’’ایڈیٹا اگر خوبصورت نہیں ہے تو اِس میں اُس کا کیا قصور؟ اپنی جلد کے رنگ کا انتخاب اس نے خود تو نہیں کیا۔۔۔ اور پھر تم خوبصورت ہو تو وہ اس لیے کہ خالقِ کائنات نے تمہیں ایسا بنایا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو تم اس کا کیا کر لیتیں نذرینہ۔۔۔ اور پھر تم یہ بھی بھول گئیں کہ یہ کوئی ملکۂ حسن کا خطاب تو ہے نہیں جو لامحالہ تمہارے قدموں میں آ پڑتا؟‘‘

نذرینہ اپنی تعریف سے خوش بھی ہو رہی تھی اور سکینہ کی منطق سے ناراض بھی۔ وہ بولی۔ ’’اور وہ میری دوسری بات۔۔۔ دن بھر بڑبڑ۔۔۔ اس کا کیا؟ ہم لوگ دن بھر خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں کوئی نہیں پوچھتا۔۔۔ اور سارا دن ’’یس سر، نو سر، تھینک یو سر، ساری سر‘‘ کہتی رہتی ہے۔ اس لیے اس کی خوب پذیرائی ہوتی ہے۔‘‘

’’نذرینہ تم سمجھتی کیوں نہیں۔‘‘ سکینہ ناصحانہ انداز میں بولی۔ ’’ایڈیٹا استقبالیہ سے منسلک ہے۔ اس کا کام ہی لوگوں سے بات کرنا ہے۔ حاضر کو غائب سے اور غائب کا حاضر سے رابطہ قائم کروانے کے لیے اسے رکھا گیا ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ فون پر یا دفتر میں آنے والے لوگوں سے بات کرے۔‘‘

’’یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں سکینہ کہ ہماری کمپنی میں کام سے زیادہ اہمیت باتوں کی ہے۔‘‘

’’جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ جس کا کام ہی بات کرنا ہے، اگر وہ خاموش رہے تو اسے خاموشی کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے گا۔ لیکن جس کو چپ چاپ دیگر کام کرنے ہیں، اگر وہ بولنے لگے تو کام سے اس کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔یہ فطری عمل ہے۔‘‘

نذرینہ زچ ہو کر بولی۔ ’’میں تو تمہیں اپنی سہیلی سمجھتی تھی، لیکن تم تو ایڈیٹا کی وکیل نکلیں۔‘‘

’’میں ایڈیٹا کی نہیں، تمہاری سہیلی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ تمہاری ہر صحیح یا غلط بات کی تائید کروں۔‘‘

’’ہاں ہاں لیکن اس کے یہ معنیٰ بھی تو نہیں ہوتے کہ تم کسی نکھٹو اور کام چور کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملانے لگو؟‘‘

’’دیکھو بھئی نذرینہ، جہاں تک ایڈیٹا کا سوال ہے، اس کا ذکر میں نے تو نہیں چھیڑا۔ تم خود ہی ڈنڈا لے کر اُس کے پیچھے پڑ گئیں۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم جو لاٹھی لے کر میرے پیچھے پڑ گئیں، اس کا کیا؟‘‘ نذرینہ نے سوال کیا۔

’’اچھا، اب یہ لاٹھی ڈنڈا چھوڑو اور کچھ کھاؤ پیو۔‘‘

’’ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ روزینہ کو آ جانے دو، تب تک ایڈیٹا کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ایڈیٹا ہمارے شعبہ میں ہے اس لیے تم نہیں جانتیں کہ وہ میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے علاوہ اور کیا کیا گل کھلاتی ہے۔۔۔ ورنہ تمہاری یہ رائے نہ ہوتی۔‘‘

’’ہاں لیکن میں یہ جاننا بھی نہیں چاہتی۔ اس لیے کہ میرا نہ اس پر کوئی اختیار ہے اور نہ میں اس کے لیے جوابدہ ہوں۔‘‘

’’مجھے پتہ ہے۔۔۔ سادھوی سکینہ۔۔۔ تم جیسے لوگوں کو تو بستی سے باہر جنگل میں جا کر رہنا چاہئے۔ اگر انسان اپنے آس پاس نہ دیکھے تو ان آلو جیسی بڑی بڑی آنکھوں کا کیا مصرف؟ اور اگر وہ اچھا بُرا نہ سنے تو ایسے بہروں کی طرح جینے میں کیا مزہ؟‘‘

سکینہ بولی۔ ’’قدرت نے ہمیں جو آنکھیں دی ہیں، وہ تو اچھا بُرا سب دیکھتی ہیں۔ لیکن ہم جب اس پر عقیدت کی عینک سجا لیتے ہیں تو ہمیں اپنوں کی بُرائی بھی اچھی دکھلائی دیتی ہے اور جب عصبیت کا چشمہ چڑھا لیتے ہیں تو وہ غیروں کی خوبی کو بھی عیب بنا دیتا ہے۔ دراصل مسئلہ آنکھ کا نہیں عقیدت و عصبیت کے پردے کا ہے۔‘‘

نذرینہ بولی۔ ’’بہت خوب میری سہیلی سکینہ۔۔۔ اب کانوں کے بارے میں بھی کچھ بتا دو، اس لیے عینک کان پر لگتی ضرور ہے، لیکن سماعت کو متاثر نہیں کرتی۔‘‘

سکینہ نے نذرینہ کی تائید کی اور بولی۔ ’’جی ہاں کان کے اوپر نہ تو کوئی شٹر ہے اور نہ فلٹر، لیکن یاد رکھو، اُوپر والے نے دونوں کان کے درمیان دماغ بھی تو رکھا ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں رکھا ہے تو رکھا ہے۔۔۔ اس کا میرے سوال سے کیا تعلق؟‘‘

’’تعلق ضرور ہے۔ دراصل دماغ دونوں کانوں کے درمیان کا فلٹر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے ایک کان میں کوئی بات پڑے تو وہ اسے دماغ کے میزان پر تولے اور اگر اسے مفید پائے تو محفوظ کر لے، ورنہ دوسرے کان سے باہر نکال دے۔۔۔ میرا مطلب ہے اسے بھول جائے۔ لیکن جب انسان کانوں کا استعمال تو کرتا ہے لیکن دماغ کا نہیں کرتا تو فضول باتوں کے پیچھے پڑ کر اپنا دماغ خراب کر لیتا ہے۔‘‘

’’اچھا! اگر ایسی بات ہے تو تم اپنا تیز طرار دماغ استعمال کر کے بتاؤ کہ تمہارے شعبے میں کام کرنے والے گراہم کو جو بونس ملا ہے، کیا وہ واقعی اس کا مستحق ہے؟‘‘

’’گراہم! وہ تو ہمیں ابھی ملا ہی نہیں تو میں کیسے جان سکتی ہوں کہ اسے کتنا بونس ملا؟ اور مناسب یا غیر مناسب کا فیصلہ اس معلومات کے بغیر کیوں کر ممکن ہے۔‘‘

’’اچھا! تو تمہیں اس کا کوڈ نمبر نہیں پتہ؟ یا تم اس کا نمبر دیکھنا چوک گئیں ؟‘‘

’’مجھے اس کے نمبر سے کیا غرض؟ میں اس کا پتہ کیوں کروں ؟‘‘

’’اوہو۔۔۔ ایسی بھی کیا بے مروتی؟ اپنے ساتھ میں کام کرنے والوں کا کچھ تھوڑا بہت خیال تو کرنا پڑتا ہے؟‘‘

’’لیکن خیال رکھنے کے لیے کوڈ نمبر کا معلوم کرنا کیا ضروری ہے؟ یہ کوئی پاس ورڈ ہے کہ اس کے بغیر کسی کا خیال نہیں رکھا جا سکے؟‘‘

’’تم تو بات کا بتنگڑ بنانے لگیں۔ اچھا اگر فرض کرو کہ کل کو تمہیں پتہ چلے کہ اسے تم سے دوگنا بونس ملا۔۔۔ تو تمہیں کیسا لگے گا؟‘‘

’’مجھے خوشی ہو گی۔‘‘ سکینہ نے فوراً جواب دیا

’’اچھا، تمہیں اس بات پر افسوس نہ ہو گا کہ تمہیں اس سے نصف بونس کیوں ملا؟‘‘

’’نہیں، اس لیے کہ یہ کس نے طے کر دیا کہ مجھے اس کے برابر بونس ملنا چاہئے؟‘‘

’’لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم اس سے کہیں زیادہ کام کرتی ہو؟‘‘

’’ہو سکتا ہے؟ یہ تمہارا اور میرا خیال ہو گا۔ لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جن لوگوں نے میرا اور اس کے احتساب کا فارم بھرا ہو، وہ بھی اس سے اتفاق کریں۔ ان کا خیال مختلف بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

’’تو گویا تم اس سے کم بونس پانے کے باوجود مطمئن رہو گی؟‘‘

’’میری اچھی سہیلی نذرینہ۔۔۔ میں یہاں جو کام کرتی ہوں اُس کی تنخواہ پاتی ہوں۔ اب بونس اس سے علیحدہ ہے، ملے ملے، نہ ملے۔ زیادہ ملے یا کم ملے، مجھ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ تو لوگوں کو کیوں پڑتا ہے؟‘‘

’’اس لئے کہ متوقع آمدنی کی بنیاد پر اخراجات کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ تو خرچ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ میں ہوائی قلعہ تعمیر نہیں کرتی۔‘‘

’’لیکن امتیاز و تفریق کے خلاف رد عمل تو عین انسانی فطرت ہے۔ اب یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان اس دُنیا میں رہتے ہوئے ایک دم سے فرشتہ بن جائے؟‘‘

سکینہ بولی۔ ’’میں یہ تو نہیں جانتی کہ انسان فرشتہ کیسے بن سکتا ہے، لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ مجھے بونس اس سے کم نہیں ملے گا جو میرا مقدر ہے اور گراہم کو اس سے زیادہ نہیں ملے گا جو اُس کی تقدیر میں لکھا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی تو ایک سچائی ہے کہ نہ تو ہمارے مقدر یکساں ہیں اور نہ ہی اس پر ہمارا اختیار ہے۔ تقدیر کے خیرو شر پر ایمان لانے کا آخر اور کیا مطلب ہے؟‘‘

نذرینہ نے جب دیکھا کہ پانسہ پلٹ رہا ہے تو اس نے بازی اُلٹ دی اور بولی۔ ’’اچھا چلو یہ بتلاؤ کہ اگر تمہیں یہ پتہ چلے کہ گراہم کا بونس تم سے نصف ہے تب تمہیں خوشی ہو گی یا نہیں ؟‘‘

’’جی نہیں مجھے افسوس ہو گا۔‘‘

’’اوہو۔۔۔ اچھا تو کیا میں اس کا یہ مطلب سمجھوں کہ ایک اور روزینہ اور جوزف کی کہانی پروان چڑھ رہی ہے؟‘‘

سکینہ کو پہلی بار غصہ آ گیا۔ وہ بولی۔ ’’تم بھی عجیب مخلوق ہو۔ خود ایڈیٹا اور گراہم وغیرہ کا ذکر چھیڑ دیتی ہو اور اسے اِدھر اُدھر منسوب کر دیتی ہو۔ میں تو یہ کہنا چاہتی تھی کہ میرے اور گراہم کے کام میں اُنیس بیس کا فرق ہے۔ اب اگر ایسے میں اسے بونس آدھا ملے تو افسوس بھی نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور سنو۔۔۔ تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے جو میں تمہیں بتانا بھول گئی تھی۔‘‘

’’اچھا! وہ کیا؟‘‘

’’یہی کہ تمہاری چہیتی سہیلی ایڈیٹا کی جلد ہی گراہم سے سگائی ہونے والی ہے۔‘‘

’’کیا! کیا یہ پکی خبر ہے؟ تمہیں کس نے بتایا؟‘‘

’’مجھے خود گراہم نے اس کی اطلاع دی ہے۔‘‘

’’اچھا! اس بے وقوف کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا؟ کہاں راجہ بھوج اور کہاں نکٹی ایڈیٹا؟‘‘

’’اری میری سہیلی۔۔۔ عشق میں اچھے اچھوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ تو یہ تمہارا دوست گراہم کس کھیت کی مولی ہے؟‘‘

 

۸

کھانے سے فارغ ہو کر جب یہ دونوں سہیلیاں اپنی نشستوں پر واپس آئیں تو روزینہ کو وہاں موجود پایا۔ نذرینہ نے جھٹ سوال کیا۔

’’ارے۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ تم نے کھانا نہیں کھایا؟ ہم لوگوں نے تمہیں طعام گاہ میں کس قدر تلاش کیا؟‘‘ نذرینہ کی بات جھوٹ تھی لیکن روزینہ نے اسے نظر انداز کر دیا۔ اس لیے کہ آج کل اگر کسی کو تلاش کرنا ہو تو اس کے موبائل پر ایک فون کرنا کافی ہوتا ہے۔ اس کی بھوک تو لاکھوں ٹن مٹی کے نیچے دفن ہو چکی تھی۔

روزینہ بولی۔ ’’شور نہ کرو۔ دیکھو لوگ اسٹیج کی طرف آنے لگے ہیں۔‘‘

لیکن نذرینہ کب ماننے والی تھی، وہ بولی۔ ’’دیکھو سکینہ! تمہاری چہیتی سہیلی بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی ہے اور اپنے بونس کا سوگ منا رہی ہے؟ اسے اپنا تقدیر والا فلسفہ بتا کر اس کا غم غلط کرو۔‘‘

سکینہ بولی۔ ’’نہیں، مجھے نہیں لگتا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ جوزف کے بغیر پریشان ہے۔ مجھے توقع تھی کہ جب ہم لوٹیں گے تو لیلیٰ مجنوں سے ایک ساتھ ملاقات ہو گی۔‘‘

’’اوہو جوزف!‘‘

’’جی ہاں جوزف!‘‘

نذرینہ نے تائید کی۔ ’’میں تو بھول ہی گئی تھی۔‘‘

سکینہ بولی۔ ’’بونس کے چکر میں تم نے اپنے آپ کو بھلا دیا ہے تو بھلا کسی اور کو یاد رکھو گی؟‘‘

اس بیچ اسٹیج سے اعلان ہو رہا تھا۔۔۔ ’’خواتین و حضرات توجہ دیں۔ گو کہ ہمارا نعرہ ہے ’جیتے رہو بولتے رہو۔‘ لیکن کبھی کبھی نقرئی خاموشی شور شرابے سے بہتر ہوتی ہے۔ اس لیے اب آپ لوگ برائے کرم اپنی زبان پر تالہ لگا کر اسی کنجی سے کان کا دروازہ کھولیں۔ ہمارے اس دوسرے سیشن میں آپ سب کا خیر مقدم ہے۔‘‘

یکلخت سارے ہال کو مکمل خاموشی نے نگل لیا تھا۔ موکیا کے ملازم اسی نظم و ضبط کے لیے سارے عالم میں جانے جاتے تھے۔ اناؤنسر کہہ رہا تھا۔۔۔ ’’ہمارا یہ سیشن تین حصوں پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے ’مین آف موکیا‘ کا اعلان، اس کے بعد جزیرہ بیرن لینڈ پر آنے والے زبردست سیلاب پر ایک مختصر سی ڈاکیومنٹری اور اس کے بعد آخر میں ہمارے چہیتے مالک سرواٹسن میکارڈے کا خطاب، جس کو سننے کے لیے یہاں موجود ہر دل بیتاب ہے۔‘‘

پہلے اعلان کے بارے میں سن کر روزینہ کا دل زور سے دھڑکا۔ دوسرا اعلان سکینہ کے لیے باعثِ سکون تھا، اس لیے کہ بیرن لینڈ میں آنے والے طوفان کی خبر نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ وہ اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتی تھی۔ اعلان کے آخر میں سرواٹسن کے لیے استعمال ہونے والی تعریف و توصیف نے نذرینہ کو پریشان کر دیا تھا۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہی تھی: ’’کب سدھریں گے یہ مادہ پرست لکشمی کے بھکت؟‘‘

اسٹوین اسٹویا نوف اعلان کرنے کی خاطر مائک پر آئے اور یوں گویا ہوئے۔۔۔ ’’محترم خواتین و حضرات! جیساکہ آپ لوگ جانتے ہیں، کمپنی کی پالیسی کے مطابق ہم ’’مین آف موکیا‘‘ کا اعلان پہلے نہیں کر سکتے اور خود انعام یافتہ شخص سے بھی اس کے نام کو پوشدہ راز رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے آج انعام حاصل کرنے والے خوش قسمت انسان کی ماں اور ساس کو یہاں بلوانے کا اہتمام کیا۔ اس کی اہلیہ کو زحمت دینے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی کہ وہ خود ہماری کمپنی کی معزز ملازم ہیں۔ لیکن افسوس کہ انعام یافتہ جوزف گلاسگوف۔۔۔‘‘

اس نام کے اعلان کے ساتھ ہی سارا ہال تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونج اُٹھا۔ اسٹوین نے بات آگے بڑھائی۔۔۔

’’جی ہاں جوزف گلاسگوف۔۔۔ نہ جانے کیوں آج دفتر نہیں آئے۔ جب کمپنی کی گاڑی ان کے گھر ان کی ماں کو یہاں لانے کے لیے پہنچی تو وہاں تالا پڑا ہوا تھا۔ لیکن خیر، ہمیں خوشی ہے کہ محترمہ روزینہ گلاسگوف ہمارے درمیان موجود ہیں اور اُن کی مادرِ محترم کو بھی یہاں بلوا لیا گیا ہے۔ ہم اُن دونوں سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور جوزف کے اس انعام کو قبول فرمائیں۔ ہم آپ سب کو یقین دلاتے ہیں کہ جوزف کی واپسی پر ایک اسی طرح کی تقریب کا اہتمام کر کے اسے شایانِ شان خراجِ تہنیت پیش کیا جائے گا اور اس تقریب میں بھی شرکت کرنے کے لیے ہمارے مالک سرواٹسن میکارڈے دوبارہ  ہمارے درمیان تشریف لائیں گے۔ یہ ان کا وعدہ ہے اور اس وقت جوزف کے ساتھ اس کی امی کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا۔ محترمہ روزینہ جوزف اور قابلِ صد احترام میری مارٹن سے میں مؤدبانہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ دونوں اسٹیج پر تشریف لائیں۔‘‘

اجتماع گاہ میں تالیوں کی گڑ گڑاہٹ پھر ایک بار گونج رہی تھی، لیکن روزینہ اس اعلان کا صدمہ برداشت نہ کر سکی اور بے ہوش ہو گئی۔ نذرینہ نے ایمبولنس کو فون کیا۔ تربیت یافتہ فرسٹ ایڈ کے ملازمین دوڑ کر جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ ان کے درمیان موجود ڈاکٹر نے نبض ٹٹول کر بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، یہ ایک معمولی سا جھٹکا ہے جو کئی مرتبہ غیر متوقع خوشی کے باعث بھی لگتا ہے۔ وہ چند گھنٹے ہماری نگرانی میں رہیں گی اور ہمیں قوی اُمید ہے کہ وہ ٹھیک ٹھاک اپنے گھر لوٹ جائیں گی۔

اب انعام وصول کرنے کے لیے صرف میری مارٹن رہ گئی تھیں۔ وہ بڑے زبردست اعصاب کی مالک ثابت ہوئیں۔ بہت ہی پُر وقار انداز میں وہ اسٹیج پر تشریف لائیں۔ انتظامیہ اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیٹی کے پاس ہسپتال روانہ ہو گئیں۔ یہ قسمت کی عجب ستم ظریفی تھی کہ جوزف کا انعام اس خاتون نے وصول کیا جس کے سبب جوزف نے بیوی، ملازمت، شہر اور ملک تک کو خیرباد کہہ دیا تھا۔

کمپنی کے احاطے میں موجود دوا خانے میں جیسے ہی روزینہ کو آکسیجن کی نلی لگائی گئی اور گلوکوز کے قطرات اُس کی رگوں میں دوڑنے لگے، اُسے ہوش آنے لگا۔ آنکھ کھولتے ہی روزینہ نے اپنی ماں میری کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔ وہ اس سے لپٹ کر رونے لگی اور پوچھا۔ ’’میں کتنی دیر بے ہوش رہی؟‘‘

میری نے کہا۔ ’’صرف دس منٹ بیٹی۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ تو وہ تقریب ختم ہو گئی؟‘‘

ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے بتلایا۔ ’’نہیں، ابھی تو وہ فلم شروع ہی ہوئی ہے۔‘‘

’’اچھا! تو کیا میں وہاں جا سکتی ہوں ؟‘‘

ڈاکٹر نے نبض پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’اگر آپ مطمئن ہیں تو جا سکتی ہیں۔ آپ مکمل طور پر خطرے سے باہر ہیں۔‘‘

میری نے متفکر ہو کر پوچھا۔ ’’بیٹی کیا یہ ضروری ہے؟‘‘

’’جی ہاں ممی۔۔۔ یہ بہت ضروری ہے۔‘‘ خدشات کے تانوں بانوں میں اُلجھی ہوئی روزینہ نے جواب دیا۔

ہوا کی نلی نکال دی گئی۔ گلوکوز کی سوئی جب ورید سے نکلی تو درد کی ایک ٹیس پیدا ہوئی۔ روزینہ اپنی ماں میری کے ساتھ آ کر دوبارہ ہال میں بیٹھ گئی۔ فلم چل رہی تھی، پردے کے علاوہ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، اس لیے روزینہ کے واپس آنے کا پتہ کسی کو نہ چلا۔ ویسے اس اندھیرے میں اسٹوین نے اعلان کیا۔۔۔ ’’خواتین و حضرات! آپ لوگوں کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ محترمہ روزینہ کو ہوش آچا ہے اور وہ پوری طرح سے خطرے سے باہر ہیں اور کسی بھی وقت ہمارے درمیان   آسکتی ہیں۔‘‘ جبکہ خود اسٹوین کو بھی پتہ نہیں تھا کہ روزینہ ہال کے اندر موجود ہے اور اس کے اس اعلان کو سن رہی ہے۔

سکینہ نے روزینہ کا لمس اپنے قریب محسوس کیا تو کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ سکینہ نے بتایا کہ یہ فلم سیٹیلائیٹ کے ذریعہ حاصل کردہ تازہ مناظر اور گوگل ارتھ کی تصاویر کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔ ابتدائی مناظر میں بیرن لینڈ نامی جزیرے کی تاریخ اور جغرافیائی معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پردے پر ایک نہایت خوبصورت مگر ننھا سا جزیرہ اور اس میں پائی جانے والی وادیوں اور پہاڑوں کے حسین مناظر نظر آ رہے تھے۔ اس جزیرے پر ایک مختصر سی آبادی تھی جو پھلوں کے باغات میں کام کرتی تھی۔ پھلوں کی برآمد اور سیر و سیاحت پر اس کی معیشت کا دار و مدار تھا۔ یوروپ اور روس کے سیاح کا یہاں بہت زیادہ آنا جانا تھا۔ لیکن اب تو ایشیا کے لوگ بھی سیر و تفریح کے لیے اس جزیرے کا رُخ کرنے لگے تھے۔

سیاحوں کی سہولت کا سارا انتظام بیرن لینڈ پر موجود تھا۔ کشادہ ساحل، صاف ستھری سڑکیں، سادہ سے رہائشی ہوٹل، کھانے پینے کے لیے ایسی طعام گاہیں جہاں ہند و چین سے لے کر یوروپی و عربی، ہرقسم  کے پکوان چنے جاتے تھے۔ آمد و رفت کے لیے ویسے تو بحری راستہ بھی موجود تھا، لیکن وہ صرف مال برداری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ لوگوں کا آنا جانا ہوائی جہاز کے ذریعہ ہی ہوتا تھا۔ بیرن لینڈ کا ہوائی اڈہ تمام جدید سہولیات سے مزیّن تھا تاکہ سیاحوں کو کوئی دقت پیش نہ آئے۔ اس بیچ اچانک کمنٹری بند ہو گئی اور سارے ہال میں سمندری طوفان کی بھیانک چنگھاڑ گونجنے لگی اور پردے پر آسمان سے چھونے والی لہروں کے اوپر گزشتہ کل کی تاریخ نمودار ہو گئی۔ ایک جانب گھڑی بھی وقت کی چغلی کھا رہی تھی۔ رات کے بارہ بجے تھے۔ آسمان پر چاند موجود تو تھا لیکن تیز بارش نے اس کی روشنی کو دھندلا کر دیا تھا۔ سمندر کی موجوں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا تھا کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور چاند کو چھو لے گی، بلکہ یہ سب دیکھ کر کسی کسی کو اندیشہ محسوس ہوتا تھا کہ مبادا یہ چاند کو نگل نہ لے اور پھر آسمان اپنے خوبصورت ترین چراغ سے ہمیشہ کے لیے محروم نہ ہو جائے۔

اس بیچ تاریک آسمان پر ایک روشنی کی لکیر نمودار ہوئی۔ جب مناظر واضح ہوئے تو پتہ چلا یہ ایک ڈرا سہما سا ہوائی جہاز ہے جو اپنے پروں کو سمیٹ کر ہوائی اڈے پر اُترا چاہتا ہے۔ لوگ حیران تھے کہ یہ بھی کوئی وقت ہے اس مصیبت زدہ جزیرے پر اُترنے کا! لیکن وہ بے چارے نہیں جانتے تھے کہ ہوا میں اُڑنے کے لیے آب و ہوا کا سازگار ہونا بے حد ضروری ہے۔ جب ہوا خراب ہوتی ہے تو ہر اُڑان بھرنے والے کو نیچے زمین پر آنا ہی پڑتا ہے اور ایسے میں وہ اس بات کو نہیں دیکھتا کہ زمین کے حالات کیسے ہیں۔ اس لئے کہ دھرتی کی گود بہرصورت ہوا سے زیادہ محفوظ ومستحکم ہے۔

پس پردہ کمنٹری دینے والی آواز بتلا رہی تھی کہ یہ بدقسمت جہاز پیرس سے دمشق جا رہا تھا، لیکن موسم کی خرابی نے اسے بیرن لینڈ پر اُترنے کے لیے مجبور کر دیا۔ ہوائی پٹی پر ایک اور جہاز نظر آ رہا تھا۔ یہ جہاز کل آخری بار سیاحوں کے ساتھ وہاں پہنچا، لیکن اسے واپسی کا سفر نصیب نہیں ہوا۔ نہ جانے کیوں ہوا کے دباؤ میں اس قدر کمی واقع ہوئی اور منہ زور ہوا کا بھی عجب مزاج ہے کہ جب کسی علاقے میں اس کا دباؤ کم ہوتا ہے تو وہ چہار جانب سے پِل پڑتی ہے اور ایک طوفان بپا کر دیتی ہے اور قیامت صغریٰ بپا ہو جاتی ہے۔ اپنی بدحواسی کے عالم میں ہوا کے تھپیڑے یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی وجہ سے انسانوں کا کیا حال ہے؟ ان کے گھروں کی چھتیں کس طرح ہوا میں تیر رہی ہیں ؟ ہواؤں کا شور و غل سن کر اکثر باد و باراں بھی اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑتا ہے اور ایسا مینہ برستا ہے کہ سارا عالم جل تھل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سمندر کی لہروں کو اپنی حدود کا پاس و لحاظ نہیں رہ پاتا۔ وہ بستیوں میں ایک مدمست ہاتھی کی طرح داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ بھی سامنے آئے، اسے روندتی چلی جاتی ہیں۔

یہی کچھ بیرن لینڈ میں ہو رہا تھا۔ لوگ اپنے ہوٹلوں اور مکانوں سے نکل کر عوامی عمارتوں، مثلاً مدارس اور عبادت گاہوں کا رُخ کر رہے تھے۔ مبادا وہیں پناہ نصیب ہو جائے۔ ماہرین موسمیات کی حوصلہ شکن قیاس آرائیوں کے درمیان آسمان پر ایک اور جہاز دکھلائی دیا۔ یہ وِن لینڈ کا جہاز تھا جس کی منزلِ مقصود تو خیر ماسکو تھی، لیکن موسم کے جبر نے اسے بھی بیرن لینڈ میں اترنے پر مجبور کر دیا تھا۔

وِن لینڈ بیک وقت ایک شہر اور ایک ملک تھا۔ شہروں میں بڑا شہر اور ملکوں میں چھوٹا ملک۔ اس کی ساری معیشت ایک صنعت سے وابستہ تھی اور اس لحاظ سے اکثر و بیشتر افراد کا ایک دوسرے سے سابقہ پیش آتا رہتا تھا۔ موکیا نے ساری آبادی کو ایک تار سے جوڑ رکھا تھا اور جو اس حصار سے باہر تھا، وہ بھی یا تو کسی کا رشتہ دار تھا یا پڑوسی۔۔۔ کوئی ہم جماعت تھا یا ہم رکاب۔۔۔ کوئی طالب علم تھا تو کوئی استاذ۔۔۔ بہرحال ہر کسی کا ہر کسی سے کوئی نہ کوئی تعلق بن ہی جاتا تھا۔ وِن لینڈ کے جہاز نے ہال کے اندر بیٹھے ہوئے افراد کے اندر یک گونہ بے چینی پیدا کر دی تھی۔ ایئرپورٹ پر روشنی بہت کم تھی۔ پردے پر لوگ برساتیاں پہنے اور چھتریاں اوڑھے جہاز سے اڈے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ہر آنکھ اپنے شناسائیوں کو تلاش کر رہی تھی۔ گھڑی کے کانٹے گھوم رہے تھے۔ طوفانی بارش کے درمیان نحیف و لاغر سورج نے سر اُٹھایا۔ بھیگا ہوا سہما سا سورج، جس میں نہ تپش تھی اور نہ روشنی۔ ایسا لگتا تھا گویا اس نے بھی برساتی اوڑھ رکھی ہے وہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ کہیں یہ بد دماغ ہوائیں اُسے اُٹھا کر اپنے محور سے باہر نہ لے جائیں۔ سورج اس حقیقت سے واقف تھا کہ جس دم وہ اپنے محور سے باہر جائے گا، تنکا بن کر اُڑ جائے گا۔ اس کا وجود اور اس کی بقاء کا راز اس کے اپنے محور کے گرد منظم گردش میں پنہاں ہے۔ سورج کی قابلِ رحم حالت پر دو قطرہ آنسو بہانے کے بعد کیمرے کی آنکھ نے ساحل کا رُخ کیا۔

ساحل پر مچا کہرام رات دن کی آمد و رفت سے بے نیاز تھا۔ ساحل کو دیکھتے ہی سمندر کی موجوں کو نہ جانے کون سا جنون سوار ہو جاتا تھا کہ وہ پہاڑوں کی مانند بلند ہو جاتیں، لیکن پھر ساحل سے اپنا سر ٹکرا کر ڈھیر ہو جاتیں۔ حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ اپنے آگے والی لہر کا انجام اس کے پیچھے والی لہر پر بالکل بھی اثر انداز نہ ہوتا، نہ اس کے حوصلہ میں کوئی کمی واقع ہوتی۔ سمندر کی موجوں کے اندر پایا جانے والا کامیابی کا مستحکم یقین قابلِ دید تھا۔ اس بیچ اچانک ایک لہر ساحل کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار پھاندنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔۔۔ اور پھر کیا تھا۔۔۔ اس کے پیچھے اس سمندری ٹڈی دل کا تانتا لگ گیا۔ اب کسی میں انہیں روکنے کی طاقت نہیں تھی۔ حدود و قیود کا پاس و لحاظ مٹ چکا تھا۔ سمندر پھیلنے لگا تھا اور بیرن لینڈ اس کی یلغار کے آگے پسپا ہو کر اپنے آپ سمٹنے لگا تھا۔ ہال میں بیٹھے مشاہدین یہ محسوس کر رہے تھے کہ جلد ہی چہار جانب سے بیرن لینڈ کے اندر داخل ہونے والی یہ لہریں ایک دوسرے سے مل جائیں گی اور یہ جزیرہ جغرافیہ کی کتابوں سے نکل کر تاریخ کی کتابوں میں چلا جائے گا۔

کیمرے نے اپنا زاویہ بدلا اور اب وہ ساحل سے نکل کر جزیرے کے مرکز میں پہنچ گیا جہاں پرائیڈ نامی پہاڑی سر اُٹھائے کھڑی تھی اور سمندر کو چیلنج کر رہی تھی کہ اگر ہمت ہے تو اسے سر کر کے دکھلائے۔ ایسا لگتا تھا کہ سمندر کی لہریں ایک جست میں اسے کچل دینا چاہتی ہیں لیکن دِلّی ابھی دُور تھی۔ اس کشمکش کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا فیصلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ماہرینِ موسمیات بھی اس بارے میں کوئی پیشن گوئی کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ بیرن لینڈ کے باشندوں اور یہاں پھنسے ہوئے مسافروں کے لیے اُمید کی واحد کرن پرائیڈ ہل کی چوٹی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ سمندر اگر سارے جزیرے کو نگل جائے تب بھی اس چوٹی کو سر نہیں کر سکتا۔ ٹیلی ویژن کے پردے پر سمندر کے ارادوں سے خوفزدہ لوگ پرائیڈ ہل کی جانب کوچ کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

انسانوں کا ایک سیلاب پہاڑی کی جانب اُمڈ پڑا تھا۔ سمندر کی لہریں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ پکے مکانوں کے لوگ، عارضی کیمپوں کے مقیم، بس اڈوں اور ایئرپورٹ پر پھنسے ہوئے مسافر ہر کسی کی منزل پرائیڈ ہل تھی اور ہر کوئی اس کی جانب رواں دواں تھا۔ یہ ایسے لوگ تھے جن کی سواریوں کو بارش نے مفلوج کر دیا تھا، جن کے رستوں کو پانی نے نگل لیا تھا۔اب یہ سفر انہیں خود اپنے بل بوتے پر کرنا تھا۔ ہر ایک پر اپنی لاش کو ڈھونے کی ذمہ داری آن پڑی تھی، لیکن زندہ لاشیں گوناگوں ضرورتوں سے بے نیاز نہیں ہوتیں۔ اس لئے ان لوگوں نے سامان تو سمیٹا لیکن کم از کم اس لیے کہ سفر ہی کچھ ایسا تھا کہ ساز وسامان سفر کی سہولت نہیں بلکہ زحمت بن سکتا تھا۔ ہر کسی کا احتیاج مختلف تھا اور ڈھونے کی سکت بھی یکساں نہ تھی۔ اس لیے ہر کوئی اپنے زور بازو کا اندازہ کر کے ہی بوجھ اُٹھاتا تھا۔ نکلنے سے پہلے لوگوں نے اپنے رشتہ داروں کو یکجا کیا اور چل پڑے۔ ان مصیبت زدگان کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کیفیت بھی مختلف تھی۔ کسی کو مال و اسباب کے چھوٹ جانے کا غم وافسوس تھا تو کوئی اپنے اعزاء و اقارب سے بچھڑ جانے پر رنجیدہ  و ملول تھا۔

 

۹

پہاڑی کے مشقت طلب سفر نے اپنا رنگ دکھلانا شروع کر دیا تھا۔موسم کی ناسازی بھی طوفان کا تعاون کر رہی تھی اور مسافروں کیلئے در پے آزار بنی ہوئی تھی سانسیں پھولنے لگی تھیں۔ اعضا و جوارح جواب دینے لگے تھے۔ لوگوں نے پہلے اپنے ہاتھ کا سامان پھینکنا شروع کیا، پھر شانے پر لدے بوجھ کو بھی ہلکا کرنے لگے۔ اس لیے اب رزق سے نہ صرف پرواز میں کوتاہی آ رہی تھی، بلکہ وہ انہیں پیچھا کرتی ہوئی موت سے قریب تر کر رہا تھا۔ عجیب نفسا نفسی کا عالم برپا ہو گیا تھا، ہر کسی کو صرف اور صرف اپنی فکر ستا رہی تھی۔ لوگ اپنے ہمسفر اہلِ خانہ سے بھی بے خبر ہو گئے تھے۔ عجیب قیامت صغریٰ کا سماں تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کون کہاں اور کس حال میں ہے؟ سارا جہان بے معنیٰ سفر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ سب کی نگاہیں پہاڑ کی چوٹی پر لگی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی دیوانہ وار اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ کیفیت بدل چکی تھی۔ اب نہ کسی کو مال و متاع کے چھوٹ جانے کا غم تھا اور نہ اقربا کے بچھڑ جانے کا افسوس۔ ہر کوئی اپنے زندہ رہنے پر مطمئن تھا۔

گوگل کیمرہ یکے بعد دیگرے مختلف مناظر دکھلا رہا تھا کہ اس جم غفیر میں نذرینہ کی نظر اچانک ایک متحرک ہیولے پر پڑی اور وہیں ساکت و جامد ہو گئی۔ جانی پہچانی برساتی میں ڈھکا ہوا ایک شخص اپنے داہنے کندھے پر ایک گٹھری اُٹھائے اور بائیں ہاتھ میں ایک جھولا تھامے ایک خاص انداز میں چلا جا رہا تھا۔ نذرینہ کے لیے ان میں سے کچھ بھی اجنبی نہیں تھا۔ اس کی چال ڈھال گواہی دے رہی تھی کہ یہ جوزف ہے۔ نذرینہ کا دل تصدیق کر رہا تھا کہ وہ اس کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔ جوزف گلاسگوف۔۔۔ اس سال کا مین آف موکیا۔۔۔ جوزف! جوزف بیرن لینڈ کیوں کر پہنچ گیا؟ اس سوال کا جواب خود روزینہ نے اپنے آپ کو دیا، ون لینڈ سے ماسکو جانے والے اکثر جہاز بیرن لینڈ سے ہوتے ہوئے جاتے تھے۔ روزینہ کو جوزف کا سراغ بھی ملا تو ایک ایسی غیر یقینی صورتِ حال میں جس کے بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل تھا۔ روزینہ نے سوچا، ہائے افسوس۔۔۔ بے چارہ جوزف آسمان سے گرا تو کھجور میں اٹک گیا۔

جوزف نے یقیناً ماسکو کا ٹکٹ لیا ہو گا لیکن طوفانی باد و باراں نے اسے بیرن لینڈ پر اُترنے کے لیے مجبور کر دیا۔ اب اس کا کیا ہو گا؟ اس سوال سے وہ کانپ اُٹھی؟ وہ کون سی شہ تھی جو اُسے ماسکو کے بجائے بیرن لینڈ کی جانب اغوا کر کے لے گئی؟ اس کے اندر سے آواز آئی۔۔۔ ’’کہیں ملک الموت نے تو اس جہاز کو اغوا نہیں کیا؟ اگر ہاں تو وہ اس کے چنگل سے نکل کر کیسے آسکے گا؟‘‘ سولات کا لامتناہی سلسلہ تھا جو پردے پر جاری سونامی کی لہروں سے تیز تر تھا۔ اس بیچ ایک اور سوال اس کے ذہن میں کوندا، جوزف کو اس چنگل کی جانب ڈھکیلنے والا کون ہے؟ اس سوال کے بعد روزینہ نے اپنے آپ کو سمجھانا بجھانا شروع کر دیا۔ اپنی ہم کلامی کو جاری رکھتے ہوئے وہ بولی۔۔۔ ’’یہ جوزف نہیں کوئی  اور ہے۔ ایک جیسی شباہت والے نہ جانے کتنے لوگ اس دُنیا میں رہتے بستے ہیں۔ اس جمِ غفیر میں کیا ضروری ہے کہ ہر شخص ہوائی جہاز کا مسافر ہو اور ایسے میں جبکہ طوفانی ہوائیں اپنے ساتھ انسانی تفریق و امتیاز کی ساری علامتوں اُڑا کر اپنے ساتھ لے جا چکی ہیں اور اس نے راجہ اور رنک کے درمیان پڑی چاندی کی دیوار کو مسمار کر کے سارے لوگوں کو پا پیادہ کر دیا ہے اور ہر کوئی یکساں طور سے محتاج اور مجبورِ محض نظر آ رہا ہے۔ خلائی تصویروں کی مدد سے کسی کی شناخت کیونکر ممکن ہو سکتی تھی؟ روزینہ کی اپنی سی کوشش جاری تھی۔ اچانک اس کی نظروں کے سامنے جوزف کی وصیت کا ایک ایک لفظ زندہ و تابندہ ہو کر کھڑا ہو گیا:

•          میں کیوں جا رہا ہوں ؟

•          کہاں جا رہا ہوں ؟

•          کب آؤں گا؟

•          اور آؤں گا بھی یا نہیں ؟

•          میں نہیں جانتا

•          میں کچھ بھی نہیں جانتا

یہ الفاظ روزینہ سے سوال کر رہے تھے۔ کیا تم جانتی ہو؟ کیا تم سب جانتی ہو؟ جھوٹا کون ہے؟ تم یا جوزف؟ روزینہ کو احساسِ جرم کی سونامی نے پھر ایک بار نگل لیا تھا۔ اس کے لیے پرائیڈ ہل کی کوئی چوٹی نہیں تھی جس کی پناہ میں وہ اپنی حفاظت کر سکے۔ اس کا قابلِ فخر جوزف پرائیڈ ہل کی عظیم ترین بلندیوں کی جانب رواں دواں تھا اور وہ اپنی ذات کے اندر برپا بھنور میں بے یار و مددگار ہاتھ پیر مار رہی تھی۔۔۔ سوالات کا تانتا پھر سے لگ گیا۔ اگر وہ جوزف نہیں ہے تو اور کون ہے؟ اس کے کندھے پر گٹھری میں بندھی اس کی ماں نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ وہ ضعیف ماں جو اس آندھی طوفان میں اپنے قدموں سے چل نہیں سکتی۔ لیکن اگر ایسا ہے تو جوزف اسے لے کر وہاں گیا ہی کیوں ؟ وہ لے گیا؟ نہیں ! وہاں وہ دونوں اپنی مرضی سے گئے ہی کب ہیں ؟ اس مقام پر تو انہیں لے جانے والا کوئی اور ہی ہے ؟وہی جس نے ہر انسان کے وداع ہونے کا وقت اور مقام ایک ایسی محفوظ کتاب میں لکھ چھوڑا ہے جس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔

روزینہ سے اب پردے پر چلتے ہوئے مناظر کو دیکھنا ناممکن ہو رہا تھا، اس لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں تو آنکھوں کے اندر جوزف کا ہنستا مسکراتا چہرہ نمودار ہو گیا۔ روزینہ نے گھبرا کر پھر آنکھیں کھول دیں، اس لیے کہ حقائق سے آنکھیں موند لینا اندیشوں کو جنم دیتا ہے جو حقیقت سے زیادہ ہیبت ناک ہو تے ہیں۔ روزینہ پھر ایک بار ان مناظر کو دیکھ رہی تھی جنھیں وہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی، لیکن کیا کر سکتی تھی۔ روزینہ کی حالت جبر و قدر کے شکنجے میں گرفتار ایک زخمی پرندے کی سی ہو گئی تھی جس کے سارے عضو سلامت تھے لیکن دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ سمندر بدستور نئی زمینیں فتح کرتا چلا جا رہا تھا اور مسلسل پسپائی سے دوچار جزیرہ بیرن لینڈ لمحہ بہ لمحہ اپنا دامن سمیٹتا جا رہا تھا۔ پرائیڈ ہل کے قدم کب کے ڈوب چکے تھے۔ اب پانی اس کی کمر تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے سینے پر سوار لوگ جلد از جلد اس کی پیشانی کو چوم لینا چاہتے تھے۔ روزینہ کی نظریں جوزف کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔ پردے پر مناظر کے بدلنے کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک جوزف نما ہیولہ ایک اونچے سے پتھر کے قریب پھر سے نمودار ہو گیا۔

اس بار وہ خاصہ تھکا ہوا دکھلائی دے رہا تھا۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ دائیں ہاتھ کا جھولا وہ نہ جانے کب دریا برد کر چکا تھا۔ بائیں کندھے پر لدے بوجھ کو پتھر پر رکھ کر اس نے نیچے کی جانب دیکھا۔ پانی کی سطح بتدریج بلند ہو رہی تھی، گو کہ اس کی رفتار خاصی دھیمی تھی۔ ہیولے نے پتھر پر رکھی اپنی گٹھری کو ایک بار شکست خوردہ سپاہی کی مانند حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ اب اسے اُٹھانے کی سکت اس کے اندر نہیں رہی تھی۔ وہ اپنا سفر اسی صورت جاری رکھ سکتا تھا جبکہ اس گٹھری سے سبکدوش ہو جائے۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور آسمان کی جانب دیکھ کر نہ جانے کیا سوچتا رہا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے؟ اس گٹھری کے ساتھ وہ آگے جا نہیں سکتا اور اسے یہاں چھوڑ کر بھی نہیں جا سکتا۔ اس کے پیر شل ہو چکے تھے اور دماغ نے کام کرنا بند کر دیا۔۔۔ کہ اچانک اسے اپنے پیر گیلے ہوتے محسوس ہوئے۔ اب دماغ اچانک جاگ گیا۔ اس نے سوچا، اب کیا ہو گا؟ اب تو یہ گٹھری ڈوب جائے گی۔۔۔ اور وہ؟ وہ بھی ڈوب جائے گا؟ وہ اس گٹھری کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکتا لیکن اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔ اس نے ایک بار پھر گٹھری کو دیکھا۔ وہ اسے ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ اپنے ہاتھوں کو دُعا کے لیے اُوپر اُٹھایا اور اس کے قدم خود بخود پہاڑ کی چوٹی کی جانب چل پڑے۔ تہی دامن ہیولہ سارے لوگوں کے ساتھ غمگین و سوگوار چل پڑا۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا ایسا کرنا صحیح ہے یا غلط ہے؟ وہ اس بات سے بھی ناواقف تھا کہ یہ سفاکی اس کے کسی کام بھی آئے گی یا نہیں ؟ وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ بس یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائے اور اگر سمندر کی لہریں اس پرائیڈ ہل کو سر کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کی مرضی کے آگے خود بھی سرنگوں ہو جائے۔ اُمید کا ایک ننھا سا دیا جو پرائیڈ ہل پر روشن تھا، وہ اُن لوگوں کو اپنی جانب بلا رہا تھا جنھیں ابھی تک سمندر نگلنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔

جوزف نما ہیولے کے نکل جانے کے بعد سمندر کی لہروں نے پتھر سمیت گٹھری کو غرقاب کر دیا اور روزینہ پھر اس کے آگے کچھ اور نہ دیکھ سکی بلکہ بے ہوش ہو گئی۔ سکینہ اسے دوسرے لوگوں کی مدد سے ہسپتال لے گئی۔ وہ اس بار کیوں بے ہوش ہوئی تھی، اس کا علم کسی کو نہیں تھا اور یقین کے ساتھ خود روزینہ بھی نہیں جانتی تھی کہ جسے وہ جوزف سمجھ رہی ہے وہ کون ہے؟ نیز اس گٹھری میں ایسا کیا تھا جس کے ڈوب جانے کو اپنی آنکھوں سے وہ نہیں دیکھ پائی تھی؟

فلم کے اختتامی مناظر میں طوفان تھم چکا تھا۔ یہ تین گھنٹے قبل کے حالات کی منظر کشی تھی۔ سمندر، جو اَب تک پھیل کر کھیتوں، کھلیانوں، گھروں اور ان میں بسنے والے لوگوں کو نگلنے میں جٹا ہوا تھا، اب اپنے پر سمیٹنے لگا تھا۔ بارش کا برسنا تھم گیا تھا۔ ہوا کے اندر تیزی کا بھی خاتمہ ہو چکا تھا۔ پرائیڈ ہل سمندر کی شکست پر مسکرا رہی تھی اور اس کی چوٹی پر جمع مٹھی بھر لوگ نیچے اپنی تباہی کے مناظر پر آنسو بہا رہے تھے۔ کسی ایک فرد کو بھی اپنے زندہ بچے رہنے کی خوشی نہیں تھی۔ ہر کوئی اپنے ڈوب جانے والے رشتوں ناطوں کو یاد کر کے اپنی خود غرضی پر شرمندہ اور پشیمان تھا۔ کوئی بھی نیچے آنا نہیں چاہتا تھا۔ سب لوگوں کی یہی خواہش تھی کہ اسی مقام پر اُن کا دم نکل جائے اور شدید احساسِ جرم کے کرب سے انہیں ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہو جائے۔

فلم کا پردہ بجھ گیا اور اسی کے ساتھ ہال کے قمقمے روشن ہو گئے۔ اجتماع گاہ میں بیٹھی ایک آنکھ بھی ایسی نہیں تھی جس کو بیرن لینڈ کی برسات نے تر بتر نہ کیا ہو۔ یہ بن بادل کی برسات موکیا کی رنگارنگ سالانہ تقریب کو غرقاب کر چکی تھی۔ سرواٹسن میکارڈے اسٹیج پر تشریف لا چکے تھے۔ مائک میں ان کی بھرائی ہوئی آواز گونجی۔۔۔ ’’میں صبح کی تقریب میں آپ لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہونے کے لیے معذرت چاہتا  ہوں۔ میں چونکہ وعدہ خلافی کا مرتکب ہوا ہوں، اس لیے معافی کا خواستگار ہوں۔ دراصل فرانس سے دمشق جانے والا جو جہاز بیرن لینڈ پر اُترنے کے لیے مجبور ہو گیا تھا، وہ میری اپنی ائیر لائنز یورو ائیر کا تھا۔ نصف شب میں مجھے اس کی اطلاع ملی اور اس وقت سے ابھی یہاں پہنچنے تک میں ٹی۔وی پر لگا رہا۔ جب مجھے بتلایا گیا کہ یہاں سے ماسکو جانے والے ایک جہاز کو بھی وہاں اُترنے پر مجبور ہونا پڑا تو میری تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا۔

بیرن لینڈ کے قریب ترین پڑوسی ہم لوگ ہیں اور جیساکہ آپ نے ابھی دیکھا، یہ جزیرہ مکمل طور سے تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ بس مٹھی بھر افراد کے علاوہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ اب ان کی باز آبادکاری ہماری اوّلین ذمہ داری ہے۔ ان افراد کی تعداد کا تخمینہ تقریباً دس ہزار ہے۔ ان لوگوں کو دوبارہ بسانے کی خاطر ایک خفیہ منصوبہ بندی موکیا کے انتظامیہ نے تیار کی ہے۔ لیکن ہم اپنے سارے ملازمین کو اس کارِ خیر میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کے پاس ملازمت کا ایک شناختی نمبر ہے جو آپ کے بینک میں کھلے کھاتے سے منسلک ہے، جس میں آپ کی تنخواہ جمع کی جاتی ہے۔ آپ سب کو ای۔میل کے ذریعہ امدادی فارم روانہ کیے جا چکے ہیں۔ آپ کو کرنا یہ ہے کہ اپنے موصول شدہ فارم کو پُر کریں اور اس پر آپ کو اپنی اعانت لکھ کر اسی پتے پر واپس کر دیں جہاں سے وہ آیا ہے۔ جو رقم آپ لکھیں گے وہ آپ کے بینک کھاتے سے نکل کر ریلیف فنڈ میں جمع ہو جائے گی۔ آپ کی رقم کا پتہ کسی دوسرے شخص کو نہیں چلے گا، نیز آپ کو تعاون نہیں کرنا ہو تو آپ صفر بھی لکھ سکتے ہیں، آپ کی مرضی۔ بالآخر آپ تمام لوگوں کی جانب سے جمع کل رقم کا دس گنا میرے ذاتی  اکاؤنٹ سے نکل کر اپنے آپ ریلیف فنڈ میں جمع ہو جائے گا۔

 سرواٹسن ایک لمحے کے لیے رُکے اور پھر آگے بولے۔ اگر مذکورہ رقم میرے کھاتے میں موجود نہ ہو تو اسے میرے اثاثے فروخت کر کے فراہم کیا جائے گا اور اگر اس پر بھی اس میں کمی رہ جائے تو بقیہ رقم بینک مجھ پر قرض چڑھا کر ادا کر دے گا۔ میں جب تک کہ زندہ رہوں گا، جو کچھ بھی کماؤں گا، اس سے قرض کو ادا کرتا رہوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ واٹسن میکارڈے کا وعدہ جس سے وہ کسی صورت مکر نہیں سکتا۔ اس بابت ایک حلف نامہ بنا کر میں عدالت میں بھجوا چکا ہوں۔ میں اس کا پابند ہوں اور رہوں گا۔ مجھے اُمید ہے کہ موت کے منہ سے زندہ بچ نکلنے والے ان لٹے پٹے لوگوں کو ہم ایک اچھی زندگی مہیا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

میں نے آپ سب کا بہت وقت لیا۔ آپ کا بہت شکریہ۔ میری آپ سب سے یہ خواہش ہے کہ اگر آپ واپس جانے سے قبل اپنے اپنے کمپیوٹر پر چند لمحات گزار کر جائیں تو نوازش ہو گی، ورنہ کل دوپہر بارہ بجے تک کی مہلت ہے۔ اس کے بعد کوئی رقم وصول نہیں کی جائے گی۔ ان مصیبت زدگان کو اشیائے خورد و نوش پہنچانے کا بندوبست ہو چکا ہے۔ بہت جلد ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعہ پینے کا صاف پانی اور کھانا ان پر برسایا جائے گا۔ اس کے بعد ہماری جانب سے ان کی باز آبادکاری کا باقاعدہ آغاز کل دوپہر بارہ بجے کے بعدسے ہو جائے گا۔ میں پھر ایک بار آپ سے تاخیر کے لیے معذرت چاہتا ہوں اور اس کارِ خیر میں آپ کے تعاون کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خدا حافظ۔‘‘

سرواٹسن کا اعلان سن کر ہر ملازم اپنے کمپیوٹر تک آیا اور امداد کا فارم کھول کر پڑھنے لگا۔ اس فارم کی پیشانی پر ایک گھڑی بنی ہوئی تھی  جس پر ہر منٹ میں ایک عدد کم ہو جاتا تھا۔ اگلے دن دوپہر بارہ بجے اس الٹی گنتی کو صفر تک پہنچ کر ہمیشہ کے لیے بند ہو جانا تھا۔ لوگوں کے قلب فلم کے دل دہلا دینے والے مناظر اور میکارڈے کی درد انگیز تقریر سے پسیج گئے تھے۔ انہیں خوف تھا کہ وہ کہیں جذبات سے مغلوب ہو کر زیادہ رقم نہ لکھ دیں، اس لیے اکثر نے رات میں غور و فکر کر کے دوسرے دن رقم لکھنے کا ارادہ کیا اور کمپیوٹر کو بند کر دیا۔ چند ایک نے اپنی سکت بھر رقم پُر کی اور فارم جمع کر دیا۔ روزینہ نے ہوش میں آنے کے بعد ہسپتال کے اندر سرواٹسن میکارڈے کی تقریر کو موکیا کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھا۔ تقریر کے ختم ہوتے ہی روزینہ نے اسی کمپیوٹر پر اپنے میل میں سے امدادی فارم کو کھولا اور اپنا بیلنس چیک کیا۔ بنک کے کھاتے میں اس روز جمع ہونے والی بونس کی رقم بھی درج تھی۔

روزینہ نے اپنے بینک بیلنس کی کل رقم کو ماؤس کی مدد سے سلیکٹ کیا اور کاپی کر کے فارم کے مطلوبہ خانے میں لا کر چپکا دیا۔ گویا ایک اُنگلی کی جنبش سے اس نے اپنا سارا اثاثہ بلا جھجک خیرات کر دیا اور بغیر کسی اعلان کے سرواٹسن میکارڈے پر بازی مار گئی۔ اس اقدام کے بعد اس کے دل کا بوجھ کسی قدر ہلکا ہوا۔ اس نے کمپیوٹر کو بند کر کے نذرینہ کے حوالے کیا اور کہا کہ اب وہ سونا چاہتی ہے۔ آپ لوگ یہ کریں کہ میری امی کو اپنے ساتھ گھر لے جائیں اور آرام کریں۔ روزینہ کی ماں میری نے اپنی بیٹی کے پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کی سہیلیوں کے ساتھ خدا حافظ کہہ کر گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔

 وہ تمام ملازمین، جنھوں نے امداد کی رقم ادا کر دی تھی، وہ تو روزینہ کی طرح چین سے سو گئے تھے، لیکن باقی ماندہ لوگوں کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ ان کی رات حساب کتاب کرتے کٹی۔ کیا دیں اور کیا نہ دیں، ان دو سولات کے درمیان وہ جھولتے رہے۔ سرواٹسن کی مشروط امداد پر انہیں غصہ آ رہا تھا۔ ان کا اس عظیم سرمایہ دار سے کیا تقابل؟ وہ تو ان مسکین ملازمین کے مقابلے بہت زیادہ امیر تھے۔ اس کے باوجود ان کی امدادی رقم صرف دس گنا زیادہ کیوں تھی؟ حالانکہ وہ احمق اس حقیقت کو بھول گئے تھے کہ انہوں نے سب کی مجموعی رقم سے دس گنا زیادہ کی پیش کش کی تھی اور اس کی کوئی حد بندی بھی نہیں تھی۔ ان بخیل لوگوں کو اس خرچ سے قبل اپنا ایک ایک خرچ یاد آ رہا تھا۔ کسی کو اپنا زیر تعمیر گھر تو کسی کے خوابوں کا کاروبار اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا تھا۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھیں ان کے بچوں کے مستقبل اور تعلیم کی فکر کھائے جا رہی تھی اور کوئی ایسا بھی تھا جو اپنی شادی کے اخراجات میں ہونے والی کٹوتی کے خوف سے پریشان تھا۔ دوسرے دن جب وہ دفتر آئے تو ان کے کمپیوٹر کا چوہا اس صفحے کی جانب جانے سے کترا رہا تھا جہاں پر امدادی فارم رکھا ہوا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، اُن کے دل تنگ ہوتے جاتے تھے۔ ایک ایک روپیہ نکالنا ان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا تھا۔

موکیا کی ویب سائٹ پر موجود امدادی فارم نہایت دلچسپ تھا۔ سب سے پہلے صفحہ پر صارف کو اپنا نام، شناختی نمبر اور پاس ورڈ لکھنا ہوتا تھا  جو دستخط کے مماثل تھا۔ اس کے بعد دوسرا صفحہ کھلتا تھا جس پر رقم لکھنے کا موقع تھا اور صفر لکھنے کی آزادی بھی تھی۔ اس کا بھرپور فائدہ اکثر لوگوں نے اُٹھایا، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی تھی بلکہ اس کے بعد ایک اور صفحہ اپنے آپ کھل جاتا تھا۔ اس صفحہ پر وہ بات لکھی تھی جس کا ذکر سرواٹسن میکارڈے نے اپنی تقریر میں نہیں کیا تھا۔ یہاں تباہ شدہ جزیرے کے سیلاب زدگان کی چند تصویروں کے نیچے جلی حروف میں لکھا تھا۔

’’موکیا ملازمین کے لیے سیلاب زدگان کی مدد کا نادر موقع‘‘

سرواٹسن نے خود اپنی نگرانی میں بیرن لینڈ کی باز آبادکاری کے لیے ایک رضاکار ٹیم مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ لوگ ہمہ وقتی طور پر ایک سال تک جزیرے کے اندر خدمتِ خلق کا کام کریں گے۔ اس عرصہ میں موکیا کی جانب سے ان کی تنخواہ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک سال کے خاتمہ پر انہیں مزید ایک سال کی پیشگی تنخواہ دے کر سبکدوش کر دیا جائے گا، اس شرط کے ساتھ کہ وہ مستقبل میں کبھی بھی موکیا میں ملازمت کے اہل نہیں قرار پائیں گے۔‘‘

ان عجیب و غریب شرائط نے لوگوں کو مخمصے میں گرفتار کر دیا تھا۔ ایک طرف بغیر کام کے دوگنی تنخواہ، دوسری طرف موکیا جیسی کمپنی کی ملازمت سے دائمی محرومی کا خطرہ۔ ایسے بے لوث افراد جن کے دل میں مظلوموں کا درد پایا جاتا تھا، انہوں نے تمام اندیشہ ہائے لولاک سے علی الرغم بلا جھجک اپنی خدمات پیش کر دیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور وہی تو دراصل زمین کا نمک کہلانے کے حقدار تھے۔

 

۱۰

سرواٹسن میکارڈے اگلے دن اپنے پندرہ ملازمین کے ساتھ بورڈ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ موکیا میں ملازمت کرنے والے چالیس ہزار افراد میں سے پندرہ پاکیزہ نفوس نے اپنی ملازمت کو داؤ پر لگا کر اپنے آپ کو انسانیت کی بے لوث خدمت کے لیے پیش کیا تھا۔ سرواٹسن کو ایسے ہی لوگوں کی تلاش تھی اور انہیں خوشی تھی کہ خدمتِ خلق کا ٹمٹماتا چراغ ابھی بجھا نہیں ہے۔ انہوں نے اس نشست میں حاضرین کا خیرمقدم کیا اور مبارکباد دی۔ وہ آگے بولے۔۔۔

’’آپ حضرات اور خواتین دوہری مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایک تو سیلاب زدگان کا تعاون اور دوسرے ان کی خدمت کے لیے عملی پیش کش۔ شکریہ بہت بہت شکریہ!‘‘

سرواٹسن کے الفاظ شرکائے محفل کے کانوں میں رس گھول رہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو نہایت خوش بخت محسوس کر رہے تھے۔ اس لیے کہ سرواٹسن جیسا عظیم انسان اور بڑا سرمایہ دار بنفسِ نفیس ان کی تعریف و توصیف بیان کر رہا تھا۔

سرواٹسن آگے بولے۔۔۔ ’’آپ لوگوں کے لیے دو خوشخبریاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کمپنی کے جتنے بھی لوگوں نے جو بھی رقم اپنی جانب سے امداد کی خاطر دی ہے، کمپنی کی جانب سے ان کے اکاؤنٹ میں اس سے دس گنا رقم بونس کے طور پر جمع کر دی جائے گی اور اسی قدر رقم کمپنی ریلیف فنڈ میں جمع کر دے گی۔ اس فیصلے کو راز میں رکھا جانا آزمائش کے پیشِ نظر تھا، تاکہ مخلص اور حریص لوگوں کے درمیان فرق کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ دوسری خوشخبری یہ ہے کہ بیرن لینڈ میں سیر و سیاحت کے فروغ کی خاطر ایک نئی کمپنی کی داغ بیل ڈالی جائے گی، جس کا نام بیرن لینڈ ٹورزم ڈیویلپمنٹ کمپنی یعنی ڈی۔ ٹی۔ ڈی۔ سی۔ ہو گا۔ آپ تمام لوگ ایک سال بعد اس میں جذب کر لیے جائیں گے اور اس کمپنی میں آپ سب کی تنخواہ موجودہ کی بہ نسبت کم از کم دس گنا زیادہ ہو گی۔ یہ آپ کے جذبۂ عمل کا حقیر بدلہ اور آپ کی عظیم خدمات کی پذیرائی ہے۔‘‘

جب سرواٹسن اپنی جگہ بیٹھ گئے تو ڈیوڈ مانسمن ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اُٹھے اور کہا۔ ’’سرواٹسن ایک فرشتہ صفت انسان ہیں۔ وہ ایک دردمند مگر کشادہ دل کے حامل ہیں۔ ہم اُن کے ممنون و مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیں اس خدمت کے قابل سمجھا اور بے شمار انعام و اکرام سے ہمیں نوازا۔ اگر حاضرین میں سے کوئی کسی قسم کی وضاحت چاہتا ہے تو سوال کر سکتا ہے۔ سرواٹسن اس کا جواب دیں گے۔‘‘

روزینہ نے ہاتھ اُٹھا کر اجازت طلب کی۔ ڈیوڈ نے اجازت دے دی۔ وہ بولی۔ ’’کیا ہم میں سے ہر ایک کے لئے نئی کمپنی میں ملازمت اختیار کرنا لازمی ہو گا یا ہمیں اس پیش کش کو نامنظور کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گا؟‘‘

بظاہر یہ ایک نہایت بے تکا سوال تھا، جس نے ڈیوڈ سمیت تمام لوگوں کو چونکا دیا لیکن سرواٹسن مسکرائے اور بولے۔ ’’یہ میری جانب سے ایک پیش کش ہے، جسے منظور یا نامنظور کرنے کی مکمل آزادی آپ سب کو حاصل ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ میں بھی مس روزینہ سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ سوال آپ نے کیوں کیا؟ ویسے اگر وہ اس کا جواب نہ دینا چاہتی ہوں تو اس کا بھی انہیں اختیار ہے۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’آپ کی خواہش کو ہم حکم کے درجے میں رکھتے ہیں۔ ہم آپ کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ مگر یہ بات صاف ہونی چاہیے کہ ہم نے یہ فیصلہ کسی مادی فائدے کی خاطر نہیں کیا ہے۔ ہم آپ سے اس کا کوئی بدلہ نہیں چاہتے۔ میں نے سیلاب کی تباہی و بربادی کے مناظر دیکھنے کے بعد اپنی زندگی کا باقی حصہ ریڈ کراس کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور تا عمر مصیبت زدگان کی خدمت کرنا چاہتی تھی، اس لیے آپ کی جانب سے دی جانے والی دس گنا بونس کی رقم کو بھی امدادی فنڈ میں ڈالنے کی درخواست کرتی ہوں۔‘‘

روزینہ کی پیش کش کو سن کر سرواٹسن سمیت تمام لوگوں کی پلکیں نمناک ہو گئیں۔ وہ بولے۔ ’’روزینہ مجھے تم جیسی بیٹی پر ناز ہے۔ یہ ہمارے لئے سعادت ہو گی کہ ہم تمہارے ساتھ ایک سال کام کریں گے۔ اس مدتِ کار کے بعد تم اپنا راستہ از خود طے کر سکتی ہو۔ لیکن ہم تمہیں اتنا یقین دلاتے ہیں کہ اپنے ہر کارِ خیر میں تم ہمیں اپنے شانہ بشانہ موجود پاؤ گی۔‘‘ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد یہ اجلاس اختتام کو پہنچ  گیا۔

سرواٹسن کے فیصلوں کی خبر جب موکیا میں پھیلی تو ان پندرہ افراد کے علاوہ ہر کوئی سوگوار ہو گیا۔ ہر کسی کو اس بات کا ملال تھا کہ کاش اس نے اور زیادہ رقم امداد کے لیے دی ہوتی۔ کاش کہ اس نے اپنے آپ کو رضاکار کے طور پر پیش کر دیا ہوتا۔ لیکن اب افسوس کرنا لاحاصل تھا۔ موقع اس تیر کی طرح ہاتھ سے نکل چکا تھا جو لوٹ کر واپس نہیں آتا، اس لہر کی مانند گزر چکا جس کے لیے واپس آنا ممکن نہیں تھا۔

دو دن کی تیاری کے بعد علی الصبح مخلص رضاکاروں کا ایک ٹولہ خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعہ بیرن لینڈ روانہ ہو گیا۔ اس بیچ ان کے لیے خیمہ نما قیام گاہیں اور عارضی دفاتر تیار ہو چکے تھے۔ ڈیوڈ ایک نہایت باصلاحیت اور فعال منتظم تھا۔ اس نے دوپہر کو طعام کے بعد اپنی ٹیم کی ایک میٹنگ طلب کی اور بتلایا کہ جزیرے کی باز آبادکاری ایک وسیع و ہمہ گیر کام ہے اور اس میں ہم نہ صرف مقامی افراد بلکہ دیگر سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کا تعاون بھی حاصل کریں گے۔ اس لیے اشتراکِ عمل کی خاطر شعبہ جات کا قیام ضروری ہے۔ مثلاً! سروے ٹیم جو نقصانات کا جائزہ لے، امدادی ذخائر کے تحفظ و تقسیم کا شعبہ جس میں سارا سامان جمع ہو اور مستحقین تک حسبِ ضرورت پہنچایا جائے، رابطۂ عامہ کا شعبہ جو دیگر تنظیموں اور باہر کی دُنیا سے ربط ضبط رکھے وغیرہ۔

اس ٹیم کے سب سے تجربہ کار رکن ٹونی نے مشورہ دیا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو اس وقت تک بخیر و خوبی انجام نہیں دے سکتے جب تک کہ ہمیں یہاں کی مقامی صورتِ حال خاص طور پر لوگوں کے بارے میں کم از کم معلومات حاصل نہ ہوں۔

ڈیوڈ نے کہا۔ ’’جی ہاں، آپ کی بات معقول ہے۔ یہاں کی مقامی آبادی سیاہ فام لوگوں پر مشتمل ہے۔ دیگر لوگ جو حادثاتی طور پر یہاں آ کر پھنس گئے ہیں، اُن کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ لیکن اکثریت یوروپین لوگوں کی ہے۔ ہماری اوّلین ذمہ داری باہر کے لوگوں اپنے مقامات تک بحفاظت واپس پہنچانے کی ہے، لیکن اگر اُن میں سے کوئی مستقل طور پر یہیں بس جانے کی خواہش کا اظہار کرے تو اس کے لیے سرواٹسن کی اجازت حاصل کرنا لازمی ہے۔ اسی کے ساتھ جو لوگ امدادی کام کے لیے دیگر ممالک سے یہاں آئیں گے، اُن کی ہمیں خاص نگرانی کرنی ہو گی۔ اگر اُن میں سے کوئی اپنی مدتِ کار کے بعد بھی لوٹنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس کی اطلاع ہمیں سرواٹسن کو دینی ہو گی۔ اس لیے کہ ان کی توثیق کے بغیر کسی بھی بیرونی شخص کے لیے جزیرے میں لامحدود قیام ممکن نہیں ہے۔‘‘

ڈیوڈ کے خطاب کا آخری حصہ رضا کاروں کو چونکا دینے والا تھا۔ وہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ اُنہیں یکبارگی ایسا محسوس ہوا گویا وہ امدادی کارکن کے بھیس میں سرواٹسن کے کسی خفیہ گروہ کے جاسوس ہیں۔ ڈیوڈ سمجھ گیا کہ پہلے ہی مرحلے میں یہ راز افشا نہ کرنا چاہئے تھا، اس طرح جلد بازی نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی۔ رضاکاروں کی آنکھوں میں جلتے ہوئے سوالات کو بھانپ کر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا۔

’’عزیز ساتھیو! میں آپ کے اندر ایک بے چینی دیکھ رہا ہوں اور اس کی وجہ سمجھتا ہوں۔ آج کل عالمی، سیاسی اور معاشی صورتِ حال نہایت سنگین ہے۔ ایسے میں اس طرح کی احتیاط ضروری ہے ورنہ کوئی خاص بات نہیں۔ اس کام کو ہم نہایت حسن و خوبی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اور ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ہمارے کسی حریف کا کوئی آدمی یہاں آ کر کوئی گڑبڑ کر دے جو آگے چل کر ہماری کمپنی اور ہمارے مالک کی بدنامی کا سبب بنے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی اور کی سزا ہمیں ملے اور نیک نامی کے بجائے سرواٹسن کے نام کوئی بٹہ لگے۔ اسی لیے یہ تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔‘‘

ڈیوڈ کی صفائی سے لوگ کسی حد تک مطمئن تو ہو گئے اور اپنے اپنے شعبہ جات کی منصوبہ بندی میں بھی لگ گئے، لیکن جو خلش پیدا ہو چکی تھی، وہ اپنی جگہ شیشہ کا بال بن گئی تھی۔

روزینہ کو سروے ٹیم کا سر براہ بنایا گیا تھا۔ دن بھر وہ مقامی باشندوں اور بیرونی سیاحوں کے درمیان ماری ماری پھرتی رہتی۔ اس مہم نے اس کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کر دیا تھا۔ انسانی ہمدردی اور غمخواری کا تلاطم اس کے اندرون میں موجزن تھا۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی ماں سے دُور ہوئی تھی، لیکن اسے اس بات کا چنداں ملال نہیں تھا۔ اس کی ماں میری نے بھی اس معاملے میں یہ کہہ کر اُس کا حوصلہ بڑھایا تھا کہ بیٹی! ایک جان کا خیال رکھنے سے کہیں زیادہ اہم سیکڑوں کی باز آبادکاری ہے اور اگر وہ اپنی ماں کی خاطر اس سیلاب زدگان کی حق تلفی کرتی ہے تو اس کا ایسا کرنا انصاف کے منافی ہے۔ موکیا نے میری کی دیکھ بھال کا ذمہ اپنے سر لے لیا تھا، جس سے روزینہ مطمئن تھی، لیکن اس کے باوجود کبھی کبھار تنہائی میں اسے اچانک جوزف کی کمی محسوس ہونے لگتی تھی۔ اس کی یادیں کچھ اس طرح سے دل کے دروازے پر دستک دینے لگتیں کہ وہ بے چین ہو جاتی۔ نہ جانے کیوں روزینہ کو یقین تھا کہ جوزف اس جزیرے پر کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ وہ اپنے جوزف سے کم از کم ایک بار ملنا چاہتی تھی تاکہ اسے بتائے کہ اس سال کا ’’مین آف موکیا‘‘ کوئی اور نہیں بلکہ جوزف گلاسگوف ہے۔ ساری دُنیا میں اس کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اس کے بینک اکاؤنٹ میں انعام اور بونس کے لاکھوں یورو جمع ہیں اور فی الحال اس کا شمار دُنیا کے امیر لوگوں میں ہوتا ہے۔

اسی کے ساتھ جوزف کے تئیں اس کے دل میں ایک احساسِ جرم بھی تھا۔ اسے کبھی کبھار ایسا بھی لگتا کہ وہ اپنی ساس کی قاتل ہے۔ اسے اپنے جرم کا کفارہ ادا کرنے کے لیے جوزف سے ملنا ضروری تھا۔ اس کا دل بار بار یہ کہتا تھا کہ۔۔۔

وہ تو کہیں ہیں اور مگر دل کے آس پاس

پھرتی ہے کوئی شہ نگہ یار کی طرح

روزینہ کی آنکھیں اسی شہ کی تلاش میں سرگرداں رہتی تھیں۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ جوزف اس دیارِ غیر میں شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر اتفاق سے کہیں نظر آ جائے اور پھر وہ اس سے لپٹ کر خوب خوب روئے، اپنی تمام بے اعتنائیوں کی معذرت چاہے، اپنے قتل کا برملا اعتراف کرے اور اپنے آپ کو قرار واقعی سزا کے لیے پیش کر دے۔ لیکن جوزف تھا کہاں ؟ اس کا کہیں دُور دُور تک اتہ پتہ نہیں تھا۔

جزیرے پر آباد مقامی قبیلہ کا نام ہنڈالو تھا اور ان کی زبان ہنڈالی کہلاتی تھی۔ اس دوران روزینہ نے ٹوٹی پھوٹی کام چلاؤ ہنڈالی سیکھ لی تھی۔ یعنی کسی نہ کسی حد تک مخاطب کی بات سمجھ لیتی تھی، لیکن اپنا مُدعا بیان نہ کر پاتی تھی۔ ایک دن اُسے پتہ چلا کہ بیرن لینڈ کے اندر قبیلہ کے سرکردہ افراد کا ایک عام اجلاس ہونے والا ہے۔ اس اجلاس کے حوالے سے مقامی آبادی کے نادر بڑا جوش و خروش تھا اور انہوں نے اس سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ روزینہ کے اندر بھی اس کے حوالے سے اچھا خاصہ تجسس پیدا ہو گیا تھا اور اس نے اجلاس میں شریک ہو کر اس کا مشاہدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

روزینہ کی آمد نے مقامی لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ وہ اسے بھانپ گئی اور ان پر مسلط ہونے کے بجائے اس نے نہایت متانت کے ساتھ اجازت طلب کی۔ وہ بولی۔ ’’میں نے اس طرح کا اجلاس پہلے کبھی نہیں دیکھا اور میں نہیں جانتی کہ دوبارہ اس کا موقع مجھے نصیب ہو گا بھی یا نہیں۔ اس لیے موقع غنیمت جان کر بن بلائے میں یہاں چلی آئی۔ اب اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں اس اجلاس کو دیکھوں ورنہ واپس چلی جاؤں۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں درمیان میں کچھ بھی نہیں بولوں گی اور اگر آپ کو کوئی رازدارانہ بات کسی بھی وقت کرنی ہو تو مجھے باہر جانے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ میں بلا چوں و چرا اپنا راستہ ناپ لوں گی۔‘‘

روزینہ کی التجا سے سارے لوگوں کے دل پسیج گئے۔ ان لوگوں نے روزینہ سے کہا۔ ’’آپ ہماری معزز مہمان ہیں۔ ہم آپ کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی موجودگی ہمارے لئے باعثِ سعادت ہے اور آپ کے مشوروں کا ہم نہ صرف خیر مقدم کریں گے بلکہ ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض بھی کریں گے۔‘‘

 

۱۱

خصوصی اجلاس کا آغاز ہنڈالو روایت کے مطابق مقدس کتاب کی تلاوت سے ہوا۔ اس کے بعد قبیلے کی بزرگ ترین شخصیت چکلمنڈو کو دعوت دی گئی کہ وہ خطاب فرمائیں اور اجلاس کی غرض و غایت نیز پس منظر پر روشنی ڈالیں۔ چکلمنڈو نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ ان لوگوں نے اپنا وطن چھوڑ دیا، اپنی سر زمین سے تو دُور ہونے پر مجبور ہو گئے مگر اپنی روایات سے ناطہ نہیں توڑا، نیز ہر نئی مشکل کا حل نکالنے میں اپنی تاریخ سے مدد حاصل کی۔ لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ یہ نئی صورتِ حال ماضی کے تمام واقعات سے یکسر مختلف ہے اور اس کی نظیر ہنڈالو تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس لیے ہمارے سامنے فی الحال اجتہاد کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے۔

چکلمنڈو نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ’’ایسا بھی نہیں ہے کہ اس طرح کی نت نئی مشکلات ہمارے سامنے پہلے کبھی نہیں آئیں، بلکہ ایسا ہوتا رہا ہے۔ مثلاً وہ ہمارا ہی قبیلہ تھا جس نے انگریزوں کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ لیکن بعد میں ہم جیتی ہوئی جنگ ہار گئے اور پھر ہمارے حصے بخرے کر دئیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود جذبۂ حریت کی شمع ہمارے سینے میں ہمیشہ روشن رہی۔ اس کے بعد ہم میں سے ایک گروہ کو غلام بنا کر بیرن لینڈ روانہ کر دیا گیا اور سچ تو یہ ہے کہ یہاں آمد سے قبل ہم نے کبھی بھی غلامی قبول نہیں کی تھی اور انگریزی سامراج کے باوجود ایک آزاد قبیلے کے طور پر افریقہ کے وسیع و عریض جنگل میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ بیرن لینڈ میں ہمارے ایک نہیں بلکہ دو دو آقا تھے اور وہ بھی ایسے خلیق و منکسر المزاج کہ انہوں نے ہمیں کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہم غلام اور وہ مالک ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج یہ بات ہماری یادداشت سے محو ہو چکی ہے کہ کسی وقت ہم غلام بھی بنائے گئے تھے۔ جب ہمارے ایک آقا ڈیرک کا انتقال ہوا تو اس گروہ کی سربراہی ہمارے ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے جنگالو کے ہاتھ آ گئی۔ دوسرے گروہ کا آقا جیکب ضرور تھا لیکن اس نے اپنا نائب ہمیں سے ایک امنالو کو بنایا۔

ہماری تاریخ میں ایک اہم موڑ اُس وقت آیا جبکہ ہم آپس میں جیکب اور جنگالو کی کمان میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہو گئے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا تھا اس لیے کہ ہنڈالو روایت کے مطابق ایک دوسرے کا خون بہانا صریحاً حرام تھا اور پھر آسمان گیتی نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب امنالو نے اپنی جان پر کھیل کر خون خرابے کو ٹال دیا۔ اس واقعہ کے بعد جیکب ہمیں چھوڑ کر دُور دیس کی جانب نکل گیا۔ جنگالو ایک رات کے لیے سارے قبیلے کا سربراہ بن گیا۔ ہم سب متحد ہو گئے لیکن اس رات کو صبح نصیب نہیں ہو سکی۔ ایسی آندھی آئی کہ جنگالو اپنے نائب چنگالو اور سارے خاندان کے ساتھ ڈوب مرا اور ہم اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ بے سردار ہو گئے۔

آندھی اور طوفان کے خوف نے ہمیں اپنے وجود سے غافل کر دیا۔ ہمیں اپنے وجود کی جنگ میں مصروفِ عمل کر دیا اور ہم زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن اب جبکہ پانی اُترا ہے، تو ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ ہماری گردن پر سر نہیں ہے۔ اس طرح کی سر کٹی حالت میں ہم کب تک اور کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ یہ میں نہیں جانتا اور شاید اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ نہیں، شاید ہم سب جانتے ہیں کہ امیر کے بغیر ہماری اجتماعیت قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو ہماری حالت بھیڑوں کے اس ریوڑ کی مانند ہو جائے گی جسے بھیڑیا جب چاہے گا، جہاں چاہے گا، ہانک کر اپنے ساتھ لے جائے گا۔ اس لیے جلد از جلد ہمیں کسی کو اپنا سربراہ بنا لینا چاہیے۔ میں نے ماضی کا تذکرہ اس لیے کیا تاکہ آپ لوگوں کو احساس ہو سکے کہ اب تک پیش آنے والے سارے مسائل میں یہ سب سے سنگین مسئلہ ہے، لیکن ہم ہمیشہ ہی مل بیٹھ کر اپنی مشکلات کا اطمینان بخش اور قابلِ عمل حل نکالنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں اور مجھے اُمید ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔‘‘

چکلمنڈو کی تائید تقریباً سبھی نے کی اور موجودہ صورتِ حال کو اجتماعی ہلاکت کے مترادف قرار دیا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ آخر اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے؟ روزینہ کے لیے یہ تانے بانے بے معنیٰ تھے۔ وہ چونکہ پس منظر سے ناواقف تھی، اس لئے اُن کو جوڑ کر تصویر کو مکمل کرنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ لیکن دامِ شنیدن سے پرے مدعا عنقا بنا ہوا تھا۔ اس کے باوجود روزینہ کی معلومات اور دلچسپی دونوں میں اس گفتگو کے سبب بیش بہا اضافہ ہوا تھا۔

اس بیچ حاضرین میں موجود ایک نوجوان نے سوال کیا۔ ’’اس بابت ہنڈالو روایت کیا رہنمائی فراہم کرتی ہے؟ کیا ہمارے صحائف اس بارے میں بالکل خاموش ہیں ؟‘‘

چکلمنڈو نے اس سوال کا جواب یہ دیا کہ وہ واقعات جو ماضی میں پیش آتے رہے، اُنہیں صحائف میں شامل کیا جاتا رہا۔ اس طرح رسوم و رواج کا ارتقاء جاری رہا۔ سردار کے تعین میں ہماری روایت یہ رہی ہے کہ اگلے سربراہ کو نامزد کرنے کی ذمہ داری موجودہ سردار کی ہوتی ہے۔ گویا ہر سردار سابق سردار کے ذریعہ نامزد کیا جاتا تھا اور ہر نیا سردار کمان سنبھالتے ہی سب سے پہلا کام یہ کرتا تھا کہ قبیلے کے سب سے لائق و فائق شخص کو اپنا نائب نامزد کر دیتا جو اُس کے بعد قبیلے کا سردار بن جاتا۔ بیرن لینڈ میں ہجرت کے بعد صورتِ حال میں ایک تبدیلی ہوئی۔ چونکہ ہم یہاں پر تقسیم شدہ حالت میں تھے اس لیے ایک کے بجائے دو سردار اور ان کے دو نائبین ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ قدرت کی عجب ستم ظریفی ہے کہ ایک دن اور رات نے چاروں کو نگل لیا اور سارے راستوں کو مسدود کر دیا۔ لیکن اس سے پہلے ایسا صرف ایک بار ہوا ہے کہ سربراہ اور اس کا نائب ایک ساتھ ہلاک ہوئے ہوں۔

کئی لوگوں نے بیک وقت سوال کیا۔ ’’اچھا تو اس صورت میں کیا حکمتِ عملی اختیار کی گئی؟‘‘

چکلمنڈو بولے۔ ’’اس وقت اس مسئلہ کا یہ حل نکالا گیا کہ سردار کے بیٹے کو، جو نابالغ تھا، سردار بنا دیا گیا اور اس نے ایک قابل آدمی کو قائم مقام سربراہ نامزد کر کے روزمرہ کے کاموں کی عملی کمان اپنے نائب کو سونپ دی۔‘‘

اس تفصیل کو سننے کے بعد ایک اور سوال سامنے آیا کہ کیا اس نائب کا تعلق بھی سابق سربراہ سے تھا؟

’’جی نہیں ! ہنڈالو قبیلے میں موروثی نظام کبھی بھی نہیں پنپا۔ وہ ایک استثنائی صورت حال تھی جس میں سربراہ کے بیٹے کو سردار بنایا گیا تھا اور اسے کبھی بھی دوہرانے کی غلطی نہیں کی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اس روایت پر بھی عمل درآمد نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ جنگالو اپنے سارے خاندان کے ساتھ غرقاب ہو چکا ہے اور اس کا کوئی بیٹا حیات نہیں ہے۔ جیکب ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے اور وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ اس کی اولاد کو بیرن لینڈ کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔ اور باقی بچا امنالو، تو اس کا بیٹا میکالو کسی یوروپی ملک میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ لیکن کوئی تو اس کے بارے میں جانتا ہو گا! کیوں نہ ہم اس سے اس کا پتہ لگائیں ؟‘‘ ایک اور تجویز سامنے آئی۔

ضعیف چکلمنڈو نے جواب دیا۔ ’’اس کا علم صرف جیکب کو ہے۔ چونکہ جیکب یہاں موجود نہیں ہے، اس لیے اس سے رابطہ قائم کرنا ناممکن ہے۔‘‘

روزینہ نے کہا۔ ’’اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں بھی کچھ عرض کروں ؟‘‘

’’جی ہاں ۔۔۔ آپ ضرور بولیں، ہم ہمہ تن گوش ہیں۔‘‘

روزینہ نے کہا۔ ’’شکریہ۔ آج کل ذرائع ابلاغ نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ دُنیا بھر میں کسی بھی فرد سے رابطہ قائم کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ دُنیا بے حد مختصر ہو گئی ہے اور آپ کہیں سے بھی، کسی کو بھی پکار کر اپنی بات سنا سکتے ہیں، بلکہ دیکھ بھی سکتے ہیں۔‘‘

’’روزینہ! آپ ہم سے مذاق تو نہیں کر رہی ہیں ؟ ہم لوگ جب اپنے دیس ہنڈال میں رہتے تھے تو قدیم ارواح کو اپنے قبضے میں کر کے جادو ٹونا کیا کرتے تھے۔ لیکن اب تو وہ جنتر منتر بھی بھول گئے۔‘‘ ایک بزرگ نے مسکرا کر کہا۔

روزینہ بولی۔ ’’بابا۔۔۔ یہ نہ جادو ٹونا ہے اور نہ جنتر منتر۔ یہ سائنس اور ٹکنالوجی ہے، جس نے انہونی کو ہونی میں بدل کر رکھ دیا۔ فاصلوں کو مسخر کر دیا اور انسانی خوابوں کی تعبیر بن گئی۔‘‘

’’اگر یہ سب سچ بھی ہے بیٹی، نیز جن ذرائع کا تم ذکر کر رہی ہو، وہ اگر موجود بھی ہیں تو اُن تک ہماری رسائی نہیں ہے؟‘‘

’’یہ بات درست ہے، لیکن اگر آپ مجھے اجازت دیں تو جیکب اور امنالو کے بیٹے میکالو سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر سکتی ہوں۔‘‘

’’بہت خوب۔ اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔‘‘ چکمنڈو نے جواب دیا۔ ’’اگر تم میکالو سے رابطہ قائم کر لیتی ہو اور وہ یہاں آنے پر راضی ہو جائے تو ہم بلا توقف اسے اپنا سربراہ بنا لیں گے اور سارا تنازعہ حل ہو جائے گا۔‘‘

روزینہ نے کہا۔ ’’اس کام کے لیے آپ مجھے ایک ہفتہ کا وقت  دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر آپ لوگ خود میکالو سے مخاطب ہو کر ان کا عندیہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘ اس یقین دہانی سے سارے لوگوں کے چہرے کھل گئے اور اجلاس ایک ہفتہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

سرواٹسن میکارڈے ہنڈالو قبیلے کے اس اجلاس کے بارے میں کافی تشویش کا شکار تھے۔ اُنہیں اندیشہ تھا کہ یہ جنگلی لوگ نہ جانے کیا فیصلہ کر بیٹھیں گے اور کس کو اپنا سردار بنا کر اس کا سارا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیں۔ لیکن جب انہیں ڈیوڈ نے بتلایا کہ روزینہ نادانستہ طور پر اجلاس میں شریک ہو چکی ہے تو بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے فوراً روزینہ کو اپنے پاس بلوا بھیجا اور بڑی حکمت کے ساتھ سروے کے کام کی تفصیلات معلومات کرتے کرتے اجلاس تک پہنچ گئے۔ روزینہ نے نہایت سادگی کے ساتھ ساری تفصیل اُن کے سامنے پیش کر دی۔ یہ سن کر سرواٹسن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اس لیے کہ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ سیدھی سادی نظر آنے والی روزینہ ہنڈالو قبیلہ کا اس قدر اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور اس کے ذریعہ ان کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنا اس قدر سہل ہو جائے گا۔ اب انہیں بس یہ کرنا تھا کہ روزینہ کے ذریعہ کچھ اس طرح نگرانی کرواتے کہ قبیلہ والوں کو تو کجا خود روزینہ کو بھی اس کا علم نہ ہوتا کہ وہ کس کے لیے کیا کام کر رہی ہے ؟اس کام میں راز داری اور مہارت دونوں کی بڑی اہمیت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ روزینہ پر ہنڈالو لوگوں کو کبھی بھی شک نہ ہو گا۔ لیکن انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں روزینہ ان پر شک نہ کر بیٹھے۔

واٹسن نے کہا۔ ’’تم نے وعدہ تو کر دیا لیکن رابطہ کرو گی کیسے؟‘‘

روزینہ نے مسکرا کر کہا۔ ’’موکیا کا مالک یہ سوال کر رہا ہے ؟‘‘

واٹسن بولے۔ ’’ہاں بیٹی، اس لیے کہ موکیا کے مالک کو اپنے حدود و قیود کا علم ہے۔ طوفانی تباہی نے سارے مواصلاتی نظام کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ فی الحال بیرن لینڈ میں صرف ایک نیا مواصلاتی ٹاور ہے جس کا دائرۂ کار نہایت ہی محدود ہے۔ میں خود بھی جب ان دفاترسے دُور جاتا ہوں تو دُنیا بھر سے کٹ کے رہ جاتا ہوں۔ جس مقام پر اُن کا اجلاس آج ہوا ہے، وہاں سے تو فون کا رابطہ ناممکن ہے۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’سر، میں نے صرف رابطہ کروانے کا وعدہ کیا ہے، لیکن یہ نہیں کہا کہ اسی مقام سے وہ فون پر بات کریں گے۔ میرے خیال میں انہیں اس دفتر کے کسی خالی کمرے تک آنے میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘

’’لیکن رابطے کے لیے ایک اور ضرورت میکالو کے نمبر کی ہے۔ کیا وہ کسی کے پاس موجود ہے؟‘‘

’’جی نہیں۔ وہ تو صرف جیکب کے پاس ہے۔‘‘

’’اور جیکب کا نمبر؟ وہ بھی شاید کسی کے پاس نہیں ہے؟‘‘

’’جی ہاں۔ لیکن میں جیکب کے پسماندہ کاغذات میں اسے تلاش کروں گی۔ ممکن ہے اس کا یا اس کے کسی رشتہ دار کا کوئی نمبر مل جائے جن سے وہ رابطے میں رہا ہو۔ مجھے اس مشکل کا اندازہ ہے، اسی غرض سے میں نے ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے۔‘‘

سرواٹسن ہر لمحہ روزینہ کی ذہانت کے قائل ہوتے جا رہے تھے۔  انہوں نے کہا۔ ’’بہت خوب۔۔۔ تم کوشش کرو اور میرے لائق اس بابت کوئی بھی خدمت ہو تو بلا تکلف بتلاؤ۔ میں اس معاملہ میں پوری طرح تمہارے ساتھ ہوں۔ میں دراصل یہ نہیں چاہتا کہ ان قبائلی لوگوں کے درمیان کوئی انتشار پیدا ہو اور پھر جنگ جدال کا بازار گرم ہو جائے۔ میں امن و امان چاہتا ہوں، خون خرابہ نہیں چاہتا۔ اگر یہ سارے لوگ میکالو کی سربراہی پر راضی ہو جاتے ہیں اور وہ بھی یہاں آنے کے لیے تیار ہو جائے تو اسے یہاں بلانے اور بسانے کا اہتمام میں اپنی جانب سے کر دوں گا۔‘‘

اس یقین دہانی کے بعد روزینہ کی نظر میں سرواٹسن کے احترام میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہ بولی۔ ’’سر آپ عظیم انسان ہیں، میں آپ کے افکار و خیال کا بے حد احترام کرتی ہوں اور آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔‘‘

’’شکریہ بیٹی! لیکن یاد رکھو، ہم سب انسان ہیں۔ ہم میں نہ کوئی عظیم ہے اور نہ رذیل۔ بلکہ ہر کسی میں تھوڑی بہت عظمت اور تھوڑی بہت رذالت پائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود انسان ہونے کی حیثیت سے ہمیں ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار ہونا چاہئے۔ یہ سب سے اہم بات ہے۔‘‘

 

۱۲

روزینہ کے لئے اب جیکب کا فون نمبر حاصل کرنا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ اس مہم کی ابتدا اُس نے ان لوگوں سے کی جن کے ساتھ جیکب کے قریبی تعلقات تھے۔ اسے پتہ چلا کہ جیکب نے اپنی عمر اور صحت کے باعث تقریباً تمام کام امنالو کے حوالے کر دئیے تھے اور وہی سارا کام کاج چلاتا تھا۔ جیکب اس بیچ ایک الگ تھلگ تنہائی کی زندگی گزارنے لگا تھا اور اس کا لوگوں سے ملنا جلنا کافی کم ہو گیا تھا۔ جیکب اور ڈیرک کو بیرن لینڈ اور یہاں کے بسنے والے لوگوں سے اس قدر اُنسیت ہو گئی تھی کہ وہ دونوں اپنے اعزہ و اقرباء سے بھی دُور ہو گئے تھے۔ جوانی میں تو ان کا اکثر و بیشتر اٹلی آنا جانا رہتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم عمر رشتہ دار اور دوست و احباب ایک ایک کر کے دُنیا سے سدھارتے چلے گئے۔ بیویوں کو ان سے زیادہ دلچسپی امور خانہ داری اور پوتوں نواسوں میں ہو گئی۔ بچے اپنی اولاد کی ذمہ داریوں میں ایسے غرق ہوئے کہ اپنے والد سے غافل ہو گئے۔ اس طرح ڈیرک اور جیکب بھی ان کو بھول بھال گئے۔ ڈیرک نے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ اس کی لاش کو اٹلی روانہ کرنے کے بجائے یہیں بیرن لینڈ میں دفن کر دیا جائے۔ اس لیے کہ وہاں کی موجودہ نئی نسل میں نہ کوئی اس کا جاننے والا ہے اور نہ کوئی اُس کے لیے رونے والا ہے اور یہاں بیرن لینڈ میں سبھی اس کے اپنے ہیں۔ ڈیرک کی موت کے بعد ہنڈالو روایت کے مطابق اس کا سوگ منایا گیا۔ اس غم میں قبیلے کے دونوں حصے آپسی تفریق کو مٹا کر شریک ہوئے تھے۔ ڈیرک کے تعزیتی جلسے میں جنگالو کے علاوہ امنالو اور جیکب نے بھی اسے دل کھول کر خراجِ عقیدت پیش کیا۔

جیکب کا ارادہ بھی مر کر یہیں دفن ہونے کا تھا، لیکن انسان نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے اُسے موت ہی آتی ہے۔ وہ نہ اپنے مقامِ پیدائش کے تعین کا اختیار رکھتا ہے اور نہ اپنی جائے وفات طے کر سکتا ہے۔ وہ تو اس کی موت ہی ہوتی ہے جو ایک خاص وقت تک اس کی حفاظت کرتی رہتی ہے اور کسی کو اسے مارنے کی اجازت نہیں دیتی اور اپنے وقتِ خاص پر اسے لامحالہ اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں اس کا کام روح کو قبض کرنا ہوتا ہے۔ جیکب کی تقدیر میں شاید بیرن لینڈ کی خشک مٹی نہیں تھی۔ وہ اپنے آنسوؤں کو اس مٹی کی نذر کر کے با دلِ ناخواستہ عمر کے اس آخری حصہ میں اپنوں سے جدا ہو گیا اور اٹلی کے اجنبی دیس کی جانب روانہ ہونے کے لیے مجبور ہو گیا تھا۔ حقیقت یہی تھی کہ اُسے ڈیرک کی موت پر رشک تھا۔

جیکب جاتے جاتے صرف ضرورت کا تھوڑا بہت سامان اپنے ساتھ لے کر گیا تھا اور بہت سارا کوڑا کباڑا اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ روزینہ اس میں گھس گئی۔ اسے کسی بیاض یا ڈائری کی تلاش تھی جس کے اندر اٹلی کے کچھ پتے یا ٹیلی فون نمبر موجود ہوں اور جن کی مدد سے وہ جیکب تک رسائی حاصل کر سکے۔ کافی چھان بین کے بعد ایک بوسیدہ بیاض اس کے ہاتھ آئی جس میں کئی نام لکھے ہوئے تھے اور ان کے آگے اطالوی نمبر موجود تھے۔ لیکن ان سے یہ پتہ چلانا ناممکن تھا کہ ان لوگوں کا جیکب سے کیا تعلق تھا؟ جیکب نے چونکہ یہ اندراج اپنے لیے کیا تھا، اس لیے اسے کوئی تفصیل لکھنے کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔ انسان ان باتوں کو قلمزد نہیں کرتا جن کے بھولنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہوتا۔ ایسا ہی کچھ جیکب کا معاملہ تھا۔ لیکن روزینہ کے لیے یہ ایک آزمائش تھی۔ اس کے لیے تو یہ فیصلہ بھی کرنا ایک مشکل کام تھا کہ ان میں سے کون زندہ ہے اور کون اس دارِ فانی کو داغ مفارقت دے چکا ہے۔ اس کے باوجود روزینہ کے لیے یہ معلومات ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند تھی اور وہ اسے پا کر بہت خوش تھی۔

روزینہ پہلے تو اس تذبذب میں گرفتار رہی کہ اپنی کارروائی کو کہاں سے شروع کرے؟ کس نمبر پر رابطہ کرے اور کس پر نہ کرے؟ لیکن پھر اسے احساس ہوا کہ چونکہ سب ایک جیسے ہیں، اس لیے ایک سرے سے شروع کرنے میں عافیت ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی مہم آغاز کے بغیر انجام کی منزل میں داخل نہیں ہو سکتی۔

روزینہ اس بیاض کے ساتھ سرواٹسن کے دفتر میں آئی اور ایک طرف سے شروع ہو گئی۔ کسی فون پر دیر تک گھنٹی بجتی تو وہ سمجھ لیتی کہ یہ فون نمبر بند ہے یا بدل گیا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ سامنے سے صرف اطالوی زبان میں جواب ملتا۔ روزینہ کو ہنڈالی زبان تو کسی قدر آ گئی تھی، لیکن اطالوی کی الف ب سے بھی وہ واقف نہیں تھی۔ لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھی۔ اس لیے اس نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسے شخص سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی جو نہ صرف جیکب کا قریبی رشتہ دار تھا بلکہ انگریزی بھی جانتا تھا۔ اس شخص نے روزینہ کو جیکب کے چھوٹے بیٹے کا نمبر دے دیا جس کے پاس جیکب فی الحال رہ رہا تھا۔

روزینہ نے جیکب کو فون ملا کر جب یہ کہا کہ وہ بیرن لینڈ سے بات کر رہی ہے تو یہ بات اُس کی لئے ناقابلِ یقین تھی۔ اس لئے کہ وہ بیرن لینڈ میں ہنڈالو قبیلے کے لوگوں کو چھوڑ کر آیا تھا اور اس وقت وہاں نہ مواصلاتی سہولیات تھیں اور نہ کوئی انگریزی زبان جانتا تھا۔ جیکب نے جواب میں کہا۔

’’اگر آپ مجھ سے مذاق کر رہی ہیں تو میں معافی چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے اس میں نہ دلچسپی ہے اور نہ میرے پاس اس کے لیے وقت ہے۔ میں بیرن لینڈ کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ چکا ہوں۔ میری زندگی کا وہ باب اب ابدی طور پر بند ہو چکا ہے، اس لیے میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

اسی کے ساتھ فون بند ہو گیا اور روزینہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ روزینہ کو جیکب سے یہ توقع ہرگز نہیں تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ جیکب کے ہاتھ آ جانے کے بعد بھی کامیابی کا کہیں دُور دُور تک ٹھکانہ نہ ہو گا۔ اس مہم کے دوران پہلی بار روزینہ کے آس پاس مایوسی کے بادل منڈلانے لگے تھے۔

جیکب کو دراصل ایک غلط فہمی ہو گئی تھی۔ اس نے سوچا کہ یہ کوئی صحافی ہے جو بیرن لینڈ کے بارے میں اس سے معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسے مرعوب کرنے کی خاطر جھوٹ موٹ یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ بیرن لینڈ میں ہے۔ جیکب کی حالت یہ تھی کہ فی الحال وہ بیرن لینڈ کا نام بھی سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بیرن لینڈ اس کے لیے ایک بھیانک خواب کی مانند تھا جسے وہ کسی بھی صورت دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن حضرتِ انسان کو بھلا اپنے خوابوں پر کب اختیار ہوتا ہے! وہ تو بے اختیار نہ صرف خواب دیکھتا ہے بلکہ ان کے پیچھے دوڑتے بھاگتے اپنی زندگی کھپا دیتا ہے۔ جیکب تھک چکا تھا۔ خوابوں کے پیچھے دوڑنے کی طاقت اور حوصلہ اب اس کے پاس نہیں تھا، عمر کے اس حصہ میں اس کا چلنا پھرنا دوبھر ہو گیا تھا۔ گویا وہ زندگی کی شاہراہ پر کسی صورت گھسٹ رہا تھا۔ خراماں خراماں، ہانپتا کانپتا اپنی موت کی جانب بڑھا چلا جا رہا تھا۔

روزینہ نے سوچا، اب دوبارہ جیکب سے بات کرنے کی کوشش بے سود ہو گی۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ دوبارہ فون کرنا جیکب کے لیے باعثِ غضب ہو گا۔ اس کی آواز سنتے ہی وہ فون کاٹ دے گا۔ روزینہ کے لیے جیکب کی ناراضگی ایک بہت بڑے خسارے کا سودا تھا، اس لیے وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ روزینہ نے دوبارہ اس شخص سے رابطہ قائم کیا جس نے اسے جیکب کا نمبر دیا تھا اور بڑی نرمی سے بولی۔ ’’جناب! میں نے کل آپ سے جیکب کا نمبر لیا تھا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘

وہ بولا۔ ’’جی ہاں ! میں سمجھ گیا۔ لیکن یہ شکریہ تو آپ نے کل ہی ادا کر دیا تھا۔ اب فرمائیے اور کیا خدمت چاہتی ہیں ؟‘‘

’’جی ہاں جی ہاں ۔۔۔ میں دوبارہ زحمت دینے کے لیے آپ سے معذرت چاہتی ہوں۔ اگر آپ کے پاس دو چار منٹ کا وقت ہو تو میں سمع خراشی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’اِن تکلّفات کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ بولیے کہ اب مجھے کرنا کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جیکب نے آپ کو منہ لگانے سے انکار کر دیا ہو اور آپ چاہتی ہیں کہ میں زبردستی بندوق کی نوک پر اسے آپ سے بات کرنے پر مجبور کروں۔‘‘

’’جی ہاں ۔۔۔ ہاں جی ہاں ۔۔۔ آپ نے بالکل درست سمجھا۔‘‘ روزینہ بولی۔

’’لیکن محترمہ! آپ جو بھی ہیں، میں آپ سے اس معاملے میں معذرت چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ میں عدم تشدد پر یقین رکھنے والا ایک شریف آدمی ہوں اور جناب جیکب میرے خاندانی بزرگ ہیں۔ میں آپ کی خاطر اُن کی دلآزاری نہیں کر سکتا۔‘‘

’’جی، جی نہیں ۔۔۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہتی۔‘‘

’’ابھی تو آپ نے ہاں کہا ں اور اب نا کہہ رہی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ آخر چاہتی کیا ہیں ؟‘‘

’’جی میں، میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ آپ ان سے بات کریں۔‘‘ روزینہ بوکھلا گئی تھی۔

’’میں بات کروں ؟ یہ تو عجیب سی چاہت ہے ؟ میں تو ان سے بات کرتا ہی ہوں، اگر آپ نہ بھی چاہیں تب بھی میں ان سے بات کرتا رہوں گا۔ اس کے لیے آپ درخواست کرنے کی زحمت کر کے میرا اور اپنا وقت برباد کر رہی ہیں۔

روزینہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بولے۔ یہ شخص ہر بات کو دوسری جانب موڑ دیتا تھا۔ روزینہ نے کہا۔ ’’لگتا ہے آپ مصروف ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو کوئی ایسا وقت بتلائیں جب آپ کو ذرا سی فرصت ہو اور میں دو چار منٹ آپ سے بات کر سکوں۔‘‘

وہ شخص روزینہ کے صبر کا امتحان لے رہا تھا اور روزینہ اس میں کامیاب ہو چکی تھی اس لئے وہ بولا۔ ’’دو اور چار یعنی چھے منٹ لیکن آپ تو گز شتہ دس منٹ سے مجھ سے محو گفتگو ہیں، خیر کہیں ایسا تو نہیں کہ جو نمبر میں نے آپ کو بتلایا تھا وہ غلط تھا اگر ایسا ہے تو معذرت چاہتا ہوں اور دوبارہ نمبر لکھوائے دیتا ہوں۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جی نہیں جناب آپ کا عطا کردہ نمبر بالکل صحیح تھا اور میری جیکب سے اس نمبر پر بات چیت بھی ہوئی۔‘‘

’’تب پھر مسئلہ کیا ہے ؟‘‘

’’دراصل بد قسمتی سے اُنہیں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی ہو گئی۔‘‘

یہ سن کر اس شخص کے تجسس میں اضافہ ہو گیا، وہ بولا۔ ’’غلط فہمی؟ کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں۔‘‘

’’مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مجھے غلط سمجھ لیا اور اس میں ان کی نہیں بلکہ میری ہی غلطی ہے۔ میں نے اپنا تعارف کرائے بغیر اور رابطہ کی غرض و غایت کا اظہار کئے بغیر حسبِ عادت یہ کہہ دیا کہ میں بیرن لینڈ سے روزینہ بول رہی ہوں اور بات بگڑ گئی۔‘‘

سامنے سے ایک زور دار قہقہہ گونجا۔ ’’بہت خوب جب آپ بیماری سے واقف ہیں تو اس کے علاج کا بھی آپ کو علم ہو گا۔ آپ میرے ساتھ وقت اور روپیہ ضائع کرنے کے بجائے دوبارہ ان کو فون لگا کر اپنا تفصیلی تعارف کروائیں اور پھر فون کرنے کی غایت بھی بتلائیں، میرا خیال ہے آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘

جناب آپ کی دلچسپی کا شکریہ لیکن میرا خیال آپ سے مختلف ہے مجھے خوف ہے کہ وہ میری آواز سنتے ہی بغیر کچھ کہے سیلفون منقطع کر دیں گے اور سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو ہو جائے اپنی بلا سے انسان گھوڑے کو تالاب تک لا توسکتا ہے لیکن پانی نہیں پلا سکتا۔ اب اگر کوئی پیاسا پینا ہی نہیں چاہتا تو ساقی بھلا کیا کر سکتا ہے؟‘‘

’’جی ہاں جناب لیکن کسی معاملے میں خود ساقی ہی پیاسا بھی ہو تو صورتحال نازک ہو جاتی ہے، اسی لئے مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’اگر آپ کو ڈر لگتا ہے تو میں کیا گبر سنگھ بھی آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، اس لئے کہ آپ تو جانتی ہی ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’جی ہاں میں جانتی ہوں جو ڈر گیا وہ مر گیا۔‘‘ روزینہ نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا۔ ’’لیکن میری ان سے بات چیت بہت ضروری ہے۔ مجھے ان سے ایک نہایت اہم معلومات حاصل کرنی ہے۔‘‘

کہیں آپ ان سے یہ تو نہیں پو چھنا چاہتیں کہ’’ کتنے آدمی تھے؟‘‘ سامنے گبر سنگھ کی بھرائی ہوئی آواز آئی اور پھر ایک زور دار قہقہہ۔۔۔

’’جی نہیں جناب! میں تو ان سے صرف ایک آدمی کا پتہ معلوم کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ روزینہ مسکرا کر بولی۔

’’اگر ایسا ہے تو فرمائیے کہ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ؟‘‘

’’بہت بہت شکریہ جناب۔‘‘ روزینہ کو سرنگ کے آخر میں روشنی کی ایک ننھی سی کرن نظر آئی، وہ بولی۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ آپ ان سے میرا تعارف کروائیں اور پس منظر بھی بتلائیں ۔۔۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو وہ معلومات بھی حاصل کر لیں۔ میں اسے آپ ہی سے لے لوں گی اور آپ کی بے حد ممنون و مشکور ہوؤں گی۔‘‘

’’یہ تو بڑا دلچسپ کام ہے کہ میں کسی ایسے شخص کا تعارف کرواؤں جسے میں خود نہیں جانتا اور وہ پس منظر بتلاؤں جس کا خود مجھے علم نہیں ہے اور ایسی معلومات حاصل کروں جس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

’’جی ہاں جناب! آپ کی ان مشکلات کا مجھے علم ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کو اپنے سے متعارف کروا دوں اور اپنے رابطہ کی غرض سے بھی آگاہ کر دوں اور یہ بھی بتلا دوں کہ مجھے کون سی معلومات کیوں مطلوب ہے ؟‘‘

’’اِتنے سارے کام آ پ مجھ سے بلا معاوضہ کروانا چاہتی ہیں ؟ کیا اپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ زیادتی ہے ؟‘‘

روزینہ پھر مخمصہ میں پڑ گئی۔ ’’یہ عجیب شخص ہے، گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس سے کس طرح نبٹا جائے، وہ بولی۔

’’جی ہاں جناب! مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ میں آپ کو جانتی بھی نہیں اس کے باوجود آپ کو بہت زحمت دے رہی ہوں، آپ کا قیمتی وقت خراب کر رہی ہوں، میں اس کے لیے معذرت چاہتی ہوں لیکن پھر بھی اگر آپ میری مدد کر سکیں ۔۔۔۔۔۔

سامنے سے پھر ایک بار زوردار قہقہہ گونجا۔ ’’میں تو مذاق کر رہا تھا۔ آپ نے شاید اسے سچ سمجھ لیا۔ ایسا لگتا ہے آپ اطالوی مذاق بلکہ اطالوی مزاج سے واقف نہیں ہیں ؟‘‘

’’جی ہاں ۔۔۔ جی ہاں، آپ نے درست فرمایا۔ میں معافی چاہتی ہوں۔ میں تو بلا وجہ ڈر گئی تھی۔‘‘

’’کوئی بات نہیں، آپ ڈرتی بہت ہیں۔‘‘

’’جی ہاں جی ہاں ۔۔۔ آپ درست فرما رہے ہیں۔مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ ‘‘

’’لیکن آپ ضدی بھی بہت ہیں۔ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتیں۔‘‘

’’جی، جی آپ پھر مذاق کر رہے ہیں۔ اطالوی مذاق میں سمجھ گئی۔ آپ ضرور مذاق کر رہے ہیں۔‘‘

سامنے سے ایک بار اور قہقہہ بلند ہوا۔ اسی کے ساتھ سوال کیا گیا۔ ’’جی ہاں، تو کیا نام بتلایا تھا آپ نے اپنا؟ ‘‘

’’روزینہ۔۔۔ میرا نام روزینہ جوزف گلاسگوف ہے۔‘‘

’’اوہو۔۔۔ تو ا?پ روس کی رہنے والی ہیں ؟‘‘

’’جی، جی نہیں میرا تعلق ویسے تو بوسنیا ہرزے گووینا سے ہے۔ لیکن میرے خاوند ہیں نا جوزف گلاسگوف، وہ روسی ہیں، بلکہ تھے۔ اس لئے کہ اب انہوں نے ون لینڈ کی شہریت اختیار کر لی ہے۔ اب انہیں روس جانے کے لیے بھی ویزا کی ضرورت پیش آتی ہے۔‘‘

’’اچھا تو اب میں آپ سے زیادہ آپ کے شوہر کو جاننے لگا ہوں خیر کوئی بات نہیں۔‘‘

’’جی ہاں معاف کیجئے۔ بات کہیں اور نکل گئی۔ لیکن اب میرے بارے میں تو جان ہی گئے ہیں۔‘‘

’’آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔ آپ روزینہ جوزف گلاسگوف ہیں جو بوسنیا سے ہجرت کر کے ون لینڈ آبسیں اور آپ سے ملنے کی خاطر جوزف گاسگوف کو بھی روس چھوڑ کر وِن لینڈ آنا پڑا، جہاں آپ دونوں نے بیاہ رچا لیا۔ ٹھیک ؟ اور اب نہایت کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

’’جی، جی نہیں ایسا نہیں ہے۔‘‘

’’لیکن آپ خود ہی تو کہہ رہی تھیں۔‘‘

’’جی ہاں، لیکن چھوڑئیے ان غیر ضروری باتوں کو ۔۔۔‘‘

’’کیا خاوند اور ازدواجی زندگی دونوں غیر ضروری ہیں ؟‘‘

’’جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ آپ بھی بہت ضدی ہیں۔‘‘

’’آپ کی طرح!‘‘

’’جی ہاں ! لیکن میں زبان نہیں پکڑتی۔‘‘

’’لیکن کیا آپ نہیں سمجھتیں کہ فون پر زبان پکڑنا خاصہ مشکل کام ہے۔‘‘

’’جی ہاں، سو تو ہے۔ لیکن آپ جیسے ماہر فن کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ خیر۔۔۔ اب روزینہ اور وہ اجنبی شخص جو اٹلی میں بیٹھا ہوا تھا، نہایت بے تکلفی کے ساتھ بات کر رہے تھے۔‘‘

میرے اس مختصر سے تعارف کے بعد میں پس منظر بتلاتی ہوں۔‘‘

’’کیا وہ پس منظر بھی اسی طرح مختصر ہو گا یا طول طویل ؟‘‘

’’جی نہیں مختصر بلکہ نہایت مختصر۔‘‘

’’خیر، اگر طویل ہو تو بھی کوئی بات نہیں۔ اس لئے کہ فون کا بل آپ ادا کر رہی ہیں اور میرے پاس اتفاق سے فرصت ہے۔ اسی کے ساتھ آپ کی آواز نہایت خوبصورت ہے۔‘‘

’’جی جی آپ پھر مذاق کرنے لگے۔ اطالوی مذاق میں سمجھ گئی۔‘‘ روزینہ کے لئے اس اجنبی سے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ دیکھتے ہی موضوع بدل دیتا تھا اور بات کسی اور ہی جانب نکل جاتی تھی۔

’’میں مذاق نہیں کر رہا تھا بلکہ حقیقت بیان کر رہا تھا کہ آپ کی آواز بہت ہی مدھر ہے۔ خیر آپ پس منظر بتلائیے۔‘‘

’’جیکب صاحب پہلے بیرن لینڈ نامی ایک جزیرے میں رہتے تھے یہ تو آپ کو پتہ ہی ہو گا۔‘‘

’’وہ کسی بے آب و گیا جزیرے میں رہتے تھے، یہ تو مجھے پتہ ہے، لیکن اس کا نام اور پتہ ٹھکانہ مجھے نہیں پتہ۔‘‘

’’جی کوئی بات نہیں۔ وہ جب یہاں رہتے تھے تو اس وقت یہاں ایک ہنڈالو نام کا افریقی قبیلہ آباد تھا۔ لیکن بعد میں یہاں ایک سیلاب آیا اور پھر ہم لوگ باز آبادکاری کے لیے یہاں آئے ہیں۔‘‘

’’تو کیا آپ چندہ جمع کرنے کی خاطر اتنا طویل فون کر رہی ہیں ؟  اب میں سمجھا کہ جیکب انکل نے فون کیوں بند کر دیا۔‘‘

’’جی نہیں ! معاف کیجئے آپ کو بھی غلط فہمی ہو رہی ہے۔ ہمیں اعانت نہیں چاہئے بلکہ ۔۔۔

’’رضا کار چاہئیں۔ میں سمجھ گیا۔ یہ تو اور بھی مشکل کام ہے۔ جیکب صاحب کی صحت انہیں اجازت نہیں دیتی اور میری مصروفیت مجھے اجازت نہیں دیتی۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ جس کے پاس صحت ہے فرصت نہیں اور جس کے پاس فرصت ہے وہ صحت سے محروم ہے۔‘‘

’’جی نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔‘‘

’’ہاں، ہاں میں سمجھ گیا۔ آپ کے پاس صحت اور فرصت دونوں ہیں۔آپ بڑی خوش نصیب ہیں لیکن آپ جیسے لوگ دُنیا میں بہت کم ہیں۔‘‘

’’آپ کی تعریف کا شکریہ، لیکن میں آپ کو اپنے فون کرنے کی غرض و غایت بتلا رہی تھی بلکہ غلط فہمی کی وجہ بیان کر رہی تھی۔ دراصل انہوں نے جس وقت اس جزیرے کو چھوڑا تھا، یہاں نہ فون لائن تھی اور نہ غیر ہنڈالو باشندے تھے۔ اب جب انہوں نے ایک یوروپی عورت کو یہ کہتے سنا کہ وہ بیرن لینڈ سے بول رہی ہے تو انہیں یہ سب جھوٹ معلوم ہوا، اس لئے بات کو آگے بڑھائے بغیر فون بند کر دیا۔‘‘

’’میں سمجھ گیا۔ بڑھاپے میں یہی سب ہوتا ہے۔ لوگ سنتے کم ہیں اور سوچتے زیادہ ہیں۔ وہ کچھ نہیں جانتے مگر سمجھتے ہیں انہیں سب معلوم ہے۔ لیکن اس میں جیکب انکل کا کوئی قصور نہیں۔ ہم آپ بھی جب اس عمر کو پہنچیں گے تو ہمارے ساتھ بھی یہی سب ہو گا۔‘‘

روزینہ سمجھ گئی، بات پھر کہیں اور جا رہی ہے، اس لئے اس نے کہا۔ ’’جی ہاں ! اسی لئے مجھے اُن سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔‘‘

’’لیکن شاید آپ فون کرنے کا مقصد بتلا رہی تھیں۔ معاف کیجئے، آ پ بار بار بہک جاتی ہیں۔‘‘

یہ تو اُلٹا چور کو توال کو ڈانٹے والی بات تھی۔ روزینہ کو بہت غصہ آیا، لیکن اس نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا اور بولی۔ ’’میں معافی چاہتی ہوں آپ کا سوال نہایت درست ہے۔ دراصل یہاں اُن کا ایک نائب امنالو رہا کرتا تھا جس کا بیٹا میکالو یوروپ کے کسی ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ مجھے اُس کا فون نمبر اور پتہ چاہئے بس۔‘‘

’’اِتنی سی بات۔۔۔ کاش کہ مجھے وہ معلوم ہوتا۔ لیکن میں امنالو اور میکالو کو نہیں جانتا، اس لیے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔‘‘

’’جی ہاں جی ہاں ۔۔۔ میں جانتی ہوں۔‘‘

’’آپ جانتی ہیں تو مجھے فون کیوں کر رہی ہیں۔‘‘

’’میں میکالو کا پتہ نہیں جانتی بلکہ یہ جانتی ہوں کہ آپ بھی اُس کا پتہ نہیں جانتے۔‘‘

’’اُس کا پتہ نہ آپ جانتی ہیں اور نہ میں ! تو دو انجان لوگ ایک دوسرے کی کیا مدد کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’جی ہاں ! میں جانتی ہوں۔‘‘

’’اچھا۔ ابھی تو آپ کہہ رہی تھی کہ میں نہیں جانتی۔‘‘

’’جی، جی میں نہیں جانتی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

روزینہ کا جملہ سامنے سے کٹ گیا اور ایک نہایت ہی کرخت لہجے میں جواب ملا۔ ’’دیکھئے محترمہ۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کیا جانتی ہیں اور کیا نہیں جانتیں ؟اور جاننا بھی نہیں چاہتا۔ لیکن میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جو آپ چاہتی ہیں، میں نہیں جانتا۔‘‘

’’جی ہاں آپ نہیں جانتے مگر جیکب صاحب جانتے ہیں۔‘‘

’’اگر جیکب انکل جانتے ہیں تو آپ  اُن کے بجائے میرا دماغ کیوں خراب کر  رہی ہیں ؟‘‘ اُسی سپاٹ لہجے میں جواب ملا۔ روزینہ پھر سے ڈر گئی۔ اُسے لگا کہ اب پھر فون اچانک بند ہو جائے گا اور پھر وہ وہیں پہنچ جائے گی جہاں سے چلی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی، سامنے سے ایک اور قہقہہ بلند ہوا۔ اب وہ بولی۔ ’’میں سمجھ گئی۔ آپ مذاق کر رہے تھے۔۔۔ اطالوی مذاق!‘‘

جواب آیا۔ ’’لگتا ہے ا?پ پھر سے ڈر گئی تھیں۔‘‘

’’جی ہاں ! چونکہ مسٹر جیکب مجھ سے بات نہیں کر رہے ہیں، اس لئے اگر۔۔۔۔۔۔ اگر آپ میکالو کے متعلق معلومات ان سے حاصل کر کے مجھے فراہم کر دیں تو مہربانی ہو گی۔‘‘

’’اچھا! تو یہ تفصیلات حاصل کرنے کے لیے مجھے پھر سے فون کریں گی۔‘‘

’’جی ہاں !‘‘

’’اِسی طرح کا طول طویل فون؟‘‘

’’جی، جی نہیں ! آپ جب بھی مناسب سمجھیں میں پھر سے آپ کو فون پر نہایت مختصر زحمت دوں گی۔ میں اس کی لئے معذرت چاہتی ہوں۔‘‘

’’اس کی ضرورت نہیں میں تو مذاق کر رہا تھا۔‘‘

’’میں سمجھ گئی۔۔۔ اطالوی مذاق۔۔۔ آپ یہ بتلائیے کہ میں کب آپ کو فون کروں ؟‘‘

’’جی نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں۔آپ اپنا نمبر مجھے دے دیں، میں خود آپ کو فون کروں گا۔‘‘

’’جی ! آپ فون کریں گے ؟‘‘

’’جی ہاں ا?پ کو اس پر اعتراض ہے ؟‘‘

’’جی نہیں ایسی بات نہیں۔ میں اکثر و بیشتر فون سے دُور رہتی ہوں، اس لئے آپ جو وقت بتلائیں گے میں یہاں قریب آ جاؤں گی۔‘‘

’’اچھا! اگر ایسا ہے تو کل اسی وقت میں آپ کو فون کروں گا۔ ٹھیک ہے ؟‘‘

 جی ہاں۔ جی ہاں یہ تو بہت عمدہ ہے۔ میں کل اس وقت ا?پ کے فون کا انتظار کروں گی۔‘‘

’’آپ کا شکریہ۔ اور ا?پ کی آواز۔۔۔

روزینہ نے پہلی مرتبہ جملہ کاٹ دیا اور بولی۔ ’’اتنی خوبصورت بھی نہیں۔‘‘ اسی کے ساتھ دونوں جانب سے قہقہے بلند ہوئے اور فون بند ہو گیا۔

 

۱۳

سرواٹسن اور ڈیوڈ اپنے کمرے میں لگے دیو قامت مانیٹر پر روزینہ کو فون کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور دونوں جانب کی گفتگو سن رہے تھے۔ روزینہ کو نہیں پتہ تھا کہ دو اور لوگ بھی اس بات چیت کے شاہد ہیں اور ایک مشین اسے ریکارڈ کر کے محفوظ کر رہی ہے۔ ویسے بھی انسان اپنے اطراف و اکناف میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم جانتا ہے اور اسی میں اس کے لیے عافیت ہے۔ اس لئے کہ اگر وہ سب کچھ جان جائے تو گھبرا جائے اور اس کی قوت عمل ختم ہو جائے۔ گویا عالم کا غیب میں ہونا بھی انسان کے لیے ایک عظیم نعمت سے کم نہیں ہے۔ روزینہ ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھی پسینہ سے شرابور ہو رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی میراتھن دوڑ کو کامیابی کے ساتھ ختم کر کے ابھی ابھی لوٹی ہے۔

سرواٹسن اب ڈیوڈ کی جانب مڑے اور اسے معنی خیز نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’روزینہ بے پناہ صلاحیتوں کی مالک لڑکی ہے۔ اس کے اندر کامیابی کو حاصل کرنے کی بے جوڑ ضد اور تڑپ ہے، صبر و استقلال تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔‘‘

ڈیوڈ بولا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ ہمارے مستقبل کے منصوبے کو رو بہ عمل لانے میں یہ عظیم اثاثہ ثابت ہو گی۔‘‘

واٹسن اس کی تائید کی اور کہا۔ ’’لیکن ڈیوڈ، یاد رکھو، اس طرح کے لوگوں سے کام لینا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے لوگ بے حد حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ انجام کی پرواہ کئے بغیر بے دریغ فیصلے کر دیتے ہیں اور ان سے ڈرا دھمکا کر کوئی کام نہیں نکالا جا سکتا۔ جس سے بات بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ تمہیں اس کا اعتراض تو یاد ہی ہو گا۔‘‘

’’جی ہاں سر۔۔۔ اچھی طرح یاد ہے۔ میں آپ کی ان ہدایات کا پورا خیال رکھوں گا۔‘‘ ڈیوڈ بولا۔

’’اس کا خاص خیال رکھنا۔ یہ نازک شیشہ آبگینوں کی مانند ہے۔ ان سے بڑے احتیاط سے معاملہ کیا جاتا ہے۔‘‘

’’جی ہاں، میں سمجھتا ہوں۔‘‘

’’خیر، دیکھیں کل کیا ہوتا ہے۔ اگر میکالو اتفاق رائے سے سردار بن جاتا ہے تو ہمارے لئے بے شمار آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ ایک تو وہ مغرب سے تعلیم یافتہ ہے، اس لیے نہ ہی ترسیل کی مشکل ہو گی اور نہ افہام و تفہیم میں دقت پیش آئے گی، اور اُسے کسی کام پر راضی کرنے میں بھی کوئی خاص محنت درکار نہیں ہو گی۔‘‘

ڈیوڈ نے پھر سر ہلا کر تائید کی۔

واٹسن بولے۔ ’’مجھے یقین ہو چلا ہے کہ آگے کے سارے مراحل ہمارے منصوبے کے مطابق طے ہوں گے۔‘‘

’’اگر اپنے آپ نہیں تو بزورِ قوت۔‘‘ ڈیوڈ نے زور دے کر کہا

ایک دن کے بعد روزینہ کو میکالو کا پتہ اور فون نمبر مل گیا۔ وہ خوشی خوشی قبیلہ کے بزرگوں کے پاس پہنچ گئی اور انہیں بتلایا کہ میکالو لندن کی کیمبرج یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے اور اس کا فون نمبر میرے پاس ہے۔ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے؟

چکلمنڈو نے اسے بتلایا۔ ’’دیکھو بیٹی! اس روز اجلاس کے بعد اچانک ہمارے درمیان کچھ اختلافات رونما ہو گئے۔ حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ لیکن خیر۔۔۔ اب ہم نے انہیں دُور کرنے کے لیے کل ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ اتفاق و اتحاد کی فضا مکدر ہو جائے اور افتراق و انتشار کا دروازہ پھر سے کھل جائے۔ اس لیے میکالو سے رابطے کو دو دن کے لیے مؤخر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کل کیا فیصلہ ہوتا ہے۔‘‘

روزینہ نے اُن کی بھرپور تائید کی اور کہا۔ ’’بالکل ٹھیک۔ آپ جو کہیں گے وہی ہو گا۔ لیکن کیا میں آپ کے اجلاس میں شریک ہو سکتی ہوں ؟ مجھے ہنڈالو روایات میں خاصی دلچسپی ہو گئی ہے۔ آپ جس طرح کھل کر مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور نتائج پر پہنچتے ہیں، یہ مجھے بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں میرے لیے سیکھنے کا بڑا سامان ہے۔‘‘

چکلمنڈو مسکرائے اور بولے۔ ’’بیٹی۔۔۔ یہ سب کہہ کر تم ہمیں شرمندہ کرتی ہو۔ ہم پرانے لوگ اپنے قدیم روایتی طریقوں پر چلتے ہیں۔ ویسے اب ہم تمہیں غیر نہیں سمجھتے۔ تمہاری دلچسپی کی ہم قدر کرتے ہیں۔ تم ہمارے کسی بھی اجلاس میں بلا تکلف شریک ہو سکتی ہو، اجازت کی چنداں ضرورت نہیں۔‘‘

رات کھانے کی میز پر ڈیوڈ نے روزینہ سے بلاواسطہ دن بھر کی کارکردگی پر گفتگو کی اور اس کی اطلاع سرواٹسن کو دی تو وہ بے حد خوش ہوئے۔ روزینہ نے جس طرح لاشعوری طور پر ہنڈالو قبیلے کا اعتماد حاصل کر لیا تھا وہ کسی ماہر جاسوس کے لیے بھی لاکھ منصوبہ بندی کے باوجود ممکن نہیں تھا۔ شاید اس آسانی کا سبب روزینہ کا اخلاص تھا۔ جاسوسوں کی مانند اس کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں تھا، اس لئے وہ بے دھڑک کام کرتی تھی۔

سیلاب کے بعد منعقد ہونے والے اجلاسِ ثانی میں ایک نہایت ہی پیچیدہ مسئلہ در پیش تھا۔ میکالو کو اس کے باپ امنالو کے تعلق سے کیا بتایا جائے؟ اس لیے کہ اگر حقیقت اس کے سامنے بیان کر دی جائے کہ جنگالو کے ایماء پر اسی کے دستِ راست بنگالنو نے اس کا سر قلم کر دیا تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ انتقام کی آگ بھڑک اُٹھے۔ ہنڈالو قبیلے کے لوگ اس کے مخالفین اور حامی گروہوں میں تقسیم ہو جائیں اور ایک بار پھر باہمی کشت و خون شروع ہو جائے۔ نفرت و انتقام کی یہ آگ نہ صرف قبیلے والوں بلکہ خود میکالو کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی۔ اس لیے کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اسے سرداری کے بکھیڑے سے دُور رکھنے میں ہی سب کے لیے عافیت ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ میکالو اپنی تعلیم ختم کر کے وہیں کا ہو رہے گا اور بیرن لینڈ کا رُخ ہی نہ کرے۔

 اس کے برعکس دوسرے لوگ یہ سوچتے تھے کہ جلد یا بہ دیر اپنے خاندان کی محبت اسے بیرن لینڈ ضرور لائے گی۔ اگر وہ یہاں آتے ہی سرداری کا دعوے دار بن جائے تو ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے گا۔ میکالو کا یہ حق ہے کہ وہ سردار بنے لیکن موجودہ سردار کو اپنے عہدے سے ہٹانے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ اگر وہ بہ رضا و رغبت اپنا اقتدار میکالو کے حوالے نہیں کرتا تو وہی قتل و غارت گری کی داستان پھر سے دوہرائی جائے گی جس نے ہنڈالو قبیلے کی عظمت کو پامال کر دیا تھا۔ فی الحال کئی لوگ ایسے بھی تھے جو موجودہ سیلاب کو انتشار کے باعث آسمانی عذاب سمجھتے تھے اور دوبارہ اس طرح کی مصیبت سے کانپ اُٹھتے تھے۔

 دونوں فریقوں کے دلائل پر غور کرنے کے بعد لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس معاملہ میں بڑی احتیاط درکار ہے۔ اس لیے درمیان کا راستہ اختیار کیا جائے۔ میکالو کو سردار تو بنایا جائے لیکن اس کے باپ کی موت کا واقعہ اس سے صیغۂ راز میں رکھا جائے۔ میکالو کے سامنے سرے سے جنگ کا ذکر ہی نہ کیا جائے اور اسے صرف سیلاب کی خبر دی جائے اور اس کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی فہرست میں جنگالو کے ساتھ ساتھ امنالو کا نام بھی شامل کر دیا جائے۔

اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہو گیا۔ اس کے بعد مذہبی پروہت کو دعوت دی گئی اور انہوں نے آ کر قدیم صحیفوں کا جاپ شروع کر دیا۔ بزرگ انہیں سننے لگے اور نوجوان میدان کے ایک حصے میں بڑا سا گڈھا کھودنے میں لگ گئے۔ روزینہ کی سمجھ میں یہ سب نہیں آ رہا تھا لیکن پھر بھی وہ صبر و سکون کے ساتھ ساری کارروائی کا مشاہدہ کرتی رہی۔ جب گڈھا تیار ہو گیا تو اس میں آگ روشن کی گئی۔ سارے لوگ آسمان کو چھوتے شعلوں کے گرد جمع ہو گئے اور پھر حلف برداری کی رسم ادا کی گئی۔ سب نے مل کر قسم کھائی کہ وہ اس جنگ کے راز کو ہمیشہ کے لیے اپنے سینے میں دفن کر دیں گے۔ کسی کتاب یا گفتگو میں اس کا کوئی ذکر کبھی بھی نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر ہمیشہ کے لیے بھلا دیا جائے گا۔

 میکالو سے اس راز کو چھپانے کے لیے اسے حرف غلط کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹانا ضروری تھا۔ اس کے بعد میکالو کے ساتھ رابطہ قائم کر کے اسے سردار کی حیثیت سے واپس آنے کی دعوت دینے کا کام قبیلے کے بزرگوں نے روزینہ کو سونپ دیا۔ روزینہ نے فوراً اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنا لیا کہ وہ میکالو سے بین الاقوامی ریڈکراس کے نمائندے کی حیثیت سے رابطہ کرے گی تاکہ اسے کوئی شک نہ ہو۔ اس کے والد کی موت کا مژدہ سنائے گی اور اسے سردار کی حیثیت سے لوٹ کر آنے کی دعوت دے گی۔

روزینہ کے ذہن میں جنگ کے حوالے سے زبردست تجسس پیدا ہو چکا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر اس جنگ کی وجہ کیا تھی اور اس کے دوران کیا کچھ ہوا تھا؟ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسے جاننے کا قیمتی موقع وہ گنوا چکی تھی۔ صبح تک یہ کام نہایت آسان تھا۔ ہنڈالو قبیلے کا کوئی بھی فرد اس کو ان تمام تفصیلات سے آگاہ کر سکتا تھا۔ لیکن اب، جبکہ سارے لوگ حلف لے چکے تھے، یہ آسان سا کام نہایت مشکل ہو گیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ جس کسی سے بھی اس سلسلے میں استفسار کرے گی، جواب سے محروم ہی رہے گی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ہنڈالو قبیلے کے لوگ اپنی روایات کی پاسداری میں نام نہاد ترقی یافتہ اقوام سے کہیں بہتر ہیں۔ لیکن دل کی بے قراری اس کے لیے عذابِ جان بن گئی تھی۔

جلسہ گاہ سے واپس لوٹتے ہوئے روزینہ نے دیکھا کہ ایک شخص روٹی کا ایک ٹکڑا اور دال کا ایک بڑا سا پیالہ ہاتھ میں لے کر چلا جا رہا ہے۔ وہ جانتی تھی کہ ہنڈالو قبیلے کے لوگ سورج کے ڈھلنے پر ہی رات کا کھانا کھاتے ہیں۔ اس لیے حیرت سے اس نے اپنے پاس کھڑے جنگالو کے دستِ راست کنگالو سے دریافت کیا۔ ’’سورج کے غروب میں تاخیر ہے یہ ابھی سے کس کا کھانا لے جایا جا رہا ہے؟ کوئی بیمار ہے کیا؟‘‘

کنگالو بولا۔ ’’محترمہ یہ ایک قیدی کا کھانا ہے۔ ہنڈالو روایات کے مطابق ہم پہلے اپنے مہمانوں کو کھلاتے ہیں، پھر خود غذا نوش فرماتے ہیں۔‘‘

روزینہ نے قیدی کے لیے مہمان کی اصطلاح کا استعمال پہلی بار سنا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’کیا میں یہ جان سکتی ہوں کہ وہ کون شخص ہے جسے آپ لوگوں نے قید میں ڈال رکھا ہے اور اس بے چارے کا قصور کیا ہے؟‘‘

کنگالو بولا۔ ’’معاف کیجئے، ہم لوگ ملزمین کے لیے بے چارہ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔‘‘

روزینہ نے مسکرا کر کہا۔ ’’آپ لوگ قیدی کو مہمان تو کہتے ہو لیکن بے چارہ نہیں کہتے! یہ حیرت انگیز ہے۔‘‘

’’جی نہیں۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ اس کی مہمان داری کرنی پڑتی ہے اس لیے مہمان کہتے ہیں اور پھر وہ نہ جانے کتنے دنوں کا مہمان ہو، اس لیے کہ صرف سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے کو قید میں رکھا جاتا ہے۔ جن میں سے اکثر کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ چھوٹے موٹے جرائم پر لوگوں کو جرمانہ لگا کر رہا کر دیا جاتا ہے۔‘‘

’’اور اگر کسی کے پاس جرمانہ ادا کرنے کی رقم نہ ہو تو؟‘‘ روزینہ نے سوال کیا۔

’’اُس صورت میں اس کو بیت المال کی جانب سے قرض فراہم کر دیا جاتا ہے۔‘‘

’’اور اگر وہ شخص قرض کی ادائیگی سے مکر جائے تو؟‘‘

’’آپ کیسی بات کر رہی ہیں محترمہ۔ کوئی شخص اس قدر احسان فراموش بھی ہو سکتا کہ وہ اس بیت المال سے دغا بازی کرے جس نے اسے قید و بند سے چھڑایا ہو؟ ہمارے قبیلے میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘‘ کنگالو بولا۔

’’اچھا تو کیا اس قیدی کا جرم ثابت ہو چکا ہے؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ کنگالو بولا۔ ’’اس پر تو ابھی تک مقدمہ ہی قائم نہیں ہوا۔‘‘

’’اس کی کیا وجہ ہے۔‘‘ روزینہ نے سوال کیا۔

’’دراصل ہمارا عدالتی نظام فی الحال معطل چل رہا ہے۔‘‘

’’ایسا کیوں ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ ہم لوگ بے سردار ہیں۔‘‘

’’تو کیا عدالت کے قضیہ بھی سردار ہی چکاتا ہے۔‘‘

’’جی نہیں۔ فیصلہ تو قاضی کرتا ہے لیکن اس کا نفاذ سردار کی توثیق سے ہی ہوتا ہے۔ اب چونکہ سیلاب کے بعد نئے سردار کا تعین نہیں ہو سکا، اس لئے عدالت ہی قائم نہیں ہوئی اور اگر عدالت فیصلے بھی کرے، توثیق نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کیا فائدہ؟‘‘

روزینہ کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے پوچھا۔ ’’ہنڈالو عدالتوں میں فیصلے کے لیے کس قدر وقت درکار ہوتا ہے؟ میرا مطلب ہے اگر آج مقدمہ قائم ہو تو کب تک فیصلہ ہو جائے گا؟‘‘

’’کب تک کیا مطلب؟‘‘ کنگالو بولا۔ ’’آج شروع تو آج ہی ختم۔‘‘

’’کیا؟ آج شروع تو آج ہی ختم۔۔۔! یہ معاملہ کل تک بھی نہیں ٹلتا؟‘‘

’’جی نہیں ! لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ کب تک ہمیں نیا سردار میسر آئے گا اور کب اس سلسلے کا آغاز ہو گا۔ ہنڈالو سماج میں سردار کی حیثیت دل کی طرح ہے۔ جب وہ دھڑکنا بند ہو جاتا ہے تو گویا ہماری اجتماعی روح پرواز کر جاتی ہے۔ فی الحال ہماری حیثیت ایک بے روح اجتماعیت کی سی ہے۔ ہمارے معاشرے کی رگوں میں خون نہیں دوڑتا بلکہ منجمد ہو گیا ہے۔‘‘

روزینہ نے سوال کیا۔ ’’لیکن کیا میں یہ جان سکتی ہوں کہ اس ملزم کا قصور کیا ہے؟‘‘

کنگالو بولا۔ ’’کیوں نہیں۔ دراصل اس نے ہمارے قبیلے کی ایک عورت پر دست درازی کی کوشش کی ہے۔‘‘

’’اوہو! اگر یہ جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا کیا ہے؟‘‘

’’دراصل ہم اس طرح کا گھناؤنا جرم کرنے والے کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے۔‘‘

’’لیکن یہ تو بڑی سخت سزا ہے۔‘‘

’’جرم بھی تو ویسا ہی سنگین ہے۔ آپ خود ایک خاتون ہیں۔ آپ سے زیادہ اس کی کراہت سے اور کون واقف ہو سکتا ہے؟ ہمارے یہاں جان اور عصمت کا تقدس یکساں ہے۔‘‘

’’لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ الزام ہی غلط ہو؟‘‘

’’ہنڈالو قبیلے کی کوئی عورت ایسا سنگین الزام کسی پر بلاوجہ نہیں لگا سکتی۔ اس لیے اس کا امکان بہت کم ہے، بلکہ نہیں کے برابر۔ اس کے باوجود عدالت میں جرح ہوتی ہے، گواہوں کے بیان سنے جاتے ہیں اور تحقیق و تفتیش کے بعد ہی فیصلہ سنایا جاتا ہے جو توثیق کی خاطر سردار کے پاس جاتا ہے۔ وہاں ملزم کو اپنی صفائی کا ایک اور موقع ملتا ہے۔ سردار ازسرِ نو جائزہ لیتا ہے اور جب پوری طرح اطمینان ہو جاتا ہے تو پھر اس کے بعد سزا کا نفاذ کر دیا جاتا ہے۔‘‘

’’کیا سزا میں کسی قسم کی کوئی تخفیف کا بھی امکان ہوتا ہے؟‘‘

’’جی نہیں۔ ملزم یا تو بری ہو جاتا ہے یا اسے قرار واقعی سزا ہو جاتی ہے۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں پایا جاتا۔‘‘

روزینہ نے پوچھا۔ ’’کیا میں اس قیدی سے ملاقات کر سکتی ہوں ؟‘‘

کنگالو بولا۔ ’’اس کے لیے مجھے اجازت حاصل کرنی ہو گی۔ آپ تشریف رکھیں، میں اجازت کی کوشش کر کے آتا ہوں۔‘‘ کنگالو اُٹھ کر گیا اور فوراً ہی پلٹ آیا۔

روزینہ نے کہا۔ ’’اگر مشکل ہے تو جانے دیجئے۔ ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘

کنگالو بولا۔ ’’جی نہیں ! اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں ایک سوال پوچھوں ؟‘‘

’’کیوں نہیں ! ضرور پوچھو۔ اس میں کیا دقت ہے؟‘‘

’’دراصل میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اُس قیدی میں آپ کی دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ اُسے جانتی ہیں ؟‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جاننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ ابھی کچھ دیر پہلے تک تو مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی قیدی بھی ہے۔‘‘

’’دراصل میں نے یہ سوال احتیاط کے طور پر کر لیا۔ اس لیے کہ ممکن ہے قاضی صاحب مجھ سے یہ پوچھیں، ورنہ کوئی بات نہیں۔ میں ابھی اجازت طلب کر کے آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر کنگالو چلا گیا اور روزینہ سوچنے لگی کہ کس قدر صاف و شفاف نظام عدالت ان قبائل کے یہاں پایا جاتا ہے۔ تمام تر تکلّفات سے پاک، بالکل سادہ اور سیدھا طریقۂ کار، جس میں نہ تو عدالتوں کی بھاری بھرکم فیس، نہ جھوٹ کو سچ کرنے والے وکیل، نہ فیصلوں کو ٹالنے والا پیچیدہ عدالتی نظم و ضبط اور نہ دولت کے عوض بک جانے والے جج حضرات۔ ہنڈالو عوام کے لیے انصاف کا حصول کس قدر سہل الحصول تھا، اسے دیکھ کر روزینہ کو رشک آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش ہمارے معاشرے میں بھی اسی طرح کا عدالتی نظام رائج ہوتا۔

کنگالو جیسے ہی لوٹا، روزینہ نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟ کیا میں اُس سے ابھی مل سکتی ہوں ؟‘‘

کنگالو بولا۔ ’’میرا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ آپ اس قیدی سے مل تو سکتی ہیں لیکن آج نہیں۔ اس لیے کہ اب سورج غروب کے قریب ہے اور قیدیوں سے اندھیرے میں کوئی بھی ملاقات نہیں کر سکتا۔ خود اس کے اہل خانہ بھی نہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے تو کل صبح اِسی وقت ہم لوگ یہیں ملتے ہیں۔‘‘ روزینہ نے کہا۔

’’کل اِسی وقت تو یہی دقت ہو گی؟‘‘ کنگالو بولا۔

’’میں نے صبح اِسی وقت کہا۔ ابھی سات بجے ہیں اور صبح میں بھی سات بجیں گے، ٹھیک ہے۔‘‘

کنگالو کی سمجھ میں بات آ گئی۔ وہ بولا۔ ’’محترمہ آپ بہت ذہین اور ظریف ہیں۔‘‘

روزینہ بولی ’’شکریہ‘‘ اور اپنے کیمپ کی جانب چل پڑی۔

 

۱۴

دِن کی طوالت کے باعث ان دنوں سورج صبح پانچ بجے طلوع ہو جاتا تھا اور سات بجے تک اچھا خاصہ اُجالا پھیل جاتا تھا۔ کنگالو اور روزینہ قید خانے کی جانب رواں دواں تھے کہ کنگالو نے سوال کیا۔ ’’آپ نے کل میرے دو سوالات میں سے صرف ایک کا جواب دیا۔ آپ نے یہ تو بتلا دیا کہ آپ قیدی کو نہیں جانتیں لیکن یہ نہیں بتلایا کہ آخر آپ اُس سے ملنا کیوں چاہتی ہیں ؟‘‘

’’آپ یہ سوال بار بار کیوں پوچھ رہے ہو کنگالو؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قیدی سے ملنا چاہئے۔‘‘

’’لیکن آپ کے دل میں یہ بات آئی، تو وہ بلاوجہ نہیں ہو سکتی۔‘‘

روزینہ مسکرائی اور بولی۔ ’’تم اگر ون لینڈ میں ہوتے تو تمہیں سی۔ آئی۔ ڈی۔ میں بھرتی کر لیا جاتا۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ یہ سی۔ آئی۔ ڈی۔ ہوتا کیا ہے؟ ہمارے یہاں تو نہیں ہوتا۔‘‘

’’اچھا ہی ہے جو تم لوگ ان فضول کے بکھیڑوں سے دُور ہو۔ یہ سمجھ لو کہ وہ ان چیزوں میں سے ہے جنھیں ہم نے چند آسان مسائل کو حل کرنے کی خاطر ایجاد کیا اور وہ آگے چل کر خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئے۔‘‘

’’میں سمجھا نہیں ؟‘‘ کنگالو بولا۔

’’تم سمجھو گے بھی نہیں اور اچھا ہی ہے جو تم ان چیزوں کو نہ سمجھو۔ ورنہ تم خود نت نئے مسائل میں پھنس جاؤ گے۔‘‘

’’لیکن ہر مسئلہ کا حل ہے۔ اگر سی۔ آئی۔ ڈی۔ خود مسئلہ بن گئے ہیں تو انہیں ختم کر دیا جائے۔۔۔ مسئلہ حل۔‘‘

’’نہیں کنگالو۔۔۔ یہ ایسا آسیب ہے جس کا بنانا تو آسان ہوتا ہے لیکن ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر ان کا بنانے والا بھی ان کی جانب آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی غلطی کرے تو وہ اسے پھوڑ ڈالتے ہیں۔‘‘

کنگالو بولا۔ ’’آپ کی باتیں ویسے تو عام فہم ہوتی ہیں لیکن آج آپ پہیلیاں بجھوا رہی ہیں۔‘‘

’’نہیں کنگالو، یہ کوئی پہیلی نہیں ہے۔ کیا تم شراب کو نہیں جانتے کہ جس کی لت ڈالنا بہت آسان مگر اسے چھوڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ کنگالو بولا۔ ’’میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ پہلے انسان شراب کو پیتا ہے پھر شراب انسان کو پیتی ہے۔‘‘

’’بس یہی سمجھ لو۔ لیکن وہ تمہارا جیل خانہ اب اور کتنی دور ہے؟‘‘

’’دور۔۔۔ یہ کیا۔۔۔ ہم لوگ جیل کے سامنے کھڑے ہیں۔ لیکن پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ قیدی سے کیوں ملنا چاہتی ہیں ؟‘‘

روزینہ بولی۔ ’’کنگالو ایک بات بتاؤں۔ تم مجھ سے بھی زیادہ ضدی ہو۔ میں دراصل یہ جاننا چاہتی تھی کہ تمہاری جیل کے اندر قیدی کو کیسا لگتا ہے۔۔۔ بس۔ لیکن یہاں تو مجھے کوئی جیل دکھائی نہیں دیتی۔‘‘

’’ارے یہی کمرہ تو جیل ہے جس کے باہر ایک چوکیدار بیٹھا ہوا ہے۔‘‘

روزینہ نے سوچا یہ بھی کوئی جیل ہے جس کی نہ کوئی لمبی چوڑی فصیل اور نہ کوئی دفتر نہ جیلر، اور نہ اس کے پاس سپاہیوں کا دستہ۔ اس میں تو قیدی کو محسوس بھی نہیں ہوتا ہو گا کہ وہ جیل میں ہے۔ کنگالو نے آگے بڑھ کر چوکیدار سے کچھ بات چیت کی اور اس نے دونوں کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔ روزینہ جب اندر پہنچی تو اس کے قدم زمین میں گڑ گئے۔ اس لیے کہ اس کے سامنے جوزف زنجیروں میں جکڑا ہوا بیٹھا تھا۔ وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ ملیں گے اور اس طرح، اس حالت میں ان کی ملاقات ہو گی۔ کچھ دیر تک وہ دونوں ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے رہے اور پھر اس کے بعد بوجھل قدموں سے روزینہ جوزف کے قریب آئی اور زمین پر بیٹھ گئی۔ دونوں کی زبانیں گنگ ہو چکی تھیں۔

کنگالو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ معاملہ کچھ مختلف سا ہے۔ ان دونوں کے چہرے پر آتے جاتے تاثرات اور آنکھوں میں جلتے آنسوؤں کے چراغ اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ یہ اجنبی افراد نہیں ہیں، یہ ضرور ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کنگالو نے اپنے قیاس کی تصدیق کے لیے سوال کیا کہ کیا آپ دونوں ایک دوسرے سے واقف ہیں ؟ دونوں خاموش رہے۔ اس نے خاموشی کو ہاں پر محمول کیا اور بولا۔ ’’آپ ان سے بات کریں، میں کچھ ضروری کاموں کو نبٹا کر آتا ہوں۔‘‘ کنگالو جاتے جاتے چوکیدار سے نہ جانے کیا کہہ گیا کہ وہ فوراً کمرے کے اندر آیا اور جوزف کی زنجیریں کھول کر واپس باہر چلا گیا۔

کنگالو اور چوکیدار کے نکل جانے کے بعد ایک اور طوفان اس کمرے میں موجزن ہو گیا۔ آنسوؤں کی فلک شگاف لہروں نے ساری کائنات کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہ دونوں روتے رہے اور دیر تک روتے ہی رہے۔ روزینہ جوزف سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔ اس کی غیر موجودگی میں ون لینڈ کے اندر اور موکیا میں کیا کچھ ہوا، وہ سب اسے بتلانا چاہتی تھی۔ وہ تمام باتیں جن کا علم جوزف کو نہیں تھا۔ لیکن اچانک اس کی یادداشت کی تختی صاف ہو گئی۔ وہ اپنی ساری باتیں بھول گئی اور اس نے جوزف سے بے ساختہ وہ سوال کر دیا، جس کا جواب اسے پتہ تھا۔ وہ بولی۔ ’’آپ! آپ یہاں اس حالت میں ؟ آپ یہاں کیسے پھنس گئے؟‘‘

’’میں نہیں جانتا کہ میں کہاں ہوں ؟ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ اور میرے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ مجھے زنجیروں میں جکڑنے کی وجہ کیا ہے؟ میں ان کی زبان نہیں سمجھتا اور نہ ہی یہ میری زبان سمجھتے ہیں ؟ میرا قیاس ہے کہ یہ کوئی آدم خور قبیلہ ہے جو انسانوں کو بلی چڑھا کر کھا جاتا ہے، اور اب کسی دن میری بھی باری آئے گی جب کہ میں ان کی بھوک مٹاؤں گا۔‘‘

روزینہ کو جوزف کی معصومیت پر ہنسی آ گئی۔ وہ بولی۔ ’’نہیں جوزف ایسی بات نہیں۔ تمہیں اس قدر بدگمان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور اس طرح غمگین بھی نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’روزینہ! تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں غمگین ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں جب سے یہاں آیا ہوں، زنجیروں میں جکڑا ہوا ہونے کے باوجود میں بہت خوش ہوں۔‘‘

’’تم خوش ہو جوزف؟ اس گمان کے باوجود بھی کہ یہ لوگ ایک دن تم کو کھا جائیں گے؟‘‘

’’ہاں روزینہ۔۔۔ میں واقعی خوش ہوں اور مطمئن ہوں۔ اس لیے کہ میں زندہ ہوں۔ یہاں آنے سے قبل کئی دنوں تک میں اناج کے دانے دانے کو ترس گیا تھا۔ میں نہ جانے اس جزیرے کے کس کونے میں تھا جہاں نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد۔ میں تنہا نہ جانے کتنے دنوں تک کہاں کہاں مارا مارا پھرتا رہا۔ لیکن جب سے یہاں آیا ہوں، ہر روز صبح شام مجھے کھانے کو مل جاتا ہے۔ گو کہ میں ان کا قیدی ہوں لیکن یہ نہ مجھ سے کوئی تفتیش کرتے ہیں اور نہ تعذیب کرتے ہیں۔ میرے دو ہی کام ہیں، کھانا پینا اور سو جانا۔ ویسے بھی میری زندگی سیلاب میں بہہ چکی ہے۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کو سیلاب کا پانی نگل گیا۔ ہو سکتا ہے کہ میں بھی اس کا شکار ہو جاتا اور اگر ایسا ہو جاتا تو شاید بہتر ہی ہوتا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تب بھی شاید بہتر ہی ہے۔ مجھے لگتا ہے، جو کچھ بھی ہوتا ہے بہتر ہی ہوتا ہے۔ میری زندگی سوالات کا ڈھیر بن گئی اور شاید کسی سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں کیوں نہیں مرا اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں کیوں زندہ ہوں ؟  شاید تم سے ملنے کی خاطر میں ابھی تک زندہ ہوں۔ اب ملاقات بھی ہو گئی۔ اب میں مر سکتا ہوں۔ بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ موت کی آغوش میں جا سکتا ہوں۔‘‘

’’یہ کیسی باتیں کر رہے ہو جوزف۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں۔ اب میں تم سے مل چکی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اب کوئی بھی تمہارا بال بانکا نہیں کر سکتا۔ اطمینان رکھو۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’روزینہ۔ تمہاری یقین دہانی کا شکریہ۔ لیکن مجھے اس کی چنداں ضرورت نہیں اور نہ میں اس کا مستحق ہوں۔ میں نے اپنی زندگی سے راہِ فرار اختیار کی، اُس نے ناراض ہو کر مجھے موت کے حوالے کر دیا۔ لیکن میں وہ بدقسمت انسان ہوں جسے موت نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اب میں نہ زندہ ہوں اور نہ مردہ۔۔۔ موت اور زندگی کے درمیان معلق ہوں اور نہ جانے کب تک اسی طرح معلق رہوں گا۔‘‘ جوزف بولے جا رہا تھا اور بے تکان بولے جا رہا تھا۔ نہ جانے کتنے دنوں بعد اسے ایسے کان میسر آئے تھے جو اس کی زبان سمجھ سکتے تھے۔۔۔ اس کی فریاد سن سکتے تھے۔ آج اس کی سمجھ میں یہ حقیقت آ گئی تھی کہ دُنیا میں صرف وہی گونگا نہیں ہوتا کہ جو بہرہ ہوتا ہے۔ جس نے کسی آواز کو کبھی بھی نہیں سنا ہو اور جو اس بات سے واقف ہی نہ ہو کہ آواز کس بلا کا نام ہے۔ بلکہ وہ بھی بہرہ ہو جاتا ہے جس کی زبان کو کوئی نہیں سمجھ پاتا۔ وہ گزشتہ کئی دنوں سے گونگا اور بہرہ ہو گیا تھا۔ نہ کچھ بولتا تھا اور نہ سنتا تھا۔ اس کی آنکھیں ایک ہی منظر دیکھتے دیکھتے اندھی ہو چکی تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے اس کے سارے حواس ساکت ہو چکے تھے۔ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکا تھا۔ وہ صرف کھاتا پیتا اور سوتا تھا۔ کیا اسی کا نام زندگی ہے؟ شاید نہیں ! زندگی اس سے زیادہ بہت کچھ ہے، لیکن جوزف کے لئے زندگی کے معنی بدل چکے تھے۔ اب وہ خود کلامی میں گرفتار ہو گیا تھا۔ روزینہ کی موجودگی میں تنہا ہو گیا تھا۔ اپنے آپ سے بات کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسا کتنے دن بعد ہو رہا ہے۔ روزینہ نے آج پھر جوزف کو اپنے آپ سے ملا دیا تھا۔

روزینہ نے جوزف کو یہ نہیں بتایا کہ اس پر کیا الزام ہے اور اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے۔ ویسے اس سے جوزف کے گھبرانے کا بھی کوئی سوال نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ تو اپنے آپ کو نہ جانے کیسے کیسے بھیانک انجام کے لیے تیار کر چکا تھا۔ پھر بھی وہ خاموش رہی، اس لیے کہ اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ جوزف پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ بے بنیاد ہے، جوزف کبھی بھی کسی غیر عورت کی جانب ہوس کی نگاہ نہیں ڈال سکتا۔ دست درازی تو بہت دُور کی بات ہے۔

روزینہ نے جوزف کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ اس کی فطرت سے واقف تھی۔ وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔ وہ دونوں گھر اور دفتر میں ساتھ ساتھ رہے تھے، بازاروں اور باغوں میں ان کا ساتھ ہوتا تھا۔ نیز جن حالات سے وہ گزر رہا تھا، ایسے میں تو کوئی درندہ صفت وحشی بھی حرص و ہوس کا شکار نہیں ہو سکتا۔ جب انسان اپنے وجود کی جنگ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے سارے کس بل ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور وہ وقتی طور پر سہی، بالکل تاڑ کی طرح سیدھا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسے یقینِ کامل تھا کہ جوزف بے گناہ ہے۔ لیکن پھر آخر وہ پھنس کیسے گیا؟ یہ ایک بہت بڑا معمہ تھا جو روزینہ کے سامنے منہ کھولے کھڑا تھا۔ روزینہ نے مدعی سے ملاقات کا فیصلہ کیا، اپنے خاوند کو محبت کا بوسہ دیا اور جلد ہی رہائی کا یقین دلا کر دروازے تک آئی، لیکن پھر واپس مڑی۔

اس نے جوزف کے قریب آ کر دریافت کیا۔ ’’جوزف یہاں آنے سے قبل جو کچھ وقوع پذیر ہوا، مجھے حرف بحرف بتاؤ۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ میں کئی دنوں کا بھوکا  مارا مارا پھر رہا تھا۔ فاقہ کے باعث مجھے غش آنے لگے تھے، اس لیے میں ایک ٹیلے کے نیچے سائے میں بیٹھ گیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک قبائلی عورت قریب ہی بیٹھی کچھ کھا رہی ہے۔ میں نے مجبوراً اشارے سے اس سے التجا کی کہ مجھے بھی کھانے کے لیے کچھ دے۔ بس پھر کیا تھا، اس نے شور مچانا شروع کر دیا۔ اس کے قبیلے والے کوّوں کی مانند جوق در جوق جمع ہو گئے۔ اس عورت نے اپنی زبان میں ان سے نہ جانے کیا کہا کہ بس وہ مجھے زنجیروں سے جکڑ کر یہاں لے آئے۔ لیکن اس کے بعد میرے دن بدل گئے۔ نہ صرف میرے قیام و طعام کا بندو بست ہو گیا بلکہ وصال یار بھی۔۔۔‘‘ نہ جانے کتنی صدیوں کے بعد پہلی بار مسکراہٹ جوزف کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔ روزینہ اسے دیکھ کر خوش ہو گئی۔ اس نے جوزف کے اندر زندگی کی رمق کو دیکھ لیا تھا۔

قید خانے سے نکل کر روزینہ سیدھے کنگالو کے گھر پہنچی۔ کنگالو اُسے دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ’’مجھے یقین تھا کہ تم یہاں آؤ گی۔ میری چھٹی حس کبھی بھی دھوکہ نہیں کھا سکتی۔‘‘

’’تمہاری کوئی حس دھوکہ نہیں کھا سکتی کنگالو۔ اس لیے کہ تم نہایت ہی ذہین انسان ہو۔‘‘

اپنی تعریف سن کر کنگالو خوش ہو گیا

روزینہ بولی۔ ’’میں ۔۔۔‘‘

کنگالو نے اس کا جملہ کاٹ دیا اور بولا۔ ’’اس خاتون سے ملنا چاہتی ہوں جس نے الزام لگایا ہے۔‘‘

’’تم تو انتریامی ہو کنگالو۔ مخاطب کا ذہن پڑھ لیتے ہو۔‘‘

’’شکریہ، شکریہ۔ اس میں ذہانت کی کوئی بات نہیں۔ اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو بھی یہی کرتا۔ میں نے از خود اس عورت کا پتہ چلا لیا ہے کہ جس کی شکایت پر اس شخص کو قید کیا گیا۔ فی الحال وہ جس جگہ گئی ہوئی ہے، وہاں تک جا کر پھر واپس لوٹنا ایک مشکل کام ہے۔ اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ کل علی الصبح وہاں کا قصد کرتے ہیں تاکہ شام سے پہلے واپسی ہو جائے۔‘‘ روزینہ نے تائید کی اور اپنے کیمپ لوٹ آئی۔

اس رات روزینہ سو نہیں پائی۔ وہ رات بھر اپنے جوزف کے بارے میں سوچتی رہی جو جیل کی کوٹھری میں بند تھا۔ وہ اس جوزف کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اس سال کا ’’مین آف موکیا‘‘ تھا۔ اس کے باوجود بے یارو مددگار ایک بے بنیاد الزام میں جیل کی ہوا کھا رہا تھا۔ اس جوزف کے بارے میں جس کے بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں یورو کی خطیر رقم جمع تھی اور جو نانِ جویں کو محتاج، کسمپرسی کی موت کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ جوزف جس پر آزمائشوں اور مشکلات کا پہاڑ ٹوٹا تھا، وہ جس ماں کی خاطر اپنا گھر بار اور نوکری، کاروبار چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا تھا۔ مشیت ایزدی نے اسے اس ماں سے بھی محروم کر دیا تھا۔ روزینہ سوچ رہی تھی کہ کیا کوئی شخص اس قدر ستم رسیدہ بھی ہو سکتا ہے جتنا کہ اس کا اپنا جوزف تھا؟

 

۱۵

دروازے پر دستک کی آواز سن کر روزینہ سمجھ گئی کہ اتنی صبح کنگالو کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وہ دوڑ کر دروازے پر آئی اور بولی۔ ’’خوش آمدید! میں نے آپ کے لیے چائے وائے تیار رکھی ہوئی ہے۔ بس نوش فرمائیں اور پھر چلتے ہیں۔‘‘

کنگالو بولا۔ ’’ہم ہنڈالو قبیلے کے لوگ چائے سے تو انکار نہیں کر سکتے، لیکن جو اس کے ساتھ یہ وائے ہے، اس سے میں معذرت چاہتا ہوں۔ ویسے مجھے توقع نہیں تھی کہ آپ اس قدر صبح اتنا سارا اہتمام کریں گی، ورنہ میں ناشتہ کے بغیر آتا۔‘‘

’’رہنے بھی دیجئے۔‘‘ روزینہ بولی۔ ’’اب میں ہنڈالو روایات سے کسی قدر واقف ہو گئی ہوں اور جانتی ہوں کہ یہاں کسی شوہر کی مجال نہیں ہے جو بیوی کی مرضی کے خلاف بغیر ناشتے کے گھر سے نکلے۔‘‘

کنگالو نے روزینہ کے منہ سے جب یہ سنا تو جھینپ کر رہ گیا اور بولا۔ ’’میں تو یونہی کہہ رہا تھا۔ لیکن چونکہ آپ جانتی ہیں اس لئے اصرار نہ کریں۔ اگر آپ چاہیں تو واپسی پر میں یہ سب کھالوں گا۔ اس لیے کہ یوروپی پکوان مجھے بہت پسند ہیں۔‘‘

’’تمہیں صرف یوروپی پکوان پسند ہیں یا۔۔۔؟‘‘

کنگالو پھر ایک بار جھینپ گیا، بولا۔ ’’یوروپ کے نہ صرف کھانے بلکہ ہر چیز۔ مجھے یوروپ کی ہر شہ بشمول کھانے کے پسند ہے۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’کنگالو ایک بات یاد رکھنا۔ ان کھانوں کا سارا ذائقہ ان کے تازہ ہونے میں ہے۔ شام تک تو وہ اس قدر بے مزہ ہو جائیں گے کہ میں بھی اسے نہ کھا سکوں گی۔ خیر ہم لوگ کچھ تو شہ ساتھ لے لیتے ہیں، راستے میں بھوک لگے تو کھا لینا۔ کنگالو نے تائید کی۔ چائے کا دَور ختم ہو چکا تھا۔ اس لیے وہ دونوں اپنی نئی مہم پر اس بستی کی جانب نکل پڑے جہاں مدعی خاتون کا گھر تھا۔ کنگالو نے اس سے روزینہ کا تعارف کروایا اور کہا کہ وہ اس سے مقدمہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے آئی ہے اور اس بابت قاضی صاحب سے پیشگی اجازت طلب کر لی گئی ہے۔

وہ خاتون بولی۔ ’’کہیے آپ کیا جاننا چاہتی ہیں ؟‘‘

روزینہ نے کہا۔ ’’شکریہ۔۔۔۔۔۔اگر تم مناسب سمجھو تو مجھے یہ بتلاؤ کہ اس روز کیا کچھ ہوا؟‘‘

اس عورت نے بھی جوزف والی کہانی کو ہو بہو دوہراتے ہوئے کہا۔ ’’اس روز میں ایک ٹیلے کے قریب کچھ کھا رہی تھی۔ اسی وقت ایک اجنبی شخص میرے سامنے آ کر کچھ عجیب و غریب اشارے کرنے لگا۔ میں سمجھ گئی کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے میں نے شور مچا دیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے وقت وہ کسی اجنبی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا جسے ہم لوگ سمجھنے سے قاصر تھے۔‘‘

روزینہ نے ایک اور سوال کیا۔ ’’اچھا یہ بتاؤ کہ کیا اس نے تمہیں ہاتھ لگایا یا تمہارے قریب آیا؟‘‘

’’نہیں، میں نے اسے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں شور نہ مچاتی اور لوگ دوڑ کر نہ آتے تو نہ جانے وہ کیا کر گزرتا؟‘‘

’’اچھا، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھوکا ہو اور تم سے کھانا مانگ رہا ہو؟‘‘

’’کھانا مانگ رہا ہو؟‘‘ اس عورت نے حیرت سے کہا۔ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’کیوں ؟ کیا کوئی بھوکا روٹی نہیں مانگ سکتا؟ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟‘‘ روزینہ بولی۔

اب کی بار کنگالو نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارے یہاں کوئی کسی سے روٹی نہیں مانگتا۔ ہم بھوک سے مر جائیں گے لیکن کسی کے آگے کھانے کے لیے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ ایسا کرنے کو ہم اپنے ان داتا کی توہین سمجھتے ہیں۔ ہمارے صحیفوں میں اس کی بڑی وعید آئی ہے۔‘‘

روزینہ کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا۔ وہ بولی۔ ’’لیکن وہ شخص تو آپ لوگوں میں سے نہیں تھا۔ وہ نہ آپ کی روایات سے واقف تھا اور نہ اسے آپ کے صحیفوں کا علم تھا اور پھر ساری دُنیا کے لوگ روٹی کے لیے ہاتھ پھیلانے کو اس طرح معیوب نہیں سمجھتے۔‘‘

’’نہیں نہیں ! یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ کنگالو بولا۔ ’’کوئی روٹی کے لیے کسی انسان کے آگے ہاتھ پسارے، یہ تو سیدھے سیدھے رازق کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔‘‘

جی ہاں ! یہ آپ کا عقیدہ ہے۔ لیکن ساری دُنیا تو اس عقیدے کو تسلیم نہیں کرتی اور جو اس عقیدے پر ایمان نہیں رکھتا، وہ تو بھوک سے مجبور ہو کر ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔‘‘

’’اچھا! آپ کے یہاں ایسا بھی ہوتا ہے؟‘‘ اس بار خاتون نے سوال کیا تھا۔

’’نہ صرف ہمارے یہاں بلکہ دُنیا کے بیشتر معاشروں کا یہی حال ہے۔ وہاں فاقہ کش کو بھیک مانگنے کی اجازت ہے اور لوگ اس کو کھانا کھلانا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔ ویسے میں ہنڈالو رسوم و رواج کا احترام کرتی ہوں لیکن آپ اسے تمام لوگوں پر بزورِ قوت نافذ تو نہیں کر سکتے۔‘‘

’’لیکن ہم لوگ تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی ایسا کر سکتا ہے۔‘‘

’’ہاں کنگالو۔۔۔ ہم ساری دُنیا کو اپنے پر قیاس کرتے ہیں۔ یہ ہماری مجبوری بھی ہے اور خوش فہمی بھی۔ لیکن حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘‘

کچھ دیر خاموشی چھائی رہی اور اس کے بعد روزینہ بولی۔ ’’دیکھو بہن۔۔۔ کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ تمہارا سارا الزام ایک اندیشے کی بنیاد پر ہے؟‘‘

’’پہلے نہیں لگتا تھا، لیکن اب لگتا ہے۔‘‘ اس عورت نے صاف گوئی کے ساتھ اعتراف کیا۔

’’اور غلط فہمی کے باعث ہے؟‘‘ روزینہ بولی۔

’’جی ہاں ! آپ کی بات درست ہے۔‘‘ اس عورت نے کہا۔

’’تو کیا تم یہ پسند کرو گی کہ اس کی وجہ سے کوئی بے گناہ شخص پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے؟‘‘

’’آپ کیسی باتیں کرتی ہیں بہن۔ اگر ایسا ہو گیا تو میں نہ چین سے جی سکوں گی اور نہ مجھے سکون کی موت نصیب ہو گی۔‘‘

اس نیک دل خاتون کا یہ جواب سن کر روزینہ کا چہرہ کھل اُٹھا۔ وہ بولی۔ ’’شکریہ بہن، مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔‘‘ اس کے بعد روزینہ کنگالو سے مخاطب ہو کر بولی۔ ’’اب اس شخص کی رہائی کے لیے کیا ضابطہ ہے۔‘‘

کنگالو نے کہا۔ ’’اس کی رہائی دو صورتوں میں ممکن ہے۔ اوّل تو یہ کہ مقدمہ کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عورت جھوٹی ہے اور اس نے پھنسانے کی غرض سے اس شخص پر تہمت باندھی تھی تو وہ چھوٹ جائے گا۔ مگر اس عورت کو پھانسی پر لٹکنا پڑے گا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ مدعی مقدمہ واپس لے لے، ایسے میں مُدعا الیہ بری ہو جائے گا اور کسی کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔‘‘

’’کیا اس کے لیے بھی سردار کی توثیق درکار ہے؟‘‘

’’جی نہیں ! مقدمہ کو قائم کرنا یا برخواست کرنا، یہ قاضی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ سردار کا عمل دخل صرف سزا کے نفاذ تک محدود ہے۔‘‘

روزینہ نے چلنے سے قبل اس عورت سے کہا۔ ’’دیکھو بہن، اس شخص کا سب سے پہلا مسئلہ تو یہ تھا کہ وہ کئی دنوں سے بھوکا تھا، دوسرے وہ تمہاری زبان نہیں جانتا تھا اور ہنڈالو عقائد و روایات سے نابلد تھا۔ اس لیے تمہیں غلط فہمی اور اس سے غلطی ہو گئی۔ ویسے میں اس کی جانب سے تم سے معافی کی خواستگار ہوں۔ اگر تمہیں یہ قابلِ قبول ہو تو برائے کرم مقدمہ واپس لے لو اور ایک معصوم کو تختۂ دار سے بچا لو۔‘‘

یہ کہہ کر جیسے ہی روزینہ دروازے کی جانب مڑی، وہ قبائلی خاتون روزینہ سے لپٹ کر رونے لگی۔ اس نے کہا۔ ’’میں تمہاری ممنون و مشکور ہوں کہ تم نے میری آنکھیں کھول دیں، ورنہ مجھ سے کتنا عظیم گناہ سرزد ہو جاتا۔ اگر خدا نخواستہ مجھ پر یہ حقیقت سزا کے نفاذ کے بعد کھلتی تو میرے لیے ایک پل بھی زندہ رہنا محال ہو جاتا، بلکہ میں بھی اس پھانسی کے پھندے سے لٹک کر خودکشی کر لیتی۔ میں کل ہی قاضی صاحب سے کہہ کر اپنی درخواست واپس لے لوں گی۔‘‘

’’اور وہ ملزم رہا ہو جائے گا۔‘‘ کنگالو نے اس کا جملہ پورا کیا۔

واپسی میں کنگالو نے روزینہ سے کہا۔ ’’آپ ایک عظیم خاتون ہیں جو آپ نے ایک اجنبی ملزم کے لیے اس قدر پریشانی اُٹھائی اور اس کو سزا سے بچانے کی جدو جہد کی۔‘‘

’’میں سزا سے بچانے والی کون ہوتی ہوں۔ عظمت و بڑائی کی سزاوار تو وہ خاتون ہے جو بلا چوں و چرا مقدمہ واپس لینے کے لیے تیار ہو گئی۔ میں اس کی نیک نیتی اور شرافت کو سلام کرتی ہوں۔‘‘

کنگالو بولا۔ ’’جی نہیں، مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔‘‘

’’یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں کہ کل تک وہ عورت مارنے والی تھی اور آج بچانے والی بن گئی۔‘‘

کنگالو بولا۔ ’’آپ سے بحث میں کوئی نہیں جیت سکتا۔ میں اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں۔ اب تو آپ خوش ہیں۔‘‘

’’جی ہاں کنگالو۔۔۔ میں واقعی بہت خوش ہوں۔ اس ہار یا جیت کے لیے نہیں بلکہ ایک بے گناہ کو سزا سے بچانے کے باعث میں بے حد خوش ہوں۔‘‘

’’اوپر والا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘ یہ کہہ کر کنگالو نے اجازت لی اور اپنی راہ لیا۔ روزینہ کا کیمپ سامنے تھا۔

حسبِ عادت اس شام بھی روزینہ نے ڈیوڈ کو اپنے دن بھر کا احوال سنایا۔ جوزف کے بارے میں بتایا۔ اسے توقع تھی کہ ڈیوڈ یہ جان کر اچھل پڑے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ ڈیوڈ نے نہایت سرد مہری کے ساتھ کہا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کل جوزف رہا ہو جائے گا۔ بہت خوب، تو ہم ایسا کرتے ہیں کہ فوراً اس کو ون لینڈ بھجوانے کا اہتمام کیے دیتے ہیں۔‘‘

روزینہ کے لیے ڈیوڈ کا یہ جواب حیرت انگیز تھا۔ وہ بولی۔ ’’یہ تو میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں جانا پسند کرے گا۔۔۔ ماسکو یا ون لینڈ۔۔۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ یہیں میرے ساتھ رہنا چاہے؟‘‘

ڈیوڈ روزینہ کی بات پر چونک پڑا اور بولا۔ ’’یہاں رُک جائے؟ کیسی بات کرتی ہو روزینہ؟ یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا؟ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اگر جوزف باز آبادکاری کے کام میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینا چاہے تو کیوں نہیں رُک سکتا؟‘‘

’’نہیں رُک سکتا میڈم ہر گز نہیں یہ ناممکن ہے۔‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ۔ موکیا ’’مین آف ائیر‘‘ کو اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی کمپنی کی ایک رضاکار مہم میں اپنی مرضی سے شامل ہو سکے؟ اگر ایسا ہے تو اسے یہ اعزاز واپس کر دینا چاہئے۔‘‘

روزینہ کی حجت بازی نے ڈیوڈ کو آگ بگولہ کر دیا۔ اس کا جی چاہا کہ روزینہ کو سمندر میں پھینک کر اس کا کام تمام کر دے لیکن سرواٹسن کا خیال کر کے اس نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا اور بولا۔ ’’روزینہ! تمہیں یاد ہو گا کہ ہماری پہلی ہی نشست میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ یہاں نہ کوئی سرواٹسن کی مرضی کے بغیر آسکتا ہے اور نہ ہی ٹھہر سکتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ سارے غیر ملکی سیاح یہاں سے روانہ کر دئیے گئے، ایسے میں جوزف کیسے بچ گیا؟

’’میں آپ کو بتلا چکی ہوں کہ وہ قید خانے میں تھا۔ جب اپنے لوگوں کو یہی نہیں پتہ کہ یہاں کوئی جیل بھی ہے تو ایسے میں وہ اُسے کیسے تلاش کر پاتے؟ لیکن آپ سرواٹسن سے جوزف کے لیے اجازت کیوں نہیں طلب کر لیتے؟‘‘

’’ہاں یہ ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اِجازت دے دیں تو جوزف یہاں رُک سکتا ہے ورنہ۔۔۔‘‘

’’ورنہ میں اس کے ساتھ واپس چلی جاؤں گی۔‘‘ اس بار روزینہ نے اپنی برہمی کا اظہار کیا۔

ڈیوڈ پھر چراغ پا ہو گیا۔ ’’تم واپس چلی جاؤ گی؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟ تم اس بات کو بھول گئی ہو کہ ہم لوگ یہاں ایک سال کے معاہدے پر ہیں اور اس کی خلاف ورزی ہمیں نہ صرف اس میں درج ساری مراعات سے محروم کر دے گی بلکہ مستقبل کے روشن امکانات کو بھی تباہ کر دے گی۔

روزینہ مسکرائی اور بولی۔ ’’ڈیوڈ میں بھی اب آپ کو اسی پہلی میٹنگ کی یاد دلانا چاہتی ہوں جس میں معاہدے کے تحت حاصل ہونے والے تمام مراعات سے میں نے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور اس رقم کو ریلیف فنڈ میں جمع کروا دیا تھا۔ جہاں تک کہ مستقبل میں ڈی۔ ٹی۔ آئی۔ ڈی۔ سی میں شمولیت کا سوال ہے، اس سے بھی میں انکار کر چکی ہوں۔ اس لیے مجھ پر آپ کی یہ دھمکی کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔‘‘

روزینہ کا جواب سن کر ڈیوڈ کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وہ بولا۔ ’’ہاں روزینہ! مجھے سب یاد ہے۔ میں تو تمہارے بھلے کی سوچ رہا تھا۔‘‘

’’شکریہ ڈیوڈ صاحب! لیکن میں اپنا بھلا بُرا خوب جانتی ہوں۔‘‘

’’یہ میں بھی جان گیا ہوں روزینہ۔ اب میں سرواٹسن سے جوزف کے لیے بات کروں گا۔ اگر وہ اجازت دے دیتے ہیں تب تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر نہیں تو تم جو چاہو کرو، تمہاری مرضی۔ اب اگر کوئی اور بات نہ ہو تو تم جا سکتی ہو۔‘‘

ڈیوڈ اور کنگالو کے رویہ میں بھی کس قدر فرق تھا، گو کہ کنگالو جوزف سے ناواقف تھا۔ اس کے باوجود اس کی رہائی سے بے حد خوش تھا۔ جبکہ ڈیوڈ کو اسے جلد از جلد واپس بھیجنے کی فکر لاحق تھی۔ باہر کی کھلی فضا میں روزینہ، ڈیوڈ اور کنگالو کے رویہ کا موازنہ کر رہی تھی۔ کس قدر مختلف تھے وہ دونوں ! ڈیوڈ نے نہ جوزف کی سیلاب سے زندہ بچ نکلنے پر کسی خوشی کا اظہار کیا اور نہ ہی جیل سے رہائی پر۔ روزینہ کو ایسا لگا کہ جیسے ڈیوڈ کی نفسیات ہنڈالو قبیلے کے غلام ابن غلام باشندوں سے بھی بدتر ہے۔ اس لئے کہ ہنڈالو عوام کو زبردستی غلامی کا طوق پہنایا گیا ہے۔ لیکن ان کی روح اب بھی آزاد ہے جبکہ ڈیوڈ جیسے لوگوں نے از خود اپنے ضمیر کو دولت کے عوض رہن رکھ دیا ہے اور وہ سراپا غلامی پر راضی ہو گئے ہیں۔ اب ان کے نہ جذبات و احساسات ہیں اور نہ کوئی رائے اور سوچ۔ جو کچھ ہے وہ دولت ہے اور ان کی زندگی صرف اور صرف دولت کی حرص و ہوس سے عبارت ہے۔

روزینہ کے دفتر سے نکل جانے کے بعد ڈیوڈ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسے اٹلی کی فون کال پر گفتگو کے بعد کی جانے والی سرواٹسن کی نصیحتیں یاد آ رہی تھیں، جنھیں اس نے فراموش کر دیا تھا۔ وہ سرواٹسن کی فرد شناسی کا پھر ایک بار قائل ہو گیا تھا۔ روزینہ کے بارے میں ان کے اندازے کس قدر صحیح ثابت ہوئے تھے۔ کاش کہ وہ ان ہدایات کو یاد رکھتا تو کم از کم اس ذلیل لڑکی کے ہاتھوں رسوا ہونے سے بچ جاتا۔ ڈیوڈ کا دماغ غصے سے کھول رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ ڈیوڈ نے بیزاری سے فون اُٹھایا اور غرایا۔ ’’ہیلو۔۔۔!!‘‘

سامنے سے آواز آئی۔ ’’کیوں ڈیوڈ اتنے بیزار کیوں ہو؟ کیا مسئلہ ہے؟ پھر سے کوئی طوفان تو نہیں آنے والا؟‘‘

سرواٹسن کی آواز سن کر ڈیوڈ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو سنبھال کر بولا۔ ’’سر طوفان آنے والا تو نہیں ہے، لیکن ابھی ابھی یہاں آ کر جا چکا ہے۔‘‘

’’اچھا! بہت خوب۔ اب جبکہ طوفان گزر ہی گیا ہے تو پریشانی کس بات کی ہے؟ تم اُداس کیوں ہو؟‘‘

’’سر۔۔۔ دراصل اس کی تباہ کاریوں نے مجھے ناراض کر رکھا ہے؟‘‘

سرواٹسن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ بولے۔ ’’کہیں پھر سے بھابی کے ساتھ کوئی لڑائی تو نہیں ہو گئی؟‘‘

’’جی نہیں سر۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ امور داخلہ بالکل پرامن ہیں لیکن دفتر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ لیکن آپ اس بار جلدی کیسے آ گئے؟ ابھی تو یوروپ اور امریکہ میں ہفتے کا آخری دن ختم نہیں ہوا اور آپ کی آمد بیرن لینڈ میں ! خیریت تو ہے؟‘‘

’’ہاں دراصل میں فی الحال چین سے آ رہا ہوں۔ دن بھر کام کرنے کے بعد وہاں سے شام کے وقت چلا اور یہاں پہنچا تو ابھی شام ہی تھی۔ اس لئے اس بار ہفتہ اور اتوار کے بجائے جمعہ کی شب بھی میں بیرن لینڈ کا مہمان رہوں گا۔ تمہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟‘‘

’’ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟ آپ بیرن لینڈ میں مہمان نہیں بلکہ یہاں کے مالک ہیں۔ میں تو آپ سے ہمیشہ کہتا ہوں کہ ویک اینڈ کے علاوہ بھی ہمارے لیے وقت نکالیں۔ آپ جمعہ کو رات گئے آتے ہیں اور پیر کی علی الصبح نکل جاتے ہیں ۔۔۔‘‘

’’۔۔۔اور ہمیں ویک اینڈ منانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہی کہنے والے تھے نا ڈیوڈ۔ دیکھو ہمارے لیے کوئی تعطیل نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے ہفتہ کے سات دن ہمارے لیے کم پڑتے ہیں۔‘‘

’’جی سر۔۔۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لگاتار اس قدر کام کرتے ہیں اور اس کے باوجود ہشاش بشاش بھی رہتے ہیں۔ تھکاوٹ کے کوئی آثار آپ پر دکھلائی نہیں دیتے۔

ایسا نہیں ہے ڈیوڈ۔ میں بھی انسان ہوں اور تھکتا ہوں۔ اب دیکھو، چین کے لوگ جو میرے ساتھ دن بھر کام کرتے رہے، آدھی رات کی نیند سورہے ہیں اور میں تم سے گپ شپ کر رہا ہوں۔ کمبخت جب تک سورج دکھائی دیتا ہے، نیند ہی نہیں آتی۔ تم ایسا کرو کہ میرے پاس آ جاؤ۔ کچھ دیر گپ شپ کرتے ہیں۔ جب سورج ڈھل جائے تو کھا پی کر سو جائیں گے۔

ڈیوڈ نے سوچا سرواٹسن چھٹیوں کے دنوں میں بھی یہاں آتے ہیں تو ان پر کام کا جنون سوار ہوتا ہے۔ لیکن آج چونکہ وہ آرام کے موڈ میں ہیں، اس لیے کیوں نہ اس موقع کا استعمال کر کے روزینہ سے اپنی ہزیمت کا بدلہ چکا لیا جائے اور واٹسن کے ذریعہ اس کو سزا دلوائی جائے۔ ’’میں ابھی حاضر ہوا‘‘ یہ کہہ کر ڈیوڈ جلدی سے سرواٹسن کے کمرے کی جانب چل پڑا۔

جب ڈیوڈ ان کے کمرے میں داخل ہوا تو اخبار کا تفریحی صفحہ میز پر کھلا ہوا تھا۔ انہوں نے اوپر دیکھے بغیر کہا۔ ’’اب کہو کیا پریشانی ہے؟ کس طوفان کا ذکر تم کر رہے تھے؟‘‘

ڈیوڈ بولا۔ ’’سر! اس روزینہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ میرا بس چلے تو میں اسے گولی مار دوں۔‘‘

واٹسن نے مسکرا کر کہا۔ ’’ارے بھئی یہ روزینہ بیچ میں کہاں سے کود پڑی۔ تم نے اس کے ساتھ کوئی ایسی ویسی۔۔۔‘‘

’’نہیں جناب! ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ بہت مغرور اور خودسر ہے۔ نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے؟‘‘

’’کیوں ؟ کون سا آسمان پھٹ پڑا؟ کچھ بتاؤ گے بھی یا یوں ہی کوستے رہو گے بے چاری روزینہ کو؟‘‘

روزینہ کے لیے ’بے چاری‘ کے لقب کا استعمال ڈیوڈ کے زخموں پر مزید نمک پاشی کا سبب بنا، اور اس کے جواب میں ڈیوڈ نے ساری روداد بیان کر دی۔

واٹسن نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے تم اب بھی ویسے جوشیلے اور جلد باز ہو جیسے کہ بیس سال قبل اُس وقت تھے، جب میرے پاس انٹرویو دینے کے لیے آئے تھے۔ گردشِ زمانہ کا تم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔‘‘

’’کیا مطلب؟ اس معاملے میں بھی آپ مجھے قصور وار ٹھہرا رہے ہیں ؟‘‘

’’سوال کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کا نہیں ہے۔ جوزف کے معاملے میں تمہیں اس قدر جلد بازی نہیں کرنی چاہئے تھی، بلکہ تم روزینہ سے کہہ سکتے تھے کہ جوزف کی خاطر اجازت حاصل کرنے میں تم اس کی مدد کرو گے۔‘‘

’’اوہو سر! یہ میں کیسے کہہ سکتا تھا جبکہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ آپ کا عندیہ کیا ہے؟‘‘

’’ارے بھئی میں یا تو ہاں کہتا یا نا۔ اگر ہاں ہوتی تو تم اس پر بلاوجہ احسان تھوپ دیتے اور اگر نا ہوتی تو مجھے بُرا بھلا کہہ کر خاموش ہو جاتے۔‘‘

’’لیکن اس کا فائدہ؟‘‘

’’فائدہ یہ ہوتا کہ ہم دونوں میں سے کم از کم ایک کو تو وہ اپنا ہمدرد و بہی خواہ سمجھتی، اور اس سے اپنے دل کی بات بیان کر دیتی۔ اب تو تم نے دونوں دروازے بند کر دئیے۔‘‘

ڈیوڈ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ مگر وہ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے بولا۔ ’’سر یہ منافقت کا کھیل مجھ سے نہیں ہوتا۔ میں تو جو محسوس کرتا ہوں، بلا جھجک اس کا اظہار کر دیتا ہوں۔‘‘

واٹسن نے کہا۔ ’’جسے تم منافقت کہتے ہو، اُسے اکثر لوگ حکمت کا نام دیتے ہیں۔‘‘

ڈیوڈ کا جی چاہا کہ ترکی بہ ترکی جواب دے دے، کہ سر آپ جسے حکمت کہتے ہیں میں اُسے حماقت سمجھتا ہوں۔ لیکن مصلحت آڑے آ گئی اور ڈیوڈ کا وہ دعویٰ کہ ’’میں جو کچھ بھی محسوس کرتا ہوں بلا جھجک بول دیتا ہوں ‘‘ کم از کم سرواٹسن کے سامنے غلط ثابت ہوا۔

سرواٹسن نے کہا۔ ’’ڈیوڈ میں نے تمہیں روزینہ کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ یہ خطرناک قسم کی عورت ہے۔ اس کی بے نیازی نے اسے دلیر بنا دیا ہے۔ یہ کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتی۔ اس لیے اس کو قابو میں رکھنا خاصہ مشکل کام ہے۔ لیکن چونکہ یہ نہایت باصلاحیت ہے اور اس کی لگن و محنت بے مثال ہے، اس لیے میں اسے گنوانا نہیں چاہتا۔‘‘

ڈیوڈ نے سر ہلا کر تائید کی اور واٹسن نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’تم جوزف سے بات کرو۔ اگر وہ سمجھدار انسان ہے تو ہمارا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘ ڈیوڈ نے پوچھا۔

’’دراصل روزینہ کی نگرانی کرنے کے لیے جوزف سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وہ کیا کرتی ہے؟ کس سے ملتی ہے؟ بلکہ کیا سوچتی ہے؟ اس کا پتہ بھی ہمیں جوزف سے چل جائے گا، بشرطیکہ وہ ہمارے اس کام میں شریک ہو جائے۔ جوزف کے بارے تمہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اس سال کا ’مین آف موکیا‘ ہے اور یہ اعزاز کسی معمولی انسان کے حصے میں نہیں آتا۔ ہم اسے اپنی نئی کمپنی کا برانڈ ایمبیسڈر بنا دیں گے بشرطیکہ اس کی شکل و صورت ٹی۔وی کے پردے پر ٹھیک ٹھاک لگے۔‘‘

ڈیوڈ کو حیرت ہو رہی تھی کہ جوزف جیسے بے مصرف شخص کو واٹسن نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ وہ بولا۔ ’’لیکن جناب، یہ سب تو اسی وقت ممکن ہے جب وہ یہاں رُکنے پر راضی ہو جائے؟ ابھی تو ہمیں اس کا عندیہ بھی معلوم نہیں ہے۔‘‘

’’میں جانتا ہوں۔ اگر وہ راضی نہیں ہوتا اور واپس چلا جاتا ہے تو اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارے موجودہ منصوبے میں اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ تیار ہو جائے تو اس کے لیے ہمارے پاس منصوبہ ہونا چاہئے۔‘‘

ڈیوڈ نے لاجواب ہو کر پوچھا۔ ’’آپ کا کیا خیال ہے کہ جوزف راضی ہو جائے گا؟ اور اسے راضی کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘

سرواٹسن قہقہہ لگا کر بولے۔ ’’ڈیوڈ اب جا کر تم نے اپنے ذہن کو صحیح خطوط پر لگایا ہے۔ امکان اور کوشش کامیابی کے دو پہئے ہیں۔ اگر یہ موجود نہ ہوں تو جدوجہد کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ میرے خیال میں اس کے امکانات قوی ہیں اور روزینہ اس سلسلے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔‘‘

’’روزینہ!‘‘ پھر سے روزینہ کے ذکر نے ڈیوڈ کی بے کلی بڑھا دی۔ وہ بولا۔ ’’میرے خیال میں آپ خود جوزف سے بات کریں ورنہ یہ عورت تو بنا بنایا کام بگاڑ دے گی۔ مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’مجھے نہیں لگتا۔ تم ایسا کرو کہ کل صبح روزینہ کو میرے پاس روانہ کر دینا۔ ڈیوڈ، شاید تم یہ بھول گئے ہو کہ روزینہ جوزف کی بیوی ہے اور ہر کوئی تمہاری طرح اپنی بیوی کی بات نہیں ٹال سکتا۔‘‘

اس بار ڈیوڈ نے قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’شکریہ سر! رات کافی ہو چکی ہے۔ جن چینیوں کے ساتھ دن بھر آپ نے کام کیا ہے، وہ صبح اُٹھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘

سرواٹسن مسکرائے اور بولے۔ ’’ہاں ڈیوڈ! اب تم جا کر سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو۔ شب بخیر!!‘‘

’’شب بخیر!!‘‘ کہہ کر بوجھل قدموں کے ساتھ ڈیوڈ چل پڑا۔

 

۱۶

روزینہ جب سرواٹسن کے کمرے میں پہنچی تو وہ ای۔میل چیک کر رہے تھے۔ روزینہ کے عطر کی خوشبو نے انہیں آمد کی اطلاع دے دی اور کمپیوٹر کے پردے پر سے نظریں ہٹائے بغیر ایک سرپرست کے مشفقانہ لہجہ میں انہوں نے کہا۔ ’’خوش آمدید بیٹی روزینہ۔ ہم آپ کو تہہ دل سے مبارکباد دیتے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے کہ روزینہ ان سے دریافت کرتی، ’’کس لئے جناب۔‘‘ کمپیوٹر کے مانیٹر پر جوزف اور روزینہ کی تصویر نمودار ہو گئی۔ روزینہ بن کہے سب کچھ سمجھ گئی اور اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ’’ہمیں ڈیوڈ نے جب یہ خوشخبری سنائی تو ہمارا دل باغ باغ ہو گیا۔ آپ دونوں بے حد خوش قسمت ہیں۔ آپ کی محبت سچی ہے جس پر طوفانی لہریں بھی اثر انداز نہ ہو سکیں۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ یہ ہمیشہ دائم و قائم رہے، نیز اس میں ہر روز اضافہ ہوتا چلا جائے۔‘‘

سرواٹسن کے دُعائیہ کلمات روزینہ کے کانوں میں رس گھول رہے تھے۔ اسے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ کوئی تو ہے جو اس کی فرحت و مسرت میں شریک ہے۔ روزینہ کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ وہ اپنے پیر کے انگوٹھے سے قالین کو کھرچ رہی تھی۔ مانیٹر کی تصویر اسے اپنے سنہرے ماضی میں لے گئی تھی۔ سرواٹسن نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ جوزف آج رِہا ہو جائے گا۔‘‘

’’جی جناب۔۔۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘ روزینہ نے جواب دیا۔

’’میں نے ڈیوڈ سے کہہ دیا ہے کہ تمہاری رہائش گاہ تبدیل کر دے اور عارضی  کیمپ سے تمہیں ان مکانوں میں سے ایک میں منتقل کر دے جو ابھی ابھی تعمیر ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ اب آپ لوگوں کا رہن سہن تنہائی کا متقاضی ہے۔‘‘

روزینہ پر تو جیسے احسانات کی برسات ہو رہی تھی۔ وہ بولی۔ ’’جناب! میں آپ کی بے حد ممنون و مشکور ہوں۔ آپ اپنے لوگوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا لیکن سوچتی ہوں کہ وہ اگر ہوتے تو آپ جیسے ہی ہوتے۔ آپ واقعی بہت عظیم انسان ہیں۔‘‘

’’بیٹی! کسی باپ کا عظیم انسان ہونا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ بیٹی کے لیے ہر باپ عظیم ہوتا ہے۔‘‘

’’آپ کی بات درست ہے جناب اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔‘‘

’’میں نے تمہیں اس لیے بلایا تھا کہ مبارکباد دوں اور تم دونوں کو آج شام کے کھانے کی دعوت بھی دوں۔ تم تو جانتی ہو میں اس جزیرے میں چھٹی کے ایک دو دن سے زیادہ نہیں گزارتا۔‘‘

’’جی سر! میں پھر ایک بار آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ ہم لوگ شام میں آپ کے پاس حاضر ہو جائیں گے۔‘‘

روزینہ کے چلے جانے کے بعد واٹسن نے ڈیوڈ کو روزینہ کے لیے گھر کے انتظام کا حکم دیا اور شام کو شاندار دعوت کے اہتمام کی ہدایت کی۔

ڈیوڈ نے پوچھا۔ ’’لگتا ہے جوزف کام کے لیے تیار ہو گیا ہے؟‘‘

سرواٹسن بولے۔ ’’ڈیوڈ تم اب بھی۔۔۔‘‘

ڈیوڈ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معذرت طلب کی۔ ’’سر میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘

دعوت میں صرف چار لوگ شریک تھے۔ سرواٹسن نے خود باہر جا کر جوزف اور روزینہ کا استقبال کیا اور دونوں کو ملاقات کی مبارکباد نیز نئی زندگی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ڈیوڈ نے از راہِ تکلف وہی سب کیا مگر اس میں کوئی زندگی نہیں تھی، صرف کھوکھلے الفاظ۔ دعوت میں انواع و اقسام کے مشروب موجود تھے اور اسی سے سلسلہ شروع ہوا۔ سرواٹسن بولے۔ ’’جوزف تمہیں تو پتہ چل گیا ہو گا کہ یوروپ کے اندر بھی ایک افریقہ آباد ہے۔‘‘

’’جی سر۔۔۔ میرے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف ہے۔‘‘ جوزف نے نہایت پُر وقار انداز میں جواب دیا۔ ’’یہاں کے باشندے اپنی زبان بولتے ہیں۔ اپنے طور طریقوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ یوروپ کی تہذیب و تمدن نے انہیں بالکل بھی پراگندہ نہیں کیا ہے۔‘‘

’’ہاں جوزف، تمہارا اندازہ بالکل درست ہے۔ ان مقامی باشندوں سے رابطہ قائم کرنا اور تعلقات استوار کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ اس لیے کہ ان کے ذہن و فکر کو سمجھے بغیر ان کا اعتماد کسی صورت حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن ہمیں خوشی ہے کہ روزینہ نے اس کام کو بہت قلیل عرصہ میں بڑی خوش اسلوبی سے کر لیا ہے۔‘‘

روزینہ جہاں سرواٹسن کے تعریفی کلمات سے پھولی نہیں سما رہی تھی، وہیں جوزف کے دل میں حسد کی چنگاریاں چٹخنے لگی تھیں۔

سرواٹسن نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ قبائلی لوگ فی الحال ایک شدید مشکل میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں جو کچھ ہوا ہے، وہ بس یہ ہے کہ مرض کی تشخیص کر لی گئی ہے بلکہ علاج کا پتہ بھی چل گیا ہے۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’تب پھر مسئلہ کیا ہے۔ مریض، مرض اور نسخہ سامنے ہو تو پھر دیر کیسی؟‘‘

’’جوزف، یہ معاملہ جراحی کا سا ہے کہ ہزار مہارت اور تجربہ کے باوجود جب سرجن آپریشن تھیئٹر میں جاتا ہے تو اسے نہایت احتیاط کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم بڑھانا پڑتا ہے۔ ابھی تک جو کچھ ہوا ہے وہ نظری سطح ہے۔ چند فیصلے ہیں جن کو عملی جامہ پہنانا باقی ہے اور ہم لوگ اس معاملہ میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے۔‘‘

’’اچھا، اگر ایسا ہے تو اس میں میں کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘ بے ساختہ جوزف کی زبان پر وہ سوال آ گیا جس کا سرواٹسن کو انتظار تھا اور انہوں نے اسے فوراً ہی لپک لیا۔ وہ بولے۔

’’بہت خوب! دراصل اس کام کو صرف روزینہ کر سکتی ہے لیکن وہ بھی اکیلے نہیں کر سکتی۔‘‘

’’تو کیا مجھے اس کا تعاون کرنا ہو گا؟‘‘

’’جی نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ آگے آنے والے مرحلوں میں وہ تعاون کرے گی اور تمہیں آگے بڑھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس لیے کہ میکالو کو واپس لانے کی مہم میں تم جو کردار ادا کر سکتے ہو، وہ روزینہ نہیں کر سکتی۔‘‘

جوزف کے لیے میکالو ایک نیا نام تھا۔ وہ کون تھا اور اسے کہاں سے اور کیوں لانا ہے؟ اس کا کوئی علم اسے نہیں تھا۔ جوزف بولا۔ ’’جناب چونکہ میں پس منظر سے واقف نہیں ہوں اس لیے یہ اشارے اور کنائے میری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

’’تمہاری بات درست ہے جوزف۔ میں تمہیں مختصر میں پس منظر بتلا دوں۔ دیکھو جوزف، ہنڈالو قبیلے کا سب سے بڑا مسئلہ سرداری کا ہے۔ ان کا امن اور ان کی جنگ دونوں سردار سے وابستہ ہیں۔ وہی ان کے درمیان عدل و انصاف کرتا ہے۔ وہی امن و امان بحال کرتا ہے اور وہی ان کو جنگ و جدال کی بھڑکتی ہوئی آگ میں بھی جھونک دیتا ہے۔‘‘

’’لیکن جناب۔۔۔ یہ صرف ان لوگوں کا نہیں بلکہ ہم سب کا مسئلہ بھی ہے۔‘‘

’’ہاں ! مجھے یہی کہنا چاہئے تھا کہ ہم سب کی طرح ان کا بھی یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ فی الحال بغیر کسی سردار کے یہ لوگ اپنے آپ کو منتشر اور نہایت غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال خود اُن کے لیے اور ہمارے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

’’جی ہاں۔‘‘ جوزف نے تائید کی۔

’’ہم نے ان کے لیے ایک نہایت پڑھا لکھا اور قابل سردار تلاش کر لیا ہے۔ یہ بھی حسنِ اتفاق ہے کہ سارے ہنڈالو اس کی سرداری پر راضی بھی ہو گئے ہیں۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو پھر کیا دقت ہے؟‘‘

’’دقت یہ ہے کہ ابھی سردار کا راضی ہونا باقی ہے۔‘‘

’’کیا؟ یہ تو بالکل عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔ ہمارے یہاں لوگ راضی نہیں ہوتے اور سربراہ ان پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ جہاں انتخابات ہوتے ہیں وہاں بھی لوگ اپنے آپ کو عوام کی گردن پر سوار کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کرتے۔ جھوٹ، مکر و فریب اور قتل و غارت گری، سب روا ہو جاتی ہے۔ عوام بھی اس بات کا اندازہ لگانے میں غرق ہوتی ہے کہ کون سی مصیبت کم سے کم نقصان دہ ہے جس کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا جائے۔ لیکن یہاں تو متضاد معاملہ ہے۔ لوگ تیار ہیں مگر ان کے سربراہ کو اعتراض ہے؟ آخر اس انکار کی کوئی وجہ بھی تو ہو گی؟‘‘

’’دیکھو جوزف۔۔۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ نامزد کردہ سردار انکار کر چکا ہے لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ انکار نہ کر دے۔‘‘

’’لیکن کیا اس اندیشہ کے پسِ پردہ ٹھوس وجوہات بھی ہیں ؟‘‘

’’اس بات کا قوی امکان ہے کہ میکالو یہاں آنے سے انکار کر دے۔ اس لیے کہ اسے بچپن ہی میں تعلیم کی غرض سے اٹلی بھیج دیا گیا تھا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ لندن چلا گیا۔ اس طرح ہنڈالو تہذیب، زبان اور لوگوں سے اس کا رابطہ بالکل ہی منقطع ہو کر رہ گیا۔ اس کی ساری پرورش ایک ترقی یافتہ سماج میں ہوئی ہے۔ ایسے میں ممکن ہے وہ دوبارہ ان گنوار لوگوں کے درمیان آنا پسند نہ کرے اور وہیں رہنے کو ترجیح دے۔ اس کے پاس دھن دولت کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ سابقہ سردار جیکب نے اس کے نام پر بینک میں ایک بہت ہی خطیر رقم جمع کروا رکھی ہے۔ جس سے وہ بڑے آرام کے ساتھ اپنا گزر بسر کر سکتا ہے بلکہ کاروبار بھی کر سکتا ہے۔ ان سب سے زیادہ خطرناک بات ایک فرانسیسی طالبہ سے چلنے والا اس کا معاشقہ ہے۔ ممکن ہے شادی کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ پیرس چلا جائے اور اپنے سسر کے وسیع و عریض کاروبار میں شریک ہو جائے۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’آپ نے میکالو کے بارے میں جو تفصیلات اکٹھا کی ہیں، وہ ایک قابلِ قدر کارنامہ ہے اور ان کی روشنی میں اس بات کے امکانات بہت ہی کم ہیں کہ وہ بیرن لینڈ کا رُخ کرے۔ لیکن کون جانے سرداری کی کشش ان تمام زنجیروں کو کاٹ دے۔ ہمارا کام تو صرف کوشش کرنا ہے۔ کامیابی اور ناکامی سے ہمکنار کرنا کسی اور کا کام ہے۔

’’جی ہاں ! اس کام کو کرنے کے لیے ہمیں ایک مثبت فکر کے حامل انسان کی ضرورت ہے جو واپسی کے امکان کو خارج کرنے کے بجائے اس کو یقینی بنانے کی کوشش کرے اور تم سے گفتگو کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تم اس کام کو کر سکتے ہو۔ دوسروں کے مقابلے تمہیں جو امتیاز حاصل ہے وہ روزینہ کا ساتھ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہر قدم پر تمہارے شانہ بہ شانہ موجود ہو گی اور بالآخر کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔‘‘

’’اس کام میں صرف روزینہ نہیں بلکہ اپ کی خصوصی دلچسپی نیز اس ٹیم کی مدد بھی درکار ہو گی، جس نے یہ معلومات جمع کی ہیں۔‘‘

جوزف پوری طرح سرواٹسن کے دام میں گرفتار ہو چکا تھا۔ سرواٹسن نے کہا۔ ’’دیکھو جوزف، تم اس مہم کے لیڈر ہو۔ اس کام کو کرنے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہو، تم اس کا حکم کرو۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری ہر ضرورت پوری کی جائے گی۔ لیکن فی الحال تمہاری سب سے بڑی ضرورت آرام ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے پپوٹے بھاری ہو رہے ہیں۔ جاؤ آرام کرو۔ ہم کل صبح اس مسئلہ پر بات آگے بڑھائیں گے۔‘‘ باتوں کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا سلسلہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔

’’بہت بہت شکریہ جناب۔ ہم اس عزت افزائی کے لیے آپ کے ممنون و مشکور ہیں۔‘‘ یہ روزینہ تھی جو بڑی دیر بعد اپنی خاموشی کے حصار سے باہر آئی تھی۔

ڈیوڈ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔ اس ساری گفتگو کے دوران وہ محض ایک خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ سرواٹسن نے اس کی جانب مڑ کر پوچھا۔ ’’تمام انتظامات تو مکمل ہیں۔‘‘ ڈیوڈ نے سر ہلا کر تائید کی۔

’’تو دیکھو، ان معزز مہمانوں کو ان کی نئی رہائش گاہ پر پہنچا کر تم اپنے گھر جاؤ گے۔ ٹھیک ہے؟‘‘

ڈیوڈ ایک سعادت مند ڈرائیور کی مانند گاڑی کی جانب سر جھکائے چلا جا رہا تھا۔ روزینہ مسرت بھری حیرت میں غرق تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں جوزف ڈیوڈ اور روزینہ کو پیچھے چھوڑ کر دور آگے نکل گیا تھا۔ روزینہ اپنی شکست پر نازاں و فرحاں تھی، اس لیے کہ محبوب کی جانب سے ہاتھ آنے والی ہر عطا محبوب ہوتی ہے۔

جوزف صبح دیر تک سوتا رہا۔ یہاں تک کہ صدیوں کی تھکن کو نرم بستر نے اپنے اندر جذب کر لیا۔ اپنے ننھے سے مکان کی کشادہ بالکنی میں روزینہ اور جوزف کے درمیان دو بھاپ اگلتی چائے کی پیالیاں مسکرا رہی تھیں۔ ساری کائنات میں مسرت و انبساط کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ دونوں بہت خوش تھے۔ روزینہ نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا سوچ رہے ہو جوزف؟‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘

’’کیا؟ یہ کیونکر ممکن ہے؟ انسان اپنی سانس روک لے اور پھر بھی زندہ رہے، یہ تو ہو سکتا ہے لیکن سوچنا بند کر دے یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

جوزف مسکرا کر بولا۔ ’’سرواٹسن بجا فرما رہے تھے۔ ان غیر مہذب لوگوں کی صحبت نے تمہیں فلسفی بنا دیا ہے۔‘‘

’’دیکھو جوزف! یہ لوگ غیر مہذب نہیں ہیں۔ ان کی اپنی تہذیب ہے جو ہم سے مختلف ہے بس۔ اپنے علاوہ ہر کسی کو غیر مہذب سمجھنا مجھے صحیح نہیں لگتا۔‘‘

’’ہاں بابا ہاں ! غلطی ہو گئی، معافی چاہتا ہوں۔ بلکہ مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ان شریف لوگوں کی صحبت بھی تمہاری حجت بازی کے مزاج پر اثر انداز نہ ہو سکی۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ پھر لڑائی شروع۔‘‘ روزینہ نے چہک کر کہا۔

’’نہیں روزینہ۔۔۔ لڑائی جھگڑا بند۔ اب ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے نہیں لڑیں گے۔ اسی نے ہمیں ایک دوسرے سے چھین لیا تھا۔ اب ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔‘‘

روزینہ کی آنکھوں میں ستارے جھلکنے لگے۔ وہ بولی۔ ’’میں تمہارے سوچ بچار کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔‘‘

’’ہاں روزینہ! میں بھی ایک زمانے تک یہ سوچتا تھا کہ انسان سوچے بغیر نہیں جی سکتا۔ لیکن جب میں قید کر دیا گیا تو مجھے پہلی بار سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ پر اور اپنے گزرے ہوئے حالات پر غور و فکر کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس لیے کہ وہاں کرنے کے لیے اور کوئی کام نہیں تھا۔ میں سوچتا رہا کہ میں نے کیا سوچ رکھا تھا۔ اپنے بارے میں، اپنے اطراف و اکناف کے بارے میں، اپنے لواحقین کے حوالے سے کیسے کیسے منصوبے میں نے بنا رکھے تھے۔ کیسے حسین خواب سجائے تھے میں نے، لیکن ان سب کا کیا بنا؟ سب ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گئے۔ اب میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس کارگہِ ہستی میں کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا۔ جو ہونا ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔ ہم ایک بے اختیار مخلوق ہیں جو اپنے بارے میں بے شمار خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔ جیل کی کوٹھری میں میں نے ارادہ کر لیا کہ اب میں کچھ بھی نہیں سوچوں گا۔ کوئی خواب نہیں دیکھوں گا، کوئی منصوبہ نہیں بناؤں گا۔ اپنے آپ کو بے جان اشیاء کی مانند حالات کے حوالے کر دوں گا اور خس و خاشاک کی مانند پھولوں گا پھلوں گا۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جوزف مجھے اس کا احساس ہے کہ تم جن حالات سے گزرے ہو ان میں یقیناً ہر کوئی وہی کچھ سوچے گا جو تم سوچتے ہو۔ لیکن حالات ہمیشہ یکساں تو نہیں رہتے۔ دیکھو سب کچھ بدل چکا ہے۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ اس بیرن لینڈ میں فی الحال صرف تین پکے مکانات ہیں۔ ایک سرواٹسن کا محل، دوسری ڈیوڈ کی کوٹھی اور تیسری ہماری حویلی۔ اور دیکھو ہمارا مکان ڈیوڈ کے کوٹھی سے زیادہ شاندار ہے۔‘‘

’’مجھے تو یہ سب ایک خواب سا لگتا ہے۔‘‘ جوزف نے جواب دیا۔

روزینہ بولی۔ ’’جوزف خواب اور حقیقت کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ ایک خواب ہو بہو دوسری بار نظر نہیں آتا لیکن ہمارا وصال۔۔۔‘‘

جوزف نے جملہ کاٹ دیا۔ ’’لگتا ہے مجھے اب پھر فلسفی والی بات دوہرانی پڑے گی۔‘‘

’’اگر ایسا ہی ہے تو مجھے کہنا پڑے گا۔ سرواٹسن کی ملاقات نے تمہیں دانشور بنا دیا ہے۔‘‘

اس بات پر دونوں فلسفی اور دانشور میاں بیوی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

ناشتہ کی میز پر روزینہ نے شوخی بھرے انداز میں جوزف سے پوچھا۔ ’’اب کیا ارادہ ہے سرکار کا؟‘‘

’’یہ سرکار کون صاحب ہیں ؟‘‘ جوزف نے اسی انداز میں جواب دیا۔

’’وہی جن سے بات کرنے کا شرف فی الحال مجھے حاصل ہو رہا ہے۔ آپ نے سوال پوچھ کر مجھے اُلجھا دیا اور خود جواب دینے سے بچ نکلے۔‘‘

جوزف نے کہا۔ ’’یقین کرو، یہ غیر ارادی طور پر ہو گیا۔ ویسے ارادہ نیک ہی ہے۔‘‘

’’خیر۔ مجھے آپ سے کسی بُرے ارادے کی توقع نہیں ہے۔ میں تو صرف اس نیک ارادے کی تفصیل جاننا چاہتی تھی؟‘‘

اگر ایسا ہے تو تمہیں مایوسی ہو گی۔ اس لیے کہ میں خود نہیں جانتا کہ مجھے اب کرنا کیا ہے؟‘‘

’’کیا!!! تو آپ سرواٹسن سے ملاقات نہیں کریں گے؟ کیا کل رات کی بات چیت کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا؟‘‘

’’یوں سمجھ لو کہ ہوا بھی اور نہیں بھی۔ اس لئے کہ وہ مجھ سے جس کام کے لیے تعاون چاہ رہے ہیں، اس کی کوئی تفصیل یا لائحہ عمل نہیں بتلایا۔‘‘

’’تو کیا آپ کی آمادگی کا تعلق تفصیل پر ہے؟‘‘

’’بے شک ہے۔ مہم کی ساری تفصیلات کو جانے بغیر میں اس بات کا فیصلہ کیونکر کر سکتا ہوں کہ وہ کام میرے بس کا ہے یا نہیں ؟ اس کے لیے ضروری صلاحیت میرے اندر پائی جاتی ہیں یا نہیں ؟‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جوزف، اس بات کا فیصلہ تو آپ سرواٹسن پر چھوڑ دیں۔ وہ بڑے جہاں دیدہ اور مردم شناس آدمی ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون کس کام کو کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا، اور اگر انہیں آپ پر اعتماد نہ ہوتا تو اس قدر تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ پر آپ سے گفتگو ہی نہ کرتے۔ میری مانیں تو آپ بغیر کسی اندیشۂ لولاک کے حامی بھر دیں۔ آگے دیکھا جائے گا۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’کسی نے سچ کہا ہے، عورتیں بہت جلد باز اور تنک مزاج ہوتی ہیں۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ لیکن اس نے آگے یہ بھی کہا ہو گا کہ مرد بڑے محتاط اور شکی طبیعت ہوتے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے میڈم۔۔۔ مان لیا کہ ہم محتاط بھی ہیں اور کاہل بھی، اب یہ بتاؤ کہ اس دانشمند شخص نے اور کیا کہا؟‘‘

’’اب کہنا سننا بہت ہو چکا، سورج نصف النہار پر پہنچنے والا ہے۔ مجھے بہت سارے کام کرنے ہیں، اس لئے میں چلتی ہوں۔ اگر آپ کا موڈ ہو تو سرواٹسن سے ان کے دفتر میں جا کر ملاقات کر لینا۔ صبح ان کے سکریٹری لوینا نے فون پر آپ کے نام یہ پیغام دیا تھا جو میں نے آپ تک پہنچا دیا۔ اب آپ کی مرضی، میں تو چلی۔‘‘

’’لیکن جاتے جاتے یہ تو بتلا دو کہ میرا پیغام لینے کی جرأت آپ نے کیسے کی؟‘‘

دروازے کے قریب کھڑے ہو کر روزینہ نے مڑ کر دیکھا اور بولی۔ ’’میں ہی تو آپ کی سکریٹری ہوں۔ اس لیے آپ کا پیغام میں نہیں لوں گی تو اور کون لے گا؟‘‘

’’اچھا تو سکریٹری صاحبہ آپ میرا یہ پیغام ان کی سکریٹری تک پہنچا دیں کہ میں دس منٹ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں اور ان کے دفتر تک میری رہنمائی کا انتظام فرما دیں۔‘‘

’’میں جہاں پناہ جوزفِ اعظم کا پیغام ابھی پہنچاتی ہوں اور رہنمائی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتی ہوں ۔۔۔ اگر قابلِ قبول ہوں تو۔‘‘

جوزف کپڑے بدلنے کی غرض سے اندر کے کمرے میں جا چکا تھا۔

 

۱۷

سرواٹسن اپنے کمرے میں ڈیوڈ کے ساتھ جوزف کا انتظار کر رہے تھے۔ جوزف نے سلام کر کے دونوں سے مصافحہ کیا اور ایک جانب بیٹھ گیا۔ واٹسن نے پوچھا۔ ’’روزینہ نہیں آئی؟‘‘

جوزف بولا۔ ’’وہ اپنے کسی کام سے گئی ہے۔ اب شام تک لوٹے گی۔‘‘

سرواٹسن نے کہا۔ ’’روزینہ جیسے دھُن کے پکے لوگ میں نے کم ہی دیکھے ہیں۔ بس اپنے کام میں لگی رہتی ہے۔ تم نہایت خوش نصیب ہو جو تمہیں ایسی بیوی میسر آ گئی۔‘‘

’’جی ہاں ! لیکن اگر بیوی گھر کے اندر بھی دفتر کے کاموں میں لگی رہے تو    بے چارے گھر والوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘

’’ویسے ڈیوڈ جیسے شوہر بھی تو گھر میں دفتر کا کام کرتے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں، لیکن خانہ دار بیوی اس پر اعتراض بھی تو کرتی ہے۔ اسی طرح خانہ دار شوہر کو بھی اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘

سرواٹسن نے قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’یہ خانہ دار شوہر والی اصطلاح کچھ جمی نہیں۔ اس لیے کہ خانہ دار تو بھئی بیوی ہی ہوتی ہے۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو بیوی کو کم از کم گھر کی چہار دیواری کے اندر دفتر بازی کے بجائے صرف خانہ داری کرنی چاہئے۔‘‘ جوزف نے تائید کی۔

ڈیوڈ گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے بولا۔ ’’لیکن اگر دونوں زن و شوہر ایک ہی دفتر میں کام کر رہے ہوں تو گھر دفتر بن جائے اور دفتر گھر۔‘‘

’’جی نہیں ڈیوڈ۔۔۔ گھر کو تو دفتر بنایا جا سکتا ہے لیکن دفتر کو گھر نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بیوی کو شوہر بنانا آسان ہے، لیکن شوہر کو بیوی بنانا۔۔۔‘‘

سرواٹسن نے جملہ پورا کیا۔ ’’ناممکن ہے۔‘‘ اور بولے۔ ’’میرا خیال ہے اب ہمیں کافی لے کر کانفرنس روم میں چلنا چاہیے، تاکہ کام کی بات شروع ہوسکے۔‘‘

کانفرنس روم کے اندر سرواٹسن نے ریموٹ کی مدد سے ایک فلم چلا دی اور تینوں لوگ کافی پیتے ہوئے اسے دیکھنے لگے۔ کیمرہ کیمبرج یونیورسٹی کے کیمپس میں گھوم رہا تھا۔ پردے پر سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک نہایت خوب رو حبشی نوجوان بار بار دکھائی دے رہا تھا۔ وہ نوجوان اپنے مختلف دوستوں اور ہمنواؤں سے مل رہا تھا۔ ان کے ساتھ ہنس کھیل رہا تھا۔ پانچ منٹ بعد فلم کا خاتمہ اس منظر پر ہوا جس میں وہ نوجوان ایک یوروپی خاتون کے ساتھ کینٹین میں بیٹھا کافی پی رہا تھا۔ ان تینوں کے کافی کے  مگ خالی ہو چکے تھے۔ سرواٹسن نے فلم بند کر دی اور کہا۔ ’’تم لوگ سمجھ گئے ہو گے کہ یہ نوجوان کون ہے؟‘‘

’’جی ہاں یہ میکالو ہے۔‘‘ جوزف بولا۔

سرواٹسن نے بات آگے بڑھائی۔ ’’اور وہ لڑکی ایمیلی ہے جو فرانس سے تعلیم حاصل کرنے کی خاطر کیمبرج آئی ہے۔ دراصل اس کی ماں برطانوی اور باپ فرانسیسی ہے اور وہ دونوں ابھی تک تو صرف اچھے دوست ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر اُن کا نکاح بھی ہو جائے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں کی شادی کے بعد میکالو اور ایمیلی پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا۔ ہم چاہتے ہیں شادی سے قبل میکالو کو اقتدار کا چسکا لگ جائے اور وہ اس کے نشے میں اس قدر مست ہو جائے کہ ایمیلی کی محبت بھی اسے بیرن لینڈ سے دُور نہ لے جا سکے۔‘‘

’’وہ تو صحیح ہے۔‘‘ جوزف بولا۔ ’’لیکن اس اسکیم میں میرے ذمہ کیا کام ہے؟‘‘

تمہیں ہمارا نمائندہ بن کر کیمبرج جانا ہے اور میکالو کو سرداری کے لیے آمادہ کر کے یہاں لانا ہے۔ اس کے یہاں آتے ہی یہ لوگ اسے اپنا سردار بنا لیں گے اور اس کے بعد وہ یہاں کے مسائل میں کچھ ایسا الجھ جائے گا کہ اسے کچھ اور سجھائی ہی نہیں دے گا۔‘‘

جوزف نے ایک اور سوال کیا۔ ’’لیکن اگر ایمیلی بھی اس کے ساتھ یہاں آنے کی خواہش ظاہر کرے تو؟‘‘

’’ہمیں ایمیلی کے یہاں آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جب تک وہ ہمارے لئے معاون ثابت ہو گی، ہم اُس کا بے حد خیال رکھیں گے، لیکن اگر وہ ہماری راہ میں حائل ہو جائے تو ہم اس کا کانٹا نکال دیں گے۔‘‘ سرواٹسن نے یہ جملہ اس قدر آسانی سے کہا گویا کسی انسان کا نہیں بلکہ مچھر مکھی کا ذکر ہو رہا ہے۔

جوزف نے چونک کر پوچھا۔ ’’وہ کیسے؟‘‘

ڈیوڈ نے میز پر رکھے گلدان میں گلاب کی ڈالی کی جانب ہاتھ بڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے گلاب کے نیچے لگے کانٹے کو توڑ کر الگ کر دیا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے ایک اور کانٹا اس کی انگلی میں چبھ گیا اور خون نکل آیا۔ سرواٹسن نے خون کی کوئی پرواہ نہیں کی بلکہ پھول کو پتی کے اوپر سے پکڑ کر توڑا اور کوڑے دان میں پھینک کر کہا۔ ’’ویسے نہیں ایسے، کیا سمجھے۔‘‘ اس کے بعد ڈیوڈ سے مخاطب ہو کر بولے۔ ’’جاؤ، ہاتھ دھو لو۔ اب تم جا کر آرام کرو۔ تمہارا ہاتھ زخمی ہو گیا ہے۔‘‘ ڈیوڈ شکریہ ادا کر کے حمام کی جانب ہاتھ دھونے کے لیے بڑھا اور سرواٹسن جوزف کے ساتھ اپنی میز پر واپس آ گئے۔

میز پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنے کے بعد جوزف نے دریافت کیا۔ ’’سر، کیا میں آپ کی میکالو میں اس قدر دلچسپی کی وجہ جان سکتا ہوں ؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ اب جبکہ تم ہمارے منصوبے میں شامل ہو ہی گئے ہو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر رُک گئے اور استفہامیہ نظروں سے جوزف کو دیکھنے لگے۔

جوزف نے ’’جی ہاں سر‘‘ کہہ کر ان کی تائید کی تو وہ آگے بڑھے۔ ’’ہم جن پر اعتماد کرتے ہیں ان کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیتے ہیں اور ان سے کوئی بات نہیں چھپاتے۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک یقین دہانی بھی چاہتے ہیں۔‘‘

’’جی سر، فرمائیے۔‘‘ جوزف بولا۔

’’چونکہ تمہاری اہلیہ اس پراجیکٹ سے منسلک ہے اور کافی جذباتی خاتون ہے، اس لیے میں چاہوں گا کہ دفتر کی بات دفتر ہی تک محدود رہے اور باہر یا گھر تک نہ جائے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اس سے صد فی صد راز داری برتو، لیکن احتیاط کے ساتھ اس بات کا فیصلہ تمہیں کرنا ہو گا کہ کیا بتایا جائے اور کیا چھپایا جائے۔ مثلاً کانٹے والی بات۔‘‘

’’جی سر! مجھے احساس ہے۔ میں روزینہ کے مزاج سے خوب اچھی طرح واقف ہوں اور آپ کی ہدایت کا بھرپور خیال رکھوں گا۔‘‘

سرواٹسن نے کہا۔ ’’بہت خوب۔ اب تمہارا سوال۔ دیکھو جن کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا ان کے پاس صرف ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ اُسے کیسے حاصل کیا جائے؟ لیکن جو دولتمند ہوتے ہیں، اُن کے انگنت مسائل ہوتے ہیں ؟ جو سرمایہ آ رہا ہے، اس کو کیسے سنبھالا جائے؟ اُسے کیسے بچایا جائے؟ اور پھر کیسے بڑھایا جائے؟ کہاں لگایا جائے؟ کیسے لگایا جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے کہ دولت کمانے سے زیادہ دولت کا بڑھانا مشکل کام ہے۔‘‘

جوزف نے تائید کی اور وہ آگے بولے۔ ’’ہم لوگ اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھتے۔ مبادا وہ ٹوکری گر جائے اور سب کچھ برباد ہو جائے؟ ہم اپنی سرمایہ کاری مختلف قسم کے کاروبار میں کرتے ہیں تاکہ اگر ایک آدھ شعبہ میں مندی چھا جائے تو اس کا خاطر خواہ اثر ہمارے پورے کاروبار پر نہ پڑے۔ بس یوں سمجھ لو کہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی ایک کاروبار میں سرمایہ ڈوبتا ہے تو ڈوب جائے لیکن سرمایہ دار نہ ڈوبے۔ اسی لیے تم نے دیکھا ہو گا کہ کئی بار جہاز اپنے مسافروں اور عملے سمیت ڈوب جاتے ہیں لیکن ان کا مالک صحیح سلامت اپنی کوٹھیوں میں انشورنس کمپنی سے نقصان کی بھرپائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘‘

’’جی سر! مجھے اس کا پتہ ہے۔‘‘ جوزف بولا۔

’’بیرن لینڈ نامی یہ جزیرہ اب ہماری ملکیت ہے۔ ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ یہاں ہالی ووڈ کی طرز پر ایک یوروپ کا یوروووڈ نامی اسٹوڈیو قائم کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ہم اس جزیرے کو اس خطہ کا بہترین سیاحتی مرکز بنانا چاہتے ہیں جہاں دولتمندوں کو عیش و عشرت کا سارا سامان مہیا ہو۔ بہترین تفریح گاہیں اور بے مثال سہولیات ہمارا ہدف ہے۔ عام طور سے لوگ یا تو پہاڑوں پر جاتے ہیں یا سمندر کے ساحل پر، لیکن یہاں اتفاق سے دونوں موجود ہیں۔ اسی کے ساتھ یہاں افریقیوں کا ایک قبیلہ اپنے فطری انداز میں آباد ہے جو سیاحوں کو افریقہ کی سیر کا مزہ دے گا۔ یہ جزیرہ جغرافیائی طور پر قلب یوروپ میں واقع ہے۔ یہاں سے ماسکو، لندن اور پیرس تقریباً یکساں فاصلے پر ہیں۔‘‘

’’وہ سب تو ٹھیک ہے سر۔ لیکن اس میں میکالو کہاں سے آ گیا؟‘‘

’’میں تمہیں بتلا چکا ہوں کہ بیرن لینڈ کی انفرادیت یہاں آباد افریقی باشندے ہیں اور ان کے اندر امن و امان قائم رکھنے کے لیے ایک سلجھا ہوا سردار ضروری ہے۔ یہ ایک بہت ہی محنتی اور جفا کش ورک فورس بھی ہے۔ سردار کی مدد سے اس کا بھی بہترین استعمال ممکن ہو سکے گا۔ دراصل ہم میکالو کو ان کا سردار اور اپنا شراکت دار بنانا چاہتے ہیں۔ میکالو ایک پڑھا لکھا، سمجھدار نوجوان ہے۔ وہ اس پراجیکٹ کی وسعت اور اہمیت کا ادراک کر سکتا ہے اور یہاں موجود قدرتی اور انسانی وسائل کے بہترین استعمال میں ہمارا ساجھی دار بن سکتا ہے۔‘‘

گفتگو کے اس مرحلے میں ڈیوڈ کسی کام سے سرواٹسن کے کمرے کی جانب آیا تو انہوں نے اسے بلاتے ہوئے کہا۔ ’’آؤ آؤ ڈیوڈ میں تمہاری موجودگی میں جوزف کو رسماً اپنے پراجکٹ میں شامل ہونے کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔‘‘

جوزف سرواٹسن کی ذہانت و ذکاوت کا قائل ہو چکا تھا۔ وہ بولا۔ ’’جناب لیکن اس غیر معمولی مہم کو میرے سپرد کر کے مجھ پر جس اعتماد کا آپ نے اظہار کیا ہے، میں اسے اپنی عظیم سعادت سمجھتا ہوں اور اس کو کامیاب کرنے کے لیے اپنا سب کچھ جھونک دینے کا آپ کو یقین دلاتا ہوں۔‘‘

’’جوزف، تم نے ہماری اس تجویز کو قبول کیا، اس کے لیے ہم تمہارے ممنون و مشکور ہیں۔‘‘

یہ دیکھ کر ڈیوڈ بھی اپنی جگہ سے اُٹھا اور بڑی گرم جوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔ ’’ویلکم مائی فرینڈ ویلکم آن بورڈ (خوش آمدید اے دوست ہم تمہارا استقبال کرتے ہیں ) اور پھر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ لیکن ہاتھ ملاتے ہوئے اس کی زخمی انگلی کے درد کو نہ صرف سرواٹسن نے بلکہ جوزف نے بھی محسوس کر لیا۔

ڈیوڈ کے دل میں جوزف کے تئیں حسد کے جذبات پیدا ہو گئے تھے اور اب وہ جوزف کا کانٹا نکالنے کی تدابیر پر غور کرنے لگا تھا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ آخر سرواٹسن میکالو کو سردار بنانے پر اس قدر مُصر کیوں ہیں ؟ اس لیے کہ اگر میکالو کی سرداری کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے تو جوزف کی اہمیت اپنے آپ صفر ہو کر رہ جائے گی۔

ایک دن موقع دیکھ کر ڈیوڈ نے واٹسن سے یہ سوال کر ہی دیا۔ وہ بولا۔ ’’جناب اگر گستاخی معاف ہو تو میں ایک سوال کروں۔‘‘

واٹسن کو ڈیوڈ کے انداز پر ہنسی آ گئی۔ وہ بولے۔ ’’وہ تو اچھا ہوا کہ تم نے یہ نہیں کہا کہ اگر جان کی امان پاؤں تو آپ کی خدمت میں اپنی عرض گزاروں۔‘‘

ڈیوڈ کھسیانہ ہو گیا اور بولا۔ ’’نہیں جناب ایسی بات نہیں۔ میرے دل میں ایک بات کھٹک رہی ہے کہ آخر آپ پردیس میں سکون سے بیٹھے میکالو کو یہاں بلا کر کیوں سردار بنانا چاہتے ہیں ؟ وہ اپنے آپ میں مست زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بیرن لینڈ اور ہنڈالو قبیلہ کو اپنے دل سے نکال چکا ہے۔ ایسے میں اسے اس پریشانی کے اندر مبتلا کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘

’’یہ میکالو کے تئیں تمہارے اندر اس قدر ہمدردی کیوں کر پیدا ہو گئی جو تم اس کے فائدے اور نقصان کے بارے میں فکرمند ہو گئے؟ کیا تم واقعی میکالو کو نقصان سے بچانا چاہتے ہو یا۔۔۔؟‘‘ واٹسن نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

ڈیوڈ حیران تھا کہ واٹسن نے اس کے قلب پر لکھی تحریر کو کیسے پڑھ لیا؟ اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ ’’جی، جی نہیں، اس کے ساتھ ہمیں بھی تو پریشانی ہے۔‘‘

’’ہمیں ؟ ہمیں بھلا کیا پریشانی ہے؟‘‘

’’کسی کو اس مقصد کی خاطر لندن بھیجنا تاکہ وہ اسے راضی کر سکے جبکہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ واپس بھی آئے گا یا نہیں اور اگر عارضی طور پر یہاں آنے کے لیے تیار بھی ہو جائے تو ممکن ہے اس کا دل بیرن لینڈ میں نہ لگے اور وہ واپس چلا جائے۔ اس صورت میں ہماری ساری محنت و مشقت پر پانی پھر جائے گا۔‘‘

’’آج میرے سامنے پہلی مرتبہ یہ انکشاف ہوا کہ تم سوچتے بھی ہو اور اس سے میں بہت خوش ہوں۔‘‘ ڈیوڈ سرواٹسن کے طنز کو محسوس کر رہا تھا۔ ’’میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ ممکن ہے تمہارا اندیشہ درست ہو۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو اس میں ہمارا کوئی بہت بڑا نقصان نہیں ہے۔ اور پھر کاروبار کا اصول تو یہی ہے کہ کسی بڑے فائدے کے پیشِ نظر تھوڑا بہت خطرہ مول لینے کے لیے ہر تاجر کو تیار رہنا چاہئے۔‘‘

’’آپ بجا فرماتے ہیں، لیکن کاروبار کا ایک اصول یہ بھی تو ہے کہ جب آسان مواقع موجود ہوں تو بلا وجہ پیچیدہ راستہ نہ اختیار کیا جائے۔‘‘

’’ہاں ۔۔۔ میں تم سے اتفاق کرتا ہوں۔ اگر تمہارے ذہن میں اس کا کوئی سہل حل ہے تو تم نے اسے ابھی تک بتلایا کیوں نہیں۔ خیر، دیر آید درست آید کے مصداق ابھی بتلا دو۔‘‘

سر میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ یہاں موجود ہنڈالو لوگوں میں سے کسی با اثر اور احمق آدمی کو پکڑ ان کا سردار بنا دیا جائے؟‘‘

’’با اثر والی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ احمق والی شرط کیوں ہے؟‘‘

ڈیوڈ مسکرا کر بولا۔ ’’کسی بھی احمق آدمی سے کام لینا آسان تر ہوتا ہے۔ وہ اپنے دماغ سے نہیں سوچتا اس لئے اس کو جو کچھ بتلا دیا جائے اس پر بے چوں چرا عمل کرتا رہتا ہے۔‘‘

’’میں اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتا ڈیوڈ۔ اس لیے کہ میں جانتا ہوں تم سے کام لینا کس قدر مشکل ہے۔‘‘ یہ سرواٹسن کا دوسرا طنز تھا۔ ’’اوّل تو یہ کہ بے وقوف آدمی کو کوئی بات سمجھانا ایک مشکل کام ہوتا ہے اور دوسرے جو اپنے دماغ سے کام نہیں لیتا وہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے ہی دماغ سے کام لے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ احمق دوسروں کے بہکاوے میں آ کر ہمیں سے برسرِ پیکار ہو جائے۔‘‘

’’جی ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر وہ ہمارے کام کا نہ نکلے تو ہم اسے بدل کر کسی اور کو بھی تو سردار بنا سکتے ہیں۔‘‘

واٹسن کو ڈیوڈ کی احمقانہ دلائل پر ہنسی آ گئی۔ وہ بولے۔ ’’میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ تم بار بار کس کا سردار بنانے کی بات کر رہے ہو؟ ہمارا یا ہنڈالو قبیلے کا؟‘‘

’’جی، جی ہمارا سردار؟ کیسی باتیں کر رہے سر آپ؟ آپ کے ہوتے ہمارا سرپرست کوئی اور کیونکر ہو سکتا ہے؟ میں تو ان بے وقوف میرا مطلب ہے ہنڈالو قبیلے کا ذکر کر رہا تھا۔ ہم اسی پر بات بھی کر رہے تھے۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو ان کا سردار ہم کیسے بنا سکتے ہیں اور اگر بنا بھی دیں تو اسے قبول کیوں کریں گے؟ اور اس کی بات کیونکر مان لیں گے؟‘‘

’’کیسے نہیں مانیں گے؟‘‘ ڈیوڈ نے پر جوش انداز میں کہا۔ ’’اُنہیں ماننا ہی پڑے گا۔ اگر انہوں نے سرتابی کی جرأت کی تو ہم بزور قوت اس کی سرداری کو منوا لیں گے۔‘‘

’’اس کی یا اپنی؟‘‘

’’وہی میرا مطلب ہے۔۔۔ اس کے توسط سے اپنی۔‘‘

’’دیکھو ڈیوڈ۔۔۔ اس طریقہ کار کے نتیجہ میں دنگا فساد ہو گا۔ امن و امان غارت ہو جائے گا۔ ہم یہاں بیرن لینڈ میں سیر و سیاحت کا کاروبار فروغ دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے امن و امان اوّلین شرط ہے۔ اس کے بغیر نہ سیاح عیش و عشرت کی خاطر یہاں آئیں گے اور نہ ہماری ڈی۔ ٹی۔ آئی۔ ڈی۔ سی۔ نامی کمپنی چلے گی۔‘‘

’’ویسے میرے ذہن میں ایک ترکیب یہ بھی ہے کہ ہم براہِ راست اپنا آدمی ان پر تھوپنے کے بجائے خود انہیں کے ذریعہ اس کی سرداری کی توثیق کروا لیں۔‘‘

’’اچھا، بہت خوب۔‘‘ واٹسن نے حیرت سے کہا۔ ’’مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ تمہارا دماغ اس قدر زرخیز ہے اور کئی تدابیر تم اپنے پاس رکھتے ہو؟‘‘

’’جناب بات یہ ہے کہ آپ ہمیں کسی قابل سمجھتے ہی کب ہیں ؟‘‘

واٹسن بولے۔ ’’ایسی بات تو نہیں، بیرن لینڈ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ تم ہمارے دستِ راست ہو۔‘‘

’’آپ کی بات صحیح ہے لیکن پھر بھی۔۔۔‘‘

’’پھر بھی کیا؟‘‘

’’مجھے لگتا ہے منظر نامہ اب بدل رہا ہے۔‘‘ ڈیوڈ کے منہ سے بے ساختہ اس کے دل کی بات اُبل پڑی۔

واٹسن نے کہا۔ ’’اچھا؟ مجھے تو نہیں لگتا۔‘‘

ڈیوڈ نے پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا۔ ’’جی جناب، آپ کو جو لگتا ہے وہی صحیح ہے۔ ہم لوگ دراصل آسان ترکیب پر گفتگو کر رہے تھے۔‘‘

’’جی ہاں،جی ہاں تم اپنی نادر ترکیب بتا بھی دو۔‘‘

’’جناب ویسے ہمارے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں میں تو یہ عام سی بات ہے بلکہ آزمودہ کامیاب نسخۂ کیمیا ہے۔ لیکن ہنڈالو قبیلے کے اندر یہ ضرور نئی بات ہو گی۔ اس لیے کہ یہ بے چارے پسماندہ لوگ جو ٹھہرے۔‘‘

’’ارے بھئی ترکیب بھی بتاؤ گے یا پس منظر ہی بیان کرتے رہو گے؟‘‘

’’ہم ایسا کرتے ہیں کہ اپنے آدمیوں سے دو چار ہنڈالوؤں کا قتل کروا دیتے ہیں اور پھر اس قتل کے خلاف اپنے نامزد کردہ آدمی کی مدد سے ایک تحریک چلوا دیتے ہیں جو آگے چل کر چند اور معصوم قبائلیوں کا قتل کر کے یہ اعلان کر دے گا کہ ہم نے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا اور مظلوموں کے خون کا بدلہ لے لیا  اور سارے قبیلے میں امن و امان بحال کرنے کی صلاحیت ہمارے ہی اندر ہے اس لیے ہمیں اس کا ٹھیکہ دے دیا جائے۔ میرا مطلب ہے کہ سردار تسلیم کر لیا جائے۔ بس پھر کیا، لوگ ہمارے آدمی کو بہ رضا و رغبت اپنا سردار بنا لیں گے اور ہمارا کام بن جائے گا۔‘‘

سرواٹسن نے تالی بجاتے ہوئے کہا۔ ’’بہت خوب ڈیوڈ، کاش کہ مجھے پتہ ہوتا کہ تم اتنا اچھا فلمی منظرنامہ لکھ سکتے ہو تو میں تمہیں یہاں لانے کے بجائے موکیا موشن پکچر کا ڈائرکٹر بنا دیتا، جو تفریحی فلمیں بناتی ہے۔ اس کہانی پر ہم ایک ہندی فلم ضرور بنائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ وہ خوب چلے گی۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیرن لینڈ پر ہمارے تجارتی اہداف کے حصول میں یہ حکمتِ عملی نہ صرف بے سود ثابت ہو گی بلکہ عظیم خسارے کا سبب بنے گی۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘ ڈیوڈ نے پوچھا۔

’’اس لئے کہ ہمیں ان کے لیے سردار کی نہیں، اپنے لیے ٹھیکیدار کی ضرورت ہے۔‘‘

’’جی ہاں سر، وہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ ان کا سردار ہمیشہ ہی ہمارا وفادار رہے گا۔ اس کے خلاف سارے شواہد ہمارے پاس ہوں گے اور ان کی مدد سے ہم اسے جب چاہیں گے، بلیک میل کر سکیں گے۔‘‘

’’کیسی احمقانہ باتیں کرتے ہو ڈیوڈ۔ میں تو تمہیں سمجھدار آدمی سمجھنے لگا تھا۔ لیکن بہت جلد تم نے میری ساری غلط فہمی دُور کر دی۔ کیا تم ہنڈالو قبیلے کے قاضی سے یہ توقع کرتے ہو کہ وہ سردار کے خلاف فیصلہ دے گا؟ یہ ناممکن ہے۔ ہنڈالو قبیلے کی عدالت بھی ہمارے سماج کی طرح سردار کی مٹھی میں ہوتی ہے۔ اس لیے تمہارا بلیک میلنگ کا داؤں سردار کے خلاف ہرگز کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔

ڈیوڈ بولا۔ ’’لیکن اگر ہم جج کی کرسی پر بھی اپنا آدمی بٹھا دیں تب بھی یہی صورتِ حال رہے گی؟‘‘

’’ہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سردار جب مشکل میں گھرے گا تو وہ تمہارے قاضی کی چھٹی کر کے اس کی جگہ اپنے وفادار اور اطاعت گزار آدمی کو بٹھا دے گا، جیساکہ ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تمہارے جج کو باغی قرار دے کر پھانسی پر لٹکا دے۔‘‘

’’جی ہاں سر، یہ تو ہو سکتا ہے۔‘‘ ڈیوڈ نے تائید کی۔

’’اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارا نامزد کردہ سردار قبائلیوں کو ہمارے خلاف بھڑکا کر ہمیں یہاں سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دے۔‘‘

’’جی ہاں سر، بالکل ہو سکتا ہے۔‘‘ ڈیوڈ بھی وفادار قاضی کی بولی بول رہا تھا۔

سرواٹسن نے پوچھا۔ ’’ڈیوڈ یہ بتاؤ کہ تم نے اب تک کتنے ٹھیکیداروں کا انتخاب کیا ہے؟‘‘

ڈیوڈ کی سمجھ میں اس سوال کا موقع اور محل نہیں آیا۔ پھر بھی اس نے جواب دیا۔ ’’جناب، بے شمار پراجیکٹ ٹھیکے پر میں نے دیے ہیں بلکہ آج کل تو موکیا کا ۸۰؍ فیصد کام ٹھیکوں پر ہی چلتا ہے۔‘‘

’’اچھا، تو یہ بتاؤ کہ وہ کون سی دو اہم ترین صفات ہیں جن کو پیشِ نظر رکھ کر کسی بھی ٹھیکیدار کا تعین کیا جاتا ہے؟‘‘

ڈیوڈ نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ ’’صلاحیت اور دیانت۔‘‘

واٹسن بولے۔ ’’بالکل صحیح۔ احمق سیاستدان اور کامیاب سرمایہ دار میں یہی بنیادی فرق ہے۔ سیاستداں صلاحیت اور دیانت کے بجائے وفاداری اور چاپلوسی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور جن پر بھروسہ کرتے ہیں، ان سے دھوکہ کھاتے ہیں اور ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ سرمایہ دار صلاحیت و دیانت کو ترجیح دیتا ہے اس کے حصے میں شاذ و نادر ہی ناکامی آتی ہے اور وہ باآسانی اس پر قابو بھی پا لیتا ہے۔ بدقسمتی سے تم نے بھی اس بابت سیاستدانوں کی سی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے۔ جس میں خطرات بے شمار ہیں۔ اس لئے میں انہیں قبول نہیں کر سکتا۔‘‘

ڈیوڈ منہ لٹکا کر لوٹ آیا۔ اس کی تمام سازشی چالوں کو سرواٹسن جیسے ماہر سرمایہ دار نے خاک میں ملا دیا تھا۔

 

۱۸

بیرن لینڈ پروجیکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کے سفر کا اہتمام کرنے کی  ذمہ داری سرواٹسن کی سکریٹری لوینا کی تھی۔ اس انتظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ پندرہ لوگوں کی اس ٹیم کی نقل و حرکت پر براہِ راست سر واٹسن کی نگرانی ہوتی تھی۔ اس لیے لوینا سر واٹسن کی جاسوس نمبر ایک تھی اور لوگ واٹسن سے زیادہ اس سے خائف رہتے تھے۔ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ سر واٹسن لوینا کی مٹھی میں ہیں۔ وہ صرف اس کی سنتے ہیں اور اس چڑیل کے خلاف ایک حرف نہیں سن سکتے۔ نہ جانے کون سا کالا جادو اس ڈائن نے ان پر چلا رکھا تھا۔ ایسی خبریں بھی تھیں کہ لوینا نے سر واٹسن کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے ہنڈالو قبیلے کے کسی ماہر جادوگر کی مدد حاصل کی تھی اور اس نے جنتر منتر پڑھ کر نہ جانے کون سی گھٹی لوینا کو دی جسے اس نے کافی میں ملا کر سر واٹسن میکارڈے کو پلا دیا اور پھر وہ دن ہے اور آج کا دن، سر واٹسن ہفتے بھر جہاں بھی رہیں، آخر ہفتہ گزارنے کے لیے بلا ناغہ بیرن لینڈ پہنچ جاتے تھے۔

 لوینا کا حال یہ تھا کہ سارے ہفتہ اس کے پاس کوئی خاص کام نہ ہوتا تھا، لیکن ہفتہ اور اتوار کے دن وہ اس قدر مصروف ہو جاتی کہ ایسا معلوم ہوتا سارا بیرن لینڈ اسی کے دم سے قائم ہے۔ روزینہ کو ان کہانیوں پر ذرّہ برابر بھی یقین نہیں تھا۔ وہ انہیں بکواس سمجھتی تھی اور لوینا کا شمار اپنی خاص سہیلیوں میں کرتی تھی۔ سچ تو یہ ہے جوزف کی بازیابی کی اطلاع اس نے سب سے پہلے لوینا ہی کو دی تھی۔ لوینا بھی موقع بہ موقع سر واٹسن کے سامنے روزینہ کی تعریف کے پل باندھتی رہتی تھی۔ روزینہ کے متعلق سر واٹسن کی جو بہترین رائے تھی اس میں لوینا اہم کردار تھا اور اگر وہ نہ ہوتی، ڈیوڈ کب کا اسے واپس ون لینڈ روانہ کروا چکا ہوتا۔

جوزف کے سفر کی تفصیلات حاصل کرنے کی خاطر جب روزینہ لوینا کے دفتر میں داخل ہوئی تو اس نے چہک کر کہا۔ ’’میری اچھی سہیلی روزینہ، تمہارے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔‘‘

’’اچھا، وہ کیا؟‘‘

’’یہ میں نہیں بتا سکتی۔‘‘

’’کیوں ؟ خیریت تو ہے؟‘‘ روزینہ نے چونک کر پوچھا۔

’’ویسے تو سب خیریت ہے لیکن مجھے اس راز کو فاش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

’’اس بیرن لینڈ میں ایسا کون ہے جس سے تمہیں اجازت لینے کی ضرورت پڑے؟ بلکہ لوگوں کا خیال ہے کہ۔۔۔‘‘

’’لوگوں کو گولی مارو۔ ان کی زبان کو کون پکڑ سکتا ہے اور مجھے اس کی کوئی پرواہ بھی کب تھی؟ سر واٹسن از خود تمہیں وہ خوشخبری سنانا چاہتے ہیں، اس لیے پہلے ان سے ملاقات کر کے آؤ، تب تک میں تفصیلات پرنٹ کر کے رکھتی ہوں۔‘‘

’’وہ فی الحال مصروف تو نہیں ؟ کیا میں ان سے ملاقات کر سکتی ہوں ؟‘‘

’’بھئی بات دراصل یہ ہے کہ وہ آج کل تمہارے جوزف پر اس قدر فدا ہیں کہ مجھے کہہ رکھا ہے، وہ جب بھی آئے، اُسے انتظار نہ کروایا جائے۔ فوراً ان کے پاس روانہ کر دیا جائے اور جو حکم تمہارے سر تاج کے لیے ہے، وہی تمہارے لئے بھی سمجھو۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’لوینا باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے۔ تمہارا نام تو فلورینا ہونا چاہئے تھا۔ تم جب بولتی ہو نا تو گویا پھول جھڑتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہی وہ جادو ہے جس نے سر واٹسن کو مسحور کر رکھا ہے۔‘‘

’’لیکن لوگ تو۔۔۔‘‘

’’لوگوں کی زبان کون پکڑ سکتا اور ویسے بھی تم کب ان کی پرواہ۔۔۔‘‘ دونوں سہیلیاں کھلکھلا کر ہنسنے لگیں اور عقب سے سر واٹسن کی بھرائی ہوئی آواز آئی۔

’’بھئی دفتر میں یہ کیا چل رہا ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں سر! روزینہ کا کہنا ہے کہ یہ ہفتہ واری چھٹی کا دن ہے اس لیے اس طرح کا ہنسی مذاق کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘

’’اچھا اور تمہارا کیا کہنا ہے؟‘‘

’’میرا۔۔۔ میرا تو یہ کہنا ہے کہ چھٹی کے علاوہ کسی بھی دن ہنسی مذاق کرنے میں کوئی مشکل نہیں۔‘‘

’’اچھا، وہ کیوں ؟‘‘ سر واٹسن نے سوال کیا۔

’’اس لیے کہ آپ چھٹی گزارنے کے لیے ہی تو یہاں آتے ہیں اور میری اس سہیلی کو ہفتے بھر کا کام کرنے کے لیے صرف دو دن میسر آتے ہیں۔‘‘ روزینہ نے لوینا کی وکالت کی۔

’’اچھا، اور جب میں ہفتہ بھر یہاں نہیں رہتا تو کیا ہوتا ہے؟‘‘

لوینا نے مسکرا کر کہا ’’سر۔۔۔ چ۔۔۔ چھ۔۔۔ چھٹ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ اور کیا؟‘‘

سر واٹسن سے اس طرح کی بے تکلفی صرف اور صرف لوینا کو نصیب تھی۔ اس کے علاوہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

سر واٹسن نے پوچھا۔ ’’اب اگلی میٹنگ کب ہے؟‘‘

’’ابھی فوراً ہے سر۔ روزینہ آپ سے خوشخبری سننے کے لیے حاضر ہوئی ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں اسے آپ کے کمرے میں روانہ کروں ؟‘‘

’’لیکن میں نے تو کہا تھا۔۔۔‘‘

’’جی ہاں سر! وہ خوشخبری ہنوز پردۂ راز ہی میں ہے۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ خوشخبری کیا ہے؟ بلکہ صرف یہ بتایا کہ خوشخبری ہے۔ اب آگے کا کام آپ کا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے روزینہ۔۔۔ تم میرے دفتر میں چلو، میں ابھی آیا۔‘‘

روزینہ کمرے سے باہر چلی گئی۔ سر واٹسن نے چند ضروری ہدایات لوینا کو دیں اور خود بھی اپنے کمرے میں آ گئے۔ سر واٹسن نے روزینہ سے پوچھا۔ ’’اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو کیا میں ایک ذاتی قسم کا سوال کرنے کی جرأت کر سکتا ہوں ؟‘‘

روزینہ پہلے تو گھبرائی، پھر اپنے آپ کو سنبھال کر بولی۔ ’’سر آپ تکلف فرما رہے ہیں۔‘‘

’’نہیں ایسی بات نہیں۔ دیکھو اگر تم اس کا جواب دینا مناسب نہ سمجھو تو کوئی بات نہیں۔ میں تمہاری خاموشی کو نا سمجھ کر آگے بڑھ جاؤں گا۔‘‘

’’لیکن سر آپ نے ابھی تک سوال تو پوچھا ہی نہیں۔‘‘

’’میرا سوال یہ ہے کہ تم نے جوزف کے ساتھ اپنا  ہنی مون کہاں منایا تھا؟ میرا مطلب ہے کہاں کا سفر کیا تھا؟‘‘

’’  ہنی مون۔۔۔ کہیں بھی نہیں۔‘‘ روزینہ نے معصومیت سے جواب دیا۔ ’’ہم لوگوں نے شادی کے لیے ویک اینڈ کے علاوہ دو دنوں کی اضافی چھٹیاں لے رکھی تھیں۔ جمعہ کو شاپنگ، ہفتہ کے دن تیاری، اتوار کی صبح چرچ میں شادی، شام میں پارٹی (دعوت)، پیر کو آرام اور منگل سے کام۔ ہمیں کہیں آنے جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘‘

واٹسن کو اس جوڑے کی سادگی پر ترس آ گیا۔ وہ سوچنے لگے کہ کیا اس ترقی یافتہ سماج میں ایسا بھی ہوسکتا ہے؟

’’تو گویا یوں سمجھ لو کہ تم لوگوں نے اپنا   ہنی مون ہی نہیں منایا؟‘‘

’’کیوں نہیں، کیوں نہیں ۔۔۔ میں اتوار کے دن پارٹی کے بعد جوزف کے گھر گئی اور پھر پیر تک وہیں رہی۔ سمجھ لیں کہ وہی میرا   ہنی مون تھا۔‘‘

’’اچھا، تو جوزف کا گھر تمہارے گھر سے کتنا دُور ہے؟‘‘

’’قریب ہی ہے۔ یہی ایک آدھ کلومیٹر سمجھ لیجئے۔ لیکن چرچ ضرور دُور ہے۔ وہاں سے دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے میں اس کے گھر پہنچی تھی۔‘‘ روزینہ نے دس کلومیٹر ایسے بتلائے گویا دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ بتا رہی ہو۔

’’اچھا تم نے تو اپنا ہنی مون منا لیا۔۔۔‘‘ سر واٹسن بولے۔ ’’لیکن بے چارے جوزف کا کیا؟‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں سر! ہنی مون کوئی اکیلے کیسے منا سکتا ہے؟ ہم دونوں نے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر روزینہ رُک گئی۔

’’ہاں ہاں میں سمجھتا ہوں، لیکن وہ بے چارہ تو اپنے گھر پر ہی رہا۔ اسے تو کہیں آنے جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘‘

’’جی نہیں سر۔۔۔ ایسی بات نہیں۔ پیر کو وہ میرے ساتھ میرے گھر آ گیا اور پھر آئندہ تین سال وہیں رہا۔ اس طرح یہ سمجھ لیں کہ اس کے  ہنی مون کی مدت تین سال طویل تھی۔

’’کیا تم مجھے بہلا رہی ہو روزینہ؟‘‘

’’نہیں سر! میں آپ کو نہیں ۔۔۔‘‘

’’بلکہ اپنے آپ کو؟‘‘ سر واٹسن نے جملہ پورا کیا۔

’’جی، جی ہاں۔ یہی سمجھ لیجئے سر۔ لیکن جو ہو چکا سو ہو چکا۔ یہ تین سال پرانی بات ہے۔ اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ روزینہ نے حسرت و یاس کے ساتھ کہا۔

’’نہیں روزینہ۔ میں تمہیں دُکھ دینا نہیں چاہتا تھا بلکہ چاہتا ہوں کہ تم دونوں ساتھ ساتھ اپنا اُدھار ہنی مون منانے کے لیے نکل جاؤ۔‘‘

’’ہم۔۔۔ یہ سب۔۔۔ اتنا سارا کام ہے یہاں ۔۔۔ اس کو چھوڑ کر ہم کہاں جا سکتے ہیں ؟ کیسے جا سکتے ہیں ؟ آپ نے جوزف کے سپرد ایک بہت بڑا کام کر دیا جس میں وہ دن رات غرق رہتا ہے، اور کہیں آنے جانے پر خرچ بھی تو بہت ہوتا ہے۔ سفر، حضر، طعام، قیام، سیر و سیاحت، نا بابا نا۔ یہ سب ہم غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘

سر واٹسن کو اس روز روزینہ جس قدر اچھی لگی، پہلے کبھی نہیں لگی تھی۔ بالکل معصوم سی پری جس کو دُنیا پرستی نے بالکل بھی آلودہ نہیں کیا تھا۔

وہ بولے۔ ’’دیکھو، جوزف کمپنی کے کام سے لندن جا رہا ہے۔ اُس کے آنے جانے اور رہنے  سہنے کا اہتمام کمپنی کر رہی ہے۔ تم اُس کے ہمراہ چلی جاؤ۔ تفریح بھی ہو جائے گی اور ۔۔۔‘‘

’’آپ بھی مذاق کر رہے ہیں سر تین سال بعد بھی کوئی۔۔۔؟‘‘

’’کیوں نہیں ؟ اور ویسے بھی تم دونوں کی عمر ہی کیا ہے؟ اس عمر تک تو لوگ آج کل شادی بھی نہیں کرتے، نیز ہماری تعریف کے مطابق شادی بچوں کے بڑے ہونے کے بعد ہی پرانی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ابھی تم دونوں کی شادی نئی ہی ہے۔ میں نے تم دونوں کے لیے ٹکٹ مختص کروا دئیے ہیں اور کمرہ بھی دونوں کے لیے ہے۔ اسی کے ساتھ میں تمہیں ایک کریڈٹ کارڈ دوں گا جو محدود مدت کے لیے لامحدود ہے۔‘‘

’’شکریہ سر! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ ہمارے کس قدر اچھے سرپرست ہیں۔ شکریہ، لیکن وہ محدود اور لامحدود والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘

’’دراصل یہ کارڈ میرے بینک اکاؤنٹ سے منسلک ہے۔ تم لوگ جو بھی خرچ کرو گے، میرے کھاتے سے ادا ہو جائے گا۔ اس سفر کے دوران تم لوگ جتنا چاہو، خرچ کرو، لیکن جس دن تم بیرن لینڈ واپس لوٹو گے، اُسی دن اس کی مدتِ کار ختم ہو جائے گی۔ یعنی اس کی موت واقع ہو جائے گی، اور پھر یہ کسی کے کوئی کام نہیں آئے گا۔ خود میرے لئے بھی وہ بیکار ہو جائے گا۔

یہ کارڈ نہ ہوا انسان ہو گیا کہ اس کا زمان و مکان تو محدود ہے مگر خواہشات لامحدود۔سر اس کارڈ کا نام کیا ہے ؟

بہت دلچسپ نام ہے اس کا یہ کارڈ ’’عشرتِ جہاں ‘‘ کہلاتا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے فنی شعبہ میں میکالو ایک کا شمار مقبول ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ لوگ اسے مائک کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کے دوستوں میں کالے بھی تھے اور گورے بھی۔ ہندی بھی تھے اور چینی بھی۔ سبھی کے ساتھ ہنس کر ملنا، اُن کے دُکھ درد میں شریک ہونا میکالو کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ جوزف نے فون پر ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے فوراً کینٹین کے قریب بلا لیا۔ میکالو نے سوچا کہ یہ کوئی طالبِ علم ہے جو کسی ذاتی کام سے ملاقات کرنا چاہتا ہے، اس لئے اس نے کوئی تفصیل بھی معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ گیٹ کے پاس کھڑے جوزف کا موبائل بجا اور جیسے ہی اس نے فون جیب سے نکالا، وہ بند ہو گیا اور وہی نوجوان اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا جسے اس نے سر واٹسن کی فلم میں دیکھا تھا۔ اس کے ہمراہ وہ فرانسیسی گل اندام ایمیلی بھی تھی۔

جوزف نے ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کیا اور کہا۔ ’’میرا نام جوزف گلاسگوف ہے۔‘‘

’’اور میں مائک ہوں۔‘‘ میکالو نے بھی ہاتھ بڑھا کر کہا۔ ’’میکالو ہنڈالو عرف مائک۔۔۔ اور یہ ہے ایمیلی۔‘‘

’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘

’’مجھے بھی۔‘‘ جوزف کسی زاویہ سے طالبِ علم نہیں لگ رہا تھا پھر بھی میکالو نے از راہِ تکلف پوچھا۔ ’’کہیے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟‘‘

جوزف بولا۔ ’’میں آپ سے ایک نہایت سنجیدہ موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

’’ارشاد۔۔۔‘‘ میکالو بولا۔ ’’میں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘

’’ہماری گفتگو تفصیل طلب ہے اور پُرسکون ماحول کا تقاضہ کرتی ہے اور شاید اس ہنگامے میں یہ ممکن نہ ہو سکے۔ اگر آپ کے پاس ابھی وقت نہ ہو تو ہم لوگ کسی اور وقت مل سکتے ہیں۔‘‘

میکالو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، پھر بھی وہ بات بڑھائے جا رہا تھا۔ ’’آدھے گھنٹے بعد میری کلاس ہے اور میرے کچھ دوست اندر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ ملاقات کی نوعیت کیا ہے، اس لئے میں نے آپ کو یہاں بلا لیا۔ میں اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ یہ اچھا ہی ہوا کہ ہماری شناسائی ہو گئی۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ آپ کی فرصت کا کوئی وقت لے کر وداع لیتا ہوں۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’جی ہاں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ شام میں سات بجے ٹائم اسکوائر پر موجود اسٹار بکس کافی ہاؤس میں ملیں ؟ وہ ویران پڑا رہتا ہے، اس لئے فرصت سے بات ہو سکے گی۔ نیز میرے گھر سے قریب بھی ہے۔ ویسے اگر آپ کوئی اور جگہ تجویز کریں تو مجھے کوئی دقت نہیں ہے۔‘‘

’’بہت خوب۔۔۔ ٹائم اسکوائر مناسب ہے۔‘‘ جوزف بولا۔ ’’اچھا تو ہم شام سات بجے ملتے ہیں۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’میں ایک بار پھر معذرت چاہتا ہوں کہ آپ تشریف لائے اور بات نہ ہو سکی۔‘‘

جوزف نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ شناسائی ہو گئی ہے۔ ملاقات کے لیے آیا تھا، سو ملاقات ہو گئی۔ جب بات کے لیے آؤں گا تو وہ بھی ہو جائے گی۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’آپ بہت ہی سنجیدہ اور متین فطرت کے حامل ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر واقعی خوشی ہوئی۔‘‘ یہ کہہ کر میکالو نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

جوزف نے گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا اور دونوں الگ ہو گئے۔

ایمیلی بولی۔ ’’اس آدمی سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ سنبھل کر ملنا، یہ خطرناک لگتا ہے۔‘‘

میکالو نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا۔ ’’عورتوں کو تو ہر کوئی خطرناک لگتا ہے۔ حالانکہ اُن کی اپنی ذات سے زیادہ خطرناک کوئی اور نہیں ہوتا۔‘‘

’’اچھا!‘‘ ایمیلی بولی۔ ’’اندر چلو، پھر تمہیں بتلاتی ہوں کہ میں کس قدر خطرناک ہوں ؟‘‘ دونوں کینٹین کے اندر داخل ہو گئے۔

شام سات بجے اسٹار بکس کافی ہاؤس کے ایک کونے میں بیٹھا میکالو سوچ رہا تھا۔ ’’کون ہے یہ شخص؟ کہاں سے آیا ہے ؟ اور کیوں اس سے ملنا چاہتا ہے؟‘‘

اسی بیچ جوزف کافی ہاؤس میں داخل ہوا۔ سفید رنگ کی ٹی شرٹ اور نیلے رنگ کی جینس اور اسپورٹس کے جوتے پہن کر بالکل بے تکلف انداز میں وہ ملاقات کے لیے آیا تھا۔ میکالو بھی گھریلو لباس میں تھا۔ ٹریک سوٹ اور اسپورٹس شوز جو اس بات کا اشارہ کر رہے تھے کہ اسے ورزش گاہ جانا ہے۔ اس کا گٹھیلا جسم بھی ان ارادوں کی تصدیق کرتا تھا۔ میکالو نے کھڑے ہو کر جوزف کا استقبال کیا اور بولا۔ ’’آپ تو گھڑی کے کانٹوں کی مانند وقتِ مقررہ پر آئے ہیں۔‘‘

’’لیکن تم نے مجھ پر سبقت حاصل کر لی مائک۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’میں اپنی کمزوری سے واقف ہوں اور تاخیر سے آنے کے لیے بدنام ہوں۔ لیکن صبح کی زحمت کے بعد میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ کو انتظار کے کرب سے گزرنا پڑے۔‘‘

جوزف نے کہا۔ ’’بہت شکریہ۔‘‘ ویٹر کافی کا آرڈر مانگ رہا تھا۔ جوزف نے ڈبل ایکسپریسو اور مائک نے کاپوچینو لانے کے لیے کہا۔

جوزف نے بات آگے بڑھائی اور بولا۔ ’’میں بیرن لینڈ سے آیا ہوں۔‘‘

بیرن لینڈ کا نام سنتے ہی میکالو کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک پیدا ہوئی۔ وہ بولا۔ ’’بہت خوب بڑے دنوں کے بعد کسی کے منہ سے بیرن لینڈ کا نام سنا۔ یقین جانیں میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ بیرن لینڈ! میں کیا بتاؤں بیرن لینڈ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا اس سرزمین پر بھی کہیں جنت ہے؟ تو میں بلا توقف کہوں گا کہ ہاں، وہ جنت نشان مقام بیرن لینڈ ہے۔ خیر آپ اپنی سنائیں۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’بیرن لینڈ کے حوالے سے تمہارے احساسات و جذبات کی میں قدر کرتا ہوں۔ مجھے بیرن لینڈ سے سر واٹسن نے تمہارے پاس خاص طور پر بھیجا ہے۔‘‘

’’واٹسن! یہ واٹسن کون ہے؟ اور بیرن لینڈ میں کیا کر رہا ہے؟ میں تو بیرن لینڈ میں اپنے قبیلہ والوں کے علاوہ صرف جیکب انکل کو جانتا ہوں۔ یہ بتاؤ کہ انکل کیسے ہیں ؟ ان کی صحت کیسی ہے؟ ان کے گھٹنوں کا درد ابھی کم ہوا یا نہیں ؟‘‘

جوزف ان سوالات کی بوچھار کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسے ان میں سے کسی سوال کی کوئی توقع نہیں تھی۔ وہ بری طرح بوکھلا گیا۔ ’’میکالو۔۔۔ میرا مطلب ہے مائک۔۔۔ تمہارے جیکب انکل اچھے ہیں۔‘‘

’’اُن کے اچھے ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہے۔ میں تو ان کی صحت کے بارے میں فکرمند ہوں۔‘‘

جوزف نے کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا۔ ’’ان کی صحت بھی بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ویسے عمر کے لحاظ سے جو اُونچ نیچ ہوتی ہے، اسے تو تم سمجھ سکتے ہو۔‘‘

’’جی ہاں، مجھے پتہ ہے۔ ان کی عمر ۵۸ سے تجاوز کر گئی ہے لیکن چونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف اور چاق و چوبند رکھا، اس لئے فٹ رہے ہیں۔‘‘

جوزف نے ہوا میں تائید کی اور بولا۔ ’’انسان کی صحت کا راز تو اس کی ذہنی اور جسمانی مصروفیت میں پوشیدہ ہے۔ انسان کے بڑھاپے کا تعلق اس کی عمر سے نہیں ہے بلکہ اگر وہ فرصت یا آرام کا خواہشمند ہو جائے تو سمجھ لو کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔‘‘

’’بڑی عمدہ تعریف بیان کی آپ نے بڑھاپے کی۔ مجھے پسند آئی۔ اچھا تو آپ کسی واٹسن کا ذکر کر رہے تھے، وہ کون ہے؟‘‘

وہ دراصل تمہارے جیکب انکل کا بزنس پارٹنر ہے۔ ان دونوں نے ایک ساتھ مل کر ایک نیا کاروبار شروع کیا ہے۔‘‘

’’اچھا، اس عمر میں بھی جیکب انکل نئے کاروبار کا حوصلہ رکھتے ہیں ! اس پر مجھے حیرت ہے۔ خیر، یہ نیا کاروبار ہے کس چیز کا؟‘‘

’’یہ ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے جس کے مطابق بیرن لینڈ کو ایک بین الاقوامی سطح کا سیاحتی مرکز بنانا پیشِ نظر ہے۔ جس میں دُنیا کے بڑے بڑے تفریحی پارکس، مثلاً ڈِزنی لینڈ اور مرین لینڈ وغیرہ موجود ہوں۔ دُنیا کا وسیع ترین چڑیا گھر، بہترین تھیٹر، نمائش گاہیں، گولف کورس، ریس ٹریکس، ہوٹلس، مائلس اور وہ سب کچھ جو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ان کو تفریح بہم پہنچائے۔ اس کے علاوہ سر واٹسن وہاں ہالی ووڈ کی طرز پر ایک عظیم اسٹوڈیو یورو ووڈ بھی قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں فلمسازی کی ساری سہولیات مہیا ہوں اور تفریح کے میدان میں امریکی برتری کو چیلنج کر سکے۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’یہ تو بہت حوصلہ مند منصوبہ ہے۔ لیکن اس میں میں کیا کر سکتا ہوں ؟ جیکب انکل نے جو فیصلہ کر لیا سو کر لیا۔ ان کا ہر حکم ہمارے سر آنکھوں پر ہے۔‘‘

جوزف کو پریشانی یہ تھی کہ میکالو کی ہر بات گھوم پھر کر جیکب کی جانب چلی جاتی تھی اور وہ بے یار و مددگار ہو جاتا تھا۔ ایسے میں جوزف نے اندھیرے میں اپنا آخری تیر چلا دیا۔ وہ بولا۔ ’’مائک، دراصل بات یہ ہے کہ تمہارے جیکب انکل اس عمر میں تو کوئی فعال کردار ادا نہیں کر سکتے، اس لیے چاہتے ہیں کہ تم ان کی نمائندگی کرو اور ان کی کاروباری ذمہ داریوں کو سنبھالو۔‘‘

’’میں ! میں کیوں ؟ وہاں میرے بزرگ موجود ہیں۔ میرے والد امنالو، ان کے دستِ راست بنگالو اور انکل جنگالو وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کے ہوتے ہوئے میں کیسے آگے آسکتا ہوں بھلا؟‘‘

جوزف کو جیسے ہی سنبھلنے کا موقع ملا، وہ بولا۔ ’’میکالو، میں تم سے معذرت چاہتا ہوں کہ بہت ساری باتیں بتا کر میں نے تمہیں کنفیوز کر دیا۔ دراصل یہ باتیں مجھے تمہیں آئندہ کے مرحلے میں بتلانی تھیں۔ لیکن تمہارے سوالات کی بوچھار نے ساری ترتیب اُلٹ دی۔ خیر، اگر تمہارے پاس وقت ہو تو میں تمہیں باقی تفصیل بھی بتلا سکتا ہوں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اگلی ملاقات کا وقت طے کر کے اس میٹنگ کو یہیں سمیٹ دیں۔‘‘

کافی کے دو دَور چل چکے تھے۔ میکالو نے گھڑی کی جانب دیکھا تو ورزش گاہ میں اس کے لیے مختص وقت قریب الختم تھا، وہ بولا۔ ’’مجھے آپ کی یہ تجویز مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ہم لوگ دو دن بعد اسی مقام پر رات آٹھ بجے ملتے ہیں، میں ورزش گاہ سے فارغ ہو کر آؤں گا۔ سنیچر کی شب ہے، فرصت سے بات ہو گی۔ پھر ہم لوگ ساتھ میں کھانا بھی کھائیں گے۔ وہ دعوت میری جانب سے ہے۔‘‘

جوزف نے کہا۔ ’’دعوت کا شکریہ، تمہاری تجویز مناسب ہے۔ ہم ہفتہ کے دن تفصیل سے بات کریں گے لیکن اس بیچ اگر تم اجازت دو تو میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ مجھے حکم دیجئے۔ جو آپ چاہتے ہیں، میں تعمیل کروں گا۔‘‘

’’جی نہیں، میری درخواست یہ ہے کہ جب تک ہم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ جاتے، تم اس گفتگو کو صیغۂ راز میں رکھو تو بہتر ہے۔‘‘

’’میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہماری یہ گفتگو محفوظ رہے گی اور باہر نہیں جائے گی۔‘‘ یہ کہہ کر میکالو کھڑا ہو گیا اور ہاتھ ملاتے ہوئے بولا۔ ’’یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘

جوزف نے شکریہ ادا کیا اور اپنے رہائشی ہوٹل کی جانب چل دیا۔

جوزف نے اپنی اوّلین تفصیلی ملاقات میں میکالو کے دماغ کے اندر ایک طوفان برپا کر دیا تھا جس پر ڈھکّن لگانے کے لیے اسے مجبور ہونا پڑا۔ جیکب کے حوالے ایک بہت بڑا جھوٹ اس کے منہ سے نکل چکا تھا جو آگے چل کر مہنگا پڑ سکتا تھا۔ اس سے جوزف کے اعتماد پر سوالیہ نشان کھڑا ہو سکتا تھا۔ جوزف اپنی غلطیوں کے دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ اس کی ساری تیاری اکارت رہ گئی تھی اور حکمتِ عملی سر کے بل اُلٹی کھڑی تھی۔ میکالو سے ملاقات نے جوزف کی خود اعتمادی کو بُری طرح کچل کر رکھ دیا تھا۔ ’’موکیا مین آف دی ائیر‘‘ کے اس قدر نااہل ہونے کا احساس اسے ستائے جا رہا تھا۔ وہ خود اپنے آپ سے نظریں چرا رہا تھا۔

 

۱۹

ہوٹل کے اندر روزینہ انتظار کر رہی تھی کہ جوزف لوٹے تو کہیں سیر و تفریح کے لیے نکلا جائے۔ جب سے وہ لوگ لندن آئے تھے، تفریح کے لیے اُنہیں فرصت ہی نہیں ملی تھی۔ جوزف کبھی تو میکالو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں لگا رہتا تو کبھی سر واٹسن کے منصوبے کا مطالعہ کرنے میں غرق رہتا۔ کبھی فون پر اُن کے ساتھ محوِ گفتگو ہوتا تو کبھی اپنی منصوبہ بندی میں مصروف ہوتا۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا کہ وہ اس حقیقت سے بھی غافل ہو جاتا کہ اس کے ساتھ اس کی شریکِ حیات روزینہ بھی موجود ہے۔ سر واٹسن کی اس نئی مہم نے گویا جوزف کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا اور اس کی حالت ایک مجذوب کی سی ہو گئی تھی جو اپنوں سے اور اپنے آپ سے بیگانہ اپنی دھُن میں کھویا ہوا تھا۔ روزینہ کے دل میں کبھی کبھار یہ خیال بھی اُبھرتا کہ جوزف اسے نظر انداز کر رہا ہے لیکن روزینہ اس پر بالکل بھی دل برداشتہ نہیں ہوتی۔ جوزف کی لگن اور محنت نے روزینہ کے اوپر مثبت اثرات مرتب کئے تھے۔ روزینہ کی جانب سے ہونے والے تقاضوں کو جوزف میکالو سے ملاقات کے بعد کی شام پر ٹال دیتا تھا۔ جوزف سے زیادہ اب روزینہ کو اس ملاقات کا انتظار تھا جس نے اس کا جوزف اس سے چھین لیا تھا۔

کمرے کی گھنٹی بجی تو روزینہ دوڑ کر دروازے تک پہنچی اور جوزف کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر اُداس ہو گئی۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

’’ارے یہ کیا؟‘‘ وہ سمجھ گئی، آج کوئی غیر معمولی گڑبڑ ہوئی ہے۔ وہ اس کے بارے میں جاننا تو چاہتی تھی لیکن سوچ رہی تھی نہ جانے پوچھنا مناسب بھی ہے یا نہیں۔ کہیں جوزف کی اس سے دل آزاری تو نہیں ہو گی؟ اور اگر پوچھا جائے تو کیسے پوچھا جائے؟ روزینہ ان سوالات میں اُلجھ کر رہ گئی۔ باہر جانے کا خیال اس نے اپنے ذہن سے نکال کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔

جوزف نے جوتے کھولے اور منہ ہاتھ دھونے کی خاطر حمام کی جانب بڑھا۔ جب وہ کپڑے بدل کر باہر آیا تو روزینہ نے حمام کا رُخ کیا اور جوزف نے فریج کا دروازہ کھولا۔ نہ جانے کیوں اس روز اس کی نظر پانی سے پہلے شراب کی بوتل پر پڑی اور اسے لے کر وہ صوفے کے سامنے پڑی تپائی کے قریب آیا اور بوتل کو کھولنے لگا۔ اس بیچ روزینہ نے باہر آ کر دیکھا تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔ یہ کیا؟ یہ سوتن کہاں سے آ گئی؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا اور جوزف کے سامنے پڑے گلاس کو پانی سے بھر دیا۔ روزینہ بولی۔

’’شراب تو تمہارے اندر لگی آگ پر تیل کا کام کرے گی جوزف۔ اگر اسے بجھانا ہی چاہتے ہو تو یہ قدرت کا پاکیزہ مشروب پیو۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’روزینہ۔۔۔ میں اس آگ کو بجھانا نہیں چاہتا بلکہ اس آگ کو بھڑکانا چاہتا ہوں۔ میں اس آگ میں جل کر بھسم ہو جانا چاہتا ہوں۔ میں اس آگ کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بجھا دینا چاہتا ہوں۔‘‘ جوزف کے الفاظ میں شعلوں کی لپٹ تھی۔

روزینہ بولی۔ ’’دیکھو جوزف۔۔۔ میں تمہیں بزورِ قوت روک تو نہیں سکتی لیکن اتنی گزارش ضرور کرتی ہوں کہ پہلے تم مجھے اپنی روداد سناؤ اور پھر جو چاہو کرو۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’پہلے مجھے اس شراب کے چند گھونٹ نگل جانے دو۔ اس کے بعد میں سب کچھ بتا دوں گا۔‘‘

’’شراب پینے کے بعد تمہارا دماغی توازن بگڑ جائے گا اور اس حالت میں میرے لئے تمہاری باتوں کو سمجھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے پہلے بتاؤ، یہی بہتر ہے۔‘‘

روزینہ کے شبنم بھرے لہجے نے جوزف کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا۔ ’’روزینہ! میں آج کس قدر شرمندہ ہوں، اس کا بیان نہیں کر سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں خود اپنی نظروں سے گر چکا ہوں۔ میں اپنے آپ کو اپنا چہرہ دکھانا نہیں چاہتا۔ جوزف گلا سگوف اس قدر بے بس ہو گا، یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ روزینہ میں خود اپنی کمزوری سے بے خبر تھا۔ میں اس ناکامی کے احساس کو بھلا دینا چاہتا تھا۔ شراب کے نشے میں گھول کر اسے بہا دینا چاہتا تھا۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جوزف ناکامی کو بھلانے سے ناکامی نہیں مٹتی۔ یہ شراب تو صحرا کی ریت کی مانند ہے جس میں گردن ڈال کر شترمرغ اپنے آپ کو خطرے سے باہر سمجھنے لگتا ہے، حالانکہ اس کی یہ حرکت اس کو تحفظ فراہم نہیں کرتی بلکہ مزید غیر محفوظ بنا دیتی ہے۔ وہ دشمن کے لیے نہایت نرم چارہ بن جاتا ہے۔‘‘

’’ہو سکتا ہے ایسا ہوتا ہو روزینہ۔۔۔ تمہاری بات صد فیصد سچ ہو سکتی ہے۔ میں اپنے آپ سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہوں اور شاید اس کے لیے فی الحال راہِ فرار کی یہی ایک واحد سبیل ہے۔‘‘ جوزف نے بوتل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

روزینہ کو ایسا لگ رہا تھا گویا جوزف ایک ضدی بچہ ہے جو کھیل کے میدان سے تمغہ لانے کے بجائے گھٹنے کو زخمی کر کے لوٹا ہے۔ جوزف کا دل گھائل تھا۔ روزینہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔ ’’جوزف! راہِ فرار کی کوئی منزل نہیں ہوتی اور بے منزل کیا جانے والا سفر انسان کو تھکاوٹ اور مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ دیکھو، ابھی تک تم نے مجھے یہ نہیں بتلایا کہ آخر ہوا کیا جو تم اس قدر اُداس ہو گئے۔ مجھے یقین ہے کہ جب یہ غبار نکل جائے گا تو تمہارا غم ہلکا ہو جائے گا۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’میں نے اس ملاقات کی خاطر بہت ساری معلومات اکٹھا کیں اور ایک حکمتِ عملی بنائی۔ اس پر سر واٹسن سے گفت و شنید بھی ہو گئی۔ ان کے مشوروں کو بھی میں نے اپنے منصوبے میں شامل کر لیا۔ بات کہاں سے شروع کی جائے؟ اس کو کیسے ختم کیا جائے، یہ بھی طے کر لیا اور اس کی کئی بار مشق بھی کر ڈالی تاکہ ناکامی کا کوئی امکان باقی نہ رہے، لیکن ہوا یہ کہ میکالو کے پہلے ہی سوال نے ساری بساط کو اُلٹ کر رکھ دیا۔ اس نے مجھ سے جیکب کے بارے میں سوال کر دیا۔ اس کا باپ امنالو جس کا دستِ راست تھا۔ یہ شخص پوری طرح میری نظروں سے اوجھل رہ گیا تھا اور میں اس کے جواب میں ایسا بوکھلایا کہ پھر اپنی ساری حکمتِ عملی بھول گیا اور جس بات پر خاتمہ کرنا تھا، وہ سب سے پہلے بول گیا۔۔۔ اور تو اور جہاں سے شروع کرنا تھا، اسے کہے بغیر ہی لوٹ آیا۔ گویا سب کچھ الٹ پلٹ گیا۔‘‘

جوزف اپنی ملاقات کی تفصیل روزینہ کو بتلا رہا تھا اور وہ اسے غور سے سن رہی تھی۔

روزینہ بولی۔ ’’جوزف تم تھوڑی دیر کے لیے یہ بھول جاؤ کہ تمہارا منصوبہ کیا تھا اور کون کون سی باتیں اس کے مطابق نہیں ہوئیں۔ بلکہ یہ سوچو کہ اس میٹنگ میں کیا کچھ ہوا۔‘‘

’’میں تمہاری بات نہیں سمجھا؟‘‘ جوزف نے سوال کیا۔

’’میرا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کا تم اس توقع سے موازنہ کرتے ہو جو تم نے باندھی تھی، اور جب تمہیں نتائج اس کے مطابق دکھلائی نہیں دیتے تم سمجھ بیٹھتے ہو کہ یہ تمہاری ناکامی ہے۔ سچ پوچھو تو تمہاری اس روداد میں مجھے وہ چیز تو کہیں نظر ہی نہیں آئی جس نے تمہیں مایوس کر دیا ہے ؟‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’وہی ناکامی! میرا مطلب یہ ہے کہ اس میں ناکامی کہاں ہے؟‘‘

’’کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا کامیابی ہے؟‘‘

’’اگر کامیابی نہیں تو کم از کم ناکامی بھی نہیں ہے۔‘‘

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے روزینہ کہ کوئی چیز بیک وقت کامیابی بھی نہ ہو اور ناکامی بھی نہ ہو؟‘‘

’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ تم نے نہیں سنا، کئی بار میچ برابری پر چھوٹ جاتا ہے۔ کوئی ٹیم جیت درج نہیں کرا پاتی اور وقت ختم ہو جاتا ہے۔ نہ کسی کی جیت ہوتی ہے اور نہ کسی کی ہار ہوتی ہے؟‘‘

جوزف آہستہ آہستہ روزینہ کی باتوں میں اُلجھتا جا رہا تھا۔ روزینہ اس بیچ بوتل کا ڈھکن بند کر چکی تھی۔ اب وہ بولی۔ ’’تم کافی تھکے ہوئے ہو۔ ایسا کرتے ہیں کہ پہلے کافی منگواتے ہیں، اس کے بعد میں تمہیں بتلاتی ہوں کہ مقابلہ برابری پر کیونکر چھوٹا؟‘‘

روزینہ نے فون پر کافی کا آرڈر دیا تو جوزف نے پانی کا گھونٹ بھرا اور بولا۔ ’’لیکن روزینہ، شاید تمہاری مثال غلط ہے۔ ہر کھیل میں دو فریق ہوتے ہیں۔ لیکن اس کھیل میں میکالو تو سرے سے فریق ہی نہیں تھا۔ اس لیے یہ مقابلہ کس کے اور کس کے درمیان ہوا؟‘‘

’’کھیل کے دوران ہمیشہ ہی فریق نظر نہیں آتا لیکن موجود ضرور ہوتا ہے۔ اس کھیل میں دوسرا فریق تمہاری اپنی ذات ہے۔ یہ مقابلہ تمہارے منصوبے اور نتائج کے درمیان ہوا اور سچ تو یہ ہے کہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ لیکن اگر نتائج پر غور کیا جائے تو اس میں تمہاری ناکامی کہیں نظر نہیں آتی۔‘‘

’’وہ کیسے ؟‘‘

’’اچھا یہ بتاؤ کہ اگر تمہارا منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا؟‘‘

’’میں سمجھا نہیں ؟‘‘

’’میرا مطلب یہ ہے کہ کیا کامیابی کے نتیجہ میں تمہاری میکالو سے یہ آخری ملاقات ہوتی؟‘‘

’’نہیں ۔۔۔ بلکہ اس سے ہماری ملاقاتوں کی ابتدا ہوتی۔‘‘

’’اچھا اب یہ بتاؤ کہ کیا میکالو نے آئندہ ملنے سے انکار کر دیا ہے؟‘‘

’’نہیں۔ وہ تو اگلی ملاقات کے لیے بصد شوق تیار ہو گیا۔‘‘

’’تو بس! پھر ناکامی کہاں ہے۔ نتیجہ تو وہی نکلا جو تم چاہتے تھے۔‘‘

’’جی نہیں ۔۔۔ میں اس گفتگو کو، جو محض چند رسمی دُعا سلام تک سمٹ گئی، بہت آگے لے جانا چاہتا تھا۔‘‘

’’ہاں ہاں تو ٹھیک ہے۔۔۔ اگلی بار لے جانا، جلدی کس بات کی ہے۔۔۔ جوزف ایک بات یاد رکھو۔ جیساکہ تم نے کہا میکالو تمہارا فریق ثانی نہیں ہے۔ تم اپنے آپ سے یہ کھیل کھیل رہے ہو اور اس نام نہاد ناکامی اور کامیابی کے نتیجہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’ہاں واقعی کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘

اسی کے ساتھ کمرے کی گھنٹی بجی اور روزینہ نے دروازہ کھولا۔ بیرا گرم گرم کافی کی کیتلی طشتری میں سجائے جوزف کی جانب بڑھا اور سامنے پڑی تپائی پر بوتل کے آس پاس پیالیاں اور کیتلی سجا دی۔ جب وہ واپس دروازے کی جانب لوٹا تو روزینہ نے اسے آواز دے کر واپس بلا لیا اور پوچھا۔ ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

بیرے نے جواب دیا۔ ’’عبدل۔‘‘

’’بہت خوب۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ادھر یہ بوتل کیسی لگتی ہے۔‘‘

عبدل مجسم سوال بنا ان دونوں کو دیکھتا رہا۔ وہ کوئی ایسا جواب نہیں دینا چاہتا تھا جو انہیں ناگوار گزرے۔ روزینہ نے پھر پوچھا ’’سوچ کیا رہے ہو؟ بولو۔۔۔ اچھی لگ رہی یا خراب؟‘‘

عبدل بولا۔ ’’ویسے اچھی تو نہیں لگ رہی لیکن۔۔۔؟‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’لیکن کچھ نہیں ۔۔۔‘‘

’’اگر اچھی نہیں لگ رہی تو اسے اُٹھا کر دوبارہ فریج میں رکھ دو۔‘‘

’’محترمہ! اس ہوٹل کا ضابطہ یہ ہے کہ جو بوتل کھل جاتی ہے اسے دوبارہ فریج میں نہیں رکھا جاتا۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ اگر ایسا ہے تو تم اسے لے جاؤ اور ہماری طرف سے انعام سمجھ لو۔‘‘

’’لیکن میں اسے لے جا کر کیا کروں گا؟ میں تو شراب نہیں پیتا۔‘‘

’’ارے بھئی تم نہیں پیتے تو کیا ہوا۔۔۔ اپنے کسی دوست کو دے دینا۔‘‘

’’دوست کو یا دشمن کو؟‘‘ عبدل نے مسکرا کر پوچھا۔

روزینہ اور جوزف کو سوال دلچسپ معلوم ہوا۔ جوزف نے جواباً مسکرا کر سوال کیا۔ ’’یہ دُشمن کہاں سے بیچ میں آ گیا؟‘‘

عبدل بولا۔ ’’صاحب، جس چیز کو میں خود اپنے لئے پسند نہیں کرتا، اسے اپنے دوست کے لیے کیسے پسند کر سکتا ہوں ؟ ہاں، دشمن کی بات اور ہے جسے میں پسند نہیں کرتا۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’بہت خوب، ذہین آدمی معلوم ہوتے ہو، لیکن اس ناپسندیدگی کی کوئی وجہ بھی ہے کہ بس انگور کھٹے ہیں ؟‘‘

’’محترمہ! جس انگور کی بیٹی کو کبھی چکھا ہی نہیں، اس کا ذائقہ تو میں وثوق کے ساتھ نہیں بتا سکتا لیکن سنا ہے شراب کھٹی نہیں بلکہ کڑوی ہوتی ہے۔ ویسے صاحب اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’آج پہلی مرتبہ موقع آیا تھا اس کو چکھ کر دیکھنے کا،۔۔۔ لیکن یہ ہیں نا ہماری مہارانی۔۔۔ انہوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو انہوں نے بہت اچھا کیا۔‘‘

’’کیوں ؟ اِس میں کون سی ایسی اچھائی ہے جو تم پھولے نہیں سما رہے؟‘‘

’’جناب اس لئے کہ یہ ایک ایسی شہ ہے جو بدمزہ ہونے کے باوجود اس کے رسیا کو اچھی لگتی ہے اور یہ جس سے لپٹ جاتی ہے اس کو کوئی اور چیز اچھی نہیں لگتی۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھی۔‘‘

’’میں نے سنا ہے کہ انسان کے ضمیر میں جو اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پوشیدہ ہے، اسے شراب سلب کر دیتی ہے، جس سے شرابی کے لیے خیر و شر کے درمیان کا فرق مٹ جاتا ہے۔‘‘

’’اچھا! اگر ایسا ہے تو لوگ اس لال پری سے کیوں دل بہلاتے ہیں ؟‘‘ اس بار جوزف نے سوال کیا۔

’’شاید اس لئے کہ یہ غلط کام کو کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسِ جرم کو مٹا دیتی ہے اور انسان کے لیے اپنی غلط روش پر گامزن رہنا آسان تر ہو جاتا ہے۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’عبدل، تمہیں تو شراب کے موضوع پر کتاب لکھنی چاہئے۔‘‘

عبدل نے پوچھا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن فی الحال میں اس بوتل کا کیا کروں ؟ اسے یہیں چھوڑ دوں یا۔۔۔؟‘‘ وہ رُک گیا۔

روزینہ نے کہا۔ ’’اسے نالی میں بہا دو۔‘‘

عبدل بولا۔ ’’بہت بہتر۔۔۔‘‘

روزینہ کو اندازہ نہیں تھا کہ بوتل سے نجات اس قدر آسانی کے ساتھ مل جائے گی۔ بہرحال وہ بہت خوش تھی۔ کافی کی خوشبو جوزف کے ذہن پر پڑے قفل کھول رہی تھی اور کافی کا کڑوا اور میٹھا ذائقہ روزینہ کی زندگی میں رس گھول رہا تھا۔ کافی اور زندگی میں کس قدر مشابہت ہے کہ اس کی کڑواہٹ بھی بھلی معلوم ہوتی ہے اور اس کی مٹھاس بھی دل کو خوش کر دیتی ہے، اور گرمی تو اس کا کیا کہنا کہ ایک احساس ہے جو نظر تو نہیں آتا مگر محسوس ضرور ہوتا ہے اور جب یہ احساس سرد پڑ جاتا ہے تو زندگی موت کی نذر ہو جاتی ہے۔

روزینہ چہک کر بولی۔ ’’جوزف، تم نے کل کے واقعات پر تبصرہ تو خوب کیا لیکن حقیقتِ حال ابھی تک میرے لئے پردۂ غیب میں روپوش ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تم مجھے اس کی تفصیل سے واقف کرواؤ؟‘‘

جوزف نے جواب دیا۔ ’’ویسے تو میں واقعہ کو بھلا دینا چاہتا ہوں لیکن تمہارے اصرار پر آخری بار اسے سنائے دیتا ہوں۔‘‘

روزینہ نے کہا۔ ’’عطا ہو۔‘‘

جوزف نے کہا۔ ’’جب سے یہ مہم میرے حوالے کی گئی ہے، اچانک میرے اندر اپنے کسی قابل ہونے کے احساس نے جنم لیا۔ اس سے پہلے میں نے اپنے آپ کو اس زاویہ سے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں کوئی غیر معمولی کام کرنے جا رہا ہوں اور اس میں کامیابی کا حصول میرے لئے بہت ضروری ہے، گو کہ مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس کے باوجود میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس کی ایسی تیاری کروں گا جس سے ناکامی کے سارے امکانات مفقود ہو جائیں۔ سر واٹسن میری قابلیت کا لوہا مان لیں اور ڈیوڈ بھی میری برتری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائے۔ ان باتوں کے پیشِ نظر میں اس کام میں اس طرح منہمک ہوا کہ تمہاری جانب سے بھی بے پرواہ ہو گیا اور تمہیں نظر انداز کرنے لگا۔‘‘

’’ہاں جوزف۔۔۔ مجھے اس کا احساس ہے، لیکن افسوس بالکل بھی نہیں ہے۔‘‘ روزینہ بولی۔ ’’اس دوران مجھے تمہاری شخصیت کے ایک نئے پہلو کا انکشاف ہوا۔ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ تم زندگی کو نہایت ہلکے پھلکے انداز میں جینے کے قائل ہو اور کسی شہ کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا ضروری نہیں سمجھتے۔ لیکن اب مجھے پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ تمہاری محنت و مشقت، یکسوئی اور توجہ، ان چیزوں نے مجھے بے حد متاثر کیا اور مجھے اپنے شریکِ حیات پر فخر ہونے لگا۔‘‘

’’روزینہ سچ تو یہ ہے کہ اس سے قبل خود مجھے بھی اپنی ان صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہوا تھا۔ شاید زندگی نے جو مواقع میرے سامنے پیش کئے تھے وہ ان کے متقاضی ہی نہیں تھے۔ صبح اُٹھ کر دفتر جانا، وہاں پر کچھ روایتی قسم کی سرگرمیاں، شام میں سیر و تفریح اور پھر نیند کی آغوش، زندگی ان لگے بندھے کھونٹوں کے درمیان گردش کرتی رہتی تھی۔ کوئی چیلنج نہیں تھا جس سے نبرد آزما ہوا جاتا، جس میں کوئی کشمکش ہوتی، امتحان و آزمائش کا کہیں نام و نشان نہیں تھا اور فتح و کامرانی کا کوئی امکان نہ ہوتا تھا۔ میری زندگی کے لمحات گھڑی کے کانٹوں کی مانند اپنے مختصر سے محور کے گرد محوِ گردش رہتے تھے۔ زندگی گویا ایک بے منزل سفر کے مانند تھی۔ لیکن اس مہم نے میرے سامنے ایک ہدف رکھ دیا اور اس کو حاصل کرنے کی تڑپ نے میرے اندر ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔

اس اعتراف میں مجھے کوئی عار نہیں کہ ابتدا میں گھبراہٹ اور ڈر میرے دامنگیر ہو گئے اور یکبارگی میں نے سوچا کیوں نہ اس مصیبت سے دامن چھڑا کر پھر ایک بار موکیا کی پُرسکون زندگی کو گلے لگا لوں اور تمہارے ساتھ ون لینڈ چلا جاؤں۔ لیکن جب میں نے باز آبادکاری کی سر گرمیوں میں تمہارا انہماک دیکھا تو مجھے لگا مبادا میری یہ تجویز تمہاری طبیعت پر گراں گزرے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے تنہا ون لینڈ جانا پڑے۔ روزینہ سچ تو یہ ہے کہ دوبارہ ملنے کے بعد اب ایک لمحہ کے لیے بھی میں تم سے دُور نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس اُدھیڑ بن میں واپس جانے کا خیال میں نے اپنے دل سے نکال دیا اور اپنے آپ کو اس کام میں جھونک دیا۔ جیسے جیسے میں نے اس بابت معلومات حاصل کیں، میری دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ اب میں اس سے لطف اندوز ہونے لگا تھا۔

حصولِ معلومات کے بعد منصوبہ بندی کے مرحلے میں سر واٹسن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی نے مجھ پر جادو کر دیا۔ میں اچانک ایسا محسوس کرنے لگا کہ دُنیا کا سب سے زیادہ ذہین اور دانشمند انسان اگر کوئی ہے تو وہ جوزف گلاسگوف ہی ہے۔ انہوں نے جب میری ہمت بڑھانے کے لیے یہ کہا کہ جوزف، تم مقدر کا سکندر نہیں سکندر کا مقدر ہو۔ تم ساری دُنیا کو فتح کرنے کی قدرت رکھتے ہو، تو مجھے لگا کہ واقعی وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ اب میں اپنے منصوبے پر عمل درآمد کی مشق میں جٹ گیا اور زبردست تیاری کے ساتھ میکالو سے ملاقات کے لیے پہنچ گیا۔

میکالو سے ملنے کے چند ہی منٹ بعد سارا معاملہ اُلٹ پلٹ گیا۔ جیکب نام کی آندھی اس سمت سے آئی جس کا مجھے گمان بھی نہیں تھا۔ حالات کی ڈور میرے ہاتھوں سے نکل گئی اور میں ان پر قابو پانے کے بجائے ان کے قابو میں چلا گیا۔ اس کے بعد میں شکست و ریخت کی گہری کھائی میں تھا۔ جس بات کو مجھے آئندہ نشست میں کہنا تھا وہ میں اس وقت کہہ رہا تھا اور جن باتوں سے ابتدا کرنی تھی، وہ میرے ذہن سے محو ہو چکی تھیں۔ وہ سب کچھ جو میرے کمپیوٹر کی یادداشت میں محفوظ تھا مگر میرے دماغ سے نکل چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں ایک بے جان مشین سے بھی زیادہ حقیر تر ہوں، میں ایک نہایت ہی بے بس اور لاچار انسان ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ناکامی کے لیے میں بالکل بھی تیار نہ تھا۔‘‘

’’پھر وہی ناکامی!‘‘ روزینہ بولی۔ ’’مجھے بتاؤ کہ بالآخر ہوا کیا؟‘‘

’’بھئی آخر میں کیا ہوتا ہے، تم نہیں جانتیں ؟ ہم نے اپنی اگلی ملاقات کا وقت اور تاریخ طے کی اور جدا ہو گئے۔‘‘

’’اپنی دوسری نشست کے نکات تو تم نے اسی میں کہہ ڈالے تو گویا اب آئندہ میٹنگ میں تم اس سے وہ باتیں کرو گے جو تمہارے منصوبے کے مطابق تیسری نشست میں ہونی تھیں ؟‘‘

’’ہاں ! اب یہ میری مجبوری ہے، بلکہ وہ باتیں بھی جو پہلی نشست میں کرنی تھیں۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’تم جسے مجبوری گردانتے ہو، میں اُسے خوش قسمتی سمجھتی ہوں۔ میرے خیال میں تو تم نے ایک ہی جست میں ایک کے بجائے دو مراحل عبور کر لئے۔‘‘

’’کیا مطلب؟ میں نہیں سمجھا!‘‘

’’میرا مطلب یہ ہے کہ تم یہی ساری باتیں دوسری نشست میں کرتے تو انجام کیا ہوتا؟‘‘

’’یہی کہ ہم تیسری ملاقات کا وقت اور مقام طے کرتے!‘‘

’’اور ایک خوشگوار ماحول میں ایک دوسرے کو خیر باد کہتے۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’اور اب بھی وہی ہوا۔‘‘

’’ہوا تو وہی۔‘‘ جوزف نے اعتراف کیا۔ ’’لیکن میرا وہ منصوبہ اور وہ تیاریاں، ان کا کیا؟‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جوزف۔۔۔ منصوبہ مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے، اپنے آپ میں کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ ہماری نگاہ مقصد پر ہونی چاہئے۔ حصولِ مقصد بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا منصوبے کے مطابق حاصل ہونا یا اس سے علی الرغم ثانوی درجے میں آتا ہے۔‘‘

’’روزینہ، تم کیسی بات کرتی ہو؟ انسان اگر کوئی منصوبہ کڑی محنت سے بنائے تو اس کی ناکامی پر افسوس کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔‘‘

’’جی نہیں ۔۔۔ تمہیں اپنے مقصد کے حصول پر خوش ہونا چاہئے۔ فرض کرو کہ سب کچھ تمہارے منصوبے کے مطابق ہوتا لیکن میکالو تمہاری اگلی ملاقات کی پیشکش کو ٹھکرا دیتا تو کیا تم اپنی کوشش کو کامیاب ٹھہراتے؟‘‘

’’نہیں، لیکن اگر سب کچھ میرے منصوبے کے مطابق ہوتا تو میکالو کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ انکار کر پاتا۔‘‘

’’اچھا! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میکالو مکمل طور پر تمہارے اختیار میں ہو جاتا یا تم اسے مسمیرائز (مسحور) کر کے جو مرضی ہو وہ کروا لیتے؟‘‘

جوزف اس سوال پر ٹھٹک گیا۔ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

روزینہ بولی۔ ’’جوزف، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں خود اپنے آپ پر بھی مکمل اختیار حاصل نہیں ہے۔ جیساکہ تمہارے ساتھ ہوا۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ کوئی اور اس کے سوا کچھ اور کر ہی نہیں سکتا کہ جو ہم چاہتے ہیں، کیا ایک بچکانہ خیال نہیں ہے؟‘‘

جوزف بولا۔ ’’روزینہ! شاید تم صحیح کہہ رہی ہو۔ آج کے سانحہ سے میں نے یہی سیکھا ہے کہ ہم سب بے اختیار ہیں۔ کچھ بھی ہمارے اختیارِ عمل میں نہیں ہے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم منصوبہ بندی چھوڑ دیں اور یوں ہی اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دیں۔ خس و خاشاک کی مانند ہوا کے رُخ پر اُڑتے پھریں۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’قضا و قدر کے معاملے میں انسان بڑی آسانی سے افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ کبھی تو کامل اختیار کا زعم اور کبھی مکمل بے اختیاری کا غم۔۔۔ حالانکہ حقیقت ان دونوں کے درمیان میں کسی جگہ پائی جاتی ہے۔‘‘

’’اچھا، وہ کیسے؟‘‘ جوزف ہمہ تن سوال تھا۔

’’ہمیں منصوبہ بندی اور محنت و مشقت کا اختیار تو ہے اور اس کا بھرپور استعمال بھی ہونا چاہئے اور جو لوگ اپنی ان ذمہ داریوں سے نظریں چراتے ہیں وہ جرمِ عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ نتائج پر ہمارا اختیار نہیں ہے۔ اس لئے اپنی تمام تر کوشش کے باوجود جو نتیجہ سامنے آ جائے اس پر راضی رہنا اور اس کی روشنی میں آگے کی منصوبہ بندی کرنا یہی متوازن شیوۂ حیات ہے۔ یہ سوچنا کہ حالات کی ڈور تمہارے ہاتھ سے نکل گئی، تمہاری غلط فہمی ہے۔ یہ تمہاری خوش گمانی تھی کہ وقت کی لگام تمہارے ہاتھوں میں تھی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جو شہ ہاتھوں میں تھی ہی نہیں اس کے نکل جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ حالات کی باگ ڈور اگر خالقِ کائنات ہم جیسے انسانوں کے ہاتھوں میں دے دے تو یہ سارا نظام آناً فاناً درہم برہم ہو جائے۔ اس لئے کہ ہر انسان زمانے کے رتھ کو مختلف سمتوں میں ہانکنے لگ جائے گا۔ اس ڈور کا تو واحد ذاتِ والا صفات کے دستِ مبارک میں ہونا لازمی ہے اور اس کے اس فیصلے میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ یہی ہمارے لئے خیر و سلامتی کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔‘‘

روزینہ نے جوزف کی نام نہاد ناکامی کو کامیابی میں بدل دیا تھا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جو کسی بے روح شراب کے بس میں نہیں تھا۔ اس کے لیے تو زندہ اور بیدار قلب و ذہن درکار تھا۔ جوزف پھر ایک بار عزم و حوصلہ کے سرور میں مست ہو گیا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ انسان کی اصل جنگ کا میدانِ کارزار اس کا قلب و ذہن ہی ہوتا ہے۔ وہیں اسے فیصلہ کن فتح و شکست سے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کئی بار دوسروں سے جیت کر بھی خود سے ہار جاتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے تو دُنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کر سکتی۔

 

۲۰

ماضی سے دامن چھڑا کر جب جوزف نے مستقبل کی جانب دیکھا تو اسے چہار جانب جیکب ہی جیکب نظر آیا۔ وہ جیکب جو اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ وہ جیکب جس کے باعث اس کا سارا کیا دھرا خاک میں مل گیا تھا، وہ جیکب جس کے بارے میں جاننا بہت ضروری تھا۔ اس کے بغیر میکالو کے ساتھ آئندہ کوئی گفتگو ممکن نہیں تھی۔ جوزف نے اسی غرض سے ڈیوڈ کو فون لگایا اور پوچھا ’’یار یہ بتاؤ کہ جیکب کس بلا کا نام ہے؟‘‘

’’اوہو۔۔۔ تم نہیں جانتے، وہی اطالوی کھوسٹ بوڑھا جو ہمارے بیرن لینڈ آنے سے قبل ہی یہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس سے تو روزینہ بھی واقف ہے۔ میں نے سوچا اس نے تمہیں اس کے بارے میں بتلا دیا ہو گا۔‘‘

’’لیکن وہ تھا کون؟ مائک اس کے بارے میں بار بار پوچھے جا رہا تھا۔‘‘

’’جیکب یہاں موجود ہنڈالو قبیلہ کا سردار تھا۔‘‘

’’کیا؟ ہنڈالو لوگوں نے ایک اطالوی کو اپنا سردار بنا لیا تھا؟‘‘ جوزف نے حیرت سے پوچھا۔

’’ارے بھائی سردار کیا آقا سمجھ لو۔ یہ سارے ہنڈالو اس کے غلام تھے۔ میکالو کا باپ امنالو اس کا نائب ہوا کرتا تھا۔‘‘

’’اور یہ جنگالو کون ہے؟‘‘

’’جنگالو دوسرے نصف کا سردار تھا۔‘‘

’’یار ڈیوڈ۔۔۔ مجھے میکالو کے ساتھ بات کرنے سے قبل ان تمام تفصیلات کا جاننا بے حد ضروری ہے، ورنہ کام بگڑ سکتا ہے۔‘‘

’’میں تمہاری تائید کرتا ہوں۔ ان کے بارے میں جاننے کی ایک آسان ترکیب ہے۔ تم ’ادھورے خواب‘ نام کی فلم دیکھ لو۔۔۔! نہیں ۔۔۔ وہ تو مشکل ہے۔ تم ایسا کرو کہ اس کی کہانی پڑھ لو۔ سب معلوم ہو جائے گا۔‘‘

’’لگتا ہے ڈیوڈ تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔ لیکن میں سنجیدہ ہوں۔‘‘

’’نہیں جوزف۔۔۔ یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ سر واٹسن نے ایک مؤرخ کو بڑی خطیر رقم دے کر ہنڈالیوں پر تحقیق کروائی تھی۔ یہ اسی کے نتیجے میں تیار کی جانے والی حقائق پر مبنی دستاویز ہے۔‘‘

’’اچھا، اگر ایسا ہے تو اسے شائع کیوں نہیں کرایا جاتا؟‘‘

’’اس کے سارے حقوق سر واٹسن کے نام محفوظ ہیں اور اپنے تجارتی مفادات کے تحت اسے راز میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’اگر یہ سب راز کی باتیں ہیں تو ان تک میری رسائی کیسے ہو سکے گی؟‘‘

’’بھئی یہ راز داری عام لوگوں سے ہے۔ ہمارے لئے تو پراجیکٹ کے لیے حاصل علمی سرمایہ ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ سر واٹسن سے اجازت لے کر اس تحقیق کا خلاصہ تمہیں ای۔میل سے روانہ کر دیتا ہوں۔ مختصر میں ساری اہم باتوں کا ادراک تمہیں ہو جائے گا اور کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے یا سر واٹسن سے پوچھ لینا۔‘‘

’’دیکھو، دو دن بعد میری میکالو سے آئندہ ملاقات ہے۔ اس لئے فوراً وہ دستاویز ای۔میل کر دو۔ ٹھیک ہے، شکریہ، خدا حافظ۔‘‘

جوزف کو پریشان دیکھ کر ڈیوڈ کو مزہ آ رہا تھا۔ وہ بولا۔ ’’یار کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ تو بتاؤ کہ تمہاری میکالو کے ساتھ پہلی ملاقات کیسی رہی؟‘‘

جوزف چوکنا ہو گیا۔ ایک غلطی تو وہ کر چکا تھا لیکن دوسری نہیں کرنا چاہتا تھا۔

’’ٹھیک ہی سمجھ لو۔ پہلی ہی ملاقات سے بہت زیادہ توقعات کو وابستہ کر لینا مناسب نہیں ہے۔ یہ سمجھ لو کہ ٹھیک۔۔۔ میرا مطلب ہے نہ بہت زیادہ اچھی اور نہ بہت خراب۔‘‘

حالانکہ یہ ایک جھوٹ تھا۔ باوجود اس کے روزینہ نے وقتی طور پر اُسے قائل کر دیا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ منصوبے کی روشنی میں وہ ایک ناکام ترین اقدام تھا۔ لیکن جوزف اس کا علی الاعلان ماتم کر کے اپنی رسوائی میں مزید اضافہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے اپنی ناکامی کو سینے میں دفن کر دیا تھا اور ان گڑے مردوں کو دوبارہ اُکھاڑنا نہیں چاہتا تھا۔

کچھ دیر کے بعد جوزف کے میل باکس میں ڈیوڈ کا میل آ دھمکا تھا جس میں لکھا تھا۔۔۔ ’’نیک خواہشات کے ساتھ تمہارا دوست ڈیوڈ‘‘ اور ساتھ ہی تحقیقی رپورٹ کا خلاصہ بھی منسلک تھا جس کی شاہ سرخی تھی۔۔۔ ’’ادھورے خواب‘‘ اور نیچے درج تھا ’’ادھورے خوابوں کا لامتناہی نامکمل سلسلہ‘‘۔ ڈیوڈ جب میل بھیج رہا تھا تو لوینا کسی کام سے اس کے کمرے میں آئی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئی کہ صاحب بہت زیادہ خوش ہیں۔ اس نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے عالی جناب! بڑے پُرمسرت دکھلائی دے رہے ہیں ؟‘‘

سچ تو یہ ہے جب سے جوزف پراجیکٹ میں شامل ہوا تھا آج پہلا موقع تھا جب ڈیوڈ کے چہرے پر مسکراہٹ دکھلائی دی تھی۔

ڈیوڈ نے جواب دیا۔ ’’نہیں، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ بس یوں ہی۔‘‘

’’سر! آپ اگر مجھے نہیں بتلانا چاہتے تو کوئی بات نہیں لیکن یہ تو صحیح نہیں ہے کہ آپ سرے سے خوشی کا انکار ہی کر دیں۔ میں کہاں اس میں سے کوئی حصہ مانگنے والی ہوں اور آپ کو تو پتہ ہی ہو گا کہ خوشی بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے۔‘‘

’’ہاں لوینا۔۔۔ تمہاری بات صحیح ہے۔ لیکن ہر خوشی کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایک ہی خبر کسی کے لئے خوشی تو کسی اور کے لیے غم کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے خوشی بانٹنے میں بھی تھوڑی بہت احتیاط لازمی ہے۔‘‘

’’لیکن مجھ جیسی بے صبر عورت کو اگر پتہ چل جائے کہ کوئی خوش ہے تو اُسے اُس وقت تک چین نہیں ملتا جب تک کہ وہ خود بھی اسے جان نہیں جاتی۔۔۔ اور پھر آپ کو پتہ ہی ہو گا چونکہ میں سر واٹسن کی سکریٹری ہوں، اس لیے کوئی بات مجھ سے زیادہ دیر تک چھپی بھی نہیں رہ سکتی۔‘‘

’’ہاں ! مجھے پتہ ہے لوینا۔ لیکن اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب آیا ہے اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی دال آٹے کا بھاؤ پتہ چل جائے گا۔‘‘

’’سر! میں کچھ سمجھی نہیں ! آپ تو پہیلیاں بجھوا رہے ہیں۔‘‘

’’یہی سمجھ لو۔ میں اب گھر جا رہا ہوں۔ کوئی ضروری کام ہو تو بتلا دینا۔‘‘

’’لیکن سر وہ بات۔۔۔؟‘‘

’’اس کا تمہیں جلد ہی پتہ چل جائے گا۔ تم صاحب کی سکریٹری جو ہو۔ دھیرج رکھو۔‘‘ ڈیوڈ اُٹھ کر دفتر سے باہر چلا گیا اور لوینا اپنے کمرے کے اندر آ کر سوچنے لگی، ’’کیا بات ہے جس نے ڈیوڈ کو اس قدر شادماں کیا ہے؟‘‘ اس کی انگلیاں بے ساختہ روزینہ کا نمبر لگانے لگیں۔ جیسے ہی روزینہ کی آواز آئی۔

’’ہیلو لوینا۔۔۔ بولو کیسی ہو؟ تمہیں ہماری یاد کیسے آ گئی؟‘‘

’’بس یوں ہی۔۔۔ سوچا خیریت معلوم کر لوں۔ سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘

’’ہاں سب ٹھیک ہے، بہت بڑھیا۔ تم بتاؤ جزیرے کے کیا حالات ہیں ؟ سر واٹسن کیسے ہیں ؟

’’سر واٹسن اور ان کا جزیرہ دونوں حسبِ معمول ہیں۔ یہاں تو کوئی خاص بات نہیں۔‘‘

’’خیریت معلوم کرنے کا شکریہ۔ سر واٹسن اور کنگالو سے بھی اگر ملاقات ہو جائے تو میرا سلام کہہ دینا۔‘‘

’’جی ہاں۔ یہاں ڈیوڈ بھی آپ لوگوں کو بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘ لوینا نے کریدنے کی غرض سے پوچھا۔

’’بہت خوب۔۔۔ میں تو اُنہیں بھول ہی گئی تھی۔ اُن سے بھی ہمارا سلام کہہ دینا۔‘‘

’’جی شکریہ۔ اپنا اور اپنے ان کا خیال رکھنا۔‘‘ یہ کہہ کر لوینا نے فون بند کر دیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ سب خیریت بھی ہے اور ڈیوڈ خوش بھی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ روزینہ اسے بے وقوف بنا رہی ہے؟ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈیوڈ کسی غلط فہمی کا شکار ہو گیا ہے؟ ان دونوں کے علاوہ اور کوئی متبادل لوینا کو سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے سوچا، ’’چھوڑو بلاوجہ کی کھوج بین سے کیا فائدہ۔ سرواٹسن تو جزیرے پر ہیں نہیں، ڈیوڈ اپنے گھر جا کر شراب پی رہا ہے۔ اس لئے دفتر میں بیٹھ کر وقت ضائع کرنے سے اچھا ہے گھر جا کر ٹی۔وی دیکھا جائے۔‘‘ لوینا نے اپنا کمپیوٹر بند کیا اور گھر کی جانب چل پڑی۔

ہفتہ کی رات جب جوزف اور میکالو ملے تو جوزف نے پوچھا۔ ’’میکالو! تم نے مجھے کھانے کی دعوت تو دے دی لیکن اس کا وقت نہیں بتایا۔‘‘

’’جی ہاں ۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہماری گفتگو کتنی دیر چلے گی۔‘‘

’’اچھا یہ بتاؤ کہ تم عام طور پر رات کا کھانا کس وقت کھاتے ہو؟‘‘

’’کوئی طے نہیں ہے۔ ۸؍ سے ۱۰؍ کے درمیان کسی بھی وقت۔‘‘ میکالو نے جواب دیا۔

’’اگر ایسا ہے تو کافی پی کر اپنی بھوک خراب کرنے کے بجائے کیوں نہ ہم کسی طعام گاہ میں چل کر کھانا کھائیں، ساتھ ساتھ بات چیت بھی ہوتی رہے گی۔‘‘

’’یہ تجویز بہت مناسب ہے۔ اس میں وقت اور بھوک دونوں کا فائدہ ہے۔‘‘ میکالو نے کہا۔

’’وقت کی بات تو سمجھ میں آئی، لیکن بھوک والی نہیں۔‘‘

’’آپ ہی نے تو کہا تھا کہ بھوک خراب کرنے کے بجائے۔۔۔‘‘ اور اسی کے ساتھ دونوں کھلکھلا کر ہنس دئیے۔

میکالو نے پوچھا۔ ’’آپ کیسا کھانا پسند کریں گے؟‘‘

’’اچھا اور ذائقہ دار۔‘‘ جوزف نے جواب دیا۔

’’نہیں ۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کسی خاص قسم کا کھانا آپ کو پسند ہے یا ناپسند ہے۔‘‘ میکالو نے پوچھا۔

’’دیکھو۔۔۔ مجھے اپنی مذکورہ شرائط کے ساتھ سب چلتا ہے۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو اطالوی کھانا کھاتے ہیں۔ سارے یوروپ میں ان سے اچھا کھانا بنانا اور پروسنا کوئی نہیں جانتا۔‘‘

جوزف نے پھر سوال کیا۔ ’’کھانے والی بات تو ٹھیک ہے، لیکن یہ پروسنے کا معاملہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا؟‘‘

میکالو بولا۔ ’’میرے خیال میں کھانا بنانا جس قدر اہم ہے، اس کا پروسنا بھی اس سے کم اہم نہیں ہے۔ ہم اِل پلازو ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں جو اِس علاقے کی سب سے بہترین اطالوی طعام گاہ ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نام کا اطالوی ریسٹورنٹ نہیں ہے بلکہ اس کے مالک سے لے کر باورچی اور بیرے تک سب کا تعلق اٹلی سے ہے۔ وہاں کا تمام فرنیچر، برتن، آرائش و زیبائش بھی اطالوی ہے۔ آپ موسیقی سنیں تو اطالوی اور شراب منگوائیں تو وہ بھی اٹلی سے درآمد کردہ۔۔۔ گویا ایک ننھا منا اٹلی یہاں آباد ہے۔‘‘

’’جیسے ایک ننھا سا افریقہ بیرن لینڈ میں بسا ہوا ہے۔۔۔‘‘ جوزف نے بات بڑھائی۔ ’’۔۔۔لیکن ان لوازمات کے باعث یہ مہنگا بھی بہت ہو گا۔‘‘

’’سو تو ہے۔ ویسے بھی اٹلی کے لوگ ’کھاؤ پیو اور موج کرو‘ کے قائل ہیں۔ وہ اچھا کھاتے ہیں اور اس پر خرچ کرنے میں بخالت نہیں کرتے۔ لیکن اِل پلازو کی ایک اور خاص بات ہے۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’یہاں اگر آپ کھانے کا آرڈر اطالوی زبان میں دیتے ہیں تو ۱۰؍ فیصد رعایت کے حقدار بن جاتے ہیں اور اگر شراب بھی اطالوی میں منگواتے ہیں تو ۲۰؍ فیصد کی رعایت مل جاتی ہے۔‘‘

’’لگتا ہے اس کا مالک بڑا قوم پرست محبِ وطن آدمی ہے۔‘‘

’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ سب گاہکوں کو رجھانے کے چونچلے ہیں۔ اس ریسٹورنٹ کا نرخ دیگر ہوٹلوں سے ۵۰؍ فیصد زیادہ ہے اور شراب پر تو اس کا منافع ۱۰۰؍ فیصد ہے۔ اب اگر اس میں دس بیس فیصد گاہکوں کو لوٹا دیا جائے تو کوئی خسارے کا سودہ تو نہ ہوا؟‘‘

’’لیکن یار میکالو۔۔۔ ہم آدھے گھنٹے سے سڑک ناپ رہے ہیں۔ یہ تمہارا اِل پلازو اٹلی میں تو نہیں ہے؟‘‘ جوزف نے ہنس کر پوچھا۔

’’لگتا ہے آپ کو بھوک زوردار لگی ہے۔ پہلے تو کافی کا پتہ کٹا، اب تاخیر کی شکایت۔ لیکن پریشان نہ ہوں ۔۔۔ وہ سامنے ہے اِل پلازو۔ آپ اپنی گاڑی کہیں بھی پارک کر دیں۔‘‘ جوزف نے اپنی کرائے کی کار کو کھڑا کر دیا اور وہ دونوں اپنے لئے مختص شدہ میز پر آئے۔ میکالو نے چلتے ہوئے میز ریزرو کرا دی تھی۔ میکالو نے اطالوی زبان میں سلام کا جواب دیا، گویا اور دس فیصد ڈسکاؤنٹ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد جوزف سے بولا۔ ’’آپ مہمان ہیں اور وہ بھی میری جائے پیدائش بیرن لینڈ کے معزز مہمان۔ اس لئے کھانا پسند کرنے کا حق آپ کو ہے؟‘‘

’’جی نہیں ۔۔۔ مجھے اطالوی کھانوں کی معلومات کم ہے اور تمہارا بچپن اٹلی میں گزرا ہے، اس لئے میں اپنے اس حق سے تمہارے حق میں دستبردار ہوتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کے لئے تم زیادہ مناسب آدمی ہو۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں بچپن ہی سے ان کھانوں کا شوقین رہا ہوں۔ جیکب انکل کا ایک باورچی ہوتا تھا مارٹن۔۔۔ کیا عمدہ کھانا بناتا تھا صاحب۔۔۔ مارٹن کا جواب نہیں، اور کسی خاص موقع پر جب آنٹی جی خود کھانا بناتیں تو مت پوچھو کیا ذائقہ، کیا خوشبو اور کیا نفاست۔ آج بھی جب اس کا خیال آتا ہے تو موڈ بن جاتا ہے۔‘‘

جیکب نے دیکھا کہ بات گھوم پھر کر جیکب کی جانب جا رہی ہے، اس لئے وہ اسے موڑ کر سر واٹسن اور ان کے منصوبے کی جانب لے آیا اور بولا۔ ’’تمہارا یہ ذوقِ لطیف یقیناً بیرن لینڈ میں پیش نظر سیر و سیاحت کے کاروبار کے لیے بہت معاون و مددگار ہو گا۔ میں نے پچھلے آدھے گھنٹے میں اندازہ لگا لیا ہے تمہاری نگاہ ان مہین چیزوں پر بھی بڑی گہری ہے جن کا ادراک ہم جیسے کندۂ نا تراش لوگوں کو نہیں ہو پاتا۔ مجھے یقین ہے کہ بیرن لینڈ کے اندر تمہاری نگرانی میں جو اطالوی ریسٹورنٹ بنے گا، اس میں کھانا کھانے کی خاطر اٹلی سے بھی شوقین لوگ تشریف لائیں گے اور وہ دُنیا کی مقبول ترین طعام گاہوں میں سے ایک ہو گا۔‘‘

میکالو اپنی تعریف سن کر خوش ہو گیا۔ کھانے کے دوران جوزف نے بڑی تفصیل کے ساتھ نہایت مؤثر انداز میں پراجیکٹ کو پیش کیا۔ میکالو نہایت انہماک کے ساتھ سن رہا تھا اور درمیان میں سوالات بھی کرتا جاتا تھا۔ جوزف نے بڑی خوبی کے ساتھ تمام اشکالات کی وضاحت اور کھانے کے ساتھ ساتھ ان کی گفتگو بھی اختتام کو پہنچی۔ جوزف نے آخر میں پوچھا۔ ’’میکالو، میں تو بہت کچھ بول چکا۔ اب تم بتاؤ کہ کیا سوچتے ہو؟‘‘

میکالو بولا۔ ’’یہ ایک یقیناً نہایت ہی وسیع و عریض بلکہ دیو ہیکل پراجیکٹ ہے۔ اس میں مجھ جیسا کم عمر اور نا تجربہ کار آدمی کیا کر سکے گا، یہ اہم سوال ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی ایسی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لوں جسے سہار نہ سکوں۔ اس لیے کہ اس کا نتیجہ سوائے بدگمانی اور مایوسی کے کچھ اور نہیں ہو گا۔ اسی کے ساتھ میری ناکامی میرے قبیلے کی بدنامی کا سبب بھی بنے گی جو میں ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

میکالو کے منہ سے نادانستہ طور پر جوزف کے دل کی بات نکل گئی جسے وہ ابھی تک بیان نہیں کر پایا تھا۔ جوزف بولا۔ ’’تمہارے دونوں اندیشوں کی حقانیت کو میں تسلیم کرتا ہوں۔ جہاں تک ہنڈالو قبیلے کی بدنامی کا امکان ہے، یہ بھی تو سوچو کہ تمہاری کامیابی سے تمہارے قبیلے کا نام ساری دُنیا میں روشن ہو جائے گا۔ لوگ وہاں آ کر نہ صرف ہنڈالو تہذیب و تمدن کا مشاہدہ کریں گے بلکہ تمہاری صلاحیت کا بھی لوہا مان لیں گے، اور اس کامیابی میں سارے قبیلے کی شراکت داری، جیسے تم کروا سکو گے، وہ کسی اور کے بس کی بات نہ ہو گی۔ مجھے یقین ہے اس پراجیکٹ کے اختتام پر ہنڈالو قبیلے کے لوگ نہ صرف بیرن لینڈ بلکہ تم پر بھی فخر کریں گے۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’آپ مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’نہیں ۔۔۔ تم نے صرف میرا نصف جواب سنا ہے۔ تمہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں تمہارا شریک دُنیا کے کامیاب ترین سرمایہ داروں میں سے ایک سر واٹسن ہوں گے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ انہوں نے موکیا کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ان سے پہلے موکیا کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس کی حیثیت ون لینڈ کی ایک گھریلو صنعت سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے اسے خرید کر مواصلات کے شعبہ میں دُنیا کی نمبر ایک کمپنی بنا دیا۔ آج بچہ بچہ موکیا کے نام سے واقف ہے۔ ان کی فلم کمپنی موکیا موشن پکچر کی فلم ’’ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ کو دو سال قبل پانچ آسکر ایوراڈس مل چکے ہیں۔ اس لیے کوئی بعید نہیں کہ بیرن لینڈ بھی یوروپ کا سب سے بڑا سیاحتی مرکز بن جائے۔ سر واٹسن جتنے کامیاب تاجر ہیں، اتنے ہی اچھے انسان بھی ہیں۔ تم کو ان کے ساتھ کام کرنے میں بہت مزہ آئے گا۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’جوزف صاحب۔۔۔ مجھے آپ کی ساری باتیں معقول معلوم ہوتی ہیں اور میں آپ کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس کے باوجود یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اتنا بڑا فیصلہ مجھے خوب غور و خوض کے بعد کرنا چاہئے۔ اس پراجیکٹ کے حوالے سے میری معلومات ایک نشست تک محدود ہے۔ اگر اس کی مزید تفصیلات آپ کے پاس تحریری شکل میں موجود ہوں تو ضرور روانہ کریں۔ میں اس کا بھی مطالعہ کرنا چاہوں گا۔۔۔ اور ویسے بھی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر میکالو رُک گیا۔

جوزف نے پوچھا۔ ’’ویسے بھی کیا؟‘‘

’’میرا مطلب ہے ایک طویل عرصہ سے میرا رابطہ بیرن لینڈ سے منقطع ہے اور میرا ارادہ وہاں لوٹنے کا تھا بھی نہیں۔ لیکن ممکن ہے آپ کی گفتگو کے باعث اس میں کوئی تبدیلی واقع ہو جائے۔ میں کہہ نہیں سکتا۔‘‘

جوزف نے سوال کیا۔ ’’اگر تم بُرا نہ مانو تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ تم نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا منصوبہ بندی کر رکھی؟ ویسے یہ بڑا ذاتی نوعیت کا سوال ہے۔ تم اگر چاہو تو اس کا جواب نہ دو۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’کوئی خاص نہیں۔ میری منگیتر ایمیلی فرانس کے ایک بڑے صنعت کار کی بیٹی ہے۔ ہم دونوں شادی کے بعد پیرس میں جا کر بسنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مگر۔۔۔‘‘

’’مگر کیا؟‘‘

’’میں سوچوں گا اور پوچھوں گا۔‘‘

’’کس سے؟‘‘

’’اپنی منگیتر ایمیلی سے اور کس سے؟‘‘

’’اور اگر اس نے بیرن لینڈ آنے سے انکار کر دیا تو؟‘‘ جوزف کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔

’’اگر ایسا ہوا تو میں پھر سوچوں گا۔‘‘

جوزف نے مزید سوالات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ بولا۔ ’’مائی فرینڈ مائک، تم ایک نہایت سنجیدہ اور سمجھدار انسان ہو۔ ہر کام سوچ سمجھ کر کرتے ہو اور یہ یقیناً بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن اتنا یاد رکھو کہ وقت اور موقع کبھی بھی کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ صحیح وقت پر کیا جانے والا صحیح فیصلہ ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ ورنہ جو مواقع ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، وہ اپنے پیچھے احساسِ زیاں کے علاوہ کچھ اور نہیں چھوڑتے۔‘‘

میکالو بولا۔ ’’جوزف صاحب، میں آپ کی اس نصیحت اور خیر خواہی کی قدر کرتا ہوں۔‘‘ جوزف نے میکالو کو واپس اس کے گھر کے قریب چھوڑا اور نکلتے ہوئے اس کا ای۔میل پتہ بھی لے لیا ’’میکالو ہنڈالو@ہاٹ میل ڈاٹ کام۔‘‘ دونوں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا، رابطہ میں رہنے کا یقین دلایا اور جدا ہو گئے۔ مستقبل کے منصوبے کے حوالے سے میکالو نے اپنے جواب میں ’’ہے‘‘ کے بجائے ’’تھا‘‘ کا استعمال کیا تھا اور یہی جوزف کے لیے اُمید کا روشن چراغ تھا۔

 

۲۱

برطانیہ میں جوزف کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا تھا اور اب اسے بیرن لینڈ واپس جانا تھا۔ وقتِ مقررہ پر اُن کی گاڑی لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ پر پہنچ گئی اور اب وہ مانیٹر پر بیرن لینڈ فلائٹ کے لیے کاؤنٹر نمبر تلاش کر رہا تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اسکرین پر بیرن لینڈ کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ اس نے روزینہ سے پوچھا۔ ’’کہیں ہماری فلائٹ نکل تو نہیں گئی؟ جہاز کا کیا وقت تھا؟‘‘

’’نہیں ۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم لوگ تین گھنٹے قبل آئے ہیں۔ ممکن ہے تاخیر سے چل رہی ہو۔‘‘

’’لیکن یہاں تو اگلے آٹھ گھنٹے کی فلائٹس کی اطلاع موجود ہے۔ ان میں بیرن لینڈ جانے والا کوئی جہاز نظر نہیں آتا۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ جہاز کہیں اور سے ہو کر جا رہا ہو۔ میں ٹکٹ دیکھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر روزینہ نے اپنے بیگ سے ٹکٹ نکالا۔ اس پر پہلی سطر میں لندن سے ویانا لکھا ہوا تھا اور دوسری میں ویانا سے بیرن لینڈ۔ بات سمجھ میں آ گئی۔ وہ دونوں ویانا کے کاؤنٹر پر پہنچ گئے۔ روزینہ نے پاسپورٹ اور ٹکٹ کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون کو دئیے۔ جوزف نے بیلٹ پر سامان رکھتے ہوئے گزارش کی کہ ہمیں دونوں بورڈنگ کارڈ ایک ساتھ دے دئیے جائیں تاکہ درمیان میں سامان لینے اور جمع کرنے کی زحمت نہ ہو۔‘‘

کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی نے کہا۔ ’’جناب! آپ کی دونوں بکنگ کے درمیان ایک عشرہ یعنی دس کا وقفہ ہے۔ کیا آپ کو آئندہ دس دنوں تک اس سامان کی ضرورت نہیں ہے؟‘‘

جوزف نے حیرت سے کہا ’’کیا؟ ایک عشرہ۔ آپ کا دماغ تو نہیں خراب ہے؟‘‘

وہ لڑکی مسکرا کر بولی۔ ’’جناب آپ کے اس الزام کی تصدیق تو کوئی ماہرِ نفسیات ہی کر سکتا ہے۔ لیکن میں تو وہ پڑھ رہی ہوں جو آپ کے ٹکٹ پر لکھا ہے اور شاید میری بینائی ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘

روزینہ کو اس خاتون کے لب و لہجے پر حیرت ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر ان کے پاس فرسٹ کلاس کے بجائے اکانامی کلاس کا ٹکٹ ہوتا تو کیا اس صورت میں بھی یہ محترمہ جوزف کی جھڑکی برداشت کر جاتی؟ اسے ڈیوڈ کا کہا ہوا ایک جملہ یاد آ گیا۔۔۔ ’’دولت کا رعب اچھے اچھوں کو مہذب بنا دیتا ہے۔‘‘ آج وہ اس مقولے کی عملی تفسیر دیکھ رہی تھی۔ روزینہ نے کہا۔ ’’ہمیں پتہ ہے کہ یہ جہاز براہِ راست بیرن لینڈ نہیں بلکہ ویانا سے ہو کر جا رہا ہے۔ لیکن یہ ایک عشرہ۔۔۔؟‘‘

’’جی ہاں میڈم، آپ نے ٹکٹ کو دیکھا، لیکن اس پر لکھی تاریخوں پر غور نہیں کیا۔ آپ کی بکنگ کے مطابق فی الحال آپ لوگ ویانا ضرور جا رہے ہیں لیکن وہاں سے دس دن بعد آگے جائیں گے۔‘‘

جوزف کا غصہ ہنوز کم نہ ہوا تھا۔ وہ بولا۔ ’’کس احمق نے یہ بکنگ کر دی؟ ہم لوگ ویانا میں اتنے دن کیا کریں گے؟‘‘

اس خاتون نے مسکرا کر روزینہ کی جانب دیکھا اور بولی۔ ’’معاف کیجئے، بکنگ کرنے والے کی تفصیل سے تو میں ناواقف ہوں۔ اب آپ مجھے یہ بتلائیں کہ میں کیا کروں ؟ اس لیے کہ مجھے اور مسافروں کی بھی خدمت کرنی ہے۔‘‘

’’آپ یہ کریں کہ میری اگلی بکنگ تبدیل کر دیں اور جلد از جلد بیرن لینڈ پہنچانے کا اہتمام کریں۔ اس لیے کہ وہاں بہت سارے ضروری کام ہیں جو مجھے جلد از جلد نبٹانے ہیں۔‘‘ جوزف نے کہا۔

’’ٹھیک ہے، میں اگلے جہاز کا پتہ کرتی ہوں۔‘‘ اس نے کمپیوٹر میں جانچ کر کے بتلایا کہ ’’ویانا سے بیرن لینڈ کے لئے اگلی فلائٹ کل شام سات بجے ہے۔ اس لیے کم از کم ایک رات تو آپ کو ویانا میں گزارنی ہی ہو گی۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ اور یہاں سے بیرن لینڈ کے لیے کوئی براہِ راست جہاز نہیں ہے؟‘‘ جوزف نے سوال کیا۔

’’کیوں نہیں۔‘‘ وہ مسکرا کر بولی۔ ’’لندن سے بیرن لینڈ کے لیے ہفتے میں صرف دو فلائٹس ہیں۔ ایک کل روانہ ہو چکی ہے اور دوسری دو دن بعد جائے گی۔‘‘

’’یہ کیا پاگل پن ہے؟‘‘ جوزف نے پھر جھنجلا کر کہا۔

اب روزینہ کے لیے یہ معاملہ برداشت سے باہر ہو گیا۔ وہ بولی۔ ’’جوزف، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کس جنون میں مبتلا ہو اور اس بے چاری پر برسے جا رہے ہو، جو ہم سے ہر ممکن تعاون کر رہی ہے۔ نہ اس بکنگ میں اس کا کوئی قصور ہے اور نہ وہ جہازوں کا نظام الاوقات طے کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے باوجود تم اس پر بگڑتے چلے جا رہے ہو۔‘‘ جوزف کچھ نرم پڑا۔

وہ خاتون بولی۔ ’’میں آپ کی پریشانی سمجھتی ہوں۔ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے اور پھر یہ تو میری ذمہ داری ہے جسے میں ادا کر رہی ہوں۔ اس کی مجھے تنخواہ ملتی ہے۔‘‘

فرسٹ کلاس کا یہ کاؤنٹر خالی پڑا تھا، اس لیے کہ بزنس کلاس کے لوگوں کے پاس اتنی جلدی آنے کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا اور پھر ان کی ٹھاٹ باٹ بھی اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ جوزف فون پر دفتر سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس بیچ روزینہ اور اُس کاؤنٹر کلرک کو گپ شپ کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا۔ روزینہ بولی۔ ’’میرا خیال ہے آپ کو کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے، مگر کسی کی بلاوجہ ڈانٹ سننے کی نہیں۔‘‘

’’نہیں، ایسا نہیں ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’کام تو سبھی کرتے ہیں لیکن سبھی کو یکساں معاوضہ نہیں ملتا۔ جس کو زیادہ ملتا ہے اسے معمول کے علاوہ کچھ اضافی کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

’’مثلاً۔۔۔‘‘ روزینہ آہستہ سے بولی۔ ’’ان جیسے پاگلوں کی زیادتی کو برداشت کرنا؟‘‘

وہ بولی۔ ’’محترمہ آپ کی ہمدردی کا شکریہ، لیکن مجھ سے زیادہ قابلِ رحم تو آپ ہیں۔‘‘

روزینہ نے پوچھا۔ ’’میں ؟ یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟‘‘

اس نے نہایت دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’ابھی ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں اِن جیسے۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ سمجھ گئی ہوں گی لوگوں کو برداشت کرنے کی اضافی قیمت۔ میں اس قیمت کو چند لمحات میں چکا کر چھوٹ جاؤں گی، جبکہ آپ نے مستقل یہ روگ لگا رکھا ہے۔‘‘

روزینہ کو اس کی ظرافت پر ہنسی آ گئی۔ وہ بولی۔ ’’لیکن یہ بھی سمجھدار قسم کا مجنوں ہے۔ اپنی دیوانگی کا اظہار کرنے سے قبل مخاطب کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ اگر کہیں اس نے میرے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کر دیا تو تم جانتی ہو میں کیا کروں گی؟‘‘

’’جی ہاں کیوں نہیں، آپ وہی کریں گی جو میں کروں گی۔ روٹھ جاؤں گی، لڑوں گی، بھڑوں گی اور بالآخر اس کو اپنے کمرے سے باہر نکال دوں گی۔‘‘

روزینہ نے کہا۔ ’’جی ہاں، اُن کے لیے اس سے بڑی کوئی اور سزا نہیں ہو سکتی۔

’’جی ہاں آپ بجا فرماتی ہیں۔ لیکن اس سزا کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اسے دونوں فریق بھگتتے ہیں۔‘‘

’’دونوں فریق۔۔۔؟ میں سمجھی نہیں ؟‘‘

’’میری مراد سزا دینے والا اور سزا پانے والا۔۔۔ دونوں !‘‘

روزینہ کو یہ نقطہ پسند آیا۔ اُس نے کہا۔ ’’تم واقعی ایک نہایت ذہین عورت ہو۔‘‘

’’اس میں کون سی نئی بات ہے۔ عورت ذات تو ذہین ہوتی ہی ہے۔ وہ تو احمق مرد ہیں جو ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔‘‘

اب روزینہ کی باری تھی، وہ بولی۔ ’’اسی میں ہماری عافیت ہے کہ وہ ہمیں احمق سمجھتے رہیں اور خود احمقوں کی جنت میں کھوئے رہیں۔‘‘

روزینہ نے دیکھا جوزف اب بھی فون پر لگا ہوا ہے تو اس کی جانب آئی اور اشارے سے کہا۔ ’’فون مجھے دو۔‘‘

جوزف نے فون اُسے دے دیا۔ سامنے ڈیوڈ تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’آپ کیسے ہیں ؟‘‘

ڈیوڈ نے کہا۔ ’’میں تو اچھا ہوں لیکن تم اپنے صاحب کو سنبھالو۔ میں کسی میٹنگ میں تھا، اس بیچ اس نے نہ جانے کس کس کو پریشان کر دیا۔‘‘

’’جی سر۔۔۔ میں معذرت چاہتی ہوں۔ آپ اپنا کام کریں۔‘‘

’’میں کچھ دیر میں ٹکٹ بکنگ کی تفصیلات سے تمہیں آگاہ کرتا ہوں۔‘‘

’’جی نہیں سر، آپ زحمت نہ کریں اور اس معاملے کو بھول جائیں۔ میں سمجھ لوں گی۔‘‘

’’بہت خوب روزینہ۔۔۔ لگتا ہے لندن کے سفر کا تم دونوں پر اُلٹا اثر ہوا۔ تم جوزف بن گئیں اور جوزف روزینہ بن گیا۔‘‘

روزینہ سمجھ گئی کہ ڈیوڈ مذاق کر رہا ہے۔ اس نے کہا۔ ’’شکریہ جناب شکریہ۔‘‘

جوزف نے تنک کر پوچھا۔ ’’تم بھی عجیب عورت ہو۔ ڈیوڈ کو تفصیل بتانے سے کیوں منع کر دیا؟‘‘

’’اس لیے کہ وہ جس سے پوچھ کر بتائے گا، اس سے میں خود پوچھ لوں گی۔‘‘

’’تم پوچھ لو گی۔ میں نہ جانے کس کس سے اس کے بارے میں پوچھ چکا ہوں۔ کوئی سیدھے جواب ہی نہیں دیتا۔ نہ جانے کیوں آئیں بائیں شائیں کرتا رہتا ہے۔‘‘

’’میں جانتی ہوں۔‘‘

’’تم کیا جانتی ہو؟‘‘

’’یہی کہ اب لوگ تم سے ڈرنے لگے ہیں۔ اس لیے نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ اس کا کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ بولتا ہے کہ وہ نہیں جانتا۔‘‘

’’کیوں، کیا میں کوئی راکشس ہوں ؟‘‘

’’جی نہیں ۔۔۔ سر واٹسن سے تمہاری قربت نے لوگوں کو تم سے خوفزدہ کر دیا ہے بلکہ میرے خیال میں اب تو ڈیوڈ کا حسد بھی خوف میں بدل چکا ہے۔ ورنہ وہ تمہیں سفر کے متعلق معلومات فراہم کرنے کا یقین نہیں دلاتا۔‘‘

’’روزینہ ایسی بات نہیں ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے دفتر میں لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کس کا کیا کام ہے؟‘‘

’’شاید یہ بات تمہارے اپنے بارے میں بھی درست ہو۔ کیا تم جانتے ہو کہ ہمارے ٹکٹ بنانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟‘‘

’’نہیں میں نہیں جانتا؟‘‘

’’لیکن میں جانتی ہوں۔ میری عزیز سہیلی لوینا کا کام ہے کہ باز آبادکاری کے اہم لوگوں کے سفر کا اہتمام کرے۔‘‘

’’اچھا، تو یہ تمہاری سہیلی لوینا کی شرارت ہے۔ میں اسے ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر جوزف نے فون کی جانب ہاتھ بڑھایا۔

روزینہ بولی۔ ’’نا۔۔۔ نا۔۔۔ نا۔ یہ حماقت کبھی نہ کرنا۔ شاید تم نہیں جانتے کہ بیرن لینڈ کے اندر سر واٹسن کے بعد سب سے زیادہ طاقتور کون ہے؟‘‘

’’اگر لوینا بھی ہے تو اسے اس قسم کی شرارت کرنے کا اختیار کیسے حاصل ہو گیا؟‘‘

’’یہ شرارت نہیں ہو سکتی۔ لوینا اپنی مرضی سے اس قسم کی جرأت ہرگز نہیں کر سکتی۔ اس نے یقیناً سر واٹسن کی ہدایت پر یہ کیا ہو گا۔ میں اس سے بات کرتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر روزینہ نے فون لگایا اور بولی۔ ’’لوینا میں ۔۔۔۔۔۔‘‘

جملہ کٹ گیا۔۔۔ ’’روزینہ بول رہی ہوں۔ مجھے پتہ ہے اور تم ایئرپورٹ پر ہو، یہ بھی پتہ ہے۔ نیز تم نے کیوں فون کیا یہ بھی جانتی ہوں ؟‘‘

’’ارے بھئی لوگ صحیح کہتے ہیں ۔۔۔ لوینا کالا جادو جانتی ہے۔‘‘ فون اسپیکر پر تھا، جوزف بھی لوینا کی آواز سن رہا تھا۔ لیکن جوزف بکنگ کو لے کر بہت پریشان ہے، یہ معمہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

’’یہ کالا جادو نہیں لال جادو ہے۔ اس سے کہو پریشان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تم لوگوں کا ٹکٹ ناقابلِ تبدیل ہے۔ اس کی تاریخیں نہیں بدل سکتیں۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ ویانا چلے جاؤ۔‘‘

’’لیکن ویانا جا کر کیا کریں ؟ کیا کوئی نئی مہم؟‘‘

’’جی نہیں، سر واٹسن کے تحفہ والی بات تمہیں یاد ہے۔ دھیرج رکھو، جلد ہی تمہیں سب پتہ چل جائے گا۔ میری نیک خواہشات تم دونوں کے ساتھ ہیں۔‘‘

فون بند ہو گیا۔ جوزف نے پوچھا۔ ’’یہ کس تحفہ کی بات کر رہی تھی تمہاری سہیلی لوینا ؟‘‘

روزینہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ بولی۔ ’’کچھ بھی بولتی رہتی ہے یہ پاگل لوینا۔ چھوڑو اس کو اور ویانا چلو۔ لوینا کے مطابق ہمیں جلد ہی سر واٹسن سے آئندہ کے لیے ہدایات موصول ہو جائیں گی۔‘‘

جوزف نے کاؤنٹر پر موجود اہلکار سے کہا۔ ’’محترمہ میں معذرت چاہتا ہوں، آپ برائے کرم مجھے ویانا کا بورڈنگ کارڈ دے دیں۔‘‘

اس خاتون نے فوراً تیار شدہ کارڈ تھما دیا اور بولی۔ ’’آپ لوگ سوئس ائیر کے خصوصی لاؤنج میں آرام فرمائیں اور اُڑان کے اعلان کا انتظار کریں۔ فرسٹ کلاس کے مسافر سب سے آخر میں بلائے جائیں گے۔ آپ کا سامان جہاز پر جا چکا ہے۔ آپ کے خوشگوار سفر کے لیے ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘

’’ہماری اجازت کے بغیر ہی آپ نے ہمارا سامان بھجوا دیا، بڑی جرأت مند خاتون ہیں آپ؟‘‘

’’جی نہیں سر۔۔۔ ایسی بات نہیں۔‘‘

’’تو کیا انتریامی ہیں جو آگے کا حال جان لیتی ہیں ؟‘‘

’’نہیں سر۔۔۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ ہم تو مسافروں کے خادم ہیں۔ ان کے احکامات کی تعمیل کے لیے تعینات کئے گئے ہیں۔‘‘

’’لیکن تمہیں کس نے حکم دیا کہ بورڈنگ کارڈ تیار کر کے سامان جہاز پر لدوا دیا جائے۔‘‘

اس اہلکار نے دُور کھڑی روزینہ کی جانب اشارہ کیا۔ جوزف نے مڑ کر روزینہ کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی۔ وہ خوش ہو گیا کہ روزینہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے، حالانکہ وہ اس کے عقب میں بیٹھی اپنی نئی سہیلی کو دیکھ کر ہنس رہی تھی جو ہاتھ ہلا ہلا کر اسے مبارکباد اور اچھے سفر کی دُعائیں بھی دے رہی تھی۔

جوزف کے لیے ویانا شہر بالکل نیا تھا۔ وہ سویس ائیر لائنز کے پانچ ستارہ لاؤنج میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اجنبی شہر میں وہ کہاں جائے گا اور کیا کرے گا؟ روزینہ ڈیوٹی فری دُکانوں کی جانب نکل گئی تھی۔ وہ سوئزر لینڈ کے متعلق سیاحتی معلومات پر مبنی کتابیں خرید رہی تھی۔ ہر کتاب کے ساتھ ڈی۔ وی۔ ڈی بھی موجود تھی۔ معلومات کا عظیم خزانہ جس سے انسان کمپیوٹر کے ذریعہ مستفید ہو سکتا تھا۔ روزینہ جب لوٹ کر آئی تو دیکھا، جوزف اپنے اسمارٹ فون پر کوئی ای۔میل پڑھ رہا ہے۔ اس نے اپنا فون دیکھا تو اس پر بھی سرخ چراغ روشن تھا جو اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں سے فریاد کر رہا تھا کہ ’’مجھے دیکھو، میرے پاس تمہارے لئے ایک اہم پیغام ہے۔‘‘ روزینہ کو ایسا لگا کہ یہ جلتی بجھتی لال روشنی گویا خون کے آنسو ہیں جو اس وقت تک بہتے رہیں گے جب تک کہ وہ میل کو پڑھ نہیں لیتی۔ اس نے سوچا، یہ کیسی عجیب مخلوق ہے۔ پیغام کو پہنچانے کے لیے یہ کس قدر بے چین رہتی ہے۔ پیغام موصول ہو جانے کے بعد یہ اس وقت تک چین نہیں لیتی جب تک کہ اس کا مخاطب اسے وصول نہ کر لے یا مسترد نہ کر دے۔

روزینہ فون کے اِن بکس میں پہنچ گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ وہاں تازہ گلاب کے دو پھولوں کی تصویر ہے۔ اس نے جیسے ہی پھول کو کلک کیا فوراً خوشبو کی مانند پیغام نمودار ہو گیا۔

’’مبارک ہو بیٹی روزینہ۔۔۔ تم دونوں کو  ہنی مون بہت بہت مبارک ہو۔

گزشتہ دنوں تم لوگوں نے کمپنی کی خاطر جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، اس کے عوض میں چاہتا تھا کہ تمہیں کسی قیمتی تحفہ سے نوازوں۔ بڑے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ کیوں نا تمہیں ’’جنت‘‘ کا تحفہ دیا جائے کہ تم اسی کے مستحق ہو۔

مجھے یقین ہے کہ یہ ایک تمہاری زندگی کے سب سے یادگار لمحات پر مشتمل ہو گا۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ بھی بہت جلد گزر جائے گا، لیکن اس کی چاشنی کبھی بھی ختم نہ ہو گی۔ اس کی خوشبو تمہاری زندگی کو ہمیشہ معطر رکھے گی۔

میں تمہارے ان قیمتی لمحات میں سے ایک پل بھی چرانا نہیں چاہتا۔ یہ تمہارا وقت ہے۔ یہ تمہاری زندگی ہے۔ تم اس کے آقا ہو۔ تمہاری جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔تم جیسے چاہو، اس میں رہو۔ تمہیں کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔ ویانا ائیر پورٹ پر ہوٹل گرانڈ حیات کی لیموزین تمہاری منتظر ہو گی۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ!

خیر اندیش۔۔۔۔۔۔ واٹسن۔‘‘

روزینہ کی پلکیں فرطِ عقیدت سے نم ہو گئیں۔ اس نے جوزف کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا۔ روزینہ بولی۔ ’’سر واٹسن کتنے اچھے سرپرست ہیں۔‘‘

جوزف نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں۔‘‘

’’وہ ہمارا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔‘‘

’’ہاں، وہ بہت عظیم انسان ہیں۔‘‘ جوزف نے جواب دیا۔ ’’ویانا کی فلائٹ میں بزنس کلاس کے مسافروں کی خاطر آخری اعلان ہو رہا تھا۔

 

۲۲

گرانڈ حیات کے اہلکاروں نے خوبصورت گلدستہ کے ساتھ ویانا ایئرپورٹ پر جوزف اور روزینہ کا شاہانہ استقبال کیا۔ رولس رائس کار میں بیٹھ کر جب وہ لوگ ہوٹل پہنچے تو وہاں بینڈ باجے والے مدھم موسیقی کے ساتھ ان کا خیرمقدم کر رہے تھے۔ جوزف جب استقبالیہ کی جانب بڑھا تو ایک اسٹاف بولا۔

’’جناب! آپ کو اس کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے سوئیٹس میں چلیں۔ ہم وہیں آپ سے دستخط لے لیں گے۔‘‘

کوہِ آلپس کے دامن میں ننھی منی کوٹھیوں کے درمیان یہ بلند قامت عمارت ایک پہاڑ کی مانند کھڑی تھی۔ اس فلک بوس ہوٹل کی سب سے اُوپری منزل پر صرف ایک کمرہ تھا۔ اس کے باہر صحن، اس میں ایک چھوٹا سا باغیچہ، جس کے اندر ان کے اپنے لئے ایک سوئمنگ پول ایسا محسوس ہوتا تھا گویا آسمان کے اُوپر ایک جہانِ کامل ننھے سے گھونسلے کی مانند معلق ہے۔ جس میں دو کبوتروں کو لا کر آزاد کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف آزادی تھی اور دوسری جانب دلکشی۔ کوئی مجذوب ہی اس مجازی جنت سے آزادی کی جرأت کر سکتا تھا۔ جوزف اور روزینہ تمام تر آزادی کے باوجود آسائشوں کی طلائی زنجیر میں جکڑ دیے گئے تھے۔

ابھی یہ دونوں پرندے سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ ایسا محسوس ہوا گویا ہزاروں گھنٹیاں ایک ساتھ بج رہی ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ تھی وہ نہایت مدھم سُر میں بج رہی تھیں، کہیں کوئی شور نہیں تھا۔ جوزف نے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘

روزینہ بولی۔ ’’شاید کوئی اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے؟‘‘ روزینہ نے ریموٹ کا بٹن دبایا اور دروازہ کھل گیا۔ اسی کے ساتھ پریوں کے لباس میں ایک نہایت خوبصورت نسوانی آواز نے سلام کیا اور اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی۔ اندر آنے کے بعد طلائی طشتری میں رکھے خوبصورت رجسٹر کو اس نے جوزف کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس پر لکھا تھا۔۔۔ ’’آسمان محل میں ہم آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ آپ کی خدمت ہماری سعادت ہے۔‘‘ جوزف کی ساری تفصیل پہلے سے لکھی ہوئی تھی۔ اسے صرف دستخط کرنے تھے۔ جوزف نے سائن کرنے کے بعد پوچھا۔ ’’یہ آسمان محل کیا ہے؟‘‘

اس خاتون نے نہایت احترام سے جواب دیا۔ ’’جناب! ویانا میں گرانڈ حیات کی اوپری سات منزلوں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ آسمان محل کہلاتی ہیں۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’اچھا، تب تو ہمارا یہ کمرہ جنت کہلاتا ہو گا۔‘‘

’’جی ہاں محترمہ۔۔۔ آپ نے بالکل درست فرمایا۔‘‘

جوزف کو حیرت ہوئی۔ اس نے روزینہ سے پوچھا۔ ’’یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا؟‘‘

روزینہ بولی۔ ’’اگر آپ ہمارے خصوصی کارڈ کو غور سے دیکھتے تو یہ اسرار آپ پر کھل جاتا۔ اس کا نام ہے ’’عشرت جہاں : جنت نشاں ‘‘ اور پھر سر واٹسن کے میل میں ’’جنت ‘‘ کا ذکر یاد ہے؟‘‘

وہ پری زاد خاتون ہنوز ایک کونے میں کھڑی پوچھ رہی تھی۔ ’’کیا میں جا سکتی ہوں ؟‘‘

جوزف کے لیے یہ سوال بے معنیٰ تھا۔ دستخط لینے کے بعد اس کے رُکنے کا بظاہر کوئی جواز نہیں تھا، لیکن روزینہ بولی۔ ’’نہیں، ٹھہرو۔‘‘ اس نے اپنا پرس کھولا اور اس میں سے ایک ہزار یورو کا ایک نوٹ نکال کر طشتری میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’شکریہ۔‘‘

وہ بولی۔ ’’زہے نصیب۔۔۔ بہت بہت شکریہ!‘‘

جب وہ چلی گئی تو جوزف نے بوکھلا کر پوچھا۔ ’’روزینہ! تم نے یہ کیا غضب کر دیا؟ ایک ہزار یورو کا نوٹ۔۔۔؟‘‘

روزینہ بولی۔ ’’جوزف، تم جانتے ہو فی الحال ہم کہاں ہیں ؟ ہم جنت میں ہیں اور یہاں ہزار سے کم کا سکہ نہیں چلتا۔ کیا سمجھے؟‘‘

جوزف جھینپ گیا اور بولا۔ ’’تم نے بہت جلد اپنے آپ کو اس ماحول سے ہم آہنگ کر لیا ہے روزینہ۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’شاید اس ماحول نے مجھے اپنے اندر سما لیا ہے۔‘‘

جوزف نے جب ٹی۔وی کا ریموٹ دبایا تو سامنے کی پوری دیوار پردہ بن گئی۔ اس پر پھلجھڑیوں کا حسین منظر تھا۔ پس منظر میں آتش بازی کی مدھم آوازیں تھیں، جھرنے تھے، ہیرے تھے، موتی تھے، وادیاں تھیں، ہوائیں تھیں، فضائیں تھیں اور دُور گگن کی چھاؤں میں کوئی غزل سرا تھا۔۔۔

کچھ خواب ادھورے رہتے ہیں، کچھ خواب مکمل ہوتے ہیں

خوابوں کی دلکش وادی میں، ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں

غزل کے خاتمہ پر ایک رعب دار آواز گونجی۔۔۔ ’’آسمانوں کی اس جنت ابن آدم اور بنتِ حوا کا خیرمقدم ہے۔‘‘

گونج مدھم ہوتے ہوتے فضا میں گھل گئی۔ جوزف نے اپنے آس پاس دیکھا تو روزینہ کو ندارد پایا۔ وہ بے چین ہو کر باہر آ گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

روزینہ نے ایک پودے کے عقب سے مسکرا کر پوچھا۔ ’’جوزف تم کس چیز کو تلاش کر رہے ہو؟‘‘

جوزف بولا۔ ’’میں اس پیڑ کو ڈھونڈ رہا ہوں جس نے ہمیں یہاں سے نکالا تھا۔‘‘

’’کیا وہ پیڑ خود چل کر ہمارے پاس آیا تھا؟‘‘

’’جی نہیں، ہم خود اس کے پاس گئے تھے۔‘‘

’’تو گویا ہمارے اس کے قریب پھٹکنا ہماری نکاسی کا سبب بنا تھا۔‘‘

’’ہاں روزینہ۔۔۔ تمہاری یہ بات درست ہے۔ میں دوبارہ اس کے قریب پھٹکنا نہیں چاہتا۔‘‘

’’اگر ایسا ہے تو اسے تلاش کیوں کر رہے ہو؟‘‘

’’میں اسے جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دینا چاہتا ہوں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔‘‘

روزینہ ہنس کر بولی۔ ’’لیکن ایسا کرنے کے لیے بھی تو تمہیں اس کے قریب جانا ہو گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ اگر جانا پڑے تو میں جاؤں گا۔ اس لیے کہ وہ پیڑ جنت سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کی راہ میں رُکاوٹ ہے۔ اس کے باعث یہاں سے نکالے جانے کا جو کھٹکا لگا رہتا ہے، میں اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’روزِ ابد وہ باہر ضرور تھا لیکن جب سے ہم نے اس کا مزہ چکھ لیا، وہ ہمارے اپنے اندر سما گیا۔ اب وہ ہمارے اندرون میں پھولتا پھلتا ہے اور ہم اسے باہر کی دُنیا میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اندر ہی اندر ہمیں چاٹ جاتا ہے۔ جو اشجار باہر کی دُنیا میں ہیں اُن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہم انہیں اُکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو جائیں، یہ ضروری بھی نہیں ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہمارے کاٹ پھینکنے کے باوجود وہ دوبارہ اُگ آئیں۔ اس کے باوجود ہم خارج کی فکر میں گھلتے جاتے ہیں۔ اس کے بر عکس ہمارے اندر کا شجر، جو مکمل طور پر ہمارے دائرۂ اختیار میں ہے، اس سے ہم غافل رہتے ہیں۔ اسے اُکھاڑ کر پھینکنا تو درکنار، ہم اس کے قریب بھی نہیں جاتے ہیں۔ بلکہ اس کی نشو و نما میں لگے رہتے ہیں۔‘‘

جوزف بولا۔ ’’ہاں روزینہ۔۔۔ تم سچ کہتی ہو۔ تمہاری ہر بات صد فیصد صحیح ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ جبکہ ہمیں پتہ ہے کہ ایک دن یہ ہمیں تباہی و بربادی کی گہری کھائی میں جھونک دے گا۔‘‘

روزینہ نے کہا۔ ’’شاید ہماری خود پسندی ہمارے لئے اس مشکل کام کو سہل بنا دیتی ہے۔ ہمیں اپنی ہر چیز بھلی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ زقوم کا پیڑ بھی، جس کی شاخیں آسمانوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جس کے کڑوے کسیلے کانٹے دار پھل ہماری زندگی میں زہر گھولنے کا کام کرتے ہیں۔ جس نے ہماری روح اور جسم دونوں کو زخمی کر رکھا ہے۔‘‘ روزینہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مسائلِ تصوف اس پر کہاں سے القا ہو رہے ہیں۔ وہ تو بس ایک بے جان روبوٹ کی مانند بولے جا رہی تھی۔

ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد جوزف اور روزینہ نے سیر و تفریح کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں بتلایا گیا کہ دو گائیڈ، دو ڈرائیور اور دو کاریں ۲۴؍ گھنٹے ان کی خدمت کے لیے مختص ہیں۔ وہ جب بھی نیچے آئیں گے، ان سب کو خدمت میں حاضر پائیں گے اور جہاں چاہیں گے جا سکیں گے۔

جوزف بولا۔ ’’ہم لوگ دن رات گھومنے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ کچھ آرام بھی تو کرنا پڑے گا۔‘‘

استقبالیہ پر بیٹھی خاتون بولی۔ ’’جی جناب! یہ تو آپ کی مرضی ہے۔ آپ چاہیں تو گھومنے جائیں چاہے نہ جائیں، یہ عملہ حاضر خدمت رہے گا۔‘‘

’’لیکن ہم چوبیس گھنٹہ ان کو زحمت نہیں دینا چاہتے۔‘‘

’’اس میں زحمت کی کیا بات ہے؟ آپ کی خدمت ہمارے لیے سعادت ہے جناب اور سعادت تو رحمت ہی رحمت ہے، زحمت نہیں۔‘‘

روزینہ بیچ میں بول پڑی۔ ’’اس رحمت و زحمت کی بحث میں اصل بات غائب ہو گئی۔ دن رات ڈیوٹی پر رہنا کوئی معمولی بات ہے؟‘‘

’’اوہو۔۔۔ آپ کس قدر مہربان ہیں محترمہ، ہمارا کس قدر خیال رکھتی ہیں۔‘‘ سامنے سے جواب ملا۔ ’’دراصل ان چاروں کی ڈیوٹی صرف دو گھنٹوں کی ہوتی ہے اور دو گھنٹہ کام کرنے کے بعد وہ اپنی ذمہ داری بعد والوں کے حوالے کر کے گھر روانہ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس کا پورا خیال ہے کہ آپ کی خدمت میں رہنے والے اہلکار پوری طرح تازہ دم رہیں۔‘‘

’’اور جب ہم گھومنے جائیں گے تو کیا ہو گا؟‘‘

’’تب تو ہر گھنٹے میں یہ بدل جایا کریں گے الاّ یہ کہ آپ خود ہی کسی کو روک لیں۔‘‘

’’لیکن اس قدر تکلف؟‘‘

’’جی یہ تکلف نہیں ہے۔ حیات گروپس آف ہوٹل کو اس بات پر فخر ہے کہ ہم اپنے ’’آسمان محل‘‘ کی ’’جنت‘‘ میں رہنے والے خوش قسمت مہمانوں کو یہ خدمت گزشتہ نصف صدی سے فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ روزینہ کو اس جملہ میں مہمان کا لفظ ناگوار گزرا۔

روزینہ اور جوزف نے جیسے ہی لفٹ میں قدم رکھا، نیچے بیٹھے چاروں اہلکاروں کے موبائل حرکت میں آ گئے۔ دونوں ڈرائیورس اپنی گاڑیوں کو گیرج سے نکال کر پورچ میں لے آئے۔ ایک مرد اور ایک خاتون گائیڈ نے نیچے لابی میں لفٹ کے باہر ان کا استقبال کیا۔ جوزف اُن سے بات کرنے لگا اور روزینہ اِدھر اُدھر دیکھتی ان کے پیچھے چلنے لگی۔ اس کے قدم زمین کے بجائے آسمان پر پڑ رہے تھے۔ صدر دروازے پر آنے تک مقام کا تعین ہو چکا تھا۔ گائیڈ مرد نے آگے والی گاڑی کا دروازہ کھولا جو ۶؍ دروازوں والی طویل رولس رائس کار تھی۔ کار کیا تھی، چلتا پھرتا کمرہ تھی۔ گائیڈ خاتون نے دوسری گاڑی کی جانب اشارہ کر کے بڑے ادب سے کہا۔ ’’اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم اس گاڑی میں آپ کے پیچھے چلتے ہیں۔‘‘

روزینہ بولی۔ ’’اگر آپ بُرا نہ مانیں تو ہمارے ساتھ اسی گاڑی میں چلیں۔‘‘

ان دونوں نے ایک زبان ہو کر کہا، ’’زہے نصیب۔‘‘ اور پچھلی نشست پر بیٹھ گئے۔ اس گاڑی میں چار قطاریں تھیں۔ ایک میں ڈرائیور تھا، دوسری میں جوزف اور روزینہ، تیسری میں دونوں گائیڈس اور آخری خالی تھی۔

دوسری گاڑی سائے کی مانند ان کا پیچھے رینگ رہی تھی۔ روزینہ نے پوچھا۔ ’’کیا اب بھی اس دوسری گاڑی کی ضرورت ہے؟‘‘

گائیڈ نے کہا۔ ’’جی ہاں، آپ لوگ جب بھی تخلیہ چاہیں، ہمیں اس گاڑی میں جانے کا حکم دے سکتے ہیں۔‘‘

روزینہ اور جوزف نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرانے لگے۔ اُنہیں اپنے آپ پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جن کا اس قدر خیال رکھا جا رہا ہے؟ اتنی زیادہ خدمت ہو رہی ہے اور کیوں ؟ اس سوال کا آسان ترین جواب تھا سر واٹسن میکارڈے اور ان کی دولت۔۔۔ ورنہ جوزف اور روزینہ کو ون لینڈ میں کون پوچھتا تھا۔

تین دنوں تک مسلسل سیر و تفریح کے بعد جوزف کی طبیعت مشغولیت کی یکسانیت سے اوب رہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کچھ کام کیا جائے۔ وہ واٹسن، ڈیوڈ، میکالو اور اپنی کمپنی وغیرہ کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ آسمان محل کی اس جنت کی سیر نے جوزف کے ذہن میں سیر و سیاحت کا نیا باب کھول دیا تھا۔ اب وہ بیرن لینڈ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح اُسے سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پُر کشش بنایا جا سکتا ہے۔ گرانڈ حیات والوں کے ذریعہ انہیں جو کچھ ملا تھا وہ اسے کمپیوٹر کی یادداشت میں محفوظ کر لینا چاہتا تھا تاکہ اس کا استعمال کیا جا سکے۔ اسے ڈر تھا کہ  واپس جانے کے بعد کام کا دباؤ ان تمام تفصیلات کو ذہن سے محو کر دے گا اور جو کچھ وہ دیکھ اور محسوس کر رہا تھا، اس میں سے اسے بہت کم یاد رہے گا۔

اس کے ذہن میں کچھ نئے آئیڈیاز بھی آ رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ واپس جاتے ہی مشاہدات اور نئی تدابیر کو ملا کر ایک ایسا منصوبہ بنا کر سر واٹسن کے سامنے رکھے جسے دیکھ کر ان کا دل خوش ہو جائے۔ وہ اس کی ذہانت و مہارت کا لوہا مان لیں اور کسی نہ کسی حد تک اس احسان کا بھی بدل چکا دیا جائے جو انہوں نے روزینہ کے ساتھ اسے یہاں بھیج کر کیا ہے۔ حالانکہ سر واٹسن بھی یہی چاہتے تھے کہ جوزف کو آئندہ کے منصوبے میں عمل درآمد سے قبل دُنیا کی بہترین سہولیات سے عملاً متعارف کرا دیا جائے تاکہ وہ اس سے آگے نکل سکے۔ بلاواسطہ جوزف ان کی توقعات کو عملی جامہ پہنانے میں لگ گیا تھا۔ اس کا دماغ آئندہ کی منصوبہ بندی میں جٹ گیا تھا اور اس نے اپنا کمپیوٹر کھول کر کچھ کام کاج بھی شروع کر دیا تھا۔

جوزف من و سلویٰ کے بجائے اناج اور لہسن کی جانب راغب چکا تھا۔ لیکن روزینہ تو کسی اور ہی دُنیا میں اُڑتی پھرتی تھی۔ اس کا جی بھرتا ہی نہ تھا۔ چوتھے دن جوزف نے تفریح سے معذرت کی تو روزینہ تنہا نکل کھڑی ہوئی۔ اس نے مرد گائیڈ کو پچھلی گاڑی میں بھیج دیا اور خاتون گائیڈ کو اپنے بغل میں بٹھا کر اس سے باتوں میں لگ گئی۔

روزینہ بولی۔ ’’تم اپنی ساتھیوں سے بتلا دو کہ آج شام تک تمہاری بدلی نہیں ہو گی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’زہے نصیب۔‘‘ اور فون ملا کر ۷؍ کا ہندسہ دبایا جس سے کوڈ ورڈ میں سگنل چلا گیا۔

روزینہ نے پوچھا۔ ’’تم نے بتایا نہیں۔ ان کا نمبر مصروف تھا کیا؟‘‘

’’جی نہیں میڈم۔ ہمارا یہ فون ذاتی کام کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے۔ یہ صرف مہمانوں کی خاطر استعمال کے لیے ہے۔ اس لئے آپ لوگوں کے علاوہ کسی کے لیے مصروف نہیں ہوتا۔ میں نے ۷؍ نمبر دبا دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ہم ساتھ ساتھ رہیں گے بدلی نہیں ہو گی۔‘‘

روزینہ کو یہ کوڈ ورڈ پسند آیا، وہ بولی۔ ’’سات کا ساتھ کب تک؟‘‘

’’جب تک کہ آپ نہ کہیں ؟‘‘

’’اور جب میں کہوں تو؟‘‘

’’اُس صورت میں ۹؍ دبا دوں گی۔‘‘

’’پھر کیا ہو گا؟‘‘

’’پھر میری نعم البدل کو جتنی جلد ممکن ہو، جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے، وہاں پہنچا دیا جائے گا۔‘‘

’’اور اس کے بعد کیا ہو گا؟‘‘

’’اُس کے بعد وہ اپنے فون سے ۱۱؍ نمبر دبا دے گی جس کا مطلب ہے میرے نو دو گیارہ ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ اس طرح میں آپ سے اجازت لے کر رفوچکر ہو جاؤں گی۔‘‘

’’بھئی یہ تو بڑی دلچسپ زبان تیار کر رکھی ہے تم لوگوں نے۔‘‘

وہ بولی۔ ’’زہے نصیب۔‘‘

’’اچھا ایک بات بتاؤ۔۔۔ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’زرینہ۔‘‘

’’اچھا تو سنو زرینہ۔۔۔ اب تم دوبارہ یہ ’زہے نصیب‘ نہ کہنا۔ مجھے اِس سے اُلجھن ہوتی ہے۔‘‘

’’اگر زہے نصیب نہ کہوں تو کیا کہوں ؟‘‘

’’جو تمہاری مرضی میں آئے، کہو۔‘‘

’’ہماری مرضی؟ ہماری کوئی مرضی نہیں ہے۔ ہمیں آپ نے بلایا تو ہم آ گئے۔ آپ جانے کے لیے کہیں گی تو چلے جائیں گے۔ ہمیں بتلایا گیا ہے کہ ایسے موقع پر زہے نصیب کہو، اگر یہ نہیں کہنا ہے تو کیا کہنا ہے، یہ آپ کو بتلانا پڑے گا۔ ورنہ خاموش رہنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہ ہو گا۔‘‘

’’تم خود بھی تو سوچ سکتی ہو۔‘‘

’’جی نہیں ۔۔۔ میں نہیں سوچ سکتی۔‘‘ زرینہ بولی۔

’’لیکن تم نے اس ٹریننگ سے قبل بھی تو بہت کچھ سیکھا ہو گا؟‘‘

’’جی ہاں ۔۔۔ سیکھا تو تھا لیکن وہ سب بھول گئی۔‘‘

’’بھول گئیں ! یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

’’بالکل ممکن ہے! کیوں نہیں ممکن؟ ہمیں ٹریننگ سے قبل سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے اور پھر صاف تختی پر جو کچھ لکھا جاتا ہے، وہی ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔ چونکہ پرانی ساری باتیں ہم بھول چکے ہیں، اِس لیے ہماری سوچ و فکر تربیت کے حدود و اربعہ کے اندر محدود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نہ ہمیں کچھ یاد ہے اور نہ ہم کچھ جانتے ہیں۔‘‘

روزینہ کے لیے یہ انکشافات حیرت انگیز تھے۔ وہ بولی۔ ’’یہ چمتکار کیسے ممکن ہوتا ہے؟ کیا تم مجھے بتا سکتی ہو؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ قدیم کیمیا گروں نے ایسی جڑی بوٹیاں دریافت کر رکھی ہیں جن کی مدد سے انسان کی یادداشت کو جز وقتی یا ہمہ وقتی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’لیکن اس کا فائدہ یا استعمال کیا ہے؟‘‘

’’میں نے سنا ہے کہ اس کے کئی استعمال ہوتے تھے۔ خاص طور پر ایسے جاسوس، جو بہت کچھ جان لیتے تھے، اُن لوگوں کی یادداشت مٹانے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔‘‘

’’جاسوس کس کے؟ اپنے یا دشمنوں کے ؟‘‘

’’ارے بھئی اپنے۔۔۔ دشمن کا جو جاسوس ہوتا ہے اس کی یادداشت قیمتی ہوتی ہے۔ اسے کرید کرید کر اس میں سے لعل و گہر نکالے جاتے ہیں۔ لیکن اپنوں کی یادداشت کبھی کبھار خطرناک ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس کا قلع قمع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘

’’تمہاری دلیل تو معقول لگتی ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ اس دوائی کا نام کیا ہے؟‘‘

’’اس جڑی بوٹی کو خوش باش کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘‘

’’خوش باش۔۔۔ یہ تو بڑا عجیب نام معلوم ہوتا ہے۔‘‘

’’جی ہاں ! جب ہم نے سنا تو ہمیں بھی حیرت ہوئی۔ لیکن ہمیں ٹریننگ کے دوران بتلایا گیا کہ یہ نام ہمارے اسلاف کی ذہانت اور ظرافت کا ثبوت ہے۔

’’وہ کیسے؟‘‘

’’پُرانے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ انسان کے سارے رنج و الم کا مرجع و منبع اس کی ماضی کی نامکمل اُمنگیں اور ادھورے خواب ہیں۔ زندگی میں حاصل ہونے والی حقیقی ناکامیاں بھی اس کے حزن و ملال کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے اگر کسی طرح انسان کا رشتہ اس کے ماضی سے کاٹ دیا جائے تو اس کا احساسِ زیاں اپنے آپ غائب ہو جاتا ہے اور وہ ایک دم سے خوش باش ہو جاتا ہے۔ لیکن اس دوا کے استعمال پر پابندی ہے۔ ڈاکٹر کی سفارش کے بغیر اسے حاصل کرنا مشکل ہے۔‘‘

’’لیکن اتنی اچھی دوائی پر پابندی کی کیا وجہ ہے؟‘‘ روزینہ نے پوچھا۔

’’کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً اس کا ایک حد سے زیادہ استعمال یادداشت کو ہمیشہ کے لیے نقصان پہنچا سکتا ہے اور اگر خوراک میں مزید اضافہ کر دیا جائے تو یہ مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کا استعمال نہ صرف خودکشی بلکہ قتل کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ماہر طبیب کی ہدایت سے فراہم ہوتی ہے اور اس کی نگرانی ہی میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس دوائی کے اثرات کا تعلق استعمال کرنے والے کی صحت پر بھی منحصر ہے۔ اس کا عمومی خوراک تجویز کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘

زرینہ بولی۔ ’’مجھے یہ دوا چاہیے۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’یہ نہایت خطرناک کام ہے محترمہ۔ اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ اونچ نیچ ہو جائے تو مجھے پھانسی ہو جائے گی۔‘‘

’’کیوں ۔۔۔؟ سوئزرلینڈ میں ایسا کوئی قانون ہے؟‘‘

’’جی نہیں ! لیکن ہم پر حکومت کا قانون نہیں چلتا۔‘‘

’’اچھا، تو کس کا چلتا ہے؟‘‘ روزینہ پوچھا۔

’’ہوٹل مالکین کا جو ہمارے کفیل ہیں۔‘‘

’’کفیل؟ یہ کیا ہوتا ہے۔‘‘

’’کفیل وہی جو کفالت کرتا ہے۔ ہمارے رہنے کھانے کا اہتمام کرتا ہے، وہی ہمارا کفیل ہے۔‘‘

’’کیا یہ بھی تمہیں ٹریننگ میں سکھلایا گیا؟‘‘

’’جی ہاں، میں آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میری ساری معلومات کا سرچشمہ وہی عظیم تربیت ہے۔ جس کو حاصل کرنے کی سعادت ہمیں ملی ہے۔‘‘

روزینہ نے مسکرا کر کہا۔ ’’بہت خوب! اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارے کفیل پر کس کا قانون چلتا ہے؟ حکومت کا؟‘‘

’’جی نہیں۔ مجھے نہیں لگتا بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ حکومت پر بھی ہمارے مالکین ہی کی حکمرانی ہے۔‘‘

’’حکومت پر حکمرانی؟ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

’’کیوں نہیں ممکن؟ ہماری طرح حکومت بھی خود کفیل نہیں ہے بلکہ ہمارے مالکین کی محتاج ہے۔ اس لیے اگر ہمارے مالک کی مرضی ہم پر چل سکتی ہے تو حکومت پر کیوں نہیں ؟‘‘

روزینہ کے لیے یہ انکشافات مزید حیرت و استعجاب کا باعث تھے۔ جوزف کی غیر موجودگی میں زرینہ بڑی بے تکلف ہو گئی تھی اور سیر نہایت پر اسرار اور دلچسپ۔ روزینہ بولی۔ ’’دیکھو زرینہ، تم میری بہن ہو۔ میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جس سے تمہیں کوئی نقصان ہو۔ لیکن میری تم سے یہی استدعا ہے کہ مجھے وہ خوش باش نامی دوائی دلوا دو۔‘‘

زرینہ نے کہا۔ ’’بہن؟ میں نے اپنے لئے یہ لفظ دس سال بعد آج سنا ہے۔‘‘ روزینہ رونے لگی۔ ’’آپ میری بہن ہیں تو میں آپ کو خوش کرنے کے لیے اپنی جان دے دوں گی۔ میں آپ کے لیے پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے سے گریز نہیں کروں گی۔ میں اس ہوٹل میں دس سال سے برسرِ ملازمت ہوں، لیکن کبھی کسی نے مجھے بہن نہیں کہا۔ بڑے بڑے لوگ یہاں آئے لیکن ہر کسی نے ہمیں کنیز ہی سمجھا۔ یہاں تک کہ ہم خود بھی اپنے آپ کو زر خرید کنیز سمجھنے لگے۔ لیکن آج اتنے سال بعد ایسا لگتا ہے میری یادداشت لوٹ رہی ہے۔ میری بہن لوٹ آئی ہے۔ میں نے یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔ کبھی نہیں روزینہ کبھی بھی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر زرینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اس کی ہچکی بندھ گئی۔

روزینہ نے اسے سینے سے لگا لیا۔ روزینہ کی آنکھیں بھی نم تھیں لیکن زرینہ زار قطار رو رہی تھی۔ آگے سیٹ پر بیٹھا ڈرائیور حیرت سے یہ مناظر سامنے کے شیشے میں دیکھ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ ٹریننگ کے سارے اثرات زائل ہو رہے ہیں۔ خوش باش کی خوراک بے اثر ہو گئی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ ایک بھیانک خواب جسے جلد از جلد بھلا دینے میں ہی سب کی عافیت ہے۔

٭٭٭

فائل کے لئے مصنف کے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید