FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ریلوے سٹیشن

 

 

 

               جمیل اختر

 

 

 

 

 

ریلوے سٹیشن

 

 

               جمیل اختر

 

"جناب یہ ریل گاڑی یہاں کیوں رکی ہے؟” جب ۵ منٹ انتظار کے بعد گاڑی نہ چلی تو میں نے ریلوے اسٹیشن پہ اترتے ہی ایک ٹکٹ چیکر سے یہ سوال کیا تھا۔۔۔

"او جناب پیچھے ایک جگہ مال گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے اب اس گاڑی کا انجن اسے لے کے اس اسٹیشن آئے گا۔”

.اور کوئی متبادل حل نہیں ہے اس کے سوا۔۔۔۔۔”؟؟؟میں نے پوچھا

"نہیں جی یہی حل ہے۔۔۔” اس نے کہا

"کتنا وقت لگے گا؟؟؟” میں نے پریشان کن انداز میں سوال کیا تھا۔۔۔

"دو گھنٹے تو کہیں نہیں گئے۔۔۔۔”ٹکٹ چیکر نے کہا

دو گھنٹے ؟؟؟؟میں نے پریشانی میں لفظ دہرائے

دو گھنٹے اب اس سٹیشن پہ گزارنے تھے۔۔۔۔ اب مسافر گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ چائے کا آرڈر دے رہے تھے کچھ اور کھانے کا سامان خرید رہے تھے۔۔۔۔

راولپنڈی سے ملتان جاتے ہوئے راستے میں یہ ایک چھوٹا سا سٹیشن تھا۔۔۔۔ ایک عرصے بعد میں اس راستے سے گزرا تھا اور اس سٹیشن پر تو بہت ہی مدت بعد۔۔۔ شاید تیس سال بعد..مجھے گورڈن کالج کے وہ دن یاد آ گئے جب میں، صفدر اور احمد ملتان سے راولپنڈی پڑھنے آئے تھے۔۔۔ ان دنوں جب چھٹیوں میں گھر جاتے تو تقریبایقیناً ہر سٹیشن پر اترتے تھے۔ کیسے دن تھے نہ وقت کا پتہ چلتا نہ راستے کی کچھ خبر۔ ادھر راولپنڈی سے بیٹھے اور ادھر ملتان سٹیشن۔۔۔۔

میں جس بنچ بہ آج بیٹھا ہوں عین ممکن ہے اب سے تیس برس پہلے بھی کبھی بیٹھا ہوں۔ ہوسکتا ہے بنچ تبدیل کر دیا گیا ہو۔مجھے ویسے ہی ایک خیال آیا. میں نے عمارت کی طرف دیکھا یہ وہی پرانی عمارت ہے۔۔۔میں نے شاید یہ عمارت پہلے دیکھ رکھی ہے.وقت کس تیزی سے گزرتا ہے آواز بھی نہیں ہوتی کسی بھی لمحے کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ میں کراچی میں محکمہ ڈاک میں ملازم ہوں۔ ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے, ایک کام کے سلسلے راولپنڈی آنا پڑا اب ملتان جا رہا ہوں کچھ روز وہاں رہ کہ کراچی جانے کا ارادہ ہے۔۔۔۔

میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔ انجن کو گئے ابھی صرف پندرہ منٹ ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ یہ وقت بھی عجیب ہے گزارنے پہ آؤ تو ایک پل نہیں گزرتا۔ انتظار وقت کو طویل کر دیتا ہے۔۔۔

"جناب تھوڑا ساتھ ہو کے بیٹھیں گے، میں نے بھی بیٹھنا ہے۔۔۔۔ ”

ایک بزرگ ہاتھ میں عصا لئیے کھڑے تھے۔۔۔ میرے ہم عمر ہی ہوں گے شاید….مجھے کچھ ناگوار گزرا لیکن میں تھوڑا سکڑ کر بنچ کے کونے میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ وقت کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ گزرے تو عمر گزر جائے نہ گزرے تو لمحہ صدیوں کی مثل ہو جائے۔۔۔۔۔

چائے والے کی دکان پہ رش کم ہوا تو مجھے بھی خیال آیا کہ اب چائے پینی چاہیے۔

"سنئے , محترم میری جگہ رکھئے گا میں چائے لے آؤں۔۔۔۔”میں نے ان صاحب کو کہا

"اچھا”جواب ملا

"جناب ایک کپ چائے۔”میں نے چائے والے کو کہا۔۔۔

"جی بہتر”دکاندار نے کہا

چائے والے کو پیسے دیتے ہوئے میں نے اسے غور سے دیکھا ایسا لگا میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔۔۔۔شاید اس کے والد یہ سٹال چلاتے ہوں انہیں دیکھا ہو۔۔۔۔

مجھے پوچھنا چاہئے اس کے والد کے بارے؟؟؟میں نے سوچا

میں چپ چاپ واپس بنچ پر آ کے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

مجھے ہر چیز دیکھی دیکھی کیوں لگ رہی ہے۔۔۔۔

میں نے گھڑی کی جانب دیکھا۔۔۔

ابھی بھی دو گھنٹے گزرنے میں ایک گھنٹہ رہتا تھا۔۔۔۔

میں چائے پیتے ہوئے پھر ماضی کے صفحات الٹنے لگا۔۔۔۔

"آپ کہیں جا رہے ہیں۔۔۔”

ساتھ بیٹھے صاحب نے پھر یادوں کے سلسلے کو روکا۔۔۔۔۔

"جی ریلوے سٹیشن بر بیٹھے سب لوگ کہیں نہ کہیں جا ہی رہے ہوتے ہیں۔۔۔”

میں نے کہا

"نہیں سب لوگ نہیں جا رہے ہوتے۔۔۔”ان صاحب نے جواب دیا

"اچھا۔۔۔”

میں نے مختصر جواب دیا اور ماضی کی ورق گردانی شروع کر دی۔۔۔۔

میں نے عمارت پر لکھے اسٹیشن کے نام کو بغور پڑھا۔۔۔۔۔یہ نام یہ نام کچھ سنا سنا سا تھا۔۔۔۔ سوچوں کا سلسلہ پھر گورڈن کالج کی طرف مڑ گیا تھا۔۔۔۔۔

 

کیسے کیسے ہم جماعت تھے کبھی کبھی سارا سارا دن اکھٹے گھومنا اور اب یہ حالت کہ نام تک یاد نہیں رہے۔ شکلیں بھی جو یاد ہیں وہ بھی دھندلی دھندلی۔۔۔۔

میں، صفدر، احمد اور ایک اور دوست بھی تھا جو ہمارا ہوسٹل میں روم میٹ تھا۔۔۔۔ اوہ ہا ں یاد آیا بشارت علی نام تھا اس کا۔۔۔ اور یہ سٹیشن۔۔۔۔ اب یہ گتھی سلجھی تھی۔۔ بشارت علی اسی اسٹیشن پر اترا کرتا تھا۔۔۔میں بھی کہوں مجھے سب دیکھا دیکھا کیوں لگ رہا ہے۔ اس سٹیشن کے پیچھے بنے ریلوے کوارٹرز میں اس کا گھر تھا۔

دماغ بھی عجیب ہے ابھی جس کا نام نہیں یاد آ رہا تھا اور ابھی اس کے ساتھ جڑی کئی یادیں ایک ساتھ دماغ کے کواڑوں پر دستک دینے لگی تھیں۔۔۔

آپ کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟ ان صاحب نے پھر سلسلہ منقطع کیا۔۔۔

"ملتان۔” مختصر جواب تھا میرا۔۔۔ میں نے ان سے پوچھ کر بات طویل نہیں کرنا چاہ رہاتھا۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔

کہ جب ہم چھٹیوں میں گھر واپسی کا سفر کرتے اور بشارت کا یہ اسٹیشن پہلے آتا اور گاڑی یہاں پانچ منٹ کے لئے رکتی، تو ہم چاروں ایک ساتھ اترتے اور بھاگتے ہوئے بشارت کے گھر تک جاتے۔ اور اسے اس کے گھر کے سامنے الوداع کہتے اور بھاگتے ہوئے واپس گاڑی تک آتے۔۔۔بعض دفعہ گاڑی رینگنا شروع کر دیتی تھی , لیکن ہم کسی نہ کسی طرح گاڑی میں سوار ہونے میں کامیاب ہو ہی جاتے. پھر بہت سے لوگ ہمیں ڈانٹتے کہ ایسا کرنا کتنا غلط تھا لیکن اگلی بار پھر یہی ہوتا۔۔۔۔

وقت کیسے بدل جاتا ہے اتنی تیزی سے۔۔۔۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔۔ ابھی آدھا گھنٹہ مزید رہتا تھا۔۔۔

ہم تھرڈ ایئر میں تھے جب بشارت نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ معلوم نہیں ایسا اس نے کیوں کیا۔ وہ پڑھائی میں اچھا تھا پھر بھی جانے کیوں ایک روز اس نے ہم سب کو یہ فیصلہ سنا کر حیران کر دیا۔۔۔۔۔جانے اسے کونسی مجبوری نے آن گھیرا تھا۔ ہم نے اس سے اس وقت بھی نہیں پوچھا تھا اور بعد میں بھی نہ پوچھ سکے۔

ہم نے اسے کہا تھا کہ ہم اسے خط لکھا کریں گے اور گھر واپسی پر اس کے گھر ضرور بھاگتے ہوئے آیا کریں گے۔۔۔ اسے ضرور ہمارا انتظار کرنا چاہیے کہ ہم اچھے دوست ہیں۔ ہمارا ایسا کہنے سے اسے کچھ اطمینان ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد ہم نے بشارت ہو نہیں دیکھا….مجھے یا د ہے اس کے واپس جانے کے بعد ہم بہت اداس رہے تھے کچھ دن۔۔۔ پھر ہم مصروف ہو گئے۔۔۔۔

ہم بشارت کو بھول گئے اور ہم نے اسے کبھی خط نہ لکھا اس کے بعد ہم کبھی بھی اس اسٹیشن پر نہ اترے اور نہ بھاگ کہ اس کے گھر اس کی خیریت پوچھنے گئے۔۔ہم جا سکتے تھے لیکن معلوم نہیں ہم کیوں نہیں گئے۔۔۔۔

مجھے آج شدت سے یہ احساس ہوا کہ تین سال کی دوستی کا اختتام ایسے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ہمیں ضرور اس سے اس کے حالات پوچھنے چاہیے تھے۔۔۔ میں نے اسٹیشن سے پرے بنے ریلوے کوارٹرز کو دیکھا۔۔۔سب دیکھا دیکھا تھا۔۔۔۔ کیا اب بھی وہ یہاں رہتا ہو گا؟؟؟ مجھے جانا چاہئے تیس سال بعد ویسے ہی بھاگتے ہوئے؟؟؟؟

آپ غالبایقیناً راولپنڈی سے آرہے ہیں ؟؟؟؟ سلسلہ پھر روک دیا گیا۔۔۔

"جی ہاں میں راولپنڈی سے آ رہا ہوں،ملتان جانا ہے اور کراچی میں کام کرتا ہوں ایک سال بعد ریٹائر ہونا ہے۔ "میں نے ایک سانس میں ساری داستان کہہ سنائی کہ اب مزید کوئی سوال نہ ہو۔۔۔

آپ شاید کچھ برا مان گئے میرے سوال پر؟؟؟؟

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔” میں نے کہا۔۔۔ اور گھڑی کی جانب دیکھا۔۔ وقت پورا تھا دور سے انجن کی آواز سنائی دی۔ انجن کے اسٹیشن پر پہنچنے اور اس گاڑی کے ساتھ منسلک ہونے میں پانچ منٹ تو لگ جانے تھے۔۔۔۔۔کیا مجھے بشارت کا پتہ کرنا چاہئے۔۔۔۔

میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

آپ کہیں جا رہے ہیں ؟؟؟؟

"ہاں۔۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔۔” میں اب بھاگ کے نہیں جا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔

مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ میں بشارت سے اس کے حالات نہ پوچھ سکا۔۔۔۔۔ مجھے آج سے پہلے ایسا کبھی خیال نہیں آیا تھا۔۔ اس سٹیشن پر بیٹھے بیٹھے نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔ دل کیسا افسردہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

انجن آ گیاا تھا۔۔۔ لوگ آہستہ آہستہ گاڑی پر سوار ہونے لگے تھے میں رش کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔

"آئیں نہ آپ بھی؟؟؟ میں نے ان صاحب سے پوچھا۔۔۔

 

"نہیں میں نے کہیں نہیں جانا۔۔۔ میں تو ویسے ہی روز اس وقت گاڑی دیکھنے آتا ہوں۔۔۔۔۔ بس صاحب اب یہی ایک مصروفیت ہے۔۔۔”

تو آپ یہیں کے رہنے والے ہیں ؟؟؟؟

"جی ”

"آپ اس گاؤں میں کسی بشارت کو جانتے ہیں ؟؟؟؟ میری اور آپ کے ہم عمر ہی ہوں گے”۔۔۔۔میں نے سوال کیا کہ شاید یہ بشارت کو جانتے ہوں

بزرگ نے غور سے میری طرف دیکھا

"آپ انہیں کیسے جانتے ہیں ؟؟؟”

"آپ یہ چھوڑیں آپ یہ بتائیں جانتے ہیں کیا؟؟؟”

"جی جانتا ہوں۔۔۔”

"آپ یہ بتا سکتے ہیں وہ اب کیسے ہیں وہ میرے ساتھ پڑھتے تھے گورڈن کالج میں۔میں نے ان سے پوچھنا تھا انہوں نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا شاید حالات خراب ہو گئے ہوں۔۔۔۔۔وہ اب کیسے ہیں۔۔۔۔ہم انہیں خط نہ لکھ سکے شاید انہوں نے ہمارا اور ہمارے خط کا انتظار کیا ہو۔ مجھے معذرت کرنی تھی ان سے”

"کیا آپ بتا سکتے ہیں۔۔۔۔۔”

تم کمال احمد ہو شاید؟؟؟؟؟ان صاحب نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا

جی جی میں کمال احمد….لیکن آپ کیسے جان گئے کیا آپ ہی بشارت ہیں ؟؟؟

دیکھو گاڑی نکلنے والی ہے۔۔۔۔طویل سوالوں کے جواب مختصر وقت میں نہیں دئیے جا سکتے۔۔۔۔

خدا حافظ۔۔”

اور وہ صاحب اٹھے اور تیزی سے ریلوے سٹیشن سے باہر کے راستے پر چل دئیے۔۔۔

تیس سال بعد میں بھاگتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوا تھا۔۔۔۔۔ ایک افسردگی اور پریشانی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔

 

 

پچھلے دو سال سے سرکاری پاگل خانے میں رہتے رہتے، میں نے اپنی زندگی کے تقریبایقیناً ہر واقعے کو یاد کر کے اس پر ہنس اور رو لیا ہے۔

"ویسے میں پاگل نہیں ہوں۔ ”

آپ کو یقین نہیں آئے گا، کہ اگر پاگل نہیں ہوں تو پاگل خانے میں کیا کر رہا ہوں۔ دیکھیں جی زندگی میں بعض دفعہ ہوش کی دنیا سے ناطہ توڑ کے بے ہوش رہنا بڑا ضروری ہوتا ہے۔۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔۔

میں نے غربت میں آنکھ کھولی۔ محکمہ ریلوے میں چپڑاسی بھرتی ہوا تو نجمہ سے شادی ہو گئی۔ نجمہ سے مجھے شدید محبت تھی، زندگی غربت میں سہی پر خوشی خوشی بسر ہونے لگی تھی۔ شادی کے دس سال تک ہمارے ہاں اولاد تو نہ ہوئی لیکن نجمہ کو ٹی بی ہو گئی۔ گھر کو رہن رکھوا کر چودھری صاحب سے قرض لیا اور نجمہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر، پیر، فقیر کہاں کہاں نہیں گیا۔۔۔ لیکن نجمہ کی زندگی نے وفا نہ کی۔۔،

نجمہ کے جانے کے بعد میں بالکل تنہا تھا، دوست، رشتہ دار پہلے کونسا جان چھڑکتے تھے کہ اب تو رسمی خیر، خیریت پوچھنے سے بھی گئے۔۔۔۔ اور جب بندہ غریب ہو تو رشتہ دار بھی جلدی بھول جاتے ہیں، اتنی جلدی کہ گویا کہ آپ تھے ہی نہیں، گویا کہ اک قصہ پارینہ۔۔۔ اس دور میں دولت انسان کو یاد رکھنے اور یاد رکھوانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ان دنوں میں شدید تنہائی کا شکار تھا کام میں جی نہ لگتا تھا، دفتر سے غیر حاضر رہتا اور یونہی گلیوں میں بے مقصد پھرا کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” با مقصد آدمی کا بے مقصد پھرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔ "۔

آفیسرز کو مجھ سے شکایت تھی مجبورایقیناً جلد ریٹائیرمنٹ لے لی۔ مبلغ ۲لاکھ روپے پرویڈینٹ فنڈ کے مجھے ملے۔ گاؤں کے چودھری صاحب نے کریانے کی دوکان کھولنے کا مشورہ دیا۔ اگرچہ کہ میری زندگی ایک جگہ آ کے رک گئی تھی، کوئی مقصد مل نہیں رہا تھا۔۔۔ ایسے میں جب آپ کے دوست احباب آپ کو بھول چکے ہوں وہاں گاؤں کے چودھری کی حوصلہ افزائی بڑی بات تھی۔۔۔۔ میں نے ہمت باندھی کہ اور نہیں تو کاروبار کر کے چودھری صاحب کا قرض تو لوٹا دوں اور جو گھر رہن رکھوایا تھا وہ وہ واپس مل جائے۔۔ ویسے میں نے اس اکیلے گھر کو کرنا کیا تھا لیکن پھر بھی وہ میرا آبائی گھر تھا۔ میں نے بنک سے اپنے پرویڈینٹ فنڈ کے پیسے نکلوانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔۔

اور پھر قصہ اس شام کا کہ جو آئی اور میری زندگی بدل کر، تاریک رات میں ڈھل گئی۔

اس شام جب میں شہر سے اپنی عمر بھر کی کمائی لے کہ لوٹ رہا تھا،

مجھے دیر ہو گئی تھی۔ گاڑی سے اتر کر میں تیز تیز چلتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ عمر بھر کی دولت سنھبالنا ایسا مشکل کام تھا مجھے اس دن احساس ہوا۔۔۔ جانے لوگ کروڑوں، اربوں کیسے سنبھال لیتے ہوں گے۔۔۔۔ ایک ایک قدم من من وزنی ہو گیا تھا، میں جتنا تیز چلتا راستہ اتنا ہی طویل ہوتا جا رہا تھا، یا شائد ایسا مجھے محسوس ہو رہا تھا اور یوں بھی راستے کبھی طویل نہیں ہوتے انسان کی سوچ طویل ہو جاتی ہے۔۔۔

جب میں بڑے گراونڈ میں سے گزر رہا تھا تو وہاں چودھری کا بیٹا انور اور اس کے دو دوست کھڑے تھے۔۔۔۔ گاؤں میں عمومایقیناً اتنی شام کو اس گراونڈ پر کوئی نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔

"کریم دین آ گئے شہر سے پیسے لے کر۔۔۔ "………….انور نے مجھ سے پوچھا

"نہیں …”

"وہ،،،،،، ہاں۔۔۔۔ ”

"تم ہمیں قرض کب واپس کرو گے۔۔۔ "؟

"جی میں اس سے کاروبار کروں گا، اور جلد ہی قرض لوٹا دوں گا۔۔۔۔ ”

"پر ہم تو ابھی پیسے لیں گے کریم دین۔۔۔۔۔ ”

ابھی نہیں دیکھیں، یہ میرا عمر بھر کا اثاثہ ہے۔۔۔۔ میرا یقین کریں میں جلد قرض لوٹا دوں گا۔۔

ہماری رقم کوئی بیکار پڑی تھی کیا؟؟؟

لیکن اس کے بدلے میں نے اپنا گھر رہن بھی تو رکھوایا ہے؟؟؟

اچھا تو اب تم باتیں بھی سناؤ گے۔۔۔ اب تمہارے منہ میں بھی زبان آ گئی ہے۔۔۔۔

یہ کہہ کر انور نے پستول میری کنپٹی پر رکھ دیا۔ اس کے دوست نے بیگ مجھ سے چھینا اور وہ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کے یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔۔

میری عمر بھر کی کمائی۔۔۔۔ جس کا ایک روپیہ بھی میں استعمال نہ کر سکا۔۔۔۔ آپ نے کبھی کسی کی عمر بھر کی کمائی لٹتے دیکھی ہو تو، یہ بڑے ہی کرب کی بات ہوتی ہے۔۔۔ میں بھاگم بھاگ تھانے پہنچا۔ تھانیدار نے چوھدری صاحب کے بیٹے کے خلاف رپورٹ لکھنے سے صاف انکار کر دیا۔۔۔ تھانیدار کا موقف تھا کہ اتنے معزز آدمی بھلا ایسا کیسے کر سکتے ہیں، چودھری صاحب نے الگ برا بھلا کہا، اور تھانیدار کو کہا کہ میں اس الزام کے باوجود اس سے اس کا گھر خالی کرنے کو نہیں کہوں گا۔۔۔

سارے گاؤں میں چودھری صاحب کی اس دریا دلی کی باتیں ہونے لگیں۔۔۔۔

میری بات پر کسی کو اعتبار نہیں تھا۔

غریب کی بات بھی بھلا کوئی بات ہوتی ہے۔۔۔۔،

میرے پاس گذر اوقات کو فقط گھر کا سامان تھا، جو ایک ایک کر کے بکنے لگا تھا۔۔۔۔ ایک ہلکی سی آرزو جو کام کرنے کی دل میں جاگی تھی اب وہ بھی نہیں تھی۔۔۔ میں کیوں کام کرتا، کس کے لیئے کام کرتا۔۔۔ سارا سارا دن گھر میں پڑا رہتا۔ لوگ پہلے بھی کم ملتے تھے اور اب تو بالکل ملنا جلنا ترک کر دیا تھا،

دیکھئیے، غم اتنا شدید نہیں ہوتا، لیکن جب کوئی غم بانٹنے والا نہ ہو، جب کوئی آپ کی بات نہ سنے تو غم میں ایسی شدت آ جاتی ہے کہ غم کے جھکڑ انسان کو تنکوں کی طرح اڑا کے لے جاتے ہیں۔۔۔۔۔،

میں بھی تنکہ تنکہ بھکر رہا تھا۔۔۔۔ ذرہ ذرہ ہو کر۔۔۔

مجھے باتیں بھولنے لگیں تھیں۔ حافظے کا یہ عالم تھا کہ بعض دفعہ دوکاندار سے چیز خریدنے جاتا تو بھول جاتا کے کیا خریدنا ہے، کبھی پیسے دینا بھول جاتا۔۔۔۔، ایک عرصے تک حجامت نہ کرانے کی وجہ سے بال بڑھ گئے تھے۔ لوگ آہستہ آہستہ مجھے پاگل سمجھنے لگے تھے۔ بچے ڈرتے تھے۔۔۔۔ پہلے دبے دبے لفظوں میں پاگل ہے کا لفظ سنتا تھا پھر لوگوں کے ہاتھ شغل لگا وہ پاگل پاگل کہہ کے چھیڑتے تھے۔۔۔۔۔ میں یونہی سارا سارا دن گھر کے دروازے میں بیٹھا رہتا،۔۔ شروع شروع میں، میں نے کوئی توجہ نہ دی کہ لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں لیکن پھر ایک دن میں ان کے پیچھے بھاگنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا….. میں اور کر ہی کیا سکتا تھا۔۔۔ ایک نہ ایک دن میں نے پتھر اٹھا کے بھاگنا تھا سو ایک دن میں نے پتھر اٹھا لیا۔۔۔

میں پاگل نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔

لیکن تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر میں لوگوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک گیا اور میرے پاس کھانے کو بھی پیسے ختم ہو گئے کہ گھر میں اب ایک بھی چیز نہیں تھی کہ جسے بیچ کر پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا۔ صرف میں تھا اور گھر کے درو دیوار، جو پہلے ہی رہن رکھے جا چکے تھے۔۔۔۔ گاؤں والوں نے چودھری صاحب سے گزارش کی کہ ایک پاگل کو گاؤں میں نہیں رہنا چاہیئے سو ایک دن چودھری صاحب نے اپنا مکان خالی کرنے کا حکم صادر کر دیا، یہ مکان، یہ میرے آباء و اجداد کا مکان، جو کہ میرا تھا لیکن میرا نہیں تھا۔۔۔۔۔

پاگل کا ایک ہی ٹھکانہ ہے۔ جی ہاں پاگل خانہ، سو ایک دن پاگل خانے آن پہنچا، انتظامیہ نے داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ کوئی گواہ لاؤ جو تمہارے پاگل ہونے کی گواہی دے۔۔۔۔ یہ دنیا بڑی ظالم ہے پہلے خود پاگل بناتی ہے پھر پاگل پن کا سرٹیفیکیٹ بھی مانگتی ہے۔۔۔۔

سوچودھری صاحب کے ہاں حاضر ہوا۔۔ مکان کی چابی انہیں تھمائی اور پاگل خانے تک چلنے اور داخل کرانے کی درخوست کی۔۔۔

چودھری صاحب جیسے نیک دل آدمی بھلا اس نیک کام میں کیوں نہ ساتھ دیتے۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایتھا زاگورا

(Athazagora)

 

"انوار احمد ڈائری لے آئے۔۔۔۔”

"اوہ ابا جی آج دفتر میں کچھ مصروفیت اتنی زیادہ تھی کہ ذہن سے ہی نکل گیا، کل یاد سے لیتا آؤں گا”

"مجھے پہلے ہی پتہ تھا تم نے بھول جانا ہے، کبھی میری چیزیں یاد رہی ہیں تمہیں "؟؟؟

"ابا جان ایسی بات نہیں دیکھیں میرے ذہن سے نکل گیا میں عاشر کو کہتا ہوں وہ ابھی جا کر لے آتا ہے”

"ایک ہی مشغلہ رہ گیا ہے ڈائری لکھنا تم وہ بھی چاہتے ہو کہ نہ لکھوں۔۔۔۔

ابا جان ایسا ہرگز نہیں ہے”

"ایسا ہی ہے اور وہ تمہاری بہن، کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔”

"جی نسرین”

"ہاں ہاں مجھے یاد ہے مجھے یاد ہے وہ بس میں ہی اسے بھول گیا ہوں، اس نے کبھی یاد نہیں کرنا مجھے…. کراچی رہتی ہے کراچی کونسا ملک سے باہر ہے، یہ نہیں کہ فون کر کے خیریت ہی پوچھ لے۔۔۔۔مجھے پتہ ہے اس نے اپنے بچوں کو میرا نام تک نہیں بتایا ہو گا۔۔۔۔”

"ابا جان ایسا نہیں ہو گا آپ تھوڑا غلط سوچ رہے ہیں ”

"ہاں میں غلط ہی سوچوں گا، میں مختیار احمد، اٹھارویں گریڈ کا آفیسر اب غلط سوچے گا۔۔۔۔۔”

…………………………………………..یہ باتیں اب روز کا معمول تھیں۔

نہیں مختیار احمد شروع سے ایسے نہیں تھے، خوش لباس، خوش گفتار۔۔۔

جتنا عرصہ وہ ملازم رہے بہت مصروف رہے اتنے مصروف کہ کبھی کبھی انہیں لگتا کہ انہیں خود اپنے آپ سے ملے بھی عرصہ ہو گیا ہے۔۔۔۔

بڑے لوگوں میں تو اٹھنا بیٹھنا تھا ہی عام لوگ بھی اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی کاموں کی وجہ سے ملنے کو بیقرار پھرتے، ان کا خیال تھا کہ یہ محفل یونہی آباد ہی رہے گی۔۔۔۔

اور اس کے گرد لوگوں کا ہجوم ہی رہے گا یہ رونقیں یہ میلہ جو لگا ہے یہاں ہمیشہ بھیڑ ہی لگی رہے گی۔۔۔

لیکن ادھر وہ ریٹائر ہوئے ادھر میلے پر رونق مانند پڑ گئی، لوگ آہستہ آہستہ کم ہونے لگے

پہلی ملاقات چاہے تنہائی سے ہو کہ محفل سے , انسان پریشان ضرور ہوتا ہے کیونکہ طبیعت اس کی عادی نہیں ہوتی….مختیار احمد کی تنہائی سے ایسی کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی۔۔۔

ان دنوں وہ کئی کئی بار مرکزی دروازے پر جا کر اپنے نام کی لگی تختی کو دیکھتے، اپنا نام لکھا دیکھ کر ایک عجیب سا سرور اور اطمینان ملتا،

انوار احمد سے ایک بار اس بات پر جھگڑا بھی ہوا کہ وہ یہ تختی ہٹوا کر اپنا نام کی تختی لگوانا چاہتا ہے۔۔۔

ایک دو بار ڈاکیئے کو اس لیئے واپس بھیج دیا کہ اس نے پوچھ لیا تھا کہ کیا یہ انوار احمد کا گھر ہے انہوں نے کہا نہیں یہ مختیار احمد کا گھر ہے…”تو کیا دنیا انہیں بھلا دے گی۔۔۔۔؟

ایک ہی سوال جو اب انہیں پریشان رکھتا تھا۔۔۔۔۔

"مختیار احمد، ایم اے انگلش اپنے گاؤں کے پہلے اٹھارویں گریڈ کے آفیسرکو دنیا بھول جائے گی کیا”

پھر اندر سے جواب آتا کہ

"نہیں میں دنیا کو خود کو بھولنے نہیں دوں گا”

انہوں نے مصروفیت کا حل نکال لیا تھا وہ ڈائری لکھتے تھے سارا سارا دن لکھتے تھے، یقیناً جتنی مصروف زندگی انہوں نے گزاری تھی اس کے پاس بہت سے قصے ہوں گے لکھنے کو۔۔۔۔۔

لیکن جب اس کی وفات ہوئی اور اس کی ساری ڈائریز جو کہ سینتیس تھیں اس کو کھولا گیا تو حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ہر صفحے پر ایک ہی بات لکھی تھی کہ

” میں مختیار احمد ہوں ایم اے انگلش اپنے گاؤں کا پہلا اٹھارہویں گریڈ کا آفیسر مجھے بہت سے لوگ جانتے ہیں اور مجھے کوئی بھی نہیں بھولا۔۔۔۔”

اور ایک ڈائری میں تو ہر صفحے پر صرف یہ لکھا تھا کہ "مجھے کوئی نہیں بھولا۔ مجھے کوئی نہیں بھولا”

٭٭٭

Athazagoraphobia

It means the fear of forgetting or the fear of being forgotten or ignored

٭٭٭

 

 

 

 

پولیو زدہ رائے

 

 

 

روز ڈوبتا سورج شاید پیام دیتا ہے کہ یہاں سب کا قیام عارضی ہے، اس عارضی قیام میں کسی کو آسانی میسر آجاتی ہے تو کسی سے زندگی گزرتی نہیں اسے گزارنی پڑتی ہے۔۔۔۔

اس کی زندگی ہمیشہ سے ہی جدوجہد بھری رہی تھی۔۔۔۔

بچپن سے پولیو کا مریض، چھڑی کے سہارے جسم گھسیٹتا ہوا امام بخش۔۔۔۔ آپ اگر گھر میں بھی بیٹھے ہوں تو بھی اس کے چلنے کی آواز سے اسے پہچان لیں گے۔۔۔

ایک غریب گھر میں آنکھ کھولی۔۔۔در و دیوار سے غربت ٹپک رہی تھی۔۔۔ لیکن اس کے خواب اس در و دیوار سے ہمیشہ ہی سے ہٹ کر تھے۔۔۔۔

جہاں پورے گھر میں کسی نے سکول کا منہ نہ دیکھا ہو وہاں ایک پولیو زدہ بچہ سکول جانے کی ضد کر بیٹھے حیرانگی سے زیادہ پریشانی کی بات تھی کہ اس چک میں سکول ۳ میل کے فاصلے پر تھا معلوم نہیں اس بچے میں ایسا حوصلہ کیوں کر تھا دس سال کا تھا جب وہ اس ۳ میل دور سکول میں بغیر کتابوں کے بیساکھیاں گھسیٹتا ہوا داخل ہوا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اگر ایسے ہی پڑھتا رہتا تو شاید حالات کچھ اور ہوتے لیکن غربت کی بیڑیوں نے اسے زیادہ دور جانے ہی نہ دیا۔۔۔

ابھی سکول گئے تیسرا سال تھا کہ غریب باپ کو محسوس ہو کہ یہ وقت کا ضیاع ہے بھلا ایک معذور پڑھ لکھ کر کرے گا کیا۔۔۔سو جتنا وقت ضائع ہو گیا سو ہو گیا اور اسے کوئی ہنر سیکھنا چاہیئے سو سکول سے اٹھا کر صدیق ترکھان کے پاس بٹھا دیا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا خواب تھا قلم تراشنا لیکن وہ کھڑکیاں، دروازے تراش رہا تھا۔۔۔۔ یقیناً ہر خواب کو تعبیر کا رستہ نہیں ملتا۔۔۔

دو سال بغیر اجرت کے کام کیا ان دو سالوں میں ہنر کے علاوہ ایک فائدہ یہ ہوا کہ لکڑی کی اچھی بیساکھیاں اپنے لیئے بنا لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بیساکھیاں اس کی دو سال کی تمام اجرت تھیں۔۔۔۔۔

اور پھر حالات نے پلٹا کھایا اور امام بخش ترکھان، امام بخش ڈاکیا بن گیا۔۔۔

۔۔۔۔۔

ڈاکخانے کے پوسٹ ماسٹر نے اس کے باپ کو مشورہ دیا کہ اس کا ایک ملازم جو کہ اس کا عزیز بھی تھا۔۔ بیمار ہے سو کام پر نہیں آسکتا بس اس کی جگہ امام بخش ٹرین سے ڈاکخانے کا تھیلا لایا کرے گا۔۔پوسٹ ماسٹر انتہا کا شاطر آدمی تھا۔۔۔حکومت کے کاغذات میں بیمار ملازم آن ڈیوٹی ہی رہے گا اور کام کرے گا امام بخش۔۔۔۔کہ جسکی کوئی رائے ہی نہیں۔۔۔۔معذور آدمی کی بھلا کیا رائے ہو گی؟؟؟

بدلے میں اس ملازم کی تنخواہ سے کچھ روپے جو کہ نہ ہونے کے برابر تھے، امام بخش کے باپ کو ملیں گے۔۔۔۔ امام بخش کے والد کو یہ سودا زیادہ مناسب لگا کہ اس میں چند روپے تو ملتے تھے۔۔۔ سو صدیق ترکھان کو برا بھلا کہہ کے وہاں سے اٹھا کے ڈاکخانے کے سپرد کر دیا گیا۔۔۔

۔۔۔

ڈاک کا کام کچھ ایسا آسان بھی نہ تھا۔۔۔

کراچی سے جو ٹرین صبح ۳ بجے گاؤں کے اس سٹیشن پر رکتی تھی اس پر سے ڈاک کا تھیلا لے کر ڈاکخانے تک آنا ہوتا تھا۔۔اور پھر سارا دن خطوں کی تقسیم کا عمل۔۔۔۔۔۔۔امام بخش سرشام ہی کھانا کھا کر سٹیشن پر پہنچ جاتا کہ اسے وہاں جاتے بھی دو گھنٹے لگ جاتے۔۔۔۔

اور جب ڈاک کا تھیلا اٹھائے گرتا پڑتا وہ ڈاکخانے تک پہنچتا تو سورج کی کرنیں اس کا استقبال کر رہی ہوتیں۔۔۔۔

ان دنوں امام بخش کو دن طویل لگتے اتنے طویل کہ روز سورج کے ڈھلنے تک اس کی عمر ڈھل جاتی۔۔۔۔

چھ ماہ بعد وہ ملازم واپس آیا اور امام بخش کو راتیں پرسکون ہوئیں۔۔۔۔لیکن دن مختصر پھر بھی نہ ہوئے۔۔۔

معذور آدمی کا اس سوال کرتی دنیا سے مقابلہ کرنا کچھ ایسا آسان کام نہیں۔۔۔ہر نظر ایک سوال ہے ہر نظر ایک تنقید نگار۔۔۔

 

لیکن کچھ دن ہی ہوئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی جذبات سے لبریز تقریر سنی تو امام بخش کے والد بھی آبدیدہ ہو گئے اور فرحت اشتیاق میں امام بخش کو سرگودھا کے ایک دینی مدرسے بھیج دیا کہ جہاں سے مولوی صاحب فارغ التحصیل ہوئے تھے۔۔۔۔

سو سامان باندھ دیا گیا اور امام بخش سرگودھا کے مدرسے چلا گیا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دن یونہی کٹتے رہے اور راتیں ایک ہی طرح سے گزرتی رہیں کہ ۶۵کی جنگ کا طبل بج اٹھا۔۔۔

مدرسہ کچھ روز کے لیئے بند کر دیا گیا اور طلبا کو ان کے گھروں کو جانے کا کہہ دیا گیا۔۔

سو امام بخش واپس گھر آگیا۔۔۔

جنگ تو ختم ہو گئی لیکن امام بخش واپس نہ جا سکا،،،،اس کے ذمے اب بڑی ذمہ داری آن پڑی تھی۔۔۔

اس کے بڑے بھائی کی شادی ہونے جا رہی تھی لیکن غریب کسان کے پاس رقم نہ تھی۔۔۔سو امام بخش کا باپ اینٹوں کے بھٹے کے مالک سے قرض لینے گیا تو رہن رکھوانے کو کچھ نہ تھا سوائے امام بخش کے۔۔۔ طے یہ پایا کہ جب تک قرض واپس نہیں ہوتا تب تک امام بخش بغیر اجرت کے بھٹے پر کام کرے گا۔۔۔اور امام بخش کی رائے تو کوئی رائے ہی نہیں۔۔۔۔۔پولیو زدہ رائے،،،،

۔۔۔۔

یہی وہ زمانہ تھا جب اسے محبت ہو گئی۔۔۔یہی وہ زمانہ تھا جب اسے محسوس ہوا کہ دن اور راتیں دونوں بہت مختصر ہو گئے ہیں۔۔۔۔یہی وہ زمانہ تھا جب اسے محسوس ہوا کہ اس کا دل کچھ اور طرح سے دھڑکتا ہے۔۔۔یہی وہ زمانہ تھا جب اسے پھولوں اور تتلیوں سے محبت ہو گئی،،یہی وہ زمانہ تھا جب اسے محسوس ہوا کہ یہ دنیا کچھ ایسی بھی بری نہیں۔۔۔۔۔

شاید۔۔ثریا کو بھی اس سے محبت تھی کہ اس نے ہمیشہ اسے محبت سے دیکھا تھا۔۔۔رجو شاید اس کی زندگی کی پہلی خوشی تھی۔۔۔۔لیکن یہ زمانہ آخر کب تک رہتا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

جن دنوں اس کے دل میں محبت کی عمارت پروان چڑھ رہی تھی ان دنوں وہ بھٹے پر اینٹیں بنا رہا تھا۔۔۔۔لیکن اس کے خواب ویسے ہی دلکش تھے، رنگ برنگے مہکے اجلے اجلے سے۔۔۔

حقیقت سے بالکل ہٹ کر۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

جیسے تیسے کر کے دو سال بھی کٹ گئے اسے یوں محسوس ہوتا کہ گویا ایک قید تھی جو کاٹ کے واپس آیا ہے۔۔۔۔بغیر جرم کے قیدی یقیناً ایسا ہی محسوس کرتے ہوں گے کہ جیسا وہ ابھی محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔

گھر آیا باپ اور بھائیوں نے اسے گلے لگایا کہ تم نے بڑی قربانی دی ہے۔۔۔۔

پہلی بار اس کے بارے سوچا گیا کہ وہ بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہے۔۔۔۔جانے یہ اس کی محبت کا اثر تھا کہ کیا تھا کہ اس کی بات ثریا سے طے پا گئی۔۔۔۔

ثریا کی ماں نے بہت شور ڈالا کہ ایسا نہیں ہوسکتا لیکن ثریا کا بیمار باپ اپنے بھائی کو انکار نہ کرسکا اور امام بخش کا

ثریا سے نکاح کر دیا گیا اور رخصتی کو ثریا کے باپ کے صحتمند ہونے تک موخر کر دیا گیا۔۔۔۔لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ صحتمند ہونے سے پہلے ہی چل بسا۔۔۔۔

ادھر وہ غریب دنیا سے رخصت ہوا ادھر ثریا کی ماں نے کہا کہ اب میں اپنی بیٹی کی رخصتی اس لنگڑے سے ہرگز نہ کروں گی۔۔۔۔امام بخش سے کس نے پوچھنا تھا۔۔۔۔اس کی بھلا کیا رائے !!! ۔۔۔۔ پولیو زدہ رائے۔۔۔۔!!!

۔۔۔

پھر امام بخش کی شادی موخر کر دی گئی اور اس سے چھوٹے بھائی کی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔۔۔

۔۔ایک اور کمرہ بنانا تھا اور اب بھی غریب کسان کے پاس رقم نہیں تھی اور اب بھی قربانی پولیو زدہ نے دینی تھی اور اور اب کی بار پھر دو سال کے لیئے بغیر اجرت کے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے لگا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس عرصے میں ثریا کی محبت ہی تھی جو اسے جوان رکھتی تھی۔۔۔

اور یہ عرصہ بھی آخر بیت گیا۔۔۔

امام بخش کے بالوں میں اب چاندی اتر چکی تھی۔۔۔۔

اس عرصے میں کچھ نہ بدلہ تھا تو وہ رجو کی ماں کی ضد تھی۔۔۔۔۔

عجیب ضدی عورت تھی۔۔۔بیٹی کو گھر بٹھا دیا لیکن لنگڑے سے شادی نہ کی۔۔۔۔اور مرتے دم تک وہ اس ضد پر قائم رہی۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

پھر وقت نے گزرنا تھا سو گزرتا گیا۔۔۔وقت کو بھلا کس نے روکا ہے۔۔۔۔۔

وقت گزر گیا۔۔۔۔امام بخش کے لیے کسی نے نہ سوچا۔۔۔۔

امام بخش اب گاؤں میں بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے۔۔۔۔شام کو سٹیشن پر جا کر گاڑیوں کو آتے جاتے دیکھتا ہے اور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ سورج جو روز ڈوبتے ہوئے یہ پیغام دیتا ہے کہ یہاں قیام عارضی ہے۔۔۔۔

اور ہاں اب وہ کوئی خواب نہیں دیکھتا…………………………..

٭٭٭

 

 

 

 

جھوٹ

 

 

"تمہیں پتہ ہے ان پہاڑوں کے پیچھے کیا ہے؟؟؟” آصف نے باقی دونوں بچوں گلو اور ببلو کو مخاطب کر کے پوچھا تھا۔

"ہاں تو اور کیا مجھے تو سب معلوم ہے کہ ان کے پیچھے کیا ہے۔” گلو نے ایسے کہا جیسے وہ سب جانتا ہو۔

"اچھا تو پھر بتاؤ کیا ہے ان پہاڑوں کے پیچھے؟؟؟”

"ان پہاڑوں کے پیچھے پھلوں کے درخت ہیں اور ان پہ قسم قسم کے پھل لگتے ہیں۔۔۔اتنے میٹھے اتنے میٹھے کہ تم نے کبھی کھائے بھی نہ ہوں گے۔۔۔۔”

"اچھا تو ایسے میٹھے پھل تم نے کہاں سے کھا لیئے پھر؟؟؟” آصف کے لہجے میں ایک طنز تھا۔۔

"میں نے تو وہاں کے آم کھائے ہیں۔ اس دن میرے ابا دو آم لائے تھے وہ کہتے تھے کہ یہ کوئی عام آم نہیں ہیں۔ اور وہ ایسے میٹھے تھے کہ میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔۔۔۔”

دو آم بس؟؟؟؟ تو تم سب گھر والوں نے صرف دو آم کھائے تھے؟؟؟؟آصف نے حیرت سے کہا۔۔۔

"ہاں تو وہ کوئی ایسے ہی عام سے آم تھوڑی تھے پہاڑوں کے پیچھے سے آئے تھے ایسے آم سب مل کے کھاتے ہیں۔۔۔ایسا تھوڑی ہے کہ سب الگ الگ آم کھائیں۔۔۔۔”

"لیکن پہاڑوں کے پیچھے آم کے درخت تو نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ "تیسرا بچہ ببلو , جو تھوڑا شرمیلا اور ڈرپوک تھا پہلی بار بولا تھا۔۔۔۔

"تو بھلا اور کون سے درخت ہیں؟؟؟؟” گلو نے پوچھا۔۔۔

"ان پہاڑوں کے پیچھے تو ایسے درخت ہیں کہ جن کی لکڑی ایسی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ کبھی نہیں ٹوٹتی چاہے اس سے کسی کی جتنی بھی پٹائی کرو۔۔۔۔۔”

"یہ تم سے کس نے کہا؟؟؟” آصف نے حیرت سے پوچھا

"تمہیں یاد نہیں اس دن ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تم لوگوں کو ٹھیک کرنے کے لیئے اب پہاڑی لکڑی منگوانی پڑے گی تبھی تم لوگ سدھرو گے۔۔۔

مجھے معلوم ہے بہت جلد وہ پہاڑی لکڑی لے کر آئیں گے اور پھر اس سے

ہم سب کی پٹائی کریں گےاسی لئیے تو میں اب روز سبق یاد کر کے جاتا ہوں۔پہاڑی لکڑی کوئی عام لکڑی تھوڑی ہوتی ہے ایک دن مار پڑے تو ہفتوں درد نہ جائے۔۔۔۔”

آصف جو ان دونوں سے عمر میں تھوڑا بڑا تھا اس نے دونوں کی طرف دیکھا اور پھر پہاڑوں کی طرف منہ کر کے بولا "تو یعنی تم دونوں کو ابھی نہیں پتہ کہ ان پہاڑوں کے پیچھے کیا ہے؟؟؟؟”

"ہم نے بتایا تو ہے۔۔۔۔گلو نے کہا

"نہیں تم دونوں کہ نہیں پتہ کہ ان پہاڑوں کے پیچھے کیا ہے۔۔۔۔۔میں بتاتا ہوں تمہیں۔۔۔۔ان پہاڑوں کے پیچھے جن ہیں۔۔۔”

جن؟؟؟؟؟دونوں بیک وقت بولے تھے

"یہ، یہ تمہیں کس نے بتایا ؟؟؟؟ببلو نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا

"مجھے سب پتہ ہے، کسی روز جھوٹ بول کے دیکھو تمہیں پتہ چل جائے ان کا۔۔۔۔”

"جھوٹ کیا مطلب؟؟؟”ببلو بولا۔۔۔

"ابا کہتے ہیں جو بچہ بھی جھوٹ بولتا ہے تو پہاڑوں کے پیچھے سے یہ جن آکے اسے پکڑ کے لے جاتے ہیں۔۔۔۔”آصف نے کہا

"پکڑ کے لے جاتے ہیں۔۔۔۔مطلب لے جاتے ہیں سچ میں؟؟؟؟؟”

ببلو نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔

ہاں تو اور کیا۔۔۔آصف نے کہا

"پھر۔۔۔پھر کیا ہوتا ہے۔۔۔”

پھر کیا پھر پہاڑوں پر سے نیچے پھینک دیتے ہوں گے۔۔۔۔۔اور کیا”۔۔۔آصف نے کہا۔۔۔۔

"ببلو۔۔۔ببلو یہ تم کہاں بھاگے جا رہے ہو۔۔۔۔”گلو چلایا

۔۔۔۔

"مسجد سیپارہ پڑھنے۔۔۔۔۔”

"آج چھٹی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”گلی کا موڑ مڑتے ہوئے ببلو نے کہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

انتظام

 

 

"دیکھو میں بڑی تکلیف میں ہوں۔ ”

” حوصلہ رکھ، رجو حوصلہ۔” ۔ یہ فقیروں کی بستی تھی۔ دور دور تک جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں، انہی میں ایک جھونپڑی کمالے کی تھی جس میں کمالے کے علاوہ چار اور زندگیاں بھی سانس لیتی تھیں،اس کی بیوی رجو اور اس کے تین بچے، زندگی جینے اور زندگی گزارنے میں بڑا فرق ہوتا ہے سو وہ گزار رہے تھے،۔ اس کا واحد ذریعہ روزگار بھیک تھی، کمالے کو ایک ہی ہنر آتا تھا اور وہ تھا بھیک مانگنا۔ کوئی اور ہنر سیکھنے کا اسے کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ وہ اور رجو سارا دن بھیک مانگتے اور تینوں بچے صبح سے شام اس کا انتظار کرتے، کمالے نے کئی بار رجو کو کہا بھی کہ انہیں بھی اب ہنر سیکھنا چاہیے پر رجو ہر بار آڑے آ جاتی۔ نہ نہ کمالے یہ ابھی چھوٹے ہیں . حالانکہ ارد گرد کی جھونپڑیوں سے اس کی عمر کے بچے اب پچاس ساٹھ روپے کی دیہاڑی لگا رہے تھے۔۔۔۔ باقی بچوں کی نگاہ میں یہ بچے انتہائی کاہل اور بیکار تھے جو سارا دن جھونپڑی کے اندر یا جھونپڑیوں کے درمیان، کھیلتے رہتے۔۔۔

.۔ وقت ایسے گزر رہا تھا کہ ایک روز رجو کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔ جتنے ٹوٹکے انہیں آتے تھے سب آزما ڈالے جب ٹوٹکوں سے آرام نہ آیا تو اسے خیال آیا کہ دنیا میں ہسپتال نام کی بھی ایک جگہ ہوتی ہے جہاں انسانوں کا علاج ہوتا ہے۔ ہسپتال کے بارے اس کی معلومات بہت محدود تھیں، اسے صرف اتنا پتہ تھا کہ یہاں علاج ہوتا ہے۔ کیوں اور کیسے کے بارے اس کے ذہن میں کوئی جواب نہیں تھا۔ سو اس نے اردگرد کی جھونپڑیوں کے لوگوں سے اس بارے پوچھا کہ ہسپتال کیسے جاتے ہیں اور کیا وہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ بھکاریوں کا بھی علاج ہوتا ہے؟؟؟؟ سب لوگوں کے مطابق ہسپتال جانے کے لئیے کافی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی رقم۔۔۔۔؟؟؟؟ بہت ساری۔۔۔۔ سو اسے رقم جمع کرنی تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔

اگلے پانچ دنوں میں وہ رات گئے تک بھیک مانگتا، اس کی آواز میں درد اور بڑھ گیا تھا۔۔۔ پانچویں دن رات گئے جب وہ جھونپڑی میں لوٹا تو اس کے پاس پورے پانچ سو روپے تھے۔۔۔۔۔

"دیکھو میں بڑی تکلیف میں ہوں۔۔۔”

"بس رجو حوصلہ رکھ میں نے رقم کا بندوبست کر لیا ہے۔ کل ہسپتال چلیں گے۔۔۔۔پھر تمہیں آرام آجائے گا”

. اگلے روز وہ رجو کو سرکاری ہسپتال لے گیا۔ رجو کو شدید تکلیف تھی لیکن ہسپتال کے قواعد و ضوابط بڑے سخت تھے جو کہ غریبوں پہ سختی سے نافذ کیے گئے تھے۔ کمالا، رجو کو لے کے صبح سویرے ہسپتال آیا تھا،بڑی مشکل سے پرچی بنی اور سب سے آخر میں بھکارن کا نمبر آیا۔۔ ڈاکٹر نے نے ایک ٹیسٹ تجویز کیا تھا، کمالے کے لیئے یہ سب کچھ پہلا تجربہ تھا وہ پوچھتا پوچھتا آخر وہ ٹیسٹ کرانے میں کامیاب ہوا، چار سو کا ٹیسٹ تھا۔

اس نے ذہن میں حساب لگایا اب اس کے پاس نوے روپے باقی تھے۔ لیکن پھر اسے یہ سوچ کہ خوشی ہوئی کہ ٹیسٹ ہو تو گیا نا اب رجو بھی تو ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ وہ رپورٹ لے کے ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔۔۔ ڈاکٹر نے ایک نظر رپورٹ پر ڈالی پھر ایک نظر بھکاری پر۔۔۔۔

"تمہاری بیوی کے گردوں میں مسئلہ ہے، آپریشن کرنا ہو گا۔۔ بیس ہزار کا انتظام کر لو گے؟؟؟”

"بیس ہزار؟؟؟؟ ”

اس نے کبھی اکھٹے بیس ہزار نہیں دیکھے تھے۔ وہ تو سو دو سو کی دیہاڑی لگا نے والا آدمی تھا۔وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اس ٹیسٹ سے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا اور رجو چنگی بھلی ہو جائے گی

” صاب اپریسن جروری ہے کیا؟؟؟؟”

ہاں بہت ضروری۔۔ ”

"کوئی دوا نہیں مل سکتی اس بیماری میں۔۔۔؟؟؟؟”

"ایک دوا میں نے لکھ دی ہے اس سے کچھ دیر آرام تو ہو گا لیکن اس کا حل آپریشن ہی ہے۔۔۔ ”

۔ دوا کا نسخہ سنبھالے وہ میڈیکل سٹور پر پہنچا۔ اس نے بچپن سے بھیک ہی مانگی تھی اس کا چہرہ کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ کوئی بھی دیکھتا تو وہ اسے بھکاری ہی سمجھتا۔

"معاف کرنا ” میڈیکل سٹور والے نے کہا

نہیں نہیں صاب میں نے دوائی لینی ہے۔۔۔۔”

میڈیکل سٹور والے نے کہا

پیسے ہیں۔۔۔”؟؟؟

ہاں جی ”

اچھا کون سی دوا۔۔؟؟؟ اس نے نسخہ آگے کر دیا۔۔

یہ لو یہ ہے وہ دوا۔۔۔

کتنے پیسے صاب؟؟؟

"۔980 ”

کتنے صاب؟؟؟؟ٓ آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اس کی جیب میں کل 90 روپے تھے، اسے اندازہ نہیں تھا کہ دوائی بھی مہنگی ہوتی ہو گی۔ اس کی سمجھ جتنی تھی اس کے مطابق گاڑیاں مہینگی تھیں , بنگلے مہنگے تھے اور روٹی تو بہت ہی مہنگی تھی۔

"صاب یہ رکھ لیں وہ میں کل آؤں گا لینے۔۔۔۔” "مجھے پہلے ہی پتہ تھا پیسے ہوتے نہیں اور آ جاتے ہیں۔۔”۔ اس نے سٹور والے کی بات پہ کوئی توجہ نہ دی وہ بچپن سے لوگوں سے ایسی باتیں سنتا آیا تھا۔۔۔۔

"کمالے دوا لے آئے؟؟؟؟”۔ رجو نے درد سے کراہتے ہوئے کہا

"لے آؤں گا لے آؤں گا۔۔۔”

"دیکھ میں بڑی تکلیف میں ہوں۔۔۔۔” . جانتا ہوں بھلئے لوکے۔۔۔ بس تھوڑے پیسے کا انتجام کرنا ہے۔۔۔۔ ” . فی الحال تو 980 روپے کا۔ اس کے بعد۔۔۔۔اس کے بعد کے 20000 کے بارے ابھی وہ سوچ نہیں سکتا تھا۔۔۔

"کل سے یہ تینوں بھی آئیں گے کام پر میرے ساتھ۔۔۔۔ "رجو نے کچھ کہنا چاہا کہ درد کی اک لہر سے اٹھی۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔”

اگلے روز سب کام پر نکل پڑے۔

بھکاری کے بچے تھے فورا ہنر سیکھ گئے۔ شام کو کسی کے پاس تیس تھے کسی کے پاس چالیس لیکن 980 ابھی دور تھے۔ اور 20000 ابھی سوچ سے باہر۔

"دیکھ میں بڑی تکلیف میں ہوں،کسی سے قرض لے لے اور دوا لے آ۔۔۔ ”

نی بھلیے لوکے ہم بھکاری ہیں بھکاری۔۔۔ ہمیں کس نے قرج دینا ہے بھلا؟؟؟؟” ”

بس تو تھوڑا حوصلہ رکھ۔۔ ایک دو روج میں دوائی کا انتجام ہو جائے گا،،،،۔ ” پھر ایک شام جب کمالے نے چوک پہ کھڑے کھڑے اپنی رقم اور بچوں کی رقم گنی . پھر اس نے اندر کی جیب سے پچھلے دنوں کی جمع کی رقم کے ساتھ جوڑ کے گنا تووہ کتنا خوش تھا۔ 980 روپے ہو گئے تھے۔۔۔۔ وہ بچوں سمیت میڈیکل سٹور پہ گیا اور وہ ساری رقم جس میں زیادہ سکے تھے، کاونٹر پر دھر دی۔۔ پھر ڈاکٹر کا نسخہ نکالا۔۔۔

"صاب یہ دوا دے دیں۔۔۔۔”

یہ لو، 980 کی ہے "…..

"جی جی , صاب مجھے معلوم ہے۔ پچھلے کئی روز سے یہی تو یا د ہے،،، ” . یہ روپے پورے ہیں ؟؟؟؟ سٹور والے نے رقم سمیٹتے ہوئے کہا۔۔ جی صاب۔ میں کئی بار گن چکا ہوں پورے ہیں۔۔۔”۔ دوا لے کے وہ کتنا خوش تھا گویا دنیا فتح کر لی ہو۔۔۔ جیسے یہی وہ دوا ہے جو رجو کے سارے دردوں کا علاج ہے کہ کے پیتے ہی وہ چنگی بھلی ہو جائے گی۔۔۔۔

"رجو

رجو

نی رجو”

وہ جھونپڑی میں چیختا چلاتا داخل ہوا

"رجو یہ لو تمہاری دوا لے آیا ہوں۔۔۔۔ رجو۔۔۔۔۔ سنتی ہو دوا لے آیا ہوں،،،،اب تمہیں درد سے آرام آ جائے گا ….”

لیکن….

رجو کو پہلے ہی آرام آ چکا تھا……………………………

٭٭٭

 

 

 

 

 

گمشدہ محبت

 

 

June 15 1988

” میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ ”

وقت کیسے پر لگا کے اڑتا ہے خبر بھی نہیں ہوتی، ابھی کل کی بات لگتی ہے جب ہم سب بچے ساتھ میں کھیل رہے تھے، ہم نے جانے کیسے صدیوں کا سفر دنوں میں طے کر لیا اور ہم بڑے ہو گئے۔۔۔۔

میں وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے اس سے محبت کب ہوئی تھی، کچھ باتوں کے بارے میں آپ کبھی بھی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔

چاچا احمد نواز گاؤں کے گورنمنٹ سکول میں استاد تھے جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے لاہور میں تبادلہ کرانے کو دوڑ دھوپ شروع کر دی، اور یہ دوڑ تبادلہ کرا چکنے پہ ختم ہوئی۔۔۔ کہتے تھے دنیا بہت ترقی کر گئی ہے، کب تک چھوٹے سے گاؤں میں رہیں اور اپنی سوچ کو محدود رکھیں۔بچوں کے مستقبل کے لئیے لاہور جانا ہی ہو گا۔۔۔ انہیں کون سمجھاتا کہ شہر چھوڑنے سے سوچیں نہیں بدلتیں، بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی سوچ کہ لوگ بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔. . ان کے دو بچے تھے، نمرہ اور سلمان، نمرہ نے بی اے کیا تھا اس سال، سلمان ابھی میٹرک میں تھا۔۔۔۔

کیا تم لوگ واقعی جا رہے ہو؟؟؟؟؟ میں نے آخری دن اس سے پوچھا تھا۔۔۔۔کہ مجھے اب تک یقین نہ آتا تھا کہ یہ لوگ واقعی یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔

” ہاں تو اور کیا ابا مذاق کر رہے ہیں کیا۔۔۔۔ تم بھی کسی بڑے شہر میں جاؤ تبھی ترقی کرو گے۔ میں تو گورنمنٹ کالج میں ایڈمیشن لوں گی۔۔۔۔ تم نے نام تو سن رکھا ہو گا۔۔۔۔

"ہاں سنا ہے۔۔۔۔ تھرڈائیر میں کالج کا ٹرپ گیا تھا لاہور تو دیکھا بھی تھا۔۔۔۔۔ ”

"۔ تو کیسا تھا، عمارت کیسی تھی۔۔۔۔ ”

” تم لوگ وہاں جا کر ہمیں بھول تو نہ جاؤ گے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

"۔ نہیں اب ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔ گاؤں میں ۲۰ سال گزارے ہیں زندگی کے بھلا کیسے بھول سکتے ہیں۔۔۔۔ لیکن ترقی بھی تو کرنی ہے، زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے کچھ نہ کچھ قربانی تو دینی پڑتی ہے۔۔۔۔”

” . اچھا تو تمہیں یاد رہے گا یہ سب، یہ گلیاں، یہ لوگ، یہ گلی کے سرے پہ کھڑا درخت، اور اور میں۔۔۔۔۔۔ ہاں کیوں نہیں میری یادداشت ایسی بھی کمزور نہیں ہوئی ابھی۔۔۔”

اور ہنسی کا ایک طوفان تھا کہ تھمتا ہی نہ تھا۔۔۔۔میں چاہ کہ بھی ہنس نہ سکا،،،،، جانے بعض دفعہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آپ کوشش کے باوجود بھی ہنستے لوگوں کے ساتھ ہنس نہیں سکتے۔۔۔۔۔

” اچھا ٹھیک ہے تم باقاعدگی سے مجھے خط لکھنا، ہر روز۔۔۔۔

” ہر روز؟؟؟؟”

"اچھا ہر ہفتے۔۔۔۔” میں نے کہا۔۔۔

"ہر ہفتے ؟؟؟؟؟”

"اچھا ہر ماہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

"اچھا یہ ٹھیک ہے۔۔۔”

” اور بھولنا مت۔۔۔۔ ”

۔۔۔۔۔۔۔

دن کیسے ہفتوں میں اور ہفتے کیسے مہینوں میں ڈھل گئے۔۔۔۔کوئی خط نہ آیا۔۔۔۔۔ بڑے شہر میں رہ کہ ایسی چھوٹی حرکت کون کرتا۔۔۔چاچا احمد نواز کا ابا کے نام کبھی کبھار خیریت کا خط آ جاتا۔۔۔میں کئی کئی بار لفافہ کھولتا، کہ شاید اس کے ساتھ بھی کوئی صفحہ میرے لئے ہو۔۔۔۔ چاچے کے خطوط کے مطابق نمرہ اکنامکس میں ماسٹرز کر رہی تھی۔۔۔۔، تین سال گزر گئے، نمو کو گاؤں کی گلیاں، لوگ، درخت اور میں یاد نہ آسکے۔۔۔۔۔۔

شاید کچھ مجبوری ہو۔۔۔سوچا لاہور خود جاتا ہوں۔۔۔۔ میں لاہور جاتے ہوئے راستے میں سوچ رہا تھا کہ تین سال بعد نمو مجھے دیکھ کہ کیسی خوش ہو گی۔ بیچاری کیسی مجبور ہو گی کہ خط لکھنے تک کی فرصت نہ مل پائی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

October 13 ,1991

میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔۔

یہ چک ۳۶ کی نمو نہیں، یہ لاہور کی نمرہ احمد تھی۔۔۔۔ اکنامکس میں ماسٹرز کر کے ایک این جی او میں آفیسر۔ لباس سے لے کہ خیال تک کچھ بھی پرانا نہیں تھا۔۔۔۔

آباد رہو بڑے شہرو، کہ تم انسان کی ترقی ہو۔۔۔۔۔

"نمو۔۔۔”میں نے اسے بلایا۔۔۔

"excuse me, i am Nimra ahmed”

Sorry

"وہ بچپن میں ہم گاؤں میں سب تمہیں نمو کہتے تھے”۔۔۔۔

ہاں اب بچپن نہیں رہا۔۔۔اور یہ گاؤں بھی نہیں۔۔۔ نمرہ نے کہا۔۔۔

ہاں اب بچپن نہیں رہا۔ گاؤں نہیں رہا، اب وہ زمانہ نہیں رہا۔۔۔شاید، شاید اب کچھ بھی ویسا نہیں رہا۔۔۔۔ تم نے بھی خط نہیں لکھا نمرہ۔۔۔،؟؟؟

” یہاں زندگی بہت مصروف ہوتی ہے ایسے کاموں کے لئے وقت نہیں ملتا۔۔۔،”

"تمہیں یاد ہے گاؤں کی گلیاں، لوگ، اور گلی کے سرے کا پیڑ،۔۔۔۔۔۔؟؟؟

"ٹھیک ہے وہ اچھا وقت تھا لیکن اب جو گزر گیا اسے کیا یاد رکھنا۔۔۔”

، وہ گلی کے سرے پر جو پیڑ تھا جس کے نیچے ہم کھیلتے تھے سوکھ گیا تھا، سو لوگوں نے کاٹ دیا۔۔۔۔میں نے اسے بتایا۔۔۔۔کہ اس نے سب کچھ یاد رکھنا تھا۔۔۔اس نے کہا تو تھا۔۔

تو میں کیا کروں؟؟؟؟ نمرہ احمد نے کہا۔۔

"ہاں یہ بھی ہے۔۔۔۔تم کیا کر سکتی ہو۔۔، بھیا کی ۲ ماہ پہلے شادی ہو گئی آپ لوگوں کو بلایا تھا۔۔۔پر صرف چاچا احمد آئے تھے۔۔۔ ”

"، ہاں مجھے چھٹی نہ مل سکی۔۔۔۔،”

میں سمجھ رہا تھا اس کے پاس گاؤں کے بارے پوچھنے کو کیئ سوال ہوں گے، کہ لوگ کیسے ہیں، گلیاں کیسی ہیں، میں کیا کرتا ہوں سارا دن۔۔۔ مجھے کون یاد ہے میں سارا دن کس کا انتظار کرتا ہوں۔۔۔ کیوں میں پچھلے تین سال سے ہر روز ڈاکیے سےایک ہی سوال کرتا ہوں۔۔۔۔۔لیکن اس کے پاس کوئی سوال نہیں تھا۔۔۔۔

ترقی کی نئی منزلیں طے کر لی گئی تھیں، کہ پرانا سب کچھ بھلا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔ ………

۔۔۔۔۔

 

۱۳ جولائی ۲۰۱۳۔

کوئی صاحب ریلوے سٹیشن پر ایک بیگ بھول گئے تھے۔ کسی شخص کی نظر پڑی تو بیگ اٹھا کہ کے میرے دفتر لے آیا کہ میں اس اسٹیشن پہ اسٹیشن ماسٹر تعینات تھا ان دنوں۔۔۔ بیگ کی تلاشی لی تو دو جوڑے کپڑوں کے اور چند خطوط جو پوسٹ نہ ہو سکے اور اور ایک ڈائری۔۔۔۔۔ کسی کی ڈائری پڑھنا اچھی بات نہیں ہوتی، میں نے یہ سوچ کرکھولی کہ شاید بیگ کے مالک کا پتہ درج ہو۔۔۔کہ بعض لوگ ڈائری پتے درج کرنے کے لیئے بھی استعمال کرتے ہیں۔۔۔ یہ ۱۹۸۸ کی ڈائری تھی۔ساری خالی تھی۔۔۔۔ سوائے ۲ تاریخوں کے۔۔۔۔ ۱۵ جون ۱۹۸۸ اور پھر ۱۳ اکتوبر۔۔۔۔ ۱۹۸۸ کو مٹا کر ۱۹۹۱ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔ میں نے گمشدہ بیگ کھولا تھا اور اس میں گمشدہ محبت پڑی تھی۔۔۔۔بالکل چپ چاپ۔۔ زمانے کی ترقی کو پہ چیختی چلاتی۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

موقع

 

 

 

صاحبو، زندگی انسان کو کبھی کبھی ایسا موقع دیتی ہے کہ ذرا سی کوشش کی جائے تو سب کچھ بدل جائے اور ساری مشکلیں ختم ہو جائیں۔

یہ شیرا ڈاکو جو کل کو گاؤں میں چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتا تھا اور اب یہ حالت کہ سرکار نے اس کے پکڑنے والے کو ۱ لاکھ کا انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔ سچ ہے کہ برے کام کو شروع میں ہی ترک کرنا آسان ہوتا ہے اس سے پہلے کہ گناہ عادت بنے اسے ترک کر دو۔ اسی میں آسانی ہے اور اسی میں نجات۔

یہ بات اسی گاؤں کی ہے لیکن یہ بات شوکت کی ہے

شوکت پیشے کے اعتبار سے موچی تھا اس کی معاشی حالت بالکل ایسی ہی تھی جیسی کہ ایک موچی کی ہوتی ہے۔ روز بروز اسے اپنے غریب ہونے کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک روز بروز بڑھتی مہنگائی اور دوسری اس کی بیوی کہ وہ طعنے۔۔۔۔

اس کی صبح کچھ یوں ہوتی تھی۔

” وے شوکت میں کہتی ہوں تو کوئی اور کام کیوں نہیں کرتا؟؟؟”

"نی نیک بخت یہ ہنر ہے ہنر۔۔۔ مجھے اس کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔۔۔”

ہاں ہاں تمہیں اور بھلا کیا کام آتا ہے۔۔۔

"میں نے تو روکھی سوکھی کھا کے تمہارے ساتھ گزارہ کر لیا ہے لیکن دیکھ بانو کے سسرال والے جہیز مانگتے ہیں جہیز۔۔۔”

"نی نیک بخت کچھ نہ کچھ سبب بن جائے گا تو پریشان نہ ہو۔۔۔

تمہاری جتنی کمائی ہے اس سے پیٹ کی دوزخ بھریں کہ جہیز بنائیں۔۔۔”

یہ اب ایسے مکالمے روز ہی کی بات تھی۔۔۔ اسے سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ کہاں سے پیسے لائے کہ بانو بٹیا کا جہیز بن جائے۔۔۔

زندگی انسان کو حالات بدلنے کا کوئی نہ کوئی موقع ضرور دیتی ہے۔۔۔۔۔۔

۔ جب سے اس نے سنا تھا کہ شیرے ڈاکو پہ ۱ لاکھ کا انعام ہے۔۔۔ اس نے اس خبر کو موقع ہی سمجھا تھا۔ قسمت بدلنے کا موقع۔۔۔۔ حالانکہ اس نے شیرے کو آخری بار ۱۰ سال پہلے ہی دیکھا تھا۔جب شیرا چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتا اس وقت بھی گاؤں کے لوگ اس سے ڈرتے تھے۔پھر اس کا دل چھوٹی چھوٹی چوریوں سے اکتا گیا۔ ہر چیز شروع میں آسانی سے ترک کی جا سکتی ہے اسی طرح خواہش بھی۔

۔۔۔۔

 

ایک دن شیرا جانے کہاں روپوش ہو گیا۔ پھر وہ تو نہ آیا لیکن اس کی خبریں آتیں رہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ جنگل میں رہتا ہے اور اس کے اور بھی بہت سے ساتھی ہیں جو کہ چوریاں اور ڈاکے ڈالتے ہیں۔

۱۰ سال میں وہ گاؤں نہ آیا لیکن اس کی دہشت پہلے سےزذیادہ ہو گئی تھی۔

ڈرتا شوکت بھی تھا لیکن جب سے اس نے انعام کا سنا تھا اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ یہی وہ موقع ہے جس سے قسمت بدلی جا سکتی ہے۔وہ سوچتا تھا کہ اگر یہ ایک لاکھ اسے مل جائے تو نہ صرف بانو کا جہیز بن جائے بلکہ شادی کے اخراجات بھی پورے ہوسکتے ہیں۔

لیکن وہ شیرے کو پکڑے گا کیسے؟؟؟؟ شوکت کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا کہ جس کے زور پہ وہ شیرے کو گرفتار کر لیتا اور نہ اس کے پاس اتنی رقم تھی کہ کوئی ہتھیار خرید سکے۔۔۔

بہت سوچ بچار کے بعد آخر اس نے ایک رسی اور ڈنڈے کا انتخاب کیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ڈنڈے سے شیرے کے سر پر ضرب لگائے گا اور پھر اسے اس رسی سے باندھ کر سیدھا پولیس سٹیشن پہنچے گا اور پھر پولیس کو اس کی امانت دے کے وہ ان سے اپنی امانت یعنی ایک لاکھ روپے وصول کر لے گا۔۔

منصوبہ بن چکا تھا۔ ہتھیاروں کا انتظام ہو چکا تھا۔ اب بس شیرے کو ڈھونڈنا تھا۔۔۔۔بس اتنی سی بات تھی اب۔۔

شوکت کی چال ڈھال بدل چکی تھی۔ رسی کو وہ اب ہمیشہ کمر کے گرد لپیٹے رکھتا اور ایک ہاتھ میں ڈنڈا۔

چھوٹے چھوٹے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی لوگ بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں اور یہاں تو شوکت صاحب کے انداز ہی بدل گئے تھے۔

"خیر تو ہے شوکت آجکل ہاتھ میں ڈنڈا لیے پھرتے اور یہ رسی؟؟؟ "ایک دن ماسٹر عنایت نے شوکت سے پوچھا۔۔۔

"وہ جی وہ آجکل کتے بہت ہو گئے ہیں، حفاظت تو کرنی پڑتی ہے نا ماسٹر صاحب۔۔۔”

لیکن کتے تو بہت پہلے سے گاؤں میں کافی تھے۔۔۔ لیکن وہ اب سارے گاؤں کو تو اپنے منصوبے کے بارے بتا نہیں سکتا تھا۔ آخر راز بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

وہ سہ پہر کو ہی کام ختم کرتا ڈنڈا ہاتھ میں تھامے اور رسی کمر کے گرد لپیٹے وہ گاؤں سے باہر جو جنگل تھا اس کے باہر ہی بیٹھ جاتا۔۔۔ لوگ کہتے تھے کہ شیرا اسی جنگل میں ہی روپوش ہے۔۔۔ شوکت باہر ہی ایک جھاڑی کے ساتھ چھپ کے بیٹھ جاتا پتہ نہیں وہ کس سے چھپ کے بیٹھتا تھا حالانکہ وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات والا معاملہ تھا۔۔۔

کئی روز گزر گئے اسے شیرا دکھائی نہ دیا۔۔۔۔ جنگل میں جانے کی اسے ہمت نہیں تھی۔۔۔۔ اس کا خیال تھا کہ جنگل میں شیرے کے ساتھی بھی ہوں گے جو اس پر حملہ کر دیں گے سو وہ جھاڑی کے پیچھے ہی چھپا رہتا، اور جونہی سورج ڈوبتا۔۔۔ اس کا دل بھی ڈوبنے لگتا اور وہ تقریباً بھاگتے بھاگتے گاؤں پہنچتا،،، اندھیرے میں کیا معلوم شیرا حملہ کر دے۔۔۔۔۔۔

کام کم کرنے کی وجہ سے گھر میں اب فاقوں کی نوبت تھی۔۔۔۔

پھر ایک روز اس کی بیوی لڑ جھگڑ کر میکے چلی گئی اور بانو کو بھی اپنے ہمراہ لے گئی۔۔۔

شوکت نے یہ سوچ کر صبر کیا کہ بس چند ہی روز کی بات ہے صرف چند روز کی پھر جب وہ شیرے کو پکڑ لے گا تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔۔۔۔

اور پھر ایک روز جب وہ اپنے صحن میں چارپائی پر لیٹا شیرے کو پکڑنے کے نئے منصوبے سوچ رہا تھا۔۔ کہ گلی میں شور اٹھا کچھ لوگ بھاگ رہے تھے۔۔۔ پھر اچانک اس کے صحن میں کوئی کود پڑا۔ اس نے چارپائی کے ساتھ پڑا ڈنڈا اٹھایا۔۔۔

” کون ہے۔۔؟؟؟”

"میں شیرا ہوں اور یہ میرا ساتھی۔۔۔۔ پولیس ہمارے پیچھے ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔

"دھپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

"استاد۔۔۔۔

اسے کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟”

٭٭٭

 

 

 

 

کس جرم کی پائی ہے سزا

 

 

پہلا قیدی :”ہاں تنہائی زہر ہے ایک قاتل ہے وہ قاتل کہ جسے مقتول کی کوئی پرواہ نہیں لیکن لوگ کب سمجھتے ہیں پہلے میں بھی نہیں سمجھتا تھا۔ کہ پہلے اس کی میری ایسی ملاقات نہیں رہی تھی، وہ جوانی کہ جسے میں اب ایک خواب سمجھتا ہوں اور وہ دن کہ جو اتنی تیزی سے گزرے کہ میں کچھ یاد بھی کروں تو بھی ذرا بھی حقیقت کا گماں نہیں ہوتا۔ شاید تم بور ہو گئے ہو اتنی لمبی تمہید سن کر لیکن میں مجبور ہوں۔۔۔۔ تنہائی نے مجھے فلسفی بنا دیا ہے…

تمھیں اب اس بیرک میں میرے ساتھ رہنا ہے تو میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے بارے معلوم ہونا چاہیئے۔۔۔کیا تم میری کہانی سنو گے؟؟؟

پہلے قیدی نے سوالیہ انداز میں دسرے قیدی کو دیکھا جو کہ آج ہی اس بیرک میں آیا تھا۔۔۔۔

نئے قیدی نے پرانے قیدی کو پاگل سمجھا اور ایک نظر اسے دیکھ کر زمین کو گھورنے لگ گیا۔۔۔۔۔

پہلا قیدی پھر گویا ہوا۔۔۔

"اچھا یعنی اس کا مطلب ہے تم میری کہانی سننا چاہتے ہو۔۔۔”

"تو میرے دوست کہانی سات سال پرانی ہے”

۔۔۔۔۔

"جی ہاں اس جیل میں آئے مجھے ساتواں سال ہے سات سال اس کمرے میں رہتے رہتے میں نے ہر بات جو کہ سوچی جا سکتی تھی سوچ ڈالی ہے اور اب تو یوں ہے کہ میرے پاس سوچنے کو بھی کچھ نہیں ہے ایک قیدی آخر کتنا سوچے، ہاں ہاں تم ضرور کہو گے کہ سوچ کی بھلا حد تھوڑی ہے جتنا مرضی سوچو، جو مرضی سوچو۔۔ لیکن یقین جانیں انسان پر یہ وقت بھی آتا ہے کہ وہ کچھ نہیں سوچ سکتا یا یوں کہیں کہ وہ سوچنا ہی نہیں چاہتا۔

اوہ میں شاید پھر کہانی سے ہٹ رہا ہوں۔۔۔۔۔”

۔۔۔۔۔

میں مجرم نہیں ہوں۔۔۔

ہاں یقین تو نہیں آئے گا کہ مجرم نہیں ہوں تو یہاں جیل میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔۔لیکن میرا یقین کرو میں نے کوئی جرم نہیں کیا،،، میں اپنی صفائی میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں آپ کو یقین ائے سو آئے نہ آئے تو میں کچھ کر نہیں سکتا کہ ضروری نہیں کہ دنیا آپ کی ہر بات سے اتفاق کرے۔۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں کہ جس پر سارے انسان متفق ہوں۔۔۔”

"قابل افسوس۔۔۔۔”دوسرے قیدی نے نظر اٹھائے بغیر کہا.”ہاں قابل افسوس لیکن یہ سچ ہے۔۔۔”

"سات سال میں اب یہ حالت ہے کہ میں سوچتا ہوں تو گماں ہوتا ہے کہ میں شاید کبھی بھی آزاد نہیں رہا،،،،

اگر ان سات سالوں کو بھی میری زندگی کے بقیہ تیس سالوں میں جمع کیا جائے جو کہ میں نہیں کرتا، تو میری عمر اب سینتیس برس ہے جب کہ میں تیس سال میں مر گیا تھا وہ اس لیئے کہ مجھے اب زندگی اس طرح نہیں محسوس ہوتی جو تیس سال میں محسوس کرتا رہا ہوں۔

آزادی کے دنوں میں میں آزاد طبع، آزاد خیال واقع ہوا تھا ادھر یار دوست بیٹھے ہیں تو آدھی رات تک گپیں ہانک رہے ہیں اور پھر یہ ایک تاریک کمرہ کہ جس کے در و دیوار اب مجھے زبانی یاد ہو چکے ہیں ایک ایک اینٹ گن چکا ہوں میں، پہلے پہل ایک مدت تک میں اپنے ماضی کو یاد کر کے آہیں بھرتا رہا پھر آہستہ آہستہ آہیں ختم ہوئیں تو کمرے کے در و دیوار پر غور کیا کہ اب یہاں اک عمر گزارنی تھی چھت کی اینٹیں تک گن چکا ہوں۔۔۔۔ ایک عرصے تک میری یہ مصروفیت رہی ہے کہ میں اس کمرے کی اینٹیں گنتا رہا ہوں۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ میں مجرم نہیں ہوں۔۔۔

میں نے گریجویشن کر رکھا ہے بی اے کرنے کے سال بعد ہی مجھے محکمہ ڈاک میں ملازمت مل گئی۔۔

نوکری ملے دوسرا سال تھا جب میری شادی ہو گئی۔۔۔۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے تو پھر جیل میں کیونکر آیا ہوں۔۔۔”

دوسرے قیدی نے جواب نہ دیا..ہاں سنیے تو۔۔۔۔۔۔

شادی کے دو سال بعد میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا گویا کہ رونق ہی ہو گئی۔۔۔۔۔۔اور پھر جب اس نے چلنا سیکھا

میں کتنا خوش ہوتا تھا اسے چلتا دیکھ کر۔۔۔۔۔میں وہ خوشی شاید لفظوں میں بیاں نہ کرسکوں۔۔کبھی کبھی لفظ ہار جاتے ہیں۔۔اور جذبات کی جیت ہوتی ہے۔۔۔

۔۔۔۔

کہانی اس دن سے شروع ہوتی ہے جب ایک دن میرے بچہ، میرا پیارا بچہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور اس کا پاؤں پھسلا اور وہ زمین پر آن گرا۔۔۔۔۔

ہم اسے ہسپتال لے کر گئے۔۔۔ ڈاکٹروں نے بہت سارے ٹیسٹ کیئے اور ٹانگ کا آپریشن کرنے کو کہا۔۔اور جب تک روپے کا انتظام نہیں ہو جاتا ڈاکٹر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر تھے۔۔۔جی آپ کہیں گے کہ ڈاکٹر انسانیت کے خادم ہیں،،،، جی بہتر لیکن بڑے مجبور خادم ہیں۔۔۔۔

مجھے ایک خطیر رقم درکار تھی۔۔۔۔۔ پہلی بار ہاں پہلی بار مجھے لگا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں جسکے پاس کوئی جائیداد نہیں اور جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا خیال نہیں آیا یا شاید میں نے اس طرح غور نہیں کیا یا یوں کہیں کہ کبھی ایسے حالات سر پر نہیں پڑے تھے۔۔۔۔۔

میں بھاگم بھاگ تمام قریبی رشتے داروں اور دوستوں کے پاس گیا تو اس دن مجھے معلوم پڑا کہ یہ ایسے بھی قریبی نہیں ہیں جیسا کہ میں سمجھتا رہا ہوں۔۔۔۔ سارے بہت مجبور لوگ تھے۔۔۔۔۔

بیوی کے زیور بھی اتنے ہی تھے کہ ان سے آدھی رقم کا بندوبست ہوا۔ اپنی سائیکل تک بیچ دی۔۔۔

گھر میں اس سے بڑھ کر کوئی قیمتی سامان نہیں تھا کہ جس سے بقیہ رقم کا انتظام ہو سکے۔۔۔بنک سے قرضہ لینے کیلئے بھی کسی چیز کو بطور ضمانت رکھوانا پڑ رہا تھا اور ادھر تو یہ حال کہ سائیکل تک نہیں کہ جو رکھوائی جا سکے۔۔۔۔۔

۔۔۔

پھر میں نے فیصلہ کر لیا اور اس فیصلے پر عمل درآمد کیلئے آدھی رات کو چودھریوں کی حویلی کی دیوار پھلانگ کر اندر کود پڑا۔۔۔۔گناہ اور وہ بھی پہلا گناہ۔۔۔۔ اف توبہ دل یوں دھڑک رہا تھا کہ گویا ابھی کے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔۔ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔۔۔ضمیر الگ جھگڑا کر رہا تھا کہ

” دیکھ خادم حسین، دیکھ خادم حسین۔۔ تو ایک شریف آدمی ہے اور شریف آدمی یوں آدھی رات کو لوگوں کی دیواریں نہیں پھلانگا کرتے۔۔۔۔۔۔ ”

میں نے سوچا یہیں سے واپس چلا جاؤں کہ میں ایک شریف آدمی ہوں۔۔۔ دیوار پر واپسی کیلیے ہاتھ بلند کیئے تھے کہ میرا بیٹا میرا ہاتھ تھام کر , ابا , ابا چلانے لگا ……..۔۔۔۔میرے بچے نے میرے پاؤں پکڑ لیئے، ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔۔۔۔۔۔

نہیں نہیں میں واپس نہیں جا سکتا تھا مجھے صبح تک ہر حال میں پیسے چاہیے تھے اور اتنے سے پیسوں سے چودھریوں کی دولت میں کونسا کمی آ جانی تھی۔۔۔

سارا گاؤں کہتا تھا کہ چودھریوں نے بڑا حرام کما رکھا ہے۔۔سو میں حویلی میں جانے کیلئے مڑا۔۔۔۔

اندھیرا کافی زیادہ تھا میں سرچ لائٹ ساتھ لایا تھا جو اب تک بجھا رکھی تھی۔۔ سوچا اس سے کام لیا جائے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے ڈرتے ڈرتے سرچ لائٹ جلائی۔۔۔۔

سامنے چودھریوں کا کتا کھڑا تھا۔۔۔ جو لائٹ کے چلتے ہی بھونکنے لگا۔میں ڈر کے پھر واپسی کیلئے بھاگا کہ کتے نے میری ٹانگ پر اس زور سے کاٹا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کبھی کبھی برسات کے دنوں میں مجھے وہ درد پھر ٹانگ میں محسوس ہوتا ہے۔۔

مین گیٹ پر بیٹھا چوکیدار چلایا۔۔”کون ہے۔۔۔۔؟”

اور عین اس لمحے اوپر حویلی کی دوسری منزل سے فائر کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جو درد کے مارے مرا جارہا تھا ابھی اٹھا ہی تھا کہ چوکیدار نے آن دبوچا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خاموشی کا وقفہ۔۔۔۔۔۔۔دوسرے قیدی نے نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔۔

پھر ؟؟؟؟

دوسرا قیدی بولا۔

"نہیں کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔”

"پولیس کو بلوا لیا گیا تھا کہ کسی نے چودھری صاحب کو گولی مار دی تھی اور وہ ملزم واپسی پر بھاگتے ہوئے کتے کے حملے سے زخمی ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بات کے کئی گواہ بھی پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے مجھے گولی چلاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔

مجھے اس دن معلوم ہوا کہ قانون کیوں اندھا ہے۔۔۔۔۔

تمام گواہوں کی موجودگی میں عدالت نے مجھے دس سال کی قید بامشقت سنائی۔۔۔۔”

ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا قیدی پریشانی میں گویا ہوا۔۔۔۔

ختم۔۔۔۔۔؟؟؟؟

نہیں کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔

چودھری صاحب کو فورا ہسپتال پہنچایا گیا اور ڈاکٹروں کی انتھک محنت رنگ لائی اور ان کی جان بچی۔۔۔۔۔۔۔۔

عین اسی ہسپتال میں جہاں چودھری صاحب کا آپریشن ہوا اسی ہسپتال میں عین اسی دن ایک بچہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اس کے بعد سے میں یہاں ہوں۔۔۔۔دوست تم سن رہے ہو؟؟؟؟

اور خاموشی سسکیوں میں ڈھل گئی تھی۔۔۔۔

تم سن رہے ہو کیا؟؟؟؟

چپ کرو سالے، ہر روز نئی کہانی سنا رہے ہوتے ہوـ۔ بیرک سے باہر شوکت حوالدار چیخا۔۔۔۔۔

پچھلے سات سالوں سے میں کوئی پچیس مختلف کہانیاں سن چکا ہوں۔۔۔۔ کبھی موبائل چرا کر آ رہا ہے کبھی کسی کی گاڑی چوری کا الزام اس پر لگ گیا ہے۔۔۔۔

شوکت صاب دیکھیں۔۔۔۔پہلا قیدی منمنایا۔۔۔۔

چپ کر، جھوٹا آدمی۔۔۔۔

نہیں میں جھوٹا نہیں ہوں۔۔۔۔۔

تو یہ جو ہر روز نئی نئی کہانیاں سنا رہے ہوتے ہو، یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟

وہ میں خود پر کوئی الزام ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔

نیا قیدی حیرانی سے کبھی خادم حسین کو دیکھتا اور کبھی حوالدار شوکت کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایٹموسو

(ATOMOSO)

 

مکمل دیوانگی اور ہوش میں ایک ایسا عالم بھی ہوتا ہے جب آپ ایک خلا میں ہوتے ہیں۔ جب آپ کو نہ تو دیوانہ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی عقلمند۔۔۔

ایسے عالم میں آدمی یا تو بے حد بولنے لگ جاتا ہے یا مکمل خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔۔۔۔

پہلے پہل بہت بولنے والے جب دیوانے ہوتے ہیں تو انہیں گہری چپ آن گھیرتی ہے اور جو پہلے پہل خاموش رہتے ہیں دیوانگی اس کے لئے آوازوں کا تحفہ ساتھ لاتی ہے۔۔۔وہ چیختے ہیں چلاتے ہیں۔۔۔۔ آپ پاگل خانے کبھی جائیں تو آپ کو دو طرح کے ہی دیوانے ملیں گے بہت خاموش، یا بہت باتونی۔۔۔۔

لیکن بہرحال کہلاتے سب پاگل ہی ہیں۔۔۔۔

۔۔۔۔

 

وہ بھی آجکل ایسے ہی خلا میں تھا اسے محسوس ہوتا تھا کہ چند روز اور اگر وہ اسی طرح کے کرب میں گزارے گا تو عین ممکن ہے مکمل پاگل ہو جائے۔۔۔۔ لیکن وہ پاگل ہونے سے ڈرتا بھی تھا کہ پاگل تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ وہ بہت ڈرتا تھا۔۔۔۔۔

بہت سی باتیں اسے بھولنے لگ گئیں تھیں کبھی کبھار تو اسے یوں لگتا کہ جےس وہ اپنا نام تک بھول گیا ہے وہ فورا جیب سے شناختی کارڈ نکالتا، نام پڑھتا، اور کہتا حد ہے نام تو مجھے یاد ہے بھلا آدمی اپنا نام تھوڑی بھول سکتا ہے۔۔۔۔

راستوں میں وہ خود کلامی کرتا دکھائی دیتا اور جونہی اسے یہ خیال آتا کہ وہ کافی اونچی آواز میں خود سے باتیں کر رہا ہے اور لوگ دیکھ رہے ہیں تو وہ فورا خاموش ہو جاتا اور لوگوں کی طرف یوں دیکھتا کہ جےس کہہ رہا ہو آپ کو غلط فہمی ہوئی میں ابھی پاگل نہیں ہوا۔۔۔

وہ جب بہت اونچی آواز میں خود کلامی کرتا تو کچھ اس طرح کے بے ترتیب جملے لوگوں کو سننے کو ملتے۔۔۔۔

میں نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔ نہیں کچھ نہیں ہو گا۔میں نہیں۔۔نہیں نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔نہیں نہیں نہیں۔۔۔۔۔ پھر اسے خیال آ جاتا کہ لوگ دیکھ رہے ہیں اسے۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

 

نیند اب اسے بہت مختصر ٹکڑوں میں آتی،ذرا سے شور سے بھی وہ جاگ جاتا۔۔۔۔۔ اس کے خواب سارے پریشان تھے اتنے پریشان کہ وہ چیخ اٹھتا ایسے خوابوں کے بعد بھلا کون سو سکتا ہے۔۔۔۔۔

ایک وقت تھا کہ وہ ایک زندہ دل آدمی تھا، خوش باش، بھرپور انداز میں زندگی گزارنے والاانسان۔۔۔۔۔

لوگوں میں گھل مل جانا اس کے کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔۔۔۔

لیکن اب وہ دن نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔اسے اب لوگوں سے خوف آتا تھا۔۔۔۔ حتی کہ چوک میں کھڑی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں سے ڈرتا تھا۔۔۔۔لوگوں کو بہت غور سے دیکھتا۔۔۔۔

اب اسے کسی پر اعتبار نہیں تھا۔۔۔۔۔ کیا ساری دنیا بے اعتباری ہے ؟؟؟؟؟

اس کا یہی خیال تھا۔۔۔۔۔

وہ بہت راستے تبدیل کرتا ہر موڑ پر کوئی موٹر سائیکل کھڑی ہوتی جو اس کا راستہ روک لیتی۔۔۔۔ وہ پریشان تھا لیکن وہ ڈرتا تھا۔۔۔۔ وہ بیچارا بہت عجیب تھا۔۔۔۔

وہ آوازوں سے اتنا خوف زدہ تھا کہ کانوں میں روئی ڈالے رکھتا، لوگ اس کی حالت پر افسوس کرتے اور اس کے ماضی کی خوشگوار باتوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے،لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو اس قدر خوف انسان کو مار ڈالتا ہے اور تمہیں ضرور حوصلے سے کام لینا چاہئے اور اس طرح کی اور بہت سی عام باتیں۔۔۔۔۔ لیکن وہ ڈرتا تھا ہر آواز سے ہر شور سے۔۔

سوچتا تو وہ خود بھی تھا لیکن اس کے لئے اس خوف سے نکلنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔

 

ایک روز جب دسمبر کی خوشگوار دھوپ نکلی ہوئی تھی اس کا دل چاہا کہ صحن میں بیٹھا جائے اور دھوپ کے مزے لوٹے جائیں،کافی عرصے بعد اس کے دل میں کوئی خواہش اٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

سو وہ صحن میں موجود ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں، دسمبر کی دھوپ یقیناً بہت خوشگوار ہوتی ہے اس نے سوچا اور آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ دیوار پر چند چڑیاں بیٹھی چہچہا رہی ہیں، مجھے یقیناً یقیناً اب ڈرنا نہیں چاہےئں اور پرندوں کی خوبصورت آوازوں کو سننا چاہئے ، اس نے ڈرتے ڈرتے کانوں سے روئی نکال کر پھینک دی اور آنکھیں موند لیں،یہ آوازیں اور یہ دھوپ کتنی بھلی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور مجھے اب ڈر بھی نہیں لگتا۔۔۔۔مجھے اب اس خوف سے نکلنا ہو گا۔۔۔۔۔۔

باہر گلی میں بچے کھیل رہے تھے انہوں نے ایک پٹاخے کو آگ لگائی اور پٹاخہ اندر صحن میں پھینک دیا۔۔۔

یہ دھوپ کتنی خوشگوار ہے، یہ چڑیاں کتنا خوبصورت گاتی ہیں۔۔۔۔ اور مجھے اب ڈر بھی نہیں لگتا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

ڈز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک چیخ۔۔۔۔۔۔۔ایسی دلدوز چیخ کے چڑیاں اڑ گئیں، بچے ڈر کے بھاگ گئے۔۔۔۔۔

اور وہ کرسی پر ہی بے ہوش گیا۔۔۔۔۔۔پچھلے دھماکے میں بھی وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔۔۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائلیں فراہم کیں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی