فہرست مضامین
ریت کا ماضی
انجم قدوائی
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
عرض داشت
گو کہ میرا تعلق ایک زمیندار خاندان سے ہے مگر میں نے تقسیم ملک کے بعد کی زمینداری میں آنکھیں کھولیں۔ ایک عرصہ تک گاؤں اور دیہات کا ماحول نظروں کے سامنے رہا جس کے نقوش آج بھی باقی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عرصے تک بیرون ملک رہنے کے بعد بھی وہ ماحول میرے ذہن سے محو نہ ہو سکا اس لیے میرے کئی افسانوں میں وہ نظر آتا ہے۔
میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کیں مگر لکھنے کا شوق ہائی اسکول سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ افسانے شائع ہوئے تو حوصلہ بڑا اورپھر یہ شوق زیادہ سر چڑھ گیا۔ زندگی کی حقیقتوں کو دیکھا، سوچا اور جنتا تحریر کر سکتی تھی کیا۔ زندگی کو الفاظ میں ڈھالنے کا فن کتنا آتا ہے یہ تو ناقدین طے کریں گے تخلیق کار کا کام تو بس تخلیق کرنا ہے۔
’ریت کا ماضی‘ میرا پہلا افسانوی مجموعہ ہے امید ہے کہ پسند آئے گا۔
انجم قدوائی
اللہ کے نام پر
بڑا سا کچا صحن، دونوں طرف بڑے بڑے دالان تیسری طرف ڈیوڑھی اور چوتھی طرف باورچی خانہ کا برآمدہ بڑی دیر سے برامدے کی زمین پر بیٹھی لائینیں کھینچ رہی تھی، میں نے مڑ کر دیکھا پتہ نہیں کس سوچ میں تھی۔ کیا ہوا خلیقن ’’میں نے آہستہ سے اسے آواز دی وہ ایک دم چونک کر اٹھی اور جھاڑو دینے لگی۔ کچھ نہیں بٹیا۔ ‘‘اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ کچھ ہے ضرور کچھ تو ہوا ہے بتاؤ مجھے۔ ’’ میں نے اشارہ کر کے اپنے پاس بلا یا۔ اور کتاب بند کر دی وہ آ کر میرے قریب زمین پر بیٹھ گئی۔ ’’ٹھیک سے بیٹھو پٹری لے لو۔ ‘‘ میں نے لکڑی کی پٹری کی طرف اشارہ کیا۔ ’’کا ٹھیک سے بیٹھیں بیٹا۔ ۔ ابّا تو پگلائے گئے ہیں۔ ‘‘ وہ جھنجھلائی کیا بک رہی ہو اتنے اچھے تو ابّا ہیں تمہارے کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ‘‘ بیچارے تمہیں کھانا تک تو پکا کر کھلاتے ہیں۔ ‘‘ ’’ ارے تو کا بھو ا۔ ۔ ہم ہو کبھی کبھی پکائے لیت ہیں۔ کون بڑا کام کرت ہیں (ارے تو کیا ہوا ہم بھی توکبھی کبھی پکالیتے ہیں کون سا بڑا کام کرتے ہیں ) ’’تم تو بہت بری ہو اتنے اچھے ابّا کو ایسے بولتے ہیں کہیں ؟؟‘‘ ’’اچھے وچھے ناہیں او…تم کا تو کچھ پتہ نہیں ہے۔ او ہمرا بیاہ ٹھکوائے دئی یں ہیں (انھوں نے ہماری شادی طے کر دی ہے ) ’’ یہ تو خوشی کی خبر ہے بھئی۔ لاؤ مٹھائی وٹھائی کھلاؤ۔ ۔ ‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ کا ہے کی مٹھائی۔ ہم نہ کر بئے بیاہ۔ سلیمن کا کروائے دیں ‘‘ ’’سلیمن تو چھوٹی ہے ابھی۔ ۔ چلو اچھا کام ختم کرو ’’ میں نے اپنی کتاب پھر سے اٹھالی مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس کی شادی واقعی طے ہو گئی تھی۔ اسی جمعہ کو بارات آ رہی تھی۔ گاؤں میں گہما گہمی سی ہو گئی، لاؤڈاسپیکر پر گانے شروع ہو گئے۔ گاؤں کی لڑکیاں اپنے رکھے رکھائے رنگ برنگے اچھے کپڑے پہن کر پورے گاؤں میں گھومتی پھریں۔ ۔ ۔ رات کو شادی کا کھانا بھی آیا سمیع بابو کے گھر سے کافی دھوم دھام سے خلیق کی شادی ہو گئی اور وہ خوب زور زور سے روتی ہوئی رخصت ہوئی وہ لوگ اسے ٹریکٹر کی ٹرالی میں رخصت کروا کے گئے۔ میں نے اس کے لئیے چند جوڑے کپڑے اور ایک چاندی کا سیٹ بھجوایا۔ ۔ ۔ وہ میرے گھر پر بچپن سے ہی کام کرتی تھی۔ پہلے پہل اپنی امّاں کی انگلی تھامے ہوئے ڈری سہمی آتی اور ایک کونے میں بیٹھی انھیں کام کرتے دیکھتی رہتی۔ کچھ برس ہوئے اس کی امّاں کا انتقال ہو گیا تو وہ اکیلی آنے لگی اس نے گھر کا سارا کام سنبھال لیا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی لے آتی اور وہ اسی طرح ایک کونے میں بیٹھی رہتی۔ خلیق کچھ کھانے کی چیز اس کے سامنے رکھ دیتی اور خود کام میں لگی رہتی مجھے بھی اس کی عادت سی ہو گئی تھی۔ گھر پر بابا، بھیّا اور میں تھی۔ کام زیادہ نہ تھا۔ مگر اتنے بڑے گھر کی صفائی اور کچّے آنگن کی جھاڑو میں ہی ایک گھنٹہ لگ جاتا اور دوسرے تب ہمارے گھر میں گیس کا چولھا بھی نہیں تھا، لکڑی جلا کر ہی کھانا بنتا۔ ۔ ۔ کھانے کی تعداد کا بھی کچھ پتہ نہیں کبھی کئی لوگ کھانے پر آ جاتے اور وہ جلدی جلدی سارا انتظام مہارت سے کر لیتی۔ میں چند ماہ پہلے ہی ہوسٹل سے گھر لوٹی تھی یہاں کے کاموں کی عادت بھی نہیں تھی۔ ۔ ہر وقت خلیقن کی ضرورت رہتی تھی۔ ۔ ۔ اس نے گھر احسن طریقے سے سنبھالا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا، دال بہت مزے کی پکاتی، ترئی گوشت تو لاجواب ہوتا تھا اس کے ہاتھ کا۔ ۔ بیسن کی روٹی لہسن کی چٹنی جب اصلی گھی میں تل کر لاتی تو میں اور بھیّا کئی روٹیاں صاف کر جاتے اور پھر خوب ہنستے۔ ۔ ۔ کیونکہ خلیق دوبارہ آٹا گوندھ رہی ہوتی، دو بارہ چٹنی بگھار رہی ہوتی اور خود بھی ہمارے ساتھ ہنستی رہتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ماتھے پر کبھی کوئی بل نہیں آتا کہ وہ گرمی میں دو بارہ سارا کام کر رہی ہے۔ ۔ ۔ اس کے جاتے ہی سمیع بابو نے دوسری عورت کا انتظام کر دیا تھا اور سروری نے کام سنبھال بھی لیا تھا۔ ۔ ۔ مگر خلیق والی بات کہاں سے آتی؟؟ مجھے تو ہر وقت اسے آواز دینے کی عادت سی پر گئی تھی۔ ۔ ۔ ہر کھانے میں ہم خلیق کے ہاتھ کا مزا ڈھونڈتے رہ جاتے۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ جمعہ کو اس کی شادی ہوئی اوراتوار کو وہ منھ پھلانے میرے سامنے بیٹھی تھی۔ ’’اب کیا ہوا۔ ۔ ۔ ‘‘؟ میں نے ہنستے ہنستے اسے گلے سے لگا لیا۔ مگر وہ تو واقعی خفا تھی ’’بول۔ ۔ کیا ہوا۔ ۔ ؟ کیسا ہے تیرا میاں ؟‘‘ ’’ارے کیسا ہے ؟؟؟ بہت کھر اب منئی ہے او۔ ۔ ‘‘ ’’اب کیا ہوا تجھے۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اس کے انداز پر مجھے بہت ہنسی آئی ’’ٹرانسسٹر لائے ہیں گھر ماں۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’ہاں تو کیا ہوا؟ ٹرانسٹر کوئی بری چیز ہے کیا؟ مزے سے گانے سننا۔ ۔ ۔ تم کو تو گانے سننا پسند ہے نا۔ ؟‘‘ ’’ہاں تو پسند ہے تو ای کون بات ہے۔ ۔ کہ گھر تو ٹوٹا پھرٹا۔ دروجّا تک ان کا جرا نہیں پھر کا لاگ ہے۔ کوُ کڑ (کتّا) آوت جات ہے اور گھر مالے آئیں ٹرانسسٹر۔ ۔ ‘‘ (ہاں پسند تو ہے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ گھر تو ٹوٹا ہوا ہے دروازہ تک نہیں ہے بانس لگے ہیں، کتّا آتا جاتا ہے اور گھر میں لے آئے ٹرانسسٹر) ’’ارے تو تو بڑی سمجھدار ہو گئی ہے۔ ۔ مطلب یہ کہ پہلے گھر کا دروازہ بنوانا چاہئیے پھر کوئی تفریح کی چیز لانی چاہئیے، ہإں بھئی بات تو صحیح ہے چلو ہم بات کریں گے تمہارے میاں سے۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’کا ہے کے میاں۔ ۔ ؟ بیٹا۔ ۔ ہم کا ای آدمی ٹھیک ناہی لگت ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ بدک کر بو لی۔ ۔ ۔ ’’کیوں ؟؟ کیا ہوا؟‘‘ ’’اب بٹیا تمکا کا بتائیں۔ ۔ ‘‘ وہ شر ما گئی ’’کیوں، ، بتاؤ۔ ۔ سب کچھ تو بتاتی ہو اپنے ابّا سے پٹ کر آتی تھیں تب بھی اور اپنے معصوم ابّا کو پیٹ کر آتی تھیں تب بھی کہ ’’مر ہئیں۔ ۔ مارو کھئی نہیں۔ ۔ کا ہے مارن ہمکا ’’ (ماریں گے تو مار بھی کھائیں گے۔ ۔ ہم کو کیوں مارا) اتنا سمجھایا کہ ابّا پر ہاتھ نہیں اٹھاتے مگر تم تو کہتی تھیں کہ ’’مرہیں تو جرورئے مربئے ‘‘ (وہ ماریں گے تو ہم بھی ماریں گے ) اب کیا ہوا جو نہیں بتا سکتیں ؟‘‘ میں خاموش ہو گئی اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اس کی آنکھیں آنسوں سے بھری تھیں۔ ’’بٹیا۔ ۔ ۔ او ہمکا پکڑت ہے ‘‘ اس نے اٹک اٹک کر بتایا۔ ’’ارے تو وہ تیرا مرد ہے پاگل۔ ۔ ۔ کوئی غیر تھوڑی ہے ’’مجھے بھی شرم آ گئی۔ ’’مر دہے تو کا بھوا۔ ۔ ۔ ہمکا پکڑ ہئیے تو ایسن مار کھیہئیے ‘‘ (مرد ہے تو کیا ہوا۔ ہم کو پکڑے گا تو ایسے ہی مار کھائے گا) ’’ہائیں۔ ۔ ؟؟ تم اسے مار کے آئی ہو کیا غضب کرتی ہو تم پاگل ہو بالکل۔ ۔ ‘‘ ’’ہاں ہاں ہم تو پاگل ہئی ی ہیں بتائے دیہو ابّا کا۔ ۔ ۔ کہ ہم نا جابئے، ہمکا پکڑت ہے، ہمکانیک نہیں لگت دور سے بات کرئے تو ٹھیک ہے نہیں تو مار مار کے دھن دیب ‘‘ (ہم تو پاگل ہیں ہی۔ ابّا کو بتا دینا کہ ہم جائیں گے نہیں، بات کرنی ہے تو دور سے کرے ورنہ بہت ماریں گے ہم)‘‘ وہ زور زور سے جھاڑو دے کر دھول اڑانے لگی گویا اپنا غصّہ نکال رہی ہو۔ ’’یا اللہ کیا مصیبت ہے یہ لڑکی‘‘میں نے سرپیٹ لیا۔ سمیع بابو کا شمار گاؤں کے شریف اور غریب کسانوں میں سے تھا۔ ان دو بیٹیوں کے سوا ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ چند پرس پہلے وہ اور ان کی بیوی نے ہمارے گھر ملازمت اختیار کی، ان کی بیوی نہایت شریف عورت تھی دو بیٹیوں کی وجہ سے لوگ ان کا جینا حرام کئیے ہوئے تھے کہ ایک بیٹا ہو جاتا تو تم لوگوں کا بڑھاپا سنور جاتا حالانکہ کہنے والے شایدیہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سارے گھروں میں بیٹے والدین کے بڑھاپے کو سنوارنے کے بجائے اجاڑ دیا کرتے ہیں بہر حال یہاں اس قسم کی باتیں عام ہیں۔ بیٹے کی پیدایش ہوئی اور جو تکلیفیں سلمہ نے اٹھائیں وہ کوئی محسوس نہیں کر سکتا مگر اس کے بعد جب ماں اور بیٹا دونوں اس جہاں سے گزر گئے تب سمیع بابو اور بچیوں نے جو مصیبتیں اٹھائیں وہ سب کے سامنے تھیں، کئی دن تک وہ باہر بابا جان کے سامنے آ کر روتے رہے انھیں بہتسمجھا کر گھر بھیجا جاتا کہ اپنی بچّیوں کو دیکھو اب تم ہی ان کا سہارا ہو۔ ۔ دھیرے دھیرے ان کے دل کو قرار آہی گیا تو اپنی بیٹیوں کو جا کر گلے سے لگایا اور جینے کی کوشش کرنے لگے۔ خلیق نے حقیقتاً ان کو بیحد سہارا دیا وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ان کے آنسو پوچھتی اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی اور سر دبا کر سلا دیتی۔ پھر رفتہ رفتہ زندگی معمول پر آ گئی اور سمیع بابو خود چولھے چکی میں جٹے۔ ساتھ ہی خلیق سے بھی کام کرواتے وہ خوشی خوشی سب کر دیتی مگر جب اس کا دل نہ چاہت تو بس منھ پھلائے بیٹھی رہتی اور تب سمیع بابو اس کا منھ دھلا کر سر میں تیل لگاتے اور الٹی سیدھی چٹیا بنا کر ہمارے گھر چھوڑ جاتے۔ میں جب ہوسٹل سے آتی تو گھر میں گاؤں کی عورتوں کا آنا جانا ہوتا ورنہ سنناٹے راج کرتے۔ ۔ بابا جان صبح اٹھ کر کھیتوں میں کام کروانے چلے جاتے اور بھیّا اگر یکلچر میں ایم ایس سی کر کے بابا جان کے ساتھ نئے نئے تجربات کرتے رہتے۔ پڑھائی ختم ہوتے ہی عاصم کی امّی میرے لئیے رشتہ لے کر آ گئیں۔ میں تو گھر والوں سے شرمندہ سی ہو گئی جبکہ ہمارے بیچ کوئی ایسی بات ہوئی بھی نہ تھی۔ تب میری سمجھ میں آیا کہ عاصم نے میرا پتہ کیوں لیا تھا۔ چچی جان نے مجھ سے مرضی لی تو میں نے منع بھی نہیں کیا۔ شادی تو کہیں نہ کہیں ہونا ہی ہے۔ ۔ عاصم ہی سہی۔ ۔ ۔ امّی کے زیورات نکلوائے گئے۔ ۔ کپڑوں کی خریداری شروع ہوئی اور بھی نا جانے کیا کیا۔ ۔ ۔ ۔ اسی وقت یہ قصہ بھی جاگ اٹھا۔ میں اپنی طرف سے اسے سمجھا بجھا کر بھیج دیا تھا۔ ۔ ۔ کئی دن واپس نہیں آئی سلیمن نے آنسو پوچھتے ہوئے بتایا کہ ’’دولھا بھائی آپا کا تھپّڑ مارن۔ ۔ ۔ اور جبر دستی لئے گئے۔ ۔ ۔ ابّا بہت روت رہے۔ ‘‘ میں نے اسے بہت سمجھایا مگر سچ تو یہ ہے کہ میرا بہت دل دکھا۔ ایک ماہ کیسے گزر گیا کچھ پتہ نہیں چلا اتنے سارے کام تھے پھر عزیزوں کی آمد، مستقل کوئی نہ کوئی مہمان رہا چچی جان بھی رہنے کے لئیے آ گئی تھیں۔ سلیمن برابر آ رہی تھی مگر وہ ابھی سب کام نہیں سنبھال پائی تھی اس لئیے بس سروری کی کچھ مدد ہو جاتی۔ اس دن میں سر دھو کر نہائی کچھ سردی محسوس ہونے لگی تو چھت پر کرسی ڈلوا کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر محسوس ہوا کہ پیچھے کوئی آ کر بیٹھ گیا ہے مڑ کر دیکھا تو خلیقن میلے کچیلے کپڑے پہنے گٹھری سی بنی بیٹھی تھی۔ میں ایک دم اٹھ کڑی ہوئی۔ ’’خلیقن۔ ۔ ‘‘؟ میں نے اسے چھوا تو وہ ایک دم زمین پر آ رہی۔ ۔ دبلی پتلی، مدقوق چہرہ، پیلی سی آنکھیں بال الجھے دھول بھرے۔ ۔ وہ بیحد برے حالوں میں تھی۔ میں بری طرح گھبرا گئی تھی۔ سروری کی مدد سے اس کو پلنگ پر لٹایا دودھ گرم کر کے پلوایا۔ وہ ہوش میں آ کر بستر سے اترنے لگی۔ ’’لیٹی ہوا بیٹا۔ ۔ کیسی طبیعت ہے ؟‘‘ اسے اس حال میں دیکھ کر مجھے بیحد رنج ہو رہا تھا۔ ’’کچھ نہیں بیٹا۔ ۔ ’’اس نے اپنے آنسو میلے روبٹّے میں چھپالئیے۔ ’’بتاؤ۔ ۔ ۔ کیا ہوا ہے کچھ کہا ہے کسی نے ؟؟؟‘‘ اس نے شانے سے روپٹہ ہٹایا تو قمیص پھٹی ہوئی اور کاندھے پر گہرا زخم تھا۔ ’’او میرے خدا۔ ۔ یہ کیا ہوا ہے ؟‘‘ ’’ہمکا لاٹھی سے مارت ہیں ’وہ سسکنے لگی۔ ۔ ’’مگر کیوں کس لئیے ؟؟ میں بیقرارتھی۔ ’’کہت ہیں تمہرے ابّا نہ تو سائیکل دہین ہیں نہ اس کو ٹر۔ ۔ یا تو پیسہ لے کر آؤ نہیں تو اور مربئے ‘‘ اس نے روتے روتے بتایا۔ ۔ ۔ ’’افففف غضب خدا کا۔ ۔ ۔ پہلے نہیں دیکھا اس نے ؟؟ کہاں سے دیں گے یہ سب ؟؟ وحشی ہے یہ شخص۔ ۔ بالکل پاگل ہے۔ ‘‘ میں نے گرم پانی سے اس کا زخم صاف کیا دوا لگائی ایک جوڑا پہن وایا منھ دھلوایا۔ ۔ ۔ وہ پورے وقت بس روتی ہی رہی۔ ’’بس بہت ہو گیا۔ ۔ ۔ اب مت جانا اس کے پاس۔ ۔ ’’اس نے زخمیہرنی کی طرح مجھے دیکھا۔ ۔ میرا دل تڑپ گیا میں نے اسے بڑھ کر لپٹا لیا۔ ۔ ۔ کچھ دیر کے بعد جب بابا جان اندر آئے تو بہت تھکے ہوئے لگ رہے تھے میں نے ان کو یہ ساری بات بتائی تو خاموش رہ گئے۔ پھر بولے ’’بیٹا۔ ۔ ۔ یہ ان لوگوں کے ذاتی معمولات ہیں، لڑکی کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ ۔ ۔ زیادہ سفارش کریں تو لڑکی بد نام ہو جاتی ہے۔ تم یہ ساری باتیں نہیں سمجھ سکو گی۔ ۔ بہرحال میں سمیع بابو سے بات کروں گا۔ ۔ دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے۔ ۔ آج کچھ دے بھی تو کل دوسری فرمائش نہیں آئے گی یہ کیا گارنٹی ہے ؟ ’’انھوں نے تھکے تھکے انداز میں بات ختم کی اور شیروانی اتار کر ٹانگ دی اور بستر پر لیٹ گئے۔ ’’کیا ہوا بابا جان؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟‘‘ مجھے ان کے بے وقت لیٹنے پر حیرت ہوئی۔ ’’نہیں بیٹا۔ ۔ بس تھک گیا ہوں۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’مجھے نہیں بتائیں گے ؟؟‘‘ میں ان کے بال سہلانے لگی انھوں نے امّی کے بعد اپنے دل کی بات کسی سے بھی کہنا چھوڑ دی تھی۔ مجھے اس بات کا بیحد احساس تھا کہ وہ اپنی کوئی بھی تکلیف کبھی ہم میں سے کسی سے شئیر نہیں کرتے بس۔ ۔ ۔ خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں ان کا سر دباتی رہی وہ بے خبر سوگئے۔ مجھے تجسس تھا شیروانی کی جیب سے ایک لفافے کی جھلک دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔ ۔ ۔ وہ خط تھا کہ ایک شعلہ تھا جو پورے وجود میں پھیل کر مجھے خاکستر کر رہا تھا۔ ہوش آڑ گئے تھے میرے۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک لمبی چوڑی فہرست تھی سامان کی۔ ۔ جو کہ عاصم کی طرف سے بھیجی گئی تھی۔ وہ تقریباً پچاس لاکھ کا سامان تھا جو کہ میرے جہیز میں مانگا گیا تھا۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا جان زمیندار رہ چکے ہیں زمینیں اور باغات کے مالک ہیں پھر اتنی سی رقم ان کے لئیے کیا حیثیت رکھتی ہے۔ میرے دل کے آنگن میں کھلتا ہوا عاصم کے پیار کا نرم پودا دیک دم ہی مرجھا گیا۔ ۔ ۔ وہ رات مجھ پر بہت بھاری گزری۔ ہم لوگ صبح ناشتہ کر رہے تھے کہ سلیمن زور زور سے روتی ہوئی اندر آئی۔ ۔ ۔ ’’یا اللہ خیر۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے دل پر ہاتھ رکھا۔ ’’خلیقن مر گئی بیٹیا۔ ۔ ۔ وہ لوگ خلیقن کا مار ڈالن۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی باہر سے بہت سارے لوگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بابا جان ناشتہیوں ہی چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ کئی عورتیں اندر آ گئی تھیں سب سلیمن کو تسلّی دے رہی تھیں مگر وہ ہاتھوں سے نکلی جا رہیتھی اس کی حالت دیکھ کر میرا بھی برا حال تھا،، ایک کہرام سا برپا تھا۔ ۔ ۔ سنا کہ کل جب وہ اپنے گھر پہونچی تو وہ وہیں بیٹھا تھا۔ وہ اسے مارتا ہوا گھر لے گیا جب گاؤں والوں نے اسے روکا تو بد تمیزی سے بولا ’’میری بیوی ہے۔ ۔ ۔ جو چاہوں کروں۔ ۔ ۔ کہو تو ابھی طلاق دے کر یہں بیٹھا دوں۔ ؟ اور گاؤں والے خاموش ہو گئے کہ وہ اس لفظ سے بہت ڈرتے ہیں۔ صبح یہ خبر آئی کہ کھانا پکاتے ہوئے اسٹو وپھٹ گیا۔ ۔ ۔ اور وہ جل کر مر گئی۔ ۔ ۔ یہ وہی اسٹوو ہے جو وقتاً فوقتاً۔ کم جہیز لانے والی بیٹیوں کو جلانے کے لئیے پھٹتا ہے۔ سارا دن ان لوگوں کی دلجوئی میں گزرا شام ڈھلے وہ سب اپنے گھر گئے اور اس کی میّت آ گئی تھی دفن کی تیّاری ہو رہی تھی پوری گاؤں پر ہو کا عالم تھا۔ رات ہو گئیتھی بابا جان گھر کے اندر نہیں آئے تھے پتہ نہیں کیا معاملات سلجھائے جا رہے تھے۔ عاصم کا فون آ گیا۔ ’’کیسی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟‘‘ ’’ہاں ٹھیک ہوں ‘‘ ’’طبیعت ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ تمہاری آواز کیسی ہو رہی ہے ؟‘‘ ’’ہاں بالکل ٹھیک ہوں۔ ۔ تم سناؤ‘‘ ’’دیکھو۔ ۔ ۔ وہ ابّا نے کوئی رجسٹری وغیرہ بھیجی ہے بابا جان کو۔ ۔ ۔ اب تم یہ سب دل پر مت لینا۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ساری چیزیں ہوں تم لوگ اپنے طور پر دیکھ لینا۔ ۔ ۔ جو بھی کمی بیشی۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’ایک بات سنو عاصم‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ دی ’’میں بس ایک بات کہنا چاہتی ہوں ‘‘ ’’ہاں کہو کہو‘‘ ’’تمہیں پتہ ہے جب فقیر بار بار دروازے پر آئے تو کیا کہتے ہیں ؟‘‘ ’’وہاٹ؟؟؟؟؟؟؟‘‘ وہ زور سے چیخا ’’کہتے ہیں۔ ۔ ۔ بابا معاف کرو۔ ۔ کوئی اور دروازہ دیکھو‘‘ میں نے فون پٹخ دیا۔ اور خلیقن کی موت پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
٭٭٭
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں