ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں…..
رَوشنی کی تلاش
بچوں کے لیے
خرم علی شفیق
۱۔ شاعری کا باغ
علامہ اقبال کی شاعری ایک باغ کی طرح ہے۔ یہ دس حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ حصے در اصل وہ دس کتابیں ہیں جن میں سے ہر ایک کے کھلنے پر باغ کا ایک ایک حصہ سامنے آ جاتا ہے۔
باغ کے بیچوں بیچ ایک سیار گاہ ہے۔ اِس کا نام جاوید نامہ ہے۔ اگرچہ آپ کو باغ کے اُس حصے کی تلاش ہے جو بچوں کے لیے ہے مگر سیار گاہ کو ایک نظر دیکھے بغیر باغ کی کوئی بھی سیر نا مکمل ہے اِس لیے اب آپ کے قدم جاوید نامہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
۲۔ جاوید نامہ
سیار گاہ کے باہر آپ کو علامہ اقبال خدا سے دعا مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں، ’’یا اللہ! میری بات کو نوجوانوں کے لیے آسان بنا دے کیونکہ میں ایک دوسرے جہان کے بارے میں بتانے جا رہا ہوں۔‘‘
اب آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ سیار گاہ اصل میں آپ کے لیے بنائی گئی ہے۔ علامہ اقبال کو اِس سے دلچسپی کم ہے کہ اُن کی بات دنیا بھر کے پروفیسروں، عالموں اور بڑے بڑے لوگوں کی سمجھ میں آ جائے۔ انہیں سب سے زیادہ دلچسپی اِس میں ہے کہ اُن کی بات آپ کی سمجھ میں آ جائے!
۳۔ سات مقامات
سیار گاہ میں داخل ہوں تو یہ آپ کو سات مقامات کی سیر کرواتی ہے۔ آج آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اِس لیے جلدی سے ہر مقام پر بس ایک نظر ڈال لیں ( پھر کبھی واپس آئے تو اِس کی تفصیلی سیر بھی ہو جائے گی)۔ سیار گاہ کے سات مقامات چاند، عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری، زحل اور آسمانوں سے پرے ایک نامعلوم مقام ہیں۔
چاند جستجو کا سیارہ ہے کیونکہ چاندنی رات میں جب یہ نمودار ہوتا ہے تو کچھ کچھ اُجالا کر دیتا ہے۔ یہی حال انسان کے دل و دماغ کا ہے۔ دُنیا کی اندھیری رات میں ہم اِنہی کی روشنی میں سچائی کی تلاش شروع کرتے ہیں۔
عطارد دریافت کا سیارہ ہے۔ یہ ہر لمحہ رنگ بدلتا رہتا ہے اور ہمیشہ سورج کے قریب رہتا ہے۔ اِسی لیے سورج غروب ہونے کے بعد جلد ہی یہ بھی اُفق کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہماری دریافت بھی عطارد کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے مگر سچائی سے کبھی دُور نہیں ہوتی جو سورج کی طرح ہے۔
زہرہ چمکدار سیارہ ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ اِسے خوبصورتی کی نشانی سمجھتے تھے۔ خوبصورتی بھی سچائی کی طرف لے جاتی ہے اور اِس طرح زہرہ اپنی محدود سوچ سے باہر نکلنے کا مقام ہے۔
سرخ سیارہ مریخ آزادی کی علامت ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ اِسے جنگ کی نشانی سمجھتے تھے۔ اُس وقت آزادی حاصل کرنے کے لیے تلوار کا سہارا لینا ضروری تھا مگر اسلام میں جہاد کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں۔ ایک خدا کی راہ میں جنگ لڑنا اور دوسری اپنے آپ سے جنگ کرنا۔ مریخ دونوں طرح سے آزادی کی علامت ہے۔
مشتری نہایت روشن سیارہ ہے اور تیزی سے گھومتا ہے۔ یہ حرکت و عمل کا سیارہ ہے۔
زُحل کی رفتار سُست ہوتی ہے اور اِس کے گرد روشن دائرہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ پھیلاؤ کی منزل ہے یعنی کائنات میں بکھری ہوئی قوتوں سے رابطہ قائم کرنا۔
آخری مقام آسمانوں سے پرے ہے۔ یہ ایک راز ہے مگر ہمت کریں تو کھل بھی سکتا ہے!
۴۔ بچوں کا گوشہ
سیار گاہ سے باہر آئیں تو باغ کے تیسرے گوشے کا نام بانگِ درا ہے۔ اِس کے پہلے حصے میں کچھ نظمیں ہیں جن پر جلی حروف میں لکھا ہے: ’’بچوں کے لیے‘‘۔ آج آپ کو اِنہی کی سیر کرنی ہے۔ ذرا اِن کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا کوئی بات عجیب لگتی ہے؟
۵۔ بچوں کے لیے نظمیں
۱۔ ایک مکڑا اور مکھی
۲۔ ایک پہاڑ اور گلہری
۳۔ ایک گائے اور بکری
۴۔ بچے کی دعا
۵۔ ہمدردی
۶۔ ماں کا خواب
۷۔ پرندے کی فریاد
اِن نظموں کی کل تعداد سات ہے۔ سیار گاہ میں مقامات بھی سات تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اِس کا جواب آپ کو نظموں کی سیر کر کے معلوم کرنا ہے۔ اِس باغ کا اُصول یہ ہے کہ یہاں ہر بات اپنے تجربے سے معلوم کی جاتی ہے۔
پہلی نظم
ایک مکڑا اور مکھی
۶۔ مکڑے کی پیشکش
اِک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اِس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
۷۔ پہلا جھوٹ
مکھی مکڑے کی خوراک ہوتی ہے۔ مکڑے کا یہ کہنا کہ مکھی کو اُس سے کھنچ کر نہیں رہنا چاہیے ایک جھوٹ ہے۔ قدرت کا نظام یہ ہے کہ ہر چیز میں اپنی حفاظت کا احساس رکھا گیا ہے۔ یہ احساس مکھی میں بھی ہے اور وہ اِسی لیے مکڑے سے کھنچ کر رہتی ہے۔ قدرت کا نظام خدا نے بنایا ہے۔ اُس کے بارے میں جھوٹ بولنا خدا کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے۔
۸۔ مکھی کا جواب
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اِس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اُترا
۹۔ مکڑے کا جال
مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اِس میں برا کیا!
اِس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
۱۰۔ دُوسرا جھوٹ
مکڑے نے پہلے خدا کے بارے میں جھوٹ بولا جب کہا کہ مکھی کو دُور نہیں رہنا چاہیے۔ اب اپنے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اُس کے گھر میں یہ سب چیزیں موجود نہیں۔ اُس کا گھر تو صرف ایک جال ہے۔
۱۱۔ کھٹکا
مکھی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں، یہ امید نہ رکھنا
اِن نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی اِن پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا
مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اُس کی
پھانسوں اِسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
اب آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ مکڑے کے ارادے خطرناک ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح مکھی کو اپنے جال میں پھانسنا چاہتا ہے۔ مکھی دو دفعہ انکار کر چکی ہے لیکن مکڑے نے ہار نہیں مانی۔ ابھی آخری حربہ موجود ہے۔ یہ تیسرا اور آخری جھوٹ ہو گا۔ یہ جھوٹ کیا ہو سکتا ہے؟
۱۲۔ خوشامد
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اُس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبا
ہوتی ہے اُسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی
پھر اِس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا
۱۳۔ تیسرا جھوٹ
مکڑے کا تیسرا جھوٹ خود مکھی کے بارے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ مکھی میں یہ سب خوبیاں نہیں۔ بات یہ نہیں ہوتی کہ کوئی آپ کی تعریف کر رہا ہے یا آپ پر تنقید کر رہا ہے، بات یہ ہوتی ہے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ کہہ رہا ہے۔
جھوٹی تعریف بھی بری ہے اور سچی تنقید بھی اچھی ہے۔ مگر کیا مکھی یہ بات جانتی ہے؟ کیا وہ صاف صاف کہہ سکتی ہے، ’’میں ویسی نہیں ہوں جیسا تم بتا رہے ہو۔ میں تو صرف ایک مکھی ہوں!‘‘ ایسا کہنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ کیا مکھی میں اِتنا حوصلہ ہے کہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے؟
۱۴۔ مکھی کا فیصلہ
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
اِنکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دِل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
۱۵۔ مکھی کے تین جھوٹ
مکڑے نے مکھی کے سامنے اُس کی جھوٹ موٹ کی تصویر پیش کی ہے جو بہت حسین ہے۔ مکھی اِس جھوٹ کو سچ سمجھنے پر تیار ہوئی ہے کیونکہ اُس کے دل میں لالچ ہے۔ یہ مال و دولت کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو ویسا سمجھنے کا لالچ ہے جیسی وہ نہیں ہے۔
اب مکھی بھی اکٹھے تین جھوٹ بول گئی ہے۔ پہلا جھوٹ یہ کہ اُسے مکڑے سے کوئی کھٹکا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی خطرہ محسوس ہوا تھا اِسی لیے شروع میں انکار کیا تھا۔ مکڑے میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ وہ کھٹا دُور ہو جائے۔ یہ کہنا کہ اُسے مکڑے سے کوئی کھٹکا نہیں ہے، گویا مکڑے کے بارے میں اپنے دل کو ایک جھوٹی بات بتانا ہے۔
دُوسرا جھوٹ یہ ہے کہ وہ انکار کی عادت کو برا سمجھتی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو پہلے ہی انکار نہ کرتی۔ یہ کہنا کہ وہ انکار کی عادت کو برا سمجھتی ہے، گویا اپنے بارے میں مکڑے کو جھوٹی بات بتانا ہے۔
تیسرا جھوٹ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر کسی کا دل رکھنے کے لیے سچائی کو ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔ خوشامد قبول کر کے مکھی اپنے مقام سے گر گئی ہے اس لیے ایک اچھے اصول کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ خدا نے ہمیں دوسروں کا دل رکھنے کا حکم ضرور دیا ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ سچ بولنے اور اپنے برے بھلے کی تمیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جو ہمیں نقصان پہچانا چاہیں اُن سے بچنے کا حکم بھی دیا ہے، جس طرح حضرت آدمؑ سے کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، اُس سے بچ کر رہنا۔ مکھی کے لیے مکڑا بھی تو شیطان ہی بنا ہوا ہے۔ مکھی کا یہ کہنا کہ وہ مکڑے کے جال میں اِس لیے آ جائے گی کیونکہ کسی کا دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا بالکل ایسی بات ہے جیسے کوئی انسان کہے کہ وہ اِس لیے شیطان کی بات مان لے گا کیونکہ خدا نے دل توڑنے سے منع کیا ہے۔ ایسی بات کہنا گویا خدا سے جھوٹ بولنا ہے۔
۱۶۔ انجام
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اُسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا
۱۷۔ جستجو
رزق حاصل کرنا بری بات نہیں مگر مکڑے کی غلطی یہ ہے کہ اُس نے رزق حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا، دھوکہ دیا اور خوشامد کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مکڑا تو صرف کیڑا ہے، پھر اُسے انسانوں کی طرح کیوں جانچا جائے؟
اِس کا جواب آپ کو معلوم ہے۔ کہانی پڑھتے ہوئے ہم خود اُس کے کردار بن جاتے ہیں۔ مکڑا اور مکھی بے زبان کیڑے ہیں جو اُس طرح گفتگو نہیں کر سکتے جیسی اِس نظم میں تھی، پھر بھی آپ نے اِس میں دلچسپی لی اورآخر تک سنا۔ وجہ یہی تھی کہ آپ کو مکڑے اور مکھی کی بجائے کوئی اور دکھائی دے رہا تھا۔ مکھی کی جگہ آپ اور مکڑے کی جگہ شیطان تھا!
آپ کو یاد ہو گا کہ سیار گاہ میں پہلا سیارہ چاند جستجو کی منزل تھا۔ یہ نظم بھی آپ کو جستجو کا پہلا زینہ دکھاتی ہے۔ وہ زینہ آپ خود ہیں۔
دُوسری نظم
ایک پہاڑ اور گلہری
۱۸۔ ایمرسن
یہ نظم ایک امریکی شاعر ایمرسن سے ماخوذ ہے۔
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
۱۹۔ مقابلہ
یہاں مکڑے اور مکھی والے معاملے کے اُلٹ ہے۔ مکڑا مکھی کو اپنے گھر بلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ پہاڑ گلہری کو دُور بھگا رہا ہے۔
۲۰۔ حد سے بڑھنا
ذرا سی چیز ہے، اِس پر غرور، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا!
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
۲۱۔ سچائی
پہاڑ خوش مزاج نہیں ہے۔ اُس کی باتوں میں اکڑ بھی ہے مگر مکھی کے برعکس وہ اپنی حقیقت سے واقف ہے۔ مکڑے کی طرح خوشامدی بھی نہیں۔ جب وہ کہتا ہے، ’’زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے‘‘ تو اُس کی بات دل کو لگتی ہے کیونکہ اپنی جگہ یہ بات سچی ہے۔ پھر ہمیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ گلہری سے کیوں خفا ہے۔ ہو سکتا ہے گلہری نے واقعی غرور کا مظاہرہ کیا ہو اور اپنی حد سے آگے بڑھ گئی ہو جس پر پہاڑ اُسے اُس کی حقیقت یاد دلا رہا ہو۔
۲۲۔ موازنہ
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!
۲۳۔ غلطی
پہاڑ کی آخری بات غلط ہے۔ پہاڑ اپنی جگہ ہے اور جانور اپنی جگہ ہیں۔
اب اُس کی باقی باتیں بھی غلط لگنے لگی ہیں کیونکہ اب یہ بات اہم نہیں رہی کہ وہ کس بات پر گلہری سے ناراض ہوا تھا۔ اب یہ بات اہم ہو گئی ہے کہ اُس نے غلط موازنہ کیا ہے۔
ہمیں یہ بات اِس لیے بھی بری لگ رہی ہے کیونکہ پہاڑ نے جانوروں کو جو طعنہ دیا ہے وہ ہم پر بھی پورا اترتا ہے۔ خیر ہم جانور تو نہیں انسان ہیں مگر گلہری کی طرح ہم بھی پہاڑ سے چھوٹے ہیں۔
۲۴۔ گلہری کا جواب
کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
۲۵۔ طبیعتوں کا فرق
گلہری کی طبیعت مکھی سے مختلف ہے۔ مکھی کی باتوں میں شروع ہی سے گھماؤ پھراؤ تھا مگر گلہری کی بات دو ٹوک ہے۔
البتہ ابھی اُس کی بات میں وزن پیدا نہیں ہوا۔ یہ کوئی بہت سمجھداری کی بات نہیں ہے کہ پہاڑبھی اُس کی طرح چھوٹا نہیں ہے۔ اگر یہی بات دل میں بٹھا لی جائے تو پھر آگے بڑھنے اور زندگی میں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے بلکہ یہ کہہ دینا کافی ہو کہ اگر ہم پیچھے رہ گئے ہیں تو کیا ہوا، جو ہم سے آگے نکلے ہیں وہ بھی تو ہماری طرح پیچھے نہیں رہ سکے!
۲۵۔ خدا کی قدرت
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اُس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے
۲۶۔ حقیقت
اب معلوم ہوتا ہے کہ گلہری نے جب پہاڑ سے یہ کہا تھا کہ وہ بھی اُس کی طرح چھوٹا نہیں ہے تو اصل میں اُس کا مطلب یہ تھا کہ صرف بڑا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ کچھ کر کے دکھانا بھی ضروری ہے۔ اپنی مرضی سے قدم اٹھانا اور اپنی جگہ سے آگے بڑھنا بھی بڑی بات ہے چاہے آگے بڑھنے والا خود چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
پہاڑ نے گلہری سے موازنہ کر کے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ پہاڑ جانور سے بہتر ہے۔ گلہری بھی موازنہ کر رہی ہے مگر وہ یہ نتیجہ نہیں نکال رہی کہ جانور پہاڑ سے بہتر ہیں۔ وہ یہ کہہ رہی ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ اہم ہے۔
۲۷۔ حرکت کی اہمیت
قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دِکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو
۲۸۔ تین گواہ
اپنے بارے میں پہاڑ کی بات درست تھی مگر دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں وہ غلطی کر گیا۔ یہ اِس لیے ہواکیونکہ وہ دوسروں کو اپنی نظر سے دیکھ رہا تھا مگر اپنے آپ کو اُن کی نظر سے دیکھنے پر تیار نہیں تھا۔
گلہری نے اپنے آپ کو اپنی نظر سے بھی دیکھا، پہاڑ کی نظر سے بھی اور خدا کی نظر سے بھی۔ اپنی نظر سے دیکھنے پر محسوس ہوا کہ وہ پہاڑ سے بہتر ہے کیونکہ وہ دوڑ سکتی ہے۔ پہاڑ کی نظر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ اُس کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے۔ خدا کی نظر سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ دنیا میں ہر چیز ایک دُوسرے سے مختلف ہے تو اِس کی کوئی وجہ ہو گی۔
حقیقت سے قریب ہونے کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے بارے میں تین گواہ تلاش کیے جائیں۔ پہلے گواہ ہم خود ہیں۔ دوسرا گواہ اپنے آپ کو دوسرے کی نظر سے دیکھنا ہے۔ تیسرا گواہ اپنے آپ کو خدا کے نور کی روشنی سے دیکھنا ہے۔
مکھی کے تین جھوٹ انہی تین گواہوں کو جھٹلا رہے تھے جبکہ گلہری نے انہی تینوں کی مدد سے اپنے آپ کو پہچانا ہے۔
ہم دنیا کو جس طرح دیکھتے ہیں اُس کا اثر ہماری زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ پہاڑ یہ سمجھے ہوئے تھا کہ وہ جانوروں سے بہتر ہے چنانچہ اُسے کبھی احساس ہی نہیں ہو سکا کہ چلنا پھرنا بھی کچھ ہوتا ہے۔ گلہری اُس کے رعب میں آ جاتی تو وہ بھی اُسی کی نظر سے دیکھنے لگتی اور اُسی کی طرح چلنے پھرنے کی اہمیت کو سمجھنے سے محروم ہو جاتی چاہے خود اُس کے بعد بھی درختوں پر چڑھتی اور اترتی رہتی۔
۲۹۔ خلاصہ
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
۳۰۔ قرآن
قرآن شریف میں ہے کہ خدا اِس بات سے نہیں شرماتا کہ کسی چیز کو مچھر سے مثال دے یا کسی بڑی چیز سے۔ جو ایمان رکھتے ہیں وہ پہچانتے ہیں کہ یہ اُن کے پروردگار کی طرف سے آنے والی سچائی ہے مگر اُس کی نشانیوں کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ بھلا خدا ایسی مثالوں سے کیا چاہتا ہے!
یہ دنیا خدا نے بنائی ہے تو پھر یہ بھی اُس کی کتاب کی طرح ہے۔ قرآن میں آیتیں ہیں اور دنیا میں خدا کی نشانیاں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ سیار گاہ میں دوسرا مقام عطارد تھا۔ وہ دریافت کا سیارہ تھا۔ دُوسری نظم میں آپ نے باغ کی حقیقت دریافت کر لی ہے۔
تیسری نظم
ایک گائے اور بکری
۳۱۔ سبزہ زار
اِک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اُس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندّیاں تھیں رَواں
تھے اَناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
۳۲۔ بکری
کسی ندی کے پاس اِک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی
جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا
پاس اِک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھک کر اُسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں؟
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں
۳۳۔ طبیعتوں کا فرق
مکھی، گلہری اور اب بکری۔ ہر مرحلے پر پہلے سے بڑی مخلوق سامنے آ رہی ہے۔ در اصل یہ سب آپ کی اَنا کی مختلف صورتیں ہیں۔ اَنا کو خودی بھی کہتے ہیں یعنی اپنے ہونے کا احساس۔ اِس سفر کے ہر مرحلے پر آپ کی خودی بڑھ رہی ہے۔
مکھی کی گفتگو عامیانہ تھی۔ گلہری دو ٹوک بات کرنے والی بیباک طبیعت رکھتی تھی۔ بکری اُن دونوں کے مقابلے میں زیادہ رَکھ رَکھاؤ والی لگتی ہے اور اُس کی طبیعت میں ٹھہراؤ بھی ہے۔ خودی کے سفر میں یہ آپ کی تیسری منزل ہے۔
گائے نے جس طرح جواب دیا ہے اُس سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’خیر اچھے ہیں۔۔ ۔‘‘ سے لگتا ہے کہ وہ بظاہر تو کہ رہی ہے کہ مزاج اچھے ہیں مگر ابھی کچھ اور بھی کہے گی جس میں کسی نہ کسی کی شکایت ہو گی۔
۳۴۔ شکایت
کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے، کیا کہیے
اپنی قسمت بری ہے، کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بُروں کی جان کو میں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لکھا نصیبوں کا
۳۵۔ شکایت کرنے کا انداز
شکایت کرنے کے بھی انداز ہوتے ہیں۔ گائے کے انداز سے لگتا ہے کہ وہ جن حالات سے خوش نہیں ہے اُنہیں بہتر بنانے کے لیے خود کچھ کرنے کی بجائے دُوسروں کو الزام دینا ہی کافی سمجھتی ہے۔ ابھی قسمت کو برا کہا ہے مگر اب کسی اور پر بھی الزام رکھے گی۔
۳۶۔ اِنسان
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اُس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے
دُودھ کم دُوں تو بڑبڑاتا ہے
ہُوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فریبوں سے رام کرتا ہے
اُس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دُودھ سے جان ڈالتی ہوں میں
بدلے نیکی کے یہ برائی ہے
میرے اللہ! تری دُہائی ہے
۳۷۔ انسان کی برائی
ایک طرح سے گائے نے ویسی ہی بات کہی ہے جیسی فرشتوں نے کہی تھی جب خدا نے اِرادہ ظاہر کیا تھا کہ وہ زمین پر اپنا نائب بنائے گا۔ فرشتوں نے کہا تھا، کیا آپ انسان کو بنائیں گے جو اِتنا خون خرابہ کرے گا جبکہ ہم صرف آپ کی تسبیح کرتے ہیں؟
جواب میں خدا نے فرمایا تھا، ’’میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے!‘‘
۳۸۔ بکری کی گفتگو کا انداز
سُن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا
بات سچی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گی مگر خدا لگتی
۳۹۔ سمجھنے سمجھانے کی بات
گلہری کی طرح بکری بھی اپنی بات دو ٹوک کہنے کی قائل ہے اور اُس کی طرح یہ بھی تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر رہی ہے مگر اُسے صرف اپنی بات کہنے سے مطلب تھا جبکہ یہ اپنی مخاطب کو قائل بھی کرنا چاہتی ہے۔
۴۰۔ تصویر کا دوسرا رُخ
یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں!
یہ مزے آدمی کے دَم سے ہیں
لُطف سارے اُسی کے دَم سے ہیں
اُس کے دَم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھَلی کہ آزادی!
۴۱۔ تمام چیزوں کے ناموں کا علم
جب خدا نے انسان کو بنایا تو اُسے تمام چیزوں کے ناموں کا علم دے دیا۔ پھر وہی چیزیں فرشتوں کے سامنے رکھیں اور اُن سے کہا کہ وہ ان کے نام بتائیں۔ فرشتے نہ بتا سکے مگر انسان نے تمام چیزوں کے نام ٹھیک ٹھیک بتا دئیے۔ تب خدا نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ انسان کے سامنے سجدہ کریں۔
علم ہی کی وجہ سے انسان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کو بہتر سے بہتر بنا سکے۔
۴۲۔ اِنسان کا مقام
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزران سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اُس کا
ہم کو زیبا نہیں گِلا اُس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
۴۳۔ اپنی حقیقت کو پہچاننا
پچھلی دونوں نظموں میں اپنی ذات کو منوانے کی اہمیت سامنے آئی تھی۔ مکھی بھی سلامت رہتی اگر اپنی بات پر قائم رہتی اور گلہری کی بڑائی بھی اِسی سے ظاہر ہوئی کہ وہ پہاڑ کے رعب میں نہیں آئی۔ مگر اِس نظم میں پہلی بار ایک ایسی صورت حال پیش کی گئی ہے جہاں اپنے آپ کو جھکانے میں کسی کردار کی بڑائی ظاہر ہوئی ہے۔
بکری کی حد تک یہ بات بالکل درست ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔ جب خدا نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ انسان کو سجدہ کریں تو پھر بکری بیچاری کیا چیز ہے۔
۴۴۔ نتیجہ
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
۴۵۔ تیسری منزل
پہلی نظم میں مکڑا مکھی کو کھا گیا تھا۔ دوسری نظم کا نتیجہ ہمیں معلوم نہیں مگر گلہری نے جس طرح بات کی تھی اُس سے یہ تو نہیں لگتا کہ پہاڑ نے اپنی غلطی تسلیم کی ہو گی کیونکہ گلہری نے پہاڑ کے لیے صلح صفائی کا موقع ہی کہاں چھوڑا تھا۔
اِس نظم کا نتیجہ پچھلی نظموں سے مختلف ہے۔ گائے نے بکری کی بات سمجھ بھی لی ہے اور زبان سے بھی کہا ہے کہ بکری اگرچہ چھوٹی ہے مگر اُس کی بات دل کو لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بکری نے اپنی بات کہتے ہوئے بھی خیال رکھا ہے کہ گائے اپنی توہین محسوس نہ کرے۔
مگر آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ یہ نظم در اصل نہ گائے کے بارے میں ہے نہ بکری کے بارے میں بلکہ انسان کے بارے میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی انسان اِس نظم میں موجود نہیں ہے!
وہ آپ ہیں اور آپ اِس وقت باغ میں موجود ہیں۔ تینوں نظموں میں مکڑا، پہاڑ اور گائے بڑے ہیں۔ مکھی، گلہری اور بکری چھوٹی ہیں۔ گویا نظم کے وہ کردار جن سے ہمدردی محسوس کروانی ہے چھوٹے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نظمیں بچوں کے لیے ہیں اِس لیے باغ کے اِس حصے میں صرف بچے ہی آتے ہیں ( بڑے بھی آ سکتے ہیں مگر بچے بن کر)!اِس باغ کا اُصول ہے کہ جو یہاں کی سیر کرے وہ ہر طرف اپنے آپ کو دیکھے۔ پھولوں، پتوں، پرندوں اور جانوروں میں بھی اُسے اپنا آپ ہی دکھائی دے۔ یہ اِس لیے کیونکہ یہ باغ در اصل آپ کا ہے۔
غور کریں تو یہ محض کاغذ پر لگی روشنائی ہے۔ اگر آپ اِسے پڑھ نہ سکیں اور یہ سب کچھ محسوس نہ کریں تو پھر یہ نظارے بھی کہاں؟یہ ہری بھری چراگاہ، یہ بلند پہاڑ، یہ بکری، گائے، گلہری، پہاڑ، مکڑے اور مکھی کی نوک جھونک یہ سب کچھ آپ کے تخیل میں واقع ہو رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایک شاعر نے اِسے سوچا، کاغذ پر منتقل کیا اور ایک کتاب میں اِن سب چیزوں کا اپنا وجود ہے۔ اگر پہلی نظم کے کردار مکڑا اور مکھی ہیں تو اُنہیں شیر اور چمگادڑ نہیں پڑھا جا سکتا۔ مگر اِس کے باوجود آپ نے اُن کا تعلق آپ کے سمجھنے سے بھی ہے۔ باغ ایک شاعر نے بنایا تھا مگر اِس کی بہار آپ ہیں۔
اِس نظم میں جس چراگاہ کا ذکر ہے وہ بھی آپ ہی نے بنائی ہے کیونکہ آپ کے تصور نے اُسے ایک نیا وجود بخشا ہے۔ گائے اور بکری آپ ہی کے بارے میں گفتگو کر رہی ہیں۔
پہلی نظم میں آپ کی مثال مکھی سے دی گئی تھی، دوسری میں گلہری سے، تیسری میں بکری سے مگر بکری کی بات میں چھپے ہوئے معانی سمجھ کر اب آپ نے اس باغ میں چھپے ہوئے انسان کو دریافت کر لیا ہے اور یہ بھی معلوم کر لیا ہے کہ وہ انسان آپ خود ہیں۔ اب یہ بات بھی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ انسان، جانور، پودے اور فطرت کی تمام چیزیں ایک ہی حقیقت کا حصہ ہیں۔
یہ بات سمجھنے کے بعد وہی ہو سکتا ہے جو اگلی نظم کے شروع میں ہو رہا ہے۔
چوتھی نظم
بچے کی دعا
۴۶۔ ’بچے کی دعا‘
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
ہر صبح لاکھوں بچے اسکول میں اپنے دن کا آغاز اِس دُعا سے کرتے ہیں۔
۴۷۔ پانچ حکمتیں
دنیا کو سمجھنے کے پانچ طریقے ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلا طریقہ یعنی پہلی حکمت یہ ہے کہ دنیا کو اُس طرح دیکھا جائے جیسی وہ ہے۔ یہ گویا آدم کی حکمت ہے جسے تمام چیزوں کے نام سکھا دئیے گئے تھے۔
دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو دکھائی نہیں دے سکتا اُسے معلوم کیا جائے۔ بارش دکھائی دیتی ہے مگر قدرت کے کون سے قانون ہیں جن کی وجہ سے بارش ہوتی ہے؟ اُن قوانین کو معلوم کرنا گویا فرشتوں کی حکمت ہے کیونکہ فرشتے اُن چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ رُوح کی گہرائی میں جھانکا جائے۔ وہاں اپنی وہ صلاحیتیں بھی دِکھائی دے سکتی ہیں جن کے بارے میں شاید ہمیں خود بھی معلوم نہ ہو۔
چوتھا طریقہ محبت کی حکمت ہے۔ مسلمان کی محبت کا سرچشمہ رسولِ اکرمؐ سے عشق ہے۔ وہ تمام دنیاؤں کے لیے رحمت ہیں اور علم کا شہر ہیں۔
پانچواں طریقہ تہذیب کی حکمت ہے۔ فطرت میں ہر چیز اپنی عادت پر قائم ہے مگر انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو نہیں بلکہ دنیا کو بھی بدل سکے۔ ظاہر ہے کہ اُسے یہ بھی سوچنا ہو گا کہ دنیا کو کیسا بنائے؟
نظم ’بچے کی دعا‘ باری باری اِن تمام مرحلوں سے گزرتی ہے۔
۴۸۔ انسان کی نظر سے دیکھنا
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
۴۹۔ شمع
یہ آپ کی دُعا ہے۔ مکھی گلہری بنی، وہ بکری بنی اور اب بکری بچہ بن گئی ہے جو آپ ہیں۔ ’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘ گویا اصل دُعا ہے۔ باقی اَشعار اِس کی تفصیل ہیں۔
شہد کی مکھی پھولوں سے رَس چوُس کر چھَتّہ تیار کرتی ہے جیسا کہ خدا نے اُسے وحی کر دی ہے۔ اُس چھَتّے سے موم حاصل کیا جاتا ہے گویا موم بھی پھولوں سے آتا ہے اور پھول مٹّی سے اُگتے ہیں۔ آپ کی طرح شمع بھی مٹّی ہی سے آئی ہے مگر یہ فرق ہے کہ شمع کی روشنی دکھائی دیتی ہے اور آپ کی روشنی چھُپ گئی ہے۔ آپ کی روشنی خدا کا نور ہے جو آپ کے دل میں ہے۔
صحیح سوچ اور اچھے برے کی سمجھ پیدا کرنا اپنے آپ میں خداکے نور کی تلاش میں پہلا قدم ہوتا ہے۔ پچھلی نظموں میں اس کے طریقے سامنے آئے تھے۔
۵۰۔ فرشتوں کی نظر سے دیکھنا
دُور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
۵۱۔ آزادی
شمع جلتی ہے اور ساری محفل میں اُجالا کر دیتی ہے مگر اپنے اندر روشنی نہیں کر سکتی۔ آپ دنیا کو بھی روشن کر سکتے ہیں اور اپنے دل میں بھی روشنی کر سکتے ہیں اگر اپنے آپ میں خدا کا نور تلاش کر لیں۔ آپ کی دُعا کے دُوسرے شعر میں ہے، ’’ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے۔۔ ۔‘‘ یعنی صرف ایک آدھ گھر نہیں بلکہ ساری دنیا کا اندھیرا آپ کے دم سے دُور ہو جائے مگر یہ اُجالا صرف باہر نہ رہے بلکہ اندر بھی ہو!
عجیب بات ہے کہ پہلی تینوں نظموں میں دن کا سماں تھا۔ تیسری نظم میں آپ کو فطرت کے ساتھ اپنا تعلق معلوم ہوا تو اب فوراً ہی یہ ذکر ہو رہا ہے کہ دنیا میں اَندھیرا ہے۔ در اصل یہ اُس اَندھیرے کا ذکر ہے جو اپنی اَصل سے دُور ہونے کی وجہ سے رُوح پر چھایا ہوا ہے۔ فطرت سے اپنے تعلق کا احساس ہونے کے بعد ہی اِس کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اب آپ کی دُعا یہ ہے کہ آپ روشنی بن جائیں۔
فرشتے بھی روشنی سے بنے ہیں۔ اِسی لیے دُوسری حکمت کو فرشتوں کی نظر سے دُنیا کو دیکھنے سے مثال دی گئی ہے۔
سیار گاہ میں چوتھا سیارہ مریخ آزادی کا مقام تھا۔ چوتھی نظم میں آپ نے شمع کی طرح جینے کی دعا مانگی ہے۔ اصل آزادی یہی ہے کہ آپ روشنی بن جائیں اور آپ میں چھپا ہوا خدا کا نور جسمانی زندگی کے اندھیروں میں قید ہو کر نہ رہ جائے۔
۵۲۔ رُوح کی گہرائیوں میں جھانکنا
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
۵۳۔ وطن
پھول چمن میں ہوتا ہے تو اُس کی خوشبو باہر تک پہونچتی ہے اور لوگوں کو چمن کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ شاخ سے ٹوٹ کر کہیں اور پہنچ جائے تب بھی اُس کا رنگ اور خوشبو پتہ دیتے ہیں کہ جہاں سے وہ آیا ہے وہ چمن کتنا حسین ہو گا!
آپ کی دُعا ہے کہ جس طرح پھول سے چمن کی زینت ہوتی ہے اُسی طرح آپ کے دم سے آپ کے وطن کی زینت ہو۔ جسم کا وطن وہ ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہو مگر رُوح کا وطن کہاں ہے؟
رُوح خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ یہ خدا کے حکم سے وجود پاتی ہے۔ اِس کا وطن وہیں ہے جہاں سے یہ آتی ہے۔
۵۴۔ محبت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
۵۵۔ علم
پروانہ شمع کی روشنی پر کھنچا چلا آتا ہے اور اُس میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ آپ کی دعا ہے کہ آپ کو علم کی شمع سے ایسی ہی محبت ہو۔
علم تعلق کا نام ہے۔ دنیا سے ہمارا تعلق اِس وجہ سے ہے کیونکہ ہمیں اُس کا علم ہے۔ جتنا علم بڑھتا ہے اُتنا ہی تعلق گہرا ہوتا ہے۔ یہ تعلق صرف نظر آنے والی چیزوں تک محدود بھی رہ سکتا ہے اور پھیل کر حقیقت کی دوسری تہوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
۵۶۔ تہذیب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
۵۷۔ تخلیق
جب یہ اختیار ہمیں دیا گیا ہے کہ ہم دنیا کو جیسا چاہیں ویسا بنا دیں تو پھر ہمیں ایسی دنیا بنانی چاہیے جہاں گائے اور بکری سے لے کر مصیبت زدہ انسانوں تک سب کو آرام میسر آئے۔ اِسی لیے آپ کی دُعا ہے کہ آپ کا کام غریبوں کی حمایت کرنا اور درد مندوں، ضعیفوں سے محبت کرنا ہو۔
۵۸۔ نظم کا خلاصہ
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اُس رہ پہ چلانا مجھ کو
۵۹۔ ہدایت
خدا سے یہ دُعا مانگنا کہ وہ آپ کو برائی سے بچائے اور نیک راہ پر چلائے گویا پوری دُعا کا خلاصہ ہے۔ مکھی حقیقت جانتے ہوئے بھی غلط راہ کی طرف چلی نکلی تھی، پہاڑ اتنا بڑا ہو کر بھی ایک چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکا تھا، گائے قسمت کو برا بھلا کہہ کر زندگی کے لُطف سے محروم ہو رہی تھی۔
انسان کے دل میں خدا کا نور ہے تو پھر کسی نہ کسی قسم کی برائی ہی دل میں وہ اندھیرا پیدا کر سکتی ہے کہ اس نور کی روشنی باہر آ کر آپ کا راستہ روشن نہ کرے۔ آخری شعر میں آپ نے اِسی بات سے پناہ مانگی ہے۔
۶۰۔ باغ کے پانچ حصے
اگر آپ غور کریں تو آپ کی دُعا کا پہلا شعر گویا پہلی تین نظموں کا حاصل ہے یعنی آپ کی زندگی شمع کی صورت ہو جس کی روشنی میں چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ آدم کی حکمت ہے۔
دُعا کا دُوسرا شعر گویا فرشتوں کی حکمت ہے جو اِس وقت آپ حاصل کر رہے ہیں۔ اب تین حکمتیں رہ گئی ہیں یعنی رُوح، محبت اور تہذیب کی حکمتیں۔ نظمیں بھی تین ہی رہ گئی ہیں۔ اِن نظموں میں آپ یہی حکمتیں حاصل کریں گے۔
پانچویں نظم
ہمدردی
۶۱۔ ولیم کوپر
یہ نظم ایک انگریز شاعر ولیم کوپر سے ماخوذ ہے۔
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
۶۲۔ بلبل کی اُداسی
پرندے اندھیرا ہونے سے پہلے اپنے گھونسلوں کی طرف چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ روشنی کے بغیر اُڑ نہیں سکتے۔ غور کریں کہ بلبل تنہا ہے۔ باقی پرندے گھونسلے کی طرف جا چکے ہیں۔ بلبل سے غفلت ہوئی ہے۔ اُس نے وقت گزرنے کا اندازہ نہیں رکھا۔
۶۳۔ پریشانی کی وجہ
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
۶۴۔ پرندہ
آپ نے باغ میں مکڑا، مکھی، گلہری، بکری اور گائے دیکھی تھی مگر یہ پہلا پرندہ ہے جو اِس باغ میں نظر آیا ہے۔ اس سے پہلے صرف چراگاہ میں پرندوں کی آوازیں درختوں سے سنائی دی تھیں اور وہ بھی دن کے وقت۔
بلبل کی پکار در اصل آپ کی وہی دُعا ہے جس میں آپ نے اندھیرا دُور ہونے کی تمنا کی تھی۔
۶۵۔ رُوح کی اندھیری رات
آپ کو یاد ہو گا کہ اِس نظم کا تعلق رُوح کی حکمت سے ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ بلبل کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور اُسے کہاں جانا ہے۔ یہ آپ کی رُوح ہے جو رہنمائی کے لیے ترس رہی ہے۔
۶۵۔ دُنیا کی زندگی
مکھی، بکری، گلہری، سب ویسی ہی ہیں جیسا انہیں خدا نے بنایا تھا۔ صرف انسان کو یہ اختیار ملا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو بھی بنائے اور اپنے مطابق دُنیا کو بھی سنوارے۔ اِس کوشش میں وہ اپنے آپ کو بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔
جب تک وہ کامیاب نہیں ہوتا اندھیرا بھی دُور نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ اندھیری رات ہے جس میں بلبل آہ و زاری کر رہا ہے۔
۶۶۔ جگنو
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
۶۷۔ شمع جیسی زندگی
غور کریں کہ جگنو ’’ پاس ہی سے بولا‘‘ ہے۔ روشنی آپ کے دل سے آئی ہے۔ جگنو بھی آپ ہی ہیں۔ آپ نے دُعا مانگی تھی کہ آپ کی زندگی شمع کی صورت ہو جائے۔ وہ دُعا قبول ہوئی۔
۶۸۔ روشنی کیسے ہوئی؟
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا
۶۹۔ جگنو کا وطن
رات کے وقت باغ میں جگنو کی روشنی دیکھیں تو لگتا ہے جیسے چاند کے لباس کا تُکمہ گرا ہو یا پھر رات کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا ہو۔ چاند آپ کے دل و دماغ کی اُس روشنی کی نشانی ہے جو تلاش کے سفر میں آپ کو راستہ دکھاتی ہے۔ رات اُس اندھیرے کی نشانی ہے جو دنیا میں روح پر چھایا ہوا ہے۔
اِس اندھیرے میں جگنو کی روشنی آپ کے دل و دماغ میں ہے مگر یہ اِس دنیا سے نہیں بلکہ کہیں اور سے آئی ہے۔
۷۰۔ اِمکانات
مشعل تو خدا نے پہلے ہی آپ کو دی تھی کیونکہ آپ کے دل میں اُس کی روشنی تھی۔ اب اُس نے آپ کو چمکا کے دِیا بنا دیا ہے کہ شمع کی طرح آپ کی روشنی بھی ظاہر ہو جائے۔
در اصل روح کی حکمت یہی ہے کہ چیزوں میں موجود اِمکانات کا جائزہ لیا جائے۔ اِس نظم میں گویا آپ اپنے آپ میں موجود اِس امکان کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ بھی روشنی بن سکتے ہیں جس کے چمکنے سے ہر جگہ اُجالا ہو جائے۔ آپ کے اندر بھی اور دنیا میں بھی!
یہ خود بخود نہیں ہو گا۔ اس کے لیے کوشش کرنی پڑے گی اور اس کا طریقہ اگلے شعر میں بتایا گیا ہے۔
۷۱۔ کوشش
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دُوسروں کے
۷۲۔ دُوسروں کے کام آنا
باغ پر نظر ڈالیں تو آپ کو اپنا آپ ہر طرف پھیلا ہوا دکھائی دے گا۔ مکھی بھی آپ ہیں، گلہری اور بکری بھی، بلبل بھی اور جگنو بھی۔ پھر اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو سارا باغ اپنے اندر دکھائی دے گا۔
جب ہم دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں تو در اصل اپنے ساتھ بھلائی کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اُس کی وجہ سے ہم خود بہتر انسان بنتے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی دنیا ہیں اور باہر پھیلی ہوئی بہت بڑی دنیا میں بھی وہی چیزیں ہیں جو ہمارے اندر ہیں۔
بلبل آپ خود بھی ہیں اور باہر کی دنیا بھی ہے۔ آپ کے چمکنے سے ہر جگہ اُجالا ہونا ہے۔
۷۳۔ وطن کی زینت
یہ ہمارے دیکھنے کا انداز ہے کہ ہم پھول میں خوشبو دیکھتے ہیں اور جگنو میں روشنی ورنہ کیا خبر کہ جو ہمیں روشنی نظر آتی ہے وہ در اصل جگنو کی خوشبو ہو اور جو ہمیں خوشبو محسوس ہوتی ہے وہ پھول کی روشنی ہو!
رات کے اندھیرے میں جگنو کے دم سے اُس کے وطن کی زینت اُسی طرح زینت ہو رہی ہے جس طرح پھول سے چمن کی زینت ہوتی ہے۔
۷۴۔ عمل
یہ پانچویں نظم تھی اور اس کا موضوع عمل تھا۔ سیار گاہ میں پانچواں سیارہ مشتری بھی عمل کا مقام تھا۔
۷۵۔ جنت بھی، جہنم بھی
انسان تو مٹی سے بنا ہے۔ یہ شیطان کی طرح آگ سے بنا ہے نہ فرشتوں کی طرح روشنی سے۔ یہ اپنے عمل سے اپنی زندگی اور اپنی دنیا کو جنت بھی بنا سکتا ہے اور جہنم بھی!
چھٹی نظم
ماں کا خواب
۷۶۔ پھر وہی اندھیرا
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
۷۷۔ یہ کیسا خواب ہے؟
دن بھر میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں اُس کا اثر ہمارے ذہن کے کسی حصے میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ رات کو جب ہم سوتے ہیں تو وہی چیزیں ایک فلم کی طرح ہمارے ذہن کے پردے پر دکھائی دیتی ہیں مگر اُن کی کہانی ہماری حقیقت سے مختلف ہوتی ہے۔
۷۸۔ تعبیر کا علم
خوابوں کو سمجھنے کے کئی طریقے ہیں مگر ان سب طریقوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ خواب میں جو نشانیاں دیکھی جائیں اُن کا مطلب اپنی زندگی میں تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اُن کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے کہ در اصل آپ کا ذہن آپ کو خواب کے ذریعے کیا بتانا چاہتا ہے۔
ماں کے خواب کی تعبیر بھی معلوم کی جا سکتی ہے مگر پہلے پورا خواب سن لیں۔
۷۹۔ لڑکوں کی قطار
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں
۸۰۔ نامعلوم منزل
یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ سب لڑکے موت کی وادی کی طرف بڑھ رہے ہوں۔
۸۱۔ بیٹا
اِسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اُس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
۸۲۔ بجھا ہوا دِیا
پچھلی نظم میں آپ جگنو بن گئے تھے۔ اِس نظم میں بھی بچوں کے ہاتھوں میں دئیے ہیں۔ صرف اُس لڑکے کے ہاتھوں میں بجھا ہوا دیا ہے جس کی ماں یہ خواب دیکھ رہی ہے۔
۸۳۔ جدائی
کہا میں نے پہچان کر، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں!
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ، اچھی وفا تم نے کی
۸۴۔ پریشانی
ماں نے اپنی بے چینی میں دیے کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ اُس نے یہ نہیں پوچھا کہ لڑکے کے ہاتھ میں دیا بجھا ہوا کیوں ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسے حالات میں اپنے بیٹے سے مل رہی ہے جب وہ سمجھ چکی تھی کہ اب کبھی ملاقات نہیں ہو گی۔ سب سے پہلے اُسے اپنے دُکھ کا خیال آ رہا ہے۔
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکا مر چکا ہے۔
۸۵۔ ماں کا کردار
والدین اپنے بچوں سے پیار کرتے ہی ہیں مگر اس کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اس ماں کے خواب سے ہم اُس کے پیار کرنے کے انداز کے بارے میں بھی کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کا بہت خیال رکھتی ہو گی اِسی لیے اُس کی جدائی میں بے حال ہے۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ اُس کے دُکھ میں یہ احساس بھی جھلکتا ہے کہ وہ بچے کو اپنی ملکیت سمجھتی تھی کیونکہ یہ شکایت بھی فوراً ہی اُس کی زبان پر آ گئی ہے کہ بچہ اُسے چھوڑ کر چلا گیا تو گویا بچے نے بے وفائی کی اور ماں کی محبت کی پروا نہ کی۔
ظاہر ہے کہ بچہ اپنی مرضی سے تو نہیں مرا ہو گالیکن ماں اپنے دُکھ میں اِس بات کا لحاظ نہیں کر پا رہی کہ بچے کو خدا نے زندگی دی تھی اور اُسی نے واپس لے لی۔
۸۶۔ ماں کے آنسو
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اُس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رُلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اِس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تُو ہو گیا کیا اِسے؟
ترے آنسوؤں نے بجھایا اِسے!
۸۷۔ کیا بچہ مر چکا ہے؟
ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ بچہ سچ مچ فوت ہو چکا ہے کیونکہ خواب میں ہم کبھی کبھی ایسے شخص کو بھی مردہ دیکھ لیتے ہیں جو اصل زندگی میں زندہ ہوتا ہے۔ ہم نے صرف ماں کا خواب سنا ہے مگر ہم اُس کی حقیقی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
اِس خواب کی تعبیر میں بچے کی موت اہم نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بچہ اصل میں زندہ ہو۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ دِئیے سے کیا مراد ہے؟اِس کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ روشنی، شمع اور چراغ کی نشانیاں باغ میں اب تک کن کن چیزوں کے لیے استعمال ہوئی ہیں۔
آپ کی دُعا میں روشنی کا ذکر دو معانی میں آیا تھا۔ جب آپ نے کہا تھا کہ آپ کی زندگی شمع کی صورت ہو تو وہاں روشنی کا مطلب تھا خدا کا نُور جو آپ کے دل میں ہے۔ یہ آپ کی اَنا ہے جسے خودی بھی کہتے ہیں۔ اِس کی صحیح تربیت کر کے آپ ہر جگہ اُجالا کر سکتے ہیں۔
اسی دعا کے ایک اور شعر میں آپ نے کہا تھا کہ آپ کی زندگی پروانے کی صورت ہو جسے علم کی شمع سے محبت ہو۔ یہاں روشنی سے مراد علم تھا مگر وہ علم نہیں جو زبانی چیزیں یاد کرنے کا نام ہے بلکہ وہ علم جو اپنے تجربے سے اور اپنی سمجھ بوجھ سے خود حاصل کیا جاتا ہے۔ اُسی علم کے ذریعے آپ کا حقیقت اور سچائی کے ساتھ رشتہ استوار ہوتا ہے اور آپ کی خودی اپنے اثر کا دائرہ پھیلاتی ہے۔
۸۸۔ محبت کی حکمت
جس شعر میں اِس علم کی شمع کا ذکر ہوا تھا وہ محبت کی حکمت سے متعلق تھا۔ اگر آپ حساب لگائیں تو یہ نظم بھی اسی حکمت کے بارے میں ہونی چاہیے۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سب بچوں کے ہاتھوں میں جو دئیے جَل رہے ہیں وہ علم کی شمعیں ہیں۔
کسی سے گھڑی گھڑائی باتیں لے کر رَٹنے کا نام علم نہیں ہے۔ یہ امتحان کی تیاری تو ہو سکتی ہے مگر جسے علم کہتے ہیں وہ کچھ اور چیز ہے۔ جس طرح شاہین مردہ شکار نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کرتا ہے اُسی طرح اپنی پہچان رکھنے والا انسان بھی اپنی سمجھ بوجھ اور اپنے تجربے سے خود علم حاصل کرتا ہے۔
یہی وہ علم ہے جس کے لیے سب بچوں نے دعا مانگی تھی کہ انہیں علم کی شمع سے ویسی محبت ہو جائے جیسی پروانے کو ہوتی ہے۔ اب اُس بچے کا دُکھ سمجھ میں آتا ہے جب ہم غور کرتے ہیں کہ پروانہ روشنی پر اپنی جان بھی نچھاور کر دیتا ہے۔ پھر اپنے ہاتھ میں بجھا ہوا دِیا دیکھ کر بچہ کیا محسوس کر رہا ہو گا؟
۸۹۔ علم کی حقیقت
موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ اِس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف سفر کا نام ہے۔ علم بھی ایک دُنیا سے دوسری دنیا کی طرف سفر ہے کیونکہ وہ علم جو واقعی اپنی سمجھ بوجھ سے خود حاصل کیا جائے وہ ہمیں ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔
جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ اِس کا مطلب یہ کہ کسی بات کا علم حاصل ہونے کے بعد ہم وہ نہیں رہتے جو ہم پہلے تھے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کس طرح آپ کی خودی بھی اس سفر کے ہر مرحلے پر تبدیل ہوتی گئی ہے۔ آپ سچ مچ تو مکھی، گلہری، بکری اور پھر انسان نہیں بنے مگر باغ کے بارے میں آپ کی سمجھ جس طرح بڑھی ہے یہ اُس کی نشانیاں ہیں۔
اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ماں نے اپنے خواب میں جس چیز کو بچے کی موت کی صورت میں دیکھا ہے وہ در اصل سچ مچ کی موت نہیں ہے بلکہ بچے کی علم حاصل کرنے کی تمنا ہے۔ اِسی تمنا کو وہ اپنی دعا میں اگر یوں کہے کہ اُسے علم کی شمع سے ویسی محبت ہو جیسی پروانے کو ہوتی ہے تو ماں کے ذہن کے کسی حصے میں موت کا تصور اُبھرے گا کیونکہ پروانہ شمع پر اپنی جان نچھاور کر دیتا ہے۔ اِسی طرح انسان علم کے ذریعے اپنے آپ کو بدلتا چلا جاتا ہے۔
۹۰۔ خواب کی تعبیر
ماں یہ بات بھلا بیٹھی ہے کہ بچہ اُس کی اولاد ضرور ہے مگر اصل پیدا کرنے والا خدا ہے۔ دنیا میں انسان کی زندگی در اصل خدا کی طرف سفر کا نام ہے۔ ہمیں اپنی سمجھ بوجھ سے دُنیا کو پہچانتے ہوئے یہ سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ ماں کے آنسو اِس بات کی علامت ہیں کہ وہ اپنے بچے کی زندگی بھی خود ہی جینا چاہتی ہے۔ شاید یہ محبت کا انداز ہو اور وہ نہ چاہتی ہو کہ اُس کے بچے پر زندگی کے دکھوں کا سایہ پڑے۔ مگر اِس طرح بچہ دنیا کو کیسے سمجھے گا اور کیسے اُسے جنت بنا کر اُس میں ہر جگہ اُجالا کرے گا؟
کچھ جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ انسان کو اپنی پیدائش کے بعد کئی سال تک ضرورت رہتی ہے کہ اُس کی دیکھ بھال کی جائے اور مناسب تربیت ملے۔ اِس خواب میں ماں کی جو مشکل سامنے آئی ہے وہ در اصل محبت کی مشکل ہے۔ محبت کا ایک انداز یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کی خاطر زندہ رہیں اور یہ سمجھیں کہ وہ بھی ہماری خاطر زندہ رہے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان صرف خدا کے لیے زندہ رہ کر ہی اپنی منزل پر پہنچ سکتا ہے اور خدا کے لیے جینے کا طریقہ اپنی سچائی کی تلاش کرنا ہے۔
انسانی زندگی میں تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو پہچانیں، دنیا کو بھی سمجھیں، والدین کی فرمانبرداری بھی کریں، دوسروں سے تعلقات بھی قائم کریں اور ان سب کے درمیان اپنی سچائی سے بھی وفادار رہیں۔ اپنی خودی کی ترقی کبھی رکنے نہ دیں۔ یہ سارے تقاضے پورت کرنا مشکل ہے مگر آپ کے چمکنے سے ہر جگہ اُجالا ہو جانے کا یہی مطلب ہے۔
سیار گاہ میں چھٹا سیارہ زُحل تھا۔ یہ وُسعت اور پھیلاؤ کا مقام تھا۔
ساتویں نظم
پرندے کی فر یاد
۹۱۔ یاد
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
۹۲۔ گزرا ہوا زمانہ
خدا نے تمام رُوحوں سے پوچھا تھا، ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ تمام روحوں نے جواب دیا تھا کہ بیشک آپ ہی ہمارے پروردگار ہیں۔ اِسے عہدِ اَلَست کہتے ہیں۔ یہی وہ گزرا ہوا زمانہ ہے جو پرندے کو یاد آ رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ پرندے سے مراد آپ کی رُوح ہے۔
۹۳۔ باغ کی بہاریں
خدا جانے انسان اپنے پروردگار سے کب کا بچھڑا ہوا ہے!
باغ کی بہاروں سے مراد کون سے باغ کی بہاریں ہیں؟ وہ سب کون تھے جن کے ساتھ مل کر یہ رُوح خدا کی تسبیح کرتی تھی؟ تلاش کے سفر کی چھ منزلوں سے گزرنے کے بعد اِس کا جواب تلاش کرنا اب مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
۹۴۔ دِل پر چوٹ
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
۹۵۔ رہائی
رہائی کا مطلب زندگی سے رہائی اور موت نہیں ہے بلکہ خدا کو پہچاننا ہے۔
اِسلام میں خود کشی حرام ہے۔ پھر خدا تک واپس پہنچنے کا طریقہ کیا ہے؟ اُس کا طریقہ خدا کی مرضی کو سمجھنا ہے اور اُس مرضی کو سمجھ کر اپنے آپ کو با اختیار بنانا ہے۔ دنیا کو حاصل کیے بغیر وہ قرب بھی میسر نہیں ہو سکتا اس لیے اگر ہم گلاب کی خوشبو ہیں تو ہمیں چاہیے کہ سارا باغ اپنے گریبان میں سمیٹ لیں۔
آپ نے پچھلی نظموں میں دیکھا تھا کہ دنیا میں ہر چیز خدا سے جُڑی ہوئی ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننا بھی خدا کو پہچاننا ہے اور دنیا کو پہچاننا بھی خدا کو پہچاننا ہی ہے بشرطیکہ دنیا کی صرف ظاہری سطح کو نہ دیکھا جائے۔ اسے دل سے محسوس بھی کیا جائے۔
۹۶۔ قید
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اِس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اِس قید کا الٰہی! دُکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں مَیں غم سے مر نہ جاؤں
۹۷۔ دوسری قسم کی موت
رُوح جس موت سے ڈر رہی ہے وہ یہ ہے کہ کہیں خدا کو پہچاننے سے غافل نہ ہو جائے۔ کہیں راستے سے اِس طرح نہ بھٹک جائے کہ جب واپس پہنچے تو اپنے مقصد میں ناکام ہو چکی ہو۔
۹۸۔ غم
جب سے چمن چھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے
۹۹۔ غم کی قسمیں
غم کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو انسان کو کسی قابل نہیں چھوڑتی۔ حوصلہ کم کرتی ہے، زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی لگن باقی نہیں رہنے دیتی۔ یہ غم ایمان میں کمزوری کی علامت ہے۔
غم کی دُوسری قسم وہ ہے جس میں یہ پرندہ مبتلا ہے۔ مکھی، گلہری، بکری، بچہ، جگنو، دِیا اور اب یہ پرندہ۔۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اب پرندے کو آگے بڑھ کر کیا بننا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں باغ کی بہاروں کی ہلکی سی جھلک ذہن میں آ کر مٹ جاتی ہے۔ کوئی کامنی سی مورت یاد آتی ہے جس کی آواز یہاں سنائی نہیں دے رہی۔
یہ غم ہے جو دوسرے ہر غم کو ختم کر دیتا ہے۔ پرندے کو خوراک کا غم نہیں ہے جو کسی نہ کسی طرح پنجرے میں پہنچ ہی جاتی ہے۔ اِسے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرنے کی تڑپ ہے۔
۱۰۰۔ آہ و زاری
گانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دُکھے ہوئے دِلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے
۱۰۱۔ قید کرنے والا
رُوح کس کی قید میں ہے؟ دُنیا میں رہتے ہوئے ہمیں جس طرح سوچنے کی عادت ہو جاتی ہے وہ رُوح کے لیے پنجرہ بن جاتی ہے۔ یہ سات نظمیں در اصل اِسی سے آزادی حاصل کرنے کی سات منزلیں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ سیار گاہ کا آخری مقام آسمانوں سے پرے تھا۔
۱۰۲۔ خودی کے راز
آپ کو یاد ہو گا کہ شاعری کا باغ دس حصوں میں بٹا ہوا ہے اور آپ نے اُس حصے کی سیر کی ہے جو بچوں کے لیے ہے۔ اگلی دفعہ آپ آئیں تو باغ کے دوسرے حصوں کی سیر بھی کیجیے گا۔ اِن حصوں کا تعارف آپ سے ابھی کروایا جا رہا ہے۔
پہلا تختہ اسرار و رموز ہے۔ یہ فارسی میں ہے اور اِس کے دو حصے ہیں، اسرارِ خودی اور رموزِ بیخودی۔ پہلا حصہ فرد کی خودی کے بارے میں ہے اور دوسرا حصہ قوم کی خودی کے بارے میں۔ جی ہاں، فرد کی طرح قوم کی خودی بھی ہوتی ہے جس کے ساتھ اپنا تعلق دریافت کر کے افراد دنیا میں کامیابی کے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔
۱۰۳۔ مشرق کا پیغام
باغ کا دوسرا تختہ پیامِ مشرق ہے۔ یہ بھی فارسی میں ہے اور اِس میں مختلف رباعیات، نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں، ’’زندگی کی گہرائیوں میں فطرت ایک نیا آدم اور اُس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے۔‘‘
۱۰۴۔ شاعر کے ذہن کی سرگزشت
تیسرا تختہ بانگِ درا ہے جو اُردو میں ہے۔ اِس کا ایک حصہ بچوں کے لیے ہے اور آپ نے اِسی حصے کی سیر کی ہے۔ پورا تختہ در اصل علامہ اقبال کے ذہن کی سرگزشت ہے۔ ’’شکوہ‘‘، ’’شمع اور شاعر‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘، ’’خضرِ راہ‘‘ اور ’’طلوعِ اسلام‘‘ جیسی مشہور نظمیں اِسی میں شامل ہیں۔
۱۰۵۔ راز کی بات
چوتھا تختہ زبورِ عجم ہے اور یہ فارسی میں ہے۔ یہاں علامہ اقبال پہلی بار اپنے لیے قلندر کا لقب استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو بات اب تک نہیں کہی گئی تھی وہ اُنہوں نے کہ دی ہے۔ در اصل یہ تختہ اُس سیار گاہ کی سیر کے لیے تیاری کا سامان مہیا کرتا ہے جو اِس کے بعد باغ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔
۱۰۶۔ نئی دُنیا
پانچواں تختہ وہی سیار گاہ ہے جو باغ کے بیچوں بیچ واقع ہے اور جس کا مختصر تعارف آپ سے ہو چکا ہے۔ یہ جاوید نامہ ہے اور فارسی میں ہے۔ اِس کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یہ کتاب کسی اور ہی آسمان سے اُتری ہے۔
۱۰۷۔ جبریل کی پرواز
چھٹا تختہ بالِ جبریل ہے جو اُردو میں ہے۔ جس طرح چوتھا تختہ سیار گاہ کی سیر کے لیے تیار کرواتا ہے اُسی طرح یہ چھٹا تختہ واپسی پر سیر میں سیکھی ہوئی باتوں کو دُنیا میں برتنے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہِ‘‘ ’’ذوق و شوق‘‘، ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’شاہین‘‘ جیسی مشہور نظمیں اِس میں شامل ہیں۔
۱۰۸۔ اعلانِ جنگ
ساتواں تختہ ضربِ کلیم ہے جسے علامہ اقبال عہدِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیتے ہیں۔ یہ اُردو میں ہے اور اِس کے پانچ حصے ہیں جن کے موضوعات ’’اسلام اور مسلمان‘‘، ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’عورت‘‘، ’’ادبیات، فنونِ لطیفہ‘‘ اور ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ ہیں۔ آخر میں ‘‘محراب گل افغان کے افکار‘‘ بھی شامل ہیں جو در اصل علامہ اقبال ہی کا قلمی نام ہے۔
۱۰۸۔ اے اقوامِ شرق!
آٹھواں تختہ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق ہے۔ یہ فارسی میں ہے اور اِس عنوان کا مطلب ہے، ’’اب کیا کرنا چاہیے اے مشرق کی اقوام؟‘‘ یہ فارسی میں ہے اور اِس میں علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ باغ کے بقیہ حصوں میں جو کچھ آپ نے سیکھا ہے اُسے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اِس تختے کا دوسرا حصہ ایک چھوٹا سا افغانستان ہے جو در اصل علامہ اقبال کا سفرنامہ ہے۔ اِس کا عنوان مسافر ہے اور یہ بھی فارسی میں ہے۔
۱۰۹۔ حجاز کا تحفہ
شاعری کے آخری تختے کا عنوان ارمغانِ حجاز ہے یعنی حجاز کا تحفہ (حجاز عرب کے ایک حصے کا نام ہے جہاں مکہ اور مدینہ کے مقدس شہر ہیں)۔ یہ نصف فارسی میں اور نصف اُردو میں ہے۔ حصۂ اردو کی مشہور نظموں میں ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ اور ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ شامل ہیں، جس کا یہ شعر شاید سبھی کو یاد ہو گا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
۱۱۰۔ سوچ کے دروازے
شاعری کے تختوں کے بعد باغ میں ایک یونیورسٹی ہے۔ یہ انگریزی نثر کی ایک کتاب کی شکل میں ہے جس کا عنوان ہے:
The Reconstruction of Religious Thought in Islam
اِس میں سات لیکچر ہال ہیں جہاں علامہ اقبال ایک مفکر کی صورت میں آپ کو سکھاتے ہیں کہ باغ میں سیکھی ہوئی باتوں کی روشنی میں کس طرح ایک نئی سوچ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
۱۱۱۔ پاکستان
باغ سے نکلتے ہوئے ایک یادگاری برو شر بھی ساتھ لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ انگریزی میں ہے اور اِس کا عنوان ہے:
The Presidential Address of Dr. Sir Muhammad Iqbal
یہ وہ صدارتی خطبہ ہے جو علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۰ء میں پڑھا تھا۔ اِسی میں انہوں نے ایک آزاد مسلمان ریاست کا تصوّر بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا تھا جو بعد میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے نام سے وجود میں آئی۔
اِسے پڑھ کر یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ آپ نے بچوں کے حصے کی سیر میں جو کچھ دیکھا ہے اور سیکھا ہے اُس کا پاکستان کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق سب کے سامنے آتا جائے گا۔
٭٭٭
ضمیمہ
جب کسی کتاب کے ساتھ کوئی اضافی حصہ شامل کیا جائے تو اُسے ضمیمہ کہتے ہیں۔ کہانی میں جن نظموں کا ذکر تھا وہ یہاں بطور ضمیمہ شامل کی جا رہی ہیں۔
بچوں کے لیے
ایک مکڑا اور مکھّی
(ماخوذ)
اک دن کسی مکھّی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
لیکن مری کُٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھُولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھّا
غیروں سے نہ مِلیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزّت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھّی نے سُنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اس جال میں مکھّی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اُترا
مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!
اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کُٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسّر نہیں ہوتا
مکھّی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں، یہ امّید نہ رکھنا
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا
مکڑے نے کہا دل میں، سُنی بات جو اُس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سَو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھّی سے کہا اُس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبا
ہوتی ہے اُسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کَنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حُسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سُنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھّا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اُچھل کر اُسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے، اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھّی کو اُڑایا
ایک پہاڑ اور گلہری
(ماخوذ از ایمرسن)
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا!
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
کہا یہ سُن کے گلہری نے، مُنہ سنبھال ذرا
یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تُو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اُس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سِکھا دیا اُس نے
قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دِکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں
ایک گائے اور بکری
(ماخوذ )
اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اُس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندّیاں تھیں رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
کسی ندّی کے پاس اک بکری
چرَتے چرَتے کہیں سے آ نکلی
جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھُک کر اُسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھّے ہیں
کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے، کیا کہیے
اپنی قِسمت بُری ہے، کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو مَیں
رو رہی ہوں بُروں کی جان کو مَیں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لِکھا نصیبوں کا
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے، خدا نہ کرے
دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کِن فریبوں سے رام کرتا ہے
اس کے بچوں کو پالتی ہوں میَں
دُودھ سے جان ڈالتی ہوں مَیں
بدلے نیکی کے یہ بُرائی ہے
میرے اللہ! تری دُہائی ہے
سُن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گِلہ نہیں اچّھا
بات سچّی ہے بے مزا لگتی
مَیں کہوں گی مگر خدا لگتی
یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں!
یہ مزے آدمی کے دَم سے ہیں
لُطف سارے اسی کے دَم سے ہیں
اس کے دَم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی کہ آزادی!
سَو طرح کا بَنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گُزران سے بچائے خُدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اُس کا
ہم کو زیبا نہیں گِلا اُس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گِلہ نہ کرو
گائے سُن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گِلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا بُرا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
بچے کی دعا
(ماخوذ)
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو
ہمدردی
(ماخوذ از ولیم کوپر)
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چُگنے میں دن گزارا
پہنچوں کِس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سُن کر بُلبل کی آہ و زاری
جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے
کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
مَیں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچّھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
ماں کا خواب
(ماخوذ)
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ مَیں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمُرّد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چُپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پِسر
مجھے اُس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا مَیں نے پہچان کر، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں؟
جُدائی میں رہتی ہوں مَیں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ، اچّھی وفا تم نے کی!
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اُس نے مُنہ پھیر کر یوں جواب
رُلاتی ہے تجھ کو جُدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کَہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تُو ہو گیا کیا اسے؟
ترے آنسوؤں نے بُجھایا اسے!
پرندے کی فر یاد
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مُسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
کیا بد نصیب ہوں مَیں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، مَیں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار، کلیاں پھُولوں کی ہنس رہی ہیں
مَیں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اِس قید کا الٰہی! دُکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں مَیں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھُٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے
دُکھّے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!
مَیں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دُعا لے
٭٭٭
ماخذ: اقبال سائبر لائبریری
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں