فہرست مضامین
رسول اللہؐ کے خطوط بادشاہوں اور امراء کے نام
صفی الرحمٰن مبارکپوری
(ماخوذ از الرحیق المختوم صفحہ نمبر 476 تا 493)
تعارف
6 ھ کے اخیر میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کے نام خطوط لکھ کر انہیں اسلام کی دعوت دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خطوط کو لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے کہا گیا کہ بادشاہ اسی صورت میں خط قبول کریں گے جب ان پر مہر لگی ہو۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس پر ” محمد رسول اللہ ” نقش تھا۔ یہ نقش تین سطروں میں تھا محمد ایک سطر میں ‘ رسول ایک سطر میں اور اللہ ایک سطر میں۔ شکل یہ تھی:(1)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلومات رکھنے والے تجربہ کار صحابہ کرام کو بطور قاصد منتخب فرمایا اور انہیں بادشاہوں کے پاس خطوط دے کر روانہ فرمایا۔ علامہ منصور پوری نے وثوق کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاصد اپنی خیبر روانگی سے چند دن پہلے یکم محرم 7ھ کو روانہ فرمائے تھے۔ (2) اگلی سطور میں وہ خطوط اور ان پر مرتب ہونے والے کچھ اثرات پیش کئے جا رہے ہیں۔
٭٭٭
نجاشی شاہ حبشہ کے نام خط
اس نجاشی کا نام اصحمہ بن ابجر تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نام جو خط لکھا اسے عمرو بن امیہ ضمری (رضی اللہ عنہ)کے بدست 6ھ کے اخیر یا 7ھ کے شروع میں روانہ فرمایا۔ طبری نے اس خط کی عبارت ذکر کی ہے۔ لیکن اسے بنظر غائر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وہ خط نہیں ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد لکھا تھا بلکہ یہ غالباً اس خط کی عبارت ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو ان کی ہجرت حبشہ کے وقت دیا تھا۔ کیوں کہ خط کے اخیر میں ان مہاجرین کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
"وقد بعثت الیکم ابن عمی جعفرا ومعہ نفر من المسلمین فاذا جاءک فاقرھم ودع التجبر "
میں نے تمہارے پاس اپنے چچیرے بھائی جعفر کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کیا ہے جب وہ تمہارے پاس پہنچیں تو انہیں اپنے پاس ٹھہرانا اور جبر اختیار نہ کرنا۔
بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک اور خط کی عبارت روایت کی ہے۔ جسےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے پاس روانہ کیا تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:
یہ خط ہے محمد نبی کی طرف سے نجاشی اصحم شاہ حبش کے نام
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ ٗلا شریک لہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس نے نہ کوئی بیوی اختیار کی نہ لڑکا، اور (میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ) محمد اس کا بندہ اور رسول ہے، اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کیوں کہ میں اس کا رسول ہوں، لہٰذا اسلام لاؤ سلامت رہو گے۔ ” اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائے۔ پس اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں”۔ اگر تم نے (یہ دعوت) قبول نہ کی تو تم پر اپنی قوم کے نصاریٰ کا گناہ ہے”۔
ڈاکٹر حمیداللہ صاحب (پاریس) نے ایک اور خط کی عبارت درج فرمائی ہے جو ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور صرف ایک لفظ کے اختلاف کے ساتھ یہی خط علامہ ابن قیم کی کتاب زادالمعاد میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس خط کی عبارت کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ دور جدید کے انکشافات سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے اور اس خط کا فوٹو کتاب کے اندر ثبت فرمایا ہے۔
اس خط کا ترجمہ یہ ہے:
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم”
محمد رسول اللہ کی جانب سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ جو قدوس اور سلام ہے۔ امن دینے والا محافظ و نگران ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ اللہ نے انہیں پاکیزہ اور پاک دامن مریم بتول (علیہ السلام) کی طرف ڈال دیا۔ اور اس کی روح اور پھونک سے مریم (علیہ السلام) عیسیٰ کے لئے حاملہ ہوئیں۔ جیسے اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ میں اللہ وحدہٗ لا شریک لہ کی جانب اور اس کی اطاعت پر ایک دوسرے کی مدد کی جانب دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی طرف (بلاتا ہوں) کہ تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میرے پاس آیا ہے اس پر ایمان لاؤ کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی جانب بلاتا ہوں، اور میں نے تبلیغ و نصیحت کر دی لہٰذا میری نصیحت قبول کرو، اور اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے”۔ (3)
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے بڑے یقینی انداز میں کہا ہے کہ یہی وہ خط ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد نجاشی کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ جہاں تک اس خط کی استنادی حیثیت کا تعلق ہے تو دلائل پر نظر ڈالنے کے بعد اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں رہتا لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد یہی خط روانہ فرمایا تھا۔، بلکہ بیہقی نے جو خط ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے اس کا انداز ان خطوط سے زیادہ ملتا جلتا ہے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے بعد عیسائی بادشاہوں اور امراء کے پاس روانہ فرمایا تھا، کیونکہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خطوط میں آیت کریمہ "یا اھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ سواء ” درج فرمائی تھی، اسی طرح بیہقی کے روایت کردہ خط میں بھی یہ آیت درج ہے۔ علاوہ ازیں اس خط میں صراحتاً اصحمہ کا نام بھی موجود ہے۔ جبکہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کے نقل کردہ خط میں کسی کا نام نہیں ہے۔ اس لیے میرا گمان غالب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا نقل کردہ خط در حقیقت وہ خط ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحمہ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کے نام لکھا تھا اور غالباً یہی سبب ہے کہ اس میں کوئی نام درج نہیں۔
اس ترتیب کی میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد صرف وہ اندرونی شہادتیں ہیں جو ان خطوط کی عبارتوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب پر تعجب ہے کہ موصوف نے ادھر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیہقی کے نقل کردہ خط کو پورے یقین کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط قرار دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحمہ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کے نام لکھا تھا حالانکہ اس خط میں صراحت کے ساتھ اصحمہ کا نام موجود ہے۔ والعلم عنداللہ۔(4)
بہر حال جب عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط نجاشی کے حوالے کیا تو نجاشی نے اسے لے کر آنکھ پر رکھا، اور تخت سے زمین پر اتر آیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس بارے میں خط لکھا جو یہ ہے،
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی خدمت میں نجاشی اصحمہ کی طرف سے
اے اللہ کے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے سلام اور اس کی رحمت اور برکت ہو۔ وہ اللہ جس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اما بعد:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ کا گرامی نامہ ملا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ ذکر کیا ہے۔ خدائے آسمان و زمین کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ذکر فرمایا ہے حضرت عیسیٰ اس سے ایک تنکا بڑھ کر نہ تھے۔ وہ ویسے ہی ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے (5)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ہمارے پاس بھیجا ہے ہم نے اسے جانا اور آپ کے چچیرے بھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مہمان نوازی کی اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور پکے رسول ہیں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی سے بیعت کی اور ان کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کے لئے اسلام قبول کیا۔ (6)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی سے یہ بھی طلب کیا تھا کہ وہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اوردوسرے مہاجرین حبشہ کو روانہ کر دے۔ چنانچہ اس نے عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ساتھ دو کشتیوں میں اس کی روانگی کا انتظام کر دیا۔ ایک کشتی کے سوار جس میں حضرت جعفر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے، براہ راست خیبر پہنچ کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور دوسری کشتی کے سوار جن میں ذیادہ تر بال بچے تھے سیدھے مدینہ پہنچے۔ (7) مذکورہ نجاشی نے غزوہ تبوک کے بعد رجب 9 ھ میں وفات پائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وفات ہی کے دن صحابہ کرام کو اس کی موت کی اطلاع دی اور اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ اس کی وفات کے بعد دوسرا بادشاہ اس کا جانشین ہو کر سریر آرائے سلطنت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس بھی ایک خط روانہ فرمایا لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں۔ (8)
مقوقس شاہ مصر کے نام خط
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گرامی نامہ جریج بن متی (9) کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب مقوقس تھا اور جو مصر و اسکندریہ کا بادشاہ تھا۔ نامہ گرامی یہ ہے :
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم”
اللہ کے بندے اور اسے کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم قبط کی جانب
میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لاؤ سلامت رہو گے۔ اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم اہل قبط کا بھی گناہ ہو گا۔ ” اے اہل قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے بعض، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں "۔ (10)
اس خط کو پہنچانے کے لئے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رضی اللہ عنہ) کا انتخاب فرمایا گیا۔ وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا "(اس زمین پر) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ نے اسے آخر و اول کے لئے عبرت بنا دیا۔ پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو، ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں”۔
مقوقس نے کہا ” ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے۔ حضرت حاطب نے فرمایا : ” ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنا دیا ہے۔ دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی دعوت) دی تو اس کے خلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے، یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے۔ میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بشارت دی تھی، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے بشارت دی ہے۔ اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جس طرح تم اہل تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو۔ جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہو جاتی ہے، اور اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس نبی اطاعت کرے، اور تم نے اس نبی کا عہد پا لیا ہے، اور پھر ہم تمہیں دین مسیح سے روکتے نہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں "۔
مقوقس نے کہا : "میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے۔ وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن، بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں۔ میں مزید غور کروں گا "۔
مقوقس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر (احترام کے ساتھ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہر لگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کر دیا۔ پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا :
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد بن عبداللہ کے لئے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے
آپ پر سلام ! اما بعد میں نے آپ کا خط پڑھا اور اس میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا۔ مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہو گا۔ میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز و اکرام کیا۔ آپ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے اور کپڑے بھیج رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لئے ایک خچر بھی ہدیہ کر رہا ہوں، اور آپ پر سلام”۔
مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اور اسلام نہیں لایا۔ دونوں لونڈیاں ماریہ اور سیرین تھیں۔ خچر کا نام دُلدُل تھا جو حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے زمانے تک باقی رہا۔ (11) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ کو اپنے پاس رکھا، اور انہیں کے بطن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے اور سیرین کو حضرت حسان بن ثابت انصاری (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کر دیا۔
شاہ فارس خسر پرویز کے نام خط
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط بادشاہ فارس کسرٰی (خسرو) کے پاس روانہ کیا جو یہ تھا۔
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی طرف سے کسرٰی عظیم فارس کی جانب
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف اللہ کا فرستادہ ہوں تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجام بد سے ڈرایا جائے اور کافرین پر حق بات ثابت ہو جائے (یعنی حجت تمام ہو جائے) پس تم اسلام لاؤ سالم رہو گے اور اگر اس سے انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی بار گناہ ہو گا "۔
اس خط کو لے جانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی (رضی اللہ عنہ) کو منتخب فرمایا۔ انہوں نے یہ خط سربراہ بحرین کے حوالے کیا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ سربراہ بحرین نے یہ خط اپنے کسی آدمی کے ذریعے کسریٰ کے پاس بھیجا یا خود حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی (رضی اللہ عنہ) کو روانہ کیا۔ بہرحال جب یہ خط کسرٰی کو پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے چاک کر دیا اور نہایت متکبرانہ انداز میں بولا : میری رعایا میں سے ایک حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے، اور پھر وہی ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد کسرٰی نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ یہ شخص جو حجاز میں ہے اس کے یہاں اپنے دو توانا اور مضبوط آدمی بھیج دو کہ وہ اسے میرے پاس حاضر کریں۔ باذان نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دو آدمی منتخب کئے اور انہیں ایک خط دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ کسرٰی کے پاس حاضر ہو جائیں۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو حاضر ہوئے تو ایک نے کہا : "شہنشاہ کسرٰی نے شاہ باذان کو ایک مکتوب کے ذریعے حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے پاس ایک آدمی بھیج کر آپ کو کسرٰی کے رو برو حاضر کرے اور باذان نے اس کام کے لئے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ساتھ ہی دونوں نے دھمکی آمیز باتیں بھی کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ کل ملاقات کریں”۔
ادھر عین اسی وقت جبکہ مدینہ میں یہ دل چسپ "مہم” در پیش تھی خود خسرو پرویز کے گھرانے کے اندر اس کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا شعلہ بھڑک رہا تھا جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی فوجوں کی پے در پے شکست کے بعد اب خسرو کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا تھا۔ یہ منگل کی رات 10 جمادی الاولیٰ 7ھ کا واقعہ ہے۔ (12) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم وحی کے ذریعہ ہوا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی اور دونوں فارسی نمائندے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس واقعے کی خبر دی۔ ان دونوں نے کہا کچھ ہوش ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ہم نے آپ کی اس سے بہت معمولی بات بھی قابل اعتراض شمار کی ہے۔ تو کیا آپ کی یہ بات ہم بادشاہ کو لکھ بھیجیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اسے میری اس بات کی خبر کر دو۔ اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس جگہ جا کر رکے گی جس سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جا ہی نہیں سکتے۔ تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو جو کچھ تمہارے زیر اقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا۔ اور تمہیں تمہاری قوم ابناء کا بادشاہ بنا دوں گا۔ اس کے بعد وہ دونوں مدینہ سے روانہ ہو کر باذان کے پاس پہنچے اور اسے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے۔ شیرویہ نے اپنے اس خط میں یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے والد نے تمہیں لکھا تھا اسے تا حکم ثانی برانگیختہ نہ کرنا۔
اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے فارسی رفقاء (جو یمن میں موجود تھے) مسلمان ہو گئے۔ (13)
قیصر شاہ روم کے نام خط
صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس گرامی نامہ کی نص مروی ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل شاہ روم کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ وہ مکتوب یہ ہے :
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہرقل عظیم روم کی طرف
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تم اسلام لاؤ سالم رہو گے۔ اسلام لاؤ اللہ تمہیں تمہارا اجر دوبارہ دے گا۔ اور اگر تم نے رو گردانی کی تو تم پر اریسیوں (رعایا) کا بھی (گناہ) ہو گا۔ اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پوجیں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور اللہ کے بجائے ہمارا بعض بعض کو رب نہ بنائے۔ پس اگر لوگ رخ پھیریں تو کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں "۔ (14)
اس گرامی نامہ کو پہنچانے کے لئے دحیہ بن خلیفہ کلبی (رضی اللہ عنہ) کا انتخاب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط سربراہ بُصرٰی کے حوالے کر دیں اور وہ اسے قیصر کے پاس پہنچا دے گا۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آیا اس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ ابو سفیان بن حرب نے ان سے بیان کیا کہ ہرقل نے اس کو قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا۔ یہ جماعت صلح حدیبیہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصہ امن میں ملک شام تجارت کے لئے گئی ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایلیاء (بیت المقدس) میں اس کے پاس حاضر ہوئے۔ (15) ہرقل نے انہیں اپنے دربار میں بلایا۔ اس وقت اس کے گردا گرد روم کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا کہ یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے اس سے تمہارا کون سا آدمی سب سے زیادہ قریبی نسبی تعلق رکھتا ہے ؟ ابو سفیان کا بیان ہے کہ میں نے کہا ‘ میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ ہرقل نے کہا، اسے میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کر کے اس کی پشت کے پاس بٹھا دو۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا میں اس شخص سے اُس آدمی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق سوالات کروں گا۔ اگر یہ جھوٹ بولے تو تم لوگ اسے جھٹلا دینا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یقیناً جھوٹ بولتا۔ ابو سفیان کہتے ہیں اس کے بعد پہلا سوال جو ہرقل نے مجھ سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے بارے میں کیا وہ یہ تھا کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے؟
میں نے کہا : وہ اونچے نسب والا ہے۔
ہرقل نے کہا : تو کیا یہ بات اس پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اچھا تو بڑے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا کمزوروں نے؟
میں نے کہا : بلکہ کمزوروں نے۔
ہرقل نے کہا : یہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟
میں نے کہا : بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے برگشتہ ہو کر مرتد بھی ہوتا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اس نے جو بات کی ہے کیا اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اس کو جھوٹ سے مُتہم کرتے تھے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔ البتہ ہم لوگ اس وقت اس کے ساتھ صلح کی ایک مدت گزار رہے ہیں معلوم نہیں اس میں وہ کیا کرے گا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس فقرے کے سوا مجھے اور کہیں کچھ گھسیڑنے کا موقع نہ ملا۔
ہرقل نے کہا : کیا تم لوگوں نے اس سے جنگ کی ہے ؟
میں نے کہا : جی ہاں۔
ہرقل نے کہا : تو تمہاری اور اس کی جنگ کیسی رہی ؟
میں نے کہا : جنگ ہم دونوں کے درمیان برابر کی چوٹ ہے۔ وہ ہمیں زک پہنچا لیتا ہے اور ہم اسے زک پہنچا لیتے ہیں۔
ہرقل نے کہا : وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟
میں نے کہا : وہ کہتا ہے صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ تمہارے باپ دادا جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز، سچائی، پرہیز، پاک دامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔
اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا : ” تم اس شخص (ابو سفیان) سے کہو کہ میں نے تم سے اس شخص کا نسب پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ اونچے نسب کا ہے، اور دستور یہی ہے کہ پیغمبر اپنی قوم کے اونچے نسب میں بھیجے جاتے ہیں۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کر رہا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنے باپ کی بادشاہت کا طالب ہے۔
اور میں نے یہ دریافت کیا کہ کیا جو بات اس نے کہی ہے اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے ؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں۔ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔
میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بڑے لوگ اس کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور ؟ تو تم نے بتایا کہ کمزوروں نے اس کی پیروی کی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ پیغمبروں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص برگشتہ ہو کر مرتد بھی ہوتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں، اور حقیقت یہ ہے ایمان کی بشاشت جب دلوں میں گھس جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں اور پیغمبر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ بد عہدی نہیں کرتے۔
میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟ تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے، بت پرستی سے منع کرتا ہے، اور نماز، سچائی اور پرہیز گاری و پاک دامنی کا حکم دیتا ہے۔
تو جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یہ شخص بہت جلد میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک ہو جائے گا۔ میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم سے ہو گا۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا، اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پاؤں دھوتا”۔
اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگا کر پڑھا۔ جب خط پڑھ کر فارغ ہوا تو وہاں آوازیں بلند ہوئیں اور بڑا شور مچا۔ ہرقل نے ہمارے بارے میں حکم دیا اور ہم باہر کر دئیے گئے۔ جب ہم لوگ باہر لائے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا، ابو کبشہ (16)کے بیٹے کا معاملہ بڑا زور پکڑ گیا۔ اس سے تو بنو اصفر (رومیوں) (17) کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ اس کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب آ کر رہے گا یہاں تک کہ اللہ نے میرے اندر اسلام کو جا گزیں کر دیا۔
یہ قیصر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا وہ اثر تھا جس کا مشاہدہ ابو سفیان نے کیا۔ اس نامہ مبارک کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نامہ مبارک کو پہنچانے والے یعنی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو مال اور پارچہ جات سے نوازا۔ لیکن حضرت دحیہ یہ تحائف لے کر واپس ہوئے تو حسمٰی میں قبیلہ جذام کے کچھ لوگوں نے ان پر ڈاکہ ڈال کر سب کچھ لوٹ لیا۔ حضرت دحیہ مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے بجائے سیدھے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ تفصیل سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں پانچ سو صحابہ کرام کی ایک جماعت حُسمٰی روانہ فرمائی۔ حضرت زید نے قبیلہ جذام پر شب خون مار کر ان کی خاصی تعداد کو قتل کر دیا اور ان کے چوپایوں اور عورتوں کو ہانک لائے۔ چوپایوں میں ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں تھیں اور قیدیوں میں ایک سو عورتیں اور بچے تھے۔
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قبیلہ جذام میں پہلے سے مصالحت کا عہد چلا آرہا تھا اس لئے اس قبیلہ کے ایک سردار زید بن رفاعہ جذامی (رضی اللہ عنہ) نے جھٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت احتجاج و فریاد کی۔ زید بن رفاعہ اس قبیلے کے کچھ مزید افراد سمیت پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے اور جب حضرت دحیہ (رضی اللہ عنہ) پر ڈاکہ پڑا تھا تو ان کی مدد بھی کی تھی۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا احتجاج قبول کرتے ہوئے مال غنیمت اور قیدی واپس کر دیئے۔
عام اہل مغازی نے اس واقعہ کو صلح حدیبیہ سے پہلے بتلایا ہے۔ مگر یہ فاش غلطی ہے کیونکہ قیصر کے پاس نامہ مبارک کی روانگی صلح حدیبیہ کے بعد عمل میں آئی تھی اسی لیے علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ بلا شبہ حدیبیہ کے بعد کا ہے۔ (18)
منذر بن ساوی کے نام خط
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط منذر بن ساوی حاکم بحرین کے پاس لکھ کر اسے بھی اسلام کی دعوت دی اور اس خط کو حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں روانہ فرمایا۔ جواب میں منذر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا : ” امابعد ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کا خط اہل بحرین کو پڑھ کر سنا دیا۔ بعض لوگوں نے اسلام کو محبت اور پاکیزگی کی نظر سے دیکھا اور اس کے حلقہ بگوش ہو گئے اور بعض نے پسند نہیں کیا۔ اور میری زمیں میں یہود اور مجوس بھی ہیں لہذا آپ اس بارے میں اپنا حکم صادر فرمائیے "۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط لکھا۔
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی جانب سے منذر بن ساوی کی طرف
تم پر سلام ہو۔ میں تمہارے ساتھ اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اما بعد ! میں تمہیں اللہ عزوجل کی یاد دلاتا ہوں۔ یاد رہے کہ جو شخص بھلائی اور خیر خواہی کرے گا وہ اپنے ہی لیے بھلائی کرے گا اور جو شخص میرے قاصدوں کی اطاعت اور ان کے حکم کی پیروی کرے اس نے میری اطاعت کی اور جو ان کے ساتھ خیر خواہی کرے اس نے میرے ساتھ خیر خواہی کی اور میرے قاصدوں نے تمہاری اچھی تعریف کی ہے اور میں نے تمہاری قوم کے بارے میں تمہاری سفارش قبول کر لی ہے، لہذا مسلمان جس حال پر ایمان لائے ہیں انہیں اس پر چھوڑ دو۔ اور میں نے خطا کاروں کو معاف کر دیا ہے لہذا ان سے قبول کر لو۔ اور جب تک تم اصلاح کی راہ اختیار کیے رہو گے ہم تمہیں تمہارے عمل سے معزول نہ کریں گے اور جو یہودیت یا مجوسیت پر قائم رہے اس پر جزیہ ہے”۔ (19)
ہوذہ بن علی صاحب یمامہ کے نام خط
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوذہ بن علی حاکم یمامہ کے نام حسب ذیل خط لکھا :
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کی جانب
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا دین اونٹوں اور گھوڑوں کی رسائی کی آخری حد تک غالب آ کر رہے گا لہذا اسلام لاؤ سالم رہو گے اور تمہارے ماتحت جو کچھ ہے اسے تمہارے لیے برقرار رکھوں گا "۔
اس خط کو پہنچانے کے لیے بحیثیت قاصد سلیط بن عمرو عامری رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا گیا۔ حضرت سلیط اس مہر لگے ہوئے خط کو لے کر ہوذہ کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو مہمان بنایا اور مبارک باد دی۔ حضرت سلیط رضی اللہ عنہ نے اسے خط پڑھ کر سنایا تو اس نے درمیانی قسم کا جواب دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ لکھا : آپ جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس کی بہتری اور عمدگی کا کیا پوچھنا۔ اور عرب پر میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لیے کچھ کار پردازی میرے ذمہ کریں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروں گا۔ اس نے حضرت سلیط رضی اللہ عنہ کو تحائف بھی دئیے اور ہجر کا بنا ہوا کپڑا بھی دیا۔ حضرت سلیط رضی اللہ عنہ یہ تحائف لے کر خدمت نبوی میں واپس آئے اور ساری تفصیلات گوش گزار کیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا : ” اگر وہ زمین کا ایک ٹکڑا بھی مجھ سے طلب کرے گا تو میں اسے نہ دوں گا۔ وہ خود بھی تباہ ہو گا، اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ بھی تباہ ہو گا”۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ خبر دی کہ ہوذہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! یمامہ میں ایک کذاب نمودار ہونے والا ہے جو میرے بعد قتل کیا جائے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا، یا رسول اللہ ! اسے کون قتل کرے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اور تمہارے ساتھی۔ اور واقعۃً ایسا ہی ہوا۔ (20)
حاکم بن ابی شمر غسانی حاکم دمشق کے نام خط
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس ذیل کا خط رقم فرمایا۔
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے، اور ایمان لائے اور تصدیق کرے۔ اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ پر ایمان لاؤ جو تنہا ہے، اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور تمہارے لیے تمہاری بادشاہت باقی رہے گی "۔
یہ خط قبیلہ اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کے بدست روانہ کیا گیا۔ جب انہوں نے یہ خط حارث کے حوالے کیا تو اس نے کہا : ” مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے ؟ میں اس پر یلغار کرنے ہی والا ہوں "۔ اور اسلام نہ لایا۔
شاہ عمان کے نام خط
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط شاہ عمان جیفر اور اس کے بھائی عبد کے نام لکھا۔ ان دونوں کے والد کا نام جلندی تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا۔
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد بن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں صاحبزادوں جیفر اور عبد کے نام
” اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد میں تم دونوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لاؤ، سلامت رہو گے۔ کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا رسول ہوں، تاکہ جو زندہ ہے اسے انجام کے خطرہ سے آگاہ کر دوں اور کافرین پر قول بر حق ہو جائے۔ اگر تم دونوں اسلام کا اقرار کر لو گے تو تم ہی دونوں کو والی اور حاکم بناؤں گا۔ اور اگر تم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمہاری بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ تمہاری زمین پر گھوڑوں کی یلغار ہو گی اور تمہاری بادشاہت پر میری نبوت غالب آ جائے گی "۔
اس خط کو لے جانے کے لیے ایلچی کی حیثیت سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں روانہ ہو کر عمان پہنچا اور عبد سے ملاقات کی۔ دونوں بھائیوں میں یہ زیادہ دور اندیش اور نرم خو تھا۔ میں نے کہا میں تمہارے پاس اور تمہارے بھائی کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی بن کر آیا ہوں۔ اس نے کہا، میرا بھائی عمر اور بادشاہت دونوں میں مجھ سے بڑا اور مجھ پر مقدم ہے اس لیے میں تم کو اس کے پاس پہنچا دیتا ہوں کہ وہ تمہارا خط پڑھ لے۔ اس کے بعد اس نے کہا "اچھا ! تم دعوت کس بات کی دیتے ہو ؟ "
میں نے کہا ” ہم ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں، جو تنہا ہے، جسکا کوئی شریک نہیں، اور ہم کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ جس کی پوجا کی جاتی ہے اسے چھوڑ دو اور یہ گواہی دو کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں "۔
عبد نے کہا ” اے عمرو ! تم اپنی قوم کے سردار کے صاحبزادے ہو۔ بتاؤ تمہارے والد نے کیا کیا ؟ کیونکہ ہمارے لیے اس کا طرز عمل لائق اتباع ہو گا "۔
میں نے کہا : ” وہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر وفات پا گئے لیکن مجھے حسرت ہے کہ کاش انہوں نے اسلام قبول کیا ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی ہوتی۔ میں خود بھی انہی کی رائے پر تھا لیکن اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی "۔
عبد نے کہا : تم نے کب ان کی پیروی کی ؟
میں نے کہا : ابھی جلد ہی۔
اس نے دریافت کیا : تم کس جگہ اسلام لائے ؟
میں نے کہا : نجاشی کے پاس اور بتلایا کہ نجاشی بھی مسلمان ہو چکا ہے۔
عبد نے پوچھا : اس کی قوم نے اس کی بادشاہت کا کیا کیا ؟
میں نے کہا : اسے برقرار رکھا اور اس کی پیروی کی۔
اس نے کہا : اسقفوں اور راہبوں نے بھی اس کی پیروی کی ؟
میں نے کہا : ہاں۔
عبد نے کہا : اے عمرو ! دیکھو کیا کہہ رہے ہو کیونکہ آدمی کی کوئی بھی خصلت جھوٹ سے ذیادہ رسوا کن نہیں ؟
میں نے کہا : میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہم اسے حلال سمجھتے ہیں۔
عبد نے کہا : میں سمجھتا ہوں، ہرقل کو نجاشی کے اسلام لانے کا علم نہیں۔
میں نے کہا : کیوں نہیں
عبد نے کہا : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ؟
میں نے کہا : نجاشی ہرقل کو خراج ادا کیا کرتا تھا لیکن جب اس نے اسلام قبول کیا، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تو بولا : خدا کی قسم اب اگر وہ مجھ سےا یک درہم بھی مانگے گا تو میں نہ دفوں گا۔ اور جب اس کی اطلاع ہرقل کو ہوئی تو اس کے بھائی یناق نے کہا، کیا تم اپنے غلام کو چھوڑ دو گے کہ وہ تمہیں خراج نہ دے اور تمہارے بجائے ایک دوسرے شخص کا نیا دین اختیار کر لے ؟ ہرقل نے کہا : یہ ایک آدمی ہے جس نے ایک دین کو پسند کیا اور اسے اپنے لیے اختیار کر لیا۔ اب میں اس کا کیا کر سکتا ہوں؟ خدا کی قسم ! اگر مجھے اپنی بادشاہت کی حرص نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو ا سنے کیا ہے۔
عبد نے کہا : عمرو ! دیکھو کیا کہہ رہے ہو ؟
میں نے کہا : واللہ میں تم سے سچ کہہ رہا ہوں۔
عبد نے کہا : اچھا مجھے بتاؤ وہ کس بات کا حکم دیتے ہیں اور کس چیز سے منع کرتے ہیں ؟
میں نے کہا : اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی نا فرمانی سے منع کرتے ہیں۔ نیکی و صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور ظلم و زیادتی، زنا کاری، شراب نوشی اور پتھر، بت اور صلیب کی عبادت سے منع کرتے ہیں۔
عبد نے کہا : یہ کتنی اچھی بات ہے جس کی طرف بلاتے ہیں۔ اگر میرا بھائی بھی اس بات پر میری متابعت کرتا تو ہم لوگ سوار ہو کر (چل پڑتے) یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے اور ان کی تصدیق کرتے ! لیکن میرا بھائی اپنی بادشاہت کا اس سے کہیں زیادہ حریص ہے کہ اسے چھوڑ کر کسی کا تابع فرمان بن جائے۔
میں نے کہا : اگر وہ اسلام قبول کر لے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قوم پر اس کی بادشاہت برقرار رکھیں گے۔ البتہ ان کے مالداروں سے صدقہ لے کر فقیروں پر تقسیم کر دیں گے۔
عبد نے کہا، یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ اچھا بتاؤ صدقہ کیا ہے ؟
جواب میں میں نے مختلف اموال کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کئے ہوئے صدقات کی تفصیل بتائی۔ جب اونٹ کی باری آئی تو وہ بولا : اے عمرو ! ہمارے ان مویشیوں میں سے بھی صدقہ لیا جائے گا جو خود ہی درخت چر لیتے ہیں۔
میں نے کہا : ہاں۔
عبد نے کہا : واللہ میں نہیں سمجھتا کہ میری قوم اپنے ملک کی وسعت اور تعداد کی کثرت کے باوجود اس کو مان لے گی۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اس کی ڈیوڑھی میں چند دن ٹھہرا رہا۔ وہ اپنے بھائی کے پاس جا کر میری ساری باتیں بتاتا رہتا تھا۔ پھر ایک دن اس نے مجھے بلایا اور میں اندر داخل ہوا۔ چوبداروں نے میرے بازو پکڑ لیے۔ اس نے کہا چھوڑ دو۔ اور مجھے چھوڑ دیا گیا۔ میں نے بیٹھنا چاہا تو چوبداروں نے مجھے بیٹھنے نہ دیا۔ میں نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا اپنی بات کہو، میں نے سر بمہر خط اس کے حوالے کر دیا۔ اس نے مہر توڑ کر خط پرھا، جب پورا خط پڑھ چکا تو اپنے بھائی کے حوالہ کر دیا۔ بھائی نے بھی اسی طرح پڑھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ اس کا بھائی اس سے زیادہ نرم دل ہے۔
بادشاہ نے پوچھا : مجھے بتاؤ قریش نے کیا روش اختیار کی ہے ؟
میں نے کہا : سب ان کے اطاعت گزار ہو گئے ہیں۔ کوئی دین سے رغبت کی بنا پر اور کوئی تلوار سے خوف زدہ ہو کر۔
بادشاہ نے پوچھا : ان کے ساتھ کون لوگ ہیں ؟
میں نے کہا : سارے لوگ ہیں۔ انہوں نے اسلام کو برضا و برغبت قبول کر لیا ہے اوراسے تمام دوسری چیزوں پر ترجیح دی ہے۔ انہیں اللہ کی ہدایت اور اپنی عقل کی رہنمائی سے یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ وہ گمراہ تھے۔ اب اس علاقہ میں میں نہیں جانتا کہ تمہارے سوا کوئی اور باقی رہ گیا ہے۔ اور اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کی تو تمہیں سوار روند ڈالیں گے۔ اور تمہاری ہریالی کا صفایا کر دیں گے۔ اس لیے اسلام قبول کر لو، سلامت رہو گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو تمہاری قوم کا حکمران بنا دیں گے۔ تم پر نہ سوار داخل ہوں گے نہ پیادے۔
بادشاہ نے کہا : مجھے آج چھوڑ دو اور کل پھر آؤ۔
اس کے بعد میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا۔
اس نے کہا : عمرو ! مجھے امید ہے کہ اگر بادشاہت کی حرص غالب نہ آئی تو وہ اسلام قبول کر لے گا۔ دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گیا لیکن اس نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس لیے میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا اور بتلایا کہ بادشاہ تک میری رسائی نہ ہو سکی۔ بھائی نے مجھے اس کے یہاں پہنچا دیا۔ اس نے کہا : ” میں نے تمہاری دعوت پر غور کیا۔ اگر میں بادشاہت ایک ایسے آدمی کے حوالے کر دوں جس کے شہسوار یہاں پہنچے بھی نہیں تو میں عرب میں سب سے کمزور سمجھا جاؤں گا اور اگر اس کے شہسوار یہاں پہنچ آئے تو ایسا رن پڑے گا کہ انہیں کبھی اس سے سابقہ نہ پڑا ہو گا "۔
میں نے کہا، اچھا تو میں کل واپس جا رہا ہوں۔
جب اسے میری واپسی کا یقین ہو گیا تو اس نے بھائی سے خلوت میں بات کی اور بولا : "یہ پیغمبر جن پر غالب آ چکا ہے ان کے مقابل ہماری کوئی حیثیت نہیں اور اس نے جس کسی کے پاس بھی پیغام بھیجا ہے اس نے دعوت قبول کر لی ہے، لہذا دوسرے دن صبح ہی مجھے بلوایا گیا اور بادشاہ اور اس کے بھائی دونوں نے اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور صدقہ وصول کرنے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے مجھے آزاد چھوڑ دیا اور جس کسی نے میری مخالفت کی اس کے خلاف میرے مددگار ثابت ہوئے۔ (21)
اس واقعے کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ بادشاہوں کی بہ نسبت ان دونوں کے پاس خط کی روانگی خاصی تاخیر سے عمل میں آئی تھی۔ غالباً یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔
————————————————-
ان خطوط کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت روئے زمین کے بیشتر بادشاہوں تک پہنچا دی۔ اس کے جواب میں کوئی ایمان لایا تو کسی نے کفر کیا، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ کفر کرنے والوں کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہو گئی اور ان کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ایک جانی پہچانی چیز بن گیا۔
حوالہ جات
(1) صحیح بخاری 872،873/2
(2) رحمۃ اللعالمین 171/1
(3) (رسول اکرم کی سیاسی زندگی مؤلفہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب صفحات 108، 109، 122، 123، 124، 125۔ زادالمعاد میں آخری فقرہ "والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ ” کے بجائے ” اسلم انت ” ہے دیکھئے زادالمعاد 3/ 60)
(4) دیکھئے ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کی کتاب ” حضور اکرم کی سیاسی زندگی 114-108، 131-121
(5) حضرت عیسٰی علیہ السلام کے متعلق یہ فقرے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی اس رائے کی تائید کرتے ہیں کہ ان کا ذکر کردہ خط اصحمہ کے نام تھا۔ واللہ اعلم۔
(6) زادالمعاد61/3
(7) ابن ہشام 359/2
(8)یہ بات کسی قدر صحیح مسلم کی روایت سے اخذ کی جا سکتی ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے 99/2
(9)یہ نام علامہ منصور پوری نے رحمۃ اللعالمین 178/1 میں ذکر فرمایا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام بن یامین بتلایا ہے۔ دیکھیے رسول اکرم کی سیاسی زندگی ص 41
(10)زاد المعاد 61/3۔ ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زادالمعاد کی عبارت میں صرف دو حروف کا فرق ہے۔ زادالمعاد میں ہے ” اسلم تسلم۔ اسلم یوتک اللہ۔۔۔۔۔ الخ ” اور خط میں ہے ” فاسلم تسلم یوتک اللہ۔۔۔۔” اسی طرح زادالمعاد میں ہے ” اثم اھل القبط ” اور خط میں ہے ” اثم القبط "۔ دیکھئے رسول اکرم کی سیاسی زندگی صفحہ 136، 137
(11) زاد المعاد 61/3
(12) فتح الباری 127/8
(13)محاضرات خضری 147/1، فتح الباری 127،128/8، نیز دیکھئے رحمۃ اللعالمین
(14) صحیح بخاری 4،5/1
(15)اس وقت قیصر اس بات پر اللہ کا شکر بجا لانے کے لئے حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) گیا ہوا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھوں اہل فارس کو شکست فاش دی (دیکھئے صحیح مسلم 99/2) اس کی تفصیل یہ ہے کہ فارسیوں نے خسرو پرویز کو قتل کرنے کے بعد رومیوں سے ان کے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کی شرط پر صلح کر لی اور وہ صلیب بھی واپس کر دی جس کے متعلق نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی گئی تھی۔ قیصر اس صلح کے بعد صلیب کو اصل جگہ پر نصب کرنے اور اس فتح مبین پر اللہ کا شکر بجا لانے کے لیے 629ء یعنی 7ھ میں ایلیاء (بیت المقدس) گیا تھا۔
(16) ابو کبشہ کے بیٹے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ ابو کبشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا یا نانا میں سے کسی کی کنیت تھی، اور کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کے رضاعی باپ (حلیمہ سعدیہ کے شوہر) کی کنیت تھی۔ بہر حال ابو کبشہ غیر معروف شخص ہے اور عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی تنقیص کرنی ہوتی تو اسے اس کے آباء و اجداد میں سے کسی غیر معروف شخص کی طرف منسوب کر دیتے۔
(17) بنو الاصفر (اصفر کی اولاد۔ اور اصفر کے معنی زرد، پیلا) رومیوں کو بنوالاصفر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ روم کے جس بیٹے سے رومیوں کی نسل تھی وہ کسی وجہ سے اصفر (پیلے) کے لقب سے مشہور ہو گیا تھا۔
(18) دیکھئے زاد المعاد 122/2، حاشیہ تلقیح الفہوم ص 29
(19) زادالمعاد 61،62/3۔ یہ خط ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا فوٹو شائع کیا ہے۔ زادالمعاد کی عبارت اور اس فوٹو والی عبارت میں صرف ایک لفظ کا فرق (یعنی فوٹو میں) ہے ” لا الہ الا ھو ” کے بجائے ” لا الہ غیرہ ” ہے۔ (20) زادالمعاد 63/3 (21) زادالمعاد 3/ 63، 62
٭٭٭
ماخذ:
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=44
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ماشاءاللہ اچھا لکھا ہے… پر اگر مختصر فہرست بھی ساتھ میں لکھ دہ جائے تو بہت اچھا ہو گا…. جس میں یہ ہو کہ خط ..بادشاہ کا نام… لیجانے والا… اور خط منظور کیا یا نہیں… آخر میں اس خط کی زیادہ اہم اوررکزی بات…