FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

رائیگاں

 

 

               طاہر عدیم

جمع و ترتیب: ارشد خالد

 

 

 

 

 

آنکھ برسی تری فرقت کی گھٹاؤں کے طفیل

اُجلا اُجلا ہوں ترے غم کی فضاؤں کے طفیل

 

کوئی طاقت بھی جدا کر نہیں پائے گی ہمیں

جب بھی ہم بچھڑے تو بچھڑیں گے اناؤں کے طفیل

 

تیرے آنے سے لگا صحن میں چاند اُترا ہے

گھر میں ہر سمت اُجالا ترے پاؤں کے طفیل

 

دِل کی دھڑکن ہے کہ تسبیح ترے نام کی ہے

سانس چلتی ہے مری تیری وفاؤں کے طفیل

 

کھو کے پہچان مِلا کرتی ہے پہچان یہاں

بیج بنتا ہے شجر کتنی فناؤں کے طفیل

 

اب یہ دیوار گرا دے کہ کروں گا کب تک

تیرا دیدار فقیروں کی صداؤں کے طفیل

 

وجہِ رحمت تو کوئی شخص بھی ہو سکتا ہے

جانے قائم ہو وطن کون سے گاؤں کے طفیل

 

رونقِ تختِ سخن ، بختِ ہنر آج ہوں گر

اے مری جان! فقط تیری دُعاؤں کے طفیل

 

تیرے ہونے سے ہے ثابت مرا ہونا طاہر

میرے ہر فن میں ادا تیری اداؤں کے طفیل

٭٭٭

 

 

 

اسیرِ بحر و بر کوئی نہیں ہے

جہاں میں مختصر کوئی نہیں ہے

ہے دھڑکا سا مٕرے سینے میں لیکن

درِ اُمید پر کوئی نہیں ہے

مرا سایا سمٹ آیا ہے مجھ میں

مرا اب ہم سفر کوئی نہیں ہے

حوادث بھی وہی ،ہم بھی وہی ہیں

مگر اب چشمِ تر کوئی نہیں ہے

نظر ہی بام پر میری نہیں   یا

نظر کے بام پر کوئی نہیں ہے

بجز "میرے” یہاں میری وفا کا

حوالہ معتبر کوئی نہیں ہے

سمجھ کر سوچ کر دِل میں اُترنا

یہ گھر ہے جس میں در کوئی نہیں ہے

خرد کے لاکھ قاصد ہیں تو ہوں گے

جنوں کا نامہ بر کوئی نہیں ہے

مجھے اپنانے والے لوگ یارو!

بہت سے ہیں مگر کوئی نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چاندنی کا ہے بدن یا ہے بدن میں چاندنی

جب اُترتا ہے اُترتی ہے چمن میں چاندنی

تیرگی جب پاؤں پھیلائے تو پھر سننا اُسے

باندھ کر رکھتا ہے وہ اپنے سخن میں چاندنی

جب بھی لکھتا ہوں ، قلم سے پھوٹتی ہے روشنی

گھول دی ہے کس نے دشتِ فکر و فن میں چاندنی

یار کی شہرِ بتاں میں اِک نشانی یہ بھی ہے

چاند سا چہرہ ہے اُس کا اور من میں چاندنی

روشنی کے استعارے ہیں کہانی میں سبھی

نام اُس کا ہے کہانی کے متن میں چاندنی

وہ سنورتا جا رہا ہے سامنے طاہر عدیم

اور برستی جا رہی ہے دِل کے بن میں چاندنی

٭٭٭

 

 

 

گزرا جدھر سے راہ کو رنگین کر گیا

جگنو ،کہ ماہتاب کی توہین کر گیا

کس نے بٹھایا مجھ کو سرِ مسندِ سناں

یہ کون میرے جسم کی تزئین کر گیا

اشکوں نے زخم زخم کو اندر سے دھو دیا

یہ غم ترا تو رُوح کی تسکین کر گیا

یہ کس کی خامشی سے ہے نبضِ جہاں رُکی

یہ کون کائنات کو غمگین کر گیا

آیا تھا لے کے زیست میں دولت سکون کی

جاتے ہوئے قرارِ مرا چھین کر گیا

یہ گام گام آئینے کس نے بچھا دیئے

یہ کون گام گام کو خود بین کر گیا

تہمتِ مرے وجود کو چھو کر پلٹ گئی

سمجھا تھا وہ کہ ذات کی تسکین کر گیا

اے کشتگانِ عشق بھرم ہیں یہ عشق کا

رکھنا یہ جیب چاک وہ تلقین کر گیا

طاہر ہر ایک بات میں جس کی مٹھاس تھی

بچھڑا تو زندگی کو وہ نمکین کر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

ہر بار مجھے قتل سے انکار نہیں تھا

لیکن مِرا قاتل تھا کہ فنکار نہیں تھا

 

دیتا تھا ہمیں رنج سا ، دامانِ وفا میں

حالانکہ ثمر تھا ، کوئی آزار نہیں تھا

 

صد حیف ، سرِ رفعتِ ایوانِ مظاہر

سَر جس کا سجا، صاحبِ دستار نہیں تھا

 

میں طشتِ محبت میں سجائے ہوئے نکلا

کوئی بھی وفاؤں کا خریدار نہیں تھا

 

کچھ میں بھی نہ تھا یوسفِ صد بخت مسافر

کچھ یوں بھی یہاں مصر کا بازار نہیں تھا

 

تھا ہمدم و ہمدوشِ سلیماں ، نہ پیمبر

کچھ سلسلۂ شوخیِ رفتار نہیں تھا

 

کچھ محوِ کنارہ کشِ اظہار تھا میں بھی

کچھ ساتھ نبھانے پہ وہ تیار نہیں تھا

 

کب میں نہ تھا رسوا سرِ اظہارِ تمنا

کب زینتِ موضوعِ سرِ دار نہیں تھا

 

تھے اور بھی کتنے ہی یہاں درد کے تاجر

اِک میں ہی جہاں بھر میں گنہ گار نہیں تھا

 

کل رات بڑے چین سے سویا تھا زمانہ

کل رات مِرے دل پہ کوئی بار نہیں تھا

 

کل حال عجب سطحِ سمندر کا تھا طاہر

کشتی تھی ، مسافر تھے، پہ منجدھار نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

قسمتوں کے دھنی رہے ہیں ہم

پھر سے زخموں کو سی رہے ہیں ہم

اپنے ہاتھوں یہ زہر کے پیالے

اپنی مرضی سے پی رہے ہیں ہم

بے لکھی ، بے پڑھی کہانی ہیں

اَن کہی اَن سنی رہے ہیں ہم

خالقِ عزم! تیری محفل میں

بے ارادہ سہی ، رہے ہیں ہم

لوگ جی کر بھی جی سکے نہ یہاں

اور مر کر بھی جی رہے ہیں ہم

جس کے معتوب آج ہیں طاہر

اُس کے محبوب بھی رہے ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

خود جاتے ہیں الفاظ میں ڈھل،ترے نین کنول

میں لکھتا نہیں ،لکھتے ہیں غزل، ترے نین کنول

شاداب، شفیق، شگفتہ ہیں ،شبنم بھی ہیں

سچل ، سچے ، سچے ، ہیں سجل ، ترے نین کنول

نادان ، کنارِ وصل گریزاں رہتے ہیں

اور ہجر میں کرتے ہیں جل تھل ترے نین کنول

اس دنیا میں ہے جھیل سے گہری ذات مری

اور جھیل میں ہیں بس دو ہی کنول، ترے نین کنول

مسحور جو ہونے لگتا ہوں میں باتوں سے

تب جاتے ہیں یہ بات بدل ، ترے نین کنول

بیتاب سا ہو کر ان کو چھونا چاہوں تو

مجھے کہتے ہیں ابھی اور مچل ،ترے نین کنول

ہر بھید ہے میرے دل کا اِن سے وابستہ

ہیں میری ہر مشکل کا حل ، ترے نین کنول

ہو ہجر کی تلخی کا یا وصل کے ریشم کا

ہر موسم میں ہیں جان اٹل ، ترے نین کنول

ہر دھُوپ میں مجھ پر سایا ہے تری پلکوں کا

مرے ساتھ سفر میں ہیں پل پل ترے نین کنول

ہر زخم پہ طاہر پیار کا مرہم رکھتے ہیں

جب جسم مرا ہوتا ہے شل،ترے نین کنول

٭٭٭

 

 

 

 

حسنِ شعار میں مجھے ڈھلنے نہیں دیا

اُس نے کسی بھی گام سنبھلے نہیں دیا

 

حائل رہِ حیات میں حساسیت رہی

اِس دِل نے دو قدم مجھے چلنے نہیں دیا

 

رکھا بصد خلوص رگ و پے میں مستقل

لمحہ کوئی بھی درد کا ٹلنے نہیں دیا

 

کچھ وہ بھی چاہتا تھا یہاں مستقل قیام

میں نے بھی اُس کو دِل سے نکلنے نہیں دیا

 

محفل کو جو دیا ترے اندازِ داد نے

ایسا مزہ تو میری غزل نے نہیں دیا

 

اِک بار اعترافِ محبت پہ ، عمر بھر

ہم نے اُسے بیان بدلنے نہیں دیا

 

دریا ہزار دِل میں بپھرتے رہے مگر

آنکھوں میں کوئی اشک مچلنے نہیں دیا

 

طاہر عدیم ، اپنا دیا کیا جلائے گا؟

جس نے مرا چراغ بھی جلنے نہیں دیا

٭٭٭

 

 

 

 

مری جاں ! راز و اسرارِ نگر کچھ کھول ! کیسے ہیں

وہاں کے لوگ عقلاً اور مزاجاً بول ! کیسے ہیں

بتا ! میلے ہیں یا شفاف ، پورے یا ادھورے ہیں

بسیرا جن میں اُن روحوں کا ہے وہ خول کیسے ہیں

وہاں بھی میلۂ افکار میں بکتے ہیں شہ پارے؟

چلن کیسا ہے فنکاروں کا فن کے مول کیسے ہیں

محلے پیار کے محدود ہیں یا بے کنارا ہیں

بدن میں چوکِ دِل چوکور ہیں یا گول ، کیسے ہیں

جو یہ پیمانۂ حرص و ضرورت کس سے جاتا ہے

جہانِ مسندِ دستِ طلب کشکول کیسے ہیں

کسی کے درد پر کیا سب تڑپتے ہیں ، سسکتے ہیں

ادا کرتے مصیبت میں ہیں سب جو رول کیسے ہیں

اثر آثارِ بازارِ دِلاں مثبت ہے یا منفی

گلی میں سوچ کی ڈھلتے ہوئے ماحول کیسے ہیں

جو ممکن ہو جواب خط میں لکھنا یہ بھی طاہر کو

خد و خالِ غزالاں اور رُخِ انمول کیسے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مصیبت سر سے ٹلتی جا رہی ہے

ہماری عمر ڈھلتی جا رہی ہے

 

کہاں ہے زندگی اب زندگی میں

فقط اِک نبض چلتی جا رہی ہے

 

مسلسل بھاپ بن کر اُڑ رہا ہوں

مسلسل آگ جلتی جا رہی ہے

 

عجب ہے سانحہ ، جینے کی خواہش

مرے دِل سے نکلتی جا رہی ہے

 

خفا کیوں ہیں مرے حالات مجھ سے

ہوا کیوں رُخ بدلتی جا رہی ہے

 

ہے پکنے کو مرے سینے کی ہنڈیا

کچھ عرصے سے اُبلتی جا رہی ہے

 

یہ سانسیں معجزے میں ڈھل رہی ہیں

کرامت خوں میں چلتی جا رہی ہے

 

نمایاں ہو رہے ہیں سارے چہرے

کتابِ دِل سنبھلتی جا رہی ہے

 

سوا نیزے پہ سورج آ رہا ہے

مری ہر سمت گلتی جا رہی ہے

 

مجھے دھر کر میرے بے در مکاں میں

وہ گھر کو ہاتھ ملتی جا رہی ہے

 

یہ کسے ڈنک ہیں سینے میں طاہر

حلق میں جاں اُچھلتی جا رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نہ دیواریں ہیں اور نہ در پرانا

ابھی تک پھر بھی ہے یہ گھر پرانا

ڈرا دیتا ، جگا دیتا ہے مجھ کو

درونِ ذہن بیٹھا ڈر پرانا

مراحل آخری تعلیم کے ہیں

مری ماں نے نکالا زر پرانا

تماشا پھر وہی امسال ہو گا

وہی دستار ہو گی ، سر پرانا

سجا ماتم کنارِ دشتِ مژگاں

سنا قصہ وہ چشمِ تر پرانا

گر ہے دسترس ، دستِ سخاوت

مِلا دے یار لمحہ بھر پرانا

اگر آ ہی گیا ہے وہ تو طاہر

شکایت کر نہ شکوہ کر پرانا

٭٭٭

 

 

 

شکستہ دِل ، پلک پر بحر و بر کس نے اُتارے ہیں

ذرا سی جان میں اتنے ہنر کس نے اُتارے ہیں

اِک اَن دیکھی جگہ سے ہیں اک اَن دیکھی جگہ کو ہم

ہمارے پاؤں میں اتنے سفر کس نے اُتارے ہیں

مری پتھر نظر میں گھومتی چھت کس نے ٹانکی ہے

سروں پر تیرتے دیوار و در کس نے اُتارے ہیں

ہزاروں فیصلے یہ فاصلوں میں قافلے باندھے

ہیں اُترے تو مرے گھر میں مگر کس نے اُتارے ہیں

ہماری قسمتوں میں خشک سالی کس نے لکھی ہے

شجر گلشن میں طاہر بے ثمر کس نے اُتارے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شکستہ پا نہیں ، اب دیرپا ہوں

کہ یارو ! اپنے پاؤں پر کھڑا ہوں

خزاں سے میری شاخیں نارسا ہیں

تمہارے پیار سے ایسا ہرا ہوں

مری فطرت سے نفرت کانپتی ہے

میں دہلیزِ محبت پر پلا ہوں

اگرچہ سب زمانے سو گئے ہیں

میں شب کے دِل میں لیکن جاگتا ہوں

میں سجتا ہوں اُٹھے ہاتھوں پہ یارو!

جو سب مانگیں ، مَیں اِک ایسی دُعا ہوں

مصائب سر جھکاتے ہیں جہاں پر

میں اپنی ذات میں وہ کربلا ہوں

چراغِ آخرِ شب ہوں میں طاہر

مگر وحشی ہواؤں سے لڑا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ ہو خدا یا کوئی فرشتہ یا حور اُترے

جسے اُترنا ہے تختِ دِل پر ضرور اُترے

ہر ایک شاخِ بدن تو پھولوں سے لد گئی ہے

الٰہی سوچوں کی ٹہنیوں پر بھی بُور اُترے

وہ نظم ہو یا غزل ، کسی پر میں جب بھی لکھوں

فقط تمہارا ہی عکس بین السطور اُترے

میں آج پھر اپنی چھت سے مایوس لوٹ آیا

کہ امن کے جو بھی قافلے تھے وہ دُور اُترے

جو با وفا ہوں اگر سجے تو دلیل کوئی

ہے گر کہیں پر کوئی تو میرا قصور اُترے

میں صبح جاگا تو روشنی سے بھرا ہوا تھا

کہ میرے خوابوں میں رات میرے حضور اُترے

وہ چاند دِل میں بسا ہے طاہر عدیم جب سے

لکھوں تو نوکِ قلم سے کاغذ پہ نور اُترے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ گھڑی ہی زندگی بھر کا ہے حاصل دیکھنا

وار ہلکا ہو نہ کانپیں ہاتھ قاتل دیکھنا!

ڈوبنے کا لطف یارو ! بے مزہ رہ جائے نہ

چل کے آتا ہے مری جانب کو ساحل۔۔۔ دیکھنا

جو بھی دِل میں ہے وہ کہنے کو تو کہہ دُوں میں مگر

جرأتِ دِل پر دہل جائے نہ یہ دِل دیکھنا

یوں نہ ہو کہ چاٹ ڈالے چاندنی کو تیرگی

رُوٹھ جائے مہر نہ اے ماہِ کامل دیکھنا

جھانکنا اُس پار سے اِس پار کا بحرِ کراں

اور پھر اس عمرِ لاحاصل کا حاصل دیکھنا

دیکھنا جو حال میرا ہے تمہارا بھی نہ ہو

آ نہ جائیں تم پہ بھی ایسے مراحل دیکھنا

میں بھی طاہر سانس لیتا ہوں جب اوروں کی طرح

کٹ رہی ہے کیوں "مرے” سینے کی یہِ سل دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

بقائے ذات کے اِک دورِ لازوال میں ہوں

مجھے نہ چھیڑ ، کہ میں لمحۂ وصال میں ہوں

مقدروں میں تری زینتِ بیاض کہاں ؟

یہی بہت ہے کہ شیرازۂ خیال میں ہوں

سبک روی کا تصور ، نہ رنگِ سست روی

مثالِ موجِ رواں مست اپنے حال میں ہوں

خراج دے کے گزرتے ہیں نفرتوں کے ہجوم

پلا ہوا میں محبت کے ماہ و سال میں ہوں

کنارِ فرشِ سخن ، بھیڑ استعاروں کی

بہ کشتِ رمزِ ہنر ، لہجۂ کمال میں ہوں

ترا خیال مجھے جب سے چھو کے گزرا ہے

میں تب سے رقص کناں دھڑکنوں کی تال میں ہوں

وہ چال ڈھال میں مثلِ غزال ہے اور میں

کسی غریب کے سرمایۂ زوال میں ہوں

مری فنا ہے ترے حسن کی بقا کا جواز

مَیں بن کے وجہِ کشش تیرے خدوخال میں ہوں

کھلی فضا کا تصنع مجھے گوارہ نہیں

میں روم روم تری سادگی کے جال میں ہوں

مری شکست ہے طاہر عدیم فتح مری

میں ہنس رہا ہوں اگرچہ بہت ملال میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھٹک رہا ہوں میں صحرا میں سائباں کے لیے

کوئی تو ابرِ کرم مجھ سے بے اماں کے لیے

 

الٰہی خیر ! لپکتی ہیں بجلیاں ہر سُو

یہ "اہتمام” ہے پھر کس کے آشیاں کے لیے

 

ہم اہلِ ہجر کو رہنے دے مضطرب کہ یہاں

کرے گا کون کرم شاخِ رائیگاں کے لیے

 

ہر ایک شخص سخنور تھا تیری محفل میں

ہمارے حرف ترستے رہے زباں کے لیے

 

کبھی ہجومِ غمِ دوستاں اِدھر سے گزر

کہ دِل کا دشت ترستا ہے کارواں کے لیے

 

گناہگارِ غمِ رفتگاں ہوں اے منصف!

یہ چار لفظ ہیں کافی مِرے بیاں کے لیے

 

کہاں کی برق کہ کافی تھی ایک چنگاری

یہ کیا کہ اِتنا تکلف مِرے مکاں کے لیے

 

ہم اہلِ عشق کا یارو ! یہی تو شیوہ ہے

لہو زمیں کے لیے ہے تو سر سناں کے لیے

 

مٹا چکی ہیں تو طاہر عدیم دشت میں کیوں ؟

بھٹک رہی ہیں ہوائیں مرے نشاں کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

گھیرتے ہیں جب بھی طوفانِ بلا کے دائرے

تھام لیتے ہیں مجھے تیری دعا کے دائرے

پھر سکوتِ سطحِ سینہ پر نیا کنکر پڑا

پھر بنے دریائے دل میں انتہا کے دائرے

گاؤں در گاؤں یہ بڑھتے کربلا کے کارواں

پاؤں در پاؤں لپٹتے التجا کے دائرے

کیا کشش کھینچے چلی جاتی ہے ہر اِک شخص کو

ہیں حصارِ ایک دنیا اُس قبا کے دائرے

اب بھی بڑھ کر ہیں مجھے وہ خوش نویسی سے کہیں

آڑے ترچھے تختیوں پر ابتدا کے دائرے

مَیں نے پوچھا "کربِ ہجراں کی کہیں ہے انتہا؟”

ایک کاغذ پر دِیے اس نے بنا کے دائرے

اس بُتِ صد رنگ کا اک رنگ یہ بھی ہے کہ وہ

راستوں میں چھوڑ جاتا ہے بچھا کے دائرے

جا رہا تھا دُور کشتِ دِل سے وہ طاہر عدیم

پھیلتے جاتے تھے رگ رگ میں قضا کے دائرے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی خاموش چہرے پر وہ اطمینان کا منظر

کہ جیسے دُور صحراؤں میں نخلستان کا منظر

 

عذابِ شدتِ کربِ جدائی کو وہ کیا جانے؟

کہ دیکھا ہی نہ ہو جس نے وداعِ جان کا منظر

 

اُٹھی کرسی ، کٹا سبزہ ، گرے پتے ، اُڑی چڑیاں

تمہارے بعد کیا سے کیا ہوا دالان کا منظر

 

کہاں ہوں ، کون ہوں یہ پوچھتا پھرتا ہوں اپنوں سے

کہ مجھ سے کھو گیا شاید مری پہچان کا منظر

 

دریدہ نقش ، زخمی لفظ ، لرزیدہ قطاروں میں

لہو میں کس نے رنگا ہے مرے دیوان کا منظر

 

ہمارے قتل پر چشمِ فلک میں خون اُترے گا

فضاؤں میں سجے گا احمریں طوفان کا منظر

 

نہا کے پیار کی بارش میں اُس نے دھوپ جب پہنی

نظر میں گھل گیا قوسِ قزح کے تھان کا منظر

 

درونِ ذہن جب زیبائشِ افکار ہی نہ ہو

گھروں میں کیا ہے پھر آرائشِ سامان کا منظر

 

وہ جتنے دیپ اندر ہیں وہ آنکھوں میں ہی جلتے ہیں

اور آنکھیں ہی دِکھاتی ہیں دلِ ویران کا منظر

 

سمجھتا ہوں تری ساری کہانی مَیں  کہ کیا ہو گی

ہے دِکھنے میں اگر ایسا ترے عنوان کا منظر

 

بھری دُنیا کا طاہر چپہ چپہ چھان مارا ہے

نہیں پایا کہیں بھی شہرِ پاکستان کا منظر

٭٭٭

 

 

 

 

منزلِ غربتِ شہرِ جاں رائیگاں

ہمسفر! کارواں ہے رواں رائیگاں

جاں بہ لب تھا صفِ دوستاں کے میاں

آ گیا لشکرِ دُشمناں ، رائیگاں

میلۂ چاک دَر چاک بخیہ گری

روشنیِ یقین و گماں رائیگاں

کاوشِ نشترِ دَرد و غم بے اثر

عرصۂ بارِ برقِ تپاں رائیگاں

تیرے خوابوں کی ہر اِک ادا معتبر

میرے "ہونے” کے سارے نشاں رائیگاں

لذتیں صحنِ مقتل کرم بے بہا

بارِ غم ہے بہ نوکِ سناں ، رائیگاں

سر میں چاندی جو چمکی تو پھر یہ کھلا

تیر بیٹھا ہوں عمرِ جواں ، رائیگاں

کون ، کس سے ، کہاں ، کیسے کتنا خجل؟

جستجوئیں کراں تا کراں رائیگاں

جب بھی دیکھوں تو سوچوں میں طاہر عدیم

آ گیا ہوں کہاں سے کہاں رائیگاں

٭٭٭

 

 

 

نظمیں

آؤ سودا کریں فکرِ فنکار کا

آؤ سودا کریں فکرِ فنکار کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکار کا

اہلِ فکر و ہنر سب ہیں آئے ہوئے

کاغذوں کے پلندے اٹھائے ہوئے

کچھ ببانگِ دہل کچھ چھپائے ہوئے

ذہن مردہ ہیں چہرے سجائے ہوئے

گدّیاں کچھ ہیں نوٹوں کی لائے ہوئے

تھے جو افکار اپنے ، پرائے ہوئے

دِل پسیجا ، نہ دہلا خریدار کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکار کا

کچھ کھلاڑی دھنوں اور گانوں کے ہیں

ناولوں کے ، انوکھے جہانوں کے ہیں

کچھ تو دیوان کے ، کچھ فسانوں کے ہیں

کیسے کیسے مناظر دکانوں کے ہیں

یہ مسافرہیں کیا کِن زمانوں کے ہیں ؟

ہیں زمیں پر ،سفر آسمانوں کے ہیں

کِس پہ چڑھ کے ہوا قد بڑا یار کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکار کا

٭٭

 

نظمیں ، غزلیں ہیں ، قطعات و اشعار ہیں

کاغذوں پر خیالوں کے انبار ہیں

کتنے لاچار ، بے کس یہ شہکار ہیں

کِس کا لہجہ ہیں ؟ کِس کے طلبگار ہیں

ہے مصیبت کہ مجبور فنکار ہیں

نوٹ ہاتھوں میں تھامے خریدار ہیں

شعر اس پار ہے تھا جو اِس پار کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکار کا

٭٭

 

دیکھو دیکھو یہاں اک رکھی ہے غزل

جِس کا اردو ادب میں نہیں ہے بدل

استعاروں ، تراکیب میں ہے اٹل

اِس کے مصرعوں میں یوں ہیں پروئے کنول

سامعیں کی جبیں پر نہ آئے گا بل

لے لو ، لے لو۔۔۔کہ یہ مِل سکے گی نہ کل

کوئی ثانی نہیں اس کے اشعار کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکار کا

٭٭

ایک شوکیس رکھا ہوا ہے یہاں

جسکی زینت فقط ایک نظمِ جواں

خالقِ نظم یہ کہ رہا ہے میاں !

نظم ہی یہ نہیں یہ ہے ’ نظمِ جہاں ‘

یہ رہے گی ترے اور مرے درمیاں

تھی کہاں کی ہوئی پھِر کہاں سے بیاں

حوصلہ تھا کسی میں نہ اِنکا ر کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکار کا

٭٭

 

نظم نثری ہے مصرعوں کی تلچھٹ نہیں

غیر لہجے کی اِس میں ملاوٹ نہیں

قافیوں کے لگا تار جھرمٹ نہیں

فاعلن فاعلاتن کے جھنجھٹ نہیں

اِس میں قانونِ ’اِک دام ’ پر ڈٹ نہیں

ہو گا سودا یہاں پر فٹا فٹ نہیں

خونِ دِل اِ س میں شامِل ہے فنکار کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکار کا

٭٭

 

 

ہو گا کیا اِن منقش مشاہیر کا

کاروبار ہو گا کب تک تحاریر کا

سِلسلہ ہو گا کب تک یہ تمریر کا

رنگ اترے گا کب اِن تصاویر کا

کون ہو گا ہدف اب نئےِ تیر کا

کون حامی ہے فنکارِ د لگیر کا؟

یا اِلہی!! براہیم اِس نار کا

شہرِ فن میں لگا میلہ افکا ر کا

آؤ سودا کریں فکرِ فنکار کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماں

 

 

شفقت کے برتن میں

رحمت کی بارش کے پانی سے

صبر کی مٹی گھولی جاتی ہے پر عزم مدھانی سے

سرتاپا اخلاص کے پتلے میں وہ مٹی ڈھلتی ہے

اپنی شکل بدلتی ہے

اُس پتلے کو چاروں موسم

ہر موسم کی اُونچ نیچ

اور گرمی سردی کے معیار گزرنے تک

دھیرے دھیرے پیار کی حدت پر رکھوایا جاتا ہے

خوشیوں کے

دُکھ درد کے پلڑوں میں تلوایا جاتا ہے

پھر وہ ذات

جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ

ہر مخلوق کو چاہتی ہے

صبر، محبت،عزم، خلوص، وفا، ایثار کے جیسی

لاکھوں صفتیں لے کر

اپنی رُوح کو اُس پتلے میں پھونکتی ہے

فوراً ہی پھر اُس پتلے میں پڑ جاتی ہے جاں

یوں بنتی ہے ماں

٭٭٭

 

 

 

 

کروں میں کیا۔۔۔؟

 

میں کیا سوچوں

کہ سوچیں گھوم پھر کر ایک ہی نقطے پر آتی ہیں

وہی نقطہ جو نقطہ ہے

تمہاری آنکھ کا نقطہ

کروں میں کیا

کہ جب کچھ کام ہو پیشِ نظر میرے

تو وہ میں کر نہیں سکتا

مسلسل آنکھ سے پیتا ہوں تیری

پھر بھی

جامِ دِل نہیں بھرتا

میں کیا گاؤں

کہ جب بھی لب ہلاتا ہوں

تو میری رُوح میں تیری وفاؤں کا

کہیں مضراب پڑتا ہے

درونِ دِل ہزاروں گیت

خود سے بول اُٹھتے ہیں

مرے ایمان کے سارے مناظر ڈول اُٹھتے ہیں

میں کیا پہنوں

کہ جب سے تیری چاہت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے

مجھے اس کے تقابل میں

لباس ریشمی یا اطلس و کم خواب کے کپڑے

بہت بے رنگ لگتے ہیں

اِن آنکھوں کو

فقط چاہت کے سارے رنگ جچتے ہیں

کہاں جاؤں

کہ جاتا ہوں جہاں بھی میں

تری دہلیز منزل بن کے میری رہ میں آتی ہے

نظر میری ہر اِک منظر سے ہٹتی ہے

صعوبت ہر مسافت کی اُسی لمحے میں کٹتی ہے

جو یہ سب کچھ نہیں ممکن

چلو لکھنے پہ آتے ہیں

مگر لکھوں تو کیا لکھوں

کہ جب میں لکھنے لگتا ہوں

تو لاکھوں سسکیاں اوڑھے ہزاروں ہچکیاں پہنے

گلابوں سے کئی چہرے قلم میں عود آتے ہیں

وہ حصہ بن کے سانسوں کا

وہ منظر بن کے آنکھوں کا

لہو ہر دم رُلاتے ہیں

قلم پر بوجھ بڑھتا ہے

اور آخر ایک سسکی سی میرے کانوں میں پڑتی ہے

قلم ننھی سی ہچکی لے کے آخر ٹوٹ جاتا ہے

میں کیا سوچوں ؟

میں کیا لکھوں ؟؟

کہاں جاؤں ؟؟؟

کروں میں کیا؟؟؟؟

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

ہمیشہ سے مجھے

صحنِ مکانِ نیند میں دم توڑتے بوجھل اندھیرے میں

بدن میں جاگتے، انگڑائیاں لیتے سویرے میں

کوئی طاقت سی آہستہ

بہت دھیریکسی جانب بلاتی ہے

شعوری لاشعوری کیفیت میں مَیں

محبت سے گندھے ہونٹوں کے تازہ گرم سے اِک لمس کو

محسوس کرتا ہوں

درِ محبوس کھلتا ہے نکلتا ہوں

اور اپنے آپ کو نخلِ محبت میں بہت مخصوص کرتا ہوں

میں بڑھتا ہوں

ردائے ظلمتِ شب چاک کر کے جب

تری آنکھوں سے دھُلتی صبح کے

اُس نور کی جانب کہ جیسے طور کی جانب

تو خود کو اَن گنت اُجلی بہاروں میں

گھرا محسوس کرتا ہوں

ہزاروں آبشاروں میں دھُلا محسوس کرتا ہوں

لپٹ کر تیری زلفوں سے پھسلتے موتیوں کو

آنکھ میں چن کر

خمارِ نیند سے باہر نکلتا ہوں

تو جھکتی ہے مرے چہرے پہ لگتا ہے

صبا کے سارے جھونکے میرے کمرے میں سمٹ آئے

مری تقدیر کا سورج

چھپا رہتا ہے تیرے نیند سے باہر نکلنے تک

مری قسمت کی سب کرنیں

وفاؤں سے تری دھُل کر

تری پلکوں کے پردوں سے

کہیں چھن چھن کے آتی ہے

بہت بن ٹھن کے آتی ہیں

یہ آنکھیں دیکھتی ہیں سب سے پہلے

جب ترا چہرہ

مرے اندر کے، باہر کے سبھی موسم

گلابی پیرہن پہنے مجھے آباد رکھتے ہیں

بہت ہی شاد رکھتے ہیں

یہ آنکھیں صبح دم مجھ کو

عجب خوشیاں سی دیتی ہیں

مجھے بانہوں میں لیتی ہیں

بہت گاتی، طلسماتی

مری یوں صبح ہوتی ہے

میں جب تیار ہو کر کام کرنے کو نکلتا ہوں

تو میرا دِل نہیں کرتا

اُٹھاٹا ہوں قدم

تو دوسری جانب ترے دو ہاتھ اُٹھتے ہیں

(مجھے لگتا ہے اُس کے ہاتھ اور میرے قدم اِک ساتھ اُٹھتے ہیں )

نکلتا ہوں تو راہوں میں

ہر اِک شاخِ بدن پر جو بھی کھلتا پھول چہرہ ہے

مجھے اُس میں ترا چہرہ ہی دِکھتا ہے

یہ کیا ہے ؟

جس نے ہر جانب

ترا اِحساس ایسے کھول رکھا ہے

چمکتی دھُوپ میں تیرے بدن کو گھول رکھا ہے

مرے قدموں میں جب راہیں

کوئی مشکل بچھاتی ہیں

لرزتا ہوں ۔۔۔ ذرا سا ڈگمگاتا ہوں

فضائے یاس میں جب جھانکتا ہوں ، دیکھتا ہوں میں

محبت کے نشے میں چور دو بانہیں

یہ کیا ہے؟

ہر طرف، ہر جا مرے تو ساتھ رہتی ہے

مگر پھر بھی

ہمیشہ منتظر رہتا ہوں اپنے گھر پلٹنے کا

اُداسی اور تھکن اوڑھے سفر کی گرد چھٹنے کا

وہ آنکھیں

منتظر میری نظر آتی ہیں جب بھی

واپسی کا آخری مَیں موڑ مڑتا ہوں

کوئی بادل برستا ہے

جدائی کے سبھی لمحوں کے کچے رنگ

بوندیں چاٹ لیتی ہیں

سبھی وہموں کی دیواریں

کہیں سے کاٹ دیتی ہیں

تھکن سے چور بوجھل آنکھ کے پردے

گلے ملتے ہیں سورج ڈوبتا ہے

اور مجھے لگتا ہے

میری زندگی کی شام ہوتی ہے

وہ میری صبح ہو، یا دوپہر، یا شام ہو جاناں !!

تری آنکھوں سے چلتی ہے

تری آنکھوں میں پلتی ہے

تری آنکھوں میں ڈھلتی ہے

٭٭٭

 

 

 

تم کبھی بے وفا نہ کہنا۔۔۔!

یہ مَیں

کہ تیری ہر ایک خواہش پہ سَر جھکائے

وفا کی راہوں پہ چل رہا تھا

یہ مَیں

کہ تیری جھلک کیِ کرنیں سمیٹنے کی للک میں لرزاں

فگار پاؤں پہ آبلوں کو سجا کے

صحرا کی دھُول چہرے پہ مَل رہا تھا

یہ میں ہی تھا

جو زماں کی سنگلاخ رہ پہ چلتے

تمہاری ہلکی سی بے رُخی کو ہنسی کی تہہ میں چھپا کے

چہرے پہ سات رنگوں کی شال اوڑھے

ہر ایک جانب سےگل رہا تھا

میں وہ بھی تھا

جو ترے لبوں سے نکلتے لفظوں کے مرہموں کے

سکوں کی خاطر

ہر اِک جراحت سے رُخ بچائے

طویل مدت سے شل رہا تھا

کہ میرے جذبوں کی کوکھ میں بس

ترا تصور ہی پل رہا تھا

میں یوں بھی تھا کہ

ترے بدن کی تمام حدت کو اپنی آنکھوں کے آبگینوں میں

لمحہ لمحہ اُتار کر

بے سہاگ راتوں کا کرب سینے میں دفن کر کے

وصال وعدوں کی ڈور تھامے

بھٹک رہا تھا

مَیں اِک شجر تھا

مگر مِری جاں ! مَیں تھک گیا ہوں

مَیں جانتا ہوں

زماں کی آندھی، مہیب طوفاں سے میرے پاؤں

اُکھڑ گئے ہیں

مَیں مانتا ہوں

مہیب طوفاں کی وحشتوں سے، مِرے بدن سے

تمام پتے بچھڑ گئے ہیں

ایک اِک کر کے جھڑ گئے ہیں

مَیں دشت کے آبلوں سے تھک کر

خود اپنے پاؤں ہی پڑ گیا ہوں

اِک ایسی دلدل میں گڑ گیا ہوں

جہاں سے اپنے نحیف تن کی تمام قوت کو صرف کر کے

نکلنا چاہوں ۔۔۔ نکل نہ پاؤں

مگر مِری جاں ! یہ یاد رکھو!!

وفا ، محبت کے رنگ سارے مری عطا ہیں

یہ عشق چاہت کی ساری کِرنیں مِری جبیں کو خراج دے کر

ہر ایک جانب رواں دواں ہے

محبتوں کے تمام سَوتے مِری رگوں سے ہی پھوٹتے ہیں

تمام رشتے، تمام ناطے

وفا، محبت، اُمنگ، چاہت، وصال لذت

ِ مرے جلائے ہوئے دِیے ہیں

مجھے تو کوئی بھی غم نہیں ہے

محبتوں کے ہر ایک رستے میں ایسی دلدل تو کہکشاں ہے

مَیں تیری یادوں کا ہاتھ تھامے

کھڑا ہوں ایسی ہی کہکشاں میں

مَیں زندگی کا ہر ایک لمحہ اِسی جگہ پر بسر کروں گا

وفا کی رہ پہ سفر کروں گا

خمارِ ہجراں سے جب بھی نکلا تو۔۔۔ یاد رکھنا

ہر ایک اُٹھتا قدم مرا بس تری ہی چاہت کی سمت ہو گا

مرے تفکر کی ہر کرن بس

تجھی کو سوچا کرے گی ہر دم

مری نظر کو

تری نگاہوں کی آس ہو گی

مری ڈگر

تیری آہٹوں کے بغیر ہر دم اُداس ہو گی

فقط تری ہی تلاش ہو گی

مری غزل کا ہر ایک مصرعہ

ترے تخیل کی بات ہو گا

مرے بدن کا ہر ایک ذرّہ

تری وفاکی زکوٰة ہو گا

مجھے فقط تیرا پاس ہو گا

مگر۔۔۔ِ مری جان! اِس سمے اِن

غموں کی بے اَنت دلدلوں میں

گھرے ہوئے اس خزاں رسیدہ شجر کے پیکر کو

تم کبھی بے وفا نہ کہنا۔۔۔!

٭٭٭

ماخذ: رعکاس، اسلام آباد، شمارہ ۶

مدیر: ارشد خالد

http://www.punjnud.com/ViewPage.aspx?BookTitle=Akkas+shamarah+number+6

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید