فہرست مضامین
دین و دنیا
علامہ محمد غزالی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
اسلام میں معاملات کی اہمیت کیا ہے؟
دین کی آمد سے پہلے بھی لوگ باہم معاملات کیا کرتے تھے
معنوی و مادی ربط کی بہت سی صورتیں ان انسانی ضروریات میں سے ہیں جو آسمانی ہدایت پر منحصر نہیں ہیں۔ اسلام کی آمد سے پہلے اور ان علاقوں میں جہاں اسلام نہیں پہنچ سکا، لوگوں کے درمیان اقتصادی، سماجی اور سیاسی تعلقات رہے ہیں۔ وحی کا کام یہ ہوا کہ ان معاملات کو آلائشوں سے پاک صاف کردے اور انہیں اپنے اصولوں اور مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کردے۔ اگر وہ معاملات پہلے ہی سے درست تھے تو ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انہیں ویسے ہی برقرار رہنے دیا گیا۔ مثلاً سامان کی فروخت ایک عام معاملہ ہے اسلام نے صرف یہ چاہا کہ اسے ملاوٹ، فریب دہی اور سود وغیرہ سے پاک کردے۔ معاملات میں خرابی خود غرضی، مفاد پرستی اور بدنیتی وغیرہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے معاملات میں مصلحت عامہ اور انصاف کی رعایت کو بنیادی اہمیت دی ہے اور مصلحت عامہ و انصاف کے قیام و تحفظ ہی کو معاملات سے متعلق تمام تصرفات کی بنیاد قرار دیا ہے۔ ان اصولوں کو عملی تطبیق بھی دی ہے۔ محض قانون کے اصول و اغراض کے نظریاتی و فنی مطالعے تک محدود نہیں رکھا ہے۔ قانون کا مزاج خشک ہوتا ہے لیکن شریعت کے احکام روح، دل اور جذبات کو بھی اپیل کرتے ہیں۔ آج اگر جائزہ لیں کہ اسلام لوگوں کے معاملات میں کیا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو آپ کو صاف نظر آجائے گا کہ وہ ان میں کس طرح اپنے آسمانی مزاج کی روح پھونک دیتا ہے۔ وہ خشک قانونی عبارتوں کو اخلاق و ادب کی نصیحتوں اور ہدایتوں میں ڈھال دیتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ معاملات کا انحصار مصلحت عامہ پر رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس چیز کو کچھ لوگ ماننا چاہیں اسے نیک عمل قرار دے دیا جائے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ اسلام نے جس چیز کو حرام قرار دے دیا ہے جیسے سود یا زنا، اسے انسانی مفاد و مصلحت کی چیز نہیں تسلیم کیا جا سکتا۔ اسی طرح دونوں فریقوں کی رضا مندی بھی ان برائیوں کو جائز نہیں بنا سکتی چاہے تمام دنیاوی قوانین اسے جائز قرار دینے لگیں۔ یہ بات پہلے کہی جا چکی ہے کہ دینی احکام معاشرے کے پورے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور اس کا کو ئی پہلو نہیں چھوڑتے، یہاں سارے پہلوؤں کا ذکر نا تو ممکن نہیں تاہم ہم دو پہلوؤں کا ذکر کریں گے جن سے سارے معاملات میں اسلامی چھاپ اور رنگ کی نوعیت واضح ہو جائے گی۔ کچھ معاملات خرید و فروخت، لین دین، رہن اور قرض وغیرہ کاروباری امور سے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ معاملات جنگ وامن، دعوت، قبول اور انکار اور صلح وغیرہ سیاسی ا مور سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں قسم کے معاملات کے سلسلے میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بازار میں بیچنے کے لیے کوئی سامان رکھا اور اس کے بیچنے کے سلسلے میں قسم کھائی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی قرار پر اور اپنی قسموں پر تھوڑا سا مول لے لیتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ قیامت کے دن ان سے نہ اللہ بات کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (آل عمران: ۷۷)
رسول اللہﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو کوئی غذائی جنس بیچ رہا تھا۔ آپؐ نے دریافت کیا یہ کیا ہے؟ آپؐ نے اس کے دام پوچھے اس نے بتا دیے۔ آپؐ نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا تو اسے پانی سے نم پایا۔ آپؐ نے دریافت کیا یہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ بارش کا پانی پڑ گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تو اسے اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ سکتے؟ پھر آپؐ نے فرمایا جس نے فریب کاری کی وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابو داؤد مسلم)
حضرت حکیم بن حزامؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’خریدو فروخت کرنے والے جب تک الگ نہ ہو جائیں انہیں (سودا منسوخ کرنے کا) اختیار باقی رہتا ہے۔ اگر دونوں سچائی سے کام لیں گے تو ان کے سودے میں برکت ہو گی۔ اور اگر جھوٹ بولیں گے اور چھپائیں گے تو اس کی برکت مٹا دی جائے گی۔(بخاری)‘‘ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ باہر (دیہاتوں) سے سودا لے کر بیچنے آنے والے سواروں سے (شہر کے باہر ہی) نہ ملو اور نہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے بیچے (یعنی دلالی نہ کرے۔‘‘ (مسلم)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ایسا سخت زمانہ آئے گا جب خوشحال لوگ اپنی دولت سمیٹتے رہیں گے جبکہ انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: اور آپس میں احسان کرنا نہ بھلا دو (البقرۃ:۷۳۲) اسی طرح مجبوری کی حالت میں خریداری ہو گی جبکہ رسول اللہﷺ نے مجبور آدمی کی طرف سے فروخت کو منع فرمایا۔ (ابو داؤد) یعنی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر یا اسے مجبور کر کے اس کا سامان کم قیمت پر نہ لیا جائے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے ’’رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی دستاویز لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔‘‘ (مسلم)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں رواج یہ تھا کہ کھجور کی فصلیں ایک ایک دو دو سال پہلے سے بیچ دی جاتی تھیں۔ آپؐ نے ہدایت دی کہ مقررہ وزن، مقررہ قیمت اور مقررہ مدت کے ساتھ سودا کیا جائے (ابو داؤد) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دو شریکوں کے درمیان تیسرا رہتا ہوں جب تک ان میں کوئی ایک دوسرے سے خیانت نہ کرے۔ جب خیانت کر لیتا ہے تو میں ان کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔ (ابو داؤد)
حضرت عروہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں قربانی کا جانور یا بکری خریدنے کے لیے ایک دینار دیا۔ انہوں نے اس سے دو بکریاں خریدیں، پھر ایک بکری ایک دینار کی بیچ دی اور ایک بکری اور ایک دینار لے آئے آپ نے ان کے لیے کاروبار میں برکت کی دعا فرمائی۔ پھر یہ حال ہو گیا کہ اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تو فائدہ ہو جاتا۔ (ابو داؤد)
حضرت عمر بن عوف مزنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کے درمیان سمجھوتہ جائز ہے جب تک کہ اس سے کوئی حرام چیز حلال یا حلال چیز حرام نہ ہو جائے اور مسلمانوں کی شرطیں برقرار رہیں گی جب تک کسی شرط سے حلال چیز حرام یا حرام چیز حلال نہ ہو جائے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت عطا بن یسارؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو کسی مہم پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور کسی طرف متوجہ نہ ہونا۔ انہوں نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! ان کے ساتھ کس طرح پیش آؤں گا۔ آپؐ نے فرمایا جب ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ تو اس وقت تک جنگ نہ کرنا جب تک وہ تمہارے کسی آدمی کو قتل نہ کر دیں اور اگر کسی کو قتل کر دیں تب بھی اس وقت تک جنگ نہ کرنا جب تک انہیں مقتول کو دکھا نہ لو پھر ان سے کہنا کہ کیا تم لوگ کلمہ شہادت پڑھتے ہو؟ اگر وہ ہاں کہیں تو کہنا کیا تم نماز پڑھو گے؟ اگر وہ کہیں ہاں تو کہنا کیا تم اپنے مال کا صدقہ نکالو گے اگر وہ کہیں ہاں تو پھر اس سے زیادہ کچھ اور مت طلب کرنا۔ خدا کی قسم تمہارے ہاتھوں ایک آدمی ہدایت پا جائے یہ تمہارے لیے ہر چیز سے بہتر ہے۔ (احمد)
حضرت عبدالرحمن بن عائدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب کوئی لشکر بھیجتے تو فرماتے تھے: لوگوں کے ساتھ انسیت و الفت سے پیش آنا، جب تک انہیں دعوت نہ دے لو حملہ نہ کرنا۔ کوئی ایک گھر بھی تمہارے ہاتھوں مسلمان ہو جائے یہ مجھے اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ تم ان کے مردوں کو قتل کرو یا عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر لاؤ۔(تیسیرالاصول) حضرت ابوبکرؓ نے ایک لشکر بھیجتے وقت دس باتوں کی نصیحت فرمائی، ان میں یہ باتیں بھی تھیں کہ خانقاہوں میں گوشہ نشین راہبوں کو نہ مارنا، کسی بچے، عورت اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا اور کھانے کی ضرورت کے علاوہ کسی مویشی کو ذبح نہ کرنا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! ایک آدمی دنیاوی فائدے کے لئے جہاد کرنا چاہتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کے لیے کوئی اجر نہیں۔ یہ بات لوگوں کو بھاری لگی انہوں نے اس شخص کو پھر بھیجا کہ شائد تم اپنی بات رسول اللہؐ پر واضح نہ کر سکے ہو۔ وہ آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ایک آدمی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتا ہے لیکن دنیاوی فائدہ بھی چاہتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے کوئی اجر نہیں ملے گا لوگوں نے تیسری بار پھر اسے بھیجا اور اس نے وہی سوال دریافت کیا آپؐ نے پھر وہی جواب دیا کہ اسے کوئی اجر نہیں ملے گا(ابو داؤد)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا اور فرمایا: جاؤ، قیامت کے دن مجھے اس طرح نہ ملنا کہ تمہارے پیٹھ پر زکوٰۃ کا کوئی اونٹ، جسے تم نے ہڑپ کر لیا ہو، بلبلا رہا ہو۔ انہوں نے کہا: تب میں نہیں جاؤں گا۔ آپؐ نے فرمایا: تب میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔
٭٭٭
اسلام میں دینی فکر کی تجدید کیونکر؟
آج کل لوگوں کی زبانوں سے اسلام کی تجدید کی ضرورت کی بات بہت سننے کو ملتی ہے لیکن دین کی تجدید کا مطلب اس میں پیوند کاری نہیں ہے، نہ ایمان کے کسی شعبہ کو نظرانداز کر کے جدید تہذیب کے ساتھ قدم بقدم چلنا ہے۔
اسلامی تجدید کا مفہوم ایک ہی ہو سکتا ہے کہ ماحول، عام جہالت، ذاتی خواہشات اور حکمرانوں کے انحرافات وغیرہ کی وجہ سے اس پر جوگرد پڑ گئی ہو، اسے صاف شفاف کر دیا جائے جیسے پانی کو صاف کر کے پینے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس علم کو ہرنسل کے مستند لوگ اٹھائیں گے جو اس سے غلوپسندوں کی تحریف، باطل پسندوں کی ایجادات اور جاہلوں کی تاویلات دور کریں گے۔ ان مختصر الفاظ میں رسول اللہ ﷺ نے ساری بات سمیٹ لی ہے۔ قدیم زمانے میں غلو پسند لوگ زندگی سے نفرت کرتے تھے، شادی نہیں کرتے تھے، ہمیشہ روزے رکھتے تھے اور رات رات بھر جاگ کر نمازیں پڑھتے رہتے تھے لیکن اسلام نے انہیں اعتدال اور غلو سے کنارہ کشی کرنا سکھایا۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کی بعض سورتوں کے فضائل میں کچھ لوگوں نے حدیثیں گھڑیں جب ان سے کہا گیا کہ یہ کیا کر رہے ہو جبکہ رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں کہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے تو کہنے لگے ہم تو آپؐ کیلئے جھوٹ بول رہے ہیں آپؐ کے خلاف نہیں۔ یہ باطل پسندوں کی ایجاد کی مثال ہے۔ یہی صورت دین میں ہر بدعت کی ہے۔ لوگوں نے گھٹیا روایات کو رواج دیکر امت کو ٹھپ کر کے رکھ دیا ہے جبکہ دنیا تیز آندھی کی طرح آگے کی طرف دوڑ رہی ہے۔ رہیں جاہلوں کی تاویلیں تو ہمارے دور نزدیک کی تاریخ میں اس کی کتنی مثالیں ملتی ہیں۔ کچھ دنوں پہلے جزیرہ عرب کے کسی احمق کی کتاب دیکھنے کو ملی جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کی چالیس سے زیادہ دلیلیں ہیں کہ زمین اپنی جگہ ٹھہری ہوئی ہے اور سورج اس کے اردگرد گردش کر رہا ہے میں نے پڑھا تو معلوم تو معلوم ہوا چالیس سے زیادہ قرآنی آیات کی اوٹ پٹانگ تفسیر کی گئی تھی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اسلام اور سائنس ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں کبھی نادانی کی بنا پر سرزد ہوتی ہیں کبھی کچھ مفاد پرست لوگ کسی ملت دشمن کے زر خرید آلہ کاربن کر کرتے ہیں۔
تجدید اسلام کا مطلب ہے آسمان سے نازل ہونے والے اصل دین کی طرف لوٹنا۔ اچھا نمونہ اور اعلیٰ مثال تو حضرت محمدؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کی سیرت ہی سے لی جا سکتی ہے کیونکہ وہی صحیح اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہی اتباع کے لائق ہیں۔ بعد میں زمانہ گزرنے کے ساتھ انحراف پیدا ہوتا گیا اگر کوئی پچھلی صدی یا اس سے پہلے کی صدی کو نمونہ بنانا چاہے تو صرف کجی تک پہنچے گا کیونکہ انہیں صدیوں کے انحرافات نے ہمیں دنیا میں سب سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
آج انفرادی حکومتوں کی جن برائیوں سے ہم دوچار ہیں وہ کئی صدیوں سے ہمارا پیچھا کر رہی ہیں۔ ہم جس طرز عمل سے روشنی حاصل کر سکتے ہیں وہ حضور رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے دور کا شورائی نظام ہے، جب حکمران غرور و تکبر سے دور رہتا تھا، حق کے سامنے جھکتا تھا، اہل علم سے مشورہ کرتا تھا اور اپنے آپ کو امت کا خادم سمجھتا تھا۔ جو اپنی مقررہ تنخواہ سے زیادہ نہیں لے سکتا تھا۔ جسے بلا تکلف ٹوک دیا جاتا تھا کہ خداسے ڈرو، جو اپنے خاندان کو عوام کا حصہ سمجھتا تھا، اگر غلطی کرتا تھا تو اپنے آپ کو سزا دیتا تھا جیسا کہ حضرت عمرؓ نے بڑے افسران سے کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ خود سے بدلہ دلایا کرتے تھے۔ نظام حکومت کی یہی روایات مالی معاملات، عدالتی نظام اور اجتماعی معاملات میں بھی جاری تھیں بلکہ عبادتی امور میں بھی۔ پھرمسلمان دھیرے دھیرے اس راستے سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ ان کا شمار دنیا میں سب سے پیچھے یعنی تیسری دنیا میں ہونے لگا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے نبیؐ کی سنت اور اپنے بزرگوں کی روایات کو بھلا دیا اور دین کی صحیح سمجھ سے دور ہو گئے۔
زمانہ اور حالات کے ساتھ وسائل بھی بدل جاتے ہیں۔ شوریٰ حق ہے اور پہلے اس پر عمل بہت آسان تھا۔ جو لوگ موجود ہوتے تھے ان سے رائے لے لی جاتی تھی۔ لیکن اب اس کیلئے ایک مرتبہ اور منظم نظام چاہیے۔ اب جو لوگ فکر اسلامی کی تجدید کرنا چاہتے ہیں انہیں ان وسائل پر غور کرنا ہو گا اور وہ صورت اختیار کرنی ہو گی جس سے مقصد حاصل ہو اور اسلام کے محاسن اجاگر ہوں۔ ادھر ادھر سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ عالم اسلام میں کتنے ہی المناک واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کے خلاف ساری دنیا کی راجدھانیوں میں مظاہرے ہوئے لیکن کسی عرب راجدھانی میں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ظالمانہ نظام ہائے حکومت کے تحت لوگ اتنے دبائے ہوئے ہیں کہ بول بھی نہیں سکتے ، وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ سڑکوں پر نکلے تو گولیوں سے بھون ڈالے جائیں گے۔ ان کی حکومتیں نہیں چاہتی ہیں کہ ان میں اتنی جرأت پیدا ہو۔ اگر آج وہ کسی بیرونی واقعہ کے خلاف احتجاج کیلئے نکلتے ہیں تو کل انہی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اس لئے پہلے ہی سے دروازہ بند رکھنا چاہیے۔ آپ نے دیکھا انفرادی آمرانہ نظام کے رواج اور شورائیت کے فقدان نے معاملہ کہاں تک پہنچا دیا۔ ساری دنیا میں کرپشن کی روک تھام کے انتظامات ہیں۔ اسلامی خصوصاً عرب ممالک میں چند لوگوں کے ہاتھوں میں بے حساب دولت سمٹی ہوئی ہے اور بغیر محنت کی کمائی ہے۔ کیا اس کجی کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
ہمارے دین نے تو سب سے پہلے بدعنوانی کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا پھر ہم نے اس سے بچنے بچانے کیلئے کیا انتظامات کیے؟ کچھ لوگوں نے کبھی کبھی وعظ و تلقین سے کام لے لیا، باقی نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ ہم میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھڑکنے والے بہت ہیں، بڑی باتوں پر توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے نام پر قسم کھانا تو شرک بتایا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ ریاکاری بھی گناہ ہے اور ظالموں کی خوشامد تو کفر تک پہنچ سکتی ہے۔ اب اگر ہمارے پاس مرض کے علاج کیلئے دوائیں نہیں اور دوسروں سے دوائیں لیں تو لوگ ہم پر الزام لگانے لگتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اسلام کی ترجمانی کے دعویدار بیشتر ناسمجھ ہیں اور وہ اسلام کو زندہ کرنے کے بجائے موت سے ہمکنار کر رہے ہیں۔ ہر میدان میں خود کفالت ناگزیر ہے ۔ بغیر اس کے کوئی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دینی فکر کی تجدید کیلئے پختہ عقل اور پاک دلی درکار ہے۔ وہ تاریخ کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر گہری نظر چاہتی ہے۔ وہ کتاب و سنت میں گہری مہارت چاہتی ہے۔ وہ گندی اور پست ذہنیت اور روایت پرستی کی بجائے صائب نظر، بلند خیالی، پاکیزہ ذہنیت اور گہری بصیرت چاہتی ہے۔
٭٭٭
تجارت میں کسبِ حلال کی حدیں کیا ہیں؟
دنیا میں تجارت دولت و ثروت کے حصول کا زبردست ذریعہ، عمرانی سرگرمیوں کا وسیع میدان اور دنیا کے مختلف حصوں میں سامان اور ضروری چیزیں پہنچانے کا راستہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ یہ آخرت میں بھی ثروت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند مرتبہ تک پہنچنے کا بڑا ذریعہ ہے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’سچا اور دیانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہو گا‘‘ ایک دوسری حدیث بھی کافی غور و فکر کی دعوت دیتی ہے، جس میں تاجر کے دوسروں کے ساتھ معاملہ میں کشادگی اور رحم دلی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اس کے بڑے ثواب کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت حذیفہؓ اور ابو مسعودؓ بدری روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ پچھلے زمانے میں فرشتہ ایک شخص کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا کہ تم نے کبھی کوئی بھلائی کر رکھی ہے؟ اس نے کہا مجھے علم نہیں: کہا گیا کہ سوچ لو۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے کچھ یاد نہیں آتا سوائے اس کے کہ میں لوگوں سے لین دین کیا کرتا تھا تو کشادہ دست کو مہلت دے دیا کرتا تھا اور تنگ دست سے درگزر کر لیا کرتا تھا، تب اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔
سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قوم تجارت کرتی تھی اور یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھی۔ وہ یمن و شام اور فارس و روم کے درمیان چکر لگایا کرتے تھے۔ بعض تجارتی اسفار میں خود رسول اللہ ﷺ نے حصہ لیا اور شروع زندگی میں آپ ؐ بھی اس کام سے گزارہ کرتے تھے اور آپ ؐ کے ساتھی بھی اور چونکہ عرب اس تجارتی ماحول میں رہ رہے تھے ۔اس لئے قرآن نے انہی کی زبان میں انہیں مخاطب کیا۔
ترجمہ:’’ کیا میں تم کو وہ تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا دے ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول ؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے‘‘۔(سورہ الصف)
منافقوں، دنیا کے غلاموں اور خود غرضی کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ترجمہ:’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے ، مگر یہ سودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں‘‘۔(سورہ البقرہ)
تجارت ہر حال میں شریفانہ طریقوں سے ہونی چاہئے۔ دھوکہ بازی اور فریب کاری کے طریقوں سے نہیں۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’قیامت کے دن تاجر لوگ بدکاروں کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے ،سوائے ان لوگوں کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر پرہیز گاری، نیکی اور سچائی سے کام لیتے تھے‘‘۔ ظاہر ہے کہ تاجر کوئی سامان کسی قیمت پر خریدتا ہے تو بیچتے وقت اس کی اصل قیمت میں نقل و حمل اور محفوظ رکھنے وغیرہ کی لاگت کے ساتھ کچھ نفع بھی لگاتا ہے جس سے وہ گزارہ بھی کرتا ہے اور اپنے کاروبار کے لئے ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ تاجر کوئی سرکاری ملازم تو ہوتا نہیں کہ اسے مقررہ تنخواہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملے۔ وہ تو خطرات سے کھیلتا ہے اور تجارت میں اپنے سارے وسائل داؤں پر لگائے رہتا ہے۔ لوگ یہ بات جانتے ہیں اور اعتدال کے دائرے میں اسے پسند کرتے ہیں۔
نفع کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضا مندی سے‘‘۔(سورہ النسا)
باہمی رضا مندی جائز تجارت کی بنیاد ہے۔ یعنی لینے والا اور دینے والا دونوں دل کی رضا مندی کے ساتھ لین دین کریں۔ ورنہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ : ’’کسی مسلمان مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا ڈنڈا بھی بغیر اس کی رضا مندی کے لے لے‘‘۔ لیکن یہ رضا مندی باطل کے ساتھ جائز نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا تاجروں کے منافع کی کوئی حد ہے، جس کے بعد نفع حرام ہو جائے؟اس سلسلے میں کوئی واضح نص تو نہیں ہے لیکن فطری طور پر حد اعتدال سے آگے بڑھنا مناسب نہیں ہو سکتا۔
بعض تاجر حالات پر کنٹرول کرنے اور مانگ اور فراہمی کے اصول کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ وہ جان بوجھ کر ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں تاکہ کئی گنا نرخ پر فروخت کریں۔ ذخیرہ اندوزی اخلاقی و سماجی جرم ہے یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانے اور ضرورت مندوں کی ضرورت کا ناجائز استحصال کر کے ذاتی لالچ کا پیٹ بھرنے کا مختصر ترین راستہ ہے۔ جدید تہذیب نے اس سلسلے میں عجیب و غریب طریقے اختیار کر رکھے ہیں اس تہذیب کے علمبردار مقررہ قیمت کم نہ ہونے دینے کے لئے بعض زرعی پیداوار تک جلا دیتے ہیں۔ پاگل پن کی قسمیں شمار نہیں کی جا سکتیں۔ جب مجھے ذخیرہ اندوزی کرنے والی کمپنیوں کے بہت زیادہ منافع لینے کی حقیقت معلوم ہوئی تب مجھے رسول اللہ ﷺ کا یہ قول سمجھ میں آیا کہ ’’صرف خطا کار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے‘‘۔
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے اور قاتل لوگ ایک ہی درجہ میں اٹھائے جائیں گے۔ جو مسلمانوں کے بازار کے نرخ میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بنے گا اللہ تعالیٰ کو حق ہو گا کہ اسے قیامت کے دن شدید آگ کے عذاب میں ڈال دے‘‘۔
حضرت معاذ بن جبلؓ کی ایک روایت میں آتا ہے بدترین ذخیرہ اندوزی کرنے والا وہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بھاؤ سستا کر دے تو غمزدہ ہو جائے اور اگر بھاؤ چڑھا دے تو خوش ہو جائے۔ بیشتر تاجروں کی حد سے زیادہ طمع پسندی کو دیکھ کر ہی کمیونسٹوں نے تجارت کو منسوخ کیا اور چیزوں کے حمل و نقل اور تقسیم کا عوامی نظام بنایا تھا لیکن یہ حل بھی فطری آزادیوں کے ساتھ میل نہیں کھا سکا اور عوام کو اس سے راحت نہیں مل سکی۔ ہمارے خیال میں مانگ اور فراہمی کا سلسلہ اور افراد اور کمپنیوں کے درمیان مقابلہ آرائی کا طریقہ باقی رہنا چاہئے۔ جب اس کا غلط استحصال ہونے لگے تو ریاست کو جبری نرخ نافذ کرنے چاہئیں۔ یہاں ایک اور محرک کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے جس کا اپنا بڑا وزن ہے یعنی دین و اخلاق کے محرکات ۔
صحیح تربیت اور آزادیوں کی ضمانت کی فضا میں جو دلوں میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے وہ بہت سی بلاؤں کو روکتی ہے اور تجارت کو بھی اس دائرہ میں لے آتی ہے جس کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے۔ ’’اللہ اس شخص پر رحم کرے جو بیچتے ،خریدتے اور تقاضا کرتے وقت کشادہ دلی سے کام لے‘‘۔ حضرت عمرؓ کے خوبصورت اقوال میں سے یہ بھی ہے کہ: ’’جو دین کی سمجھ نہ رکھتا ہو وہ ہمارے بازار میں سامان فروخت نہ کرے‘‘۔
٭٭٭
اسلام کیسا با مقصد معاشرہ چاہتا ہے؟
امت اسلامیہ کا ایک خاص رنگ اور ممتاز طرز عمل ہے۔ وہ لوگوں کا کوئی ایسا گروہ نہیں جسے زندگی کی ضرورتوں اور مفادات نے یکجا کر دیا ہو۔ اسلام ایک قدیم نام ہے جس کا خاص مفہوم ہے۔ یہ حضرت ابراہیمؑ کی زبان پر جاری ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کر لیا تھا۔
تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ انہی نے پہلے سے تمہارا نام مسلمان رکھا۔ (الحج 78) حقیقت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے یہ نام تجویز کیا تھا تو کوئی نئی ایجاد نہیں فرمائی تھی بلکہ ایک قدیم حقیقت کا اثبات کیا تھا۔ یہ فطرت الٰہی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا فرمایا تھا اور جس کی طرف ان سے پہلے انبیا دعوت دیتے رہے تھے۔ حضرت نوحؑ اس سے پہلے کہہ چکے تھے۔ پھر اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں نے تم سے تو کوئی اجر چاہا نہیں میرا اجر تو اللہ پر ہے اور مجھ کو حکم ہے کہ فرماں بردار رہوں۔(یونس 72) حضرت نوحؑ کے حق پر اصرار اور ثابت قدمی پر حضرت ابراہیمؑ کی پسندیدگی ہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی مطلوبہ امت کا نام مسلم رکھا تاکہ حضرت نوحؑ ماضی میں جس بات پر زور دے چکے تھے مستقبل میں بھی اسے دوام حاصل رہے۔ اس طرح یہ امت تمام انبیاء کی وارث اور ان سب کی تعلیمات کی نمائندہ ہے۔
ازل سے ابد تک دنیا اور اس کے پروردگار کے درمیان تعلق کی نوعیت نہیں بدل سکتی، نہ کبھی اپنے عظیم پروردگار کے ساتھ لوگوں کے ربط کی نوعیت بدل سکتی ہے۔ اسلام اسی شعار اور اس سے متعلق اخلاص و اطاعت کا نام ہے۔ بے شک اللہ کے یہاں دین تو اسلام ہی ہے۔ (آل عمران 19) یہ عنوان قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ اور مسلمانوں کی ذمے داری یہ ہے کہ اولین حقائق کو دوسروں تک پہنچائیں۔ اور ان حقائق کو تحریف اور بگاڑ سے محفوظ رکھیں۔
نبیوں نے جولباس اس انسانیت کو پہنایا تھا وہ زمانے کے گزرنے کے باوجود نہیں بدلا۔ ہاں کبھی کبھی وہ گندا ہو جاتا ہے یا کمزور ہو جانے کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔ وقت اصولوں کو دائیں بائیں موڑنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ حضرت محمد ؐ سے پہلے بہت سے نبی آئے جو حق کو روشن رکھنے کی جدوجہد کرتے رہے کہ حق جعل سازیوں کا شکار نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ شرک کو ایمان اور برائی کو بھلائی نہ بنانے لگیں۔ دوسرے کچھ لوگ اپنے آپ پر ظلم نہ کرنے لگیں اور اپنے آپ کو خوشگوار زندگی کے حق سے محروم کر کے اور اپنے جسم و روح کو عذاب میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنے لگیں۔ ایسی حالتوں میں کس طرح وہ کسی ایسے شخص کے ضرورت مند نہ ہوں گے جو: وہ انہیں نیک کام کا حکم کرتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور ان کے لیے سب پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور اتارتا ہے ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں جو ان پر تھیں۔ (الاعراف157 ) ایسا شخص جو راہ کے ان نشانوں کو اجاگر کرے جنہیں بھول اور سرکشی کی ہواؤں نے دھندلا کر دیا یا مٹا دیا ہو۔
مسلمانوں کو کبھی اس بات پر افسوس نہیں ہوا اور نہ ہوہی سکتا ہے کہ یہودیوں نے حضرت موسیٰؑ کی پیروی کی یا عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کی پیروی کی۔ اس طرح کا احساس بھی ان کے لیے خدا اور اس کے رسولؐ سے غداری کے برابر ہے۔ انہیں تو افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اس پیغام الٰہی سے کنارہ کشی اختیار کر لی جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ لے کر آئے تھے اور خود اپنی اصلاح اور دنیا کی اصلاح کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس کنارہ کشی کے بعد یہ بات فطری تھی کہ اللہ تعالیٰ زمین کو ایسے لوگوں کی ذمہ داری میں چھوڑ کر انارکی کے حوالے نہ کر دے جنہوں نے ہدایات کو ماننے ہی سے انکار کر دیا ہو۔ اسی لیے اسلام کی ضرورت پیش آئی اور اسی لیے امت اسلامیہ کا وجود ہوا جو شب و روز کی گردش کے ساتھ باقی رہے گا۔ جو خصوصیت اس امت کا امتیاز ہے اور جس کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں عزت کی مستحق ہوسکتی ہے وہ دین کے حقائق کی اشاعت اللہ تعالیٰ کے حدود کا تحفظ ، بھلائی کو بھلائی کی حیثیت سے اور برائی کو برائی کی حیثیت سے برقرار رکھنا ہے۔ اور یہ خصوصیت امت کو دیگر لوگوں کے درمیان ویسا ہی امتیاز عطا کرتی ہے جیسا امتیازی مرتبہ خود ان کے مقابلے میں ان کے رسولؐ کو حاصل ہے۔
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کو پوری طرح واضح فرما دیا اور آخر میں یہ کہہ دیا کہ اے اللہ تعالیٰ تو گواہ رہنا کہ میں نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ اسی طرح امت پر بھی حق کی وضاحت اسی سے نسبت اور اسی کے لیے اور اسی پر جینے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ امت اسلامیہ کا ایک مقصد اور پیغام ہے۔ اور اللہ کے واسطے ویسی ہی محنت کرو جیسی کہ چاہیے اس نے تم کو پسند کیا اور دین میں تم پر کچھ مشکل نہیں رکھی تمہارے باپ کا دین اسی نے تمہارا نام پہلے سے مسلمان رکھا اور اس قرآن میں تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔(الحج 78) اور اس طرح ہم نے تم کو معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو۔ اور لوگوں پر گواہی کیا ہے ؟ دین کی امانت سے عہدہ برآ ہونا اور اس کے عقائد، عبادات اور اخلاق و معاملات کو لوگوں تک پہنچانا۔
بہت سے ممالک رسولوں کے پیغامات سے دور ہیں۔ کچھ کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو بظاہر نسبت رکھتے ہیں اور بباطن دشمنی۔ لیکن امت اسلامیہ کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ ظاہر و باطن دونوں طرح اللہ تعالیٰ سے نسبت کو اپنے لیے عزت کا ذریعہ بنائے اور اللہ تعالیٰ کے قوانین کو زندہ کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ امتیں اپنے پیغام سے ہاتھ دھو لیتی ہیں جب ہدایت پر خواہشات نفس کو غالب ہو جانے دیتی ہیں اور باطل کو اس کا موقع دے دیتی ہیں کہ وہ حق کو شکست دے دے۔ ان کی (آسمانی) کتابیں ان کے پاس رہتی ہیں لیکن وہ بالکل معطل ہو کر طاق کی زینت بن کر جیسے اقوام متحدہ کے منشور کو بڑی دقیقہ سنجی کے ساتھ تیار کیا گیا تھا لیکن عملی طور پر بار بار اس کی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دین کب کا ضائع کیا جا چکا۔ اب اس کی جگہ جو کچھ ہے وہ کوئی اور ہی چیز ہے۔ کیا صیہونیت کا کوئی تعلق نبوتوں سے ہوسکتا ہے؟ یہی صورت حال حضرت عیسیٰؑ کے دین کے ساتھ بھی ہے۔ آج مسیحی دین کے نام پر جو کچھ بچا کھچا پایا جاتا ہے اس کا کوئی تعلق وحی الٰہی سے نہیں ہے، نہ اس سے انسانوں کی خوش بختی ممکن ہے اس مذہب کے لوگ اپنی اولین ذمے داری سے کنارہ کش ہو چکے اور وحی الٰہی سے پیٹھ پھیر چکے۔
اس امت کی کتاب قرآن کریم کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے اس میں کوئی تحریف نہیں ہوسکتی۔ سنت نبویہ میں اس کی تشریح وتفسیر موجود ہے اور علماء اس کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے۔ : ’’میری امت کے کچھ لوگ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ اسی حال میں اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے۔‘‘ (مسلم) لیکن اسلام کسی ایسی امت کا عنوان نہیں ہوسکتا جو پستی کا شکار ہو، یا سرکش ہو، یا جو زندگی میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے طرز عمل اور غلط رخ اختیار کرے۔ اسلام تو دل کی گہرائیوں اور معاشرے کے گوشے گوشے میں نمایاں ان حقوق کا نام ہے جو دن رات اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے ہیں، اس کی فرماں برداری پر زور دیتے ہیں، اس سے ڈرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کے لیے اخلاص پر ابھارتے ہیں۔
٭٭٭
اسلام میں اقتدار کا سرچشمہ کون ہے؟
دنیا میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو بہت سی چھوٹی بڑی مملکتیں بھی موجود تھیں اور آسمانی و غیر آسمانی مذاہب ،ترقی پذیر نظریات و فلسفے اور انفرادی و اجتماعی خواہشیں بھی ۔تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تاریخ کے آغاز سے آج تک انسانی معاشرے کا یہی مزاج رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آخری نبی ؐ کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ ؐ کو پورا احساس تھا کہ پوری دنیا کے لئے رحمت ہونے کی حیثیت سے آپ کو پوری انسانیت کو خوش بخت بنانے اور اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا فریضہ انجام دینا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل کی گئی ہے اور جو عمل و نمونہ آپ ؐ پیش کر رہے ہیں اس میں قوموں کو قدیم امراض سے نجات دلانے کا سامان ہے۔
میں یہ آیت پڑھ رہا تھا: ترجمہ :ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ اور انہیں تاریخ الٰہی کے واقعات سنا کر نصیحت کر۔(ابراہیم) تو مجھے خیال آیا کہ بنی اسرائیل مصر میں صاف آسمان کے نیچے رہ رہے تھے ، جسے سورج کی کرنیں روشن کئے رہتی تھیں تب کس اندھیرے سے انہیں نکالا جا رہا تھا؟ بلا شبہ یہ سیاسی استبداد و فرعونیت کی تاریکی تھی۔ اسی سورہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمد ؐ سے فرماتا ہے: ترجمہ:یہ کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ ان کے رب کی توفیق سے اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ (ابراہیم)
یہ نئی کتاب لوگوں کو اندھیروں سے نکالنے والی تھی جن کا سامنا پہلے بنی اسرائیل کر چکے تھے۔ اسی طرح ہر علاقہ پر مسلط جاہلیت اور دینی و سیاسی صنم پرستی کے اندھیروں سے نکالنے والی تھی۔ لوگ جب ایک خدا کو سجدہ کرنے لگتے تو خوف و امید اور شوق و ڈر کے سارے احساسات بھی اس کی ذات سے وابستہ ہو جاتے جو تنہا نفع یا نقصان پہنچانے اور اٹھانے یا گرانے کی طاقت رکھتا تھا۔ کسی بھی انسان سے اس طرح کے احساسات کو زندہ کرنے والی سیاسی یا اقتصادی تقلید بگاڑ کا ذریعہ ہے اور اسے مٹانا اسلامی نظام کی بنیادی اصلاحات میں سے ہے۔
اسلامی شریعت گود سے گور (قبر) تک انسان کے ہر معاملے میں ہدایت دیتی ہے: ترجمہ:اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے۔ یہ ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی اور سر تسلیم خم کرنے والوں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے۔(النحل) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت نہ کسی بھی نسل کی برتری کی دعوت ہو سکتی ہے نہ ہی محض کسی بھی قوم کے افراد کے درمیان کھانے۔ کپڑے کے کسی متعین معیار کے حصول کے لئے باہمی تعاون کی۔ وہ تو ایک آسمانی مذہب و شریعت کے تحفظ کا ذریعہ ہو گی ۔ جیسے لوگ کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں نہ کہ اس کے امام کی۔ اسی طرح لوگ اپنے حکمراں کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کریں گے نہ کر حکمران کی خوشنودی اور دنیاوی فائدہ کے لئے۔
اسلامی نظام حکومت کی عام امتیازی خصوصیت یہی ہے اور اس نظام میں اختیارات کا سر چشمہ قوم ہو گی۔ یعنی تنہا اس کو یہ حق ہو گا کہ وہ اپنے ذمہ داروں کو منتخب کرے اور ان کے کاموں کا محاسبہ کرے اور ضرورت ہو تو انہیں سزا دے یا معزول کر دے۔ اقتدار کا سرچشمہ آج کے دور کی اصطلاح ہے۔ ہم الفاظ سے کھیلنے کے قائل نہیں بلکہ حقیقت پر توجہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں نے رسول ؐ اللہ کے انتقال کے فوراً بعد خلیفہ یعنی مملکت کے سربراہ کے انتخاب کا حق استعمال کیا اور یہ مسلک واضح کر دیا کہ غصب یا فوجی انقلاب یا وراثت یا کسی بھی عصبیت اور زبردستی کی بنیاد پر خلافت قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ تو آزادانہ بیعت ہے، سب سے زیادہ اہل شخص کے نام پر ، پھر امت اس کی نگرانی کرے گی۔ اگر خلیفہ صحیح راہ پر گامزن رہتا ہے تو اس کی اطاعت دین اور اس کا احترام تقویٰ ہو گا اور اگر وہ انحراف کرتا ہے تو نہ وہ احترام کا حقدار ہو گا نہ اطاعت کا۔ کسی منصب کے لئے اہل شخص ہی کو امیدوار بننا چاہئے جیسا کہ حضرت یوسفؑ نے کہا تھا کہ ترجمہ: ملک کے خزانے میرے حوالے کر دیجئے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ (یوسف) یا حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے آپ کو معرکہ یرموک میں مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ دار ی اٹھانے کے لئے پیش کیا تھا اور جیسے حضرت عمرؓ و حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح نے امت کی سربراہی کے لئے حضرت ابو بکرؓ کا نام تجویز کیا تھا۔ دوسری طرف حضرت ابوذرؓ نے امارت کی خواہش ظاہر کی تھی تو رسول اللہؐ نے سمجھا دیا کہ وہ اپنی پرہیز گاری کے باوجود اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے۔ آپ ؐ نے امارت کے شوقین لوگوں کو عہدہ دینے سے بالکل انکار کر دیا تھا۔
بڑے عہدوں پر بہت سے لوگ فائز ہونا چاہتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کے سلسلے میں خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں یہ تنہا قوم ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون زیادہ اہل ہے اور کس میں طاقت و دیانت کی زیادہ صفات جمع ہیں۔ یہ محض حماقت ہو گی اگر یہ سمجھا جائے کہ اسلام عوام کو کسی بھی حاکم کو ماننے پر مجبور کرتا ہے چاہے وہ اسے ناپسند کریں محض اس لئے کہ وہ فلاں خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے شروع کے دور میں نظام حکومت کو خلافت راشدہ کا نام دیا جبکہ اس کے بعد مسلط ہو جانے والے طاقت ور خاندانوں سے یہ نام چھین لیا۔
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو لوگوں کی امامت کرے جبکہ وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں جبکہ نماز آسانی سے ادا ہونے والی عبادت ہے اور اسے نیک و بدسبھی ادا کر سکتے ہیں۔ رہی امت کی سربراہی یا اس طرح کے بڑے ذمہ دار عہدے تو یہ بڑا بوجھ ہیں اور معمولی لوگ ان پر قابض ہو جائیں تو بہت بڑی مصیبت ثابت ہوں گے ۔ شاید اسلام کا جھنڈا سرنگوں ہونے میں یہی بنیادی سبب بھی رہا ہے۔ خلافت ، فرعونیت ،کسرویت اور قیصریت سے بہت دور نظام ہے، خلیفہ کا انتخاب امت اپنی مرضی سے کرتی ہے پھر اس کے کام کی نگرانی کرتی ہے۔ اگر ٹھیک ہے تو باقی رکھتی ہے ورنہ ہٹا دیتی ہے۔
اما م حزم ؒ لکھتے ہیں جس امام کی اطاعت واجب ہے وہ ایسا امام ہو گا جو کتاب و سنت پر چلتا ہو، اگر ان سے انحراف کرے تو اسے روک دیا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی اور اگر اس کی معزولی کے بغیر اس کی بد عملیوں سے نجات نہ مل سکتی ہو تو اسے معزول کر دیا جائے گا۔ یہی مطلب ہے امت کے اقتدار کا سرچشمہ ہونے کا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس کو آج کے مختلف مکاتب فکر بھی مانتے ہیں۔ جو لوگ ہر حکمران کی اطاعت کرنے کو تیار رہتے ہیں چاہے وہ جس طریقہ سے بھی قابض ہو گیا ہو ، چاہے نو آباد کاروں کے ذریعہ ہی ، وہ نہ دین کے مطلب کے ہیں نہ دنیا کے۔
حضرت ابوبکرؓ کا پہلا خطبہ پڑھئے جو آپ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد دیا تھا: لوگو!مجھے تمہارا ولی بنا دیا گیا ہے جبکہ میں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں۔ تب اگر میں اچھا کرتا ہوں تو میری مدد کرو اور اگر میں برا کرتا ہوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق حاصل کر لوں ان شا ء اللہ۔ اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق چھین لوں۔ ا ن شاء اللہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کروں تب تک تم میری پیروی کرو میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی پیروی واجب نہیں۔ امت کے اس پہلے منتخب خلیفہ و سربراہ کے جملوں پر غور کیجئے وہ کیسے اپنے آپ کو عوام ہی میں سے ایک قرار دے رہے ہیں اور کس طرح کمزوروں کو حق دلانے اور طاقتوروں کو دوسروں کا حق ادا کرنے پر مجبور کرنے کا عہد کر رہے ہیں اور کیسے واضح کر رہے ہیں کہ لوگوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ امت کے اقتدار اور طاقت کا اس سے زیادہ واضح اعتراف کیا ہو سکتا ہے۔ یہ اقتدار بلندی پر سے انسانوں کو پستی میں سے نہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ خلیفہ امت سے طلب کرتا ہے کہ اس کو اور اس کے خاندان کے گزارے کے لئے کوئی تنخواہ مقرر کر دے ۔ وہ خود سے خدا کے مال میں سے بے دریغ تصرف نہیں کرتا۔
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین اور اپنے مرتبہ کو پہچانیں ورنہ موروثی حالات انہیں نیست و نابود کر کے چھوڑیں گے۔ اسلام اپنی حکومت کے علاقہ میں رہنے والے تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب با عزت مقام اور مساویانہ حقو ق دیتا ہے… اسلام کے نام پر کسی قابض حکمراں کا فعل خود اس کی ذمہ داری ہے۔ وہ اقتدار پر ناجائز قبضہ کر کے سب سے پہلے تو اسلام کے بنیادی اصولوں ہی کو پامال کرتا ہے۔ پھر حکمران یعنی خلیفہ یا سربراہ کو کوئی بالاتر مقام نہیں ملتا نہ اسے کوئی تقدس یا امتیاز حاصل ہوتا ہے۔ وہ عام لوگوں میں سے ایک فرد ہوتا ہے جس پر زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور بس۔ شورائیت ہمیشہ سے اعلیٰ انسانی صفت رہی ہے اور ہر زمانہ میں سے اسے قابل تعریف سمجھا جاتا رہا ہے۔
حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک پورا آدمی ہوتا ہے جو رائے اور مشورے سے کام لیتا ہے ، دوسرا آدھا آدمی ہوتا ہے جو صاحب رائے تو ہوتا ہے لیکن مشورہ نہیں کرتا اور تیسرا وہ شخص ہے جو آدمی ہے ہی نہیں وہ نہ صاحب رائے ہوتا ہے نہ مشورہ کرتا ہے۔
٭٭٭
روزہ کی حقیقت و حکمت
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ہمیں اپنے پروردگار کو پہچاننا ہے، اس کے راستے پر چلنا ہے اس کیلئے روزہ رکھنا ہے اور اس کے پاس اپنا اجر جمع کرنا ہے کسی پیٹ بھرے شخص نے کبھی رکوع و سجود کا حق ادا نہیں کیا، نہ کسی بڑے پیٹ والے کو خدا کی خشیت ملی
آج کل دنیا پر چھائی ہوئی مغربی تہذیب کے ماحول میں روزہ ایک حیرت ناک یا ناپسندیدہ عبادت ہے۔ یہ تہذیب صرف جسم کو مانتی ہے، روح کو نہیں۔ یہ صرف آج کی زندگی پر یقین رکھتی ہے، آخرت پر نہیں۔ اس لئے یہ ہر ایسی عبادت کو ناپسند کرتی ہے جو خواہشات نفس پر پابندی لگائے، چاہے چند لمحوں کے لئے ہی اور جو بدن کو ادب و تمیز کے راستے پر ڈالے۔
موجودہ زمانے میں کیا افراد اور کیا گروپ، صرف آمدنی بڑھانے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ آمدنی کو پاکیزہ تر زندگی کا ذریعہ بنانے کی فکر نہیں کرتے۔ ہم فقر و غربت کی محبت اور جسم کی دشمنی سے دین کو بری قرار دیتے ہیں کیونکہ تونگری عافیت کا ذریعہ ہے اور طاقتور جسم ذمہ داریاں ادا کرنے اور بوجھ اٹھانے میں زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگ اپنے جسموں کے ساتھ معقول و حقیقت پسندانہ طریقہ سے معاملہ کرتے ہیں؟
ماہرین غذا کہتے ہیں کہ کھانے کے دو فائدے ہیں اول یہ کہ وہ جسم کو حرارت پہنچاتا ہے جو اسے نقل و حرکت میں مدد دیتی ہے دوم یہ کہ بچپن سے نوجوانی تک کے مراحل میں نشوونما میں جو خلیے بیکار ہو جاتے ہیں ان کی تجدید کرتی ہے۔ ہم صرف انہی دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے کھاتے ہیں؟ وہی ماہرین غذا کہتے ہیں کہ جسم کو زندہ رہنے کیلئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھانا ایک ایندھن ہے جو انسان مشین کیلئے ناگزیر ہے۔ مصنوعی آلات اور زندہ انسانیت کے درمیان فرق واضح ہے۔ کار کی ٹنکی لوہے سے بنائی جاتی ہے اور اس میں ایک محدود و مقدار میں پٹرول جمع کیا جا سکتا ہے لیکن معدہ ایک ایسی اسپینج نما چیز سے بنا ہے جو پھیل اور پھول سکتا ہے اور انسان کو جتنی غذا کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ اس میں سما سکتی ہے۔ کار کی ٹینکی آخری قطرہ تک ایندھن سپلائی کرتی رہتی ہے جبکہ معدہ ضرورت پوری کرتا ہے۔ پھر زائد غذا کو چربی بنا دیتا ہے جس سے وزن بڑھتا ہے۔ کار کی ٹنکی محدود مقدار سے زائد نہیں لے سکتی، نہ اس سے ٹنکی کو بڑھانے یا پھیلانے کا کام لے سکتی ہے، نہ اس سے ٹائر بڑے اور موٹے ہو سکتے ہیں۔
انسانی وجود عجیب و غریب چیز ہے۔ ہمیشہ کافی سے زیادہ کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس نقصان دہ زیادہ کیلئے کبھی لڑائی بھی کر لیتا ہے۔ اسے کوئی حرج نظر نہیں آتا کہ اس کا جسم موٹا ہو جائے۔ یہ اسے اس سے زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ مقدار کسی غریب بچے کی پرورش میں کام آ جائے یا کسی مزدور کے جسم کا ایندھن بن جائے۔
میرا ایک دوست بکثرت سگریٹ پیتا تھا۔ میں نے ایک دن اس کے اوپر افسوس کے ساتھ نگاہ ڈالی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اسے اس مصیبت سے نجات دلائے۔ دوست نے (جو اب مرحوم ہو چکا ہے) سنا تو کہا کہ اے اللہ تو اس کی دعا کو قبول نہ کرنا نہ مجھے سگریٹ کی لذت سے محروم کرنا۔ میں نہیں سمجھتا تھا کہ سگریٹ پینے والوں کو اس میں اتنی لذت ملتی ہے میں چپ ہو گیا اور میری زبان بند ہو گئی انسان تنہا وہ مخلوق ہے جو یہ جانتی ہے کہ کیا چیز اسے نقصان پہنچاتی ہے پھر بھی وہ شوق سے اسے استعمال کرتا ہے۔ اسے قاتل شوق ہی کہا جا سکتا ہے لیکن ایسے نفس کو سکھایا جائے تو ہوسکتا ہے باز آ جائے۔
روزے کا کام یہی ہے کہ وہ نفس کو کفایت کرنے والے ’’کم‘‘ کی طرف لوٹاتا ہے اور نقصان دہ ’’زیادہ‘‘ سے روکتا ہے بشرطیکہ ہم سچ مچ روزہ رکھیں۔ عام لوگوں کی طرح اسے اور زیادہ مقدار میں کھانے کا ذریعہ نہ بنا لیں۔ روزہ تو محرومی کے ساتھ زندگی گزارنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
میں نے پڑھا کہ رسول اللہ ﷺ صبح کو اپنے گھر والوں سے دریافت فرماتے تھے کہ کچھ کھانے کو ہے؟ جب بتایا جاتا تھا کہ کچھ نہیں ہے تو روزہ کی نیت کر لیتے تھے اور دن کا سامنا اس طرح کرتے تھے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ خندہ پیشانی کے ساتھ وفدوں سے ملتے تھے۔ مسائل پر غور و خوض اور فیصلے کرتے تھے اور بغیر شک و شبہ کے اپنے پروردگار کی طرف سے رزق رسانی کا پورے بھروسے سے انتظار کرتے تھے گویا زبان حال سے فرماتے تھے۔ ترجمہ: پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔(والضحیٰ) میں نے سوچا کہ اگر مجھے ناشتے میں چائے ہی نہ ملے تو غصہ آ جائے اور کچھ لکھنے پر آمادہ نہ ہوسکوں۔
یہ ایک قابل احترام نفسیاتی عظمت ہے کہ انسان مکمل ہوش اور خندہ پیشانی کے ساتھ اچھے برے حالات کا سامنا کر لے۔ اگر چاہیں تو افراد بھی ایسا کر سکتے ہیں اور گروپ بھی۔ میرے خیال میں شروع کی اسلامی فتوحات میں اس کا نمایاں کردار تھا کہ اہل ایمان خواہشات نفس کے آگے بے بس نہیں تھے اور نہ ہی ایسی چیزوں کے عادی تھے جن کے بغیر ان کے کام پر اثر پڑے۔ ایک آدمی چند کھجوریں جیب میں ڈال لیتا تھا اور میدان کی طرف چل پڑتا تھا۔ جبکہ فارس و روم کے فوجیوں کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کے بڑے بڑے ذخیرے چلاتے تھے۔
برطانیہ عظمیٰ کے خلاف گاندھی جی نے یہی ہتھیار استعمال کیا۔ برطانوی پیداوار کا انحصار صارفین پر تھا۔ گاندھی جی نے اپنی قوم کو تربیت دی کہ وہ مانچسٹر کے بنے ہوئے کپڑوں کے بجائے دیسی کھردرے کپڑے استعمال کریں اور حکومت اجارہ داری برقرار رکھتی ہے تو نمک بھی چھوڑ دیں اور ان کی موٹر گاڑیوں کے بجائے چلا کریں۔ خود گاندھی جی ایک گلاس دودھ پی کر شہر شہر اور گاؤں گاؤں دورہ کرتے رہے۔ عوام کی زبردست اکثریت نے ان کی آواز پر لبیک کہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزوں کے کارخانے بند ہونے لگے اور ہزاروں انگریز مزدور بے روزگاری کا شکار ہو گئے۔ برطانوی حکومت کو مجبور ہو کر گاندھی کو مذاکرات کیلئے لندن بلانا پڑا۔
عربی شاعر سلیم خوزی نے اس موقع پر سیاست دانوں کے کھلواڑے سے آگاہی دیتے ہوئے اپنی مشہور نظم کہی کہ ایک ہندوستانی نے روزہ رکھا تو پوری ایک مملکت کو بھوک سے دوچار کر دیا اور بیروزگاروں کی فوج نے مانچسٹر میں زلزلہ پیدا کر دیا۔ بلاشبہ جو انسان اپنی خواہشات نفس پر قابو پالے وہ زبردست طاقتور ہو جاتا ہے اور جو قوم ایسا کر لے اس کا تو کہنا ہی کیا۔
جامع ازہر کے ایک سابق سربراہ شیخ محمد خضر حسین کو جب شاہ مصر کی طرف قید و بند کی دھمکی ملی تو انہوں نے یہی جواب دیا مجھ جیسے آدمی کو دھمکایا نہیں جا سکتا جو ایک کپ دودھ پر بیس گھنٹے گزار سکتا ہو۔ اس سے پہلے شیخ عبد المجید سلیم کو جب حکمرانوں کے غضب سے ڈرایا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ پر اپنے گھر سے مسجد تک آنے جانے پر پابندی لگا دی جائے گی؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں تب انہوں نے کہا کہ پھر کیا خطرہ ہے پھر تو ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ یہ عظمت کے ذرائع میں سے ہے کہ انسان دنیا میں اپنی ضرورتیں محدود کر لے۔ یہی طریق کار حضرت علیؓ نے بتایا تھا۔ جس کو تم پسند کرتے ہو اس سے بے نیاز ہو جاؤ تو اس جیسے ہو جاؤ گے اور جس کو چاہتے ہو اس کے ضرورت مند رہو تو اس کے غلام بن جاؤ گے۔
جو بہتر ڈھنگ سے روزے رکھتا ہو وہی ایسا کر سکتا ہے۔ جاحظ نے اپنی کتاب میں ابوعثمان نوری کی اپنے بیٹے کو نصیحت نقل کی ہے جو تمہارے ہے اسی میں سے کھاؤ اور یہ جان لو کہ اگر کھانے میں کوئی بہتر لقمہ یا اچھی چیز ہے تو وہ قابل تعظیم بوڑھے شخص کیلئے یاد دلا رے بچے کیلئے ہے اور تم دونوں میں سے کوئی نہیں۔ بیٹے ، نفس کو خواہشات کے خلاف جدوجہد کا عادی بناؤ، جانوروں کی طرح نہ کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں انسان بنایا ہے جان لو کہ زیادہ سیر ہونا بیماری کی طرف لے جاتا ہے اور بیماری موت تک۔۔ اور جو اس طرح مرے گا وہ کمینہ کی موت مرے گا کیونکہ وہ خود اپنی جان کا قاتل ہے اور خود اپنی جان کا قاتل غیر کے قاتل سے زیادہ کمینہ ہوتا ہے۔ بیٹے! کسی پیٹ بھرے شخص نے کبھی رکوع و سجود کا حق ادا نہیں کیا، نہ کسی بڑے پیٹ والے کو خدا کی خشیت ملی۔ روزہ صحت دینے والی چیز ہے۔ میرے بیٹے! میں نوے سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ میرا نہ کوئی دانت ٹوٹا نہ سماعت و بصارت میں فرق آیا نہ کوئی اور جسمانی نقص پیدا ہوا اور یہ سب کچھ کم کھانے کی وجہ سے ہوا۔ اگر تم زندگی چاہتے ہو تو اس کا راستہ یہ ہے اور اگر موت چاہتے ہو تو اس کا راستہ وہ ہے۔ یہ اس آدمی کی نصیحت ہے جو موجودہ دور کے لوگوں کی طرح جسم کی پرستش کرنا جانتا ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ: انہیں چھوڑ دو کھائیں پئیں، مزے کریں اور بھلاوے میں ڈالے رکھے انہیں جھوٹی امید عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گی۔(الحجر:3) ترجمہ: اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور جانور کی طرح کھا پی رہے ہیں اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔
وقتاً فوقتاً بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ خشک سالی، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات وغیرہ، تب لوگوں کو مجبوراً بھوکے رہنا پڑتا ہے، تب ان کے دلوں میں تنگی و غصہ بھرا رہتا ہے۔ روزہ اس سے بالکل بالاتر چیز ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کیلئے کھانے پینے کی اشیاء کی موجودگی کے ساتھ اپنے آپ کو محروم رکھنا ہے اور اپنی خواہشات کو ٹالنا ہے جس کا بدلہ وہ دشوار دن میں پائے گا۔ ترجمہ: وہ ایک دن ہو گا جس میں سب لوگ جمع ہونگے اور پھر جو کچھ اس روز ہو گا سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، گویا اجر طلب کرنے میں جلدی نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس جمع رہے گا۔ ایسے مسلمان بھی مل سکتے ہیں جو رمضان کی حرمت اور روزے کی حکمت جانتے ہیں نہ ہوں وہ قیامت میں کون سا اجر پائیں گے۔ روزہ آج کی زندگی کی لہر کے خلاف ہے کیونکہ آج کے غالب مادی نظریات صرف زمین، جسم اور دنیا سے واقف ہیں، آسمان ، روح اور آخرت سے نہیں۔ وہ جو چاہیں کریں لیکن ہمیں تو اپنے پروردگار کو پہچاننا ہے، اس کے راستے پر چلنا ہے اس کیلئے روزہ رکھنا ہے اور اس کے پاس اپنا اجر جمع کرنا ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://mag.dunya.com.pk/index.php/deen-o-dunya
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید