FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہمِ حدیث

               مولانا مفتی ڈاکٹر عبد الواحد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

اللہ تعالی کی ذات و صفات

               اللہ تعالی کی صفات

  عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ان للہ تعالی تسعۃً و تسعین اسمامن احصاھادخل الجنۃھواللہ الذی لا الٰہ الاھو الرحمن الرحیم الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبارالمتکبرالخالق الباریء المصور الغفار القھارالوھاب الرزاق الفتاح العلیم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السمیع البصیر الحکم العدل اللطیف الخبیر الحلیم العظیم الغفور الشکور العلی الکبیر الحفیظ المقیت الحسیب الجلیل الکریم الرقیب المجیب الواسع الحکیم الودود المجید الباعث الشھید الحق الوکیل القوی المتین الولی الحمید المحصی المبدی المعید المحی الممیت الحی القیوم الواجد الماجد الا حد الصمد القادر المقتدر المقدم المؤخر الاول الآخر ا  لظاہرالباطن الوالی المتعالی البرالتواب المستقیم العفوالرؤف مالک الملک ذوالجلال والاکرام المقسط الجامع الغنی المغنی المانع الضار النار النافع النور الھادی البدیع الباقی الوارث الرشید ا  لصبور۔(ترمذی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں جو انہیں یاد کرے (اور ان کے معانی کو اپنے دل و دماغ میں بٹھا لے) وہ جنت میں جائے گا۔ وہ اللہ ہے، جس کے سواکوئی معبود نہیں، نہایت مہربان، بہت رحم والا، وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، ہر نقص و آفت سے سالم ہے، امان دینے والا ہے، پناہ میں لینے والا ہے، زبردست ہے، دباؤ والا ہے، صاحب عظمت بنانے والا ہے، پیدا کرنے والا، صورت بنانے والا ہے، بہت بخشش والا ہے، بہت غلبہ والا، بہت دینے والا، بڑا روزی دینے والا، بڑا مشکل کشا، جاننے والا، تنگی اور فراخی کرنے والا، پست و بلند کرنے والا، عزت و ذلت بخشنے، والا سننے والا، دیکھنے والا، اٹل فیصلہ کرنے والا، منصف، بھید جاننے والا، خبر دار، برد بار، عظمت والا، مغفرت کرنے والا، تھوڑے عمل پر بہت دینے و ا لا، بلند بڑ ا ئی والا، حفاظت کرنے والا، (مخلوق کو)روزی اور توانائی دینے والا حساب لینے والا، بزرگی والا، بے مانگے بخشش کرنے والا، نگراں، (بندوں کی پکار کا )جواب دینے والا، وسعت والا، حکمت والا، بڑی محبت والا، مجدو شرف والا (مردوں کو اور سوئے ہوؤں کو)اُٹھانے والا، گواہ، ثابت و بر حق، کار ساز، زور آور، مضبوط، دوست و مددگار، تعریف کامستحق، ہر چیز کا شمار رکھنے والا، عدم سے وجود میں لانے والا، معدوم کو پھر موجود کرنے والا، زندہ کرنے والا، مارنے والا، سدازندہ، مخلوق کی ہستی کو تھامنے والا، اپنی مراد کو پانے والا، شرف والا، یکتا، یگانہ، بے نیاز، قدرت والا، ہر شے پر قبضہ والا، آگے کرنے والا، پیچھے کرنے والا، سب سے پہلا اور سب سے پچھلا اور باقی رہنے والا، سب پر عیاں، نگاہوں سے اوجھل، ہر چیز کا ذمہ دار، بہت بلند، بڑا محسن، توبہ کی توفیق بخشنے والا اور قبول کرنے والا، بدلہ لینے والا، معاف کرنے والا، بڑی رحمت والا، سارے ملک کا مالک، جلال و بخشش والا، انصاف قائم کرنے والا، (قیامت کے دن سب کو )جمع کرنے والا، سب سے بے نیاز، دوسروں کو غنی بنانے والا، روکنے والا، نقصان پہنچانے والا، نفع پہنچانے والا، خود بخود ظاہر، ہدایت دینے والا، بلا نمونہ بنانے والا، ہمیشہ رہنے والا، تمام مخلوقات کے فنا کے بعد ان کے مال کا مالک، درست راہ بتانے والا، ضبط و برداشت کرنے والا۔

               اللہ تعالی کا حلم

عن ابی موسٰی الا شعری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماأحد أصبر علی أذی یسمعہ من اللہ ید عون لہ الو لد ثم یعافیھم ویر ز قھم۔                                                                                (بخاری و مسلم)

حضرت ابو موسٰی اشعری کہتے ہیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکلیف دہ بات کو سن کر اس پر صبر (اور برداشت کرنے اور سزا  نہ دینے )میں کوئی اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے۔ لوگ اس کے لیے اولاد ہونے کا دعوٰی کرتے  ہیں اور وہ پھر بھی ا ن کو (مہلت دیتا ہے اور )عافیت اور رزق دیتا ہے۔

عن ابی ھریرۃ قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ عزو جل یؤذینی ابن آدم یسب الد ھروانا الدھر بیدی الامراقلب اللیل والنھار                                                                                   (بخاری ومسلم )

حضرت ابو ھریرہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اللہ عزو جل نے ارشاد فرمایا ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے۔ دہر اور زمانہ کو برا کہتا ہے حالانکہ زمانہ (کچھ نہیں وہ )تو میں ہی ہوں (کیونکہ حقیقت میں )سب تصرفات میرے قبضہ میں ہیں (اور ) شب و روز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ تعالی کذبنی ابن آدم ولم یکن لہ ذٰلک وشتمنی ولم یکن لہ ذٰلک فاما تکذیبہ ایای فقولہ لن یعیدنی کما  بدانی ولیس اوّل الخلق با ھون علیّ من اعادتہ واما شتمہ ایای فقو لہ اتخذ اللہ ولد ا وانا الاحدالصمد الذی لم الد و لم أولد ولم یکن لی کفوا احد۔(بخاری)

حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اللہ تعالی فرماتے ہیں ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ ایسا کرنا اس کے مناسب نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کے لیے جائز نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ جیسا میں نے اس کو ابتدا میں پیدا کیا دوبارہ میں اس کو پیدا نہ کروں گا (اور آخرت کچھ نہ ہو گی)حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا مجھ پر دوسری دفعہ پیدا کرنے سے آسان نہیں ہے (بلکہ میرے لیے دونوں یکساں ہیں جب کہ لوگوں کے لیے دوسری دفعہ کے مقابلے میں پہلی دفعہ کوئی چیز بنانا مشکل ہوتا ہے)اور اس کا مجھے گالی دینا اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے(اپنے لیے ) بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں یکتا ہوں اور بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا (یعنی نہ میں نے اپنی کوئی اولاد بنائی ہے )اور نہ ہی میں جنا گیا ہوں (یعنی نہ ہی میں کسی کی اولاد ہوں )او ر کوئی بھی میرے جوڑ کا نہیں ہے (کہ وہ خدائی میں میرا شریک ہوسکے)۔

               سب کچھ اللہ تعالی ہی دیتے ہیں

عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللہ عزوجل یاعبادی کلکم مذنب الا من عافیت فاستغفر ونی اغفر لکم ومن علم انی اقدر علی المغفر ۃ فاستغفرنی بقدرتی غفرت لہ ولا ابا لی۔و کلکم ضا ل الا من ھدیت فاستھدونی اھدکم۔ وکلکم فقیر الامن اغنیت فاسئلونی اغنکم ولو ان اولکم وآخر کم وحیکم ومیتکم ور طبکم ویا بسکم اجتمعوا  علی ا شقی قلب من قلوب عبادی ما نقص فی ملکی من جناح بعوضۃ ولو ا جتعو اعلی اتقی قلب عبد من عبادی ما زادفی ملکی من جناح بعو ضۃ ولوان اولکم وآخرکم وحیتکم ومیتکم ورطبکم ویا بسکم اجتعموا فسالنی کل سائل منھم ما بلغت امنیتہ فاعطیت کل سائل منھم ماسال ما نقصنی کما لو ان احد کم مر بشقۃ البحر فغمس فیھا ابرۃ ثم ا نتز عھا کذٰلک لا ینقص من ملکی ذٰلک بانی جواد ماجد صمد عطائی کلام و عذابی کلام اذا اردت شیئا فانما اقول لہ کن فیکون  (مسلم)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں اے میرے بندوں تم سب قصور وار ہو مگر وہ جسے میں بچا لوں، تو مجھ سے بخشش طلب کیا کر و میں تمہیں بخش دوں گا۔جو شخص یہ جانتا ہے کہ مجھے بخشش کی طاقت ہے پھر مجھ سے بخشش مانگتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور کوئی پروا نہیں کرتا۔تم سب گم کردہ راہ ہو مگر وہ جس کو میں راہ دکھلاؤں تو مجھ سے ہدایت مانگا کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم سب محتاج ہو مگر وہ جس کو میں بے نیاز کر دوں تو مجھ سے مانگو میں تمہیں بے نیاز کر دوں گا۔اگر تمہارے اگلے پچھلے زندہ اور مردہ، تر اور خشک (یعنی جوان اور بوڑھے) سب مل کر میرے بندوں میں سب سے شقی القلب بندہ کی طرح ہو جائیں تو میری سلطنت میں مچھر کے پر کے برابر کوئی کمی نہیں آسکتی اور اگر سب کا دل سب سے زیادہ متقی انسان کی طرح ہو جائے تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر زیادتی نہیں ہو گی۔ اگر تمہارے اول و آخر، زندہ اور مردہ، تر اور خشک سب جمع ہوں اور ان میں ہر سائل مجھ سے وہ مانگے جو اس کی انتہائی آرزو ہو پھر ان میں ہر ہر سائل کو میں اس کی منہ مانگی مراد دے دوں تو بھی میرے خزانہ میں کچھ کمی نہ آئے گی جیسا کہ تم میں کوئی شخص سمندر کے کنارے گزرے اور اس میں سوئی ڈبو کر نکال لے (تو سمندر میں کوئی کمی نہیں آتی) اسی طرح میری سلطنت میں کچھ کمی نہیں آتی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ہوں، بزرگی والا ہوں، بے نیاز ہوں۔ میری بخشش (کے لیے فقط میری )بات (کافی )ہے اور میرا عذاب (نازل کرنے کے لیے فقط میرا)کلام (کافی)ہے(کچھ کرنا نہیں پڑتا )اور جب میں کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو صرف یہ کہہ دیتا ہوں کہ موجود ہو جا تو وہ موجود ہو جاتی ہے۔

٭٭٭

 

اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے ساتھ تعلق

               اللہ تعالی بندوں پر ظلم نہیں کرتے

عن ابی ذر عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فیمایروی عن ربہ عزو جل انی حرمت علی نفسی الظلم وجعلتہ بینکم محرمًا فلا تظالمو۔(مسلم)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پربھی حرام کیا ہے تو خبر دار ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔

               اللہ تعالی کی بندو ں پر رحمت

عن ابی ھریرہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلّم قال ان للہ مائۃ رحمۃ انزل منھا رحمۃ وا حدۃ بین الجن و الانس والبھائم والھوام فبھا یتعاطفون وبھا یتر احمون وبھا تعطف الوحش علی و لدھا واخر ھا اللہ تسعاو تسعین رحمۃیر حم بھا عبادہ یوم القیامۃ  (مسلم و بخاری، مسلم ص ٣٥٦)

حضرت ابوہریرہ نقل کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کے لیے سورحمتیں ہیں (یعنی اللہ تعالی نے رحمت کے سو حصے کیے ہیں )جن میں سے اس نے جنات اور انسانوں اور جانوروں اور حشرات میں رحمت کا صرف ایک حصہ اتارا ہے۔اس ایک حصہ کی وجہ سے وہ باہم ایک دوسرے سے مہربانی کرتے ہیں۔اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔اسی ایک حصہ سے و حشی جانور اپنے بچوں سے محبت رکھتے ہیں رحمت کے باقی ننانوے حصوں کو اس نے قیامت کے دن کے لیے رکھ چھوڑا ہے کہ ان سے اپنے مومن بندوں پر رحم فرمائے گا۔

عن جنذب عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ان رجلاقا ل واللّٰہ لا یغفر اللّٰہ لفلا ن وان اللّٰہ تعالی قال من ذاالذی یتالی علی أنی لااغفر لفلان فانی قد غفرت لفلان وأحبطت عملک  (مسلم)

حضرت جندب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے خدا کی قسم کھاکر کہا کہ خدا فلاں کو نہیں بخشے گا۔اللہ تعالی نے فرمایا یہ کون ہے جو مجھ پر قسم کھا رہا ہے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا(جا)میں نے فلاں کو (تو)بخشا اور تیری قسم کو باطل (یعنی جھوٹا) کر دیا۔

عن ابن عمر و بن العاص قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراحمون یرحمھم الرحمن ار حموا من فی الارض یر حمکم من فی السماء۔                                                         (ترمذی و ابو دا و د)

حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (مخلوق پر)رحم کر نے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے تو تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

               اللہ تعالی کا اپنے نیک بندوں کے ساتھ معاملہ

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ تعالی قال من عادٰی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبدی بشی ء أ حب الی مما افتر ضت علیہ وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصر بہ ویدہ التی یبطش بھا و ر جلہ التی یمشی بھا و ان سالنی لاعطینہ ولئن استعاذنی لا عیذنہ                                    (بخاری )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اللہ فرماتے ہیں کہ جس نے میرے ددست اور ولی سے دشمنی کی میری طرف سے اس کو اعلان جنگ (یعنی میری سخت ناراضگی کا اعلان )ہے۔میرا بندہ میرا  تقرب کسی اور عمل سے جو مجھے پسند ہوا تنا حاصل نہیں کرتا جتنا کہ اس عمل سے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کر تا ہوں (اس کے وہ اعمال خیر جن کے لیے پہلے اس کو کچھ تکلف کرنا پڑتا تھا میرے محبت کرنے کی وجہ سے اس کی وہ کلفت دور ہو جاتی ہے اور صراط مستقیم پر قائم رہنا اس کے لیے بہت سہل ہو جاتا ہے )میں اس کا وہ کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے (لہٰذا وہ وہی سنتا ہے جس کے سننے کی میں نے اجازت دی ہے )اور اس کی وہ آنکھ ہو جاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے (لہٰذا وہ صرف وہی کچھ دیکھتا ہے جس کے دیکھنے کی میں نے اجازت دی ہے ) اور وہ ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ کام کرتا ہے (لہٰذا وہ صرف وہی کام کرتا ہے جس کے کرنے کی میں نے اجازت دی ہے یا حکم دیا ہے )اور وہ پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے (لہٰذا وہ صرف میری مرضی کے کام میں چلتا ہے، اس کے سوانہ وہ کچھ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ اور کوئی ادنیٰ حرکت کرتا ہے ) اب اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرے گا تومیں اسے دوں گا اور اگر میری پناہ میں آنا چاہے گا تو میں اپنی پناہ میں لے لوں گا۔

               اللہ تعالی کا بندے کی توبہ پر خو ش ہو نا

عن عبداللہ بن مسعود قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللہ افرح بتوبۃ عبدہ المومن من رجل نزل فی ارض دویۃمھلکۃ معہ راحلتہ علیھا طعامہ و شر ابہ فو ضع راسہ فنا م نو مۃفاستیقظ وقد ذھبت راحلتہ فطلبھا حتّٰی اذا اشتد علیہ الحر و العطش او ماشا ء اللہ قال ارجع الی مکانی الذی کنت فیہ فانام حتّٰی أموت قوضع راسہ علی ساعدہ لیصوب فاستیقظ فاذا راحلتہ عندہ علیھا زادہ و شر ابہ فاللہ اشد فرحا بتوبۃ العبد المومن ھٰذا بر احلتہ و زادہِ۔  (مسلم)

حضر ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے کسی ہلاکت خیز جگہ میں پڑاؤ کیا۔اس کے ساتھ اس کی سواری ہے جس پر اس کا سامان اور پانی بندھا ہے۔(آرام کے لیے )اس نے اپنا سرزمین پر رکھا اور (کچھ دیر کے لیے )سو گیا آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی سواری کہیں جا چکی ہے۔اس نے اپنی سواری کو (بہت )ڈھونڈا یہاں تک کہ جب گرمی اور پیاس وغیرہ شدید ہو گئی تواس نے سوچا کہ میں اپنی اسی جگہ جہاں میں (سو رہا)تھا واپس جاتا ہوں اور وہاں سوتا ہوں یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے۔اس نے (لیٹ کر)اپنا سر اپنے بازو پر رکھا تاکہ اسی حالت میں مر جائے۔(اس کی آنکھ لگ جاتی ہے پھر جو آنکھ کھلتی ہے تو ناگہاں دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے پاس ہی کھڑی ہے اور اس پر اس کاسامان اور پانی موجود ہے۔ اس بندے کو اپنی سواری اور اپنے سامان کے ملنے سے(اتنی )خوشی ہو تی ہے (کہ خوشی میں بے اختیار  یہ کہہ بیٹھتا ہے کہ اللھم انت عبدی و انا ربک  اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں )اللہ تعالی کو مومن بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

قیامت اور آخرت کی تفصیلات

               قیامت کب آئے گی اس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے کسی اور کو نہیں

عن جابر قال سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول قبل أن یموت بشھر تسألونی عن الساعۃ وأنما علمھا عنداللّٰہ۔                              (مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبیﷺ   کی وفات سے ایک ماہ پیشتر آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم مجھ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہو(کہ وہ کب ہو گی۔تو جان لو کہ)اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے (کسی اور کو نہیں ہے )۔

               قیامت قریب ہے

عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعثت أنا والساعۃکھا تین۔                 (بخاری ومسلم)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ   نے ارشاد فرمایا کہ : ”میں بھیجا گیا ہوں اس حال میں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں (کہ ان کے درمیان کسی نئی اُمت اور کسی نئے نبی کا دور نہ ہو گا لہٰذا اس کو بہت دور سمجھ کر بے فکر نہ ہونا چاہیے )۔

عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مثل ھذہ الدنیا مثل ثوب شق من أولہ الی اٰخرہ فبقی متعلقا بخیط فی اٰخرہ فیوشک ذالک الخیط أن ینقطع۔                                                             ( بیہقی فی شعب الایمان )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ  نے ارشاد فرمایا اس دنیا کی مثال اس کپڑے کی سی ہے جو اول سے آخر تک پھاڑ دیا گیا اور  بس سرے پر ایک دھاگے سے وہ جڑا رہ گیا اور یہ آخری دھاگا بھی بس عنقریب ٹوٹنا ہی چاہتا ہے (او ر یہ آخری دھاگا میرا دور ہے کہ جس کے ختم ہونے پر قیامت قائم ہو گی )۔

عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیف أنعم وصاحب الصور قد التقمہ وأصغی سمعہ وحنٰی جبھتہ ینتظر متی یومر بالنفخ فقالوا یا رسول اللّٰہ وما تأمرنا ؟ قال قولوا حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل۔ (مشکٰوۃ)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ  نے فرمایا ”میں کیونکر خوش اور بے غم ہو کر رہ سکتا ہوں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ صور والا فرشتہ صور کو اپنے منہ میں لیے ہوئے ہے اور اپنا کان اس نے لگا رکھا ہے اور اس کی پیشانی خمیدہ اور جھکی ہوئی ہے وہ انتظار کر رہا ہے کہ کب اس کو (دنیا کو ختم کر دینے کے لیے )صور کے پھونک دینے کا حکم ہو (اور وہ پھونک دے۔یعنی جب مجھے اس واقعہ کا علم ہے تو میں کیسے اس دنیا میں اطمینان اور خوشی سے رہ سکتا ہوں )۔صحابہ  نے عرض کیا یا رسول اللہ ! تو ہمیں آپ کا کیا حکم ہے (ان کا مطلب یہ تھا کہ جب معاملہ اتنا خطرناک ہے تو ہماری رہنمائی فرمائیے کہ قیامت کی ہولناکیوں اور سختیوں سے بچنے کے لیے ہم کیا کریں ؟)آپ نے ارشاد فرمایا  : کہتے رہا کر و حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ  (ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور  وہی اچھا کارساز ہے)۔

               قیامت کی قریبی علامات

عن حذیفۃ بن أسید الغفاری قال اطلع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علینا ونحن نتذاکر فقال ما تذکر ون قالوا نذکر الساعۃ قال أنھا لن تقوم حتی تروا قبلھا  عشرآیات فذکرالدخان والدجال والدابۃ وطلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسی ابن مریم ویاجوج ماجوج وثلاثۃخسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزیرۃ العرب وآخرذالک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الی محشرہم۔                                                       (مسلم)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ   ہمارے پاس باہرسے تشریف لائے ہم آپس میں گفتگو کر رہے تھے آپ نے پوچھا کیا گفتگو کر رہے ہو ؟ ہم نے عرض کیا کہ قیامت کے متعلق باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت اس وقت تک ہرگز نہیں آ سکتی جب تک کہ اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو (جو وقوع میں ترتیب کے بغیر یوں ہیں۔(١) دھواں (٢)دجال (٣) دابۃ الارض (٤) مغرب کی جانب سے آفتاب کا طلوع (٥)عیسٰی بن مریم کااُترنا (٦) یاجوج ماجوج کا ظہور (٧، ٨، ٩) تین خسف یعنی زمین میں دھنسنے کے واقعات، ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک جزیرہ عرب میں (١٠)اور سب سے آخر میں وہ آگ جو یمن سے ظاہر ہو گی اور لوگوں کو ہنکا کر محشر (یعنی وہ زمین جس کے مقابلہ میں قیامت کے دن کی محشر کی زمین ہو گی۔اس )تک لے جائے گی۔

عن جابرقال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یکون فی آخر الزمان خلیفۃ یحثی المال حثیا ولا یعدہ عدا۔                                                (مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا آخری زمانہ میں ایک ایسے خلیفہ و حکمران (یعنی مہدی علیہ السلام )ہوں گے جو لپ بھر بھر کر مال تقسیم کریں گے اور اس کو شمار نہ کریں گے۔

               امام مہدی علیہ السلام

عن عبداللّٰہ بن مسعود قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاتذہب الدنیا حتٰی یملک العرب رجل من أہل بیتی یواطی اسمہ اسمی۔ (ترمذی و ابوداود) وفی روایۃ (یواطی اسم أبیہ اسم أبی )۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسو ل اللہﷺ  نے فرمایا دنیا ختم نہ ہو گی جب تک کہ میرے اہل بیت (یعنی میری اولاد )میں سے ایک شخص عرب (اور ان کے تابع تمام اہل اسلام)کا حکمران نہ بن جائے۔ اس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے والد کا نام میرے والد کے نام کے موافق ہو گا(مطلب یہ ہے کہ وہ بھی محمد بن عبداللہ ہو گا)۔

عن ام سلمۃ قالت سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول المھدی من عترتی من أولاد فاطمۃ۔                                                      (ابوداود)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے میں نے رسول اللہﷺ   کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مہد ی میری نسل میں (اور)فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے۔

عن أبی سعیدالخدری قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المہدی منی أجلی الجبہۃ أقنی الأنف یملا الأرض قسطا وعدلاً کما ملئت ظلما و جورا یملک سبع سنین۔                                                             (ابو داود)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ   نے فرمایا مہد ی میری نسل سے ہوں گے، چوڑی پیشانی والے اور بلند ناک والے ہوں گے۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح (پورا ) بھر دیں گے جس طرح وہ (پوری ) ظلم و زیادتی سے بھر گئی تھی۔(جنگوں سے فارغ ہو کر اسلام کے غلبہ کے ساتھ )وہ سات سال تک حکمرانی کریں گے۔

عن ابی سعید قال ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلائً یصیب ھذہ الأمۃ حتی لا یجد الرجل ملجأ یلجأ الیہ من الظلم فیبعث اللّٰہ رجلا من عترتی وأہل بیتی فیملأ بہ الارض قسطا وعدلاً کما ملئت ظلما وجورا یرضی عنہ ساکن السماء وساکن الارض لا تدع السماء من قطرھا شیئاً الا صبتہ مدراراً ولا تدع الأرض من نبا تھا شیأً الا اخرجتہ حتی یتمنی الاحیاء الاموات یعیش فی ذالک سبع سنین أوثمان سنین اوتسع سنین۔                                           (حاکم )

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ   نے (ظلم سے بھری ) ایک بڑی مصیبت و آزمائش کا ذکر کیا جو مسلمانوں پر آئے گی۔(اس دوران ظلم بہت ہو گا )یہاں تک کہ آدمی ظلم سے بچنے کے لیے کوئی پناہ نہ پائے گا۔تو (ان حالات میں ) اللہ تعالی میری نسل اور میرے اہلِ بیت میں سے ایک شخص کو اُ ٹھائیں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح (پورا ) بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و زیادتی سے (پوری ) بھر گئی تھی۔ (اس کی خدا خوفی، للہیت اور اچھے اخلاق و کردار کی وجہ سے ) آسمان والے (فرشتے) اور زمین والے (انسان و حیوان ) اس سے راضی ہوں گے۔ آسمان اپنی بارش کے کچھ قطرے (بھی ) نہ روکے گا مگر یہ کہ ان کو موسلادھار برسائے گا اور زمین اپنی تمام پیدا وار نکالے گی یہاں تک کہ زندہ لوگ تمنا کریں گے کہ کاش جو (لوگ ظلم کے زمانہ میں ) مر چکے وہ (اس امن و عیش کے زمانہ میں )زندہ ہوتے۔ وہ صاحب (حکمران بننے کے بعد)سات یا آٹھ یا نو سال زندہ رہیں گے۔

عن ام سلمۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال یکون اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجل من أہل المدینۃ ھارباً الی مکۃ فیأتیہ ناس من أہل مکۃ فیخرجونہ وہوکارہ فیبایعونہ بین الرکن والمقام ویبعث ألیہ البعث من الشام فیخسف بھم بالبیداء بین مکۃ والمدینۃ فاذا رأی الناس ذالک أتاہ أبدال الشام وعصائب أہل العراق فیبایعونہ ثم ینشأ رجل من قریش أخوالہ کلب فیبعث ألیھم بعثا فیظھرون علیھم و ذالک بعث کلب ویعمل فی الناس بسنۃ نبیھم ویلقی الأسلام بجرانہ فی الأرض فیلبث سبع سنین ثم یتو فی ویصلی علیہ المسلمون۔(ابوداود)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبیﷺ  نے فرمایا (مسلمانوں کے ) ایک حکمران کی وفات پر (اصحاب رائے لوگوں میں ) بڑا اختلاف واقع ہو گا (کہ اب کس کو حاکم مقرر کیا جائے ان حالات میں )مدینہ والوں میں سے ایک صاحب ( اس ڈر سے کہ کہیں ان پر حکمرانی کا بار نہ ڈال دیا جائے ) مکہ مکرمہ کی طرف جائیں گے ( لیکن ان کی شخصیت اور  ان کے جوہر چھپے نہ رہ سکیں گے اس لیے)مکہ والوں میں سے کچھ لوگ ان کے پا س آئیں گے اور ان کی ناگواری کے باوجود ان کو ان کے گھر سے نکالیں گے۔اور (مسجد حرام میں لے جا کر ) حجر اسوداور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے (اور ان کو اپنا حکمران بنائیں گے یہ امام مہدی علیہ السلام ہوں گے۔آس پاس کے حکمران اِن کی حکمرانی اور امامت کو پسند نہ کریں گے )اور شام سے ان کی طرف ( ان سے لڑنے کے لیے )ایک لشکر بھیجا جائے گا جس کو( امام مہدی علیہ السلام کی تائید میں )مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام بیداء میں زمین میں دھنسا دیا جائے گا جب لوگ ان کی یہ تائید دیکھیں گے تو( ہر طرف سے لوگ ان کو اپنے لیے نجات دہندہ سمجھ کر ان کے پاس آئیں گے یہاں تک کہ) شام کے ابدال اور عراق کے اولیا ء ان کے پاس آئیں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ پھر قریش میں سے ایک شخص کی جس کی ماں قبیلہ کلب کی ہو گی اُٹھے گا اور امام مہدی علیہ السلام کے حما یتیوں کے خلاف ایک کلبی لشکر بھیجے گا۔امام مہدی کے لوگ اس لشکر پر غالب  ئیں گے وہ نبیﷺ   کے طریقے کے مطابق حکمرانی کریں گے اور اسلام زمین پر اپنی گردن ڈال دے گا ( یعنی پوری زمین میں کامل اسلام کا نفاذ ہو گا )وہ (حاکم ہونے کے  بعد ) سات سال تک رہیں گے پھر وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔

٭٭٭

ماخذ:

انوار مدینہ، لاہور کے شمارے

تشکر: اسد جن سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید