FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

دکن کی چند ہستیاں

(تنقیدی مضامین )

 

 

               رؤف خیر

 

email: raoofkhair@gmail.com

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

میرے فرزند رافف خیری کے بیٹے

 

سعد محمد خیری

 

کے نام

 

 

 

 

 

 

ہمارا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہو گا

ہماری خالی جگہ کوئی بھی نہیں بھرتا

 

معاف کرنا یہ خاکہ کہاں اُبھر پاتا

اگر یہ دستِ  ہنر رنگ ہی نہیں بھرتا

رؤف خیر

 

 

 

حرفِ  خیر

 

دکن اردو کا مرکز شروع ہی سے رہا ہے۔ اس کی اپنی حیثیت کا احساس سب کو ہے۔    اہلِ دکن نے اصحاب شمال کی بڑی قدر و منزلت کی جنہوں نے اربابِ  دکن کو کبھی          ’’اصحاب الیمین‘‘ نہیں سمجھا۔ مگر یہاں چند ایسی شخصیتیں ضرور ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو  منوا کر چھوڑا۔ ان میں سے بھی چند منتخب ہستیوں کا میں نے کہیں تفصیلی کہیں اجمالی تذکرہ کیا ہے۔ ظاہر ہے سب نابغۂ روزگار قلم کاروں کے شاہ کاروں کا ذکر ایک ضخیم تذکرے کا متقاضی ہوتا۔ ریسرچ سکالر ز مختلف یونیورسٹیوں میں اپنی اپنی پسندیدہ شخصیت پر کام کر رہے ہیں۔

ویسے میں جانتا ہوں کہ دکن کا مطلب صرف حیدرآباد نہیں ہے۔ جنوبی ہند کا پورا علاقہ کئی قابل شخصیتوں سے بھرا ہوا ہے۔ ٹامل ناڈو کی ہستیوں پر خاص طور پر خواجہ ادب نواز علیم صبا نویدی نے بہت کچھ لکھا ہے۔

یہاں کرناٹک کے دو  اہم صاحبانِ قلم کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کی میں نے کوشش کی ہے۔ مترجمِ اقبال جناب سید احمد ایثار اورسری انل ٹھکر۔ زیادہ تر میں نے اپنے آپ کو حیدرآباد تک محدود رکھا ہے تاکہ یہاں کے ادبی ماحول کا ایک مختصر ساسہی جائزہ اردو دنیا کے سامنے پیش ہو۔ حیدرآباد میں قلندر مزاج گوشہ نشین فن کار بڑی بے نیازانہ زندگی گزار کر رخصت ہو گئے۔ انھیں بالکل بے نام و نشان ہونے سے بچانے کی میں نے کوشش کی ہے تاکہ ادب کی تاریخ میں ان کا ذکر بھی آ جائے۔

میں نے اپنی پسند سے چند ہستیوں کا انتخاب کیا اور ان پر اپنے مخصوص اسلوب میں لکھا ہے۔ جو نام چھوٹ گئے ہیں ان پر کوئی اور لکھے۔

۸ مارچ ۲۰۱۴ء                                                    رؤف خیر

 

 

 

خورشید احمد جامی، فن اور شخصیت

 

فارسی میں جامی کا مطلب ہوتا ہے مولانا عبدالرحمن جامی اور اردو میں جامی سے مراد ہے خورشید احمد جامی۔ باقی جامیوں کو اپنے سابقوں اور لاحقوں کے بغیر نہیں جانا جا سکتا۔ دکن کی سرزمین نے کئی جیالوں کو جنم دیا ہے جنھوں نے دکن کو بات میں آسماں کر دیا۔ قلی قطب شاہ، ملا وجہی، ولی دکنی، نصیر الدین ہاشمی، ڈاکٹر زور، صفی اورنگ آبادی جیسے تخلیق کار جہاں دکن کی آبرو بنے رہے ہیں وہیں جامی، مخدوم، اریب بھی دکن کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔

جامی کا رنگ بالکل انوکھا، دلچسپ اور چونکا دینے والا ہے۔ شعر یا تو کبھی اپنے معنوی حسن کی وجہ سے اور کبھی لفظیات کے استعمال کے سلیقے سے متاثر کرتا ہے۔ کسی گہر ے فلسفیانہ خیال کو بہت سیدھے سادے الفاظ میں بیان کر دیا جاتا ہے تو کبھی بہت معمولی سی بات کو خوبصورت الفاظ میں پیش کر کے اسے غیر معمولی حسن عطا کیا جاتا ہے۔ خورشید احمد جامی میں یہ دونوں ہی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ سامنے کے الفاظ میں یہ کہہ کر کہ۔

لے کے پھرتی ہیں آندھیاں جس کو

زندگی ہے وہ برگِ  آوارہ

جامی نے بہت کچھ کہہ دیا۔ سوچتے جائیے اور لطف لیتے جائیے اور کبھی یہ کہہ کر کہ۔

یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا

ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے

جامی نے زندگی کے چھلا وا پن کو بڑا ہی خوبصورت اظہار بخشا۔ معمولی سی معمولی بات بھی جامی کے منہ سے غیر معمولی لگتی ہے۔

کل ہم وہاں سے آ کے یہی سوچتے رہے

آخر ہر ایک چہرے پہ کتنے نقاب تھے

 

اس طرح پھانسیوں نے پکار ا ہمیں کہ ہم

جیسے کوئی رسول تھے اہل کتاب تھے

جامی ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئے اور۱۹۵۸ء تک وہ روایتی شاعری کرتے رہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’شرارے ‘‘ دیکھئے تو ایسا لگتا ہے کوئی ملت کا ہمدرد مسلم لیگی نوجوان ہے جو انتشار و افتراق میں شیرازہ بندی کی دعوت دے رہا ہے۔ اسی روایتی انداز سخن کا اظہار ان کی دیگر کتابوں میں بھی پایا جاتا تھا جیسے ’’شمع حیات ‘‘، ’’منزل کی طرف ‘‘، ’’نشان راہ ‘‘ وغیرہ۔ ان مجموعوں کا شاعر وہ تھا جسے خود جامی نے رد کر دیا اور اک نئی طرز کی بنیاد رکھی جو قبولیت عام و زندگی دوام حاصل کر گئی۔ گویا وہ جامی جو ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوا تھا وہ ۱۹۵۸ء میں روپ بدل گیا اور ۱۹۵۸ء سے جو شناخت جامی نے بنائی وہ ایسی تھی کہ نئی نسل کے کئی شعراء ان کے آئینے میں آپنے آپ کو بنانے سنوار نے لگے۔ علامہ اقبال کی طرح جامی نے بھی ہمیشہ نونہالوں کو اہمیت دی۔ چنانچہ بچوں کے لئے انہوں نے چھوٹی چھوٹی معنی خیز نظمیں بھی لکھیں جو ’’تاروں کی دنیا ‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ یہ نظمیں پیام تعلیم ’’کھلونا‘‘، ’’ٹافی ‘‘ وغیرہ ماہناموں میں شائع ہو کر مقبول ہوئیں۔ جامی صاحب نے نثر میں بچوں کے لئے ’’ہمارے نہرو‘‘ لکھ کر اپنی نثر کا سکہ بھی بٹھا دیا۔ ویسے جامی ہمیشہ معاوضتاً لکھا کرتے تھے۔ جن رسالوں سے ان کو آمدنی کی توقع ہوتی ان کے لیے وہ کچھ بھی لکھ سکتے تھے حتیٰ کہ بعض رئیس زادے ان کی غزلوں کے منہ مانگے دام دے کر مشاعرے لوٹتے پھرتے تھے چند ٹکوں کی خاطر جامی نے کھرا سونا متشاعروں کے حوالے کر دیا تھا۔ اگر وہ غزلیں جامیؔ کے نام سے شائع ہوتیں تو آج جامیؔ  کا نام چمکاتیں جبکہ ان مشاعروں کے ساتھ خود بھی مٹی کے حوالے ہو گئیں۔ شاید آپ کو یہ جان کہ حیرت ہو کہ جامی نے جاسوسی ناول بھی لکھے تھے ابن صفی کے آگے کس کا چراغ جلا ہے جو ان کا جلتا اور پھر ابن صفی کو الہ آباد کے ایک ادارے ’’جاسوسی دنیا ‘‘ کی پشت پناہی حاصل تھی جو باضابطہ ان سے ہر ماہ ناول لکھوایا کرتا تھا جامی کو یہ سہولت حاصل نہ تھی اس لئے ان کی ناولیں چل نہ سکیں۔ جامی چونکہ پیشہ ور شاعر و ادیب تھے اس لیے ہر وہ چیز لکھنے پر آمادہ تھے جن سے انھیں چار پیسے مل سکتے ہوں۔ کبھی اپنے نام سے کبھی کسی اور کے نام سے لکھنے میں بھی انہیں عار نہ تھا۔ اردو ادب میں گھوسٹ رائٹنگ (Ghost Writing)بہت ہے۔ مصحفی ہوں کہ درگا سہائے سرور، نریش کمار شاد ہوں کہ جانثار اختر سبھی حالات کے مارے تھے۔ جامی اگر یہ سب کرتے تھے تو کوئی نئی بات کیا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ پیشہ ور انہ مجبوری کے باوجود جامی نے خود کو اپنے لہجے اور اپنے شعر سے منوایا بھی۔ ہندوستان و پاکستان میں نئی غزل کے اولین معماروں میں جامی کا نام لینا ناگزیر ہے۔ جامی نے غزل کو جو رنگ روپ دیا وہ روایتی اسلوب سے یکسر جدا گانہ ہونے کی وجہ سے پہلی نظر میں لبھاتا ہے اور متوجہ کرتا ہے۔

بہت اداس بہت منفعل نظر آئی

نگاہ چوم کے رخسار شادمانی کو

 

دیار شعر میں جامی قبول کر نہ سکا

مرا مذاق روایت کی حکمرانی کو

 

اے انتظار صبح تمنا یہ کیا ہوا

آتا ہے اب خیال بھی تیرا تھکا ہوا

 

پہچان بھی سکی نہ مری زندگی مجھے

اتنی رواروی میں کہیں سامنا ہوا

 

ہو کے انجان کچھ اتنے تیرے غم ملتے ہیں

جیسے مفلس سے کبھی اہل کرم ملتے ہیں

 

سنا کہ اب بھی سرشام وہ جلاتے ہیں

اداسیوں کے دیئے منتظر نگاہوں میں

 

غم حیات نے دامن پکڑ لیا ورنہ

بڑے حسین بلاوے تھے ان نگاہوں میں

 

کہیں قریب کہیں دور ہو گئے جامی

وہ زندگی کی طرح زندگی کی راہوں میں ؎

جامی صاحب قافیہ و ردیف کو فنکارانہ برت کر نہیں چونکا تے بلکہ مفہوم کی گہرائی اور لفظیات کی حسن کاری سے قاری کا دل موہ لیتے ہیں سامع کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا ہے کہ جامی مشاعروں کے شاعر کبھی نہیں رہے وہ بڑے سے بڑے مشاعرے میں بھی شریک ہونا پسند نہیں کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ تخلیق صرف کاغذ پر بول اٹھے انھوں نے سیدھی سادی ردیفوں اور عام قوافی میں ایسے نادر اچھوتے خیال دل لبھانے والے انداز میں باندھے ہیں کہ یہ سب چیزیں ان کا سلوب ان کی پہچان بن گئیں

نشاطِ غم بھی نہیں نغمہ وفا بھی نہیں

گزر رہا ہوں کہاں سے مجھے پتہ بھی نہیں

 

جلا ہے کس کا لہو رات بھر چراغوں میں

غرورِ حسنِ  سحر اب پہ پوچھتا بھی نہیں

 

پھولوں کے دیئے سانولی شاموں کے دھندلکے

مکتوب چلے آئے ہیں اس جان غزل کے

 

فرصت نہیں بہ خلوت گیسوئے عنبریں

کہہ د و غم حیات سے وہ پھر کبھی ملے

 

کچھ دور آؤ موت کے ہمراہ بھی چلیں

ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی ملے

 

جامی مرے خلوص نے سینے میں رکھ لیے

یارانِ  خود فریب سے جو زخم بھی ملے

 

جامی صاحب کا پہلا مجموعہ ’’رخسار سحر‘‘ شائع ہوا تو اردو ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ نئی نسل جو ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی کے اثر سے نکل نہیں پائی تھی اب جامی کے اسلوب کی دیوانی ہو گئی۔ کئی قدیم شاعر چپکے سے اپنا چولا بدلنے لگے۔ جامی کے بعض ہم عمر و ہمعصر شاعر تو جامی کے مصرعے کے مصرعے گلانے لگ گئے توجہ دلائی گئی تو جلالی و جلیلی نگاہ قہر آلود سے دیکھنے لگے کچھ لوگ جامی کی نقل میں حد سے گزر گئے۔ اس طرح جامی ذہنوں پر مسلط ہو جانے والا نام بن گیا۔ ظاہر ہے جامی کے خوشہ چیں اور نقال جامی کا رنگ نہ لا سکے۔ کچھ لوگوں نے ان کے تخلص پر تک ہاتھ ڈالا مگر زندگی بھر جامی کی طرح ایک شعر نہ کہہ سکے :۔

یہ درد و غم کا اداس موسم یہ وقت کے اجنبی قرینے

نہ یاد محبوب کی گھٹا ہے نہ مست و ساغر بہ کف مہینے

 

نشاط کا دے چکی ہیں دھوکہ کبھی کبھی مئے کدے کی شامیں

کہیں کہیں تشنگی رکی ہے نئی امیدوں کا زہر پینے

 

نہ جانے کتنے جواں ارادوں کا آئینہ بن گئے ہیں جامی

دیار لوح و قلم میں الفاظ کے یہ ترشے ہوئے نگینے

 

جامی کی مخصوص لفظیات تھیں جن کی وجہ سے جامی پہچانے جاتے تھے جیسے دیوار، صلیب، صبح، شام، غم حیات، صحرا، فیصل، اندھیرا، اجالا، سورج، ریت، تنہائی، دھوپ، چھاؤں ، زہر، گردش ایام، وغیرہ وغیرہ۔ جامی نے ان الفاظ کو اس کثرت سے برتا کہ اب یہ الفاظ ترقی پسندوں کی علائم کی طرح بے روح بن کر رہ گئے خود جامی ان الفاظ کے اسیر ہو کر رہ گئے تھے۔

آپ کے شہر میں اب کے تو بڑی رونق تھی

لوگ ہاتھوں میں صلیبوں کو لئے چلتے تھے

 

مری سوچوں کی دیواروں پہ تنہائی کے لمحوں نے

جلی الفاظ میں جیسے تمہارا نام لکھا ہے

 

اندھیروں میں لہو کے بیج بو کر

اجالو کی نئی فصلیں اگاؤ

 

غم حیات مرے ساتھ ساتھ ہی رہنا

پیمبری سے ترا سلسلہ ملا دوں گا

 

اک عمر ساتھ ساتھ مرے زندگی رہی

لیکن کسی بخیل کی دولت بنی رہی

 

یہ بھی درست ہے کہ تجھے میں بھلا چکا

بہ بھی غلط نہیں کہ مری زندگی ہے تو

 

معیار فن کا قرض چکانے کے واسطے

جامی دیا ہے میں نے شب و روز کا لہو

 

جس طرف مجمع احباب کھڑا تھا جامی

ہم پہ آئے تو اسی سمت سے پتھر آئے

 

عروس سخن کے سوا جامی صاحب نے کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا گوارانہ کیا اور یوں ہی تجر د کی زندگی گزار دی لیکن کسی کے ہجر کا کرب و ہ زندگی بھر جھیلتے رہے ان کے اشعار میں جس درد نے دنیا آباد کر رکھی ہے وہ جامی کا اسلوب ان کا شناس نامہ ہے۔

 

چند جلتے ہوئے خوابوں کے خریدار بنے

ہم بنے بھی تو نئے دور کے فنکار بنے

 

کسی کو آج نہیں کل بتاؤں گا جامی

قلم کی آگ میں خوابوں کی دلکشی کیوں ہے

 

’’رخسار سحر‘‘ ہو کہ ’’برگ آوارہ ‘‘ اور ’’یاد کی خوشبو ‘‘ جامی کا ہر مجموعہ مقبول خاص و عام رہا۔ آخری عمر میں وہ بعض مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔ عوام ان کے اشعار کی جدت اور بیان کی ندرت کے دیوانے ہو گئے تھے۔ جامی کے اشعار تو ’’خواص پسند ‘‘ کب کے ہوچکے تھے۔ جامی چھپنے چھپانے میں زیادہ یقین رکھتے تھے۔ ہند و پاک کے تقریباً سبھی معیار ی سائل میں ان کی غزلیں عزت سے شائع کی جاتی تھیں۔

سلیمان اریب کی طرح خورشید احمد جامی بھی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر سن ۱۹۷۰ء میں دار فانی سے کوچ کر گئے اور یاد کی خوشبو سے بھر ا برگ آوارہ چھوڑ گئے جو رخسار سحر کی طرح آج بھی چمکتا رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

کمان ابروئے خوباں کا بانکپن ہے غزل

 

ممالک محروسۂ اردو کے باغی شاعر مخدوم نے جب یہ شعر کہا کہ۔

کمان ابروے خوباں کا بانکپن ہے غزل

تمام رات غزل گائیں دید یار کریں

تو اس طرح انہوں نے نظم کے بالمقابل غزل کی قوت کا اعتراف کیا۔ اور پھر بطور خراج جو چند غزلیں پیش کیں وہ ان کو بحیثیت غزل گو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ غزل کی طاقت کا انداز ہ اس سے لگائیے کہ اقبال بھی اگر زندہ ہیں تو انہیں تخلیقات سے جہاں انہوں نے نظم و غزل کا فرق مٹا دیا۔ ’’مسجد قرطبہ‘‘ اور ذوق شوق جیسی نظموں کے اشعار بھی غزل کی اکائیوں کی طرح ارباب ذوق کو یاد ہیں۔ اور جس کسی نے غزل کو حقیر جان کر اس سے روگردانی کی وہ بدنصیب ’’بے ادب ‘‘ ہی ٹھیرا۔ محض نظم گوئی پر تکیہ کرنے والے شعر ا تو وہ حنوط شدہ لاشیں ہیں جن کا مسالہ کچھ ہی دن میں دم دے جاتا ہے۔ چنانچہ اختر شیرانی، سلام مچھلی شہری، میرا جی، جوش ملیح، اختر الایمان، آبادی، وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کچھ  ن۔ م  نظم گو شعرا کا کریا کرم ہو گیا۔ آتش ادب میں کو د پڑنے کے لئے بھی ابراہیمی عشق چاہیئے اور یہ راز غزل کے دو مصرعوں میں پوشیدہ ہے۔ شعر کا ایجاز دراصل وہ اعجاز ہے جس کی مسیحائی میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ میں یہ بات اتنے یقین سے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ غزل کے نہایت کم سخن شاعر اصغر گونڈوی کے شعر

سو با ر تر ا دامن ہاتھوں میں مرے آیا

جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں تھا

ہر چند کے آگے جوش جیسے بسیار گو کی پٹری چمک رہی تھی۔ گاڑی گزر چکی تھی حالانکہ جوش نظم کا بڑا شاعر ہے۔ جس کے طنز کی تاب اردو شاعری نہیں لا سکتی۔

دست خود و گریبان خود کی بہ نسبت جنگل کی شہزادی کے دامن پر ہاتھ ڈالنا کسی مرد افگن عشق ہی کا کام ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آدمی جان کی پرواہ نہیں کرتا۔ گاڑیوں کا خیال کون کرتا ہے۔ غزل میں وہ جاذبیت ہے جو نام کے فاصلوں سے لیکر کام کے کاملوں تک سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ عام مشاعروں سے لے کر مخصوص محفلوں تک ہر جگہ غزل ہی حکمران ہے اور یہی ایک ایسا سکۂ رائج الوقت ہے جو قلی قطب شاہ کے خزانے میں ’’پیا باج پیالہ پیا جائے نا ‘‘ ہے تو مخدوم کے پاس :

خلوت رنگیں میں بھی ڈستا ہے یوں دنیا کا حال

جیسے پیتے وقت بھوکے بال بچوں کا خیال

یا پھر ایک شعر کا یہ آخری ٹکڑا دیکھئے ’’۔ آنکھ لینے لگی ہچکیاں دوستو ‘‘ مخدوم کی غزل میں لفظیات کا ایسا خوش آہنگ استعمال ہے کہ تغزل کی اک عجیب ساحرانہ کیفیت اس میں آ گئی ہے۔

اس شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو

کم کم ہی سہی نسبت پیمانہ رہی ہے

غالب تو بادہ و پیمانہ کے اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ مشاہدہ حق کی گفتگو کے لئے بھی انہیں ان سہاروں کی ضرورت تھی۔ اور مخدوم کے پاس یہ سہارے بجائے خود یک گونہ بے خودی کے بہانے ہیں

 

سانس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانوں کی

کوئی لیتا تھا ترا نام وفا آخر شب

 

کھٹکھٹا جاتا ہے زنجیر در مئے خانہ

کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخر شب

 

مخدوم کے پاس الفاظ اشرفیوں کی صورت میں ہیں جن کی قیمت کسی عہد میں بھی کم نہیں ہوتی جوش ملیح آبادی نے اشرفیوں کو بھی کوڑیوں کی طرح لٹایا تھا مثلاً تنہا فن ہا جیسے ثقیل قافیوں میں رباعی کہتے ہوئے جوش جیسے لفظوں پر مکمل دسترس رکھنے والے شاعر ہی سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ یہ مصرعے بھی رکھ دیں گے کہ :

ٹھٹھری ہوئی ساغر میں نظر آتی ہے

صہبا رضی اللہ تعالی عنہا

اور مخدوم کے مزاج کا تغزل ان سے ٹھیٹ غزل کا یہ شعر کہلواتا ہے کہ :

آج تو تلخی دوراں بھی بہت ہلکی

گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں

اردو شاعری میں جو الفاظ کلیثرے Clicheکا درجہ اختیار کر چکے ہیں وہ بھی مخدوم کے لہجے میں بھلے سے لگتے ہیں۔ جیسے:

 

ہجوم بادہ و گل میں ہجوم یاراں میں

کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے

 

بجا رہا  تھا کہیں دور کوئی شہنائی

اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب نا تمام لیے

 

مخدوم محی الدین نے اپنے دوست سبط حسن کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔ ’’ہمارے بعض اسلاف شعر ا باوجود ایک ہی بات کو دہرانے کے زندہ رہے۔ ان کی بقا کا گر شاید ان کا انداز بیان تھا جس میں تازگی اور نیا پن ہوا کرتا تھا۔ مگر اب خیال کی تبدیلی سے دوسرے اور پیچیدہ سوال ادب میں پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔

(مطبوعہ ماہنامہ ’’صبا ‘‘ مخدوم نمبر شمارہ ۱۰ء ۱۱، ۱۲۔ ۱۹۶۶ء)

اس طرح مخدوم نے خود سلیقہ اظہار پر زور دیا ہے جو شاعر کو زندہ رکھتا ہے۔ بات بھلے ہی دہرائی ہوئی سہی کبھی کبھی محض خوش سلیقگی کی وجہ سے لطف دے جاتی ہے۔ اسلوب کا یہی فرق شعرا کے لہجے کے تعین اور فرق مراتب میں مدد دیتا ہے۔

ذیل کے ان اشعار کی تازگی دیکھئے ایسا لگتا ہے انیس و دبیر دونوں ہی یونین کا ربائیڈ گیس کے حادثے کے وقت بھوپال میں تھے۔ البتہ دونوں کے اسلوب کا فرق ان کے اشعار سے نمایاں ہے۔

یوں روح کے طائر تن و سرچھوڑ کے بھاگے

جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے

انیس کے اسی خیال کو دبیر نے اپنے انداز میں یوں بیان کیا ہے۔

یوں جسم رعشہ دار سے جانیں ہوئیں رواں

جیسے مکاں سے زلزلے میں صاحب مکاں

حالانکہ دبیر کے اس شعر میں انفیائی آوازوں کی وجہ سے ایک صوتی خوش آہنگی پائی جاتی ہے۔ مگر زبان و بیاں کی غلطیاں بھی ہیں جیسے جانیں (جمع) کے بجائے جان (واحد) کے استعمال کا محل تھا (جسم رعشہ دار کی رعایت سے) یا پھر پورے شعر میں صیغۂ جمع (اجسام رعشہ دار) کا خیال رکھا جاتا۔ اور زلزلے کا ’’ے‘‘ بھی دب رہا ہے۔

مخدوم کے ہاں عموماً مصرعے دبتے نہیں بلکہ خوش اسلوبی کے ساتھ بھرپور ادائیگی کی مثال ہیں۔ الا ماشاء اللہ جیسے۔

گلوئے یزداں میں نوک سناں بھی ٹوٹی ہے

کشا کش دل پیغمبراں بھی ٹوٹی ہے

اس شعر میں ’’یزداں ‘‘ کے گلے میں تو نوک سناں ٹوٹ ہی رہی ہے خود ’’یزداں ‘‘ بھی مخدوم کے گلے میں پھنس رہا ہے۔ (صرف ’’یزد‘‘ ادا ہو رہا ہے )اور بقول مخدوم۔۔

’’خیال کی تبدیلی سے دوسرے اور پیچیدہ سوال ادب میں پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں ‘‘

مخدوم کے ہاں عصری حسیت تغزل کی چاشنی کے ساتھ ہے۔ اور یہی مخدوم کی مقبولیت کا سبب بھی ہے۔ ترقی پسندوں نے جبریہ طور پر غزل کے بالمقابل نظم کو اپنانے کی شعوری کوشش کی مگر جان جاں آخر کا ر غزل ہی کو سپرد کرنی پڑی۔ مجاز فیض اور جاں نثار اختر آج اگر سرخ رو ہیں بھی تو محض غزل کی وجہ سے۔ یہی حال مخدوم کا ہے اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان شاعروں کی نظمیہ شاعری معمولی یا غیر اہم ہے بلکہ غزل کی وجہ سے ان کے چہرے اجاگر ہوئے ہیں۔ نظم ان کی پہچان قائم کرنے میں ناکام رہی مگر غزل نے یہ کام کر دکھا یا۔ بقول خیر:

مجروح کو غزل نے گلے سے لگا لیا

نظموں کے بیچ اختر الایمان پھنس گئے

مخدوم نے اپنی زندگی کے آخری دہے میں غزل کہنا شروع کی تھی۔ ان غزلوں میں جو رومان ہے وہ ان کی نظموں میں بھی جاری و ساری ہے جیسے آج کی رات نہ جا بھاگ متی جز تری آنکھوں کے ملاقات وغیرہ میں تغزل ہے اور

ع         خدا بھی مسکر ا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے (طور)

ع         وہ روپ ،رنگ ، راگ کا پیام لے کے آگیا                  (رقص)

ع         رات کی شہ رگوں سے اچھلتا لہو، جوئے خوں بن گیا     (چاند تاروں کا بن )

اک چمبیلی کے منڈدے تلے

میکدے سے ذرا دور اس موڑ پر

دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے۔۔                         (چارہ گر)

ع         سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے          (انتظار )

جیسے مصرعے مخدوم کے مزاج میں تغزل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

لفظ تو مفہوم کی ادائیگی کا اک بہانہ ہے ورنہ لفظ میں واقعی جان تو سلیقہ اظہار سے پڑتی ہے۔ جیسے ’’لپوٹ ‘‘ دکنی زبان کا منفی انداز کا اک ایسا لفظ ہے جو دغا باز اور بے ایمان آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔ مگر ’’بساط رقص‘‘ میں شامل مضمون ’’من ترا حاجی بگویم ‘‘ میں ڈاکٹر زینت ساجدہ نے مخدوم کے لئے جس پیار سے لپوٹ کا لفظ استعمال کیا ہے اس لفظ میں تغزل کی اک دنیا رکھ دی ہے۔ جس پر ہزار دیوان قربان کئے جا سکتے ہیں۔ نفی کو اثبات سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ رمز ا کنایہ استعار ہ علامت کا استعمال یہی کچھ تو شاعری ہے۔ ہنر لفظوں سے نہیں بلکہ لفظوں کے استعمال کے سلیقے ے کھلتا ہے۔ رات پھولوں کی بات پھولوں کی یا کائنات پھولوں کی کہہ دینے سے تغزل پیدا نہیں ہو جاتا۔

مخدوم نے بڑی مترنم بحریں استعمال کی ہیں جو بجائے خود غنائیت کی ضامن ہیں مگر اس میں شک نہیں مخدوم کی غزل میں کہیں کہیں کھر درا پن بھی در آیا ہے جیسے :

سیاست دل آئینہ چور چور تو تھی

سیاست دل آہن گراں بھی ٹوٹی ہے

 

کیسے ہیں خانقاہ میں ارباب خانقاہ

کس حال میں ہے پیر مغاں دیکھتے چلیں

 

یہ شعریت سے عاری لہجہ یا  کھردرا پن غزل کے شایان شان نہ سہی مگر مخدوم کی زندگی سے اس کا گہرا ربط رہا ہے۔ اور سچا شاعر تو وہی ہے جو شعر میں بھی زندگی کی کڑوی سچاؤں کے اظہار کا سلیقہ رکھتا ہو۔

ایک انٹرویو میں نریش کمار شاد کے سوال کے جواب میں مخدوم نے کہا ’’سو فیصدی کسی تحریک سے وابسطہ ہونا قطعی ضروری نہیں لیکن ہر ادیب کے لیے زندگی کے بارے میں کوئی واضح نظریہ رکھنا ضروری ہے اسے سماجی طور پر با شعور ہونا چاہیے ورنہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے باوجود  ن۔ م راشد کی طرح ’’انتقام ‘‘ جیسی گندی نظمیں لکھنے لگے گا۔ (مخدوم نمبر ’’صبا‘‘ اکتوبر تاڈسمبر ۱۹۶۶ء)

۴، فروری ۱۹۰۸ء کو پیدا ہونے والے مخدوم کا ۲۵، اگست ۱۹۶۹ء کو دہلی میں انتقال ہوا ۲۶کو میت حیدرآباد لائی گئی۔ امام مسجد مالا کنٹہ نے نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ حبیب الرحمن شیروانی (بانی اردو آرٹس کالج ) نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ بعض مسلمان بھی غضب کرتے ہیں خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر انسانوں کو جنت و جہنم کے پروانے تقیسم کرتے ہیں۔

شاذ تمکنت نے لکھا ہے کہ مخدوم کے مزار پر جو کتبہ ہے اس پر ’’پشت پناہ غربا‘‘ درج ہے جس سے ان کی تاریخ وفات نکلتی ہے حالانکہ پشت پناہ غربا کے اعداد ۱۹۶۳ء ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

سلیمان اریب

 

حیدرآباد سے باہر بھی چند شاعروں کو بہت زیادہ جانا جاتا ہے جیسے مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، خورشید احمد جامی، شاذ تمکنت اور وحید اختر۔ ان میں سلیمان اریب کی مقبولیت کے کئی اسباب تھے۔ وہ ماہنامہ ’’صبا‘‘ جیسے رسالے کے مالک کل و مدیر اعلیٰ تھے جس نے مختلف موضوعات پر مباحث چھیڑ کر ادب میں گرما گرمی پیدا کر رکھی تھی۔ سوال و جواب اور جواب الجواب سے ادیبوں اور شاعروں میں زندگی کی گہما گہمی آئی ہوئی تھی۔ سلیمان اریب بظاہر غیر جانب دارانہ رویہ اپنا کر ہر قسم کی رائے چھاپ کر بحث و مباحثہ کے مزے لیتے تھے اور لینے دیتے تھے۔

سلیمان اریب منفرد لہجے کے شاعر تھے۔ مشاعروں میں جھومتے ہوئے آتے تھے اور مخصوص ترنگ میں شعر سنا کر مشاعرہ لوٹتے یا خود لٹ جاتے تھے۔

و ہ پارٹی سے وابستگی اور ناوابستگی دونوں صورتوں میں ترقی پسند رہے اور ترقی پسندوں کا طریقۂ کار رہا ہے کہ اپنے معمولی سے معمولی شاعر کو بھی وہ خوب اچھالتے ہیں۔ محفلیں برپا کرنا اور انہیں درہم برہم کرنا اریب کو خوب آتا تھا۔ سلیمان اریب جو والد کی طرف سے عرب اور ماں کی طرف سے خان تھے، سنجید گی و غیر سنجید گی کا امتزاج تھے۔ ۵، اپریل ۱۹۲۲ء کو دکن میں آنکھیں کھولنے والے اریب قلی قطب شاہ کی طرح صرف سینتا لیس بہاریں ہی دیکھ سکے جس میں ان کے اپنے مزاج کے لا ابالی پن کا کافی دخل رہا ہے۔ بقول خیرؔ:

ہم خود ہی اپنے آپ سے کھلواڑ کر گئے

ورنہ ہمیں جو درد ملے لا دوانہ تھے

اردو ادب میں ترقی پسندی کا دور ایک ایسا دور گزرا ہے جس میں سٹار ادیب یا سٹار شاعر ہوا کرتے تھے جیسے ساحر لدھیانوی، کرشن چندر، جاں نثار ا ختر وغیرہ۔ لڑکے تو ان کے دیوانے تھے ہی لڑکیاں بھی ان پر جان دیا کرتی تھیں اریب بھی ایک ایسے ہی سٹار شاعر تھے۔ ۴۴۔ ۱۹۴۳ء سے شعر کہنے والے اریب اپنے اسلوب اور شعر پڑھنے کے اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے مقبولیت کی معراج پر تھے۔ صفیہ نامی ایک اچھی خاصی سنجیدہ پڑھی لکھی لڑکی اریب کو پسند کرنے لگی اور بالآخر ۱۹۵۷ء میں دونوں نے شادی کر لی اور پھر صفیہ اریب کے لئے مارا ہوا شکار ہو کر رہ گئیں۔۔۔

ہنسی ہنسی میں صفیہ نے ایک دن یہ کہا

اریب مجھ سے فقط اس لیے نہ اکڑو تم

کہ میں تمہارے لیے اب نہیں ہوں محبوبہ

تمہاری بیوی ہوں مارا ہوا شکار ہوں میں

میں تلخ نوش ہوں پھر بھی یہ گھونٹ پی نہ سکا

(مارا ہوا شکار)

ابتداء میں اریب نے سیاسی قسم کی نظمیں لکھیں جن میں وہی نعرہ بازی تھی جو اس دور کا وصف خاص تھا۔ پھر انہوں نے کمبل کو اور کمبل نے انہیں بھی چھوڑ دیا۔ اب وہ کسی منشور کے پابند نہیں رہ گئے۔ یوں اریب خود آگہی اور خود گوئی کی منزل میں آ گئے۔ اب وہ شعر لکھتے نہیں تھے بلکہ شعر خود ان سے اپنے آپ کو لکھواتا تھا۔ ان کے اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات نے زبان پائی۔ یہ آزادہ روی اریب کو اریب بنا گئی۔ ان کا پہلا شعری مجموعۂ ’’پاسِ  گریباں ‘‘ ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ ۱۹۵۱ء تک لکھی ہوئی نظموں کو اریب نے رد کر دیا تھا اس کے باوجود اس مجموعے میں ہلکی پھلکی تخلیقات در آ گئیں۔ یوں بھی اریب کم گو واقع ہوئے تھے۔ اگر یہ ہلکی پھلکی تخلیقات بھی نکال دی جاتیں تو مجموعہ کلام بہت مختصر ہوکے رہ جاتا۔ اریب کے ’’پاسِ  گریباں ‘‘ میں ایسے سپاٹ شعر بھی بہت ہیں :

ایک مقصد ہے مرے شعر مرے فن کا اریب

زلف ژولیدہ گیتی کے لئے شانہ ہوں

آج وہ ہند کا شہری نہیں کہلا سکتا

جس نے اک بار نہ زنداں کی ہوا کھائی ہو

یعنی وہ دور ہی ’’شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آک کل ‘‘ والا تھا۔ ایک غلط فہمی اس دور میں عام تھی یعنی شعر و شراب کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا تھا۔ اریب بھی ان میں سے ایک تھے جنھوں نے اس نقطۂ نظر کو اپنا یا :

 

پھر حافظ و غالب کو جوانی دے دوں

خیام کو پھر قالب ثانی دیدوں

 

اک پل کے لیے میں جو خدا ہو جاؤں

دنیا کو بس انگور کا پانی دے دوں

 

پینا ویسے جرم نہیں ہے

لیکن ہم بدنام بہت ہیں

 

ایک بار کی شہرت ساری عمر چلتی ہے

میں پیوں جو پانی بھی لوگ رم سمجھتے ہیں

 

ستارے ڈوب چکے ماہتاب باقی ہے

مر ے گلاس میں تھوری شراب باقی ہے

 

ڈاکٹر ظ انصاری نے اریب سے کہا تھا پانی اور رم ہم رنگ نہیں ہیں اس لیے ’’میں پیوں جو پانی بھی لوگ جن سمجھتے ہیں ‘‘ کر لو اور جن کے قافیہ دن، سن، بن، وغیرہ کر کے شعر کہہ لو۔ اریب کے لیے رم اور جن دونوں برابر تھے۔ شراب اریب کو اس قدر پی گئی تھی کہ آخری وقتوں میں وہ ایک ایک قطرہ پانی کو ترس گئے تھے۔

اریب ذہین آدمی تھے۔ ماہنامہ ’’صبا‘‘ میں زیر بحث مسائل نے یقینا انھیں جدید طرز فکر سے آشنا کیا۔ چنانچہ وہ کڑوی خوشبو، فرسٹریشن نمبر دس، تم کس سے ملنے آئے ہو، تخلیق کی مجبوری، خود فراموشی اور ڈیپ فریز Deep Freezeجیسی نظمیں لکھنے لگے۔ ایک انتہا وہ تھی اور ایک انتہا یہ بھی رہی  ڈیپ فریز کا شاعر اپنے بیش تر اعضا  و جوارح (سوائے ایک عضو کے ) ریفر یجریٹر کے حوالے کر کے بیوی کی آغوش میں سوجاتا ہے۔ وحید اختر کہتے ہیں کہ نافہموں نے اسے براہ راست بیانیہ نظم سمجھ کر اریب کو مطعون کیا۔ شمس الرحمن فاروقی فرماتے ہیں کہ ڈیپ فریز کا میں سلیمان اریب نہیں ، فاروقی نہیں ہے، اکبر اور اشوک بھی نہیں ہے وہ صرف ایک معمولی روح جو قبل التاریخ کے آدم سے ہی تھی جب وہ غاروں میں رہتا تھا اور آج کے انسان بھی ہے۔ جناب فاروقی نے اس نظم کی معنویت کواس دور پر بھی محیط کر ڈالا جب نہ ڈیپ فریز تھا اور نہ چوکڑا جسے شاعر ڈیپ فریز میں رکھنے کی بات کرتا ہے۔ گزشتہ بے روح ور سپاٹ لہجے کی بہ نسبت یہ سوچتا ہوا ذہن اور بولتا ہوا اسلوب ایک عجیب سلیمان اریب سے ہمیں ملاتا ہے جس کا لہجہ ہمیں ہکا بکا کر کے رکھ دیتا ہے :

زندگی آج یہ معلوم ہوا

کچھ بھی نہیں

چھپکلی بھی نہیں

ہاں اس کی کٹی دم ہو گی۔۔۔                                                                                                (کڑوی خوشبو)

کچھ بھی نہیں اب زیست کا مقصد

کتوں کی خاطر جیتا ہوں                                          (فرسٹریشن نمبر دس)

فرسٹریشن نمبر دس سیدھی سادی بیانیہ نظم تھی جس میں اریب نے دو کتے پالنے کی بات کی اور ان کے لیے راتب کا بندوبست کرنے میں وہ حیران و پریشان رہا کرتے تھے۔ مگر جدید یے اس نظم کی آخری لائن یعنی ’’کتوں کی خاطر جیتا ہوں ‘‘ کو کچھ معنے پہنا کر خوش ہوتے تھے اور اریب کو خوش بھی کیا کرتے تھے گویا اریب نے ایسی نظم کہہ کر کوئی بڑا تیر مارا ہے۔ یہ خوش فہمیاں بلکہ غلط فہمیاں اریب کو ڈیپ فریز تک لے گئیں اور ڈبو گئیں البتہ اریب نے بعض اچھے تجربات کو جہاں زبان دی ہے وہیں انہوں نے اپنی پہچان بھی بنائی ہے۔ جس تجربہ کو انھوں نے الفاظ کا پیر ہن دیا وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ جیسے:

زہر کی لہر ہے یا مو ت کی کڑوی خوشبو

لمحہ لمحہ مرے جی جاں سے گزر جاتی ہے

پیتھیڈین لینے سے کچھ دیر کو نیند آتی ہے۔                 (PATHADENE)

 

اریب نے ہمہ چہر گی اور بے چہر گی کے بیچ کی دیوار ہی گرا دی۔ چیچک زدہ شاعر، زانی، سارق، قاتل جیسے کئی چہروں پر مشتمل ایک پیکرسے پوچھتا ہے :

تم کس سے ملنے آئے ہو ؟

میں خود پنے آپ سے مل کر

پہروں سوچ میں پڑ جاتا ہوں

کس چہرے کی بات کروں میں   (تم کس سے ملنے آئے ہو)

اریب کے اندر کا لا ابالی آدمی آخری سانس تک ان کے ساتھ رہا۔ خود فراموشی کا عالم تو دیکھئے:

چلا تھا گھر سے کہ بچے کی فیس دینی ہے

کہا تھا بیوی نے بیچ آؤں بالیاں اس کی

کہ گھر کا خرچ چلے اور دوا بھی آ جائے

نہ جانے کیا ہوا جب گھر پہنچ گیا اپنے

بتایا بیوی نے پھر آج پی کے آیا ہوں

(خود فراموشی)

اس قسم کی جتنی نظمیں ہیں سب ان کے آخری دور کی یادگار ہیں اور ان کی موت کے تین سال بعد شائع ہونے والے مجموعۂ کلام ’’کڑوی خوشبو‘‘ میں شامل ہیں۔ نظم کے ساتھ ساتھ اریب کی غزل بھی جدید انداز اختیار کر گئی گو  اریب کی لفظیات نہیں بدلیں مگر معنویت کی ایک دنیا ان میں آ گئی۔

 

بدل گئے ہیں اب انداز وحشت دل کے

کہاں کا چاک گریباں کہاں کا ویرانہ

لیکن خوش فہمی نہیں گئی :

جنوں ہے ختم ہمیں پر ہمارے بعد اریب

دکن کی خاک سے اٹھا نہ کوئی دیوانہ

ان کے بعد کیا کیا ہونے والا ہے وہ بھلا کیسے جان پاتے۔ اگر اریب کا اشارہ ان کی جیسی دیوانگی کی روایت کو آگے بڑھانا ہی تھا تو یہ کام ان کے بعد شاذ تمکنت اور افسانہ نگار شاعر انور رشید نے جواب کیا۔ ایک خوش فہمی سکندر علی وجد کو بھی تھی۔ :

دو سو برس میں وجد سراج و ولی کے بعد

اٹھے ہیں جھومتے ہوئے خاک دکن سے ہم

مگر سلیمان اریب نے گریبان سے سرنکال کر یہ بھی کہا :

جوسراٹھا کے چلیں تم ہی اک نہیں ہو اریب

کچھ ایسے لوگ ابھی تک تو ہندو پاک میں ہیں

 

بے تاج ہوں بے تخت ہوں بے ملک و حکومت

ہاں نام کا لیکن میں سلیمان رہا ہوں

اریب کی غزل اسی روایت کا تسلسل ہے جس کے میرو مرزا علمبردار رہے :

 

پیار کا درد کا مذہب نہیں ہوتا کوئی

کعبہ وہ ویر سے مطلب نہیں ہوتا کوئی

 

جان و ایماں سہی سب کچھ سہی تو میرے لیے

ہائے کس منہ سے کہوں سب نہیں ہوتا کوئی

 

مجھ کو خود مجھ سے بھی ملنے نہیں دیتی دنیا

چھپ کے ملتا ہوں کبھی جب نہیں ہوتا کوئی

 

حادثہ یہ ہے پلٹ کر بھی نہ دیکھا تو نے

حادثہ یہ نہیں تو مجھ کو نظر آیا تھا

 

وہ بھی اک وقت تھا خورشید بکف پھرتے تھے

یہ بھی اک وقت ہے شبنم بھی نہیں ساتھ اپنے

 

اندھوں کی بستی میں کب سے آئینے میں بیچ رہا ہوں

مجھ جیسے بھی عقل کے اندھے کم ہوتے ہیں اس دنیا میں

 

عزیز قیسی کا خیال ہے کہ ادارت بھی عورت، شراب، دوستی اور مجلس یاراں ہی کی طرح سلیمان اریب کی کمزوری تھی۔ یہ ان کی انا کو (PROJECT)کرنے کا میڈیم بھی تھی اور (PROTECT)کرنے کا ہتھیار بھی۔ اریب ’’چراغ ‘‘، ’’جمہور ‘‘، ’’سب رس‘‘ جیسے رسائل سے کچھ دن وابستہ رہ کر صبا نکالنے لگے۔ باصلاحیت لکھنے والے صبا کے حوالے سے اردو دنیا میں پہچانے جانے لگے۔ اریب یاروں کے یار تھے وہ ہر قسم کی پارٹی، از م اور فلسفے سے ماورا ہو گئے تھے۔ بقول صفیہ، خدا ان کا معبود کبھی نہیں رہا مگر انسان ان کا معبود ضرور رہا۔ وہ انسان اور انسانیت ہی میں یقین رکھتے تھے۔

کینسر جیسے موذی مرض نے اک سلیمان کو مور بے مایہ بنا کے رکھ دیا تھا۔ سات ستمبر ۱۹۷۰ء کو انہوں نے آخری سانس لی۔ اپنے پیچھے وہ اپنے چہیتے اکلوتے وارث ’’حسین ‘‘ کو چھوڑ گئے۔

میں کھو گیا بھی تو کیا تیرگی شب میں اریب

مرا حسین مرا آفتاب باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دکن کا انمول رتن شاذ تمکنت

 

اردو میں شاذ تمکنت اک ایسا نام ہے جو شعر ادب کے طالب علم کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوسکتا۔ جب کبھی حیدرآباد کے سرکردہ شعراء کا ذکر چھڑے گا شاذ تمکنت کا نام ضرور لیا جائے گا۔ انہوں نے غزل کو اس کے لغوی معنوں سے دور ہونے نہیں دیا۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے بار بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اک خوب رو عاشق خوب صورت محبوبہ کی خدمت میں خوش سخنی کے جوہر دکھا رہا ہے۔

شاذ تمکنت خوب صورت شخصیت کے مالک تو تھے ہی خوش لباس و خوش اطوار بھی تھے۔ ان سے مل کر کوئی شخص کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔ شاذ میں محبوبانہ ادائیں اور محبانہ صلاحیتیں دونوں متوازی چلتی تھیں۔ وہ اپنے ملنے والوں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ خوش گفتاری تو جیسے شاذ پر ختم تھی۔ وہ حیدرآباد ی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ہر شخص شاذ کو پسند کرتا تھا۔ اور ان کے چاہنے والوں میں خود شاذ بھی شامل تھے۔ انھیں اپنے آپ سے عشق تھا۔ وہ اپنی غزل کے عاشق تھے۔ انھیں اپنی نظمیں بھی محبوب تھیں۔ اپنی ذات اور اپنی تخلیق کسے پیاری نہیں ہوتی۔ وہ شعر و ادب کو محض شعر و ادب سمجھتے تھے اور مقصدیت اور پروپیگنڈے سے ماوراء۔ اپنے پہلے شعری مجموعہ کے پیش لفظ میں ’’لطف خلش پیکاں ‘‘ کے عنوان سے اہنوں نے لکھا تھا۔

’’میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا بلکہ اس لیے کہتا ہوں کہ کچھ باتیں جلوت میں ممکن نہیں ہوتیں اس لیے خلوت کے انتخاب کو ناگزیر جانتا ہوں۔ اگر کوئی شاعر (جو تشکیل و تعمیر کے مرحلے میں ہو)یہ کہتا ہو کہ وہ شعر کے ذریعے اصلاح ملک و قوم کرتا ہے تو مجھے یہ دعوی ماننے میں تامل ہو گا۔ دیانت داری کی با ت یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ اول اول فن کا ر اپنی تسکین کے لیے اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ متاع ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہل دہر کا قیاس کرے۔ ‘‘

مذکورہ پیش لفظ سے شاذ تمکنت کا نظر یہ شعر کھل کر سامنے آتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اہل ذوق ان کے نظریہ شعر سے اتفاق کریں۔ شعر و ادب میں لفظ اور اس کا تخلیقی استعمال بہرحال اہم ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ حالی سے تا حال موضوع اور مقصدیت کی اہمیت پر زور دیا جاتا رہا ہے شعرو ادب کو بہ ہر صورت پروپیگنڈہ بننے سے بچانا چاہیئے ورنہ ادب اور صحافت میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ شاذ کی پوری فکر ٹھیٹ رومانی رہی ہے۔ ان کے ہاں شعر کی بنیادی شرط عشق و معاملات عشق کا اظہار ہے۔ مخدوم نے ان کے فکر وفن کا جو تجزیہ کیا ہے وہ ’’تراشیدہ‘‘ کے فلیپ پران الفاظ میں موجود ہے :

’’شاذ ایک درد مند اور پر تکلف فن کار ہے جو نئی نئی خوب صورت مگر بھاری ترکیبیں بنانے کے ساتھ ساتھ سہل اور سہانے الفاظ کو مصرعوں میں جوڑنے کا شائق ہے ‘‘

شاذ تمکنت شعر میں شعریت ہی کے قائل تھے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں ان کے رومانی لہجے کا شناس نامہ ہیں۔ خلا کی رقاصہ، آخر شب، میرا فن میری زندگی، ایک صبح، نغموں کی مسیحائی جیسی طویل نظمیں شعر سے ان شیفتگی کی مظہر ہیں۔ خوب صورت الفاظ کا بڑے سلیقے سے استعمال خوش آہنگی کی دنیا آباد کر دیتا ہے۔ قاری یا سامع ان کے ساحرانہ اظہار میں کھو بھی جاتا ہے اور پھر جب آنکھ کھلتی ہے تو طلسماتی فضا سے نکل آتا ہے۔

 

دل صدف میں اتر تا ہوں مثل گوہر ناب

میں اپنی چٹکی میں تھا مے ہوئے ہوں گل کی نقاب

 

چھپا تو تخم کی صورت اڑا تو خوشبو ہوں

جھکا تو شاخ کی مانند ا ٹھا تو مثل سحاب

 

چمن بہ سینہ رہا ہوں ز فیض جذب دروں

ملے سحر کی غزالہ تو ایک بات کہوں

 

شفق کی سیڑھی پہ ہے تیرا خط پائے حنا

اداس اداس ہے رو ے نگار صبح وطن

 

گھلا گھلا سا ہے لالہ کی آنکھ کا کجرا

دھواں دھواں سی ہے رخسارہ چمن کی پھبن

 

تقریباً ساری نظمیں اسی اسلوب میں کہی ہوئی ہیں۔ نظمیں نہایت طویل ہیں جو پیاز کی پرت درپرت کی طرح کھلتی ہی جاتی ہیں اور جن میں ’بین السطور ، کے بجائے حسن سطور پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اس دور میں ترقی پسند فکر کا غلغلہ تھا۔ سردار جعفری، کیفی اعظمی، جذبی وغیرہ کے اثرات بڑی حد تک نئے اذہان پر مرتب ہو رہے تھے۔ عزیز قیسی، وحید اختر اور شاذ تمکنت اسی طرح طویل نظمیں کہہ کر اپنے اپنے خزانۂ الفاظ کے ڈھیر لگا رہے تھے۔ شاذ تمکنت کے محبوب شعراء میر، غالب، مومن، مصحفی، داغ، انیس، جوش، فراق، جگر، یگانہ، حسرت موہانی کے ساتھ ساتھ فیض، احمد ندیم قاسمی، عدم، ناصر کاظمی، احمد فراز، اختر الایمان، اختر شیرانی، مصطفی زیدی وغیرہ وغیرہ تھے۔ شاذ نے ان شعراء کی شعری کاوشوں کی داد بھی دی ہے اور ان سے استفادہ بھی کیا ہے۔ ان کی ابتدائی شعری تگ و  دو میں انھیں لوگوں نے سردار جعفری کا خوشہ چیں کہنا شروع کیا لیکن شاذ نے اپنی کچھ نظمیں بھیج بھیج کرسردار جعفری سے دریافت کیا تھا کیا یہ ان کی نقل ہیں ؟ سردار جعفری نے ۸، اگست ۱۹۵۲ء کو شاذ کو لکھا :

’’معلوم ہوتا ہے آپ سے کسی نے مذاق کیا ہے۔ نہ تو آپ کی نظمیں میری نقل ہیں اور نہ میں نے اس کے بارے میں کسی کو لکھا ہے۔ آپ اچھے شعر کہتے ہیں کہتے رہئے۔ لوگ خود خاموش ہو جائیں گے ‘‘

شاذ تمکنت کسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔ وہ ترقی پسندوں ، ارباب ذوق اور جدیدیوں سب سے تعلقات استوار رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ ہر سطح پر ان کے شعر کو سراہا جائے۔ وہ کسی محدود حلقے میں خود کو اسیر رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ غزل کی روایت کا پاس اور زبان و بیان کا پورا خیال رکھتے تھے۔ پابند معریٰ آزاد نظمیں بھی اس سلیقے سے کہا کرتے تھے جس کے لیے وہ مشہور تھے۔

شاذ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ اساتذہ اور اہم شعراء کے بے شمار اشعار انہیں یاد تھے۔ اساتذہ کے بعض اشعار کو انہوں نے نئی معنویت دی۔ ان کی مشہور نظم ہے ’’آب و گل ‘‘

 

مجھے یاد پڑتا ہے اک عمر گزری

لگاوٹ کی شبنم میں لہجہ ڈبو کر

کوئی مجھ کو آواز دیتا تھا اکثر

بلادے کی معصومیت کے سہارے

میں آہستہ آہستہ پہنچا یہاں تک

بہ ہر سمت انبوہ آوارگاں تھا

بڑے چاؤ سے میں نے اک اک سے پوچھا

کہو کیا تمھی نے پکارا تھا مجھ کو

کہو کیا تمھی نے پکارا تھا مجھ کو

مگر مجھ سے انبوہ آوارگاں نے

ہراساں ہراساں پریشاں پریشاں

کہا صرف اتنا :  نہیں وہ نہیں ہم

ہمیں بھی بلا کر کوئی چھپ گیا ہے

اس نظم کا خمیر دراصل فانی بدایونی کے اس مشہور شعر سے اٹھایا گیا ہے۔

مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا ہے کوئی

وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا

شاذ تمکنت نے غالب کے مصرعے ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا کے چراغ سے چرا غ جلا کر یوں شعر کہا ہے۔

مرے ناخن وفا پر کوئی قرض رہ نہ جائے

جو گرہ پڑی ہے دل میں اسے نیم باز رکھنا

شاذ کو اپنے شعر سے بے پناہ عشق تھا۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ احمد فراز اور ناصر کاظمی کی طرح ان کا کلام بھی مشہور گلوکاروں کے حوالے سے عوام تک پہنچے۔ ان کی مناجات ’’کب تک مرے مولا ‘‘، ’’اور اک نغمہ ‘‘، ’’سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو ‘‘ کافی مقبول ہوئے۔ اپنی غزلوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی نظموں کی شناخت کے بھی جتن کرتے تھے۔ انہوں نے مسلسل خطوط لکھ کر اختر الایمان سے ان نظموں پر رائے طلب کی اور اختر الایمان تھے کہ ٹال رہے تھے۔ آخر کار ۱۳، ستمبر ۱۹۷۷ء کو شاذ نے انھیں لکھا :

’’عید مبارک اختر بھائی میرے۔ پھر آپ کو بور کر رہا ہوں ’’نیم خواب‘‘ کے گرد پوش پر آپ کی رائے ہو گی۔ انشاء اللہ ضرور ہو گی۔ آپ رائے نہیں بھیجیں گے تو خود ہی آپ کے نام سے لکھ کر چھپوا دوں گا۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی ‘‘

دراصل شاذ تمکنت کی یہ کوشش تھی کہ ان کی نظموں پر نظم ہی کے ایک مستندشاعر کی رائے مل جائے تاکہ ان کے شعری مجموعے ’’نیم خواب‘‘ میں وہ شامل کی جا سکے لیکن اختر الایمان نے رائے بھیجنے میں اتنی تاخیر کی کہ شاذ کی کتاب رائے کے بغیر ہی چھپ گئی۔ مگر شاذ نے اس رائے کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ باضابطہ بلاک بنوا کراس رائے کو چھاپا اور کتاب کے درمیان کہیں جوڑ دی اور اختر الایمان کو خط لکھا (۲۲فروری ۱۹۷۸ء)

’’عزیز ترین اختر بھائی۔ سلام مسنون۔ میں کچھ مایوس سا ہو چلا تھا کہ آپ کی گراں قدر رائے اور محبت بھری سطریں ملیں۔ اب سنیئے کتاب چھپ گئی ہے۔ دوسو کاپیاں بھی نکل گئیں لیکن ابھی نوسو کاپیاں ہیں جن کی جلد بندی ہونی ہے۔ میں آپ کی رائے کا بلاک بنوا کر کتاب میں شامل کر رہا ہوں۔ اب آپ کو جو کتاب ملے گی اس میں رائے شامل ہو گی البتہ ان دوسو کاپیوں پر ترس آ رہا ہے جو بغیر آپ کی رائے کے یار اغیار تک پہنچ گئیں۔ ‘‘

شاذ تمکنت کے قریبی دوست عوض سعید نے شاذ کا خاکہ لکھا کہ :

’’وہ خود ہی عاشق تھا اور خود ہی معشوق۔۔۔ وہ بہ یک وقت قلندر بھی تھا اور کافی حد تک دنیا دار بھی۔ زندہ دل بھی تھا اور زود رنج بھی۔ ذاتی تشہیر کا بڑا قائل بھی تھا اور منکر بھی۔ اسے سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کے ان گڈمڈ ہوتے ہوئے سایوں کے ساتھ بہت دور تک جانا ہو گا۔ ‘‘

شاذ تمکنت نظم کے بجائے اپنی غزلوں سے پہچانے گئے۔ ان کے اشعار زیادہ تر مترنم بحروں میں ہوا کرتے تھے اور شاذ انھیں پڑھتے بھی تھے لہک لہک کر شعر سنانے کا انداز اس قدر ول کش تھا کہ اس پر ہزار ترنم قربان:

شب و روز جیسے ٹھہر گئے نہ وہ ناز ہے نہ نیاز ہے

ترے ہجر میں یہ پتہ چلا مری عمر کتنی دراز ہے

یہاں بھی شاذ نے حالی کے مشہور شعر سے کتنے سلیقے سے استفادہ کیا ہے

بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ

اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں

بلکہ حالی کی لکیر کے بالمقابل بڑی لکیر کھینچنے کی کوشش کی ہے۔

شاذ کی غزل اپنی تمام تر غنائیت کی وجہ سے عوام و خواص میں یکساں مقبول تھی۔ ہندو پاک میں ان کی تخلیقات معیاری رسائل کی زینت بنتی تھیں۔ ان کے بیشتر اشعار ضرب الا مثال کی طرح مشہور ہیں :

 

مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے

تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

 

آگے آگے کوئی مشعل سی لیے چلتا تھا

ہائے اس شخص کا کیا نام تھا پوچھا بھی نہیں

 

خیال آتے ہی کل شب تجھے بھلانے کا

چراغ بجھ گیا جیسے مرے سرہانے کا

 

زنجیر گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا

اے باد بہار اپنی آمد کا پتہ دینا

 

ایک رات آ پ نے امید یہ کیا رکھا ہے

آج تک ہم نے چراغوں کو جلا رکھا ہے

 

ان تھکے ہارے پرندوں کا خیال آتا ہے

جو کسی بام پہ نا چارا تر پڑتے ہیں

 

وہ نیاز و ناز کے مرحلے نگہ و سخن سے چلے گئے

تر ے رنگ و بو کے وہ قافلے ترے پیرہن سے چلے  گئے

شاذ کے مجموعے ’’تراشیدہ‘‘، ’’نیم خواب‘‘، ’’ورق انتخاب ‘‘، ’’بیاض شام ‘‘ جب تک ہیں شاذ کبھی بھلائے نہ جا سکیں گے۔ شاذ کی نثر بھی ان کی نظم و غزل کی طرح گل کا ر ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے کئی کتابوں پر دلچسپ اور مدلل تبصرے بھی کیئے۔ کاش وہ تبصرے بھی کتابی صورت میں شائع ہو جاتے۔ شاذ نے اپنے محبوب شاعر مخدوم محی الدین کی حیات اور کارنامے کو اپنی پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا اور ریسر چ کا حق ادا کیا ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۳ء کو حیدرآباد کے افق پر طلاع ہونے والا یہ سورج ۱۸۔ اگست 1985کو یہ شکوہ کرتا ہوا ڈوب گیا۔

گھر نے سمجھانہ اسے اہل وطن نے جانا

میرا گھر اور ہی ہے میرا وطن اور ہی ہے

یہ دراصل ایک فن کار کی نا آسودگی ہے۔ ورنہ شاذ تمکنت کو ہر سطح پر جو شہرت و عزت ملی وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہے۔ دکن کا یہ انمول رتن لکھنؤ کے مجاز بھوپال کے دشینت کمار اور دہلی کے نریش کمار شاد کے پیچھے پیچھے اس سفر پر نکل گیا جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آتا۔

اشاریات :(۱)   شاذ تمکنت کے شعری مجموعے

(۲)      سہ ماہی ’’تکمیل‘‘ (بھیونڈی) کا شاذ تمکنت نمبر شمارہ ۶۔ ۵ جنوری تا جون ۱۹۸۹ء

(۳)     ’’مخدوم محی الدین حیات اور کارنامے ‘‘ از شاذ تمکنت  ۱۹۸۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

حرفِ  خوش تاب

 

حریر پوش ہو ابلیس تو خدا کہیے

لباسِ خستہ میں پیغمبری بھی جھوٹی ہے

یہ خیال لباسِ خستہ میں ملبوس اسی شاعر کا ہے جو مخدوم، شاہد صدیقی، سلیمان اریبؔ، جامی جیسے خوش فکر و خوش پوش شاعروں کا قریب ترین دوست رہا ہے جسے دنیا ابن احمد تابؔ  کے نام سے جانتی ہے۔ بڑے بڑے برگدوں کے درمیان نیم کا یہ پودا بھی اپنی پہچان رکھتا تھا۔ غریب آدمی کا اپنا کوئی وزن نہیں ہوتا، اسے اکثر لوگ چشم کم سے دیکھتے ہیں۔ ویسے جہاں تک عزتِ نفس کا معاملہ ہے آدمی کو پہلے اپنی قدر آپ کرنا چاہیئے تب دنیا بھی اس کی قدر کرنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ عزت و ذلت کا سارا اختیار خالق کے ہاتھ میں سونپنے سے پہلے مخلوق کو چاہئیے کہ ذرا اپنا جائزہ آپ بھی لے۔ اگر کوئی شخص اپنی اور اپنے گھرانے کی عزت کا پاس نہ رکھنا چاہے تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ اس کا لحاظ رکھے۔

ہر شہر میں ایسے شاعر ہوا کرتے ہیں جو نمود و نمائش سے کوسوں دور چپکے چپکے ادب کی بے لوث خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ ابن احمد تاب بھی ایک ایسے ہی قلندر مزاج شاعر تھے۔ حیدرآباد اور نواحِ حیدرآباد کے ہر قابلِ ذکر مشاعرے میں تابؔ صاحب کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ وہ جب اپنے لحن داؤدی میں غزل سرا ہوتے تو محفل پر جادو چھا جاتا۔ ان کی غزلیں پانچ سات اشعار پر مشتمل ہوتیں اور سب کی سب انھیں ازبر بھی تھیں بلکہ تابؔ  صاحب کو شاہد صدیقی، مخدوم، اریبؔ کا کلام بھی یاد تھا۔ وہ ان شاعروں کو جب خود اپنا کلام بھولتے دیکھتے تو لقمہ بھی دے دیا کرتے تھے۔

۱۷۔ جون۔ ۱۹۳۱ء کو حیدرآباد کے ایک غریب عرب گھرانے میں پیدا ہونے والے عبداللہ ابن احمد جب سنِ شعور کو پہنچے تو دیکھا صفی اورنگ آبادی کا طوطی بول رہا ہے۔ مزاج میں اللہ نے توازن رکھ دیا تھا۔ وہبی صلاحیتوں نے صفیؔ جیسے استاد سے داد پائی۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کو بڑے خوب صورت و منفر د تخلص دیے تھے جسے عدیل، حاوی، ناوک، اریبؔ، تابؔ بھی صفی کا عطا کردہ تخلص ہے۔ لیکن صفی کا رنگ تابؔ نے اختیار نہیں کیا۔ ترقی پسندوں سے قربت کی وجہہ سے تابؔ  بھی اسی فکر میں ڈھلتے گئے اس کے باوجود تابؔ  کی غزل اپنی سادگی و پرکاری کی وجہہ سے الگ پہچانی جا سکتی ہے۔ آزادی کے ماقبل و ما بعد کے مسائل اس دور کا عام محاورہ بن گئے تھے۔ تاب بھی ان سے دامن نہ بچا سکے لیکن غم ذات و غم جاناں نے ان کی غزل کو آب و روغن بخشا ہے۔

 

بہت دنوں سے ہیں بے گانے صبح و شام سے ہم

گزر رہے ہیں نہ جانے یہ کس مقام سے ہم

 

یہ احتیاط کا عالم بھی کیا قیامت ہے

پکار بھی نہ سکے تجھ کو تیرے نام سے ہم

 

بس اتنی بات سردار ہم کو لے آئی

کبھی پکار ے گئے تھے تمہارے نام سے ہم

 

فراقؔ کی طرح ابن احمد تابؔ نے قافیئے کے امکانات چمکانے کے لیے کبھی غزل نہیں کہی بلکہ ان کی غزل ایک د ل درد مند کی پکار لگتی ہے۔ محکمۂ بلدیہ میں معمولی خدمت پر مامور ابن احمد تاب چاہتے تو محکمے کی ’’نیک نامی ‘‘ کا فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ لیکن ان کا مزاج ہی جدا گانہ تھا۔ وہ مخدوم و اریب کے ہم مشرب ضرور تھے ہم منصب نہیں ہوسکے۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ان کی شخصیت جھانکتی ہے۔

 

دیکھ اتنا تو تری راہ میں برباد ہوں میں

جو بھی لیتا ہے ترا نام اسے یاد ہوں میں

 

لوگ ناحق مجھے نغموں کا مسیحا سمجھے

کیسے سمجھاؤں کہ فریاد ہی فریاد ہوں میں

 

تابؔ  تو شعر کی تخلیق میں گم رہتا ہے

کب وہ کہتا ہے کہ اس شہر میں استاد ہوں میں

 

ہرچند کہ مخدوم و اریب کی دوستی نے ان کی فکر پر اثر ڈالا مگر تابؔ  گم ہو کر یا کسی کا سایہ ہو کر نہیں رہ گئے

 

حد سے بڑھ جاتا ہے جب پاؤں میں زنجیر کا بوجھ

راہ گلنار نظر آتی ہے سرچلتے ہیں

 

تابؔ  سایہ نہیں تیرا کہ تیرے ساتھ چلے

ساتھ تیرے تو ترے دست نگر چلتے ہیں

تابؔ  دوہری شخصیت کبھی نہیں جیتے تھے۔ وہ بہ ہر حال وہی دکھائی دیتے تھے جو وہ تھے۔ اسی لئے انہوں نے کہا:

انساں کے لیے عا ر نہیں ہوں یا رب

بندوں کا گنہ گار نہیں ہوں یا رب

 

تقویٰ و عبادات سے ہوں دور بہت

لیکن میں ریا کا ر نہیں ہوں یا رب

 

یک گونہ بے خودی کی تلاش تاب کو ’’صبا‘‘ کے دفتر معظم جاہی مارکٹ کے اطراف منڈ لا نے پر بے تاب کرتی جہاں کم ے کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ ’’خود فراموشی‘‘ کے سامان فراہم ہو جایا کرتے تھے۔ بقول رضا وصفی (ع)  زباں کو ذائقہ بگڑی ہوئی شراب کا ہے۔ کئی سہراب سخن ’’رستم کے آگے بے بس ہو جایا کرتے تھے۔ ’’رستم ‘‘ کے دھتکار ے ہوئے معظم جاہی مارکٹ ہی کو ’’مازندراں ‘‘ سمجھ لیتے تھے۔ تاب اپنی حد سے واقف تھے اسی لیے ادھر ادھر نہیں بھٹکتے تھے۔ ان کا کام چالیس پچاس پیسوں ہی میں چل جاتا تھا۔ چالیس پچاس روپیوں کے شوق کا انھیں یارانہ تھا۔ یہ بھی تاب کی زندگی کا ایک پہلو رہا ہے۔ یوں بھی بے خودی ترقی پسند ی کی علامت رہی ہے جس طرح اقبال کی پہچان ’’خودی ‘‘ اور اسرارِ  خودی ہے۔

تابؔ  کی غزل میں غم جاناں بڑے سلیقے سے اپنی چھب دکھاتا ہے۔

 

یہ غم نہیں ترے دیوانے مر گئے اے دوست

خوشی یہ ہے تری آواز پر گئے اے دوست

 

بس اتنا یاد ہے اٹھے تھے تیری محفل سے

پھر اس کے بعد نہ جانے کدھر گئے اے دوست

 

ابن احمد تاب کے ہاں فکر و فلسفہ کے گہرے مسائل نہیں پائے جاتے بلکہ عام آدمی کے جذبات کی عکاسی دکھائی دیتی ہے۔ درد کی ایک زیریں لہر تابؔ  کی پہچان قائم کرتی ہے :

 

تم بہاروں میں جو سنجیدہ قدم ہو جاتے

پھول تو پھول ہیں کانٹوں پہ ستم ہو جاتے

 

دل اگر درد سے معمور نہ ہوتا اپنا

اپنی ہر سانس میں ہم اور بھی کم ہو جاتے

 

غم نہیں اس کا کہ آسودۂ منزل نہ ہوئے

یہ تمنا تھی ترا نقش قدم ہو جاتے

 

چلو اچھا ہی ہوا تابؔ  کہ دامن نہ رہا

ورنہ ہم بھی کبھی ممنونِ کرم ہو جاتے

 

ابن احمد تابؔ  نہایت زندہ دل اور یار باش آدمی تھے۔ شہر کا چھوٹا بڑا ان کا قدر داں تھا۔ ادبی ٹرسٹ حیدرآباد نے حیدرآبادی ادیبوں شاعروں کو حیاتِ دوا م بخشنے کے سامان کیے۔ اردو اکاڈمی کے قیام سے بہت پہلے کئی کتابیں اس ٹرسٹ نے شائع کیں۔ اس طرح ادیبوں شاعروں کی ادبی زندگی کو بے نام و نشاں ہونے سے بچا لیا ورنہ تابؔ اپنے لا ابالی پن کے ہاتھوں اپنا سرمایہ سخن لٹا بیٹھتے۔ ادبی ٹرسٹ نے ان کا انتخاب کلام ’’خامۂ دل ‘‘ مئی ۱۹۷۳ء  میں شائع کر کے نہ صرف تابؔ  پر بلکہ تابؔ  کے چاہنے والوں پر بڑا احسان فرمایا۔ حیدرآباد کے مایہ نام استاد شاعر حضرت اوجؔ یعقوبی کا شعری مجموعہ ’’گرفتِ  نظر ‘‘ اور ابن احمد تاب کا ’’خامۂ دل ‘‘ ادبی ٹرسٹ نے نہ صرف شائع کیا بلکہ دونوں کتابوں کی رسم اجرا ء بھی ایک ہی جلسے میں اردو ہال میں عمل میں آئی۔ اوجؔ  صاحب کے شاگردوں اور چاہنے والوں کا حلقہ بہت بڑا تھا ان کی بڑی پذیرائی ہو رہی تھی۔ ان کے سامنے تابؔ  کی آب و تاب ماند پڑ گئی تھی کہ نہ یہ کسی کے جانشین تھے اور نہ اپنے پیچھے جانشینی کی کوئی روایت ہی چھوڑی۔ بلکہ وہ احباب سے رخصت ہوتے ہوئے یہ کہتے تھے۔

صدا آنے لگی ہے یک بہ یک اب گوشۂ دل سے

نہ جانے پھر ملوں گا یا نہیں یارانِ  محفل سے

ابنِ  احمد تابؔ کی غزلوں کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آور د کی انھیں للک ہے نہ فرصت۔ پاس دامان و گریباں ے ماورا وہ بس نرے شاعر تھے۔ نہ انھیں اظہار علمیت کا دماغ تھا نہ استادی کا دعوا۔ شاید اسی لیے انھوں نے الہامی آمد کو آلودۂ آورد ہونے نہ دیا۔ تابؔ  سیدھے سادے، سادہ لوح و سادہ مزاج شاعر تھے۔ شعر بھی ایسے کہتے جو سیدھے دل میں اتر جاتے تھے۔ دیکھئے کتنی سادگی سے کتنی گہری بات کی ہے :

ساقی پر الزام ہے ناحق دو ستو جانب داری کا

رندوں کی پہچان کی خاطر کچھ پیمانے ہوتے ہیں

اس شعر میں ’’پیمانے ‘‘ کس قدر معنی خیز ہے۔

اس میں شک نہیں تابؔ  کے ہاں بہت زیادہ فکر ی و شعری تنوع نہیں پایا جاتا مگر کہیں کہیں انہوں نے بعض ایسی غزلیں بھی کہی ہیں جن میں مستزاد کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔

 

اب تو منزل کا تصور بھی گراں ہوتا ہے

اپنے گھر پر مجھے رستے کا گماں ہوتا ہے

 

بات کرتا ہوں تو اک درد کی بو آتی ہے

سننے والوں کو یہ احساس کہاں ہوتا ہے

 

دل کا مقدر ہے غم شکر ہے اتنے تو ہم مونسِ غم بن گئے

ہجر کا اب ذکر کیا قرب کے لمحات بھی کیف الم بن گئے

 

بیشتر شعراء مصرع طرح اور قافیہ و ردیف کے سہارے چل نکلتے ہیں تابؔ  کی غزل پڑھتے ہوئے کبھی بھی ایسا نہیں لگتا۔ ایسے شعر کہنے کے لئے کلیجہ چاہئیے۔

 

مرے منہ سے اچانک آہ نکلی

تمہارا نام لینا چاہتا تھا

 

یہ عالم ہے تہی ساغر ہوں یارب

بجائے خود کبھی اک میکدہ تھا

 

تمہارا نام لے کر جی رہے تھے

ہماری زندگی میں اور کیا تھا

 

مندرجہ ذیل اشعار ان کے مخصوص ترنم میں آج بھی سماعتوں کا اثاثہ لگتے ہیں :

زمین چوم لو مقتل کی قتل سے پہلے

بڑے ہی چاؤ سے قاتل کو پھر سلام کرو

 

سحر کے وقت چراغوں کو بھولنے والو

خدا کے واسطے کچھ تو خیالِ  شام کرو

 

بچھڑنے والوں کا درد بھی تابؔ  کو بے تاب کر دیا کرتا تھا۔ جگر مراد آباد ی کو تابؔ  کا خراجِ  عقیدت ان کی تب و تابِ فکر کا غماز بھی ہے :

 

گلشن میں آج آتشِ گل سرد پڑ گئی

غم سے ہر ایک پھول کا چہرہ اتر گیا

ادبی نقشے میں جن شاعروں کی وجہہ سے حیدرآباد کا نام روشن تھا وہ ایک ایک کر کے اٹھنے لگے تو تابؔ  ان کی جدائی کی تاب نہ لا سکے۔ تاب نے کہا

کہاں ہیں آج مخدومؔ، و اریبؔ، و شاہدؔ  و  جامیؔ

یہ پہلے جا چکے ہم سے، ہم ان کو یاد کرتے ہیں

قلب پر حملہ تو اک بہانہ تھا دراصل ابنِ  احمد تابؔ بھی اپنے ہم مشربوں کا ساتھ نباہنے   ۲۳، نومبر، ۱۹۷۳ء کو چپکے سے چل پڑے۔

 

دوستو میں نہیں کہتا کہ مری قدر کرو

اک کمی پاؤ گے خود میں بخدا میرے بعد

 

آج تک میری آنکھوں میں ابن احمد تاب کا مسکراتا چہرہ، کانوں میں دل لبھا تا ترنم اور دل پر ان کے سادہ و پرکار اشعار نقش ہیں۔ یہ چند کلماتِ  خیر دراصل تابؔ  جیسے بے یارو مدد گار شاعر کو بے نام و نشاں ہونے سے بچانے کی ایک کوشش ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ملک الشعراء اوج یعقوبی

 

دکنی محاورہ ہے کہ اللہ شکر خورے کو شکر کھلاتا ہے۔ کچھ لوگوں کے حق میں شکر مضر ہوتی ہے اور جو چیزان کے مزاج کو بنتی ہی نہیں انہیں اس سے دور رکھنے میں ہی اللہ کی مصلحت ہوتی ہے مگر بندہ ازل کا ناشکر ا اور حریص واقع ہوا ہے۔ اس چیز کا طالب ہوتا ہے جو اس کے لئے بنائی ہی نہیں گئی۔ یہی حال اوج یعقوبی صاحب کے ملک الشعراء ہونے کا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس دور جمہوریت میں ملک الشعراء ایک مذاق سے کم نہیں۔ کچھ شاعروں نے اس دکھ میں اور پینا شروع کر دیا کہ تعلیم، قابلیت اور شہرت میں وہ اوج پر ہونے کے باوجود ملک الشعراء نہ بن سکے۔ کچھ شعرائے کرام اس غم میں ماتم کناں تھے کہ شاعری ان کو وراثت میں ملی ہے اور ملک الشعراء ہونا ان کا پیدائشی حق تھا۔ غرض جتنے منھ اتنی باتیں تھیں۔

کسی مشاعرے میں بھی ایک شاعر کا کلام جب چل جاتا ہے تو دوسرے شاعر سے برداشت نہیں ہوتا یہ معاشی آسائشیں تھیں اور صرف شاعری کی بنیاد پر حاصل ہوئی تھیں۔ یہ بھلا کیا دیکھی جاتیں۔

دراصل اللہ تعالیٰ تو کسی بہانے نواز نا چاہتا ہے۔ اوج صاحب کا ستارہ اوج پر آگیا۔ اس غم میں کئی شہاب ثاقب ٹوٹ گئے۔ اللہ اپنے بندے کی کسی ادا سے خوش ہو جاتا ہے تو اس پر رحمتوں کے در کھول دیتا ہے۔ کبھی کبھی آزمائشیں بھی مقصود ہوتی ہے۔

بقول ڈاکٹر حسینی شاہد، دکن کے یہ ممتاز شاعر اوج یعقوبی صاحب شعر کا کارخانہ چلاتے تھے   جنہیں اس کارخانے کا مال چاہیئے تھا وہ تواس سے استفادہ کیا کرتے ہی تھے البتہ جنہیں بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں مال ٹھوک کے بھاؤ بنتا اور ملتا ہے وہ اپنی ذاتی گھریلو صنعت پر اکتفا کر کے اپنی عزت رکھ لینا چاہتے تھے۔ اوج صاحب سے ہمارا ملنا بچھرنا کچھ اسی نوعیت کا تھا۔ ہمیں اپنی خود گوئی کی لاج رکھنی تھی۔ اس لئے ہمارا اوج صاحب کا ساتھ بہت تھوڑے دنوں کا تھا۔

میٹرک کے بعد کی چھٹیاں ہم نے آصفیہ کتب خانہ میں گزاریں۔ وہاں شعر و ادب کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اور اصلاح فن سے متعلق کئی کتابیں مطالعے میں آئیں۔ خاص طور پر ظفر اقبال، سراج الدین، جوش، فیض، امجد ندیم قاسمی، بانی، شکیب جلالی، قتیل شفائی وغیرہ کے ساتھ ساتھ نیاز فتح پوری کی انتقادیات، مالہ و ماعلیہ، نگار کی فائلیں ، مرقع سخن اور سیماب کی اصلاحیں وغیرہ وغیرہ بھی نظر سے گزریں۔ کچھ کچھ زبان و بیان کا شعور آیا۔ اسی کے سہارے چل نکلے۔

اوج صاحب سے ملاقاتیں تقریباً ختم ہو گئیں۔ ایرانی گلی والے مکان سے وہ مختلف مکانات بدلتے رہے البتہ وہ جب ہفتہ وار ’’رابطہ ‘‘ نکالنے لگے تو اپنے پرچے کیلئے وہ ہم سے مختلف کتابوں پر تبصرے کرواتے اور تبصرہ کرنے کے بعد کتابیں مبصر کا حق ہوتی تھیں۔ یوں ہمیں تبصرہ کرنے کا چسکا لگ گیا۔

اوج صاحب شہزادوں اور بے نواؤں دونوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔ کسی زمانے میں وہ دربار دربار میں فانی و صدق جائسی وغیرہ کی طرح رات کو جاگتے اور دن کو سویا کرتے تھے۔ اوج صاحب سلام و مرثیہ کہہ لیا کرتے تھے۔ (اور کہتے تھے میاں پیٹ کی خاطرسب کچھ کہنا پڑتا ہے )۔

اوج صاحب کے مصرعوں پر پلنے والے اوج صاحب کا نام بڑی بے تکلفی سے لیتے ہوئے اوج آتا تھا۔ اوج جاتا تھا۔ اوج ہمارے ساتھ مشاعرے پڑھا کرتا تھا۔ کہتے ہیں تو ہمیں بڑی حیرت ہوتی ہے بلکہ ایک صاحب کو تو ہم نے اوج صاحب کے مقابلے میں ان کی حیثیت و اوقات کا احساس بھی کروا دیا۔

اوج صاحب کا پہلا مجموعہ ’’گرفت نظر‘‘ ان کا شناس نامہ ہے۔ کراؤن سائز اور معمولی کاغذ پر معمولی انداز میں چھپنے کے باوجود ان کی کامیاب تخلیقات پر مبنی ہے۔ اوج صاحب نے کہا تھا۔

فکر ہوتی رہی تقسیم نظر بٹتی رہی

آج وہ وقت ہے کچھ بھی نہ رہا مرے لئے

دیوان کے بروقت نہ چھپنے کا سبب ا ن کی وہی ’’کارخانہ داری ‘‘ تھی چنانچہ انہوں نے خود کہا تھا۔

مجھے قسمت سے دور قحط خود گوئی ملا ورنہ

مرا دیوان بھی اے اوج کب کا چھپ گیا ہوتا

حیدرآباد میں دو شاعر ایسے گزرے ہیں جو شعر کہنے کے ساتھ ساتھ شعر سنانے کا اپنا منفرد اور متاثر کن انداز رکھتے تھے۔ دونوں تحت اللفظ سناتے تھے اور مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔ ایک تھے جناب اوج یعقوبی اور دوسرے جناب شاذ تمکنت۔

اساتذہ کی زمینوں میں بھی اوج صاحب نے خوب شعر نکالے تھے جیسے :

مرد خدا کو اوج غم آب و دانہ کیا

جینا ہی ہے تو پھر قفس و آشیانہ کیا

آپ زلفوں کو سنواریں کہ پریشاں رکھیں

ہونے والے تو بہرحال پریشاں ہوں گے

صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین جب حیدرآباد تشریف لائے تھے تو اوج صاحب نے ان کے لئے ایک تہنیتی غزل کہی تھی بڑی مشکل زمین میں بڑے خوب صورت شعر تھے۔ اس کے دو شعر پیش ہیں۔

جس بزم میں صہبا ہو نہ ساغر ہو نہ خم ہو

رندوں کو وہاں پھر بھی تسلی ہے کہ تم ہو

 

کچھ قافلے والوں کے بھی ہوتے ہیں فرائض

جب راہنما مصلحت وقت میں گم ہو

طرحی ہو کہ غیر طرحی اشعار اوج صاحب اپنی انفرادیت اور اپنی پہچان برقرار رکھتے تھے۔

ہمیں احساس تھا بس ہم بڑے ہیں

نہ جانے کب سے وہ بازو کھڑے ہیں

 

آپ کیا جلوہ گر ہو گئے

گل پسینے میں تر ہو گئے

 

حسرت قرب بھی ہے خواہش دیدار بھی ہے

ایسا لگتا ہے مرا پیارا زمینی ہے ابھی

 

کھلے دشمن کا استقبال بھی منظور ہے لیکن

خدا محفوظ رکھے دوست کے ذہنی تعصب سے

 

اوج صاحب زندگی کی اعلی قدروں کے ترجمان تھے وہ کہا کرتے تھے۔ مجھے پیروں تک جھک کرروٹی اٹھانا نہیں آتا۔ انہوں نے قلم سے روٹی پیدا ضرور کی مگر قلم کو کبھی گندگی میں گرنے نہیں دیا

کتنا ہی پست کیوں نہ ہو معیار زندگی

کردار کے لحاظ سے انساں نہ پست ہو

’’غنچہ لب بستہ ‘‘ اور ’’اوج عرش‘‘ ان کے کمزور مجموعے ہیں غنچہ لب بستہ ’’تو آج وہ وقت ہے کچھ بھی نہ بچا میرے لیے کی‘‘ جیتی جاگتی تصویر ہے۔

نعت منقبت، سلام اور مرثیہ پر مشتمل ’’اوج عرش ‘‘ میں نور عقیدت سے زیادہ شکم کی آگ کار فرما ہے۔ یہی شکم کی آگ انھیں اورنگ آباد تک لے گئی جب لوٹے تو آگ مٹی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اسی مٹی سے تمہاری تشکیل ہوئی تھی اسی میں تمہیں جانا ہے اور پھر کل اسی مٹی سے تم اٹھائے جاؤ گے

لوگ کیا یاد کریں گے ہمیں کیا تھے ہم لوگ

پڑھ لیا کرتے تھے احباب کے ماتھے ہم لوگ

ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم (صدر جمہوریہ ہند) کے دور ہ حیدرآباد کے موقع پر بطور نذر یہ غزل پیش کی گئی تھی

 

جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو

رندوں کو وہاں پھر بھی تسلی ہے کہ تم ہو

 

کچھ عرض شکایت میں تامل نہیں لیکن

مشکل تو یہی ہے کہ مرے سامنے تم ہو!

 

کیوں چہرے پہ طاری ہے یہ مصنوعی متانت

کیا میری طرح تم بھی کسی سوچ میں گم ہو

 

میں نرغۂ ظلمت سے پریشان نہیں ہوں

تم میرے لئے ماہِ شبِ  چار دہم ہو

 

نکلے تھے ابھی مرحلۂ ترک و طلب سے

یہ کونسی منزل ہے یہاں میں ہوں نہ تم ہو !

 

کچھ قافلہ والوں کے بھی ہوتے ہیں فرائض

جب راہنما مصلحتِ  وقت میں گم ہو

 

مزاجِ  دوست تیرے ساتھ چلنا جانتے ہیں ہم

جہاں تجھ کو بدلنا ہے، بدلنا جانتے ہیں ہم

 

برابر کی اداکاری ہے قسمت آزما لیں گے

گرانا تم کو آتا ہے سنبھلنا جانتے ہیں ہم

 

تمہاری انجمن سے اٹھ کے بھی ہم بجھ نہ جائیں گے

چراغِ  رہ گذر بن کر بھی جلنا جانتے ہیں ہم

 

زمانے کی ہوا کے ساتھ چلنا تم کو آتا ہے

زمانے کی ہوا کا رخ بدلنا جانتے ہیں ہم

٭

رہ حیات میں ہمت ہی کام آتی ہے

بڑی نگاہ بڑا آدمی بناتی ہے

 

جو بد حواس ہیں ، پھولوں پہ سو نہیں سکتے

سکونِ دل ہو تو کانٹوں پہ نیند آتی ہے

 

پرائی آنکھ سے لیجے نہ جائزہ اپنا

پرائی آنکھ ہمیشہ فریب کھاتی ہے

٭

 

آپ کیا جلوہ گر ہو گئے

گل پسینے میں تر ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 ’’اک سخن اور۔۔۔ ‘‘

 

دنیا کبھی اہل کمال سے خالی نہیں رہتی۔ نسل انسانی اولاد سے چلتی ہے مگر فن میں ہمیشہ ’’ابو الکمال ‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زور اور صفی اورنگ آبادی جیسی نابغۂ روزگار شخصیتیں نہ رہیں تو حیدرآباد خالی خالی نہیں رہ گیا۔ مخدوم محی الدین، خورشید احمد جامی، اوج یعقوبی اور شاذ تمکنت جیسے صاحب کمال ارض دکن کی ابرو بنے رہے ان کے اٹھ جانے سے ادبی دنیا کے نقشے سے حیدرآباد کا نام محو نہیں ہوا کچھ اور جیالوں نے اس شہر کے حوالے سے اپنی پہچان بنائے رکھی ان میں جناب مضطر مجاز کا نام نمایاں ہے۔

جناب مضطر مجاز بڑی خوبیوں کے مالک ہیں۔ عموماً ہمارے شاعر نثر پر توجہ نہیں دیتے اور نثرنگار کا شاعر ہونا ضروری نہیں مگر مضطر مجاز صاحب نظم و نثر پریکساں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ کے ا شعار ہی کی طرح آپ کی نثر بھی منفرد اور اپنے اندر اک انوکھی کاٹ لئے ہوئے ہوتی ہے۔ مضطر مجاز صاحب کی نثر نگاری ان کے اشعار میں سہل ممتنع کی صورت اختیار کر گئی ہے۔

انگریزی و فارسی ادب سے واقفیت بھی مضطر صاحب کے لہجے سے بولتی ہے۔ غالب و اقبال کے بغیر تو یہ اک لقمہ بھی نہیں توڑتے۔ غالب و اقبال کے فارسی کلام کا ترجمہ کوئی آسان مرحلہ نہیں مگر مضطر صاحب اس سے آسانی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ مضطر صاحب نے علامہ اقبال کے پیام مشرق، ارمغانِ  حجاز اور جاوید نامہ کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا اور غالب کے منتخب فارسی اشعار کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا۔

اتنی ساری خوبیاں اپنی جگہ مگر مضطر صاحب کا عشق اول طبع زاد شاعری ہے۔ ’’اک سخن اور۔۔ ‘‘ ان کا دوسر ا مجموعۂ کلام ہے ان کے مزاج کا آئینہ دار ہے۔ اس سے ان کی علمیت، روایت سے کما حقہ آگہی، جدیدیت سے قلبی لگاؤ اور اک خاص طنزیہ نقطۂ نظر کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ غزل سے زیادہ اینٹی غزل کے آدمی ہیں۔

موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ مضطر صاحب کا خزانہ الفاظ بھی عام شعرا ء کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ شاید اسی لئے وہ ایک قارون لفظ کا ذکر یوں کرتے ہیں

غزل یہ وہ ہے کراچی اگر ہوا جانا

تو میں سناؤں گا عبدالعزیز خالد کو

مضطر صاحب کا آسمان علمیت ان کی غزلوں کی زمینوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ سنگلاخ زمینوں پر اپنے خیمے ایستادہ کرنے میں وہ ’’اوتاد قوافی ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ جو ان کی پہچان ہیں۔ کہیں کہیں صوتی قافیوں کے کیل ٹھونکنے میں وہ پس و پیش نہیں کرتے۔

اک سخن اور کی پہلی ہی تخلیق سے مضطر صاحب چونکاتے ہیں۔

 

کیا خوب خدا کو بات سوجھی

لے دے کے مری ہی ذات سوجھی

یہ ایسی تخلیق ہے جو مضطر صاحب کا شناس نامہ سمجھی جا سکتی ہے۔ اس میں ان کی علمیت قافیہ و ردیف پر ان کی گرفت، مذہبی روایات سے دلچسپی، جدید طرزسخن کے ساتھ اقبال کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔ یہی حال نعت کا ہے، قوسین، کونین، عین، ذوالنورین جیسے قوافی میں نعت کہنا مضطر صاحب ہی کا حق ہے۔ حمد و نعت کے بعد ایک سلام بھی شامل کتاب ہے۔

اسی کا دکھ ہے عزیز و اسی کا ماتم ہے

غم حسین زیادہ ہے زندگی گم ہے

جس میں ان کے ’’غلام حسین ‘‘ ہونے کا دخل بھی ہے اور شاید یہ ایک خاص امکانی افادی پہلو بھی رکھتا ہے۔ اس کا تعلق دکن سے زیادہ شمال اور افراد سے زیادہ اکیڈیمیوں کے انعام دہند گان سے ہے۔ مخفی مباد کہ ان کا اصلی نام سید غلام حسین رضوی ہے۔

مضطر صاحب کی خوش گفتاری ان کے پر تکلف مزاج کا خاصہ ہے اور یہی خوش گفتاری ان کی پر تکلف تخلیقات سے بھی نمایاں ہے۔ ان کا لہجہ تابع مہمل سہی مہمل نہیں ہے۔

کام زباں ہی سے لیتے ہیں سارے مہذب لوگ

طنز کا اک نشتر کافی ہے پتھر و تھر کیا

مضطر صاحب کا نمایاں وصف ان کا طنزیہ لہجہ ہے۔ طنز دل نہیں دکھاتا بلکہ لمحۂ فکر عطا کرتا ہے۔ ان کے طنز کا نشانہ اپنے پرائے سبھی ہوتے ہیں۔ یہ بے باکی سفاکانہ نہیں بلکہ مخلصانہ ہوتی ہے۔ بر خود غلط امی شاعروں کی تصویر ملاحظہ فرمائیے۔

 

تھوڑی بہت بھی آتی ہو گی جس کو نوشت و خواند

اپنے وقت کا غالب اور اقبال کہائے گا

 

میں بھی مضطر شاعر بن کر گاڑوں گا جھنڈے

جس دن اپنا نام مجھے لکھنا آ جائے گا

 

وہ بڑے سلیقے سے گفتگو کا رخ موڑنا بھی جانتے ہیں۔

بھائی کا گوشت کھانے سے بہتر ہے میری بھائی

چل کر شراب خانے میں بیٹھیں پیئیں شراب

گتہ داران مشاعرہ آج کل سرکاری و غیر سرکاری محفلوں کے انعقاد میں اقربا پروری کے مظاہرے فرماتے ہیں اور کچھ ’’ درج فہرست ‘‘ شعراء کی بالالتزام شمولیت پر مضطر صاحب کا طنز بڑا چبھتا ہوا ہے۔

جمن میاں بھی تھے وہاں پنواڑی لال بھی

مضطر گجل سنانے کا ہم کو ہی حک نہ تھا

غزل کو گجل اور حق کو حک کہنا بھی بھرپور طنز ہے یہ اس لیے کہ :

نوائیں کووں میں بٹ گئی تھیں

زباں کے لالے پڑے ہوئے تھے

مضطر صاحب کو اس کا بھی احساس ہے کہ مشاعروں میں لوگ شعر سے زیادہ ترنم کی داد دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

ہے شاعری کا شوق تو مضطر بہم کرو

تھوڑی بہت تو مشق ترنم جناب من !

جنہیں ماورائے سخن کا چسکا ہوا نہیں حرف بافوں کی یہ صورت بھلا کیا پسند ائے گی کہ :

چل رہے ہیں کارخانے شعر کے

کونسا ہے مال جو گلتا نہیں

وزن بھی ہے قافیہ بھی بحر بھی

شعر کہتے ہیں جسے ملتا نہیں

ہنستے ہنستے مضطر صاحب بڑے غضب کی چٹکی لیتے ہیں :

یہ ہم زمین پہ چل کر روا روی میں گرے

یہ آپ اتنی بلندی سے کس خوشی میں گرے

ہوا کے زور پہ اڑتے تھے آسمانوں میں

ہوا کے رکتے ہی ردی کی ٹوکری میں گرے

دیکھا گرنے پر آتا ہے تو آدمی کس قدر گر جاتا ہے :

برسوں پہلے جوش ملیح آبادی نے کراچی کا نقشہ کچھ یوں کھینچا تھا۔

میں کراچی میں ہوں جس طرح سے کوفے میں حسین

سب شہادت کے ہیں آثار چنا جور گرم

چونکہ اس طنزیہ طرز اظہار سے مضطر صاحب کو دلی رغبت ہے۔ انہوں نے اسی ردیف میں بڑے گرما گرم شعر نکالے ہیں۔

ناگ پھنیوں کی مچی دھوم چنا جور گرم

گل ہوئے باغ سے معدوم چنا جو ر گرم

شاعری چھوڑ چنے بیچئے مضطر صاحب

تابہ کے نالہ منظوم چنا جو ر گرم

شاعر کبھی کبھی سخن وری کا بہانہ بنا کر وہ بات کہہ گزر تا ہے جو بین السطور اک قیامت ڈھاتی ہے جیسے بقول شاعر :

وفا کے نام پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے

تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

مضطر صاحب کے ہاں یہ رنگ بھی خوب نکھر کر سامنے آتا ہے :

جلتے ہوئے مکاں ہیں مکیں خیریت سے ہیں

مرمر کے زندگی کے امیں خیریت سے ہیں

 

کیکر ببو ل ناگ پھنی سب مزے میں ہیں

بجلی تو شاخ گل پہ گری سب مزے میں ہیں

 

سب کے لئے امان ہے کوفہ کہ کر بلا

یاں جز حسین ؓابن علی ؓ سب مزے میں ہیں

 

اک شعر ہی کی جان پہ طاری ہے بے کسی

صنعت گران صرف روی سب مزے میں ہیں

 

مضطر کسی دن اس کو ٹھکانے لگا بھی دے

اپنا ضمیر بیچ کے ہی سب مزے میں ہیں

واعظ، زاہد، شیخ کا کردار تو ارد و شاعری میں ازل سے نشانۂ ملامت رہا ہے۔ یہ کیوں پیچھے رہتے کہتے ہیں :

عجیب مشغلہ ہاتھ آگیا ہے زاہد کو

کہ وقفے وقفے سے اٹھ کر چلا ہے مسجد کو

یہ وہی غزل ہے جسے وہ کراچی جا کر عبدالعزیز خالد کو سنانا چاہتے ہیں

مضطر صاحب کا اک Debonairicشعر سنئے جس سے اندازہ ہو گا کہ انہیں کیا اچھا لگتا ہے اور کیا برا۔

غزلوں کی بھر مار نہ ان میں ساختیات کی بحثیں

رنگیں تصویروں کے رسالے اچھے لگتے ہیں

یہ طنز و دودھاری ہے، محض رنگین تصویروں سے بہلنے والوں پر بھی اور غزل اور ساختیات کی علمی بحث سے دامن بچانے والوں پر بھی۔ مضطر صاحب کبھی کبھی اک ایسا منظر آنکھوں کے آگے لاتے ہیں کہ دیکھنے والا ہکا بکا رہ جاتا ہے۔

نماز پڑھنے کو اٹھے تو وقت ہی نہ رہا

شراب پینے کو بیٹھے تو جام غائب تھے

 

مشاعرے ہوئے ایسے بھی شہر میں مضطر

کہ شاعروں کے ہی فہرس سے نام غائب تھے

لومڑی اور سارس کے ’’دعوتی امور‘‘ بھی مضطر صاحب کی نظر میں ہوتے ہیں۔

ہو جاتے ہیں کتنے دکھی کتنے بے بس

لومڑیوں کی دعوت میں آ کر سارس

مگر لومڑی کو بھی آخر سارس کی دعوت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوم کی حالت زار پر مضطر صاحب مولانا حالی سے زیادہ دکھی ہیں :

بھولتی جاتی ہے دھیرے دھیرے

لومڑی دعوتِ سارس کا مزہ

 

سو گئی قوم بالآخر مضطر

رہ گیا منہ پہ مسدس کا مزہ

بلکہ قوم کی گراں خوابی کا وہ عالم ہے کہ اب اس کے منہ پہ مسدس کا مزہ بھی نہیں رہ گیا۔

مضطر صاحب کی طنز نگاری میں دراصل کئی سیاسی و سماجی مسائل پر چوٹ ہے۔ ہر دور کے شاعر کی آنکھ سے یہ مناظر بچ نہیں پاتے۔ اور شاعر کو اپنے مزاج کی منا سبت سے ان کو برتنا ہوتا ہے۔ اپنے آپ پر طنز کرنا بڑے ظرف کی بات ہے۔ مضطر صاحب اپنے حوالے سے اک دردناک کیفیت کا اظہار یوں کرتے ہیں

جب میرا شعر خود مرے بچے نہ پڑھ سکیں

پھر ایسی جائیداد پہ میرا بھی حق نہ تھا

 

دانشوروں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا

چیر ا  تو ان کے پیٹ میں بھی اک الف نہ تھا

شعر و ادب میں نام نہاد نقادوں سے صداقت نامہ، توصیفی حاصل کرنے کے رواج پر مضطر صاحب کی چوٹ بڑی کاری ہے۔

فاروقیوں کی جنبش ابرو پہ رکھ نظر

پھر شعر کہہ کے جانب نارنگ دیکھنا

شعر و ادب کی صورت حال مشاعروں کی سیاست کے علاوہ مضطر صاحب کے طنز کی زد فرقہ وارانہ تعصب کو ہوا دینے والوں پر بھی پڑتی ہے اور یہ ایسا موضوع ہے جس سے اردو ادب بھرا پڑا ہے کہ اردو والوں ہی کو یہ سب کچھ بھگتنا پڑتا ہے۔

نہ غم خواری نہ دلداری ملے گی

اب ان شہروں میں خوں خواری ملے گی

 

ملے گا گوشت سستا آدمی کا

گراں قیمت پہ ترکاری ملے گی

 

یہی خیال اک اور غزل میں یوں آیا ہے :

گوشت تو ہے انسان کا سستا اور گراں ہے ترکاری

شوخی اور طنز تقریباً  ہر قابل ذکر شاعر کے پاس مل جائے گا۔ خاص اور پر غالب و اقبال کے کلام میں بے شمار ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ مضطر صاحب کے فکرو فن شوخی اور طنز کو غالب حیثیت حاصل ہے اس لیے ان کے اس خاص پہلو کی طرف میں نے اس مضمون میں اشارہ کیا۔ یوں بھی اب شعر و ادب میں ہجر و وصال کے قصوں کے لیے گنجائش کم رہ گئی ہے ورنہ ایک دو ر تھا جگر کے اس قسم کے اشعار پر چھتیں اڑتی تھیں

وصل سے شاد کیا ہجر سے ناشاد کیا

اس نے جس طرح سے چاہا مجھے برباد کیا

جس پر جوش نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا۔

کچھ نہیں اس کے سوا جوش حریفوں کا کلام

وصل سے شاد کیا ہجر سے ناشاد کیا

آج تک بھی بعض شاعر اسی ہجرو  وصل کے چکر میں گرفتار ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہی جذبہ کی شاعری ہے۔ حالانکہ گل و بلبل کی طرح ایسی شاعری کے دن بھی لد گئے۔ آج شاعر کے سامنے کئی مسائل ہیں جن سے وہ رات دن گزرتا رہتا ہے۔

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل راحت کے سوا

( فیض)

مضطر صاحب کے اسلوب کے بارے میں ڈاکٹر مغنی تبسم کی جامع اور دلچسپ رائے جو ’’اک سخن اور۔۔۔ ‘‘ کے فلیپ پر شائع ہوئی ہے کہ ’’یہ اسلوب سنجیدہ غیر سنجیدگی اور غیر سنجیدہ سنجیدگیسے عبارت ہے ‘‘ مضطر صاحب کی شخصیت اور فکر و فن پر ہر اعتبار سے منطبق ہوتی ہے۔ یہ تاثر کتاب کے انتساب، بعض مصرعوں میں خیال کی تکر ار اور کہیں کہیں اوزان و بحور سے کھلواڑ کی صورت میں ابھر تا ہے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ مضطر صاحب غزل سے زیادہ اینٹی غزل کے آدمی ہیں۔

مضطر صاحب اچھے شاعر ضرور ہیں مگر ان کی تخلیقات راست ان کے مجموعے میں شامل ہوتی ہیں اگر وہ رسائل میں بھی شائع ہوتیں تو ممکن تھا اہلِ  نظر انھیں ان کے تسامحات کی طرف توجہ بھی دلاتے۔ مطلعوں کے بعد ان کے چند اشعار دیکھئے جو حیرانی میں ڈال دیتے ہیں۔

 

دیکھا دیکھنے والوں نے حیرانی سے

شعلے کھیلیں آنکھ مچولی پانی سے

 

تشبیہیں مجروح، استعار ے زخمی

سحر نہ جاگا کوئی سحر بیانی سے

 

مصحفی و مومن تو کہاں اب شعر سنو

مومن خاں سے یا غلا م ہمدانی سے

 

بالا والا بندی وندی جھومر وومر کیا

زیور تیرا چہرہ تجھ کو زیور ویور کیا

 

مال وال کس شمار میں ہیں جان وان کیا شئے

سر میں سودا سچ کا سماجائے تو سرور کیا

 

زیب کا ہو اللہ کرے فردوسِ  بریں میں مکاں

شعر و یر کیا غزل وزل کیا، مضطر وضطر کیا

 

ایسے ویسے فسادات کے باوجود بھی ہم کو

مندر مسجد اور شوالے اچھے لگتے ہیں

 

روز سحر ہو گی ہونے کو روز شب آئے گی

کتنے سورج نکل چکے ہیں ، صبح کب آئے گی

 

بینک کا کچھ بیلنس بڑھاؤ، زمین خریدو، گھر بنواؤ

مضطر مجاز صاحب تم کو عقل کب آئے گی

مضطر صاحب (ع) کو اکثر گرا دیتے ہیں :

 

خالی پڑی ہے جیبِ  تمنا اک عمر سے

احسان کر گیا ترا دزدیدہ دیکھنا

 

سر کا تو ذکر کیا ہے کہ انگلی نہ کٹ سکی

کہنے کو  دو  رکعت کا مسلمان میں بھی تھا

اس کے باوجود خوش فہمی کا یہ عالم ہے :

طلاقتِ  سخن پختہ جس پہ رشک کرے

سخن کچھ ایسے مری لغزشِ زباں سے سن

حالتِ  اضطرار میں کبھی کبھی انسان ’’شرر شلہ پوری ‘‘ اور ’’فتنہ فساد آبادی ‘‘ کا روپ بھی دھار لیتا ہے اور یوں حقیقت و مجاز میں دوئی باقی نہیں رہ جاتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

پیر خیری جنابِ سعدی

 

علامہ اقبال کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر فن مولا تھے۔ ہر شخص کے مذاق و معیار کے مطابق گفتگو کرتے تھے۔ شاعر ہوتا تو شعر و ادب کے حوالوں سے بات چیت ہوتی، موسیقار ہوتا تو سر تال پر بات ہوتی، عالم سے مذہبیات پر گفتگو ہوتی، حتیٰ کہ پہلوان سے ڈنڈ پیلنے اور مکدر گھمانے کا ذکر ہوتا، کبوتر بازوں کو علامہ اقبال سے بات کر کے ایسا لگتا گویا اقبال بھی انہیں کے قبیلے کے فرد ہیں۔ یہی حال سعدی بھائی کا تھا۔ ہر قماش کا آدمی سعدی بھائی سے خوش تھا۔ میں نے اقبال کے لئے ایک نظم میں جو بات کہی تھی وہ سعدی بھائی پر بھی صادق آتی ہے:

بدعتی اور خبیث بھی خوش تھے

ان سے اہلِ  حدیث بھی خوش تھے

مشائخ گھرانے کے مشہور و مقبول مرشد مولانا معز ا لدین ملتانی صاحب کے گھر پیدا ہونے والے محترم مصلح الدین سعدی پیری مریدی سے بھلے ہی کوسوں دور رہے ہوں شعر و ادب اور اقبالیات میں مجھ جیسے کئی پیا سے ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے چشمہ صافی سے سیراب ہوتے تھے۔ سارا شہر جانتا تھا کہ میں ان کا ادبی مرید تھا۔ غالباً ۷۶۔ ۱۹۷۵ میں سعدی بھائی سے نیاز حاصل ہوا۔ محلہ میر عالم منڈی میں کہیں شہر ادب نامی ایک انجمن کے زیر اہتمام کوئی مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ وہیں میں نے حسب معمول نئی زمین میں غزل سنائی تھی۔ سعد ی بھائی نے بہت داد دی۔ بعد میں تعارف کے بعد پتہ چلا کہ میں نے کیسی بڑی صاحب نظر شخصیت سے داد پائی ہے۔ پھر تو یہ حال ہو گیا کہ سعدی بھائی کی داد سے حوصلہ بلند ہوتا گیا۔ سعدی بھائی چونکہ اقبالیات کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے، مشکل سے کسی کی تخلیق پر چونکتے تھے اس لحاظ سے سعدی بھائی کی داد سند کا درجہ رکھتی تھی اور شعر میں اگر کہیں کوئی کورکسررہ جاتی تو اسے سنوار لینے کا موقع بھی ملتا۔ سعدی بھائی سے نیاز مند ی کا سلسلہ چل پڑا ان کے گھر کئی سنجیدہ و متین اور قابل حضرات کی محفلیں جمتیں جو دیر رات تک چلتیں  مجھے بھی ان محفلوں میں شریک ہو کر استفادہ کا موقع ملتا۔

۴، اکٹوبر ۱۹۳۵ء کو اپنی ننھیال ورنگل میں پیدا ہونے والے جناب مصلح الدین سعدی کی ابتدائی تعلیم دبیر پورہ تحتانیہ اسکول حیدرآباد میں ہوئی۔ مدرسہ قانیہ چنچل گوڑہ حیدرآباد سے آپ نے میٹرک کامیاب کیا۔ اس کے بعد تعلیمی سلسلہ ایک عرصے تک منقطع رہا لیکن ادب سے تعلق ہمیشہ استوار رہا۔ آپ نے اس تعلق کو اسنادی درجہ دینے کے لیے ڈپ اوایل Dip.O.Lاور پھر بی اوایل B.O.Lکے امتحانات کامیاب کئے۔ حیدرآباد یونیورسٹی جب قائم ہوئی ڈاکٹر گیان چند جین ڈاکٹر مجاور حسین رضوی جیسے اساتذہ اس یونیورسٹی میں تقرر ہو کر آئے۔ رحمت یوسف زئی اور سعدی صاحب نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا لیکن اسی دوران سعدی بھائی کو جدہ سعدی عرب جانا پڑ گیا اور اس طرح یہ تعلیمی سلسلہ پھر ٹوٹ گیا۔ سعدی صاحب کی علمی استعداد کے پروفیسر گیا ن چند جین بڑے معترف تھے۔ اگر سعدی صاحب نے اپنی تعلیم مکمل کی ہوتی تو وہ ممکن ہے کسی یونیورسٹی میں استاد ہوتے۔ آج اکثر کالجوں اور یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے کہ ایسے اساتذہ طلبہ کو پڑھانے پر مامور ہیں جن کا تلفظ تک درست نہیں ہوتا۔

سعدی صاحب ابتداء میں خفیہ پولیس میں ملازم ہو گئے تھے۔ ادبی تحقیق و تفتیش کے متوالے سے شخصی تفتیش و تجسس کا بار نہ اٹھ سکا۔ انہوں نے گھر پر پلاسٹک انڈسٹری بھی چلائی۔ کبھی میسور، بنگلور سے عطر صندل اور دہن العود کے کارٹون منگوا کر سعودی عرب کو سپلائی کئے۔ ان کے بچے جب ماشاء اللہ خود کمپیوٹر انجینئیر ہو گئے اور کمانے لگے تو سعدی بھائی سعودی عرب سے حیدرآباد آ گئے اور فارغ زندگی گزار نے لگے۔ ساری توجہ اقبالیات پر مرکوز ہو گئی تھی۔ کبھی مولانا روم سے شغف فرما رہے ہیں تو کبھی حافظ شیرازی پر عنایت ہو رہی ہے۔ مسجد عالیہ گن فاؤنڈری اور گلشن خلیل اقبال اکیڈمی کے پروگرام میں سعدی بھائی شریک غالب ہوا کرتے تھے۔ سعدی بھائی سے میری عقیدت کا یہ حال رہا ہے کہ میں ان کے بارے میں کسی سے کوئی قابل اعتراض بات سن ہی نہیں سکتا تھا میرے ہم عمر محسن دوست نے ایک موقع پر مجھ سے کہا کہ سنا ہے ڈاکٹر ظ انصاری کو سعدی لیے لیے بھر رہے ہیں میں اس شاعر سے الجھ پڑا اور اسے تاکید کر دی کہ آئندہ وہ سعدی صاحب کا نام احترام سے لیا کرے۔ صرف سعدی نہ کہے۔

۱۹۷۷ء میں چھپے میرے پہلے شعری مجموعہ ’’اقراء ‘‘ کی رسم اجراء کا احتمام بھی سعدی بھائی نے اقلیم ادب کے ذریعے کروایا تھا۔ پروفیسر عالم خوند میری، پروفیسر مغنی تبسم، بھارت چند کھنہ وغیرہ وغیرہ اکابرین کو جمع کرنا اور ان سے اقراء پر تقریریں کروانے کا اعزاز سعدی بھائی کو پہنچتا ہے۔ اس وقت تک میں رسم اجراء کی اہمیت ہی سے نابلد تھا۔ ’’اقراء ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے سعدی بھائی نے اقراء میں شامل نعتوں ، نظموں ، غزلوں ، ترائیلوں اور سانیٹس کا تفصیلی جائزہ لے کر میری فکر کو سراہا تھا۔ اس طرح اردو ادب میں مجھ جیسے نو وارد کی پذیرائی فرما کر میری حوصلہ افزائی۔

سعدی بھائی نے میرے تنقیدی شعور کو بھی جلا بخشی اور میں نے بعض ایسے مضامین بھی لکھے جو ہندو پاک میں مقبول ہوئے اور کئی جگہ چھپے جیسے حسرت موہانی پر ’’حسرت آنکھ اور ادراک کے آئینے میں ‘‘ اور ’’رضیہ سجاد ظہیر کے نام ‘‘ بنے بھائی کی طرف سے ایک فرضی خط جو ’’نقوش زنداں ‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا۔ یہ دونوں مضامین میری کتاب ’’خط خیر‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حسرت موہانی والا مضمون چوں کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے تحت منعقدہ ایک سمینار میں پڑھا گیا تھا اس لیے وہ ’’حیدرآباد اور بیرونی شعراء ‘‘ میں بھی شامل ہے۔

سعدی بھائی میرے لیے Godfatherتھے۔ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ بیشتر رسائل کے مدیر یا ذمہ دار ادیب و شاعر اپنے جونیر تخلیق کاروں کو بڑھا وا دینے میں فراخ دلی سے کام لیتے ہیں۔ پروین شاکر اور شکیب جلالی کو پاکستانی مدیروں نے سراہا ار ان فنکاروں کی صلاحیتیں چمک اٹھیں۔ یہی حال افسانہ نگاروں کا بھی ہے۔ حیدرآباد میں Talentedادیبوں شاعروں کی کمی نہیں لیکن ان کی صلاحیتوں کی صحیح پذیرائی صحیح موقعوں پر نہیں ہوتی۔ میر عثمان علی خاں نظام دکن کے دور میں بھی مرعوبیت کا یہ عالم تھا کہ ہر اعلی عہدے پر کسی نہ کسی شمالیے Upianکا تقرر ہوتا تھا۔

بہت سرافراز ہو گئے تھے شمالیے سب دکن میں آ کر

(یک مصرعی نظم)

سعدی بھائی کے والد معزالدین ملتانی حیدرآباد کے مشائخ گھرانے کے اہم رکن تھے، تلوار کے دھنی، لکڑی چلانے کے ماہر، اچھے خطیب اور ہوش مند شاعر تھے۔ لیکن نظام کے بیٹے معظم جاہ کی شب بیدار محفلوں میں طبلہ بجایا کرتے تھے۔ (ملاحظہ ہو ’’دربار دُربار ‘‘ از صدق جائسی) کیسی قد آور شخصیت کیسے چھوٹے کام پر مامور تھی !  سعدی بھائی کی خوبی یہ تھی کہ وہ دکن کی نا ک تھے۔ کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے اور نہ غیبت سنتے تھے۔ شمالی ہند کے کئی قابل ارباب نظر حیدرآباد آتے تو سعدی بھائی سے مل کر ان کی باخبری سے حیران ہو جاتے۔ مولانا عبدالرحمن پرواز اصلاحی، مالک رام، گیان چند جین، مجاور حسین رضوی، ظ انصاری جیسے قدر آور بھی سعد ی بھائی کی ہمہ دانی کے قائل تھے۔ ڈاکٹر ظ انصاری حیدرآباد میں ہوتے تو سعدی بھائی کے بغیر تنہائی محسوس کرتے۔ مجھے خوشی ہے کہ سعدی بھائی جیسے نابغۂ روزگار کے ساتھ مجھے وقت گزارنے کا موقع ملتا تھا۔ ع۔ ’’بیابہ محفل اقبال و یک دو ساغر کش ‘‘ والا معاملہ تھ۔ رات دیر گئے تک ان کی علمیت سے استفادے کا موقع ملتا۔ مختلف موضوعات پر سعدی بھائی اپنے نظر یات مدلل بیان کرتے تو اختلاف کی کم ہی گنجائش ہوتی۔ وہ قلندر مزاج تھے اور ایسی صوفیانہ روش پر کار بند تھے کہ ہر مسلک کا آدمی ان سے خوش رہتا تھا۔ ان کے حلقہ بگوشوں میں مہدوی، شیعہ، بریلوی عقائد کے حامل، جماعت اسلامی و تبلیغ جماعت کے ماننے والے، حتیٰ کہ اہل حدیث شامل تھے۔ میں تو خیر ان کا مرید ہی تھا۔ یہ ہنر سب کو کہاں آتا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ :

خوش ہیں تو ہیں خوش خیر خفا ہیں تو خفا ہیں

ہم حرف تذبذب کا چھلا وا نہیں رکھتے

سعد ی بھائی سے مذہبی گفتگو ہوتی تو میں قرآن و سنت کی دلیل پر اصرار کرتا تھا اور سعدی بھائی اتحاد بین المسالک کے نام پر مصلحت سے کام لینے کے مبلغ تھے۔ شدت پسند ی کو ہر حال میں برا جانتے تھے۔ مجھے سعدی بھائی سے جو عقیدت رہی ہے وہ ان کی ادبیت کی وجہ سے تھی۔ مذہب کے معاملے میں ان سے میری گفتگو کم کم ہی ہوتی تھی۔

علامہ اقبال کی تمام شاعری پر سعدی بھائی کی نظر تھی وہ چاہے اردو کلیات ہو کہ فارسی کلیات اقبال کی ایک ایک نظم بلکہ ایک ایک شعر پر سعدی بھائی اظہار خیال کرسکتے تھے۔ وہ سچے معنوں میں اقبال کے عاشق تھے۔ اقبال کے منشاء و معنی ٰ تک پہنچنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا وہ بہت اچھی فارسی جانتے تھے۔ پروفیسر سید سراج الدین جیسے قابل استاد نے سعدی بھائی کے تعزیتی جلسے میں اعتراف کیا ہے کہ جب کبھی اقبال کے کسی فارسی شعر کے سمجھنے میں انہیں دشواری ہوتی تو وہ سعدی بھائی کو فون کر کے اس کا مطلب معلوم کر لیتے تھے تب کہیں ان کی تسکین ہوتی تھی۔ میں نے علامہ اقبال کے ۱۶۳ فارسی قطعات ’’لالہ طور ‘‘ پیام مشرق کا منظوم اردو ترجمہ کیا تھا  اسی زمانے میں سعدی بھائی جدہ سے لوٹے تھے۔ میں نے انہیں اپنے تراجم سنائے انہوں نے بہت پسند فرمائے لیکن بعض تراجم کو یہ کہہ کر رد بھی کیا کہ اس میں اقبال کا منشاء واضح نہیں ہو رہا ہے اور انہوں نے مجھے ایک اصول بتا دیا کہ ترجمہ ایسا ہو جو فارسی متن کے بغیر اپنے آپ میں مکمل ہو۔ میں نے ان کی یہ بات گرہ میں باندھ لی تھی اس طرح جو تراجم ان کے معیار پر پورے نہ اترتے تھے انہیں دوبارہ ترجمہ کر کے سناتاتھا۔ وہ پھڑک اٹھتے تھے۔ قطعات کے تراجم کے دوران وہ کہیں کہیں اقبال کا منشا بتا دیتے تھے اور میں اپنے تراجم کو خوب سے خوب تر بنانے کی جدو جہد میں مصروف ہو جاتا تھا۔ میں نے لالہ طور کے کسی قطعے کا کوئی مصرع تو در کنار کوئی لفظ تک نہیں چھوڑ ا یعنی ترجمہ کرتے وقت ایک ایک لفظ کا خیال رکھا جب کہ بعض مترجمین نے یہ التزام نہیں رکھا تھا۔ شاید اسی وجہ سے میں خود ترجمہ کرنے کی طرف راغب ہوا۔ سعدی بھائی چاہتے تھے کہ میں ترجمہ شدہ قطعات پر عنوانات بھی لگاؤں تاکہ ہر قطعے کا موضوع سمجھ میں آ جائے مگر مجھے ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں تھا۔ اول تویہ کہ علامہ اقبال نے عنوان نہیں لگایا تھا اس طرح یہ جسارت بے جا ہوتی دوم یہ کہ اس طرح موضوعات کے تناظر میں قطعات محدود ہو جاتے۔ میرے تراجم دو سال کی محنت شاقہ کہ بعد ۲۰۰۱ء میں ’’قنطار ‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ایک سال کے اندر اس کا دوسرا ایڈیشن چھانپا پڑا۔ تراجم پر سعدی بھائی کی داد میرا حوصلہ بڑھاتی رہی۔

اسی زمانے میں انگریزی کی ادیبہ و شاعرہ کملا داس نے اسلام قبول کر کے کملا ثریا کے نام سے ایک نظم ’’یا اللہ ‘‘ لکھی تھی جو تقریباً ہر انگریزی اخبار و رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ سعدی بھائی نے مجھ سے فرمایا کہ میں اس کا منظوم اردو ترجمہ کر ڈالوں۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ انہیں میرا ترجمہ اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اسی وقت اسے اپنے گھر کے کمپیوٹر پر انگریزی متن کے ساتھ کمپوز کروایا۔ میں نے جب یہ اردو ترجمہ انگریزی متن کے ساتھ روزنامہ ’’انقلاب ‘‘ ممبئی کو بھیجا تو اس نے عید رمضان کے خاص نمبر میں شائع کر دیا اور پھر وہ ترجمہ ہند و پاک کے اخبارات و رسائل میں ڈائجسٹ ہوتا رہا۔ دراصل میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ سعدی بھائی مجھ پر کس قدر مہربان تھے اور مجھ سے کیسے کام لیا کرتے تھے میری نکیل ان کے ہاتھ میں تھی جہاں دوڑانا ہوتا دوڑاتے جہاں روکنا ہوتا روک بھی دیتے کہ کہیں مجھے ٹھوکر نہ لگ جائے۔ ان کی جدائی دراصل میرا ذاتی نقصان ہے میں اپنے سرپرست سے محروم ہو گیا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سعدی بھائی نے اقبالیات کی محافل میں تقریر یں تو بہت کیں لیکن کوئی ٹھوس علمی کارنامہ اپنے پیچھے نہیں چھوڑا۔ اقبال جیسے عظیم فلسفی و شاعر کی تخلیقات کے حوالے سے اسلامی پیغام کی ترویج و اشاعت کو ناقابل اعتناء قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس دور انحطاط میں جب کہ طاغوتی طاقتیں اسلام کی بیخ کئی کے درپے ہیں ، اقبال کے حرکت و عمل کے فلسفے کے حوالے سے ذہن سازی کیا معمولی کا م ہے؟  ان کی ایک تقریر کئی کتابوں کا نچوڑ ہوا کرتی تھی۔ علمی متانت کا یہ حال تھا کہ گویا ایک کتاب ہے کہ ورق ورق معنی در معنی کھلتی چلی جا رہی ہے۔ ویسے سعدی بھائی نے بعض اہم علمی شاہکاروں کی تدوین و ترتیب کا کام بھی انجام دیا ہے جیسے مجدد الف ثانی کے ’’مکتوبات ربانی ‘‘ اور شاہ اسمعیل شہید ؒکی تصوف پر مبنی کتاب ’’عبقات ‘‘ کی تدوین و اشاعت۔ یہ کتابیں مکتب نشاۃ ثانیہ معظم جاہی مارکٹ حیدرآباد نے شائع کی تھیں۔ اس میں شک نہیں ’’عبقات‘‘ لکھنے والے شاہ اسمعیل شہید ؒ نے ’’ تقویۃ الایمان ‘‘ لکھ کر اپنی ہی کھینچی ہوئی ایک لکیر کے بالمقابل بڑی لکیر کھینچ دی تھی۔ جس طرح شاہ اسمعیل شہید ؒ کے دادا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے کبھی ’’انفاس العارفین ‘‘ بھی لکھی تھی جسے خود ان کے شاہکار حجتہ البالغہ اور تفھیمات الھیہ نے بھلا دیا۔ مولانا وحید الزماں نے پہلے پہل کیا لکھا تھا دیکھا نہ جائے گا بلکہ آخر آخر انہوں نے کیا روش اختیار کی اس کی اہمیت ہو گی۔ ڈاکٹر ظ انصاری نے مرنے سے پہلے کمیونزم کی تائید میں لکھی ہوئی اپنی تمام تحریروں کو باضابطہ DISOWNکر کے برأت کا اظہار فرما دیا تھا۔ اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔ سعدی بھائی بنیادی طور پر صوفی گھرانے کے آدمی تھے اس لئے انہیں تصوف سے علاقہ تھا لیکن وہ جماعت اسلامی کی فکر سے بھی قدرے قریب تھے۔ مولانا مودودی کے لٹریچر پر بھی ان کی نظر تھی۔ ترقی پسند تحریک کے خلاف اسلامی تحریک چلاتے ہوئے ماہنامہ ’’افق ‘‘ نکالا تھا۔ مسعود جاوید ہاشمی کے پرچے ’’فنکار‘‘ کی سرپرستی فرماتے تھے۔ حیدرآبادسے نکلنے والے دینی مزاج کے حامل روزنامہ ’’نوید دکن ‘‘ میں ادبی صفحہ ترتیب دیا کرتے تھے مختصر یہ کہ سعدی بھائی قلندر بے خانقاہ تھے۔ پیری مریدی کے کوچے سے دور رہنا چاہتے تھے چنانچہ معزالدین ملتانی صاحب کے انتقال کے بعد ان کو خلافت سوپنے کے لیے مشائخین نے بلوایا تو سعدی بھائی نے معذرت چاہی اور اپنے چھوٹے بھائی سعید صاحب کے حق میں دست برداری پسند فرمائی۔

جہاں تک ادب کا معاملہ ہے سعدی بھائی نے کوئی کتاب بھلے ہی نہ چھوڑی ہو، میں ان کی کتاب ہوں ، انہوں نے بھلے ہی پیری مریدی کا سلسلہ نہ چلایا ہو میں وہ ’’مریدِ  سعدی ‘‘ ہوں جس نے ان کی رہنمائی میں اقبال شناسی کے بعض مقامات وطواسین کی سیر کی۔

 

سعدی بھائی کی دوسری برسی کے موقع پر خراج عقیدت از۔ رؤف خیرؔ

 

دکھائی دی ہے جہاں بھی سراب کی صورت

برس پڑ ا ہے وہیں وہ سحاب کی صورت

 

رموز خیر سے اسرار شر سے واقف تھا

وہ پیر خوش نظر و خوش خطاب کی صورت

 

پڑھوں ! کہاں سے پڑھوں بھیگی بھیگی آنکھوں سے

نوشتۂ ورق انتخاب کی صورت

 

مجھے وہ رات کا جگنو بنا کے چھوڑ گیا

جو شخص ڈوب گیا آفتاب کی صورت

 

کتاب والو !  کہاں بے کتاب ہے سعدی

رؤف خیرؔ  ہے زندہ کتاب کی صورت

٭٭٭

 

 

 

 

 

اقبال متین بحیثیت شاعر

 

میرا ایسا خیال ہے کہ بنیادی طور پر جو شاعر ہوتا ہے تخلیقی توازن فکر سے آشنا ہوتا ہے اور جس صنف سخن کو بھی اپنا تا ہے اس میں اپنی پہچان قائم کر کے چھوڑ تا ہے احمد ندیم قاسمی نے شعر کے ساتھ ساتھ افسانے کو بھی اپنی تخلیق جہتوں سے مالا مال کیا مشفق خواجہ نے ’’خامہ بگوش ‘‘ ہو کر طنز و تنقید کی ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی مشتاق احمد یوسفی کے اندر جو شاعر ہے وہ ایک آدھ لفظ کے معمولی سے تصرف کے ذریعے مصرعوں کو پیروڈی کا وہ حسن عطا کرتا ہے جو اپنے قاری کا دل موہ لیتا ہے۔ یوسف ناظم خود بھی بنیادی طور پر شاعر ہیں اس لیے اپنے مضامین میں لفظوں کا جادو جگاتے ہیں۔ انگریزی میں شیکسپیئر کے ڈرامے شعری چاشنی ہی کی وجہ سے تو جانے جاتے ہیں۔ اردو ادب میں بنیادی طور پر جو شاعر نہیں ہیں ان فن کاروں کے لیے شعر گوئی اک حسن اضافی ثابت نہ ہوسکی۔ نیازؔ فتح پوری زندگی بھر جوشؔ، و جگرؔ، کے خلاف لکھتے رہے لیکن خو د ان کی طرح ایک شعر نہ کہہ سکے۔ شمس الرحمن فاروقی، آل احمد سرور، احتشام حسین، گیان چند جین وغیرہ وغیرہ کا اصل میدان تنقید ہے۔ ان لوگوں نے شعر کو دوسرا درجہ دیا اس لیے شعریت نے ان سے منہ پھیر لیا۔ ان کا شعر ان کے لیے وجہ افتخار نہ بن سکا۔ تفنن طبع کے طور پر اختیار کردہ صنف سخن کبھی سرخ رو، نہیں کرتی جگر لہو کرنے ہی سے چہرے پہ نور آتا ہے اختلاف رائے کا آپ کو پورا پورا حق ہے، اگر آپ بنیادی طور پر شاعر نہیں ہیں۔

اقبال متین بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے افسانے میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ ان کے اندر کا شاعر اس پہچان تلے دبنے نہیں پاتا۔ ان کی کہانیوں میں بھی سراٹھاتا ہے۔ ان کے ایک ایک جملے سے جھانکتا ہے۔ آپ اقبال متین کی کوئی کہانی یا ناولٹ پڑھ ڈالیے، ا س میں آپ کو شاعر اقبال متین جگہ جگہ مل جائے گا۔ میں اسی شاعر اقبال متین سے گلے مل کر خوش ہوتا ہوں جس کے اشعار بجائے خود کہانی سناتے ہیں۔

راستہ تو سیدھا تھا جانے کیا ہوا ہم کو

تیرے درسے اٹھ کر ہم اپنے گھر نہیں آئے

اپنے محبوب کے درسے اٹھ کر سیدھا اپنے گھر جانے کے بجائے شاعر کہاں کہاں جا سکتا ہے اور کیوں جانا چاہتا ہے۔ سوچتے جائیے اور لطف لیتے جائیے۔ شعر کہانی بنتا جاتا ہے۔ اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیئے شاعر خواب کے حوالے سے محبوب سے اپنے تعلقات کی ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے :

رات خواب میں ہم نے اپنی موت دیکھی تھی

اتنے رونے والوں میں تم نظر نہیں آئے

کیسا بے پناہ شعر ہے :۔

اصل میں شاعر اقبال متین پر افسانہ نگار غالب آگیا ہے مگر جب کبھی اس شاعر نے سر اٹھایا ہے تو افسانہ نگار ہنس پڑتا ہے کہ مجھ سے بچ کر کہاں جاؤ گے۔ دیکھا تمہارے شعر میں بھی میں ہی ہوں۔ یہ افسانہ نگار۔ شاعر اقبال متین سے کہتا ہے :۔

ہوئے جو سنگ در مئے کدہ تو کیا حاصل

کسی کے ہاتھ سے ٹوٹا ہوا سبو ہوتے

حالانکہ جسم و جاں کا یہ ٹوٹا ہوا سبوہی تو ہے جو کرچیاں ہو کر زینت در مئے کدہ ہو گیا ایسا کیوں ہوا۔ یہ خود اک کہانی ہے۔ اور کہانی جب کسی رسالے میں چھپتی ہے تو کیا قیامت ہے کہ وہ رسالہ بھی لوگ اس تک پہنچنے نہیں دیتے جس کے لیے کہانی لکھی گئی ہے :۔

پڑھی ہے اس نے کہانی مری رسالے میں

اب اس پہ لوگ رسالے بھی بند کر دیں گے

مگر شاعر اپنا فسانہ غم سنانے سے باز نہیں آتا۔ آ ہی نہیں سکتا۔

سنا رہا ہوں کچھ اس طرح سے فسانہ غم

کہ لفظ لفظ مرے غم کا بوجھ اٹھا تا ہے

اور آخر کار شاعر طے کر بیٹھتا ہے :

یہ جی میں ہے کہ کہیں راہ میں ہی کھو جاؤں

ترا مکان تو ہر راستے میں آتا ہے

یہ تو اس کے مکان کا قصہ ہے۔ خود شاعر کے مکان کی روداد بھی کچھ کم درد ناک نہیں :

یہ کھڑکیاں تھیں ، یہ دیوار تھی، یہاں در تھا

اسی زمین پہ یار و کبھی مرا گھر تھا

سچ بتائیے کیا یہ ’’بے گھری ‘‘ کسی کہانی کا تانا بانا ثابت نہیں ہوتی۔ یہ وہ گھر ہے جو سرحدوں کے پار بلراج ساہنی کو لاہور میں تو پرویز مشرف کو دہلی میں کہانی سناتا ہے۔ کبھی کوفہ و بغداد تو کبھی گجرات کے ملبوں سے سر اٹھاتا ہے

کس سے پوچھوں کہ مرے نام کی تختی ہے کہاں

میرے سینے میں تو ویرانے سمائے ہوئے ہیں

بے خودی کے راستے شاعر اپنے لیے بے سبب نہیں چنتا :

کبھی جو ساتھ تھے میرے، مری رگ جاں تھے

دلوں کو چھوڑ کے محلوں میں جاگزیں ہیں اب

 

میں جام اٹھا کے یہی سوچتا رہا اکثر

نشہ بھی لے گئے وہ لوگ جو نہیں ہیں اب

 

فریدؔ و نشوؔو پپنؔ  کے ساتھ ہے عمران

پتا تودے گئے ہوتے جہاں کہیں ہیں اب

 

چلو متین و ہیں جا کے پھر انھیں ڈھونڈیں

وہ صورتیں جو زمیں بن کے دل نشیں ہیں اب

یہ کہانی الگ ہے۔ جس باپ کے کاندھوں کو تین تین نوجوان و نوعمر بیٹوں کے جنازوں کا بوجھ ڈھونا پڑ جائے کیا وہ رگ گل سے بلبل کے پر باندھتا رہے گا یا ظاہر ادر بیگ کے چنے چباتا رہے گا :

ورق ورق ہیں کتابوں کے سینے شق، پھر بھی

اس انتشار میں عرض ہنر کہاں ہو گا

بھلے ہی اقبال متین کو بڑی قیمت عرض ہنر چکانی پڑی انہوں نے اس انتشار میں بھی خود کو سنبھالے رکھا یہی تو ہنر ہے۔ بکھر جاتے تو صاحب ہنر کیسے کہلاتے !  دشت سخن اور صحرائے افسانہ دونوں کو سیراب کرنے کے لیے جسم و جاں کا لہو لہو ہونا بھی ضرور ی ہے۔ کرب وبلا کے راستے میں آنے والے دجلہ و فرات کو کبھی تشنگی ٹھکرا بھی دیتی ہے۔

شعر و سخن کی آن کہیں میں ، افسانے کی جان کہیں

لیکن میرے گھر میں میری ہو بھی تو پہچان کہیں

غم ذات و غم جاناں دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ غم جاناں نے اقبال متین کو افسانہ نگار بنا کر رکھ دیا ہے تو غم ذات نے شاعر یا پھر ترتیب الٹ بھی دیں تو فن کاری کے آئینے میں بال نہ آئے گا آخر سکہ تو ایک ہی ہے۔

مجھے یہ یاد نہیں ہے وہ کون تھا میرا

وہ کوئی تھا جو بھری شام کر گیا مجھ کو

اس شعر کا سرمئی شام جیسا افسانوی حسن دیکھئے کہ وہ شخص جو دن بھر سورج کی طرح ان کی زندگی میں سونا بکھیرتا رہا سرشام ڈوبنے لگا تو ان کے حیراں حیراں پیکر پر طشت افق سے لے کر لالہ کے پھول پھینکتا ہے اور سہانی شام ہی کا حصہ بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ بھری شام شاعر کے لیے کڑی رات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے یا ایک بے انت کہانی کی بنیاد۔ ’’وہ بھری شام کر گیا مجھ کو ‘‘ نرا افسانہ نگار کھرا نقاد یا محض ڈرامہ نگار کہہ ہی نہیں سکتا تا وقتیکہ وہ شاعر نہ ہو۔ یہ شاعرانہ اظہار ہی اقبال متین کی پہچان ہے گھر کے اندر جھانکئیے تو آنگن میں پڑے تخت پر ایک کہانی سے ملاقات ہو گی۔

اپنے آنگن میں اپنی بچی کو سمیٹے بیٹھی ہے

اب میں تیرا کیا ہوتا ہوں تو میری کیا ہوتی ہے

 

میں نے کب کے اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا

دل میں چھپ کر یاد اس کی اب میرے غم سے ملتی ہے

 

اقبال متین نے بڑی مترنم بحروں میں اپنی کہانیاں بیان کی ہیں :

رات رات بھر مجھ میں چھپ کر باتیں کرنے والا تو

تجھ کو اپنے باہر لا کر پیار جتانے والا میں

 

آتی جاتی پت جھڑ رت کو سبز بنانے والا تو

ذہن و دل کے ویرانوں میں پھول کھلانے والا میں

کہانی کار عموماً سماج کے چہرے سے نقاب الٹنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے۔ اس سیاس معاشرے کا یہ حال ہے کہ خون کا رشتہ بھی خونی رشتے کا روپ دھار لیتا ہے۔

ہائے سیاست کے سب چہرے دست و گریباں ہوتے ہیں

کوئی کسی کا باپ نہ بیٹا، جو کچھ تھا سرکاری تھا

اقبال متین کی زبان بڑی پیاری ہے۔ ہر چند کہ افسانہ نگاری نے انھیں شہرت بخشی لیکن شعری پیرایۂ اظہار انہوں نے ایسا اختیار کیا ہے کہ بڑے بڑے فل ٹائم شاعر ہونے کا دعوا کرنے والے ان کا منہ تکتے رہ جائیں۔ یہ مصرعے دیکھئیے :

ع         یہ سچ ہے اب بھی کلیجے کی کور کٹتی ہے

ع         وہ جب چاہے مرا سارا سراپا اوڑھ لیتا ہے

ع         اپنی چوکھٹ پہ ٹھٹک جاتے ہیں دستک کی طرح

اقبال متین کے اشعار درحقیقت منجمد کہانیاں ہیں جن کی پرت کے نیچے اک ایسا شہداب ہے جو پیاس بجھاتا بھی ہے پیاس بڑھا تا بھی ہے۔

نظموں کا یہ حال ہے کہ پگڈنڈیوں پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتا ہوا ایک معصوم پیکر پرندوں کی طرح ’’ہراسا‘‘ (بجوکا ) سے ڈر کر متین سے لپٹ لپٹ جاتا تھا اور پھر یوں ہوا کہ خود ہراسا بن گیا۔

’’وارث ‘‘ میں ایک قلم کار باپ کاغذ قلم ہی تو چھوڑ جائے گا۔ اولاد کے لیے اس سے بڑا ترکہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

اقبال متین کبھی ’’طاغوت کی کہانی ‘‘ بھی سناتے ہیں کہ

وہ کوئی بینی بریدہ کسی سے کہتا تھا

میں اپنی ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے دوں گا

مگر جو شخص بہت بڑا کہانی کار ہے اس کی کہانیاں بجائے خود نظمیں ہیں اسی طرح بحیثیت شاعر ایک ایک شعر اور ایک ایک نظم اپنی جگہ کہانی ہے۔

کبھی کبھی شاعر ایک آدھ شعر ایسا کہہ گزرتا ہے جو اسے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ایسے کئی شاعر ہیں جو اپنے کسی اچھوتے خیال پر مبنی ایک شعر کی وجہ سے آج تک زندہ ہیں۔

اقبال متین نے بھی ایک ایسا شعر کہا ہے جس کا اچھوتا خیال اور انکسار بھرا طرز اظہار کم از کم میری نظر سے پورے شعری سرمایہ میں کہیں نہیں گزرا۔

میں بھی جہاں سے اس طرح اٹھ جاؤں گا متینؔ

جس طرح ترک رکھ کے اٹھا ہوں کتاب میں

میں تو اس شعر پر سردھنتا رہتا ہوں۔ کتاب میں ترک رکھ کر اٹھنے والی بات اردو شاعری میں اک اضافے سے کم نہیں۔ خدائے سخن میرؔ نے کہا تھا :

یوں اٹھے آہ !  اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

مگر یہ دھواں کچھ اور ہی ہے جو صاحب کتاب کے دل سے اٹھتا ہے۔ کتاب زندہ رہے، کتاب پڑھنے کی آرزو رکھنے والے کا اقبال بلند رہے۔ کتاب میں ترک رکھ کر اٹھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس خطے سے آگے ابھی بہت کچھ پڑھنا باقی ہے۔ بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔

اب رہا اقبال متین کی شاعرانہ حیثیت کے تعین کا سوال۔ تو۔ انہوں نے اپنے شاعر ہونے کا دعوا ہی کب کیا ہے۔ بس چپکے چپکے اس کوچے میں بھی اپنے قدموں کے نشان چھوڑے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے بعد شاعری کا دعوا کرنا نبوت کا دعوا کرنے کے برابر ہے۔ زیادہ سے زیادہ اولیائے غزل اور اوصیائے نظم ہوسکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کاغذ پہ آگہی

 

قصہ و قدیم و جدید لاکھ دلیل کم نظری سہی زندگی کے ہر موڑ پر پیش آتا ہے۔ حتیٰ کہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہر بھی نئے اور پرانے دو طرح کے ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح کلاسیکل ادب اور جدید ادب کی اصطلاحیں بھی کچھ یوں ہی مروج نہیں اس کے پیچھے کوئی بات ہوتی ضرور ہے۔ اگر اکبر الہ آبادی یا شبلی نعمانی مصلے بچھائے مشرقی جام جم ہی میں ایک دنیا کو جلوہ گر دیکھنا چاہتے تھے تو سرسید احمد اور حالی جام جم سے باہر کی کائنات کو جام جم کے وسیلے کے بغیر چل پھر کے دیکھنا چاہتے تھے کہ

ملک خدا تنگ نیست

پائے مرا لنگ نیست

عموماً پرانے شہر میں رہنے والے آبا و اجداد کی روایتوں کو گلے لگائے ہوئے بڑی نستعلیق زندگی گزارتے ہیں جس میں حد و ادب کا پوار پورا خیال رکھا جاتا ہے ان روایات سے سرموانحراف، بد تمیزی و بد اخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ نئے شہر میں رہتے ہوئے آدمی آبا و اجداد کی طرز زندگی سے بالکل مختلف انداز اختیار کرتے ہوئے نئی ہوا میں سانس لیتا ہے اور مشرق کی طرف آنکھیں چرا کر مغرب کی طرف منہ کر لیتا ہے اس میں نئی تعلیم کابہت دخل ہے۔

قدیم و جدید شاعری کی تقسیم و تفریق بظاہر عجیب سی لگتی ہے۔ مگر قدیم مکتب فکر اور جدید انداز فکر میں تمیز کوئی مشکل کام نہیں۔ استادی و شاگردی کی روایت بھی قدیم مکتب فکر کی پہچان ہے۔ نووار دان ادب اساتذہ کے آگے باضابطہ زانوئے ادب تہہ کر کے کچھ سیکھنا چاہتے تھے۔ اور اساتذہ بھی اپنے علم کی حد تک اور اپنی افتاد طبیعت کے مطابق انہیں سکھانے کی کوشش بھی کرتے تھے مگر اک آخری داؤ اپنے پاس ضرور رکھتے تھے تاکہ باغی شاگردوں کو زیر کر سکیں۔ قدیم مکتب فکر کے اساتذہ اپنے فکر و فن سے زیادہ اپنے شاگردوں کی کثرت پر ناز فرماتے ہیں۔ بعض دفعہ تویوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی شاعر اگر کسی استاد شاعر کے ساتھ ایک سے زیادہ دفعہ کسی ہوٹل میں بھی پایا جائے تو لوگ اسے بھی اس استاد کے شاگردوں میں شمار کرنے لگتے ہیں اگر استاد موصوف سے کوئی پوچھ بھی لے کہ ’’فلاں صاحب کیا آپ کے شاگرد ہیں ‘‘ تو استاد صرف سگریٹ کا اک کش اور اک قہقہہ لگا کر ٹال دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کھل کر ہاں یا نا میں جواب نہیں دیتے۔ استاد کا مذبذب رویہ ایک شاعر کا بیڑہ غرق کر دیتا ہے تا و قتیکہ وہ استاد کی موجود گی میں غیر پارلیمانی زبان میں علی الاعلان اپنی برات کا اظہار نہیں کرتا۔ یہاں یہ صراحت بھی ضرور ی معلوم ہوتی ہے کہ ہم روحی قادری صاحب کی شاگردی سے کوسوں دور ہیں۔ اس مضمون کی وجہ سے کوئی صاحب خواہ مخواہ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم روحی صاحب کے شاگرد ہیں ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں۔

اکثر استاد شاعر Ghost writingکر کے کئی شاعروں کے پس پردہ ذہن رسا کا رول ادا کرتے ہیں۔ بعض وقت اختلافات ہو جائیں تو دونوں کے درمیان عدالت بازی بھی ہو جایا کرتی ہے اس وجہ سے بھی پڑھا لکھا Genuineہنر مند آدمی قدیم مکتب فکر سے دور رہنے ہی میں اپنی عافیت محسوس کرتا ہے۔ مگر نئے شاعر کو فکر و فن کے نکات بھی تو سیکھنے ہوتے ہیں۔ اس کے لئے وہ مصدقہ کتابوں اور رسائل سے رجوع کرتا ہے۔ اس طرح اپنے مطالعے کواپنااستاد بناتا ہے۔ اوریوں دلیل و جواز کے راستے سے ادب میں ہونے والے انقلابات اور نئی اصناف سے بھی نئے شاعر کو واقفیت حاصل ہوتی جاتی ہے۔ یوں اس کا فن نکھرتا ہی چلا جاتا ہے۔ زبان و بیان پر بھی اس کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ اس کے باوجود کسی تساہل یا خام تجر بے کی بنیاد پر وہ کچھ کہہ گزرتا ہے تو قدیم مکتب فکر کے اساتذہ آنکھوں آنکھوں میں اور کبھی کبھی زیر لب مسکرا کر اس کے اس اقدام کو اس کی نادانی سے تعبیر کرتے ہیں۔

دوسری جانب جدید شاعر اپنی علمیت پر بیجا اعتماد Over confidenceکی وجہ سے قدیم مکتب فکر کو کسی خاطرمیی نہیں لاتا۔ زبان و بیان کے تجربات کے نام پر ادھم مچاتا ہے کبھی مرغے کی چونچ میں سورج رکھ دیتا ہے تو کبھی یہ دیکھتا رہتا ہے کہ، سرخ گوشت کی لمبی نوک جانے کہاں تلک جاتی ہے۔ کبھی آزاد غزل کبھی نثر نظم۔ کبھی ایک سطری تو کبھی ایک مصرعی نظم۔ کبھی ہائیکو اور ترائیلے کہہ کہہ کر اپنی ہمہ دانی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ سب کا روائیاں استاد شاعر اپنی شیروانی کے بٹن کھول کر سراٹھائے اور سرجھکائے حیرت سے دیکھتا رہتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قدیم و جدید روایات کا احترام کیا جائے۔ جس طرح قدیم مکتب فکر یک لخت نظر انداز کر دیتے جانے کے قابل نہیں اسی طرح جدید لب ولہجہ بھی ہنسی اڑائے جانے کا مستحق نہیں۔ جدیدیت کی عمارت کی بنیاد میں اگر روایت کے پتھر نہ ہوں تو اس کی پائیداری مخدوش اور اگر یہ عمارت آب و روغن میں تو چاند سورج کو شرمائے مگر مستخکم بنیادوں پر کھڑی نہ ہو تو کب تک کھڑی رہے گی۔ اسی طرح قدیم عمارت کی دیکھ ریکھ اور صحیح طور پر بر وقت آہک پاشی نہ کی جائے تو وہ بہت جلد کھنڈر میں تبدیل ہو جائے گی۔ روحی قادری صاحب کی قلندر مزاجی موسی ندی کے کنارے ایک کٹیا میں محصور ہو کر رہ جانے کی چیز نہیں۔ یہ عصری آسائشوں سے آراستہ عمارات سے آنکھ ملانے کے قابل نہ سہی اپنی اور اپنے مکین کی موجود گی کا احساس تو دلاتی ہے جب کہ کچھ لوگ ریت کے گھروں ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔

روحی قادری صاحب قدیم مکتب فکر کے جدید شاعر ہیں ضلع جگت کو کچھ امامان فن عیب شمار کرتے ہیں۔ مگر شعر چونکہ الفاظ کی مرصع سازی سے بھی عبارت ہے  اس لیے بہر حال ضلع جگت شعر کا حسن بھی ہے۔ البتہ محض ضلع جگت کی خاطر شعر کہنا محض استادی سمجھا جائے گا۔ روحی قادری صاحب کے پاس اکثر شعر زبان و بیان کی چاشنی لئے ہوئے ہیں۔ الٹ پھیر سے وہ نئے مفاہیم پیدا کرتے ہیں۔

شعر غزل کے کہنا کوئی کھیل نہیں ہے بچوں کا

سیدھی سیدھی بات تو یہ ہے ٹیڑھی ہے یہ کھیر میاں

روحی قادری صاحب قدیم مکتب فکر کے ایسے استاد ہیں جو محض قافیہ پیمائی نہیں کرتے اور قافیے کے امکانات چونکانے کے لیے شعر کہتے ہیں۔ ان کے ہاں غم جاناں کے بجائے غم دوراں کا دور دور ہ دکھائی دیتا ہے۔ محبوب سے زیادہ احباب کا تذکرہ ان کے ہاں پایا جاتا ہے۔

احباب الگ نہ تھے تو الگ تھی وہ گفتگو

مجھ سے جدا ہوئے تو جدا بولنے لگے

نظر کیا رکھیں روحی دشمنوں پر

ہمارے دوستوں میں کیا کمی تھی

روحی صاحب الفاظ برتنے کا سلیقہ جانتے ہیں ان کے لہجے میں بلا کی خود اعتمادی بھی ہے۔

نقاب الٹتی ہے کاغذ پہ آگہی میری

تو روشنائی سے چھنتی ہے روشنی میری

 

گماں ہوا کبھی اس کے قدم کی آہٹ کا

تو کان کھول کے سننے لگی گلی میری

روحی قادری صاحب کے فکر و فن میں ایک ایسا قلندر سانس لیتا دکھائی دیتا ہے جو مست مئے الست ہے۔

روز ازل سے ہے مرا مسلک قلندری

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

غالب کی سپہ گری کا وہ عالم تھا کہ غالب کے ہاتھ میں قلم دودھاری تلوار کے روپ میں تھا۔ جب کہ روحی صاحب کی قلندری بڑی پر فریب ہے۔

لوگ دھوکے میں آ گئے روحی

اپنی طرز قلندری سے بھی

ہر چند قلندر دنیا کے پیچھے سرگراں و سرگرداں نہیں رہتا۔ مگر دنیا تو قلندر کے ساتھ ہی لگی رہتی ہے۔ روحی صاحب کے اندر کا قلندر اس پر اک غلط انداز نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

گھوم پھر کر اپنے در پر آئی ہے دنیا تو خیر

رہنے دو دہلیز پر یہ بھی پڑی رہ جائے گی

اس قلندر کی متاع تو کچھ اور ہی ہے۔

مانا کہ اپنے قرب کی دولت کے ماسوا

سب کچھ وہ بخش دیں گے مگر لے کے کیا کروں

 

گردن ہو کیا ضرور جو طوق وفا نہ ہو

گر ہو نہ سرفراز تو سرلے کے کیا کروں

روحی صاحب جیسا قلندر اپنے سے بڑے قلندر سے ہی کھلنا چاہتا ہے۔

سر سری ربط جنوں کو بھی غنیمت جانا

گفتگو کرتے رہے میر تقی میر سے ہم

اس میں نہیں کھلتا کہ میر نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تھا کہ نہیں یا پھر زبان کے بگڑنے کے اندیشے سے چپ سادھ لی تھ۔ ویسے بقول جناب روحی

بڑی مدت میں آتا ہے سلیقہ بات کرنے کا

لب و لہجہ تو کیا آواز بھی مشکل سے ملتی ہے

روحی صاحب کے لہجے کی خود اعتمادی انہیں سامعین بھی مہیا کرتی ہے۔ ورنہ آوازوں کے اس جنگل میں کون کس کی سنتا ہے۔ روحی صاحب دکن کے ایسے اساتذہ کے صحبت یافتہ ہیں جنہیں بولنا آتا تھا۔ ان کی بول چال بھی مزہ دے جاتی ہے۔

روحی ہوا جو ہم کو کبھی بولنے کا شوق

گونگوں کو ہم نے جمع کیا بولنے لگے

 

یہ آنکھ ہے تو اس میں سفید و سیاہ ہے

دل ہے تو دل میں آتا ہے اچھا برا خیال

 

بہت آساں سہی تیری گلی میں جان دے دینا

مگر مشکل یہ ہے تیری گلی مشکل سے ملتی ہے

 

جام سی آنکھیں  ہیں کیوں چھلکی ہوئی

پھول سا چہرہ ہے کیوں اترا ہوا

 

بولنے کے ساتھ ساتھ روحی صاحب کو لکھنا بھی آتا ہے۔

لکھنے والوں نے یوں تو سب لکھا

یوں مگر دل کا حال کب لکھا

 

لوگ شائستۂ ادب نہ رہے

ہو کے لوگوں نے بے ادب لکھا

احتیاط  نویسی کا یہ عالم ہے کہ جناب روحی لکھنے سے پہلے یہ اہتمام کرتے ہیں۔

ہم نے جس لفظ کو بھی برتا ہے

پہلے اس کا حسب نسب لکھا

لکھنے میں وہ اتنے صاحب نصاب ہوئے کہ

ہم نے دے دی زکواۃ لکھنے کی

حلیۂ شیخ محترم لکھا

جیسا کہ ہم نے لکھا ہے جناب روحی میں خود اعتمادی کچھ زیادہ ہی ہے۔ انہوں نے اساتذہ کی زمینوں میں بھی گل کھلانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ خاص طور پر میرؔ و غالبؔ  کے کوچوں میں جناب روحی کے قدم بہت سنبھل کے پڑتے ہیں۔

ہر نقش قدم اس کے قدم سے نہیں ملتا

اس تک جو پہنچتے ہیں وہ ہوتے ہیں نشاں اور

 

مری سمجھ میں یہ آنے لگا ہے میں کیا ہوں

پھر ایک بار تو فرمائیے کہ تو کیا ہے

 

تم مسیحا ہو یہ خیال رہے

میں تو مر جاؤں گا مرا کیا ہے

 

انھیں کافر اداؤں نے انھیں نیچی نگاہوں نے

کہا تھا کیا سنیں گے آپ اجازت ہے کہوں وہ بھی

 

اب اس منزل میں لے آیا کرم ضبط محبت کا

میں اس کا نام لیتا تھا سو شاید اب نہ لوں وہ بھی

 

اچھا ہوا لباس تعین اتر گیا

بے ننگ و نام ہوں تو ندا مت نہیں مجھے

 

دیکھی ہے میں نے دوست کی بدلی ہوئی نظر

دنیا بدل رہی ہے تو حیرت نہیں مجھے

 

دیکھا خود اعتمادی اسے کہتے ہیں کہ دکن کے کنارے پڑا ہوا ایک قلندر ایک ایسے شخص کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے جسے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا۔ وہ غالبؔ  کی اتباع ہو کہ میرؔ کی تقلید۔ جناب روحی جس زمین پر بھی پانو رکھتے ہیں جما کر رکھتے ہیں۔

سب سنتا ہوں کیا کہتی ہے دنیا مرے پیچھے

میں کہتا ہوں کیا چیز ہے دنیا مرے آگے

برسات سے جو مجھ پہ گزرتی ہے خبر کیا

روتا ہے فلک اپنا ہی رونا مرے آگے

عالی حوصلگی انہیں جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک بھی لے جاتی ہے۔

تم نے اپنا لوہو اپنے فن کو دیا یہ خوب کیا

لاؤ ذرا ہم بھی تو دیکھیں کیسی ہے تصویر میاں

دیکھیں گے ہم بھی کہ کہاں تک زور ہوا کا چلتا ہے

کب تک جکڑے رکھتی ہے یہ سانسوں کی زنجیر میاں

روحی صاحب سب میں اسی اک ساز کے نغمے بجتے ہیں

سب ہیں اسی آواز کے شعلے کیا مرزا کیا میر میاں

تخلیقی گراف بھی زندگی کے گراف کی طرح اوپر نیچے ہوتا ہی رہتا ہے۔ حتیٰ کہ خدائے سخن میرؔ خاک زاد گی پر اتر آتے ہیں۔ تو ’’پستش بغایت پست ‘‘ کی منزل میں آ جاتے ہیں تو روحی قادری کی بساط ہی کیا ہے وہ بھلے ہی ’’گفتگو کرتے رہے میر تقی میر سے ‘‘ ہم کہہ لیں اپنی شان کلیمی پر ناز نہیں کر سکتے۔ اس مرحلے میں غالبؔ  کا اقدام نہایت دانشمند انہ تھا۔ اس نے اپنے شعروں کے کڑے انتخاب سے اپنے لئے صاحبان ذوق کے دل و دماغ میں نہ صرف جگہ بنائی بلکہ اک تجسس کو ابھارا جس نے نسخہ نظامی سے نسخہ حمیدیہ تک اور یادگار غالب سے تفہیم غالب تک کئی دروازے کھولے  جناب مضطر مجاز نے برسوں پہلے روحی صاحب کے سو کے قریب اشعار کا ایک کتابچہ بنام ’’کیف اضطراب ‘‘ شائع کیا تھا۔ وہ ان کے اس مجموعۂ کلام ’’حرف روشن ‘‘ کے تقریباً  یڑھ سو صفحات سے زیادہ موثر تھا۔ اس دور میں کسی شاعر کے پاس زندہ رہ جانے والے دس بیس شعر بھی نکل آئیں تو بہت غنیمت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

قلندر مزاج شاعر طالب رزاقی

 

حیدرآباد میں بعض ایسے شاعر گزرے ہیں جو قلندر مزاج تھے۔ کچھ شعر کہہ لیئے کسی مشاعرہ میں پڑھ دیے زیادہ سے زیادہ ریڈیو سٹیشن سے کلام سنادیا بس۔ کتب و رسائل سے ان کی یاری کم کم ہی رہی۔ بے نیازانہ زیست کرتے تھے۔ جیسے اوج یعقوبی صاحب، روحی قادری صاحب، اختر واجدی صاحب وغیرہ وغیرہ ان میں ایک نام جناب طالب رزاقی کا بھی ہے۔ مجھے نہیں معلوم ان کے نام کے ساتھ ’’رزاقی ‘‘ کس رعایت سے موجود ہے۔

میری شعر گوئی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ میں نے طالب رزاقی صاحب کو مشاعرے لوٹتے دیکھا ہے۔ دبلے پتلے سانولے سلونے مگر غضب کا ترنم۔

ہر فن میں سرپرستی لازمی ہے۔ جوہر TALENTتو تقریباً ہر حقیقی GENUINEفن کار میں ہوتے ہیں ان کی پذیرائی اور پشت پناہی کرنے والا چاہیئے۔ شکیب جلالی کو احمد ندیم قاسمی نے روشناس خلق کروایا۔ ظفر اقبال کو شب خون نے اچھا لا۔ ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ترقی پسندوں نے ہر اس شاعر ادیب کو آسمان پر بٹھایا جو اس تحریک سے وابستہ تھا۔ جدیدیت نے محمد علوی اور عادل منصوری کی پہچان بنائی۔

ہرفن کار کے سرپر کسی تحریک کا دستِ  شفقت ہویا کسی مستحکم ESTABLISHEDقلم کار کا سایہ ہو۔ وہ اسی سائے میں پنپ سکتا ہے، یا پھر وہ کسی رسالے کا مدیر ہو۔ میر ا خیال ہے اگر مخدوم کے پیچھے ترقی پسندوں کا ہاتھ اور اربابِ  سیاست کا ساتھ نہ ہوتا تو پتہ نہیں اہلِ نظر مخدوم کے ساتھ کیا سلوک کرتے۔ اسی طرح سلیمان اریب اگر ’’صبا‘‘ کے مدیر نہ ہوتے تو نہ جانے ادب میں ان کا کیا مقام ہوتا۔

بے چار ے طالب رزاقی نہ کسی تحریک سے وابستہ نہ کسی پرچے کے مدیر۔ انہوں نے بڑی خاموشی سے اپنے شعر کے بل بوتے اپنی پہچان بنائی۔ غریب آدمی کا یوں بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ طالب رزاقی صاحب کو کسی سے کوئی توقع بھی نہیں تھی۔ وہ اچھے شعر کہتے تھے اور انھیں اچھے انداز میں سناتے بھی تھے۔ با ذوق حضرات ان کی قدر کرتے تھے۔ مگر کسی ادارے نے ان کی سر سرستی نہیں کی۔ اردو اکاڈمی نئی نئی قائم ہوئی تھی جس نے ان کا مجموعۂ کلام ’’نوائے طالب‘‘ کے نام سے جون ۱۹۷۹ء میں شائع کیا۔ ہمارے بعض شعرائے کرام اتنے لاپروا گزرے ہیں کہ اردو اکاڈمی کی طرف سے کتاب کی اشاعت کے لیے منظور شدہ مالی تعاون حاصل کر لیا اور کتاب چھپوائی ہی نہیں۔ شاید اسی وجہ سے اب اردو اکاڈمی نصف رقم اشاعت میں تعاون کے لیے اور کتاب چھاپ کر داخل کر دی جائے تو باقی آدھی رقم عطا کر رہی ہے۔

جناب طالب رزاقی نے کبھی کسی ادارے سے اعانت قبول نہیں کی مگر آخر کار اردو اکاڈمی ہی کی طرف سے ان کی کتاب کی اشاعت عمل میں آئی۔

جناب طالب رزاقی کے اشعار سننے والوں کو جھومنے پر آمادہ کرتے تھے۔

 

زندگی سے کئی باتیں ابھی طے کرنی ہیں

اک ذرا عمر کی میعاد بڑھا دی جائے

 

زندگی چھیننا معصوم سے پروانوں کی

مقصدِ  شمع یہی ہے تو بجھا دی جائے

 

لب کشائی ہے بڑی بے ادبی ان کے حضور

کہکشاں اشکوں کی پلکوں پہ سجادی جائے

 

جناب طالب رزاقی کی خود داری کی مثال ان کے اس شعر سے دی جا سکتی ہے

ہزاروں آستاں میری جبیں تک کھینچ کے آتے ہیں

کسی کے آستاں تک میری پیشانی نہیں جاتی

مندرجۂ ذیل اشعار پڑھتے ہوئے جناب طالب سرتا پا ترنم ہو جایا کرتے تھے۔

 

کارواں سے کیوں رہبر دور دور چلتا ہے

کیا ادھر سے مقتل کا راستہ نکلتا ہے

 

زندگی سنورتی ہے حادثوں سے ٹکرا کر

لغزشوں کے صدقے میں آدمی سنبھلتا ہے

 

آپ کیا سمجھتے ہیں صبح یوں ہی ہوتی ہے !

تیرگی کے دامن پر دل لہو اگلتا ہے

 

ان کی یاد آتی ہے یوں ہجوم حرماں میں

جیسے دور صحرا میں اک چراغ جلتا ہے

 

یہ دل لبھانے والا ترنم آج بھی میرے کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ شعر کس قدر حقیقت انگیز ہیں۔ ترقی پسند فکر سے کس قدر آگے۔ مگر سیاسی و سماجی سر پرستی کے نہ ہونے سے صدا بصحرا ہو کر رہ گئے۔

طالب رزاقی صاحب نے اپنے شعر میں اپنی باخبر ی اور خوش ہنری کے نمونے رکھ دیئے ہیں  عصری دکھ اور ملی احساسس ان کے فکر و فن کا شناسنامہ ہے۔ دیکھئے کس سلیقے سے اپنا احساس کرواتے ہیں :

 

تعداد کے لحاظ سے ہم لوگ کم تو ہیں

لیکن حضور، صاحبِ  سیف و قلم تو ہیں

 

دیکھو ہمیں گراؤ نہ اپنی نگاہ سے

ہم کچھ نہیں ہیں پھر بھی تمہارا بھرم تو ہیں

 

یہاں لفظ (دیکھو)کس قدر بامعنی ہے۔

طالب صاحب محض قافیہ و ردیف کا جادو جگا نے کے لیے شعر نہیں کہتے تھے۔ ان کے قلم میں روشنائی بنتِ  عنب کی رگوں سے ہو کر نہیں آئی تھی۔

 

اب بھی ہم چاہیں تو مئے خانہ سلامت نہ رہے

تو نے ساقی ہمیں اس حال میں سمجھا کیا ہے ؟

 

خود بدلنے لگے دنیا کو بدلنے والے

دیکھنا وقت کی دیوار پہ لکھا کیا ہے

 

تم ترس جاؤ گے تابانی محفل کے لیے

ہم تو اٹھ جائیں گے محفل سے ہمارا کیا ہے

 

کیسے رواں اسلوب میں انہوں نے اپنے دل کی بات کہہ دی جو ہر دل کی ترجمان بھی ہے۔

شعر اور رعایتِ  لفظی بعض شاعروں کے ہاں لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ طالبؔ رزاقی صاحب نے بھی رعایت لفظی سے فائدہ اٹھایا ہے اور دل لبھانے والے شعر کہے ہیں۔

وہ اٹھ کر انجمن سے جا رہے ہیں

مرا دل ہے کہ بیٹھا جا رہا  ہے

طالب رزاقی صاحب جیسے شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے منتخب کلام کا جامع انتخاب منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ کسی شاعر کے مجموعۂ کلام میں دوچار شعر بھی اگر متاثر کرنے والے اور یاد رہ جانے والے نکل آتے ہوں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ جناب طالب رزاقی کے ہاں تو کئی اچھے شعر مل جاتے ہیں ، جو ضرب المثل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ذکی بلگرامی اعلی اللہ مقامہ

(پیدائش یکم ستمبر ۱۹۴۷ء۔ وفات ۲۴اکٹوبر ۲۰۰۵ء)

 

خاکِ دکن ازل سے مردم خیز ہے اور ذکیؔ جیسے ’’مولودِ  دکن ‘‘ نے یگم ستمبر ۱۹۴۷ء کو آنکھیں کھولیں تو رتیلی مٹی کے کئی بت بھربھرا کے زمیں بوس ہو گئے بادِ شمال سطح مرتفع دکن پر سر پٹکتی رہی اور خمیر کا واسطہ دیتی رہی تو یہ سانولا سلونا دکنی خوش اندام بلگرام کے حوالے سے جانا جانے لگا۔

تارے، چاند، سورج کے طلوع کو خوش آمد ید کہنے والے ذکیؔ  نے ان کے خروج پر دل برداشتہ ہو کر انھیں کبھی بھی مولائے کائنات کا درجہ نہیں دیا بلکہ خود میثاق بوترابی سے نور بافی و نور پاشی کا سلسلہ شروع کر ڈالا جو شعر در شعر فنکارانہ تانے بانے کے حوالے سے ان کی پہچان بنا رہے گا۔ عرفان کی تلاش میں وہ کسی پروین پرشاکر نہیں رہتے اور خوشبو ے صد برگ سے مشام جاں معطر کرتے ہوئے سات سماوات کے کینواس پر اچٹتی سی چشم رہگیر ڈال کر چاند چہرہ ستارہ آنکھوں کی جستجو میں کسی بندۂ علیم و خبیر کے ہاتھ پر  بیعت کرنے کے لیے آگے بڑ ھ جاتے ہیں۔ بالآ خر اس تلاش نے انھیں مٹھی بھر روشنی سے نواز ہی دیا۔ اسی قندیلِ  سخن کے سہارے وہ کوفۂ فن کی نیت باندھ کے عصائے موضوعی ٹیکتے ہوئے بابل ونینوا تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے راستے میں کوئی فرات حائل نہیں ہوسکتا۔

نکل پڑا ہے تو اب سایۂ شجر میں نہ بیٹھ

سفر کی شرط یہی ہے کہ رہگزر میں نہ بیٹھ

ذکیؔ  کی گفتگو میں بھی شعری ذکاوت اور شعر میں بول چال کا مزہ ہوا کرتا تھا۔ اردو کی شعری روایت کو انہوں نے حرم میں جگہ دے رکھی تھی تو فارسی کے دل نواز حسن سے بھی متعہ کر رکھا تھا اور دنوں کے درمیان ذکی کا وجود توازنِ  تعلقات نباہتا رہا۔ وہ ناجائز اور غیر ثقہ ’’نشان‘‘ اپنی جبیں ِ  ذکاوت پر نہیں چھوڑ تے۔ حیا تو آنکھ میں ہوتی ہے۔ ہر اچھے خیال کو وہ اپنی چادرِ  تطہیر میں لے لیتے ہیں۔ اگر کوئی اچھوتا خیال امیر شام کے نمک پر پل بھی رہا ہو تو وہ حر کی طرح ان کے لشکرِ سخن میں درانہ چلا آتا ہے اور اپنے جو ہر دکھاتا ہے۔ ع  ہم اپنے قتل کا اب کس سے خونبہا چاہیں۔ (خیر)

ذکی بلگرامی کا ہاتھ کشادہ، نظر بلند اور دل وسیع ہے لیکن الفاظ برتنے کے معاملے میں وہ بہت محتاط اور کفایت شعار ہیں۔ ذکی کی کفایتِ شعری برفیلے علاقے میں گرم پانی کے چشمے کی طرح مزہ دیتی ہے۔ ذکی شعر نہیں کہتے بلکہ اچھا شعر تو ذکی سے از خود ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ذکی مٹھی بھر پونجی کے مالک لگتے ہیں۔

بنجر زمینوں میں سرو صنوبر اور کیکٹس کو آب دست کرانے سے تو یہ مٹھی بھر ابرنیساں سے پر آسمانِ  ذکاوت بہرکیف بہتر ہے۔

دیئے کو چاند کبھی چاند کو دیا لکھنا

ہمیں کبھی نہیں آیا الا بلا لکھنا

ذکی صرف دل فریب لفظوں کے بازی گر نہیں ہیں۔ ان کی پٹاری میں معنوں کے سانپ جو رسی کے بنے ہوئے نہیں ہیں ان کی بین پر رقص کرنے لگتے ہیں۔ اگر یہ نظر بندی ہے تو ایسی نظر بندی پر ہزار سخن سنجی قربان۔ ختم تماشہ پر ذکی تماشائیوں کی تحسین اور ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے ان داتا سے یوں داد طلب ہوتے ہیں :

رزق کشادہ کر دے میری آنکھوں کا

بینائی کے کاسے میں حیرانی رکھ

ذکی اپنا مشکیزۂ خوننابِ  خالی بھرتے بھی ہیں تو دجلۂ غم سے کہ یہی اک سلسبیل ہے جو ان کی تشنگی کی حریف ہو سکتی ہے۔ دیگر صفا چشموں کو وہ خاطر ہی میں نہیں لاتے۔ کبھی وہ والیِ  کوچۂ نشاط ہیں تو کبھی امیر کو فۂ مصائب لیکن سخن غریب نہیں ہیں۔

ذکی بھی ’’اثنا ے شعری ‘‘ کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو ادب میں بدعت حسنہ کا استقبال کرتا ہے اور روایتِ  صالحہ سے خروج کرنے والوں پر تبرا بھی بھیجتا ہے۔

ذکی کی ٹکسال میں جو شعری سکے ڈھلتے ہیں وہ چمڑے کے سکے نہیں ہیں۔ یہ ’’ پنج دھاتی‘‘ سکے جب بھی دفینے سے بر آمد ہوں گے ان پر ثقہ ذکی کا نام و نشان ہر دو  پہلو پر کندہ نظر آئے گا۔

کبھی کبھی ذکی زرِ خالص کے متوالوں کو چڑانے کے لیے درہم و دینار کے ساتھ ہندوستانی سکۂ رائج الوقت کو خلط ملط کر کے اپنا مال کوڑیوں کے دام اٹھا دیتے ہیں۔ ان کی سرخیِ لہو موجۂ منہ زور کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

بہا کے لے ہی گئی مجھ کو موجۂ منہ زور

تڑپ رہا تھا مرا عکسِ  جاں کنار ے پر

 

بقدرِ  ناخن یاراں نکل ہی آئے گی

کہو تو نذر کروں سرخیِ لہو اپنی

 

ذکی کبھی بنتِ  عم کو سینے سے لگاتے ہیں تو کبھی بنتِ  عنب کو سینے میں اتار لیتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں :

ہم ایک ساتھ گزار یں کہ پھر الگ ہو جائیں

چلو یہ فیصلہ رکھتے ہیں استخار ے پر

 

گھر کی بات اور ہے مگر کوچۂ غیر میں شغل دریدہ دامنی کے باوجود ذکی اپنی ’’اخباری‘‘ چادر کو داغ دار ہونے نہیں دیتے۔

بھلا سعودی عرب سے ہم اور کیا لاتے

یہی بہت ہے بچا لائے آبرو اپنی

نفاسِ  لفظی ذکی کے نفسِ  مضمون کے جامے پر دھبہ لگنے نہیں دیتا۔ ذکی میں بلا کی طہارتِ معنوی ہے۔ طہر میں تیور تو دیکھئے :

 

غزل کہوں کہ قصیدہ لکھا کروں اس کا

کسی بہانے کوئی حق ادا کروں اس کا

 

بدن پہ گردِ  کثافت جمی ہوئی ہے ذکی

نہاؤں دھوؤں تو پھر تذکرہ کروں اس کا

 

دکن میں دجلہ و فرات نہ سہی رودِ موسیٰ تو ہے، اندر سبھانہ سہی مینا باغ تو ہے۔ ممتاز محل نہ سہی حیدر نام نہاد تو ہے۔ بانیؔ  و جامیؔ  نہ سہی ذکی بلگرامی تو ہے افسوس کہ ایسے خوش سخن سے دکن محروم ہو گیا (بتاریخ ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۵ء)

روایتوں سے الگ مسلک سخن اپنا

زمانے بھر سے جدا طرزِ گفتگو اپنی

دکن مرحوم خیز ہی نہیں مردم شناس بھی ہے حرفِ  ذکی کو انگیز ہی نہیں کرتا خوش آمدید بھی کہتا رہا ہے۔ بلا تقیہ و کتمانِ  حق یہ بات کھل کر کہی جا سکتی ہے کہ ذکی کے ہاتھ میں قلم اک ایسا نشان ہے جس کے سرنگوں ہونے کی آس میں کئی کوفی اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ ذکی کا بالغ نہج ارد و ادب کے نابالغ ذہنوں کے لیے مثالی اور قابلِ  تقلید ہے کہ یہ درِ آبدار گردِ  روزگار سے برسرِ  پیکار، ارجمند و سرور شانہ بلند Head & Shoulder Aboveرہے گا۔ حرفِ ذکی سے صرفِ  نظر کرنا اپنی خوش مذاقی کا ماتم کرنا ہے۔ ذکی کے ہاں بھی بہتر ۷۲ نشتر نکل ہی آئیں گے۔ فی الحال بارہ اشعار کی معصومیت کی داد دیجئے۔ ۱۲منہ

 

یہاں تو ہونٹ بھی اپنے ہیں دانت بھی اپنے

تو کس زبان سے شکوہ  گلہ کروں اس کا

 

شاعر ہے تو تو حرفِ  معانی نژاد کو

قاموس سے نجات دے فرہنگ سے نکال

 

لمحہ لمحہ منکشف ہوتا ہوا جیسے کہ تو

محو حیرت آئینہ در آئینہ جیسے کہ میں

 

بڑھا کے ہاتھ کنارے پہ کھینچ لو اس کو

کہ پانیوں میں جزیرہ پھنسا ہوا ہے میاں

 

تلاشِ  رزق میں یہ پے بہ پے ہجرت پرندوں کی

مری انگنائی کا اک اک شجر  ویران کر دے گی

 

یہ آئینے مرے قامت کے منکر ہو گئے تو کیا

خود اپنی بیعتِ  جاں سے مکرنا چاہتا ہوں میں

 

اٹھاتا آ رہا ہوں کاروبارِ شوق میں گھاٹے

یہ سارے سلسلے اب بند کرنا چاہتا ہوں میں

 

میں اس کو پر سۂ آشوبِ  ذات کیا دیتا

یہی عذاب مرے اپنے اندرونِ  بھی تھا

 

یہی تو کام ہوا ہے یہاں ہمارے سپرد

خزاں رسیدہ شجر کا اداریہ لکھنا

 

زمین کا رخت زاد ہوں نہ اب شجر نژاد میں

غبار کی ہوں ملکیت ہوا کی جائیداد میں

 

میں آپ اپنا مخالف مرا بھروسہ کیا

عجب نہیں کہ میں تیر ا بھی کچھ زیاں چاہوں

 

لب سے اتر کے تابہ گلو زنگ آگیا

میں اپنی خاموشی سے بہت تنگ آگیا

٭٭٭

 

 

 

 

بے ’’حلف ‘‘ ہو گیا غیاث متین

 

غیاث بھائی بڑے زندہ دل، خوش اخلاق اور خوش لباس آدمی تھے۔ آنکھ ناک کی طرح مسکراہٹ ان کے چہرے کا حصہ تھی۔ بڑے رکھ رکھاؤ کے انسان تھے۔ زیادہ تر سفاری سوٹ زیب تن کئے رہتے تھے۔ بہت خوش خوراک بھی واقع ہوئے تھے مگر انصاف پسند بھی تھے۔ ان سے ملنے کے لیے کبھی عثمانیہ یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوتا اور لنچ کا وقت ہوتا تو کہتے چل آ۔ لنچ کر لیں۔ اور جا کینٹین سے کچھ لے آ۔ ‘‘ جب کھانے بیٹھتے تو بیگ احساس، عقیل ہاشمی، افضل الدین اقبال اور یوسف سرمست کے ٹفن غیاث متین بھائی کے حوالے ہو جاتے۔ جتنے آدمی ہوتے اتنی پلیٹوں میں ایک ایک ٹفن تقسیم ہوتا۔ جب ساری پلیٹیں بھر جاتیں تو ایک ایک پلیٹ ایک ایک شخص سنبھا ل لیتا۔ یہی معمول تھا۔

دعوتوں میں بھی غیاث بھائی میز پر بیٹھے تمام دوستوں کو ڈالنے کے بعد آخری میں پوری ڈش سے خود انصاف کرتے۔ بیروں سے منگوا منگوا کر احباب کی خاطر کرتے۔ میر اسسرال مرغہ حال ہے۔ دعوتیں ہوتی رہتی ہیں میں اکثر انھیں مختلف دعوتوں میں زحمت دیا کرتا تھا وہ آتے تو مزہ آ جاتا۔ نویدؔ  کی بچی کی شادی تھی۔ غیاث بھائی نے تمام دوستوں سے کہا کہ چلو کچھ کنٹری بیشن Contributionکر کے تحفہ دیتے ہیں۔ سب نے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق حصہ ادا کیا۔ یوں وہ دوستوں کے کام آتے تھے۔

میرا تیسرا مجموعۂ کلام ’’شہداب ‘‘ ۱۹۹۳ء میں چھپ کر آیا تھا۔ میں نے غیاث بھائی سے کہا ’’چلیئے چالیس روپے نکالیئے۔ یونیورسٹی سے معقول تنخواہ ملتی رہی ہے۔ کتاب خریدیئے ‘‘ غیاث بھائی نے کہا ’’ارے میرا مجموعہ بھی چھپ گیا ہے رے۔ ساٹھ روپے قیمت ہے۔ باقی کے بیس روپے دیتا ؟۔۔۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا۔ ٹھیک ہے لے لیجئے۔ ‘‘ دوسری ملاقات میں جب میں نے مجموعہ مانگا تو کہنے لگے۔  ’’تیرے لیے !  نابابانا۔ تو سخت تبصرہ کر دے گا ‘‘ میں نے کہا نہیں کرتا بھائی۔ میں صرف اسی کو آئینہ دکھاتا ہوں جو طرم خان بن کر بڑے دعوے کرتا ہے۔ آپ مجموعۂ دیجئے تو سہی۔ انھوں نے اپنا مجموعۂ ’’دھوپ، دیواریں ، سمندرآئینہ ‘‘ نکال کر لکھا ’’عصر حاضر کے نمائندہ شاعر اور عزیز دوست رؤف خیر کے لیے خلوص کے ساتھ ‘‘ اور مجھے عنایت کیا۔ میں نے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پہلی غزل تھی۔

آئینہ بن کے بات کرتی دھوپ

دل کی دیوار پر برستی دھوپ

اور دیگر قافیئے تھے ترستی، لرزتی، تھرکتی، گزرتی وغیرہ وغیرہ میں نے کہا ’’غیاث بھائی بسم اللہ ہی غلط ہے نا ‘‘ وہ پریشان ہو کر کہنے لگے ’’کیا ہوا رے ؟۔ ‘‘ میں نے کہا سب قافیئے غلط ہیں۔ حرف ردی کیا ہے ؟‘‘ ’’’کیسا کیسا ذرا سمجھا بھائی ‘‘۔ میں بولا۔ ’’جائیے اپنے گرو مغنی تبسم سے پوچھ لیجئے۔ ‘‘

اصل میں غیاث بھائی نظم کے شاعر تھے۔ وہ بھی آزاد نظم بلکہ نثری نظم کے پابند نظم انھوں نے کبھی نہیں کہی۔ نہ کبھی سانیٹ کہا نہ ترائیلے، نہ ہائیکو نہ ماہیئے۔ البتہ جب دیکھا کہ احباب غزل کے ذریعے رنگ جمانے لگے ہیں تو خود بھی غزل کہنی شروع کی۔ اچھی غزلیں کہتے تھے۔ ان کی غز ل اد ب کے لیے نوید جاں فزا تھی۔ ۱۹۷۰ءسے ۱۹۷۹ء تک صرف بارہ غزلیں کہیں جو ان کے پہلے مجموعۂ کلام ’’زینہ زینہ راکھ‘‘ میں شامل ہیں۔ غیاث بھائی یوں تو یاروں کے یار تھے مگر جس سے دشمنی ہو جاتی اس کی صورت کے روا دار نہ ہوتے۔ حیدرآباد کے ایک شاعر سے انھیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ وہ جس مشاعرے میں ہوتا، اس میں یہ شریک ہونا گوارا نہ کرتے۔ اپنی انجمن حلف حیدرآباد لٹریری فورم میں تو اسے بلانے کا سوال ہی نہ تھا۔ غیاث بھائی اس کو یک دم روایتی شاعر سمجھتے تھے اور وہ شاعر غیاث کو جدید یہ خیال کرتا تھا۔ مگر غیاث بھائی کے آخری سفر میں چند قدم چلنے والوں میں وہ بھی شریک تھا۔ یہ اعلیٰ ظرفی اب کہاں دیکھنے میں آتی ہے۔

غیاث بھائی کو ہر معاملے میں نفسِ  مطمئنہ حاصل تھا۔ گفتگو بھی کرتے تو ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کرتے اور اطمینان سے جزئیات پر روشنی ڈالتے۔ میں ان سے کہتا ’’یہ بڑی بحر کی گفتگو چھوڑئیے اصل بات پر آئیے ‘‘۔ وہ کہتے ’’ارے پوری بات سن رے۔ مزہ اسی میں ہے۔ ‘‘

ان کے مزاج میں تساہل بہت تھا۔ چنانچہ ن۔ م۔ راشد پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ وہ کبھی مکمل نہ کر سکے۔ وہ ڈاکٹر ہوئے بغیر ہی پروفیسر ہو گئے تھے۔ ان کی کاہلی کا حلف کے احباب بہت مذاق اڑاتے تھے۔ یہ طے ہوا تھا کہ حلف کے اجلاس میں پیش کی جانے والی تخلیقات اور ان پر مباحث پر مشتمل ایک خبر نامہ ہر ماہ شائع کیا جائے گا۔ غیاث بھائی حلف کے سکریڑی تھے۔ ہر ماہ وہ یہی کہا کرتے تھے کہ اس ماہ خبر نامہ ضرور چھپ جائے گا مگر سال گزر جاتا اور وہ دن کی روشنی نہ دیکھ پاتا۔ حلف نہایت کار کرد انجمن تھی شہر کے جدید لب و لہجہ کے جتنے شاعر ادیب تھے سب اس سے وابستہ تھے۔ ہر ماہ پابندی سے اجلاس ہوتے۔ شعرو ادب پر کھل کر گفتگو ہوتی۔ اس کی روداد ہر اخبار میں چھپتی۔ غیاث ہر کس و ناکس کو حلف کا رکن بنانے کے قائل نہیں تھے۔ اس کا جدید ہونا ضروری تھا۔ حلف کے زیر اہتمام مشاعرہ ہوتا تو کیا مجال جو کسی ایسے شاعر کو زحمتِ  سخن دی جائے جو رکن نہ ہو۔ شہر کے بیشتر شعراء و ادبا، حلف کی رکنیت چاہتے تھے مگر غیاث بھائی کے کڑے معیار پر پورے نہ اترتے تو ان کا رکن بننا نا ممکن ہی ہوتا۔ اب حلف کے دروازے سے سب پر کھول دیئے گئے ہیں مگر غیاث بھائی کے بغیر حلف کا تصور ہی کہاں کیا جا سکتا ہے۔ تساہل کی وجہ سے وہ اپنی تخلیقات کہیں چھپنے کے لیے بھیجتے ہی نہیں تھے۔ الا ماشاء اللہ بیشتر راست ان کے مجموعۂ ہی کی زینت بنتی تھیں۔ ان کی غزل اگر اتفاق سے روزنامہ ’’سیاست ‘‘ میں کبھی چھپ جاتی تو دس بیس پوسٹ کارڈس لے کر وہ احباب سے ملنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر وہ مجھ سے ملے۔ پوچھا۔ ’’سیاست ‘‘ میں کل میری غزل چھپی تھی۔ نظر سے گزری ہو گی ؟۔ میں نے کہا ’’ہاں۔ ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔ ‘‘ انھوں نے فوراً ایک کارڈ نکال کر مجھے تھما دیا۔ ’’جگر صاحب کے نام اس پر لکھ دے تو سہی کہ غیاث متین کی غزل بہت اچھی ہے۔ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ ’’میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے میں لکھ دوں گا۔ بولے ‘‘ نہیں پیارے۔ دو جملے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ابھی لکھ دے۔ میں پوسٹ کر دوں گا۔ میں بولا۔ ’’میں لکھ کر پوسٹ کر دوں گا۔ ‘‘ مگر وہ کب ماننے والے تھے۔ اپنے سامنے اپنی غزل کی تعریف لکھوا کر ہی دم لیا۔ بولے اب تک بیگ احساس، محمد علی اثر، عقیل ہاشمی، رؤف خلش، نوید سے خطوط لکھوا چکا ہوں۔

غیاث بھائی بڑے سیدھے سادے مخلص دوست تھے۔ ۱۹۸۰ء میں اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’زینہ زینہ راکھ ‘‘ کی اشاعت پر بہت خوش تھے۔ وہ سلامؔ  خوش نویس کے بڑے معتقد تھے۔ سلام صاحب کی طرح کا خوش نویس پورے حیدرآباد میں کوئی تھا بھی نہیں۔ مگر وہ پیشہ ور کاتب تھے۔ دعوت نامے، جلسوں جلوسوں کے پوسٹر سب لکھا کرتے تھے۔ غیاث بھائی کی کتاب لکھنے میں انہوں نے مہینوں لگا دیئے۔ کمپیوٹر کا دور ہوتا تو دس پندرہ دن میں کتاب چھپ کر آ جاتی۔ وہ روزانہ بلا ناغہ سلامؔ  کے گھر پر حاضری دیتے اور گزارش کرتے ’’سلام بھائی۔ آج کچھ لکھ دیجئے نا۔ ‘‘ سلام بھائی دو تین صفحات بڑی مشکل سے لکھ پاتے۔ کبھی ٹال دیتے۔ اس طرح یہ کتاب بڑی مشکل سے ۱۹۸۰ء میں چھپ سکی۔ غیاث بھائی نے بڑے اہتمام سے اس کی بائنڈنگ کروائی، پلاسٹک کور چڑھوایا، سرورق پر اپنی بڑی سی تصویر چھپوائی۔ اس مجموعے میں ’’کہتی ہے خلقِ  خدا ‘‘ کے عنوان سے بیوی سے لے کر مغنیؔ تک لوگوں کی مختصر مختصر سی رائیں بھی شامل کیں۔ مجھ سے پوچھا۔ کیسا لگا یہ انداز۔ ؟ میں نے کہا ’’یہ کام ساقی فاروقی اپنے مجموعۂ کلام ’’پیاس کا صحرا‘‘ میں ’’غیبت کا شامیانہ ‘‘ کے عنوان سے پچیس سال پہلے ۱۹۶۷ء میں کر چکے ہیں۔ آنکھیں گھما گھما کر دیکھنے لگے۔

رؤف خلش مربیانہ انداز میں مجھے تم سے خطاب کرتے ہیں تو برا لگتا ہے مگر غیاث بھائی پیارسے ’’تو ‘‘ کہا کرتے تھے تو بہت اچھا لگتا تھا۔ ہم نے ذرا لکھ پڑھ کیا لیا اس اپنائیت سے ’’تو ‘‘ کہتے ہوئے بچپن کے لنگوٹیا یار بھی ڈرنے لگے ہیں۔ یہاں ایک لطیفہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ رؤف خلش حسبِ  عادت مضطر مجاز جیسے بزرگ شاعر کو بھی ’’تم ‘‘ کہنے لگے۔ مضطر صاحب نے کہا ’’مجھے آپ ’’تم ‘‘ کہئے مگر میں آپ کو آپ ہی کہوں گا۔ اگر میں تم کہوں گا تو کہیں آپ ’’تو ‘‘ پر نہ اتر آئیں۔

پانچ چھے سال پہلے حیدرآباد کے ایک شاعر دوست اعتماد صدیقی کا انتقال ہوا تھا۔ کچھ دنوں بعد روزنامہ ’’منصف ‘‘ میں غیاث بھائی کی ایک تعزیتی نظم ان پر شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تیری جدائی شاق گزر رہی ہے اور یہ کہ میں تجھ سے ملنے آنے ہی والا ہوں۔ ’’میں نے غیاث کو فون کیا۔ پوچھنے لگے۔ نظم کیسی لگی ؟  میں نے صاف صاف کہہ دیا مجھے نظم پسند نہیں آئی۔ بولے ’’نہیں رے۔ بہت اچھا دوست تھا۔ میں نے کہا ہم بھی تو دوست ہیں۔ بولے بے شک بے شک۔ میں نے کہا نظم  Withdrawکر لیجئے۔ مگر انھوں نے اعتماد کو ٹھیس لگنے نہ دی۔

غیاث بھائی پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر قلم کی آنکھ بھر آئی ہے۔ غیاث کی نظم    ’’کتبہ دیکھئے :‘‘

مجھے بھی کاندھا دینا ہے

ان لاشوں کو جو موجود تو ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتیں

میں اگر ایسا نہ کرسکا

تو  میرے کتبے پر لکھوا دینا

یہاں ایک ایسا شخص دفن ہے

جس کے نام کے پہلے ہی حرف کے اعداد

سب سے زیادہ تھے

یعنی پورے ایک ہزار

لیکن وہ

ایک بھی نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

سخن کے پردے میں طالب خوندمیری

 

طنز ہ مزاح کے جانے پہچانے شاعر طالب خوندمیری نے ’’سخن کے پردے میں ‘‘ اپنے خاص اسلوب سے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ ان کے موضوعات اگرچہ کہ زندگی ہی کے آس پاس سے اٹھائے ہوئے ہیں۔ مگر اس قدر اچھوتے لگتے ہیں کہ قارئین ان میں ’’تقریر کی لذت‘‘ پاتے ہیں۔ موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ طالب خوندمیری کی زبان و بیان پر دسترس بھی کافی مزہ دیتی ہے۔ طالب کے کسی شعر میں پھکڑ پن نام کو بھی نہیں ملتا۔ ورنہ عموماً طنزہ و مزاح کے نام پر زبان کو بگاڑ کر بات پیدا کرنے کی شعور ی کوشش کی جاتی ہے یا پھر غیر ثقہ موضوعات غیر پارلیمانی زبان میں پیش کر کے شاعر خود مذاق کا نمونہ بن جاتا ہے۔ مگر جہاں تک طالب خوندمیری کا معاملہ ہے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے طنز و مزاح میں ایک اعتبار اور وقار کا پہلو ہے۔ طنز کا ری ہے مزاح بھرپور ہے۔ مگر پھکڑ پن سے کوسوں دور بھی ہے

پہلی قرأت پر طالب خوندمیری کے شعر مسکرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن فوری بعد آدمی کو سوچنے پر بھی آمادہ کرتے ہیں۔ صاحب ذوق قاری ان کے کلام سے سرسری گزر ہی نہیں سکتا۔

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ’’زندگی ‘‘ کے بارے میں کیا احساسات رکھتے ہیں۔ اس کی طالب نے بڑی کامیاب عکاسی کی ہے، رکشہ والا سوچتا ہے کہ

’’یہ بھی ممکن ہے کہ پہیوں کی ہوا ہو زندگی

یہ بھی ہوسکتا ہے گھنٹی کی صدا ہو زندگی

شرابی کہتا ہے۔

جب تلک زائل یہ بوتل کا اثر ہوتا نہیں

یار خاں کو اپنی بیگم کا بھی ڈر ہوتا نہیں

بوٹ پالش کرنے والا کہتا ہے۔

روز و شب فٹ پاتھ پر جوتوں کو چمکاتے ہیں ہم

اپنی قسمت اور کے پاؤں میں پہناتے ہیں ہم

بھکاری کے لیے زندگی کیا ہے ؟ گویا

اس طرح ہے جان سوکھی ہڈیوں کے خول میں

ایک جعلی نوٹ ہو جیسے کسی کشکول میں

ٹیلی فون آپریٹر کا خیال ہے :

اس طرح ہم کو ملی ہے یہ حیاتِ مختصر

رانگ نمبر جیسے مل جاتا ہے ٹیلی فون پر

بہر حال زندگی کو طالب نے کئی طرح دیکھا اور دیکھایا ہے۔ حجام، پولیس والا، ڈاکٹر، لیڈر، مہاجن، کلرک، فلسفی، وکیل، نقاد اور نوجوان جدید شاعر وغیرہ وغیرہ کے محسوسات کی خوب ترجمانی کی گئی ہے۔

کھٹملوں کی فریاد ہو کہ آشوب غزل کے روایتی کرداروں کی منظر کشی، ٹائم کیپسول ہو کہ ٹسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش، ہر جگہ طالب کامیاب ہیں۔

کس قدر دشوار ہو جائے گا خوں کا امتیاز

ایک ہی ٹسٹ ٹیوب سے نکلیں گے محمود و ایاز

طالب کو غالب سے بہت لگاؤ ہے، چنانچہ انہوں نے غالب کو کبھی آرکیٹکٹ، تو کبھی آئی اے ایس (I.A.S)کبھی پامسٹ کبھی طبیب اور کبھی حسینوں کے جھرمٹ میں دیکھا اور یوں غالب کے حوالے سے طنز و مزاح کی ایک دنیا آباد کر ڈالی۔ مثالیں طوالت کا باعث ہو جائیں گی۔ اس لئے گفتگو کا رخ موڑتا ہوں۔

طالب خوندمیری اگر سنجیدگی کے ساتھ سنجیدہ گوئی پر کاربند رہتے تو بہت ممکن تھا کہ حیدرآباد کے نقشے میں وہ جامی، اریب و شاذ کے بعد اپنا نشان قائم کرتے اور کئی سنجیدہ شاعروں کے لیے لمحہ فکر ثابت ہوتے۔ سنجیدہ شاعروں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ طالب نے یہ راستہ ان کے لیے چھوڑ دیا ہے، ورنہ۔۔۔

اپنے حسین چہرے کو پہلے کتاب لکھ

پھر اس کے بعد اس کا کوئی انتساب لکھ

کہیں سے جب کوئی پتھر نہ آیا

بدن اپنا لگا ہم کو پرایا

تمہارا شہر تھا تم حکمراں تھے

مگر ہم بھی نہ تھے کوئی رعایا

جیسے سنجیدہ شعر کہنے والے سے کسی کا آگے نکلنا دشوار ہی ہوتا۔ طنز و مزا ح میں حیدرآباد سے باہر بلکہ ہندوستان سے باہر بھی اگر کوئی جانا جاتا ہے تو وہ ہیں طالب خوندمیری، اور یہ نیک نامی انہوں نے ا پنی  پی آر شپ کے بل بوتے حاصل نہیں کی بلکہ اپنے فکر و فن کی بنیاد پر وصول کی ہے۔ امریکہ و سعودی عرب تک بلائے جانے والے طالب خوندمیری صرف ہند و پاک کی جاگیر نہیں بلکہ پورے اردو ادب کا اثاثہ ہیں۔

چند ایک فرو گزاشتوں کو چھوڑ کر طالب خوندمیری زبان و بیان کا بھی پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے مصرعے بہت رواں اور بہت پر لطف ہوا کرتے ہیں۔ اگر کسی نے طالب کو نہیں پڑھا ہے تواسے طنز و مزاح پر گفتگو کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

طالب خوندمیری کی غزل دور جدید کا شناس نامہ کہی جا سکتی ہے۔ بلکہ یہ اسلوب عام ہوتا جا رہا  ہے۔ اینٹی غزل کے نام پر جو خرافات ادب میں در آئی ہیں ، ان سے تو طالب کی طنز یہ غزل لاکھ درجہ بلند و برتر ہے۔ مختلف موضوعات کو طالب نے غزل کے محدود  ڈکشن میں بھی بصد کمال ادا کیا ہے

 

کٹی عمر جن کی خرافات میں

ولی بن گئے رات ہی رات میں

 

بڑی مفلسی ان کے ذہنوں میں تھی

امیری ملی جن کو خیرات میں

 

ہمیں بھی نہیں ہے شعور نظر

قیادت بھی گم ہے مفادات میں

 

دعوی قد آوری کا کریں شیخ بعد میں

منبر سے پہلے خود کو تو حضرت اتارئیے

 

باتیں اگر ضمیر کی سننے کا شوق ہے

کانوں سے اپنے ثقل سماعت اتاریئے

 

خود کو منوانا ہے دانشور اگر

کھوپڑی میں کچھ تو ہونا چاہئے

 

کیا پتہ مجھ کو میری جیب تراشی کس نے

میں تو بیٹھا ہوا خود اپنے ہی احباب میں تھا

 

وہ میری بات سمجھتا بھی تو کیوں کر طالب

وہ تو الجھا ہوا ہر لفظ کے اعراب میں تھا

 

طالب خوندمیری نئی نئی زمینوں پر نئے نئے اسمانوں کے خیمے ایستادہ کرتے ہیں۔ مثلاً

خلوص دل سے ہر سوغات رشوت، جیب میں رکھ لی

سمجھ کر اس کو سرکاری امانت، جیب میں رکھ لی

 

ہمارے کوٹ سے تصویر جاناں گر پڑی گھر میں

یہ ہم نے کیا کیا کیسی مصیبت، جیب میں رکھ لی

 

سر مسجد ہمیں بھی شیخ نے رسوا کیا اکثر

سرمے خانہ ہم نے بھی شرافت، جیب میں رکھ لی

 

ہمیں دنیا نہیں ملتی مگر کچھ لوگ ایسے ہیں

انہوں نے صرف دو سجدوں میں جنت، جیب میں رکھ لی

بہر حال نظم، غزل، مسدس، قطعہ، آزاد نظم، پیروڈی، تحریف، تضحیک ہر میدان میں طالب خوندمیری نے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ طنز و مزاح کا ذکر طالب خوندمیری کے بغیر ادھورا ہے۔ ’’سخن کے پردے میں ‘‘ طالب نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ بعض جگہ طالب سے بھول چوک بھی ہو گئی ہے۔ جیسے

ریختی میر کی اور فیض کی اردو بھی وہی

(میر ریختی کے نہیں بلکہ ریختہ کے استاد تھے )

’’سخن کے پردے میں ‘‘ سب سے پہلے جنوری ۱۹۹۴ء میں زندہ دلانِ  حیدرآباد کے زیر اہتمام حسامی بک ڈپو مچھلی کمان حیدرآباد نے چھاپا تھا۔ اس کے بعد مجموعہ لفظ بہ لفظ جولائی ۲۰۰۵ء شگوفہ پبلی کیشنز معظم جاہی مارکیٹ حیدرآباد نے شائع کیا۔

میں نے اس کی پہلی اشاعت میں در آئی غلطیوں کی طرف اپنے تبصرے میں نشان دہی کی تھی تاکہ طالب خوندمیری کی بھول چوک اگلی اشاعت میں دور ہو جائے جیسے۔

جانے ان کو کیا نظر آئی مشیت میں کمی

اب وہ خود کرنے لگے تخلیق انساں کی سعی

 

پھیل جائیں گے سبھی دیسوں میں یہ ٹسٹ ٹیوب جب

کتنی ناممکن سی ہو جائے گی پہچانِ نسب

 

فرق رنگ و نسل کی رنجش بھی ختم ہو جائے گی

درجہ بندی ذات کی ٹسٹ ٹیوب میں کھو جائے گی

 

اس میں افلاطون کا کچھ فلسفہ بھی بند ہے

ڈارون کا ارتقا ئی نظریہ بھی بند ہے

اس نظم میں سعی، ہندی لفظ کو اضافت پہچان نسب اور پھر ختم ہو جائے گی میں ہائے ہنوز کا وزن سے خارج ہو گیا ہے۔ نظریہ کو متحرک ہونا چاہئے تھا۔ غالب کو حسینوں میں جھرمٹ میں دیکھ کر طالب کہتے ہیں

کیوں آپ دھوئے پینے کو اک سیم تن کے پاؤں

پھر دابنے کو بیٹھ گئے راہ زن کے پاؤں

یہاں علامت فاعل (نے ) کے استعمال کے ساتھ کیوں آپ نے دھوئے کا محل ہے۔

دن بدن آپس میں بڑھتی رنجشوں کے باوجود

رام لیلا بھی ہے گر بانی بھی اللہ ہو بھی ہے

اس شعر میں (دن بدن) کا استعمال کم سے کم طالب کو نہیں کرنا چاہئے۔

وہ مجھ سے اکتیس دسمبر کی رات کو

کچھ کہنا چاہتا تھا کہ بھونچال آگیا

اس مصرع میں (اکتیس) بیٹھ نہیں رہا ہے۔ ان کا ایک مصرع ہے  ع  آج کی صفیہ بھی کل بیگم صفی ہو جائے گی

اسے دراصل یوں ہونا چاہئے تھا   ع

ہے صفیہ آج، کل بیگم صفی ہو جائے گی

طالب نے دوسرے ایڈیشن میں بھی یہ غلطیاں دہرائیں۔ میرے معروضات کو انھوں نے قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

رضا وصفی

 

حیدرآباد دکن کے ایک بہت اچھے شاعر رضا وصفی تھے۔ بڑے مخلص مگر بڑے بے باک، شعراء برادری ان سے خار کھاتی تھی کیونکہ وہ بہت کم کسی کو قابلِ  اعتناء سمجھتے تھے۔ اکثر دوسروں کی زمینوں میں شعر کہہ کر بڑی لکیر کھینچنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ مشاعروں میں وہ شعر سناتے تو ایسا لگتا تھا  ع  گلا بیٹھا ہوا خدمت اذاں کی اور کعبے میں۔ اچانک اک دن خبر آئی کہ دل کا دورہ پڑا اور وہ بے نام و نشاں ہو گئے۔ بے نام و نشاں اس لیے کہ ان کا مجموعۂ کلام کئی دنوں سے سلام خوش نویس لکھے جا رہے تھے جو اشاعت کا منہ کبھی نہ دیکھ سکا۔

آج سے تقریباً دس سال پہلے رضا وصفی کے انتقال کے آٹھ دس دن بعد ہی ایک تعزیتی جلسہ رکھا گیا تھا۔ مضطر مجاز صاحب صدارت کر رہے تھے اور میں حلف کے شریک معتمد کی حیثیت سے نظامت کر رہا تھا۔ میں نے ستار صدیقی نامی ایک شاعر کو رضا وصفی کے تعلق سے اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ رضا اپنے سوا کسی کو کم ہی شاعر مانتے تھے انانیت کا شکار تھے۔ اس کے بعد سلام خوش نویس کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے بھی کہا کہ رضا کے شعروں میں کئی خامیوں کی انھوں نے نشاندہی کی۔ پھر نوید نے بھی کہا کہ رضا میر و غالب کے پانچ شعر سنا نہیں سکتے تھے مگر خود کو بڑا شاعر سمجھتے تھے۔ غرض ہر شخص رضا وصفی کی برائی کر رہا تھا۔ میں نے ہر مقرر کی تقریر کے بعد بار بار کہا کہ ہمارا مذہب اور ہماری تہذیب اجازت نہیں دیتی کہ مرنے والے کی برائی کی جائے۔ آخر کار میں نے زچ ہو کر کہا کہ رضا وصفی کے تعزیتی جلسے کی صورتِ  حال دیکھ کر مجھے تواب مرتے ہوئے بھی ڈر ہونے لگا ہے۔

تازہ اطلاع کے مطابق رضا وصفی کا پہلا اور آخری مجموعۂ کلام ’’بوند بھر دریا ‘‘ کے نام سے عنقریب منظر عام پر آ رہا ہے۔

تجھ سے کیا اختلاف ہے میرا

دل ہی میرے خلاف ہے میرا

 

منزلوں سے پر ے چلے آؤ

راستہ صاف صاف ہے میرا

 

ظلم کے زرنگار ایواں سے

مستقل انحراف ہے میرا

 

قتل کرتا ہے ہر کوئی مجھ کو

خون سب پر معاف ہے میرا

 

سارا کن کا کمال ہے ورنہ

نون تیرا نہ کاف ہے میرا

 

اپنی پہچان کیسے دوں تجھ کو

ایک ہی تو لحاف ہے میرا

 

اس بدن کے مکان میں وصفیؔ

کچھ دنوں اعتکاف ہے میرا

 

بیتے ہوئے موسم کی صدا سے بھی ملے ہیں

کچھ زخم ہمیں تازہ ہوا سے بھی ملے ہیں

 

چبھتے ہوئے معنی سے کہیں پھوٹے ہیں چھالے

آزار کہیں عکسِ  نوا۔ سے بھی ملے ہیں

 

کہتے ہیں کہ جلتے ہوئے سایوں کے لبادے

ڈھلتے ہوئے سورج کی قبا سے بھی ملے ہیں

 

جینے کے لیے اٹھے تھے آندھی کی طرح ہم

رستے ہمیں طوفانِ بلا سے بھی ملے ہیں

 

ٹھیرے ہیں تو آپ اپنے سے ملنے نہیں پائے

نکلے ہیں تو ہم اپنے خدا سے بھی ملے ہیں

 

جو اوچھے پیالے تھے وہ سیراب تھے وصفیؔ

جو ظرف سمندر تھے وہ پیاسے بھی ملے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مصحف  اقبال  توصیفی

 

مصحف اقبال دراصل ان کے قریبی دوست شاذ تمکنت کا دیا ہوا نام ہے۔ ان کا اصلی نام عبدالمغنی ہے۔ ۸، دسمبر ۱۹۳۹ء (8-12-1939)کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ وہ جب اپنے والدین کے ساتھ حیدرآباد آ گئے تو پھر یہیں کے ہو رہے۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے  1961ء میں ایم ایس سی اور جیالو جیکل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ اب یہیں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔

مصحف اقبال توصیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ جدید نظم کے اچھے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ مغنی تبسم، شاذ تمکنت، وحید اختر، قدیر زماں وغیرہ کے ہم نوالہ و ہم پیالہ رہے۔ حال ہی میں حج کی سعادت سے بہرہ مند ہو کر اب اللہ اللہ کر رہے ہیں۔

مصحف اقبال صاحب کا لہجہ جدید ہے۔ وہ حیدرآباد لٹریری فورم کے بانی اراکین میں ہیں۔ ان کی تخلیقات ہندو پاک کے معیاری رسائل میں بڑے احترام سے شائع کی جاتی ہیں۔

۱۹۷۸ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’فائزا ‘‘ اور ’’گماں کا صحرا ‘‘ 1994ء میں شائع ہوا۔ ان کی نثری نظموں کا مجموعہ ’’دور کنارہ ‘‘ شائع ہوا۔ گاہے گا ہے غزل بھی کہہ لیا کرتے ہیں۔

 

نمامی

 

ہاتھ میں ’’ہندو ‘‘ لب پہ چائے کا پہلا بوسہ

صابن کی دیوار پہ میری آدھی مونچھیں

آدھا چہرہ

صبح کی سیر کو جاتے

شام کو دفتر سے گھر آتے

مجھ سے لمبا میرا سایا

رات جب آئی

ا ک مندر کی روشنیوں میں

کچھ لوگوں نے گنگا جل سے اشنان کیا

میں نے اپنے رب کو

سجدہ کرنے سے پہلے

چاروں کھونٹ اذاں دی

پھر اپنے بستر پر لیٹا

صدیوں کا جاگا تھا !!!

 

غزل

 

نقشِ قدم تھا وہم سفر تک

کوئی نہیں تھا حد نظر تک

کالے جنگل تھاہ سمندر

تیرے گھر سے میرے گھر تک

بھیڑ تھی کیسی دوکانوں پر

کوئی نہ پہنچا اپنے گھر تک

میں ہی کسی کو یاد نہ آیا

میں نے نہیں لی اپنی خبر تک

اک بھاری زنجیر تھی دنیا

دفتر سے بازار سے گھر تک

٭٭٭

 

 

 

محمد علی اثر

 

دکنی ادب کے مستند و صاحب نظر استاد ڈاکٹر محمد علی اثر سے حیدرآباد کا نام روشن ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کی شدید تکلیف کے عارضے میں وہ ایک عرصہ سے مبتلا ہیں مگر تخلیقی، تحقیقی و تنقیدی و تدوینی کام میں شب و روز عرق ریزی کے ساتھ کارنامے انجام دینے میں بھی مصروف ہیں۔ آپ نے ہند و پاک کے بڑے بڑے نامور ادیبوں کو تخلیقات کی فرو گذاشتوں پر توجہ دلائی تاکہ ریکارڈ درست رہے۔ ناسازی مزاج کے باوجود آپ مختلف کتب خانوں سے استفادہ کرتے رہتے ہیں اور اپنی نادر تحقیقات سے دنیا کو چونکا تے رہتے ہیں۔ ۲۲، دسمبر ۱۹۴۹ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے محمد علی کو شعرو ادب سے لگاؤ بچپن ہی سے تھا۔ آپ بیت بازی کے مقابلے میں حصہ لیتے تو اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہم کنار کر کے ہی چھوڑ تے تھے۔ اب دکنی ادب کی چھان پٹک کر کے نئے نئے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ اب تک ان کی بے شمار کتابیں نظم و نثر میں آ چکی ہیں۔ چند معروف کتابیں ہیں۔ غواصی، شخصیت اور فن، ملاقات، شمع جلتی رہے، دکنی اور دکنیات، دبستان گولکنڈہ، ادب اور کلچر، تذکرہ اردو مخطوطات، تحقیقی نقوش، نواد راتِ  تحقیقی، مقالات  اثر، تحقیقات اثر، نم دید ہ، خرابے میں روشنی وغیرہ وغیرہ۔

حیدرآباد کے مایہ ناز سپوت محمد علی اثر پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے۔ مرنجان مرنج منکسرالمزاج محمد علی اثر نظم و نثر پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔

 

منصبِ  تحقیق

اگلے وقتوں کے بزرگوں نے جو تحریر کیا ہے

وہ سچ ہے؟

اور اس سچ کو پرکھنا بھی ضروری ہے مگر

سچ پہ بہتا ن لگے

ایسی تحقیق پہ ہیہات ضرور ی ہے یہاں

اعتماد اور یقیں کی بھی ہے اک شرط نہاں

ورنہ ورثے کی صلابت پہ بھی حرف آئے گا

 

غزل

 

یاں کسی شئے کو بھی ثبات نہیں

ایک فانی بس اس کی ذات نہیں

 

اس سے پوشیدہ کوئی بات نہیں

کیسے کہہ دوں کہ التفات نہیں

 

آپ بے شک ہیں منبعِ انوار

خود سے روشن یہ کائنات نہیں

 

دھوپ ہی دھوپ ہے مقدر میں

میرے حصے میں کوئی رات نہیں

 

ہم بہر حال منتظر ہوں گے

تم نہ آؤ تو کوئی بات نہیں

 

کس سفر پر میں چل رہا ہوں اثر

دور تک کوئی میرے سات نہیں

٭٭٭

 

 

 

پروفیسر مقبول فاروقی

 

پروفیسر مقبول فاروقی بہت مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل ہیں۔ بڑے لیے دیئے رہتے ہیں۔ مگر خوش ذوق ایسے ہیں کہ اچھی تخلیق کی داد میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ ۱۵؍فروری ۱۹۴۸ء کو محبوب نگر آندھرا پردیش کے ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ فاروقی خانوادہ اپنی علمیت کی وجہ سے مقبول و ممتاز ہے۔ ’’اردو شاعری میں ہندی عروض ‘‘ جیسے تحقیقی کام پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور آندھرایونیورسٹی و شاکھا پٹنم میں صدر شعبۂ اردو کی خدمات سے حال میں سبک دوش ہوئے۔ اردو میں شخصی مرثیے، راگ راگنیوں پر مبنی اردو گیت اور ٹھمریاں ، تبصرے، انشائیے، تحقیقی و تنقیدی مضامین، آپ کی زنبیل میں ہیں۔ ایک شعری مجموعۂ سراب 1988ء میں شائع ہوا اور دوسرا زیر ترتیب ہے۔ مختلف رسائل میں تخلیقات شائع ہوتی ہیں۔

 

دیواروں میں در بنتے ہیں

بس ایسے ہی گھر بنتے ہیں

 

مجھ کو تراشے کوئی تو جانوں

لوگ بہت آزر بنتے ہیں

 

چیخ ہو کوئی یا کہ ہنسی ہو

آنکھوں میں منظر بنتے ہیں

 

تیرے بدلتے لہجے کے سنگ

نقش کئی دل پر بنتے ہیں

 

پہلے سب اچھے لگتے ہیں

بعد میں دردِ  سر بنتے ہیں

 

غزل سنو تو جانو کیسے

ساگر بھی گاگر بنتے ہیں

 

یہ کیا کہ ہرکس و ناکس کے نیک و بد میں رہو

اسی میں خیر ہے مقبول اپنی حد میں رہو

 

خدا کرے نہ کسی کی بھی چشم بد میں رہو

نہ دوستوں کی نہ ہی دشمنوں کی زد میں رہو

 

مقام اپنا تمہیں اب تو خود بنانا ہے

وہ دن نہیں ہیں کہ تم زعمِ  اب و جد میں رہو

 

پرائے کاندھوں پہ چڑھ کر بلند کیا ہو گے

بڑا ہو چھوٹا ہو، اچھا ہے اپنے قد میں رہو

 

غزل کہو بھی تو اپنے ہی رنگ میں مقبولؔ

نہ طرزِ میرؔ  نہ ہی لہجہ اسد میں رہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

زلیخائے ادب کے یوسفِ  بے نظیر

اکیسویں صدی کی سب سے بڑی کتاب کے مصنف

 

روز یوسفؔ کے ساتھ سوتی ہے

اک غزل قافیوں کے بستر پر

 

یہ حیدرآباد کی، انڈیا کی بلکہ دنیا کی نیرنگی کی مثال ہے کہ کوئی نہ کوئی نابغۂ روزگار (GENIUS)ہمیشہ پیدا ہوتا ہی رہتا ہے۔ ورنہ دنیا کی ترقی رک جائے۔ یہ حیدرآباد کی خوش قسمتی ہے کہ یوسفؔ  قادری جیسے بے مثال و صاحب کمال شاعر کا مولد و مسکن ہے جس پر جس قدر ناز کیا جائے کم ہے۔ انھوں نے دنیا کے نقشے میں حیدرآباد کی پہچان قائم کرنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا کہ تمام ممکنہ و نا ممکنہ اصنافِ  سخن پر مشتمل ایک ایسی بگ بک دنیا کو دی جو اکیسویں صدی کی دنیا کی سب سے بڑی کتاب  21st Century’s World Big Bookثابت ہو گی۔

ہندوستان و پاکستان کی تقسیم Partitionسے پہلے عالم وجود میں آنے والے یوسف قادری نے اپنی شناخت کی کوششیں ابتدا ہی سے شروع کر دیں۔ ابھی وہ صرف گیارہ برس ہی کے تھے کہ 1957ء میں اپنے اسکول میگزین کے لئے غزل کہہ کر دی جس نے مدرسے کی سطح پر انھیں مقبول بنایا پھر تو ہائی اسکول، کالج کی چاردیواری سے نکل کر ان کی شہرت سارے شہر میں پھیل گئی بعد میں ہندو پاک ہی نہیں بلکہ امریکہ و برطانیہ و سعودی عرب کے اخبارات و جرائد میں ان کی چونکا نے والی تخلیقات شائع ہو کر قارئین کو متاثر کرنے لگیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یوسف قادری کو آج بھی اپنی تقریباً تخلیقات ازبر ہیں اور وہ مشاعروں اور محفلوں میں بڑے ٹھاٹ سے اپنا کلام بغیر کسی کاغذ کے وسیلے کے سنا کر سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ اس طرح محفل کی روحِ رواں بن جاتے ہیں۔ ان کا کلام کاغذ پر جس طرح انوکھا لگتا ہے اسی طرح سننے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

جناب یوسف قادری نے خود بھی کئی محفلیں برپا کیں۔ ہائی اسکول، کالج کے ساتھ ساتھ کئی ادبی و تہذیبی انجمنیں قائم کر کے اصحابِ ذوق کو جمع کر کے ان کے ذوق کی تسکین کے سامان کئے۔ علمی سرپرستی بھی کی۔ بچوں میں ادبی صلاحیتیں پیدا کیں۔ باصلاحیت قلم کاروں اور اداکاروں کے ذریعے ریڈیواسٹیشن کی خدمت کی۔ ان کے کئی ڈرامے AIRحیدرآباد سے نشر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے AIRکے لئے کئی TALKSریکارڈ کروائے۔ میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ جب یوسف قادری کی رسائی بھی ٹیلی ویژن کی وساطت سے سامعین کے علاوہ ناظرین تک ہونے لگی۔۔۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر T.V کے اربابِ مجازان کے انٹر ویو ریکارڈ کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے کئی انٹرویو مختلف T.V CHANNELS چینلوں سے ٹیلی کاسٹ کئے جاتے رہے ہیں۔

یوسف قادری کی گھٹی میں ادب کے ساتھ ساتھ مذہب بھی پڑا ہے۔ وہ مسلکوں کے چکر میں نہیں پڑتے بلکہ خالص قرآن و سنت کے ماننے والے ہیں۔ صحیح راستے کی تلاش میں انھوں نے کئی سر بر آوردہ شخصیتوں سے استفادہ کیا جن کا تعلق مذہب، ثقافت، سیاست وغیرہ سے رہا جیسے حضرت عبداللہ نقشبندی، سید محمد بادشاہ حسینی قادری، مہدی نواز جنگ، بیر سٹرا کبر علی خان، نواب احمد علی خان، سید خلیل اللہ حسینی (بانی تعمیر ملت)، کمیونسٹ لیڈر مخدوم محی الدین، راج بہادر گوڑ، جناب تاج قریشی، جناب علاء الدین حبیب، حیدرآباد کے ملک الشعراء جناب اوج یعقوبی، محبوب حسین جگر وغیرہ وغیرہ مشہور و ممتاز رہنماؤں سے رہنمائی حاصل کر کے اپنے آپ کو سنوار ا نکھارا۔ لیکن اثر کسی کا بھی قبول نہیں کیا بلکہ اپنا الگ رنگ بنایا۔

یوسف قادری نے کھلے ذہن سے مولانا ابوالکلام آزاد، مولا نا ابوا لاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر طارق جمیل، ڈاکٹر اسرار احمد وغیرہ کی تخلیقات کو اپنے اندر اتارا۔ ظاہر ہے اس کے بعد جو تخلیقات یوسف قادری کے اندرون سے پھوٹیں وہ بیرونی دنیا کو چونکائے بغیر نہ رہ سکیں۔ اسی طرح یوسف قادری نے مہاتما گاندھی، میکسم گور کی، لوری اراگان، مدرٹریسا، مارٹن لوتھر کنگ، ماؤز ے تنگ جیسے رہنماؤں کے فلسفوں کا بھی مطالعہ کیا اور ان سے استفادے میں کوئی عار نہ سمجھا۔

ادب، مذہب اور فلسفوں کے ساتھ ساتھ یوسف قادری نے ہمیشہ سائنس کو بھی بڑی اہمیت دی۔ عصری ٹکنالوجی کی نئی نئی ایجادات کے بارے میں خود بھی مضامین لکھے۔ حیدرآباد کے مشہور ممتاز روزنامہ رہنمائے دکن یوسف قادری سے استفادہ کرتا رہا ہے اور ان سے ہر ہفتے اپنے اخبار کے کئے سائنسی مضامین میں لکھوا تا رہا ہے۔ اسی طرح یوسف قادری کی نظر تازہ بہ تازہ نو بہ نو ہونے والی سائنسی ترقیات پر بھی رہی ہے۔

یوسف قادری شروع ہی سے انقلابی فکر کے حامل رہے ہیں چنانچہ انھوں نے 1980ء میں طویل انقلابی نظم ’’جینے دوانسانوں کو ‘‘ لکھ کر ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو شعری پیرایۂ اظہار دیا جس پر جنتا پارٹی نے انھیں ’’باغی شاعر ‘‘ کا خطاب پروفیسر بشیر الدین صدر شعبۂ جرنلزم عثمانیہ یونیورسٹی کے ہاتھوں عطا کیا۔ اس سے پہلے حیدرآباد کے ملک الشعراء جناب اوج یعقوبی نے یوسف قادری کو ’’شاعر وقت ‘‘ کے خطاب سے سرفراز فرما یا تھا اور وہ انہی کا شعر  ان کے تعارف میں پڑھا کرتے تھے۔

روز یوسف کے ساتھ سوتی ہے

اک غزل قافیوں کے بستر پر

اسی سپردگی و پذیرائی کا نتیجہ ہے کہ آج یوسف قادری گیارہ ہزار ایک سوگیا رہ صفحات پر مشتمل اکیسویں صدی کی سب سے بڑی کتاب کے شاعر کی حیثیت سے روشناسِ  خلق ہیں اور اپنی شعری تخلیقات کی روشنی، ایک ایسے مقام (امریکہ) سے پوری دنیا پر پھینک رہے ہیں۔ قوسِ قزح کی یہ روشنی ادب کے افق پر اپنے خوب صورت رنگوں سے ساری دنیا کو متوجہ کر رہی ہے۔ اس قوسِ قزح میں بھارت کے ترنگے کے رنگ بھی ہیں ، سعودی عرب کی سفیدی و سیاہی بھی ہے، پاکستان کی سبز رنگت بھی ہے۔ افغانستان، ایران، فلسطین، عراق کی لالی بھی ہے تو اسرائیل کی نیرنگی بھی اپنا رنگ دکھاتی نظر آتی ہے۔ چین و جاپان کی خاکستری بھی ہے تو برطانیہ کی برفابی کی عکاسی بھی اس میں ہے۔ غرض ساری دنیا کے رنگ یوسف قادری کی رنگا رنگ تخلیقات میں اپنے جلوے دکھا تے ہیں۔

یوسف قادری حیدرآباد کی مردم خیز سر زمین سے اٹھنے والا ایک ایسا ستارہ ہے جو بامِ  افق پر اپنی روشنی دکھاتا ہے تو حیدرآباد ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام خوش ذوق سراٹھا کر اسے سلام کرتے ہیں اس کا استقبال کرتے ہیں اور اس کے لیے آنکھیں بچھاتے ہیں۔ یہ مقبولیت و شہرت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اس کے لیے خود یوسف قادری نے بھی بہت جدو جہد کی، راتوں کی نیند اور دن کا چین گنوایا ہے۔ محنت و ریاضت کے بغیر تو دو وقت کی روٹی بھی حاصل نہیں ہوتی۔

یہ لین دین کی اپنی حدیں بھی ہوتی ہیں

کہ پیٹ بھرتا ہے، جھولی کوئی نہیں بھرتا

(رؤف خیرؔ)

یوسف قادری کی بسیار گوئی کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے ساحر لدھیانوی کے ساتھ فلمی دنیا کے لیے بھی کچھ گیت بڑی آسانی سے لکھ دیئے۔

مرزا غالب کی صد سالہ تقاریب کے موقع پر غالب پر طویل ترین فری ورس نظم ’’پرچم غالب ‘‘ لکھ کر غالب ایوارڈ حاصل کیا۔

جہاں انھوں نے دنیا بھر کے امن پسندوں کی تعریف و توصیف کی وہیں جابر حکمرانوں کے خلاف انقلابی نظمیں لکھ کر انسانیت کو للکار ا اور قلم کی آبرو رکھ لی۔ وہ کبھی باطل سے مصالحت نہیں کرتے۔ ان کی حق گوئی مصلحت کی دیوار کی بلی کی طرح موقع پرست نہیں ہے۔ یوسف قادری کے اندر سانس لینے والا بے باک قلم کار ہمیشہ کھل کر اظہار رائے کرتا ہے۔ وہ لگی لپٹی کے قائل ہی نہیں ہیں۔ انھوں نے حق گوئی و بے باکی سے کام لیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا لہجہ سفا کا نہ نہیں بلکہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ وہ اگر زخموں پر نشتر چلاتے ہیں تو فاسد مواد کو دور کرنے کے لیے نہ کہ اذیت پہنچانے کے لیے۔ ان کا قلم  یقیناً نشتر کا کام کرتا ہے مگر کینسر کے پھوڑے سے سماج کے بدن کو پاک کرنے کے لیے۔ یوسف قادری کے ہاتھوں میں قلم بجائے خود تیشہ بھی ہے جس سے وہ سنگدل انسانوں کے پہاڑی جذبوں کو تراش کر ان میں سے مہرو محبت کی جوئے خوش آب نکالنے کا کام کرتے ہیں۔

رہے گا ہاتھوں میں اپنے جو یہ قلم یوسف

نہیں رہے گا ہمیں زندگی کا غم یوسف

یوسف قادری کے ہاتھ میں قلم، وہ قلم ہے جسے دریا میں پھینک دیں تو دریا کی روانی کی مخالف سمت تیرنے لگتا ہے جس کو بالآخر یہ اعزاز نصیب ہوتا ہے کہ وہ مریم ادب کی پرورش و نگہداشت پر مامور ہوتا ہے۔ نتیجتاً مسیحائے قوم و ملت کی بنیاد بنتا ہے۔ یوسف قادری کے ہاتھ میں قلم ایک ایسا عصا بن جاتا ہے جو ساحرانِ  باطل کی نظر بند یوں کو بے جان رسیوں میں ڈھال دیتا ہے اور انھیں نگل جاتا ہے۔ باطل  ازموں اور فلسوں کے سیلابی دریائے نیل کو یوسف قادری کا حق پسند عصا ضرب لگاتا ہے تو اسے دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے جو بنی اسرائیل کی مظلومی کا ہم نوا ہے تو وقت کے ظالم فرعونوں کو غرقاب بھی کر دیتا ہے۔ یوسف قادری کا قلم اگر بے حس چٹانوں پر ضرب لگائے تو بارہ شہدابی چشمے پھوٹ پڑیں جن سے بارہ قبیلوں کی پیاس بجھ جائے۔ امن و امان کی کھیتیاں لہلہانے لگ جائیں۔ یوسف قادری کے قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اگر کسی کور چشم (اندھے ) کو چھولے تو بصارت تو بصارت اسے بصیرت بھی حاصل ہو جائے۔ یوسف قادری کے قلم سے نکلی ہوئی تخلیقات نہ صرف انسانی بدن کے کوڑھ کا علاج ہے بلکہ روح کے زخموں کو بھی مندمل کرتی ہیں۔ حتیٰ یہ کہ ان کا قلم اگر قم باذن اللہ کہہ دے تو ادب کے تنِ  مردہ میں جان پڑ جائے۔

یوسف قادری کا قلم سچ پوچھئے تو کسی معجزے سے کم نہیں جو بھلے ہی چاند کو دو ٹکڑے نہ کرے مگر ظلم و بربریت کے سر کو قلم کر کے رکھ دیتا ہے۔ دہشت گردی پر بم کی طرح گرتا ہے اور نفرت و تعصب کے پرنچے اڑ ادیتا ہے۔ بقول رؤ ف خیر۔

قلم کی کاٹ تو تلوار سے بھی بڑھ کر ہے

مگر شمار یہ ہتھیار میں نہیں آتا

یوسف قادری کے بنیادی ماخذ قرآن وسنت ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ لوح و قلم سے رابطہ استوار رکھا ہے۔ قال اللہ قال رسول اللہ کی تفسیر اپنی جدید فکر کی روشنی میں ، جدید ترل ہجے میں اور جدید تر ین اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تخلیقات میں در آنے والے استعارے، تلمیحات علامات کا پس منظر اسی کتاب سے اٹھایا گیا ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری صاحبِ  لوح محفوظ نے لے رکھی ہے۔ پیمبر انہ سیرت بھی یوسف قادری کی تخلیقات کے پس پردہ کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ تبھی تو اس کی تخلیقات دلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں اور زبانوں پر چڑھ جاتی ہیں۔ یہ خوبیاں یوں ہی حاصل نہیں ہو جاتیں اس کے لیے فنافی الفن کی راہِ سلوک سے گزرنا پڑتا ہے، پھر فنافی الرسول اور آخر کار فنافی اللہ کی منزل آتی ہے۔

یوسف قادری کے دامن پر ہاتھ ڈالنے والے تو بہت ہیں مگر ان کا دامن ہمیشہ پیچھے سے پھٹا ہے۔ ان کا راستہ روکنے والے ان کے گریبان پر ہاتھ ڈال نہیں پاتے تو پیچھے سے دامن پھاڑ کر خوش ہوتے ہیں۔

دامن اس یوسف کا آیا ٹکڑے ہو کر ہاتھ میں

اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں

مگر یوسف قادری ان برا درانِ یوسف کو کہاں خاطر میں لاتے ہیں یہ بھائی آخر کار ان کے فکرو فن کے سامنے ماتھا ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی یوسف قادری کے فکر و فن کی تعبیر ہے۔

یوسف قادری کی اہمیت تو دیدۂ یعقوب سے پوچھئے۔ زلیخائے ادب یوں ہی دیوانی نہیں ہو گئی۔ زنانِ مصر نے یوں ہی اپنی انگلیاں تراس نہیں لیں۔ عزیز مصر کچھ یوں ہی ان کا غلام ہو کر نہیں رہ گیا۔۔۔

اللہ نے اپنے جمال کا ایک حصہ اگر یوسف علیہ السلام کو دیا تھا تو اپنے کمال کا ایک حصہ یوسف قادری کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ ظاہر ہے اب زوال کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

اثر غوری

 

حیدرآباد میں اپنے انداز کے منفرد شاعر اثر غوری ہیں۔ انھوں نے مخدوم محی الدین، خیرات ندیم، شاذ تمکنت، انور رشید، جمیل شیدائی وغیرہ کے ساتھ شب و روز گزارے۔ ان اولیائے سخن کی صحبتوں نے اثرؔ  کو نیا لہجہ دیا۔ ان کا اسلوب روایت سے یکسر کٹا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ چونکانے میں یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ہر بار نئی بات نئے انداز سے کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر چند بعض سنجیدہ مزاج لوگوں کو ان کا لہجہ کھل بھی جاتا ہے مگر اثرؔ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ ان کی تخلیقات قارئین اور سامعین کو خوشگوار حیرت سے دوچار کرتی ہیں۔ بعض وقت انھیں گھر میں بھی ایسی ہی صورتِ  حال کا سامنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں :

میں خاموشی کو پہن کر نکل گیا گھر سے

گذ شتہ رات کو گھر میں تناؤ ایسا تھا

۴؍اکتوبر ۱۹۴۰ء کو حیدرآباد میں پیدا ہونے والے اثر غوری نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا برسوں وہ بس کنڈکٹر رہے پھر ترقی پا کر کنٹرولر ہوئے اور وظیفے پر علاحدہ ہوئے۔ ان کے دو شعری مجموعے بوند بوند روشنی 1983ء میں اور لہو لہو سائبان 2005ء میں منظر عام پر آئے۔ ان کی تخلیقات ہندوستان بھر کے ادبی رسائل میں جگہ پاتی ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے تجربات کو اپنے فکر و فن کا موضوع بناتے ہیں پھر وہ تجربہ شخصی نہیں رہ جاتا۔

جیسے ان کی نظم :

 

میں گنتی کر رہا تھا کہ اچانک

میری انگلیوں سے پنسل چارٹ کو چھو کر

زمیں پر گر پڑا ہے

کوئی سکہ۔ یقیناً کم ہوا ہے

حسین لفظوں کی وادی بہہ گئی شاید

سمندر میں کھنگالیں کس طرح

درنا یاب نکالیں کس طرح

نئے لہجے کی خوشبو اب خلاؤں کی طرف اڑ کر

فقط اب خاک دل کو ڈھونڈ تی ہے

میں گنتی کر رہا تھا کہ اچانک

مری انگلیوں سے پنسل چارٹ کو چھوکر

زمیں پر گر پڑا ہے

کوئی سکہ یقیناً کم ہوا ہے

 

غزل

 

تما عمر قلم کے سفر میں رہتا ہے

عجیب خواب ہے کاغذ کے گھر میں رہتا ہے

 

مجھے تو لگتا ہے پاگل ہے گھر کا سناٹا

تمام رات جو دیوار و در میں رہتا ہے

 

عجیب غیر یقینی ہے شہر کا منظر

ہر ایک اپنے ہی سائے کے ڈر میں رہتا ہے

 

یہ کیسا شہر ہے ذاتی کسی کا کچھ بھی نہیں

یہاں تو دل بھی کرائے کے گھر میں رہتا ہے

 

ہماری آنکھ میں بارود د بھر گئی شاید

ہمیشہ آگ کا منظر نظر میں رہتا ہے

 

کسی مقام پہ رکنے مجھے نہیں دیتا

مرا وجود مسلسل سفر میں رہتا ہے

 

ہم اپنی ناؤ کا رخ کس طرف کو موڑیں اثر

ہوا گھٹن میں ہے ساحل بھنور میں رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اعظم راہی

 

نئی نسل کے بیشتر قلم کاروں کا ادبی سفر ’’پیکر ‘‘ کے ذریعے شروع ہوا۔ آج کے مشہور و معروف قلم کاروں نے اعظم راہی کے ماہنامہ ’’پیکر‘‘ کے حوالے سے اپنی پہچان بنائی۔ 1950ء سے 1980ء تک یعنے تقریباً تیس سال تک اعظم راہی نے اپنے رسالے کے ذریعے ادبی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ جدیدیت سے ادب کو روشناس کروانے میں اور ادیبوں کو جدید لہجے پر مائل کرنے میں اعظم راہی نے اپنے رسالہ ’’پیکر ‘‘ کے ذریعے اہم رول ادا کیا۔

اعظم راہی ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۰ئ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ اس عمر میں بھی وہ فعال ہیں۔ ادبی دنیا کے نابغۂ روزگار عزیز احمد کے تعلق سے ممکنہ معلومات کا ذخیرہ جمع کر کے ’’عزیز احمد فکرو فن اور شخصیت ‘‘ کے عنوان سے اعظم راہی نے پیش کیا جو ادب میں دونوں کو زندہ رکھے گا۔ یہ دستاویزی کارنامہ پانچ جلدوں میں منظر عام پر آچکا ہے جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔

اعظم راہی بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ 1960ء کے آس پاس انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ ان کے افسانے سماج کے تاریک پہلوؤں کو روشنی میں لاتے ہیں۔ ’’منظر کا انجماد ‘‘ ان کے منتخب افسانوں کا مجموعہ۔

اعظم راہی کا شمار نثری نظم کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ انوکھی علامتوں میں انھوں نے بڑی کامیاب نثری نظمیں لکھی ہیں جو تیز ابیت لیے ہوئے ہیں۔ ’’ملبے میں دبا موسم ‘‘ ان کی نثری نظموں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ جو اعظم راہی کے انوکھے اسلوب کا شناس نامہ ہے۔ جو 1980ء میں منظر عام پر آیا تھا۔

 

چند منتخب نثری نظمیں

 

تاویل

 

مذہب

اس نے بھیجا

مذہب وہ لے آیا

آج وہ مذہب

ہماری جیب میں ہے !

٭

 

ٹینشن

 

کمرے میں بستر پروہ

سنسان پڑی تھی

اور باہر

کھلے آسمان میں

ایک چیل

پر پھیلائے چیخ رہی تھی

٭

 

قیمتی صفر

 

جب گھر میں عورت آئی

میں تقسیم ہوا

پھر بچے آئے

اور تقسیم ہوا

پھر اک دن

میں صفر بن گیا

اب ہر تقسیم شدہ عدد کے لیے

بس اتنا ہی اہم ہوں کہ

وقت پڑتا ہے تو وہ

اپنی طاقت بڑھانے کے لیے

میرا سہارا لیتے ہیں

پھر صفر کہہ کر

خود سے الگ کر دیتے ہیں

٭

 

ارتعاش

 

تم اپنی ذات میں

اک سو کھا کنواں

میں اپنے آپ میں

اک ویراں گنبد

اور ہم دونوں

ایک دوسرے میں گونج رہے ہیں

٭

 

وقت

 

کل تک

میں مناسب تھا

آج

نامناسب ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اشتہاری گلی میں ادب کے ولیؔ

 

پیش کش کی ہر شعبۂ حیات میں بڑی اہمیت ہے۔ مال اچھا ہو اور اسے سلیقے سے پیش کیا جائے تو دل و نگاہ کو متوجہ کرتا ہے کامیابی کا پہلا زینہ یہی ہے۔ اچھے سے اچھا مال محض خراب پیش کش کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ولی تنویر اس اہم نکتے سے روز ازل ہی سے آشنا رہے ہیں۔ انھوں نے خوب صورت خیال کی دل کش الفاظ میں بیان کر کے دل لبھانے کے سامان کرتے ہوئے اپنے افسانے ادبی دنیا کے سامنے پیش کیے۔ ان کے افسانے مقبولِ خاص و عام ہوئے۔ داستان زیبِ  داستاں کے بغیر مزہ ہی کہاں دیتی ہے۔ زیبِ  داستاں ہی تو سامع و قاری کو باندھے رکھتی ہے تبھی تو کہانی کہنے والی ہستی ہزار راتوں تک اپنی زندگی بچا پاتی ہے۔ پھر کہانی در کہانی یہ سلسلہ دراز ہوتا جا تا ہے۔ ولی تنویر نے کہانی کے ساتھ ساتھ کردار کی تصویر کشی میں بھی کمال دکھایا ہے۔ ان کے ایک افسانے کی منظر کشی ملاحظہ فرمائیے :۔

’’عید کی محفل میں پہلی بار جب اس نے ثمینہ کو دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کا چھریرہ متناسب وجود محفل عید میں مرکز نگاہ بنا ہوا تھا۔ ثمینہ کے ثمر شباب پر سیاہ چوٹیاں کچھ اس طرح بل کھاتی لٹک رہی تھیں جیسے اس نے اپنے سینے کے خزانوں کی حفاظت کے لیے دوسیاہ ناگ پال رکھے ہوں۔ ‘‘

سرکاری ملازمین کی ہڑتال کا نقشہ کھینچتے ہوئے ولی تنویر نے ایک کہانی میں کہا :

’’ملازمین گرانی الاؤنس میں اضافے کا مطالبہ کرنے کے بجائے گرانی میں کمی کے لیے ہڑتال کرتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ تاکہ ملازمین کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی بھلا ہوتا ‘‘۔

یہی افسانوی طرز تحریر انھوں نے تشہیر ی کمپنی تنویر اڈورٹائزنگ سروس کے اشتہارات میں بھی برتی اور عوام و خاص کو خرید لینے والے اشتہارات دیئے جو نئے نئے محاوروں پر مشتمل ہوا کرتے تھے اور جنھیں پڑھتے ہوئے افسانچے یا نثری نظم کا لطف آج اتا ہے۔ ولی تنویر کے اندر کا فن کار اس تجارتی میدان میں بھی ادب کا دامن نہیں چھوڑتا۔ ایک اشتہار دیکھئے:

’’آپ کی دولت کا صحیح نعم البدل دولت کلاتھ سٹور کے ملبوسات ‘‘ یا پھر

’’بچپن سے پچپن تک ہر عمر کے لیے ملبوسات پیش ہیں ‘‘

’’دلھن بہر حال دلھن ہے۔ جانے والی بیٹی کی صورت میں ہو یا آنے والی بہو کی شکل میں ہو۔ ہر دو کے لیے ہمارے یہاں دیدہ زیب ملبوسات کا تازہ سٹاک ہے ‘‘

یہ جملہ تو ایک افسانہ نگار کے قلم ہی سے نکل سکتا ہے۔

’’گھر بنا لینے اور مکان تعمیر کروانے میں بڑا فرق ہے، ہمارے یہاں تمام تعمیری سازو سامان دستیاب ہے ‘‘

ولی تنویر کے اندر بیٹھا ہوا فن کار اشتہارات کو بھی نعروں SLOGANSکا حسن عطا کر کے اخبارات کے ذریعے خواتین و حضرات کے دلوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس میدان میں بھی سرخ رو ٹھیرتے ہیں۔ جس طرح ان کے افسانوں میں ولایت اور نورانیت ہوا کرتی ہے اسی طرح ان کے اشتہارات بھی ان کا شناس نامہ ہوا کرتے ہیں۔

5۔ جون۔ 1946کو ضلع میدک کو ہیر منڈل میں پیدا ہونے والے محمد ولی الدین مفتی محمد حمید الدین کو ہیری کے چشم و چراغ ہیں۔ ابتدائی تعلیم تو کوہیر میں ہوئی، پھر جامعہ علی گڑھ اور جامعہ عثمانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ابتداء ہی سے ولی تنویر کو تجارت سے دلچسپی رہی۔ یہی ان کا ذریعہ معاش رہا۔ آج بھی الحمد اللہ اسی تجارت کی برکت سے وہ خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔

1970ءکے آس پاس ولی تنویر نے ’’ادارۂ محور ادب ‘‘ قائم کیا جس سے صاحب کوہیری، مسیح انجم، وہاب قیصر، عقیل ہاشمی جیسی شخصیتیں وابستہ رہیں جن کی ادبی صلاحیتوں کو اسی ادارے نے جلا بخشی بعد میں جو نابغۂ روزگار ثابت ہوئیں۔ اس ادارے کے تحت ہر ماہ اجلاس ہوا کرتے تھے۔ ادبی تخلیقات پیش کی جاتی تھیں ، افسانے، مضامیں وغیرہ نہ صرف مقامی اخبارات کی زینت بنتے تھے بلکہ ملک کے جانے پہچانے مقتدر و معتبر رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوا کرتے تھے جیسے بانو، شمع، بیسویں صدی، شاعر، روبی، کتاب نما وغیرہ۔ آپ کے ہم عصر کہانی کاروں میں اکرام جاوید، ابراہیم شفیق، بیگ احساس، مسیح انجم وغیرہ نے کافی نام کمایا ہے۔ ولی تنویر بنیادی طور پر افسانہ نگار ہی شمار ہو تے ہیں۔ ہر چند کہ انھوں پندرہ روزہ ’’فرمان ‘‘ برسوں پابندی سے نکال کر کامیاب صحافی ہونے کا ثبوت بھی دیا۔

ولی تنویر نے ترقی پسندی کا عروج و زوال بھی دیکھا اور جدیدیت کے رطب و یابس کو بھی بنتے بگڑتے دیکھا۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ان کے آبائی وطن کو ہیر میں ایک دینی اقامتی درس گاہ مدرسہ عربیہ نورالعلوم ہے جہاں طلبہ و طالبات کے لیے عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کا انتظام بھی ہے۔ ولی تنویر اس درس گاہ کے ذمہ داروں میں شمار ہوتے ہیں اور دامے درمے سخنے اس کا تعاون کرتے رہتے ہیں  وہ افسانوی وادی میں گم ہو جانے والوں میں نہیں بلکہ حقائق کی سرزمین پر قدم جمانے والے آدمی ہیں۔ اس طرح ولی تنویر اسم بامسمی ہیں۔

زندگی کی سچائیاں آج بھی ولی تنویر کو تڑپا کے رکھ دیتی ہیں۔ لاہور پاکستان کی ایک کم سن لڑکی نورا کے دل میں دوسوراخ تھے۔ بنگلور کے ماہر امراض قلب ڈاکٹر راجیش شرمانے 2003ء میں اس کا کامیاب آپریشن کر کے اسے نئی زندگی دی اور کوئی فیس بھی نہیں لی تو ولی تنویر کے اندر کا فن کار انسانیت کے اس مظاہرے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ انھوں نے ’’نور کا سفر‘‘ کے عنوان سے ایک نثری نظم میں اپنے دلی جذبات و احساسات کو زبان دی۔

’’نور کا سفر۔ لاہور سے دہلی اور پھر بنگلور تک نور کا تھا اک سفر

گڑیا اک معصوم سی اور ایک ننھا سادل ننھے سے دل میں دو سوراخ

دونوں ملکوں کی سفاکی، بے رحمی سنگدلی، ضد اور ہٹ کی علامت۔۔۔

وہ مسیحاصفت راجیش شرما نے رکھ دیئے ان پر پھاہے امن کے۔

دل کو دی اک دھڑکن نئی۔ نور کے لبوں کی ملی اک مسکراہٹ نئی۔۔۔

نور ہی نور۔۔۔ دور تک تا حد نظر۔۔۔ نور کی ایک تابندہ لکیر۔۔۔ ‘‘

 

تلنگانہ کے سپوت ولی تنویر نے ریاست میں اردو کو مدرسوں سے لے کر کالجوں کی سطح تک قائم و دائم رکھنے میں جو رول ادا کیا ہے وہ انھیں مجاہد اردو کہلوانے کے لیے کافی ہے۔ اردو کی بقا نہ صرف قوم و ملت کی بقا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی حیات اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے لازمی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنی اپنی خدمات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نابغۂ روزگار۔ ڈاکٹر داؤد اشرف

 

الحمدللہ حیدرآباد شروع ہی سے مردم خیز رہا ہے۔ ایسے ایسے نابغۂ روزگار اس سرزمین سے اٹھے جنہوں نے اردو ادب میں اپنے انمول اور ان مٹ نشان چھوڑے۔ پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ سے لے کر آج کے دور کے شعراء اور ادباء تک ایک کہکشاں ہے جو ہر سطح پر اپنا حساس دلا رہی ہے۔

ڈاکٹر داؤد اشرف حیدرآباد کی ناک ہیں۔ ان کے تحقیقی مضامین تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے ہمیشہ مصدقہ دستاویزات سے استفادہ کر کے چونکانے والے انکشافات کیے ہیں اس لیے آپ کی تحریر دستاویزی اور استنادی درجہ رکھتی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ حیدرآباد کی تاریخ اور حیدرآباد میں خدمات انجام دینے والے شمالی ہند کے قلم کاروں کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے جویائے حق لامحالہ ڈاکٹر داؤد اشرف سے رجوع کرتے ہیں۔

جامعہ عثمانیہ کی تعمیر کا معاملہ ہو کہ حیدرآباد سے باہر کی علمی درس گاہوں کو حضور نظام کی ہر طرح کی امداد، قطب شاہی خاندان کی خدمات ہوں کہ اورنگ زیب کی فراخ دلی، شبلی، داغ، جوش، ڈپٹی نذیر احمد، وحید الدین سلیم، حالی، عبدالحلیم شرر، سید احمد دہلوی وغیرہ وغیرہ کی خدمات اور ان کی سرپرستی میں حضور نظام کی دریا دلی، ہر بات ڈاکٹر داؤد اشرف کے قلم سے نکلتی ہے تو سند ٹھیرتی ہے۔ حضور نظام کی غیر جانب دارانہ داد و دہش نے ہندو یونیورسٹی، سر سی وی رامن سائنس اکیڈیمی، بھنڈارکر اورینٹل ریسریچ انسٹی ٹیوٹ پونا، اور کئی منادر اور عاشور خانوں کو دل کھول کر نوازا۔ ان تمام عنایاتِ  خسروی کا مدلل ریکارڈ ڈاکٹر داؤد اشرف کی دسترس میں ہے۔ آرکائیوز کے محکمے سے فارسی اور اردو کے نادر و نایاب ذخائر کو کھوج نکالنا ڈاکٹر داؤد اشرف ہی کا کارنامہ ہے۔

گھرکی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔   ڈاکٹر زور، حکیم شمس اللہ قادری، نصیرالدین ہاشمی، مجاہد آزادی مولوی علا ء الدین وغیرہ جیسے بے لوث بے غرض ارباب کمال کو ڈاکٹر داؤد اشرف نے بھلا دیئے جانے سے بچا لیا۔ ان کی خدمات کا ادب کے طلبہ کو احساس دلایا۔ ’’بیرونی اربابِ کمال کے ساتھ ’’قدر داں حیدرآباد ‘‘ نے جو کچھ حسنِ  سلوک کیا وہ ’’حاصلِ  تحقیق ‘‘ ہے۔

حیدرآباد یوں کی ایک کمزور ی ہے کہ وہ اپنے گھر کے افراد کی طرف سے آنکھیں موند لیا کرتے ہیں۔ کوئی بیرونی شخص آتا ہے تو اسے سر آنکھوں پر جگہ دیتے ہیں اور اپنے ہی گھر کے قابل ترین شخص کو بھی نظر انداز کر دیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر داؤد اشرف نے احساس دلایا کہ کیسی کیسی اہم ہستیاں حیدرآباد کی زینت تھیں اور ہیں۔ مخدوم محی الدین پر ریسرچ کر کے مخدوم کی سیاسی و شاعرانہ حیثیت کو روشناس خلق کروانا ڈاکٹر داؤد اشرف کا اولین اقدام ہے۔ اورنگ زیب کو متعصب قرار دے کر غیر مسلم چشم کم سے دیکھتے رہے ہیں مگر ڈاکٹر داؤد اشرف نے اورنگ زیب کی دریا دلی اور ہندو نوازی کا دستاویزی ثبوت فراہم کر کے اس کی شخصیت پر لگے غیر ثقہ دھبوں کو دھو ڈالا۔

مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ آج انگریزی اور اردو میں بے شمار تحقیقی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر داؤد اشرف کے ساتھ بھی مخلصانہ رویہ کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسے بے پناہ محقق اور قلم کار کی ایسی قدر نہیں کی جا رہی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ڈاکٹر داؤد اشرف نہایت کم گو اور منکسرالمزاج شخص ہیں۔ وہ کسی قسم کی پی آر شپ سے کام نہیں لیتے۔ خود پر لوگوں سے کہہ کہہ کر پر اثر مضامین نہیں لکھواتے، اپنی ہی تعریف میں لکھے اور لکھوائے ہوئے مضامین کو کسی دوست کے نام سے مرتب کر کے کتابی شکل نہیں دیتے۔ پتہ نہیں کب مردہ پرستی کی ذہنیت سے حیدرآبادی ادیب و شاعر نکلیں گے۔

ڈاکٹر داؤد اشرف کے کارنامے تو اس قابل ہیں کہ کسی یونیورسٹی میں ’’داؤد اشرف چیر‘‘ قائم کی جانی چاہئے۔ بقول خیرؔ

پڑے ہیں خیرؔ دکن میں تو چشمِ  کم سے نہ دیکھ

اگرچہ میرؔ نہیں ہیں سند تو ہم بھی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ولی دکنی۔ اردو غزل کا باوا آدم

 

ولی دکن کا ایسا کوہ نور تھا جس کی چمک دمک کو شمالیوں نے حیران ہو کر دیکھا۔ جہاں تک شعرو ادب کا معاملہ ہے شمالیوں کو ہمیشہ یہ زعم رہا ہے کہ وہی سربلند ہیں۔ لیکن تحقیق نے ثابت کر دیا کہ اہل دکن کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں۔ قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے تو اردو کا آخری قاری بھی اسی دکن ہی کا ہو گا۔ ولی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے دیوان کے 118مخطوطات کا پتہ چلا ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد علی اثر جناب مشفق خواجہ نے مزید 19مخطوطات ڈھونڈ نکالے ہیں اس طرح جملہ 137ایک سو سینتیس مخطوطات اس کے دیوان کے مختلف کتب خانوں میں پائے جاتے ہیں۔ چارسو سال پہلے اگر طباعت و اشاعت کی ایسی سہولتیں حاصل ہوتیں جیسی آج ہیں تو اس کے دیوان کے کئی ایڈیشن شائع ہو گئے ہوتے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ولی اورنگ آبادی ۱۷۰۰ئ میں دہلی گئے تھے۔ ولی کی مقبولیت کی وجہ سے ہر علاقے والے ولی کو اپنے علاقے کا فرد ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ کچھ لوگ اسے گجراتی تک ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل سترھیوں صدی عیسوی کے وسط میں اورنگ آباد میں پیدا ہوا۔ یہیں پلا بڑھا البتہ شوق سیاحت میں کبھی احمد آباد کبھی سورت تو کبھی دہلی بھی گیا۔ اس کے فکر و فن کے چرچے ہر طرف تھے۔ اس کے دہلی جانے اور اہل شمال شعراء کو متاثر کرنے کا احوال تقریباً ہر تذکرہ نگار نے ضرور بیان کیا ہے۔ دہلی میں اس کی ملاقات سعد اللہ گلشن سے ہوئی انھوں نے فارسی سرمایہ شعر سے استفادے کا مشورہ دیا جب کہ خود ارباب شمال نے اس دکنی بچے کی شاعری کا اثر قبول کیا۔

اثر پذیر ہوئے اتنے قافیئے سے مرے

دیئے جلائے ہیں یاروں نے بھی دئیے سے مرے                   ( رؤف خیر)

ریختہ کو ہیچ پوچ سمجھنے والے دہلوی شعراء نے ولی کے لہجے اور اسلوب کو خوب اپنایا۔ تقریباً ہر قابل ذکر شاعر نے ولی کی زمینوں میں غزلیں کہیں ڈاکٹر محمد علی اثر نے اپنی کتاب ’’ تحقیقی نقوش‘‘ میں بے شمار مثالوں سے واضح کیا کہ ولی کے خوشہ چیں کیسے کیسے شاعر ہوئے ہیں۔ حالانکہ قائم چاند پوری دکنی اردو شاعری کے بارے میں بڑی خراب رائے رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا (ع)اک بات لچرسی بہ زبان دکنی تھی۔، مگر پھر یہ حال ہوا کہ ولی کی غزلوں پر غزلیں ان لوگوں نے کہیں اور ولی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا جیسے حاتم دہلوی نے کہا۔

حاتم یہ فن شعر میں کچھ  تو بھی کم نہیں

لیکن ولی ولی ہے جہان سخن کے بیچ

یہاں تک کہ میر جیسے خود سرشاعر نے بھی ولی کا اعتراف کیا ہے۔

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے

معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

ولی کا دیوان دیکھ کر ہی دہلی والوں کو اپنے مجموعے شائع کروانے کا خیال آیا۔ ولی سے استفادہ کرنے والے بہت شاعر گزرے ہیں۔ ولی نے کہا :

پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا

شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا۔

مجھ پاس کبھی وہ قد شمشاد نہ آیا

اس گھر منے وہ دلبر استاد نہ آیا

(فائزؔ)

ولی کہتے ہیں :

تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا

جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

 

بے تابی دل آج میں دلبر سوں کہوں گا

ذرے کی تپش لہر منور سوں کہوں گا

(آبروؔ)

ولی کی ایک غزل کی زمین میں تو تین چار شاعروں نے غزلیں کہیں :

ولی کا مطلع ہے :

خوب رد خوب کام کرتے ہیں

یک نگہ میں غلام کرتے ہیں

 

جب سجیلے خرام کرتے ہیں

ہر طرف قتل عام کرتے ہیں

(فائزؔ)

نازنیں جب خرام کرتے ہیں

تب قیامت کا کام کرتے ہیں

(آبروؔ)

خوش قداں جب خرام کرتے ہیں

فتنہ برپا تمام کرتے ہیں

(یک روؔ)

ولی نے دیکھا کہ دہلی میں سرکاری و درباری اثرات کی وجہ سے فارسی کا چلن عام ہے انھوں نے بھی اپنی دکنی اردو میں فارسی الفاظ و محاورات کے ایسے جوڑ لگائے کہ اک نیا اسلوب ان کا شناس نامہ سمجھا جانے لگا۔ ولی نے بعض خوب صورت تراکیب بھی ـCOINکیں جیسے گوش کرنا، پنجۂ خورشید، خنجر خورشید، خنجر مژگاں کی باڑھ، غمزۂ آہو پچھاڑ، شیریں بچن، ساغرنین، آب نین وغیرہ وغیرہ۔ ان معاملات میں بھی بعض دہلوی شعراء نے ولی کی اتباع کی ہے ولی کے اجتہاد نے اجتہادات کے دروازے کھول دیئے اس طرح اردو کا ذخیرہ الفاظ ولی کا مرہون منت ہے ولی کہتے ہیں۔

اک بار مری بات اگر گوش کرے تو

ملنے کو رقیباں کے فراموش کرے تو

فائز نے اسی زمین میں غزل کہتے ہوئے مطلع کہا

اے یار نصیحت کو اگر گوش کرے تو

یہ طور طریق اپنے فراموش کرے تو

ولی کی نقالی کرنے والوں نے ولی کا لوہا مان لیا۔ ظاہر ہے نقل کبھی اصل سے آگے نہیں جاتی     الا ماشاء اللہ۔ ولی بہر حال کئی شاعروں کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اور ان کی پیروی کرنے والے ان کے پیچھے ہی رہے۔ ولی کا مطلع ہے

سرو د عیش گاویں ہم اگر وہ عشوہ ساز آوے

بجاویں طبل شادی کے اگر وہ دل نواز آوے

ا س زمین میں یک  روؔ   کا  مطلع ولی کی لکیر کے سامنے بڑی لکیر کھینچنے کی کوشش ہے :

مبارک عید ہو ہم کو اگر وہ جلوہ ساز آوے

کروں میں جان کو قرباں اگر ہو دلنواز آوے

مگر ولی کی طرح مقطع کہنا آسان نہ تھا ولی نے اس مقطع میں اپنی پہچان رکھ دی ہے :

ولی اس گوہر کا ن حیا کی کیا کہوں خوبی

مرے گھر اس طرح آتا ہے جوں سینے میں راز آوے

ولی کے لب و لہجہ کے اثرات اس دور کے شعراء تک ہی محدود نہ تھے بلکہ بعد آنے والے شعراء کے کلام میں بھی ولی کے اشعار کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ولی کا شعر ہے :

ہوں گرچہ خاکسار  ولے از رہِ ادب

دامن کو تیرے ہاتھ لگایا نہیں ہنوز

میر نے اس لکیر کے مقابل یقیناً بڑی لکیر کھینچی ہے مگر اولیت تو ولی ہی کو رہے گی۔

دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

ولی کے ایک شعر کے چراغ سے شاہ حاتم اور مرزا غالب دونوں نے چراغ جلائے ہیں

اگر چہ ہر سخن تیرا ہے آب خضر سوں شیریں

ولے لذت نرالی ہے پیا تجھ لب کی گالی میں

(ولیؔ)

حق میں عاشق کے تجھ لباں کے بچن

قند ہے،  نیشکر ہے، شکر ہے

(شاہ حاتمؔ)

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

(غالبؔ)

بیشتر تذکرہ نگاروں نے ولی کا سن وفات 1707ء دیا ہے لیکن ماہر دکنیات ڈاکٹر محمد علی اثر نے اپنی کتاب، تحقیقی نقوش، میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتبہ، تاریخ ادب اردو، جلد اول کے حوالے سے لکھا ہے کہ ولی کا انتقال 1720یا 1725کے درمیان کسی سال ہوا۔ ولی نے بڑی لمبی عمر نہیں پائی لیکن بڑے کارنامے چھوڑے ہیں انھیں اردو غزل کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

سالار جنگ سوم کی مدح میں  شہیدؔ کو سگوی کا غیر منقوط قصیدہ

 

میر یوسف علی خاں جنھیں دنیا سالار جنگ سوم سے جانتی ہے ۳۱؍جون ۹۸۸۱ء کو حیدر آباد دکن جیسے مردم خیز علاقے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد شروع ہی سے آصف جاہی سلطنت کے وفادار تھے۔ چنانچہ جاہ سادس میر محبوب علی خاں جب کمسنی میں تخت نشین ہوئے تو زمامِ حکومت مختار الملک مدار المہام کے ہاتھ میں تھی۔

سالار جنگ سوم میر یوسف علی خان نے اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد ۲۱۹۱ء سے ۴۱۹۱ء تک فرماں روائے دکن میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کے وزیر اعظم کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ شاہی سطح پر آپ کے آبا و اجداد کے تعلقات بھی دیگر علاقوں کے راجاؤں ، مہاراجاؤں ، نوابوں سے قائم تھے جن سے نایاب و نادر تحفے تحائف انھیں ملا کرتے تھے۔ خود سالار جنگ سوم بھی نوادرات کے بڑے شوقین تھے چنانچہ انھوں نے اپنے ذاتی سرمائے کا بڑا حصّہ ہر قسم کے نوادرات، مخطوطات و مطبوعات، تصاویر وغیرہ جمع کرنے پر صرف کیا۔ نوادِر فروش آپ کی قدردانی سے فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ آج سالار جنگ میوزیم حیدر آباد دکن کی شناخت بن گیا ہے۔ ملک و بیرونِ ملک کے بے شمار سیاح روزانہ سالار جنگ میوزیم دیکھ کر نواب میر یوسف علی خاں سالار جنگ سوم کی خوش ذوقی اور دریا دلی کی داد دیا کرتے ہیں۔ یہاں سنگ مرمر کا ایک ایسا خوبصورت مجسمہ ہے جس کا نام ریبیکا Rebeccaہے۔ یہ ایک ایسی حسین لڑکی کا پیکر ہے جس کے بدن کا حسن سنگ مرمر ہی کی چادر سے جھلک رہا ہے مجسمہ ساز کے کمال کا یہ شاہکار دیکھنے والے کو حیران کر کے رکھ دیتا ہے کہ آخر فنکار نے سنگ مرمر کی چادر کے اندر اس حسینہ کے خطوطِ بدن کس طرح ابھارے ہوں گے؟اسی طرح لکڑی کا ایک مجسمہ ہے جس کو پیچھے سے دیکھیے تو لگتا ہے ایک خوبصورت شرمیلی حسینہ سر جھکائے کھڑی ہے اور آگے سے دیکھیے تو گویا ایک جوانِ رعنا سینہ تانے کھڑا ہے۔ ایک نایاب گھڑی ہے جس میں سے ہر گھنٹے کے وقفے سے ایک آدمی نکلتا ہے اور گھنٹے مار کر چار چھے دس گیارہ بارہ بجنے کی خبر دیتا ہے۔ ہر قسم کے نایاب ہتھیار بھی ہیں ہاتھی دانت کے مجسمے بھی ہیں ، حیران کن آئینے شیشے ہیں۔ قرآن مجید کے نایاب نسخے ہیں جن پر مغل بادشاہ جہانگیر، شاہجہاں ، اورنگ زیب وغیرہ کے دستخط بھی ثبت ہیں۔

حسن سالار جنگ کی کمزوری تھا۔ جہاں کہیں وہ حسن دیکھتے اسے اپنا بنانے کے جتن کر ڈالتے تھے اور مجبوری یہ تھی کہ جس پر مرتے تھے اسے مار رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ اس یوسف کے دامن پر کسی زلیخا نے ہاتھ ہی نہیں ڈالا۔ چنانچہ وہ دامن سلامت تجرد کی زندگی گزار کر تو مرے لیکن لا وارث نہیں مرے۔ ان کے وہ ارکانِ خاندان جن کا سالار جنگ کی جائیداد میں ایک آدھ آنے کا بھی حصّہ نکلتا تھا انھیں ہزاروں روپے حاصل ہوئے۔

دامن اُس یوسف کا آیا ٹکڑے ہوکر ہاتھ میں

اُڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں

نظام حیدر آباد کے ممالک محروسہ عالی کے تحت کوسگی ایک ایسی جاگیر تھی جو سرسالار جنگ سوم میر یوسف علی خان کے زیر انتظام تھی۔ کرنول کے قریب کی یہ جاگیر آصفیہ دورِ حکومت کے اختتام تک برقرار رہی۔ اس جاگیر میں تحصیل بھی تھی اور عدالت بھی گویا کوسگی کی حیثیت تعلقے کی تھی۔ اسی تعلقے میں سید عبداللہ شاہ حسینی شہیدؔ کوسگوی وکالت کیا کرتے تھے۔ پورے علاقے کے قاضی بھی یہی تھے اور جامع مسجد کوسگی میں امامت بھی کیا کرتے تھے۔ اردو اورفارسی پریکساں دسترس تھی۔ جمعہ اور عیدین کے موقع پر خطابت کے جوہر بھی دکھاتے تھے غرض اپنے تعلقے کی ہر دلعزیز  شخصیت شمار ہوتے تھے۔ شہید کوسگوی اردو فارسی میں شعر بھی کہاکرتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔ پہلے یہ حریفؔ کوسگوی تخلص اختیار کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ لالہ سری رام نے اپنے مرتبہ تذکرہ ’’خم خانۂ جاوید‘‘ (جلد دوم) میں حروف تہجی (ح) کی ذیل میں حریفؔ کوسگوی کاذکر بہ حیثیت شاگردِ داغ کیا ہے۔

حریفؔنے اپنے احباب کے مشورے پر اپنا تخلص بدلا اور شہیدؔ کوسگوی اختیار کیا تھا۔ اسعد بدایونی نے اپنی کتاب ’’داغ کے اہم تلامذہ‘‘ میں کسی حریفؔ یا کسی شہیدؔ کوسگوی کا ذکر ہی نہیں کیا۔ ڈاکٹر ابو محمد سحر کے مقالے ’’مطالعۂ امیر مینائی‘‘ کی طرز واداپر لکھی ہوئی کتاب ’’مطالعۂ داغ‘‘ میں سید محمد علی زیدی نے داغ کے ایک سو چالیس تلامذہ کی جو فہرست دی ہے اس میں بھی حریفؔ یا شہیدؔ کوسگوی کا نام بار نہیں پاتا ہے۔ تاہم ’’خم خانۂ جاوید‘‘ (جلد دوم) میں ان کاذکر مصدقہ حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر اسعد بدایونی نے ’’داغ کے صرف اہم تلامذہ‘‘ سے تعلق رکھا ہے اور سید محمد علی زیدی کے مقالہ ’’مطالعۂ داغ‘‘ کی جو ادبی حیثیت ہے، اس سے اربابِ نظر خوب واقف ہیں۔

سید عبداللہ حسینی حریف (شہید) کوسگوی ماہِ ربیع الاول ۱۹۲۱ھ میں بمقام کوسگی (ضلع محبوب نگر) پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں محبوب نگر کے بجائے ناگر کرنول ضلع ہوا کرتا تھا۔ ابتدائی تعلیم کوسگوی ہی میں حاصل کی۔ پھر حصول تعلیم کے لیے حیدر آباد کا رُخ کیا۔ جوانی حیدر آباد ہی میں گزری۔ شعر کا چسکا لگا اور اپنے دور کے مشہور و ممتاز شاعر داغ دہلوی سے رجوع ہو کر ان کے تلامذہ میں داخل ہو گئے۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی نعت، منقبت، قصیدہ و مسدس، غزلیں نظمیں آج بھی ان کے سوادِ خط میں ان کے ورثاء کے پاس محفوظ ہیں۔ اس دور کے بعض گل دستوں میں بھی ان کی تخلیقات پائی جاتی ہیں۔ ’’تاریخ کوسگوی‘‘ میں بھی ان کا تذکرہ پایا جاتا ہے ہر چند کہ کسی گل دستے یا تاریخ کوسگوی تک راقم الحروف کی رسائی نہیں ہوئی ہے البتہ شہید کوسگوی کے سوادِ خط میں ایک غیر منقوط فارسی قصیدہ (تہنیت نامہ) ان کے بڑے فرزند سید عثمان حسینی، داروغۂ مجسس (Sub Jail) بشیر آباد پائیگاہ کی وساطت سے جناب ضرر وصفی تک پہنچا جو عثمان حسینی صاحب کے فرزند اور شہید کوسگوی کے پوتے ہوتے ہیں۔ یہ غیر منقوط قصیدہ سرسالار جنگ سوم میر یوسف علی خاں کی مدح میں لکھا گیا تھا اور جب وہ اپنی جاگیر کوسگی تشریف لائے تھے تو ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس قصیدے کے صلے میں جس میں مقطع نہیں ہے شہید کوسگوی کوسرسالار جنگ سوم نے انعام و اکرام سے بھی نواز ا تھا۔ شہید کوسگوی علامہ اقبال کے ہم عصر تھے۔ ان کا انتقال ۲۱، شوال ۷۵۳۱ھ ہجری کو ہوا اور تدفین بمقام بشیر آباد پائے گاہ (حالیہ ضلع رنگا ریڈی) عمل میں آئی۔

شہید کوسگوی کے ورثا کے مطابق یہ فارسی غیر منقوط قصیدہ ان کی دیگر تخلیقات کے ذخیرے سے دستیاب ہوا ہے۔ یہ صرف ایک ہی صفحے پر لکھے ہوئے بارہ اشعار پر مشتمل ہے جس کا راقم الحروف نے منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ فارسی متن کے ساتھ منظوم اردو ترجمہ بھی اہلِ نظر کی ضیافتِ طبع کی خاطر پیش ہے۔

قصیدہ صفت غیر منقوط درشانِ عالی جناب مع القاب

آقا ولی نعمت نواب سالار جنگ بہادر دام اقبالہٗ  وجلالہٗ

 

سرورِ محمود سالارِ سوم

 

مصدرِ مہر و عطا ماہِ کرم

حاکم مصر اسم او گِرد مدام

 

داورامحکوم گردِ ملک ہم

طالعِ مسعود آمد کام گار

 

ہر گدارا داد صددام و درم

سرورِ سالارِ ما ممدوح ما

 

حاکمِ والا ہمم داراہمم

اُوکہ سالارِ ہمہ در معرکہ

 

ہم مَلک مسرور گردد مُلک ہم

اہل عالم محوِ مدحِ اومدام

 

در عطا و داد اسم اُوعلم

صدر عالم آمد و سالارِ کل

 

صدر دہر و صدرِ ہر اہلِ کرم

مدح گو را مدح او گردد محال

 

درد عا دارد دواماً کلک دم

حاصل ممدوح ماصد سالہ عمر

 

ہر سحر درد و دعاہا کردہ ام

*کردگارا درا ردا گرد مراد

 

عمر او ممدود اعدا در عدم

بہر طالع ساطع ولا مع مدام

 

دارد او را حاکم کلّ الحکم

مدح گورا ہم صلہ گردد عطا

سرورِ اہل کرم والا ہمم

 

*  یہ مصرع شاعر کے سوادِ خط میں ایسا ہی لکھا ہوا ملا ہے۔ خیرؔ

 

 

قصیدۂ بے نقط در مدحِ سالارِ سوم

از شہید کوسگوی

منظوم ترجمہ از رؤف خیر

 

مرجعِ تعریف، سالار سوم

 

منبعِ لطف و عطا، ماہِ کرم

مصر کے حاکم کے لب پر نام ہو

 

یا الٰہی ملک بھی انعام ہو

عزم دینے کا جو دریا دل کریں

 

ہر گدا کو دام و درہم بخش دیں

ہیں مرے ممدوح سالارِ زماں

 

عالی ہمت ہیں یہ دارائے جہاں

وہ کہ ہیں سالار ہر اک جنگ میں

 

خوش، مَلک اور مُلک بھی ہر رنگ میں

ساری دنیا مدح میں ان کی مگن

 

وہ علم بردارِ داد و قدرِ فن

آئے وہ سالارِ ملکِ ذی حشم

 

پیشوائے دہر و اربابِ کرم

مدح گو کی مدح ٹھیرے کم سے کم

 

مدح، گو کرتا رہے ہر دم قلم

عمر سو سالہ جیئے ممدوح یوں

 

دو دعائیں روز میں کرتا رہوں

یا الٰہی یہ تو ٹھیریں با مراد

 

ان کے دشمن بے نشاں ہوں نامراد

ان کی قسمت ہر گھڑی روشن رہے

 

حاکموں کا حاکم ان کو خوش رکھے

مدح گو کو بھی عطا ہو کچھ صلہ

بندہ پرور کو کرم کا واسطہ

٭٭٭

 

 

 

 

آج کے منظر نامے میں نظم

 

یہ طے ہے کہ غزل کے بالمقابل نظم میں وسعتِ اظہار زیادہ ہے۔ کسی موضوع یا کسی عنوان سے انصاف کرنے کے زیادہ مواقع ہیں۔ شاعر صرف دو مصرعوں کا پابند ہوکے نہیں رہ جاتا بلکہ دو سے زیادہ مصرعوں میں وہ اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لیے آزاد رہتا ہے۔ اسی آزادی اظہار نے سیکڑوں ہزاروں اشعار پر مشتمل مثنویوں کا روپ دھارا تو کبھی سیرتِ رسول پاک کا منظر و پس منظر بیان کرنے کے لیے مسدس کی ہئیت استعمال کی گئی۔ مدو جزر اسلام (مسدس حالی)شاہ نامۂ اسلام (حفیظ جالندھری)۔ علامہ اقبال کے شکوہ و جوابِ  شکوہ سے لے کر چندربھان خیال کی’ لولاک‘  تک نظم نگاری کا یک اسلوب مقبولِ خاص و عام ثابت ہوا۔ حمد،نعت، منقبت سلام قصیدہ وغیرہ مختلف اصناف نے نظم کو پروان چڑھایا ان تمام اصنافِ  سخن میں قافیہ و ردیف کی پابندی جہاں شاعر کی زبان و بیان پر دسترس کی غماز ہوا کرتی تھی وہیں خوش ذوق سامعین کے دل و دماغ کو متاثر بھی کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کے اشعار ہی کی طرح مسدس حالی، شاہ نامۂ اسلام، شکوہ جوابِ شکوہ کے کچھ بند اصحابِ ذوق کو یاد بھی ہو جایا کرتے تھے۔

نظم میں تجربات ہونے لگے۔ دیگر زبانوں سے استفادہ کیا جانے لگا چودہ مصرعوں کی مخصوص ترتیب سے سانیٹ لکھا جانے لگا یا پھر آٹھ مصرعوں کی الٹ پھیر سے فرانسیسی صنفِ سخن ترائیلے کی اردو میں پذیرائی ہوئی۔ مگریہ مذکورہ اصناف بہرحال بحر، قافیہ و ردیف کی پابندی ہی سے عبارت ہیں۔ آزاد نظم کے بانیوں میں شمار ہونے والے شاعر  ن۔ م۔ راشد نے بھی ابتداء میں سانیٹ لکھے۔ اختر جوناگڈھی، اختر شیرانی، نریش کمار شاد، عزیز تمنائی سے لے کر علیم صبا نویدی اور رؤف خیر تک کئی شاعروں نے سانیٹ لکھے۔ اردو میں ترائیلے بھی لکھے گئے۔ نریش کمار شاد نے ابتداء میں کئی ترائیلے لکھے پھر فرحت کیفی کا مجموعۂ کلام  ۱۹۷۷ء  میں ’’پتہ پتہ بوٹا بوٹا‘‘ اور رؤ ف خیر کا مجموعۂ کلام ’’ایلاف‘‘ ۱۹۸۲ء میں منظر عام پر آیا جس میں ترائیلے تھے۔

پابند اصناف میں قطعات رباعیات کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ اختر انصاری، عبدالحمید عدم، نریش کمار شاد کے مجموعے شائع ہوئے جنھیں مقبولیت نصیب ہوئی۔ جنوبی ہند میں ’’رباعی گوئی ‘‘ کے نام سے سید مظفر الدین خاں صاحب نے ایک تذکرۃ الشعراء ہی ترتیب دیا۔ امجد حیدرآبادیؔ، انیسؔ، جوش ملیح آبادیؔ، فراقؔ، جاں نثار اختر وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان دنوں رباعی گوئی کا احیاء بھی ہوا ہے اور بعض شاعروں نے تو حروفِ تہجی کے اعتبار سے اپنے مجموعے تک ترتیب دے ڈالے۔ رباعی گو کو ایک سہولت یہ حاصل ہے کہ وہ اپنی ہر رباعی کے ہر مصرعے کوکسی نہ کسی بحر میں ثابت کر کے دکھا سکتا ہے بقول یاس یگانہ چنگیزی جو خود رباعی گو تھے

چت بھی اپنی ہے پٹ بھی اپنی ہے

میں کہاں ہار ماننے والا

تین تین مصرعوں کے ہر بند کے ختم پر ایک ٹیپ کا مصرع ’’اے غم دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں ‘‘ کہہ کر مجازؔ نے نظم کو بامِ عروج پر پہنچا یا۔

فی الحال میں پابند نظموں کی بات کر رہا ہوں۔ اختصار پسندوں نے ایک قدم اور پیچھے ہٹ کر بجائے چار، اب صرف تین مصرعوں کی ثلاثی پر اکتفا کر لیا۔

ثلاثی میں تینوں مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں۔ البتہ قافیہ و ردیف کی پابندی صرف کہیں پہلے اور تیسرے مصرعے میں برقرار رکھی جاتی ہے۔ بحر چھوٹی بڑی ہو سکتی ہے۔

گزرا تھا ابھی کون سڑک سے کہ ابھی تک

ہاتھوں میں ہے بنیئے کے اسی طرح ترازو

درزی کی سوئی پہلے جہاں تھی ہے وہیں پر

(مخمور جالندھری)

علامہ اقبال نے دو دو مصرعوں کے ختم پر ’’اپنی خودی پہچان  او غافل افغان‘‘ جیسا آفاقی نعرہ دیا تھا جو آج بھی ضرب کلیم ثابت ہوسکتا ہے۔

مساوی الاوزان مصرعوں پر مشتمل ثلاثی کے مجموعے حمایت علی شاعر نے ’’مٹی کا قرض‘‘ کی صورت میں اور قمر اقبال نے ’’تتلیاں ‘‘ کے روپ میں ادب کو دیئے۔

 

کوئی تازہ شعر اے ربِ جلیل

ذہن کے غارِ حرا میں کب سے ہے

فکر محوِ انتظارِ  جبرئیل

(حمایت علی شاعرؔ)

یاد ہے وہ فساد کا منظر

رور ہی تھی گلی میں اک بچی

اپنی گڑیا کو گود میں لے کر

(قمر اقبال)

میرٹھ چھاؤنی کے دیپک قمر کا مجموعہ ’’ہلّے ہلارے‘‘ 1991ء میں اردو ماہیوں کے نام سے شائع ہوا مگر تقریباً پندرہ سو تخلیقات پر مشتمل یہ مجموعہ مساوی الاوزان مصرعوں پر مبنی ہے جو ثلاثی کا خاصہ ہے۔ پنجابی صنف ماہیئے میں درمیانی مصرع اپنے پہلے اور دوسرے مصرعے کی بہ نسبت ایک سبب کم ہوا کرتا ہے۔ یہی اس کی پہچان بھی ہے۔

ماہیئے دراصل پنجابی لوک گیت ہے۔ اسے فلموں کے ذریعے کافی مقبولیت ملی۔

تم روٹھ کے مت جانا

مجھ سے کیا شکوہ

دیوانہ ہے دیوانہ

(قمر جلال آبادی۔ فلم پھاگن)

دل لے کے دغا دیں گے

یار ہیں مطلب کے

یہ دیں گے تو کیا دیں گے

(ساحر لدھیانوی۔ فلم نیا دور)

جرمنی سے ’’جدید ادب‘‘ نکالنے والے حیدر قریشی نے اردو میں ماہیوں کو بہت بڑھا وا  دیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق ہمت رائے شرما  اردو میں ماہیا نگاری کے بانی ہیں۔ حیدر قریشی کی ایماء پر کئی احباب نے ماہیا نگاری میں سنجیدگی دکھائی اور کئی مجموعے شائع ہوئے جیسے :  موسم سبھی ایک جیسے۔ ( عاصی کاشمیری )۔    ’’محبت کے پھول‘‘ اور عمر گریزاں (حیدر قریشی)، چھیاں چھیاں (فراغ روہوی)، ’’سوماہیئے‘‘ (شاہد جمیل )  ریگِ رواں (نذیر فتح پوری)  رُتیں (طاہر رزاقی )۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے گیارہ ماہیا نگاروں کے ماہیوں پر مشتمل ایک مجموعہ ’’رم جھم‘‘ ترتیب دیا تو شمیم انجم وارثی نے ’’مغربی بنگال میں ماہیا نگاری کے نام سے چونتیس 34 ماہیا نگاروں کے فی کس بیس بیس ماہیئے جمع کر کے ایک کتاب شائع کی۔ اس کے علاوہ دو ماہی ’’ گلبن ‘‘ (احمد آباد۔ اب۔ لکھنؤ )اور سہ ماہی ’’قرطاس‘‘ (ناگپور)نے ماہیا نمبر شائع کیے۔

گرچہ ہے یہ نادانی

دل کی مگر میں نے

ہر بات سدامانی

(عاصی کا شمیری )

 

افسوس تو کیا کرنا

زہر کا عادی تھا

لازم تھا اسے مرنا

(رؤف خیر)

حیدرآباد دکن کے قمر ساحری برسوں پہلے ہجرت کر کے پاکستان جابسے تھے انھوں نے حروفِ تہجی کو بنیاد بنا کر ماہیئے کہے  اور ’’بادسبز‘‘ مجموعہ ادب کو دیا۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ قمر ساحری نے الف بے تے ثے جیم سے ماہیئے کے پہلے مصرعے کہے۔

آواز کہاں تک دیں

ساتھ تمہارے ہیں

تم ساتھ جہاں تک دیں

 

بانہوں میں نہیں نرمی

سرد ہوئے جذبے

بوسوں سے گئی گرمی

تین ہی مصرعوں پر مشتمل ہائیکو بھی جاپانی صنف سخن ہے جو اردو میں در آئی۔ اس میں سترہ سلیبلز SYLLABLES  میں پانچ سات پانچ کی ترتیب سے مصرعے کہے جاتے ہیں۔ ہائیکو کو بڑھا وا دینے میں ماہنامہ ’’ساقی ‘‘ (دہلی) کے جاپان نمبر جنوری 1936ء کا بڑا دخل ہے۔ محسن بھوپالی نے جاپانی قونصل خانے کے تعاون سے کراچی میں ہائیکو کے کئی مشاعرے کروا ڈالے۔

کیا بتلائیں حال

ذہن و دل میں پھیلے ہیں

اندیشوں کے جال

(سہیل غازی پوری )

باتیں خوابوں کی

لکھے گا تو لکھنے پر

پابندی ہو گی

(رؤف خیر)

عموماً یہ ہائیکو  فعلن فعلن فع

فعلن فعلن فعلن فع

فعلن فعلن فع

کے وزن پر لکھے جاتے ہیں۔

گلزار نے ابتداء میں پیش کردہ خیال کو آخری میں الٹ دینے کا انداز اختیار کرتے ہوئے ایک صنف تروینی کو فروغ دیا۔ ان کی تروینی ہے

سانپ جتنا بھی خوب صورت ہو

اپنی فطرت بدل نہیں سکتا

اس لیے کینچلی بدلتا ہے

بہر حال مصرعوں کی ترتیب میں حذف و اضافہ سے تجربے کیے گئے ہیں۔

اردو میں دوہے بھی بہت لکھے جا رہے ہیں۔ ندا فاضلی، بھگوان داس اعجاز، فراز حامدی وغیرہ نے اس صنف کو اپنا یا ہے۔ فراز حامدی نے تو دوہا گیت، دوہا حمد، دوہا نعت کے تجربے بھی کیئے۔ پابند نظم کی یہ چند مختلف صورتیں ہیں۔

صرف یک مصرعی نظمیں بھی لکھی گئی ہیں۔ راقم الحروف (رؤف خیر)نے ایک ہی مصرعے میں مکمل ایک خیال کو بیان کر دینے کا تجربہ کیا اور کئی یک مصرعی نظمیں لکھیں جو شعری مجموعہ                    ’’ شہداب ‘‘ (1993)سے لے کر خیریات (2010) تک پھیلی ہوئی ہیں اور جو کئی رسالوں میں شائع بھی ہوئیں۔

سفارش  :           ہر سند سے بڑی سفارش ہے

سرکاری مسلمان: دفتر کی کنجیوں میں قلم رکھ کے آ گئے

ATM کا چوکیدار:          بیٹھا ہوا ہے پیاسا کنویں کے منڈیر پر

کچھ شاعروں نے مزیدسہولت برتتے ہوئے بحر کی قید سے عاری یک سطری نظمیں لکھیں جیسے  مغنی تبسمؔ، یوسف قادریؔ،  محسن جلگانوی، علی، اعظم راہی وغیرہ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قافیہ و ردیف کی پابندی کے ساتھ نظم پیش کرنے میں ہی شاعر کا کمال ہے۔ قافیے کو سلیقے سے برتنے ہی میں شاعر کی ہنر مندی بولتی ہے۔ انیس و دبیر کے مرثیے۔ جوش، اختر شیرانی، مجازؔ کی نظمیں آج بھی لطف دیتی ہیں پوری نظم کسی ایک بحر ہی میں ہوتی ہے۔ شاعر کی خلاقانہ فکر اسے شاہ کار بناتی ہے جیسے علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ ،   ذوق و شوق، والدہ مرحوم کے نام نظم وغیرہ وغیرہ البتہ ساحر لدھیانوی نے اپنی ’’نظم‘‘ پر چھائیاں ‘‘ میں بحر کی تبدیلی کا تجربہ کیا ہے۔

برطانیہ کے انور شیخ نے نظم میں کئی تجربے کیے۔ ان کی تکونیاں کافی مقبول ہوئیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ہند و پاک کے بعض شاعروں سے تکونیاں کہلوا کر پور ا ایک مجموعہ ہی ترتیب دے ڈالا۔ تکونی قافیہ و ردیف کی پابندی سے کہی جاتی ہے۔ اس میں پہلے دو مختلف کردار پیش کیے جاتے ہیں اور تیسرا کردار بہ حیثیتِ  مبصر ان دونوں کرداروں کا جائزہ لیتا ہے۔

کچھ آزاد خیال شاعروں کا یہ احساس تھا کہ قافیہ و ردیف کے چکر میں اصل موضوع پیش کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ ’’جو قافیئے پر بیت گئی وہ تو سنادی‘‘ والا معاملہ تھا۔ ابتداء میں ایک ہی بحر کا لزوم بر قرار رکھا گیا یعنے ایک ہی آہنگ میں قافیہ و ردیف کی پابندی کے بغیر نظمیں کہی جانے لگیں۔ ن۔ م۔ راشد، میراجی وغیرہ نے اسے فروغ دیا۔ ان نظموں میں زبان و بیان ہی کی نہیں بلکہ ہر قسم کی چھوٹ برتی گئی۔ ن۔ م۔ راشد کا ’’سفر نامہ ‘‘ چونکا تا ہے کبھی ن۔ م۔ راشد نے کہا تھا ’’فرشتے خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں ‘‘ اور پھر وہ دن بھی آیا کہ خود ان کا جنازہ برتی دوزخ  (الیکٹرک بھٹی )کی خوراک ہو کر رہ گیا۔

اسے ضد کہ نور کے ناشتے میں شریک ہوں

ہمیں خوف تھا سحرِ ازل کہ وہ خود پرست نہ روک لے

ہمیں اپنی راہِ دراز سے

کہیں کامرانیِ  نو کے عیش و سرور میں

ہمیں روک لے نہ خلا کے پہلے جہاز سے

جو زمیں کی سمت رحیل تھا۔۔۔ ہمیں اور کتنے ہی کام تھے  (تمھیں یاد ہے ؟)

ابھی پاسپورٹ لیے نہ تھے

ابھی ریزگاری کا انتظار تھا

سوٹ کیس بھی ہم نے بند کیے نہ تھے

اسے ضد کہ نور کے ناشتے میں شریک ہوں

بہر حال اسی طرح نظم آگے بڑھتی ہے اور شاعر آخر میں کہتا ہے :

بڑی بھاگ دوڑ میں ہم جہاز پکڑ سکے

اسی انتشار میں کتنی چیزیں ہماری عرش پہ رہ گئیں

وہ تمام عشق۔۔۔ وہ حوصلے۔۔۔ وہ مسرتیں۔۔۔

وہ تمام خواب جو سوٹ کیسوں میں بند تھے !

 

ماوراء، لا=انسان، ایران میں اجنبی، گماں کا ممکن وغیرہ میں اسی طرح کی ماورائی نظمیں ن م راشد کی خاص شناخت بن کر سامنے آئیں۔

میراجی اپنے ہاتھوں میں لوہے کے گولوں کے بجائے کم سے کم ربر کے گولے رکھتے۔

آزاد نظم کے بنیاد گزاروں میں دوسرا بڑا اور اہم نام میراجی کا سمجھا جاتا ہے۔ ان کی ایک نظم              ’’تکیے کا غلاف‘‘ کچھ یوں ہے :۔

یہاں سرتھا

یہاں بکھرے ہوئے گیسو

پریشاں سانپ جو مندر کی بنیادوں سے نکلے تھے

ہوا کے نرم جھونکے ان کو لہراتے ہی جاتے تھے

میں ان کو اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے سمٹنے کو تو کہتا تھا

مگر وہ بل پہ بل کھاتے ہی جاتے تھے

وہ ضد ی تھے

میں کہتا تھا اگر تم ایک لمحے کے لیے بیٹھے رہو چپکے

تو میں ان سرخ گالوں سے کہوں۔ پیاسا

ہر اک پیاسا ہمیشہ ایک ہی منزل پہ جاتا ہے

میں پیاسا ہوں

گھنے جنگل میں سر ہے ایک سندر باؤلی بھی پاس ہی ہو گی

آزاد نظم کا ایک روپ معرا نظم بھی ہے۔ خاص طور پر اختر الایمان نے کئی معرا نظمیں کہیں۔   ’’ایک لڑکا ‘‘ ان کی مشہور و مقبول نظم ہے۔ ترقی پسند شاعروں میں فیض، سردار جعفری، کیفی اعظمی، مخدوم وغیرہ اور جدید شاعروں میں عادل منصوری، محمد علوی، افتخار جالب، وزیر آغا، مجید امجد اربابِ ذوق کے قیوم نظر، یوسف ظفر،  ظہیر کاشمیری، وغیرہ کا ذکر بہت ہوتا ہے۔ ان کے بغیر یقیناً نظم کا باب ادھورا ہے۔ ہمارے مضمون نگار ندا فاضلی ساقی فاروقی تک آ کر رک جاتے ہیں ستیہ پال آنند اور اردو نظم ایک جان دو قالب ہیں۔  پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔ جینت پر مارنے جو کچھ ’’پنسل‘‘ سے لکھا ہے وہ کسی ربر سے مٹنے والا نہیں ہے کتے کی دم اور سور کی تھوتھنی سے کھیلنے سے فارغ ہوں تو ساقی فاروقی کو پتہ چلے کہ مینڈک میں نون لکھا جائے کہ نہیں۔

1960ء کے بعد ترقی پسندی پر ’’شب خون‘‘ مارنے کے لیے جدیدیت کا ایک لشکر ’’ ضرار‘‘ ترتیب دیا گیا جس کے سپہ سالار شمس الرحمن فاروقی تو عروض، زبان و بیان کا بھر پور خود  زر ہ بکتر  زیب تن کیئے ہوئے تھے مگر اپنے سپاہیوں کو زبان و بیان سے کھلواڑ کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ سپہ سالار کا ایک دانت بھی شہید نہیں ہوتا تھا مگر سپاہی ہلاک ’’رطب ویابِس ‘‘ ہو رہے تھے۔ غزل اور نظم کے نام پر عجیب و غریب اوٹ پٹانگ تخلیقات خوش ذوق قاری کا مزاج پوچھنے لگی تھیں۔ عادل منصوری کا الف نون سے ملنے جا رہا  تھا تو محمد علوی کا لی بھینس کے تھنوں سے اپنی ’’شہوت ‘‘ پوری کر رہے تھے اور ان کے پیچھے کھڑے افتخار جالب یہ دیکھ رہے تھے کہ ’’سرخ گوشت کی لمبی نوک جانے کہاں تلک جاتی ہے ‘‘ (یہ ایک نظم کا مصرع ہے )۔ ایسی ہی بے سروپا نظموں کے انتخاب ’’نئے نام ‘‘ نے ادب پر شب خون مارا۔ حالانکہ سپہ سالار نے خود اپنے ایک مضمون میں فرمایا کہ ’’نیا‘‘ کبھی ’’اچھا ‘‘ کا ہم معنی نہیں ہوتا‘‘۔

مگر اپنے سپہ سالار کی فراخ دلانہ پشت پناہی کی بدولت ہر پیادہ ادب کا کرنل ہو گیا۔ ادبی مارشل لاء کے تحت جن شاعروں کا کورٹ مارشل ہونا چاہیئے تھا انھیں بڑے بڑے تمغوں سے نوازا گیا۔ کسی کو فراقؔ سے بڑا شاعر قرار دیا گیا تو کسی کو انور شعور و محبوب خزاں کا ہم منصب بنا دیا گیا۔ کبھی ظفر اقبال کو آسمان پر بٹھا یا جا رہا  ہے تو فیض کو نیچا دکھا یا جا رہا  ہے۔ مخفی مباد کہ سپہ سالار صاحب اپنے موقف پر جمے نہیں رہتے بلکہ ان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔

اول تو اردو زبان سے نئی نسل کی دوری ہی غضب ہے اوپر سے اس قسم کی معماتی تخلیقاتِ  نظم و نثر نے قاری کو شعرو ادب سے کوسوں دور کر دیا۔ مزے کی بات یہ کہ جدیدیت کے غالی مبلغ اور شب خون کے سپہ سالار کبھی داغؔ  کی ماں و زیر خانم کے پلومیں منہ چھپا رہے ہیں تو کبھی افراسیاب کی تلاش میں طلسمی دنیا کے ہوش ربا سفر کی خاطر پرانے دور کے اڑن کھٹولے میں سوار ہیں۔ یہ ترقی معکوس بھی حیران کن ہے  ع  لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۔

یوں تو آج کے منظر نامے کی نظم کے حوالے سے ہندو پاک میں کئی نام سامنے آتے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اور لکھا جا رہا  ہے۔ میں اس مقالے میں چند ایسے اچھے شاعروں کا ذکر کرنا چاہوں گا جن کا تذکرہ کم کم ہی کیا جاتا ہے بلکہ اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے بیشتر تنقید نگاروں نے علاقہ واریت سے کام لیا ہے۔ اپنے آس پاس کے شاعروں کے ذکر کے ساتھ ان کا تذکرہ اختتام کو پہنچتا ہے۔ اس میں شک نہیں حیدرآباد کے شاعر تخلیقات کی اشاعت کے معاملے میں بڑے کاہل واقع ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ کوئی ٹھوس کارنامہ پیش کرنے کے بجائے شرر شعلہ پوری کے فرضی نام سے ’’مثنوی ابرِ شرربار ‘‘ لکھ کر خوش ہولیتے ہیں یا پھر فتنہ فساد آبادی کے نام سے انجمن فتنہ پردازان سخن، فساد آباد جیسے ’’شہر فنا‘‘ کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ جن کا منہ بند کر نے کے لیے چاول کی دو روٹیاں کافی ہوتی ہیں۔

دیگر علاقوں کے قلم کار ایک دوسرے کو بڑھا چڑھا کر من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو پر عمل کرتے ہیں اور حیدرآباد ی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں اپنی   توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ یقیناً حق گوئی و بے باکی سے کام لینا چاہیئے۔ مگر مسموم ذہنیت کب تک ؟

دکن میں نظم اور اچھی نظم کہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مخدوم محی الدین کو کمیونزم کا نقارچی یا ڈھنڈور چی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے اپنے مشرب و مسلک سے ہٹ کر بھی نظمیں کہی ہیں مثلاً ان کی نظم ’’اپنا شہر ‘‘۔

یہ شہر

اپنا عجب شہر ہے کہ

راتوں میں

سڑک پہ چلیئے تو

سرگوشیاں سی کرتا ہے

وہ لا کے زخم دکھاتا ہے

رازِ دل کی طرح

دریچے بند

گلی چپ

نڈھال دیواریں

کواڑ مہر بلب

گھروں میں میّتیں ٹھیری ہوئی ہیں برسوں سے

کرائے پر۔

شاذ تمکنت نے خاص طور پر معرا نظمیں خوب کہی ہیں۔ اس دور کے مروجہ اسلوب میں انھوں نے اپنے الفاظ کا اثاثۂ زرتاب ان نظموں میں جھونک دیا ہے۔ تراشیدہ، بیاضِ  شام، نیم خواب، ورق انتخاب کی کئی نظمیں متوجہ کرتی ہیں۔ عزیز قیسی نے بھی ’’آئینہ در آئینہ‘‘ اپنا احساس دلایا ہے۔

سکندر علی وجد نے اندرا گاندھی کا قصیدہ نہ بھی لکھا ہوتا تو ’’اجنتا‘‘ ایلورا، عبدالرزاق لاری، جامعہ عثمانیہ کے مزدوروں کا گیت انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔

سلیمان اریب کی شہرت محض ماہ نامہ ’’صبا‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ انھوں نے جدید اسلوب اپنا کر زندگی سے بھر پور نظمیں بھی کہیں۔ خاص طور پر زندگی و موت کی کشمکش سے گزر تے ہوئے انھوں نے جو نظم کہی وہ زہر کے ذائقے کے اظہار کے مماثل ہے :

زہر کی لہر ہے یا موت کی کڑوی خوشبو

لمحہ لمحہ مرے جی جاں سے گزر جاتی ہے

پیتھیڈین لینے سے کچھ دیر کو نیند آتی ہے    (PATHADENE)

’’چراغِ  دیر‘‘ (غالب)کے مترجم اختر حسن، مغنی تبسم، اقبال متین، وحید اختر، قاضی سلیم، بشر نواز، عارف خورشید، جاوید ناصر، اسلم مرزا وغیرہ نے اپنے اپنے تجربات و مشاہدات کو خوب صورت پیرایۂ اظہار دیا ہے۔ شاعرات میں پروین شاکر، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، ترنم ریاض، شہناز نبی وغیرہ کی نظموں پر لکھنے والوں نے لکھ کر ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شفیق فاطمہ شعریٰ کی نظموں پر مشتمل ایک مجموعہ (غالباً آفاقِ نوا‘‘ )کی رسم اجراء کے موقع پر مغنی تبسم صاحب نے فرمایا تھا کہ علامہ اقبال کے بعد اردو نظم کی سب سے بڑی شاعرہ یہی فاطمہ شعریٰ ہیں اور پھر اگلی ہی سانس میں یہ بھی کہا کہ ان کی نظمیں بار بار پڑھنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہی بات اسی جلسے میں مضطر مجاز نے بھی کہی تھی۔ جس شاعرہ کی نظمیں سمجھنے میں دشوار ی ہوتی ہو اسے علامہ اقبال کے بعد بڑی شاعرہ قرار دینا ایک مذاق سے کم نہیں۔ نظر انداز ی کے بالمقابل پذیرائی کی یہ بھی ایک انتہا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نئی نظم کا ایک اہم نام ہے۔ منیر نیازی، مجید امجد، سلیم احمد وغیرہ کی نظمیں اپنا خاص رنگ و آہنگ رکھتی ہیں۔ فضا ابن فیضی نے پابند نظموں میں اسلامی فکر پیش کی۔ ان کا  ذکر کوئی نقاد نہیں کرتا۔ افتخار نسیم  علی الاعلان اپنےGAY  ہونے کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ GAY POETRYکو اردو میں روشناس بھی کروایا۔ وہ اندھیرے سے ڈرتے ہیں ’’اور اپنے بابا سے سوال کرتے ہیں

’’میں جو بالکل آپ پہ ہوں

تو پھر میری ترجیحِ  جنس

آپ سے کیوں اس درجہ الگ ہے ‘‘

شہریار، بلراج کومل، کمار پاشی، پرکاش فکری، وہاب دانش، عمیق حنفی، خلیل الرحمن اعظمی، سلیم شہزاد نے بھی جدید نظم میں اپنی پہچان بنائی۔ اردو کا ہر شاعر نظم ضرور لکھتا ہے۔ ایک ایک شاعر کی ایک ایک نظم بھی مثال میں دی جائے تو مقالہ طویل ہو جائے گا۔ اس لیے صرف چند نام گنوا دیئے گئے ہیں۔ ان دنوں شکیل اعظمی گھر یلو قسم کی علامتی نظمیں لکھ رہے ہیں۔ سہیل اختر بھی غز ل کے ساتھ ساتھ اچھی نظمیں لکھتے ہیں۔ اڑیہ نظموں کا ترجمہ بھی انھوں نے کیا ہے۔ ان کی ایک نظم ’’اصول‘‘ کا اقتباس ہے :

’’قبول کرنے تھے ہم کو سارے اصول اس کے

یہ کھیل شاید و ہی تھا جس میں

ہمیں بہرحال ہارنا تھا ‘‘

نئی نظم چونکہ اپنے گرد و پیش ہی سے اٹھائی جا رہی ہے اس لیے اس کا محاور ہ بھی یکسر نیا اور قدرے نثری ہوتا جا رہا  ہے۔ صلاح الدین پرویز کی نظم ان کا اپنا شناس نامہ ’’IDENTITY CARD‘‘ ہوا کرتی ہے۔ ایک فلسطینی لڑکی کی پینٹنگز PAINTINGS  دیکھنے کے بعد پرویز نے جو نظم کہی وہ نثری سہی بڑی متاثر کرتی ہے۔

’’میں ابابیلوں کی مدح سرائی کروں گا

میرے اپنے ہی اونٹ

کھجور کی شراب پی کر

پیرس کے نائٹ کلبوں میں

فجور فجور گا رہے ہیں

یروشلم ان کے لیے صرف ایک ڈکشن بن کر رہ گیا ہے

اور وہ ایڈز کی ماری ہوئی عورتوں کی گود میں بیٹھے

اسے مسلسل ڈسکس کر رہے ہیں

ذرا یاد کرو سورۂ اسرافیل۔۔۔۔

MERCI KILLINGآج کے دور کی ایک کڑوی حقیقت ہے۔ اس اچھوتے موضوع پر ایک سفاک نظم ہے

تم اپنے حصے کی زندگی جی چکے ہو

کب تک اب اپنے بچوں پہ بوجھ بن کر جیا کرو گے

تمہاری دولت پہ ان کا حق تھا

جسے تم اپنی حماقتوں سے گنوا چکے ہو

اب ان کی گاڑھی کمائی برباد کر رہے ہو

تمھیں اٹھانے بٹھانے والے بھی تھک گئے ہیں

مروتاً کہہ نہیں رہے ہیں مگر یہ سچ ہے

تم اپنے رستے میں خود ہی دیوار بن گئے ہو۔ (آگے اس نظم کا مریض کہتا ہے )

تو کیا کروں میں

کہ مجھ میں مرنے کی بھی سکت تو نہیں رہی ہے

کسی طرح کی کسی سے امید بھی نہیں ہے

وہ جس نے پھونکی تھی روح مجھ میں

وہ جانِ جاں اب کہاں ملے گا

کہ یہ امانت بصد تشکر

اسی کی خدمت میں پیش کر دوں

بدن بھلے ہی کٹا پھٹا ہے

مگر امانت تو ہے سلامت

کہیں خیانت نہ ہونے پائے۔

(رؤف خیر)

حیدرآباد ہی کے ایک فراموش کردہ شاعر تاج مہجور نے ٹی ایس ایلیٹ کی نظم HOLLOW MENکا منظوم ترجمہ کیا تھا۔ ان کا مجموعۂ کلام ’’لمس کا صحرا‘‘ اچھی نظموں سے بھرا پڑا ہے ’’سالِ  نو‘‘ کے عنوان سے کہی ہوئی ان کی نظم شاہ کار کہی جا سکتی ہے :

زندگی بھوکی بھکارن

کشمکش کی بھیڑ میں

دم بدم سنگِ نفس کی ٹھوکریں کھاتی ہوئی

گرتی پڑتی دوڑتی ہے

آس کا کاسہ لیئے

آنے والی ساعتوں کی بند مٹھی کی طرف۔

(سالِ نو)

جس طرح کہانی بے ماجرا ہو    (رؤ  نے علاقہ و ار تبار سے مظو ترتیب: اعجاز عبیدکر غیر مقبول ہو گئی اسی طرح نظموں میں لایعنیت اور ابہام ABSURDITYنے نظم کو نقصان پہنچا یا ہے۔ کہانی کا آغاز و انجام اگر قاری پر واضح نہیں ہوتا ہے تو یہ ترسیل کی ناکامی دراصل کہانی کا ر کی بھی ناکامی ہے اسی طرح اگر کوئی نظم اپنے پڑھنے والے پر کھلتی نہیں ہے تو وہ نظم ہی کیا۔۔۔۔ ؟  میرے خیال میں کہانی یا نظم محض قاری کا امتحان لینے کے لیے لکھی جائے تو پھر، یہ سوچنا چاہیئے کہ قاری کا مبلغِ  علم اب اس کا متحمل نہیں رہ گیا ہے۔ غالب و اقبال کی تخلیقات کی شرحیں لکھی جاتی رہی ہیں اسی طرح ان نظموں کی بھی شرح لکھنی پڑے گی۔ اگر ہم کسی سے کچھ کہنا چاہتے ہیں اور وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا ہے تو کہنے سننے کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے۔  اس میں شک نہیں استعارے اور علامات میں اپنی بات رکھنا ہی فن کاری ہے۔ مگر یہ فن قاری کے دل و دماغ میں اترنا بھی چاہیئے۔

حیدرآباد کے نظم نگاروں میں رؤف خلش، حسن فرخ، علی ظہیر، غیاث متین، نوید، محسن جلگانوی، مصحف اقبال توصیفی وغیرہ کو بھلا یا نہیں جا سکتا۔ ناچیز (رؤف خیر)نے مختلف اصنافِ  سخن میں کچھ کر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بعض نظمیں بہت پسند کی گئیں۔ جیسے ’’بونوں کا خواب‘‘

ساحلی علاقوں پر رہنے والے بونوں نے

ریت کے گھروندوں سے سر نکال کر دیکھا

لمبے چوڑے شہروں کے اونچے اونچے محلوں میں

خوش ادا و قد آور بعض لوگ رہتے ہیں

سارے لوگ عزت سے جن کا نام لیتے ہیں

ساحلی علاقوں پر رہنے ولے بونوں کے چہرے تمتما اٹھے

جیسے ان کے سینوں میں کوئی پھانس چبھتی ہو

ایک روز بونوں نے جمع اک جگہ ہو کر فیصلہ یہ فرمایا

ایک ایک قد آور قتل کر دیا جائے

خوش ادا و قد آور قتل ہو گئے لیکن

مسکراتے بونوں کا قد تو پھر بھی چھوٹا ہے

ان دنوں سہولتوں کا دور دورہ ہے۔ زبان و بیان پر دسترس کا فقدان بھی نثری نظم کی طرف راغب کرنے کا سبب سمجھا جا سکتا ہے۔ مغنی تبسم نے یک سطری نظموں پر مشتمل پورا ایک مجموعہ ’’پہلی کرن کا بوجھ‘‘ اردو ادب کو دیا۔ اعظم راہی کی نثری نظمیں ’’ملبے میں دبا موسم‘‘ کے روپ میں منظر عام پر آئیں۔ آج کے عالمی منظر نامے میں نظم نگاری کے حوالے سے حیدرآباد کے قلم کاروں کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جانا چاہئیے۔

کیا آج بھی کوئی دن ہے

کوئی تاریخ ہے

یا خدا۔

(مغنی تبسم)

 

کچھ دیر خدا سے ہم کلامی

پھر وہی من مانی

یہی ہے زندگانی

(اعظم راہی )

 

یہ دنیا ایک ہوٹل ہے

یہاں پر

ہر قسم کا گوشت ملتا ہے

(اعظم راہی )

راشد آزر نظم، غزل اور رباعی میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے نئے نئے موضوعات کو زبان دی ہے۔ ان کی ایک طویل نظم ’’پیوند کاری اور نئی امید‘‘ اچھوتے موضوع پر اچھوتی نظم ہے۔

نئے زمانے میں کیسی کیسی جراحتوں کے نقوش ابھرے

یہ زخم کس کو دکھائیں جا کر

مرا بدن کتنے اور جسموں کا ایک مجموعہ بن گیا ہے

مرا خود اپنا بچا ہی کیا ہے

میں جب بھی دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں

تو کوئی چپکے سے میرے شانے ہلا کے کہتا ہے

راشد آزر ۔ تمہاری آنکھیں تمہاری آنکھیں کہاں رہی ہیں

تمہاری آنکھوں کے دونوں حلقوں میں

جس کے دیدے جڑے ہوئے ہیں

وہ دیکھتا ہے۔۔۔۔

علی ظہیر نظم کے شاعر ہی کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ’’رات کے ہزار ہاتھ ‘‘ اور ’’انگلیوں سے خون‘‘ ان کے مجموعے ہیں۔ ان کی فکر پر ایرانی اثرات بھی چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی نظم ہے :

رات بھر رگوں میں

جیسے چیونٹیاں سی بھر گئیں

آنکھیں سرخ ہو گئیں

ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا

گولیوں کی نیند

ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا

کالے جسم کا پرند

کائیں کائیں کر کے کب کا جا چکا

کویلیوں  سے گر رہے تھے

خشک پتے نیم کے

نبولیوں سے بھر گیا

مرے مکاں کا صحن

میں جا رہا  تھا کام پر ٹکڑے ٹکڑے جسم کو سمیٹا

بھاری بھاری سر کو اپنے دوش پر سنبھالتا۔

(نظم ایک رات ایک صبح)

غیاث متین نے بھی اپنی نظموں ہی کے ذریعے اپنی پہچان بنائی۔ ان کی نظمیں زیادہ تر تلمیحاتی ہوتی تھیں ’’زینہ زینہ راکھ ‘‘ اور ’’دھوپ دیواریں سمندر آئینہ‘‘ ان کی یادگار ہیں۔ ان کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیے ’’کھل جا سم سم ‘‘

لکڑہارے چلو اس شہر سے اور شہر کے لوگوں سے

جتنی دور ممکن ہو نکل جائیں

اسی جنگل کی جانب

جہاں سے آئے تھے ہم تم۔۔۔ لکڑہارے یہاں تو

علی بابا اور اس کا بھائی قاسم

وہ مرجینا ہویا ہو مصطفیٰ درزی

کہ ہوں چالیس ڈاکو

سبھی اس شہر کی دیوار میں محصور

سم سم بھول بیٹھے ہیں

لکڑہارے

طلسم شہر میں ان کو

یونہی حیراں پریشاں

چھوڑ کر نکلیں

اسی جنگل کی جانب

جہاں پر

پرندے ہیں مگر ایسے نہیں ہیں

درندے ہیں مگر ایسے نہیں ہیں

مصحف اقبال توصیفی کی تخلیقات ہندو پاک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے ہاں گھر آنگن کی کیفیت لفظوں میں ڈھل کر مزہ دیتی ہے۔ ان کی نظم ’’وہ لوگ ‘‘ ایسی ہی کیفیت کی غماز ہے

تم کو سانس بھی لینے پر ٹوکا کرتے تھے

میں آؤں تو مجھ کو دروازے پر روکا کرتے تھے

ہونٹ ہلانے سے پہلے

آوازوں کا رخ

بہتی ہوائیں دیکھنے والے

رونے اور ہنسنے سے پہلے

دائیں بائیں دیکھنے والے

میں نے تو ان لوگوں سے کب کا ناتا توڑ لیا ہے

اچھا ہے۔ تم نے بھی ان کو اپنا کہنا چھوڑ دیا ہے۔

 

حمید الماس، حامد اکمل، جبار جمیل، خالد سعید، حمید سہروردی، ڈاکٹر راہی فدائی، عقیل جامد، ساغر جیدی، سلیمان خمار، علیم صبا نویدی، کاوش بدری، دانش فرازی وغیرہ وغیرہ نے بھی اپنی نظموں سے اپنے ہونے کا احساس دلایا ہے۔ مختصر سے مقالے میں سب کا ذکر ممکن نہیں ہے۔ کئی نام چھوٹ بھی سکتے ہیں۔ بہرحال میں نے اس مردم خیز سرزمین کی تخلیقی جہات کا احساس دلانے کی بحد خیر کوشش کی ہے کہ یہاں اچھی اور سمجھ میں آنے والی نظمیں کہنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔

٭٭٭

 

 

 

حیدرآباد میں اردو شاعری کی پون صدی

 

یہ طے ہے کہ ادبی دنیا کے نقشے میں حیدرآباد ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ جیسا ہر فن مولا بھی اسی خطہ مردم خیز کاشناس نامہ ہے۔ جس کو پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دولت کی فراوانی، ترویج و اشاعت کی ارزانی اور اردو اکیڈیمیوں کی مہربانی سے شعری مجموعوں کا سیلاب امڈ آیا ہے ان میں بعض اہم شعری کارناموں نے صاحبانِ ذوق کو چونکا یا بھی ہے۔

حیدرآباد میں پچھلے پچاس سال سے مختلف مکاتب فکر کے شعراء نے اپنے اپنے انداز میں جو  ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں ان کا جمالی جائزہ بھی ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے فی الحال چند منتخب شعرائے کرام کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس تذکرے میں اگر کسی کا نام سہوا ً چھوٹ جائے تو اسے راقم کے تعصب پر محمول نہ کیا جائے اگر اس کا کام وقیع ہے تو وہی اس کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے ایک چھوٹے سے مضمون میں اس کا ذکر بھلے ہی نہ آئے  ع  بڑی نگاہ بڑا آدمی بناتی ہے۔

بیشتر ایسے شعراء بھی ہیں جن کی حیات اور کارناموں پر تحقیقی کام کیا جا سکتا ہے۔

آزادی کے بعد بھی جن شعراء نے اپنے فکر و فن سے اپنا لو ہا منوایا ان میں حضرت امجدؔ  کا نام نامی ایسا ہے کہ اردو ادب اور خاص طور پر رباعی کا فن ان پر ناز کرے گا۔ امجدؔ ایک فقیر منش آدمی تھے جن کی نگاہیں زمین پر رہتے ہوئے بھی آسمان پر رہا کرتی تھیں اسی آسمانی فکر نے انہیں ادب کے آسمان پر پہنچا دیا۔ ان کا سارا خاندان و اثاثہ موسیٰ ندی کی طغیانی کی نذر ہوا مگر امجدؔ  کی زبان مبارک سے سوائے ’’جو کچھ کہ ہوا، ہوا خدا کی مرضی ‘‘ کے کچھ اور نہ نکلا۔ ان کی مشہور رباعی ان کی خدا پرستی و استغناء کی بہترین مثال ہے۔

ہر چیز مسبب سبب سے مانگو

منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو

کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو

بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو

ماقبل آزادی و مابعد آزادی امجد و رباعی لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ رباعی کے علاوہ امجد نے پر اثر اخلاقی، مذہبی نظمیں بھی لکھیں جن میں ’’لے ہاتھ پھیلا پھر مانگ پھر مانگ ‘‘ بہت زیادہ مقبول ہوئی۔

صفی اورنگ آبادی اپنی جگہ ایک سکول ہیں دکن کی بام حاورہ زبان کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ قلندر مزاج آدمی تھے ایازوں میں رہتے ہوئے محمودوں میں بھی مقبول تھے۔ ایک ایک غزل پچاسوں اشعار پر مشتمل ہوتی تھی کچھ تقسیم ہو جاتی مگر بچا کچھا اثاثہ بھی ان کی زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

یہ ’’پراگندہ ‘‘ ہے جو کچھ بھی غنیمت ہے صفیؔ

میں غریب آدمی دیوان کہاں سے لاؤں

صفی نے اپنے پیچھے شاگردوں کی ایک فوج چھوڑی جو خود بھی استادی کرتے رہے۔ جناب محبوب علی خاں اخگر نے صفی کو زندہ رکھنے کے ہزار جتن اپنائے ہیں۔ صفی کے خطوط، کلام اور اصلاحات پر مشتمل ان کی کتابیں صفی کے لیے خراج عقیدت کا درجہ رکھتی ہیں۔ صفی مشاعروں اور سیندھی خانوں کی زینت سمجھے جاتے تھے انہوں نے مجرد زندگی گزا ردی مگر سخن کو شریک حیات بنا رکھا تھا۔

خورشید احمد جامیؔ  ہند و پاک کا وہ معتبر نام ہے جس نے غزل کو نیا لب و لہجہ دیا۔ غیر مرئی احساسات کو انہوں نے بولتے ہوئے پیکروں میں ڈھال کر غزل کو نیا رنگ و آہنگ بخش دیا۔ انہوں نے جس نئی غزل کی بنیادر کھی وہ اتنی مقبول ہوئی کہ نئی نسل کے بیشتر شاعران کی اتباع فخر سے کرتے ہیں بلکہ ان کے بعض ہم عصر و ہم عمر بھی ان کے مصرعے کے مصرعے گلا کر اپنی ساکھ کھور ہے ہیں۔ اردو میں جامی کا مطلب ہوتا ہے خورشید احمد جامی باقی جامیوں کو ان کے لاحقوں اور سابقوں کے بغیر جانا نہیں جا سکتا۔ یہ بات میں نے پہلے بھی کہی تھی۔ جامی نے بھی صرف غزل ہی کو اپنی شریک زندگی سمجھا ’’رخسار سحر‘‘۔ ’’برگ آوارہ ‘‘۔ ’’یاد کی خوشبو ‘‘ ان کی یاد گار ہیں۔ ملک بھر کے صائب الرائے ادیبوں شاعروں نے جامی کے فکر و فن کو جو خراج ادا کیا وہ ’’قیمت عرض ہنر‘‘ کے نام سے ہفتہ وار ’’برگِ  آوارہ ‘‘ حیدرآباد نے بڑے اہتمام سے شائع کیا تھا۔

یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہوسکا

ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے

یہ بھی درست ہے کہ تجھے میں بھلا چکا

یہ بھی غلط نہیں کہ مری زندگی ہے تو

لے کے پھر تی ہیں آندھیاں جس کو

زندگی ہے وہ برگِ  آوارہ

جیسے بے شمار تازہ کار ضرب المثل بن جانے والے اشعار کے خالق جامی کینسر کے شکار ہو کر ۱۹۷۰ء میں جاں بحق ہو گئے۔ آزادی کے دس سال بعد ابھرنے والا یہ نام ادب کی تاریخ کا حصہ ہوکے رہ گیا

مخدوم محی الدین کی ہر دل عزیزی میں ان کی کئی خوبیوں کو دخل رہا ہے ان کا عشق اول کمیونسٹ پارٹی ضرور ہے لیکن شعر و ادب کے حوالے سے ہی ادبی شناخت بنانے والے مخدوم کی آج اسی حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ مخدوم بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں انہوں نے آزاد نظمیں بھی ترنم میں سنا کر ایک حیرتناک روایت قائم کی۔ ان کی نظمیں جانے والے سپاہی سے پوچھو۔ اور۔ چارہ گر فلموں میں استعمال ہو کر بہت مقبول ہوئیں۔ جاگیر دارانہ نظام کے خلاف تن من دھن سے آواز اٹھانے والے مخدوم قلندرانہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ مزدوروں کے ہمدرد اور مزدور ان کے گرویدہ۔ عملاً سیاست میں بھی مخدوم نے حصہ لیا اس دور میں جب کہ ترقی پسندوں نے غزل کو  شجرِ  ممنوعہ سمجھ لیا تھا فیض، مخدوم اور مجروح نے غزل کو اپنے نظریات کے اظہار کے لیے برتا۔ مخدوم کی غزل پر ان کی نظموں کی سی رومانی فضاء غالب ہے۔ شعوری طور پر مخدوم نے بغاوت کا لہجہ اپنایا مگر مزاجاً وہ رومان پسندہی تھے۔ سرخ سویرا، اور گل تر، پر مشتمل بساطِ  رقص ا ن کا سر مایۂ حیات ہے۔

سلیمان اریب اپنی مدیرانہ شخصیت اور شاعرانہ ترنگ دونوں اعتبار سے حیدرآباد کے سٹار شاعر گزرے ہیں۔ مشاعروں میں وہ جھومتے ہوئے آتے اور سامعین کو اپنے شعر اور ریمارکس سے جھومنے پر مائل کرتے۔ ابتدا ء میں وہ بھی عام ترقی پسند شاعر کی طرح اپنی روایتوں کے اسیر تھے لیکن جدیدیت کی ’’صبا‘‘ میں بحثوں کے در کھولنے والے اریب خو د بھی جدیدیت سے قریب آ گئے۔  ’’پاس گریباں ‘‘ کے اریب ’’کڑوی خوشبو ‘‘ تک آتے آتے یکسر بدل چکے تھے۔ انہوں نے خود کو ’’ڈی فریز ‘‘ کے حوالے ضرور کر دیا تھا مگر زندگی کی علامت کے اک عضو کا سہارا وہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ مخدوم کی وفات کے ایک سال بعد یہ قدح خوار کینسر کا شکار ہو کر پانی کی ایک ایک بوند کو تک ترس ترس کر مرا۔

جنوں ہے ختم ہمیں پر ہمارے بعد اریب

دکن کی خاک سے اٹھا نہ کوئی دیوانہ

شاذ تمکنت کی شہرت ہندو پاک میں اتنی مستحکم ہو چکی تھی کہ لوگ آج بھی حیدرآباد کو شاذؔ  کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ بے شکن لباس، خوب صورت خد و خال اور نفاست نے شاذؔ  میں اک شانِ محبوبی پیدا کر دی تھی۔ بلا کا حافظہ بھی پایا تھا۔ ہر اچھے شاعر کا ہرا چھا شعر انہیں یاد تھا۔ ملنے والے شاعروں کو ان کے شعر سنا کر اپنا مطیع کر لینے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا۔ جتنے خوبصورت شعر وہ کہتے تھے اتنے ہی خوب صورت لہجے میں وہ شعر پڑھتے بھی تھے۔ عزیز قیسی اور وحید اختر سے مسابقت کے جذبے کے تحت لمبی لمبی نظمیں کہا کرتے تھے جن میں صنا عی کو زیادہ دخل ہوتا تھا۔ بڑے خوب صورت مصرعوں پر مشتمل نظم پیاز کے چھلکوں کی طرح تہہ دار ہوا کرتی تھی البتہ غزلوں میں ان کا رومانی لہجہ آپ بیتی کی کیفیت لیے ہوئے ہوتا تھا۔ انہوں نے غالبؔ ، فانی، مصطفیٰ زیدی اور فراق سے استفادے کو عار نہ جانا۔

شراب و شعر کو لازم سمجھنے کے نتیجے میں اریب، نریش کمار شا د، اختر شیرانی اور مجاز وغیرہ کو جو حاصل ہوا وہی شاذ کا مقدر بھی تھا۔ ’’تراشیدہ ‘‘۔ ’’نیم خواب ‘‘، ’’بیاض ’’اور ’’ورقِ انتخاب ‘‘ شاذ کو یاد رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے

تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

وحید اختر فلسفے کے آدمی تھے مگر شعر کے مردِ  میداں بھی تھے۔ یہ وہ حر تھا جس نے حق گوئی و بے باکی میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ ان کے ہاتھ میں قلم ذوالفقار بن گیا تھا۔ انہوں نے شعر کے علاوہ تحقیق و تنقید کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑے۔ غریب گھرانے میں فاقوں میں پل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اس نوجوان کے ساتھ قدم قدم پرنا  انصافیاں ہوتی رہیں امتیازی کامیابی کے باوجود سکالرشپ اور ملازمت سے محروم کئے گئے۔ چنانچہ انہوں نے حیدرآباد چھوڑ کر علی گڑھ کو اپنے لیے پسند کیا۔ خوب کمایا، عالی شان زندگی گزاری برے دنوں سے ڈٹ کر انتقام لیا۔ اریب و شاذ کی طرح شراب کی لت نے انہیں بھی ڈبویا۔ نثر، نظم و غزل میں اپنا لوہا منوانے والے وحید اختر نے بالآخر مرثیہ کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا  ع  پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ تنقید میں نزاعی Controversialمگر تحقیق میں حرفِ  آخر سمجھے جاتے تھے۔ مبادیاتِ فلسفہ ہو کہ خواجہ میر درد کے کارنامے وحید اختر کے قلم سے مستند ٹھیرتے تھے۔

عزیز قیسی بھی اسی دور کے شاعر ہیں جب آزادی کے بعد اندرونی و بیرونی مسائل میں آزاد ہند گرفتار تھا۔ عزیز قیسی نے شاید اسی لیے کہا تھا ’’زندگی بھی ماں کی گالی ہو گئی‘‘ جس قدر مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اسی قدر مذہب سے بیگانہ تھے۔ عدالت کی نوکری چھوڑ کر ممبئی گئے اور فلمی دنیا میں ڈائیلاگ اور گیت لکھ کر خو ش حال زندگی گزاری۔ زبان بہت ادق استعمال کرتے تھے اور اس زمانے میں ایسی زبان سمجھنے والے تھے بھی۔ البتہ بعد میں قدر ے آسان لہجہ اختیار کیا۔ ’’آئینہ در آئینہ ‘‘ سے لے کر ’’گرد باد ‘‘ تک انہوں نے کامیاب سفر طے کیا۔ نظم اور غزل دونوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے نثر بھی خوب لکھتے تھے۔

شاہد صدیقی آزادی کے بعد کی فکر کے سچے غماز تھے۔ چنانچہ ان کے پیشتر اشعار اس دور کے عکاس ہیں۔

تمام عمر ترا انتظار کر لیں گے

مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے

اب حیات انساں کا حشر دیکھئے کیا ہو

مل گیا ہے قاتل کو منصب مسیحائی

آگرہ کے رومان پرور ما حول کی پیداوار تھے دکن آئے تو یہیں کے ہو رہے۔ ’’شیشہ و تیشہ ‘‘ کا اخباری کالم لکھا کرتے تھے نہایت بذلہ سنج و یار باش آدمی تھے۔  ’’چراغ شب ‘‘ آج بھی ظلمت شکن ہے۔

جبر فطرت نے یہ اچھا ستم ایجاد کیا

کہ مجھے وسعت زنجیر تک آزاد کیا

ملک الشعراء ہونے سے پہلے بھی اوج یعقوبی ملک الشعراء ہی سمجھے جاتے تھے۔ انہیں سرکاری خطاب اور معاشی آسائشیں کیا حاصل ہوئیں کئی شاعروں کی نیند یں حرام ہو گئیں یہ نہ سوچا دینے والا تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے یوں آزماتا بھی ہے۔ دو بیویوں اور تئیس ۲۳ بچوں کے باپ اور بے شمار شاگردوں کے استاد او ج یعقوبی بقول ڈاکٹر حسینی شاہد ’’شعر کا کارخانہ ‘‘ چلاتے تھے۔ یہی ان کا ذریعہ معاش بھی تھا، مشاعروں میں شعر ڈٹ کر پڑھا کرتے تھے۔ رسائل کے وسائل سے استفادہ کرنے کے زیادہ قائل نہ تھے البتہ کسی طرح ان کا ایک شعری مجموعہ ’’گرفتِ  نظر ‘‘ دوسرا ’’غنچہ لب بستہ ‘‘ اور تیسرا ’’اوجِ  عرش ‘‘ چھپ ہی گیا۔ مشاعرے پڑھنا ان کی معاشی مجبوری تھی۔ اس سلسلے میں وہ ایک دفعہ اورنگ آباد گئے۔ لوٹے تو مٹی کا ڈھیر ہو کر۔ ’’اسی مٹی سے تمہاری تشکیل ہوئی ہے اسی مٹی کے حوالے کئے جاؤ گے اور پھر دوبارہ اسی مٹی سے اٹھائے جاؤ گے۔ ‘‘

کھلے دشمن کا استقبال بھی منظور ہے لیکن

خدا محفوظ رکھے دوست کے ذہنی تعصب سے

طالب رزاقی بھی مشاعروں ہی سے جانے جاتے تھے۔ نہایت دبلے پتلے آدمی مگر خوش خوراک و خوش آواز تھے۔ ان کو کسی مائک کی حاجت نہیں تھی۔

کارواں سے کیوں رہبر دور دور چلتا ہے

کیا ادھر سے مقتل کا راستہ نکلتا ہے

ابن احمد تاب حیدرآباد کے جانے پہچانے شاعر تھے۔ مخدوم، اریب، اوج یعقوبی، شاہد صدیقی وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں اپنا رنگ جماتے تھے۔ بلدیہ میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد میں معمولی خدمت پر ملازم تھے۔ تعلیم بھی کچھ زیادہ نہ تھی مگر شعر ایسے بانکے کہا کرتے تھے کہ عوام و خواص کو فوری یاد ہو جایا کرتے تھے۔ جیسے

حریر پوش ہو ابلیں تو خدا کہیئے

لباسِ  خستہ میں پیغمبری بھی جھوٹی ہے

چلو اچھا ہی ہوا تابؔ  کہ دامن نہ رہا

ورنہ ہم بھی کبھی ممنونِ  کرم ہو جاتے

زمین چوم لو مقتل کی قتل سے پہلے

بڑے ہی چاؤ سے قاتل کو پھر سلام کرو

حیدرآباد کے بہت اچھے شاعر رضا وصفی کچھ دن اور اگر زندہ رہتے تو شاید ان کا مجموعہ چھپ ہی جاتا۔ د ل کے عارضے باوجود بد پرہیزی کی زندگی نے انہیں موت سے ہم کنار کر کے چھوڑا۔ اس میں شک نہیں وہ نرگسیت کا شکار بھی بہت زیادہ تھے۔ ہم سب انہیں پسند کرتے تھے اور وہ خود کو ہم سب سے زیادہ پسند کرتے تھے۔ نصابی تعلیم کی کمی ان کے وجدان میں کبھی حائل نہ ہوئی۔ یہ شعر ان کے حسب حال تھا۔

نظر کو آرزو تھی نیم زرد پھولوں کی

زباں کا ذائقہ بگڑی ہوئی شراب کا تھا

نقی علی خاں ثاقب نظام حیدر آباد کے پوتے ہونے کے باوجود بہت منکسرا لمزاج تھے۔ جدید لب و لہجہ میں مؤثر اور مرصع غزلیں کہا کرتے تھے۔ یار باش آدمی تھے۔ شاہ خرچ بھی بہت تھے۔ حینِ  حیات۔ جشنِ  ثاقب منایا اور شہر کے قابل ذکر شعراء کو مومنٹوز سے سرفراز فرمایا۔

حیدرآباد کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں مختلف مکاتب فکر کے شعراء اپنے اپنے اساتذہ کی یادگار اور فکرو فن کے سلسلے کو جاری رکھنے والے ہوئے ہیں۔ صفی اورنگ آبادی کو ان کے جن شاگردوں نے زندہ رکھا ان میں ایک شمس الدین تاباں تھے۔ ’’ز نار ‘‘ کے یہ شاعر مشاعروں میں گھن گرج کے ساتھ شعر سنا کر سماں باندھ دیا کرتے تھے۔

پیچھے پیچھے جیسے کوئی آنے والا ہی نہ ہو

دو قدم چلنا مرا سو با ر مڑ کر دیکھنا

صفی سکول کے اک اور شاعر نظیر علی عدیل تھے۔ نئی نسل کے شعراء کے اچھے اشعار پر کھل کر داد دیا کرتے تھے کئی نوجوانوں کی رہنمائی بھی کرتے تھے ان کی بیاضِ  شعر بہت دلچسپ ہوا کرتی تھی۔ غزلوں کے بیچ بیچ بعض صفحات پر مختلف ہیروئنوں یا خوبصورت حسیناؤں کی تصاویر لگا ر کھتے تھے۔ بعض رسائل میں چھپنے والی تخلیقات پر تنقیدی خطوط چھپواتے تھے۔ ان کا مجموعہ ’’قوسِ  قزح ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ آخر عمر میں شراب سے توبہ کر لی تھی۔

سر چھپانے کا آسرا تو ہے

گھر کے معنوں میں گھر نہیں نہ سہی

قوی صیف کی ’’ایک چٹکی آگ ‘‘ ابھی شعلہ بننے نہ پائی تھی کہ ان کی مٹی ٹھکانے لگی۔ زبان و بیان پر نظر تھی۔ خطا و نسیان کس سے نہیں ہوتا قوی بہت مخلص ہنس مکھ اور یار باش آدمی تھے۔ Indoor Gamesمیں بھی بہت دخل رکھتے تھے۔ نام کے قوی تھے دل کے کمزور اسی دل کے عارضے نے جان لی۔

فکری بدایونی پستہ قد ضرور تھے مگر شعرا ونچے کہنے کی کوشش کرتے تھے۔ حسرت موہانی پر تحقیقی کام کیا جو چھپ نہ سکا۔ کمپیوٹر سکھانے کا انتظام کر رکھا تھا کاش وہ اپنے کمپیوٹر کے ذریعہ خو د اپنا مجموعہ چھپوا پاتے۔ ناگہانی موت نے حیدرآباد سے ایک ہمدرد شاعر کو ہم سے چھین لیا۔

اکمل حیدرآبادی نے امیر خسرو سے شکیلہ بانو بھوپالی تک قوالی پر ایک دستاویزی کتاب شائع کی اس کے علاوہ شکیلہ کا مجموعہ بھی چھاپا لیکن اپنے ہی معاملے میں تساہل برت گئے۔ مشاعروں میں شعر ترنم سے سناتے تھے اپنے نام کی اشاعت میں تقدیم و تاخیر کا بڑا خیال رکھتے تھے اپنی سینیارٹی کا انہیں شدید احساس تھا۔ برسر مشاعرہ دل کا دورہ پڑا اور وہ جاں بحق ہو گئے۔

اختر واجد ی بڑے بلند آہنگ ترنم میں شعر پڑھتے۔ کل ہند مشاعروں میں بلائے نہ جانے کی وجہہ سے خود کل ہند مشاعرے منعقد کرتے تھے کئی شاعروں کو سینکڑوں روپئے بطور معاوضہ ادا کرتے تھے مگر اپنی ذات پر کم خرچ کرتے ایسے بے غرض شاعر سے حیدرآباد خالی ہو گیا۔

عموماً مشاعرہ باز خواتین متشاعرہ ہی ہوا کرتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ نایاب سلطانہ کے بارے میں کہا جاتا تھ کہ وہ خود گوتھیں اور بڑے اعتماد سے مردانہ ترنم میں شعر سناتی تھیں۔ اچانک انتقال کر گئیں۔

خورشید جنیدی گوشہ نشین تھے مگر مشاعروں کی صدارت کے لیے پکڑ لائے جاتے تھے۔ نعت، منقبت، غزل، رباعی، ہر صنفِ  سخن پر عبور تھا۔ ہر شاعر ان کے شعری قدو قامت سے مرعوب رہتا۔ وہ کھل کر داد بھی دیا کرتے تھے۔

بشیر وارثی مرحوم جیسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوئے ہیں۔ انکم ٹیکس کنسلٹنٹ تھے۔ معقول آمدنی تھی، غریب شعراء کو روزانہ کچھ نہ کچھ چپکے سے لفافے میں رکھ کر دیا کرتے تھے۔ کئی شاعروں کی کتابوں کی اشاعت میں مدد کی۔ مشاعروں میں شعراء کو لانے لے جانے کے لیے ٹورسٹ کا انتظام کرتے۔ ایک ماہنامہ ’’ذوقِ  نظر ‘‘ ایک عرصے تک نکالتے رہے۔ ان کا اپنا مجموعہ ’’بصیرت و بصارت ‘‘ اشاعت کا منہ دیکھتا ہی رہ گیا اور بشیر وارثی اپنا مال و متاع اپنے وارثوں کے حوالے کر کے چپکے سے وہاں پہنچ گئے جہاں سے لوٹ کر آنا ممکن نہیں۔

انور رشید دوست سب کا تھا لیکن آپ اپنا دشمن تھا۔ سوچتا ہوا ذہن، جذبات سے سرشار دل، مخلص و ہمدرد، خوب رو، خوش فکر اور خوش اخلاق رشید کا خیال تھا کہ جب تک وقت برباد نہ کرو گے کچھ حاصل نہ کرو گے۔ ہندی اور اردو کے حال مست شاعروں کے پیچھے دن رات ایک کر دیئے نتیجتاً خو د بھی برباد ہوکے رہ گیا۔ لوگوں کی زندگی میں سرسنگیت جگانے والا ریڈیو میکانک، زوال کے مقابل ڈٹ نہ سکا۔ مسلخ میں بھیڑوں کے ماتم کا حصہ ہوکے رہ گیا۔ ع  ’’سونے کی نب سے ہو گی نہ اچھی غزل کبھی ‘‘ کہنے والا معمولی قلم سے غیر معمولی غزلیں ، نظمیں اور افسانے لکھتا رہا۔ اس کی خونِ  جگر سے لکھی ہوئی تخلیقات اردو اکیڈیمی کی گرانٹ کے باوجود اس کی دوسری کتاب کے طور پر شائع نہ ہو سکیں اس میں خود اس کی اپنی ذات کا قصور ہے اور کچھ اس کے دوست احباب کا۔ یوں بھی دنیا کا خون سفید ہو گیا ہے ملازم سرکار ٹیچر خوب صورت بیوی اور خوب صورت بچوں کو چھوڑ کر خودام الخبائث کی نذر ہو گیا۔

یہاں تک تومیں نے آزادی کے بعد بھی اپنی پہچان رکھنے والے بعض قابل ذکر مرحوم شاعروں کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ جن کا تذکرہ چھوٹ گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے کارنامے بھلا دیئے جانے کے قابل تھے اسے محض اتفاق سمجھیئے۔

ڈاکٹر علی احمد جلیلی جنہوں نے طلب علم کی لگن کو مدرس کی حیثیت سے وظیفہ یاب ہونے کے باوجود نہیں چھوڑا اپنے والد فصاحت جنگ جلیل کی حیات اور کارناموں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نظم و نثر پریکساں دسترس رکھنے والے علی روایت و جدت کا امتزاج تھے۔ خورشید احمد جامیؔ  سے زیادہ متاثر تھے۔

شاعر برق و آشیاں سعید شہیدی تقریباً ساٹھ برس سے شعر کہہ رہے تھے۔ مشاعروں میں اپنے ترنم اور کلام سے مقبول تھے۔ ’’اب کیا غزل سناؤں تجھے دیکھنے کے بعد ‘‘ ان کی مقبول ترین غزل ہے۔

روحی قادری زبان و بیان پر دسترس رکھتے تھے شاعری میں ما لہ و  ما علیہ کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ ’’حرفِ  روشن ‘‘ کاغذ پہ آگہی کی صورت جلوہ فگن ہے۔ نہایت کم گو مگر بذ لہ سنجی پر آئیں تو محفل کو زعفران زار بنا دیں۔ میر و غالب کی زمینوں میں بھی شعر کہیں تو اپنی شناخت چھوڑیں۔

داؤد نصیب وہبی صلاحیتوں کی جیتی جاگتی مثال تھے۔ انہوں نے کسی جامعہ کی صورت نہیں دیکھی لیکن تخلیقی صلاحیت میں کسی فارغ الجامعہ سے کم نہیں۔ ہر چند کہ ان کا گوشوا رۂ الفاظ بہت مختصر ہے مگر وہ اسی بجٹ میں سلیقے سے اپنا ہنر دکھاتے تھے۔ ان کا ’’راستہ ‘‘ ادبی منزل نما ہے۔

جہاندار افسر ترقی پسند فکر کے نمائندے تھے۔ مخدوم و اریب کے ہم قدم پارٹی کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ عروسِ سخن کی زلفیں بھی سنوار تے رہے ان کی نظم ’’چار مینار ‘‘ بہت مشہور ہے۔ ان کا ایک شعر ہے

ہم بند گانِ  عام سے یہ سخت امتحاں !

پروردگار یہ تو رسولوں کی بات ہے

وقار خلیل نظم و غزل کا معروف نام رہا ہے۔ ادارۂ ادبیات اردو اور رسالہ ’’سب رس ‘‘ سے وابستہ۔ بچوں کے لیے نظمیں ، بڑوں کے لئے غزلیں مرحومین کے لیے مرثیے لکھ کر حق ادا کرتے رہے۔ معاصرین سے بھی قریب تھے اور نئی نسل کے لکھنے والوں کے حوصلے بڑھا کر انھیں اپنے قریب کرتے تھے۔

شاگر دِ صفی خواجہ شوق اپنے استادانہ کلام کی وجہہ سے مشاعروں میں بہت بلائے جاتے تھے۔ کئی شاگردوں کو استفادہ کا موقع دیتے تھے اور ان پر چشم نگراں رکھتے تھے۔

مذکورہ بالا شعر اے کرام کے گزر جانے سے حیدرآباد خالی نہیں ہو گیا ابھی الحمد للہ ایسے ایسے نابغہ روزگار موجود ہیں جو تخلیقی جہتوں میں اپنے آپ کو منوا چکے ہیں اور منوا رہے ہیں۔ آزادی کے بعد کے حالات نے ان کے فکرو فن کو جلا بخشی۔

مضطر مجاز کے بغیر حیدرآباد کا تصور ادھورا ہو گا۔ مضطر مجاز صاحب انگریزی، فارسی اور اردو پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ طبع زاد شاعری کے دو مجموعے موسم سنگ اور اک سخن اور شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ طلوع مشرق، ارمغانِ  حجاز، جاوید نامہ، پیامِ  مشرق کا منظوم اردو ترجمہ کر کے علامہ اقبال کو اردو حلقوں میں مزید مستحکم کیا۔ اقبال اور غالب کے بغیر اک لقمہ نہیں توڑتے۔ تحریر پر مغز اور تقریر پر لطف۔ مہمان نواز یار باش۔ زبان و بیان کا خیال رکھتے ہیں مگر کہیں کہیں کھلواڑ بھی کر جاتے ہیں شعر و ادب کے تئیں ان کا یہی غیر سنجیدہ رویہ انہیں سند بننے نہیں دیتا۔ مقبول احمد مقبول ان کے فکر و فن پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کے مستحق ٹھیرے۔

پروفیسر غیاث متین حلف کی جان تھے اور حلف ان کی جان۔ زخمی سڑکوں سے ہوتے ہوئے براہِ مجردگاہ چار مینار تک جاتے تھے جہاں کچھ احباب دیدہ دل فرشِ راہ کئے ان کے منتظر ہوتے۔ تقریر مزے لے لے کر کرتے اور سامعین ان کی تقریر اور اشعار کے مزے لیتے۔ دو مجموعے ’’زینہ زینہ راکھ ‘‘ اور ’’دھوپ دیواریں سمندر آئینہ ‘‘ کے مالک ہیں۔

رؤف خلش اور حسن فرخ ۱۹۶۰ء کے بعد حیدرآباد سے ابھرنے والوں میں نمایاں رہے۔ ’’شبِ  خون ‘‘ کی جدیدیت کی تحریک سے وابستہ تھے۔ ’’نئے نام ‘‘ میں دونوں شامل تھے۔ حتیٰ کہ اکمل حیدرآبادی بھی ’’نئے نام‘‘ میں شمار کئے گئے تھے کیوں کے اس زمانے میں وہ ممبئی اور دبئی میں شب خون کے سفیرتھے۔ رؤف خلش برسوں خلیج میں رہے اور خلیجی زندگی کی عکاسی ان کی تخلیقات میں دکھائی دیتی ہیں حسن فرخ نے دکن ہی کو خلیج بنا لیا ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔

رؤف خیر کو شعر کہنے کے ساتھ ساتھ نثر لکھنے کا چسکا بھی ہے۔ ۱۹۷۰ء کے بعد حیدرآباد کے  کے پردے پر یہ نام اپنی تخلیقات نظم و نثر سے اپنی شناخت بنانے کی لگن میں مصروف ہے۔ ’’اقراء (۱۹۷۷ء)، ’’ایلاف ‘‘ (۱۹۸۲ء)، ’اور شہداب ‘‘ ۱۹۹۳ء سخنِ  ملتوی (۲۰۰۴ء)جیسے شعری مجموعے دیے۔ ترائیلے بہت لکھے ان دنوں تنقید اور تبصرے بہت لکھنے لگے ہیں۔ ’’حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘ او ر تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’خط خیر ‘‘ ۱۹۹۷ء اس کا ثبوت ہے۔ علامہ اقبال کے ۱۶۳فارسی قطعات ’’لالہ طور‘‘ پیام مشرق کا منظوم ارد و ترجمہ کیا جو ’’قنطار ‘‘ کے نام سے ۲۰۰۱ء میں چھپا۔ ’’دکن کے رتن اور اربابِ  فن ‘‘ کے نام سے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ حیدرآباد یونیورسٹی نے ’’رؤف خیر فن اور شخصیت ‘‘ کے موضوع پر مقالہ داخل کرنے پر صبیحہ سلطانہ کو ایم فل کی ڈگری کا مستحق قرار دیا۔ یہ مقالہ ’’متاع خیر‘‘ کے نام سے ۲۰۰۵ء میں دہلی سے شائع بھی ہو ا۔ ۲۰۰۷ء  میں تنقیدی مضامین کا مجموعۂ ’’بچشم خیر‘‘ شائع ہوا۔ ایک شعری مجموعہ ’’خیریات ‘‘ ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا اور ۲۰۱۳ء میں تنقید ی مضامین کا مجموعہ ’’حق گوئی ‘‘ منظر عام پر آیا۔

۱۹۷۰ء کے بعد حیدرآباد سے ابھرنے والوں میں علی الدین نوید بھی تھے۔ صلاح الدین نیرؔ صاحب کے بھانجے تھے۔ ان کی تخلیقات میں پولیس ایکشن کے اثرات کا اظہار پایا جاتا ہے۔ ’’صدف تمام ریت ریت ‘‘ اور دھواں دھواں چراغ جاں ان کے دو مجموعے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ انتقال کر گیئے‘‘۔

بشارت علی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں مگر غزل بھی مختصر مگر ٹھوس کہتے ہیں۔ انگریزی کے لکچرر ہیں ’’خود رو‘‘ ان کے جذبات کا ترجمان ہے۔

مظہر مہدی کا نام نثری شاعری میں علی کے ’’کاسۂ روح ‘‘ کے بعد اہم سمجھا جاتا ہے۔ ’’لا انتہا ‘‘ اور ’’ارض بے پیغمبر ‘‘ میں سانس لیتے ہیں۔ پچھلے سال انتقا ل کر گئے۔

علی ظہیر کی ’’انگلیوں سے خون ‘‘ بہر حال رنگ لا کر رہا۔ یہ جدید نظموں کا اک اہم نام ہے۔ ۲۰۱۳ء کے اوائل میں انتقال کر گئے۔

اقبال طاہر صاحب بہت کم آمیز و کم گوتھے مگر شعر ہمیشہ چونکا نے والے کہتے تھے گوشہ نشینی میں مست رہے۔ اپنے پیچھے کوئی مجموعہ نہیں چھوڑا۔

ڈاکٹر محسن جلگانوی نے ’’الفاف ‘‘ کے ذریعہ اپنا احساس دلایا۔ شعر خوب کہتے ہیں اور مشاعرے منعقد بھی کرتے ہیں۔ محکمہ ریلوے سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے اور اب ’’اعتماد ‘‘ میں ادبی صفحہ دیکھتے ہیں۔

اقبال ہاشمی اور سر دار سلیم نئی نسل کے ابھرتے ہوئے شعراء میں ہیں۔ بڑی صلاحیتوں کے مالک ہیں انہیں کسی پیر کا مل کے ہاتھ پر بعیت کرنے کی ضرورت نہیں پچھلے دنوں ستبر ۲۰۰۶ء میں اقبال ہاشمی کا انتقال ہو گیا۔ مرنے سے برسوں پہلے خواہ مخواہ ریلوے کی ملازمت سے رضا کارانہ سبک دوشی اختیار کر لی تھی۔

صلاح الدین نیر حیدرآباد کا اک معروف نام ہے۔ حیدرآباد کا کوئی مشاعرہ ہو نیر صاحب کا نام نامی اس کی کامیابی کے لیے کافی ہے۔ مشاعرے کی ذمہ داری اگر انہیں سوبپ دی جائے تو وہ اپنے احباب کے ساتھ اسے کامیاب کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں گے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ان دنوں وہ ایک ماہنامہ ’’خوشبو کا سفر ‘‘ نکال رہے ہیں۔ اپنے شعر اور ترنم سے سماں باندھ دیتے ہیں۔

ناصر کرنولی ایک عرصے تک ماہنامہ ’’پونم ‘‘ نکالتے رہے جو ہندو پاک میں بڑا مقبول رسالہ تھا۔ ’’نفس نفس ‘‘ کے بعد ان کا دم پھولنے لگا۔ مشاعروں میں ترنم کا جادو جگاتے تھے۔ فی الحال گوشہ نشین ہیں

رئیس اختر مشاعروں میں ترنم اور محفلوں میں مخلصانہ تکلم کی وجہہ سے بہت پسند کئے جاتے ہیں

فیض الحسن خیال بھی ۱۹۶۰ ء کے بعد بہت جانے پہچانے جاتے رہے ہیں۔ اب گوشۂ گم نامی میں ہیں۔ عزیز بھارتی ہندی کے استاد اور اردو کے شاعر تھے۔ ان کے شعر سنانے کے ڈرامائی انداز پر سامعین داد دینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔

مومن خان شوق ایک بزم مرکز ادب چلاتے ہیں اور نظم و غزل کہہ کر اخبار و رسائل کے حوالے کر دیا کرتے ہیں۔

ادارۂ ادب اسلامی سے جڑے ہوئے یہ تین نام۔ ابو الفاروق، شعور، طاہر گلشن آبادی اور مسعود جاوید ہاشمی اپنے خاص فکری جہات کی وجہہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ شعور مشاعروں کی نظامت بہت دلچسپ انداز میں چلاتے تھے۔ اردو کے قدیم استاد اور غزل کے معتبر شاعر اور سعادت نظیر منظر نامے سے ہٹ گئے ہیں مگر حیدرآباد کا یہ نام ’’بیسویں صدی ‘‘ کا اک جانا پہچانا نام ہے۔ چپکے سے انتقال کر گئے۔

شاغل ادیب چپکے چپکے اپنا کام کئے جا رہے ہیں۔ کیا غزل کیا نظم کیا نعت اور کیا مضمون، ہر میدان میں اپنا ہنر دکھانے میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان کے ہاں کہنے کو بہت ہے۔ محکمہ ریلوے سے پندرہ سال پہلے وظیفے پر علاحدہ ہوئے۔ اور حال حال میں انتقال کر گئے۔

مصحف اقبال توصیفی ۱۹۶۰ء کے بعد ’’فائزہ ‘‘ کے ذریعہ روشناس خلق ہوئے ان کے آگے ’’گماں کا صحرا ‘‘ پھیلا ہوا ہے۔ دھیمے لہجے کے شاعر ہیں۔

اسلم عمادی بنیادی طور پر انجینئر ہیں مگر شعر بڑے سائنٹفک ہوا کرتے ہیں۔ عوام الناس ان کی اصطلاحات سمجھنے میں دشوار ی محسوس کرتے ہیں مگر خواص ان کو شاید پسند کرتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد علی اثر دکنی تحقیق کا معتبر نام ہے کئی تحقیقی و تنقیدی کتابوں کے مصنف ہیں۔ شعر بھی غضب کے کہتے ہیں۔ ’’ملاقات ‘‘ اور ’’دیدہ نم ‘‘ سے ان کی شعر ی شناخت قائم ہے۔ ان کے قلم کی سجدہ ریزیاں رنگ لائیں۔  بہت زمانے سے صاحب فراش ہیں۔

ڈاکٹر رحمت یوسف زئی بھی شعر کہتے ہیں مگر اپنے کلام کی اشاعت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ زبان و بیان پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید نے ’’آنگن آنگن دکھ کے ‘‘ ذریعہ بحیثیت شاعر بھی نام کمایا ورنہ انہیں لوگ صرف نثر کا آدمی سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی نظم و نثر پر یکساں عبور رکھتے ہیں حتیٰ کہ ’’تاریخی مادے ‘‘ نکالنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔

رحمن جامی اپنے مجموعۂ کلام ’’جام انا ‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں۔ نئی اصنافِ  سخن میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ارغن، فسطاط وغیرہ بھی ادھر شائع ہوئے ہیں۔

شفیع اقبال ’’ہماری منزل ‘‘ کے ذریعہ میدانِ  ادب میں آئے آج بحیثیت شاعر جانے جاتے ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ آ چکا ہے۔ اب ماہنامہ ’’ پروانہ ادب‘‘ نکال رہے ہیں۔

اثر غوری یار باش مخلص شاعر ہیں۔ دوستوں کی خاطر دور دراز مقامات کا سفر کر کے مشاعرے پڑھتے ہیں۔ دو شعری مجموعوں کے مالک ہیں۔

تاج مہجور جدید شاعر تھے۔ ان کی غزلیں ، نظمیں اہل محفل سے بہت داد پاتی تھیں۔ انکا  شعری مجموعہ ’’لمس کا صحرا ‘‘ ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا۔

ذکی بلگرامی بہت اچھے شاعر تھے۔ مگر ان کا مجموعہ ان کی زندگی میں چھپ نہ سکا ان کے علاوہ وہ جناب اختر زیدی، ساجد رضوی، جاوید مقصود، باقر محسن، رشید شہیدی جو سعید شہیدی کے فرزند ہیں بھی سلام، نوحے، مرثیے کہتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق شکیل، مسرور عابدی، صادق نقوی، صادق نوید، اسحق ملک، ڈاکٹر راہی، ستار صدیقی، محبوب قدسی معید جاوید، کامل حیدرآبادی، سلیم ساحل، سعد اللہ خاں سبیل  وغیرہ وغیرہ کے علاوہ ایسے کئی نام ہیں جو اپنی جگہ بہت بھرپور اور ٹھوس شاعر ہیں سب کا ذکر ممکن نہیں کہ طوالت کا اندیشہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حیدرآباد میں بچوں کا ادب

اک اجمالی جائزہ

 

بچوں کے لیے بچوں کی سطح پر اتر کر لکھنا علامہ اقبال جیسے بے انتہا پڑھے لکھے شاعر کو خو ب آتا تھا۔ انھوں نے بچوں کی خودی کی تربیت پر زور دیا۔ چھوٹی چھوٹی نظموں میں بھی خودی کا فلسفہ بڑے سلیقے سے رکھ دیا۔ اگر وہ اپنے بیٹے جاوید سے خطاب کرتے ہیں تو دراصل پوری نئی نسل ان کی مخاطَب ہوتی ہے۔

ویسے بچوں کے لیے لکھنے والوں نے اخلاقی درس پر مبنی نظمیں لکھ کر بچوں کو ایک اچھا انسان بننے کی راہ سجھائی ہے۔ مولانا خواجہ الطاف حسین حالی ہوں کہ مولانا اسمعیل میرٹھی۔ جناب شفیع الدین نیر ہوں کہ سعادت نظیر سب بچوں کے بہی خواہ ان کے دوست ان کے ہم درد ہیں۔

یہاں حیدرآباد کے چند ایسے لکھنے والوں کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ بچوں کے ادب کے سلسلے میں ان کی خدمات کا مختصر سا جائزہ پیش ہے۔

ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے اپنے ادارۂ ادبیات اردو کے زیر اہتمام بچوں کے لیے کئی کتابچے شائع کیے جو مختصر ہونے کے باوجود بہت زیادہ معلوماتی ثابت ہوئے۔

مدرسۂ فوقانیہ نرمل کے ایک مدرس علی بن عبدالحبیب الحضر می کا ایک دلچسپ تعلیمی، اخلاقی سبق آموز ڈرامہ ’’سچ کا جادو‘‘ زورؔ صاحب نے ادارۂ ادبیات اردو سے ۱۹۴۲ء میں شائع کیا۔ یہ ڈرامہ اسکول میں سٹیج کیا گیا اور سچائی کی فتح کادرس اس سے ملتا ہے۔

ڈاکٹر زورؔ نے شعبۂ حیوانیات، کشمیر۔ یونیورسٹی کے ایک ہونہار طالب علم متعلم ایم۔ ایس۔ سی حبیب ابراہیم کی کتاب ’’مہینوں کی کہانیاں ‘‘ اپنے ادارے ادارۂ ادبیات اردو حیدرآباد سے 1962ء میں شائع کی جس میں تمام بارہ انگریزی مہینوں کی وجہ تسمیہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کی گئی جو بہت معلوماتی ہے۔ مصنف نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ اس نے سی کاوزنس کی تحقیقی کتاب The Stories of Months & Daysکے ساتھ ساتھ انسائیکلو پیڈیا سے بھی استفادہ کیا ہے۔ بیشتر مہینوں کے نام کسی نہ کسی یونانی دیوتا کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ یہ کتاب بڑوں کی معلومات میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

حیدرآباد کے ایک شاعر سعادت نظیر کی غزلیں اکثر ماہ نامہ ’’بیسویں صدی ‘‘ میں شائع ہوا کرتی تھیں جن کے نام کے ساتھ ان کی ڈگری ایم۔ اے خاص طور پر لکھی ہوتی تھی۔ خوشتر گرامی ہر شاعر افسانہ نگار کے نام کے ساتھ اس کی ڈگری ضرور شائع کرتے تھے۔ کرشن چندر ایم۔ اے، پشکر ناتھ بی۔ اے، اسی طرح سعادت نظیر ایم۔ اے کا نام نامی بھی بیسویں صدی کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ حیدرآباد کی ادبی محفلوں میں وہ کم کم ہی شریک ہوا کرتے تھے۔ ان سے بہت کم ملاقات ہوا کرتی تھی۔ پستہ قد سعادت نظیر بیچ کی مانگ نکالتے تھے۔ سادہ مزاج و سادہ لباس آدمی تھے۔

میری ایک نظم ’’جب میں اسکول جانے لگتا ہوں ‘‘ مارچ 1972ء کے ماہ نامہ ’’ کھلونا ‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ بچوں کے لیے نصابی کتب ترتیب دینے والے ادارے بال بھارتی پونے حکومت مہارشٹرا یڈاکٹر رحمت سا جاتا ہے۔ ’’لا انہنے میری یہ نظم چوتھی جماعت کے نصاب میں شامل کی جو 1983ء سے 1993ء تک یعنے دس سال تک پورے مہاراشٹرا میں پڑھائی جاتی رہی۔ سب سے پہلے سعادت نظیر صاحب ہی نے مجھے میری اس نظم کی نصاب میں شمولیت کی اطلاع دی تھی کیونکہ وہ اس نصابی کمیٹی کے ممبر تھے۔

سعادت نظیر صاحب خود بچوں کے لیے نظمیں لکھا کرتے تھے۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ کرنیں پبلی کیشنز حیدرآباد کے زیر اہتمام ان کی کتابیں شائع ہوئیں جو ان کا اپنا اشاعتی ادارہ محسوس ہوتا ہے۔ سعادت نظیر کی حسب ذیل کتابوں کی تفصیلات ان کی ایک کتاب ’’پھول کلیاں ‘‘ کے ایک صفحے پر درج ملیں۔

۱۔         آب و تاب          (منتخب نظمیں۔ غزلیں )مطبوعہ ۱۵؍اگسٹ ۱۹۵۸ء

۲          پھول کلیاں                     (طلبہ کے لیے نظمیں )مطبوعہ ۲۶؍جنوری ۱۹۵۹ء

۳۔        نوید گل              (امن کے سلسلے کی نظمیں )

۴۔        عظمتِ  انساں        (نظمیں ) زیر طبع

۵۔        تصویر یں                       (بیانیہ نظمیں )زیر طبع

۶۔        تجربے               (نئی غزلیں۔ نظمیں ) زیر طبع

۷۔        آب و رنگ          (نئی غزلیں۔ نظمیں )زیر طبع

۸۔        پیش کش             (نظمیں ، بطورِ  نذر عقیدت )طبع

۹۔         اوراق گل           (اردو کے مشہور شاعروں کا۔ تذکرہ ) زیر تصنیف

زیر طبع و زیر تصنیف کتابوں نے اشاعت کا منہ کب دیکھا مجھے نہیں معلوم۔

اسی کتاب ’’آب و تاب ‘‘ کے پیش لفظ میں سعادت نظیر نے اپنے بارے میں خاصی معلومات بہم پہنچائی ہیں : وہ لکھتے ہیں : ’’میں ابھی چھٹی جماعت ہی میں تھا کہ شفیق ماں کا انتقال ہو گیا پھر سوتیلی ماؤں کا راج آیا۔ میں اور میرے معصوم بھائی بہن ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ میں ۵؍رمضان المبارک ۲۶؍مارچ ۱۹۵۸ء کو اپنی عمر کی اٹھائیسویں منزل پر پہنچا والد محترم مولانا ابوالمحاسن محمد محسن خان متین کو دیکھتا تھا کہ میز پر جھکے ہوئے کتابیں لکھ رہے ہیں۔ معلوم ہوا اس وقت سے لکھ رہے تھے جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور اس وقت تک لکھتے رہے جب تک کہ موت کے بے رحم ہاتھوں نے ان کے ہاتھ سے قلم چھین نہ لیا۔ اولاد کا مستقبل سنوارنے کے لیے بہتیرا ہاتھ پیر مارا مگر وہ اپنے نام کے سوا کچھ نہ چھوڑ سکے۔۔۔۔ میرے ناتواں کاندھوں پر بھائی بہنوں کی پرورش کا بوجھ پڑا۔ چھوٹے چھوٹے ٹیوشن کیئے، اپنی تعلیم جاری رکھی اور اپنے بھائی بہنوں کی بھی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے انٹر کیا، بی اے کیا اور پھر ایم اے کیا۔ پی ایچ ڈی کا ارادہ ہے۔ اردو مجلس، ادارۂ ادبیات اردو اور انجمن ترقی اردو حیدرآباد کی اعانت اور حوصلہ افزائی ’’آپ و تاب ‘‘ کی اشاعت کا سبب بنی۔ (آب و تاب )‘‘

سلطان شاہی حیدرآباد میں رہنے والے سعادت نظیر کا دوسرا مجموعۂ ’’پھول اور کلیاں ‘‘ ۲۶؍جنوری ۱۹۵۹ء کو شائع ہوا۔ جس کا پیش لفظ سابق نائب ناظم تعلیمات حیدرآباد سید ساجد علی صاحب نے لکھا تھا۔ جس میں شاعر کی زبان و بیان پر دسترس کو سراہا گیا۔ مختصر سا یہ کتابچہ چھوٹی بڑی نظموں اور اخلاقی گیتوں پر مشتمل ہے۔ زبان آسان اختیار کی گئی ہے تاکہ بچے اسے سمجھ سکیں۔

اے خد ا ہر لب پہ تیرا نام ہے

دو جہاں میں فیض تیرا عام ہے

جل اٹھیں نو خیز امیدوں کے چراغ

ہر مسافر پائے منزل کاسراغ

جاگا ہے بوٹا بوٹا، چٹکا ہے غنچہ غنچہ

چمکا ہے ذرہ ذرہ روشن ہے چپہ چپہ

سچ پوچھیے تو منظر کیسے ہیں پیارے پیارے

دیتے ہیں لطف کیا کیا بہ صبح کے نظارے

سعادت نظیر صاحب نے ’’ہندوستانی لڑکوں کا ترانہ ‘‘ بھی لکھا ہے۔

ہم سے ہی پھولوں کی پھبن ہے

ہم سے ہی شاداب چمن ہے

جوش و خروش گنگ و جمن ہے

شانِ  وطن ہے حسنِ  وطن ہے

ہم کیا ہیں ؟  تقدیر وطن ہیں

مصروفِ  تعمیر وطن ہیں

’’یتیم کی پکار‘‘۔ اور ’’میرا وطن ‘‘ بھی اچھی نظمیں ہیں۔

مخدوم، اریب، وجد، جامی، خیرات ندیم وغیرہ کے ساتھی سعادت نظیر گوشہ نشینی کی زندگی گزار کرکسی کنج عافیت میں چپکے سے آسودۂ خاک ہو گئے۔

ادارۂ ادبیات اردو سے وابستہ قد شخصیت وقار خلیل کی صورت میں کبھی بھلائی نہ جا سکے گی۔ ہم جب کبھی وہاں جاتے تو وقار خلیل صاحب ایوانِ  اردو میں آنے والے ہندو پاک کے تازہ شمارے ہمارے سامنے ڈال دیا کرتے تھے۔ ہماری چاندی ہو جاتی تھی۔ صبح سے شام تک ہم ایک ایک رسالے سے استفادہ کر کے نکلتے تو خود کو تونگر محسوس کرتے تھے۔ وقار خلیل صاحب نئے لکھنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ادارے کو آنے والے قد آوروں سے ہمارا تعارف بھی کرواتے۔ جب ہماری تخلیقات بھی ہندو پاک کے رسائل میں شائع ہونی لگیں تو وہ پڑھ کر خوش ہوتے، مشاعرے میں کھل کر داد دیتے تھے۔

وقار خلیل اور ادارۂ ادبیات اردو کا کتب خانہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ وہ بھی سلطان شاہی سے پنجہ گٹہ بلا ناغہ آتے۔ ماہ نامہ ’’سب رس ‘‘ کی پرو ف ریڈنگ بھی کیا کرتے تھے۔ وقار خلیل صاحب تہنیتی نظمیں لکھنے کے ساتھ ساتھ مرنے والوں  کے لیے تعزیتی نظمیں لکھنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ مگر ہمیں نہیں معلوم کسی نے ان کے لیے کوئی تعزیتی نظم بھی کہی ہے۔

انھوں نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھیں جو بہت خوب صورت انداز میں ’’ڈالی ڈالی پھول ‘‘ کے نام سے 1979ء میں شائع ہوئیں۔ اس مجموعے کاانتساب ہے ’’نور چشم عظیم الرحمن کوہ سوار کی معرفت اردو مادری زبان کے بچوں کے نام‘‘۔ نیچے یہ بھی لکھا ہے :  بچوں کے نامور ہندوستانی مصنف جناب صفدر حسین کی نذر اور کتاب اردو اکاڈیمی آندھرا پردیش، ادبی ٹرسٹ حیدرآباد اور کلچر ل افیرس GADحیدرآباد کے تعاون سے شائع ہوئی   اس کا پیش لفظ مدیر سیاست جناب عابد علی خاں صاحب نے تحریر فرمایا تھا کہ :

’’وقار صاحب نے بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے دلچسپ موضوعات پر سلیس زبان میں نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں میں وطن سے محبت، بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے پیار، بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کا احترام، مذاہب عالم کی تقدیس وغیرہ پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ چند مزاحیہ نظمیں بھی زندگی اور زندہ دلی کی حامل ہیں ‘‘۔  (’’دو باتیں ‘‘۔ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۷۹ء)

وقار خلیل صاحب سیدھے سادے غریب شاعر تھے۔ ہر چند کہ وہ خورشید احمد جامی کے شاگرد تھے۔ مگر ان کا رنگ انھوں نے اختیار نہیں کیا۔ ان کی زمینوں میں دوسرے شاعروں نے غزلیں کہیں : مثلاً ان کی غزلیں تھیں :

کسی کی یاد کا چہرہ بہت ہے

غزل کہتے ہوئے سوچا بہت ہے

نفع و ضرر نہ سود و زیاں سب مزے میں ہیں

آشفتگاں ِ  کج کلہاں سب مزے میں ہیں

اک ہم ہی عافیت سے نہیں ہیں تو کیا ہوا

شعلہ بیان و غنچہ وہاں سب مزے میں ہیں

 

شاہ پور کرناٹک سے آ کر حیدرآباد میں بس جانے والے وقار خلیل کوہ سوار اپنے اہل و عیال کا بڑا خیال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’ورثہ‘‘ مطبوعہ 1987ء کا انتساب ملاحظہ فرمائیے :

مرا ورثہ، مری تہذیب، مرے کا م کے ساتھ

ک۔ تسنیم سے ہے ربط ہر اک گام کے ساتھ

عالیہ، عطیہ، عقیل اور عتیق اور عظیم،

بس یہی پانچ عناصر ہیں مرے نام کے ساتھ

’’ڈالی ڈالی پھول ‘‘ مطبوعہ 1979ء میں مختلف موضوعات پر چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں۔

دل و جاں سے پیارا ہمارا وطن ہے

محبت کی آنکھوں کا تارا وطن ہے

شہیدوں کے خوں کا اشارا وطن ہے

ستاروں سے نیارا ہمارا وطن ہے

مکتب کی طرف دوڑ۔ کتاب۔ پنج شیلا۔ جنگ کا مطلب۔ نیا گیت وغیرہ کامیاب نظمیں ہیں۔

دیکھو رات کی پریاں بھاگیں ، صبح کی دیوی آئی

نگر نگر میں ڈگر ڈگر پر جوت کی مایا چھائی

اٹھو جاگو راج دلارو دھوپ آنگن تک آئی

دنیا بھر کے بچے جاگے، جاگی ساری دھرتی

آخر ارمانوں کی جھولی دیکھیں کب ہے بھرتی

میری امی، گلاب، نمائش، پتنگوں کے دن، علم و عمل وغیرہ بھی اچھی نظمیں ہیں۔ بچوں کو علم و عمل کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے وہ کہتے ہیں :۔

علم و عمل سے حاصل دنیا کی نعمتیں ہیں

علم و عمل کی بخشش انمول راحتیں ہیں

انھوں نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے جو نگینے دیئے ہیں وہ انمول ہیں۔

یہ خواہش کہ حاصل ہو دولت زیادہ

تو لکھ پڑھ کے کرنا تجارت زیادہ

بڑا بول ہرگز نہ بولو کسی سے

بگڑتی اسی سے ہے عادت زیادہ

جو کی تم نے مجبور لوگوں کی خدمت

تو ہو گی خدا کی بھی رحمت زیادہ

کچھ اور مشورے بھی نئی نسل کو وقار صاحب نے دیئے۔

بے کار اپنا وقت گنوایا نہ کیجئے

مکتب کو روز دیر سے جایا نہ کیجئے

اپنے دل و دماغ سے لیجئے ہر ایک کام

ہاں دوسروں پہ آپ بھروسانہ کیجئے

بچوں کے لیے لکھنے والوں میں حیدرآباد سے ایک اور نام ناچیز، رؤف خیر کا ہے۔ رؤف خیر بچپن میں ماہ نامہ ’’کھلونا ‘‘ دہلی بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ خود اس کی نظمیں ’’کھلونا‘‘ میں شائع ہونے لگیں۔ چھٹی دہائی 1960تا 1970میں روزنامہ ’’رہنمائے دکن ‘‘ حیدرآباد کا واحد اخبار تھا جو بچوں کا صفحہ شائع کیا کرتا تھا۔ اس سفحے پر اس دور کے طلبہ کے مضامین کہانیاں وغیرہ شائع کی جاتی تھیں۔ رؤف خیر بھی اپنی طالب علمی کے دور میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتا تھا جو ’’رہنمائے دکن ‘‘ کے بچوں کے صفحے میں جگہ پائی تھیں۔ ۱۴؍دسمبر ۱۹۶۴ئ کے رہنمائے دکن میں رؤف خیر کی ایک کہانی ’’ضد ‘‘ شائع ہوئی تھی۔ جس میں میٹرک کامیاب کر لینے والا ایک لڑکا فیل ہو جانے والے لڑکے سے شرط لگاتا ہے کہ وہ کبھی میٹرک کامیاب کر ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ تو کھیل کود اور ناول بینی میں مصروف رہتا ہے۔ دراصل اس طرح وہ اپنے ہم جماعت دوست کو غیرت دلاتا ہے تاکہ وہ بھی میٹرک کامیاب ہو جائے۔ فیل ہو جانے والے لڑکے کو جب اس ضد اور شرط کا سبب معلوم ہوتا ہے تو وہ احسان مند ہوتا ہے۔ اس طرح رؤف خیر نے اس کہانی کے ذریعے زندگی کی دوڑ میں بچھڑ جانے والے دوست کو بے کار مشغلوں میں وقت ضائع کرنے سے بچانے کے لیے قلم اٹھایا اور کہانی میں آخر وقت تک تجسس برقرار رکھا۔

۳۰؍ستمبر ۱۹۶۵ء کے روزنامہ ’’رہنمائے دکن ‘‘ میں ’’نقشی کٹورا‘‘ شائع ہوئی۔ چیچک سے متاثر ہو جانے والے کو نقشی کٹورا کہنے والا خود چیچک کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس طرح دوسرے کے جذبات کو مجروح نہ کرنے کا درس اس کہانی سے رؤف خیر نے دیا۔

بے شمار چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے علاوہ رؤف خیر نے بعض مزاحیہ مضامین بھی لکھے جیسے ’’ٹیوشن ‘‘۔ محلے کا نل۔ بستہ وغیرہ۔ ٹیوشن پڑھانے والے کو لکڑی کے ایک تختے پر بیٹھ کر ٹیوشن پڑھانے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے عاقبت یاد آ جاتی ہے۔ میونسپلٹی کے نل پر گھڑوں کی قطار، پانی کے لیے ہاتھا پائی، نل ہی پر نہانا، پانی کے انتظار میں اخبار کا مطالعہ اور آخر میں یہ کہنا کہ اب میں محلے کے نل کی روداد آگے لکھنے سے قاصر ہوں کہ میرا نمبر آگیا ہے۔ میں پانی بھرنے چلا۔ مضمون کو دلچسپ بناتا ہے۔

کہانیاں لکھتے لکھتے رؤف خیرؔ  نے بچوں کے لیے نظمیں لکھنا شروع کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ماہ نامہ ’’کھلونا ‘‘ دہلی مارچ ۱۹۷۲ء میں رؤف خیر کی ایک نظم بڑے اہتمام سے مصور شائع ہوئی

جب میں اسکول جانے لگتا ہوں

 

راستے میں حسین نظارے

کتنے دلچسپ کس قدر پیارے

میرے دل کو لبھانے لگتے ہیں

پیارسے مسکرانے لگتے ہیں

جب میں اسکول جانے لگتا ہوں

 

کوئی بندر نچا رہا ہے ادھر

کوئی کرتب دکھا رہا ہے ادھر

اپنا جادو جگا رہا ہے کوئی

قہقہے ہی ہٹا رہا ہے کوئی

 

سائیکل کا مظاہرہ ہے جہاں

ایک مجمع کھڑا ہوا ہے وہاں

سابپ کے کھیل بھی ہیں رستے میں

زندگی کے مزے ہیں سستے میں

 

یہ تماشے مظاہر ے کرتب

میں سمجھتا ہوں ان کا سب مطلب

مجھ کو دھوکا یہ دینا چاہتے ہیں

راہ میں روک لینا چاہتے ہیں

ان کے آگے کہیں میں جھکتا ہوں

روکنے سے کہیں میں رکتا ہوں

ان پہ بس مسکرانے لگتا ہوں

 

جب میں اسکول جانے لگتا ہوں

یہ نظم بال بھارتی حکومت مہاراشٹرا کی چھوتی جماعت کے نصاب میں 1983ء سے 1993ء یعنے دس سال تک شامل رہی جس کی رائلٹی ہرسال پابندی سے ملا کرتی تھی۔

رؤف خیر کی اک نظم ’’ہمالہ ‘‘ آندھرا پردیش میں دوسری جماعت کے سرکاری نصاب میں برسوں شامل رہی۔ جس کے چند شعر ہیں :۔

ہمالہ ہے بھارت کا ایسا پہاڑ

نہیں ہے کہیں اس کے جیسا پہاڑ

ہمالہ کی دیکھو عجب شان ہے

ہمالہ تو بھارت کی پہچان ہے

کوئی کام کرنے پہ جب آؤ تم

ہمالہ کی مانند جم جاؤ تم

محبت سے ملتا ہے جو آدمی

ہمالہ سے اونچا ہے وہ آدمی

ماہ نامہ ’’امنگ ‘‘ دہلی اردو اکاڈیمی کا ترجمان میں رؤف خیر کی نظمیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے

کام کوئی اٹھا نہ رکھنا ہے

کل بتاؤ تو کس نے دیکھا ہے

زندگانی کا کیا بھروسا ہے

فیصلہ لو تو کوئی اچھا لو

جو بھی کرنا ہے آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مت ٹالو

مجھ کو یہ قول ہے بہت بھاتا

اصل میں کل کبھی نہیں آتا

میری مانو تو کھول دو کھاتہ

کوئی اندیشہ دل میں مت پالو

جو بھی کرنا ہے آج کر ڈالو

آج کا کام کل پہ مٹ ٹالو

’’چھٹیاں ‘‘۔ ’’ چھٹیاں ختم ہو گئیں آخر ‘‘۔ ’’اپنے ماں باپ کے سامنے اف نہ کر‘‘۔ ’’بہر حال ہم کو ہوا چاہیئے‘‘۔ ’’پانی ضروری ہے ‘‘۔ ’’مزدور بچہ ‘‘۔ وغیرہ رؤف خیر کی نظمیں میں جو ماہ نامہ ’’امنگ ‘‘ کے شماروں میں شائع ہوئیں۔

ان کے مجموعۂ کلام ’’خیریات ‘‘ مطبوعہ 2010ء میں بھی بچوں کے لیے چند نظمیں شامل ہیں۔

حیدرآباد سے نکلنے والے روزنامہ ’’رہنمائے دکن ‘‘ میں ہر پیر کو بچوں کا صفحہ چھٹی دھائی میں شائع ہوا کرتا تھا۔ آج بچوں کے ادب کی اشاعت میں تقریباً تمام اخبارات میں مسابقتی دوڑ جاری ہے۔ روزنامہ ’’منصف ‘‘ روزنامہ ’’سیاست ‘‘ اور روزنامہ ’’اعتماد ‘‘ میں الگ الگ دنوں میں بچوں کا صفحہ شائع ہوتا ہے۔ جس میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں ، لطیفے، نظمیں وغیرہ شائع کی جاتی ہیں۔

مشہور شاعر خورشید احمد جامی اور ان کے چھوٹے بھائی افتخار احمد اقبال بھی بچوں کے لیے لکھا کرتے ہیں۔ صفدر حسین صاحب نے بچوں کے لیے ’’ٹیپوسلطان ‘‘ کی سوانح لکھی جس کی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کافی پذیرائی ہوئی۔ ظفر فاروقی اور سلطان سبحانی بھی بچوں کے لیے نظم و نثر لکھتے ہیں۔

آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے اردو میں بچوں کا پروگرام پیش کیا جاتا تھا۔ قیصر سرمست نے بھی بچوں کے ادب میں اضافہ کیا۔

بچوں کے لیے لکھنے والے چند قلم کاروں کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ورنہ یہ تو باضابطہ تحقیق کا موضوع ہے۔

٭٭٭

 

 

 

مجذدبِ دکن پیکرِ ایثارِ سخن بھی

 

سید التراجم کا ایثارِ سخن تو دیکھئیے کہ طبع زاد تخلیقات سے اپنے آپ کو منوانے کے بجائے مستند تخلیق کاروں کے فارسی شاہ کاروں کو مادری زبان اردو کے ذریعے روشناسِ  خلق کروانے کے جتن کرتے رہے اور وہ بھی منظوم ظاہر ہے شعر کے ترجمے کا مزہ تو شعر ہی میں آتا ہے۔ اچھے سے اچھے شعر کا اگر نثری ترجمہ ہو تو اس کی روح تو مجروح ہو جاتی ہے۔ محترم سید احمد صاحب نے جس عرق ریزی سے نایاب فارسی شاہ کاروں کو منظوم اردو کا جامۂ دلکش پہنایا ہے وہ ہر اعتبار سے قابلِ  داد ہے۔ مترجم ہونا دوسرے درجے کا خالق ہونا ہے  مگر جناب سید احمد کا ایثار دیکھیئے کہ انھوں نے اس حیثیت ثانوی کو اولیت بخشی اور اب یہی ان کی پہچان بھی ٹھیری۔ ان کا اپنا ’’ترانہ و ترنگ ‘‘ دب کر رہ گیا ہے۔

پچھلے دنوں ۲۵، اگسٹ ۲۰۰۵ئ کوا ن سے انھی کے درِ دولت پر نیاز حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان کی کاوشوں کی تفصیلی روداد سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ حیرت تو یہ جان کر ہوئی کہ ایثارؔ صاحب نے بے شمار فارسی شاہ کاروں کے تراجم محض اپنی خوش ذوقی کے بل بوتے کر ڈالے حالانکہ آپ نے کسی مدرسے میں یا کسی استادِ  کامل سے باضابطہ فارسی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان تراجم کی داد دینے والا بھی کوئی آپ کو میسر نہ تھا۔ لے دے کے ایک مڈل پاس غریب دوست سید حسین تھے جو ایثار صاحب کے منظوم تراجم خوش خط لکھ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ اس طرح یہ تراجم محفوظ بھی رہ سکے۔ ایثار صاحب محکمۂ جنگلات کے بہت بڑے افسر اور سید حسین آبرسانی میں معمولی ملازم لیکن اس ادبی پر بہار رشتے نے دونوں کو شاداب و مستحکم رکھا تھا۔ ایثار صاحب نے سید حسین مرحوم کے احسانات کا بہت ذکر کیا ہے حتٰی کہ اپنا شعری مجموعہ ان کے نام معنون بھی کیا ہے۔ ایک دور وہ بھی آیا کہ سید حسین کے لڑکے اتنے مرفہ حال ہو گئے کہ انھوں نے ایثار صاحب کی ایک کتاب کی اشاعت میں مالی اعانت بھی کی۔

محکمۂ جنگلات میں بے انتہا مصروفیت اور اندرونی محکمہ جاتی سیاسی کشمکش کے باوجود ان ادبی شاہ کاروں کے تراجم کے لیے ایثار صاحب وقت نکالتے رہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ علمی ادبی ماحول بھی آپ کو میسر نہیں تھا۔ آپ نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں لکھا کہ ۱۹۴۲ئ میں ’’اسرارِ  خودی ‘‘ ہاتھ لگی۔ قیمت چھے ۶ روپے تھی۔ مگر وہ اسے خرید نے کے قابل نہیں تھے۔ لامحالہ پوری کتاب نقل کر ڈالی اور یوں بیشتر اشعار ازبر ہو گئے۔ گھر سے سکول اور سکول سے گھر آتے جاتے تنہائی میں اقبالؔ  کے اشعار گنگناتے جاتے۔

آپ نے بتایا کہ ’’آمدن سی لفظی ‘‘ سامنے رکھ کر فارسی سیکھی۔ اپنے طور پر فارسی شعر و ادب کا ایسا ذوق پیدا کیا جو کئی شاہ کاروں کو روشناسِ  خلق کروانے کا باعث بنا۔ آج سارے بنگلور، سارے جنوبی ہند کے ماہرین اقبالیات میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال نے آپ کے کارناموں کی داد دی ہے۔ یوں تو پر وفیسر مسعود حسین خان، پروفیسر جگن ناتھ آزاد اور معتبر نقاد جناب شمس الرحمن فاروقی نے بھی جناب ایثارؔ کی خدمات کو سراہا ہے پھر بھی وہ قدرو منزلت آپ کے حصے میں نہیں آئی جس کے آپ مستحق ہیں۔ اقبال نے خرد کے بالمقابل جس جنوں کی پذیرائی اپنے کلام میں کی ہے اس کا جیتا جاگتا پیکر ایثار ہمارے سامنے ہے۔

پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد، اسرار و رموز اور ارمغانِ حجاز جیسے شاہ کاروں کا منظوم اردو ترجمہ بجائے خود قابلِ  تحسین کارنامہ ہے۔ آ پ نے نہ صرف یہ کہ اقبال کے ان شاہ کار کاروں کا منظوم اردو ترجمہ کرتے ہوئے ایک معلوماتی مقدمہ بھی تحریر فرمایا اور یوں اس شاہ کار کی اہمیت کا احساس دلایا۔ ترجمے کی دشواریوں پر بھی روشنی ڈالی۔ خاص طور پر ’’جاوید نامہ ‘‘ کا 70ستر صفحات پر پھیلا ہوا مقدمہ بجائے خود دستاویزی نوعیت کا حامل ہے۔ اس میں آپ نے تصنیف کی ابتدا، تمہید آسمانی، تمہید زمینی، جہاں دوست وشوامتر کی حقیقت، فلکِ  قمر، فلک عطارد، طاسین زرشت، طاسین گوتم، طاسین مسیح سے لے کر جمال الدین افغانی اور سعید علیم پاشاہ کی مساعیِ  جمیلہ کا اجمالی ذکر کیا ہے۔ غنی کاشمیری، بھرتری ہری اور احمد شاہ ابدالی وغیرہ کی سیرت پر بھی کافی روشنی ڈالی۔ ٹیپو سلطان سے اقبال کی عقیدت کا احوال بھی جاوید نا مے کے حوالے سے بڑے سلیقے سے ایثار صاحب نے پیش کیا ہے۔ آپ نے ہر کتاب کا مقدمہ تقریباً ایسا ہی جامع تحریر فرمایا ہے جس سے کتاب، صاحبِ  کتاب اور مترجم کی علمیت سے قاری کا شرحِ صدر ہوتا ہے۔ ’’پس چہ باید کرد‘‘ کا مقدمہ لکھتے ہوئے ایثار صاحب نے اس مثنوی کا پس منظر بیان کیا کہ نادر شاہ والی افغان کی دعوت پر علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی اور سرراس مسعود افغانستان گئے تھے تاکہ اس ملک کے لیے نئی تعلیمی پالیسی پیش کریں۔ اس مثنوی میں در آنے والی اہم شخصیات نادر شاہ، حکم سنائی اور سلطان محمود غزنوی کا ضرور ی تعارف لکھ کر ایثار صاحب نے خاصی معلومات فراہم کی ہیں۔

زبور عجم کا مقدمہ لکھتے ہوئے آپ نے اقبال کے تصور خودی، نظریۂ وحدت الوجود وغیرہ کے ساتھ ساتھ محمود شبستری کی ’’گلشن راز جدید ‘‘ میں اٹھائے گئے بعض اہم سوالات اور ان کے حل پر بھی کافی دلچسپ مواد پیش کیا ہے۔ غرض ترجمے تو رواں دواں ہیں ہی، مقدمے بھی آپ کی علمیت کے مظہر ہیں۔

اسرارِ خودی کا زمانہ 1911ء تک کاہے۔ پروفیسر صابر کلوروی نے ’’تاریخ تصوف ‘‘ کے نام سے علامہ اقبال کے وہ ٹوٹس Notesجمع کئے تھے جس میں اقبال کہتے ہیں ’’مروجہ تصوف خودی کو مٹانے کے تلقین کرتا ہے جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسرارِ خودی کے دیباچے میں اسی تصوف کو ہدفِ  ملامت بناتے ہوئے خود ی کے استحکام پر زور دیا گیا۔ اس پر مستزاد مثنوی میں چونتیس ۳۴ اشعار کا ایک بند بھی شامل کیا گیا تھا جس میں حافظ شیرانی کی شاعری کے زہر یلے اثرات سے خبردار کیا گیا اوراس کے مسلک کو مسلک گوسفندی قرار دیا گیا۔ اب صرف وہ بند رکھا گیا جس میں افلاطون کو مسلک گوسفندی کا علمبردار کہا گیا ہے۔

راہبِ  دیرینہ افلاطوں حکیم

از گروہِ  گوسفندانِ  قدیم

پروفیسر صابر کلوری نے ’’تاریخ تصوف ‘‘ میں لکھا کہ خواجہ حسن نظامی نے سب سے پہلے ان اشعار کا نوٹس لیا اور اپنے مضمون میں مسئلہ وحدت الوجود کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اکبر الہ آبادی اور شاہ سلیمان پھلواری نے انھیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ ملاحظہ ہو اکبر الہ آبادی کا خط ’’ تاریخ تصوف ‘‘ مرتبہ صابر کلوروی۔ شائع کردہ مکتبہ الحسنات، کوچہ چیلان،  دریاگنج دہلی، ایڈیشن ۱۹۸۹ء علامہ اقبال کا یہ اعتراف بھی اسی کتاب میں شامل ہے۔ اقبال لکھتے ہیں۔

’’مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصہ تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآنِ  شریف میں تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے۔ مثلاً شیخ محی الدین عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا، وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلاتِ ستہ (یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکرِ  عبدالکریم الجیلی نے اپنی کتا ب ’’انسانِ  کامل ‘‘ میں کیا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک  مذہبِ  اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ وکیل ۱۵، جنوری ۱۹۱۶ء بحوالہ تاریخ تصوف مرتبہ صابر کلوری صفحہ ۱۵۔ سید فصیح اللہ کاظمی کے نام۔ جولائی ۱۹۱۶ء کے ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں۔

’’تصوف کے متعلق میں خود لکھ رہا ہوں۔ میرے نزدیک حافظؔ کی شاعری نے بالخصوص اور عجمی شاعری نے بالعموم مسلمان کی سیرت اور عام زندگی پر نہایت مذموم اثر کیا ہے۔ اسی واسطے میں نے ان کے خلاف لکھا ہے۔ مجھے امید تھی کہ لوگ مخالفت کریں گے اور گالیاں دیں گے لیکن میرا ایمان گوارا نہیں کرتا کہ حق بات نہ کہوں۔ شاعری میرے لیے ذریعۂ معاش نہیں کہ میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈروں۔۔۔ ‘‘

جیسا کہ جناب ایثار نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے ’’حکیم الامت یعنے اقبال نے مجبور ہو کر اسرارِ  خودی کے نئے ایڈیشن میں سے حافظ کے بارے میں مسلمانوں کو آزار پہچاننے والے شعار حذف کر ڈالے۔ ‘‘ دراصل اقبال صلح کل کے آدمی تھے۔ وہ سب کو خوش کرنے کی پولیسی پر عمل پیرا رہتے تھے تاکہ ان کی مقبولیت ہر مسلک میں قائم رہے۔

بدعتی اور خبیث بھی خوش تھے

ان سے اہلِ  حدیث بھی خوش تھے

(خیرؔ)

جناب ایثارِ بلاشبہ دکن کے مایہ ناز سپوت ہیں انہوں نے اپنے دکنی ہونے کا اس ترجمے میں بلا جھجک اظہار بھی کیا ہے۔ اس رواں ترجمے میں ایک شعر کی داد بے ساختہ نکل گئی۔

’’حریت اسلام سرحادثۂ کربلا‘‘ میں اقبال کہتے ہیں۔

دشمناں چوں ریگِ  صحرا لاتعد

دوستانِ  اوبہ یزداں ہم عدد

اقبال نے یزداں کے ہم عددوست کہہ کر ابجدی معما پیش کیا تھا۔ لفظ یزداں کے اعداد بہتّر 72ہوتے ہیں جسے ایثار صاحب نے منظوم اردو ترجمہ کرتے ہوئے بڑے سلیقے سے کھول دیا۔

ریت کے مانند دشمن بے شمار

ان کے ہمراہی بہتّر جاں نثار

اپنے طویل مقدموں میں جناب ایثار بھی وہی روایتی نظریہ بیان کرتے ہیں کہ مثنوی اسرارِ  خودی کا مقصود و مطلوب انسانِ  کامل یا ’’خلیفۃ اللہ علی الارض ‘‘ ہے۔ حالانکہ اللہ کا کوئی خلیفہ نہیں ہوتا۔ جناب ایثار صاحب کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اللہ نے کہیں بھی انسان کو اپنا خلیفہ نہیں کہا۔ انی جاعل، فی الارض خلیفہ۔ کہا گیا ہے۔ ’’خلیفۃ اللہ ‘‘ کب کہا گیا ؟ خلیفہ یا جانشین اس بادشاہ یا سربراہ مملکت کا ہوتا ہے جو مر جانے والا یا ریٹائر ہو جانے والا یا ریٹائر کر دیا جانے والا ہوتا ہے۔ اللہ حیّ قیوم کے ریٹائر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ علمائے سوء کے زبان و قلم سے انسان کے لیے ’’خلیفۃ اللہ‘‘ نکل پڑا جو چل پڑا بھی ہے۔ درحقیقت انسان اللہ کا خلیفہ نہیں بلکہ اپنے سے پہلے پیدا ہونے والی مخلوق جنوں کا خلیفہ یعنے بعد آنے والا ہے۔ اللہ تو دور کی بات ہے رسول اللہ کا کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابوبکر ؓ  کو خلیفہ الرسول کے بجائے جب کچھ لوگوں نے خلیفہ اللہ کہا تو حضرت ابوبکر ؓ نے سختی سے منع کر دیا چنانچہ بعد میں خلیفہ المومنین کی اصطلاح مروج ہوئی یا امیرالمومنین کہا جانے لگا۔ عوام کا لانعام تو جس کو چاہے نائب رسول بنا دیں۔ جسے چاہے اللہ کی صفات میں شریک ٹھیر کر مشکل کشا و مولائے کل کہہ دیں۔ ان کا اعتبار نہیں۔ علمی معاملات میں صوفیانہ عقائد کو قرآن و سنت کے معیارات سے ٹکراتا ہوا دیکھیں تو ان سے اجتناب ضروری ہے چاہے وہ اقبال جیسی عبقری شخصیت ہی کے قلم سے کیوں نہ نکلی ہوں۔ ہمیں شخصیت پر ستی سے بہرحال بچنا چاہئیے۔ ہمارے ہاں موضوعات کبیر نے حدیث کا درجہ پالیا ہے۔ ہرکس و ناکس کے قول کو رسول اللہ ﷺ کی ذات سے منسوب کرتے ہوئے تحقیق کر لینا چاہئے کہ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ قول درج ہے بھی کہ نہیں صرف حدیث کہہ دینے سے کام نہیں چلتا۔ پورا پورا حوالہ دینا ضروری ہے۔ تحقیق پر پتہ چلے گا کہ جن اقوال کو حدیث کے نام سے علمائے سو دہراتے نہیں تھکتے وہ حقیقتاً کسی بھی متداول کو ذخیرۂ حدیث میں پائے نہیں جاتے۔ ادبی معاملات میں تو ہم بڑی داد تحقیق دیتے ہیں مگر دین کے معاملے میں اندھا اعتقاد علمائے سو اور صوفیہ پر کر لیتے ہیں۔ جناب ایثارؔ  نے اسلامی اور غیر اسلامی تصوف پر اسرار و رموز میں کافی سیر حاصل بحث بھی کی ہے۔ تاہم مزید تحقیق کی ضرورت تھی۔ بعض حکایات کی تہذیبی جہات میں شاعرانہ حسن ضرور ہے مگر منطقی استد لال سے ان کی شعریت ہوا ہو جاتی ہے۔ جیساکہ کہا جاتا ہے ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ مگر ان صوفیانہ عقائد کو شرعی جواز دینے کے لیے قرآن وسنت کی تاویلات کیا ضرور ی ہیں !  شعریت اور شریعت دو الگ الگ میدان ہیں۔ حافظ، رومی، اقبال کا کلام پڑھتے ہوئے ہم ان کے شاعرانہ مرتبے کی داد ضرور دیں مگر ان کے فکر و فلسفہ کی تائید قرآن و سنت سے کرنا خود ان شاعروں کی شعریت سے مذاق کرنے کے برا بر ہے اور خود قرآن و سنت کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے۔ صوفیہ کے نزدیک ابلیس خواجۂ اہل فراق ہے۔ اب ایثار صاحب، کیا کریں گے۔ آپ نے بھی انھی روایتی اور مروجہ عقائد کی روشنی میں جاوید نامہ کے مقدمے میں صفحہ ۷۸ پر لکھا کہ ’’ابلیس جلالِ خدا وندی کا گرویدہ تھا۔ لہذا ترک سجدہ آدم سے معتوب ہوکر اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ وہ بحر عشق الہی کا واحد شناور ہے جو عقیدۂ توحید پر پوری سختی کے ساتھ قائم رہا۔ ‘‘

حالانکہ اللہ نے نافرمانی کے سبب راندۂ درگاہ قرار دیا مگر صوفیہ کو ابلیس سے بڑی ہمدردی ہے۔ ابلیس کے تعلق سے Soft Cornerنرم گو شے ہی کا نتیجہ ہے کہ حلاج انا الحق کا نعرہ لگاتا ہے۔ بایزیدبسطامی کہتے ہیں سبحانی ما اعظم شانی یعنے میں پاک ہوں میری شان کے کیا کہنے اور لوائی ارفع من لوائے محمد یعنے میرا پرچم محمد کے پرچم سے بلند ہے۔ ایسے کئی کلمات ہیں جو حیران کن ہیں۔ ملاحظہ ہوں موضوعات کبیر ملاعلی قادری الفوائد المجموعہ فی الا حدیث الموضوعہ علامہ شوکائی کتاب الموضوعات اور تلبیس ابلیس عبدالرحمن ابن خوزی)۔

میرا معروضہ یہ ہے کہ شعراء کے کلام میں ایسی کسی شخصیت کی تعریف بھی ہوتو شاعر کے شاعرانہ رویئے کی داد دیں مگر اس کے فکر و فن کو قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے علمی متانت کا مذاق نہ اڑائیں۔ جیسے جاوید نامے میں طاسین حلاج کے حوالے سے زندہ رود اور حلاج کے مکالموں کی ادبیت سے استفادہ اپنی جگہ مگر حلاج کے دعوائے انا الحق کا دفاع ممکن نہیں۔ مگر آج بھی عوام اور شعرائے عام کے لیے تو منصور سچائی کا علمبردار ہے۔ وہ ان کا ہیرو بنا ہوا ہے۔ ہمیں اس کی حیثیت کا اندازہ ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر مصطفے کامل الشیبی اپنی کتاب ’’الصلۃ بین التصوف والتشیع ‘‘ میں حلاج کے تعلق سے لکھتے ہیں۔

’’اس نے حج کا ایک طریقہ ایجاد کیا تھا۔ جس میں کسی شخص کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے گھر کے اک کمرے میں اس بات کا لحاظ رکھے کہ اس میں گند گی اور نجاست نہ جانے پائے اور نہ کوئی دوسرا شخص اس میں جائے۔ جب ایام حج شروع ہوں تو اس کمرے کا طواف کرے اور جو مناسک حج میں کئے جاتے ہیں وہ سب ادا کرے۔ پھرتیس یتیموں کو جمع کر کے ان کو بہترین کھانا کھلائے اور ان کی خدمت کرے۔ ان کے ہاتھ دھلائے اور ایک ایک قمیص اور سات سات درہم ان کو  عطیہ دے تو اس طرح کرنے سے حج ادا ہو جائے گا۔

(بحوالہ ’’حقیقت تصوف‘‘ از سید معین الدین۔ مکتبہ دعوۃ الحق۔ حیدرآباد)

اس طرح کے عقائد رکھنے والے سے ہمدردی ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ چاہے کوئی ہو۔ اقبالیات کے علاوہ جناب ایثارؔ  نے عمر خیام کی سات سو بہتر ۷۷۲ رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ کر ڈالا۔ شمس تبریز کی چارسو چھتیس رباعیات کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ نے محسوس کیا کہ ایک رباعی ایسی ہے جو دونوں شاعروں کے دیوان میں لفظ بلفظ موجود ہے۔

اے زندگی تن و توانم ہمہ تو

جانی و دلی اے دل و جانم ہمہ تو

تو ہستی من شدی ازآنی ہمہ من

من نیست شدم درتوازانم ہمہ تو

مخفی مباد کہ شمس تبریز تو بے چارہ مجذوب تھا۔ رومی نے ہزاروں غزلیات اپنے مرشد شمس تبریز کی یادمیں کہہ ڈالیں اور وہ غزلیں شمس تبریز کے نام سے ’’دیوانِ  شمس تبریز‘‘ میں جمع کی گئیں۔ یہ رباعی بھی دراصل رومی کی ہے۔ رومی اور خیام کی رباعی کی مماثلت دراصل اسی سبب سے ہے کہ بعض خوش ذوق ایک شاعر کا کلام دوسرے شاعر کے نام سے لکھ لیا کرتے تھے۔ اس طرح کے الحاقی کلام کی کئی مثالیں اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔ وہی صورتِ  حال ایثار صاحب پر واشگاف ہوئی۔ خیام ورومی کی اس مشتر کہ رباعی کا منظوم اردو ترجمہ بھی آپ نے یوں کیا ہے۔

تن کے لیے زندگی توانائی تو

تو جان میں دل میں دل و جاں میری تو

تو میرا وجود اس لیے تو خود مجھ میں

میں تجھ میں فنا ہوں اس لیے ہوں سبھی تو

ایثارؔ صاحب نے سعدی شیرازی کی ایک سو اکسٹھ ۱۶۱ رباعیات، حافظ شیرازی کی اٹھاسی ۸۸ میں سے تینتیس ۳۳ رباعیات کے منظوم اردو ترجمے کے علاوہ رومیؔ  کی مثنویِ  معنوی مولوی کا اردو ترجمہ بھی تین جلدوں میں کر کے رکھ دیا ہے جو اشاعت کی منتظر ہیں۔

اقبال کی تمام کتابوں کے ترجمے کا فریضہ وہ ۳، اکتبوبر ۱۹۸۲ئ سے پہلے ہی انجام دے چکے تھے مگر اشاعت کی نوبت حسبِ سہولت و استطاعت آتی رہی۔ ظاہر ہے سیکڑوں صفحات پر پھیلا ہوا یہ کارنامہ ان کی اپنی محنت کی کمائی سے منظر عام پر آتا رہا ہے۔ الا ماشاء اللہ سرکاری و غیر سرکاری مالی اعانت انھیں برائے نام ہی ملی ہے۔ ملک بھر میں پھیلی ہوئی اقبال اکاڈمیاں ، اور سرکاری اداروں سے بھرپور تعاون انھیں حاصل ہوتا تو یہ کتابیں زیادہ مقبول ہو پاتیں۔ اشاعتی اداروں کو ایثار صاحب کے کارناموں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو شاید وہ اس سے تجارتی فائدہ اٹھا لیتیں مگر ایسا لگتا ہے حضرت ایثار کی قلندر مزاجی اپنی گوشہ نشینی اور خود داری میں مست رہی۔

میں اپنی خاک نشینی میں مست اتنا ہوں

کہ تخت و تاج بھی جلتے ہیں بوریئے سے مرے

(خیر)

اب کم از کم علمی و ادبی اداروں کو حضرت ایثار کی قدر افزائی کی کوئی صورت نکالنی چاہئے۔ مردہ پرستی کی روایت سے ہٹ کران کی خدمات کے اعتراف کے جشن، حین حیات منائے جانے چاہئیں۔ میں نے صرف پیام مشرق کے صرف ایک حصہ لالۂ طور کا منظوم اردو ترجمہ کرنے کے لیے دوسال محنت کی تھی تب کہیں قنطار وجود میں آیا تھا جب کہ حضرت ایثار نے تقریباً پچاس ساٹھ سال سے نہ صرف اقبالیات کو بلکہ سعدی، خیام، حافظ، رومی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ فارسی ادبیات پر آپ کی گہری نظر ہے۔ میں ان کارناموں پر جناب ایثار کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ کی سلامتی، درازی عمر، صحت و عافیت کے لیے دعا گو ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

انل ٹھکر کا بیباک ناول

 

انل ٹھکر کا شاہ کار ناول ’’خوابوں کی بیساکھیاں ‘‘ پڑھ کر میں حیران رہ گیا اس اچھوتے اور انوکھے موضوع پر شاید ہی کسی نے قلم اٹھا یا ہو۔

اگر اسے سلمان رشدی نے بھی قلم بند کیا ہوتا تو اس کے ہاتھ قلم کر دیئے جاتے اور اگر قاضی عبدالستار نے لکھا ہوتا تو ان کا سر قلم کر دیا جاتا۔ اس موضوع پر لکھنے کے لیے کلیجہ چاہئیے اور یہ کلیجہ نام نہاد So calledمسلمان بھی لا نہیں سکتا ورنہ اس کا وہی حشر ہوتا جو ایم ایف حسین کا ہوا۔ تسلیمہ نسرین تو کیا سلمان رشدی کو بھی غیر مسلم مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔ اپنے گھر پر گنیش کی پوجا کرنے اور کروانے کا اہتمام کرنے کے باوجود غیر مسلم کی نظر میں سلمان خان مسلمان ہی ہے۔ البتہ مسلمان جانتے ہیں کہ یہ کس قسم کے اور کس درجے کے مسلمان ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ انل  ٹھکر مسلمان نہیں ہیں ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا بلکہ کیا کیا ہو جاتا۔

ناول کی ہیروئین منگلا پیاسی عورت ہے اور اس کا شوہر جاگیر دار بسوراج اس کی پیاس بجھانے سے قاصر ہے۔ دونوں کی شادی ہو   انےا بوٹا، چٹکا ہے غنچہ غنچہ نکر سترہ سال گزر جانے کے باوجود منگلا کنواری ہی ہے مگر وہ شوہر کی کمزوری کا اظہار کسی سے نہیں کرتی۔ یہ ناول برٹش دور کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ احکام نافذ تھے کہ اگر جاگیر دار کا اپنا کوئی وارث نہ ہو تو اس کی جاگیر کسی دوسرے کو سونپ دی جائے گی۔ منگلا کی ساس وارث کی آس میں اپنے بیٹے بسوراج کی دوسری شادی کروانا چاہتی ہے۔ بسوراج اپنی کمزوری کی وجہ سے اس سے بچنا چاہتا ہے مگر ماں سے وہ کھل کر کہہ نہیں پاتا۔ منگلا تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔ آخر کار ماں کو حقیقت حال کا پتہ چل جاتا ہے۔ ایسے میں بسوراج گاؤں کے مندر کے پنڈت سے رجوع ہو کر مدد مانگتا ہے۔ اس کی ماں سون بائی بھی جاگیر کے لیے وارث بہر صورت چاہتی ہے۔ چنانچہ بڑے سوامی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’’نیوگ ‘‘ کے تحت نوجوان سنیاسی چھوٹے سوامی کے ذریعے رازدارانہ طور پر منگلا کو ماں بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ  منگلا راضی ہو۔ منگلا تو خیر پیاسی تھی ہی شوہر اور ساس کی مرضی کے آگے جھک جاتی ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ خود چھوٹے سوامی کو بھی خبر نہیں کہ وہ کس کی اولاد ہیں۔ ایک تو ہم پرست انسان کی کارستانی ہے کہ یہ بچہ بہ عمر شیر خواری ایک ٹوکری میں لا کر مندر کی سیڑھیوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

آدھی رات کو چھوٹے سوامی چپکے سے منگلا کے پاس لائے جاتے ہیں۔ چونکہ نوجوان سوامی خود بھی سنیاسی رہے ہیں ان کے لیے بھی کسی عورت کے ساتھ رات گزارنے کا تجربہ لذت انگیز ہوتا ہے۔ دونوں جذبات میں سرشار ہو کر جاگیردار کے لیے وارث پیدا کرنے کی مہم میں جت جاتے ہیں۔ درمیان میں ایک ماہ میں پانچ دن کا وقفہ دونوں کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر مزے سے جاگیر بچانے کی خاطر وارث پیدا کرنے کا یہ خوش گوار فریضہ دونوں انجام دے رہے ہیں۔

یہ کام بھی شاستر کے انوسار غیر مذہبی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ’’نیوگ ‘‘ یا بیج مستعار لینے کی روایت سماج کی مجبوری بھی تو ہے۔ ہندومت میں نیوگ کی رسم کے نام پر نامرد پتی کی عزت بچانے کے لیے پتنی کو غیر مرد سے نطفہ حاصل کرنے کی چھوٹ انوکھی ضرور لگتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں بھی تو نطفوں کی ہیرا پھیری سائینسی ایجادات کا شاہ کار سمجھی جاتی ہے۔ آج Infertilityکے تدارک کے نام پر عورت کے رحم میں غیر مرد کا نطفہ داخل کرنے کا کاروبار زور و شور سے جاری ہے۔ کسی شاستر میں اگر اس کی اجازت ہو تو اس مت کے ماننے والوں پر احسان ہی سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی ہندومت میں صرف جنسی عمل ہی شادی کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ یہ کئی مقاصد میں سے ایک ہے۔ یہی سب کچھ نہیں۔ محض اس کمزوری و کوتاہی کو بنیاد بنا کر زوجین میں سے کوئی ایک بھی زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نباہنے کے وچن سے پھر نہیں سکتا۔

پیاسی منگلا اب چھوٹے سوامی کو کھونا نہیں چاہتی۔ وہ حاملہ ہو جانے کے باوجود اپنا حمل دو تین ماہ تک ساس اور شوہر سے چھپا لیتی ہے کہ کہیں یہ پر لطف لمحے چھین لیے نہ جائیں کیونکہ مقصد کے حصول کے بعد چھوٹے سوامی کی آمد پر پابندی لگا دی جانے والی تھی۔

بہرحال یہ ایسا نازک موضوع ہے جس پر انل ٹھکر نے بڑے سلیقے سے قلم اٹھایا ہے۔ چھوٹے سوامی اور منگلا کے وصال کی گھڑیوں کے بیا ن میں انھوں نے جنسی تلذذ کے اظہار سے دامن بچا لیا ہے اور فن کارانہ منظر کشی کی ہے۔

’’وہ منگلا ایک مکمل مرد کی خواہش مند تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ سوامی کو پلنگ کی جانب کھینچنا شروع کیا۔ پلنگ کے پاس پہنچنے کے بعد بھی سوامی جی اس سے الگ ہونے کو رضامند نہ تھے۔ وہ بوسوں سے دیوانہ وار لطف بٹور نے میں محو تھے۔ آگے کیا ؟  اس سے وہ ناواقف تھے۔ منگلا نے جتن سے کپڑے اتارے۔ سوامی جی کو اگلے قدم کی طرف راغب کیا۔ تب یہ سنیاسی سنساری بن گیا۔ زعفرانی رنگ میں سرخ رنگ کا ملن اور منگلا کو نقطۂ عروج کا لطف نصیب ہوا۔ دونوں کے لیے یہ نیا تجربہ دلکش، دل فریب اور دل آویز بن گیا۔ بہکی سانسوں کو انجانے سرور کی لذت کا احساس ہوا۔ برسوں کی پیاسی دھرتی پر مینہ کیا برسا دھرتی سبزۂ نوخیز سے مالا مال ہو گئی ‘‘

اس ناول میں پیاسی عورت کی عزتِ  نفس سے کھلواڑ کو انل ٹھکر نے بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ منگلا کی سترہ سال کی تپسیا کو ایک عورت ہی بھنگ کر کے اس ے غیر مرد کے ساتھ سونے پر آمادہ کرتی ہے محض اس لیے کہ اس کے جاگیر دار خاندان کا وارث پیدا ہو اور جاگیر سے ہاتھ دھونا نہ پڑے۔ دونوں عورتوں کے متضاد کردار کی عکاسی انسانی فطرت پر گہری نظر کی غماز ہے۔ سون بائی ساس کا کردار خود غرضی اور عیاری کا نمونہ ہے۔ اس کی عیاری اور چالا کی ناول کا  درد ناک حصہ ہے جب وہ منگلا اور چھوٹے سوامی کو تیرتھ یاترا لے جا کر ایک اور پنڈت شنکر بھٹ کے ساتھ ملی بھگت کر کے غرقاب کروا دیتی ہے اور اپنے پوتے یعنے اپنے بیٹے کی جاگیر کے وارث کو سلامت لے آتی ہے مگر روپلا کر یہ بھی ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ان دونوں کی موت اک اتفاقی حادثہ ہے۔

امرتا پریتم نے برسوں پہلے ایسے ہی اک ناکارہ مرد کی کہانی لکھی تھی جس کی ماں زبردستی اس کی دوسری شادی کروا دیتی ہے۔ پہلی بیوی شوہر کی عزت خاک میں ملنے نہیں دیتی اور شوہر کی دوسری شادی کا دکھ برداشت نہ کر کے اپنے آپ پر گیا س کا تیل( کیروسین) ڈال کر جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ جب کہ آنے والی دوسری بیوی اس نامرد کو بچہ پیدا کر کے دیتی ہے۔ جب اس ناکارہ شخص کی ماں بچہ اپنے بیٹے کی گود میں ڈال کر داد ی بن جانے کی خوشی کا اظہار کرتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اسے اس بچے کے بدن سے گیا س کے تیل کیروسین کی بو، آ رہی ہے۔

انل ٹھکر نے دو مختلف قسم کے کرداروں کی نفسیات جس سلیقے سے پیش کی ہیں وہ بجائے خود قابل داد ہیں۔ ویسے اس ناول میں ناچنے گانے والی ہیرا بائی کا کردار بھی متاثر کرتا ہے جو ظالم پولیس آفیسر شنڈے کی رکھیل ہے۔ اس کے ناجائز بچے کی ماں بننا چاہتی ہے مگر وہ اس کا پیٹ بھاڑ دینے کی دھمکی دیتا ہے۔ شنڈے انگریزوں کا غلام ہے اور آزاد ی کی لڑائی لڑنے والوں کا بھی دشمن ہے۔

چھوٹی ذات سے کرسچین ہو جانے والا تھومس ڈپٹی کلکٹر ہو کر اعلیٰ ذات والوں سے انتقام لینے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ ایک بیوہ کی زمین ہتھیا نے کے لیے کوئی اس کے دیور کو مار دالتا ہے تو تھومس اور شنڈے اس بیوہ کی زمین کا بڑا حصہ خود بانٹ لیتے ہیں۔

یہ ذیلی واقعات اس ناول میں متوازی چلتے ہیں مگر اصل کہانی تو پیاسی منگلا کے اطراف ہی گھومتی ہے جو مظلومیت کی جیتی جاگتی مورت ہے۔ جس کی عزت نفس پرکھوں کی عزت بچانے کے نام پر مجروح کی جاتی ہے اور وہ بھی مذہبی ٹھیکیداروں کی ایما پر جو سماج کے ذمہ داروں کے مفاد کی خاطر فقہی رخصتوں سے فائدہ اٹھانے کے گر سکھاتے ہیں۔

مختصر یہ کہ ایسا ناول انل ٹھکر ہی لکھ سکتے تھے۔ ’’خوابوں کی بیساکھیاں ‘‘ میں سماجی ذمہ داروں ، مذہبی ٹھیکیداروں اور مختلف عہدہ داروں کی بے مروتی کا بیباک خاکہ کھینچا گیا ہے۔

ناول کے تقاضے کے طور پر ہندی الفاظ کی بھرمار ہے اسی لیے اسے ہندی میں بھی شائع کیا جائے تو شاید زیادہ مقبول ہو اور ہندی والوں کو ایک اچھا ناول پڑھنے کو مل جائے۔ سچ پوچھو تو یہ انھی کے لیے لکھا گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

زلیخائے ادب کا ابویوسف

 

بے آب و گیاہ علاقے کے کسی اندھے کنویں میں ایک قافلے کے کچھ لوگوں نے شہداب کی تلاش میں ڈول ڈالا تو ڈول میں میٹھے پانی کے ساتھ میٹھی صورت والا ایک حسین بچہ بھی برآمد ہوا اس خوش ذوق بچے کی میٹھی زبان نے سارے قافلے کا دل موہ لیا۔ اردو ادب کا یہ خوش مذاق لڑکا بازارِ مصر پہنچا تو سارا شہر اس کا گرویدہ ہو گیا۔ حتیٰ کہ ایک عجوزہ نے بھی اس کی بولی لگائی مگر وہ عزیز مصر کے مقدر میں تھا اور جب ذرا ہاتھ پاؤں نکالے تو زلیخا نے اس کے دامن پر ہاتھ ڈالا شکر ہے کہ اس کا دامن پیچھے سے پھٹا اور یہ گریباں چاک نفس کے شر سے نبرد آزما اپنی فطری معصومیت کی حفاظت میں کنجِ  قفس کو اس نے اہمیت دی اور گوشہ نشین ہو گیا اور جب ساتھ دبلی گائیں سات موٹی گایوں پر ’’شب خون‘‘ مارنے لگیں تو سوائے اس کے شہر میں کوئی اور تعبیر دینے والا باقی نہ رہا۔ اسی نے اس کنج بے آباد کو لائقِ  اعتنا بنایا عزیزانِ  بے ادب کو اپنی تخلیقی تعبیرات سے روشناس کروایا۔ اب سارا شہر اس کے فکر و فن کا لوہا ماننے لگا۔ اس کی ہر فن مولائی حیثیت ہر فرعون و نمرودِ ادب سے داد پاتی رہی۔ یہ وہی خوش مذاق، خوش سخن، خوش اخلاق، خوش فکر و خوش ادا شخصیت ہے جسے دنیا ئے فکرو فن علیم صبا نویدی کے نام سے جانتی ہے۔ یہ بھلے ہی یوسف نہ سہی ادب کا ابویوسف ضرور ہے۔ جس کی ایک جنبشِ  قلم سے اسلاف کی کنیز کا ’’باب الداخلہ‘‘ اخلاف کی دستک پر کھل جاتا ہے۔ نتیجتاً ابویوسف کا منہ موتیوں سے بھر جاتا ہے کہ اس نے وہ دروازہ بڑے سلیقے سے کھول دیا جسے بند سمجھا جاتا تھا۔ اس نے ہر صنف سخن میں نئے نئے در یچے وا کیے۔ کلمۂ حق سے رد کفر کیا۔ اور خود کو شناخت کی حدوں میں لایا۔

یہ سب اہلِ ادب کب مانتے تھے

بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں

حمد و مناجات، نعتیہ سانیٹ، ہائیکو، آزاد غزل، نظم و غزل کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں علیم صبا نویدی نے اپنی پہچان نہیں کروائی۔ اب نثری نعتوں کا ایک انوکھا تجربہ ان کا شناس نامہ بن گیا ہے

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر         نظم حسرت میں کچھ مزہ نہ رہا

علیم کی نثری نظم کی ہئیت میں لکھی ہوئی نثری نعتیں بھی چونکا تی ہیں۔ ان میں ایسی روانی ہے کہ قاری کو جو ہر شناس بنانے لگتی ہے۔

میرا رشتہ

مسکراتے پھولوں سے

ہنستی کلیوں سے

بہاروں کی کونپلوں سے

پیڑوں کی چھاؤں سے

خوشبو دار گاؤں سے

سرسبز و شاداب کھیتوں سے

ہری بھری پگڈنڈیوں سے

بہتی ندیوں سے

کہسار کے آبشاروں سے

جاگتے تالابوں سے

لہراتی جھومتی صبحوں سے

سرمست مہکتی شاموں سے

میرا رشتہ ہے مضبوط بہت

میں سب سے ہوں مربوط بہت

میری ذات میں نورِ نبی ہے

میرا مقدر جو ہری ہے                    (جوہری مقدر)

علیم کا ’’مقام لا ‘‘ بھی سوچنے پر مجبور کرنے والا ہے۔

نعتِ  نبی لکھتے لکھتے

سرشاری کیفیتیں

مجھ پر طاری ہو گئیں

اور میں

میں نہ رہا

علیم صبا اسے ماحول اور ایسے بے حس معاشرے سے نالاں ہے جو کتاب و سنت کا ادراک نہیں رکھتا اور جو اس ’’نور‘‘ سے نابلد ہے جو ظلمتوں کو دور کرنے کے لیے بھیجا گیا۔

علیم کہہ اٹھتے ہیں :

اس کی زبان نوچ لو

اس کے ہاتھ قلم کر دو

اس کے احساس کو سولی پر چڑھا دو

اس کی فکر زندہ درگور کردو

اس کے اظہار کو سیاہی کا کفن پہنادو

اس کے جذبوں کو گرم سلاخوں پر رکھ دو

وہ اپنے آباء و اجداد کی تہذیبوں کا دشمن ہے

وہ ان کے صالح روایات کا مخالف

وہ ان کے علمی اثاثے کا نا قدر داں

وہ ان کے آثارِ قدیمہ کا منکر

وہ حضور کے فیضان سے محروم

وہ زندہ ہے مگر مردوں میں شامل

(محروم فیضانِ  رسول)

جس طرح آنکھ والا اور اندھا برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح زندہ اور مردہ مساوی نہیں۔ اسی لیے علیم صبا نویدی کہتا ہے:

اے میرے محبوبِ  خدا

میرا ماحول تعفن آمیز

میرے گھر کے لوگوں کے دل زنگ آلود

درو دیوار شکوک آور

بستر گناہوں سے ملوث

نیند یں چاک گریباں

خواب برہنہ

جسم ناپاک

آرزوئیں صد چاک

راتیں بیوہ

دن مخنث

عبادت گاہوں سے دور

رہنے والوں کے پاس

نہ خوفِ  خدا نہ حبِ  رسول

ہر طرف دھواں ہی دھواں

اے میرے محبوبِ  خدا

اک نظر۔ عنایت کی۔ اس طرف بھی

 

علیم نے بے رسول و بے خدا معاشرے کا خاکہ کھینچ کر اس کے دن رات کی علامتی کیفیت بیان کر دی۔

 

شاید قافیہ و ردیف کی پابندی کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کھل کر کہہ نہ پاتے جو ان نثری نعتوں میں کہہ گئے۔ اس طرح ان نثری نعتوں کا جواز نکل آتا ہے۔ کوئی خواجہ غریب نواز ہے، کوئی خواجہ بندہ نواز ہے تو علیم صبا نویدی ’’خواجہ ادب نواز ‘‘ ہے۔ KGN  اور  KBN  کی طرح  KAN  کا نام جنوبی ہند کے منظر نامے کا ایک اہم حصہ بن کر زندہ و تابندہ رہے گا۔ ٹامل ناڈو کی سرزمین سے ابھرنے والا یہ خواجہ، ادب کے کوفہ و بغداد میں کبھی بھلا یا نہ جا سکے گا اس کی خواجگی سے انکار کوئی دشمنِ  ادب ہی کرسکتا ہے۔

خواجہ ادب نواز (KAN)علیم صبا نویدی کے ملفو ظات و مکتوبات و تصنیفات و تالیفات بے شمار ہیں۔ ایک تخلیق کی ابھی آنول نہیں کٹنے پاتی ہے کہ دوسری تخلیق کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اس نارنگی و نیرنگی شخصیت کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں کئی با اثرؔ راہیؔ اور جاویدائیں ہیں جو اس کے نام اور کام کی تشہیر کرتی رہیں گی۔ ویسے یہ کام وہ خود بھی احسن طریقے پر ایک زمانے سے انجام دیتا آ رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کبھی منظر نامہ سے محو ہونے نہیں دیتا اور نہ اپنے مقام کو اردو ادب کے نقشے میں بے نشان ہونے دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

اصلی نام      :      محمد عبدالرؤف

قلمی نام        :      رؤف خیرؔ

ولدیت      :      محمد ابو بکر صاحب

تاریخ پیدائش  : ۵؍نومبر ۱۹۴۸ء

مقام پیدائش   :  حیدرآباد دکن

تعلیم          :ایم اے۔ اردو (عثمانیہ ) ایم اے۔ فارسی(مولانا آزاد یونیورسٹی، حیدرآباد) لکچرر اردو، موظف

حیدرآبادیونیورسٹی نے ’’رؤف خیر شخصیت اور فن ‘‘ پر صبیحہ سلطانہ کو ایم فل کی ڈگری کا مستحق قرار دیا۔

ہندو پاک اور کل ہند شاعروں کے علاوہ انڈین ایمبسی کی دعوت پر جدہ، ریاض، مکہ اور مدینہ کے مشاعروں میں شرکت کی۔ تصنیفا تِ خیر:

(۱)       اقراء                             ۱۹۷۷ء  شعری مجموعہ

(۲)      ایلاف                           ۱۹۸۲ء  شعری مجموعہ

(۳)     شہداب                          ۱۹۳۳ء  شعری مجموعہ

(۴)     حیدرآباد کی خانقاہیں ۱۹۹۴ء  تحقیقی مقالہ

(۵)     خطّ خیر                           ۱۹۹۷ء  تنقیدی مضامین

(۶)      قنطار                              ۲۰۰۱ء

(علامہ اقبال کے ۱۶۳  فارسی قطعات ’’لالہ طور‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ )

(۷)     سخنِ  ملتوی                                  ۲۰۰۴ء  شعری مجموعہ

(۸)     دکن کے رتن اور اربابِ  فن          ۲۰۰۵ء  تنقیدی مضامین

(۹)      بچشمِ  خیر                                    ۲۰۰۵ء  تنقیدی مضامین

(صبیحہ سلطانہ کا مقالہ ’’متاع خیر ‘‘ کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ۲۰۰۵ء میں شائع ہو چکا ہے )

(۱۰)    خیریات                                     ۲۰۱۰ء  شعری مجموعہ

(۱۱)     حق گوئی و بے باکی                        ۲۰۱۲ء  تنقیدی مضامین

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید