FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دو جنموں کی کتھا

 

(ستیہ پال آنند کی ’چار جنموں کی کتھا‘ سے مقتبس)

 

 

ستیہ پال آنند

 

 

 

 

کتھا پہلے جنم کی

 

 

۱۹۳۶ء

 

میں اپنے گھر کی ڈیوڑھی سے نکلتا ہوں۔ میری عمر پانچ برس ہے۔ میرے ہاتھوں میں بڑھئی کا بنایا ہوا ایک نیا ڈنڈا ہے اور بے حد پتلی، ہلکی پھلکی گلی ہے جسے بڑی محنت سے تراشا گیا ہے۔ صحن میں کھیلتے ہوئے میری گٍلی دالان میں چرخہ کاتتی ہوئی دادی ماں ’’بے بے ‘‘ کو لگتے لگتے بچ گئی تھی، اس لیے مجھے ڈانٹ پلائی گئی تھی کہ اگر مجھے گلی ڈنڈا کھیلنا ہے تو باہر گلی میں جا کر کھیلوں۔

ڈیوڑھی سے باہر نکلتے ہی میں دیکھتا ہوں کہ تنگ پتھریلی گلی کے ایک کونے پر پھلوؔ لکھّے ( تیلی) کے گھر کے سامنے اپنے گھر کی ڈیوڑھی سے جھانکتا ہوا ڈّبا کھڑا ہے اور دوسرے کونے پر رام چند بھسین کے گھر کے دروازے کی اوٹ میں، بظاہر اس سے بے پروا کالوؔ کھڑا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ان کو للکاروں کیونکہ مجھے علم ہے وہ مجھ سے گلی ڈنڈا چھیننے کی تاک میں ہیں۔ وہ دونوں مجھ سے دو تین برس بڑے ہیں اور انہیں للکارنے کے ارادے کے باوجود مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ روہانسا سا ہو کر میں اندرواپس آ جاتا ہوں، اور گلی ڈنڈے کو صحن میں پھینک کر خود سے تین برس بڑی بہن کی طرف لاچاری سے دیکھتا ہوں اور بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے :

کتھّے ونجاں ڈاڈھیاربّا   اندر کالو، باہر ڈبّا

میری بہن چونک کر میری طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے :

واہ او ست پا لیا         توں تاں ہک بیت بنا لیا

گاؤں کی اکھڑ زبان میں بیت بازی کی یہ شروعات ہے !

٭٭

 

۱۹۳۷ء

 

مجھے چاچا بیلی رام اسکول داخل کروانے کے لیے لے جا رہے ہیں۔ میں نے سفید قمیض اور خاکی رنگ کا نیکر پہنے ہوئے ہیں۔ ایک ہاتھ میں پُچی ہوئی تختی ہے، دوسرے میں ایک پیسے میں خریدا ہوا نیا اردو کا قاعدہ ہے۔ سلیٹ کی پڑھائی دوسری جماعت سے شروع ہوتی ہے، اس لیے مجھے سلیٹ اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑی۔ مجھے شاید زکام ہے، کیونکہ میں بار بار رو مال سے اپنی ناک پونچھ رہا ہوں۔

چاچا بیلی رام کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے میں ان منے دل سے یاد کر رہا ہوں کہ اگر مجھے اس دن اسکول نہ جانا ہوتا تو میں گلی ڈنڈا کھیل رہا ہوتا۔

چاچا بیلی رام کی کریانے کی دکان ہے۔ وہ در اصل میرے مرحوم دادا کے بھائی ہیں۔ لیکن گاؤں میں سبھی ان کو چاچا بیلیؔ ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ نکھٹو سمجھ کر کوئی بھی اپنی لڑکی ان کے ساتھ بیاہنے کو تیار نہیں ہوا۔ اب پچاس کے پیٹے میں ہیں۔ ساری عمر اسی طرح گذار دی۔ دو بار راولپنڈی جا کر خدا جانے کس جات کی یا کس مذہب کی’ ادھ کھڑ ‘ عورتیں خرید لائے، شاید دو دو سو روپے میں۔ لیکن دونوں کچھ دن ان کے ساتھ رہنے کے بعد بھاگ گئیں۔ ایک تو ان کے کان میں ڈالی ہوئی سونے کی مُرکی بھی کھینچ کر اتار لے گئی۔ کہا جاتا تھا کہ وہ مونچھوں والے ہٹے کٹے نورےؔ  نائی کے ساتھ بھاگی تھی۔ نورا تو کچھ دن کے بعد گاؤں لوٹ آیا لیکن اس عورت کا کچھ پتہ نہ چلا۔ اس کے بعد چاچا بیلی رام نے شادی کے نام سے توبہ کر لی۔ کہا جاتا تھا کہ پنڈی گھیب میں کوئی چمارن ہے جو ایک روپے کے عوض اپنے ساتھ رات گذارنے دیتی ہے۔ ایسا کچھ ساتھی لڑکوں سے سنا تھا کہ چاچا بیلی رام بھی مہینے میں ایک آدھ بار وہاں جاتے ہیں۔ تب میں نے ایک بیت بھی موزوں کیا تھا، جو گھر والوں یا چاچا بیلی رام کو تو نہیں، لیکن اپنے کھیل کے سب ساتھیوں کو سنایا تھا۔

۰؎ خرچیا ہک روپّیہ سارا : چاچا بیلی ہجے کنوارا

(ایک روپیہ، پورے کا پورا خرچ بھی کر لیا : چاچا بیلی پھر بھی کنوارے کا کنوارا ہی رہا)

 

میں نے اسکول میں نے پہلی بار منشی رستم خان صاحب کو چمڑے کی منڈھی ہوئی کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ ان کے بارے میں باتیں ضرور سنی تھیں کہ جب لڑکوں کو بید سے مارتے ہیں تو ہاتھ سوج جاتے ہیں۔ مرنجان مرنج آدمی تھے اور ڈھلتی عمر نے انہیں کچھ اور بھی ضعیف بنا دیا تھا، لیکن اس لاغرالجسہ شخص کے سامنے میز پر ایک ڈنڈا رکھا ہوا تھا، جو اس کی طاقت کا اصلی مظہر تھا۔ میں اسکول جانے والے ساتھی لڑکوں سے سن چکا تھا کہ اس ڈنڈے کا نام مولا بخش ہے۔ یہ بھی افواہ تھی کہ رستم خان صاحب نہ بھی دیکھیں تو ڈنڈا خود بخود ہلنے لگتا ہے۔ یعنی ڈنڈے کی ایک آنکھ ہمیشہ کھلی رہتی تھی اور وہ منشی صاحب کو بتا دیتا تھا کہ کس لڑکے نے شرارت کی ہے۔ میں نے ایک بیت مولا بخش کی کارکردگی پر بھی موزوں کیا تھا۔

۰ڈنڈا ویکھے اکھ اگھروڑ: دل کردا ے، جاواں دوڑ۔ (اگر ڈنڈا ذرا سی بھی آنکھ کھول کر دیکھے : تو جی چاہتا ہے میں بھاگ جاؤں )

 

اسکول کی پڑھائی چلتی رہی۔ مجھے ابجد سیکھنے میں تو دو دن لگے کیونکہ میں پہلے ہی گھر میں اپنی ماں سے نہ صرف اردو ابجد سیکھ چکا تھا بلکہ تختی پوچ کر خوشخط لکھ بھی سکتا تھا۔ میری ماتا جی اردو پڑھ لکھ لیتی تھیں اور نوشہرہ چھاؤنی میں میرے بابو جی اور کوٹ سارنگ میں میری ماتا جی کے درمیان خط و کتابت اردو میں ہی ہوتی تھی۔ منشی رستم علی خاں خوش تو بہت ہوئے لیکن جب ’’پہاڑے ‘‘ سیکھنے کا وقت آیا تو جیسے مجھے سانپ سونگھ گیا۔ میں تختی پر یا سلیٹ پر بغیر کسی تردد کے پہاڑے لکھ سکتا تھا لیکن دوسرے لڑکوں کے ساتھ سر میں سر ملا کر گا نہیں سکتا تھا۔ اس لیے جب دوسرے لڑکے ایک ساتھ آواز ملا کر اونچی آواز میں کہتے : ’’دو دُونے چار‘‘ تو میں چپکا بیٹھا رہتا۔ منشی جی تو اونگھ رہے ہوتے لیکن مجھے لگتا جیسے مولا بخش میری جانب ایک ٹک دیکھ رہا ہے اور ہل رہا ہے، تب میں بھی ہونٹوں ہونٹوں میں ہی بدبدانے لگتا، ’ دو دوُنے چار، تین دُونے چھ، چار دوُنے اٹّھ۔۔۔۔ ‘‘

پڑھائی چلتی رہی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے، جب تختی پر صحیح املا لکھنے اور ایک بھی غلطی نہ کرنے پر منشی صاحب نے میری پیٹھ ٹھونکی تھی۔ لیکن جب حساب کے سیدھے سادے، یعنی جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم کے سوالوں کا وقت آتا تو سارے پہاڑے یاد ہونے کے باوجود میں غلطیاں کرتا اور شرمندگی سے میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے، میں حساب میں کبھی اچھے نمبر نہ لے سکا اور کورے کا کورا ہی رہا۔ ساری جماعت میں ایک میں ہی تھا جو اردو کی دوسری، تیسری، حتیٰ کہ چوتھی جماعت کی اردو کتاب بھی روانی سے پڑھ سکتا تھا، لیکن حساب کے مضمون میں کوئی ایسی گانٹھ تھی جو میری سمجھ اور لیاقت کی رسی پر بندھی ہوئی تھی، یعنی سمجھ آ جانے کے باوجود سوال حل کرتے ہوئے میں غلطی کر جاتا تھا۔

چھُٹّی ہونے پر سارے لڑکے اپنے اپنے بستے باندھ کر دوڑتے ہوئے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ کچھ لڑکے گاؤں کی ساتھ والی ڈھوک سے آتے تھے، لیکن زیادہ کوٹ سارنگ کے ہی ہوتے تھے۔ میں بھی بستہ باندھ کر دوڑتا لیکن سیدھا گھر جانے کے بجائے سناروں کی دکانوں کے ساتھ والی گلی میں مڑ جاتا۔ وہاں میری پھوپی بخت بی کا گھر تھا۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی میں بستہ چارپائی پر پھینکتا اور ایسے زور زور سے سانس لیتا جیسے دوڑ دوڑ کر تھک گیا ہوں۔ میری پھوپی چھاچھ کا بھرا ہوا پیتل کا گلاس، جس میں مکھن کی ڈلی تیر رہی ہوتی، میرے ہاتھ میں پکڑاتی اور کہتی، ’’لے پُتر، لسّی پی لے، تھوڑا دم لے، پھر گھر چلے جانا!‘‘ گھر کا ہے کا؟ میں لسّی کا گلاس ختم کرتے ہی گلی ڈنڈا اٹھاتا اور اکیلے ہی صحن میں کھیلنے لگ جاتا۔ کئی بار پڑوس کا ایک ہم عمر لڑکا فضلوؔ بھی میرے ساتھ کھیلنے آ جاتا۔

گھنٹہ، دو گھنٹے۔۔۔۔ جب شام ڈھلنے لگتی، تو میری پھوپی جو اندر کمرے میں دوپہر کی نیند پوری کر رہی ہوتی، آنکھیں ملتی ہوئی باہر نکلتی۔ ’’اللہ کی مار اس گلی ڈنڈے پر!‘‘ وہ کوسنے دیتی۔ ’’اوئے نا مراد، تو ابھی تک اپنے گھر نہیں گیا؟ تیری ماں تیرا راستہ دیکھتی ہو گی، جا جلدی سے، نہیں تو مجھے گلے گلامے ملیں گے کہ میں راستے میں تم کو روک لیتی ہوں۔ تیرے بابو جی بھی گھر نہیں ہیں۔ تو ہی تو بڑا بیٹا ہے۔ ماں کا خیال رکھا کر۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ جو ماں کا کہنا نہیں مانتا، وہ نہ اس جہان کا نہ اگلے جہان کا!‘‘ اور وہ جلدی سے مجھے میرا بستہ پکڑا کر دروازے سے باہر کر دیتی۔ سن سن کر میرے کان پک گئے۔ قرآن شریف میں یہ آیا ہے، وہ آیا ہے۔ ایک دن میں نے اپنی ماتا جی سے پوچھا،  ’’ماں، یہ قرآن کیا ہے ؟‘‘ ماتا جی نے دلار سے کہا، ’’ارے ست پال۔ تو نہیں جانتا ہے، جیسے سکھوں کی متبرک کتاب گُرو گرنتھ صاحب ہے، یا ہم ہندوؤں کی بھگوت گیتا ہے، ویسے ہی مسلمانوں کی قرآن ہے، جس میں بہت اچھی اچھی باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ ‘‘ میں پھر بھی نہ سمجھ سکا، اور میں نے پوچھا، ’’ہندو کیا ہوتا ہے ؟‘‘ ماں نے کہا، ’’جیسے کہ ہم ہیں۔ ہم ہندو ہیں، اور تیرے ننھیال سکھ ہیں، جو بال نہیں کاٹتے اور داڑھی بھی رکھتے ہیں اور پگڑی باندھتے ہیں۔ ‘‘ ’’اور مسلمان کون ہیں ؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔ ’’جیسے تیری پھوپی بخت بی ہے۔ ‘‘ میری ماں نے کہا۔ میرے ذہن میں منطق نے جیسے پہلی بار انگڑائی لی، میں نے ماں سے پوچھا، ’’اچھا، اگر پھوپی مسلمان ہے، تو وہ میری پھوپی کیسے ہوئی؟ ‘‘ ماں نے دلار سے میرا ما تھا چوما، ’’وہ اس لیے کہ وہ تیرے بابو جی کی منہ بولی بہن ہے۔ بابو جی تو اکیلے ہیں نا؟ ان کا بھائی بہن کوئی نہیں ہے، اس لیے انہوں نے بخت بی بی کو اپنی بہن مانا ہوا ہے، اس سے راکھی بھی بندھواتے ہیں۔ یوں بھی ہماری زمینوں کی کاشت ان کا خاندان ہی کرتا ہے۔ دیکھتے نہیں تم، جب وہ نوشہرہ سے آتے ہیں تو تیری پھوپی کے لیے کتنے تحفے لاتے ہیں !‘‘

مجھ آٹھ برس کے بچے کے ذہن میں ہندو، مسلمان، سکھ کا خیال اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا، لیکن میں نے اس بات کا ذکر بخت بی پھوپی سے کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ یہ بات میرے ذہن میں کھلبلی مچاتی رہی کہ میرے گھر میں بھگوت گیتا بھی ہے، گرو گرنتھ صاحب بھی میں ماں کے ساتھ گوردوارے میں جا کر دیکھ چکا ہوں، لیکن میں نے قرآن نہیں دیکھا۔ تو قرآن، جس میں اتنی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں، دیکھنا اور پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ اور میں تو اردو بخوبی پڑھ لیتا ہوں، قرآن پڑھنا کون سا مشکل ہو گا؟

٭٭

 

۱۹۳۹ء

 

گاؤں کے باہر مائی مولے والی بنھ (پانی کے باندھ کا پنجابی لفظ)۔ ایک جھیل سی، جس میں آبی پرندے تیرتے ہیں۔ میں کنارے کے ایک پتھر پر پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں۔ مرغابیاں بولتی ہیں، تو میں ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاتا ہوں۔ گاؤں کی عورتیں بڑے بڑے پتھروں پر اپنے میلے کپڑے قینچی مارکہ صابن سے رگڑ رگڑ کر دھو رہی ہیں۔ یہ سبھی اس کی موسیاں، چاچیاں، بھابھیاں، پھوپھیاں اور تائیاں ہیں۔ کچھ ہندو یا سکھ ہیں، لیکن مذہب کے حوالے سے انہیں کوئی نہیں پہچانتا، کیونکہ سبھی گوردوارے میں بھی جاتی ہیں اور جو گیوں کی درگاہ میں بھی شو لنگ پر جل اور پرشاد چڑھانے کے لیے حاضری دیتی ہیں۔۔۔ میری کتابوں کا بستہ ایک طرف رکھا ہوا ہے۔ گاؤں کے باقی سب لڑکے اس وقت اسکول میں ہیں، مگر میں اسکول سے بھاگا ہوا ہوں۔ بھائی کے ساتھ جاتے جاتے میں اس کی نظر بچا کر بخت بی پھوپی کے گھر کی طرف مڑ گیا تھا جیسے ماں کا کوئی پیغام اسے دینا ہو، اور پھر گلی کا موڑ مڑتے ہی مولے والی بنھ کی طرف کو ہو لیا تھا۔

 

مولے والی بنھ پر ایک معجزہ

 

دوب، کائی

سرسراتی جھاڑیاں

چڑیاں پھدکتیں، چہچہاتیں

تتلیاں رنگین، کالے ڈنک والی مکھیاں، پیلے مکوڑے

سوکھتے کیچڑ پہ بھینسوں کے کھُروں کے نقش، گوبر کی غلاظت

دھول، مٹّی سے اٹی پگڈنڈیاں۔۔۔۔

چیونٹے، قطار اندر قطار آتے ہوئے اک بل کی جانب

ماہیا گاتا ہوا لڑکا، گڈریا

آگے آگے بکریاں کچھ مینگنی کرتی ہوئیں

کچھ منمناتیں

پیچھے پیچھے بھیڑیے جیسا بڑا، خونخوار کتّا

 

کیسا بے ہنگم سا، بے ترتیب بکھراؤ

سرکتی، رینگتی، اڑتی، ہمکتی زندگی، جو

جھیل کے پانی کی ٹھنڈک سے، ہوا سے

سانس کا وردان لینا جانتی ہے !

 

باندھ کے اک بھُربھرے ٹیلے پہ بیٹھا

آٹھ سالہ نوجوان، وہ بھی ہمکتی زندگی کا ایک حصّہ

دور جاتے ماہیے کے دھیمے پڑتے بول کی سنگت میں اڑتا   تتلیوں کی رنگ ریزی کی دھنک سے کھیلتا۔ ..۔

چڑیوں کی چوں چوں کے سُروں میں سُر ملاتا

مکھّیوں کے ڈنک سے بچتا بچاتا

اور سطح آب پر ٹھنڈی ہوا کے

ہلکے ہلکوروں پہ اڑتا

جھیل کے پانی کے چکنے جسم کو چھوتا، پھسلتا

جاتے جاتے اس جگہ پر رک گیا ہے

جس جگہ مرغابیاں اک جھنڈ کی صورت میں بیٹھی تیرتی ہیں

(لمبے رستوں کے مسافر، یہ پرندے

کچھ دنوں کے واسطے ہی یہ پڑاؤ ڈھونڈتے ہیں !)

 

یہ پرندے، اپنی لمبی گردنیں پانی میں ڈالے

غوطہ زن ہو کر ابھرتے ہیں

تو اس کو ایسے لگتا ہے کہ جیسے

جھیل کے پانی سے چاندی کے کٹورے اُگ رہے ہوں

دودھ کے ہلکے پھوارے پھوٹتے ہوں

سیم تن پریاں ’’چھُوا چھُو‘‘ کھیلتی ہوں

 

کاش اس برکاۃ کے لمحے میں، مولا

معجزہ اک رونما ہو

کاش میں چولا بدل کر (اس نے سوچا)

جھیل کے پانی میں اپنی لمبی گردن کو ڈبو دوں

اور جب ابھروں

تو میرے جسم پر سیمیں پر پرواز ہوں

برّاق برفوں کی چمک پہنے ہوئے

بے تاب اڑنے کو، مرے مولا

مرا مرغاب دل یہ چاہتا ہے !!

 

کہا تھا منشی رستم خان صاحب نے، یہ بچہ غبی الذہن ہے۔ کچھ نہیں آتا اسے۔ صرف اردو اچھی لکھ سکتا ہے۔ صرف خوشخط ہے، لیکن حساب میں نا لائق ہے۔ ڈرل کے پیریڈ سے ہمیشہ بھاگا رہتا ہے۔ کچھ نہیں بن سکے گا یہ! اپنے باپ داد اکا نام روشن نہیں کرے گا۔ اس کا دادا کابل تک تجارت کرتا تھا۔ اس کا باپ وکیل بن کر نوشہرہ میں اپنا خاص سماجی مقام بنائے ہوئے ہے۔ اس کا نانا ’’سرداربہادر‘‘ کہلاتا ہے، جو خان بہادر یا رائے صاحب کے برابر خطاب ہے۔ اس کی والدہ بھی پڑھی لکھی ہے اور جاٹ عورتیں میدان جنگ سے اپنے شوہروں کے آئے ہوئے خطوط اس سے پڑھوانے آتی ہیں۔ کچھ نہیں بن سکے گا یہ! باپ دادا کے نام کی لٹیا ڈبو دے گا۔ بس ایک آوارہ گردی ہی اس کا مشغلہ ہے۔ کاش میرا مولا بخش اسے سیدھی راہ پر لا سکتا۔ لیکن ہتھیلیوں پر ڈنڈے کھا کھا کر بھی ویسے کا ویسا بدھو ہے۔۔۔۔۔۔

 

یہ غبی الذہن بچہ

 

اس غبی الذہن بچے کو تو میں پہچانتا ہوں

ناک سوں سوں، آنکھ روں روں

جب یہ پہلے بار مدرسے گیا تھا

کپکپاتے ہاتھ میں بستہ اٹھائے

دوسرے میں سوکھتی، آدھی پُچی تختی کو تھامے

صاف کپڑوں میں سجے سنورے ہوئے وہ

چاچا بیلی رام کی انگلی پکڑ کر

ڈرتے ڈرتے، ان منے قدموں سے یوں چلتا دکھائی دے رہا تھا

جیسے بکرے کو کوئی بے درد بوچڑ کھینچ کر لے جا رہا ہو

پانچ سالہ، اچھے اونچے قد کا، گورے رنگ کا لڑکا تھا یہ

لیکن پڑھائی سے اسے کچھ دشمنی تھی

یہ غبی الذہن بچہ کس قدر حسّاس تھا

کوئی نہیں یہ جانتا تھا

یہ نہیں سمجھا تھا اس کے باپ نے

بہنوں نے، ماں نے

یا مدّرس مُنشی رستم خان صاحب نے

کہ یہ بچہ

مدرسے کے دوسرے بچوں سے آخر مختلف کیوں ہے۔۔۔۔۔

اسے سولہہ تلک سارے پہاڑے یاد تو رہتے ہیں، لیکن

کیوں نہیں پڑھتا بلند آواز میں

سب دوسرے لڑکوں کی لے میں لے ملا کر؟

کیوں یہ بچہ نیلگوں آکاش پر اک ٹک نظر گاڑے ہوئے

گھنٹوں تلک بادل کے ٹکڑوں کی شبیہیں دیکھتا ہے ؟

باجرے کے کھیت میں

آزاد ہرنوں کی طرح کیوں دوڑتا ہے ؟

جھاڑیوں میں اُڑ رہے رنگین ’’بھمبھیروں ‘‘ کے پیچھے

ننگے پاؤں بھاگنے کو کیوں مچلتا ہے ؟ اسے کیوں

دیووں، پریوں، ڈاکوؤں کے کارناموں کی کتابیں

ممٹیوں کی اوٹ میں چھپ چھپ کے پڑھنے کا جنوں ہے ؟

کیوں یہ پہروں باندھ کے عقبی کنارے کے سلیٹی پتھروں پر

جھیل کے پانی میں اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے

مبہوت بیٹھا

تیرتے آبی پرندوں کی زباں میں بولتا ہے

اور کمہاروں کے گھر سے

چکنی مٹی مانگ کر

شہزادیوں، پریوں، پڑوسی لڑکیوں کی

کیسی کیسی مورتیں گھڑتا ہے۔ جیسے جی اٹھیں گی!

آٹھ نو سالہ یہ بچہ

مختلف تھا گاؤں کے بچوں سے، لیکن

کیا غبی الذہن تھا؟

میں خود سے مڑ کر پوچھتا ہوں !

٭٭

 

۱۹۴۰ء

 

پانچویں جماعت کا امتحان نہ جانے کیسے پاس ہوا۔ مجھے یاد تک نہیں ہے کہ میرے School Leaving Certificate پر کیا لکھا ہوا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میرے بابو جی نوشہرہ چھاؤنی سے کچھ دنوں کے لیے آئے اور سب کو تیار ہونے کے لیے کہا۔ ماں، دادی اور اس سے دو برس بڑی بہن ساتھ لے جانے والا سامان باندھنے لگ گئیں۔ میں بد حواس سا کبھی ادھر دیکھتا، کبھی اُدھر دیکھتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

ہم کوٹ سارنگ چھوڑ کر کیوں جائیں ؟

’’آگے پڑھنا نہیں ہے کیا؟ یہ اسکول تو صرف پانچویں جماعت تک ہے۔ ‘‘ میری بہن نے کہا۔

’’ہاں، پڑھنا ہے، ‘‘ میں نے کہا تھا، ’’ لیکن، کیا ہم یہاں اب کبھی واپس نہیں آئیں گے ؟‘‘

’’کیوں نہیں آئیں گے ؟ ہر برس گرمیوں کی چھٹیوں میں آیا کریں گے ‘‘ میری ماں نے کہا۔

امیں نے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے لگا جیسے میرا کنچوں سے بھرا ہوا چھوٹا سا کپڑے کا تھیلا اچک اچک کر مجھ سے کہہ رہا ہو، ’’مجھے ساتھ لے جانا نہ بھولنا۔ وہاں بھی سنگ سنگ کھیلیں گے ‘‘۔ گلی ڈنڈا دالان میں اکٹھے پڑے تھے۔ گلی جیسے تلملا رہی تھی، میری آنکھوں کو شاید دھوکہ ہوا ہو، لیکن مجھے لگا کہ ڈنڈا تو چُپکا پڑا رہا، لیکن گلی اچھل کر میرے پاؤں کے پاس آ گری۔ بولی، ’’ہونھ، ہونھ، میں بھی ساتھ چلوں گی۔ ڈنڈے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں، وہاں کوئی ترکھان کہاں ہو گا، جو نئی گلی بنا دے گا۔ مجھے ابھی سے اپنی کتابوں میں یا کپڑوں میں چھپا دو۔ ماں نے دیکھ لیا، تو نہیں لے جانے دے گی۔ ‘‘ میں نے دیوار پر نظر دوڑائی۔ میرے پتنگ کی مانجھا لگی ڈور کی چرخڑی دیوار پر ایک کیل کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔ پتنگ نیچے زمین پر پڑا تھا۔ مجھے لگا جیسے پتنگ کو شاید ہوا کے ایک نا دیدہ جھونکے نے اڑا دیا ہو اور وہ میرے پاؤں کے پاس آ گرا ہو۔ لیکن نہیں، پتنگ تو وہیں پڑا تھا، ہوا کے جھونکے نے اسے ہلا دیا تھا اور وہ پھڑپھڑا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ پتنگ کی بولی صرف میں ہی سمجھ سکتا تھا، کوئی اور نہیں۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’وہاں بھی تو میں نے ہی دوسرے پتنگ بازوں کے بو کاٹے کرنے ہیں۔ مجھے کیسے نہیں لے جاؤ گے۔ نہیں لے جاؤ گے، تو میں خود اُڑ کر آ جاؤں گا۔ ‘‘

میں نے اتنی ہوشیاری ضرور کی تھی کہ گلی کو اور آدھے درجن بنٹوں کو اپنے کپڑوں والے بکس میں چھپا دیا تھا، لیکن ڈور کی چرخڑی بہت بڑی تھی اور جب مجھے اس کے لیے کوئی جگہ نہ ملی تو میں نے دادی کی منت سماجت کی، لیکن دادی۔ جس نے زندگی میں کبھی غصہ نہیں کیا تھا، کبھی اونچی بولی تک نہیں تھی، کہنے لگی، ’’مجھے یہیں چھوڑ جاؤ بیٹے، اور میری جگہ اپنی اس ڈور کو لے جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں، قسمت کی ماری بدھوا، آج تک میں نے کوٹ سارنگ سے پاؤں باہر نہیں نکالا۔ صرف ایک بار کلر کہار کے کٹاس راج میلے پر گئی تھی، گھوڑی پر بیٹھ کر، پر تب تمہارے دادا زندہ تھے، پٹھان ڈاکوؤں نے انہیں گولی سے نہیں مارا تھا۔ اب میری مٹی کیوں خراب کر رہا ہے تمہارا باپ؟ اس سے پوچھو، مجھے نوشہرہ ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ مجھے یہیں چھوڑ جاؤ۔ گھر ہے، اناج ہے، گائے ہے، ان سب کی نگہبانی کون کرے گا۔ ‘‘

اور میں نے واقعی ہمت کر کے ماں سے بات کی۔ بابو جی سے بات کرنے کی جرأ ماں نے کہا۔   jnowN ny s ki faul fraom ki

عجاز عبیدت مجھ میں نہیں تھی۔ ماں اور بابو جی کے بیچ کچھ کہا سنی بھی ہوئی، لیکن آخر یہی طے ہوا، کہ بے بے یعنی دادی ماں کو کوٹ سارنگ میں ہی رہنے دیا جائے۔ ان کی ست سنگنی دوسری عورتیں بھی ہیں، روز آ جایا کریں گی اور چرخوں کا ’’بھنڈار‘‘ لگایا کریں گی۔ یعنی مل جل کر پانچ چھہ عورتیں اپنے اپنے چرخوں پر سوت کاتیں گی اور بعد میں دیکھیں گی، کس نے زیادہ سوت کاتا ہے۔

دوسرے دن انہیں لاری پر لد کر پنڈی گھیب کے لیے روانہ ہونا تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ پنڈی گھیب سے بس بدل کربسال جائیں گے، اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑیں گے جو انہیں نوشہرہ تک لے جائے گی۔ میں نے ریل گاڑی کبھی دیکھی نہیں تھی، تو بھی اس کی تصویریں ضرور دیکھی تھیں۔ میں جانتا تھا کہ بھاپ سے چلتی ہے اور کوئلہ انجن میں رکھے ہوئے پانی کے ایک ٹینک کو لگاتار ابالتا رہتا ہے، جس سے بھاپ بنتی ہے۔

 

کہاں جا رہے ہو؟

 

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

یہ آواز کس کی ہے ؟ کس نے کہا ہے ؟

وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کوئی تو ہو گا

مگر اک گھڑی دو گھڑی کے لیے وہ اکیلا ہے گھر میں

سبھی لوگ گاؤں میں سب سے بدا ئی کی خاطر گئے ہیں

’’کہاں جا رہے ہو مجھے چھوڑ کر یوں اکیلا؟‘‘

کوئی تو مخاطب ہے اس سے !

سراسیمہ، تنہا، ذرا سہما سہما، اسے اپنی گونگی زباں جیسے پھر مل گئی ہو

وہ کہتا ہے، ’’جو کوئی بھی ہو نظر آؤ، میں بھی تو دیکھوں !‘‘

’’میں چاروں طرف ہوں تمہارے

مرے دل کے ٹکڑے، مری آل اولاد، بیٹے !

تمہیں کیا مرے دل کی دھڑکن

مرے سانس کا دھیما، کومل سا سرگم

مرے جسم کی عطر آگیں مہک

جیسے صندل کی لکڑی میں بٹنا گھسا ہو۔۔۔۔

مرا کچھ بھی کیا تیرے احساس کو جگمگاتا نہیں، اے مرے دل کے ٹکڑے ؟

میں گھر ہوں، مکاں ہی نہیں، تیرا مسکن ہوں، بیٹے !

مری چھت کے نیچے ہی پیدا ہوا تھا

یہیں تیری نشاۃ اولیٰ نے تجھ کو جگا کر کہا تھا

ذرا آنکھ کھولو، تمہاری ولادت ہوئی ہے !

مگر آج توُ، یوں بدا ہو رہا ہے

کہ جیسے ترا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، میرے بچے ؟ ‘‘

سنا اس نے، دیکھا کہ دیوار و در بولتے ہیں

سنا اس نے، دیکھا کہ کمرے کی چھت بولتی ہے

سنا اس نے، دیکھا ہوا سنسناتی ہوئی بولتی ہے

سنا اس نے، دیکھا کہ زینہ اترتی ہوئی دھوپ بھی بولتی ہے

سنا اس نے، دیکھا کہ پنجرے کی مینا پھدکتی ہوئی چیختی ہے، کہاں جا رہے ہو؟

سنا اس نے، دیکھا کہ آنگن کی بیری کی شاخوں میں بیٹھے پرندے

چہکتے نہیں، بس خموشی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں !

 

میں نے اپنے کان بند کر لیے۔ میں گھر سے باتیں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ اگر میں اپنی بہن کو بتاؤں گا کہ میں نے گھر سے باتیں کی ہیں، یا دروازے، دیواروں نے میرے جانے پر اپنا غم ظاہر کیا ہے، یا ہوا نے، دھوپ نے، پنجرے کی مینا نے، پرندوں نے مجھے کوسنے دیے ہیں، تو وہ ہنسے گی، کہے گی، ’’جا، پاگل جھلّے، یہ سب تیرا وہم ہے۔ تُو ہے ہی جھلّا، بیت باز!‘‘۔ لیکن کان بند کرنے کے باوجود میں یہ باتیں اپنے دل میں سنتا رہا۔ گھر مجھ سے بولتا رہا، کبھی پیار سے، کبھی غم سے اور کبھی غصے سے، یہاں تک کہ جب ہم بے بے دادی کو گھر میں چھوڑ کر لاری کے اڈے پر پہنچے تو بھی مجھے مکان کی آوازیں آتی رہیں۔ اب ان آوازوں میں گلی کی آواز بھی شامل ہو گئی تھی، گلی میں جس میں گلی ڈنڈا کھیلتا تھا، گلی جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ’’چور سپاہی بھاگم بھاگ۔ نپا گیا اے کالا ناگ‘‘ میں اپنے دوستوں کے ساتھ شام کے جھٹپٹے میں کھیلتا تھا اور ایسی ایسی چھپنے کی جگہیں تاڑ رکھی تھی کہ بہت کوشش کے بعد جب پکڑنے والا مجھے نہ پکڑ پاتا اور کہتا، ’’نکل آ چور۔ میں نے دیا چھوڑ!‘‘ تب میں ایک فاتح کی طرح کھلکھلاتا ہوا اپنی چھپنے کی جگہ سے باہر آتا تھا۔ اس گلی کی آواز بھی اب مکان کے دروازوں، دیواروں، سیڑھیوں کی آوازوں میں شامل ہو گئی تھی۔

دوسرے دن ہم سب لاری پر لد کر پنڈی گھیب کے لیے روانہ ہوئے۔ سارا سامان بابو جی کے جان پہچان کے لوگوں نے لاری کی چھت پر اطمینان سے باندھ دیا تھا۔ پنڈی گھیب سے بس بدل کر ہمیں بسال جانا تھا، اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑنی تھی جس میں ہمیں نوشہرہ تک جانا تھا۔ لاری چلی۔ کچی سڑک پر جھک جھک جھکولے کھاتی ہوئی لاری گھیبا بس سروس والوں کی تھی، جو دن میں ایک بار کوٹ سارنگ سے گذرتی تھی۔

بسال سے چلی ہوئی یہ ریل گاڑی راولپنڈی تک جاتی تھی، لیکن راستے میں ہی گاڑی بدل کر نوشہرہ اور پشاور تک جایا جا سکتا تھا۔۔۔۔۔ جوں جوں بس پنڈی گھیب کی جانب بڑھتی گئی، گھر اور گلی کی آوازیں مدھم پڑتی گئیں۔ میں بھی لاری سے باہر کے نظاروں میں کھو گیا، یہاں تک کہ آوازیں بالکل بند ہو گئیں۔ جیسے کسی نے گراموفون کے ریکارڈ سے سوئی اٹھا لی ہو۔ لگ بھگ ایک گھنٹے میں ہی لاری پنڈی گھیب پہنچ گئی اور ہم بسال جانے والی لاری کا انتظار کرنے لگے۔

تب پہلی بار دس برس کے بچے یعنی مجھے یہ غیر مرئی طور پر محسوس ہوا کہ یہ سفر ہجرتوں کے ایک لمبے سلسلے کی ابتدا ہے۔ میں کوٹ سارنگ آتا جاتا رہوں گا، لیکن اب میں پردیسی ہو چکا ہوں۔ اس گھر تک، اس گلی تک اور کوٹ سارنگ تک میرا رشتہ ایک ڈور سے بندھا ہوا ہے، جس کے آگے گانٹھ پڑی ہوئی ہے۔ اب میں کوٹ سارنگ نہیں رہ سکتا۔ مجھے آگے پڑھنا ہے۔ دسویں جماعت سے آگے کیا ہوتا ہے، اس کا مجھے علم تھا کیوں کہ میرے بابو جی بی اے، ایل ایل بی، پڑھ کر پلیڈر یعنی وکیل بن چکے تھے۔ میرے دو ماموں جان بھی وکیل تھے، اور حالانکہ میرے نانا صرف میٹرک تک پڑھے ہوئے تھے تو بھی وہ نائب تحصیلدار تھے۔ پڑھنا میرا مستقبل ہے، گلی ڈنڈا، بنٹے، پتنگ بازی، چور سپاہی کا کھیل میرا ماضی ہے۔ مستقبل، ماضی وغیرہ جبڑا توڑ لفظوں کا تو مجھے پہلے ہی پتہ تھا، کیونکہ پانچویں جماعت تک ہی میں نے گھر میں پڑی ہوئی کتابیں، جن میں کچھ ناول بھی تھے اور افقؔ لکھنوی کی راماین بھی شامل تھی، پڑھ لئے تھے اور اردو میں تو میں اپنی جماعت میں ہمیشہ اوّل آیا کرتا تھا۔ گھر چھوڑ کر دور دراز کے شہروں میں ’’کھٹّیاں کمائیاں ‘‘ کرنے کے لیے جانے والے مردوں کے فراق میں ان کی بیویوں یا محبوباؤں کے لوک گیت بھی سن رکھے تھے جو مراثی عورتیں گایا کرتی تھیں۔

’’کتھے گیوں پردیسیا، وے !‘‘ (میرے پردیسی ساجن، تم کہاں چلے گئے ہو؟‘‘)

’’چن پردیسی، ترکھی ترکھی آویں۔ ساڈی جند ڑی نا ترساویں !‘‘ (میرے پردیسی چاند، جلدی لوٹ آنا، میری جان نہ تڑپانا!‘‘)

’’چن ماہی، توں جے گیوں پشور۔ ساڈا بلدا اے ہوٹا ہور‘‘ (چن ماہی، تو اگر پشاور جائے تو میرا دل (ہجر میں )کچھ زیادہ جلتا ہے )

’’چن ماہی، توں جے گیوں کوہاٹ۔ ساڈی بلدی اے جند دی لاٹ(چن ماہی، تو اگر کوہاٹ جائے تو میری جان مشعل کی طرح جلتی ہے )

’’چن ماہی، توں جے گیوں لورا لائی۔ ساڈی جان عذابیں آئی۔ ( چن ماہی، تو اگر لورا لائی جائے تو میری جان عذاب میں آ جاتی ہے )

٭٭

 

۱۹۴۷ء تک

 

نوشہرہ ایک برس، پھر دو برس راولپنڈی، پھر ایک برس نوشہرہ اور پھر آخری دو برس راولپنڈی۔۔۔۔ اس طرح یہ ہجرتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تین برسوں کے اس عرصے کے دوران وہ کوٹ سارنگ وہ صرف دو بار جا سکا، ایک بار بابو جی کے ساتھ بے بے کو نوشہرہ لانے کے لیے، کیوں کہ اکیلی وہ بیمار پڑ گئی تھی اور دوسری بار پوری گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے کے لیے۔ میرے دل میں ارمان تو بہت تھے کہ میں اپنے پرانے دنوں کی یاد تازہ کروں گا، گلی ڈنڈی کھیلوں گا، پتنگ اڑاؤں گا، جھیل کے کنارے پر بیٹھ کر مرغابیوں کو دیکھوں گا، اور ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاؤں گا، لیکن کیا ہو گیا تھا مجھے ؟ میں ان میں سے کچھ بھی نہ کر سکا۔ ان تین چار برسوں میں شاید میں چالیس برس بڑا ہو گیا تھا۔ میں نے نوشہرہ اور راولپنڈی میں کئی نئے روگ پال لیے تھے۔ ایک تو ڈاک کی پرانی ٹکٹیں اور پرانے سکے جمع کرنے کا تھا، اور دوسرا اردو کے قسم قسم کے رسالے اور ناول پڑھنے کا۔ ایم اسلم کے رومانی اور دیگر ناول نگاروں کے سماجی ناولوں سے لے کر تیرتھ رام فیروز پوری کے جاسوسی ناولوں تک، اور رسالوں میں ’’لطف شباب‘‘، ’’مست قلندر‘‘، مستانہ جو گی‘‘ وغیرہ میرے محبوب وقت کاٹنے کے ذریعے تھے۔، میں خود بھی شعر کہنے لگا تھا، مختصرافسانے لکھنے لگا تھا اور کئی رسالوں میں میری نگارشات چھپنے لگی تھیں۔ میرے دوسرے پرانے دوست اسی طرح ہی گاؤں چھوڑ کر دور دراز کے شہروں میں منتقل ہو گئے تھے۔ اور مجھے اب گاؤں میں زیادہ دلچسپی اپنے آپ میں تھی۔ کئی بار بوڑھے فلسفیوں کی طرح گھنٹوں بیٹھ کر انسان کے وجود، جسم اور روح کے باہمی تعلق، پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کیا ہوتا ہے، آوا گون اور شہود الاصل کے ہندو فلسفے، اسلام کی وحدانیت اور ایرانی تصوف اور ہندو بھگتی تحریک میں موافقت کے پہلوؤں پر غور کرتا۔ میرے بابو جی اکثر کہتے، یہ جتنی دیر پڑھتا ہے اس کے بعد اس سے دگنی دیر بیٹھ کر ’ذہنی جگالی‘ کرتا ہے۔ میرا ایک اور مرغوب ترین مشغلہ بے بے کے پاس بیٹھ کر اس سے اپنے بزرگوں، باپ، دادا، پردادا، اور ان کے باپ دادا، پردادا کے بارے میں، جتنا مجھے یاد تھا، پوچھنا اور پھر اپنی ڈائری میں اسے نوٹ کرنے کا تھا۔ یہ کام میں بہت دلچسپی اور سائینسی ڈھنگ سے کرتا تھا، یعنی چارٹ اور گراف بنا کر سلسلہ در سلسلہ شجرہ نسب بناتا تھا۔ مجھے کچھ باتوں کا علم چاچا بیلی سے بھی ہوا، جو اس سے اخبار پڑھوا کر سنتا تھا۔ یہ اخبار لاہور یا شاید راولپنڈی سے چھپتا تھا اور گاؤں پہنچتے پہنچتے اسے پندرہ دن لگ جاتے تھے۔

چاچا بیلی کی پنساری کی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر اخبار میں سے دوسری جنگ عظیم کی خبریں آس پاس بیٹھے ہوئے سودا سلف خریدنے آئے ہوئے جاٹوں اور دیگر دکانداروں کو سناتا، تو سارے اس سے پوچھتے یہ فرانس کہاں ہے، نار منڈی میں کیا ناریوں کی منڈیاں لگتی ہیں، چرچل اور ہٹلر دو اچھے انسانوں کی طرح بیٹھ کر فیصلہ ہی کیوں نہیں کر لیتے۔ جنگ کی آخر نوبت ہی کیوں آئے، جیسے گاؤں میں بھی چار بزرگ اکٹھے بیٹھ کر جھگڑوں کا فیصلہ کر دیتے ہیں، جو سب کو قابل قبول ہوتا ہے۔ کیوں نہیں وہ مہاتما گاندھی سے کہتے کہ آ کر ہمارا آپس کا جھگڑا نپٹا دے۔۔۔

چاچا بیلی اپنے خاندان کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا، کیسے ہمارے ہی قبیلے کے پرکھوں میں ایک راجہ پورس ہوا کرتا تھا جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا تھا۔ چاچا بیلی نے ہی مجھے بتایا تھا کہ ان کے قبیلے کا نام ہندوؤں میں ’’کھُکھرائن‘‘ ہے اور مسلمانوں میں ’’ کھوکھر‘‘ ہے۔ پہلے سبھی ہندو تھے، جنہوں نے دین اسلام قبول کر لیا وہ تو کھوکھر ہی کہلاتے رہے لیکن ایک شاخ جس نے اسلام نہیں قبول کیا تھا، وہ کھُکھرائن کہلائی۔۔۔ میں بیٹھ کر اپنی میٹرک کی تاریخ کی کتابوں کو پھر کھنگالتا۔ تو میرے پرکھوں میں ہی وہ بہادر راجہ پورس تھا جس نے سکندر کو للکارا تھا اور حالانکہ شکست کھائی تھی تو بھی جب زخمی حالت میں سکندر کے سامنے پا بجولاں اس کو پیش کیا گیا تھا، تو سکندرنے اس سے پوچھا تھا، ’’بول راجہ، تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟‘‘ مورخ لکھتے ہیں کہ ایک کٹے ہوئے ہاتھ اور پھوٹی ہوئی ایک آنکھ جو بہہ کر اس کے گال تک آ گئی تھی، اور لا تعداد زخموں کے باوجود اس نے سر اٹھا کر بلند آواز میں کہا تھا، ’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے !‘‘ کہاوت ہے کہ سکندر کو یہ جواب اور پورس کی بہادری اتنی پسند آئی تھی کہ اس نے دریائے سندھ کے جنوبی علاقے کو ایک بار پھر پورس کے حوالے کر دیا تھا۔ یونانی مورخ بوتنوسؔ لکھتا ہے، کہ اس بیچ میں سکندر کے فوجیوں نے دریائے سندھ سے آگے جانے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بھی ایک وجہ پورس کو اس کا علاقہ لوٹانے کی تھی کہ وہ واپس بحیرہ عرب تک سندھ کے راستے نئی بنائی گئی کشتیوں میں سوار ہو کر جانے میں اس کی امداد کرے۔

مجھے گھر میں ہی پڑی ہوئی دادا جی کے وقت کے کچھ بہی کھاتے لال رنگ کے کپڑے میں مڑھے ہوئے مل گئے جن میں میرے دادا جی نے اپنے خاندان کی پوری تاریخ تا حال یعنی انیسویں صدی کے آخر تک لکھ رکھی تھی۔ ان بہی کھاتوں میں لکھا ہوا تھا کہ سکندر کے بیس ہزار فوجی تین سال تک یہ کشتیاں گھڑتے گھڑتے راجہ پورسؔ اور راجہ امبھیؔ کی سلطنتوں میں رہتے ہوئے کھوکھر قبیلے کی کئی عورتوں سے گھل مل گئے تھے اور ان میں سے نصف کی تعداد نے سکندر کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیا کیونکہ اس بیچ میں وہ بچوں کے باپ بن چکے تھے اور روزانہ کی جنگ، خونریزی اور لوٹ مار سے تنگ آ کر اپنی زندگی ہندوستان میں ہی رہ کر کاٹنا چاہتے تھے۔ اس کے دادا جی نے لکھا تھا، ’’کسے علم ہے، ہم کھوکھروں یا کھُکھرائینوں کی رگوں میں کتنا خون ان یونانی فوجیوں کا ہے۔ ‘‘ ان بہی کھاتوں کے خزانے سے مجھے کئی اور باتوں کا پتہ چلا کہ سکھوں کے راج کے زمانے میں ہمارے ہی پرکھوں نے کابل تک فوج کشی کرتے ہوئے سکھوں کے فوجی دستے کی رسد کا انتظام اپنے ذمّے لیا تھا جس سے انہیں ’’امیر رسد‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ میں بیٹھا بیٹھا اس قسم کی ذہنی جگالی کرتا رہتا۔ اور اپنے پرکھوں کے بارے میں سوچتا رہتا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں گاؤں کے ایک اور بزرگ منشی تیرتھ رام سبھروال سے پوچھوں، جو خود نوّے برس کا تھا اور اپنے وقتوں میں تحصیلدار تلہ گنگ کا منشی مال رہ چکا تھا۔ تیرتھ رام نے مجھے کچھ اور واقفیت دی کہ کھُکھرائن قبیلے کی ہندو ذاتوں میں آنند، سیٹھی، ساہنی، سبھروال، چڈھا، کھنہ(اس نے صحیح تلفظ ’’خناح‘‘ بتایا جو کہ ایک یونانی لفظ ہے ) پیش پیش تھیں، یہی ذاتیں مسلم کھوکھروں میں آج تک موجود ہیں۔ ایک بہی میں کوٹ سارنگ کے آس پاس کے گاؤں اور ان میں بسے ہوئے قبیلوں کی تفصیل بھی دی گئی تھی۔ ملکوال گاؤں کے بارے میں لکھا تھا کہ وہاں بسنے والے سارے کھوکھر آنند تھے لیکن جب اورنگ زیب کے زمانے میں انہوں نے مجموعی طور پر اسلام قبول کیا تو انہیں جاگیر کے طور پر آس پاس کی زمین دی گئی اور انہوں نے خود کو ’ملک‘ کہلانا پسند کیا۔ تبھی کئی ہندو’ آنند‘ بھی خود کو’ ملک‘ لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ چودہ پندرہ برس کے بچے کے لیے ایک تازیانہ تھا کہ وہ خود سے پوچھے کہ وہ کون ہے ؟ اس میں کتنا خون خالصتاً ہندوستانی ہے، کتنا یونانی ہے اور کتنا ان پٹھان حملہ آوروں کا ہے، جو فوج کشی کرنے کے بعد پہلا کام عورتوں کی عزت لوٹنے کا کیا کرتے تھے۔ میں کئی سوال خود سے ہی کرتا رہتا اور ان کے جواب سوچتا رہتا۔ بقول میرے بابو جی یعنی والد صاحبؔ ؔست پال کا کام ذہنی جگالی‘ کا ہے ‘‘، یہ درست بھی تھا کہ میری ذہنی جگالی نے مجھے شاعری، مختصر افسانہ نگاری، ناولوں، رسالوں اور متفرق کتابوں کے مطالعہ میں چار پانچ برسوں تک الجھائے رکھا۔

 

سیلف پورٹریٹ

 

پچاس سے ساٹھ تک؟ ذرا اس سے کم، زیادہ؟

نہیں، غلط ہے

کہ عمر تو داخلی تصّور ہے۔۔۔۔ اور برسوں میں ناپنا تو

حساب دانی ہے۔۔۔۔ اور وہ دیکھنے میں اب بھی

جوان لگتا ہے، صرف چالیس کا یا اس سے

ذرا زیادہ!

 

کبھی کبھی جب وہ اپنے چہرے کو آئینے کی

صبیح نظروں سے دیکھتا ہے

تو اس کو لگتا ہے، اس کی آنکھیں

تو اس کی ماں کی ہیں، ہاں، وہی ہیں

بڑی بڑی سی، سیہ حلقے سے، رت جگوں کی

تھکاوٹوں کے دبیز پردوں

کی دھند میں نیم وا خمیدہ نظر کی خفگی

جو ڈھلتی جاتی ہے گرم اشکوں

کی شفقتوں سے کھلے گلوں میں !

 

کشادہ، روشن جبیں اسے باپ سے ملی ہے

مدبّرانہ، تعقل و ہوش کی علامت

عمیق، دانشوری کی برّاق جھیل جیسی

سیاہ، کچھ کچھ سپید، روکھے

بریدہ بالوں کا ایک گچھا

جو سر جھٹکنے سے صاف، روشن جبیں کو اپنے

بکھرتے بادل کے ایک جھرمٹ سے ڈھانپ دیتا ہے۔۔۔

تیز نظریں

دبیز شیشوں کو چیر کر جیسے پار ہوتی ہوئی نگاہیں

 

وہ اپنے چہرے کے خال و خد میں

ہزاروں چہروں کی بنتی مٹتی ہوئی شبیہوں کو دیکھتا ہے

وہ نقش جو سالہا سال سے وراثت کی بوریوں میں بندھے ہوئے تھے

جو پشتہا پشت اس کا ورثہ رہے ہیں، اس کے

وجود میں جذب ہو گئے ہیں

وہ کچھ نیا ہے، تو کچھ پرانا!

 

پچاس سے ساٹھ ؟ اور آگے ؟

نہیں، غلط ہے، وہ دیکھنے میں

جوان لگتا ہے، صرف چالیس کا، یا اس سے

ذرا زیادہ!

٭٭٭

 

 

 

 

۴۷۔ ۱۹۴۵ء

 

راولپنڈی۔ چوک روز سنیما کا۔ ایک سڑک راجہ بازار بنتی ہے۔ ایک سڑک ریلوے اسٹیشن کی طرف کو الٹا رخ کیے ہوئے ہے۔ تیسری سڑک سول اسپتال کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ رینگتی ہوئی نیچے لئی نالہ کے پل کو پار کر کے ڈھوک رتّہ تک جاتی ہے، لیکن راستے میں یہ دو ہندو محلوں، نانک پورہ اور موہن پورہ کے ساتھ ساتھ گذرتی ہے۔ اس بات سے یہاں یہ مطلب نہیں کہ میں رہتا موہن پورہ میں ہوں، بلکہ اس بات سے ہے کہ میں پڑھتا مشن ہائی اسکول میں ہوں، جو چوتھی سڑک کے کنارے پر واقع ہے یہ سڑک باغ کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوئی گورڈن کالج تک جاتی ہے۔

 

گورڈن کالج؟

 

جی ہاں، گورڈن کالج، جس میں دو برسوں کے بعد میں داخلے کے خواب دیکھتا ہوں۔ گورڈن کالج جس میں منشی تلوک چند محروم اسی برس اپنی ہیڈ ماسٹر کی نوکری سے ریٹائر ہو کر اردو کے پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے ہیں، اور جن سے ملنے کے لیے میں کئی بار وہاں جا چکا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ میں ڈی اے وی کالج کے ایک مشاعرے میں نیچے دریوں پر بیٹھے ہوئے سامعین کے ساتھ شعرا کا کلام سن رہا تھا، کہ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک کالج طالبعلم نے کہا وہ سامنے کلاہ اور لنگی پہنے ہوئے جو صاحب صدر کی کرسی پر بیٹھے ہیں، وہ تلوک چند محروم ہیں، یعنی وہی تلوک چند محروم، جن کی نظم ’’نور جہان کے مزار پر‘‘ ہمارے نصاب کی کتاب ’’مرقع ادب‘‘ میں شامل ہے۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب کرتا شلوار اور واسکٹ پہنے ہوئے ایک نوجوان شاعر مائکروفون پر آئے تو اسی کالج طالبعلم نے کہا، ’’یہ جگن ناتھ آزاد ہیں، محروم صاحب کے بیٹے۔ ‘‘

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جگن ناتھ آزاد کے سرائیکی لہجے کی وجہ سے مجھے بدقت ان کا کلام ہضم کرنا پڑا، یعنی نویں کلاس کا طالبعلم ہونے کے باوجود مجھے اس بات کا خاص خیال تھا کہ شاعر کے لیے اردو کا لب و لہجہ ہونا ضروری ہے۔ بہر حال میں نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ جب میں کسی شعر پر داد دیتا تو لوگ میری کچی بلوغت کی آواز سن کر مڑ کر میری طرف دیکھتے۔

تو گورڈن کالج؟ لیکن گورڈن کالج کی بات کچھ بعد میں۔ پہلے مشن ہائی اسکول کی یادوں کا بستہ کھول لیا جائے، تا کہ راستہ ہموار ہو جائے۔

نویں کلاس کے دو سیکشن تھے اور میں سیکشن اے میں تھا۔ بنچ پرانے تھے لیکن ہر سال نئے لڑکے ان پر بیٹھتے تھے۔ کچھ پر چاقوؤں کی نوکوں سے الم غلم کھدا ہوا تھا، ایسے لگتا تھا جیسے ہر سال لڑکے بودھ غاروں میں بھکشوؤں کی طرح اپنی یادیں کندہ کر کے یہ یقینی بناتے تھے کہ آنے والے برسوں میں نئے لڑکے ان سے مستفید ہوں۔

ایک لڑکا اور تھا۔ خلیل، جسے سب خلیلا بلاتے تھے۔ خلیل اور میں دونوں دوست اس لیے بن گئے کہ دونوں کو فارسی میں بات چیت کرنے کا ہنر آتا تھا، اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔

’’کجا می روی؟‘‘       ’’مدرسہ می روم‘‘

یہ سوال و جواب اس لیے ضروری تھے کہ سالانہ جلسۂ انعامات میں ان دو لڑکوں کو، یعنی مجھے اور خلیل کو اسٹیج پر کھڑا کر کے سوال و جواب کا تماشہ دہرایا جاتا تھا اور لڑکوں کے والدین جو خاص طور پر مدعو کیے جاتے تھے یہ دیکھ کر دانتوں میں انگلی دبا لیتے تھے کہ تیرہ چودہ برس کے دو لڑکے فارسی میں گفتگو کر رہے ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ دس بارہ سوالات اور ان کے جوابات کو حفظ کر کے یہ ڈرامہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔

لیکن جہاں خلیل صرف اپنے حافظے کی وجہ سے اس ڈرامے میں شریک تھا، وہاں میں خود واقعی فارسی میں مہارت رکھتا تھا۔ میں نے یہ صلاحیت ان کتابوں کی وجہ سے پائی تھی جو میرے گھر میں موجود تھیں۔ میرے ایک چچا ایران میں خشک میوے کا بیوپار کرتے تھے اور جب بھی وہ واپس آتے اپنے ساتھ فارسی کی دسیوں کتابیں لے آتے، جو میری چچی سنبھال کر رکھ لیتی۔ میں نے یہ کتابیں کھنگال لی تھیں اور کئی بار جب میں اپنے فارسی کے ماسٹر نذیر احمد صاحب سے سعدی یا رومی یا شمس تبریز کے بارے میں کچھ پوچھتا تو وہ بھی حیران رہ جاتے۔

طبیعت میں روانی کا یہ عالم تھا کہ اردو میں تو عموماً ہی، لیکن فارسی میں بھی فی البدیہہ اشعار موزوں کرنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ اس کا فائدہ خود ماسٹر نذیر احمد اٹھاتے، یعنی انسپکٹر کے آنے پر وہ مجھے کھڑا کر دیتے اور فارسی کا ایک مصرع دے کر اس پر گرہ لگانے کے لیے کہتے۔

مجھے اب تک اپنی لگائی ہوئی ایک گرہ یاد ہے۔ ماسٹر صاحب نے فارسی کا مشہور زبان زد عام مصرع دیا تھا۔ ’’عشق اول در دل معشوق پیدا می شود‘‘، اور میں نے گرہ لگائی تھی، ’’عاشقاں را بر سبیل تذکرہ رسوا مکن!‘‘، یعنی گرہ، قاعدے کے بر عکس شعر کے مصرع اولیٰ کے طور پر لگائی گئی تھی جو کہ ایک جدت تھی۔

تو مشن اسکول اور اس کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے گورڈن کالج اور منشی تلوک چند محروم سے ملاقاتیں اور ان کی شفقت۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

کتھا دوسرے جنم کی

 

 

کوٹ سارنگ، راولپنڈی، پھر وہاں سے انڈیا جانے کے لیے ریل گاڑی اور فیروزپور بارڈر کراس کرنے کے بعد، مختلف گاڑیوں سے ایک کے بعد ایک شہر، حتے کہ ہم  نہ معلوم کیسے لدھیانہ تک پہنچ گئے۔ بابو جی کا راستے میں انتقال ہو گیا تھا، اس لیے لدھیانہ کے ریفوجی کیمپ میں بیوہ ماں اور تین چھوٹے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر شہر میں نکلا۔ اور تب ہی میں نے ایک پرنٹنگ پریس کے باہر لکھا ہوا ساین بورڈ دکھائی دیا، ہفتہ وار ’’صداقت‘‘۔ میرے پاؤں بے ارادہ ہی مجھے اندر لے گئے۔ ایڈیٹر کے ڈسک کے پیچھے ایک سردار جی بیٹھے تھے۔ میں نے کہا، ’’ میرا نام ستیہ پال آنند ہے۔ میں اردو بہت اچھی لکھتا ہوں۔ کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کیا مجھے کوئی نوکری ملے گی؟‘‘  سردار جی نظر بھرکر اس کی طرف دیکھا۔ ’’رہتے کہاں ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا، ’’نیچے زمین ہے اور اوپر آسمان!  بیوہ ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو ریفوجی کیمپ میں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔‘‘  سردار جی داڑھی کھجانے لگے۔ ’’ خوب، شاعروں کی طرح باتیں کرتے ہو۔ چلو، خوش ہو جاؤ۔ ملازمت ملے گی، لیکن پینتالیس روپے ماہوار کی۔ آٹھ گھنٹے کام کرنا ہو گا۔ ہر طرح کا۔ پروف پڑھنے، اخباروں کے بنڈل باندھنے اور باہر ریڑھے پر رکھنے وغیرہ۔ لیکن ریفوجی کیمپ تو یہاں سے آٹھ میل دور ہے، تم آؤ جاؤ گے کیسے؟‘‘  مجھے خاموش دیکھ کر سردار جی نے کہا، ’’ چلو میرے ساتھ۔ ایک تالہ خریدتے ہیں، اور مسلمانوں کے محلے میں کوئی خالی مکان دیکھتے ہیں۔ کچھ  مکانوں میں ابھی تک سامان بھی موجود ہے۔ اگر کوئی ملا، تو تم تالا لگا دینا، اور پہلے اپنے پریوار کو اس میں بٹھا دینا۔ واہگورو بڑا مہان ہے۔ میں الاٹمنٹ کمیٹی کا ممبر بھی ہوں۔ جو مکان ملا، وہی تمہیں الاٹ کر دوں گا۔‘‘

اور اس طر ح میں اقبال گنج محلے میں جلاہوں کے ایک مکان پر قابض ہو گیا، جس میں کچھ ٹوٹی پھوٹی کپڑا بننے کی کھڈیاں ابھی تک موجود تھیں۔ مکان کچی اینٹوں سے بنا ہوا تھا اور اس میں تین کمرے اور ایک بڑا دالان تھا۔ بیچ صحن میں ہینڈ پمپ بھی لگا ہوا تھا۔ تالہ لگانے کے بعد مجھے تو جیسے پر لگ گئے۔

’’سایکل چلانا جانتے ہو؟‘‘  سردار جی نے پوچھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’’اچھا میرا سائیکل پریس سے لے جاؤ۔ مجھے تم پر بھروسا ہے۔ اپنی ماں اور بھائی بہنوں کو آج ہی لے آؤ۔ اور رات اس گھر میں کاٹو۔ فرش پر ہی بستر بچھا لینا۔ کچھ روپے ہیں تمہارے پاس؟‘‘

میں نے کہا، ’’جی، ماں کے پاس ایک سو روپے ہیں۔‘‘

سردار جی خوش ہو گئے۔ چلو، بھانڈے برتن، آٹا دال تو خرید سکتے ہو۔ کل بھی سارا دن سائکل اپنے پاس رکھو، اور گھر میں سیٹل ہو جاؤ۔۔۔ انگریزی آتی ہے؟‘‘

میں نے کہا،

Sir, I can speak English very well۔ I can write English like a graduate۔”

سردار جی نے میری پیٹھ تھپتھپائی۔ اور انگریزی میں کہا

’’Very well, youngman۔ Good luck!”

تو میں اور میرا پریوار ’’سیٹل‘‘ ہو گئے۔ نوکری بھی مل گئی اور مکان بھی۔ شام کا کھانا ماں نے بنایا۔ چولھے پہلے ہی بنے ہوئے تھے۔ کھڈیوں کی ٹوٹی پھوٹی لکڑیاں ایندھن کا کام دے گئیں۔

 

اس رات میں نے سوچا کہ میں دیکھوں گا کہ کیایہ مکان مجھ سے باتیں کرتا ہے۔ لیکن ہر طرف خاموشی تھی۔ باہر سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے دھیان دے کر سنا، یہ مکان مجھ سے باتیں نہیں کرتا تھا! یا شاید کرتا  بھی ہو، لیکن مجھ  جیسے کسی بچے سے جو اس گھر میں پیدا ہوا ہو، اور اب  جسے ملک کی تقسیم نے یہ گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہو۔  ’’گھر، ارے او B-X/201نمبر والے گھر! بول مجھ سے! کچھ بات سنا! تو مجھ سے بات کرے گا، تو میں سمجھ جاؤں گا!‘‘  میں کئی بار اپنے ذہن کی دور رس نگاہوں سے  اس گھر کو دیکھتا، اس کا موازنہ اپنے کوٹ سارنگ کے گھر سے کرتا، اور خاموش زبان میں اس نئے گھر کو مخاطب کرتا، لیکن جواب میں مجھے ملتی۔۔۔۔ صرف ایک گمبھیر خاموشی، ایک گہراسناٹا۔  یہ گھرمجھ  سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

 

میں سالہا سال تک یہ سوچنے سے باز نہ آ سکا، کہ کیا کوٹ سارنگ والا گھر اب بھی مجھ  سے باتیں کرنے کی کوشش میں لگا ہو گا۔ اپنی تیسری آنکھ، جو میرے ذہن میں کھل کھل جاتی تھی، اور جس کی مدد سے میں اپنی شاعری کے موضوع، مضمون اور متن چُنتاتھا، کئی بار مجھ کو اس گھر کے سامنے لا کھڑا کرتی تھی، اور تب میں یقین کر لیتا تھا، کہ وہ گھر اب بھی میرےانتظار میں ہے۔

 

کوٹ سارنگ کا مکان

 

دھوپ سے جھلسی ہوئی ویراں گلی میں

دائیں بائیں دیکھتی بوڑھی ہوا، گرمی سے بے دم

ہانپتی ہے

گھر کے دروازے پہ رک کر ایک لمحہ سوچتی ہے

استخوانی انگلیاں اٹھتی ہیں، لیکن

گھر کے دروازے پہ دستک دے نہیں پاتیں

تو مجبوراً ہوا کو

باد و باراں سے دھُلے چوبی کواڑوں میں بنی

 

باریک درزوں سے گذر کر

صحن میں، دالان میں، کمروں میں

 

چاروں سمت گھر میں

ڈھونڈنا پڑتا ہے، شاید ان مکینوں

بوڑھے واقف کارگھر والوں کو

جو  اب جا چکے ہیں

اور اس کی شائیں شائیں

اغلباً دادی کے چرخے کی طرح ہے

جس کے چلنے کی صدا

بائیس برسوں کے گذر جانے پہ اب بھی

گھر کے کونوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے!

 

اور پھر جیسا کہانیوں میں ہوتا آیا ہے، میں یعنی اس کہانی کا ہیرو، سترہ سال کا نوجوان، اپنی بیوہ ماں اور تین چھوٹے بھائی بہنوں  کے ساتھ ہندوستان یعنی انڈیا  میں روزی روٹی کمانے میں یوں جُٹا کہ مجھے خبر ہی نہ ہوتی، کہ کب سورج ڈوبا اور پھر کب رات گزری اور پھر کب صبح ہوئی۔ کام، کام اور کام۔

 

گورمکھی کا ایک پبلشر سردار جیون سنگھ جس کے بزنس کا نام  لاہو بک شاپ  تھا، مجھ پر بہت مہربان ہوا۔ مجھے انگریزی  سے بچوں کی کتابیں  ہندی میں ترجمہ کرنے کے لیے دیں۔ ہر ایک کا معاوضہ ایک روپیہ فی صفحہ طے ہوا۔ میرے کام کے معیار کو دیکھ کر اور کتابوں کی لائبریریوں میں فروخت کو دیکھ کر سردار جیون سنگھ ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے ملازمت کی پیشکش کی، دکان کے پچھلے کمرے میں یعنی اسٹور میں بیٹھ کر کتابوں کے بل یا بیچک بنانا، چٹھیاں ٹائپ کرنا اور سردار جیون سنگھ کی غیر حاضری میں آنے والے معزز ہیڈماسٹروں یا پنجابی کے مصنفینسے ان کی سطح پر ملنا، جیسے کہ میں ہی بزنس کا مینیجر تھا۔۔۔ ایک سو ساٹھ روپے ماہانہ کی ملازمت ایک کلرک کی تنخواہ سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ مجھے اس لیے یہ کام پسند آیا کہ میں فاضل وقت میں بیٹھ کر ایک روپیہ فی صفحہ کے حساب سے کتابیں ترجمہ کرتا رہتا تھا۔ گھر میں بیٹھ کر بھی یہ کام چلتا رہتا۔ چھ چھ گھنٹوں تک جاسوسی اور فلمی رسائل کے لیے مختلف فرضی ناموں سے لکھنا، ناول، افسانے، فحش کالم، کیا کیا نہ کچھ!۔ یہ میری بساط سے بڑھ کر کام نہیں تھا۔۔۔ اردو سے ہندی میں تراجم، پنجابی سے ہندی میں تراجم، ہندی سے اردو میں تراجم۔۔۔۔ ستیہ پال آنند، یعنی اس قلم گھسانے والے مزدور نے جو پانچ برس لاہور بک شاپ پر کاٹے، ان میں ہندی کہانیوں کی تین کتابیں، اردو میں دو ناول اور بچوں کے لیے بارہ کتابیں لکھیں، جو لاہور بک شاپ کے ہندی ادارے ساہیتہ سنگم سے ہی چھپیں۔

 

اپنی ہی عمر کے پانچ  نوجوانوں کا ذکر کرنا ضروری ہے، جن سے میں بقول ورڈزورتھ اپنے اس fair seed time میں متعارف ہوا اور یہ تعارف عمر بھر کی دوستی کا روگ بن گیا۔ ان میں ہندی شاعر کمار وکل، ہندی کہانی کار رویندر کالیہ، اردو شاعر اور کہانی کار ہیرا نند سوز، شاعر پریم وار برٹنی اور پنجابی شاعر شِو کمار بٹالوی شامل تھے۔ یہ احباب مختلف وقتوں میں مجھے ملے۔ ان میں سے کچھ نے میری زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے۔ کچھ پانچ دس برسوں کے بعد اجنبی ہو گئے اور کچھ آج تک دوستی کا دم بھرتے ہیں۔

 

ہیرا نند سوز سے تعارف  لاہور بک شاپ پر ملازمت سے بھی بہت پہلے ہوا۔ ۱۹۴۸ء میں  ابھی میں روزانہ ’’ صداقت‘‘  پر ہی ساٹھ روپے ماہانہ کا ملازم تھاکہ ایک دن ریلوے اسٹیشن پر منشی گلاب سنگھ اینڈ سنز کے  بک اسٹال سے اردو کا ’شمع‘ اور ’بیسویں صدی‘ خریدنے گیا۔ وہاں خود  سے عمر میں کچھ بڑے چار اصحاب کو باتیں کرتے پایا۔ وہ اردو میں باتیں کر رہے تھے، میں قریب ہی  رک گیا، کان لگا کر ان کی باتیں سننے لگا۔ کبھی کبھی وہ میانوالی کے سرائکی لہجے میں بھی بولتے، لیکن باتیں اردو میں ہی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک کی شکل مجھے کچھ جانی پہچانی سی لگی، جیسے کسی رسالے میں چھپی ہوئی دیکھی ہو۔ اس کے ہاتھ میں بیسویں صدی کا تازہ شمارہ تھا۔ میں نے جو شمارہ خریدا تھا، اسے کھولا تو اس میں وہی تصویر دیکھ کر چونک گیا۔ یہ صاحب اردو کے افسانہ نگار رام لال تھے  اور اپنی تصویر والا رسالہ  ہی اٹھائے ہوئے تھے۔

میں نے آگے بڑھ کر چاروں سے مصافحہ کیا، کہا، ’’میرا نام ستیہ پال آنند ہے۔ میں بھی اردو میں لکھتا ہوں۔ آپ تو رام لال ہیں، میں جانتا ہوں۔ لیکن میں چاہوں گا کہ آپ تینوں کا بھی تعارف حاصل کروں۔ میرے لیےیہ خوش قسمتی کی بات ہو گی۔‘‘

رام لال نے ایک ریش خند کے شعار کی سی ہنسی کے ساتھ کہا، ’’صاحبزادے، آّپ تو ابھی اسکول میں پڑھتے ہوں گے۔ یہ شاعری کا روگ کیسے لگ گیا۔‘‘

میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، ’’رام لال صاحب، اچھا جملہ آپ نے کسا ہے مجھ پر۔ آپ نے افسانہ نگاری کب شروع کی تھی؟ اس عمر میں جس میں اب آپ ہیں ؟‘‘

تینوں دیگر اشخاص ہنس پڑے۔ ’’دیکھا رام لال؟‘‘ (اس نے میانوالی کے لہجے میں الف کو ثابت نگلتے ہوئے ’رم لال‘ کہا تھا، ’’یہ ہوتا ہے، دندان شکن جواب!‘‘

دوسرے نے کہا، ’’رم لال، گن لو اپنے دانت! کوئی ٹوٹا ہے یا نہیں ؟‘‘

تیسرے نے کہا، ایں جواب ِ آں غزل! جواب در جواب!!‘‘

ہاتھ ملائے گئے۔ دوستی ہو گئی تو پتہ چلا کہ ان میں دبلا پتلا نوجوان ہیرا نند سوز ہے، افسانے لکھتا ہے اور شعر صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کہتا ہے۔ عمر میں سب سے بڑا ہرچرن چاولہ ہے اور وہ بھی افسانہ نگار ہے۔ چوتھے صاحب، ناٹے قد کے، ذرا بھاری بھرکم، جگدیش چندر کوکب تھے، جو اسی اسٹیشن پر ؛پیسنجر گایڈ کے طور پر تعینات تھے۔ ہیرا نند سوز بھی لدھیانہ کے ریلوے اسٹیشن پر بکنگ کلرک تھے۔  رام لال  پاکستان سے ہجرت کے بعد ریلوے میں گڈز کلرک کے طور پر لکھنؤ میں جاین کر چکے تھے  اور اب دیگر دوستوں سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہم سب ٹی اسٹال کی طرف چلے گئے۔ چائے کا کپ ایک آنے کا تھا، میں نے چونی کاؤنٹر پر رکھی تو ہیرا نند سوز نے اٹھا کر مجھے واپس کر دی۔ ’’ہمیں چائے دو پیسوں میں ملتی ہے۔‘‘ اور اس نے دوّنی چائے کے وینڈر کو پکڑا دی۔

رام لال اور  ہرچرن چاولہ تو  ہیرا نند سوز کی طرح ہی میانوالی کی فصل تھے جو کاشت ہو کرہندوستان  پہنچ گئی تھی لیکن جگدیش چندر کوکب پشار کے تھے۔ (کچھ ہفتوں کے بعد انہوں نے ’’سرحدی سماچار‘‘ ویکلی پشاور کے کچھ پرانے شمارے دکھائے جن میں ان کی غزلوں کے ساتھ حب الوطنی کے موضوع پر میری نظمیں بھی چھپی ہوئی تھیں۔ حیران ہوئے یہ دیکھ کر کہ یہ نظمیں اس وقت کی تھیں جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور میری عمر تیرہ برس سے کچھ کم تھی)۔

 

رام لال اور ہرچرن چاولہ تو شاید اسی رات کی گاڑی سے چلے گئے لیکن ہیرا نند سوز اور جگدیش چندر کوکب سے میری رفاقت اس تیزی سے بڑھی کہ ہم روزانہ ملنے لگے۔ رسالوں کے نئے شمارے (جو ریلوے بک اسٹال سے پڑھنے کے لیے انہیں بلا قیمت مل جاتے تھے اور اس وسیلے سے میں بھیپڑھ لیتا تھا)، میں مشمولہ افسانوں اور نظموں، غزلوں پر بحث کرتے، سیر کرتے۔ اگر کسی دن میں شام تک ریلوے اسٹیشن نہ پہنچتاتو ٹہلتے ٹہلتے یہ دونوں دوست میرے گھر تک پہنچ جاتے۔ کوکب صاحب غیر شادی شدہ تھے، لیکن ہیرا نند سوز کی شادی ہو چکی تھی۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ کچھ ملاقاتوں میں ہی انہوں نے ہمیں بتا دیا کہ ان کی بیوی اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہے اس لیے وہ اس کے سب سے چھوٹے بھائی کو گود میں لے رہے ہیں۔

 

انہی دوستوں کی وساطت سے کچھ دقیانوسی قسم کے شعرا سے بھی ملاقات ہوئی جن میں حکیم چند ن لال مضطر بھی تھے، جو ’’ صداقت‘‘  میں بھی کبھی کبھار اپنی غزل بھیج دیا کرتے تھے۔ وہ اپنا نام اس طرح لکھتے تھے۔ ’’حکیم چندن لال مضطر، تارک الوطن پنڈی گھیب، حال ساکن، لدھیانہ۔‘‘ اور اصرار کرتے تھے کہ ان کا نام ایسے ہی شایع کیا جائے۔

کچھ اور شعرا سے تعارف ہوا۔ ان میں  جوہر ادیب تھے اور جگراؤں قصبے کے رہنے والے اور زیور سازی کا کام کرنے والے شاکر پرشارتھی بھی تھے۔ جوہر ایک اچھے شاعر تھے لیکن تعلیم کی کمی کئی بار شاعر کو صرف رومانی مضامین ہی دہرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ شاکر پرشارتھی اپنے پیشے کی رو سے جیسے تھے ویسے ہی شاعر کے طور پر بھی تھے۔   سونے کی طرح شاعری میں بھی کھوٹ ملاتے تھے۔ ان لوگوں سے البتہ میری دوستی بہت کم رہی کیونکہ جوہر ادیب بیکاری سے تنگ آ کر اپنے سسرالی قصبے ہاپوڑ میں چلے گئے اور شاکر صاحب کو ہم نے دھتّا بتا دیا۔

کرشن ادیب کچھ دیر کے بعد ہمارے گروپ میں شامل ہوئے۔ ہم لوگ مغربی پاکستان سے آئے تھے، لیکن وہ لدھیانہ کے قریبی قصبے پھلور کے رہنے والے تھے۔  مرنجاں مرنج، ڈھائی ہڈی کے نوجوان جو  ٹی بی سے نجات پا کر پھر سگرٹ، شراب اور تمباکو کھانے کی طرف لوٹ گئے تھے، شعر کہتے تھے، کچھ اچھے، کچھ بے وزن۔ میں چونکہ بحور و اوزان کا دماغ رکھتا تھا اس لیے وہ اپنی نئی غزل یا نظم سب سے پہلے مجھے ہی سناتے۔ کہتے، ’’لو، آنند، نکالو، اپنا مستریوں والا پیمانہ اور ماپو ان کو !‘‘ میں حتے الوسع تصحیح کر دیتا۔

تقسیم سے پہلے ان کے ساحر لدھیانوی سے دوستانہ مراسم رہے تھے۔ لیکن چونکہ ساحر سے کم عمر تھے اس لیےیہ دوستی زیادہ دیر تک نہ پنپ سکی۔ کرشن ایک اچھے فوٹوگرافر تھے اور یہ ان کی عالی ظرفی تھی کہ وہ اپنے خرچ پر ہی دوستوں کی تصویریں بناتے رہتے تھے۔ رسائل میں چھپیہ وئی میری کئی تصویریں کرشن نے ہی بنائی تھیں۔

جب ہم دوستوں نے مل کر ایک سیاسی اور سماجی کارکن ست پال متل کی مدد سے گورنمنٹ کالج میں ایک مشاعرہ کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے ساحر لدھیانوی کو ایک خط لکھا تو اس کے ساتھ ہی کرشن ادیب سے بھی ایک خط لکھوایا۔ ساحر تب تک پاکستان بننے کے بعد لدھیانہ نہیں لوٹا تھا۔ اس نے ّآنے کی حامی بھر لی اور کہا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ آئے گا تا کہ وہ بھی اپنے پرانے مکان کو دیکھ سکے اور کچھ دیر لدھیانہ کی ہوا میں سانس لے سکے۔ مقررہ وقت پر ساحر گاڑی کے فرسٹ کلاس کے ڈبے سے اپنی ماں کے ساتھ اترا، ہم لوگ ٹانگے میں سیدھے ہی اسے گورنمنٹ کالج میں لے گئے۔ ساحر میرے نام سے واقف تھا کیونکہ اس کے اور اس کے ایک پرانے دوست پینٹر باؤری کے بارے میں میری ایک کہانی ’’شمع‘‘ میں چھپی تھی، جس پر اسے یہ اعتراض تھا کہ میں نے یہ کہانی لکھ کر اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

 

تب تک میں نے  افسانہ نویسی کی دنیا میں کچھ نام کما لیا تھا۔ میرے افسانے دہلی کے فلمی رسالوں، ’’چترا‘‘، ’’نرالی دنیا‘‘، آریہ ورت‘‘، وغیرہ میں چھپنے لگے تھے۔ اپنی کامیابی پر خوش ہو کر جب میں نے ایک افسانہ خوشتر گرامی صاحب کو ’’بیسویں صدی‘‘ کے لیے بھیج دیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب خوشتر صاحب کا ایک خط مجھے ملا جس میں مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ میرا افسانہ نہ صرف خاص نمبر میں شامل ہو گا، بلکہ مجھے بیس روپے کا منی آرڈر بھی بھیج دیا گیا ہے۔ خوشتر صاحب نے یہ فرمائش بھی کی تھی، کہ اسی طرح کا ایک اور ’’لذیذ‘‘ افسانہ بھی جلدی انہیں بھیجوں۔

بیسویں صدی میں میرے افسانے پے در پے چھپنے لگے تو جیسے میرے لیے ایک راستہ وا ہو گیا۔ بیسویں صدی میں مصنف کے افسانے کے ساتھ آمدہ خط اور اس کا ڈاک کا پتہ بھی شایع کیاجاتا  تھا۔ مجھے دہلی، بھوپال، لکھنؤ، حیدرآباد کے علاوہ پاکستان کے کچھ رسالوں سے بھی خط آنے لگے کہ  قلمی معاون کے طور پر  میں ان کے لیے لکھوں۔ میں باقاعدگی سے ’’شعاعیں ‘‘، ’’شعلہ و شبنم‘‘، ’’راہی‘‘، ’’مستانہ جوگی‘‘ دہلی میں، اور ’’افکار‘‘ بھوپال، وغیرہ سے افسانوں  کے لیے دعوت نامے آنے لگے۔ پاکستان میں لاہور کے دوسرے درجے کے رسالوں کے علاوہ کراچی، حیدرآباد سندھ، پشاور، مردان سے بھی میرے افسانوں کے لیے تاکیدی خطوط کی بھرمار سی ہو گئی۔

لیکن میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب ’’شمع‘‘ میں میرا پہلا افسانہ چھپا اور مجھے پچھتر روپے کا منی آرڈر معاوضے کے طور پر ملا۔ یہ رقم ایک کلرک کی ماہانہ تنخواہ کے برابر تھی۔ اس کے بعد یہ رقم بڑھ کر ایک سو روپے اور ڈیڑھ سو روپے تک پہنچی۔ میں ’’ شمع‘‘ کے مدیریونس دہلوی صاحب سے دہلی جا کر ملا تو وہ مجھے اتنا کم عمر دیکھ کر حیران رہ گئے، لیکن انہوں نے فی الفور پیشکش کی کہ اگر میں ہر ماہ ایک افسانہ بھیجوں تو وہ مجھے ایک سو روپے فی افسانہ ادائی کرتے رہیں گے۔۔۔۔ گویا میری تنخواہ کا انتظام ہو گیا۔

 

رومانی ناول نویسی کے میدان میں ان دنوں دت بھارتی اور گلشن نندہ کی دھوم تھی۔ دت بھارتی صاحب  کا ناول ’’چوٹ‘‘ بہت مقبول ہوا تھا اور اس کے کئی ایڈیشنیکے بعد دیگرے چھپ چکے تھے۔ چونکہ شمع ادارے کے مالکان کاپی رائٹ خرید لیتے تھے اس لیے بی چارے مصنف کو تو اس کو کوئی فایدہ نہیں تھا لیکن ناشر کو تو جیسے سونے کی کان مل گئی تھی۔ دت بھارتی کو تو میں مل چکا تھا، لیکن گلشن نندہ کون صاحب تھے، کسی کو پتہ نہیں تھا۔ بہر حال اس کے ناول ایک لاکھ کی تعداد میں چھپتے تھے اور بمبئی کے ایک صاحب صابر دت نے ایک بار یہ خبر بھی کسی رسالے میں لکھی تھی کہ کرشن چندر آ ج کل گلشن نندہ کے ناول پڑھ رہے ہیں کہ یہ دیکھیں وہ کیا عنصر ہے جو اس کے ناولوں کو اتنا کامیاب بناتا ہے۔ بہر حال میں نے تہیہ کیا کہ اسی طرز  ِ تحریر میں ایک ناول لکھوں گا۔

 

ہوا یوں کہ میرے بہنوئی کا، جو پولیس میں  ترقی کرتے کرتے انسپیکٹرہو گئے تھے تھے، تبادلہ ضلع گورداسپور میں  ہو گیا اور ڈلہوزی کا صحت افزا پہاڑی مقام ان کی تحویل میں آیا۔ میں ایک ماہ ان کے پاس رہنے کے لیے چلا گیا کہ ایک ماہ میں دو سو صفحات کا ناول لکھ لوں گا۔ ڈسپلن کے طور پر دس صفحے روزانہ لکھتے ہوئے میں نے بیس دنوں میں ناول ’’آہٹ‘‘  مکمل کر لیا۔ لوٹا تو سیدھا دہلی شمع کے دفتر میں یونس صاحب کے پاس پہنچا۔ انہوں نے ناول کا مسودہ الٹ پلٹ کر دیکھا، کہیں کہیں سے ایک دو پیراگراف پڑھے۔ کہنے لگے، ’’آپ جانتے ہیں آنند صاحب، ہم رایلٹی پر کتاب نہیں چھاپتے۔ کاپی رایٹ خرید لیتے ہیں۔ اگر آپ مناسب خیال کریں تو کل تشریف لے آئیں، میں سارے قانونی کاغذات تیار کروا رکھوں گا۔‘‘

میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ مجھے کیا رقم ملے گی۔ حامی بھر لی اور واپس چلا آیا۔

دوسرے دن گیا تو انہوں نے اپنے نصف برادر انور دہلوی کو بلایا، جس نے کاغذات میرے سامنے پھیلا دیے، میں نے رقم دیکھی۔ پچیس سو روپے لکھا ہوا تھا۔ میں نے جلدی جلدی جہاں جہاں انور صاحب نے انگلی رکھی، دستخط کر دیے۔ جب وہ کیبن سے باہر چلا گیا، تو یونس صاحب نے اپنے جیب سے سو سو کے نئے نوٹ نکالے، گن کر پندرہ سو روپے میری طرف کھسکا دیے۔ میں نے ان کے منہ کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا، ’’ قاعدے کے مطابق تو مجھے ساڑھے بارہ سو آپ کو دینے تھے، لیکن میں  نے آپ کا کچھ لحاظ کیا ہے۔ آپ کا ناول بہت اچھا ہے۔‘‘ پھر بولے۔ ’’ صرف نصف رقم  ہی دینے کا قاعدہ ہے ہمارے ہاں۔‘‘

میں نے روپے جیب میں ڈالے۔ ان سے ہاتھ ملایا اور لوٹ آیا۔

یہ ایک دوسری کہانی ہے کہ اب بھی کبھی کبھی مجھے اتفاق سے کوئی شخص مل جاتا ہے جو مجھ سے تعارف ہوتے ہیں میرے ناول ’’آہٹ‘‘ کی تعریف کرنے لگتا ہے۔ اور خدا جانے کس کس سین کو سراہتا ہے، تو میں خود بھی حیران ہوتا ہوں کہ میں نے تو یہ ناول اپنے ابتدائی دور میں صرف معاوضے کی خاطر لکھا تھا اور ڈلہوزی کے ایک مکان میں بیٹھ کر صرف بیس دنوں میں مکمل کیا تھا۔ اور کہ میرے پاس ناول کی کوئی جلد نہیں ہے اور میں بھول چکا ہوں کہ میں نے کیا لکھا تھا۔

 

پریم وار برٹنی کا نام سنا تھا۔ ان کی نظمیں بھی پڑھی تھیں۔ رومانی، سیاسی، سماجی۔ پُر گو شاعر تھے، لیکن مالیرکوٹلہ کے اتنے قریب ہونے کے باوجود ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ امرت لال عشرت مالیرکوٹلہ کے گورنمنٹ کالج میں اردو کے پروفیسر تھے۔ ایک بار لاہور بک شاپ پر کالج لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے آئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ جس شخص سے وہ ڈسکاؤنٹ وغیرہ کی بات کر رہے تھے وہ ستیہ پال آنند تھا۔ جب انہیں پتہ چلا تو بغلگیر ہوئے تھے اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں ان کے کالج کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کے لیے ضرور آؤں گا۔ ان کی طرف سے جب ایک دعوت  نامہ ملا تو میں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ لدھیانہ سے ایک ٹرین مالیرکوٹلہ ہوتی ہوئی آگے شاید دھوری قصبے تک جاتی تھی۔ مالیرکوٹلہ کا ریلوے اسٹیشن ایک گاؤں کا سا تھا، لیکن جب میں پہنچا تو پلیٹ فارم پر ہی چھ سات اشخاص کو اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا۔

ان میں سے ایک پریم وار برٹنی تھے۔

ہم لوگ ایسے ملے جیسے برسوں سے بچھڑے ہوئے ہوں۔ پریم نے دیگر دوستوں کے سامنے میری تعریف میں زمین اور آسمان ایک کر دیے۔ میں نے آخر جوابی حملہ یہ کیا کہ پریم صاحب کی تعریف شروع کر دی۔ اس طرح یہ پہلی ملاقات ایک ایسے رشتے میں بدل گئی کہ لوگ ہماری دوستی کی قسمیں کھانے لگے۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے افسانوں کے پہلے مجموعے ’’جینے کے لیے‘‘ کا انتساب بھی پریم کے نام کیا۔ ہم لگ بھگ ہر ہفتے ملتے۔ پریم اکثر و بیشتر ہفتے کے دن  لدھیانہ آ جاتے، اسٹیشن کے قریب ہی گھنٹہ گھر کے پاس لاہور بک شاپ پر مجھ سے ملتے اور میں پانچ بجے چھٹی ہونے پر ان کے ساتھ دیسی شراب کے ٹھیکے کی  طرف چل پڑتا۔ اگر روپے نہ ہوتے تو دکان سے اپنی رائلٹی کے اکاؤنٹ میں کچھ ایڈوانس لے لیتا۔ پینے پلانے کے بعد ہم لوگ کسی ڈھابے میں کھانا کھاتے اور پھر یا تو پریم رات کی گاڑی سے واپس  مالیرکوٹلہ چلے جاتے اور یا میرے گھر میں ٹھہر جاتے تا کہ دوسری صبح  اتوار کو ہم دونوں نکودر کے قصبے تک بس میں جا کر  جوش ملسیانی صاحب کے نیاز حاصل کر سکیں۔

 

جوش ملسیانی !

 

داغ دہلوی کے شاگرد، جوش ملسیانی، جالندھر ضلع کے ایک گاؤں ملسیاں میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ بات الگ ہے کہ داغ دہلوی کے شاگردوں کی جو فہرست مرتب کی گئی ہے اس میں ان کے نام کے ساتھ سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ لیکن جوش مرحوم کے نکودر کے مکان کی بیٹھک میں ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک غزل اور اس پر داغ کی تصحیح کی تصویر دیوار پر آویزاں تھی، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ نہیں تو کم از کم ایک غزل پر داغ دہلوی نے انہیں اصلاح سے نوازا تھا۔

جوش ملسیانی پچاس سے ساٹھ تک کی دہائی میں ایک ایسے استاد تھے جن کے شاگرد پنجاب میں تو تھے ہی، لیکن پنجاب نژاد وہ لوگ بھی تھے جو دہلی اور اس کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ ان کی بیٹھک میں ہفتہ وار نشستیں جمتی تھیں جن میں اس ہفتے کی طرحی غزلیں سنائی جاتی تھیں۔ وہ مشکل سے مشکل قوافی اور ردیفیں مصرع طرح میں ایسے جڑتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ (پریم وار برٹنی اور میں نے بھی ایک زمین میں طبع آزمائی کی تھی، جس کی ردیف تھی: ’’دو بٹا تین!‘‘ )

ہم دونوں نے کبھی جوش ملسیانی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا۔ جوش صاحب نظم نہیں کہتے تھے اور ہم دونوں نظم کے شاعر تھے۔ لیکن انہوں نے ہمیں اپنے حلقے میں قبول کیا تھا  کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں، وہ روایتی غزل سے بدرجہا بہتر ہے۔ آزاد نظموں کو نا پسند کرتے تھے اس لیے پریم اور میں ہمیشہ ان کی محافل میں پابند نظمیں یا مسلسل غزل کے فارمیٹ میں لکھی ہوئی نظمیں ہی پیش کرتے تھے۔

 

ہوتا یہ کہ پریم شام کو چوک گھنٹہ گھر لدھیانہ میں پہنچ جاتے۔ میرے ساتھ چلتے۔ ان کے پاس سوائے پہنے ہوئے کپڑوں اور ایک بیاض کے اور کچھ نہ ہوتا، اور وہ صبح کو نہانے کے عادی بھی نہیں تھے اور شاید دانتوں کے برش سے بالکل نا آشنا تھے۔ اس لیے رات پینے کے بعد میرے اقبال گنج کے گھر کی بیٹھک میں کاؤچ پر سو جاتے۔ صبح اٹھ کر، منہ ہاتھ دھو کر  اور ناشتے سے فارغ ہو کر میرے ساتھ بس اڈے کی طرف چل پڑتے۔ بس اڈا بھی چوک گھنٹہ گھر کے قریب سبزی منڈی کے ساتھ ہی منسلک تھا۔ وہاں سے ہم نکودر کی بس پکڑتے اور یہ بس ہمیں بیس پچیس میل کا راستہ ایک گھنٹے میں طے کرنے کے بعد نکودر لا پٹختی۔

ہم لوگ پیدل چلتے ہوئے ہی جوش صاحب کے مکان تک پہنچ جاتے۔ بیٹھک کا دروازہ ہمیشہ نیم وا ہوتا، لیکن اس پر پردے کی صورت میں اور دھول سے بچنے کے لیے  ایک چق پڑی ہوتی۔ ہم لوگ چق اٹھا کر اندر داخل ہوتے۔ عموماً ہم جوش صاحب کو  گاؤ تکیے کے سہارے  دری اور سفید براق چادر کے فرش پر، سامنے اندرون گھر کے دروازے کے ساتھ، بیٹھا ہوا دیکھتے۔ ہم لوگ آداب بجا لاتے۔ جوتے اتارتے اور ادب سے بیٹھ جاتے۔ ایک دو اصحاب پہلے ہی پہنچے ہوئے ہوتے۔ ہم دونوں کو دیکھ کر جوش صاحب کی آنکھیں جیسے چمک اٹھتیں۔ وہیں سے اندر دروازے کی طرف رخ کر کے آواز دیتے، ’’ارے بھائی کچھ شربت وغیرہ لاؤ، لدھیانہ سے دو نوجوان شاعر آئے ہیں۔‘‘ جوش صاحب چائے سے پرہیز کرتے تھے اور چائے پیش بھی نہیں کرتے تھے۔

محفل جمنا شروع ہو جاتی۔ جالندھر اور ہوشیارپور سے بھی ہمیشہ کچھ اصحاب حاضر ہوتے تھے۔ کچھ شاگردان تحفے بھی لاتے۔ پھل، خشک میوے، نئے فاؤنٹین پین۔ مٹھائی، لڈو  وغیرہ تو وہیں بانٹ دیے جاتے، لیکن دیگر تحائف وہ اندر بھجوا دیتے۔ سوہن حلوہ بہت پسند کرتے تھے اس لیے کچھ شاگردان کسی مقامی حلوائی سے  ایک سیر کا ڈبہ لاتے تو سب کو تھوڑا تھوڑا بانٹ دیا جاتا۔ آنے والوں میں کئی نام تھے جو آج تک یاد ہیں، آزاد گورداسپوری، تلک راج تشنہ، ہر بھگوان شاد، دینا ناتھ فاضل، ہما ہرنالوی۔۔ کبھی کبھی جوش صاحب کے فرزند اور مشہور شاعر بالمکند عرش ملسیانی بھی دہلی سے تشریف لاتے۔ دہلی میں وہ جوش ملیح آبادی کی ادارت میں شایع ہونے والے مرکزی حکومت کے اردو رسالے  ’’آجکل‘‘ میں سب ایڈیٹر تھے۔ ان کے ساتھاساحر ہوشیار پوری بھی ہوتے تو مزہ دو چند ہو جاتا۔ ’ ساحر‘  تخلص کے گنہ گار دو اور اشخاص بھی تھے۔ ایک ساحر کپورتھلوی تھے جو ہمیشہ نشے میں مدہوش رہتے تھے۔ ایک ساحر سنامی تھے جو تحصیلدار تھے اور بڑے ٹھاٹ باٹ سے آتے تھے، ان کے ساتھ ایک با وردی اہلکار بھی ہوتا تھا۔

جوش صاحب اپنی پشت پر دیوار کے ساتھ ایک لمبی چھڑی رکھتے تھے۔ یہ چھریری سی، دراز قد چھڑی کسی شہتوت سے کاٹی ہوئی تھی اور اب اپنی رنگت کھو چکی تھی۔ جب کوئی شاگرد   وزن سے خارج شعر پڑھتا تو اس کی طرف، خشمگیں نظروں سے نہیں، شفقت کی نظروں سے دیکھتے، چھڑی کو کھینچ کر نکالتے اور اس شاگرد کے ٹخنے پر ہلکی سی چوٹ لگاتے۔ کس کی مجال تھی کہ کوئی ہنسے؟ سب رعبِ ادب سے خاموش بیٹھے رہتے۔

 

میرا  اندازہ  ہے کہ کل ملا کر پریم صاحب اور میں جوش صاحب کے نیاز حاصل کرنے کے لیے پندرہ بیس بار گئے ہوں گے۔ اس دوران میں ہمیں جالندھر کے اردو اخباروں سے وابستہ جوش صاحب کے شاگرد پہچاننے لگے کہ یہ دونوں مختلف قسم کے شاعر ہیں۔ ان میں ہر بھگوان شاد اور ہما ہرنالوی تھے جو دو الگ الگ اخباروں میں سب ایڈیٹر تھے۔ اپنے سنڈے ایڈیشن کے شعری کالموں کے لیے انہوں نے ہم سے اصرار کرنا شروع کیا کہ ہم بھی اس میں شامل ہوں۔  پریم تو ہمہ وقت تیار تھے البتہ تب تک مجھے اپنے نام کی اہمیت کا احساس ہو چلا تھا اور یوں بھی میں ان نشستوں میں کچھ سیکھ نہیں سکتا تھا، اس لیے میں نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا اور سنڈے ایڈیشنوں میں شرکت کو اپنے ادبی قد سے کمتر سمجھا۔

ایک امر جو قابل ذکر ہے، وہ اسی زمانے میں مطبوعہ جوش ملسیانی صاحب کی شرح دیوان غالب کے بارے میں ہے۔ اسے پنجاب یونیورسٹی نے ادیب فاضل کے امتحان کے لیے امدادی کتب کی فہرست میں رکھا ہوا تھا۔ میں نے بھی ایک جلد خرید رکھی تھی۔ کچھ دیگر شارحین کی شرحیں بھی  میرےپاس تھیں، خصوصی طور پر حیدر آباد دکن سے چھپی ہوئی نظم طباطبائی کی شرح جو میرے ادبی دوست شاذ تمکنت نے مجھے بھجوائی تھی۔ یہ شرح جوش صاحب کی شرح سے بہت پہلے چھپی تھی۔ کچھ اشعار کی شرحوں کے تقابلی مطالعے سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ جوش صاحب غالب کی استعارہ سازی کی مدوریت اور ملفوفیت کو پوری طرح اس لیے نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اسلامی عقیدوں کو بہ احسن و خوبی نہیں سمجھتے تھے اور اپنی مرضی سے غالب کے اشعار کے ساتھ اپنی شرح ٹانک دیتے ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا کہ ایک استاد شاعر کیسے ان فرو گذاشتوں کا مجرم ہو سکتا ہے۔ پریم سے رائے مانگی تو اس نے کہا، تم بیشک کسی دن محفل میں ذکر کرو کہ تم نے نظم طباطبائی کی شرح میں ایک شعر کے معنی اس طرح دیکھے ہیں اور کیا جوش ملسیانی صاحب ارشاد فرمائیں گے کہ ان کی شرح میں معنی مختلف کیوں ہیں ؟

میں نے، وکالت کی زبان میں، اپنے ’کیس‘ کا ’بریف‘ پوری طرح تیار کیا اور ایک دن غالب کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے میں نے  یہ شعر پڑھا

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک

بے اختیار دوڑے ہے گُل در قفائے گُل

میں نے کچھ دیگر شارحین کی کتابوں میں بھی مصرع ثانی میں ’’گُل‘‘ کی تکرار کا جواز تلاش کر لیا تھا۔ سبھی شارحین تو متفق نہیں تھے، لیکن بیشتر کا موقف یہ تھا کہ جس ’’گُل‘‘ کے دوڑنے کا اشارہ ہے، اس سے مراد ’’چراغ کی بتی یا ماچس کی تیلی کا جلا ہوا یا جلتا ہوا سرا‘‘ ہے۔ ایک شارح نے تو ’’گل‘‘ سے مراد یہ لی تھی کہ یہ وہ نشان ہے جو دھات گرم کر کے جسم پر دیتے ہیں۔ اور سحرؔ کا شعر بھی پیش کیا تھا، ؎ کیا حرارت ہے مری نبض میں سوز ِ غم سے : ہاتھ پر گُل تیرے چھّلوں کے ہیں مرجھائے ہوئے۔ مطلب یہ ہوا کہ بجھتی ہوئی شمع کی طرح پھول کی زبان میں (قفا ’ زبان  یا ’گُدّی‘ کو کہتے ہیں) اس کا  ’گل‘  دوڑ رہا ہے (کہ کہاں شرم سے منہ چھپائے ) کیونکہ تیرے (معشوق کے) جلوے نے اسے یہ دھوکا دیا ہے۔ (کہ معشوق کے جلوے کے مقابلے میں وہ ہیچ ہے)

جب میں نے یہ شعر پڑھا تو موصوف  (جوش صاحب) نے اندر سے اپنی تحریر کردہ شرح منگوا لی۔ شعر نکالا اور اس کی شرح جوں کی توں پڑھ دی۔  اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے عرض کیا، ’’نظم طباطبائی کی شرح میں۔۔۔۔‘‘

ابھی میں کچھ اور کہہ بھی نہ پایا تھا کہ موصوف نے مجھ سے پوچھا، ’’نظم طبابائی کون؟‘‘

اور پھر کہا، ’’کئی لوگ ہیں شرحیں لکھنے والے! میں نے تو ان کا نام بھی نہیں سنا۔ ہوں گے کوئی، نظم طبا طبائی!‘‘  انہوں نے چبا چبا کر یہ نام لیا اور پھر آخری جملہ کسا، ’’ہندوستان بھرا پڑا ہے غالب شناسوں سے!!‘‘

 

اس کے بعد پریم صاحب اور میں نے ان کی ’زیارت‘ کی خاطر جانا بند کر دیا۔ سوچا جو شخص جیتے جی قبر میں دفن ہو، اس سے ہمارا کیا لینا دینا!

پریم وار برٹنی شراب، آوارگی اور دوستوں کے علاوہ ’شاگردوں ‘ کے کندھوں  پر اپنا دنیاوی سامان رکھ کر مالیرکوٹلہ سے دہلی اور پھر وہاں سے ممبئی چلے گئے۔ کبھی کبھار ان کا کوئی خط آ جاتا تو اچھا لگتا۔  قدرت نے انہیں  جو کچھ دیا تھا اس میں وہی گُن تھے جو کسی زمانے میں اسرار الحق مجاز میں تھے، فرق صرف یہ تھا کہ مجاز پینے پلانے کے باوجود ایک ایسے معاشرے میں پنپ رہے تھے جس میں اردو کی قدر کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی بجائے خود علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ پریم کو صرف اپنی شاعری پر بھروسہ تھا کہ وہ اچھا شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ بات درست تھی، لیکن نہ تو سماجی رتبہ تھا، نہ ادباء کے ساتھ ذاتی سطح پر تعلقات تھے۔ ذاتی سطح پر جو دوست تھے، وہ بار بار قرض دینے سے تنگ آ کر انہیں قریب آنے ہی نہیں دیتے تھے اور گھر کے اندر سے ہی کہلوا بھیجتے تھے کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ ان کی شاعری رومانویت سے آگے نہ بڑھ سکی شاید اس لیے کہ وہ مطالعے کے عادی نہیں تھے۔ میٹرک تک جو کچھ نصاب میں پڑھا تھا وہی ان کا سرمایہ تھا۔ کلاسیکی اردو شاعری سے نا بلد محض تھے۔ نام کے ساتھ  ’’وار برٹن‘‘  گاؤں کا لاحقہ لگا کر بھی انہوں نے کچھ کھویا ہی تھا، پایا نہیں تھا۔ میں پاکستان کے چوٹی کے رسائل، ’’سویرا‘‘، ’’ ادب لطیف‘‘ ’’، نقوش‘‘  وغیرہ میں لکھنے لگا تھا  جب ایک بار میں نے انہیں تجویز دی کہ وہ میرے حوالے سے ہی احمد راہی، مدیر  سہ ماہی ’’ سویرا‘‘ کو اپنی کچھ تخلیقات بھیجیں تو وہ مجھے ہی ایک لفافہ بنا کر دے گئے کہ میں اسے پوسٹ کر دوں۔  احمد راہی صاحب نے واپسی کا میرا پتہ دیکھ کر مجھے ہی  جواب    دیا۔ ’’آنند صاحب، ‘‘ انہوں نے لکھا، ’’اپنے دوست پریم صاحب سے کہیں کہ جب تک وہ اپنے نام کے ساتھ چسپاں اپنے قصبے کے نام سے آزادی حاصل نہیں کریں گے۔ ان کی تخلیقات کو سویرا میں شامل نہیں کیا جائے گا۔‘‘ میں نے اس خط کے بارے میں انہیں کچھ نہیں بتایا۔ صرف یہ کہا کہ ان کی نظمیں محفوظ کر لی گئی ہیں، شاید اگلے کسی شمارے میں شامل ہوں گی۔

 

دیگر دوستوں میں کمار وکل میرے قریب آئے تو مجھے لگا جیسے مجھے ایک اور چھوٹا بھائی مل گیا ہو۔ کمار میرے گھر کے قریب ہی رہتے تھے۔ میٹرک میں میرے چھوٹے بھائی کے ہم جماعت تھے۔ والد مٹھائی فروش تھے اور مٹھائی کی دکان کے اوپر ہی ایک کمرے کے بالاخانے میں پورا پریوار رہتا تھا۔ غریبی تو میرے ہاں بھی تھی، لیکن میں دھن کا پکا، محنتی، چودہ چودہ گھنٹے روزانہ کام کرنے والا، ایک ماہ میں دو کلرکوں کی آمدنی کے برابر روپے بنا لیتا تھا۔ کمار اچھے، بہت اچھے، ہندی کوی تھے، لیکن ذاتی سطح پر بے حد لا پروائی اور بے توجہی کا پتلا، جسے اس بات کو کوئی خیال نہ ہو کہ وہ دوستوں کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے بے مروتی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔

انگریزی فلم صرف اتوار کو کسی نہ کسی مقامی سنیما گھر میں دکھائی جاتی تھی۔ میں اکثر اس کے اصرار پر اسے ساتھ لے جاتا۔ لوئیر کلاس میں رش ہوتا تو  اپر کلاس کا ٹکٹ خریدتا، جو شاید بارہ آنے تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وکل صاحب فلم شروع ہونے سے چند منٹ قبل اٹھے، مجھے کہا، ’میں پیشاب کر کے آتا ہوں، ‘، باہر جا کر گیٹ پاس سستے داموں بیچ دیا، اور یہ جا، وہ جا اپنی آوارہ گردی پر نکل گئے۔ جب مجھے کان ہو گئے تو میں نے انہیں ساتھ لے جانا بند کر دیا۔ لیکن ڈھٹائی کی حد یہ تھی کہ پھر بھی منّت سماجت کر کے میرے ساتھ چل ہی پڑتے اور پھر جھانسا دے کر اپنے آٹھ آنے یا بارہ آنے کھرا کر لیتے۔ میری عمر تب پچیس برس کی ہو چکی تھی اور وہ بھی بچے نہیں تھے، بایئس تیئس کے ہو چکے  تھے، لیکن۔۔۔۔

 

اور اس طرح آخر کار میں نے نہ صرف اپنی بیوہ ماں اور چھوٹے بھائی اور بہن کو تعلیم دلوائی بلکہ خود بھی میٹرک کے بعد، ادیب فاضل، بی اے، ایم اے (انگریزی) کرتے ہوئے مجھے تیرہ برس لگ گئے، لیکن 1960 ء کے بعد جب میں نے ایک دن ایک نگاہ غلط انداز اپنے گزشتہ برسوں پر ڈالی، تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی، کہ اس دوران میں نہ صرف میں نے اس کچے مکان کو ایک پکی منزل میں تبدیل کر لیا تھا، نہ صرف اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر دیا تھا، نہ صرف خود اونچے درجے کی تعلیم حاصل کر لی تھی، بلکہ بغیر کوئی تردد کیے، اپنے لیے اردو اور ہندی ادب میں ایک نثر نگار اور شاعر کے طور پر ایک جگہ بھی بنا لی تھی۔

انیس سو ساٹھ، ستّر، اسّی، اور نوّے کی دہائی۔ تیس، پینتیس برس۔ میں جامعہ کی سطح پر ترقی کرتے ہوئے اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پروفیسر ہوا، شعبے کا صدر بنا، باہر کے ملکوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر کئی چکر لگا آیا، لیکن پاکستان جانے اور اپنے آبائی مکان کے در و دیوار سے لپٹ کر انہیں پیار کرنے کا موقع میسر نہ آ سکا۔ دو تین بار میں نے پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش بھی کی، ایک بار تو ویزا ملتے ملتے  بھی رہ گیا، لیکن ہر بار کوئی کوئی سیاسی رخنہ اندازی ہو جاتی اور ویزے کا ملنا رُک جاتا۔ اُنیس سو پینسٹھ کی اور اس کے بعد انیس سو اکہتّر کی جنگوں نے رہی سہی کسر نکال دی اور انڈیا  میں، جو کہ میرا  وطن نہیں تھا، ایک مہمان کی طرح رہتے ہوئے میرا کوٹ سارنگ کے اپنے گھر کو دیکھنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔

پھر وہ دن بھی آیا جب میں نے اپنے اختیار کردہ ملک کو بھی چھوڑ دیا اور باہر کے کسی ملک میں ہجرت کر جانے کے ارادے سے نکل پڑا۔ انگلستان، کینیڈا، اور آخر میں امریکا۔ میرے پاؤں کہیں بھی نہ ٹک سکے۔ دو برسوں تک سعودی  عرب میں پروفیسر کے طور پر اقامت بھی اسی رسی میں ایک گرہ تھی۔ وہاں سے بھی میں نے پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکامی ہوئی۔ وہاں پاکستانی سفارت خانے کے ایک کارندے نے جو اردو کی شعر و شاعری کی محفلوں میں اکثر آیا کرتا تھا، کہا، ’’ آنند صاحب، اردو اد ب میں آپ کا اتنا بڑا نام ہے۔ اگر آپ کے پاس امریکا کا پاسپورٹ ہوتا تو کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ آپ کو ویزا نہ ملتا، لیکن انڈیا کے پاسپورٹ پر ویزا ملنا ذرا مشکل کام ہے۔‘‘

تو طے ہوا کہ امریکا کی شہریت لے ہی لی جائے۔ لیکن اس سے پہلے میں چاہتا تھا، کہ اگر میں کوٹ سارنگ نہیں جا سکتا، تو کیا کوٹ سارنگ میرے پاس نہیں آ سکتا؟ ریاض میں مرحوم شبنم مناروی نے مجھے بتایا تھا کہ جناب علی محمد فرشی کوٹ سارنگ کے رہنے والے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں تھا کہ کون ہیں، کتنی عمر کے ہیں، صرف ان سے اردو کے ادبی رسالوں کے حوالے سے واقفیت تھی۔ خط لکھا۔ ایک محبت بھرا جواب آیا، اور اس کے بعد، خطوں اور کتابوں کا تبادلہ ہوا۔ آخر ایک خط میں دل کی بات قلم کی نوک سے نکل کر کاغذ پر بکھر ہی گئی۔ میں نے علی محمد فرشی کو لکھا، آپ کا کرم ہو گا، اگر آپ کوٹ سارنگ، اس کے گرد و نواح کے کچھ مناظر کی تصاویر اور گلی سے اٹھائی ہوئی ایک پڑیا بھر مٹی ڈاک سے مجھے بھیج دیں۔ فرشی صاحب نے شاید مجھے دیوانہ سمجھ کر یہ کام فوری طور پر کر دیا اور ایک دن امریکا میں مجھے ایک پیکٹ ملا، جس میں کوٹ سارنگ کی پڑیا بھر مٹی تھی، اور ایک درجن کے لگ بھگ تصویریں تھیں۔۔۔۔۔۔

 

جنم بھومی کی مٹّی

(علی محمد فرشیؔ کے توسط سے اپنے آبائی گاؤں کوٹ سارنگ کی ایک پُڑیا میں بند مُٹھی بھر مٹّی ملنے پر)

 

سجدہ ریز ہوا میں

قشقہ کھینچا اپنے گاؤں کی مٹی سے

کیا سوندھی خوشبو ہے

کیسا لمس ہے

کیا ٹھنڈک ہے اس کی

مٹی، جو کھیتوں، کھلیانوں

گلیوں، کوچوں

اور گھروں کے کچے صحنوں اور چھتوں سے

 

اُڑتی اُڑتی سات سمندر پار کئی برسوں سے مجھ کو ڈھونڈ رہی تھی

اب میرے گھر تک پہنچی ہے

 

اس مٹی میں بول رہے ہیں

 

گھر، گلیاں، روزن، دروازے

دیواریں، چھجے، پرنالے

سب کہتے ہیں

ہم تو نصف صدی سے اپنی آنکھیں کھولے جاگ رہے ہیں

رامؔ بھی بنباسی تھے، لیکن

چودہ برس گزرنے پر وہ اپنی اجُدھیا لوٹ آئے تھے

تم کیسے بنباس سدھارے

نصف صدی تک لوٹ نہ پائے!

 

کیا جانیں وہ میرے ساتھی

میں اک بد قسمت پردیسی

اپنی مجبوری کی زنجیروں میں بندھا ہوا زندانی

سات سمندر پار کی اس بے رحم زمیں پر

 

بے گھر بیٹھا سوچ رہا ہوں

کب بنباس کٹے گا میرا؟

کب میں اپنی جنم اجُدھیا، اپنے گھر کو لوٹ سکوں گا!

 

اور  میں اسی برس یعنی بیسویں صدی کے آخری سسکتے ہوئے دنوں میں امریکا سے امریکن پاسپورٹ پر لاہور اور پنڈی ہوتا ہوا کوٹ سارنگ پہنچتا ہوں۔ جس گاؤں کو میں نے سولہہ برس کی عمر میں چھوڑا تھا، آج ستّر برس کی عمر میں میں ایک بار پھر اس سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔

میں تنگ پتھریلی گلی میں داخل ہوتا ہوں۔ میرے پیچھے گاؤں والوں کا ایک جمگھٹ ہے، جو امریکا سے لوٹ کر آئے ہوئے Missing Prodigal کے ساتھ اس کے مکان تک جانا چاہتے ہیں۔ ان میں شاید ہی کوئی ہو جو میری اپنی عمر کا ہو۔ نئی پود، اس کے بعد ایک اور نئی پود اور پھر ایک اور نئی پود! مجھے البئیر کامُو  کے کسی  ڈرامے میں ایک کردار کے مکالمے کی ایک سطر یاد آتی ہے:  ’’بیس برس بڑا ہونا تو ایک نسل بڑا ہونا ہے، میری طرح ساٹھ برس یعنی تین نسلیں بڑا ہو کر دکھاؤ!‘‘ گویا وہ بچے جو میرے پیچھے پیچھے اس لیے چل رہے ہیں کہ دیکھیں تو میں کون سے گھر جاتا ہوں، مجھ سے تین چار نسلیں پیچھے ہیں۔ کھیلتے تو اسی طرح ہوں گے؟ میں سوچتا ہوں۔ گلی ڈنڈا؟ پتنگ بازی؟  بنٹے؟ چھپّن چھوت؟کنہاڑی چڑھنا؟ چینجی؟ کسی بچے سے پوچھ کر تو دیکھوں آج کل وہ کون سے کھیل کھیلتے ہیں !

میں راستہ پہچانتا ہوں، اور راستہ میرے قدموں سے آشنا ہے۔ میرے پیچھے چلنے والے چہ میگویاں کر رہے ہیں، کون سے گھر جائے گا یہ ؟ لیکن میں جیسے ایک غیر مرئی تار سے بندھا ہوا چلتا جا رہا ہوں۔ لگ بھگ ایک سو قدموں کی دوری  سے ہی میرے  کانوں میں کچھ آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ شاید میرے کان بج رہے ہیں، شاید میرے ذہن کے سمندر میں کچھ لہریں مچلنے لگی ہیں۔ شاید مکان نے ایک سو قدموں کی دوری سے ہی میرے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے۔۔۔۔۔

لیکن یہ  آوازیں غیر مرئی ہیں۔ وہ دوسرے لوگ جو شاعر اور ادیب ہیں اور  اسلام آباد، راولپنڈی سے میرے ساتھ آئے ہیں، ان آوازوں کو نہیں سن سکتے۔ میں رکتا ہوں تو آوازیں بھی رک جاتی ہیں، میں چلتا ہوں تو آوازیں پھر شروع ہو جاتی ہیں۔ سبھی آوازیں مکان کی جانب سے میری طرف آ رہی ہیں۔ کچھ نسوانی ہیں، کچھ مردانہ، لیکن سبھی عمر رسیدہہیں۔ ان میں سے کوئی آواز بھی بچپن کی تازگی یا جوانی کی حدت سے لبریز نہیں ہے۔

 

نٹ کھٹ کی واپسی

 

تنگ پتھریلی گلی نے چونک کر آواز دی

۔۔ شاید وہی ہے!

دھوپ، جو آہستگی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے

بے دم سی شاید تھک گئی تھی

ایک لحظہ رک گئی

 

۔۔ کیا واقعی وہ آ رہا ہے؟

ضعف کی ماری ہوئی بوڑھی ہوا نے

پوپلے منہ سے کہا

۔۔ میں اس کی خوشبو سونگھ سکتی ہوں

وہی نٹ کھٹ ہے، واپس آ رہا ہے!

 

بوڑھے دروازوں کی آنکھیں بند تھیں

۔۔ کچھ بھی نظر آتا نہیں، شاید وہی ہو!

 

اس کے بچپن کا کھلنڈرا دوست

اک کنچا، جو پچھلے ساٹھ برسوں سے

گلی کے ایک کونے میں منوں مٹی کے نیچے سو رہا تھا

 

کلبلا کر چیخ اٹھا

۔۔ المدد! کوئی مجھے باہر نکالو!

 

ہاں، وہی ہے! دھوپ بولی

پر وہ بچہ جس کو میں پہچانتی تھی

آنے والے مرد کے دل میں کہیں گُم ہو گیا ہے

بوڑھے دروازوں نے آنکھیں کھول دیں

۔۔ پہچانتے ہیں ہم اسے! لڑکا وہی  ہے

باپ کی مانند لمبا ہو گیا ہے

تنگ پتھریلی گلی بولی

۔۔ میں کتنی پیڑھیوں سے

ننھے قدموں کے بڑے ہوتے ہوئے سب نقش

اپنے جسم پر سنبھال کر رکھتی رہی ہوں

کلبلاتا، چیختا کنچا منوں مٹی کے نیچے رو دیا

۔۔ میں کیسے نکلوں ؟

اور پھر بوڑھی ہوا جو دم بخود سی رک گئی تھی

لڑکیوں سی کھلکھلا کر ہنس پڑی

۔۔ آؤ ذرا دیکھیں

تمہارے گال، آنکھیں، بال، چہرہ تو وہی ہے

اتنی مدّت تک کہاں گم ہو گئے تھے؟

اب کہو، آیا کرو گے؟

 

 

ڈیوڑھی میں حالیہ مکین کی بیوی آ کھڑی ہوتی ہے۔ اس کا خاوند ایک غریب سبزی فروش ہے۔ یہ لوگ کشمیر کے مہاجر ہیں۔ ’’آپ کا اپنا گھر ہے، ‘‘ وہ کہتی ہے، ’’اندر آ جائیں۔‘‘ شاید اسے  میرے آنے کی اطلاع پہلے ہی مل چکی ہے۔ وہ صحن میں   ایک جھلنگا  چارپائی پر ایک کھیس بچھا دیتی ہے، لیکن میں کہتا ہوں۔ ’’بہن، مجھے اندر کا کمرہ دیکھنا ہے۔‘‘ یہ اندر کا کمرہ وہی تھا جسے سب ’محل‘ کہتے تھے اور جس میں شاید میں اور میرے دیگر چھ بھائی بہن پیدا ہوئے تھے اور جو میری یادوں کی تختی پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ اس کمرے کے اندرونی چوبی چھت میں شیشے کے رنگین ٹکڑے جڑے ہوئے تھے اور میں اور میرے بھائی بہن اکثر رات کو کھیلتے ہوئے ٹارچ کی روشنی میں ان شیشوں کی بہار دیکھتے تھے۔ کچھ یادیں جو تازہ ہو آئیں، ان میں تین بڑی بہنوں کی شادیاں تھی، جن کے سسرال چلے جانے کے بعد وہ چار بچے رہ گئے تھے۔ اسی صحن میں ان کے لاواں پھیرے ہوئے تھے اور یہ یں سے ان کی ڈولیاں اٹھی تھیں۔ ایک یاد جو بار بار میرے دل کا احاطہ کر رہی تھی، وہ سردیوں کی رات کو سونے کا اور صبح جاگنے کا منظر تھا۔ وہ چاروں بچے جب رات کو اپنے اپنے بستر پر لحاف اوڑھ کر سونے لگتے تو ماں کو ایک پلنگ پر اور بابو جی کو دوسرے پلنگ پر بیٹھے ہوئے گور بانی سے پاٹھ کرتے سنتے۔ سنتے سنتے وہ سو جاتے۔ جب صبح جاگتے تو اسی طرح دونوں کو اپنے اپنے پلنگ پر بیٹھے ہوئے پاٹھ کرتے ہوئے پاتے۔ اور سب بچے خود سے یہ خاموش سوال پوچھتے کہ یہ رات بھر سوئے نہیں ہیں، حالانکہ انہیں اس بات کا علم ہوتا  کہ وہ منہ اندھیرے جاگ کر اور نہا دھو کر پاٹھ کر رہے ہیں۔

میں اپنے ماں باپ اور دادی کی آتماؤں کی شانتی کے لیے دعا مانگ کر ’محل  سے باہر نکلتا ہوں۔ گھر کی حالیہ مالکن خود چارپائی کی پٹی کے ساتھ لگ کر زمین پر بیٹھ جاتی ہے۔ میرے ساتھی شاعر اور ادیب کھڑے رہتے ہیں۔ میں چارپائی پر بیٹھ جاتا ہوں تووہ عورت دھیمی آواز میں کہتی ہے، ’’صاحب جی، مکان کی پچھلی دیوار بہت کمزور ہے جی۔ چھت ٹپکتی ہے۔۔۔۔۔‘‘

میرے دل میں ایک گرہ سی پڑ جاتی ہے۔ کیا یہ عورت واقعی خود بول رہی ہے، یا اس کی زبان سے اس کے دادا جان کا  سن انیس سو ایک میں بنوایا ہوا یہ ایک سو برس بوڑھا مکان زبان حال سے فریاد کر رہا ہے، ’’دیکھو، میں تمہارے باپ داد کی  نشانی ہوں۔ میری دیواریں ڈھیلی پڑ چکی ہیں۔ میں مر رہا ہوں۔ کیا میرا کچھ نہیں کرو گے؟۔۔۔ کیا بوڑھے ماں باپ کو لوگ یونہی مرنے کے لیے جھلنگی چارپائی پر پڑا چھوڑ دیتے ہیں ؟‘‘

 

بے وقت کی راگنی

 

اس کے سر میں اکثر درد رہتا تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا اور گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں اس کے ہم عمر اپنی ماؤں کی ڈانٹ ڈپٹ کے زور پر گھروں میں دبکے ہوتے تھے، وہ گلیوں میں پھرا کرتا تھا، یہ درد تب بھی اس کا ساتھی تھا۔ اب خیر سے وہ بڑا ہو گیا تھا لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ اسے بڈھا بابا کہا جائے۔ عمر پچیس سے تیس کے درمیان ہو گی لیکن دماغی طور پر وہ بابا ہی تھا۔ عمر کے حساب سے کچھ ایسا ویسا نہیں کرتا تھا۔ وہ بس کام پر جاتا اور واپس آ کر سو جاتا، یہی اس کی زندگی تھی۔ اس میں کہیں جوانی کا انگارہ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کرائے کے کمرے میں ہی فرصت کے لمحات کاٹتا حالانکہ اس کے زیادہ تر ہم کار کسی نہ کسی لڑکی کے چکر میں گھن چکر بنے ہوئے تھے، لیکن وہ کمرے میں کچھ اس طرح گھس بس گیا تھا کہ کمرہ اس کا حجرہ معلوم دیتا اور وہ حجرہ نشیں …۔ لیکن زمانہ اس سے پرے پرے بدل چکا تھا اور وہ زمانے کی رفتار کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا تھا۔ وہ خاص شرمیلا تھا نہ بھونچو لیکن شکاری بھی نہ تھا۔ اس کے جال میں کوئی مچھلی پھنسی نہیں تھی یا شاید اس نے جال صحیح طرح پھیلانے کی کوشش نہ کی تھی۔

وہ اکیلا تھا یا اکلاپا ایسے ہی اس کے رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا۔ احساسِ تنہائی ایسے ہی اس کے ساتھ تھا جیسے سانس …۔ لیکن سانس تو چلتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے۔ اکلاپا بھی سانس روک دیتا ہے اور سانس رکنے سے پہلے گھٹن ہونے لگتی ہے۔ جسے یہ مرض لاحق ہو، اس سے بچنا چاہیے کیونکہ مادی ترقی کا راز یہی ہے۔ اس کو بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا گو اس کی وجہ تنہائی نہ تھی بلکہ مالی حالت تھی جو ہمیشہ سے پتلی تھی جسے اس نے دس پندرہ لگاتار سدھارنے کی کوشش کی۔ پھر تھک گیا بلکہ قدرت پر ایمان لے آیا۔ اب وہ جس حال میں تھا، راضی تھا۔ وہ چاہتا تھا زندگی میں کچھ تو نیا ہو۔ کبھی تو یہ ذلالت ختم ہو۔ وہ پتا نہیں کیوں اپنی زندگی کو ذلالت سمجھتا تھا۔ وہ کمرے میں اکیلا بیٹھا خود کلامی کرتا کہ تبدیلی نہیں آنی تو پھر خاتمہ ہونا چاہئے لیکن تبدیلی آتی تھی نہ ذلالت ختم ہوتی تھی۔ بس اسی گھسی پٹی ڈگر پر زندگی گھسٹ رہی تھی لیکن کب تک …۔؟ ہر رات وہ یہی سوچتا اور سوچتے سوچتے تھک جاتا لیکن نیند نہ آتی۔ پھر وہ اٹھ کر حجرے سے باہر نکل جاتا اور اندھیری گلیوں میں چلتا رہتا۔ کہیں کہیں میونسپلٹی کا لگایا ہوا قمقمہ روشن نظر آتا تو اسے کچھ تسلی ہوتی۔ وہ تنگ اور آڑی ترچھی گلیوں میں بے مقصد گھومتے گھومتے تھک جاتا تو گھر آ کر دھڑام سے چارپائی پر گر جاتا اور آنکھیں بند کر لیتا۔

اسے ایک نوجوان سائیکل چلاتا نظر آتا جس کا کیرئیر لکڑی کی پیٹی نے چھپایا ہوتا اور اس پیٹی میں میٹھی گولیوں، چیونگم اور لالی پاپ کے پیکٹ ہوتے۔ ان کے اوپر سستے بسکٹ کے وہ ڈبے ہوتے جن میں دکاندار کے لئے زیادہ منافع رکھا جاتا ہے اور ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو جلد بو آنے لگتی ہے۔ وہ کبھی بند روڈ کے پار بسے کسی گاؤں کی دکان پر بھاؤ تاؤ کرتا دکھائی دیتا اور کبھی اکبری منڈی میں کسی تاجر سے ٹافی کا پیکٹ پچاس پیسے سستا کرنے کے لئے الجھتا نظر آتا۔ وہی لڑکا شام کے وقت ادھیڑ عمر عورت کو سکے اور نوٹ الگ کرنے کے لئے دیتا اور دو سو تو کبھی ڈیڑھ سو روپے اسی عورت کی مٹھی میں دبا دیتا جس کی آنکھیں تشکر ملی خوشی سے پیلی روشنی پھینکنے والے سو واٹ کے بلب کی طرح چمک اٹھتیں۔

یہ لڑکا سر درد کی طرح پرانا ساتھی تھا جو اس کے خوابوں میں مختلف روپ بھر بھر کر آتا۔ ایک وقت تھا وہ دوسروں کی کتابیں جلد کرتا نظر آتا اور کبھی اسے ٹھٹھرتی راتوں میں اپنی کتاب پر جھکا ملتا اور کبھی پلاسٹک کے سوئچ بنانے والے چھوٹے سے کارخانے میں مولڈنگ مشین پر پسینے میں شرابور نظر آتا۔ پھر یہی لڑکا اسے ایک چھوٹے سے دفتر میں چپڑاسی کے روپ میں ملا کرتا جو چائے کے کپ دھو دھو کر پریشان رہتا کہ کب اس پر لگے غربت کے داغ دھلیں گے جنہیں صاف کرنے کے لئے اس نے خود کو اندر سے مزید داغی کر لیا۔ وہ دن کو میزیں صاف کرنے کے ساتھ رات کو ردی کاغذ سے بنے رجسٹر کالے کرتا رہتا۔ اس نے اتنے رجسٹر کالے کئے اور کتابیں آنکھوں کے راستے ٹھونس ٹھونس کر اپنے اندر جمع کر لیں کہ بلاشبہ اپنے محلے کا ہی کیا دفتر کا بھی سب سے پڑھا لکھا شخص بن گیا گو محلے میں کسی کو پتا چلا نہ دفتر والے ہی جان پائے اور داغ وہیں کا وہیں رہا جیسے تنہائی تھی حالانکہ اب وہ گاؤں میں رہنے والے بہن بھائیوں اور بوڑھی ماں کے لئے کافی کما لیتا تھا۔

تنہائی کا احساس اس میں سرطان کی طرح پھیلا ہوا تھا اور اس مرض کا شروع میں علاج ہو جائے تو ٹھیک ورنہ بھری محفل میں بھی اکلاپا کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ چاہے کوئی چاند سے مکھڑے والی رقاصہ ہاتھ تھامے کتنی دیر ہی کیوں نہ ناچتی رہے۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں صحیح وقت پر پوری نہ ہوں تو ناسور بن جاتی ہیں گو اس نے بہتیری کوششیں کیں اور اپنی اکثر خواہشیں پوری کر لیں لیکن صحیح وقت گزر چکا تھا۔ وہ بنیادی ضروریات خریدنے کے قابل ہو چکا تھا مگر کبھی کبھی تنگی ہو جاتی۔ اگر وہ آسودہ نہیں تھا تو فاقہ کش بھی نہیں رہا تھا لیکن مایوسی کا جان لیوا احساس جان نہیں چھوڑتا تھا۔ اسے یہی فکر رہتی کہ وہ کیا کرے جو اسے فتح مندی کے احساس سے مخمور کر دے۔ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتا جو گدھے کی طرح چارہ کمانے سے کچھ ہٹ کر ہو اور اسے اطمینان ملے کہ اس نے واقعی میں کچھ کیا ہے ورنہ پیٹ پوجا تو حیوان بھی بہت اچھے طریقے سے کرنا جانتے ہیں۔ یہ صرف اس کا مسئلہ نہ تھا بلکہ اس کے اکثر ہم عمر اسی بیماری کا شکار تھے۔ کچھ نوجوان تھے جو اس پریشانی سے آزاد تھے کیونکہ ان کو پہلے ہی بتا دیا جاتا کہ کیا کرنا چاہیے اور ایسا کرنے کے لئے موقع بھی دیا جاتا مگر اس جیسوں کو یہی پتا نہ چلتا اور جن کو پتا چل جاتا، ان کو موقع نہ ملتا۔ اس کے پاس جب وقت تھا، تب اسے علم نہیں تھا اور جب پتا چلا تو وقت نہیں تھا مگراس نے پھر بھی محنت کی لیکن مسئلہ وقت کا تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ مزدور سارا دن پسینہ بہاتا ہے اور بمشکل راشن پورا کر پاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کلینک آتے ہیں، بیٹھتے ہیں، اٹھتے ہیں، چلے جاتے ہیں اور جیب بھری ہوتی ہے۔ کبھی اسے لگتا کہ فرق صرف محنت کرنے کے وقت کا ہے اور کبھی اسے صرف موقع ہی محسوس ہوتا جو سب کچھ بدل دیتا ہے۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ ہر ہم کار سے یہی کہتا۔

’’یہاں وہی ترقی کرتا ہے، جسے موقع ملے۔‘‘

موقع کا لفظ وہ اتنی بار دہرا چکا تھا کہ ہم کاروں کے کان پک گئے۔ اصل میں دفتری ساتھیوں کو اس کے لفظ موقع کا مفہوم بھی تو واضح طور پر معلوم نہ تھا۔ اکثر کے خیال میں موقع یہ تھا کہ وہ دفتر بیٹھے کام کر رہے ہیں اور ساتھ والی کرسی پر بیٹھا شخص اٹھ کر باہر گیا ہے لیکن اپنا موبائل فون میز پر ہی بھول گیا ہے تو آپ آنکھ بچا کر فون اٹھا لیں اور اس میں سے سم نکال کر ٹوکری میں پھینک کر فون چھپا لیں۔ پھر دوسرے دن بازار جا کر بیچ دیں تو یہ موقع تھا جس سے فائدہ اٹھا لیا گیا۔

قصور اس کے ہم کاروں کا نہ تھا کیونکہ وہ موقع موقع کی رٹ لگائے رکھتا لیکن کبھی اس کی وضاحت نہیں کی۔ اس کا ایک دوست سمجھتا کہ اگر کوئییونیورسٹی میں نہیں پڑھا تو اسے کسی مہ جبیں سے یاری گانٹھنے کا موقع نہیں ملا۔ دوسرا دوست کہتا کہ وہ سرکاری ملازم نہیں تو اسے رشوت لینے کا موقع نہیں ملا ورنہ وہ کم مال نہ بناتا۔ تیسرے کے خیال میں وہ ایوان اقتدار میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں تو اس لئے شریف اور محب وطن ہے ورنہ بڑے جھنڈے گاڑتا لیکن اس کے نزدیک موقع یہ نہیں تھا۔ موقع تو ایک اور تحفہ ہے، جو کم لوگوں کو ملتا ہے۔ کبھی اسے لگتا کہ زندگی میں ہر کسی کو ایک بار موقع ضرور ملتا ہے، جس نے استعمال کیا، اس کے پو بارہ، نہیں تو تینوں کانے نکلتے ہیں۔ اس کے خوابوں میں ایک سائیکل سوار آتا اور ہر بار اسے ایک ہی بات بتاتا۔

’’موقع ایک فرشتہ ہے جو ہر شخص کے دروازے پر ایک بار دستک دیتا ہے، جس نے دروازہ کھول دیا، وہ امر ہو گیا۔‘‘

وہ اپنے اس خواب سے بڑا تنگ تھا کیونکہ یہ اسے خوش فہمی میں مبتلا کر دیتا تھا۔ اسے لگتا کہ خدا اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے اور وہ ضرور اپنی زندگی میں کچھ ایسا کر جائے گا جو پیٹ بھرنے کے سوا معنی رکھتا ہو۔ وہ کچھ ایسا کرنے کی باتیں کرتا جو سند رہے کہ اس کی زندگی ضائع نہیں ہوئی۔ ایسی باتیں سن کر ہم کار اسے تھوڑا سا کھسکا ہوا سمجھتے اور وہ بھی ان کے متعلق کچھ ایسے ہی خیالات دماغ میں اچھلتے کودتے پاتا۔ پھر بھی موقع کا ذکر کئے بغیر نہ رہتا اور ایک بار اسے بتانا پڑ ہی گیا کہ یہ موقع ہے کیا بلا؟

’’ایک لڑکا تھا۔ اس نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایف ایس سی کی۔ اس کے باپ نے اسے گاڑی کی چابی دی۔ اس کے ہاتھ میں موٹی رقم تھمائی اور کہا کہ تم دل لگا کر پڑھو ا ور بس پڑھو۔ تین سال تک کسی لڑکی کی طرف نہ دیکھنا۔ پھر دیکھنا کتنی لڑکیاں تمہارے پیچھے آتی ہیں۔ یہی موقع ہے۔‘‘

وہ اتنا کہہ کر چپ ہو گیا۔ اس کے دوستوں کو موقع کے معنی سے نہیں بلکہ لڑکے کی کہانی سے زیادہ دلچسپی تھی۔ انہوں نے فٹ پوچھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

اس کا دل چاہا جیب سے قلم نکال کر ان کے کانوں میں گھسیڑ دے لیکن اس نے ایسا کیا نہیں۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا اور دوست انتظار کرتے رہے جیسے کسی زمانے میں سردیوں میں بوڑھی اماں کے بولنے کا انتظار لحاف لیے چھوٹے چھوٹے بچے کیا کرتے تھے۔ بوڑھی اماں بھی توقف سے بولا کرتی تھیں اور بچے ہوں …۔ہاں …۔پھر…۔ کہا کرتے تھے۔ وہ بوڑھی اماں کی طرح بولا۔

’’ کبھی ہم صحیح وقت پر محنت نہیں کرتے اور کبھی ہمیں موقع نہیں ملتا جس کے نتیجے میں رائج الوقت نظام کے تحت کلرک ہی بن پاتے ہیں اور ساری عمر دال روٹی کے چکر میں گزار دیتے ہیں جبکہ زندگی اس سے پرے ایک شاندار سفر ہے لیکن اس لڑکے نے بیس اکیس سال کی عمر میں برطانیہ کی ایکیونیورسٹی سے دو تین پیشہ ورانہ ڈگریاں لے لیں۔ پھر اسییونیورسٹی نے اسے سال بعد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی سند دے دی۔ وہ پچیس سال کا بھی نہیں ہوا اور لاکھوں روپے ماہانہ کماتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی لڑکیاں بھی آتی ہیں اور وہ کئی ایسے اچھے کام بھی کر لیتا ہے جو ہم چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاتے کیونکہ وہ حیوانوں کی بنیادی فکر سے نجات پا چکا ہے۔ بس یہی موقع ہے۔ وہ جو کرنا چاہتا تھا، اس کے باپ نے کرنے کے لئے پورا پورا موقع دیا۔‘‘ وہ چپ ہوا تو ایک دوست نے شرارت سے پوچھ لیا۔

’’تمہارے باپ نے تمہیں موقع کیوں نہیں دیا؟‘‘

’’اس نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔‘‘ وہ اٹھا اور سر جھکا کر چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

دس ضرب دو برابر صفر

 

 

لاہور کے شمال میں ایک پرانی بستی ہے جس کی ایک تنگ اور بند گلی میں موجود ایک کمرے کے مکان میں بلو کرایہ پر رہا کرتی تھی۔

اس شہر کی تنگ گلیاں اندر سے بڑی کھلی ہوتی تھیں۔ پہلے یہاں رہنے والوں کے دل بھی کھلے ہوا کرتے تھے۔ پھر کھلی گلیوں اور تنگ دلوں کا زمانہ آ گیا لیکن تنگ گلیاں اور کھلے دل اب تک مل جاتے ہیں۔ اکثریت کو یہ گلیاں اب بھیڑ بکریوں کا باڑہ نظر آتی ہیں۔ چند ان میں زندگی کا سمندر موج در موج اچھلتا کودتا دیکھتے ہیں جو ساحل کو ڈبوتا آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ شہر اب شہر نہیں رہا، انسانوں کا جنگل بن چکا ہے جہاں بچے زیادہ دیر بچے نہیں رہتے۔

بلو کے بچے بھی تیزی سے بڑے ہو رہے تھے۔ ایک چھ سات سال کا بیٹا اور نو دس سال کی ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ خود سارا دن گھر سے غائب رہتی۔ بچی ہاتھ میں کٹورہ پکڑے ایک گھر جاتی۔ بچہ چنگیر پکڑے دوسرا دروازہ کھٹکھٹاتا اور یوں ماں کی عدم موجودگی میں اپنے لئے خوراک مہیا کر لیتے۔

بلو کا اصلی نام پتا نہیں کیا تھا۔ سارے محلے میں وہ بلو مشہور تھی حالانکہ اس کی آنکھیں بلوری نہ تھیں۔ شریر بچے اسے بلی بھی پکارتے لیکن پیٹھ پیچھے۔۔۔ اور بچوں کے باپ اسے پتا نہیں کیا کیا کہتے تھے مگر جب وہ سامنے نہ ہوتی۔۔۔ عورتیں بھی کچھ نہ کچھ کہتی رہتی تھیں لیکن زیادہ تر ایسا جو ایک کمرے کے مکان میں کرایہ پر رہنے والوں کے متعلق کہا جاتا ہے۔

بلو کی عمر پینتیس سے چالیس کے درمیان ہو گی۔ نین نقش واجبی سے لگتے البتہ جغرافیہ صاف بتاتا تھا کہ کبھی بڑی غضب کی ہو گی۔ اب تو اس کے بال ہمہ وقت الجھے الجھے اور مٹی سے اٹے رہتے جن میں وہ گندی اور گھسی ہوئی انگلیوں سے خارش کرتی۔ وہ اکثر شام کے وقت اپنی دہلیز پر پائی جاتی۔ کپڑے اس کے پھٹے تو نہ ہوتے لیکن کثرت استعمال سے گھسے ضرور ہوتے۔ بلو کے جسم میں ایسی کوئی خاص بات نہیں رہی تھی جس کا ذکر ضروری ہو۔ بس وہ پیچھے سے تھوڑی نمایاں تھی۔ گھر سے باہر قدم نکالتی تو پاؤں سے پہلے پیٹ نظر آتا جس کے بعد سینہ اور پھر منہ دیکھنے کو ملتا۔

بلو زیادہ موٹی تھی نہ اس کا مرد کافی پتلا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے چار پانچ سال چھوٹا ہی نظر آتا اور بلو اپنی عمر سے چار پانچ سال بڑی دکھائی دیتی۔ اس کا چہرہ مالی اور سماجی حالات کا واضح عکاس تھا، اس تختی کی طرح جس پر کسی بچے کی سیاہی سے لتھڑی انگلی دو جگہ پر لگ گئی ہو مگر بلو کے مرد کا چہرہ اس بلیک بورڈ کی طرح چمکتا تھا جس پر تازہ تازہ سیاہ پینٹ کیا گیا ہو۔ وہ استری کی ہوئی کلف لگی صاف ستھری شلوار قمیص پہنتا تھا۔

بلو کا مرد چھوٹی بس کا ڈرائیور مشہور تھا۔ موٹرسائیکل اس کے پاس تھی، جسے وہ چمکا کر اڈے پر جاتا۔ اس کے بعد بلو بھی گھر سے چلی جاتی۔ پہلے وہ ایک کوٹھی میں برتن دھوتی جہاں اس کے ناخن تڑخ اور پوریں بے جان ہو جاتی تھیں۔ کپڑوں کی دھلائی بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ مالکن ہر بار داغ رہ جانے کے لئے ڈانٹتی اور بلو کے جھاڑو پھیرتے ہوئے کئی بار کہتی۔

’’اندھی ہے تُو، نظر نہیں آتا۔ گندگی چھوڑتی جا تی ہے۔ چل دوبارہ جھاڑو لگا۔‘‘ اور وہ چہرے پر پھیلتے ناگواری کے تاثرات پوری ایمانداری سے چھپاتے ہوئے جھاڑو دوبارہ رگڑ رگڑ کر لگانا شروع کر دیتی۔

اس کے بعد وہ دوسری کوٹھی میں بھی یہی کچھ کرتی اور شام کو اپنے گھر لوٹتی جو گھر نہیں تھا بلکہ مالک مکان کی لالچ نے اس ڈربے کو کرائے کا مکان بنا دیا تھاجس میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ مرغی کی طرح سمٹی رہتی اور اس کا مرد پھیلا رہتا۔ بلو کی زندگی ایسی ہی تھی۔

اب اس کی کوئی چیز دلچسپ نہیں رہی تھی سوائے اس کی تیکھی زبان کے جو سب کو پسند تھی۔ اتوار کے دن وہ اکثر اپنے دروازے میں بیٹھی بیٹی کے سر سے جوئیں نکالتی سامنے والی پڑوسن سے باتیں کرتی نظر آتی۔ جب وہ بولتی تو کسی کو پتا نہ چلتا لیکن چلاتی تو سب ہمہ تن گوش ہوتے۔ پوری گلی کے مرد چسکے لیتے اور عورتیں منہ میں انگلیاں لے لے کر اشارے کرتیں۔ بڑے مزے دار لفظ استعمال کرتی تھی۔ وہ ایسے اعضا کا ذکر بڑے کھلے ڈھلے انداز میں گلی میں کھڑے کھڑے کر دیتی جو مرد صرف لڑائی کے دوران ایک دوسرے کے لئے کرتے ہیں۔ اس کے منہ سے اوروں کو پڑتی گالیاں سن کر دل باغ باغ ہو جاتا۔ اس کے بچے بھی سارا دن تھڑے پر بیٹھے ایک دوسرے کو ویسی ہی مزے دار گالیوں سے نوازتے رہتے تھے۔

بلو لڑاکو نہیں تھی۔ وہ گھر رہتی تو کسی سے لڑتی!۔ وہ تو جاپانی روبوٹ کی طرح ایک کوٹھی سے دوسری میں جاتی اور واپس اپنے ڈربے میں سونے کے لئے آ جاتی۔ اس کی جسمانی حالت اور بندے کے تیور بتاتے تھے کہ اب وہ صرف سونے اور کھانا پکانے کے لئے ہی گھر آتی ہے۔ جب اس کی گالیاں سنائی دیتیں تو پتا چلتا وہ گھر میں ہے اور کئی لوگ اپنے کواڑ کھولے بغیر کان کھڑے کر لیتے۔ گالیاں نکالنا ایسا ہی ہے جیسے گٹر سے گندگی نکالنا جو پھنس جائے تو گلیاں بھر جاتی ہیں۔ گلی میں کوئی اور عورت بھی غلاظت نکال رہی ہوتی تو وہ سارا مردوں کے اندر چلا جاتا جو ان سے ہوتا ہوا بچوں میں داخل ہو جاتا۔

گلی کی نکڑ پر ایک دن کسی سرکاری دفتر میں کلرکی کرنے والے حمید کے دو چھوٹے لڑکے اپنے ماں باپ سے ملی غلاظت اس وقت نکالنے لگے جب بلو شام کے وقت سارے دن کی تھکی ہاری چنگ چی کا کرایہ بچا کر اپنے قدموں پر گھر آ رہی تھی۔

’’بلو ڈیڑھ سو۔۔۔ بلو ڈیڑھ سو۔۔۔‘‘

بلو کے پاؤں وہیں رک گئے۔ اس نے کانوں کے راستے دل کو راکھ کر دینے والا لاوا اگلنے سے خود کو روکا اور بچوں کو پیار سے سمجھانے لگی لیکن بچے باز نہ آئے اور پھر وہی۔۔۔

’’بلو ڈیڑھ سو۔۔۔ بلو ڈیڑھ سو۔‘‘ اس نے غصیلے انداز میں سمجھایا تو بچوں نے شور مچا دیا۔۔۔ ’’بلو دس روپے۔۔۔ بلو دس روپے۔‘‘

بلو کے لاوے کے آگے لگے غربت کے بند میں چھید ہو گیا اور وہ بچوں کے قد سے بڑی گالیاں دینے لگی جس پر کچھ لوگ دروازوں کی اوٹ میں محظوظ ہونے لگے۔ حمید دروازے سے باہر آیا، اس کے پیچھے اس کی بیوی تھی جس کے بعد ماں اور پھر اس کے سب بھائی باہر نکل آئے۔ وہ سارے بلو کو اس سے موٹی گالیاں دیتے ہوئے پل پڑے۔ مار کٹائی میں اس کے بوسیدہ کپڑے بھی پھٹ گئے اور ایسی چوٹیں آئیں کہ کسی کو دکھا نہ سکتی تھی۔

حمید اور اس کے گھر والوں کا پارا اترا تو بلو اپنے جسم کو خود سہارا دیتی کھڑی ہوئی اور آپی اپنا آپ سہلاتی گلی والوں کی نظروں سے نظریں ملائے بغیر خود کو خود میں چھپاتی ہوئی اپنے ڈربے میں پہنچ گئی۔ جب اس کا گھر والا آیا تو دونوں تھانے گئے اور کارروائی کی درخواست دی جو چھوٹے منشی نے ٹال مٹول کے بعد بڑی مشکل سے لکھی۔

دوسرے دن جب بلو اور اس کا گھر والا تھانے میں داخل ہو رہے تھے تو حمید اپنی عورتوں اور کئی محلہ داروں کے ساتھ نکل رہا تھا۔ بلو اپنے مرد کے ساتھ تھانیدار کے سامنے پیش ہوئی تو اس نے صاف صاف کہہ دیا۔

’’بلو جی !سارے محلے نے تمہارے خلاف گواہی دی ہے۔ صلح کر لو۔‘‘

بلو نے اپنی بپتا سنانے کی کوشش کی تو تھانیدار نے جھاڑ پلاتے ہوئے کہا۔

’’صلح کر لو۔ یہی بہتر ہے۔ سب کہتے ہیں تم دو نمبر ہو۔‘‘ بلو تھانیدار کے اس دس نمبری لہجے پر کھول اٹھی۔ اسے کمرے میں موجود ہر شے دو نمبر۔۔۔ دو نمبر کی رٹ لگاتی محسوس ہوئی۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور چنگاڑنے لگی۔۔۔

’’میں دو نمبر نئیں۔ سارا دن پانڈے مانجھ مانجھ کے روٹی کمانی آں۔ دو نمبر تے او کنجر جناں مینوں ماریا کٹیا۔۔۔ میرے کپڑے پاڑے تے مینوں گالاں کڈیاں۔۔۔۔۔۔‘‘ بلو بولے جا رہی تھی اور اس کا مرد نظریں نیچی کئے سنتا رہا لیکن تھانیدار چند لمحے ہی سن سکا۔ اس نے مزید کچھ لمحے بلو کو چپ کرانے کی کوشش کی۔ پھر سپاہیوں کے ذریعے نکال باہر کیا۔

سپاہی جب اسے بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے تھانے سے باہر نکال رہے تھے، وہ یہی کہہ رہی تھی۔

’’میں دو نمبر نئیں۔ میں مزدوری کرنی آں۔‘‘ اور گھر پہنچ کر بھی وہ یہی کہتی رہی۔

اس دن کے بعد چند روز بلو کا مرد کم کم نظر آیا اور بلو دو نمبری کے کنویں میں ایسی گری کہ بالکل نظر نہ آئی۔ وہ شام کی بجائے رات کو گھر آنے لگی۔ اتوار کے دن بھی بیٹی کی جوئیں نکالتی نظر نہ آتی۔ جب گھر ہوتی تو اپنی طرح جھکی ہوئی چارپائی پر لیٹی رہتی، کھانا پکاتی یا بچوں کے کپڑے دھوتی۔ اس کی غیر موجودگی میں بچے سرکاری سکول سے واپس آ کر یونہی اِدھر اُدھر سے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے اور تھڑے پر بیٹھے گالی گالی کھیلتے رہتے۔

بلو کی پٹائی کے واقعہ کو جب ایک مہینہ ہو گیا تو اس کا مرد دن چڑھے بال بنائے دروازے میں کھڑا نظر آنے لگا۔ وہ پرانے دنوں کی طرح موٹرسائیکل چمکاتا اور غائب ہو جاتا۔ پھر ایک دن ایسا گیا کہ واپس نہ آیا۔ بس ایک لفافہ آیا جس میں موجود کاغذ ڈاکیے نے پڑھ کر سنایا تو بلو چپ چاپ دروازہ بند کر کے چارپائی پر جا لیٹی اور کچھ دیر آنسو بہانے کے بعد ہذیانی کیفیت میں گالیاں بکنے لگی جو بند دروازہ چیرتی ہوئی گلی میں گونجتی رہیں۔۔۔ گالیوں کے درمیان وقفہ بھی آ جاتا۔

’’میں دو نمبر نئیں۔۔۔ دو نمبر تھانیدار۔۔۔ دو نمبر محلے دار۔۔۔ دو نمبر میدا کنجر۔۔۔ وڈے آئے اک نمبر۔۔۔ میں دو نمبر آں تے تسی دس نمبر او کنجرو۔۔۔‘‘ اور پھر ماں بہن کی گالیاں شروع ہو جاتیں۔ کچھ محلے دار اپنے بیرونی دروازوں کے اندر اور چند باہر کھڑے مستور اعضا کے غیرمستور اظہار پر وجہ جاننے کی کوشش کرتے رہے۔۔۔ بعض گالیوں کو دل پر لے رہے تھے۔۔۔ کچھ کا سارا دھیان صرف گالیوں کے چٹخارے پر تھا۔۔۔ وہی مزے دار گالیاں جو بے مزہ ہو گئی تھیں۔

اس روز دو چار عورتیں شام کے وقت بلو کے گھر سے نکلتی دکھائی دیں لیکن وہ اب تک دس نمبریوں کی دو نمبری کے کنویں سے نہیں نکل سکی۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید