فہرست مضامین
- دن بھر سناٹا
- سید انور جاوید ہاشمی
- رات کو نغمہ و گریہ زاری ورنہ دن بھر سناٹا
- اہلِ خانہ سو ر ہے ہیں اور گھر خاموش ہیں
- تری مرضی جو تو میری پذیرائی نہیں کرتا
- کیا ہے دل کو شب و روز پارا پارہ کیا
- فیصلے کی گھڑیوں میں جس طرح کوئی مجرم مطمئن نہیں ہوتا
- دل آنکھ کی حدّت سے جو آمیز نہ ہوتا
- کیا حد سے سوا جاگتا سویا جو نہیں تھا
- میں ہاشمی ؔ محفل میں لے کر جو غزل جاتا
- جذبات کو الفاظ سے بوجھل نہیں کرنا
- جب دل کی شاخ پر گل و لالہ نہ آئے گا
- جُنوں کے بعد خرد مرحلہ لکھا جاتا
- کیا حد سے سِوا جاگتا سویا جو نہیں تھا
- سراسر وہم کہئے یا خیالِ خام ہے دُنیا
- شعر لکھنے کاسُنانے کا جتَن ڈھونڈ لیا
- جو بھی اوہام کے شر سے نکلا
- سخن کے بھاؤ خریدار دیکھئے صاحب
- دَر دیوار دریچے چپ
- خود جلی اور ہمیں جلا کر دھوپ
- ساعتَ ہجر ہمیں یوں بھی بتانی ہے بہت
- ہیں گو ہم آئینے میں حیرتی صورت
- کش مکش وہ بھی اس یقین کے ساتھ
- گڑی ہوئی کسی منظر پہ تھی نظر ساکت
- سچ کو چھپا کر اکثر جھوٹ
- کارِ مشکل ہے یہاں اظہارِ غم یعنی عبَث
- اتنا بولو جھوٹ کہ دُنیا اُس کو مانے سچ
- اپنی اپنی تنہائی ہے اپنی اپنی سوچ
- یوں تو بجھنا تھا مجھے اک دن ستارے کی طرح
- جب یہ خزاں سے ٹوٹی شاخ
- بچھا کے ہم نے بساطِ سُخن سمیٹے درد
- اُترے فلک سے جب کبھی اشعار خود بہ خود
- سجا کے بیٹھ گئے کیوں یہ میز پر کاغذ
- صحرا نشینو چونکو نہ میری ا ذ ا ن پر
- تخلیق نمو پاتی ہے دُکھ درد اُٹھا کر
- میں نکلا ذات کی تہہ سے اُبھر کر
- گزارتے رہے اُس وقت کو تذبذب میں
- اُس نے گر چھوڑ دیا ہم نے بھی رشتے دیئے توڑ
- تو نہ مانے اگر نہ مان عزیز
- روح کرتی ہے کیا بدن سے گُریز!
- کیوں ہے گلاب کے ساتھ مہکتی رانی ایک طرف
- میرا غزال دل نشیں،فکرِ غزال ہر طرف
- لندن تمہیں جانے کی ضرورت نہ موزمبیقؔ
- جیسے سماعتوں میں کیا ہے ابھی شریک
- سخن بڑھے گا علامت سے استعاروں تک
- ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک
- شعر میں جب سے نظر آئے تگ و تاز کے رنگ
- آنکھ نے منظر دکھائے ہیں یہاں سب سے الگ
- جو دکھائی نہ دیا ڈھونڈنے والوں میں کہیں
- دھنک ملے تو نگاہوں میں قید رنگ کریں
- اہلِ خانہ سو ر ہے ہیں اور گھر خاموش ہیں
- سید انور جاوید ہاشمی
دن بھر سناٹا
سید انور جاوید ہاشمی
رات کو نغمہ و گریہ زاری ورنہ دن بھر سناٹا
کس نے شور بھرا ہے باہر،روح کے اندر سناٹا
زادِ سفر میں اس سے زیادہ اور بھلا ہم کیا رکھتے
ان جانی سی راہیں، مسافر، مٹی، پتھر سناٹا
بابِ سماعت وا نہیں رہتا،لفظ کہیں کھو جاتے ہیں
بر سرِ محفل بھر جائے دیوار کو چھوکر سناٹا
کارِ جہاں میں خود کو کھپائیں ہفت افلاک سے کیا لینا
کیسی پستی کیسی بلندی دیکھا ہے یک سر سناٹا
یاد نگاری، نوحہ گزاری، شغل کہیں آزار لکھیں
خوش اوقات رہیں پل دو پل پھر ہو مکرر سناٹا
٭٭٭
اہلِ خانہ سو ر ہے ہیں اور گھر خاموش ہیں
بو لتا ہے کون! اگر د یو ا ر و دَ ر خاموش ہیں
رات جانے میری آنکھوں نے انہیں کیا کہہ دیا
جاگتے ہیں ا و ر وہ وقتِ سحر خاموش ہیں
میرے فن کی عُمر ہی کیا ہے جو ہو گا تبصرہ
اہلِ فن، اہلِ ہنر،اہلِ نظَر خاموش ہیں
اس سے ظاہر ہے تجسس آدمی کیا کیا کرے
پوچھتے تھے جان کر موسیٰؑ خضر خاموش ہیں
مصلحت کا ہے تقاضا ہاشمی سو اِن دنوں
وہ اُدھر لب بستہ ہیں اور ہم اِدھر خاموش ہیں
٭٭٭
تری مرضی جو تو میری پذیرائی نہیں کرتا
میں جھوٹی بات شعروں میں بیاں بھائی نہیں کرتا
حصولِ رزق کی گھاٹی سے بھی اکثر گزرتا ہوں
فقط کارِ سُخن میں آبلہ پائی نہیں کرتا
حدودِ وہم سے جب سرحدِ ادراک تک آئے
تخئیل وقت کی رفتار پیمائی نہیں کرتا
جب اپنے غم کو میں اظہار کی صورت میں لے آؤں
تو کیوں شکوہ کروں کوئی شکیبائی نہیں کرتا
تماشا کرنے والو تم تماشا کرتے جاؤ، میں
حریفِ آئینہ بن کر صف آرائی نہیں کرتا
صدائے حق لگانا ہاشمیؔ ہے آزمائش کیا!
بغیر اس کے کوئی تسلیم سچّائی نہیں کرتا
٭٭٭
کیا ہے دل کو شب و روز پارا پارہ کیا
کسی کی آنکھ میں آنسو ہوا ستارہ کیا
نظر لگی ہے ہُنر مند بازوؤں کو عجب
سو کار و کسب پر اُکساؤگے دوبارہ کیا
سپاہ و لشکر و اسباب سب تمہارے سہی
ہماری روح پر ہو جائے گا اجارہ کیا!
توہّمات سے کوئی بچے تو کیسے بچے
میانِ زیست میاں نفع کیا خسارہ کیا
الَست و مَست و فراموش اور کیا کہتا
ہمارے حرف و نوا کیا ہمارا نعرہ کیا!
سُنی سنائی کو دہرا رہا ہے ہر شاعر
غزل کہے گا نئی ہاشمیؔ بچارہ کیا
٭٭٭
فیصلے کی گھڑیوں میں جس طرح کوئی مجرم مطمئن نہیں ہوتا
جاگتے ہیں شب میں ہم یوں بھی شعر لکھنا اب دن بہ دن نہیں ہوتا
اک طویل قصّے کو مختصر سے لفظوں میں کس طرح بیاں کرتے
ہم کہاں فغاں کرتے آسماں ہمارا گر ممتحن نہیں ہوتا
اب کڑی مشقّت ہی آدمی کو دنیا میں عیش کے وسائل دے
خواہشیں کرے پوری یا چراغ لا کے دے ایسا جِن نہیں ہوتا
عشق کے الاؤ پر رقص کرنے والے دل دھیمے دھیمے جلتے ہیں
اور یوں خموشی سے تال پر کہیں کوئی تاک دھِن نہیں ہوتا
اے گُمانِ آئندہ رکھ یقین وہ ساعت جلد آنے والی ہے
اس جہانِ فانی میں رفتگاں کے ماتم کا کوئی دِن نہیں ہوتا
٭٭٭
دل آنکھ کی حدّت سے جو آمیز نہ ہوتا
وہ شعلۂ جوّالہ بھی مہمیز نہ ہوتا
گل ہائے سخن نذر بھلا کرتا کہاں میں
یہ ذوقِ طلب آپ کا جو تیز نہ ہوتا
پھر چارہ گری کوئی کیا کرتا یہاں کیوں
پیمانۂ احساس جو لبریز نہ ہوتا
تقدیر کی میزان پہ اعمال نہ تلتے
گر کوئی ہلاکوؔ کوئی چنگیزؔ نہ ہوتا
چپ چاپ گزرنا وہ ترا راہ گزر سے
گر دیکھتا نہ تجھ کو غم انگیز نہ ہوتا
٭٭٭
کیا حد سے سوا جاگتا سویا جو نہیں تھا
آنکھوں نے کوئی خواب پرویا جو نہیں تھا
تھا لفظ و معانی کے طلسمات میں گم میں ؔ
کل رات، ترے سامنے گویا جو نہیں تھا
کل رات سُنا اُس کو نظر ڈھونڈ رہی تھی
وہ عالمِ امکاں ابھی کھویا جو نہیں تھا
کل رات اُسے یاد کے پہلو میں بٹھا کر
میں ہنستا رہا سوچ کے رویا جو نہیں تھا
آ ہجر کے موسم کا ذرا بوجھ اُٹھا لیں
کل رات اسے آنکھوں نے ڈھویا جو نہیں تھا
٭٭٭
میں ہاشمی ؔ محفل میں لے کر جو غزل جاتا
کچھ لوگ بپھر جاتے، اک شخص بہل جاتا
اِک شغل محبت تھی سو کام تھے دُنیا کے
میزانِ عمل تھی سو، کیوں کر نہ سنبھل جاتا
ہاں اُس قد و قامت کی، آثارِ قیامت کی
تعریف نہ گر کرتا، اک آن میں جل جاتا
اس خواب سی دُنیا میں خوابوں کی حقیقت کیا
سو جاگتا ہوں شب میں، سوتا تو پگھل جاتا
میں دیکھ کر اُس کو جو رُخ پھیر نہیں لیتا
بچّے کی طرح پل میں کیا دل نہ مچل جاتا
٭٭٭
جذبات کو الفاظ سے بوجھل نہیں کرنا
ہم وہم تراشوں پہ یہ جادو نہیں ہوتا
تجھ لب کی طلب اور گریزاں ترا ہونا
پیاسا کوئی اتنا تو لبِ جُو نہیں ہوتا!!
تفریق کا کیا خوب جواز اُس نے رکھا ہے
عاشق کوئی افسر کوئی بابو نہیں ہوتا
ہاتھ آئے ہمارے سو ترے ساتھ گزاریں
وہ وقت کہ جس وقت من و تُو نہیں ہوتا
درپیش تجھے مسئلہ ہجر بتا کیا
اے غافلِ چشم و لب و ابرو نہیں ہوتا؟
پہچان مری عصر میں یوں عام نہ ہوتی
میں ہاشمیؔ گر شاعرِ اُردو نہیں ہوتا
٭٭٭
جب دل کی شاخ پر گل و لالہ نہ آئے گا
آنکھوں میں عکس کوئی نرالا نہ آئے گا
تھا اُس میں زہرِ آب یا تمثیل تھی فقط
سقراطؔ لے کے اب وہ پیالہ نہ آئے گا
دہقان کو زمین سے بے دخل کیوں کیا
تقدیر میں نہیں جو نوالہ نہ آئے گا
تعمیر کر کے قصرِ تعصب نہیں کہو
دل کے مکان میں کوئی جالا نہ آئے گا
جب تک رہے گا سایہ فگن سر پہ آسماں
اہلِ زمیں کے پاؤں میں چھالا نہ آئے گا
ہاں تم اگر کرو گے مرتب یہ داستاں
بھولے سے ہاشمیؔ کا حوالہ نہ آئے گا
٭٭٭
جُنوں کے بعد خرد مرحلہ لکھا جاتا
ہم اپنے آپ میں رہتے تو کیا لکھا جاتا
لکھا ہے اُس نے مقدر میں شاعری کرنا
تو اِس کے ساتھ ہی صبر آ ز ما لکھا جاتا
جو تم نے ہم کو کیا رَد تو کوئی بات نہیں
ہم ایسا کرتے تو یہ نا روا لکھا جاتا
علاوہ اپنے کسی کو نہ کچھ دکھائی دے
پھر اس کے بعد کسے آئینہ لکھا جاتا
تمہارے ساتھ اگر لکھنؤ میں ہم رہتے
ہمیں یقیں ہے ہمیں ایک سا لکھا جاتا
جو لکھ دیا ہے نظر اُس پہ ٹھہرتی ہی نہیں
طلب وہی کہ نیا قا فیہ لکھا جاتا
٭٭٭
کیا حد سے سِوا جاگتا سویا جو نہیں تھا
آنکھوں میں کوئی خواب پرویا جو نہیں تھا
ہر لفظ طلسماتِ معانی میں رہا گُم
کل رات ترے سامنے گویا جو نہیں تھا
کل رات سُنا ہے کہ نظر ڈھونڈ رہی تھی
وہ عالمِ امکان جو کھویا بھی نہیں تھا
کل رات اُسے یاد کے پہلو میں بٹھا کے
میں ہنستا رہا سوچ کے رویا جو نہیں تھا
اب موسمِ گریہ کا ذرا بوجھ اُٹھا لیں
کل رات جسے آنکھوں نے ڈھویا جو نہیں تھا
٭٭٭
سراسر وہم کہئے یا خیالِ خام ہے دُنیا
کسی کو رام کرتی ہے کسی کی رام ہے دنیا
تمنّا اور خواہش اور طلب کا نام ہے دُنیا
پسِ تصویر میں ہوں اور سرِ احرام ہے دنیا
جہاں تک سانس کی ڈوری ہمیں دوڑائے چلتے ہیں
بچھائے حرص کے رنگین کیا کَیا دام ہے دُنیا
مرے شوق و تقاضا پر مرے ذوقِ تماشا پر
ہنسی اکثر اُڑائی جس نے صبح شام ہے دُنیا
شکایت ہے نظر انداز کرنے پر سو کرتے ہیں
نظر اندازیوں پر مردِ الزام ہے دُنیا
مجھے دُنیا سے جو کچھ مل گیا تقدیر تھی میری
غلَط ہے گر کہوں پھر بھی غلط اقدام ہے دُنیا
یہ ہَست و نِیست کا احساس موجود و عدم کی دھُن
ہمیں باور کراتی ہے برائے نام ہے دُنیا
٭٭٭
شعر لکھنے کاسُنانے کا جتَن ڈھونڈ لیا
زندگی کیسے گزاریں یہ چلَن ڈھونڈ لیا
صرَف کرتے رہے یہ عمر ُ،توانائی بھی
اور اِسی دھُن میں رہے کارِسُخَن ڈھونڈ لیا
درد کو جمع کیا حکمَت و دانائی سے
عشق کے نام پر اِک زخمِ کُہَن ڈھونڈ لیا
رقصِ نظّارا ہر اِک آنکھ کی تقدیر نہیں
اے خوشا ہم نے بیاباں میں چمن ڈھونڈ لیا
خلقتِ شہر سُخن وَر اُسے گردانتی ہے
ہاشمیؔ جس نے محبت سے یہ فن ڈھونڈ لیا
٭٭٭
جو بھی اوہام کے شر سے نکلا
گردشِ شمس و قمر سے نکلا
اُس میں موجود ہے امکانِ شجر
بیج جو بیچ ثمر سے نکلا
وحشتیں بھی مرے ہمراہ چلیں
میں اکیلا کہاں گھر سے نکلا
شہرتیں ہوں تو سُخن ہوتا ہے
اب یہ سودا مرے سر سے نکلا
ہاشمی ؔ کر نے لگے میر ؔ ا سیر
میں جو غالب ؔ کے اثر سے نکلا
٭٭٭
سخن کے بھاؤ خریدار دیکھئے صاحب
چلیں نا! گرمیِ بازار دیکھئے صاحب
گلی گلی میں دُکان ہنر کھلی تو ہے
ہنر فروشی ئ فن کار دیکھئے صاحب
انہیں سمجھئے نہ کوتاہیاں مقدر کی
ہمیں جو رنج سے دوچار دیکھئے صاحب!
اگر بیاں نہ کریں کیفیت تو کیسے کھُلے
میانِ ہجر دیئے جل کے بجھ گئے صاحب
اک عمر رہ لئے دیوار و در کے اندر ہم
سو اب چلیں ذرا دیوار سے ورَے صاحب
٭٭٭
دَر دیوار دریچے چپ
چپکے رہنے والے چُپ
اندر شور صداؤں کا
باہر سے سنّاٹے چپ
دُور فلک اندھیارے میں
خاک سے ہر دم اُبھرے چپ
منزل اوجھل نظروں سے
دیکھ مسافر رستے چپ
دُکھ ان مول خزانے سے
آئے کوئی خریدے چُپ
اک بازار خیالوں کا
بیچ دُکان لگائے چپ
٭٭٭
خود جلی اور ہمیں جلا کر دھوپ
سائے میں رک گئی تھی آ کر دھوپ
تم ہمیں چھوڑ آئے تھے تنہا
لے چلی راہ سے اُٹھا کر دھوپ
عشق پیچاں کی بیل تھی کہ زُلف
رقص میں تھی جسےُ سکھاکر دھوپ
ازروئے شاعری درست نہیں
ڈائری میں رکھیں سجاکر دھوپ
٭٭٭
ساعتَ ہجر ہمیں یوں بھی بتانی ہے بہت
چشمِ پُر آب ٹھہر یوں بھی روانی ہے بہت
جھوٹ ارزاں ہے بہت حرف و حکایت کے لیے
سچ کے بازار میں لفظوں کی گرانی ہے بہت
جیتے جی کون بھلا چھوڑ کے گھر جاتا ہے
ساعتِ مرگ جو ہو نقلِ مکانی ہے بہت
میں نے یادوں کے دریچوں کو کھلا چھوڑ دیا
خو د فر ا مو شی مر ی طبع پر ا ین ہے بہت
سہو ہو جائے تو پھر جان پہ بن آتی ہے
بزمِ اربابِ ہنر میں نگَرانی ہے بہت
نیند سے خواب تلک ایک سفر آنکھ کا ہے
جاگنے والے تری اپنی کہانی ہے بہت
٭٭٭
ہیں گو ہم آئینے میں حیرتی صورت
مگر اندر کی تلخی کم نہیں ہوتی کسی صورت
لکھا جاتا نہیں مضمون ہر اک سانحے کا پھر
زمانہ دیکھتا ہے روز کیوں اخبار کی صورت
سنا ہے رزم گاہِ عشق میں وہ آنے والے ہیں
چلو ہم پیش کر دیتے ہیں اپنا دل کسی صورت
چلے تھے ہم تو یکجائی کا بھی امکان تھا دل میں
میانِ ما و تو حائل ہوئی اِک اجنبی صورت
٭٭٭
کش مکش وہ بھی اس یقین کے ساتھ
آسماں زاد ہے زمین کے ساتھ
کھل گئے رنج کے معانی دل
آنکھ بھی نم ہے آستین کے ساتھ
عقل و دانائی آپ کی میراث
دن گزرتے ہیں کس ذہین کے ساتھ
پتلیاں عکس ریز رہتی ہیں
انگلیاں چمٹی ہیں مشین کے ساتھ
٭٭٭
گڑی ہوئی کسی منظر پہ تھی نظر ساکت
پھر اُس کے بعد دکھائی دیے نگر ساکت
ہماری چاند سے جس دم نگاہ ٹکرائی
ستارے شب کے نظر آئے تاسحر ساکت
پسِ غُبار کئی عکس یاد آنے لگے
قدم بڑھاتے ہوئے تھی جو رہ گزر ساکت
میں یہ کہوں گا ملا تُو، کہے گا تو ویسا
ملے نہ لفظ رہے ہونٹ سر بہ سر ساکت
پھر ان کے بعد تو مہلت کبھی ملے گی نہیں
صلیبِ وقت پہ لمحات ہیں اگر ساکت
٭٭٭
سچ کو چھپا کر اکثر جھوٹ
بولے سارا لشکر جھوٹ
جان بچانے کی خاطر
بولیں شاہ و گداگر جھوٹ
بوتل سے نہ اوک سے پی
ہم اور بادہ سراسر جھوٹ
سچ ہم کو تعلیم ہوا
ہوا کبھی نہ مُیسر جھوٹ
ہاشمی ؔ تم بنتے جھوٹے
بولتے قسمیں کھا کر جھوٹ
٭٭٭
کارِ مشکل ہے یہاں اظہارِ غم یعنی عبَث
ہاں اگر بن جائیں پتھر کے صنم یعنی عبث
لمحہ ئ موجود میں کَیا کیا کریں آخر رقم
چار دن کی چاندنی یا اُس سے کم یعنی عبث
کس قدر پُر پیچ ہیں! ہاں لے سرِ تسلیم خم
گردشِ دوراں یہ تیرے پیچ و خم یعنی عبث
جب تک ان کی آب آنکھوں میں ہے سرمایہ کہیں
کیسے کہہ دیں حاصلِ رنج و الم یعنی عبث
ہاشمیؔ آہستگی،آہستہ رو،آہستہ گو
ورنہ کھوسکتا ہے لفظوں کا بھرم یعنی عبث
٭٭٭
اتنا بولو جھوٹ کہ دُنیا اُس کو مانے سچ
طنز کیا تھا لیکن بولا تھا بابا نے سچ
رَد کرنا آسان کہاں ہے اپنی ہر خواہش
جھوٹ زباں پر آنکھیں بولیں سولہ آنے سچ
مانا جبر کے ہاتھوں میں انسان کھلونا ہے
اِک دن قائم ہو گی دنیا میں میزانِ سچ
دُنیا والے ہنستے ہنستے اک دن روئیں گے
ہاشمیؔ تم جو بیٹھ گئے ہو اب دُہرانے سچ
٭٭٭
اپنی اپنی تنہائی ہے اپنی اپنی سوچ
دنیا چاہے جو بھی سوچے بھائی اپنی سوچ
کارِ سخن بھی سچ ہے یہاں ہر ایک نہیں کرتا
ڈھال نہیں سکتا اشعار میں کوئی اپنی سوچ
عمر گزر جاتی ہے سلیقہ مندی نہیں آتی
لوگ بدل گئے لیکن خود نہیں بدلی اپنی سوچ
بچ نہیں سکتا کوئی سزا سے بد اعمالی پر
نیکو کاروں کی ہوتی ہے اچھی اپنی سوچ
ڈھلتی رات کے سنّاٹے میں بیٹھے سوچئے اب
نیند لُٹا کر آئی کہاں پر ہاشمیؔ اپنی سوچ
٭٭٭
یوں تو بجھنا تھا مجھے اک دن ستارے کی طرح
جگمگاتا ہی رہا روشن منارے کی طرح
آبلہ پائی میانِ عشق دکھلاؤں کسے
بے قراری کون دیکھے دل کے پارے کی طرح
چاندنی کے ساتھ رقصاں دل سرِ رقصِ وصال
خوب ڈالی چاند نے دل کش نظارے کی طرح
ہاشمی دنیا مری نسبت سے پہچانی اُسے
جو مری غزلوں میں آیا استعارے کی طرح
٭٭٭
جب یہ خزاں سے ٹوٹی شاخ
سوکھے پتّے ٹوٹی شاخ
عجز کا دیتی ہے یہ سبق
پھل سے لدی ہوئی جھکتی شاخ
پنے زعم میں اکڑی رہے
سرو کی تارے چھوتی شاخ
فن کو مثالِ شجر کہئے
شعر سمجھئے اس کی شاخ
آلِ آدم ؑ کہلائیں
ہم جن کی ہیں ہاشمیؔ شاخ
٭٭٭
بچھا کے ہم نے بساطِ سُخن سمیٹے درد
یہ جانتے ہوئے بھرنا پڑیں گی آہیں سرد
ہر ایک بات کا اظہار آگہی ہے اگر
ہے حرف و لفظ میں پوشیدہ کیوں ملال کی گرد
خیال و خوب میں یک جا جسے میں دیکھتا ہوں
کبھی اِکائی میں کُل ہے کبھی ہجوم میں فَرد
مت اتنے غور سے دیکھو میاں مرا چہرہ
میانِ ہجر سرِ آسماں یہ چاند ہے زَرد
پھر اُس کے بعد سے دشتِ سخن ہے پانو تلے
بس ایک دن ہمیں اُس نے کہا تھا صحرا نورد
٭٭٭
اُترے فلک سے جب کبھی اشعار خود بہ خود
ٹھہری وہیں پہ وقت کی رفتار خود بہ خود
ارزَاں ہوا ہے فن کہ طلب گار بڑھ گئے
افزوں ہوئی ہے رونقِ بازار خود بہ خود
ہونٹوں پہ لفظ آن کے کیا منجمد ہوئے
آنکھیں ہوئی ہیں مائلِ گفتار خود بہ خود
تائیدِ ایزدی ہوئی حاصل انھیں کہ اب
تائب ہوئے شراب سے مئے خوار خود بہ خود
پیدا دلوں میں ہاشمیؔ اُلفت کریں جو ہم
گر جائے نفرتوں کی یہ دیوار خود بہ خود
٭٭٭
سجا کے بیٹھ گئے کیوں یہ میز پر کاغذ
نہیں پڑھے گا وہ بھیجو ہزار اگر کاغذ
تبادلہ جو نگاہیں کریں تو پیش اُن کے
لگا ہے ہم کو نہایت ہی بے اثر کاغذ
کہیں بدل نہ دیا ہو تمہارے خط سے اُسے
اُٹھا کے لایا ہے سادہ سا نامہ بر کاغذ
پھر اُس کے بعد ہی بڑھتی ہے قدر کاغذ کی
مکین کو جو کرے گھر سے دَر بہ در کاغذ
٭٭٭
صحرا نشینو چونکو نہ میری ا ذ ا ن پر
آیا ہوں کھیلتا ہوا میں اپنی جان پر
رکھتا ہوں میں عزیز زمیں تیری خاک ابھی
قائم ہے اعتبار مر ا آ سمان پر
چلتا ر ہوں گا دھوپ میں سائے کے ہم قدم
جب تک نہیں بھروسہ مرا سائبان پر
رکھتا ہوں میں سنبھال کے سرمایہ علم کا
کیوں کر نہ ہو گا ناز مجھے خاندان پر
محفل میں آج مصرعہ اُٹھاتا نہیں کوئی
حیراں تھے لوگ پہلے ذرا سی اٹھان پر
اُن رفتگاں کے نام لکھو ہاشمی ؔ غزل
احسان کر گئے ہیں جو اُردو زبان پر
٭٭٭
تخلیق نمو پاتی ہے دُکھ درد اُٹھا کر
کیوں رائگاں و ارزاں رہو شعر سناکر
پوشیدہ نگاہوں سے کہاں ہو گی حقیقت
آئینے سے لے جاؤ گے کیا عکس چُرا کر
اب دیکھے کس وقت وہ مجرم ہمیں ٹھہرائیں
دربار میں لائے تو ہیں الزام لگا کر
اس بات کا اندازہ کریں ہاشمیؔ کیسے
رَم کون سی آنکھیں وہ کرے پھول کھلا کر
٭٭٭
میں نکلا ذات کی تہہ سے اُبھر کر
بہت نیچے، بہت اندر اُتر کر
خود اپنے آپ سے کترانے والو
ملا کیا پیشِ آئینہ مُکر کر
رہیں گے ایک سے دن رات شاید!
گزاریں گے یونہی شام و سحر کر
دواؤں پر گزارا کر رہے ہیں
سُنا ہے لوگ جی اُٹھتے ہیں مر کر
شعورؔ و جونؔ کی حد تک گوارا
غزل میں تُو نہ تقلیدِ ظفرؔ کر
یہاں تک ہاشمیؔ یہ فکر پہنچی
رساچغتائی کی رہ سے گُزر کر
٭٭٭
گزارتے رہے اُس وقت کو تذبذب میں
اگر کھلا بھی ہے قسمت کا ہم پہ بند کِواڑ
یہی ہے عاشق و محبوب کے لیے خطرہ
کہ لوگ ڈال نہ دیں ان کے درمیان دراڑ
عجیب فطرتِ لاثانی ہے یہ عقرب کی
لگائے ڈنک بنا دیکھے رات ہے کہ دیہاڑ
بنے ہیں پہلواں اس دور کے سبھی ناقد
قلم کی نوک سے کرتے رہیں اُکھاڑ پچھاڑ
کہا تھا چودھویں شب کو اسے جو دیکھا تھا
’تو چاند ہے تو کسی دن ذرا ہمیں بھی تاڑ‘
٭٭٭
اُس نے گر چھوڑ دیا ہم نے بھی رشتے دیئے توڑ
اب پریشان خیالی سے تعلق کو نہ جوڑ
ٹوٹ ہی جائے گی اک روز میاں سانس کی ڈور
بات یہ ہے کہ لگائے گا کہاں تک کوئی دوڑ
تازہ کاروں میں کئے جائیں شمار آپ ہمیں
کہنہ لفظوں سے دیئے ہم نے نئے معنیٰ جوڑ
ہاں میاں صورتِ آئینہ یہاں ہم تُم ہیں
ٹوٹ جائیں تو لگے اس میں نہ پیوند نہ جوڑ
ہاشمیؔ گوشہ ئ تنہائی میں لکھے ہوئے شعر
عین ممکن ہے کبھی لوگ پڑھیں ایک کروڑ
٭٭٭
تو نہ مانے اگر نہ مان عزیز
ہے کوئی اپنا نگہ بان عزیز
مدعی تم ہی نہیں ہم کو بھی
رہتے ہیں زیست کے سامان عزیز
جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر لکھا
ہم کو بھی اپنا ہے ایمان عزیز
عشق کرتا ہے تقاضائے جنوں
کیا خطا کیجئے اوسان عزیز
طرزِ غالب میں لکھے کیا کوئی
لکھ رہے ہیں بہ ہر عنوان عزیز
خیر چلتے ہیں گلی میں اُس کی
’واقعہ سخت ہے اور جان عزیز‘
٭٭٭
روح کرتی ہے کیا بدن سے گُریز!
کیسے کر دوں میں اپنے فن سے گریز
خود کو حاضر کیے رکھا خود میں
بارہا کر کے انجمن سے گُریز
اچھی صورت پہ ہو رہا لہلوٹ
کیسے کرتا میں بانکپن سے گُریز
اپنا پندارِ عُمر بیچ گئے
جن کی تقدیر تھا وطن سے گُریز
دوستوں کی مثال سامنے ہے
کرتے رہتے ہیں جو اپَن سے گُریز
خیر کے ساتھ شر بھی لازم ہے
خار کرتے نہیں چمن سے گُریز
جب تصادم نہیں گریز سے پھر
ہاشمیؔ کیسے ہو سُخَن سے گُریز
٭٭٭
کس کے مشامِ جاں سے یہ درماندہ سی روح معطرّ ہے
کیوں ہے گلاب کے ساتھ مہکتی رانی ایک طرف
دیکھ سنبھال کے رکھ لے جوبَن وقت کی گرد نہ بن جائے
سونے کے تاروں سے کَسی تری مست جوانی ایک طرف
خلوت میں رہنے والوں کو کاش کبھی معلوم نہ ہو
سُورج عمر کا رکتا نہیں ہے تن آسانی ایک طرف
کس نے کس کی نقل لکھی ہے، اصلی کون ہے نقلی کون؟
اک دن کھل جاتی ہے حقیقت، سحر بیانی ایک طرف
ہاشمیؔ شہرِ سُخن میں ہم بھی کارِ سخن کرتے رہے پَر
من کی سندرتا، تن کی کویتا،لکھتا بانی ایک طرف
٭٭٭
میرا غزال دل نشیں،فکرِ غزال ہر طرف
حجر ہ نشیں یہ دِل مرا،پھر بھی خیال ہر طرف
میرے توہُّمَات ہیں،واقعی ثبات ہیں
کس نے پس و جِلُو میں رکھ دیے سوال ہر طرف
جس جَا نظر اُٹھائیے،جس سمت دیکھے جائیے
اُس کا کمال ہر طرف، اُس کا جمال ہر طرف
تخلیق کی لگن بھی ہے، تفریقِ اَنُجمن بھی ہے
حُسنِ خیال سے سِوا ہے روٹی دال ہر طرف
میرے تصرّفات میں روز و شبِ حیات میں
بکھری ہوئی ہے کُو بہ کو گردِ ملال ہر طرف
تسخیرِ کائنات میں انسان اپنی ذات میں
کہنے کو بڑھ گیا، پہ ہے رو ُ بہ زوال ہر طرف
٭٭٭
لندن تمہیں جانے کی ضرورت نہ موزمبیقؔ
ہوسکتی ہے احساس کی الفاظ سے توثیق
ہاں آدمی بے زار کہا جائے تو کہہ لو
تنہائی نے بخشی ہے غزل گوئی کی توفیق
اے شعبدہ گر لفظ کی تحقیر نہیں کر
حُرمت تجھے معلوم نہیں حرف کی زندیق!
رکھ اپنے پٹارے میں جہالت کا خزینہ
کیا چرب زبانی سے حقیقت کی ہو تصدیق
لنگوٹ نہ کس ایسے اکھاڑے نہ بنا تُو
گم راہ نہ کر دے یہ روش تیری،یہ تحقیق
کیوں چھیڑتا ہے معرکہ کُہنگی و نَو
بے فائدہ ہے رفتہ و آئندہ کی تفریق
نقّاد کو معلوم نہیں ہاشمی، شاید
تنقید جنم لیتی نہیں گر نہ ہو تخلیق
٭٭٭
جیسے سماعتوں میں کیا ہے ابھی شریک
ایسے ہی میرے ساتھ رہے آگہی شریک
احسان کیا ہے آپ جتا دیں جو دوستی
احساس کیسا گر نہ ہو چارہ گری شریک
گریہ کناں ہوے تو کھلے غم جہان پر
تنہائیوں میں دل کی رہی بے کلی شریک
سورج ڈھلا تو دھوپ درختوں میں سوگئی
بے داریوں میں میری رہا کب کوئی شریک
ساحل پہ اُڑ رہی تھیں پرندوں کی ٹولیاں
نغمات گونجتے تھے ہوا تھی مری شریک
اشعار میں کمال نہیں کرتا ہاشمیؔ
نیت میں اس کے ہوتی جو کوئی بدی شریک
٭٭٭
سخن بڑھے گا علامت سے استعاروں تک
رسائی ہو گی نظر کی اگر ستاروں تک
حجابِ حرف و معانی کھلا نہیں آخر
یہ گفتگو رہی محدود بس اشاروں تک
سنا کے ہجر کا قصّہ ملال اُٹھاتے رہے
وہ تشنہ لب کہ جو پہنچے نہ آبشاروں تک
تر ا کرم کہ مرا دل بھی اس کی زَد پہ رہا
غبارِ غم کا تعلق تھا سو گواروں تک
نہ تاب لاسکے شہرت پسندوں کے ہاتوں
غزل جو میرؔ کے لہجے میں پہنچی یاروں تک
٭٭٭
ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک
پھر ہوا نے بھی دکھا ڈالی ہمیں اپنی چمک
ایک ہی ناؤ، کنارے سے کنارے کا سفر
گھر پلٹ آئے کماتے ہوئے دن بھر کی چمک
چاندنی پھیلی،دریچوں سے دھواں اٹھنے لگا
آسماں پر جو ہویدا ہوئی تاروں سے چمک
صبح سے ٹھنڈے پڑے چولھے میں پھر آگ لگی
بھوکے بچوں کی نگاہوں میں گئی روٹی چمک
آج کا رزق مُیسر چلو آیا تو سہی
چاند سے کہہ دو کوئی گھر میں مرے کل بھی چمک
٭٭٭
شعر میں جب سے نظر آئے تگ و تاز کے رنگ
جگمگانے لگے قرطاس پہ آواز کے رنگ
اِسم سب اُس سے ہیں منسوب،صفت اُس کی ہے
طائرِ فکر کو دیتا ہے جو پرواز کے رنگ
چاند کے ناز اُٹھانا کوئی دشوار نہ تھا
دسترس میں نہیں آتے کسی مہ ناز کے رنگ
ہاشمیؔ سادہ بیانی میں یہ رنگا رنگی
ہیں بہت خوب سخن کے نئے انداز کے رنگ
٭٭٭
آنکھ نے منظر دکھائے ہیں یہاں سب سے الگ
دائیں، بائیں، آگے پیچھے، درمیاں سب سے الگ
آدمی تو آدمی ہے قدر کیوں یک ساں نہیں
خامیاں سب کی جُدا ہیں، خوبیاں سب سے الگ
چاند سورج، رات دن، شام و سحر یا دھوپ چھاؤں
ہر سخن ور کی ہے خواہش، ہو بیاں سب سے الگ
مشرق و مغرب میں اس کی دھُوم دیکھا چاہیے
سب زبانوں میں ہے یہ اُردو زباں سب سے الگ
کاروانِ شعر و نغمہ میں نہ ہم شامل ہوئے
ہے ٹھیہ اپنا جُدا ہے داستاں سب سے الگ
باوجود اِس کے نہیں ہوتی کہیں آبادی کم
بستے ہی جاتے ہیں شہرِ رفتَگاں سب سے الگ
سارِقَانِ حرَف و معنیٰ مال اُڑا کر لے گئے
شہر میں کھولی تھی حالیؔ نے دُکاں سب سے الگ
مشق سے حاصل مہارت، ہاشمیؔ کیا خوب کی
تُم نے صحرائے سُخن میں دی اذاں سب سے الگ
نغمَگی کو ہے مُیسر پیرَہن سب سے الگ
آرزُو تھی ہو رہے اپنا سُخن سب سے الگ
آنکھ نظارے کی خوگر شب میں ہٹتی ہی نہیں
چاندنی ہم پر رہے سایہ فِگَن سب سے الگ
مشق کو ہم نے مشقت سے سِوا اپنا لیا
گوشہ گیروں کی طرح رکھا چلن سب سے الگ
ابتدا سے آج تک مصروفیت ہے بس یہی
ہو زمیں اپنی، کریں کشتِ سُخن سب سے الگ
نیٹ، چیٹنگ، شاعری،کَیا کُچھ کِیا کرتے نہیں
ہاشمیؔ بھی خوب رہتے ہیں مگَن سب سے الگ
٭٭٭
جو دکھائی نہ دیا ڈھونڈنے والوں میں کہیں
اُس نے لکھّا تھا مرا نام حوالوں میں کہیں
آئنہ پوچھ رہا ہے مجھے گُم صم پا کر
آپ کھوئے ہوئے رہتے ہیں خیالوں میں کہیں
ہم نے اظہار کی خاطر نہ کی عُجلت،سو ملا
شعر لکھنے کا سلیقہ کئی سالوں میں کہیں
ہاتھ خالی ہیں اگر دولتِ دُنیا سے تو کیا
ہم کو دیکھا نہ گیا مانگنے والوں میں کہیں
حاصلِ کارِ سُخن ہاشمیؔ ٹھہرے گا وہی
نام آ جائے گا جس روز مثالوں میں کہیں
٭٭٭
دھنک ملے تو نگاہوں میں قید رنگ کریں
رَم آج رات چلو چاندنی کے سنگ کریں
یہ آئینہ سا مرا دل ہے اِس میں سجتی رہو
پھر اُس کے بعد تمنّا، نئی اُمنگ کریں
بدَن تو مل گئے روحوں کی تشنگی بھی مٹے
سو اختیار چلو آج کوئی ڈھنگ کریں
نہیں ہیں فُرصتیں آلامِ روزگار سے گر
اب اِس کے بعد بتا کیا ترے ملنَگ کریں
یہی ارادہ ہے بزمِ سُخن سجائے کوئی
ردیف وار لکھیں، قافیہ نہ تنگ کریں
٭٭٭
اہلِ خانہ سو ر ہے ہیں اور گھر خاموش ہیں
بو لتا ہے کون! اگر د یو ا ر و دَ ر خاموش ہیں
رات جانے میری آنکھوں نے انہیں کیا کہہ دیا
جاگتے ہیں ا و ر وہ وقتِ سحر خاموش ہیں
میرے فن کی عُمر ہی کیا ہے جو ہو گا تبصرہ
اہلِ فن، اہلِ ہنر،اہلِ نظَر خاموش ہیں
اس سے ظاہر ہے تجسس آدمی کیا کیا کرے
پوچھتے تھے جان کر موسیٰؑ خضر خاموش ہیں
مصلحت کا ہے تقاضا ہاشمی سو اِن دنوں
وہ اُدھر لب بستہ ہیں اور ہم اِدھر خاموش ہیں
٭٭٭
ماخذ:
http://humpakistanee.blogspot.com/2015/03/blog-post_20.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید