FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دشمن کی آنکھیں اور دوسرے افسانے

تراجم

قیصر نذیر خاورؔ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید


ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب پڑھیں…..

اینجی

میکس لوب ( Max Lobe) کا کیمرونین افسانہ (The Neighborhood Mirror)

(فرانسیسی سے)

[Max Lobe] میکس لوب، 13/جنوری 1986ء کو’ ڈوؤلا ‘، کیمرون میں پیدا ہوا۔ 2004ء میں وہ سوئسزرلینڈ میں گیا اور وہاں ابلاغیات اور صحافت میں تعلیم حاصل کی۔ پھر اس نے ’لوسین’ کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈ منسٹریشن سے ڈگری حاصل کی۔ وہ جنیوا میں رہتا ہے۔

اب تک اس کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں ایک ناول ‘ 39، Rue de Berne ‘ بھی ہے۔ یہ ناول جنیوا کے ’ریڈ لائٹ ایریا ‘ کے ماحول پر لکھا گیا ہے جہاں اس کے کردار کیمرون سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ جنسی غلامی اور ہم جنس پرستی پر لکھا اس کا یہ ناول اور کئی افسانے مختلف انعام حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے کام میں مختلف سماجی و ثقافتی تھیمز کا ایسا پھیلاؤ ملتا ہے کہ آپ اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے۔ غیر قانونی ہجرت، روایتی معاشروں میں جنسی اقدار اور نوآبادیاتی نظام کے بعد، آزاد ہوئے علاقوں پر اس کے مُضمرات اُس کے کام میں اہم موضوعات ہیں۔

یہ افسانہ مُصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

اِس صبح ’اینجی ‘ آئینے کے سامنے بیٹھی ہے، آئینہ جسے وہ ’میمی ‘ کہہ کر بلاتی ہے۔ وہ اس چھوٹے سے کمرے سے، جہاں وہ رہتی ہے کم کم ہی باہر نکلتی ہے۔ یہ جھونپڑ پٹی کے دور والے حصے میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کے درمیان ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں ’فاؤنڈیشن ‘ * کی ایک ٹیوب ہے اور دوسرے میں میک اَپ کرنے والا ایک پرانا بُرش۔ عام طور پر اگر وہ میمی کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے تو اس لئے کہ اپنی تھوڈی پر اُگتے بالوں کو تلاش کر سکے اور ان کو اچھی طرح چھپا سکے لیکن اِس صبح وہ میمی کے سامنے رونا چاہتی ہے کیونکہ اس کا دل ٹوٹ چکا ہے، قیمہ ہو چکا ہے، اس گوشت کے قیمے کی طرح جس سے وہ ’سویا ‘ * کباب بنا کر، سڑک کے کنارے بیچتے ہیں۔

وہ اُسے بتانا چاہتی ہے کہ اسے اپنی چھاتیوں کے درمیان تکلیف ہو رہی ہے۔ ویسے میمی اس کی چھاتیوں کے بارے میں کیا جانے؟ جب اینجی اپنی چھاتیاں دکھاتی ہے تو پامیلا اینڈرسن * بھی اپنی چھاتیاں فوراً چھپا لیتی ہے۔ وہ میمی سے پوچھتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کی چھاتیاں کتنی بڑی ہیں جیسے وہ، دو بڑے پپیتوں کی مانند ہوں۔ وہ ایک بار پھر اپنی انگیا اوپر کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن، دھت، وہ پھر سے نیچے گر جاتی ہے! ارے، یہاں کچھ ہے۔۔ یہ تو صرف چھاتی ہے۔۔ اتنی بھی بُری نہیں ہے، وہ سوچتی ہے۔ اب وہ اپنے ہمسائے ’چیف’ کی بیوی کی مانند دِکھتی ہے۔ بیچاری! جس کی ایک چھاتی ایک گندی بیماری نے ہڑپ کر لی تھی۔ شاید چیف کی بیوی بھی وہی کرتی ہو گی جو اینجی کرتی ہے، وہ دو سپنج کے ٹکڑے اُڑس لیتی ہو گی۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میمی کو اس بات کا پتہ نہ ہو؟ اس بستی میں سب عورتیں پیٹ کی ہلکی ہیں۔ یہ تو قصبے کی ’پام ‘ وائن کی ہر دکان میں گپ شپ کا سب سے عام موضوع ہے۔ اینجی کو جب جب گزشتہ روز نشئیوں کے چلانے کی آوازیں یاد آتیں تو اس کے سینے میں تڑپا دینے والی درد اٹھتی ہے۔

’’بالآخر! وقت آ ہی گیا ہے کہ تھامس (اس کا محبوب ٹامی) اب سچ میں مرد بن جائے۔‘‘

اِسی سے اُسے پتہ چلا تھا کہ کہ ٹامی ’ندُمبا‘ کے والدین سے ملنے گیا تھا۔ وہ اس سے شادی کرنے والا تھا۔ کیا ثابت کرنے کے لئے؟ اور وہ بھی کس کے سامنے؟ کہ وہ سچ میں مرد ہے؟ ’مرد کا بچہ، سالا نہ ہو تو‘، اس نے اپنے میک اپ والے برش کو بھینچتے ہوئے اس پر لعنت بھیجی۔

اور پھر، اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس نے تو اسے ہر شے تھالی میں سجا کر دی تھی۔ وہ پیسے جو وہ کمانے کے لئے پسینے میں بھیگ جاتی تھی، کھانا اور پھر اپنا آپ بھی۔ اس وقت ندُمبا کہاں تھی جب تھامس دبے پاؤں ایک بلونگڑے کی طرح اس کے گھر آتا تھا؟ وہ ہمیشہ اس کے لئے دروازہ کھول دیتی تھی اور جب کبھی وہ پہلے سو جاتی تو اس کے لئے دروازہ کھلا رکھتی۔ اس وقت مِس ندُمبا کہاں تھی جب تھامس آدھی رات کو نجانے کہاں سے آ دھمکتا تھا تاکہ اس سے حظ لے سکے؟ وہ اسے کچھ نہیں، بہت کچھ دیتی تھی۔۔ آگا بھی پیچھا بھی، ہر طرح کی تالا بندی، ہر طرح کا گولا بارود۔ وہ کہاں کہاں نہیں گھُستا تھا؟ کیا اس نے تپتی دھوپ میں اس کے لئے نئے سے نیا اَنگ اختیار نہیں کیا تھا؟ وہ، جس کے لئے اینجی رات کے وقت، اُسے روشن کرنے کے لئے بیٹری کا کام کرتی تھی، وہ جو اس کا خفیہ مرد تھا؟

وہ اسے شیالین کہتا تھا اور جب وہ اسے یہ کہہ کر بلاتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اُسے اب ایک نیا اَنگ درکار تھا۔ وہ ہمیشہ براہ راست رابطہ چاہتا تھا، جسم سے جسم کا، اُسے ان ربڑوں سے چِڑ تھی جو گورے، خود کو بیماریوں سے بچانے کے لئے برتتے تھے۔ اس کی ٹانگیں ہر طرف پھیلی ہوتیں، ایک یہاں اور دوسری ٹھیک وہاں۔ وہ اسے گھماتا، جھُکاتا، جیسے چاہتا ویسے لِٹاتا، ایسے جیسے وہ اس کے لئے ایک کھلونا تھی اور۔۔ اور پھر اسے بس سوراخ ہی یاد رہتا، ہچکولوں اور پنڈولم جیسی، حرکت کی دبی دبی آوازیں کمرے میں ابھرتیں اور پھر فراغت پانے کے ساتھ ہی لطف بھری آہ کی خاموشی چھا جاتی۔ تب وہ اس کے توانا بازوؤں میں سو جاتا، اُس کا سر اس کے بالوں والے سینے پر ہوتا، جو اب نقلی چھاتیوں سے آزاد ہوتا۔ جب تک ایسا تھا تو وہ سمجھتی تھی کہ تھامس اُس کا تھا۔

ایک آنسو اس کے گال پر ٹپکتا ہے۔ اینجی اسے اپنی انگلی سے صاف کرتی ہے۔ وہ ایک سرد آہ بھرتی ہے اور سر جھکا لیتی ہے۔ وہ میمی، اپنے پیارے آئینے، سے کہتی ہے۔

’’مجھے بتاؤ اور کہو، میں قصبے کے اس حصے کی سب سے خوبصورت عورت ہوں۔‘‘

پھر وہ مسکراتی ہے۔ میمی بالکل جھوٹی ہے۔ جب وہ جھوٹ بولتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ اُن سیاست دانوں جیسی ہے جو ٹیلیویژن پرجھوٹا بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ میمی اندھے پن سے یہ قسم کیسے کھا سکتی ہے کہ اینجی اس علاقے کی سب سے حسین عورت ہے جبکہ وہ چڑھے دن کی طرح دیکھ سکتی ہے کہ اس کی تھوڈی کی جلد ریشم کی طرح ملائم نہیں ہے۔ اسے دیکھنا چاہیے کہ یہ کھردری ہے اور اس پر ایسے دانے ہیں جیسے برتن صاف کرنے والا دھاتی جھانوا۔ اینجی کو یاد آتا ہے کہ جب وہ چھوٹی تھی تو اس کی ماں اسے کھانا پکانے کے برتنوں کے پیندوں کو اچھی طرح رگڑنے کے لئے کہا کرتی تھی جو ساری رات لکڑیوں کی آگ پر پڑے رہتے تھے۔ اس کی ماں اب دوسرے جہان میں چلی گئی ہے۔ اور یہ لوگ بھی دوسرے ہی تھے جن کی نفرت بھری نظروں نے اسے مار ڈالا تھا۔ کوئی ماں ایسے بھلا کیسے جی سکتی ہے۔ جس نے یہ جانا کہ وہ بیٹے کو جنم دے رہی ہے، انتہائی اذیت سے، لالٹین کی روشنی میں، اسے دنیا میں لائی تھی، وہ بچہ اب اینجی بن چکا تھا۔ نو ماہ کا حمل بے معانی رہا تھا۔

اس صبح اس نے تھامس کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا تھا۔ جب سے اس نے خبر سنی تھی، وہ مزید برداشت نہ کر پائی تھی۔ اس کا جسم یوں پگھل رہا تھا جیسے ’مارجرین ‘ دھوپ میں پڑے پڑے مائع ہو جاتا ہے۔ اس نے لکھا تھا’۔

’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘

بس اتنا ہی لکھا تھا۔

اور تھامس میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ وہ کوئی جواب دیتا۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مِس ندُمبا کو یہ سمجھ نہ آئی ہو کہ اس کے منگیتر کو عورت نہیں چاہیے؟ اَگواڑا اس کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں! اور اینجی جانتی ہے کہ تھامس لطیف محبت کی راہوں پر تو چلتا ہی نہیں ہے۔ اور مِس ندُمبا تو ہپوپوٹومس کی مانند ہے۔ اب بھلا سوچا جائے کہ تھامس کو گوشت کے اُس پہاڑ کا پچھواڑا تلاش کرنے میں کتنی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ اینجی کو تھامس پر ترس آنے لگتا ہے۔

’’اوہو، میمی!‘‘، وہ رو پڑتی ہے، ’’دیکھو یہ بال پھر سے اُگ آئے ہیں!‘‘، وہی موئے بال جنہیں وہ ہمیشہ اکھاڑ پھینکتی ہے اور وہ ہر بار زیادہ توانا ہو کر نہ صرف اُگ آتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ اور یہاں میمی ہے کہ وہ اینجی کو یہی کہے جاتی ہے کہ وہ اس قصبے کی سب سے حسین عورت ہے۔۔۔۔ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔

وہ ’فاؤنڈیشن ‘ کی ایک اور تہہ لگاتی ہے۔ پھر ایک اور۔ اس سب کو چھپانا بھی تو ہے۔ وہ اس طرح تو باہر نہیں جا سکتی جیسے کسی چھوٹے دیہات کی چھنال ہو۔ وہ چھنال نہیں ہے بلکہ ایک آزاد عورت ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ باہر جائے اور راستے میں اسے ٹامی مل جائے؟ اور ذرا سوچو تو، اس نے اسے کبھی دن کی روشنی میں، بِنا سنگھار دیکھا بھی ہے؟

اسے معلوم نہیں ہے کہ شور، اچانک کہاں سے اٹھا ہے، اُسے لگتا ہے جیسے اس نے کسی شیر کی دھاڑ سنی ہو۔

’’بس کافی ہو گیا۔ ہم اس غلیظ ’ڈیپسو‘ * کے یہاں رہنے سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب یہ اس علاقے میں نہیں رہے گی!‘‘۔ کان پھاڑ دینے والی اِس آواز کے پیچھے اور بھی شور تھا جس سے تشدد کی بُو آتی تھی۔ اور شور۔۔ اور پھر ایک اور آواز۔۔ اور پھر یہ ایک کورس میں بدل گیا، ’’کافی ہو گیا، بس کافی ہو گیا!‘‘

وہ اٹھتی ہے اور کمرے کی کھڑکی کی طرف جاتی ہے تاکہ باہر دیکھ سکے۔ باہر مجمع بہت قریب آ چکا ہے۔ وہ سب خنجروں اور لاٹھیوں سے لیس ہیں۔ اُن کا غصہ عروج پر ہے۔ وہ اس ہجوم میں ایک شخص کو صاف پہچان لیتی ہے۔ یہ اس کا ٹامی ہے۔ وہ قدم بڑھاتا ہے اور ہجوم کے سامنے آ جاتا ہے۔ وہ اس شورش کی اَگوائی کر رہا ہے۔ وہ چلاتا ہے، ’’وہ سالا اُس دن کو پچھتائے گا جب وہ پیدا ہوا تھا! وہ مجھے محبت کے پیغام بھیجتا ہے۔ کیا، وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اس جیسا ہوں؟ نہیں، میں نہیں ہوں، میں مرد ہوں، مرد کا بچہ اور میں جلد ہی شادی کرنے والا ہوں۔ ندُمبا، وہ میری بیوی بننے والی ہے۔ اور یوں یہ سب ختم ہونے والا ہے!‘‘

اینجی کے ہاتھ سے برش گر جاتا ہے، ’’میمی! کیا تم نے یہ سب سنا؟‘‘

میں کیا بچاؤں؟ میں اپنے ساتھ کیا لے کر جاؤں؟ جاؤں تو کہاں جاؤں؟ اور وہ بھی یوں اچانک۔ اسے ماں کی یاد آتی ہے۔ وہ اگر یہاں ہوتی تو شاید اس کا دفاع کر لیتی۔ ایک ماں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح بچا ہی لیتی ہے۔ لیکن۔۔ لیکن اس کی ماں نے تو اس پھٹکل پنے سے آزاد ہونے کی ٹھان لی تھی۔ اس نے زہر پھانکا اور اینجی کو دنیا کا سامنا کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے تو اسے ابھی یہ بھی نہ سکھایا تھا کہ کینہ اور تحقیر کے ڈنگ سے کیسے بچنا تھا۔ وہ تو اسے یہ بھی نہ بتا پائی تھی کہ وہ کوڑے کے ڈھیروں کے درمیان ہمیشہ تاریکی میں ہی رہی تھی اور منتظر رہتی تھی، منتظر اپنے محبوب کی، تھامس کی منتظر۔ اوہ، ٹامی، تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟

وہ میک اپ کا سامان اکٹھا کرتی ہے۔ اور میمی، وہ میمی کو بھی ساتھ لیتی ہے۔۔ وہ دروازے کی طرف جاتی ہے تاکہ وہاں سے جا سکے، بھاگ سکے، فرار ہو سکے۔ لیکن دیر ہو چکی ہے۔ ایک پتھر نے اس کے کمرے کی پلائی ووڈ کی دیوار کو چھید دیا ہے جبکہ ایک دوسرے بڑے پتھر نے اس کا ماتھا کھول دیا ہے۔ اُسے لگتا ہے جیسے وہ مرغوں کے ڈربے میں ایک لال بیگ ہو۔ ‘ تم جو بھی کرو، میری جان، وہ تمہیں ایک کیڑے کی طرح چُگ لیں گے۔ ‘

وہ زور لگا کر اپنی پوری آنکھیں کھولتی ہے لیکن کچھ دیکھ نہیں پاتی اور نہ ہی کچھ سُن سکتی ہے۔ وہ اپنا آئینہ پکڑتی ہے، مسکراتی ہے، اس کا چہرہ خون سے لتھڑا ہوا ہے، وہ پوچھتی ہے۔

’’میمی! مجھے بتاؤ، کہ میں قصبے کے اس علاقے کی سب سے حسین عورت ہوں، کیا میں نہیں ہوں؟ میمی؟ میمی؟ کیا تم مجھے سن سکتی ہو؟‘‘

[ یہ ترجمہ اس ’چاندنی‘، جو ماں کی کوکھ میں مکمل ہو کر پیدا ہوتی تو ایک خوبصورت عورت ہوتی، کے نام، جو اپنے گرو اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ انارکلی، لاہور میں میرے آبائی گھر کے قریب ہی ایک کٹری میں رہا کرتی تھی۔ اس کا انجام بھی موت ہی تھا لیکن وہ ‘ایڈز’ (AIDS) کا شکار ہو کر فوت ہوئی تھی۔۔ اور جس کی آخری رسومات مولویوں، پادریوں اور مذہبی پنڈتوں نے ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۔ یہ خود اس کی گرو نے ادا کی تھیں۔ اس کی گرو نے اسے کہاں دفنایا، آگ کی نذر کیا یا اس کے مردہ جسم کو کیسے dispose off کیا یہ میرے لئے تو کیا، ان سب کے لئے معمہ ہے جو پہلے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنے گھر کے دروازے پر کاغذی پھولوں کی لڑیاں سجاتے اور ڈھولک و مخصوص تالیوں کے ساتھ ’جیوے بنڑا، شالا جوانیاں مانے۔۔’ گاتے دیکھتے تھے اور بعد میں۔ ۔ ۔! ]

۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔

نوٹس:

* ’فاؤنڈیشن ‘ = foundation، غازے کا وہ لیپ، جو میک اَپ کرنے سے پہلے چہرے پر لگایا جاتا ہے۔

* ’پامیلا اینڈرسن ‘ = Pamela Anderson، کنیڈین نژاد امریکی اداکارہ و ماڈل، جو اپنی سیکس اپیل اور بڑی چھاتیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ٹی وی سیریل ’بے واچ ‘ اس کی ایک اہم سیریل رہی ہے۔

* ‘سویا ’= suya، ایک مغربی افریقی کباب

* ’ڈیسپو ‘ = depso، کیمرون کی بازاری زبان میں ہم جنس پرست کو کہتے ہیں۔

* ’میکس لوب ‘ کے آبائی وطن ’کیمرون ‘ میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے اور اس کی سزا پانچ سال قید با مشقت ہے۔

٭٭٭

ضمیر

( ’’ایتالوکیلونیو‘‘ کے اطالوی زبان کے افسانے ’’Coscienza’’کا اُردو ترجمہ)

جنگ شروع ہوئی تو لیوایجی ( لیو ای جی) نامی جوان نے پوچھا کہ کیا وہ اس کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پیش کر سکتا تھا؟ یہ سن کر ہر کسی نے اس کی تعریف و توصیف کی۔ لیوایجی اس جگہ گیا جہاں وہ بندوقیں بانٹ رہے تھے۔ اس نے ایک لی اور کہا، ’’مَیں اب جاؤں گا اور البرٹو نامی بندے کو مار ڈالوں گا۔‘‘ انہوں نے اس سے پوچھا کہ یہ البرٹو کون ہے؟ ’’ایک دشمن……!‘‘ اس نے جواب دیا، ’’میرا ایک دشمن!‘‘ انہوں نے اُسے سمجھایا کہ ’’وہ ایک خاص قسم کے دشمن مار سکتا ہے …… یہ نہیں کہ جسے چاہے وہ مار ڈالے۔‘‘، ’’تو……؟‘‘ لیوایجی بولا، ’’آپ مجھے احمق سمجھتے ہیں کیا……؟ یہ البرٹو بالکل اسی خاص قسم کا دشمن ہے …… ان میں سے ایک۔ مَیں نے جب یہ سُنا کہ آپ اس قسم کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے لگے ہیں، تو مَیں نے سوچا…… مَیں بھی جاؤں گا اور یوں البرٹو کو مار سکوں گا۔ مَیں اسی لیے یہاں آیا تھا۔ مَیں اِس البرٹو کو جانتا ہوں۔ وہ ایک بدمعاش ہے۔ اس نے بلا وجہ مجھے بے وقوف بنایا۔ اس نے ایک عورت کے ساتھ مل کر ایسا کیا تھا۔ یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں، تو مَیں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں۔‘‘

وہ بولے، ’’ٹھیک ہے …… ٹھیک ہے!‘‘ ’’اچھا……!‘‘ لیوایجی بولا، ’’تو مجھے بتائیں …… البرٹو کہاں ہے؟ مَیں وہاں جاؤں گا اور اس سے لڑوں گا۔‘‘ وہ بولے کہ انہیں معلوم نہیں۔

’’کوئی بات نہیں ……!‘‘ لیوایجی بولا: ’’مَیں کوئی نا کوئی ایسا شخص ڈھونڈ لوں گا جو مجھے اس کا پتا بتا دے گا۔ جلد یا بدیر میں اُسے جا لوں گا۔‘‘

انہوں نے اسے بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے وہیں جانا ہو گا، جہاں وہ اسے بھیجیں گے، وہیں لڑنا ہو گا اور انہیں ہی مارنا ہو گا جو وہاں ہوں گے۔ وہ البرٹو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ’’میری بات سنیں ……!‘‘ لیوایجی نے اصرار کیا: ’’مجھے ساری کہانی آپ کو سنانا ہو گی۔ یہ بندہ واقعی میں بدمعاش ہے اور آپ ٹھیک کر رہے ہیں کہ اس جیسوں کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں۔‘‘ وہ، لیکن، اس کی کہانی سننا نہیں چاہتے تھے۔

لیوایجی کو ان کی منطق سمجھ نہ آئی۔ ’’معاف کریں …… آپ کے لیے شاید یہ بات اہم نہ ہو کہ مَیں ایک دشمن ماروں یا کہ دوسرا…… لیکن مَیں اس بات پر پریشان ہی رہوں گا کہ میں کسی ایسے کو ماروں جس کا البرٹو کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو۔‘‘ رائفل دینے والوں کا پارہ چڑھ گیا۔ ان میں سے ایک نے لمبی تقریر کی اور اسے تفصیل سے سمجھایا کہ وہ جنگ کس لیے لڑی جا رہی تھی اور یہ کہ وہ منھ اٹھا کر جائے اور اپنے کسی مخصوص دشمن، جس سے وہ بدلہ لینا چاہتا ہے، کو قتل نہیں کر سکتا۔ لیوایجی نے کندھے جھٹکے۔ ’’اگر یہ ایسا ہی ہے …… تو مجھے اس سب سے الگ ہی رہنے دیں۔‘‘

’’تم اپنی خدمات پیش کر چکے ہو…… اب تم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔‘‘

وہ چلائے۔ ’’آگے بڑھو…… چَپ راس …… چَپ راس!‘‘

یوں انہوں نے اسے محاذ پر بھیج دیا۔ لیوایجی خوش نہیں تھا۔ اس نے ان سب کو مارا، جو بھی اس کے سامنے آئے، وہ کسی نا کسی طرح البرٹو تک یا اس کے خاندان میں سے کسی بندے تک پہنچنا چاہتا تھا۔ انہوں نے اسے ہر ہلاکت پر تمغا دیا…… لیکن وہ پھر بھی خوش نہ ہوا۔ ’’مَیں اگر البرٹو کو نہ مار سکا……!‘‘ اس نے سوچا ’’تو مجھے بہت سے لوگوں کو خواہ مخواہ مارنا پڑے گا۔‘‘

اسے یہ اچھا نہ لگا۔ اس دوران میں وہ اسے تمغے پر تمغا دیے جا رہے تھے، چاندی کے، سونے کے، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔ لیوایجی نے سوچا، ’’کچھ آج مارو، کچھ کل…… اور یوں وہ کم ہوتے جائیں گے …… پھر اس بدمعاش کی باری بھی آ ہی جائے گی۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ البرٹو کو تلاش کر پاتا، غنیم نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسے بُرا محسوس ہوا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو بلا وجہ ہلاک کر دیا۔ اب جب کہ وہ حالت امن میں تھے، اس نے اپنے تمغے ایک تھیلے میں ڈالے اور ان کی بستیوں میں گیا اور سارے تمغے ہلاک شدگان کی بیواؤں اور بچوں میں تقسیم کر دیے۔ ان بستیوں میں گھومتے پھرتے اس کا سامنا البرٹو سے ہو گیا۔ ’’یہ تو اچھا ہو گیا۔‘‘ اس نے خود سے کہا ’’کبھی نہیں سے دیر ہی بھلی۔‘‘

اس نے البرٹو کو ہلاک کر دیا۔ انہوں نے اس پر اسے گرفتار کر لیا۔ اس پر مقدمہ چلایا اور پھانسی دے دی۔ مقدمے کے دوران میں اس نے بار بار یہ بات دُہرائی کہ اس نے یہ کام اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا ہے …… لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سُنی۔

٭٭

https://lafzuna.com/prose/s-27511/

٭٭٭

دو عورتیں

آموس اوز (Amos Oz) کا عبرانی افسانہ

صبح سویرے، سورج نکلنے سے بھی پہلے، جھاڑیوں سے کبوتروں کی غٹر غوں اس کی کھلی کھڑکی سے ہوا کی مانند تیرتی اندر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ گلے سے نکلتی یہ مسلسل آواز جو کسی طور ٹوٹتی نہیں، اسے سکون دیتی ہے۔ چیڑ کے درختوں کی چوٹیوں پر تازی ہوا کے لطیف جھونکے پتوں میں سرسراہٹ پیدا کر رہے ہیں اور پہاڑی کی ڈھلوان پر ایک مرغا بانگ دے رہا ہے۔ دور ایک کتا بھونکتا ہے اور ایک دوسرا اسے جواب دیتا ہے۔ یہ ساری آوازیں اوسنات کو الارم کلاک کے بجنے سے پہلے ہی جگا دیتی ہیں۔ وہ بستر سے باہر نکلتی ہے، الارم بند کرتی ہے، نہاتی ہے اور کام والے کپڑے پہن لیتی ہے۔ ساڑھے پانچ بجے وہ کیبوز *کی لانڈری میں کام کرنے کے لیے نکل جاتی ہے۔ راستے میں وہ بواز اور ایریلا کے اپارٹمنٹ کے پاس سے گزرتی ہے جو تاریکی میں ڈوبا ہے اور بند بھی ہے۔ ’وہ یقیناً ابھی سو رہے ہوں گے‘ ، وہ سوچتی ہے۔ یہ سوچ اس میں نہ حسد پید ا کرتی ہے اور نہ ہی تکلیف دیتی ہے۔ ہاں البتہ اسے ایک مبہم سی بے یقینی گھیر لیتی ہے جیسے سارا کچھ جو ہوا تھا، وہ اس کے ساتھ نہیں بلکہ اجنبیوں کے ساتھ ہوا ہو اور یہ دو ماہ پہلے نہیں بلکہ کئی برس پہلے پیش آیا ہو۔ وہ لانڈری میں پہنچ کر بتی جلاتی ہے کیونکہ دن کی روشنی ابھی بہت مدھم ہے۔ وہ پھر منتظر میلے کپڑوں کے اس ڈھیر پر جھکتی ہے اور سفید کپڑوں کو رنگین سے اور سوتی کپڑوں کو مصنوعی دھاگے سے بُنے کپڑوں سے الگ کرتی ہے۔ جسموں کی تعفن بھری بو گندے کپڑوں سے اٹھتی ہے اورپھرصابن کے سفوف کی مہک میں شامل ہو جاتی ہے۔ اوسنات یہاں اکیلی کام کرتی ہے، اس لیے وہ اپناریڈیو سارا دن چلائے رکھتی ہے تاکہ اپنی تنہائی کے احساس کو کم کر سکے حالانکہ واشنگ مشینوں کی اپنی گڑگڑاہٹ ریڈیو سے نکلتے الفاظ اور موسیقی کا گلا ویسے ہی گھونٹ دیتی ہے۔ ساڑھے سات بجے وہ پہلا چکر پورا کرتی ہے، مشینیں خالی کرتی ہے اور انہیں پھر سے کپڑوں سے بھر دیتی ہے۔ اس بعد وہ ڈائننگ ہال میں ناشتہ کرنے چلی جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ سے آہستہ ہی چلتی ہے، جیسے اسے یقین ہی نہ ہو کہ اس نے کہاں جانا ہے یا یہ کہ جیسے اسے پرواہ ہی نہ ہو کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ ہمارے کیبوز میں اوسنات ایک انتہائی خاموش طبع عورت سمجھی جاتی ہے۔

گرمیوں کے آغاز میں ہی بواز اوسنات کو بتا دیتا ہے کہ وہ ایریلا براش کے ساتھ تعلق میں ہے اور اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ تینوں جھوٹ کے ساتھ زندگی نہ جئیں اس لیے اس نے طے کر لیا ہے کہ وہ اوسنات کو چھوڑ دے اور اپنی چیزیں ایریلا کے اپارٹمنٹ میں لے جائے۔

”تم اب چھوٹی بچی نہیں رہیں۔‘‘، وہ کہتا ہے، ”اوسنات، تم جانتی ہو کہ آج کل ساری دنیا میں اس طرح کی چیزیں ہو رہی ہیں اور ہمارا کیبوز بھی اس سے باہر نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے بچے نہیں ہیں، اگر ہوتے تو یہ ہمارے لیے خاصی مشکل کھڑی کر دیتے۔‘‘، اس نے پھر اسے کہا کہ وہ اپنی سائیکل ساتھ لے جائے گا لیکن ریڈیو اس کے لیے چھوڑ دے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ ان کی علیحدگی بھی اسی خوش اسلوبی سے ہو جس طرح انہوں نے اتنے سال ساتھ بتائے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ وہ اس سے خفا ہے، گو کہ ایسا کچھ نہیں ہے جس پر وہ اس سے خفا ہو۔ ”ایریلا کے ساتھ تعلق بنانے کا مطلب تمہیں تکلیف پہچانا ہرگز نہ تھا۔ ایسی چیزیں بس ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘ بہرحال اسے افسوس ہے۔ وہ اپنی اشیاء فوری طور ہٹا لے گا اور اس کے لیے نہ صرف ریڈیو چھوڑ جائے گا بلکہ باقی چیزیں بھی جن میں البم، کشیدہ کاری والے تکیے اور وہ کافی سیٹ بھی جو انہیں شادی کے تحفے کے طور پر ملا تھا۔

”اچھا۔‘‘، اوسنات کہتی ہے۔

”اچھا سے تمہارا کیا مطلب ہے؟“

”جاؤ۔‘‘، وہ کہتی ہے، ”بس جاؤ۔‘‘

ایریلا براش ایک لمبی، پتلی دبلی مطلقہ تھی۔ اس کی گردن نازک، بال لمبے اور آنکھیں مسکراتی تھیں، جن میں سے ایک میں ہلکا سا بھینگا پن تھا۔ وہ مرغیوں کے باڑے میں کام کرتی اور کیبوز کی ثقافتی کمیٹی کی سربراہ تھی۔ اس کمیٹی کا کام شادیوں، تہواروں اور تعطیلات کے حوالے سے تقریبات منعقد کروانا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے ذمے یہ بھی تھا کہ جمعے کی راتوں کو لوگوں کو درس کے لیے بلائے اور بدھ کی راتوں کو ڈائننگ ہال میں دکھانے کے لیے فلموں کا بندوبست کرے۔ اس کے پاس ایک بوڑھی بلی اور ایک ننھا کتا بلکہ کتورا تھا جو اس کے اپارٹمنٹ میں امن و آشتی سے ساتھ رہتے تھے۔ کتا بلی سے خوفزدہ تھا اور اسے کھل کر کھیلنے دیتا جبکہ بلی کتے کو نظرانداز کرتی اور اس کے پاس سے یوں گزر جاتی جیسے وہ موجود ہی نہ ہو۔ وہ دونوں دن کا زیادہ وقت ایریلا کے اپارٹمنٹ میں اونگھتے ہوئے گزارتے۔ بلی صوفے پر ہوتی اور کتا غالیچے پر ہوتا۔ دونوں ایک دوسرے سے لاتعلق نظر آتے۔

ایریلا سال بھر کے لیے ایک مستقل فوج کے افسر افراہیم کی بیاہتا رہی تھی جس نے اسے ایک نوجوان فوجی لڑکی کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اس کا تعلق بواز سے تب بنا جب ایک روز وہ اس کے اپارٹمنٹ میں پسینے میں بھیگی کام والی، مشینوں کے تیل کے دھبوں بھری ڈانگری پہنے گیا تھا۔ ایریلا نے اسے اپنے ٹپ ٹپ بہتے نلکے کو ٹھیک کرنے کے لیے بلایا تھا۔ اس نے دھاتی بکسوئے والی چمڑے کی پیٹی باندھ رکھی تھی جس میں اس کے اوزار لٹک رہے تھے۔ جب وہ جھکا نلکا ٹھیک کر رہا تھا تو ایریلا اس کی دھوپ میں گندمی ہوئی کمر پر نرمی سے اس وقت تک سہلاتی رہی جب تک وہ اپنا پیچ کس اور کسنے والی چابی چھوڑے بغیر ہی اس کی طرف نہ مڑ گیا۔ وہ تب سے آدھ پون یا گھنٹے کے لیے اس کے اپارٹمنٹ میں چپکے سے جا گھستا لیکن ’یخت‘ کیبوز میں ایسے بھی تھے جو اسے یوں ایریلا کے اپارٹمنٹ میں گھستے دیکھ رہے ہوتے۔ وہ یہ بات خود تک محدود نہ رکھ سکے۔ وہ چہ مگوئیاں کرتے: ”کیا عجیب جوڑی ہے، وہ ایک لفظ بھی نہیں بولتا اور ایریلا ہے کہ وہ ہر وقت چپڑ چپڑ کرتی رہتی ہے۔ رونی سندلِن جو ہر کسی کا مذاق اڑاتا تھا، کہتا: ”شہد ریچھ کو کھا رہا ہے۔‘‘ لیکن کسی نے اوسنات کو نہ بتایا البتہ اس کے دوست اور سہیلیاں اس سے اپنی الفت کا اظہار کرتے رہتے اور طریقے طریقے سے اسے جتلاتے رہتے کہ وہ اکیلی نہیں ہے اور اگر اسے کسی شے کی طلب ہے تو وہ اس کے لیے حاضر ہیں۔ وہ اسی طرح کی باتیں کرتے، اسے بہلاتے رہتے۔

اور پھر بواز نے اپنے کپڑے اپنی بائیسکل کی ٹوکری میں رکھے اور ایریلا کے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا۔ وہ دوپہر کے بعد ورکشاپ کے کام سے فارغ ہو کر آتا، کام والے اپنے کپڑے اتارتا اور غسل خانے میں نہانے چلا جاتا۔ وہ دروازے کی اوٹ سے چِلاتا:

”ہاں تو ایریلا، کوئی نئی تازی؟ آج کچھ نیا ہوا؟“، ایریلا حیرانی سے جواب دیتی:

”نیا کیا ہونا تھا؟ کچھ بھی نہیں ہوا۔ آرام سے نہاؤ اور پھر ہم کافی پئیں گے۔‘‘

کچھ دنوں بعد ایریلا کو اپنے لیٹر بکس، جو ڈائننگ ہال کے داخلی دروازے کے پاس ہی دھری میل بکسوں والی الماری کے بائیں طرف آخری رو میں تھا، میں ایک تہہ شدہ رقعہ ملا۔ یہ اوسنات کی گولائیوں والی لکھائی میں لکھا ہوا تھا جسے اس نے عجلت میں نہیں بڑے آرام سے لکھا تھا:

”بواز ہمیشہ اپنی بلڈ پریشر کی گولیاں کھانا بھول جاتا ہے۔ اسے یہ صبح اور رات میں سونے سے پہلے لینی ہوتی ہیں اور صبح اسے اپنی کیلسٹرول والی آدھی گولی بھی کھانی ہوتی ہے۔ اسے اپنے سلاد پر کالی مرچ نہیں چھڑکنی چاہیے اور نہ ہی زیادہ نمک ڈالنا چاہیے۔ اسے کم چکنائی والا پنیر کھانے کی ضرورت ہے اور سٹیک * تو بالکل ہی منع ہے۔ اسے مچھلی اور مرغی کھانے کی اجازت ہے لیکن ان میں بھی تیز مصالحے نہیں ہونے چاہئیں۔ اسے زیادہ میٹھا بھی نہیں کھانا چاہیے۔۔ اوسنات

پی۔ ایس: اسے دودھ کے بغیر کافی بھی کم سے کم پینے کی ضرورت ہے۔‘‘

ایریلا نے اوسنات کو تیکھی، ٹیڑھی اور گھبراہٹ بھری لکھائی میں جواب لکھا اور اس کے لیٹر بکس میں ڈال دیا۔

”شکریہ۔ تم نے مجھے یہ سب لکھ کر شائستگی کا ثبوت دیا ہے۔ بواز کو سینے میں جلن بھی ہوتی ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ اسے کچھ نہیں ہے۔ میں وہ سب کرنے کی کوشش کروں گی جو تم نے مجھے کہا ہے لیکن اسے اپنی صحت کی بالکل پرواہ نہیں۔ وہ اور بھی کئی چیزوں کے بارے میں لا پرواہ ہے۔ تم تو جانتی ہی ہو۔

۔۔ ایریلا براش۔‘‘

اوسنات نے لکھا:

”اگر تم اسے تلی ہوئی، کھٹی یا تیز مصالحوں والی چیزیں کھانے نہ دو تو اس کے سینے میں جلن نہیں ہو گی۔‘‘

ایریلا براش نے کئی دنوں بعد اسے جواب دیا:

”میں اکثر خود سے سوال کرتی ہوں کہ ہم نے کیا کیا؟ وہ اپنے احساسات اور جذبات کو دبائے رکھتا ہے جبکہ میرے بدلتے رہتے ہیں۔ وہ میرے کتے کو تو برداشت کرتا ہے لیکن بلی اسے بری لگتی ہے۔ وہ جب دوپہر میں ورکشاپ سے گھر لوٹتا ہے، تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ آج کیا ہوا؟ پھر وہ نہاتا ہے، دودھ کے بغیر کافی پیتا ہے اور میری ہتھیوں والی کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ میں جب اسے کافی کی بجائے چائے دینے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ غصہ ہو جاتا ہے اور زور سے چِلاتا ہے کہ میری ماں بننے کی کوشش مت کرو۔ وہ پھر کرسی پر ہی اونگھنے لگتا ہے اور اخبار نیچے فرش پر گر جاتا ہے۔ اسے شام سات بجے جاگ آتی ہے اور ریڈیو سے نشر ہونے والی خبریں سننے لگتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کتے کو پیار کرتا ہے اور اس کے منہ سے محبت بھرے کچھ الفاظ بھی نکلتے ہیں لیکن سنائی نہیں دیتے لیکن اگر بلی پیار کی چاہت میں اس کی گود میں چڑھنے کی کوشش کرے تو وہ اسے ایسی نفرت سے دھتکارتا ہے کہ میرا دل مسوس کر رہ جاتا ہے اور بلی تو کیا میں بھی ڈر سے دبک جاتی ہوں۔ میں جب اس سے ایک پھنسے ہوئے دراز کو رواں کرنے کے لیے کہتی ہوں تو وہ نہ صرف اسے ٹھیک کر دیتا ہے بلکہ کپڑوں کی دونوں الماریوں کے دروازے بھی اکھاڑ کر پھر سے صرف اس لیے جوڑنے لگتا ہے کہ وہ چِرچراتے ہیں۔ وہ پھر ہنستے ہوئے کہتا ہے، ”اگر تم کہو تو میں فرش یا چھت کو بھی ٹھیک کر دیتا ہوں۔‘‘ تب میں خود سے پوچھتی ہوں کہ اس میں ایسا کیا تھا جس نے میرا دل موہ لیا تھا اور وہ ابھی بھی مجھے کبھی کبھی اچھا لگنے لگتا ہے، لیکن مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ نہانے کے باوجود اس کے ناخن مشینی تیل سے کالے ہوتے ہیں۔ اس کے ہاتھ کھردرے ہیں اور ان پرجا بجا خراشیں ہیں۔ داڑھی مونڈھنے کے بعد بھی اس کی تھوڈی پربالوں کی جڑیں رہ جاتی ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ وہ ہر وقت اونگھ میں ہوتا ہے۔۔ وہ جب جاگ رہا ہوتا ہے تب بھی لگتا ہے کہ اس پر نیند طاری ہے۔۔ میرے اندر خواہش جاگتی ہے کہ میں اسے جھنجھوڑوں کہ وہ پوری طرح جاگ جائے لیکن ایسا کرنے سے بھی میں اسے کچھ دیر کے لیے ہی جگا پاتی ہوں، تمہیں پتہ ہی ہے کیسے اور ایسا ہمیشہ ہوتا بھی نہیں۔

اوسنات، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب میں تمہارے بارے میں نہ سوچوں اور خود سے نفرت نہ کروں۔ میں سوچتی ہوں کہ میں نے تمہارے ساتھ جو کیا، کیا اس کے لیے کہیں کوئی معافی ہے؟ بعض اوقات میں خود سے یہ کہتی ہوں کہ شاید اوسنات کو اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں، شاید اسے بواز سے پیار ہی نہیں تھا؟ یہ جاننا مشکل ہے۔ تم شاید یہ سوچو کہ میں نے تمہیں دکھ دینے کے لیے ہی یہ سب کیا اور بواز کو چُنا لیکن ایسا نہیں تھا، ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مرد اور عورت کا ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہونا، کھنچنا یا کشش رکھنا اچانک ہی عجیب بلکہ کچھ مضحکہ خیز لگنے لگتا ہے۔ کیا تمہیں بھی ایسا لگتا ہے؟ اگر تمہارے بچے ہوتے تو تم اور میں نے اس سے بھی کہیں زیادہ اذیت جھیلنی تھی۔۔ اور اس کا کیا بنتا؟ اس کو اصل میں کیسا محسوس ہوتا؟ کوئی بھی اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہے؟ تم بہت اچھی طرح جانتی ہو کہ اسے کیا کھانا اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔۔ لیکن تمہیں پتہ ہے کہ اس کے کیا جذبات ہیں، ہیں بھی کہ نہیں؟ وہ کیسے سوچتا ہے کہ یا سوچتا ہی نہیں؟ میں نے اس سے ایک بار پوچھا تھا کہ اسے کسی قسم کا پچھتاوا تو نہیں ہے تو وہ بولا: ”دیکھو، تمہیں پتہ ہے اور تم خود دیکھ سکتی ہو کہ میں یہاں تمہارے پاس ہوں اور اُس کے ساتھ نہیں۔‘‘

اوسنات، میں چاہتی ہوں کہ تم یہ جان لو کہ تقریباً ہر رات جب وہ سو جاتا ہے تو میں بستر میں لیٹی، اندھیرے بیڈ روم میں پردوں کی درزوں سے در آتی چاندنی کو تکتی رہتی ہوں اور خود سے سوال پوچھتی رہتی ہوں کہ اگر میں ’تم‘ ہوتی تو کیا ہونا تھا۔ میں تمہارے دھیمے پن اور خاموشی سے بہت متاثر ہوں اور خواہش رکھتی ہوں کہ میں اس کا کچھ حصہ ہی خود میں جذب کر سکوں۔ بعض اوقات میں بستر سے اٹھ جاتی ہوں، کپڑے پہنتی ہوں اور دروازے تک جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ میں بھری رات میں ہی تمہارے پاس جاؤں اور تمہیں تفصیل اور وضاحت سے سب کچھ بتاؤں لیکن میں تمہیں کیا وضاحت دے سکتی ہوں؟ میں منٹوں دیوڑھی میں کھڑی رہتی ہوں، تاروں بھرے آسمان کو تکتی ہوں اور ستاروں کے اس جھرمٹ کو ڈھونڈتی ہوں جو ہل کی شکل بناتے ہیں۔ میں پھر واپس جا کر کپڑے اتار دیتی ہوں اور بستر میں لیٹ کر جاگتی رہتی ہوں۔ وہ سکون سے خراٹے بھر رہا ہوتا ہے اور مجھے اچانک شدت سے یہ خواہش ہونے لگتی ہے کہ مجھے اپنے پورے وجود کے ساتھ اس وقت کہیں اور ہونا چاہیے۔ کہیں اور نہ سہی شاید تمہارے کمرے میں تمہارے ساتھ ہی لیکن تمہیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ میرے ساتھ ایسا، رات میں اس وقت ہی ہوتا ہے جب میں لیٹی جاگ رہی ہوتی ہوں اور سو نہیں پاتی۔ مجھے اس وقت یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ کیا ہو گیا تھا اور یہ کیوں ہوا، تب مجھے تم سے قربت کا شدید احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں تمہارے ساتھ لانڈری میں کام کرنا چاہوں گی جہاں صرف ہم دونوں ہی ہوں۔ میں تمہارے لکھے دونوں مختصر رقعے ہر جیب میں رکھتی ہوں، انہیں باہر نکالتی ہوں اور بار بار پڑھتی ہوں۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ تمہارے لکھے ہر لفظ کی میرے لیے اہمیت ہے اور ان الفاظ سے بھی میں بہت متاثر ہوں جو تم نے نہیں لکھے۔ کیبوز میں لوگ ہمارے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ وہ بواز پر حیران ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بس پاس سے گزری، جھُکی اور میں نے اسے تم سے توڑ کر الگ کر لیا۔۔ اور بواز ہے کہ اسے پرواہ ہی نہیں کہ وہ کام کے بعد کس اپارٹمنٹ میں جاتا ہے اور کس بستر میں سوتا ہے۔ رونی نے ایک دن دفتر کے قریب مجھے آنکھ ماری، دانت نکالے اور بولا: ”ہاں تو مونا لیزا کیا نلکے سے پانی اب تک بہہ رہا ہے۔۔ ہیں؟“ میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور شرمساری سے گردن جھکا کر وہاں سے چل دی۔ بعد میں گھر پہنچ کر میں خوب روئی۔ بعض اوقات میں رات میں اس کے سونے کے بعد روتی ہوں، اس کی وجہ سے نہیں یا تم کہہ سکتی ہو کہ صرف اس کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اپنی وجہ سے اور تمہاری وجہ سے بھی۔ کبھی کبھی میں اس سے پوچھتی ہوں : ”بواز تم کیا ہو؟“ وہ جواب دیتا ہے: ”کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں خالی پن کی طرف کھچی تھی۔۔ جیسے وہ اندر سے خالی ہے۔۔ جیسے وہ سیدھا تنہائی کے صحرا سے آیا ہو لیکن میں یہ سب تمہیں کیوں بتا رہی ہوں؟ آخر یہ سب سن کر تمہیں تکلیف تو ہوتی ہو گی اور میں تمہاری تکلیف میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے برعکس میں تمہاری تنہائی میں شریک ہونا چاہتی ہوں ویسے ہی جیسے میں نے تنہائی کے ایک خاص لمحے میں اسے چھونا چاہا تھا۔

اس وقت ایک بجنے والا ہے، وہ ٹانگیں پیٹ سے لگائے سو رہا ہے جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں۔ کتا اس کے قدموں میں سو رہا ہے اور بلی میرے پاس میز پر لیٹی ہے۔ اس کی پیلی آنکھیں میرے ہاتھ کی حرکت کو دیکھ رہی ہیں۔ میرا ہاتھ جو خمیدہ لیمپ کی روشنی میں لکھے جا رہا ہے۔ میں جانتی ہوں یہ سب لکھنا بیکار ہے، مجھے لکھنا بند کرنا ہو گا، تم شاید اس رقعے کو پڑھو گی بھی نہیں جو چار صفحوں پر پھیل چکا ہے۔ تم شاید اسے پھاڑ کر پھینک دو گی۔ شاید تم یہ سوچو کہ میرا دماغ چل گیا ہے اور ایسا ہے بھی، میں سچ میں پاگل ہو چکی ہوں۔ ہمیں ملنا چاہیے اور گفتگو کرنی چاہیے؟ بواز کی خوراک کے بارے میں یا اس کی دوائیوں کے بارے میں نہیں (میں کوشش کرتی ہوں کہ اسے بھولنے نہ دوں۔ سچی میں کوشش کرتی ہوں لیکن ہر بار کامیاب نہیں ہوتی۔ تم اس کے اڑیل پن کو جانتی ہو، اس میں حقارت کا عنصر لگتا توہے لیکن اس میں اس کی بے پرواہی کا دخل زیادہ ہے۔) ہم بالکل ہی مختلف چیزوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں جیسا کہ سال کے موسموں کے بارے میں یا پھر گرمیوں کی تاروں بھری رات کے بارے میں۔ مجھے ستاروں اور ان کے جھرمٹوں کو دیکھنے کا شوق ہے۔ شاید تمہیں بھی ہو؟

اوسنات! میں منتظر ہوں کہ تم مجھے رقعہ لکھ کر بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے۔ دو لفظ ہی کافی ہوں گے۔ میں انتظار کروں گی۔‘‘

یہ خط جو اس کے لیٹر بکس میں پڑا اس کا منتظر تھا، اوسنات نے اس کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اسے دو بار پڑھا، تہہ کیا اور دراز میں رکھ دیا۔ اب وہ ساکت کھڑی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ہے۔ باڑ کے پاس تین بلونگڑے ہیں : ایک اپنے پنجے چاٹنے میں مصروف ہے، دوسرا جھکا بیٹھا ہے یا شاید اونگھ رہا ہے لیکن اس کے کان یوں کھڑے ہیں جیسے کسی مہین آواز کو سننا چاہ رہا ہو؛ تیسرا اپنی دُم کے تعاقب میں گھومے جا رہا ہے، وہ گرتا ہے لڑھکتا ہے اور نرمی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے۔ وہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے پردے ہل رہے ہیں، ان میں اتنی خنکی ہے کہ یہ چائے کی پیالی کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔ اوسنات کھڑکی سے ہٹ کر صوفے پر تن کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے ہاتھ گھٹنوں پر دھرے ہیں اور آنکھیں بند ہیں۔ جلد ہی شام ہو جائے گی اور وہ ریڈیو پر ہلکی پھلکی موسیقی سنتے ہوئے کتاب پڑھے گی۔ پھر وہ کپڑے اتارے گی، انہیں قرینے سے تہہ کر کے رکھے گی، اگلے دن کام پر پہننے والے کپڑوں کو پھیلائے گی، نہائے گی اور بستر میں لیٹ کر سو جائے گی۔

اس کی راتیں اب بے خواب ہوتی ہیں اور وہ صبح سویرے الارم کلاک کی گھنٹی بجنے سے پہلے ہی اٹھ جاتی ہے۔ اسے کبوتر جگاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

نوٹس:

کیبوز = اشتراکی کمیون

(بینر میں فریدا کاہلو کی پینٹنگ برتی گئی ہے۔)

( عبرانی افسانوں کی اپنی زیر طبع کتاب سے)

٭٭٭

بیکری پر دھاوا

ہاروکی مورا کامی

ہمارے پیٹ ہر لحاظ سے خالی تھے۔ نہیں، اصل میں ہم بھوک سے مر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہم نے خلاء کے ’خالی پن‘ نگل لیا ہو۔ شروع میں تو یہ بہت چھوٹا تھا، ایک ننھا ’خالی پن‘ جیسے ’ڈونٹ‘ کا سوراخ ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے دن گزرتا گیا، اس کا احساس ہمارے جسموں میں اس حد تک بڑھ کر اس نکتے پر پہنچ گیا جہاں سے بے پیندا ’عدم وجودیت‘ شروع ہوتی ہے۔ ہمارے معدوں کی گڑگڑاہٹ بھوک کے مقبرے سے ایک مقدس ’بی جی ایم‘ کا کام سر انجام دے رہی تھی۔

بھوک کیسے جنم لیتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہو گی جب ہم میں خوراک کی کمی ہو گی۔ ہمارے پاس خوراک کی کمی کیوں ہوئی؟ کیونکہ ہمارے پاس اس کے بدلے میں دینے کو ’زر‘ کی اکائیاں نہیں تھیں۔ ایسا کیوں ہوا کہ ہمارے پاس بدلے میں دینے کے لئے ’اکائیاں‘ نہ تھیں؟ شاید اس لئے کہ ہم میں سوجھ بوجھ کی کمی تھی۔ نہیں، ہماری بھوک نے شاید ہماری سوجھ بوجھ کو براہ راست متاثر کیا تھا۔

حقیقت میں اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

خدا، مارکس اور جان لینن سب مر چکے ہیں۔ ہم ہر لحاظ سے، بھوکے ہیں اور اس کے کارن ہم ایک جرم کرنے لگے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھوک کی وجہ سے جرم ہم سے سرزد ہونے لگا ہے، بلکہ یہ ’جرم‘ ہی تھا جس نے ہمیں بھوکا دوڑنے پر مجبور کیا۔ میں یہ کچھ زیادہ بہتر طور سمجھ نہیں پا رہا لیکن یہی ’وجودیت‘ تھی۔

”میں برا بندہ بن جاؤں گا‘‘، میرے دوست نے مختصراً کہا اور میں نے اس کی تائید کی۔

ہم نے دو دن سے پانی کے علاوہ اور کچھ نہ پیا تھا۔ میں نے ایک بار سورج مکھی کا ایک پتا کھایا تھا کہ دیکھوں یہ کیسا ہے لیکن تب سے مجھے اشتہا نہیں ہوئی کہ میں اسے دوبارہ کھانے کی کوشش کروں۔

یہی وجہ بنی کہ ہم باورچی خانے کی چھریاں لئے ’بیکری‘ کی طرف گئے۔ بیکری ’خریداری مرکز‘ کے وسط میں گدوں کے ایک سٹور اور سٹیشنری کی ایک دکان کے درمیان تھی۔ بیکری کا مالک پچاس سے اوپر کا ایک بوڑھا تھا، وہ گنجا اور کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی تھا۔

’خریداری مرکز‘ کے ماحول میں، چھریوں کو گرفت میں لئے، ہم آہستہ آہستہ بیکری کی طرف بڑھے۔ میرے احساسات فلم ’ہائی نون‘ جیسے تھے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے تنور میں پکتی روٹی کی خوشبو بھی تیز ہوتی گئی اور اس کے تیز ہونے سے مجرمانہ واردات کی ہماری خواہش میں بھی شدت آتی گئی۔ ہم میں جوش بڑھتا گیا کیونکہ ایک تو ہم بیکری لوٹنے جا رہے تھے دوسرے ہمارے عمل کا نشانہ کمیونسٹ پارٹی کا ایک رکن بھی بن رہا تھا، ایسے میں میرے جذبات کچھ ’ہٹلر جو گینڈ‘ یعنی ’ہٹلر یوتھ‘ جیسے گہرے تھے۔

دوپہر، چونکہ، خاصی ہو چکی تھی اس لئے بیکری میں صرف ایک بندہ ہی موجود تھا، یہ ایک ناگوار بوڑھی عورت تھی جس نے ہاتھ میں ایک گندہ سا شاپنگ بیگ تھام رکھا تھا۔ اس عورت کے گرد ایک گندی باس بھی موجود تھی۔ جرائم پیشہ افراد کے منصوبوں کی راہ میں بھونڈی خواتین ہی رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں، جیسی کہ ایک وہاں موجود تھی۔ کم از کم کچھ ایسا ہی ’کرائم ڈراموں‘ میں دکھایا جاتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں کے اشارے سے اپنے ساتھی کو یہ پیغام دیا کہ جب تک یہ عورت یہاں سے چلی نہیں جاتی ہم کچھ نہیں کر پائیں گے، چنانچہ میں نے اپنی چھری کمر کی طرف کی اور ایسے ظاہر کرنے لگا جیسے میں وہاں روٹی خریدنے کے لئے موجود تھا۔ عورت نے اشیاء کا انتخاب کرنے میں خاصا وقت لگا دیا جیسے وہ اپنی ہوشیاری سے اپنی ’ٹرے‘ میں ’خربوزہ روٹی‘ اور ’بھنی روٹی‘ کی جگہ سہ رخی منعکس آڑھت سجانا چاہتی ہو۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ یہ سب خریدنا چاہتی تھی۔ شاید یہ خربوزے کے ذائقے اور بھنی ہوئی روٹیوں کے حوالے سے اس کے ’نظریے‘ کا ایک پہلو ہو یا پھر شاید اس کے بالکل الٹ، ایسے میں غالباً زیادہ وقت لگنے کی یہ وجہ ہو گی کہ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس وقت کی صورت حال کے مطابق تن آسانی کے ساتھ خود کو ڈھال سکے۔

اس کے ’نظریے‘ میں خربوزہ روٹی اپنی جگہ کھو رہی تھی۔ اس نے کچھ اس انداز سے اپنا سر ہلایا جیسے کہہ رہی ہو، ’’میں نے یہ کیوں پسند کی؟ یہ تو بہت میٹھی ہوتی ہے!‘‘

کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے خربوزہ روٹی کو شیلف میں واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا اور احتیاط سے دو ’ہلالی‘ شکل والی پھولی روٹیاں ٹرے میں رکھیں۔

اب ایک اور نظریہ سامنے آ گیا تھا۔ بادلوں کے درمیان سے بہار کے سورج کی روشنی ابل کر نکلی اور اس نے ’آئس برگ‘ کو پگھلانا شروع کر دیا۔

’’کیا مصیبت ہے‘‘، میرے ساتھی نے دھیمی آواز میں کہا، ’’اب جبکہ ہم یہاں آ ہی گئے ہیں تو چلو اس بوڑھی کُتیا کو قتل کر دیں۔‘‘

’’ارے، تحمل سے کام لو‘‘، میں نے اسے اس کی جگہ پر واپس دھکیلتے ہوئے کہا۔

بیکری کے مالک نے ہماری بات پر دھیان نہ دیا کیونکہ وہ ریڈیو کیسٹ پلیئر میں سے نکلتی ’ویگنر‘ کی ایک دھُن سننے میں مگن تھا۔ مجھے یہ بات کچھ زیادہ سمجھ نہ آئی کہ کیا کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن کی یہ حرکت درست تھی کہ وہ ویگنر کی دھُن سن رہا تھا۔

عورت مسلسل ’ہلالی‘ شکل والی پھولی روٹیوں اور بھنی روٹیوں کو گھورے جا رہی تھی۔ وہ متذبذب نظر آ رہی تھی۔

’’یہ غیر طبعی اور غیر فطری ہے! ’ہلالی‘ شکل والی پھولی روٹیوں اور بھنی روٹیوں کو ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ نہیں رکھا جا سکتا!‘‘

اس نے ضرور یہ محسوس کر لیا ہو گا کہ ان دونوں طرح کی روٹیوں کے پیچھے دو مختلف نظریے ہیں۔ عورت کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں رکھی روٹی کچھ اس طرح سے کھڑکھڑاہٹ پیدا کرتی ہلی جیسے ایک خراب ریفریجیڑ کا ’تھرمو سٹیٹ‘ آواز پیدا کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ روٹی حقیقت میں نہیں ہل رہی تھی، اس کی کھڑکھڑاہٹ اور کھڑ، کھڑ صرف تمثیلی ہے۔

’’میں اسے قتل کرنے لگا ہوں‘‘، میرے ساتھی نے کہا۔ شدید بھوک، ویگنر اور عورت کی وجہ سے پیدا ہوئی کوفت نے صورت حال کو، آڑو کے چھلکے جیسا، نازک کر دیا تھا۔ میں خاموش رہا اور صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔

بوڑھی عورت، ابھی بھی، ہاتھ میں ٹرے کو بلا مقصد تھامے ایسے کھڑی تھی جیسے وہ اس عذاب میں ہو جس میں دوستوفسکی تھا۔ لگتا تھا کہ ’بھنی روٹی‘ نے منبر پر کھڑے ہو کر روم کے باشندوں کے سامنے ایسی تقریر کی تھی جس نے ان کے دل موہ لئے تھے۔ اس کے الفاظ خوبصورت، شاندار اور بھڑکیلے تھے جنہیں بلند بانگ سریلی آواز میں یوں کہا گیا تھا کہ سب نے ایک ساتھ تالیاں بجائیں۔ اب ہلالی پھولی روٹی کی باری تھی۔ اس نے ٹریفک کے اشاروں کے بارے میں ایک بے ربط تقریر کی۔ اس نے کہا، کاریں جنہوں نے بائیں مڑنا ہے، بتی کے سبز ہونے پر پہلے سیدھا آگے جائیں اور جب انہیں یقین ہو جائے کہ وہاں کوئی اور کار نہیں تو پھر بائیں مڑیں۔ روم کے باسیوں کو اس کی تقریر کچھ زیادہ نہ سمجھ آئی لیکن چونکہ اس کی کتھا کچھ زیادہ ہی مشکل تھی اس لئے انہوں نے تالیاں بجائیں اور زیادہ دیر تک بجائیں۔ ہلالی پھولی روٹی کے لئے بجی زیادہ تالیاں وجہ بنی کہ بھنی روٹی کو واپس شیلف میں اپنی جگہ واپس رکھ دیا گیا۔ اب عورت کی ٹرے پر دو ہلالی پھولی روٹیاں پڑی تھیں جو ایک سادہ کاملیت کا مظہر تھیں۔

عورت مطمئن ہو کر دکان سے باہر نکل گئی۔

’’ہم شدید بھوکے ہیں‘‘، میں نے بے تکلفی سے، اپنی چھری کو پیچھے ہی چھپائے رکھتے ہوئے، مالک سے کہا، ’’اور یہ کہ ہمارے پاس آپ کو دینے کے لئے ایک پائی بھی نہیں ہے۔‘‘

’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘، مالک نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں کی نظر ایک ہی وقت میں کاؤنٹر پر پڑے ایک ناخن کاٹنے والی قینچی پر پڑی۔ یہ ایک بڑے سائز کا قینچا تھا جسے شاید گدھ کے پنجے کاٹنے کے استعمال کیا جاتا ہو گا یا شاید اسے اس لئے اتنا بڑا بنایا گیا تھا کہ لوگ اسے دیکھ کر محظوظ ہوں۔

’’اگر آپ بھوکے ہو تو تمہیں کچھ روٹی کھانی چاہیے‘‘، مالک نے کہا۔

’’لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘

’’میں نے یہ پہلے ہی سن لیا تھا‘‘، مالک نے اکتاہٹ کے ساتھ کہا، ’’تمہیں اس کے لئے ادائیگی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آگے بڑھو اور جو کچھ کھانا چاہتے ہو کھا لو۔‘‘

میں نے ایک بار پھر ناخن کاٹنے والی قینچے کی طرف دیکھا۔ ’’واقعی؟ ہم تو سڑک پر کچھ الٹی حرکت کرنے جا رہے تھے۔‘‘

’’ہاں، ہاں‘‘

’’ہمیں لوگوں سے اس اچھائی کی توقع نہیں اور ہم اس خیر خواہی کو قبول نہیں کر سکتے۔‘‘

’’ہاں، کچھ ایسا ہی ہے۔‘‘، میرا ساتھی بولا۔

’’اچھا‘‘، مالک نے پھر سے کہا، چلو ایسا کرتے ہیں۔ میں تمہیں اتنی روٹیاں کھانے دیتا ہوں جتنی تم کھا سکتے ہو پھر میں تم کو ایک بد دعا دوں گا۔ کیا یہ درست رہے گا؟‘‘

’’بددعا؟ اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘

’’بددعا بہت غیر متوقع اور غیر یقینی ہوتی ہے کب اثر کر جائے پتہ نہیں ہوتا۔ یہ بس کے شیڈول کی طرح نہیں ہوتی۔‘‘

’’ارے، ایک منٹ رکو! مجھے بددعا نہیں چاہیے!‘‘ میرے ساتھی نے مداخلت کی، ’’مجھے اس سے نفرت ہے! میں تمہیں ابھی قتل کر دوں گا!‘‘

’’ٹھہرو، ٹھہرو“، مالک نے کہا، ’’میں قتل نہیں ہونا چاہتا۔‘‘

’’ٹھیک ہے، لیکن میں بددعا لینا نہیں چاہتا‘‘، میرے ساتھی نے جواباً کہا۔

’’یہ بات اہم ہے کہ ہم کسی قسم کا تبادلہ کریں‘‘، میں نے کہا۔

ہم نے اور کچھ نہ کہا، صرف ناخن کاٹنے والی قینچے کو گھورتے رہے۔

’’اس بارے میں کیا خیال ہے‘‘، مالک نے کہنا شروع کیا، ’’کیا تمہیں ویگنر پسند ہے؟‘‘

’’نہیں‘‘، میں نے جواب دیا۔

’’مجھے بھی نہیں‘‘، میرے ساتھی نے کہا۔

’’اچھا تو، پہلے تم ویگنر کو پسند کرنا شروع کرو، پھر میں تمہیں کھانے کے لئے اتنی روٹیاں دوں گا جتنی تم کھا سکو۔‘‘

ہمیں، اس کے یہ الفاظ اِس تاریک براعظم پر ایک راہب کے منہ سے نکلی ایک کہانی کی طرح لگے لیکن ہم اس کی طرف فوری طور پر متوجہ ہوئے۔ بدعائے جانے سے تو یہ بہرحال بہتر تھا۔

’’مجھے پسند ہے‘‘، میں نے کہا۔

’’اور مجھے بھی“، میرا ساتھی بھی بولا۔

چنانچہ، ہم ویگنر کو سنتے اور اپنے پیٹ روٹیوں سے بھرتے رہے۔

بیکری کے مالک نے ریکارڈ کی ’جیکٹ‘ نکالی اور اس پر لکھے الفاظ پڑھنے لگا’۔

’’ٹریسٹن اور ازول‘‘ موسیقی کی تاریخ میں ایک شاندار اور نمایاں دھُن ہے۔ یہ 1859ء میں عوام کے سامنے پیش ہوئی تھی۔ ویگنر کے بعد کے کام کو سمجھنے کے لئے اس دھُن کو سننا لازم ہے۔‘‘

میرا ساتھی اور میں اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر تھے کیونکہ ہمارے منہ روٹی سے ٹھسے ہوئے تھے اور ان سے چبائے جانے کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہ نکل رہا تھا۔

’’کارنے وال کے بادشاہ کے بیٹے کو اپنے چچا کی منگیتر، شہزادی ازول، سے ملنے کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن جب جہاز سفر ختم کر کے واپس لوٹا تو وہ ازول کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ موسیقی کی اس دھُن کا آغاز ’چیلو اور اوبئی‘ سازوں کا امتزاج اس جوڑے کی محبت کے خدو خال وضع کرتا ہے۔‘‘

دو گھنٹے تک ہم اسے سنتے اور کھاتے رہے اور پھر ہم بیکری کے مالک سے رخصت ہوئے۔ چلتے چلتے ہم نے سنا’۔

’’کل میں ’تنہوسار‘ کو سنوں گا۔‘‘، مالک نے کہا تھا۔

ہم، جب، اپنے کمرے میں واپس آئے تو ہمارے اندر کا خالی پن، اپنا نشان چھوڑے بنا، غائب ہو چکا تھا اور ہماری سوجھ بوجھ کی توانائی ایسے متحرک ہو چکی تھی جیسے ایک ہموار ڈھلوان پر نیچے پھسل رہی ہو۔

٭٭٭

دشمن کی آنکھیں

ایتالو کیلوینو (Occhi nemici) کا اطالوی افسانہ

پئیترو اس صبح چہل قدمی کر رہا تھا، تبھی اسے احساس ہوا کہ کچھ ایسا ہے جو اسے پریشان کر رہا ہے۔ وہ ایسا کچھ دیر سے محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اس سے آگاہ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جیسے کوئی اس کے پیچھے ہو، کوئی ایسا جو نظر نہ آتے ہوئے اس پر نظر رکھ رہا ہو۔

اس نے اچانک سر موڑ کر دیکھا۔ وہ ایک الگ تھلگ سڑک پر تھا، جہاں مرکزی دروازوں کے ساتھ باڑیں اور لکڑی کی بنی چار دیواریاں تھیں اور ان پر پھٹے ہوئے اشتہار لگے تھے۔ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پئیترو فوراً جھنجھلا گیا کہ اس نے ایسا خیال آتے ہی مڑ کر کیوں دیکھا تھا۔ وہ چلتا رہا اور اپنی سوچ کے سلسلے کی ٹوٹی ڈور پھر پکڑنا چاہی۔

یہ خزاں کی ایک صبح تھی اور سورج کی روشنی بھی کچھ کم کم ہی تھی۔ یہ ایسا دن ہرگز نہیں تھا کہ بندہ خوشی سے جھوم اٹھے لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ غمزدہ ہو۔ پھر بھی اسے خود پر بے چینی کا بوجھ محسوس ہوا۔ کچھ تھا، کچھ آنکھوں جیسا جو کندھوں کے اوپر، اس کی گردن کی پشت پر مرکوز ہوتا محسوس ہوا اور یہ اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دے رہا تھا۔ اِس کی موجودگی عناد بھری بھی تھی۔

اسے لگا کہ اسے لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے تاکہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پا سکے۔ وہ ایک مصروف سڑک کی طرف بڑھا لیکن نکڑ پر، اس نے پھر مڑ کر دیکھا۔ ایک سائیکل سوار وہاں سے گزر رہا تھا اور ایک عورت سڑک پار کر رہی تھی۔ وہ ان لوگوں اور چیزوں کے درمیان کوئی تعلق نہ جوڑ سکا اور گھبراہٹ اسے پھر سے کھانے لگی۔ اس نے جب مڑ کر دیکھا تھا تو اسی وقت ایک بندے نے بھی گردن موڑ کر اسے بھی دیکھا تھا۔ دونوں نے فوراً ہی اور ایک ساتھ ایک دوسرے سے نظریں چُرا لیں، جیسے وہ کسی اور کو دیکھنا چاہ رہے ہوں۔ پئیترو نے سوچا: ’شاید اس بندے نے یہ محسوس کیا ہو کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ شاید یہ صرف میں ہی نہیں ہوں، جسے آج کی صبح، حساسیت کی ایسی پریشان کن تیزی محسوس ہو رہی ہو۔ شاید یہ اس دن کے موسم کا اثر ہو جو ہمیں نروس کر رہا ہے۔‘

وہ اب ایک بھرے بازار میں تھا اور اسی سوچ کے ساتھ اس نے لوگوں کو دیکھنا شروع کر دیا اور یہ نوٹس کیا کہ وہ بلا ارادہ عجیب حرکات کر رہے تھے۔ وہ بیزارگی کے عالم میں اپنے ہاتھ چہرے تک لے جا رہے تھے۔ ان کی بھنویں یکلخت چڑھ جاتیں جیسے انہیں کسی پریشانی نے گھیر لیا ہو یا کوئی ناخوشگوار یاد تازہ ہو گئی ہو۔ ’کیا ہی گھٹیا اور دکھی کرنے والا دن ہے۔‘ ، پئیترو بار بار خود سے کہہ رہا تھا، ’کیا ہی بیکار اور بدقسمت دن ہے۔‘

ٹرام کے سٹاپ پر اپنا پاؤں زمین پر بجاتے ہوئے اس نے یہ بھی جانا کہ وہاں موجود دوسرے لوگ بھی اپنے پاؤں بجاتے ہوئے ٹرام کے روٹوں کے نوٹس بورڈ کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ کچھ ایسا پڑھنے کی کوشش میں ہوں جو وہاں لکھا ہوا ہی نہیں تھا۔

ٹرام میں کنڈیکٹر نے چھُٹا دیتے وقت غلطی کی اور غصہ کھا گیا۔ ڈرائیور نے پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں پر جھلا کر تکلیف دہ انداز میں لگاتار ہارن بجایا، جس پر مسافروں نے ہتھیوں پر اپنی انگلیاں یوں کس دیں جیسے وہ کسی ڈوبتے بحری جہاز میں سفر کر رہے ہوں۔

پئیترو نے ٹرام میں بیٹھے اپنے دوست کوریڈو کے بھاری بھرکم وجود کو پہچان لیا۔ اس نے ابھی تک پئیترو کو نہیں دیکھا تھا اور اپنی ایک گال میں ناخن گاڑے، کھڑکی سے باہر بدحواسی سے دیکھ رہا تھا۔

”کوریڈو!“، اس نے داہنی طرف سے اس کے سر پر سے اسے پکارا۔

اس کا دوست بولا، ”اوہ تو یہ تم ہو، میں نے تمہیں دیکھا نہیں۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھا۔‘‘

”تم پریشان لگتے ہو۔‘‘، پئیترو نے کہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنی حالت دوسروں میں دیکھ رہا تھا۔ وہ بولا، ”میں بھی آج خاصا پریشان ہوں۔‘‘

”کون نہیں ہے؟“، کوریڈو نے کہا۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی اور اس پر ایسی قناعت جھلک رہی تھی کہ ہر ایک نے اس کی بات سنی اور اس پر اعتبار کیا۔

”تمہیں پتہ ہے، کوریڈو، میں کیسا محسوس کر رہا ہوں؟“، پئیترو نے کہا۔ ”مجھے لگتا ہے جیسے کہیں آنکھیں ہیں جو مجھے گھور رہی ہیں۔‘‘

”آنکھیں؟ کیا مطلب ہے تمہارا۔۔‘‘

”کسی ایسے کی آنکھیں، جس سے میں پہلے مل چکا ہوں، لیکن وہ مجھے یاد نہیں۔ سرد آنکھیں، معاندانہ سی۔۔‘‘

’’ایسی آنکھیں، جن کو آپ دیکھنا بھی نہ چاہتے ہوں، لیکن ایسی، جنہیں آپ کو ہر حال میں سنجیدگی سے لینا پڑتا ہے۔‘‘

”ہاں۔ ۔ ۔ سچی۔۔ آنکھیں جیسے۔۔‘‘

”جیسے جرمنوں کی؟“، کوریڈو نے پوچھا۔

”ہاں، ہاں، بالکل ویسی ہی جیسی جرمنوں کی آنکھیں۔‘‘

”اچھا، خیر یہ بات سمجھ آتی ہے۔‘‘، کوریڈو نے کہا اور اس نے اپنا اخبار کھولا۔ ’’اس طرح کی خبر کے ساتھ۔۔‘ ، اس نے ایک سرخی کی طرف اشارہ کیا: کیسلرنگ* کو معافی دے دی گئی۔۔ ایس ایس کے جلوس۔۔ امریکی نیو۔ نازی’ز کی مالی مدد کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ’’اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ہم ان کی واپسی کو محسوس کر رہے ہوں۔ ۔ ۔‘‘

’’اوہ، ایسا ہے۔۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہی کارن ہے۔۔ لیکن ہم یہ ابھی ہی کیوں محسوس کر رہے ہیں؟ کیسلرنگ اور ایس ایس تو یہاں عرصے سے ہیں، سال سے بلکہ دو سال سے۔ شاید وہ تب جیل میں ہی ہوں لیکن ہمیں اچھی طرح پتہ تھا کہ وہ وہاں ہیں، ہم انہیں نہیں بھولے تھے۔۔‘‘

’’آنکھیں۔‘‘، کوریڈو بولا، ’’تم نے کہا کہ تمہیں محسوس ہوا کہ یہ آنکھیں تمہیں گھور رہی ہیں۔ یہ اب تک گھور نہیں رہی تھیں کیونکہ انہوں نے نگاہیں نیچی کر رکھی تھیں اور ہم ان کے عادی نہیں رہے تھے۔۔ وہ ہمارے ماضی کے دشمن تھے، ہم ان سے اُن کے کیے کی وجہ سے نفرت کرتے تھے، زمانہ حال میں نہیں۔ ۔ ۔ لیکن اب انہیں اپنی پرانی گھُوری واپس مل گئی ہے۔۔ ویسی ہی جیسی وہ آٹھ سال پہلے ہم پر ڈالا کرتے تھے۔۔ یہ ہمیں یاد ہے اور ہم نے ایک بار پھر ان کی آنکھوں کو خود پر محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔

پئیترو کا بھائی ایک جبری کیمپ میں مرا تھا۔ پئیترو اپنی ماں کے ساتھ، پرانے خاندانی گھر میں رہتا تھا۔ شام ڈھلے وہ واپس آیا۔ دروازہ اسی طرح چرچرایا، جیسا کہ ہمیشہ چرچراتا تھا اور اس کے جوتوں تلے بجری اسی طرح کُٹی جس طرح ان دنوں میں کُٹتی تھی، جب ہمارے کان قدموں کی آ واز پر لگے ہوتے تھے۔

اس شام، جب جرمن آیا تھا تو وہ کہاں گھوم رہا تھا؟ شاید وہ پُل پار کر رہا تھا، شاید نہر کنارے چل رہا تھا، یا پھر شاید نیچی چھتوں والے گھروں کی قطار کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔ ان کی بتیاں جل رہی تھیں۔ یہ جرمنی کا ایک شہر تھا جو کوڑا کرکٹ اور کوئلے سے بھرا تھا۔ اس نے عام سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، تبھی سبز ٹوپی، گلے تک بند بٹنوں والے کالے کوٹ اور چشمہ پہنے وہ شخص اسے گھورے جا رہا تھا۔۔ پئیترو کو گھورے جا رہا تھا۔

اس نے دروازہ کھولا۔ ”یہ تم ہو!“، اسے ماں کی آواز سنائی دی۔ ’’آخر تم آ ہی گئے۔‘‘

’’آپ کو پتہ تو تھا کہ میں نے اس وقت سے پہلے نہیں لوٹنا تھا۔‘‘، پئیترو نے کہا۔

”تم بھی نا، لیکن مجھ سے انتظار کی پیڑھا سہی نہیں جا رہی تھی۔‘‘، وہ بولی، ”سارا دن میرا کلیجہ منہ کو آتا رہا۔۔ مجھے پتہ نہیں، کیوں۔ ۔ ۔ یہ خبر۔۔ کیا یہ جرنیل پھر سے قابض ہونے لگے ہیں۔ ۔ ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے راستی پر تھے۔۔‘‘

’’آپ بھی!‘‘، پئیترو بولا۔ ”پتہ ہے کوریڈو کیا کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہمیں، ہم سب کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ان جرمنوں کی نظریں ہم پر ہیں۔ ۔ ۔ اسی لیے ہم سب پریشان ہیں۔ ۔ ۔‘‘

وہ پھر یوں ہنسا جیسے یہ صرف کوریڈو ہی تھا جو ایسا سمجھتا تھا۔

اس کی ماں نے، لیکن اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ ”پئیترو، کیا جنگ ہونے والی ہے؟ کیا وہ واپس آ رہے ہیں؟“

’کل تک تو۔‘ ، پئیترو نے سوچا، ’یہاں جب بھی کوئی ایک اور جنگ کے خطرے کی بات کرتا تھا تو بندوں کو کوئی مخصوص بات نہ سُوجتی کیونکہ پرانی جنگ میں تو ان کے چہرے صاف نظر آتے تھے لیکن نئی جنگ کیسی ہو گی یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اب البتہ ہمیں پتہ چل گیا ہے جنگ کا چہرہ پرانا ہی ہے اور یہ انہی کا ہے۔‘

کھانے کے بعد پئیترو باہر گیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔

”پئیترو؟“، اس کی ماں نے پوچھا۔

”کیا ہے؟“

”تم اس موسم میں باہر جا رہے ہو۔۔‘‘

”تو کیا ہوا؟“

”کچھ نہیں۔ ۔ ۔ لیکن جلدی لوٹنا۔۔‘‘

”ماں، اب میں بچہ نہیں رہا۔۔‘‘

”ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔۔ اچھا الوداع۔۔‘‘

اس کی ماں نے اس کے جانے کے بعد دروازہ بند کیا اور کھڑی، بَجری پر اس کے قدموں اور گیٹ بند ہونے کی آواز سنتی رہی۔ وہ کھڑی بارش کی ٹپ ٹپ کو بھی سنتی رہی۔ جرمنی بہت دور ایلپس کے پہاڑوں کے پیچھے تھا۔ شاید وہاں بھی بارش ہو رہی ہو۔ کیسلرنگ: ایس ایس جو اس کے بیٹے کو اٹھا لے گیا تھا، اپنی کار میں بیٹھا کیچڑ بکھیرتا چلا گیا۔ اس نے چمکیلی برساتی پہن رکھی تھی، اپنی فوجیوں والی پرانی برساتی۔ ’بہرحال اس رات فکر کرنا بیوقوفی کی بات ہے، اسی طرح اگلی رات بھی اور شاید اگلا پورا سال بھی۔‘ اسے لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کب تک فکر سے آزاد رہ سکتی تھی کیونکہ جنگ میں بھی ایسی راتیں ہوتی ہیں جب پریشانی لاحق نہیں ہوتی لیکن لوگ تیار رہتے کہ اگلی رات پریشانی لا سکتی ہے۔

وہ اکیلی تھی۔ باہر بارش کا شور تھا۔ بارش میں بھیگے یورپ میں پرانے دشمنوں کی آنکھیں رات کو چھیدتی، اس کے اندر گھس رہی تھیں۔

’میں ان کی آنکھیں دیکھ سکتی ہوں۔‘ ، اس نے سوچا، ’لیکن اب انہیں ہماری بھی دیکھنا ہوں گی۔‘ اور وہ ثابت قدمی سے کھڑی اندھیرے میں گھورتی رہی۔

۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔

*۔ کیسلرنگ = Albert Kesselring (1885ء۔ 1960ء)، نازی جرمنی کا اہم جرنیل۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دیگر کے ہمراہ ’وار کرائم‘(War Crime) کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور اسے آرڈیتین قتلام (Ardeatine massacre) میں 335 اطالوی شہری ہلاک کرنے کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی۔ یہ سزا بعد ازاں عمر قید میں بدل دی گئی تھی۔ اس کی حمایت میں، اس کی صحت کے حوالے سے ایک سیاسی و میڈیا مہم چلائی گئی تھی جس کے نتیجے میں اسے اکتوبر 1952ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس پر اٹلی میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ کیسلرنگ نے اسی برس سابقہ نازی فوجیوں کی تین تنظیموں کی اعزازی صدارت بھی قبول کی تھی اور وہ مرتے دم تک نازی سرگرمیوں میں جرمنی اور بیرون جرمنی سرگرم رہا۔

یہ افسانہ پہلی بار ’’Prima che tu dica ‘Pront‘‘ نامی مجموعے میں 1993ء میں ایتالو کیلوینو کی موت کے بعد شائع ہوا جس کا پیش لفظ اس کی بیوہ ایشتھر نے لکھا۔ ایتالو کیلوینو (Italo Calvino) نے، لیکن، اِسے 1943ء تا 1958 کے درمیانی عرصے میں کسی وقت، غالباً 1952 میں، اکتوبر میں ’کیسلرنگ‘ کی رہائی کے بعد لکھا ہو گا کیونکہ یہ اِس کتاب میں اُن 21 حکایات و کہانیوں میں 13ویں نمبر پر ‘ Occhi nemici’ کے نام سے شامل ہے جو اِس عنوان تلے موجود ہیں۔ کتاب میں موجود بقیہ تحاریر ’’کہانیاں اور مکالمے 1968 – 1984‘‘ کے عنوان تلے ہیں۔ انگریزی میں اس مجموعے کا ترجمہ 1996ء میں ”Numbers in the Dark and Other Stories‘‘ کے نام سے سامنے آیا۔ اسے برطانوی ادیب اور ترجمہ نگار Tim Parks نے انگریزی قالب میں ڈھالا تھا۔

اس افسانچے کے ترجمے کے لیے اصل اطالوی ٹیکسٹ سے مدد لی گئی ہے

٭٭٭

ہیریسن برگیرون

(Harrison Bergeron) ۔۔۔ کرٹ وونی گٹ

یہ سن 2081ء تھا اور ہر بندہ بالآخر دوسرے کے برابر ہو گیا تھا۔ وہ خدا کے سامنے برابر تھے، قانون کے سامنے بھی بلکہ ایسا بھی کہ ہر زاویے سے ان میں مساوات نظر آنے لگی تھی۔ کوئی دوسرے سے زیادہ چالاک نہ رہا تھا۔ کوئی دوسرے سے زیادہ حسین نہیں رہا تھا۔ کوئی دوسرے سے زیادہ طاقتور یا چست نہ رہا تھا۔ یہ ساری مساوات آئین کی شق نمبر 211، 212 اور 213 ویں ترمیموں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ’ہینڈیکیپر‘ حاکم کے ایجنٹوں کی کڑی نگرانی کے باعث ممکن ہوئی تھی۔

البتہ زندگی کے بارے میں کچھ چیزیں ابھی بھی درست نہیں تھیں۔ جیسے اپریل کا مہینہ لوگوں کو ابھی بھی اس بات پر پاگل کر دیتا تھا کہ وہ بہار لانے والا مہینہ نہیں رہا تھا۔ اسی سرد اور چپچپے مہینے میں ’ایچ۔ جی‘ (H ۔ G) کے آدمیوں نے جارج اور ہیزل برگیرون کے چودہ سالہ بیٹے کو اٹھا لیا تھا۔

یہ المیہ تھا، ٹھیک، لیکن جارج اور ہیزل نے اس بات کو خود پر طاری نہیں کیا۔ ہیزل مکمل طور پر ایک درمیانی ذہانت رکھنے والی خاتون تھی جس کا دماغ چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگے سوچ ہی نہیں پاتا تھا جب کہ جارج جو ذہانت میں ’نارمل‘ سے کہیں اوپر تھا، لیکن اس کے کان میں وہ ننھا سا، دماغ کو مفلوج کرنے والا ریڈیو لگا تھا جو قانوناً اسے ہر وقت لگائے رکھنا پڑتا تھا۔ یہ سرکار کے ٹرانسمیٹر سے منسلک تھا جو ہر بیس سیکنڈ کے لگ بھگ جارج جیسے لوگوں کو اپنے دماغوں کا ناجائز استعمال کرنے سے روکنے کے لئے ایک تیز شور والی آواز بھیجتا تھا۔

ہیزل اور جارج ٹیلیویژن دیکھ رہے تھے۔ ہیزل کی گالوں پر آنسوؤں کے قطرے تھے لیکن وہ بھول چکی تھی کہ وہ روئی کیوں تھی۔

ٹیلیویژن کی سکرین پر رقاصائیں ناچ رہی تھیں۔

جارج کے سر میں آواز بھنبھنائی اور اس کے خیالات اس طرح منتشر ہو گئے جس طرح چور، ’سنیدمار گھنٹے‘ (Burglar Alarm) کی آواز سے تتر بتر ہو جاتے ہیں۔

’’یہ سچ میں ایک اچھا رقص تھا، وہ جو انہوں نے ابھی کیا۔‘‘، ہیزل بولی۔

’’ہُو‘‘، جارج کے منہ سے یہی نکل سکا۔

’’وہ رقص۔ بہت اچھا تھا۔‘‘، ہیزل نے پھر کہا۔

’’ہاں‘‘، جارج بولا، اس نے رقاصاؤں کے بارے میں ذرا غور کرنا چاہا۔ حقیقت میں وہ کچھ زیادہ اچھی بھی نہیں تھیں، اس طرح کا رقص تو کوئی بھی کر سکتی تھیں، خیر دفع کرو۔ وہ لباس کو سنبھالے رکھنے والے اوزان اور پرندوں کو مارنے والے کارتوسوں کے تھیلوں سے لدی ہوئی تھیں، ان کے چہرے مکھوٹوں میں اس لئے چھپائے ہوئے تھے کہ کہیں لوگ ان کے حسین چہروں کے آزادانہ اور پیارے تاثرات دیکھ نہ پائیں اور وہ ایسی بلیاں ہی نظر آئیں جنہیں اسی طرح ناچنے کے لئے سدھایا گیا ہو۔ جارج کے دماغ میں ابھی اس خیال نے سر اٹھایا ہی تھا کہ رقاصاؤں کو ذہنی طور پر مفلوج نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے کان میں لگے ریڈیو کے شور نے اس کی سوچوں کو بکھیر کر رکھ دیا۔ جارج کے چہرے پر کرب ابھرا۔ ایسا ہی کچھ ان آٹھ رقاصاؤں میں سے دو کے ساتھ ہوا تھا۔

ہیزل نے جارج کے چہرے پر کرب کو دیکھا۔ اسے چونکہ دماغی طور پر مفلوج نہیں کیا گیا تھا اس لئے اس نے پوچھا کہ یہ کیسی آواز تھی جس نے یہ کرب پیدا کیا تھا۔

’’کچھ ایسی، جیسے کوئی گول پیندے والے ہتھوڑے سے دودھ کی بوتل کو ایک گہری ضرب لگا رہا ہو۔‘‘، جارج نے جواب دیا۔

’’میں سوچتی ہوں کہ ان سب مختلف آوازوں کو سننا کتنا دلچسپ ہو گا۔‘‘، ہیزل نے قدرے رشک کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’وہ تمام چیزیں جنہیں وہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘

’’اُم‘‘، جارج کے منہ سے نکلا۔

’’اگر میں ’ہینڈیکیپر‘ حاکم ہوتی، تو تمہیں پتہ ہے کہ میں کیا کرتی؟‘‘، ہیزل نے کہا۔ ہیزل اصل میں ’ہینڈیکیپر‘ حاکم سے کافی مشابہت رکھتی تھی، جو ڈیانا مون گلیمر نامی ایک عوت تھی۔ ’’اگر میں ڈیانا مون گلیمر ہوتی‘‘، ہیزل نے مزید کہا، ’’میں صرف گھنٹیوں کی وہ جھنکار سناتی جو اتواروں کو ہی سنائی دیتی ہے۔ مذہب کے تقدس کو خراج پیش کرنے کے لئے۔‘‘

’’اگر یہ صرف گھنٹیوں کی جھنکار ہو، تو میں ’سوچ‘ سکتا ہوں‘‘، جارج بولا۔

اچھا! تو میں شاید اس چھنکار کو بہت ہی اونچا کر دیتی‘‘، ہیزل بولی، ’’میرا خیال ہے کہ میں ایک اچھی ’ہینڈیکیپر‘ حاکم بن سکتی ہوں۔‘‘

’’اچھی، جیسا کہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

’’مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ’نارمل‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘، ہیزل نے جواب دیا۔

’’ٹھیک‘‘، جارج نے کہا اور اس نے بے خیالی میں مبہم انداز میں ہی، اپنے غیر معمولی بیٹے ہیریسن، جو کہ اب جیل میں تھا، سوچنا شروع کیا تھا کہ اس کے دماغ میں ’اکیس توپوں کی سلامی‘ کی آواز نے اس کی اس سوچ کو روک دیا۔

’’او بوائے!‘‘، لگتا ہے کہ اس بار آواز غیر معمولی تھی، کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘، ہیزل نے پوچھا۔

آواز اتنی غیر معمولی تھی کہ جارج کا رنگ سفید پڑ گیا تھا اور وہ کانپ رہا تھا۔ اس کی لال آنکھوں کے حلقوں پر آنسو تیر آئے تھے۔ ادھر ٹیلیویژن کی سکرین پر آٹھ رقاصاؤں میں سے دو بھی سٹوڈیو کے فرش پر گر چکی تھیں اور انہوں نے بھی اپنی کنپٹیوں کو تھام رکھا تھا۔

’’تم ایک دم بہت تھکے ہوئے دکھائی دے رہے ہو‘‘، ہیزل نے کہا۔ ’’پیارے!تم کچھ دیر کے لئے صوفے پر لیٹ کیوں نہیں جاتے تاکہ تمہارا مفلوج کیا ہوا سر، جیسے کینوس کے ایک تھیلے میں سینتیس پاؤنڈ مرے ہوئے پرندوں کا وزن گلے کا طوق بنا ہو، تکیے پر ٹک سکے۔۔۔۔ اس کا اشارہ اس کے سر کی طرف تھا، جاؤ اور خود کو آرام دو۔۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر کچھ دیر کے لئے تم میرے پاس نہیں ہو گے۔‘‘

جارج نے اپنے سر کو تھاما، ’’مجھے اس سے کوئی خاص تکلیف نہیں ہے، میں اب اس پر توجہ ہی نہیں کرتا اور اب تو یہ میرے وجود کا حصہ ہے۔‘‘

’’تم تھکاوٹ سے بالکل نچڑے ہوئے لگ رہے ہو‘‘، ہیزل نے کہا۔ ’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اس تھیلے میں ایک سوراخ کر سکیں اور اس میں سے سیسے کی کچھ گولیاں باہر نکال پھینکیں، چند ہی سہی۔‘‘

دو سال کی قیداور باہر نکالنے پرہرگولی کے لئے دو ہزار ڈالر جرمانہ‘‘، جارج نے جواب دیا۔ ’’اور اس پر میں تو بھاؤ تاؤ بھی نہیں کر سکتا۔‘‘

’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ جب تم کام سے گھر واپس آؤ تو کچھ نکال دیا کرو‘‘، ہیزل نے کہا۔ ’’میرا مطلب ہے کہ یہاں تو تم نے کسی سے مقابلہ تو نہیں کرنا ہوتا، یہاں تو تم صرف بیٹھے رہتے ہو۔‘‘

’’اگر میں نے ایسا کیا تو میری دیکھا دیکھی دوسرے بھی جلد ایسا ہی کرنا شروع کر دیں گے اور ہم ایک بار پھر ’اندھیرے دور‘ کی طرف لوٹ جائیں گے جہاں ہر بندہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے دوڑ میں لگا رہتا تھا۔ تم بھی ایسا نہیں چاہو گی، یا کہ چاہو گی؟‘‘

’’مجھے تو اس بات سے نفرت ہو گی۔‘‘، ہیزل نے کہا۔

’’دیکھا، میں نہ کہتا تھا‘‘، جارج بولا۔ جس لمحے بھی لوگوں نے قانون شکنی شروع کی تمہیں اندازہ ہے کہ معاشرے پر اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘

اگر ہیزل نے اس سوال کا جواب نہ دیا ہوتا تو جارج کو اس سے پوچھنا بھی نہ پڑتا۔ اس کے دماغ میں تو ایک سائرن بج رہا تھا۔

’’یہ تو ماننا پڑے گا کہ معاشرہ ڈھ جائے گا۔‘‘، ہیزل نے جواب دیا۔

’’کیا ڈھ جائے گا؟‘‘، جارج نے خالی پن سے کہا۔

’’معاشرہ‘‘، ہیزل نے بے یقینی سے کہا، ’’تم نے ہی تو ابھی ایسا کچھ کہا تھا۔‘‘

’’کون جانے؟‘‘، جارج بولا۔

ٹیلیویژن پروگرام میں اچانک خبر نامے نے خلل ڈال دیا۔ شروع میں تو یہ بات سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کس بارے میں ہے کیونکہ اناؤنسر، باقی سب اناؤنسروں کی طرح، اپنی آواز میں ڈالی گئی رکاوٹ پر قابو نہ پا سکا اور آدھے منٹ تک اپنے جوش پر قابو پا کرصرف اتنا ہی کہہ پایا؛ ’’خواتین و حضرات۔‘‘

پھر اس نے ہمت ہار دی اور لکھی خبر کا پرچہ ایک رقاصہ کو پڑھنے کے لئے دے دیا۔

’’اس نے ٹھیک کیا ہے‘‘، ہیزل اناؤنسر کے بارے میں بولی، ’’اس نے کوشش تو کی، یہ بڑی بات ہے، اس نے اپنی خدا داد صلاحیت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے کوشش تو کی اور اس مشقت پر، اسے، اس کی تنخواہ میں ایک مناسب اضافہ ملنا چاہیے۔‘‘

’’خواتین و حضرات‘‘، رقاصہ نے خبر پڑھتے ہوئے کہا، وہ غیر معمولی طور پر حسین ہو گی کیونکہ اسے بہت ہی ہیبت ناک مکھوٹا پہنایا گیا تھا۔ یہ بھی آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ ان تمام رقاصاؤں میں سب سے زیادہ توانا اور با وقار تھی کیونکہ اسے ایسے ’ہینڈیکیپ تھیلے‘ پہنائے گئے تھے جو دو سو پاؤنڈ وزن رکھنے والے مردوں کو پہنائے جاتے ہیں۔

اسے بھی اپنی آواز کے لئے معذرت کرنا پڑی کیونکہ وہ جو آواز استعمال کر رہی تھی وہ کسی بھی عورت کے لئے استعمال کرنا موزوں نہ تھا۔ ’’معذرت خواہ ہوں‘‘، اس کی آواز میں گرمائش، روشنائی اور لازوال موسیقیت تھی، اس نے کہا، اور پھر اس نے اپنی آواز کو بالکل ہی معمولی بناتے ہوئے کہنا شروع کیا؛

’’ہیریسن برگیرون، عمر چودہ سال‘‘، اس نے برفانی کوؤں جیسی ناگوار چنگھاڑتی آواز میں کہا، ’’جیل سے فرار ہو گیا ہے، جہاں اسے اس شک میں گرفتار کر کے رکھا گیا تھا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ وہ ایک ذہین نوجوان ہے اور ایک اچھا کھلاڑی بھی، اور چونکہ اسے اس حساب سے مفلوج نہیں کیا گیا تھا لہٰذا اسے انتہائی خطرناک گردانا جانا چائیے۔‘‘

پھر ہیریسن برگیرون کی، پویس کی اتاری ہوئی، ایک تصویر، سامنے سے، پھر بائیں طرف سے اور پھر دائیں طرف سے، ہر بار اوپر سے نیچے تک دکھائی گئی۔ ساتھ میں فٹوں اور انچوں والا پیمانہ بھی تھا۔ وہ پورے سات فٹ کا تھا۔

ہیریسن کی باقی شخصیت ’بھوتیلی‘ (Halloween) اور مضبوط تھی۔ اس طرح کا توانا ہینڈیکیپ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا تھا، وہ ان تمام رکاوٹوں کو تیزی کے ساتھ پھلانگتا چلا گیا جو ’ایچ۔ جی‘ کے آدمیوں نے اس کے لئے موزوں جان کر کھڑی کی تھیں۔ دماغی طور پر مفلوج رکھنے کے لئے کان والے چھوٹے ریڈیو کی بجائے ایک بھاری بھرکم ’ایرفونز‘ کا جوڑا اس کے کانوں میں ٹھونسا گیا تھا اور ساتھ میں موٹے لہر دار عدسوں والی عینک بھی لگائی گئی تھی۔ اس عینک کے دو مقاصد تھے، ایک تو اسے آدھا اندھا کرنا تھا اور دوسرے اسے ہر وقت ایسے درد سر میں مبتلا رکھنا تھا جس کی ٹیسیں اسے ہر وقت ضربیں لگاتی رہیں۔

دھات کے بیکار ٹکڑے اس کا لباس تھے۔ عام طور پر جب ایسا دھاتی لباس کسی کو پہنایا جاتا تھا تو اس میں بھی ایک توازن ہوتا تھا، ایک ’فوجی ستھرائی‘ نظر آتی تھی، ان ہینڈیکیپچس میں جو طاقتور لوگوں کو پہنائے جاتے تھے لیکن ہیریسن کو تو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ چلتا پھرتا کباڑ ہے۔ زندگی کی دوڑ میں ہیریسن کو تو تین سو پاؤنڈ کا وزن برداشت کرنا پڑتا تھا۔

اور اس کی خوش شکلی کو ختم کرنے کے لئے ’ایچ۔ جی‘ کے آدمیوں نے تو اسے ہر وقت لال رنگ کی ایک گیند ناک پر پہننے کو دے رکھی تھی، اس کی بھنویں منڈوا دی گئی تھیں اور اس کی موتیوں جیسے سفید دانتوں کو نہ صرف کالا کیا بلکہ کچھ پر ٹیڑھے میڑھے خول چڑھا دئیے گئے تھے۔

’’اگر آپ میں سے کسی کا بھی اس سے ٹاکرا ہو جائے،‘‘ رقاصہ نے کہا، ’’تو اس سے بحث میں مت الجھیے گا، میں پھر دوہراتی ہوں، اس سے بحث میں نہ الجھیے گا۔‘‘

پھر ویسا شور اٹھا جیسا دروازہ اکھاڑ پھینکنے سے اس کے قبضوں سے اٹھتا ہے۔

ٹیلیویژن کی سکرین سے محبوس لوگوں کے چیخنے اور چلانے کی آوازیں آنے لگیں اور اس پر ہیریسن برگیرون کی تصویریں اس تیزی سے بار بار دکھائی جانے لگیں جیسے زلزلے کے جھٹکوں سے چیزیں ناچنے لگتی ہیں۔

جارج برگیرون نے درست طور پر زلزلے والی کیفیت کا اندازہ لگایا تھا کیونکہ وہ اپنے گھر میں بھی پہلے کئی بار اس طرح ہوتے دیکھ چکا تھا۔ ’’اف میرے خدایا۔‘‘، جارج بولا، ’’یہ یقیناً ہیریسن ہی ہو گا۔‘‘

اس کی اس سوچ کو دماغ میں ہونے والے ایک دھماکے نے تتر بتر کر دیا جو اس سے ملتا جلتا تھا جب دوگاڑیاں آپس میں ٹکراتی ہیں۔

جب جارج نے اپنی آنکھیں دوبارہ کھولیں تو ہیریسن کی تصویر ہٹ چکی تھی اور اس کی جگہ زندہ، جیتا جاگتا ہیریسن سکرین پر چھایا ہوا تھا۔ شور مچاتا، مسخری کرتا، بڑے جثے والا ہیریسن سٹوڈیو کے بالکل درمیان میں کھڑا تھا۔ سٹوڈیو کے دروازے کا ٹوٹا ہوا ہینڈل ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ رقاصائیں، تکنیک کار، سازندے اور اناؤنسر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے تھے جیسے اپنی موت کے منتظر ہوں۔

’’میں بادشاہ ہوں!‘‘، ہیریسن چلایا۔ ’’کیا تم سن رہے ہو؟ میں بادشاہ ہوں! ہر ایک کو فوری طور وہی کرنا ہو گا جیسا میں کہوں گا!‘‘، اس نے زمین پر اپنا پاؤں مارا اور سٹوڈیو ہل کر رہ گیا۔

’’اب جب کہ میں یہاں معذور کیا گیا، زنجیروں میں جکڑا اور لاچار کھڑا ہوں۔ ۔ ۔ پھر بھی میں سب سے بڑا حاکم ہوں، ایسا جیسا کہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوا!اب میری طرف دیکھو کہ میں کیا کچھ بن سکتا ہوں!‘‘

ہیریسن نے ان پٹوں کو گیلے ٹشو پیپر کی طرح مسل کر اتار پھینکا جن سے اس کو ہینڈیکیپ رکھنے کے لئے اوزان باندھے گئے تھے، جن کی مضبوطی کے بارے گارنٹی تھی کہ وہ پانچ ہزار پاؤنڈ وزن کو بھی سنبھال سکتے ہیں۔

ہیریسن پر لدا آہنی کباڑ فرش پر آ گرا۔

پھر اس نے اس ’پیڈ لاک‘ کی سلاخ پر انگوٹھوں کا دباؤ ڈالا جس نے اس کے سر کو ہینڈیکیپ رکھنے والے آلات کو مقفل کیا ہوا تھا۔ سلاخ بوٹی کے بُور کی طرح جھڑ گئی۔ ہیریسن نے اپنی عینک اور ہیڈ فون دیوار پر دے مارا۔

اس نے اپنی ناک پر لگے ربڑ کے گیند کو بھی اتار پھینکا اور جو آدمی سامنے آیا وہ ایک با رعب جنگی دیوتا تھا، رعد کا خدا۔

’’اب میں اپنی ملکہ کا انتخاب کروں گا۔‘‘، اس نے سر جھکائے گھٹنوں کے بل بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جو پہلی عورت اٹھنے کی جرات کرے گی وہ میری ملکہ ہونے اور تخت کی دعویدار ہو سکتی ہے!‘‘

کچھ سمے بعد ایک رقاصہ بید مجنوں کے درخت کی طرح لہرا کر اٹھی۔

ہیریسن نے اس کے کان سے دماغ کو مفلوج رکھنے والا آلہ نوچ ڈالا، نفاست اور احتیاط سے اس کے جسم پر لدے اوزان اتارے اور آخر میں ان کا مکھوٹا بھی اتار پھینکا۔

اس کا حسن آنکھیں خیرہ کر دینے والا تھا۔

’’اب!‘‘، ہیریسن نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا، ’’اب ہم لوگوں کو بتائیں گے کہ لفظ ’رقص‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ موسیقی!‘‘، اس نے حکم دیا۔ سازندے اپنی اپنی نشستوں پر جا بیٹھے، ہیریسن نے ان کے بھی ’ہینڈیکیپ‘اتار ڈالے اور انہیں کہا؛ ’’اپنی بہترین دھن چھیڑو، بدلے میں، میں تمہیں ’بیرن‘، ’ڈیوک‘ اور ’ارل‘ بنا دوں گا۔

موسیقی بجنا شروع ہوئی۔ یہ معمولی، گھٹیا، بے ہودہ اور تصنع سے بھری تھی۔ اس پر ہیریسن نے دو سازندوں کو کرسیوں سے کھینچا، انہیں لاٹھیوں کی طرح جھٹکے دیتے ہوئے وہ دھن گنگنائی جو وہ بجوانا چاہتا تھا۔ پھر اس نے ان سازندوں کو کرسیوں پر واپس دھکیل دیا۔

موسیقی دوبارہ بجنا شروع ہوئی اور اس بار یہ پہلے سے بہت بہتر تھی۔

ہیریسن اور اس کی ملکہ نے کچھ دیر دھن کو تحمل سے سنا، جیسے وہ اسے اپنے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ کر رہے ہوں۔

انہوں نے اپنے جسموں کا سارا وزن اپنے پیروں کے پنجوں پر منتقل کیا۔

ہیریسن نے اپنے بڑے ہاتھ لڑکی کی نازک کمر کے گرد اس طرح جمائے کہ اسے اپنے بے وزن ہونے کا احساس ہو سکے۔

اور پھر جیسے مسرت اور تمکنت کا دھماکہ ہو گیا ہو اور وہ ہوا میں رقصاں ہو گئے۔

وہ نہ صرف ملک کے قانون سے آزاد ہو گئے تھے بلکہ حرکت کے قوانین اور کشش ثقل سے بھی مبرا ہو کر رقص میں مگن تھے۔

وہ بے فکری سے گولائیوں میں گھوم رہے تھے، بہک چال کے ساتھ مد ہوشی کے سے عالم میں بیلے رقص کی ہر پھرتیلی حرکتوں کو عمدگی سے پیش کر رہے تھے۔ جب ان کے قدم فرش کو چھوڑتے تھے تو ایسے لگتا تھا جیسے ہرن اچک کر چاند کو چھونا چاہتے ہوں۔ سٹوڈیو کی چھت تیس فٹ اونچی تھی اور ان کی ہر چھلانگ پہلے کے مقابلے میں بلند ہوتی اور چھت کے نزدیک ہوتی جاتی۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اسے چھو سکیں اور پھر انہوں نے ایسا کر ہی لیا اور وہیں محبت اور اپنی پاک خواہش سے ثقلی کشش کو متوازن کرتے ہوئے ہوا میں معلق انہوں نے ایک دوسرے کا ایک طویل بوسہ لیا۔

اسی سمے ڈیانا مون گلیمر، ہینڈیکیپ حاکم، دس بور کی ڈبل بیرل شاٹ گن لئے سٹوڈیو میں آئی۔ اس نے دو دفعہ گولیاں داغیں، شہنشاہ اور اس کی ملکہ فرش پر گرنے سے پہلے ہی مر چکے تھے۔

پھر ڈیانا مون گلیمر نے بندوق میں دوبارہ گولیاں بھریں اور اسے سازندوں پر تان کر بولی کہ وہ دس

سیکنڈ کے اندر اندر اپنے ’ہینڈیکیپ‘ دوبارہ پہن لیں۔

ساتھ ہی برگیرون خاندان کے ٹیلیویژن کی پکچر ٹیوب جل گئی۔

ہیزل یہ بتانے کے لئے جارج کی طرف مڑی تو وہ وہاں نہیں تھا، وہ باورچی خانے میں بیئر کا ’کین‘ لینے گیا ہوا تھا۔

جارج بیئر لے کر واپس آیا، ایک ’ہینڈیکیپ‘ سگنل نے اسے جھنجھوڑ ڈالا، وہ رکا اور پھر بیٹھ گیا۔ ’’تم رو رہی تھیں۔‘‘، اس نے ہیزل سے کہا۔

’’ہاں،‘‘ وہ بولی۔

’’لیکن کیوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’میں بھول گئی،‘‘ وہ بولی، ’’ٹیلیویژن پر کچھ بہت ہی افسردہ پیش ہو رہا تھا۔‘‘

’’کیا تھا وہ؟‘‘، اس نے پوچھا۔

’’اب تو میرے دماغ میں سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا ہے‘‘، ہیزل نے جواب دیا۔

’’اداس چیزوں کو بھلانا ہی بہتر ہوتا ہے‘‘، جارج نے کہا۔

’’میں تو ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہوں‘‘، ہیزل بولی۔

’’میری جان، یہ ہوئی نہ بات‘‘، جارج بولا، ساتھ ہی اس کے چہرے پر کرب ابھرا۔ اس کے دماغ میں بندوق داغنے کی آواز چپک کر رہ گئی تھی۔

’’جارج! میں بتا سکتی ہوں کہ تمہیں ایک ’جھٹکا‘ اور ملا ہے‘‘، ہیزل بولی۔

’’تم اسے دوبارہ بھی کہہ سکتی ہو‘‘، جارج نے کہا۔

’’جارج!‘‘، ہیزل بولی، ’’میں بتا سکتی ہوں کہ تمہیں ایک ’جھٹکا‘ اور ملا ہے۔‘‘

٭٭٭

بند کھڑکی کے پیچھے سے

فاطمہ یوسف اَلعلی (کویت)

(نوٹ: 2، اگست 1990ء کو عراق نے کویت پر حملہ کر کے دو دن میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ سات ماہ تک جاری رہا لیکن اس دوران ہی جنوری 1991ء کے وسط میں امریکی سربراہی میں اقوام متحدہ کی اتحادی فوج نے عراق پر حملے شروع کر دئیے۔ یہ ایک ماہ سے زیادہ جاری رہے اور بالآخر 25 فروری 1991ء کو اس اتحادی فوج نے امریکی سربراہی میں کویت کو عراقی قبضے سے آزاد کرا لیا تھا۔ کویتی عوام نے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک بھی شروع کی تھی۔ اس تحریک کی وجہ سے بہت سے کویتی سویلین مارے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ اموات اس تحریک میں شامل عام عوام کی ہوئیں اور یہ لوگ زخمی بھی زیادہ ہوئے اور مزاحمتی تحریک سے جڑے لوگ ہی تھے جنہوں نے عراقیوں کے تشدد اور سفاکی کو سب سے زیادہ برداشت کیا تھا۔

فاطمہ یوسف اَلعلی کی یہ کہانی اسی تناظر میں لکھی گئی ہے اور اس کے افسانوی مجموعے ’Blood on the Moon‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں شامل تمام کہانیوں کا پس منظر یہی جنگ ہے۔

فاطمہ 1953ء میں پیدا ہوئی۔ قاہرہ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہے۔ عربی میں لکھتی ہے۔ کویت کی پہلی خاتون ناول نگار اور افسانہ نگار مانی جاتی ہے۔ اس کی کہانیوں کا مرکزی موضوع کویتی خواتین ہوتی ہیں۔ اس کا ناول ’Faces in the Crowd‘ کسی کویتی خاتون کا پہلا ناول گردانا جاتا ہے۔ اس کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کی کہانیوں کی خواتین کسی ایک طبقے سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ وہ کویتی معاشرے کی ہر پرت سے اپنے کردار وضع کرتی ہے۔ ’Her Face is a Nation‘ اور ’A Feminine Ending‘ اور ’Lismira and Her Sisters‘ اس کے نمایاں افسانوی مجموعے ہیں۔ اس کے افسانے انگریزی کے علاوہ فارسی میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں۔ چونکہ وہ ایک کٹر معاشرے میں رہتی ہے اس لئے اس کی تحاریر چھپ نہیں پاتیں اور اسے انہیں چھپوانے کے لئے خاصی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ اس سب کے باوجود، وہ پیچیدہ عرب معاشرے کی جنسی زندگی کو کھل کر صاف گوئی سے بیان کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔ وہ اس علاقے میں امریکی مداخلت کی حامی نہیں ہے اور حکایاتی انداز اختیار کرتے ہوئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔)

۔۔۔۔

یہ ساتویں رات تھی۔ ولی عہد اور اُس سرکار کے وزیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کسی معاہدے کے بغیر ختم ہو گئی اور اس نے پریشانی و تشویش کی انتہا کو چھو لیا۔۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس نے ہم سب کو پریشانی سے بھی کہیں آگے جا کر خوف میں مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا کر دیا تھا۔ جمعرات کی صبح دوستانہ نشریات، معاندانہ، امید بھری نشریات اور بار بار کئے جانے والے اعلامیوں نے ہمیں گزشتہ سیاہ رات کے سارے واقعات یاد دلا دئیے۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کویت کا نام ایسے الفاظ کے ساتھ جوڑا گیا تھا جو ہم برے خوابوں یا بخاری بے سدھی کیفیت میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے، ’دست اندیزی‘، ’ غاصب‘ اور ’تسلط‘۔ مجھے تو یقینی طور پران اصطلاحوں کا درست مطلب بھی پتہ نہ تھا البتہ ’کسی دوسرے کے علاقے پر اچانک چڑھائی‘، ’غاصبانہ قبضہ‘ اور ’عراقی فوج کی در اندازی‘ جیسے الفاظ کی مجھے سمجھ تھی کیونکہ یہ عام خبریں پڑھنے والوں کے عمومی ذخیرہ الفاظ کا حصہ تھے۔

میں نے جو کچھ خبروں میں سنا تھا، اس کا خلاصہ کیا اور۔۔ اور۔۔ اس کے کان میں چِلا کر بتایا تاکہ وہ سمجھ سکے۔ اس کی آنکھوں میں گنگ اور نروس خوف کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا جیسے اس پر بجلی گری ہو۔ میں نے اس کی جانب حرکت کی اور جب میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں مجھ پر گڑھی ہوئی ہیں تو میں نے اس کی گردن کو اس زور سے جھنجھوڑا جیسے کسی جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو۔ اس کا خوف اور بڑھ گیا اور اس کی گھُوری مزید واضح اور منجمد ہو گئی۔ میں یہی چاہتی تھی، کہ وہ اتنی خوفزدہ ہو جائے کہ چاہے کچھ بھی ہو، اسے گھر چھوڑنے خیال بھی نہ آ سکے۔ میں نے اشاروں اور کچھ الفاظ کی مدد سے اسے یہ بتایا کہ ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے کئی دنوں کے لئے خوراک موجود تھی اور یہ کہ اس صورت حال کا کوئی نہ کوئی حل یقینی طور پر نکل آئے گا کیونکہ یہ لوگ ہمارے ملک پر یوں قابض نہیں رہ سکتے اور جھوٹ موٹ یہ ظاہر نہیں کر سکتے کہ ہم لوگ موجود ہی نہیں ہیں۔ ہم دونوں کو بس انتظار ہی کرنا تھا۔ میں نے آوازوں، جو اس کی بھاری، سوجی ہوئی زبان نے منہ سے نکالی تھیں یہ اندازہ لگایا کہ اسے اس بات کا خدشہ ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اور یہ کہ میں اپنی تنخواہ بھی وصول نہیں کر پاؤں گی کیونکہ مجھے کام پر جاتے ہوئے خطرہ محسوس ہو گا۔

میں نے اشاروں اور الفاظ کے سہارے اسے بتایا کہ میں، خدا کا یقین کرو، جو ایک سکول میں ’سٹاف اسسٹنٹ‘ کے طور پر ایک سکول میں کام کرتی ہوں، وہاں چھٹیاں ہیں اور یہ کہ میں پچھلے ماہ کی تنخواہ گزرے ہفتے میں وصول کر چکی ہوں اور اگلے مہینے کے شروع ہونے پر اور اگلی تنخواہ ملنے کے دن خدا یقینی طور پر ہمارے لئے تن آسانی پیدا کرے گا۔ اس کے مرجھائے ہونٹوں پر ایک ٹیڑھی مسکراہٹ کا سایہ سا آیا۔ وہ چوکڑی مار کر بیٹھی، اپنی رانوں کا تَکنے لگی اور متوازن آہنگ و تواتر سے خدا کی حمد و ثنا میں مصروف ہو گئی گو اس کے الفاظ کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ کچھ ایسے مخصوص الفاظ استعمال کر رہی تھی جو وہ خود اور اس کا خالق ہی سمجھ سکتا تھا۔

سیدھی بات ہے کہ میں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا میں نے اپنی ماں کو کرنے کی ہدایت کی تھی، تاکہ وہ میری ہدایات کو نظرانداز نہ کر پائے۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور میں کبھی ریڈیو اور کبھی ٹیلی ویژن لگاتی اور ساتھ ہی ساتھ اس نزدیکی کھڑکی سے باہر بھی دیکھتی جو مرکزی سڑک پر کھلتی تھی۔ گو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر الفاظ کی ندیاں بہے جا رہی تھیں لیکن مرکزی سڑک اور اس سے آ کر ملنے والی ساری ثانوی سڑکیں مکمل طور پر سنسان تھیں۔ کبھی کبھار، البتہ، ایک پولیس کار، فوجی گاڑی یا ایک آدھ عام گاڑی تیزی سے وہاں سے گزر جاتی لیکن مجھے وہاں کوئی عراقی نظر نہیں آیا۔ میں سوچتی کہ وہ کیسے ہوں گے۔ میں نے پہلے کچھ کو دیکھا تھا لیکن وہ حالات کچھ اور تھے۔ ان میں سے کچھ کی بچیاں بغداد سکول، جہاں میں کام کرتی تھی، میں پڑھتی تھیں۔ یہ عراقی آدمی سکول کے گیٹ کے پاس کھڑے اپنی بچیوں کا انتظار کرتے، ان میں سے کچھ اپنی کاروں، جن کے شیشے نیچے ہوتے، سے ٹیک لگائے بھی کھڑے ہوتے۔ یہ بالکل ویسے ہی والدین تھے جیسے کے کویتی۔ مجھے ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ اپنے عبا میں لپٹی جب کبھی کوئی عورت آ کر اپنی بیٹی کے لئے درخواست کرتی تو وہ نرم مزاجی اور انکسار کے ساتھ وہاں کھڑی ہوتی۔ جب وہ لفظ ’آئنی‘ برتتی تو مجھے پتہ چل جاتا کہ وہ عراقی ہے اور میں اس کی بیٹی اسے لا دیتی۔ لیکن موجودہ دست اندیزی کے بعد، جبکہ مجھے اس لفظ کا صحیح مطلب بھی معلوم نہ تھا میں سوچتی کہ کاروں سے ٹیک لگائے عراقی مرد یا عورتیں اب بھی میرے لئے ’آئنی‘ کا لفظ استعمال کریں گی۔

میں تقریباً ساری رات جاگتی رہی اور کھڑکی سے سڑک کو دیکھتی رہی۔ میں نے سینکڑوں بار گھڑی کو دیکھا کہ فجر کی نماز کا وقت ہوا کہ نہیں اور میں سوچتی کہ کیا کوئی یہ جرأت کرے گا کہ نزدیکی مینار پر چڑھ کر اذان دے۔ رات میں، میں نے کسی ’غاصب‘ کو نہیں دیکھا۔ چنانچہ میں اپنی یادداشت کے سہارے یہ جاننے کی کوشش کرتی رہی کہ ایک عراقی کی کیا خصوصیات ہوں گی لیکن میں کوئی خصوصی فرق تلاش نہ کر پائی سوائے اس کے کہ وہ کچھ الفاظ کا انتخاب مختلف طور پر کرتے تھے اور یہ الفاظ بھی خوشگواری اور اچھا اخلاق لئے ہوتے جیسے کہ ’آغاتی‘، ’آئنی‘ اور ’بابا‘۔ گو سورج کے لال تھال کا آتشیں کنارہ، جو ایک پگھلے برقی آرے کی مانند تھا، نمودار ہو چکا تھا لیکن فجر کی اذان دینے کے لئے موذن مینار پر نہیں چڑھا۔ میری ماں جہاں بیٹھی تھی وہیں سو گئی تھی اور میں نے اس پر چادر ڈالنے کو ضروری نہ سمجھا کیونکہ موسم ناخوشگوار حد تک گرم تھا۔ میں نے اپنے گھر میں لگے اکلوتے ائیر کنڈیشنر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ میں اتنے دینار اکٹھے نہ کر پاؤں گی کہ اگلے ماہ بجلی کا بِل ادا کر سکوں۔ مجھے یہ بھی خدشہ تھا کہ حکومت کو بھی شاید بجلی کی مسلسل فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہو۔ چاہے وہ عراقیوں سے کتنے ہی خوفزدہ کیوں نہ ہوں لیکن ہر کویتی کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنی سرکار کے ساتھ کھڑے ہوں۔ گو کسی کو پتہ بھی نہ چلنا تھا کہ میں نے ’اے سی‘ بند کر دیا تھا۔ ایسا تب ہی ممکن تھا جب وہ گھر گھر تلاشی لیتے لیکن ایسا نہیں ہونا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے اب تک کسی کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے سوچ آئی کہ اب جمعہ کی نماز کیسی ہو گی؟ مجھے ہمیشہ پتہ چل جاتا تھا کہ جمعہ کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے، ایسے میں بھی جب میں نے کپڑے دھونے کی مشین لگائی ہوتی یا پھر میں اپنی بوڑھی ماں کو نہلا رہی ہوتی۔ اس کا آغاز ایک طرف سے آتی ’اللہ اکبر‘ کی صدا سے ہوتا جبکہ دوسرے سمت سے ’تعریف اسی خدا کی ہے‘ کی آواز ابھرتی۔ پھر مختلف موذن آگے پیچھے یہی وِرد کرتے ہوئے قرآنی آیات پڑھنے لگتے۔ ایسے لگتا جیسے جنت کے دروازے کھل گئے ہیں اور فرشتے حمد و ثناء میں مصروف ہیں۔ اس سمے، میں، مختلف لاؤڈ سپیکروں سے ابھرتی آوازوں کو سمجھ نہ پاتی کہ ان کا مطلب کیا ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا جیسے میرے جسم کی کثافت لطافت میں بدل گئی ہے اور میرا جسم ہوا میں تیرنے لگا ہے، اڑنے لگا ہے اور اس میں اوپر، اور اوپر اٹھتا جا رہا ہے۔ مجھے لگتا کہ میں اور بھی بہتر طور پر دیکھ اور جان سکتی ہوں اور۔۔ اور ان لوگوں سے بھی محبت کر سکتی ہوں جنہیں میں نے پہلے نہ تو کبھی دیکھا اور نہ ہی ان سے ملی۔ میرا یہ احساس ہر لمحہ تقویت پکڑتا جاتا۔ اس جمعے کو، البتہ، علاقے میں زندگی کی وہ عمومی چہل پہل نہ تھی۔ وقفوں وقفوں سے، البتہ، کچھ آوازیں ابھرتیں جیسے شہد کی مکھی کے چھتوں سے بھنبھناہٹ ابھرتی ہے۔ ان میں تال میل بھی نہ تھا۔ یہ کچھ ایسی تھیں جیسے کسی عمارت کے کھنڈر سے ابھر رہی ہوں جس کے سوئے ہوئے مکینوں پر یہ دھم سے گر پڑی ہو۔

اور پھر ایک ہولناک آواز ایک دم سے میرے کانوں سے ٹکرائی، مجھے ایسے لگا کہ کسی نے ہتھوڑے سے میری کھوپڑی کو چیر دیا ہے۔ سارا گھر لرز اٹھا اور میرا خوف بھی بڑھ گیا۔ میں کھڑکی کی طرف لپکی۔ اوہ! یہ ایک ٹینک تھا۔۔ غلطی کا کوئی امکان نہ تھا۔۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ بہت سی فلموں میں ہوتا ہے۔ ہاں، البتہ اس پر عراقی جھنڈا بنا ہوا تھا اور ایک اس پر لہرا بھی رہا تھا۔ یہ ویسا ہی تھا جیسا میں نے ٹی وی کی سکرین پر دیکھا تھا۔ میں پردے کے پیچھے چھپ کر آنکھ بھینچے باہر جھانکنے لگی، کیا اس ٹینک سے ایک عراقی باہر کودے گا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا وہ ’بابا‘، ’آغاتی‘ اور ’آئینی‘۔۔ کہے گا؟ یا پھر وہ ٹینک کی توپ سے لوگوں پر گولا داغے گا؟ کیا وہ کویتیوں کو نماز سے روکنے کے لئے آیا ہے؟ کیا خدا اس بات پر خوش ہو گا کہ کویتیوں کو جمعہ کی نماز نہ پڑھنے دی جائے؟ کیا خدا اس پر خاموش رہے گا؟ اگر وہ مسجدوں پر حملہ کرتے ہیں اور نماز ادا کرتے مردوں پر گولے برساتے ہیں تو کیا خدا ان سے ’حساب کتاب‘ کرے گا؟ لیکن ہمیں معلوم تھا کہ کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ اگر خدا نے ہی کسی بندے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، سے ’حساب کتاب‘ کرنا ہے تو کیا ہو گا۔

گھر ابھی تک لرز رہا تھا اور ٹینک اس چھوٹے سے چورا ہے پر، اپنے پیچھے کالے دھویں کے بادل بناتا چکر کاٹے جا رہا تھا۔ اس کی توپ اوپر کی طرف ابھری ہوئی تھی اور یوں گھوم رہی تھی جیسے چاروں اطراف کے لوگوں کو ہراساں کرنا چاہتی ہو۔ جب اس کی گرجدار آواز بند ہوئی اور دھویں کے بادل چھٹے تو ایک چھوٹی کار نظر آئی جو ٹینک کے پیچھے تھی۔ ٹینک کا ڈھکن اوپر اٹھا اور اس میں ایک آدمی چھلانگ لگا کر باہر نکلا۔ وہ تیزی سے کار کی جانب گیا اور فوجی انداز میں سلام کیا۔ میں نے اس کے جثے، نقش اور کپڑوں کا جائزہ لیا، وہ لازماً ایک عراقی ہی ہونا چاہیے تھا۔ کیا وہ غاصبوں کے ٹینک سے نہیں نکلا تھا؟ لیکن میں یہ کہہ سکتی تھی کہ وہ صالح تھا جس نے ہماری سابقہ آبادی میں پرورش پائی تھی اور اب وہ ہمارا ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ کویتی انفنڑی فوج میں ایڈجوننٹ تھا۔ مجھے ایسا تب بتایا گیا تھا جب دس سال پہلے وہ مجھ سے شادی کا خواہاں تھا۔ پھر میری ماں بیمار پڑ گئی اور میں نے شادی کے بارے میں سوچنا بند کر دیا تاکہ کوئی مرد اس کے لئے پریشانی کا باعث نہ بنے۔ فوجی نے ایک بار پھر سلام کیا۔ کار میں سے دو فوجی باہر نکلے اور ٹینک کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ کار مڑی اور وہاں سے چلی گئی۔ تب پہلا فوجی ٹینک پر چڑھا اور اس نے خود کو اس کے اندر یوں اتارا جیسے وہ کسی کنویں میں اتر رہا ہو۔

مجھے حیرانی تھی کہ صالح کہاں تھا۔ کیا اس نے اب غائب ہو جانا تھا اور ہمیں ٹینکوں کا سامنا کرنے لئے چھوڑ جانا تھا؟ میں نے اسے آخری بار ایک روز قبل سورج غروب ہونے سے قبل دیکھا تھا۔ وہ سفید ’دشداشہ‘ پہنے دبے پاؤں جا رہا تھا۔ اس کا دشداشہ استری بھی نہیں ہوا تھا اور اس نے سر پر رو مال بھی نہیں باندھا ہوا تھا۔ میں نے پہلی بار یہ جانا کہ وہ سر سے گنجا تھا۔ میں اسے یوں دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی کہ اگر ایک فوجی یوں شہری لمبے لبادے، سر کے رو مال بِنا بھاگا جا رہا ہو تو ہمارا دفاع کون کرے گا؟ میرے دل میں یہ سوال اٹھا کہ کیا وہ اسی کام کے لئے بھاری ماہانہ تنخواہ لیتا رہا اور رنگ برنگے اور چمکیلے تمغے کندھوں اور بازوؤں پر سجائے رہتا، جو وہ اس وقت کر رہا تھا۔

چورا ہے کی دور والی طرف سے ایک لڑکا نمودار ہوا۔ اس نے، حتی الواسع کوشش کی کہ ٹینک سے دور رہے۔ اس نے چورا ہے کا چکر کاٹا۔ وہ عراقیوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ان سے ممکنہ حد تک دور رہتے ہوئے مسجد جانا چاہتا تھا۔ فوجیوں میں سے ایک نے اس کی جانب دو قدم بڑھائے۔ لڑکا چلتے رہنا چاہتا تھا یا اس کا خیال تھا کہ وہ اسی طرف واپس بھاگ جائے جدھر سے وہ آیا تھا کہ فوجی نے اسے آواز دی۔ میں نے اس کی آواز سنی لیکن مجھے یہ سمجھ نہ آیا کہ اس نے کیا کہا تھا۔ بہرحال لڑکا تذبذب کے عالم میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا فوجی کی طرف بڑھا۔ جب فوجی بھی اس کی طرف آگے بڑھا تو میں نے یہ دیکھا کہ اس کی پیٹی کے ساتھ ایک طرف ایک ریوالور اور دوسری طرف ایک بڑا سا چاقو لٹکا ہوا تھا۔ لڑکا رک گیا۔ اس نے باتوں اور ہاتھ کے اشاروں سے کچھ کہا۔ فوجی واپس ٹینک کی طرف مڑا جبکہ لڑکا اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔ فوجی نے اپنے ساتھی، جو ٹینک میں گھات لگائے بیٹھا تھا، سے بات چیت کی۔ لڑکے کے دونوں ہاتھ سر پر تھے۔ فوجی اس کے پاس واپس گیا، اس نے ہاتھ میں کچھ پکڑ رکھا تھا، کیا؟ مجھے اندازہ نہ ہوا۔ جب وہ اور لڑکا ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو فوجی نے اسے کچھ تھمایا، کیا؟ مجھے پھر بھی پتہ نہ چلا۔ لڑکے نے شکریے کے طور پر ہاتھ ہلایا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ وہ مشکور بھی تھا اور اسی حالت میں وہ ایسے پیچھے ہٹا کہ گرتے گرتے بچا۔ فوجی ہنس رہا تھا۔ اس نے لڑکے کو نظرانداز کیا اور اپنے ساتھی کی طرف بڑھ گیا اور اس کے ساتھ کوئی شے آدھی آدھی بانٹی۔ وہ اسے کھاتے ہوئے ہنستے بھی رہے۔

تب مجھ یاد آیا کہ وہ لڑکا کون تھا۔ میں نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اتنی بزدلی کا مظاہرہ کرے گا۔ ایک دن میں ہی ہمارے مرد کیا سے کیا ہو گئے تھے؟ صالح گنجا تھا لیکن اس کا بھیجا ایسے بھوسہ بن گیا تھا جیسے وہ دھویں سے بھرے تہہ خانے میں نوکر ہو۔ میں اس لڑکے کی ماں کو جانتی تھی۔ وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ اسے پیدا کرنے کے لئے لندن گئی تھی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ وہ، کویت میں زندہ پیدا نہیں ہو گا۔ اس کا باپ کواپریٹو ایسوسی ایشن کا اہلکار تھا اور اس کی ماں میونسپلیٹی میں ایک وکیل تھی۔ جب وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ باہر نکلتا تو خود کو مور سمجھتا اور اکڑ اکڑ کر چلتا۔ جب انہوں نے گیند سے کھیلنا ہوتا تو اسے ہر بار کپتان ہی بننا ہوتا تھا۔ اب وہ ایک ایسی بلی کی مانند تھا جو بیت الخلاء میں پھسل گئی ہو۔ جمعے کی نماز کا وقت ہوا اور جنت کے دروازوں سے آتی صداؤں کے امتزاج کے بغیر ہی گزر گیا۔ جو لوگ نماز کے لئے آئے بھی، انہوں نے مسجدوں کے دروازوں یا گلیوں میں مجمع نہ لگایا اور یوں خاموشی سے نظریں بچا کر نکل لئے جیسے کسی کے جنازے سے گھروں کو لوٹ رہے ہوں۔ اس دوران ٹینک وہیں جما رہا۔

جب رات ڈھلی تو میں ماں کے لئے کھانا بنانے میں مصروف ہو گئی۔ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ آنے والے دِنوں کے لئے خوراک کیسے حاصل کی جائے۔ اچانک فضا میں ایک گونج پیدا ہوئی جس کے ساتھ دھمک بھی پیدا ہوئی ایسے جیسے کوئی شے ملبہ بنی ہو۔ ہماری کھڑکی پر سرخ شعلوں چمکے اور ان کے عکس اس کے سامنے والی دیوار پر ابھرے۔ اس سے پہلے کہ میں باہر دیکھتی مجھے دور سے آتی فائرنگ کی آواز کے جواب میں تین گولیوں کے چلنے کی آواز آئی۔ ٹینک کے ماتھے پر لگی سرچ لائٹ جل اٹھی جس نے رات کو دن میں بدل دیا۔ لوگ ’واکی ٹاکیز‘ استعمال کر رہے تھے اور اس سے پہلے کہ سکوت طاری ہوتا بہت شور شرابا برپا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ دوپہر کو نماز سے پہلے جہاں لڑکا کھڑا تھا وہاں ایک سفید ڈھیر پڑا تھا۔ یہ وہیں موجود رہا لیکن کوئی اس کے پاس نہ گیا۔ ایک گاڑی آئی اور چلی گئی۔ ایک اور بھی آئی اور چلی گئی اور پھر ایک اور بھی۔ اس کے بعد سامان اور فوجیوں سے لدا ہوا ایک ٹرک آیا۔ وہ سب ٹینک کے گرد جمع ہوئے۔ ویلڈنگ والی مشعلوں کے منہ سے لال اور سبز زبانیں باہر نکلیں۔ وہ کٹائی اور ویلڈنگ کرتے رہے لیکن یہ بات واضح تھی کہ ٹینک ناکارہ ہو چکا تھا اور اسے بڑے پیمانے پر مرمت کی ضرورت تھی۔ اگلی صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی ٹینک کے جلے ہوئے حصے اور ویلڈ کئے ہوئے حصے واضح طور پر نظر آنے لگے لیکن وہ لڑکا، نوجوان مور، اپنی ٹیم کا کپتان، اکلوتا بچہ، وہ بچہ جو لندن میں پیدا ہوا تھا ٹینک کی ایک طرف مصلوب ہوا پڑا تھا۔ جس کے نیچے بچوں کی گیم کے ڈبے کے گتے کے ایک ٹکڑے پر آڑی ترچھی لکھائی میں لکھا تھا’۔

” جو بھی مقابلے کے لئے ہاتھ اٹھانے کا سوچے گا اس کا یہی حشر ہو گا۔‘‘

سورج نکلنے سے پہلے ہی وہاں ایک اور ٹینک پہنچ گیا اور اس نے ناکارہ ٹینک کے پیچھے ذرا پرے جگہ سنبھال لی۔ یوں دونوں کے درمیان ہوا کے لئے اک راہداری سی بن گئی تھی۔ میں نے اس نئے ٹینک پر کچھ زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ میرا دھیان تو لڑکے کے سر پر تھا جو ناکارہ ٹینک پر الٹا لٹک رہا تھا اور ہوا اس کے بالوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں مجھے حقارت سے گھور رہی ہیں، شاید اس لئے کہ میں نے اسے مور کہا تھا۔ میں یہ سوچتی ہی رہی کہ اس کے ساتھ مزید کیا ہونے والا تھا اور یہ کہ اس کی ماں اور باپ کہاں تھے۔

دونوں ٹینکوں کا درمیانی حصہ ایک ایسی آرام گاہ بن گیا تھا جس میں فوجی کھانا کھاتے اور چائے پیتے۔ انہوں نے وہاں ایک ٹوٹا پھوٹا جال تان کر سائبان سا کھڑا کر لیا تھا۔ میں نے ان پر نظر رکھی اور میں حیران تھی کہ وہ لڑکے کی گلتی سڑتی لاش کے پاس بیٹھے کیسے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے اور کھانا بھی کھا رہے تھے۔ میں نے خود سے سوال کیا کہ اگلے روز اس لڑکے کی لاش کی حالت کیا ہو گی، اور اس سے اگلے روز اس کا بچا ہو گا؟ کیا میرے اندر اسے دیکھنے کی ہمت ہو گی؟

اگلے روز میں نے اس جگہ کی طرف دیکھنے سے گریز کیا جہاں لڑکے کو مصلوب کیا گیا تھا، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ فوجی اب قہقہے لگا رہے تھے، لطیفہ گوئی میں مصروف تھے اور اپنے سامنے پڑی چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہ فوجی ایک روز قبل چاک و چوبند انداز میں گھبرائے اور بوکھلائے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنے سامنے لگے ڈھیر میں سے کوئی شے اٹھاتے، اسے کھولتے اور پسند نہ آنے پر ایک طرف پھینک دیتے۔ وہ اشیاء کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوتے کچھ پر حیرانی کا اظہار کرتے اور پھر ایک طرف رکھ دیتے تاکہ انہیں دوسرے والے ٹینک میں لے جا سکیں۔ لیکن پہلے والے ٹینک کا کیا بننا تھا؟ اور انہوں نے یہ ڈھیروں اشیاء کہاں سے حاصل کی تھیں؟ تب میں خود کو نہ روک پائی اور میں نے اپنی گردن پہلے والے ٹینک کی طرف گھما دی۔ اس سے پیشتر کہ میں دیکھ پاتی، میرا گلا خشک ہو چکا تھا، میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور میرا جسم سکڑ گیا تھا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جہاں لڑکے کی لاش لٹکی ہوئی تھی، وہاں اب ایک سبز رنگ کا پرندہ الٹا لٹکا ہوا تھا جس کی گردن چاک تھی اور اس کے پر ناکارہ ٹینک کی ایک طرف کیلوں سے جڑے ہوئے تھے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آیا۔ میں نے انہیں زور سے رگڑا اور اپنا سر کھڑکی کے شیشے میں دے مارا کہ یقین کروں کہ جاگ رہی ہوں اور کوئی سپنا نہیں دیکھ رہی۔ میں جاگ رہی تھی اور لڑکا اب ایک سبز پرندہ تھا جس کے پروں میں کیل جڑے تھے جو اس تغیر سے پہلے اس کے بازو تھے۔ میں نے بار بار خود سے کہا کہ میں یہ سب تصور میں دیکھ رہی ہوں، ایک لڑکا ایک سبز پرندے میں کیسے بدل سکتا ہے جس کی آنکھیں ویسی ہی عاجزانہ اور حقارت سے بھری ہوں جیسی میں نے ایک روز قبل اس کی لاش میں دیکھی تھیں جو ٹینک کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی؟ ایسا تو نہ تھا کہ مجھے بھوک لگ رہی تھی کیونکہ میں اپنی عمومی خوراک کا ایک چوتھائی کھا کر خود کو تسلی دے لی تھی اور باقی اس لئے بچا لی تھی کہ میں اپنی ماں کو زیادہ کھانا دے سکوں۔ ایسا بھی نہ تھا کہ میں خوفزدہ تھی کہ وہ گھر میں گھس آئیں گے اور مجھ پر چڑھ دوڑتے ہوئے، سر پر ضربیں لگاتے، سیڑھیوں سے گھسیٹتے ہوئے نیچے لے جائیں گے اور مجھے تار تار کر دیں گے۔ میں نے پوری طاقت سے چِلا کر اپنی ماں کو بتایا کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو مٹھی بھر عراقی تھے جو ان کے گھر کے باہر چورا ہے پر تعینات تھے اور یہ کہ ایسا کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ ایسا بھی نہ تھا کہ میں اس لڑکے کے لئے اداس تھی جو گزشتہ روز محتاط اور ندامت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے جا رہا تھا۔ اصل حقیقت تو یہ تھی کہ میں جاگ رہی تھی اور اپنے ہوش و حواس میں تھی۔ میں نے پرندہ دیکھا تھا اس کی آنکھیں دیکھی تھیں، اس کی کٹی ہوئی گردن دیکھی تھی، اس کا ایک طرف کو لٹکتا سر دیکھا تھا اور یہ سب اسی جگہ تھا جہاں لڑکا الٹا ٹنگا تھا۔ تب مجھے ایک اور جھٹکا محسوس ہوا لیکن مجھے اس پر کوئی حیرت نہ ہوئی۔

ناکارہ ٹینک کا رنگ دوسرے والے سے مختلف ہونے لگا۔ دونوں کو پیلے، سبز اور بھورے رنگوں سے اس طرح مسخ کیا گیا تھا کہ وہ ٹینک نہ لگیں۔ دوسرے والا ٹینک تو اپنے انہی رنگوں میں تھا لیکن دوسرا جس پر سبز پرندہ ٹنگا تھا اپنے رنگ چھوڑ رہا تھا اور ابلتی پیپ کا رنگ اختیار کر رہا تھا جس سے مجھے متلی محسوس ہونے لگی۔ میں چلمچی پر گئی اور تھوکا۔ پھر میں نے ریفریجییٹر کا دروازہ کھولا اور کچھ ایسا تلاش کرنے لگی جس سے میرے منہ کا ذائقہ بدل سکے۔ مجھے انگور کے تین دانے ہی مل پائے جو خالی ہوتی ایک دراز کے کونے میں پڑے ہوئے تھے۔

مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں بھی کھڑکی کے ساتھ جڑ دی گئی ہوں۔ میں سبز پرندے اور پیپ رنگے گلتے سڑتے ٹینک سے اپنی آنکھیں ہٹا نہ پائی۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں کب سوئی، میں نے اپنی آنکھیں کس طرح بند کیں یا مجھے کس نے کھڑکی سے ہٹایا اور رہائشی کمرے کے ایک کونے میں ماں کے پاس اوندھے منہ لٹا دیا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کب تک سوئی رہی۔ میں تو اس وقت تشنج کا شکار ہوئی جب دھماکوں کی لہروں نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے آسمان سے پتھروں کی بارش ہو رہی ہو جو چھت پر لگی ٹنکی سے ٹکرا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر دیکھتی کہ کیا ہو رہا تھا ایک یا دو منٹ کے لئے سب شور تھم گیا۔ پھر یک دم فوجی سائرن اور ایمبولینسوں کے ہارن بج اٹھے۔ انجنوں کا شور ہوا اور چند کاریں ایک قطار میں آ کھڑی ہوئیں۔ سپاہی جلتے ہوئے ٹینک کے گرد جمع ہو گئے۔ ان کے ہاتھوں میں آگ بجھانے والے آلات تھے جن کی کالی نالیوں سے بخارات اور کیچڑ جیسا ’فوم‘ مکروہ انداز میں ٹینک کے ڈھانچے کو لت پت کر رہا تھا لیکن ٹینک کو لگی آگ کسی طرح بھی قابو میں نہ آ رہی تھی۔ فوجیوں کو اپنی جانوں کا بھی خطرہ تھا کیونکہ ٹینک میں موجود بارود بھی پھٹ سکتا تھا۔ مجھے اس بات کی سمجھ تب آئی جب ٹینک کے اندر کا بارود پھٹ چکا تھا۔ گو کہ میں کانپ رہی تھی لیکن جب میں نے ان فوجیوں کو خوفزدگی کے عالم میں آگ بجھانے والے آلات چھوڑ کر بھاگتے ہوئے دیکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ تیزی سے خطرے والی جگہ سے دور بھاگ رہے تھے۔ وہ اس وقت تک واپس نہ لوٹے جب تک بارود کا پھٹنا بند نہ ہوا۔ اس وقت تک آگ کی شدت میں کمی آ چکی تھی اور دوسرا ٹینک بھی سیاہ ہو چکا تھا۔ وہ اپنی ہی جگہ پر بد شکل ہوا، زمین بوس ہوا، ایسے کھڑا تھا جیسے ایک بھیانک بھوت ہو۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ہوا کیا تھا لیکن یہ کالا بے ڈول ڈھیر یہ بتا رہا تھا کہ اسے تاک کر کتنے طاقتور بارود سے اڑایا گیا تھا۔ میں نے خوشی کے ساتھ دعائیہ انداز میں سرگوشی کی، ” تمہارے ہاتھ سلامت رہیں۔‘‘ کیا وہ ہاتھ ذخمی ہونے سے بچ گئے تھے یا ان کا بھی وہی حشر کیا گیا جیسا انہوں نے لڑکے کا کیا تھا؟ یہ کون ہو سکتا تھا؟ زیادہ انتظار کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جیسے ہی سورج نے اپنے آتشیں تنبو کو ہم پرتا نا تو میرے لئے یہ جاننا آسان ہو گیا کہ یہ صالح خود تھا۔ میں نے اسے اس کے گنجے سر سے پہچان لیا تھا جسے میں زندگی میں پہلی بار دو تین دن پہلے ہی، جب وہ وردی میں نہ تھا، اور سر جھکائے سست چال سے اپنے گھر کی جانب بڑھ رہا تھا، دیکھا تھا۔ میں اس کے چہرے کے نین نقش نہ دیکھ سکی کیونکہ یہ سب برابر ہو چکے تھے۔ اس کا شکنوں بھرا سفید ’دشداشہ‘ خون کے لال دھبوں سے اٹا پڑا تھا۔ اس کا ہتھیار اس کی گردن سے لٹک رہا تھا اور اس کا جسم جلے ہوئے ٹینک کی توپ پر بازوؤں کے بل ٹنگا ہوا تھا۔ اس گرم دن آندھیاں کچھ کچھ وقفوں سے چل رہی تھیں۔ گو صحرا میں گرد کا کوئی طوفان نہیں تھا لیکن آسمان بھی صاف نہ تھا۔ اور جب گرد ملی تیز ہوا چلتی تو توپ سے لٹکا یہ جسم بسا اوقات ہوا میں آگے پیچھے ڈولتا جیسے کھیلتے ہوئے بچے درخت سے جھول رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی وقت میں جب گرد اس کے گرد بگولا بناتی تو وہ ایسا شخص لگتا جو آگ اور دھویں میں گھِرا ہو اور جو اس حصار سے نکلنے کی کوشش میں تو ہو لیکن نکل نہ پا رہا ہو۔ ایک تیسرا ٹینک آیا اور وہاں کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے دوسرے جلے ہوئے ٹینک کی مرمت کرنے کی کوشش بھی نہ کی۔ یہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ تیسرا ٹینک بھی دوسرے سے ہٹ کر کچھ ایسی جگہ پر کھڑا تھا کہ فوجیوں کو بیٹھنے کے لئے جگہ مل سکے۔ انہوں نے وہاں بیٹھ کر پہلے کی طرح ہی چائے پی اور خوراک کے ڈبے نگلے جو اب وافر مقدار میں وہاں موجود تھے کیونکہ کواپریٹو ایسو سی ایشن کا گودام لوٹا جا چکا تھا۔ میں نے اب یہ توقع کرنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ ایسے عراقی الفاظ، جیسے آغاتی یا آئینی جیسے شائستہ الفاظ برتتے ہوں گے۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے تھے جبکہ وہ میری خوراک نگلے جا رہے تھے اور میں کھڑکی کے چھپی انہیں دیکھتے ہوئے اپنی بھوک کو مٹھی بھر چاولوں سے خاموش رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ وہ چاول تھے جو مجھے ایک ڈبے میں رکھے ہوئے ملے تھے جنہیں میں وہاں رکھ کر بھول چکی تھی۔ میں نے اس ڈبے کو برسوں سے نہیں کھولا تھا، کم از کم اس وقت سے نہیں جب سے ہم اس گھر میں آئے تھے۔ شاید میں نے پرانے گھر میں انہیں اس لئے بچا کر رکھا تھا کہ یہ کسی آڑے وقت میں اس وقت کام آئیں گے جب خدا چاہے گا اور مجھے ہدایت دے گا۔

میں نے اسی روز سورج ڈھلنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ جلے ہوئے ٹینک کا رنگ بھی کالے سے، پیپ جیسے قابل نفرت زردی مائل سبز رنگ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اور میں نے کہا’۔

’’یہ نا ممکن ہے۔ شاید یہ مجھے ایسا اس لئے دِکھ رہا ہے کہ سیاہ ہوئے ٹینک کی جگہ بدل گئی ہے اور غروب ہوتے سورج کی شعاعیں اس سے اس رنگ میں منعکس ہو رہی ہیں۔‘‘

اس خیال نے مجھے کچھ دیر اور کھڑکی میں کھڑا رہنے دیا تاکہ میں اس کا مشاہدہ غور سے کر سکوں۔ میں نے ہر شے کو بخوبی جائزہ لیا اور خود سے کہا’۔

’’شاید یہ آگ بجھانے والے آلات کے بچے کھچے فوم کی وجہ سے ہے۔“

بہرحال یہ بات واضح ہو گئی کہ ٹینک کے رنگ بدلنے کا عمل ویسا ہی عمل ہے جس کے تحت صالح کا جسم بھی پروں والے اس سبز پرندے میں بدل گیا ہے جو ٹینک کی توپ پر لٹکا ہوا تھا۔ مجھے یہ یقین ہو گیا کہ وہ صالح ہی تھا کیونکہ اس کے پر خون کے دھبوں سے بھرے ہوئے تھے جبکہ اس کے سر کے بال یوں نُچے ہوئے تھے کہ سر گنجا لگتا تھا۔

میری توجہ سامنے والی کھڑکی کی طرف سے اس وقت ہٹی جب میں نے پچھلی طرف والی کھڑکی پر وقفے وقفے سے دستک کی آواز سنی۔ ایک نظر نہ آنے والے بندے کا ہاتھ کھڑکی میں سے کبھی روٹی لئے ابھرتا اور کبھی اس ہاتھ میں کچھ دینار ہوتے یا چینی یا پھر کھانا پکانے والا تیل کا ڈبہ۔ مجھے تعجب ہوا کہ میں بدلے میں انہیں کیا دے سکتی ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک ساتھی زخمی ہے جسے چھپنے کے لئے جگہ اور تیمار داری کی ضرورت ہے اور چونکہ ہمارے گھر سے چیک پوسٹ واضح طور پر نظر آتی ہے اس لئے یہ ان کے مقصد کے لئے موزوں ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ عراقی فوجی اپنے ارد گرد کے نزدیکی گھروں کو اپنے لئے خطرناک نہیں سمجھتے تھے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کیا کروں۔ وہ مجھ سے صرف یہ چاہ رہے تھے کہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیانی عرصے میں گھر کے پچھلے دروازے کا تالا کھلا رکھوں۔

مجھے یہ کچھ زیادہ مشکل نہ لگا۔ میں نے دروازے کا تالا کھول دیا اور واپس ماں کے پاس آ گئی تاکہ اسے بانہوں میں لے کر جھُلا سکوں۔ میں، گو، کانپ رہی تھی لیکن مجھے ایک بار بھی یہ خیال نہ آیا کہ میں دروازے کو دوبارہ تالا لگا دوں۔ جیسے ہی موذن نے مغرب کی اذان دینے کے لئے ’اللہ اکبر‘ کہا دو لڑکیاں بھاری بھرکم کپڑے پہنے اندر داخل ہوئیں۔ اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر انہیں خوش آمدید کہتی ان کے لبادے فرش پر گر چکے تھے اور دو جوان آدمی میرے سامنے تھے۔ ان میں سے ایک جوان کے جسم پر کئی جگہیں خون آلود پٹیوں میں جکڑی ہوئی تھیں۔ اس نے کہا کہ میں اسے اَل حکم کہہ سکتی ہوں، گو یہ اس کا اصلی نام نہ تھا۔ اور یہ کہ وہ صفائی کرنے والے ایک ادارے کا مالک تھا اور وہ اس وقت زخمی ہو گیا تھا جب اس نے اپنی کمیونٹی سے چوہوں اور آوارہ بلیوں سے پاک کرنا اپنا فرض جانا۔ مجھے اس کے لئے صرف یہ کرنا تھا کہ اسے ایک کمرے میں رکھوں اور اس کی کمر اور گردن کے ان جلے ہوئے حصوں پر دن میں دو بار مرہم لگاؤں جہاں اس کا اپنا ہاتھ نہیں پہنچ پاتا۔ میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے میں نے خود کو آزادی کے لئے لڑنے والی سمجھ لیا تھا اور میں سخت ذہنی دباؤ کے باوجود خوش بھی تھی۔ مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مرد کی پشت دیکھی۔ پہلے کچھ دن تو میں جھجکی، ڈری بھی اور میرے ہاتھ اس وقت کانپے بھی جب میں روئی کو مرہم میں بھگو کر اس کی جلد پر لگاتی۔ وہ، لیکن میرے حوصلے کو بڑھاتا اور کہتا کہ زخم کو زور سے دبانے سے مت ڈرو، یوں اس سے پیپ نکل جائے گی۔ اس کے اس جملے سے مجھے چورا ہے پر کھڑے رنگ بدلتے اور گلتے سڑتے ٹینک یاد آ جاتے۔ یہ ہمارے گھر سے پچاس میٹر کی دوری پر ہی تو تھے لیکن اب مجھے انہیں دیکھنے کی فرصت ہی نہ تھی کیونکہ میں نے ایک اہم ذمہ داری سنبھال لی تھی۔

مجھے معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ لگا تھا لیکن اَل حکم کے زخم بالآخر بھر گئے۔ اب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا اور اس کی ساری پٹیاں بھی اتر چکی تھیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ جانے سے پہلے اس نے مجھے ایک تحفہ دیا تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں۔ یہ اب بھی میرے پاس ہے اور میں اسے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھتی ہوں۔ یہ وہ دستانے تھے جو وہ اس وقت استعمال کرتا تھا جب وہ مزاحمت کاروں میں تقسیم کرنے کے لئے بارود تیار کرنے کے لئے مختلف کیمیاوی اجزاء کو آپس میں ملاتا تھا۔ ان سے ہولناک کیمیاوی بو آتی تھی لیکن میرے لئے یہ عنبر اور کستوری جیسی خوشبو تھی۔

گھر میں ایک بار پھر صرف میں اور میری ماں رہ گئے تھے۔ میں نے ایک بار پھر سوچنا شروع کر دیا کہ میں چٹخنی لگی کھڑکی کے پیچھے سے باہر جھانکنا شروع کر کے اپنا وقت گزاروں لیکن مجھ میں یہ احساس جاگا کہ مجھے باہر جانا چاہیے اور اَل حکم اور اس کے جتھے کو ڈھونڈنا چاہیے اور ان سے کوئی نئی ذمہ داری، جسے وہ مناسب گردانیں، لینی چاہیے۔ تب میں نے دیکھا اور میں یہ نظارہ کبھی نہیں بھول سکتی جس نے، ساری ابدیت کے ساتھ، مجھ میں گلیوں میں نکل جانے، خوشی سے گانے اور رقص کرنے کا سماں باندھ دیا تھا۔ جب میں نے احتیاط کے ساتھ کھڑکی میں سے جھانکا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ چورا ہے پر تباہ شدہ ٹینکوں کی قطار میں واضح طور پر اضافہ ہو چکا ہے۔ شاید وہ سات تھے، یا شاید ستر، میں انہیں گن نہ پائی کیونکہ کھڑکی ایسی جگہ پر نہ تھی کہ میں قطار کے آخر تک دیکھ سکتی۔ وہ سب پیپ زدہ تھے اور ان پر سبز رنگ کے مختلف النوع پرندے بندھے ہوئے تھے، جن میں کچھ نر اور کچھ مادہ تھے۔ ان میں سے کچھ تو ابھی بچے ہی تھے۔ یہ جنوری کا ایک سرد دن تھا۔ تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اس نے پہلے سے موجود ہوا کو تر و تازہ کر دیا جب یہ ٹینکوں کی قطار پر پہنچا تو وہ آپس میں مدغم ہو کر ایک بڑے، خوفناک ٹڈے میں بدل چکے تھے جو گل سڑ رہا تھا اور جسے دیکھ کر قے آتی تھی۔ اس کی ہیئت فریبی اور قابل نفرت تھی جس نے ہم میں خوف پھیلا دیا تھا۔ ٹھنڈی باد نسیم نے اس کے پھولے ہوئے ڈھانچے کو تباہ کر دیا تھا اور اس کی جلد وہیں الگ ہو کر نیچے گر رہی تھی جہاں وہ کھڑا تھا۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے سانپ کی کینچلی زمین پر پڑی ہو جس سے صحرائی ہوا کھلواڑ کرتی ہے اور اسے جھاڑیوں کے درمیان آگے پیچھے اچھالتی رہتی ہے۔ اسی دوران سبز پرندے بھی اڑ کر آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ ان کی فردوسی چہچہاہٹ ہر طرف گونجنے لگی جسے میں تو سن ہی رہی تھی، ہماری کمیونٹی کے ہر کونے میں بھی ان کی چہک کی باز گشت لہرانے لگی۔

٭٭٭

انوکُل

( Anukul) ۔۔۔ ستیہ جِت رے کی بنگلہ کہانی

’’کیا اس کا کوئی نام بھی ہے یا نہیں؟“، نیکنج بابو نے پوچھا۔

’’او ہاں، بالکل ہے۔‘‘

’’کیا ہے؟“

’’انوکُل۔‘‘

چورنگی میں چھ ماہ پہلے ہی رو بوٹ مہیا کرنے کی ایک ایجنسی کھلی تھی۔ نیکنج بابو ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ انہیں ایک میکانکی نوکر مل جائے۔ اب ان کا اپنا کاروبار خوب چل نکلا تھا اس لیے وہ اپنی اس ننھی سی خواہش کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔

نیکنج بابو نے رو بوٹ کا معائنہ کیا۔ یہ ایک ’اینڈرائیڈ‘ تھا، مطلب یہ کہ وہ مشین ہونے کے باوجود، دیکھنے میں ایک عام آدمی جیسا دِکھتا تھا۔ وہ دِکھنے میں دلکش اور لگ بھگ بائیس کا لگ رہا تھا۔

’’یہ رو بوٹ کس قسم کے کام کر لے گا؟“، نیکنج نے پوچھا۔

کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے سیلز مین نے سگریٹ سلگایا اور جواب دیا’۔

’’یہ کم و بیش وہ سارے کام کر لے گا جو ایک عام نوکر کرتا ہے۔ یہ بس کھانا پکانا نہیں جانتا۔ باقی، یہ کپڑے دھو سکتا ہے، صفائی کر سکتا ہے، بستر بنا سکتا ہے، چائے بنا سکتا ہے، دروازے اور کھڑکیاں کھول سکتا ہے۔۔ مطلب سبھی کچھ لیکن آپ اسے باہر مت بھیجیں۔ گھر میں تو یہ سب کچھ کر لے گا، لیکن باہر جانا اور خریداری کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اور۔۔ ہاں آپ کو اس سے شائشتگی سے بات کرنا ہو گی۔ یہ توقع کرتا ہے کہ اس سے بات کرنے والا بندہ، اسے ’پلیز‘ اور ’تھینک یو‘ کہہ کر بات کرے۔

’’مجھے امید ہے کہ یہ بدمزاج تو نہیں ہو گا؟ اور غصہ بھی نہیں کھاتا ہو گا؟“

’’نہیں، بالکل نہیں۔ یہ آپ کے لیے تب ہی مصیبت کھڑی کرے گا جب آپ اس پر ہاتھ اٹھائیں گے۔ ہمارے رو بوٹ مار برداشت نہیں کرتے۔‘‘

’’اول تو ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن پھر بھی، اگر کوئی اسے تھپڑ مار دے، تو یہ کیا کرے گا؟“

’’یہ اس کا بدلہ لے گا۔‘‘

’’کیسے؟“

” ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی استعمال کرے۔ وہ اس انگلی سے بجلی کا ایک شدید اور طاقتور جھٹکا دے سکتا ہے۔‘‘

” کیا اس کے نتیجے میں موت واقع ہو سکتی ہے؟‘‘

” یقیناً ہو سکتی ہے۔ اور قانون اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ ایک عام آدمی کی طرح، ایک رو بوٹ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔۔ لیکن میں آپ کو یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ ابھی تک ایسا کوئی واقع پیش نہیں آیا۔‘‘

” کیا یہ رات میں سوتا ہے؟“

” نہیں۔ رو بوٹ سوتے نہیں ہیں۔‘‘

” تو پھر یہ ساری رات کیا کرتا ہے؟‘‘

” یہ آرام سے، اور خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا رہتا ہے۔ رو بوٹوں میں تحمل، برداشت اور صبر کی کمی نہیں ہوتی۔‘‘

” کیا اس کا دماغ ہے؟“

” بسا اوقات رو بوٹ کچھ ایسی باتوں کا احساس کر اور انہیں سمجھ سکتے ہیں، جو انسان نہیں سمجھتا۔۔ لیکن ایسا بھی ہے کہ سارے رو بوٹ اتنے حساس بھی نہیں ہوتے۔ در اصل یہ قسمت کی بات ہے۔ یہ وقت ہی بتاتا ہے کہ ایک رو بوٹ اتنا باصلاحیت ہے کہ نہیں۔‘‘

نیکنج بابو رو بوٹ کی طرف مڑے اور بولے’۔

” انوکُل، تمہیں میرے ساتھ کام کرنے میں کوئی اعتراض تو نہیں ہے، یا ہے؟‘‘

” مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟“، انوکُل نے انسانوں سی عام آواز میں جواب دیا۔ اس نے نیلی دھاری دار قمیض اور کالی نیکر پہن رکھی تھی۔ اس کے بال ترچھی مانگ کے ساتھ اچھی طرح سنورے ہوئے تھے۔ اس کی رنگت صاف تھی۔ دانت صاف، چمکیلے اور اس کے منہ پر ہلکی سی مسکان تھی۔ اس کے سارے حلیے سے ایسا اعتماد جھلک رہا تھا جسے دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

” چلو پھر چلتے ہیں۔‘‘

نیکنج بابو کی ماروتی وین باہر کھڑی تھی۔ انہوں نے انوکُل کی ادائیگی بذریعہ جیک کی اور اسے ساتھ لیے باہر نکل آئے۔ انوکُل کی حرکات و سکنات عام انسانوں سے بالکل مختلف نہ تھیں۔

نیکنج بابو ’سالٹ لیک‘ میں رہتے تھے۔ وہ شادی شدہ نہیں تھے۔ شام میں ان کے کچھ دوست تاش کھیلنے آ جاتے۔ انہیں پہلے ہی ایک میکانکی نوکر کی بابت بتا دیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ نیکنج بابو نے انوکُل کو حاصل کرنے سے پہلے کچھ تحقیق کی تھی۔ کولکتہ کے اونچے طبقوں کے کئی لوگوں نے پہلے ہی گھر کے کام کاج کے لیے رو بوٹ رکھے ہوئے تھے۔ مانشوخانی بابو، گریج بوس، پنکھج دت رائے، چہبریا بابو۔۔ سب ہی نے کہا تھا کہ وہ مطمئن تھے اور ان کے رو بوٹ نوکروں نے ان کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کی تھی۔

” ہمارا جیون لال، جسے جو بھی کہا جائے وہ سارے کام جھٹ پٹ کر لیتا ہے۔‘‘، مانشوخانی بابو نے کہا تھا۔ ” میں تو اس بات کا قائل ہو گیا ہوں کہ وہ مشین ہے ہی نہیں۔،، اس کے پاس یقیناً ایک دماغ اور دل ہے۔‘‘

سات دنوں میں ہی نیکنج بابو کی بھی یہی رائے بن چکی تھی۔

انوکُل کے کام کرنے کا طریقہ اُتم تھا۔ لگتا تھا کہ وہ ایک کام اور دوسرے کام کے درمیان منطقی تعلق کو سمجھتا تھا۔ اگر نیکنج بابو اس سے یہ پوچھتے کہ کیا ان کے نہانے کا پانی تیار تھا، تو وہ فوراً ہی، نہ صرف پانی مہیا کرتا بلکہ صابن، تولیہ اور ساتھ میں اور جو کچھ ضروری ہوتا، وہ بھی اپنے مالک کے لیے لے آتا۔ اس کے بعد وہ اپنے مالک کے کپڑے، جوتے اور دیگر لوازمات، جن کی نیکنج بابو کو ضرورت ہو سکتی تھی، ان کے لیے تیار رکھتا۔ وہ یہ سارے کام اتنی خوش دلی اور لگن سے کرتا کہ اس کے ساتھ ناشائستہ رویہ اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

نیکنج بابو کے دوستوں، خاص طور پر وِنے پرکاشی، کو انوکُل کا عادی ہونے میں کچھ وقت لگا۔ وہ اپنے نوکر سے بھی اکثر کھردرے اور درشت لہجے میں بات کرتا تھا اور ایک بار وہ انوکُل کے ساتھ بھی قدرے درشتی سے مخاطب ہوا۔ انوکُل نے اپنی متانت برقرار رکھی۔

” دیکھئے، بڑے میاں، اگر آپ مجھ سے درشتی سے پیش آئیں گے۔‘‘، اس نے آرام سے کہا، ” تو میں بھی آپ کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آؤں گا!“

وِنے بابو نے یہ غلطی پھر نہ دوہرائی۔ نیکنج بابو نے انوکُل سے بہت اچھے تعلقات استوار کر لیے تھے۔ اس نے ان کے لیے، ان کے کہے بغیر، ان کے سارے کام کرنا شروع کر دئیے۔ نیکنج بابو کے لیے یہ سب حیرانی کا باعث تھا لیکن انہیں پھر یاد آیا، ’رو بوٹ مہیا کرنے والی ایجنسی میں سیلز مین نے یہ کہا تھا کہ کچھ خاص رو بوٹوں میں دماغ جیسا کچھ ہوتا ہے اور وہ سوچ سکتے ہیں۔ انوکُل یقیناً اسی قسم کا لگتا ہے۔‘

یہ، البتہ، سمجھنا اور یقین کرنا بہت ہی مشکل تھا کہ انوکُل بالکل بھی نہ سوتا۔

’وہ جس طرح اصلی انسانوں کی طرح کام کرتا ہے، اسے لازمی طور پر رات میں کچھ دیر تو سونا ہی چاہیے۔‘، نیکنج بابو نے یہ سوچ کر ایک رات اس بات کی پڑتال کرنا چاہی۔ وہ جیسے ہی انوکُل کے کمرے میں جھانکے، انہوں نے اسے کہتے سنا، ” جناب، کیا آپ کو کسی شے کی ضرورت ہے؟“

نیکنج بابو نے خجالت محسوس کی اور بولے، ” نہیں۔‘‘ اور الٹے قدموں لوٹ گئے۔ انوکُل کے ساتھ بہت سے موضوعات پر بات کرنا ممکن تھا۔ لگتا تھا کہ اسے کھیلوں، سنیما، تھیئٹر اور ادب پر اچھی خاصی جانکاری تھی۔ ایسا بھی لگتا تھا کہ وہ اپنے مالک کے مقابلے میں بہت سی چیزوں کے بارے میں زیادہ اور بہتر معلومات رکھتا ہو۔ نیکنج بابو اس کے علم کے پھیلاؤ اور رو بوٹ بنانے والوں کے ہنر اور مہارت پر حیران ہوتے۔

اور پھر یوں ہوا کہ ساری اچھی باتیں ایک روز ختم ہو گئیں۔

نیکنج بابو سے اپنے کاروبار میں کچھ غلط فیصلے ہو گئے۔ انوکُل کے آنے کے بعد، سال بھر میں ہی ان کی مالی حالت پتلی ہو گئی۔ وہ انوکُل کا کرایہ، جو دو ہزار روپے ماہانہ تھا، ادا کرتے رہے۔۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ وہ کس وقت یہ ادائیگی نہ کر سکتے اگر ان کی مالی حالت اسی طرح رہتی؟ ایجنسی نے انہیں کہا تھا کہ ماہانہ ادائیگی نہ ہونے پر انہوں نے رو بوٹ واپس لے لینا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ نیکنج بابو کو اپنے پیسوں کے بارے میں خاصا محتاط رویہ اختیار کرنا پڑنا تھا۔

تبھی، اس سمے کچھ ایسا ہوا جس نے نیکنج بابو کے سارے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔

ایک صبح، نیکنج بابو کے چاچا آ دھمکے۔ ” میں چندن نگر میں اکیلے رہتے رہتے اکتا گیا تھا۔۔ میں نے چنانچہ یہ سوچا کہ میں کچھ دن تمہارے ساتھ گزاروں۔‘‘، انہوں نے آتے ہی کہا۔

نیکنج بابو کے یہ چاچا، جن کا نام، نبرن بنرجی، تھا، کبھی کبھار آتے تھے اور اپنے بھتیجے کے ساتھ رہتے۔ نیکنج بابو کے والد کو فوت ہوئے عرصہ ہو گیا تھا اور نبرن، تین بھائیوں میں سے واحد تھے جو اب تک زندہ تھے۔ وہ بوڑھے ہونے کے ساتھ ساتھ چڑچڑے بھی تھے۔ کہا جاتا تھا کہ انہوں نے بطور وکیل بہت مال بنایا تھا، البتہ ان کے رہن سہن سے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہ تھا۔ وہ یقیناً ایک کنجوس آدمی تھے۔

” چاچا جی، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ میرے ہاں رہنے کے لیے آئے ہیں۔‘‘، نیکنج بابو نے کہا، ” لیکن میں آپ کو ایک بات ابھی سے صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں۔ میں نے اب ایک میکانکی نوکر رکھ لیا ہے۔ آپ نے سنا ہی ہو گا کہ اب کولکتہ میں کمپنیاں رو بوٹ بنا رہی ہیں۔‘‘

” ہاں، میں نے ان کے اشتہار دیکھے ہیں لیکن یہ بتاؤ تمہارا نوکر کہاں سے ہے؟ تمہیں پتہ ہی ہے کہ میں اس معاملے میں خاصا دھیان رکھتا ہوں۔ کیا تمہارا نیا نوکر کھانا بھی بناتا ہے؟“

” نہیں، نہیں، بالکل نہیں۔‘‘، نیکنج بابو نے انہیں یقین دلایا، ” میرے پاس ابھی پرانا والا باورچی ہے۔ آپ کو اس لیے چِنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نئے والے کا نام انوکُل ہے۔۔ اور۔۔ ہاں آپ اس کے ساتھ شائستگی سے بات کریں گے۔ اسے یہ پسند نہیں کہ لوگ اس پر چیخیں۔‘‘

” اسے پسند نہیں، یہ کیا بات ہوئی؟“

” میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اسے یہ پسند نہیں۔‘‘

” کیا مجھے اس کی پسند اور ناپسند کے مطابق چلنا پڑے گا؟‘‘

” یہ صرف آپ کے لیے ہی نہیں ہے۔ اس کا اطلاق سب پر ہوتا ہے لیکن آپ کو اس کے کام سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔

” لیکن تم اس سارے جھنجھٹ میں کیوں پڑ گئے ہو؟“

” میں نے آپ کو بتایا ہے نا۔۔ وہ ایک بہت اچھا نوکر ہے۔‘‘

” خیر، اسے بلاؤ۔ میں بھی تو دیکھوں کہ وہ کیسا ہے۔‘‘

” انوکُل!“، نیکنج بابو نے آواز دی۔ انوکُل فوراً ہی ان کے پاس آیا۔

” میرے چاچا جی سے ملو۔‘‘، نیکنج بابو نے کہا، یہ کچھ عرصہ ہمارے ہاں رہیں گے۔‘‘

” بہت اچھی بات ہے، جناب۔‘‘

” ہے بھگوان۔۔ یہ تو آدمیوں کی طرح بولتا ہے۔‘‘، نبرن بینرجی حیران ہو کر بولے، ” ٹھیک ہے، کیا تم میرے لیے گرم پانی کا بندوبست کر سکتے ہو؟ میں نہانا چاہتا ہوں۔ بارشوں کے بعد کچھ سردی سی ہو گئی ہے۔۔ لیکن میں دن میں دو بار نہانے کا عادی ہوں۔‘‘

” جی، جناب۔‘‘

انوکُل ان کے حکم کی تعمیل بجا لانے کے لیے چلا گیا۔

نبرن بابو کے آنے سے، نیکنج بابو کی مالی حالت میں تو کوئی بہتری نہ ہوئی، البتہ اس کے دوستوں نے شام میں آنا چھوڑ دیا۔ چاچا کے سامنے ’رَمی‘ یا ’پوکر‘ کھیلنا مناسب نہ تھا۔ دوسرے یہ بات بھی تھی کہ اب نیکنج بابو کے لیے پیسوں کی شرط لگانا ممکن بھی نہیں رہا تھا۔

یہ کہنا مشکل تھا کہ نیکنج بابو کے چاچا اس بار کتنی دیر کے لیے رہنے آئے تھے۔ وہ جب بھی آتے تو اپنی مرضی سے ہی جاتے۔ اس بار ایسا لگتا تھا جیسے وہ قدرے لمبے عرصے کے لیے رہنے آئے تھے۔۔ اور اس کی وجہ انوکُل تھا۔ یہ میکانکی نوکر ان کے لیے دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ناگواری کا باعث بھی تھا۔ وہ اس بات سے تو انکار نہیں کر سکتے تھے کہ انوکُل کی بطور نوکر کارگردگی کا کوئی مقابلہ نہ تھا، لیکن ساتھ ہی ایسا بھی تھا، وہ اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ محض ایک نوکر کے لیے وہ اپنے رویوں کے بارے میں محتاط رہیں۔

ایک دن انہوں نے اپنے بھتیجے سے کہا، ” نیکنج، تمہارا یہ نوکر بعض اوقات میرے لیے مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔‘‘

” کیوں، کیا ہوا؟“، نیکنج بابو نے پریشان ہو کر پوچھا۔

” کل میں گیتا کا پاٹ کر رہا تھا تو تمہارے اس خبیث نوکر نے میری اصلاح کرنے کی جرأت کی۔ اگر میرے الفاظ غلط بھی تھے تو اس کا یہ کام نہیں کہ میری اصلاح کرے۔ کیا ایسا ہوتا ہے کہ نوکر منہ کو آئے؟ یہ کچھ زیادہ ہی نہیں۔،،؟ میرا دل کیا کہ میں اسے کَس کے ایک تھپڑ رسید کروں۔ لیکن پھر میں نے خود پر مشکل سے ہی قابو پایا۔‘‘

” نہیں، چاچا جی، آپ نے ایسا کبھی نہیں کرنا اور اس پر ہاتھ تو بالکل بھی نہیں اٹھانا۔۔ اس کا اثر اور نتیجہ بہت بھیانک نکل سکتا ہے۔ مجھے اس کی کمپنی والوں نے ایسا ہی بتایا تھا۔ بہتر یہ ہو گا کہ جب وہ آس پاس ہو تو آپ گیتا کا پاٹ مت کیا کریں۔‘‘

نبرن بابو بُڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔

جیسے جیسے دن گزرتے گئے، نیکنج بابو کی آمدن اور بھی کم ہوتی گئی۔ اس کے لیے انوکُل کا کرایہ ہر ماہ دینا مشکل ہونے لگا۔ ایک روز نیکنج بابو اس کا ذکر انوکُل سے کیے بغیر نہ رہ سکے۔

” انوکُل، میرا کاروبار کچھ اچھا نہیں چل رہا۔‘‘

” مجھے معلوم ہے۔‘‘

” ہاں، شاید تم جانتے ہو۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں ان حالات میں تمہیں کتنا عرصہ اپنے پاس رکھ سکوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں خود سے الگ کروں لیکن۔۔‘‘

” مجھے اس بارے میں غور کرنے دیں۔‘‘

” کس کے بارے میں؟“

” یہی کہ اس مسئلے کا شاید کوئی حل ہو۔‘‘

” تم میری مدد کرنے کے حوالے سے کیا سوچ رہے ہو؟ کاروبار کیسے چلایا جا سکتا ہے، یہ تم کیا جانو، یا جانتے ہو؟“

” نہیں، لیکن مجھے کوشش تو کرنے دیں۔‘‘

” ٹھیک ہے۔ لیکن میں تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں۔،، میرے لیے تمہیں زیادہ دیر رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘

” جی، جناب۔‘‘

دو مہینے گزر گئے۔ یہ اتوار کا دن تھا۔ نیکنج بابو کے محتاط حساب کتاب کے مطابق وہ انوکُل کو بس دو ماہ مزید رکھ سکتا تھا۔ اس کے بعد اسے کسی بندے کو نوکر رکھنا پڑنا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس نے یہ تلاش شروع بھی کر دی تھی۔ اس صورت حال نے اس پر ایسا ذہنی دباؤ ڈالا تھا جو ختم ہونے کو ہی نہ آتا۔ اوپر سے معاملات کو اور خراب کرنے کے لیے بارشیں تھیں کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔

نیکنج بابو نے اخبار ایک طرف رکھا اور وہ انوکُل کو آواز دے کر بلانے ہی والا تھا کہ وہ انہیں چائے کی ایک پیالی بنا کر دے، وہ خود ہی آ گیا۔

” انوکُل، کیا بات ہے؟“

” جناب، ایک حادثہ ہو گیا ہے۔‘‘

” حادثہ؟ کیا ہوا؟“

” آپ کے چاچا کھڑکی کے نزدیک کھڑے ٹیگور کا بارش کے بارے میں ایک گیت گا رہے تھے۔ ان کے منہ سے کچھ الفاظ غلط نکلے تو میں نے اپنا یہ فرض جانا کہ ان کی درستی کر دوں۔ میں نے انہیں درست الفاظ بتائے، اس پر وہ اتنا برہم ہوئے کہ انہوں نے مجھے تھپڑ مار دیا۔ مجھے جواباً ان سے حساب برابر کرنا پڑا۔‘‘

” ان سے حساب برابر کرنا پڑا؟ کیا مطلب؟“

” جی، مجھے ان کو بجلی کا ایک شدید جھٹکا دینا پڑا۔‘‘

” اس کا مطلب۔۔،؟‘‘

” جی، وہ مر چکے ہیں۔ لیکن جس وقت میں نے انہیں بجلی کا جھٹکا دیا تھا تو اسی وقت آسمانی بجلی بھی چمکی تھی۔‘‘

”ہاں، بجلی کڑکنے کی آواز تو میں نے بھی سنی تھی۔‘‘

” اس لیے آپ کو ان کے مرنے کی اصل وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

” لیکن۔۔‘‘

” آپ فکر نہ کریں، جناب۔ آپ کے چاچا کا مرنا آپ کے لیے اچھا ثابت ہو گا۔‘‘

اور پھر ایسا ہی ہوا۔ چاچا کی موت کے دو دن بعد، نیکنج بابو کو چاچا کے وکیل، بھاسکر بوس کا فون آیا۔ نبرن بابو نے اپنی ساری جائیداد اپنے بھتیجے کے نام چھوڑی تھی۔ اس کی مالیت دس لاکھ سے اوپر ہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

[ یہ کہانی پہلی بار 1986ء میں بنگالی میں شائع ہوئی تھی۔ اسے گوپا موجدمدار نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ یہ” The Collected Short Stories by Satyajit Ray‘‘ میں شامل ہے۔ اسے پینگوئن رینڈم ہاؤس، انڈیا نے 2012ء میں شائع کیا۔

2017ء میں اس کہانی پر اسی نام سے ہندوستانی فلم ڈائریکٹر ’سوجوئے گھوش‘ نے 21 منٹ کی ایک مختصر فلم بنائی۔ ہم عصر زمانے میں بنی اس فلم کا ماحول بھی 21ویں صدی کی دوسری دہائی کا ہی دکھایا گیا ہے۔ اس فلم میں نیکنج بابو کو ہندی کا ایک استاد دکھایا گیا ہے جبکہ کہانی میں وہ ایک بزنس مین ہے۔ کہانی میں ’گیتا‘ کا ذکر ضمنی ہے جبکہ فلم کا ’premises‘ اس کے گرد کھڑا کیا گیا ہے۔ فلم میں نیکنج بابو کے چاچا کا کردار بھی پس منظر میں گیا ہوا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا کردار رتن جو نیکنج بابو کا کزن ہے، کھڑا کیا گیا ہے۔ فلم میں رو بوٹسvs انسانی محنت بھی فلم کا موضوع ہے جبکہ کہانی میں اس تضاد کا کوئی ذکر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سوجوئے گھوش نے اپنے تئیں ستیہ جِت رے کو 21ویں صدی میں بھی زندہ رکھنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ فلم میں نیکنج بابو کا کردار سہرابھ شُکلا نے جبکہ انوکُل کا، پارم برات چٹوپادھے نے ادا کیا ہے۔ پارم برات چٹوپادھے نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ’رے‘ کے بیٹے سندیپ کی فلم میں ’رے‘ کے ہی کردار ’ٹوپشی‘ سے کیا تھا۔]

٭٭٭

ماخذ: فیس بک، قیصر نذیر خاور کی وال

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل