FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

خون اندھا ہو چکا ہے

               عادلؔ منصوری

 

جمع و ترتیب: عزیز نبیل، اعجاز عبید

 

 

 (آمد:۱۹۳۶ء ۔  رفت:۷ /نومبر  ۲۰۰۸ء)

 

غزلیں

پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں

پھر کسی یاد کی تلوار سے مارا جاؤں

پھر کوئی وسعتِ آفاق پہ سایہ ڈالے

پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں

دن کے ہنگاموں میں دامن کہیں میلا ہو جائے

رات کی نقرئی آتش میں نکھارا جاؤں

خشک کھوئے ہوئے گمنام جزیرے کی طرح

درد کے کالے سمندر سے ابھارا جاؤں

اپنی کھوئی ہوئی جنت کا طلب گار بنوں

دست یزداں سے گنہ گار سنوارا جاؤں

٭٭

بلاتے رہ گئے پیڑوں کے سائے

پرندے باغ میں واپس نہ آئے

نہیں کھلتی کئی دن سے وہ کھڑکی

تمنا دل ہی دل میں سٹپٹائے

ندی میں ڈوبنے لگتا ہے سورج

گزر جاتے ہیں سائے سر جھکائے

بہت ہی سرد تھا موسم کا جھونکا

تمہارے ہونٹ شب بھر یاد آئے

کنارے جھیل کے خوابیدہ کشتی

کہیں پانی میں سائے جھلملائے

بندھا ہے کچے دھاگے سے ہی سب کچھ

نہ جانے کب یہ دھاگا ٹوٹ جائے

کئی راتوں کے ہم جاگے ہیں عادلؔ

گھڑی بھر تو خدارا نیند آئے

٭٭

ابلاغ کے بدن میں تجسس کا سلسلہ

ٹوٹا ہے چشمِ خواب میں حیرت کا آئینہ

جو آسمان بن کے مسلط سروں پہ تھا

کس نے اسے زمین کے اندر دھنسا دیا

بکھری ہیں پیلی ریت پہ سورج کی ہڈیاں

ذروں کے انتظار میں لمحوں کا جھومنا

احرام ٹوٹتے ہیں کہاں سنگ وقت کے

صحرا کی تشنگی میں  ابوالہول ہنس پڑا

انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام

پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا

شریانیں کھنچ کے ٹوٹ نہ جائیں تناؤ سے

مٹی پہ کھل نہ جائے یہ دروازہ خون کا

موجیں تھیں شعلگی کے سمندر میں تندو تیز

میں رات بھر ابھرتا رہا ڈوبتا رہا

الفاظ کی رگوں سے معانی نچوڑ لے

فاسد مواد کاغذی گھورے پہ ڈال آ

٭٭

آدھوں کی طرف سے کبھی پونوں کی طرف سے

آوازے کسے جاتے ہیں بونوں کی طرف سے

حیرت سے سبھی خاک زدہ دیکھ رہے ہیں

ہر روز زمیں گھٹتی ہے کونوں کی طرف سے

آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں اس دربدری میں

کچھ ٹوٹے ہوئے خواب کھلونوں کی طرف سے

تو وہم و گماں سے بھی پرے دیتا ہے سب کو

ہو جاتا ہے پل بھر میں نہ ہونوں کی طرف سے

باتوں کا کوئی سلسلہ جاری ہو کسی طور

خاموشی ہی خاموشی ہے دونوں کی طرف سے

پھر بعد میں دروازہ دکھا دیتے ہیں عادلؔ

پہلے وہ اٹھاتے ہیں بچھونوں کی طرف سے

٭٭

جو چیز تھی کمرے میں وہ  بے ربط پڑی تھی

تنہائیِ شب بندِ قبا کھول رہی تھی

آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی

کھڑی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی

بالوں نے تیرا لمس تو محسوس کیا تھا

لیکن یہ خبر دل نے بڑی دیر سے دی تھی

ہاتھوں میں نیا چاند پڑا ہانپ رہا تھا

رانوں پہ برہنہ سی نمی رینگ رہی تھی

یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر

آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی

دنیا کی گزرتے ہوئے پڑتی تھیں نگاہیں

شیشے کی جگہ کھڑکی میں رسوائی جڑی تھی

ٹوٹی ہوئی محراب سے گنبد کے کھنڈر تک

اک بوڑھے موذن کی صدا گونج رہی تھی

٭٭

جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقشِ پا

سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا

چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی

کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا

بستر میں ایک چاند تراشا تھا لمس نے

اس نے اٹھا کے چائے کے کپ میں ڈبو دیا

ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی

ہر جسم پر تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا

دیکھا تھا سب نے ڈوبنے والے کو دور دور

پانی کی انگلیوں نے کنارے کو چھو لیا

آئے گی رات منہ پہ سیاہی ملے ہوئے

رکھ دے گا دن بھی ہاتھ میں کاغذ پھٹا ہوا

کیا خوب جچ رہا تھا لباسِ برہنگی

آ جا اسی لباس میں اک بار پھرسے آ

٭٭

کون تھا وہ خواب کے ملبوس میں لپٹا ہوا

رات کے گنبد سے ٹکرا کر پلٹ آئی صدا

میں کہ تھا بکھرا ہوا ساحل کی پیلی ریت پر

اور دریا میں تھا نیلا آسماں ڈوبا ہوا

اپنی جانب کھینچنا ہی تھا گزرتے وقت کو

ٹوٹتے لمحوں کے سایوں کو میں پھیلاتا رہا

سوچ کی سوکھی ہوئی شاخوں سے مرجھائے ہوئے

ٹوٹ کر گرتے ہوئے لفظوں کو میں چنتا رہا

جب بھی خود کی کھوج میں نکلا ہوں اپنے جسم سے

کالی تنہائی کے جنگل سے گزرنا ہی پڑا

پھیلتا جاتا ہے ٹھنڈی چاندنی کے ساتھ ساتھ

شعلہ شعلہ لذتوں کی تشنگی کا دائرہ

٭٭

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا

میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا

گھونگھٹ میں مرے خواب کی تعبیر چھپی تھی

مہندی سے ہتھیلی میں مرا نام لکھا تھا

لب تھے کہ کسی پیالی کے ہونٹوں پہ جھکے تھے

اور ہاتھ کہیں گردن مینا میں پڑا تھا

حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی

سگرٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا

دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی

اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا

معلوم نہیں پھر وہ کہاں چھپ گیا عادلؔ

سایہ سا کوئی لمس کی سرحد پہ ملا تھا

٭٭

آباد شہر چھوڑ کے سنسان راستے

جنگل کی سمت جانے کسے ڈھونڈنے چلے

کیا پوچھتے ہو کیسے رہے دن بہار کے

گر پھول بے شمار تھے، کانٹے بھی کم نہ تھے

گھر سے گلی کی سمت مرے پاؤں جب بڑھے

دروازے پوچھنے لگے، صاحب کدھر چلے؟

پانی پلانے والا وہاں کوئی بھی نہ تھا

پنگھٹ کے پاس جا کے بھی ہم تشنہ لب رہے

٭٭٭

 

پہلو کے آر پار اترتا ہوا سا ہو

اک شخص آئینے میں اترتا ہوا سا ہو

معشوق ایسا ڈھونڈیے قحط الرجال میں

ہر بات میں اگرتا مگرتا ہوا سا ہو

قیلولہ کر رہے ہوں کسی نیم کے تلے

میداں میں رخشِ عمر بھی چرتا ہوا سا ہو

ہر اک نیا خیال جو ٹپکے ہے ذہن سے

یوں لگ ہے جیسے کہ برتا ہوا سا ہو

٭٭٭

 

ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا

ایک مشتِ خاک جو بکھری تو صحرا کر دیا

میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر

اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا

دنیا بھر کی خاک کوئی چھانتا پھرتا ہے اب

آپ نے در سے اٹھا کر کیسا رسوا کر دیا

٭٭٭

 

نظمیں

               نظم

خوں پتھر پہ سرک آیا

گہرا نیلا رنگ ہوا میں ڈوب گیا

جل کنیا کے جسم پہ کالے سانپ کا سایہ لہرایا

دریا دریا زہر چڑھا

گیلی ریت پہ دھوپ نے اپنا نام لکھا

مٹھی میں مچھلی کا آنسوں سوکھ گیا

گھوڑوں کی ٹاپوں سے کمرہ گونج اٹھا

خرگوشوں کی آنکھوں سے سورج نکلے

پھر دریا کی ناف میں کشتی ڈوب گئی

کاغذ کے صحرا میں پانی مت ڈھونڈو

اہراموں کے دروازے کب کھلتے ہیں

ہینگر پہ کپڑے کی لاش لٹکتی ہے

پربت پربت ننگی روح بھٹکتی ہے

مجھ سے یہ مت پوچھو لوگو میں کیا ہوں

زنگ آلود شہر پہ تھوکنے آیا ہوں

٭٭٭

 

               وقت کی پیٹھ پر

وقت کی پیٹھ پر

کچے لمحوں کے دھاگوں میں لپٹا ہوا

شہر کی سیڑھیوں پر سرکتا ہوا

نت نئے

خودکشی کے طریقوں کا موجد بنا

حبشی راتوں کے جنگل میں بکھری ہوئی

لمس کی ہڈیاں

چن رہا ہوں نہ جانے میں کس کے لیے

جب مرے نام کے لفظ تنہا تھے لوگو

تمہیں سرخ ہونٹوں کی خیرات

کیسے ملی یہ بتاؤ

ریفریجیٹر میں رکھی ہوئی طشتری میں

میری دونوں آنکھیں برہنہ پڑی تھیں

وہاں تک کسی خواب کے ہاتھ پہونچے نہیں

کبوتر کی آنکھوں میں

ٹوٹے ہوئے آسمانوں کا تنزل نہ دیکھو

بدن کے شکستہ کھنڈر سے نکل بھاگنے کے لیے پھر

تمہاری مدد کی ضرورت ہے مجھ کو

٭٭٭

 

               نظم

وہ ایک لمحہ

وہ سر پٹکتا ہے پتھروں پر

پڑا ہوا ہے جو شام کے پھیلتے دھوئیں میں لہو میں لت پت

وہ ایک لمحہ

 کہ جس کی خاطر ہزاروں صدیاں کروڑوں بر سوں سے آبلہ پا

مگر وہ لمحہ

سفر کی پیلی اداسیوں کے کبوتروں کے پروں سے الجھا

سواد منزل کی مشعلوں میں

پگھل پگھل کر عیاں ہوا ہے

وہ ایک لمحہ

 سلگتے شبدوں کی انگلیوں سے گرا جو نیچے

تو دھنس گیا پھر اٹل معانی کی دلدلوں میں

 مگر یہ اچھا ہوا کہ اس دم

کھجور بھر کر جہاز آئے

تمام نظریں کھجور کی گٹھلیوں میں انزال ڈھونڈتی تھیں

وہ چھ مہینے جمل اُٹھائے ہمارے گھر کی قدیم زینت

نہ سیڑھیوں پر

 نہ کھڑکیوں میں

نہ چائے کی پیالیوں سے اُٹھتے دھوئیں کے پیچھے

تمنا کاغذ پہ پھیل جائے تو اس کی شدت کا نام ٹوٹے

سفید بکری کی آنکھ سے کون جھانکتا ہے

 تمہیں خبر ہے ؟

تمہیں خبر ہو تو مجھ سے کہہ دو

میں اپنے والد کی قبر کا را ستہ تلاشوں

ادھر بھی سورچ میں سارا منظر لہو لہو ہے

 ادھر بھی سایوں میں ساری آنکھیں دھواں دھواں ہیں

یہ بند آنکھوں میں کون چھپ کر

 بدن کے اندر کو جھانکتا ہے

 خموشیوں کے کھنڈر میں گونجی اذاں فجر کی

 وضو کے پانی کے ساتھ سارے گناہ ٹپکے

 دعا میں اس نے شراب مانگی تو

 تشنگی کے سراب چھلکے

ستارے نیچے اتر کے آئے

 وہ ایک لمحہ

 شکستگی کے بدن کے با ہر

 وہ ایک لمحہ

شکستگی کے بدن کے اندر

وہ ایک لمحہ ہزار صدیوں کے بندھنوں سے نکل کر آیا

 وہ ایک لمحہ جو دسترس کے وسیع حلقوں سے دور رہ کر

 رطوبتوں میں بڑی تمازت سے مسکرا یا

 مقدروں میں ہزار لمحوں کے درمیاں جس کا تخت خالی

لہو میں لت پت وہ ایک لمحہ

 وہ ایک لمحہ جو سر پٹکتا ہے پتھروں پر

٭٭٭

 

               خون اندھا ہو چکا ہے

خون اندھا ہو چکا ہے

گوشت …

بہرے گو شت کی دیوار کے سایے میں

 سورج سوچکا ہے۔

 چاندنی کی لاش ساحل پر پٹک کر

 را ت کا دریا اتر تا جا رہا ہے

 صبح کی چھاتی کا کچا دودھ مر تا جا رہا ہے

 روز کالی گھاس میں تم بیٹھتے ہو

  کیا تمہیں معلوم ہے

 اس سنگ دل دھرتی نے

 اپنے پیٹ میں کیا کیا چھپا رکھا ہے ؟بولو

اپنے بستر سے اُٹھو

دروازہ کھولو

جس مکاں میں رات بھر آرام سے سو تے ہو تم

 اس مکاں میں

 خواہشوں کے بھوت

 لذت کی چڑیلیں

 جاگتے ہیں۔۔۔۔ جا گتی ہیں را ت بھر

 ان کے ہنسنے کی صدائیں

 ان کے رو نے کی صدائیں

 آسمانوں نے۔۔ زمینوں نے سنیں

 جلتے صحراؤں میں خوابوں کے دفینے

 ڈھونڈنے نکلے ہیں پر بت

 پر بتوں کی چوٹیوں سے

 برف نے آواز دی ہے۔

 ریل کی پٹری پہ

 کس کے خون کے دھبے پڑے ہیں

 سٹیشنوں پر۔۔۔

ہاتھ میں آئینے لے کر

کس کے استقبال کی خاطر کھڑے ہو

اے ستو نو

 اس جگہ پر کیوں گڑے ہو

کیوں …………؟

٭٭٭

               مسخ شدہ چہرے والا پانی

 لمس کی دھنک ٹوٹے

آسمانی پستانوں کے درمیان ڈولتی تیرگی

خلا کے ہونٹوں میں جذب ہو

جذب ہو ایک لمحے کا لہو

 روتی رہیں ہوائیں

پیپ میں لتھڑے ہوئے ہاتھوں میں منہ چھپائے

 روتی رہیں

 جلنے لگے سمندر کی گہرائیاں

 ڈھلنے لگے وسعتیں

 پگھلتی رہے ایک ایک سورج کی برف

 ستارے کینچلی اتارے

پڑے رہیں نڈھال

 سر نہ تال

 کھو جائے

دشاؤں کی گپھاؤں میں کھو جائے

 افق کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ

 با ز گشت نہ آہٹ

 سایوں کی دیواروں سے ٹکرائیں

 خواہش کی کرنیں

 ٹوٹ ٹوٹ جائیں

 بند آنکھیں ، کھلے ہونٹ

 بند آنکھیں ، کھلے ہونٹ

 لرزتے رہیں پرکھوں کے اندھیرے

 کھوکھلی ہڈیوں میں

 دھند لے سویر ے

 بھاپ بن کر اُڑے

 جسم کی گرمی

کافی کے کپوں سے

 پانی میں عکس پڑے پانی کا

 پانی میں پانی

مسخ شدہ چہرے والا پانی

٭٭٭

 

               گوشت کی سڑکوں پر

 پھول با سی ہو گئے ہیں

 لمس کی شدت سے تھک کر

 ہاتھ جھوٹے ہو گئے ہیں

 اس جگہ کل نہر تھی اور آج دریا بہہ رہا ہے

بوڑھا مانجھی کہہ رہا ہے

خواہشوں کے پیڑ پر لٹکے ہوئے

 سایوں کو دیمک کھا رہی ہے

 وقت کی نالی میں

 سورج چاند تارے بہہ رہے ہیں

برف کے جنگل سے شعلے اُٹھ رہے ہیں

خواب کے جلتے ہوئے چیتے

 میری آنکھوں میں آ کر چھپ گئے ہیں

 گھر کی دیواروں پہ

تنہائی کے بچھو رینگتے ہیں

 تشنگی کے سانپ

خالی پانی کے مٹکے میں اپنا منہ چھپائے رو رہے ہیں

 رات کے بہکے ہوئے ہاتھی

افق کے بند دروازے پہ دستک دے رہے ہیں

 ہاتھ چھوڑو

ہاتھ میں کانٹا چبھا ہے

تین دن سے پھانس اندر ہے

 نکلتی ہی نہیں

 نام کیا ہے اور کہاں رہتے ہو تم ؟

جامع مسجد کے قریب!

کہتے ہیں مسجد کے مینارے بھی تھے

 شہر میں اِک زلزلہ آیا تھا جس سے گر گئے

 گو شت کی سڑکوں پہ

 کالے خون کے سایوں کا سورج چل رہا ہے

 لذتوں کی آگ میں تن جل رہا ہے۔

٭٭٭

 

               موت : ایک سرریلسٹ تجربہ

کھر پچھاڑ کر، دم اچھال کر دوڑے

ڈمر کا لے گھوڑے، سفید چٹانی رتھ جوڑے

 بھڑکے چھاتی سامنے، آدھے بند کروں کو اڑ

دھڑ دھڑ دھڑ دھڑ آ کر سیدھے ٹکرائے، دھاڑ ………….. !

پلکیں توڑ یں ، توڑیں چٹانیں

 کھوپڑیوں کی کرچیوں میں گہرائی میں آنکھ میں جا کر سوئے

 ملا جلا جہاں ملبہ پڑا وہاں گول گو ل میں گھوموں

 میری اور گھوڑوں کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں جھک جھک جھانکوں

 اندر سے وہاں

 کہاں ؟ کہاں ؟ کہاں ؟ کہاں ؟

کھڑ پچھاڑ کر، دم اچھا ل کر دوڑے

 ڈمر سفید گھوڑے، قضا نے چٹانی رتھ جوڑے۔

٭٭٭

 

               ویدنا کو کس طرح آکار دو گے

 ویدنا کو کس طرح آکار دو گے

 کالی گھٹناؤں کی کڑوی شونیتا کو

 کس طرح دھتکار دو گے

 تم ستاروں کے پجاری

 سوریہ پر وشواس کیسے رکھ سکو گے

 سور یہ تو سا کچھا اگنی

 گھومتا ہے میری رگ رگ میں لہو بن کر

 تم کشیتج کے ٹوٹنے کی کیوں پرتکشا کر رہے ہو

 ہو سکے تو یوں بکھر جانے سے پہلے

 اپنا استی تو بچا لو

 دنبھ سے دامن چھڑا لو

٭٭٭

 

               پرانی تاریخ کا دروازہ کھولنے کی تمنا

مجھ کو اپنا گر بھ جیون یاد ہے

 آج بھی چمڑی کے نیچے جاگتی ہے

 جنم پل کی ویدنا

 شونیتا کی چہار دیواری میں

 بہرے اندھکاروں کا ولاپ

 میری قسمت میں لکھا ہے سو رج کا شراپ

 کا ش کوئی پھر مجھے

 سپرش کی اندھی گپھا میں پھینک دے

٭٭٭

 

               پلیٹ فارم کی بھیڑ میں

 پلیٹ فارم کی بھیڑ میں

 پچھلے جنم کے چہرے والا آدمی

 مجھے گھور رہا ہے

 یا گھورتی بھیڑ سے

 پچھلے جنم کا پلیٹ فارم

 میرا چہرہ ڈھونڈ رہا ہے

 یا پلیٹ فارم کے چہرے میں

 پچھلے جنم کی بھیڑ کو

 میں گھور رہا ہوں

٭٭٭

               کھوکھلے لفظوں کی دیوار بنانے والو

کھوکھلے لفظوں کی دیوار بنانے والو

کب کا وہ ٹوٹ چکا سرخ خطیبانہ طلسم

اور تم صبح کے رستے میں پڑے سوتے ہو

فکر کے بالوں پہ بے عقل سفیدی چھائی

منتشر کر گئیں گمنام ہوائیں تنکے

شیروانی سے ہوئے اور بھی موزوں قامت

پہلے اک چوکھٹا بنوا لو نئے دانتوں کا

تاکہ تم آئینہ دیکھو تو ذرا ہنس تو سکو

٭٭٭

 

والد کی موت پر

وہ چالیس راتوں سے سویا نہ تھا

وہ خوابوں کو اونٹوں میں لادے ہوئے

رات کے ریگزاروں پہ چلتا رہا

چاندنی کی چتاؤں میں جلتا رہا

میز پر

کانچ کے ایک پیالے میں رکھے ہوئے

روح کا ہاتھ چھلنی ہوا

سوئی کی نوک سے

خواہشوں کے دیے

جسم میں بجھ گئے

٭٭٭

 

تنہائی

وہ آنکھوں پر پٹی باندھے پھرتی ہے

دیواروں کا چونا چاٹتی رہتی ہے

خاموشی کے صحراؤں میں اس کے گھر

مرے ہوئے سورج ہیں اس کی چھاتی پر

اس کے بدن کو چھو کر لمحے سال بنے

سال کئی صدیوں میں پورے ہوتے ہیں

٭٭٭

 

               میرین ڈرائیو

شہریوں سے تنگ آ کر

شور سے دامن چھڑا کر

اونچی اونچی بلڈنگیں

خود کشی کرنے کی خاطر

صف بہ صف دریا کنارے

دیر سے آ کر کھڑی ہیں

٭٭٭

 

رات

رات چوپاٹی کی ٹھنڈی ریت میں

خواہشوں کے گرم سائے سوگئے

لذتوں کے جنگلوں میں کھو گئے

٭٭٭

 

موم کی دو انگلیاں

موم کی دو انگلیاں

کالی کافی کے کپوں میں گھل گئیں

کوکا کولا میں

اکیلی شام کے سورج کی کرنیں بجھ گئیں

پانی کے جگ میں سمندر چیخ اٹھا

سینڈوچ کے دل میں کانٹے گھپ گئے

پلیٹ میں بیٹھے ٹماٹر ہنس پڑے

کیتلی سے شام کی کالی اداسی بھاپ بن کر اڑ گئی

آنکھ مٹکاتی ہوئی وہ دوسرے ٹیبل کی جانب مڑ گئی

٭٭٭

ماخذ: عزیز نبیل کے جریدے ’دستاویز‘ کے ایک شمارے اور انٹر نیٹ کی مختلف سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید