فہرست مضامین
خوبیاں زیبائیاں رعنائیاں
کیفؔ بھوپالی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
داغ دنیا نے دیئے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا
کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے
ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
کبھی لکھوانے گئے خط، کبھی پڑھوانے گئے
ہم حسینوں سے اسی حیلے بہانے سے ملے
اک نیا زخم ملا، ایک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے
ایک ہم ہی نہیں پھرتے ہیں لئے قصۂ گم
ان کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے
کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ
ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے
٭٭٭
در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
پھر یہ بارش مری تنہائی چرانے آئی
زندگی باپ کی مانند سجا دیتی ہے
رحم دل ماں کی طرح موت بچانے آئی
آج کل پھر دل برباد کی باتیں ہے وہی
ہم تو سمجھے تھے کہ کچھ عقل ٹھکانے آئی
دل میں آہٹ سی ہوئی روح میں دستک گونجی
کس کی خوشبو یہ مجھے میرے سرہانے آئی
میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا
دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی
تیری مانند تری یاد بھی ظالم نکلی
جب بھی آئی ہے مرا دل ہی دکھانے آئی
٭٭٭
گردش ارض وسما نے مجھے جینے نہ دیا
کٹ گیا دن تو ہمیں رات نے جینے نہ دیا
کچھ محبت کو نہ تھا چین سے رکھنا منظور
اور کچھ ان کی عنایات نے جینے نہ دیا
حادثہ ہے کہ ترے سر پہ یہ الزام آیا
واقعہ ہے کہ تیری ذات نے جینے نہ دیا
کیفؔ کے بھولنے والے خبر ہو کہ اسے
صدمۂ ترک ملاقات نے جینے نہ دیا
٭٭٭
ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں بدنامیاں رسوائیاں
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں مجبوریاں تنہائیاں
کیا زمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات
کروٹیں بیتابیاں انگڑائیاں
کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار
آہٹیں گھبراہٹیں پرچھائیاں
ایک رند مست کی ٹھوکر میں ہے
شاہیاں سلطانیاں دارائیاں
ایک پیکر میں سمٹ کر رہ گئی
خوبیاں زیبائیاں رعنائیاں
رہ گئی ایک طفلِ مکتب کے حضور
حکمتیں آگاہیاں دانائیاں
زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں
بدلیاں برکھا رتیں پروائیاں
دیدہ او دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں ناکامیاں پسپائیاں
میرے دل کی دھڑکنوں میں ڈھل گئی
چوڑیاں، موسیقیاں، شہنائیاں
ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئی
الجھنیں فکریں قیاس آرائیاں
کیفؔ پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں خاموشیاں گہرائیاں
٭٭٭
ہم کو دیوانہ جان کے کیا کیا ظلم نہ ڈھایا لوگوں نے
دین چھڑایا دھرم چھڑایا دیس چھڑایا لوگو نیں
تیری گلی میں آ نکلے تھے دوش ہمارا اتنا تھا
پتھر مارے تہمت باندھی عیب لگایا لوگوں نے
تیری لٹوں میں سو لیتے تھے بے گھر عاشق بے گھر لوگ
بوڑھے برگد آج تجھے بھی کاٹ گرایا لوگوں نے
نور سحر نے نکہت گل نے رنگ شپھک نے کہہ دی بات
کتنا کتنا میری زباں پر کپھل لگایا لوگوں نے
‘میر’ تقی کے رنگ کا گازہ رو غجل پر آ نہ سکا
کیفؔ ہمارے ‘میر’ تقی کا رنگ اڑایا لوگوں نے
اس طرح محبت میں دل پہ حکمرانی ہے
دن نہیں میرا گویا ان کی راجدھانی ہے
گھاس کے گھروندے سے زور آزمائی کیا
آندھیاں بھی پگلی ہے برق بھی دیوانی ہے
شائد ان کے دامن نے پونچھ دیں میری آنکھیں
آج میرے اشکوں کا رنگ زعفرانی ہے
پوچھتے ہو کیا بابا کیا ہوا دل زدہ
وہ میرا دل زندہ آج آن جہانی ہے
کیفؔ تجھ کو دنیا نے کیا سے کیا بنا ڈالا
یار اب میرے منھ پر رنگ ہے نہ پانی ہے
جب ہمیں مسجد میں جانا پڑا ہے
راہ میں اک مے خانہ پڑا ہے
جائیے اب کیوں جانب صحرا
شہر تو خود ویرانہ پڑا ہے
ہم نہ پئینگے بھیک کی ساقی
لے یہ تیرا پیمانہ پڑا ہے
حرج نہ ہو تو دیکھتے چلیے
راہ میں اک دیوانہ پڑا ہے
ختم ہوئی سب رات کی محفل
ایک پر پروانہ پڑا ہے
جھوم کے جب رندوں نے پلا دی
شیخ نے چپکے چپکے دعا دی
ایک کمی تھی تاج محل میں
میں نے تیری تصویر لگا دی
آپ نے جھوٹھا وعدہ کر کے
آج ہماری عمر بڑھا دی
ہائے یہ ان کا طرظ محبت
آنکھ سے بس اک بوند گرا دی
کام یہی ہے شام سویرے
تیری گلی کے سو سو پھیرے
سامنے وہ ہیں جلپھ بکھیرے
کتنے حسیں ہے آج اندھیرے
ہم تو ہیں تیرے پوجنے والے
پاؤں نہ پڑوا تیرے میرے
دل کو چرایا خیر چرایا
آنکھ چرا کر جا نہ لٹیرے
کون آئیگا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواوٴں نے ہلایا ہوگا
دل ناداں نہ دھڑک اے دل ناداں نہ دھڑک
کوئی خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہوگا
اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل
تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہوگا
دل کی قسمت ہی میں لکھا تھا اندھیرا شائد
ورنہ مسجد کا دیا کس نے بجھایا ہوگا
گل سے لپٹی ہوئی تتلی ہو گرا کر دیکھو
آندھیوں تم نے درختوں کو گرایا ہوگا
کھیلنے کے لئے بچے نکل آئے ہو نگے
چاند اب اس کی گلی میں اتر آیا ہوگا
کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا
خانقاہ میں صوفی منھ میں چھپائے بیٹھا ہے
غالباً زمانے سے مات کھائے بیٹھا ہے
قتل تو نہیں بدلہ قتل کی ادا بدلی
تیر کی جگہ قاتل ساز اٹھائے بیٹھا ہے
ان کے چاہنے والے دھوپ دھوپ پھرتے ہیں
غیر ان کے کوچے میں سائے سائے بیٹھا ہے
واہ عاشق ناداں کائینات یہ تیری
اک شکستہ شیشے کو دل بنائے بیٹھا ہے
دور بارش اے گل چیں وا ہے دیدۂ نرگس
آج ہر گل رنگیں خوار کھائے بیٹھا ہے
کٹیا میں کون آئیگا اس تیرگی کے ساتھ
اب یہ کواڑ بند کرو خامشی کے ساتھ
سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ
چلتے ہیں بچ کے شیکھ او برہمن کے سائے سے
اپنا یہی عمل ہے برے آدمی کے ساتھ
شائستگان شہر مجھے خواہ کچھ کہیں
سڑکوں کا حسن ہے میری آوارگی کے ساتھ
شائیر ہکایتیں نہ سنا وصل او عشق کی
اتنا بڑا مذاق نہ کر شائیری کے ساتھ
لکھتا ہے غم کی بات مرسرت کے موڈ میں
مخصوص ہے یہ طرز فقط کیفؔ ہی کے ساتھ
نہ آیا مزا شب کی تنہائییوں میں
سحر ہو گئی چند انگڑائیوں میں
نہ رنگینیوں میں نہ رانائیوں میں
نظر گھر گئی اپنی پراچھائیوں میں
مجھے مسکرا مسکرا کر نے دیکھو
میرے ساتھ تم بھی ہو روسوائییوں میں
غضب ہو گیا ان کی محفل سے آنا
گھرا جا رہا ہوں تماشائیوں میں
محبت ہے یا آج ترک محبت
ذرا مل تو جائیں وہ تنہائیوں میں
ادھر آؤ تم کو نظر لگ نہ جائے
چھپا لوں تمہیں دل کی گہرائیوں میں
ارے سننے والو یہ نگمیں نہیں ہے
میرے دل کی چیخیں ہے شہنائیوں میں
وہ اے کیفؔ جس دن سے میرے ہوئے ہیں
تو سارا زمانا ہے شیدائیوں میں
سلام اس پر اگر ایسا کوئی فنکار ہو جائے
سیاہی خون بن جائے قلم تلوار ہو جائے
زمانے سے کہو کچھ سائیکا رپھتار ہو جائے
ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو جائے
زمانے کو تمنا ہے تیرا دیدار کرنے کی
مجھے یہ پھرک ہے مجھ کو میرا دیدار ہو جائے
وہ جلپھیں سانپ ہیں بے شک اگر زنجیر بن جائیں
محبت زہر ہے بے شک اگر آزار ہو جائے
محبت سے تمہیں سرکار کہتے ہیں وگرنہ ہم
نگاہیں ڈال دیں جس پر وہی سرکار ہو جائے
تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
حسینوں سے رکیبوں سے گموں سے گم گساروں سے
انہیں میں چھین کر لایا ہوں کتنے دعوے داروں سے
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے
سنے کوئی تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
پہاڑوں سے گپھاؤں سے بیابانوں سے گاروں سے
ہمارے داگ دلجخم ج کچھ ملتے جلتے ہیں
گلوں سے گلروکھوں سے مہوشوں سے مہ پروں سے
کبھی ہوتا نہیں محسوس وہ یوں قتل کرتے ہے
نگاہوں سے کنکھیوں سے اداؤں سے اشاروں سے
ہمیشہ ایک پیاسی روح کی آواز آتی ہے
کؤں سے پنگھٹوں سے ندیوں سے آبشاروں سے
نہ آئے پر نہ آئے وہ انہیں کیا کیا خبر بھیجی
لفافوں سے خطوں سے دکھ بھرے پرچو سے تاروں سے
زمانے میں کبھی بھی کسمتیں بدلہ نہیں کرتی
امیدوں سے بھروسوں سے دلاسوں سے سہاروں سے
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تئلک تھا
دشہرے سے دیوالی سے بنستوں سے بہاروں سے
کبھی پتھر کے دل اے کیفؔ پگھلے ہیں نہ پگھلینگے
مناجاتوں سے پھریادوں سے چیخوں سے پکاروں سے
تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے
ترچھے ترچھے تیر نظر کے لگتے ہیں
سیدھا سیدھا دل پہ نشانہ لگتا ہے
آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے ایک زمانہ لگتا ہے
پاؤں نہ باندھا پنچھی کا پر باندھا
آج کا بچہ کتنا سیانا لگتا ہے
سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے
ہنستا چہرہ ایک بہانہ لگتا ہے
سننے والے گھنٹوں سنتے رہتے ہیں
میرا فسانہ سب کا فسانہ لگتا ہے
کیفؔ بتا کیا تیری غزل میں جادو ہے
بچہ بچہ تیرا دوانا لگتا ہے
صرف اتنے جرم پر ہنگاما ہوتا جائے ہے
تیرا دیوانہ تیری گلیوں میں دیکھا جائے ہے
آپ کس کس کو بھلا سولی چڑھاتے جا ئینگے
اب تو سارا شہر ہی منصور بنتا جائے ہے
دل بروں کے بھیس میں پھرتے ہیں چورو کے گروہ
جاگتے رہیوں کے ان راتوں میں لوٹا جائے ہے
تیرا مے کھانا ہے یا خیرات کھانا ساقیا
اس طرح ملتا ہے بادہ جیسے بخشا جائے ہے
مےکشو آگے بڑھو تشنہلبو آگے بڑھو
اپنا حق مانگا نہیں جاتا ہے چھینا جائے ہے
موت آئی اور تصور آپ کا روخست ہوا
جیسے منزل تک کوئی رہ رو کو پہنچا جائے ہے
تیرا چہرہ صبح کا تارا لگتا ہے
صبح کا تارا کتنا پیارا لگتا ہے
تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے
تم سے بچھڑ کر شہد بھی خارا لگتا ہے
رات ہمارے ساتھ تو جاگا کرتا ہے
چاند بتا تو کون ہمارا لگتا ہے
کس کو خبر یہ کتنی قیامت ڈھاتا ہے
یہ لڑکا جو اتنا بیچارہ لگتا ہے
تتلی چمن میں پھول سے لپٹی رہتی ہے
پھر بھی چمن میں پھول کنوارا لگتا ہے
کیفؔ وہ کل کا کیفؔ کہاں ہے آج میاں
یہ تو کوئی وقت کا مارا لگتا ہے
تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے
تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے
جس دن میری جبیں کسی دہلیز پر جھکے
اس دن خدا شگاپھ میرے سر میں ڈال دے
اللہ تیرے ساتھ ملاح کو نہ دیکھ
یہ ٹوٹی پھوٹی ناؤ سمندر میں ڈا ل دے
او تیرے مال او زر کو میں تکدیس بخش دوں
لا اپنا مال او زر میری ٹھوکر میں ڈال دے
بھاگ ایسے رہ نما سے جو لگتا ہے خجر سا
جانے یہ کس جگہ تجھے چکر میں ڈال دے
اس سے تیرے مکان کا منظر ہے بد نما
چنگاری میرے پھوس کے چھپر میں ڈال دے
میں نے پناہ دی تجھے بارش کی رات میں
تو جاتے جاتے آگ میرے گھر میں ڈال دے
اے کیفؔ جاگتے تجھے پچھلا پہر ہوا
اب لاش جیسے جسم کو بستر میں ڈال دے
تم سے نہ مل کے خوش ہیں وہ دعویٰ کدھر گیا
دو روز میں گلاب سا چہرہ اتر گیا
جان بہار تم نے وہ کانٹے چبھوئے ہیں
میں ہر گل شگپھتا کو چھونے سے ڈر گیا
اس دل کے ٹوٹنے کا مجھے کوئی غم نہیں
اچھا ہوا کے پاپ کٹا درد سر گیا
میں بھی سمجھ رہا ہوں کے تم تم نہیں رہے
تم بھی یہ سوچ لو کے میرا کیفؔ مر گیا
یہ داڑھیاں یہ تلک دھاریاں نہیں چلتی
ہمارے عہد میں مکاریاں نہیں چلتی
قبیلے والوں کے دل جوڑئے میرے سردار
سروں کو کاٹ کے سرداریاں نہیں چلتیں
برا نہ مان اگر یار کچھ برا کہہ دے
دلوں کے کھیل میں کھداریاں نہیں چلتی
چھلک چھلک پڑی آنکھوں کی گاگریں اکثر
سنبھل سنبھل کے یہ پنہاریاں نہیں چلتی
جنابکیفؔ یہ دہلی ہے ‘میر’ او ‘غالب’ کی
یہاں کسی کی طرفداریاں نہیں چلتی
کیوں پھر رہے ہو کیف یہ خطرے کا گھر لئے
یہ کانچ کا شریر یہ کاغذ کا سر لئے
شولے نکل رہے ہیں گلابوں کے جسم سے
تتلی نہ جا قریب یہ ریشم کے پر لئے
جانے بہار نام ہے لیکن یہ کام ہے
کلیاں تراش لیں تو کبھی گل قطر لئے
رانجھا بنے ہیں، قیس بنے، کوہکن بنے
ہم نے کسی کے واسطے سب روپ دھر لئے
نہ میہربانے شہر نے ٹھکرا دیا مجھے
میں پھر رہا ہوں اپنا مکاں در ب در لئے
جس پہ تیری شمشیر نہیں ہے
اس کی کوئی توقیر نہیں ہے
اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط
خون سے کیوں تحریر نہیں ہے
زکھم زگر میں جھانک کے دیکھو
کیا یہ تمہارا تیر نہیں ہے
زخم لگے ہیں کھلنے گل چیں
یہ تو تیری جاگیر نہیں ہے
شہر میں یوم امن ہے واعظ
آج تیری تقریر نہیں ہے
اودی گھٹا تو واپس ہو جا
آج کوئی تدبیر نہیں ہے
شہر محبت کا یوں اجڑا
دور تلک تعمیر نہیں ہے
اتنی حیا کیوں آئینے سے
یہ تو میری تصویر نہیں ہے
جسم پر باقی یہ سر ہے کیا کروں
دست قاتل بے ہنر ہے کیا کروں
چاہتا ہوں پھونک دوں اس شہر کو
شہر میں ان کا بھی گھر ہے کیا کروں
وہ تو سو سو مرتبہ چاہیں مجھے
میری چاہت میں کسر ہے کیا کروں
پاؤں میں زنجیر کانٹے آبلے
اور پھر حکم سفر ہے کیا کروں
کیفؔ کا دل کیفؔ کا دل ہے مگر
وہ نظر پھر وہ نظر ہے کیا کروں
کیفؔ میں ہوں ایک نورانی کتاب
پڑھنے والا کم نظر ہے کیا کروں
تجھے کون جانتا تھا میری دوستی سے پہلے
تیرا حسن کچھ نہیں تھا میری شائیری سے پہلے
ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں
میرا عشق بے مزا تھا تیری دشمنی سے پہلے
کئی انقلاب آئے کئی خوشخراب گزرے
نہ اٹھی مگر قیامت تیری کم سنی سے پہلے
میری صبح کے ستارے تجھے ڈھونڈتی ہیں آنکھیں
کہیں رات ڈس نہ جائے تیری روشنی سے پہلے
بیمار محبت کی دوا ہے کی نہیں ہے
میرے کسی پہلو میں قضا ہے کی نہیں ہے
سنتا ہوں اک آہٹ سی برابر شب وعدہ
جانے تیرے قدموں کی صدا ہے کی نہیں ہے
سچ ہے محبت میں ہمیں موت نے مارا
کچھ اس میں تمہاری بھی خطا ہے که نہیں ہے
مت دیکھ کی پھرتا ہوں تیرے ہجر میں زندہ
یہ پوچھ کی جینے میں مزا ہے که نہیں ہے
یوں ڈھونڈتے پھرتے ہیں میرے بعد مجھے وہ
وہ کیفؔ کہیں تیرا پتہ ہے که نہیں ہے
دوستوں اب تم نہ دیکھوگ یہ دن
ختم ہیں ہم پر ستمآرائیاں
چن لیا ایک ایک کانٹا راہ کا
ہے مبارک یہ برہنہ پائیاں
کو ب کو میرے جنوں کی ازمتیں
اس کی محفل میں میری روسوائیاں
ازمت سقرات کی قسم
دار کے سائے میں ہیں دارائیاں
چارہ گر مرہم بھریگا تو کہاں
روح تک ہیں زخم کی گہرائیاں
کیفؔ کو داغ زگر بخشے گئے
اللہ اللہ یہ کرم فرمائییاں
بہت خوبصورت کلام۔۔ زندہ باد۔۔ شئیر کرنے کے لیے بہت شکریہ
محسنِ اردو زباں اعجاز عبید
شخصیت ہے آپ کی تاریخ ساز
آپ کی بے لوث ان خدمات پر
رہتی دنیا تک کریں گے لوگ ناز
احمد علی برقی اعظمی