فہرست مضامین
- خدا شناسی
- پہلا سبق : مچھلی
- دوسرا سبق : پانی میں مچھلی کا دم کیوں نہیں گھٹتا
- تیسراسبق : داؤد اور سعید سیر کو گئے
- چوتھاسبق : خوبصورت نو مولود بچہ
- پانچواں سبق : چروا ہے نے درس دیا
- چھٹاسبق : ہوشیار لڑکا
- ساتواں سبق : اس کی نعمتیں
- آٹھواں سبق : اللہ کی نعمتیں
- نواں سیق : علیم اور قادر خدا
- دسواں سیق : بطخیں کب واپس لوٹیں گی
خدا شناسی
نا معلوم
ڈاؤن لوڈ کریں
پہلا سبق : مچھلی
کیا آپ کے گھر میں مچھلی ہے ؟
کیا آپ مچھلی کو پسند کرتے ہیں ؟
مچھلی کہاں زندگی گزارتی ہے ؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی کس ذریعہ سے پانی میں تیر تی ہے ؟
اگر مچھلی کے پر نہ ہوں تو کیا وہ پانی میں تیر سکے گی ؟
کیا مچھلی نے اپنے لئے پر خود بنائے ہیں ؟
نہیں مچھلی نے اپنے پر خود نہیں بنائے اور نہ ہی کسی انسان نے اس کے پر بنائے ہیں۔
بلکہ خداوند قادر و مہربان جانتا تھا کہ اس خوبصورت حیوان کے لئے پر ضروری ہیں اس لئے اسے پر عطا کئے تاکہ وہ پانی میں تیر سکے۔
گھر میں کسی برتن میں مچھلی ڈالئے اور اپنے دوست کے ساتھ مل کر دیکھئے اور دیکھئے کہ مچھلی کس طرح سانس لیتی ہے ؟ کس طرح تیر تی ہے ؟ کس طرح پانی میں اوپر نیچے جاتی ہے ؟ کس وقت اپنی دم ہلاتی ہے ؟ اس وقت اپنے دوست سے پوچھئے کہ مچھلی کو کس نے پیدا کیا ہے۔
٭٭٭
دوسرا سبق : پانی میں مچھلی کا دم کیوں نہیں گھٹتا
ایک دن احمد بچوں کے ساتھ گھر میں کھیل رہا تھا۔ اس کی ماں نے کہا بیٹا احمد! ہوشیار ! حوض کے نزدیک نہ جانا ڈرتی ہوں کہ تم حوض میں نہ گر پڑو کیا تم نے ہمسائے کے لڑکے حسن کو نہیں دیکھا تھا کہ وہ حوض میں گر کر مر گیا تھا ؟
احمد نے کہا ! اماں جان ! ہم اگر حوض میں گر جائیں تو مر جاتے ہیں۔ اور مچھلیاں پانی کے نیچے دجتے ہوئے کیوں نہیں مر جاتیں ؟ دیکھئے وہ پانی میں کتنا اچھا تیر رہی ہیں ؟ اس کی ماں نے جواب دیا انسان کے لئے سانس لینا ضروری ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ اسی لئے ہم پانی کے نیچے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن مچھلی کے اندر ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے ذریعہ پانی میں سانس لے سکتی ہے اور جو تھوڑی بہت ہوا پانی کے اندر موجود ہے اس سے استفادہ کرتی رہتی ہے۔ اسی لئے وہ پانی کے اندر زندہ رہ سکتی۔
کون مچھلی کے لئے فکر کر رہا تھا۔
احمد نے ماں سے پوچھا: اماں جان ! کون مچھلی کے لئے ایسی فکر کر رہا تھا۔ مچھلی از خود تو نہیں جانتی تھی کہ کہاں اسے زندہ رہنا چاہئے ؟ اور کون سی چیز اس کے لئے ضروری ہے۔
اس کی ماں نے جواب دیا: بیٹا خدائے علیم اور مہربان مچھلی کے لئے فکر کر رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنا ہے۔ اس لئے اس نے مچھلی کے اندر ایسا وسیلہ رکھ دیا کہ جس کے ذریعہ سے وہ سانس لے سکے مچھلی پانی میں آبی پھیپھڑوں کے ذریعے سانس لیتی ہے۔
٭٭
سوالات
احمد کی ماں کو کس چیز کا خوف تھا ؟
ہمسائے کے لڑکے کا کیا نام تھا ؟
کیا وہ تیرنا جانتا تھا ؟
کیا انسان پانی میں زندہ رہ سکتا ہے ؟
پانی میں مچھلی کیوں نہیں مرتی ؟
کون سی ذات مچھلی کے فکر میں رہتی ہے ؟
کسی نے مچھلی کو پیدا کیا ؟
٭٭٭
تیسراسبق : داؤد اور سعید سیر کو گئے
داؤد اور سعید باغ میں باپ کے ساتھ سیر کرنے گئے۔ باغ بہت خوبصورت تھا درخت سرسبز اور بلند تھے۔ رنگا رنگ عمدہ پھول تھے۔ باغ کے وسط سے ایک نہر گزرتی تھی کہ جس میں بطخیں تیر رہی تھیں۔ بطخیں بہت آرام سے پانی میں تیر رہی تھیں۔ اچانک سعید نے ایک چڑیا دیکھی کہ جس کے پر تر ہو چکے تھے اور وہ نہیں اڑ سکتی تھی اس نے داؤد سے کہا:
بھائی جان ! دیکھئے ! اس بیچاری چڑیا کے پر بھیگ چکے ہیں اور وہ نہیں اڑ سکتی داؤد نے ایک نگاہ چڑیا پر اور دوسری نگاہ بطخوں پر ڈالی اور تعجب سے کہا کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے ! کتنی آرام سے پانی میں تیر رہی ہیں اور جب پانی سے باہر آتی ہیں تو اس کے پر اس طرح خشک ہوتے ہیں۔ جیسے وہ پانی میں گئی ہی نہیں۔ سعید نے ایک نظر بطخوں پر ڈالی اور کہا آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ بہتر یہی ہے کہ یہ بات اپنے والد سے پوچھیں کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے اور چڑیوں کے پر کیوں بھیگ جاتے ہیں۔
بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے
سعید اور داؤد ڈرتے ہوئے والد کے پاس گئے اور ان سے کہا۔ ابا جان ! آئیے بطخوں کو پانی میں تیرتے دیکھئے کہ ان کے پر بالکل نہیں بھیگتے۔ ابا جان ! بطخوں کے پر کیوں بھیگتے ؟ یہ سب نہر کے کنارے آئے۔ والد نے کہا: شاباش! ابھی سے ان چیزوں کے سمجھنے کی فکر میں ہو ؟ انسان کو چاہئے کہ وہ جس چیز کو دیکھے اس میں غور و فکر کرے اور جسے نہیں جانتا وہ اس سے پوچھے کہ جو اسے جانتا ہے۔ تاکہ یہ بھی اس سے آگاہ ہو جائے۔
خوبصورت بطخوں کو خدا نے پیدا کیا ہے
چونکہ بطخوں کے پر چکنے ہوتے ہیں اس لئے پانی کا ان پر اثر نہیں ہوتا ہے اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو پانی میں بھیگ جاتے اور مرغابی پانی میں نہ تیر سکتی اور نہ ہوا میں اڑ سکتی۔
سعید نے کہا: ابا جان ! یہ حکمت کس ذات کی تھی ؟ بطخیں خود تو نہیں جانتی تھیں کہ کس طرح اور کس ذریعے سے وہ اپنے پروں کو چکنا بنائیں۔ باپ نے جواب دیا: عالم اور مہربان خدا نے کہ جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ بطخوں کو پانی میں تیر نا ہے انہیں اس طرح پیدا کیا کہ ان کے پر ہمیشہ چکنے رہیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ پانی میں تیر سکیں۔ اور ہوا میں اڑ سکیں۔
٭٭
سوالات
1- سعید اور داؤد باغ میں کس لئے گئے تھے ؟
2- انہوں نے باغ میں کیا دیکھا ؟
3- نہر کے کنارے چڑیا کیوں گری پڑی تھی اور آڑ نہیں سکتی تھی ؟
4- سعید کو کس چیز سے تعجب ہوا ؟
5- انسان کو جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو کیا کرے ؟
6- سوال کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟
7- جب کسی چیز کو نہ جانے تو کس سے پوچھے ؟
8- اگر بطخ کے پر چکنے نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟
9- کیا بطخیں جانتی تھی کہ اس کے پروں کو چکنا ہونا چاہئے ؟
10- کس نے بطخ کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے پر ہمیشہ کیلئے چکنے ہوتے ہیں ؟
11- ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ؟
٭٭٭
چوتھاسبق : خوبصورت نو مولود بچہ
زہرا کا ایک بھائی پیدا ہوا جس کا نام مجید تھا۔ زہرا بہت خوش تھی اور اسے اپنے نو مولود بھائی سے بہت محبت تھی۔ ایک دن اپنے بھائی کے گہوارے کے پاس کھڑی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد اپنی ماں سے کہنے لگی اماں جان ! مجید کب بڑا ہو گا تاکہ وہ مجھ سے کھیل سکے: میں اپنے بھائی کو بہت چاہتی ہوں اس کی ماں نے کہا: پیاری زہرا ! صبر کرو۔ انشاء اللہ مجید بڑا ہو گا اور تم آپس میں کھیلو گی اچانک مجید جاگ اٹھا اور اپنی نحیف آواز سے رونا شروع کر دیا۔ زہرا بیتاب ہو کر ماں سے کہنے لگی: اماں جان مجید کیوں رو رہا ہے۔ اس کی ماں نے جواب دیا۔ شاید یہ بھوکا ہے۔ زہرا دوڑی اور تھوڑی سی مٹھائی لے کر اس کے منھ میں ڈالنے لگی: جلدی سے ماں نے کہا ! پیاری زہرا ! مجید مٹھائی نہیں کھا سکتا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اس کے دانت نہیں ہیں ؟ خبردار کوئی چیز اس کے منھ میں نہ ڈالنا۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ گلے میں پھنس جائے اور اس کا دم گھٹ جائے۔ زہرا نے پوچھا ! پھر مجید کی غذا کون سی ہے ماں نے کہا: بیٹی ! مجید کی غذا دودھ ہے۔ وہ دودھ پی کر سیر ہوتا ہے۔ ماں اٹھی اور اس نے نو مولود کو دامن میں لے کر اپنے پستان اس کے منھ میں دے دئے۔ مجید نے ماں کے پستان منہ میں لے کر اپنے نازک لبوں سے انہیں چوسنا شروع کر دیا۔ زہرا نے تھوڑی دیر کو مجید اور ماں کو دیکھا: اور پھر تعجب سے بولی ! اماں جان ! کیا آپ کے پستانوں میں اس سے پہلے بھی دودھ تھا ؟ ماں نے کہا: نہیں: ان میں پہلے دودھ نہ تھا لیکن جس دن سے مجید نے دنیا میں قدم رکھا ہے میرے پستانوں میں دودھ بھر گیا ہے۔ زہرا بولی ! اماں جان ! آپ کیسے مجید کے لئے دودھ بناتی ہیں: ماں نے کہا کہ دودھ بن جانا میرے ہاتھ میں نہیں ہے میں غذا کھاتی ہوں: غذا سے دودھ بن جاتا ہے۔ زہرا بولی ! کہ آپ پہلے اس سے بہلے بھی غذا کھاتی تھیں تو اس وقت یہ دودھ کیوں نہیں بنتا تھا ؟ ماں نے جواب دیا ! صحیح ہے: میں اس سے پہلے بھی غذا کھاتی تھی اور دودھ نہیں رکھتی تھی۔ لیکن جب سے مجید دنیا میں آیا میرے پستان دودھ سے بھر گئے ہیں۔ زہرا نے تعجب سے پوچھا ! پس کون مجید کی فکر میں تھا ؟ ماں نے جواب دیا زہرا جان: جس خدا نے مجیدکو پیدا کیا ہے اسی کو اس کی غذا کی فکر تھی۔ خدا جانتا تھا کہ جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور خدا یہ بھی جانتا تھا کہ مجید کے دانت نہیں ہیں اور وہ ہماری طرح غذا نہیں کھا سکتا اسی لئے خدا نے اس کی ماں کے پستانوں کو دودھ سے بھر دیا تاکہ ناتواں بچہ بہتر اور سالم غذا کھا سکے۔ پیاری زہرا ! دودھ ایک مکمل غذا ہے جس میں بچہ کے بدن کی تمام ضروریات موجود ہیں۔ اور بچہ آسانی سے اسے ہضم بھی کر سکتا ہے۔ زہرا نے کہا ! اماں جان ! ہمارا خدا کتنا مہربان اور جاننے والا ہے۔ اگر دودھ نہ ہوتا تو چھوٹا بچہ کیا کھاتا، ماں نے کہا ! جی ہاں بیٹا ! خدا ہی تو ہے جس نے بچہ کو پیدا کیا ہے اور اسے غذا دیتا ہے۔ خدائے مہربان ہی صحیح اور سالم دودھ بچے کے لئے بناتا ہے۔ خداوند عالم کو بچے کی کمزوری کا علم تھا اسی لئے اسنے بچہ کی محبت ماں کے دل میں ڈالی تاکہ وہ اس کی نگہداشت اور پرورش کرے خداوند عالم نے کمزور اور بے زبان بچے کو یہ سکھایا ہے کہ جب وہ بھوکا ہو تو وہ رونا شروع کر دے تا کہ ماں اس کی مدد کرے۔
٭٭
سوالات
سوچ کر ان سوالوں کا جواب دیجئے
1- جب زہرا نے مجید کو دیکھا تھا تو اس نے اپنی ماں سے کیا کہا ؟
2- کیا زہرا اپنے بھائی سے محبت کرتی تھی ؟ اس کی دلیل دیجئے ؟
3- کیا دودھ کا بنانا ماں کی قدرت میں ہے۔ اور کیوں ؟
4- یہ بات تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی کہ خداوند عالم کو مجید کے مستقبل کا علم تھا ؟
5- کیسے معلوم ہوا کہ خداوند: عالم اور مہربان ہے ؟
6- اگر دودھ نہ ہوتا تو نو مولود بچے کیا کھاتے ؟
7- اگر ماں کو بچے سے محبت نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟
8- کس نے بچے کی محبت ماں کے دل میں ڈالی ہے ؟
9- اگر بچہ بھوک کے وقت نہ روتا تو کیا ہوتا ؟
10-اگر بچہ چوسنا نہ جانتا تو ماں اسے کیسے دودھ دیتی ؟
11-رونا اور چوسنا کس نے بچہ کی فطرت میں رکھا ہے ؟
٭٭٭
پانچواں سبق : چروا ہے نے درس دیا
اکبر اور حسین چھٹی کے دن علی آباد نامی گاؤں میں گئے۔ علی آباد بہت خوبصورت اور آباد گاؤں ہے اس میں بڑے بڑے باغ اور سبز کھیت ہیں گائے اور بھیڑوں کے گلے آبادی کے اطراف میں چر رہے تھے۔ بکریوں اور بھیڑوں کے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ کھیل کود رہے تھے۔ اکبر اور حسین ان کا تماشا دیکھ کر لطف اندرز ہو رہے تھے۔ اچانک اکبر کی نگاہ ایک خوبصورت بھیڑ پر پڑی جس نے ابھی بچہ جنا تھا اور اسے چاٹ رہی تھی۔ اکبر نے چروا ہے سے کہا کہ یہ بھیڑ کیوں اپنے بچے کو چاٹ رہی ہے ؟ چروا ہے نے کہا: اس بھیڑ نے ابھی بچہ جنا ہے۔ بچے کو دوست رکھتی ہے اور وہ اسے صاف کرنا چاہتی ہے۔ بچہ صاف ستھرا ہو گیا اور ماں کے تھنوں کی طرف لپکا۔ تھن کو منہ میں لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا۔ اکبر نے حسین سے کہا: اس بچے کو دیکھو ! ابھی دنیا میں آیا ہے لیکن فوراً ماں کے تھن معلوم کر لئے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ اسے کہاں سے معلوم ہو گیا کہ تھنوں میں دودھ ہے ؟ اور تھن ماں کے پیٹ کے نیچے ہے ؟ کس نے اسے بتلایا ہے۔ اس چھوٹے بچے نے اس فہم اور دانائی کو کس سے سیکھا ہے ؟
چرواہا اکبر اور حسین کی یہ بات سن رہا تھا۔ اس نے کہا: پیارے بچو! اللہ تعالیٰ جو مہر بان اور علیم ہے اس نے ایسی سمجھ چھوٹے بچے کو عطا کر دی ہے یہ بچہ بھوکا ہے اور علم ہے کہ ماں کے تھنوں میں دودھ ہے اور وہ ماں کے پیٹ کے نیچے ہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہے اس کے علاوہ اور غذا اس کے لئے اچھی نہیں ہے۔ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے اسے سکھائی ہیں اگر بچے کو ان چیزوں کا علم نہ ہو تو ممکن ہے کہ یہ مر جائے۔
حسین نے کہا: اچھا ہے کہ دودھ اس کے گلے میں نہیں پھنستا ورنہ یہ مر جاتا۔
چروا ہے نے کہا: پیارے بچو ! اللہ بہت دانا اور مہربان ہے۔۔ ۔ اس نے تھنوں میں بڑا سوراخ نہیں رکھا تاکہ اس سے زیادہ دودھ نہ نکل آئے اور بچے کے گلے میں پھنس جائے تھنوں کے سر پر کئی ایک چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں کہ بچے کے چوسنے سے اس سے دودھ باہر آتا ہے۔ اس کے علاوہ تھنوں کے سرے کو اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ بچہ بہت آسانی سے اس کو منہ میں لے کر دودھ پی لیتا ہے۔
٭٭
سوالات
سوچ کر جواب دیجئے
1- تم نے جب بچہ پیدا ہوتا دیکھا تو وہ کیا کرتا ہے ؟
2- اگر بچہ کو علم نہ ہوتا کہ تھن کہاں ہیں تو کیا ہوتا ؟
3- اگر بچہ چوسنا نہ جانتا تو کیا ہوتا ؟
4- جب بچہ بھوکا ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟
5- کس نے یہ ہوش اور دانائی بھیڑ کے بچے کو عنایت کی ہے ؟
6- آیا تم نے کبھی بھیڑ کے بچے کو بغل میں لیا ہے کیا تم نے کبھی اسے بوتل سے دودھ پلایا ہے ؟
7- اگر تھنوں کا سوراخ بڑا ہوتا تو کیا ہوتا ؟
8- چروا ہے نے اکبر اور حسین کو کون سا درس دیا ؟
٭٭٭
چھٹاسبق : ہوشیار لڑکا
حسن تیسری جماعت میں پڑھتا تھا وہ بہت چالاک تھا، وہ اپنا سبق اچھی طرح سمجھنا چاہتا تھا اور ہر چیز میں غور و فکر کرتا تھا۔ اگر اسے کوئی چیز سمجھ نہ آتی تو پوچھا کرتا تھا۔
ایک دن استاد کلاس میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے بدن کے لئے مختلف مقسام کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر ایک غذا ہماری بھوک کو دور کرنے کے علاوہ ہمارے بدن کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ ہر ایک عذا کی علیحدہ خاصیت ہوتی ہے۔ ہم کو دوڑ نے اور کھیلنے کودنے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدن کی طاقت ہمیں گرم رکھنے کے ساتھ ہمیں کام کرنے اور کھیلنے کی طاقت بھی پہنچاتی ہے۔ بعض غذائیں ہمیں طاقت بہم پہنچاتی ہیں جیسے آلو، چاول، مٹھاس، روغن، کھجور، سیب، کشمش، بادام وغیرہ ہر آدمی کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جو لوگ زیادہ کام کرتے ہیں انہیں ان کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے بعض غذائیں بدن کے بڑا ہونے اور طاقت پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں، جیسے گوشت، انڈا، دودھ وغیرہ ہمارا بدن وٹامن اور معدنی اجزاء کا بھی محتاج ہے۔ پھل فروٹ اور سبزیوں میں معدنی اجزا ہوتے ہیں۔ ہمارے بدن کو سالم رہنے اور غور کرنے کے لئے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے اور جن کی بھی اسے ضرورت ہوتی ہے وہ تمام کی تمام مختلف غذاؤں میں پائی جاتی ہیں۔ ہمیں مختلف قسم کے میوے اور غذائیں کھانی چاہئے تاکہ بڑھ سکیں اور صحیح و سالم رہ سکیں۔ حسن نے استاد سے اجازت لیتے ہوئے کہا: میرا خیال تھا کہ غذا صرف بھوک کو ختم کرتی ہے لیکن اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے بدن کی طاقت اور سلامتی میں بھی مختلف غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب میں متوجہ ہوا کہ ہمیں بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ استاد نے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ جن چیزوں کی ہمارے بدن کو ضرورت ہوتی ہے وہ اس دنیا میں موجود ہیں۔ مختلف قسم کے میوے۔ مختلف قسم کی سبزیاں، چاول، گیہوں، چنے، دالیں، بادام۔ یہ تمام چیزیں موجود ہیں۔ درخت ہم کو میوے دیتے ہیں۔ حیوانات ہمیں دودھ اور گوشت دیتے ہیں۔ بچو ! کون ذات ہے جو ہمارے لئے ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے۔ اور ہماری تمام ضروریات سے واقف ہے جن چیزوں کی ہم کو ضرورت تھی اسے پہلے پیدا کر دیا ہے۔ تمام شاگردوں نے بیک آواز کہا: خدا خدا خدا۔ استاد کہنے لگا۔ ہاں۔ وہی خدا دانا اور قادر ہے۔
٭٭
سوالات
1- جب ہمیں کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو کیا کریں اور کس سے پوچھیں ؟
2- آج تم نے صبح کیا غذا کھائی تھی کیا اس غذا کے فوائد بتلا سکتے ہو؟
3- اگر کچھ دن غذا نہ کھائیں تو کیا حالت ہو جائے گی۔۔ ۔ اور کیوں ؟
4- تم اپنے بدن کی ضرورت کو گنواسکتے ہو ؟
5- اپنے بدن کی ضرورت کو کس طرح پورا کرو گے ؟
6- حیوان اور سبزیاں ہمارے کس کام آتی ہیں ؟
7۔ کون سی ذات ہمارے ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے ؟
8 – اس عالم میں ہمارے ذمے کون سی خدمت انجام دینی لازم قرار دی گئی ہے ؟
٭٭٭
ساتواں سبق : اس کی نعمتیں
ہم منہ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا کھاتے ہیں اور اس سے باتیں کرتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔
ہم ہاتھ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا اٹھاتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔
ہم آنکھ رکھتے ہیں کہ جس سے دیکھتے ہیں۔
ہم کان رکھتے ہیں کہ جس سے سنتے ہیں۔
ہم پاؤں رکھتے ہیں کہ جس سے چلتے اور دوڑتے اور کھیلتے ہیں۔
آیا تمھیں علم ہے کہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
کون سی ذات ہے کہ او ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور ان کو ہمارے لئے ضروری جانتے ہوئے خلق کیا ہے۔
جو چیز بھی ہماری زندگی کے لئے ضروری تھی اس نے عنایت کی ہے۔ اب ان تمام نعمتوں کے عوض ہمارا فرض کیا ہے ؟
مہربان خدا
خدا ہمیں دوست رکھتا ہے۔ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور یہ تمام نعمتیں ہمیں عنایت کی ہیں۔ آنکھ دی ہے تاکہ ہم دیکھ سکیں۔ کان دئیے ہیں تاکہ ہم سن سکیں۔ زبان دی ہے تاکہ ہم بول سکیں اور غذا کا مزا چکھ سکیں۔ پاؤں دئیے ہیں تا کہ چل سکیں۔ ہاتھ دئیے ہیں تاکہ کام کر سکیں اور دوسروں کی مدد کر سکیں عقل دی ہے تاکہ اچھائی اور برائی کو سمجھ سکیں۔ اگر ہم آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور عقل نہ رکھتے تو کس طرح زندگی بسر کر سکتے تھے ؟؟
٭٭
سوالات
1-آنکھ سے کیا کام لیتے ہیں ؟
2- کان سے کیا کام لیتے ہیں ؟
3- زبان سے کیا کام لیتے ہیں ؟
4- ہاتھ سے کیا کام لیتے ہیں ؟
5- پاؤں سے کیا کام لیتے ہیں ؟
6- عقل سے کیا کام لیتے ہیں ؟
7- یہ تمام نعمتیں کس نے ہمیں دی ہیں ؟
8- کیا خدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟
9- کہاں سے معلوم ہوا ہے کہ خدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟
10- اگر آنکھ نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟
11- اگر کان نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟
12- اگر زبان نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟
13- اگر ہاتھ نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟
14- اگر پاؤں نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟
15- اگر عقل نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟
٭٭٭
آٹھواں سبق : اللہ کی نعمتیں
خدا مہربان ہے اس نے ہمیں بہت سی نعمتیں دی ہیں۔ ہوا پیدا کی تاکہ سانس لے سکیں۔ پانی پیدا کیا تاکہ اسے پئیں اور اپنے آپ کو دھوئیں۔ درخت اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں تاکہ میٹھے اور خوش ذائقہ میوے کھائیں اور عمدہ غذائیں بنائیں۔ اگر ہوا، پانی، درخت نہ ہوتے تو ہم کیسے زندہ رہتے۔ خدا ہم پر بہت مہربان ہے کہ جس نے ہمیں یہ نعمتیں فائدہ حاصل کرنے کے لئے عنایت کیں۔ ہم بھی شفیق اور مہربان خدا سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ خدا ہم پر مہربان ہے اور ہماری اچھائی اور ترقی چاہتا ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے دستور کی پیروی کرتے ہیں تاکہ ہمیشہ کے لئے سعادت مند زندگی بسر کرتے رہیں۔
٭٭
سوالات
1-کس طرح ہمیں معلوم ہوا ہے کہ خدا ہم پر مہربان ہے ؟
2- خدا کا شکر کیوں ادا کریں ؟
3- اللہ تعالیٰ کی پانچ نعمتوں کا نام بتائیے ؟
4- اگر سعادت مند ہونا چاہیں تو کس کے دستور پر عمل کریں ؟
٭٭٭
نواں سیق : علیم اور قادر خدا
ہمارا جسم مختلف قسم کی غذاؤں کا محتاج ہے۔ اگر مختلف غذائیں نہ ہوتیں تو ہم کیا کرتے ؟
بدن کی سلامتی کے لئے کچھ مقدار پانی پیتے ہیں اگر پانی نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے ؟
اگر منہ نہ ہوتا: کہ جس سے پانی پیتے ہیں اگر پانی نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے ؟
اگر دانت نہ ہوتے: کہ جس سے غذائیں چباتے ہیں تو کیا کرتے ؟ لیکن خوش بختی سے ہماری زندگی کے تمام وسائل اور ضروریات اس دنیا میں موجود ہیں۔ مختلف قسم کے میوے کہ جن کی ضرورت ہے موجود ہیں۔ مختلف قسم کی سبزیاں کی جن کی ضرورت ہے موجود ہیں۔ پیاسے ہوتے ہیں تو پانی موجود ہے۔ منہ موجود ہے کہ جس سے غذا کھاتے ہیں۔ ہاتھ ہیں کہ جس سے غذا اٹھا کر منہ میں رکھتے ہیں۔ معدہ اور آنتیں موجود ہیں جو غذا کو ہضم کرتی ہیں۔ آنکھیں ہیں جس سے دیکھتے ہیں۔ کان ہیں جس سے سنتے ہیں۔ زبان رکھتے ہیں جس سے بولتے اور غذا کا مزا لیتے ہیں۔ جو چیز بھی ہماری سلامتی اور رشد کے لئے ضروری تھی اس دنیا میں موجود ہے۔
ان روابط اور ترتیب اور نظم سے جو ہمارے اور دوسرے جہاں میں موجودات کے ساتھ برقرار ہے اس سے ہم سمجھتے ہیں کہ۔۔ ۔۔
کوئی ذات عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور وہ ذات ہماری فکر میں پہلے سے تھی اور ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور وہ ذات خداوند عالم کی ہے کہ جو دانا اور توانا ہے اگر دانا اور عالم نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو ان چیزوں کو کہ جن کی ہمیں ضرورت تھی پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ اب ہم سمجھے کہ خدا عالم ہے یعنی دانا ہے اور خدا قادر ہے یعنی توانا ہے۔
نظم و ترتیب
سورج نکلتا ہے گھاس اگتی ہے۔ حیوانات گھاس کھاتے ہیں اور ہم ان کے دودھ اور گوشت سے استفادہ کرتے ہیں۔ پس سورج، گھاس۔ حیوان اور انسان کے درمیان ایک ربط ہے۔
اگر سورج نہ نکلے تو کیا ہو گا ؟
اگر گھاس نہ اگے تو کیا ہو گا ؟
اگر حیوانات نہ ہوں تو کیا ہو گا ؟
یہ ربط جو ہمارے اور دنیا کے دوسرے موجودات کے درمیان ہے اس سے کیا سمجھتے ہیں:
کون سی ذات ہماری ضروریات کو جانتی تھی اور ان کو ہمارے لئے خلق کیا ہے۔
کیا وہ ذات عالم و قادر ہے۔
کیسے جانا کہ وہ دانا اور توانا ہے ؟
اگر وہ دانا نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو وہ قدرت نہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
جی ہاں: وہ ذات دانا بھی ہے اور توانا بھی اور وہ ذات خدا کی ہے:
وہ مہربان ہے اور عطا کرنے والا ہے۔
ہم بھی اسے بہت دوست رکھتے ہیں اور اس کے حکم اور فرمان کو مانتے ہیں تاکہ ہمیشہ زندگی با سعادت بسر کر سکیں۔
٭٭٭
دسواں سیق : بطخیں کب واپس لوٹیں گی
داؤد اور سعید اپنے باپ کے ساتھ باغ گئے۔ سردی کا زمانہ تھا درختوں کے پتے خشک اور بے جان ہو کر زمین پر گر پڑے تھے۔ باپ نے کہا پیارے بیٹو! درختوں کو دیکھو ! یہ سر سبز نہیں ہیں۔ ان کے سرسبز پتے تمام خشک ہو چکے ہیں۔ اور بے جان ہو کر زمین پر کر پڑے ہیں۔ وہ خوبصورت بطخیں بھی یہاں سے چلی گئی ہیں۔ داؤد نے پوچھا۔ ابا جان ! کیا بطخیں پھر یہاں نہیں آئیں گی ؟ ہم بطخوں کو نہیں دیکھ سکیں گے ؟ باپ نے جواب دیا کیوں نہیں ! جب بہار کا موسم آئے گا اور خدا اس باغ کو دوبارہ شاداب کرے گا۔ اور یہ سرسبز ہو جائے گا۔ تو بطخیں بھی دوبارہ لوٹ آئیں گی۔ سعید نے پوچھا ! ابا جان: ہم بھی جب مر جائیں گے تو خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا ؟ باپ نے کہا۔ جی ہاں۔ ہم بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور اپنے کئے کا نتیجہ دیکھیں گے۔ نیک جنت میں اور برے لوگ جہنم میں جائیں گے۔
٭٭
سوالات
1- داؤد اور سعید باپ کے ساتھ کس موسم میں باغ میں گئے ؟
2- کیا سردی کے موسم میں باغ سرسبز اور شاداب تھا ؟
3- درختوں کے پتے کس موسم میں بے جان ہو کر گر پڑتے ہیں ؟
4- باپ نے درختوں کے بارے میں داؤد اور سعید سے کیا کہا ؟
5- اس باغ سے بطخیں کیوں چلی گئی تھیں ؟
6- باغ کس موسم میں سرسبز ہوتا ہے ؟
7- کیا بطخیں دوبارہ لوٹ آئیں گی ؟
8- کون سی ذات باغ کو دوبارہ سرسبز و شاداب کرتی ہے ؟
9- جب ہم مر جائیں گے تو دوبارہ کون زندہ کرے گا ؟
10-جب خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا تو ہم کہاں جائیں گے ؟
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں