حسینؑ اور انقلاب
جمع و ترتیب اور ٹائپنگ: شاہ حسین
ہمراز ، یہ فسانۂ آہ و فغاں نہ پوچھ
دو دن کی زندگی کا غم ایں و آں ، نہ پوچھ
کیا کیا حیات ارض کی ہیں تلخیاں نہ پوچھ
کس درجہ ہولناک ہے یہ داستاں نہ پوچھ
تفصیل سے کہوں تو فلک کانپنے لگے
دوزخ بھی فرط شرم سے منہ ڈھانپنے لگے
دنیا کی ہر خوشی ہے غم و درد سے دوچار
ہر قہقہے کی گونج مین ہے چشم اشکبار
کیا خار و خس کہ وہ تو ہیں معتوب روزگار
نسرین و نسترن میں بھی پنہاں ہے نوک خار
نغمے ہیں جنبش دل مضطر لئے ہوئے
گل برگ تک ہے برش خنجر لئے ہوئے
یاران سرفروش و نگاران مہ جبیں
آب نشاط و لعل لب و زلف عنبریں
کوئے مغاں و بوئے گل و روئے دلنشیں
زور و زن و زکاوت و ذہن و زر و زمیں
جو شے بھی ہے وہ درد کا پہلو لئے ہوئے
ہر گوہر نشاط ہے آنسو لئے ہوئے
بیگانۂ حدود ہے انساں کی آواز
پیچیدہ ہر نظر میں ہے اک تازہ جستجو
تھمتی نہیں کہیں بھی تمنّائے برق خو
ساقی کا وہ کرم ہے کہ بھرتا نہیں سبو
ارماں کی شاہراہ میں ، منزل نہیں کوئی
اس بہر بے کنار کا ساہل نہیں کوئی
اس لیلیِ حیات کی اللہ ری دار و گیر
ہر لوچ ، اک کمان ہے ہر ناز ایک تیر
اس کے کرم میں بھی وہ حرارت ہے ہم صفیر
جس کے مقابلے میں جہنّم ہے ، زمہریر
الجھے جو اس کے گیسوئے پیچاں کے جال میں
لگ جائے آگ ، دامن قطب شمال میں
امراض سے کسی کا بڑھاپا ہے اک وبال
آلام سے کسی کی جوانی ہے پائمال
اس کو ہے خوف ننگ ، اسے نام کا خیال
روزی سے کوئی تنگ، کوئی عشق سے نڈھال
ہر سانس ہے نوید عذاب عظیم کی
گھبرا کے دو دہائی "خدائے رحیم” کی
اس خوں چکاں حیات کے آلام ، کیا کہوں
قدرت نہیں فسانۂ ایّام کیا کہوں
دارائے کائنات کے انعام کیا کہوں
یہ داستان مرحمت عام کیا کہوں
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے
اور چپ رہوں تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
نوع بشر پہ ہے جو عقوبت، نہ پوچھئے
سفّاک زندگی کی شقاوت نہ پوچھئے
جور حیات و جبر و مشقّت نہ پوچھئے
کتنا رقیق ہے دل قدرت نہ پوچھئے
سو سال اگر خزاں کے ، تو دو دن بہار کے
قربان ہجوم رحمت پروردگار کے!
یوں تو غم معاش کا سوز نہاں ہے اور
تکلیف جاں گدازیِ عشق بتاں ہے اور
لب تشنگیِ شیب و عذاب خزاں ہے اور
اعلان امر حق کی مگر داستاں ہے اور
"گفتار صدق ، مایۂ آزار می شود
چوں حرف حق بلند شود دار می شود”
ہاں اس بلا سے کوئی بلا بھی بڑی نہیں
کیا اسُ کو علم جس پہ یہ بپتا پڑی نہیں
کشتوں کے اس کے لاش بھی اکثر گڑی نہیں
اعلانِ امرِ حق سے کوئی شے بڑی نہیں
بے جرم ، خود کو جرم میں جو راندھ لے وہ آئے
اس راہ میں جو سر سے کفن باندھ لے وہ آئے
تکلیف رشد و کاہش تبلیغ ، الاماں
یہ دائرہ ہے ، دائرۂ مرگِ ناگہاں
پیہم یہاں سروں پہ کڑکتی ہیں بجلیاں
بارِ الم سے بولنے لگتے ہیں استخواں
ہر گام پر حیات کے چہرے کو فق کرے
مرنا جو چاہتا ہو ، وہ اعلانِ حق کرے
کیسے کوئی عزیز روایات چھوڑ دے
کچھ کھیل ہے کہ کہنہ حکایات چھوڑ دے
گُھٹی میں تھے جو حل ، وہ خیالات چھوڑ دے
ماں کا مزاج باپ کی عادات چھوڑ دے
کس جی سے کوئی رشتۂ اوہام چھوڑ دے
وِرثے میں جو ملیں ہیں وہ اصنام چھوڑ دے
اوہام کا رباب ، قدامت کا ارغنُوں
فرسودگی کا سِحر ، روایات کا فسُوں
اقوال کا مِراق ، حکایات کا جنوں
رسم و رواج و صحبت و میراث و نسل و خوں
افسوس یہ وہ حلقۂ دامِ خیال ہے
جس سے بڑوں بڑوں کا نکلنا محال ہے
اس بزمِ ساحری میں جہالت کا ذِکر کیا
خود علم کے حواس بھی رہتے نہیں بجا
اوہام جب دلوں میں بجاتے ہیں دائرا
عقلوں کو سوجھتا ہی نہیں رقص کے سوا
تاریخ جھومتی ہے فسانوں کے غول میں
بوڑھے بھی ناچتے ہیں جوانوں کے غول میں
جس دائرے میں قصرِ قدامت کا ہو طواف
جدّت کے جرم کو کوئی کرتا نہ ہو معاف
بگڑے ہوئے رسوم کا ذہنوں پہ ہو غلاف
آواز کون اُٹھائے وہاں جہل کے خلاف
آواز اٹھائے موت کی جو آرزو کرے
ورنہ محال ہے کہ یہاں گفتگو کرے
ہوتا ہے جو سماج میں جویائے انقلاب
ملتا ہے اُسکو مرتد و زندیق کا خطاب
پہلے تو اس کو آنکھ دکھاتے ہیں شیخ و شاب
اس پر بھی وہ نہ چپ ہو تو قوم کا عتاب
بڑھتا ہے ظلم و جور کے خنجر لئے ہوئے
تشنیع و طعن و دشنہ خنجر لئے ہوئے
اٹھتا ہے غُلغُلہ کہ یہ زندیقِ نامراد
کج فکر و کج نگاہ و کج اخلاق و کج نہاد
پھیلا رہا ہے عالم اخلاق میں فساد
اے صاحبان جذبۂ دیرینۂ جہاد
ہاں جلد اٹھو ، تباہیِ باطل کے واسطے
جنت ہے ایسے شخص کے قاتل کے واسطے
اور بالخصوص جب ہو حکومت کا سامنا
رعب و شکوہ جاہ و جلالت کا سامنا
شاہان کج کلاہ کی ہیبت کا سامنا
قرنا و طبل و ناوک درایت کا سامنا
لاکھوں میں ہے وہ ایک کروڑوں میں فرد ہے
اس وقت جو ثبات دکھائے وہ مرد ہے
اور بالخصوص بند ہو جب ہر درِ نجات
حق تشنہ لب ہو دشت میں باطل لبِ فرات
دستِ اجل ہو زن و فرزند تک کی ذات
حائل ہو مرگِ زیست میں لے دے کے ایک رات
یہ وہ گھڑی ہے کانپ اُٹھے شیرِ نر کا دل
اس تہلکے کو چاہئے فوق البشر کا دل
وہ کربلا کی رات وہ ظلمت ڈراؤنی
وہ مرگِ بے پناہ کے سائے میں زندگی
خیموں کے گرد و پیش و پُر ہول خامشی
خاموشیوں میں دُور سے وہ چاپ موت کی
تھی پشتِ وقت بارِ الم سے جُھکی ہوئی
ارض و سما کی سانس تھی گویا رُکی ہوئی
وہ اہلِ حق کی تشنہ دہاں ، مختصر سپاہ
باطل کا وہ ہجوم کہ اللہ کی پناہ
وہ ظلمتوں کے دام میں زہرا کے مہر و ماہ
تارے وہ فرطِ غم سے جھکائے ہوئے نگاہ
وہ دل بجھے ہوئے وہ ہوائیں تھمی ہوئی
وہ اک بہن کی بھائی پہ نظریں جمی ہوئی
لبریز زہرِ جور سے وہ دشت کا ایّاغ
دکھتے ہوئے وہ دل وہ تپکتے ہوئے دماغ
آنکھوں کی پتلیوں سے عیاں وہ دلوں کے داغ
پُر ہول ظلمتوں میں وہ سہمے ہوئے چراغ
بکھرے ہوئے ہوا میں وہ گیسو رسول کے
تاروں کی روشنی میں وہ آنسو بتول کے
وہ رات ، وہ فرات وہ موجوں کا خلفشار
عابد کی کروٹوں پہ وہ بے چارگی کا بار
وہ زلزلوں کی زد پہ خواتین کا وقار
اصغر کا پیچ و تاب وہ جھولے میں بار بار
اصغر میں پیچ و تاب نہ تھا اضطراب کا
وہ دل دھڑک رہا تھا رسالت مآب کا
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستانِ صادق و یارانِ با صفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے ، چلا جائے شوق سے
اور سنتے ہی یہ بات بصد کرب اضطراب
شبیر کو دیا تھا یہ انصار نے جواب
دیکھیں جو ہم یہ خواب بھی اے ابنِ بوتراب
واللہ فرطِ شرم سے ہو جائیں آب آب
قرباں نہ ہوں جو آپ سے والا صفعات پر
لعنت اس امن و عیش پر تف اس حیات پر
کیا آپ کا خیال ہے یہ شاہ ذی حشم!
ہم ہیں اسیر سود و زیاں صید کیف و کم
خود دیکھ لیجئے گا کہ گاڑیں گے جب قدم
ہٹنا تو کیا ہلیں گے نہ دشتِ وغا سے ہم
پتلے ہیں ہم حدید کے پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں ، پہاڑ ہیں میدانِ جنگ کے
ہاں ہاں وہ رات ، دہشت و بیم و رجا کی رات
افسونِ جاں کنی و طلسم قضا کی رات
لب تشنگانِ ذریتِ مصطفا کی رات
جو حشر سے عظیم تھی وہ کربلا کی رات
شبیر نے حیات کا عنواں بنا دیا
اس رات کو بھی مہرِ درخشاں بنا دیا
تاریخ دے رہی ہے یہ آواز دمبدم
دشتِ ثبات و عزم ہے دشتِ بلا و غم
صبر مسیح و جرأتِ سقراط کی قسم
اس راہ میں ہے صرف اک انسان کا قدم
جس کی رگوں میں آتشِ بدر و حنین ہے
جس سورما کا اسم گرامی حسین ہے
جو صاحبِ مزاجِ نبوت تھا ، وہ حسین
جو وارثِ ضمیرِ رسالت تھا ، وہ حسین
جو خلوتی ، شاہد قدرت تھا ، وہ حسین
جس کا وجود ، فخرِ مشیت تھا وہ حسین
سانچے میں ڈھالنے کے لئے کائنات کو
جو تولتا تھا نوکِ مژہ پر حیات کو
جو اک نشانِ تشنہ دہانی تھا وہ حسین
گیتی پہ عرش کی جو نشانی تھا وہ حسین
جو خلد کا امیرِ جوانی تھا وہ حسین
جو اک سنِ جدید کا بانی تھا وہ حسین
جس کا لہو تلاطمِ پنہاں لئے ہوئے
ہر بوند میں تھا نوح کا طوفاں لئے ہوئے
جو کاروانِ عزم کا رہبر تھا وہ حسین
خود اپنے خون کا جو شناور تھا وہ حسین
اِک دینِ تازہ کا جو پیمبر تھا وہ حسین
جو کربلا کا داور محشر تھا وہ حسین
جس کی نظر پر شیوہ حق کا مدار تھا
جو روحِ انقلاب کا پروردگار تھا
ہاں اب بھی جو منارۂ عظمت ہے وہ حسین
جسکی نگاہ ، مرگِ عداوت ہے وہ حسین
اب بھی محوِ درسِ محبّت ہے وہ حسین
آدم کی جو دلیلِ شرافت ہے وہ حسین
واحد جو ایک نمونہ ہے ذبحِ عظیم کا
” اللہ رے انتخاب ، خدائے حکیم کا "
ہاں وہ حسین جس کا ابد آشنا ثبات
کہتا ہے گاہ گاہ حکیموں سے بھی یہ بات
یعنی درونِ پردۂ صد رنگِ کائنات
اک کارساز ذہن ہے ، اک ذی شعور ذات
سجدوں سے کھینچتا ہے جو "مسجود” کی طرف
تنہا جو اک اشارہ ہے "معبود” کی طرف
جس کا وجود ، عدل و مساوات کی مُراد
جو کردگارِ امن تھا ، پیغمبرِ جہاد
تحویل زندگی میں پئے رفعِ ہر فساد
قدرت کی اک امانتِ زریں ہے جسکی یاد
سوزاں ہے قَلبِ خاک ، جو خونِ مبین سے
اک لو نکل رہ ہے ابھی تک زمین سے
عزت پہ جس نے سر کو فدا کر کے دم لیا
صدق و منافقت کو ، جدا کر کے دم لیا
حق کو ابد کا تاج عطا کر کے دم لیا
جس نے یزیدیت کو فنا کر کے دم لیا
فتنوں کو جس پہ ناز تھا وہ دل بجھا دیا
جس نے چراغِ دولتِ باطل بُجھا دیا
عالم میں ہو چکا ہے مسلسل یہ تجربا
قوت ہی زندگی کی ہی ہے گِرہ کُشا
سر ضعف کا ہمیشہ رہا ہے جھکا ہوا
نا طاقتی کی موت ہے ، طاقت کا سامنا
طاقت سی شے مگر خجل و بد نصیب تھی
نا طاقتی حسین کی کتنی عجیب تھی
طاقت سی شے کو خاک میں جس نے ملا دیا
تختہ اُلٹ کے ، قصرِ حکومت کو ڈھا دیا
جس نے ہوا پہ ، رعبِ امارت اڑا دیا
ٹھوکر سے جس نے افسرِ شاہی گرا دیا
اس طرح جس سے ظلم ، سیہ فام ہو گیا
لفظِ یزید ، داخلِ دشنام ہو گیا
پانی سے تین روز ہوئے جس کے لب نہ تر
تیغ و تبر کو سونپ دیا جس نے گھر کا گھر
جو مرگیا ضمیر کی عزت کے نام پر
ذِلت کے آستاں پہ جھکایا مگر نہ سر
لی جس نے سانس ، رشتۂ شاہی کو توڑ کر
جس نے کلائی موت کی رکھ دی مڑوڑ کر
جس کی جبیں پہ کج ہے خود اپنے لہو کا تاج
جو مرگ و زندگی کا ہے اک طرفہ امتزاج
سر دے دیا ، مگر نہ ظلم کو دیا خراج
جس کے لہو نے رکھ لی تمام انبیاء کی لاج
سنتا نہ کوئی دہر میں صدق و صفا کی بات
جس مردِ سرفروش نے رکھ لی "خدا ” کی بات
ہر چند اہل جور نے چاہا یہ بارہا
ہو جائے محو ، یاد شہیدانِ کربلا
باقی رہے نہ نام زمین پر حسین کا
لیکن کسی کا زور عزیزوں نہ چل سکا
عباس نامور کے لہو سے دُھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھُلا ہوا
یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا ، پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغِ ظلم کی تھرّا رہی ہے لو
درپردہ وہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز ، دوستوں
یہ بھی اُسی جری کی ہے آواز ، دوستوں
جس کا ہجوم درد و الم سے یہ حال تھا
سینہ تھا پاش پاش ، جگر پائمال تھا
رُخ پر تھا تشنگی کا دھواں دل نڈھال تھا
اس کرب میں بھی جس کو فقط یہ خیال تھا
آتش برس رہی ہے تو برسے خیام پر
آنے نہ پائے آنچ مگر حق کے نام پر
ہر چند ایک شاخ ، چمن میں ہری نہ تھی
ماتھا عرق عرق تھا لبوں پر تری نہ تھی
باطل کی ان بلاؤں پہ بھی چاکری نہ تھی
یہ داوری تھی اصل میں پیغمبری نہ تھی
رنگ اڑ گیا حکومتِ بدعت شعار کا
عزمِ حسین ، عزم تھا پروردگار کا
تھی جس کے دوشِ پاک پر اہل ولا کی لاش
انصارِ سرفروش کی لاش ، اقربا کی لاش
عباس سے مجاہدِ تیغ آزما کی لاش
قاسم سے شاہزادۂ گلگوں قبا کی لاش
پھر بھی یہ دُھن تھی صبر کی زلفوں سے بل نہ جائے
اِس خوف سے کہ حق کا جنازہ نکل نہ جائے
زار و نزار و تشنۂ و مجروح و ناتواں
تنہا کھڑا ہوا تھا جو لاکھوں کے درمیاں
گھیرے تھے جس کو تیر و تبر ناوک و سناں
اور سورہا تھا موت کے بستر پہ کارواں
اتنا نہ تھا کہ حقِ رفاقت سے کام لے
گرنے لگیں اگر تو کوئی بڑھ کے تھام لے
ہاں وہ حسین ، خستہ و مجروح و ناتواں
ساکت کھڑا ہوا تھا جو لاشوں کے درمیاں
سنتا رہا سکون سے جو پیر نیم جاں
اکبر سے ماہ رو کی جوانی کی ہچکیاں
ہے ہے کی آ رہی تھی صدا کائنات سے
پھر بھی قدم ہٹائے نہ راہِ ثبات سے
ہاں اے حسینِ تشنہ و رنجور ، السّلام
اے مہمانِ عرصۂ بے نور ، السّلام
اے شمعِ حلقۂ شبِ عاشور ، السّلام
اے سینۂ حیات کے ناسور ، السّلام
اے ساحلِ فرات کے پیاسے ترے نثار
اے آخری "نبی” کے نواسے ترے نثار
ہاں اے حسین بیکس و ناچار ، السّلام !
اے کشتگانِ عشق کے سردار ، السّلام
اے سوگوارِ یاور و انصار ، السّلام
اے کاروانِ مُردہ کے سالار ، السّلام
افسوس اے وطن سے نکالے ہوئے حسین
اے فاطمہ کی گود کے پالے ہوئے حسین
تو ، اور تیرے حلق پر تلوار ، ہائے ہائے
زنجیر اور عابدِ بیمار ، ہائے ہائے
زینب کا سر کھُلے ، سرِ بازار ہائے ہائے
سر تیرا اور یزید کا دربار ہائے ہائے
انسان ، اس طرح اُتر آئے عناد پر
لعنت خدا کی حشر تک ابنِ زیاد پر
تجھ سا شہید کون ہے عالم میں اے حسین
تو ہے ہر ایک دیدہ پُر نم میں اے حسین
زہاد ہی نہیں ہیں ترے غم میں اے حسین
ہم رند بھی ہیں حلقہ ماتم میں اے حسین
آزاد جو خیال میں ہیں اور کلام میں
وہ بھی اسیر ہیں تری زلفوں کے دام میں
یوں تو دُرونِ سینۂ تاریخ روزگار
دولت ہے بے حساب ، جواہر ہیں بے شمار
لیکن ترا وجود ہے اے مردِ حق شعار
عزمِ بشر کی واحد و بے مثل یادگار
تکتا ہے تجھ کو وقتِ جہاں سوز دُور سے
تو ہے بلند ، ضربِ سنین و شہور سے
اس باغِ دہر میں پئے تفسیر رنگ و بو
یوں تو ہے ہر روش پہ اک انبار گفتگو
لیکن برائے گوشِ حکیمانِ راز جُو
عالم میں صرف ایک سخن گفتنی ہے تو
مردانگی کے طُور کا تنہا کلیم ہے
تو سینۂ حیات کا قلبِ سلیم ہے
اے رہبرِ خجستہ و اے ہادی غیور!
تو حافظے کا ناز ہے ، تاریخ کا غرور
اب بھی ترے نشانِ قدم سے ہے وہ سرور
لوحِ جبینِ وقت پہ غلطاں ہے موج نُور
تو ہے وہ مہر ، دفتر عزم و ثبات پر
اب تک دمک رہی ہے جو پُشتِ حیات پر
ہاں اے حسین ، ابن علی ، رہبرِ انام
اے منبرِ خودی کے حیات آفریں پیام
اے نطقِ زندگی کے مقدس ترین نام
اے چرخ انقلاب کے ابرِ جواں خرام
غازہ ہے تیرا خون ، رُخِ کائنات کا
ہر قطرہ "کوہِ نور” ہے تاجِ حیات کا
جس بحرِ ظلم و جور کے گرداب میں تھا تو
نازل پہاڑ پر ہوں تو بن جائے آبِ جو
سینے میں ابر کے نہ رہے روح رنگ بو
آہن کے جوہروں سے ٹپکنے لگے لہو
یخ تک بَرنگِ آتشِ دوزخ دہک پڑے
ماتھے سے آگ کے بھی پسینہ ٹپک پڑے
اے خنجر برہنۂ و اے تیغ بے نیام
اے حق نواز امیرِ نبوت بدوش امام
اے تیرگی کی بزم میں خورشید کے پیام
اے آسمانِ درسِ عمل کے مہ تمام
رہتی ردائے شام کی ظلمت ہی دین پر
ہوتا نہ تو ، تو صبح نہ ہوتی زمین پر
پھر حق ہے ، آفتابِ لبِ بام اے حسین
پھر بزم آب و گل میں ہے کہرام اے حسین
پھر زندگی سے سست و سبک گام اے حسین
پھر حُرّیت ہے موردِ الزام اے حسین
ذوقِ فساد و ولولۂ شر لئے ہوئے
پھر عصرِ نو کے شمر ہیں خنجر لئے ہوئے
ہاں خاتمِ حیات ابد کا نگیں ہے تو
گردونِ گیر و دار کا مہر مُبیں ہے تو
اک زندہ حدِّ فاضل دنیا و دیں ہے تو
کونین کا تخیل عہد آفریں ہے تو
پھر دشتِ جنگ کو ہے ترا انتظار ، اٹھ
اُٹھ روزگارِ تازہ کے پروردگار ، اُٹھ
مجرُوح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہریار
پھر کربلائے نو سے ہے نوعِ بشر دوچار
اے زندگی ! جلالِ شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزمِ حسین دے
پھر گرم ہے فساد کا بازار دوستو
سرمایہ پھر ہے برسر آزار ، دوستو
تاکے یہ خوفِ اندک و بیسار ، دوستو
تلوار ، ہاں نپی ہوئی ، تلوار ، دوستو
جو تیز تر ہو خونِ امارت کو چاٹ کر
رکھ دے جو سیم و زر کے پہاڑوں کو کاٹ کر
بل کھا رہے ہیں دہر میں پھر سیم و زر کے ناگ
گونجے ہوئے ہیں گنبدِ گرداں میں غم کے راگ
پھر موت ، رخشِ زیست کی تھامے ہوئے ہے باگ
تا آسماں بلند ہو اے زندگی کی آگ
فتنے کو اپنی آگ کے جھولے میں جھونک دے
ہاں پھونک دے قبائے امارت کو پھونک دے
اے دوستو! فرات کے پانی کا واسطہ
آلِ نبی کی تشنہ دہانی کا واسطہ
شبیر کے لہو کی روانی کا واسطہ
اکبر کی ناتمام جوانی کا واسطہ
بڑھتی ہوئی جوان امنگوں سے کام لو
ہاں تھام لو حسین کے دامن کو تھام لو
آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زین
ہر گام اک "بدر”ہو ہر سانس اک "حنین”
بڑھتے رہو یونہیں پئے تسخیر مشرقین
سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ "یا حسین ”
تم حیدری ہو سینہ اژدر کو پھاڑ دو
اس خیبرِ جدید کا در بھی اکھاڑ دو
جاری رہے کچھ اور یونہیں کاوش و ستیز
ہر وار ، بے پناہ ہو ، ہر ضرب ، لرزہ خیز
وہ فوجِ ظلم و جور ہوئی مسائل گُریز
اے خون ، اور گرم ہو ، اے نبض اور تیز
عفریتِ ظلم کانپ رہا ہے ، اماں نہ پائے
دیوِ فساد کانپ رہا ہے ، اماں نہ پائے
تاخیر کا یہ وقت نہیں ہے دلاورو
آواز دے رہا ہے زمانہ ، بڑھو ، بڑھو
ایسے میں باڑھ پر ہے جوانی ، بڑھے چلو
گر جو مثالِ رعد ، گرج کر برس پڑو
ہاں زخم خوردہ وہ شیر کی ڈہکار ، دوستو
جھنکار ، ذوالفقار کی جھنکار ، دوستو
اے حاملانِ آتشِ سوزاں ، بڑھے چلو
اے پیروانِ شاہِ شہیداں ، بڑھے چلو !
اے فاتحانِ صرصر و طوفاں ، بڑھے چلو
اے صاحبانِ ہمّتِ یزداں ، بڑھے چلو!
تلوار ، شمر عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو ، یزید کو دوزخ میں جھونک دو
دیکھو ، وہ ختم ، ظلم کی حد ہے ، بڑھے چلو
اپنا ہی خود یہ وقتِ مدد ہے ، بڑھے چلو
بڑھنے میں عزت اب وجد ہے بڑھے چلو
وہ سامنے حیاتِ ابد ہے ، بڑھے چلو
اُلٹے رہو کچھ اور یونہی آستین کو
اُلٹی ہے آستیں تو پلٹ دو زمین کو
اے جانشین حیدر کرّار المدد
اے منچلوں کے قافلہ سالار المدد
اے امرِ حق کی گرمیِ بازار المدد
اے جنسِ زندگی کے خریدار المدد
دُنیا تری نظیر شہادت لئے ہوئے
اب تک کھڑی ہے شمعِ ہدایت لئے ہوئے
٭٭٭
ماخذ:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D9%85%D8%B1%D8%A7%D8%AB%DB%8C-%D8%AC%D9%88%D8%B4.19018/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید