FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

حرف سفیر ۔۔۔

بارے کچھ کتابوں کے

                محمد یعقوب آسیؔ

 

 

انتساب

کم مائیگیِ حرفِ تشکر! مجھے بتلا

یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے؟

 

 

حرف سفیر

             ’حرف سفیر‘ کہہ لیجئے کہ میرے افکارِ پریشاں کا عکس ہے، اس میں دوستوں کی کتابوں پر اظہارِ خیال ہے۔ یہ بھی تو رسمِ دنیا کا حصہ ہے اور اِس دنیا میں رہتے ہوئے اس کو نبھانے کی کوشش کی ہے، کچھ شخصی حوالے سے بھی۔ اس کو تنقید نہیں جانئے گا، تقریظ بھی شاید نہیں بن پائی تاہم جو کچھ جس طور میں نے اپنے احباب کے افکار کو دیکھا، کچھ اس انداز میں کہہ دینے کی کوشش کی ہے کہ دوستوں کی دل شکنی نہ ہو۔اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں ، دیکھ لیجے گا۔

مری امید کے مرکز سے وابستہ

سبھی فنکار،

حرف و صوت،

رنگ و سنگ،

تحریر و قلم کی آبرو کے پاسباں سارے

مری ہستی، مری سوچیں ،

قلم میرا، مری تحریر

ان سب کی امانت ہے

قلم، قرطاس، فکر و فہم

جو کچھ پاس ہے میرے

وہ ان سب کی عنایت ہے

میں لکھتا ہوں

انہی کے واسطے

مجھ کو چکانا ہے یہ سارا قرض

اور اپنے قلم کی حرمت و توقیر کا بھی پاس رکھنا ہے

             محبتوں کا  بہت سارا ایسا قرض بھی واجب الادا ہے، کہ مجھ میں نہ اس کی سکت ہے نہ جرات، اور میں اپنے آپ کو بتانے میں لگا ہوا ہوں کہ یہ قرض تو اترنے سے رہے، یہاں تو اظہارِ تشکر کا بھی سلیقہ نہیں ۔

               یاہو پر ایک گروپ بنایا تھا ’’القرطاس‘‘، اور اپنی  اردو اور پنجابی ادب کی کچھ کاوشیں وہاں رکھی تھیں ، اب بھی رکھی ہیں ۔ اب تو یہ بات بھی پرانی محسوس ہونے لگی ہے۔  تاہم ایسا لگا کہ آپ کی امانت آپ تک پہنچ نہیں پا رہی۔ سو اپنے سارے خام اور پختہ افکار اٹھائے  سرِ راہ آن بیٹھا ہوں ۔ اتنا اعتماد البتہ ضرور ہے کہ میں نے اپنی ذات کو اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کھرا کھوٹا جو بھی ہے، سامنے رکھا ہے۔ جو کچھ آپ کو بھا جائے اٹھا لیجئے اور جو اچھا نہ لگے چھوڑ دیجئے۔

             اب تو یہی ہے کہ جو لکھا ہے اپنے جیتے جی آپ کے حوالے کرتا چلوں ۔ ایک ایک کر کے  اپنا کل ادبی سرمایہ اہلِ نظر کے حوالے کر رہا ہوں ، کہ صاحبان، سنبھالئے اپنی امانت! مجھے اپنا بوجھ ہلکا کرنا ہے۔ کون جانے کب بلاوا آ جائے کہ:

میاں ، بس اٹھو اور یاں سے چلو اب!

 بہت جی لئے اس جہاں سے چلو اب!

             اپنی سانسیں پوری ہو گئیں تو کہاں ڈھونڈتے پھریں گے آپ! کسی نہ کسی کے پاس رکھی ہوں گی، شاید کبھی کسی کو یاد آ جائیں !

             صاحبو! تکمیل کا دعویٰ مجھے نہ کبھی تھا، نہ ہے۔ ہاں ، ’’اپنی سی کرو بنے جہاں تک‘‘ کے مصداق میری یہ کوشش رہی ہے کہ میرا اندازِ اظہار میرے پڑھنے والوں کو برا نہ لگے، بس! میں اس میں کس قدر کامیاب ٹھہرتا ہوں ، یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔

            دعاؤں کی ضرورت اور طلب کسے نہیں ہوتی!میں بھی اپنے احباب کی دعاؤں کا طالب ہوں ، اس ایک تخصیص کے ساتھ کہ میرے لئے بھی ویسے دعا کیجئے گا جیسے اپنے لئے کرتے ہیں !

محمد یعقوب آسیؔ             ۱۴؍مارچ  ۲۰۱۴ء

٭٭٭

 

 

۹؍ جنوری ۱۹۹۲ء

جینے مرنے کا فن

(سید عارف کے شعری مجموعہ ’’ لہو کی فصلیں ‘‘ پر یہ تاثراتی مضمون پاکستان یوتھ لیگ واہ کینٹ کے اجلاس  مؤرخہ ۹؍ جنوری ۱۹۹۲ء میں پیش کیا گیا)

میں روشنی ہوں

افق افق پھیلنا ہے مجھ کو

عروقِ ہستی سے زہرِ ظلمت نکالنا ہے

مجھے تمنا کا گوشہ گوشہ اجالنا ہے

سید عارف کی کتاب ’’لہو کی فصلیں‘‘ اور اس کا موضوع ایک اعتبار سے اِس نظم میں مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے۔ وادیٔ کشمیر، خطۂ جنت نظیر آج جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہے اور ہر حساس آنکھ پر اس وادیٔ گل رنگ کو خوں رنگ ہوتے دیکھ کر جو گزرتی ہے اس کا ادراک مجھے اور آپ کو سب کو ہے۔ سید عارف نے نعت کے زیرِ عنوان مسلمانانِ عالم کی زبوں حالی اور بے بسی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں مجھے ایک خاص نکتہ دکھائی دیتا ہے؛ یہ مصرعے دیکھئے:

ع       زباں پہ نام ترا، دل میں خوف کے اصنام

ع       ترا پیام محبت، مرا ضمیر غلام

ع       انا فروش ہوں نیلام ہو گیا ہوں میں

ع       اسیر گردشِ ایام ہو گیا ہوں میں

ع       یہی سزا ہے مری اور یہی مرا انجام

ع       کہ حادثاتِ زمانہ کی ٹھوکروں میں رہوں

یہ ہے وہ اصل بات کہ ہم خود کے لئے مخلص نہ رہے تو ہم پر زمانے بھر کے آلام و مصائب نے ہلہ بول دیا۔ یہ صورتِ حال صرف کشمیر میں نہیں پوری دنیا میں ہے۔سید عارف نے کشمیر کو پوری اسلامی دنیا کے لئے علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ’دخترِ کشمیر کی پکار‘ میں وہ امتِ وسطیٰ کی حالت زار کا جس انداز میں نقشہ کھینچتے ہیں اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی، اور ہاں! یہاں بات صرف داد دینے کی نہیں، بات ہے محسوس کرنے کی اور غم میں سانجھی بننے کی اور اس کا مداوا کرنے کے عزم کی۔ یہ دعوت بھی ہے، دعا بھی، تاریخ بھی اور احساس بھی جس کا ایک تاثر ’کشمیری ماں کی دعا‘ میں ملتا ہے:

خدائے عالم

مرے وطن کے یتیم شہروں میں

پھر سے کوئی محبتوں کا رسول اترے

کبھی تو چہروں سے

بے یقینی کی دھول اترے

سید عارف نوحہ نہیں کرتا بلکہ اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے اور عمل کی دعوت دیتا ہے:

کہ میں مسکراتے ہوئے

موت کی وادیوں سے گزرنے کا فن جانتا ہوں

کہ میں روشنی بن کے

تاریکیوں میں بکھرنے کا فن جانتا ہوں

کہ میں سینۂ سنگ میں بھی اترنے کا فن جانتا ہوں

میں جینے کا مرنے کا فن جانتا ہوں

یہ مرنے کا فن ہی زندگی کی ضمانت ہے ۔ اور سید عارف اس لئے بھی زندہ رہنا چاہتا ہے کہ اسے حقِّ آزادی حاصل ہے، کہ اس کی نسبت رسول ہاشمی ﷺ سے ہے جنہوں نے جنہوں نے جہاں میں آدمی کا بول بالا کیا اور ظلمات کا دل چیر پر اجالا کیا۔ سید عارف مرتا ہے تو اس لئے کہ اسے مر کر زندگی تخلیق کرنی ہے، اسے اپنے لہو سے روشنی حاصل کرنی ہے اور:

مجھے صدیوں سے دشتِ شب میں

آرزوؤں کی جبیں پر

صبحِ نو کا اک حسیں جھومر سجانا ہے

مجھے عارف

ہر اک وحشت کدہ مسمار کرنا ہے

کہ مجھ کو آگ کا ہر ایک دریا پار کرنا ہے

اس کی دعوت حسین بن کر جینے اور مرنے کی دعوت ہے، یہ جسارتوں کے گلاب کھلانے کی اور حرفِ بقا سے شناسائی کی دعوت ہے:

کہ میں

لوحِ ارض و سما پر لکھا

ایک حرفِ بقا ہوں

کہ میں حریت کی اک ایسی صدا ہوں

جسے کوئی دیوار بھی روک سکتی نہیں ہے

اُس کے پیشِ نظر ایک ایسا مردِ حر ہے جو بدی کی بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرا جاتا ہے۔ جو اپنے دشمن کی سوچ پڑھ لینے کی قدرت رکھتا ہے، جو خوشبوؤں کا پیمبر ہے، جو روشنی کی علامت ہے:

میں اک علامت ہوں روشنی کی

وہ روشنی جو ضمیر صبحِ ازل سے پھوٹی

خدائے کون و مکاں کا عکسِ جمال ہوں میں

کہ جس کی خاطر خدا نے ارض و سما تراشے

ادب کرو میرا دنیا والو

کہ میں پیمبر ہوں خوشبوؤں کا

محبتوں کا رسول ہوں میں

اسے بد گمانیوں کے زہر کا پوری طرح ادراک ہے، وہ بدگمانی جو اعتماد اور یقین کے رشتے توڑ دیتی ہے، جو آدمی کو ذرہ بنا دیتی ہے، جو زندگی کی تازگی چھین لیتی ہے، جو ذہنِ انسانی کو تاریک کر دیتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ:

تضادِ قول و عمل کی شب کا طلسم ٹوٹے

کبھی تو شامِ گمان گزرے

کبھی تو صبحِ یقین پھوٹے

سید عارف نے اِس کتاب میں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ ایک سچے اور کھرے انسان کو اُس کی قوت کا احساس دلایا ہے، اسے امید بخشی ہے، ولولۂ سفر بھی دیا ہے اور نشانِ منزل بھی:

ہر مجلس میں ہر زنداں میں

اک حشر اٹھانا ہے مجھ کو

ظلمت کا جفا کا وحشت کا

ہر نقش مٹا نا ہے مجھ کو

اِس پار بھی رہنا ہے عارف

اُس پار بھی جانا ہے مجھ کو

اُس نے اپنے زبان میں جاودانی اور الوہی پیغام دیا ہے، اب اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا میرا کام ہے، آپ کا کام ہے، شکریہ۔

٭٭٭

 

 

۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۵ء

 کچی عمر کی پکی باتیں

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر شاہد محمود ذکیؔ کے پہلے شعری مجموعہ ’’خوشبو کے تعاقب میں ‘‘ پر ایک تاثر

(کتاب کی تقریبِ رونمائی [مؤرخہ ۱۲؍ اپریل ۱۹۹۶ء  حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا] میں  پڑھا گیا)

صاحبو! سب سے پہلے تو مجھے شکریہ ادا کرنا ہے عزیزی شمشیر حیدر کا جنہوں نے مجھے شہرِ اقبال کے ابھرتے ہوئے شاعر جناب شاہد محمود ذکیؔ سے متعارف کرایا اور اسی دن یعنی ۲۰/دسمبر ۱۹۹۵ کو جناب ذکیؔ کی غزلوں پر مشتمل پہلی کتاب  ’’خوشبو کے تعاقب میں‘‘ عطا فرمائی۔ پھر مجھے شکریہ ادا کرنا ہے جناب عادل صدیقی کا جنہوں نے شاعر کے متعلق نہ صرف بنیادی معلومات اور اہم اطلاعات سے نوازا ہے بلکہ اس کے نقاد کے لئے کچھ حدود کا تعین بھی کر دیا ہے۔ لکھتے ہیں: تتلیاں پکڑنے کی عمر سے ذرا آگے پہنچ کر اگر کوئی شخص شعر گوئی کا ہنر پالے تو دیکھنے اور سننے والوں کو حیرت ضرور ہوا کرتی ہے اور اگر کوئی انسان زندگی کے اکیسویں سال میں ہی صاحبِ تصنیف بھی ہو جائے تو اور بھی حیرانی کی بات ہو گی۔ تو پھر آپ سچ جانئے کہ شاہد ذکیؔ ابھی اکیس کے سن میں ہی داخل ہوا ہے کہ خوشبو کے تعاقب میں نکل پڑا ہے، خدا اس نوجوان کو نظرِ بد سے بچائے۔‘‘ جناب عادل صدیقی کے بقول ’’یہ بھی شکیب جلالی، سبط علی صباؔ، آنس معین اور عارف جلیل کے قبیلہ کا فرد معلوم ہوتا ہے اور پھر خوشبو کے تعاقب میں نکلنا کارِ آسان بھی نہیں۔ اگر اس نوجوان نے اس غیر معمولی دشوار سفر پر چل نکلنے کا عزم اور حوصلہ پکڑ لیا ہے تو ہماری دعا ہے کہ یہ زندگی میں خوشبوئیں سمیٹتا رہے اور انسانی ماحول یا معاشرے کو عطر بیز کرتا رہے۔‘‘

خود شاہد ذکیؔ کہتے ہیں: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاہد ذکیؔ کی شاعری میں کچا پن ہے۔ مجھے اس بات کا بخوشی اعتراف ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کچا پن ہی میری شاعری کا حسن ہے۔ بقول محترمہ پروین شاکر کہ میں نہیں چاہتی کہ میرا فن کچی عمر میں ہی فلسفے کا عصا لے کر چلنا شروع کر دے‘‘۔ شاہد کا کہنا ہے: ’’ویسے بھی میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں آنکھوں میں خواب، کتابوں میں پھول اور ہونٹوں پر نغمے رکھے جاتے ہیں اور انہی خوابوں پھولوں اور نغموں کا عکس ہی میری شاعری ہے۔ کبھی کبھی یہ خواب پھول اور نغمے ٹوٹ کر بکھرتے ہیں تو دکھ تو ہوتا ہے نا! یہی وجہ ہے کہ کہیں کہیں آپ کو میرے کرب آمیز تفکر کی جھلکیاں  نمایاں نظر آئیں گی۔ ان کرب ناک داستانوں کو رقم کرنے میں میری شعوری کوششوں کو ہرگز ہرگز دخل نہیں ہے۔‘‘

مناسب ہو گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ڈاکٹر قمر تابش کے الفاظ دوستوں کے گوش گزار کر دوں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: ’’بارش کا پہلا قطرہ کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو، زمین کی پیاس نہیں بجھا سکتا۔ہمیں یقین ہے کہ شعروں کے حوالے سے اُس کی آنے والی ہر کاوش پہلے سے کہیں بہتر ہو گی اور خوب سے خوب تر کا سفر انسانی فطرت کے حوالوں سے جاری رہے گا۔ شاعری کے حوالے سے شاہد محمود ذکی کا قلم قبیلے کے قدیم اور جدید لکھاریوں کے درمیان پورے قد سے کھڑا ہے اور اپنے بھر پور جذبوں کے ساتھ خوشبو کے تعاقب میں ہے، اپنی معصوم اور پیاسی کوششوں کے ساتھ۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین اس کے شعروں کی بعض سہواً فنی فرو گزاشتوں کو برداشت کریں گے اور اسے بھرپور حوصلہ دیتے ہوئے بہتر سے بہتر شعر کی تخلیق کا موقع فراہم کریں گے۔‘‘ بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب، کہ آپ نے وہ بات کہہ دی جو مجھے بھی کہنی تھی۔

پھر، مجھے شکریہ ادا کرنا ہے شاہد ذکی کے قریبی دوست قیصر فداؔ کا بھی اور ندیم اسلام آمرؔ کا بھی جن کے ملفوظات سے مجھے بات کرنے میں آسانی ہو گئی ہے۔ ایک بات البتہ مجھے بڑی عجیب محسوس ہوئی کہ ’’خوشبو کے تعاقب میں‘‘ کے شاعر شاہد محمود کا تخلص ذکیؔ جو کتاب کے سرورق پر تو لکھا ہے اور کتاب میں شامل مضامین میں بھی آیا ہے مگر تہتر غزلوں، ایک حمد اور ایک نعت پر مشتمل چورانوے صفحات پر پھیلے پانچ سو چھتیس اشعار میں یہ لفظ ذکیؔ بطور تخلص ایک بار بھی نہیں آیا۔ بلکہ شاعر نے اپنے نام کا پہلا لفظ شاہد بطور تخلص باندھا ہے۔ اس کو میں یوں دیکھتا ہوں کہ شاہد محمود نے تکلفاً اپنے نام کے ساتھ ایک عدد تخلص چسپاں کر لیا ہے ورنہ وہ سیدھے سادے انداز میں براہ راست اسی نام سے پہچانا جانے کا خواہش مند ہے جو اُسے زندگی کے ساتھ ملا اور جو بچپن سے آج تک بلا امتیاز ہر سطح پر اس کے ساتھ رہا یعنی ’شاہد‘۔ یہی براہ راست انداز اس کی شاعری میں جا بجا نہ صرف نظر آتا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو بے تکلفی کی حدود سے آگے نکلتا دکھائی دیتا ہے:

آرزوئیں فضول ہوتی ہیں

گویا کاغذ کا پھول ہوتی ہیں

ذرا سی بات پہ کیا یوں پھلا کے منہ چلے جانا

جوانی تو جوانی ہے شرارت ہو ہی جاتی ہے

تا دمِ تحریر میری شاہد سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور فی الحال مجھے اس کے شخصی مزاج کا کوئی اندازہ نہیں ہے اور شعر پر بات کرنے کے لئے یہ ایک اچھا اتفاق ہے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ ذاتی مشاہدہ اشعار کے تجزیے پر اثر انداز ہو کر کسی حد تک ہی سہی جانب دارانہ صورت اختیار کر لے۔ اپنی شاعری میں شاہد کبھی تو اپنی عمر سے بہت بڑا دکھائی دیتا ہے اور کبھی ایک ننھا سا بچہ اور کبھی ایک ایسا نوجوان جیسا وہ بظاہر ہے۔ اس کے کچھ نوجوان اشعار ملاحظہ ہوں:

بھیگی رتوں کے قرب سے تن جھومنے لگا

بارش کے لمس نے مجھے لذت عجیب دی

اسی لئے میں نہیں اب سنوارتا خود کو

میں جب سنورتا ہوں تو بے طرح بکھر جاتا ہوں

کچی تھی عمر عشق کی کچی تھی سوچ بھی

ایسے میں حادثات کو دیکھا تو ڈر گئے

اس کی شاعری میں دکھائی دینے والا سال خوردہ بوڑھا گرگِ باراں دیدہ اپنی ذات کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے:

زندگی تو نے مرا حال عجب کر ڈالا

اب مجھے موت بھی دیکھے گی تو ڈر جائے گی

مری اک عمر کی محنت سے جو مکان بنا

وہ میرے بچوں کو سستا دکھائی دیتا ہے

بچوں کی سی بلکہ ’بچگانہ‘ معصومیت کا اظہار شاہد کے ہاں:

میں پھول ہوں تو ہونٹ کو تتلی بنا کے مل

میں چاند ہوں تو جسم کا ہالہ بھی دے مجھے

کوئی بتلا نہیں سکتا کہ مٹھی میں چھپا کیا ہے

کوئی چہرے سے عادت کا تصور کر نہیں سکتا

کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار مجھے ایسے لگا کہ شاہد نے شاعری نہیں بلکہ ڈائری لکھی ہے اور اپنے روزمرہ واردات، تاثرات، یادداشتیں اور افکار جس طرح وہ وارد ہوئے رقم کرتا گیا ہے:

وہیں پہنچے جہاں سے ہم چلے تھے

سفر کے واہمے ہیں اور ہم ہیں

یہ مرے شعر تو نہیں شاہد

یہ ہیں میری کتاب کے آنسو

پھر آج مجھے میری ضرورت نے ستایا

پھر آج تجھی سے میں تجھے مانگ رہا ہوں

میرے قاتل کے خد و خال سے لگتا ہے مجھے

یہ کسی دور میں محبوب رہا ہے میرا

اس بات سے مراد ہرگز یہ نہیں کی شاہد نے زندگی کے نشیب و فراز کو کبھی سنجیدگی سے محسوس نہیں کیا یا یہ کہ وہ ڈائری لکھ کر خود ساری ذمہ داریوں سے دست بردار ہو کر بیٹھ رہا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شاہد نے زندگی کا مشاہدہ کیا ہے اور اہل قلم ہونے کے ناتے پوری ذمہ داری سے اپنے منصب کو نبھانے کی سعی کی ہے۔اس نے اپنے ارد گرد کے دگرگوں معاشرے کو دیکھا بھی ہے محسوس بھی کیا ہے اور اپنے قاری کو اپنے احساس میں شریک بھی کیا ہے:

ماں ہر اک لمحہ اسی سوچ میں گم رہتی ہے

جب مرا بچہ جواں ہو گا تو کیسا ہوگا

تو نے تو ارادے ہی مرے توڑ دیے ہیں

گزرے گا سفر کیسے کھڑا سوچ رہا ہوں

اجتماعی سفر میں جب اسے اپنے ساتھ کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا تو تہ چلّا اٹھتا ہے:

اُس قوم نے کیوں مجھ سے بغاوت کی اے مالک

جس قوم کی خاطر میں لڑا، سوچ رہا ہوں

زندگی کے تجربے اور یقین کی مبہوت کن سطح اس کے بہت سے اشعار میں نظر آتی ہے۔ حیاتِ گریز پا کے تجربات کی فلسفیانہ توجیہ ملاحظہ ہو:

راز کوئی بھی ہو نہیں چھپتا

راز آوارہ گرد ہوتا ہے

خواب ٹوٹیں تو کچھ نہیں ہوتا

خواب بکھریں تو درد ہوتا ہے

عشق کا ساتھ دینا مشکل ہے

عشق صحرا نورد ہوتا ہے

اُن کی خوشیاں بھی عارضی ہوں گی

جن کے غم جاوداں نہیں ہوتے

فکر اور فن دونوں کا منبع انسان کی ذات کے اندر کہیں چھپا ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے اظہار کی ابتدا عموماً داخلی سطح سے ہوتی ہے۔ یہ داخلی سطح انسانی شخصیت کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ شاہد کے داخل میں ایک ایسی ٹھنڈی ٹھار روشنی ہے جو کسی بہت ہی ’پرائیویٹ‘ قسم کے چاند یا جگنو کی مرہونِ منت ہے۔ اِس کی نقرئی کرنیں اُس کے الفاظ میں کچھ اس طرح جھلملاتی ہیں:

کیا وہ بھی مجھے میری طرح سوچ رہا ہے

میں چاند جسے چھت پہ کھڑا سوچ رہا ہوں

شاہد یہ بات شہر کو حیران کر گئی

چڑیا کی رہنمائی کو جگنو نکل پڑے

اے چاند اُسے کہہ دے کہ سپنے نہ دکھائے

اے چاند اُسے کہہ دے میں اب جاگ گیا ہوں

شہر کا کہہ کے مجھے دشت میں لے آئے ہیں

گویا جگنو بھی شرارت پہ اتر آئے ہیں

پہلا شعری مجموعہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ شاعر اور قاری کے درمیان پہلا رابطہ ہوتا ہے اور اگر پہلا رابطہ ترسیلِ احساس کا فریضہ انجام نہ دے سکے تو شاعر اپنے قاری سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر اگر شاعر اپنے دل کی دھڑکنیں اور خون کی گردش اپنے الفاظ کو عطا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو محبتیں اس کی راہ میں گل بدست بلکہ فرش راہ ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شاہد کی یہ کتاب یہ مقصد حاصل کر رہی ہے؟ جواب میں شاہد کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں:

ہم نے تمہارے شہر سے مانگا نہیں تجھے

ہم نے تمہارے شہر کو ویراں نہیں کیا

اے مرے شہر کے لوگو، مجھے تنہا کر دو

میری وحشت کو تماشا نہ بناؤ، جاؤ

ہر خوشی آخری نہ تھی میری

ہر خوشی آخری نظر آئی

مجھے نہ روکو کہ صحرائے مرگ سے آگے

مجھے حیات کا رستہ دکھائی دیتا ہے

تیرے آنے پہ بھی نہیں چھلکے

لگ رہا ہے کہ مر گئے آنسو

ناکام محبت کا سفر کیا ہے نہ پوچھو

اک لاش ہے جو رہنے کو گھر ڈھونڈ رہی ہے

سب نے کچے گھڑے کا دُکھ دیکھا

کس نے دیکھے چناب کے آنسو

میں تو اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاہد نے زندگی کو تمام زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جاگتی آنکھوں سے زندگی کا نظارہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہاں ضبط مشکل ہے اور ضبطِ مسلسل تو اور بھی مشکل ہے۔ یہ کیفیت جب اُس کی جان کو آتی ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے:

ع       میں ضبطِ مستقل سے نہ مر جاؤں اے خدا!

اور خود ہی جواب بھی دیتا ہے کہ

ممکن ہے تیرے صبر کا یہ امتحان ہو

شاہدؔ غمِ حیات کا مقصد کوئی تو ہے

اور میرا مقصد؟  میرا مقصد شاہد کی شاعری کو اس طرح پیش کرنا تھا کہ آپ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ شاہد کا اپنا دعویٰ تو یہ ہے کہ:

مرے نقاد کو شاہدؔ بڑا حیران کرتی ہے

مرے الفاظ کی ندرت، مری سوچوں کی گہرائی

آپ کیا کہتے ہیں، غور کیجئے گا، شاہد کی شاعر کی شاعری پر بھی اور میری گزارشات پر بھی۔ مجھے اجازت دیجئے، شکریہ!

٭٭٭

 

 

۸؍ جولائی ۱۹۹۶ء

اوچن خراشو، انشائیہ اور صدیقی صاحب

عثمان خاور کے سفرنامہ ’’ہریالیوں کے دیس میں ‘‘ پر ایک نظر

(یہ مضمون مذکورہ کتاب کی تقریبِ رونمائی میں پیش کیا گیا اور بعد میں کاوش میں شائع ہوا)

او چن خراشو! جی ہاں …. کیا کہنے، بہت خوب! یہی ترجمہ ہے اس کا! عثمان خاور کا سفر نامہ پڑھ کر جو پہلا تاثر بنتا ہے وہ یہی ہے، اوچن خراشو! یہ لفظ بھی اسی کتاب سے لیا گیا ہے اور صدیقی صاحب سے تو اس کتاب کے سبھی قارئین واقف ہو چکے ہوں گے۔ معراج صدیقی صاحب جو اندر سے پورے پاکستانی ہیں اور پاسپورٹ کے اعتبار سے پورے امریکی، ہریالیوں کے دیس میں جہاں جہاں عثمان خاور اور سلمان باسط کے قدم پہنچے صدیقی صاحب اُن کے ہم رکاب رہے یا یوں کہئے کہ یہ دونوں بھائی صدیقی صاحب کے ہم رکاب رہے۔ رہ گئی بات انشائیے کی! تو، یہ وہ صنفِ سخن ہے جس کی حدود کا صحیح تعین ابھی تک نہیں ہو سکا۔ ناقدین نے تعریف در تعریف کا ایک ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ بات کسی سرے لگتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر موضوعات کو چھیڑتے ہوئے، مسائل کا ادراک بہم پہنچاتے ہوئے، ان کے درمیان سے ہلکے پھلکے گزر جانے کا نام انشائیہ ہے تو پھر یہ کتاب سفر نامہ تو ہے ہی، انشائیہ بھی ہے! فاضل سفرنامہ نگار، بلکہ ہمارے ’’فاضل مسافر‘‘ کی زبان ایسی ہے کہ جملوں میں شگفتگی اور کاٹ دونوں بیک وقت پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ چند مثالیں جو کتاب کی ابتدا سے ہی نظر آ جاتی ہیں ملاحظہ ہوں:

ص ۱۱..۱۲: ’’آپ کا سامان کہاں ہےَ‘‘ ایئر پورٹ پر کئی لوگوں نے پوچھا  ……. ….. اس بھاری پتھر کو چومے بغیر ہی چھوڑ دیا۔

ص ۱۳: آپ جانتے ہیں کہ اندر کی چیزیں باہر نکلنے کا عمل ایک ناخوشگوار عمل ہے جو بسا اوقات خفت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ انسان کے اندر کتنی ہی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جنہیں وہ دوسروں کی نظر سے بچا کر رکھنا چاہتا ہے۔

ص ۲۴..۲۵: (تاشقند کے ہوائی اڈے پر) بیگ کھول کر سامان کی تلاشی لی جا چکی تو حکم ہوا ’’شو کرنسی!‘‘  ….. ….. تم ہی ہمیں خواہ مخواہ بورژوا قرار دینے پر مُصِر تھے، اَب بھگتو!

ص ۲۵: یہ وہ مخلوق تھی جسے عرفِ عام میں گائیڈ کہا جاتا ہے ….. …..  اور سارے شاہِ جنّات کے شاگرد نظر آتے تھے۔

 پوری کتاب ایسی عبارتوں سے مزین ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر جملہ کہ کیا کہیں، سوائے اس کے کہ ’اوچن خراشو‘۔خاور صاحب کا اندازِ بیان، شگفتگی اور جا بجا اشعار کا بر محل استعمال قاری کو اکتانے نہیں دیتا۔ زبان میں ثقالت نام کو نہیں۔ چند حوالے ملاحظہ ہوں، فارغ وقت میں بیٹھ کر پڑھئے گا اور مزہ لیجئے گا۔

ص۲۳: تاشقند کا ایئر پورٹ قطعاً غیر مؤثر تھا ….. ….. جو بسا اوقات جگ ہنسائی کا موجب بنتی ہے۔

ص ۵۵..۵۶: پانی پیا تو خدا کا شکر ادا کیا۔ ….. ….. ہم نے اپنی گردنیں جھکا لیں اور اس میں ڈال دیں۔

ص ۷۶..۷۷: ہماری بس وقفے وقفے سے رکتی تھی ….. ….. شاید وہاں ایسا نہیں ہوتا۔

ص ۱۱۹..۱۲۰: شہر سے باہر ایک پہاڑی پر مرزا الغ بیگ کی قدیم رصد گاہ …. …..  روس امریکا کے ترجمان کا روپ دھار چکا ہے۔

ص ۱۶۲..۱۶۳: ریلوے سٹیشن کی عمارت بلند اور کشادہ تھی ….. ….. کوئی بات نہیں۔

ص ۱۸۳..۱۸۴: میں اب البم کے آخری صفحے پر تھا ….. ….. اپنا سامان قریب کھڑی خالی ٹیکسی میں رکھ دیا۔

راہ چلتا مسافر جو آنکھیں کھلی رکھے، ارد گرد کی آوازوں پر دھیان دیتا ہوا جا رہا ہے، اُس کا احساس جاگتا ہے اور سوال اٹھاتا جاتا ہے۔ ایسے سوال جن کا جواب فوراً نہیں مل پاتا۔ ایسا ہی ہے یہ سفر خاور صاحب کا جو بیک وقت بدنی بھی ہے، فکری بھی اور تجزیاتی بھی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جس طرح فاضل مسافر نے ہلکے پھلکے اور مختصر سامان کے ساتھ سفر کیا ہے، اس کا قاری بھی اسی طرح ہلکا پھلکا گزر جاتا ہے، لطف لیتا ہوا۔ یہ کتاب عثمان خاور کے روپ میں ہماری ملاقات ایک ایسے پاکستان سے کراتی ہے جو سر بسر پاکستانی ہے، جسے ہر جگہ وطنِ عزیز کی عزت اور ناموس کا خیال رہتا ہے اور مادرِ وطن کے حوالے سے فخر کا ایک احساس بھی۔ وہ کہیں بھی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپناتا اور نہ کہیں پاکستانی ہونے پر شرمندہ ہوتا ہے۔ اگر کہیں ایسی صورتِ حال کا سامنا ہوا ہے جہاں اُسے اپنی صفائی پیش کرنا پڑی تو صرف وہاں جہاں اس سے پہلے کوئی معذرت خواہ قسم کا پاکستانی اپنا کام دکھا گیا ہو۔ ہمارے فاضل مسافر کا مخاطب عبدالحامد ہو یا شورُخ، آقائے محمود جان ہو یا صدیقی صاحب، نوئلہ کاری جانووا ہو یا لیلیٰ، وہ مسجد خواجہ عبد دارون میں ہو یا مقبرۂ خواجہ اسماعیل بخاری میں، بازار میں ہو، ریل میں، ہوٹل میں یا کسی سیر گاہ میں، ہر جگہ پاکستانی رہتا ہے، اوریجنل پاکستانی  اور اوریجنل ٹورسٹ۔ بہت سے سفرنامہ نگار جب اپنا احوال سفر بیان کرتے ہیں تو نہ جانے کیوں کہیں یہ تاثر نہیں دے پاتے کہ انہوں نے خود کو برملا ’مسلمان‘ کہا ہو، ماسوائے کسی مجبوری یا حلال و حرام کے معاملے میں۔ دوسری طرف عثمان خاور نے ’السلام علیکم‘ کو، جو ایک دعا بھی ہے، اپنی آمد کا اعلان بھی اور یہ منادی بھی کہ آنے والا مسلمان ہے، ’’اسلامی ہتھیار‘‘ کا نام دیا ہے اور ہر مشکل وقت میں اس کو ’ماسٹر کی‘ بھی بنایا ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے ایک عمر رسیدہ خاتون کو باہتمام پردہ کرتے دیکھا تو اسلامی اقدار کی یہ پاسداری انہیں اتنی اچھی لگی کہ اپنے سفر نامے میں اُس کی اہمیت بھی اجاگر کر دی۔ ایک عام آدمی ایسے واقعات کہاں یاد رکھتا ہے۔

عثمان خاور سے چند ایک رسمی سی ملاقاتوں کی وجہ سے کچھ ایسا ہوا کہ جب اس سفرنامے میں انشا پردازی کے ساتھ خالص مزاح کا عنصر موجود پایا تو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔ ’’مائی نیم از شوگر‘‘ اور ’’ٹومارو،  ٹومارو‘‘ عقل مند را اشارہ کافی است۔ اس کتاب میں خالص مزاح بھی اپنے اعلیٰ معیار کے ساتھ ملتا ہے اور بہت ملتا ہے۔

یہ کتاب دورِ حاضر کے دیگر سفرناموں سے ایک اور لحاظ سے بھی منفرد ہے۔ فاضل مصنف نے ہوائی جہاز، ریل، بس، ٹرام سبھی ذرائع سفر سے استفادہ کیا، بڑی بڑی عمارات، تاریخی مقامات، مساجد، ہوٹل، شاہراہیں، تفریح گاہیں دیکھیں۔ سب کچھ جیسے دوسرے دیکھتے ہیں مگر یہاں منفرد شے فاضل مصنف کی نظر ہے جو اِس پورے پیش منظر کے ساتھ اُس کے پس منظر اور درونِ ذات کو بھی دیکھتی ہے۔ ’لوگ کیا پہنتے ہیں‘ کے ساتھ ساتھ ’ لوگ کیا سوچتے ہیں، اور کیوں سوچتے ہیں‘ بھی خاور صاحب کے پیش نظر رہا ہے۔ اسی وجہ سے یہ سفرنامہ انسانوں کی ذات نسلوں اور قوموں کا سفر نامہ بن گیا ہے۔ کتنے ایسے مناظر ہیں جن کو عثمان خاور کے قلم نے جاندار بنا ڈالا اور قاری کے احساس کو ایک طرح کی سانجھ کی قوت سے جگایا ہے۔ مثلاً لیلیٰ کا المیہ اور نوئلہ کی مجبوریاں وہ یوں محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے معاشرے اور اپنے گھر کا مسئلہ ہو۔ شاید اسی وجہ سے یہاں حساس قاری کی آنکھوں میں نمی اتر آتی ہے۔

روس ٹوٹ گیا، ایک جبری وحدت بکھری تو کئی وحدتیں اجاگر ہوئیں۔ روسی تہذیب کتنا عرصہ مسلط رہی؟ اس کے اثرات کب تک رہیں گے اور مٹتے مٹتے کتنا عرصہ لیں گے؟ یہ سوالات اور اُن سے آگے سوال در سوال کہ اِن نو تعمیر شدہ ریاستوں کے حوالے سے مسلم دنیا پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ بحیرہ قزوین سے بحیرہ عرب تک کی معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تہذیبی تصویر میں یہ ریاستیں کیا رنگ بھرتی ہیں؟ عظمتِ رفتہ اور اسلامی اقدار کی بازیافت کا عمل کب اور کس نہج پر چلنے کی توقع ہے؟ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے سامنے آدمی کا وضع کردہ نظام فیل ہو جانے اور اپنے منطقی انجام کو پہنچ جانے کے بعد بر اعظم ایشیا کے قلب سے احیائے علوم کا عمل کب اور کیسے شروع ہوتا ہے؟ یہ ہیں وہ سوالات جو اِس سفرنامے کو پڑھ کر میرے ذہن میں ابھرے ہیں۔ مگر فی الوقت میرے پاس کوئی اور جواب نہیں سوائے اس کے کہ میں آنے والے وقتوں کو دیکھا کروں۔ لہٰذا میں نے جو سمجھا، بے کم و کاست بیان کر دیا۔ جہاں تک میری سوچوں نے میرا ساتھ دیا میں عثمان خاور کے ساتھ چلا اور جو میری چشمِ شعور نے مجھے دکھایا میں نے دیکھا۔ اس تناظر میں اگر میں اس کتاب کے تعارف کا حق ادا نہ کر سکوں تو یہ قصور کتاب کا نہیں میرا ہے۔

آخری بات، کہ عثمان خاور نے نہ خود کو راجہ اِندر بنا کر پیش کیا ہے اور نہ کتاب کو اپنا یا سلمان باسط کا اشتہار بننے دیا ہے۔ صدیقی صاحب کا کردار بہت اہم سہی مگر خود یہ دونوں بھائی تو مرکز میں کھڑے ہیں۔ ہمارا فاضل مسافر اپنے چاروں طرف پھیلی ٹیکسی ڈرائیوروں، گائیڈوں، ہوٹلوں کے چھوٹوں، ریلوے سٹیشن کی مائیوں، کلبوں کی ماماؤں جیسے لوگوں کی بھیڑ میں اپنے ساتھ ایک ایک کو شناخت دے کر، ساتھ لے کر چلتا ہے، اپنے قاری سمیت ۔

یوں یہ سفرنامہ ایک دو افراد کا نہیں ایک بھرے پُرے کارواں کا سفرنامہ بن جاتا ہے جس میں عثمان خاور خیرالقرون کے امرائے سفر کی طرح نمایاں بھی ہے اور ہم سفروں میں گم بھی ۔ عثمان خاور، میں اور شورخ …. اوچن خراشو!

٭٭٭

 

 

۱۲؍ نومبر ۱۹۹۶ء

کہہ مکرنی سے آگے

(طفیل کمالزئی کے افسانوں کے تازہ مجموعے ’اچھے دنوں کا انتظار‘ کا نفسیاتی تجزیہ)

 

 

بات اس طرح کی جائے کہ اُس میں بیک وقت نفی بھی ہو اور اثبات بھی اور معنوی ابلاغ کی یہ دونوں سطحیں یکساں اجاگر ہوں تو اُسے کہہ مکرنی کہا جاتا ہے۔ اُس میں منطق، احساس، تجزیہ، سوال اور کہانی سب کچھ موجود ہو تو یہ کہہ مکرنی سے آگے کی چیز ہے۔ طفیل کمالزئی نے اسی چیز میں شاعرانہ ایجاز اور اختصار شامل کر کے جو فسوں کاری کی ہے وہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ ظفری پاشا کہا کرتا ہے: ’’افسانہ وہ ہے جو قاری کو بے چین کر دے‘‘ اور طفیل کمالزئی نے قاری کو بے چین کر دیا ہے۔ ان کا اختصار کی طرف رجحان اس بے چینی کے ساتھ حیرت بھی شامل کر دیتا ہے۔ اس طرح ہم بلا خوفِ تردید طفیل کمالزئی کو ایک کامیاب فسوں کار قرار دے سکتے ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہو گا کہ ’اچھے دنوں کا انتظار‘ میں شامل افسانوں کے اندر پائی جانے والی زیریں رَو کا مشاہدہ کر لیا جائے۔

دھُند میں لپٹی ایک لڑکی: دو محروم شخصیتوں کی ایک تیز رفتار کہانی ہے جس کے دونوں مرکزی کردار اظہار کے لئے بچوں کا سہارا لیتے ہیں۔

اسٹیٹس: ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے آگے ایک لڑکی کے مزاج میں شامل احساسِ برتری کا شاخسانہ جو اُس کی زندگی کو ویرانی کی طرف لے جا رہا ہے مگر وہ لڑکی اِس کا شعور نہیں رکھتی۔

الجھی ہوئی لڑکی: بھائی کو ترسی ہوئی ایک لڑکی کی نفسیات، جس کے بارے میں لوگ چہ مے گوئیوں سے آگے نہیں سوچ سکے۔

رکھوالا: آج کے پُر آشوب دور میں والدین کی جوان اولاد کی طرف سے لاپروائی کا نتیجہ جس میں عمارت کا رکھولا عزت کا رکھوالا بھی ہے اور اندھیرے میں روشنی کی کرن بھی کہ اُس کا جرم، جرم محسوس نہیں ہوتا۔

پرکھ: ایک ایسی لڑکی کی فکر کا پرتو ہے جو صاحب ذوق ہوتے ہوئے بھی اپنے ذہن میں پڑی گرہ کھولنے سے قاصر ہے۔

نچکیّا: فن، فنکار اور فرسودہ روایات کی تکون میں ایسے فن کار کا المیہ جو ایوارڈ اور عرفیت کے تصادم کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔

دوسری لڑکی: ایک دوسری قسم کی لڑکی کا پورٹریٹ ہے جو مرد کو جنسِ مخالف سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی۔

خوشبو: محبت اور مادیت کے تصادم کا خوب صورت منظر نامہ ہے جس میں دلوں کی دھڑکن نوٹوں کی کڑکڑاہٹ میں دب جاتی ہے۔

بے سکون آدمی: سرشاری کو ترسے ہوئے ایک صاحبِ ذوق کی حالتِ زار ہے۔ ہر حساس شخص اسی طرح سوچتا ہے۔

اندر کا آدمی: محنت کشوں کے اندر چھپی ہوئی حیوانی قوت کو صحیح رُخ پر چلانے والے ایک حیوان کا قصہ جس کا وجود زندگی کا متحرک رکھتا ہے۔

سودا: شناخت وہ چیز ہے جو کبھی برائے فروخت نہیں رہی۔ ایک خریدار کا واقعہ جو ایک قلم کار سے اُس کی شناخت خریدنے چلا تھا۔

راز کی بات: روایات اور پاکیزہ طرزِ عمل کے حامل نوجوانوں کے دل دادہ ایسے آدمی کی بپتا جس نے ایک نوجوان کو بے راہ روی کی طرف پہلا قدم اٹھاتے دیکھا۔

تازہ گل: ایک تیسری قسم کی عورت کا شکار ہونے والے ایک تازہ پھول کی کہانی جس پر خزاں آئی تو اُس کا چھوٹا بھائی گلِ تازہ کی طرح کھل رہا تھا۔

ڈھلتے سائے: مشرق کی دمکتی روایات پر شام کے ورود اور مغرب زدگی کی رات کی آمد آمد میں ایک زرد ہوتی ہوئی کہانی جس کے چہرے پر ایک خاندان کی شکست و ریخت کے کرب کا عذاب دکھائی دیتا ہے۔

ورثہ: ایک تہی دامن کا قصہ جو اولاد کے لئے ورثہ میں کچھ نہ کچھ چھوڑ جانے کا متمنی تھا۔

محرّک: ایک ایسے شخص کی بدنامی کی ڈائری جو محض سوئے ظن کا نشانہ بنا اور جب بد ظنی کا طلسم ٹوٹا تو وہ شخص ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔

آخری کوشش: محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی مگر کبھی کبھی یہاں بھی الفاظ کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایک محبت کرنے والے کو لفظ بخشنے والے ایک ایثار پیشہ حرف گَر کا المیہ جس کا چہرہ حرف حرف جھرّیوں سے بھر ا ہوا ہے۔

پہچان: جی ہاں! ایسا اب بھی ہوتا ہے۔ ایک بھوکا لڑکا اور ایک بھوکا کتا، دونوں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔

ابلیس: ہماری اجتماعی نفسیات کا نقشہ جس میں ہر آنے والے دن میں کوئی نہ کوئی قدر مر جاتی ہے اور ہم اُس پر آنسو بہانے کے لئے زندہ رہتے ہیں، جب کہ ابلیس قہقہے لگاتا ہے۔

سوال: زندگی کا اصل سرمایہ عزم و ہمت ہے۔ یہ سرمایہ ضائع ہو جائے تو ٹونے ٹوٹکوں اور پتھروں پر ایمان لے آتا ہے۔

اچھے دنوں کا انتظار: ایک با ہمت خاتون کے اندر کی کہانی جو دنیا کی نشتر نظروں کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے اور اُس کا زخمی احساس ہر کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

ناطہ: ایک بیوہ کی کہانی جو ایک دوسری عورت کے سوئے ظن کا نشانہ بنی۔ یہ تریا ہٹ کی نفسیات پر ایک بھرپور طنز ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہر افسانے کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ زیرِ نظر افسانوں میں ہر ایک کے پیچھے ایک سچی کہانی کا وجود محسوس ہوتا ہے، جن میں افسانہ نگار خود بھی نظر آ رہا ہے۔اور اُس نے اِن کہانیوں کو واقعاتی سطح سے بلند کر کے دیکھا ہے۔ شہر اور گان کی زندگی میں جہاں مادیت کے اعتبار سے فرق موجود ہے، وہیں فکری سطح پر بھی امتیاز پایا جاتا ہے۔ آج کے ترقی پذیر معاشرے میں لوگوں کی گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت کے ساتھ ساتھ شہری زندگی میں اخلاقی اقدار کا انحطاط پذیر ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ سانجھ کا فقدان، گھٹن ار تنہائی کا عذاب اور سطحیت کمالزئی صاحب کو خاص طور پر پریشان کرتی ہیں۔ وہ تو خوشیوں کے ساتھ ساتھ دکھوں میں بھی سانجھ کے متمنی ہیں۔

یہ سوال اکثر سامنے آتا ہے کہ ادیبوں اور اخبار والوں کو معاشرے میں صرف برائیاں ہی کیوں نظر آتی ہیں! اصل بات یہ ہے کہ معاشرے کا نباض ہونے کی حیثیت سے ادیب پر لازم ہے کہ وہ برائی کی نشاندہی کرے اور اگر اُس کا علاج بھی تجویز کر سکے تو یہ سونے پر سہاگے والی بات ہے۔ ظفر خان نیازی نے کیا خوب کہا ہے کہ: خبر وہ ہے جو ہمارے معمولات سے ہٹ کر ہو۔ اور اخبارات میں برائی کا خبر بننا اس امر کا ثبوت ہے کہ برائی ابھی ہمارا معمول نہیں بنی ورنہ خبر بھی نہ بنتی۔ میں اس پر یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ: ڈریے اُس وقت سے جب اچھی باتیں خبر بننے لگیں گی۔ طفیل کمالزئی نے معمول کی خوبیوں سے ہٹے ہوئے واقعات کو اجاگر کیا ہے اور خبرِ محض بھی نہیں بننے دیا۔ انہوں نے اپنے گرد و پیش کے المیوں کو خبر اور کہانی سے اوپر لے جا کر دیکھا ہے اور اس مشاہدے میں اپنے قاری کو بھی شامل کیا ہے۔

بات ہو رہی تھی کہہ مکرنی کی۔ زیرِ نظر کتاب میں شامل اِن افسانوں کو دیکھئے گا: اسٹیٹس، الجھی ہوئی لڑکی، پرکھ، خوشبو، تازہ گل، اور ناطہ۔ یہ افسانے ایسے ہی مفاہیم کے حامل ہیں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان سب میں مرکزی کردار عورت کا ہے۔ عورت اور کہہ مکرنی! کیا یہ محض اتفاق ہے، یا افسانہ نگار کی زیرک نگاہی کا مظہر ہے؟ غور فرمائیے گا۔ شکریہ!

 ٭٭٭

 

 

۷؍ جون ۱۹۹۹ء

چیرہ نگاہی اس کی

یہ مضمون سلمان باسط کی کتاب خاکی خاکے کی تقریبِ پذیرائی  (منعقدہ ۷؍ جون ۱۹۹۹ء )  میں پڑھا گیا اور بعد ازاں ماہنامہ کاوش ٹیکسلا (اگست ۹۹ ۱۹ء) میں شائع ہوا

           مزاح لکھنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے اور اس وقت یہ مشکل تر ہو جاتا ہے جب آپ کسی کا شخصی خاکہ لکھ رہے ہوں۔ شخصی حوالے سے لکھی گئی ہلکی پھلکی تحریر دراصل اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ خاکہ نگار نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی! بات ذرا سی اِدھر سے اُدھر ہو گئی تو ساری چابک دستی جانئے دھری کی دھری رہ گئی اور گناہ لازم ٹھہرا۔ اس طرح سلمان باسط نے اپنے معاصر ادیبوں کے شخصی خاکے لکھنے کا جو خطرناک کام اپنے ذمہ لیا تھا، وہ اگر بخیر و خوبی انجام کو پہنچا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ فاضل خاکہ نگار چابک دست ہے، بلکہ کہیں کہیں تو چابک بدست نظر آتا ہے۔

           مزاح کے حربوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر انور مسعود نے ایک بار کہا تھا کہ ایک حربہ مبالغہ ہے: کہ ایسی چیزوں کو جو اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہیں، نمایاں کیا جائے، جیسے کارٹون ہے۔ خاکی خاکے میں شامل مضامین میں سلمان باسط نے برش سے نہیں بلکہ لفظوں سے کارٹون بنائے ہیں اور اس خوبی سے بنائے ہیں کہ جس کا کارٹون بنایا ہے وہ بھی رنجیدہ نہیں ہوتا بلکہ لطف لیتا ہے۔ بظاہر معمول کی باتوں کو ہمارے فاضل خاکہ نگار کی چیرہ نگاہی نے کیا روپ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

٭  جب وہ بولتا ہے تو صرف وہی بولتا ہے۔ دوسرے تمام لوگ آواز اور عِلم کے آہنگ میں کمزور ساز کی طرح گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ ایسے میں وہ بعض اوقات اس ریلوے انجن کی طرح دکھائی دیتا ہے جو بے مقصد ریلوے پٹڑیوں پر اِدھر سے اُدھر شنٹنگ کرتا رہتا ہے اور اس بات سے قطعاً لاتعلق ہوتا ہے کہ پیچھے کم از کم ایک آدھ بوگی ہی لگا لے۔ (کالا چٹا پہاڑ: ص ۵۶)

٭  موصوف اتنی دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہیں کہ ان کے انتہائی قریب بیٹھے ہوئے شخص کو بھی انہیں سننے کے لئے آلۂ سماعت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ غالباً انہیں صرف بات کرنا مقصود ہوتا ہے، سنانا نہیں۔ (بھائی جان: ص ۶۵)

٭  بات اتنی آہستگی سے کرتا ہے جیسے کوئی راز کہہ رہا ہو چاہے وہ صرف یہی کہنا چاہ رہا ہو کہ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں پروفیسر ہے، لیکن لہجے کا دھیماپن اور گفتگو کا ٹھہراؤ اس بات کو بھی سربستہ راز بنا دے گا اور یوں لگے گا جیسے وہ ایٹم بم بنانے کا فارمولا بتا رہا ہے۔ (جنابِ عالی: ص ۴۲)

٭  ۱س کی شخصیت اور گفتگو میں عجیب سا ڈھیلا پن پایا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو سے سردیوں کے موسم میں اونگھتی دوپہر کا احساس ہوتا ہے۔ شاید علمِ عروض کا اثر اس کے بات کرنے کے انداز پر بھی پڑا ہے لہٰذا وہ ایک مخصوص بحر میں بات کرتا ہے اور اس کا یہ گفتگو کا انداز اتنا ڈھیلا ہوتا ہے کہ سننے والے کو جمائیاں آنے لگتی ہیں۔ (عروضیا: ص ۱۰۳)

          سلمان باسط ایک اچھے شاعر ہیں، اچھے کالم نگار ہیں، ڈرامہ لکھتے بھی ہیں (کرتے بھی ہیں)۔ گویا ادب کی ہر صنف میں بقول اپنے ’’ٹھیک ٹھاک منہ مارتے ہیں‘‘۔ ان ہمہ جہت تجربوں نے ان کے خاکوں کو متنوع بنا دیا ہے۔ ان میں بیک وقت طنز و مزاح بھی ہے، انشاء پردازی بھی اور شاعرانہ اندازِ اظہار بھی۔ انشاء پردازی کی ایک مثال دیکھئے:

٭   خیر سے اس مرحلے سے گزرے تو اس نومولود کی مناسب دیکھ بھال کے لئے ذوقؔ، غالبؔ اور میر انیسؔ کی کلیات نے آیا کے فرائض سنبھال لئے۔ کئی دفعہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے دِلّی کے لال قلعے اور کوچہ بَلّی ماراں میں بھی لے جایا گیا۔ ان پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں سے گزرتے ہوئے کئی بار اس معصوم کی نگاہ رعایتِ لفظی اور مجاز مرسل پر پڑی مگر کم سنی کی وجہ سے آشنائی کے جرم سے باز رہا۔ یہ ننھا جب لڑکپن کی حدود سے گزر رہا تھا تو کئی بار تشبیہات و تراکیب سے آنکھ لڑی، کلاسیکی ادب کے محمل میں بیٹھی لیلیٰ نے اس پر کئی بار نگاہِ غلط انداز ڈالی۔ عنفوانِ شباب کے تجربوں سے گزر کر جب یہ جوانِ رعنا بازارِ ادب میں نکلا تو اس کی مڈ بھیڑ رؤف امیرؔ سے ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا! عروض اور تقطیع کی بھٹی نے اس کا رنگ سنولانا شروع کر دیا۔ اساتذہ سے لے کر عہدِ حاضر تک کے شعراء رؤف امیرؔ اور مبارک شاہ کے سامنے دست بستہ کھڑے اصلاح لیتے پائے گئے۔ یہاں تک کہ غالبؔ کا اغلاط نامہ بھی تیار کیا گیا۔ (شاہِ جنات: ص ۸۳)

          منظر نگاری سے ایک قدم گے جا کر فاضل خاکہ نگار نے منظر آفرینی کے ہنر سے کام لیا ہے۔ ایک مثال دیکھئے:

٭  کبھی کبھی تو وہ اپنے چہرے مہرے سے ایک بھرے پرے خاندان کی بے بے نظر آتا ہے جو گاؤں کے آبائی مکان کے صحن کے ایک کونے میں بنے ہوئے گرمائی باورچی خانے میں ہنڈیا کے پاس بیٹھ کر آنکھوں سے ممتا کی پھوار برسانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو اور ان کے بچوں کو آلو گوشت رکابیوں میں ڈال ڈال کر دینے میں مصروف ہو۔ ہاں البتہ اس کی آنکھوں پر سجی عینک اسے تھوڑی دیر کے لئے دانشوری کا تڑکا لگا دیتی ہے۔ مگر عینک اتارنے کے بعد وہی شیخوپورے کا دیسی محمد منشا نکل آتا ہے جس کی آواز میں گھر کے دودھ سے نکلے ہوئے مکھن کی ملائمت ہے۔ (حسبِ منشا: ص ۹۶)

          سلمان باسط کے خاکی خاکوں کی ایک بہت نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ آدمیت احترامِ آدمی ست کے بڑی سختی سے قائل بھی ہیں اور اس پر عامل بھی ہیں۔ اور جہاں رشتوں کی بات ہو وہاں بہت حساس بھی۔ کتاب میں شامل تمام خاکوں میں ’’فردِ خاکہ‘‘ کے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کیا گیا ہے مگر عثمان خاور کے خاکے میں (جو فاضل خاکہ نگار کے بڑے بھائی ہیں) یہ صیغہ جمع غائب میں بدل گیا ہے۔ اور، مجھے یقین ہے کہ یہ احترام کے جذبے کا اثر ہے۔ دیگر خاکوں میں بھی یہ احترام پوری طرح رو بہ عمل دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً:

٭   یہ ٹھیک ہے کہ یعقوب کی قسمت میں آس کے دامن سے لپٹے رہنا ہی لکھا ہے لیکن وہ تو اپنی شخصیت کے حسن کے اعتبار سے یوسف ہے اور ماحول کے اعتبار سے یوسفِ بے کارواں۔ آج میں نے اس کے بے مثال حسن کی ایک جھلک اپنی انگلیاں کاٹ کر آپ کو دکھا دی ہے۔ اب انگلیاں کاٹنے کی باری آپ کی ہے۔ (عروضیا: ص ۱۰۴)

           میں نے شروع میں کارٹون کی بات کی تھی۔ انور مسعود ہی کی کہی ہوئی ایک بات دہراتا ہوں کہ: شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے، جس کے پیچھے ذہن یوں لپکے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس چھیڑ کو مؤثر بنانے کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ بات وقت کے حوالے سے کی جائے۔ اور مثالیں اور واقعات اس دور کے ہوں جس میں بات کی جا رہی ہے۔ یہاں زیرِ نظر کتاب سے کچھ ایسے اقتباسات پیش کروں گا جس میں فاضل خاکہ نگار انشائیے کے انداز میں موضوعات کو چھیڑتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔اور ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات و واقعات کو اپنے خاکوں کے ساتھ منسلک بھی کرتے جاتے ہیں۔ لفظیات اور رعایاتِ لفظی و معنوی کی چاشنی اپنی جگہ اہم ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

٭   آج کل کلنٹن تو اس طرح انٹرنیٹ پر چھایا ہوا ہے جس طرح امریکا پوری دنیا پر تسلط جمائے ہوئے ہے لیکن جس طرح امریکا دنیا بھر پر چھائے رہنے کے باوجود بدنام ہے اسی طرح کلنٹن بھی انٹرنیٹ پر ہر وقت موجود رہنے کے باوجود صرف اخلاق باختگی کا پیکر نظر آتا ہے۔ (جنابِ عالی: ص ۴۴)

٭   کسی خاتون کا خاکہ لکھنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ ایٹمی دھماکہ کرنا۔ ایٹمی دھماکہ کرنے سے پہلے جس طرح ہزار بار سوچنا پڑتا ہے، چاروں اطراف میں وفود بھیجنے پڑتے ہیں، رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے لے لئے جتن کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بعد جس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس طرح کے تابکاری اثرات پھیلتے ہیں اور جس طرح تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اس سے صرف دو شخصیات واقف ہیں، اول الذکر میاں نواز شریف اور مؤخر الذکر یہ خاکسار۔ (آپی دھاپا: ص ۷۵)

٭   اس دوران آپ اسے سلام کر لیں، گالی دے لیں یا اس کے سامنے سے چپ چاپ گزر جائیں، وہ کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس وقت کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہو گا۔ اور ایسا صرف اس لئے ہے کہ وہ اس وقت ایسی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے جس سے صرف ایک ماں، شاعر یا بھینس واقف ہیں۔ یہ ماں شاعر اور بھینس کی مثلث میں نے ارادتاً بیان کی ہے کیونکہ ایک تو باپ، نثر نگار اور بھینسا بہر حال اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں اور فریقِ ثانی کی مذکورہ کیفیت کے دوران بھی مزے سے ڈکارتے رہتے ہیں، دوسرے بھینس انور مسعود کا محبوب استعارہ ہے۔ (مجمع باز: ص۳۵)

٭   سر تا سر مشکل ہی مشکل، سر بالخصوص مشکل، چہرے پر مشکل سی نیم متشرع داڑھی جو ہر مسلک اور ہر وضع کے لوگوں کو دھوکا دے جاتی ہے۔ شریعت، وضع داری اور دنیا داری کے اصولوں پر مرتّبہ یہ داڑھی اظہار الحق کے چہرے کا پہلا عکس ہے۔ داڑھی کے بعد آنے والی جزئیات اگرچہ زیادہ اسلام پسند نہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں اسلام بتدریج نافذ ہو رہا ہے اس لئے پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ (اظہار بھی مشکل ہے: ص ۲۹)

           سلمان باسط نے ہلکے پھلکے انداز میں مختلف شخصیات کا مطالعہ ایک انسان، ایک خاک کے پُتلے کے طور پر کیا ہے اور حتی الوسع فن کو نہیں چھیڑا۔ خاکہ لکھتے ہوئے بھی وہ متانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انہوں نے  انشائیہ کے انداز پر لفظیات بھی اپنی تراشی ہیں اور تشبیہات ایسی اختراع کی ہیں کہ وہ جہاں جمالیات کے روایتی تقاضوں کو پورا کرتی ہیں وہیں دورِ حاضر کے ادبی رویّوں کو بھی خوبی سے اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، اور سلمان باسط کی جدت طرازی کا مظہر ہیں۔ مثال کے طور پر: سردیوں کی اونگھتی ہوئی دوپہر، دو چار بے ترتیب زلفیں اور شعر پڑھنے کا لچکیلا انداز، بورژوائی ترقی پسندی، خبردار قسم کی ناک، افسانوی قرضے، غلط العام الفاظ کا دلیرانہ درست استعمال، ایمان زدہ قلوب، شخصیت کا مقدور بھر تاثر، چنی سی انگریزی … وغیرہ

           خاکوں کے عنوانات کی معنویت اور ’’فردِ خاکہ‘‘ کے ساتھ اس کی مناسبت سلمان باسط کی قوّتِ مشاہدہ  اور باریک بینی بلکہ چیرہ نگاہی کا بے مثل ثبوت ہیں۔ یہ کتاب چودہ افراد کے مطالعے کا ایسا مجموعہ ہے جو نہ صرف انشاء نگاری کی ایک خوبصورت مثال ہے، بلکہ خاکہ نگاری کی روایت میں ’’اگلا قدم‘‘ کہلانے کی بجا طور پر مستحق ہے۔

٭٭٭

 

 

۲۴؍ ستمبر ۲۰۰۰ء

راکبِ  حرف

نوجوان شاعر راکب راجا کے پہلے شعری مجموعے ’دلاسہ‘ کے حوالے سے چند باتیں

راکبِ حرف سفر تیرا کٹھن ہے، ہے نا!

پر عجب زور پہ منزل کی لگن ہے، ہے نا!

اس کو گھر پھونک تماشا بھی کہا جاتا ہے

شعلۂ جاں کو سزاوار سخن ہے، ہے نا!

          راکب محمود راجا نے میرے سامنے اپنا شعری سفر شروع کیا۔ حلقہ تخلیق ادب کے ہفتہ وار ادبی اجلاسوں میں آنے لگا تو بہت جلد مقبول ہو گیا۔ اس کی وجوہات تو بہت سی ہیں، مثلاً اس کا اٹھنا بیٹھنا، اندازِ گفتگو، شائستہ اور سلجھی ہوئی شخصیت تاہم ادب کے حوالے سے اس کی مقبولیت کی اولین وجہ اس کی امکانات سے بھرپور شاعری ٹھہرتی ہے۔ابتدائی دنوں سے ہی جسے مشق کا دور کہا جا سکتا ہے، راکب محمود نے پر مغز شاعری کی اور بجا طور پر داد پائی۔ وقت اور تجربے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ فن کی تکمیل کی طرف سفر جہاں خونِ جگر کا مرہون ہے وہیں صبر و تحمل اور جان گسل انتظار کا بھی متقاضی ہے۔ یہ کہنا کہ راکب نے شروع ہی سے اعلیٰ درجے کی شاعری کی ہے، مبالغہ ہو گا۔ تمام مبتدیوں کی طرح اس کے اشعار میں بھی لفظی، معنوی اور فنی فروگزاشتیں پائی جاتی رہی ہیں تاہم اس کا ذوق اور شوق، سیکھنے کا عمل اور رفتار، فنی باریکیوں کا ادراک اور سلیقہ سب کی رفتار تسلی بخش رہی ہے۔ میرے سامنے کی بات ہے، اس نے سیکھنے کے لئے دوسروں سے پوچھنے کو کبھی عار نہیں جانا، دوسروں کی آراء پر اندھا اعتماد بھی نہیں کیا،ہر قابلِ توجّہ اور قابلِ عمل رائے پر خوب غور و خوض کر کے اسے اپنایا ہے۔ اس کا خود پر یہ اعتماد اور کھلا ذہن اس کی تیز رفتار بہتری پر منتج ہوا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا سفر اعتماد، جذبے اور لگن کا سفر ہے۔

          مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی جب اس نے اپنے شعری مجموعے کی اشاعت کا عندیہ ظاہر کیا۔ حلقہ احباب نے بھی اس کے ارادے کو سراہا۔ ہمارے بہت قریبی دوست احمد فاروق کی رائے البتہ قدرے محتاط تھی۔ احمد فاروق کے بارے میں بتاتا چلوں کہ وہ مقدار سے کہیں زیادہ معیار کے قائل ہیں اور ان کے اپنے اشعار میں فکری اور فنی پختگی نمایاں ہے۔ احباب جانتے ہیں کہ وہ شخصیت کی بجائے فن پر گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں اور ان کا ہر لفظ ان کی احتیاط پسندی کا مظہر ہوتا ہے۔ راکب محمود راجا کا جو نمونہ کلام مجھے موصول ہوا اسے پڑھ چکے تو مجھ سے سوالیہ انداز میں کہا: کیا راکب محمود نے جلدی نہیں کی؟ اگر وہ کچھ اور شاعری کر لیتے اور پھر اس میں سے انتخاب کرتے تو کیسا رہتا؟۔۔۔۔  ان کے یہی دو جملے ہیں جن کو میں کسی قدر مختلف رائے قرار دیتا ہوں۔ تاہم میں ان سے پوری طرح متفق نہیں ہوں۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ آج کے تیز رفتار دور میں تاخیر کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ دوست سید علی مطہر اشعر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں شخصی اور فنی، دونوں حوالوں سے اشعر صاحب کا معترف ہوں۔ حلقہ تخلیق ادب کے خبرنامہ ’’کاوش‘‘ کے صفحات میرے اس اعتراف کے گواہ ہیں۔ مجھے یہ حرفِ جسارت کہنے کی اجازت دیجئے کہ انہوں نے اپنا مجموعہ کلام شائع کرانے میں بہت تاخیر کر دی اور اشعر صاحب کے خوشہ چین قریب قریب وہ سارے مضامین شاعری میں لے آئے جن کی اصل قارئین تک دیر سے پہنچی۔  میرا مقصد اشعر صاحب اور راکب محمود راجا کا تقابلی جائزہ لینا نہیں، تاہم مجھے راکب کے ہاں بہت سے ایسے مضامین دکھائی دیتے ہیں جو اس وقت راکب کے اپنے مضامین ہیں اور زیرِ نظر کتاب کی اشاعت میں تاخیر انہیں کسی اور سے منسوب کر سکتی تھی۔ دوسری طرف اس نوجوان غزل گو کی رفتارِ گفتار بھی کوئی حوصلہ شکن نہیں ہے۔ ابھی اسے اور شعری مجموعے بھی لانے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ کل کا ناقد راکب محمود راجا کے شعری سفر کا منزل بہ منزل تجزیہ زیادہ بہتر طور پر کر سکے گا۔ میں یہ اعتراف بھی کرتا چلوں کہ کوئی بات ہضم کر جانا میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ احمد فاروق نے جو کچھ مجھ سے کہا ، میں نے اسی طرح راکب محمود راجا کو کہہ سنایا۔ یوں مجھے اس کے کھلے ذہن کی ایک اور گواہی مل گئی۔ راکب نے برجستہ کہا: احمد فاروق نے بالکل ٹھیک کہا ہے!

          مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس نوجوان مفکر کے بعض اشعار میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، تاہم ایک بہت اچھی بات اس کے ہاں یہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے، پورے اعتماد سے لکھا ہے۔ میں نے اسے نوجوان مفکر اس لئے کہا کہ اس کے الفاظ اس لقب کی گواہی دے رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:

          ع       مار ڈالے نہ شام و سحر سوچنا

          ع       دشت میں رائیگاں ہے شجر سوچنا

          ع       موت کی کہانی ہے، زندگی کے چہرے پر

اس کے ہونے کا گماں ہونے لگا

مجھ کو اک تصویر دھوکا دے گئی

          ہمارا یہ نوجوان غزل گو شاعر، غزل کی نزاکتوں سے کما حقہٗ آگاہ بھی ہے اور الفاظ کی درستی اور نشست پر بھرپور توجّہ بھی دیتا ہے۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ اس نے ایک لفظ کے معنی اور اپنے کسی زیرِ غور شعر میں اس کی نشست پر دوستوں کی رائے جاننے اور مشورہ کرنے کے لئے ٹیلیفون پر رابطہ قائم کیا، یا خود چلا آیا۔ اس کے ہاں موضوعات کی رنگا رنگی بھی ہے، نئے نئے قافیے اور ردیفیں بھی ہیں، اظہار میں کہیں جدت نظر آتی ہے اور کہیں وہ روایتی انداز اپناتا ہے۔ کلام کی وہ خصوصیت جسے عرفِ عام میں اسلوب کا نام دیا جاتا ہے اور جس بناء پر ہم کسی شاعر کے کلام کو دوسروں سے ممیز کر سکتے ہیں، اس کے ہاں ابھی تشکیل پذیر ہے اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ بہت جلد وہ اپنے اسلوب کے حوالے سے بھی پہچان لیا جائے گا۔ اور پھر میں بھی، اور آپ بھی، کہہ سکیں گے کہ:

اس کے لہجے میں بات کون کرے

اس کا لہجہ تو بس اسی کا ہے

          میں نے مضامین کی رنگا رنگی کی بات کی تھی، یہ تنوع اس کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں نہ صرف کسی قدر زیادہ ہے بلکہ وہاں اظہار بھی خوب تر ہے، اور اس کی وجہ صاف طور پر یہ نظر آتی ہے کہ اختصار سے حسن پیدا ہوتا ہے، اگر بات سلیقے اور قرینے سے کی جائے۔ مثال کے طور پر:

آپ ڈھونڈیں وفادار کو

مجھ کو اک بے وفا ٹھیک ہے

پیسے والوں کو ایک دن راکب

مار ڈالے گا مار پیسے کا

          اور خاص طور پر ایک شعر پیش کرنا چاہوں گا ۔ اس کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ یہ آپ کو چھیڑ دیتا ہے۔ پروفیسر انور مسعود کے الفاظ میں شعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ کو چھیڑ دے اور ذہن اس کے پیچھے یوں دوڑے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ راکب کا یہ شعر کچھ ایسے چھیڑ جاتا ہے کہ تتلی ایک نہیں رہتی، سارا چمن تتلیاں بن جاتا ہے۔ اشکوں کے گہر ہائے گراں مایہ کا زیاں اور اس زیاں پر ’’ہائے‘‘ کی ادائیگی، اور اس پر مستزاد غزل کی ردیف! شعر ملاحظہ ہو:

ہمارا عشق ہائے کچھ نہ پوچھو

بہت آنسو گنوائے کچھ نہ پوچھو

          اسی غزل سے دو اشعار مزید دیکھئے:

ہمارے راستے میں گل رخوں نے

بہت کانٹے بچھائے کچھ نہ پوچھو

عدو تو ہیں عدو، احباب نے بھی

کچھ ایسے گل کھلائے کچھ نہ پوچھو

          ایک اور غزل جس کا مطلع ہی قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ سراب کی حقیقت کو کس شوخ انداز میں واشگاف کیا جا رہا ہے!

کیا تماشا ہوا دھوپ میں

ریت پانی لگا دھوپ میں

          اس غزل کا آخری شعر بھی دیکھتے چلئے کہ یہ شعر کل کے راکب محمود راجا کی شناخت بننے والا ہے:

میں غموں میں پلا اس طرح

پیڑ جیسے پلا دھوپ میں

          راکب محمود نے لفظیات بھی تراشی ہیں اس کے ہاں آنے والے کچھ نئے الفاظ دہراتا چلوں: شبنمی تبسم، جستجوئے خلوص، الفت کا خنجر، آتشِ الفت کا ذائقہ، خوشیوں کی کھنک، درد کی زنجیر، سرِ راہِ حیات، قیمتِ خاکِ دل، آنسو گنوانا، شعلۂ حالات، اونچے مکانوں کے تعاقب میں،  وغیرہ۔

          آپ جان گئے ہوں گے کہ میں نے اس کے موضوعات کو چھیڑنے سے ارادتاً گریز کیا ہے۔ آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو خود جان جائیں گے کہ رہ گزارِ سخن کا یہ سوار کس رفتار سے منزل کی طرف رواں ہے۔  مجھے تو اس کے اِس خواب کی تعبیر کی طرف صرف اشارہ کرنا ہے:

چلا جائے گا جب دنیا سے راکب

تو رہ جائے گا پھر تنہا زمانہ

٭٭٭

 

 

۲۷؍ نومبر  ۲۰۰۰ء

کسی اور زمانے کا آدمی

یہ مضمون اظہر نقوی کے پہلے شعری مجموعہ  ’’خواب سے پرے‘‘ کی تقریبِ پذیرائی منعقدہ اتوار ۲۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء میں پڑھا گیا۔

انسان اور کائنات کا تعلق جتنا پرانا ہے اتنا ہی عجیب اور دل فریب ہے۔اور بیرونی کائنات سے کہیں زیادہ عجیب اور دلفریب کائنات انسان کی ذات کے اندر پنہاں ہے۔ انسان بیک وقت ان دونوں جہانوں میں زندہ ہے اور دونوں دنیاؤں سے نبرد آزما بھی ہے۔ اندر کی دنیا کی بات کریں تو خیال کی حیثیت اوّلین ہے اور خیال کا منبع  اِن دونوں دنیاؤں میں کہیں بھی واقع ہو سکتا ہے۔

          جب ایک ایسے شخص کی شاعری پر بات ہو، جو کسی اور زمانے سے یہاں آنے اور ایک اور زمانے کی طرف جانے پر بات ختم کرے تو خیال کی حدود کا پھیلاؤ کتنا بڑھ جاتا ہے!

مجھ کو اِک اور زمانے کی طرف جانا ہے

میں کسی اور زمانے سے یہاں آیا ہوں

          بظاہر یہ سیدھی سی بات ہے۔ دنیا میں انسان کے وُرود سے پہلے کا زمانہ، پھر انسان اور کائنات کا معروضی تعلق اور اس کے بعد ایک وہ زمانہ جس کے بارے میں سوچا تو جا سکتا ہے مگر سوچ کہاں تک ساتھ دے پاتی ہے؟ خیال کے پر بھسم ہونے سے کہاں تک محفوظ رہتے ہیں؟! یہ حصارِ ذات سے باہر قدم رکھنا ہے اور اِس کے لئے ادراک کی جو سطح درکار ہے وہاں خدوخال کی معروضی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔جہاں منظر بدل جاتے ہیں، سمندر لاشیں اُگل دیتا   ہے ا ورسورج پگھل جاتا ہے۔ جلتے ہوئے شہر اور گھر سے نکلنے کا عمل، ذات کی نفی اور اثبات کا تصادم آئنوں کو توڑ ڈالتا ہے منظر بدل جاتے ہیں، سمندر لاشیں اُگل دیتا ہے اور سورج پگھل جاتا ہے۔

          فن کار اور بالخصوص قلم کار زندگی کو ایک الگ زاویے سے دیکھتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے مشاہدے اور تجربے میں شریک کرتا ہے تو شعر جنم لیتا ہے۔ خاموشی  حیرت و استعجاب قرار پاتی ہے اور جنوں کے حوصلوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ اداسی آدمی کے ساتھ چلتی ہے، صدمات لذت دیتے ہیں اور نئے غموں سے ملاقات کی صورت نکلتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ فنکار کو صحبتِ درد نبھانے کا سلیقہ ہو! ایسا سلیقہ جو ہمیں اظہر نقوی کے ہاں ملتا ہے!

          شعر کے فنی لوازمات کی اہمیت سے انکار نہیں مگر اِس سے کہیں آگے شعر کی فکری اور پھر محسوساتی سطح ہے اور یہیں آ کر قاری اور شاعر میں موافقت یا عدم موافقت کا سوال اٹھتا ہے۔ دونوں کی محسوساتی اور فکری سطح کا فرق ‘ ہو سکتا ہے مسئلہ پیدا کرے‘ تاہم یا د رہے کہ محسوسات کا تبادلہ اشیاء کے تبادلے سے قطعی مختلف عمل ہے۔ اس پیش منظر میں اظہر نقوی کے اشعار دم بدم رنگ بدلتی کائنات کے ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں:

جانے کیوں تیز ہواؤ ں سے الجھ بیٹھے ہیں

ریت پر خواب کی تصویر بنانے والے

          خواب سے پرے کا عالم، جہاں چاند کے اندر سورج دکھائی دیتا ہے، جہاں دشت نوردوں کے لئے پتھر سورج کی طرح اجالے بکھیرتے ہیں اور ستارے حیرت سے چاند کو دیکھا کرتے ہیں۔ احساس اور ادراک کی وہ سطح ہے جس کا اظہار شاید روایتی لہجے اور مستعمل زبان میں ممکن نہ ہو۔ ایسے میں لہجے اور لفظیات کو بھی اس سطح پر لانا پڑتا ہے:

خواب مُٹھی میں لئے پھرتے ہیں صحرا صحرا

ہم وہی لوگ ہیں جو دھوپ کے پر کاٹتے ہیں

سورج قتیلِ خنجرِ شب ہو گیا تو پھر

نیزے پہ اپنے سر کو سجانا پڑا ہمیں

          حرف و معنی کی کائنات کا یہ مسافر اپنے اندازِ فکر سے اندازِ اظہار تک ہر لمحہ رنگ بدلتی کائنات کا ساتھ دینے کے لئے نیا لہجہ اور نئے الفاظ اپناتا ہے۔ اس کے لہجے میں آج کے انسان کا مسئلہ در آیا ہے اور اس کے الفاظ کے معانی تہوں میں بٹ گئے ہیں (یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کس تہہ تک پہنچ پاتا ہے)، تاہم وہ شاخِ بریدہ کی کیفیت سے دو چار نہیں ہوتا اور انسان کے ازلی حاسّے یعنی تعلقِ خاطر سے بھی بیگانہ نہیں ہوتا۔ لفظیات کی جدت اور اظہار کا نیا پن یہاں اپنا الگ ذائقہ رکھتا ہے:

رات بھر چاند سے ہوتی رہیں تیری باتیں

رات کھولے ہیں ستاروں نے ترے راز بہت

          زندگی بس یہی کچھ نہیں۔ یہاں اور بھی غم ہیں اور خود کو ان کے لئے تیار بھی رکھنا ہے بلکہ انہی سے جِلا بھی پانی ہے:

افق سے پھوٹے گی تنویرِ صبحِ نو بن کر

کسی چراغ کی سرخی سحر کے نام تو ہو

          خود شناسی سے عالم شناسی تک اور عالم شناسی سے اپنی بازیافت کے اس سفر میں اظہر نقوی جن تجربات سے گزرتا ہے ان کا اظہار ایسے انداز میں کرتا ہے کہ اس کے الفاظ لطف دے جاتے ہیں۔

میں نے سوچا تھا کسی اور کو کب تیرے سوا

کب ترے ہجر کے لمحوں میں خیانت کی تھی

یہ رات مجھ پہ ایک قیامت کی رات ہے

اس رات کوئی درد مرا ہم نشیں نہیں

منزلوں سے بدگماں بھی کر دیا کرتے ہیں لوگ

ہر کسی سے راستوں کا پوچھنا اچھا نہیں

          اظہر نقوی کے لہجے میں ایک خاص طرح کا ٹھہراؤ پایا جاتا ہے، جس میں مسافتوں کی تھکن کے ساتھ ساتھ منزلوں کی لگن بھی ہے اور کانٹوں کی چبھن بھی۔ جذبات کی لگن بھی ہے اور واہمات کی گھٹن بھی۔ وہ کبھی نغمہ خواں ہوتا ہے تو کبھی نوحہ خواں ہوتا ہے، کبھی نعرہ زن ہوتا ہے تو کبھی خندہ زن ہوتا ہے اور یوں اس کے الفاظ اس کی وحشتوں، اس کی چاہتوں، اس کے جذبات، اس کے احساسات اور اس کے تفکرات کا ایک فطری اور حقیقی عکس بناتے ہیں۔

جب کھلیں گے گلاب آنکھوں کے

اور ہوں گے عذاب آنکھوں کے

کرتا ہے آئنوں کے حوالے سے گفتگو

یہ وقت آ گیا ہے مرے بدگمان پر

ٹوٹ جائے کا ستاروں کا غرور

جب دیے شوریدہ سر ہو جائیں گے

جمی ہے گرد آنکھوں میں کئی گمنام برسوں سے

مرے اندر نہ جانے کون بوڑھا شخص رہتا ہے

اظہر کچھ اس طرح کا پڑا اب کے قحطِ غم

زخموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے لانا پڑا ہمیں

          اپنی تمام تر آبلہ پائی اور تنہائی کے ساتھ دونوں کائناتوں کے بیچ اس کا سفر جاری ہے اور اس کے الفاظ ناطق ہیں،بلکہ یہ آبلہ پائی اس کے لئے مہمیز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے

اتر گئی ہے رگ و پے میں آبلہ پائی

کہیں رکوں جو ذرا سا تو جان جاتی ہے

          اور  ….. وہ رک بھی کیسے سکتا ہے کہ اسے تو ابھی کسی اور زمانے کی طرف جانا ہے:

مجھ کو اک اور زمانے کی طرف جانا ہے

میں کسی اور زمانے سے یہاں آیا ہوں

٭٭٭

 

 

۱۴؍ مارچ ۲۰۰۵ء

خواب گھروندے

نوجوان شاعر نوشیروان عادلؔ کے پہلے شعری مجموعے ’’آنسو آگ بجھانے نکلے‘‘   کا فکری مطالعہ

          خواب زندگی کی علامت ہے۔ نیند اور موت میں امتیاز ہوتا ہی خواب سے ہے۔ انسان اور بہائم میں اور بہت سے امتیازات کے ساتھ ایک امتیاز خواب ہے۔ کہتے ہیں کہ بہائم خواب نہیں دیکھتے، اگر دیکھتے بھی ہوں تو اُس کی تفہیم اور تعبیر سے یقیناً معذور ہیں۔ انسان سوتے میں بھی خواب دیکھتا ہے اور جاگتے میں بھی۔ اچھے خواب، برے خواب، خوش کن خواب، ڈراؤنے خواب، یاد رہ جانے والے خواب اور بھول جانے والے خواب۔ اور پھر اُن کی تعبیر کے بارے میں سوچتا ہے تو کبھی خوش ہوتا ہے کبھی مغموم، کبھی فرحاں ہوتا ہے کبھی خائف، کبھی نازاں ہوتا ہے کبھی شرمندہ۔ خواب بھی تو سارے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے۔ بہ ایں ہمہ، انسان اپنے ارادوں کا تانا بانا بُنتا ہے، اور ان کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنے پیاروں کے متعلق سوچتا ہے۔ اپنی خواہشوں، تمناؤں اور آرزوؤں کے گھروندے اور محل تعمیر کرتا ہے۔ مستقبل کے لئے منصوبے بناتا ہے قابلِ عمل بھی اور ناقابلِ عمل بھی۔ یہی تو انسان کا خاصہ ہے۔

          ایک انسان ہوتے ہوئے، نوشیروان عادلؔ بھی خواب بنتا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اس کے سارے خواب ذاتی نہیں، بہت سے خواب غیر ذاتی ہیں۔ وہ خواب بنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔ اور اُن کی تعبیر بھی چاہتا ہے۔ اور جب اُس کے خواب ٹوٹتے ہیں تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے اور برملا کہہ اٹھتا ہے:

دھیرے دھیرے ٹوٹ گئے ہیں

ہم اندر سے ٹوٹ گئے ہیں

کیا معلوم جہاں والوں کو

خواب کسی کے ٹوٹ گئے ہیں

ٹوٹ گیا ہے سب کچھ عادلؔ

خواب گھروندے ٹوٹ گئے ہیں

          اور پھر اس کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ اس سے ایسے ہی خوبصورت اور دل موہ لینے والے شعر کہلواتی ہے۔ اس کے خواب اس کا سرمایۂ حیات بھی ہیں اور سرمایۂ سفر بھی۔ اس کے خواب اسے خوف زدہ بھی کرتے ہیں اور فکرمند بھی:

چلتا ہوں تو پاؤں کو پکڑ لیتی ہے دھرتی

کوئی مجھے اس خواب کی تعبیر بتائے

          فکر مندی اور خوف کی یہ کیفیت ایک مسلسل شب بیداری پر منتج ہوتی ہے اور ایسے میں دل کے قریب بسنے والے کسی راحتِ جاں کا خیال اسے اور بھی بے چین کر دیتا ہے۔ جب خواب ٹوٹتے ہیں تو نیندیں روٹھ جایا کرتی ہیں:

یہ رت جگوں کا عذاب کب تک سہوں گا عادلؔ

مجھے گلے سے کوئی لگائے تو نیند آئے

وہ مرا چین لے گیا تو کیا

چین سے وہ بھی سو نہیں سکتا

وہ تجھے بھول بھی چکے عادلؔ

اور تو بے قرار ہے اب تک

عادلؔ ہم سا پاگل کوئی کیا ہو گا

پتھر دل سے آس لگائے پھرتے ہیں

           اپنے دل آرام کی یادیں اور اس سے وابستہ ناآسودہ امیدیں اسے مزید بے چین کر دیتی ہیں تو وہ اپنی اس کیفیت کا اظہار یوں کرتا ہے:

تھکا ہوا ہے وجود سارا، یہ مانتا ہوں

مگر خیالوں سے کوئی جائے تو نیند آئے

          خوابوں کی دنیا سے باہر ایک جیتی جاگتی دنیا ہے۔ انسان یہاں نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ اس جہانِ فانی میں رنج و الم بھی ہیں اور فرحت و انبساط بھی۔ جہاں اس دنیا کی رنگینیاں انسان کو خود سے اور خدا سے بے گانہ کر دیتی ہیں، وہیں اس کی سختیاں بڑے بڑوں کا پتہ پانی کر دیتی ہیں۔ یہاں زندگی کرنا کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔ یہاں رہنا ہے تو خود کو منوانا ہو گا:

اپنے ہونے کا یقیں ہم کو دلانا ہوگا

ورنہ پیروں تلے یہ دنیا کچل جائے گی

          کہا جاتا ہے کہ اللہ معاف کر دیتا ہے دنیا معاف نہیں کرتی۔ جہاں یہ مظہر مکافاتِ عمل کاایک حصہ ہے، وہیں دنیا کی بے رحمی اور چیرہ نگاہی کا ایک ثبوت بھی ہے، خاص طور پر کمزوروں کو تو یہ دنیا کبھی معاف نہیں کرتی اور انہیں جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کی صورت میں بھگتنی پڑتی ہے:

دنیا پہ مرے گھر کے کئی راز کھلے تھے

جس وقت مرے صحن کی دیوار گری تھی

          سبطِ علی صباؔ اور علی مطہر اشعرؔ کے حوالوں سے قطعی طور پر ہٹ کر یہاں شاعر نے بیک وقت کئی سوال اٹھا دئے ہیں۔ اس کی شاعری میں اس کی طلبِ ادراک جا بجا نظر آتی ہے۔ وہ بہت کچھ جاننا چاہتا ہے اور اسے اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ اس کے سوالوں کا جواب ہر کس و ناکس کے پاس نہیں۔ وہ کسی اہلِ نظر کا متلاشی ہے :

دھند پھیلی ہے چار سو عادلؔ

مجھ کو رستہ نظر نہیں آتا

کو بہ کو اک صدا دے رہا ہوں

کیا یہاں کوئی اہل نظر ہے؟

اندھیرا چھا گیا ہے راستے میں

مجھے پہنچاؤ کوئی آشیاں تک

          خواب، استدراک، ادراک، نظر، تخیل اور وجدان کی اس دھما چوکڑی میں وہ کئی مشاہدے کرتا ہے۔ آنکھوں میں خواب گھروندے ہی نہیں بھرے پُرے شہر بساتا ہے اور جب اُن کے تاراج ہونے کا تماشا کرتا ہے تو اس کی آنکھیں کبھی بادل بن جاتی ہیں تو کبھی دریا اور کبھی سمندر۔ اس حوالے سے اس کے چیدہ چیدہ اشعار ملاحظہ ہوں:

زندگی پوچھنے لگی مجھ سے

چاہتا کیا ہے آدمی مجھ سے

یہ زندگی کا سفر بھی عجیب ہے عادلؔ

قدم قدم پہ نیا راستہ دکھائی دے

میری آنکھوں سے گوہر نکلتے رہے

میرے اندر سمندر اچھلتا رہا

آیا اک سیلاب تو سب کچھ ڈوب گیا

آنکھوں میں اک شہر بسایا تھا میں نے

کوئی قیمت مرے اشکوں کی نہیں تھی عادلؔ

یوں ہی برسائے تھے صحراؤں پہ بادل میں نے

 سمندر کو ترے اشکوں سے کیا لینا

یونہی تنہا سرِ ساحل نہ رویا کر

دنیا مجھ کو دیکھ کے روتی رہتی ہے

میں دنیا کو دیکھ کے ہنستا رہتا ہوں

روز مرتا ہے کوئی روز اجڑتا ہے کوئی

روز اخبار میں اک تازہ خبر دیکھتا ہوں

پہچان اپنے آپ کی دشوار ہو گئی

روندا گیا ہے پاؤں تلے اس قدر مجھے

          رونے اور ہنسنے کے اس عمل سے نوشیروان عادلؔ نے بہت کچھ سیکھا ہے اور جو سیکھا ہے اس کا برملا اظہار کیا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ مختصر سی اس زندگی میں نرے دکھ ہی دکھ نہیں رنگینیاں بھی ہیں اور اپنی تمام تر نا مہربانیوں کے باوجود یہ زندگی اسے بھلی لگتی ہے:

زیست نے کیا نہیں کیا مجھ سے

مجھ کو لگتی ہے یہ بھلی پھر بھی

          سیکھنے کے عمل میں وہ سب سے پہلے اپنی ذات کا ادراک حاصل کرتا ہے اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت۔ وہ خود کہتا ہے:

خود کو جتنا بھی معتبر سمجھوں

پھر بھی اپنی خطا نظر آئے

نہیں تھی کیا اسے خبر کہ ہم نہیں تو کچھ نہیں

امیرِ شہر آج ہم گداؤں سے الجھ پڑا

ہاتھ میرا نہ تھاما کسی شخص نے

میں پھسلتا رہا، خود سنبھلتا رہا

          وہ اپنی جد و جہد سے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ:

جب کوئی آسرا نہیں ملتا

آدمی خود بہ خود سنبھلتا ہے

اسے غفلتوں میں نہ کر بسر ذرا غور کر

ہے یہ زندگی بڑی مختصر ذرا غور کر

          نوشیروان عادلؔ کا یہ مثبت اور پر عزم رویہ اسے اعتماد اور یقین سے مالامال کر دیتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ چاہت انسان کے خمیر میں شامل ہے اور وہ مستقل طور پر نفرت پسند نہیں ہو سکتا۔ تاہم ہمیں خود نگری سے کام لینا ہوگا، اور اپنے جوہر کی حفاظت کرنی ہوگی، چاہے اس میں ایک نہیں ہزار جان سے فدا ہونا پڑے:

چاہتوں کی زمین میں کوئی

بیج نفرت کے بو نہیں سکتا

اپنے ہونے کا یقیں ہم کو دلانا ہو گا

ورنہ پیروں تلے یہ دنیا کچل جائے گی

دیکھ، مانگے ہوئے پھولوں سے کہیں بہتر ہے

اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بسایا جائے

مرے لہو سے فروزاں ہے زندگی تیری

مرے بغیر ترا دیپ جل نہیں سکتا

میں دنیا کو راس نہ آیا

دنیا مجھ کو راس نہ آئی

دنیا کی اس قید سے عادلؔ

سب نے مر کر جان چھڑائی

ہزار جان سے جانا قبول ہے عادلؔ

میں اپنا فیصلہ لیکن بدل نہیں سکتا

تمام فیصلے منظور کر لئے اس کے

انا کی بات پہ لیکن اڑا ہوا ہوں میں

          تلخ و شیریں کے اس تسلسل اور تواتر کے نتیجے میں اُس کے ہاں ایک قلندرانہ انداز ابھرتا ہے کہ:

زندگی جس طرح کی ہو عادلؔ

زندگی ہے تو زندگی پھر بھی

          اسے اپنی جد و جہد پر اعتماد بھی ہے اور وہ اس پر مطمئن بھی ہے کہ:

کٹے ہوئے ہیں مرے آج بال و پر لیکن

میں جب اڑوں گا، زمانہ اڑان دیکھے گا

ہمارے بعد رہِ غم پہ جب چلے گا کوئی

ہمارے پیروں کے عادلؔ نشان دیکھے گا

          تعلقِ خاطر اردو شاعری میں ایک مضبوط روایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہجر و وصال کی کیفیات، لب و عارض کی نقشہ گری، گل و بلبل کا مکالمہ، تصویرِ حسن، تفسیرِ عشق، بے اعتنائی اور ستم گری کی شکایت وغیرہ کے موضوعات ہر زمانے کے شعراء میں مقبول رہے ہیں۔ نوشیروان عادلؔ کی شاعری میں بھی اس روایت سے مضبوط رشتہ دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اس کا اندازِ احساس اور اندازِ اظہارکسی قدر مختلف ہے۔ اس کے ہاں روایتی ملائمت کے ساتھ ساتھ عہدِ حاضر کی تلخ نوائی کا عنصر صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

رخ سے پردہ نہ اٹھا، رہنے دے

دل میں کچھ خوفِ خدا رہنے دے

میری تربت کے لئے پھول نہ توڑ

اِن کو شاخوں پہ کھلا رہنے دے

میں اکیلا نہیں تھا شبِ ہجر میں

اک دیا بھی مرے ساتھ جلتا رہا

یا پھر تیرا نام زباں پر ہوتا ہے

یا پھر اپنی غزلیں گاتا رہتا ہوں

           اس کا لہجہ، ہو سکتا ہے، بعض نقادوں کے ہاں اس نازک موضوع کا متحمل قرار نہ پائے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جذبِ دروں اور غمِ جاناں کے اظہار نے بدلتے وقت کے ساتھ کئی نئے نئے لہجے قبول کئے ہیں۔ صداؤں کی رنگا رنگی میں نوشیروان عادلؔ نے ارادی طور پر اپنے لب و لہجہ کو برقرار رکھا ہے۔اس حوالے سے اس کے چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں:

خود اپنے رنگ میں ہی بات ڈھنگ سے ہو گی

کسی کا لہجہ کسی کی زباں تلاش نہ کر

تیری کتنی بڑی عنایت ہے

لطف میرے بیان میں رکھا

جس طرح چاہتا تھا میں عادلؔ

بات ویسی نہ بن سکی مجھ سے

زمین دیکھے گی اور آسمان دیکھے گا

مجھے عروج پہ اک دن جہان دیکھے گا

          انسان بیک وقت کئی دنیاؤں میں رہ رہا ہوتا ہے۔ غمِ جاناں اور غمِ دوراں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔احساسات ایک شخص کے حوالے سے بھی سو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ کبھی وصال کی لذت ہے تو کبھی ہجر کا غم، کبھی بے اعتنائی کا شکوہ ہے تو کبھی بے خبری کا، کبھی بیزاری کا اظہار کبھی بے بسی کا، کبھی خرد اور جنون کی کشمکش ہے تو کبھی محرومیوں کا جان لیوا احساس، کبھی واہمے ہیں تو کبھی مایوسی۔ کبھی اپنی بات اس انداز میں کی جاتی ہے کہ وہ ہر شخص کو اپنی بات لگتی ہے اور کبھی دوسروں کی بات یوں کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بن جاتی ہے۔ ملی جلی چند مثالیں:

اُس نے اک بار خود کو دیکھا تھا

آئینہ بے قرار ہے اب تک

ہنستے ہوئے چہرے پہ تھے کچھ اشک بھی عادلؔ

معلوم نہیں ہم کو، وہ غم تھا کہ خوشی تھی

جو شام ہوتے ہی تارا دکھائی دیتا ہے

کسی کے ہجر کا مارا دکھائی دیتا ہے

گلشن گلشن دھول اڑائی

پھر بھی خوشبو ہاتھ نہ آئی

بس اسی ڈر سے نہیں پیار کا اظہار کیا

دوسری سمت سے انکار بھی ہو سکتا ہے

میں جھوٹی محبت کو محبت نہیں کہتا

کوئی بھی مری لاش پہ آنسو نہ بہائے

خواہشوں کی قبروں پر

اب دیے جلاؤں گا

          دل کی دنیا کے باہر ایک دنیااور ہے، حقائق اور حوادث کی دنیا۔ زندگی کے تمام جسمانی اور روحانی، جبلی اور فطری، فکری اور فنی لوازمات اسی دنیا سے وابستہ ہیں جس میں انسان کو زندہ رہنا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں انسان کو دوسروں پر بھی انحصار کرنا ہوتا ہے اور خود پر بھی۔ راہِ حیات میں ہمیشہ گل فشانیاں نہیں ہوتیں، خار زار بھی اسی راہ میں آتے ہیں۔ یہ سفر دل کَش بھی ہے، اور دل کُش بھی، دل دوز بھی ہے اور دل آساء بھی۔ اچھائی اور برائی کی قوتیں اس کرہ ارض پر انسان کے ہبوط سے بھی پہلے کارفرما ہو گئی تھیں اور یہ معرکہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہی اس وجہ سے ہوا کہ اسے اچھائی اور برائی میں کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا۔ یہ اختیار دراصل ایسی بڑی ذمہ داری ہے جو کسی اور مخلوق پر اِس طرح نہیں ڈالی گئی جس طرح انسان پر۔ سو، زندگی کے اس سفر میں سنبھل سنبھل کر چلنا ناگزیر ہے۔ ایک ذرا پاؤں میں لغزش ہوئی، تو برائی کی قوتوں کو انسان پر غلبہ حاصل ہو گیا اور وہ انسانیت کے درجے سے گر کر قعر مذلت میں جا پڑا:

سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانا پڑیں گے عادلؔ

قدم قدم پر یہ زندگی ڈگمگا رہی ہے

منتظر کھڑے ہیں وہ

کب میں ڈگمگاؤں گا

          نوشیروان عادلؔ ایسے میں اپنی ذمہ داریوں سے بے خبر نہیں۔ اسی لئے تو وہ کہتا ہے کہ:

میرے ساتھ آ جاؤ

راستہ دکھاؤں گا

          ادھر اُس کے مشاہدات اور واردات کچھ اور ہی نقشہ بنا رہے ہیں اور وہ کبھی دکھ کا شکار ہوتا ہے تو کبھی اندیشے اسے گھیر لیتے ہیں۔ عظیم انسانی اقدار میں روز افزوں تنزل اسے گرفتہ دل کر دیتا ہے۔ روز مرہ زندگی کے جو نقوش اس کے حساس ذہن پر مرتب ہوتے ہیں، ان سے وہ پریشان بھی ہوتا ہے اور ان پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے نئی نئی سوچیں بھی اس کے نہاں خانۂ فکر میں پرورش پانے لگتی ہیں۔ تخیلات کی اِس دھوپ چھاؤں کا حاصل اس کے کچھ ایسے اشعار ہیں:

توڑ کر لوگ پھینک دیتے ہیں

کون سمجھے ملال پھولوں کا

اتنا نہ محبت پہ یقین رکھ عادلؔ

دل گھروندا ترا مسمار بھی ہو سکتا ہے

جہاں تھا نفرتوں کا راج عادلؔ

میں کب کا اس جہاں کو چھوڑ آیا

نہ پھڑپھڑا اے مری جان، چھوڑ دوں گا تجھے

مرے بدن میں مقید ہے تو، قفس میں نہیں

کوئی بھی شخص اسے قید کر نہیں سکتا

مرے خیال کا سب سے جدا پرندہ ہے

دن گزرتے رہے، عمر ڈھلتی رہی

آئنہ رنگ اپنا بدلتا رہا

زندگی تجھ سے شکایت نہیں مجھ کو لیکن

درد ہی درد اٹھائے ہیں مسلسل میں نے

ہماری پیاس کی مقدار پوچھتا ہے وہ

اسی لئے تو ہتھیلی پہ لکھ دیا دریا

لوٹنے والا مجھے کون ہے معلوم نہیں

میں کسی شخص کو الزام نہیں دے سکتا

           وہ عمل اور مکافاتِ عمل کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کرتا ہے اور احتساب بھی۔ اپنی اور دوسروں کی کوتاہیاں اسے بے چین کر دیتی ہیں اور وہ بے یقینی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہ بے یقینی اور بے سمتی نوشیروان عادلؔ کی فکر میں نہیں بلکہ معاشرے میں پائی جاتی ہے جس کا نقشہ وہ کھینچ رہا ہے۔ موسم اور جغرافیہ اس کے ہاں ایک مضبوط علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس حوالے سے غبار، آندھی، دھوپ ، دھواں ، ریت اس کے ہاں ووسیع معانی رکھتے ہیں:

یہاں تو کچھ بھی دکھائی دیتا نہیں ہے عادلؔ

ہوا کے چہرے پہ گرد اتنی جمی ہوئی ہے

چل پڑتے ہیں کیوں دیوانے

صحراؤں میں پھول کھلانے

کٹتی جائے دل کی دھرتی

لازم ہیں کچھ پیڑ لگانے

اک مسلسل غبار ہے اب تک

آپ کا انتظار ہے اب تک

ریت ہمارے گھر تک پہنچی

یاد کیا ہم کو صحرا نے

یاد آ جاتے ہیں اک شخص کے آنسو عادلؔ

اس لئے مجھ سے سمندر نہیں دیکھا جاتا

آندھیاں منہ چھپا کے روتی ہیں

جب کوئی آشیاں نہیں رہتا

کڑکتی دھوپ تھی، سایہ قریب تھا، لیکن

مرے وجود پہ سب اختیار اس کا تھا

کیوں اسے توڑتے ہو اپنی ہوس کی خاطر

شاخ پر تم سے گلِ تر نہیں دیکھا جاتا

          نوشیروان عادلؔ کے مشاہدات اسے جہاں رنجیدہ کرتے ہیں وہیں اسے ایک خاص انداز کا عزم اور حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ وہ اپنے بے باک تجربات پوری ایمان داری سے اپنے قاری تک پہنچاتا ہے:

وار کرنا اسے نہیں آتا

وار کو روک جو نہیں سکتا

میں حقیقت بیان کرتا ہوں

اس لئے ہیں سبھی خفا مجھ سے

بس ایک سچ پہ زباں کاٹ دی گئی جس کی

وہ اپنے حق میں بھلا کس طرح صفائی دے

مجھے تو قتل ہونا تھا ترے ہاتھوں

نہ رویا کر مرے قاتل، نہ رویا کر

اس نے اک بار کہا تھا کہ اڑا کر عادلؔ

آج بیٹھا ہوں میں پر اپنے کٹا کر عادلؔ

بھروسا کر کے اپنے رہنما پر

لٹا بیٹھے ہیں ہم تو کارواں تک

           کارزارِ حیات میں چو مکھی لڑائی لڑتے ہوئے اس کا احساس گھائل ہو جاتا ہے تو وہ ڈانواں ڈول ہونے لگتا ہے۔ ایسی کیفیت میں وہ خود کو بھی موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور حوادث پر بھی نظر رکھتا ہے۔ اس کا اظہار اس کے زخمی احساس کی کچھ اس طرح نمائندگی کرتا ہے:

اس میں عادلؔ اور کسی کا دوش نہیں

اپنے گھر کو آپ جلایا تھا میں نے

نہیں کہ یوں ہی روانی میں آ گیا دریا

وجود برف کا پگھلا تو پھر بنا دریا

تمام شہر کو یہ ہم سفر بنا لے گا

اسی طرح سے اگر جوش میں رہا دریا

          خوف اور درماندگی کے اس عالم میں اس کا تخیل اسے اپنے مطلوبِ جاں کی طرف لے جاتا ہے۔ زمانے کی کڑی چوکڑی میں یہی ایک مقام ہے جہاں وہ خود کو فراموش کر سکتا ہے۔ تاہم خدشات جو اسے حوادث نے عطا کئے ہیں یہاں بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں اور وہ بیک وقت کئی کیفیتوں کے امتزاج اور تضاد کا مزا لیتا ہے:

میرے گھر کو بھول نہ جانا

نام لکھا ہے دروازے پر

وہ مصیبت میں مبتلا ہو گا

اس کی تصویر گر گئی مجھ سے

آنسو آگ بجھانے نکلے

جب تیری تصویر جلائی

          اس سارے پیش منظر اور پس منظر میں ہم اس سے بہت سی مثبت امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں۔ اور اس لئے بھی کہ دورِ حاضر کے حوالے سے تلخ نوائی کرنے والا نوشیروان عادلؔ جب نازک بیانی پر آتا ہے تو ایسی ایسی غزلیں کہہ جاتا ہے:

چراغوں کو بجھاؤ، جل نہ جائے

مرا گھر، اے ہواؤ، جل نہ جائے

دھواں سا اٹھ رہا ہے پانیوں سے

مری کاغذ کی ناؤ، جل نہ جائے

شجر شعلے اگلنے پر تلا ہے

پرندے کو اڑاؤ، جل نہ جائے

لگی ہے آگ میرے صحنِ دل میں

کہیں سینے کا گھاؤ، جل نہ جائے

محبت آگ ہے میں جانتا ہوں

تم اپنا دل بچاؤ، جل نہ جائے

کہیں اس آتشِ فرقت میں عادلؔ

ہمارا رکھ رکھاؤ، جل نہ جائے

          نوشیروان عادلؔ کی اب تک کی شاعری کو دیکھتے ہوئے ہم بجا طور پر یہ امید کر سکتے ہیں کہ یہ نوجوان ایک نمایاں مقام حاصل کرے گا۔ اور سوچنے کا جو ملکہ اسے حاصل ہے وہ اپنی راہیں خود بنائے گا۔

٭٭٭

 

 

 ۲؍ نومبر ۲۰۰۵ء

اخترِ صبح

پرویز اختر کے شعری مجموعہ ’سائبان ہاتھوں کا‘  پر ایک نظر

حرف کا رشتہ بھی کیا عجیب رشتہ ہے۔ رشتے تو اور بھی ہیں! بلکہ انسان توانسان کہلاتا ہی اس لئے ہے کہ وہ رشتوں کا پابند ہے۔رشتوں کے یہ بندھن نہ ہوں تو انسان اور ڈھور ڈنگر میں کوئی امتیاز نہ رہ جائے۔ ایک رشتہ جسم کا ہے تو ایک جان کا ، اور ایک جسم و جاں کا رشتہ ہے اور کوئی انسان اس رشتے کو نبھاتے میں کہاں تک جا سکتا ہے، یہ بات جناب پرویز اختر کی نگاہِ تیز سے پنہاں نہیں رہ سکتی۔ سرسبز دیہات میں گھرے صنعتی شہر فیصل آباد کے گلی کوچوں میں جوان ہونے والا پرویز اختر رشتوں کی پاسداری کے لئے عرب کے تپتے صحراؤں کی طرف نکل گیا۔ مجھ جیسا کم ہمت شخص بھی اتنا تو کر گزرا کہ صحرا کو نہ سہی کوہسار کو چل نکلا، اسی رشتۂ جسم و جاں کی تلاش میں۔ یہ الگ بات کہ اُدھر سوچوں میں صحرا کی سی وسعت آتی ہے تو اِدھر پتھروں کے ساتھ رہتے رہتے سوچیں بھی پتھرا جاتی ہیں:

آدمی کیا ہے یہ جان لینا تو آسیؔ بڑی بات ہے

سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم و جاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

جسم و جان کے اس رشتے کو قائم رکھنے کی سعی میں اختر پر کتنے سخت مرحلے گزرے ہوں گے اور وہ کن حالات سے گزرا ہو گا کہ راحتیں اُس کی ہمت بندھانے کی بجائے حوصلے توڑنے کے درپے نظر آتی ہیں:

دھوپ شدت کی تھی، گرمِ سفر تھا کوئی

حوصلہ ٹوٹ گیا رہ میں شجر آتے ہی

’’سائبان ہاتھوں کا‘‘ اسی کڑی دھوپ سے نبرد آزما رہنے کا استعارہ ہے۔ اختر کا جتنا کلام میری نظروں سے گزرا ہے اس میں سب سے نمایاں عنصر زندگی کی تگ و تاز ہے، جس کا ہر لمحہ زندہ محسوس ہوتا ہے۔

واضح کرتا چلوں کہ میں پرویز اختر کو اختر کہنا زیادہ پسند کرتا ہوں، حالانکہ خود اُس نے اپنے نام کے جزوِ اول یعنی پرویز کو بطور تخلص استعمال کیا ہے۔اپنی اس پسند کی وجہ سے شعوری طور پر شاید میں خود بھی واقف نہیں تاہم ایک علامت ہے جو میرے اس عمل کا جواز کہلا سکتی ہے، اور وہ ہے اس کا اپنا نام۔اسے اتفاق ہی کہئے کہ مجھے اُس کے موصولہ کلام میں ستارے کا صرف ایک حوالہ دکھائی دیا،جس کے ساتھ ہی چراغ اور سورج کا حوالہ موجود ہے:

وہاں آفتاب ہتھیلیوں پہ لئے ہوئے کئی لوگ تھے

مجھے اپنا آپ عجب لگا، کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

مجھے اپنے پیاروں کی صورتیں ذرا دیکھنی تھیں قریب سے

نہیں چاند تارے ملے تو کیا، کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

چاند، تارے، چراغ، آفتاب؛ یہ سب روشنی اور زندگی کی علامات ہیں۔ اسی روشنی کے حوالے سے اُسے اختر کہنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ ویسے ہی جیسے اختر کو زندگی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔مجھے اُس کے الفاظ بولتے اور دھڑکتے محسوس ہوتے ہیں۔ اختر بڑے خوبصورت انداز میں زندگی کی چھوٹی بڑی دلداریوں کا احوال بیان کر جاتا ہے۔  اس کے ہاں گھر اور گھر کے لوگ اپنے حقیقی اور معنوی پیش منظر کے ساتھ وارد ہوتے ہیں:

کیسے دن بھر کی تھکن پل میں اتر جاتی ہے

بچے سینے سے جو لگ جاتے ہیں گھر آتے ہی

بتاؤ بچوں کو کالی کریں نہ دیواریں

وہ کہہ بھی سکتا تھا، آخر مکان اُس کا تھا

اہلِ خانہ سے جو ہو جاتی ہے رنجش پرویزؔ

چھوڑنے کوئی نہیں آتا ہے دروازے تک

اتنا احساس دلوں میں نہیں جاگا اب تک

ہم میں رنجش ہو تو بچوں پہ اثر پڑتا ہے

ان کے چہروں سے نہ سنجیدگی ٹپکے کیوں کر

میرے بچوں کو ہیں معلوم مسائل میرے

میں خود ڈرا ہوا تھا، پہ ہمت سی آ گئی

جب بچہ ڈر کے میرے گلے سے لپٹ گیا

اُسے ابھی سے نہیں ہے پسند پابندی

وہ لڑکا لکھتا نہیں حاشیے کے اندر کیوں

اختر جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو اُس کا احساس اُسے کہیں رنجیدہ کرتا ہے اور کہیں فکر مند، کہیں وہ خوف اور واہموں کا شکار ہوتا ہے تو کہیں عزم و ہمت کا درس دیتا ہے۔یوں اُس کے ہاں کسی یوٹوپیا کی بجائے جیتے جاگتے شہر ملتے ہیں،اپنے حقیقی مسائل اور رنگوں کے ساتھ!

کسی دباؤ میں آ کر وہ تم سے ہارا تھا

تمہاری جیت مجھے کس لئے نہ مات لگے

ہیں ایک جیسے مسائل سبھی کے ساتھ لگے

کسی کی بات ہو اپنے ہی گھر کی بات لگے

مجھ کو اخبار سے کیا کام کہ دن چڑھتے ہی

گھیر لیتے ہیں مجھے اپنے مسائل میرے

دلوں پہ چھائے ہوئے ڈر کا کر لو اندازہ

کہ لوگ دن میں بھی رکھتے ہیں بند دروازے

جیتے جاگتے شہر کے ان مسائل میں جہاں انصاف پر حرف آتا ہے، اور کوئی معاشرتی ناہمواری دکھائی دیتی ہے، اختر اُس پر تڑپ اٹھتا ہے۔ایسی صورتِ حال پر اس کا اندازِ اظہار کسی قدر کھردرا بھی ہو جاتا ہے،اور یہ رد عمل انسانی سلامتِ طبع کے عین مطابق ہے۔ ایسے میں وہ کہیں براہ راست انداز اختیار کرتا ہے تو کہیں سوالیہ لہجہ،اور سوال ایسا اٹھا جاتا ہے جس میں جواب از خود پنہاں ہوتا ہے:

میرے بچوں کے تحفظ کی ضمانت جو نہیں

نام قاتل کا بتاتے ہوئے ڈر جاتا ہوں

منصفِ وقت ہے خود میرے گناہوں میں شریک

جرم ثابت نہیں مجھ پر کوئی ہونے والا

وہی اک وارداتِ قتل کا ہے عینی شاہد

وہی اس سانحے سے بے خبر کیوں لگ رہا ہے

منصف کو بس سزائیں سنانے سے کام تھا

مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں چلا

وہ بھی دور آئے کہ ظالم کو عدالت سے ملے

لوگ لکھیں جو سزا شہر کی دیواروں پر

جس کو اخبار نہیں مصلحتاً چھاپ سکے

جا بجا ہم نے پڑھا شہر کی دیواروں پر

بہ ایں ہمہ اُسے انسانوں سے پیار ہے، اور انسان کی مجبوریوں کا ادراک بھی ہے۔ وہ کہیں انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتا ہے تو کہیں اُس کے دکھوں پر سانجھ کا اظہار کرتا ہے۔ اُس کے بعض اشعار کی محسوساتی سطح لفظوں سے کہیں اوپر اٹھ جاتی ہے، اور اُس کا قاری اُس کی فسوں کاری کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا:

کہتے ہیں نقشِ پا، کہ رکا تھا وہ دیر تک

دستک دئے بغیر جو در سے پلٹ گیا

ثابت ہوا کہ میری زمیں مجھ کو راس تھی

آ کر بلندیوں میں مرا وزن گھٹ گیا

سوتا نہیں تھا میں تو کبھی فرشِ سنگ پر

آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا

تو کیا پرندہ زمیں سے فرار چاہتا ہے

پروں کے کھلتے ہی جاتا ہے آسماں پر کیوں

بدل کر بھیس میں پہچان اپنی کھو رہا ہوں

مگر یہ جاں بچانے کو بدلنا پڑ رہا ہے

ممکن نہیں کہ بدلے زبانوں کا ذائقہ

اترے گی اب نہ کوئی کتاب آسمان سے

تھا یہ تنہائی پسندی کا تقاضا پرویزؔ

میں نے دانستہ مکاں بھی لیا کونے والا

میں وہی ہوں کہ پلاتے ہی جسے آبِ حیات

لوگ اِک قحط زدہ شہر میں چھوڑ آئے تھے

کچے رنگوں سے ہے بیٹے نے بنائی تصویر

کہہ دو بارش سے نہ آئے مری دیوار کے پاس

اختر کی شاعری کا خاص وصف اس کی سہل نگاری ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ شعر کی زبان کو آسان بنانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اُس کے بعض اشعار لفظی سطح پر اتنے سادہ اور معنوی سطح پر اتنے عمیق ہیں کہ حیرت ہوتی ہے:

یہی بہتر ہے کہ مضبوط ہوں رشتے ورنہ

کون بچ سکتا ہے گر چھت سے ہو دیوار جدا

پانیوں سے تھا گزر میرا ہوا سے تیرا

کیا عجب ہے جو رہی دونوں کی رفتار جدا

کتنا دشوار ہے ہر اک سے مراسم رکھنا

وہ جو پاس آئے تو یہ دور بھی ہو سکتا ہے

تم نہیں جاؤ گے کیا اپنے وطن اب کے برس

پوچھتا ہے مجھے اکثر یہ کھلونے والا

نہ بوند بوند کو ترسے مری زمیں پرویزؔ

مرا مزاج اگر بادلوں کے ہاتھ لگے

ہم میں رنجش تھی وہ حیران سا لگتا کیوں تھا

رات بھر بیٹا پریشان سا لگتا کیوں تھا

رات بھر لکھا گیا شہر کی دیواروں پر

اگلے دن کچھ بھی نہ تھا شہر کی دیواروں پر

اختر نے بہت اچھا کیا کہ اظہار کو نئی نئی اور نامانوس بحروں کے تجربوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔اُس کا اندازِ فکر اور اندازِ اظہار اتنا صاف ہے کہ اُسے طویل اور مشکل تراکیب گھڑنے کی ضرورت ہی نہیں ۔یہ وہ اوصاف ہیں جو اختر کو خواص تک محدود رکھنے کی بجائے اردو شاعری کے عام قاری تک پہنچنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں، اور اُسے ہر دل عزیز بناتے ہیں۔

مجھے یقین ہے صبح کے اس ستارے کی روشنی طلوعِ سحر تک اختر کے قاری کا ساتھ دے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ تیز دھوپ میں ہاتھوں کا سائبان بنا نے کا گُر ہر کسی کو آتا ہی کب ہے!

٭٭٭

 

 

۱۰؍ مارچ ۲۰۰۶ء

سانجھ کا چور

اللہ بھلا کرے نوید صادق کا جنہوں نے انٹرنیٹ پر مجلس ادب کے نام سے ایک گروپ بنا ڈالا۔ اس گروپ میں میری شمولیت ۲۰۰۵ء کے اواخر میں ہوئی۔ اور اس کی وساطت سے میرا جن چند اہلِ دل سے رابطہ ہوا،ان میں جناب اقبال احمد قمر (جہلم)، جناب طارق اقبال بٹ (کراچی) اور جناب پرویز اختر (فیصل آباد) تینوں دوست سعودی عرب میں ہوتے ہیں۔بٹ صاحب ایک شہر میں رہتے ہیں جب کہ قمر صاحب اور اختر صاحب دوسرے شہر میں۔ان تینوں احباب میں اتنی گاڑھی چھنتی ہے اور باہمی روابط کا یہ عالم ہے کہ میں ان تینوں کو ایک دوسرے سے الگ سوچ ہی نہیں سکتا۔ مجلس میں یوں تو اس وقت ایک سو کے لگ بھگ لوگ شامل ہیں تاہم ادبی اور تنقیدی معاملات میں سرگرمی سے حصہ لینے والے گنے چنے دوست ہیں ان میں بھی یہی نمایاں نظر آتے ہیں اور ان کی طفیل میں بھی دکھائی دے جاتا ہوں۔ مختلف فن پاروں اور ادبی موضوعات پر ہونے والے مباحث کے دوران جو کبھی آن لائن ہوتے، کبھی ای میل یا کبھی ٹیلیفون کے ذریعے، قمر صاحب، بٹ صاحب اور اختر صاحب میں مجھے کچھ ایسی فکری اور محسوساتی ہم آہنگی نظر آئی جو بالعموم نایاب ہے۔ یہی وہ سانجھ ہے جس نے مجھے ان تینوں میں شامل کر لیا۔سانجھ کی حدیں کہاں تک ہوا کرتی ہیں! اس کا اندازہ ان ایک دو واقعات سے ہو سکتا ہے جو میں ابھی تازہ کرنے چلا ہوں۔

(۱)   ایک بھائی کو اللہ عمرہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں، وہ مسجد حرام سے مجھے فون کرتا ہے: ’’سنو، اس وقت خانہ کعبہ میرے سامنے ہے، بلند آواز میں تلبیہ پڑھ دو!‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے ’’لبیک، اللھم …‘‘  اور اس کے بعد الفاظ حلق میں پھنس جاتے ہیں، ہونٹ کانپتے رہ جاتے ہیں اور ’’لبیک‘‘ کا لفظ سینے میں ہلچل مچا دیتا ہے۔اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ میں کسی ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہوں جہاں لفظ نہیں ہوتے، اشک ہوتے ہیں فقط! شاید دھڑکنیں بھی ہوتی ہوں۔

میرا سامانِ آخرت، مولا!

چشم نادم کا اک نگیں تنہا

(۲) دوسرا بھائی مسجد نبوی میں حاضر ہوتا ہے اور موبائل پر مجھے کہتا ہے: ’’روضۂ رسول ﷺ کے سامنے کھڑا ہوں، حاضری لگواؤ گے؟ جو کچھ پیش کر سکتے ہو کر دو!‘‘ میں اپنی کم مائیگی کے بھرپور احساس کے ساتھ درود ابراہیمی پڑھنے لگتا ہوں تو الفاظ یوں دم سادھ لیتے ہیں کہ میں خود بھی گم سم ہو جاتا ہوں۔ خموشی، اور وہ بھی اس قدر کہ اپنی دھڑکن کنپٹیوں میں محسوس کرتا ہوں۔

…  …  اور میرے حرف سارے

اس حبیب کبریا ﷺ کے باب عزت پر

کھڑے ہیں دست بستہ

بے زباں

بے جرأت اظہار

حاشا!!

کوئی گستاخی نہ ہو جائے!

(۳)  تیسرے بھائی کی سنئے۔ عید الفطر کے چوتھے پانچویں دن مجھے فون کیا، بولے: ’’مبارک ہو! تم نے مشاعرہ لوٹ لیا،بھئی واہ! کیا نظم کہی ہے یار! اس واقعے کو پہلے یوں کسی نے بیان نہیں کیا!بھئی واہ!‘‘ میں بہت حیران ہوا، پوچھا: ’’یہ کس مشاعرے کی بات کر رہے ہیں، آپ؟ یہاں تو رمضان المبارک ابھی گزرا ہے، روزوں میں حلقے کے اجلاس ہوتے نہیں، اور میں کہیں کسی اور محفل میں گیا نہیں!‘‘ ہنس دئے۔ بات کھلی کہ دمام میں ہونے والی ماہانہ محفلِ شعر میں مظفر آباد کے زلزلے کے حوالے سے میری نظم پیش کر دی گئی جسے کمال پذیرائی حاصل ہوئی۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے! یہ نظم ابھی یہاں کے دوستوں نے نہیں سنی تھی کہ میرے ان بھائیوں کے خلوص کی بدولت وہاں پہنچ گئی اور میں دو ڈھائی ہزار میل دور منعقد ہونے والی اس نشست میں ’شریک غائب‘ ٹھہرا۔

سانجھیں ایسی بھی تو ہوا کرتی ہیں! یہیں پر بس نہیں۔ قمر صاحب کا شعری مجموعہ ’’شام کی زد میں‘‘ مجھ تک پہنچا۔ ایک ہی نشست میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ فوری تاثر یہ بنا کہ قمر صاحب اور میرے بیچ ایک اور سانجھ بھی ہے! میں اسے سانجھ وچار کا نام دوں گا۔ یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ یہ کتاب ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی اور میرا قمر صاحب سے پہلا تعارف اکتوبر ۲۰۰۵ء میں ہوا۔ اس سے پہلے نہ میں نے کبھی ان کا نام سنا اور نہ وہ مجھ سے واقف تھے۔ مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی جب میں نے ان کے کلام میں کتنے ہی ایسے مضامین دیکھے جو کہیں کہیں تو بعینہٖ اور کہیں کسی قدر فرق کے ساتھ میں بھی اپنے اشعار میں باندھ چکا ہوں۔ مشتے از خروارے کے مصداق، چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔کوئی تشریح نہیں کروں گا، کہ آپ خود صاحبانِ نظر ہیں، دیکھ لیں گے۔ ہر جفت میں پہلا شعر قمر صاحب کا ہے اور دوسرا میرا ہے۔

٭٭٭

وہ اک دیا جو مرے دل میں ٹمٹماتا ہے

وہی تو ظلمتِ ہستی میں رہنما ہوگا

چلو سوچوں کے جگنو پالتے ہیں

کہ امیدِسحر باقی نہیں ہے

٭

پاس رہ کر بھی کسی کو دیکھتا کوئی نہیں

دورجیسے دور ہیں گو فاصلہ کوئی نہیں

ایک بستر پہ سو گئے دونوں

درمیاں دوریاں بچھائے ہوئے

٭

یہ روح کیا ہے شعور کیا ہے زمین کیوں آسمان کیوں ہیں

یہ تہ بہ تہ کیا حقیقتیں ہیں ترے مرے درمیان کیوں ہیں

یہ چراغ جاں کا جو دود ہے، سر سر سپہر کبود ہے

یہ جمال بود و نبود ہے یہاں روشنی سی ڈھکی رہی

٭

ہمیں طوفاں کا ڈر ایسا نہیں تھا

مگر اپنا ہی گھر ایسا نہیں تھا

ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے

اپنا گھر ہی نہ تھا تھک گئیں آندھیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

٭

ان اندھیروں کی گھٹن پہلے ہی ہم کو کم نہ تھی

تو نے تو آنکھوں کو خیرہ کر دیا، اے روشنی

دن دا چانن اکھاں کھلن نہیں دیندا

رات پوے تے آوے خوف ہنیرے توں

٭

یہ سناٹا تو اپنی ذات کا ہے

سکوتِ بام و در ایسا نہیں تھا

بکل وچہ لکوئی بیٹھا

ہر کوئی اپنی اپنی چپ

٭

اب تو دل کی دھڑکن سے بھی ڈر لگتا ہے

اک سناٹا ہے جو کھنڈر میں ٹھہر گیا ہے

اندر مچے نیں کرلاٹ

کندھاں اتے لکھی چپ

٭

اپنے شہر کی وہ سب رسمیں ہم نے بھی اپنا لی ہیں

جن میں باطن والوں کا بھی ظاہر دیکھا جاتا ہے

غرور پارسائی حضرت ناصح ہمیں بھی تھا تمہیں بھی تھا

تمہارے شہر میں تم جیسا ہو جانے کو جی چاہا سو کر گزرے

٭

اپنے باطن میں مت جھانکو ورنہ خود ڈر جاؤ گے

دیکھ نہ پاؤ گے اس میں کیسی کیسی تصویریں ہیں

کیسے کیسے کس کس کے

عیب چھپاتی ہیں راتیں

٭

ضرورت ہو جسے وہ کوچ کا اعلان کر دے

کوئی آئے نہ آئے اپنا تو ہے ہم سفر دل

شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے

ناتواں دل کو لیا اور چل دئے

٭

وقت رخصت وہ گلے مل کے مرے یوں رویا

جیسے گرتی ہوئی دیوار پہ دیوار گرے

وقت رخصت پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں

اشک جنتے تھے ترے آنے پہ جگنو کر دئے

٭

کس بات پر زمانہ نگاہیں بدل گیا

میں اتفاق سے ذرا آگے نکل گیا

رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر

راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے

٭

چھوڑیے بھی تاویلیں ختم کیجئے قصہ

دل کا حال چہرے پر کیا رقم نہیں ہوتا

اسی لئے تو میں کہہ رہا تھا کہ کچھ نہ کہنا

صدا نے اندر کا حال چہروں پہ لکھ دیا ہے

٭

پھوڑنے آتے ہیں سب دل کے پھپھولے لیکن

بانٹنے آتا نہیں پاؤں کے چھالے کوئی

سکھ دے سانجھی سبھے یار

کوئی کوئی آن ونڈاوے دکھ

٭

کس طرح ہم نے گزاری رات یہ جانے گا کون

صبح ہونے تک تو بجھ کر سب دیے رہ جائیں گے

جلتی آنکھیں بستر کانٹے آخر شب

مرتے ہیں پلکوں پر اختر خاموشی

٭

ہوئے مانوس ہم صحرا سے اتنے

نظر آتا ہے صحرا خواب میں بھی

کوئی صحرا سے آسیؔ کو بلا لو

حرارت سے شناسائی تو ہوگی

٭

اک لفظ ساتھ لاتا ہے کتنی حکایتیں

اک راہ سے نکلتے ہیں رستے ہزار اور

سانوں پاگئے لمے راہ

اس دے اڑدے پھڑدے بول

٭

اپنی آواز الگ سے بھی کوئی رکھتا ہے

سب کی آواز میں آواز ملانے والا

یہ کیا کم ہے کہ میں تنہا نہیں ہوں

یہاں کوئی تو مجھ سا بولتا ہے

٭

جب بھی ہاتھوں میں چراغ آتا ہے اس چہرے کا

حرفِ آئینہ کی تفسیر بدل جاتی ہے

ہاں مجھے دیکھ مری ذات میں گم سا ہو کر

میں نگاہوں سے تری اپنا نظارہ کر لوں

٭

مجھ کو قمر خبر ہے کہ وہ عافیت سے ہے

اس کو سکوں نہ ہو تو مجھے بے کلی تو ہو

دل اداس ہو گیا اے

کدھرے تاراں ہَلیاں

٭

اس نے دکھلائے ہیں کیسے کیسے خواب

چھین لئے ہیں مجھ سے میرے اپنے خواب

کیسے کیسے ان ہونے

خواب دکھاتی ہیں راتیں

٭

میری تمنا آنکھیں بچے تارے پھول

جیسا کوئی سوچے اس کے ویسے خواب

آلے بھولے گھگو گھوڑے

ویکھ ویکھ نہ رجن اکھاں

٭

مدت بعد بڑے آرام سے سویا ہوں

یہ بستی میرے دشمن کی بستی ہے

ویریاں دی لوڑ اے

یاراں راہواں ملیاں

٭

اپنا سب کچھ بانٹ دیا ہے لوگوں میں

بس اک تیری یاد بچا کر رکھی ہے

میں اپنی آواز جہاں میں بانٹ آیا

رہ گئی میری ذات کے اندر خاموشی

٭٭٭

صاحبان! میری ان گزارشات کو کسی انداز میں بھی کوئی تنقیدی مضمون نہ سمجھئے گا، میں نے تو سانجھ ونڈ کی ہے اور اپنی آواز آپ میں بانٹ دی ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں کہنا، کوئی سرقۂ خفی کا الزام لگائے یا سرقۂ جلی کا۔ الزام ثابت بھی ہو جائے تو،اچھا ہے نا! اگر میں نے یا قمر صاحب نے کچھ چرایا بھی ہے تو ایک سانجھ ہی تو چرائی ہے۔ اور ایسی چوری پر شرمندگی کاہے کو!؟

٭٭٭

۸  فروری  ۲۰۱۱ء

غوّاصِ شوق

پروفیسر امجد اقبال کی تحقیقی تصنیف ’’گلِ صحرا۔ آغا ضیا‘‘ کا مطالعہ

کتاب کی  تقریبِ تقسیم ۲۳  جنوری  ۲۰۱۱ء کوحلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا میں ہوئی

در د کے دریا میں غوطہ زن ہوا غوّاصِ شوق

موج خود کشتی بنی گرداب چپو کر دئے

            آغا ضیا کو موضوعِ تحقیق بنانے کا محرک کیا تھا؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر امجد اقبال نے کہا: ’’میں نے آغا ضیا کا ایک شعر پڑھا تھا، بس‘‘۔ یہ بات ہے اتوار ۲۳؍ جنوری ۲۰۱۱ء کی، حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا کا خصوصی اجلاس، تقریبِ تقسیم جس میں ایک تو امجد اقبال کی کتاب تھی ’’گلِ  صحرا ۔ آغا ضیا‘‘ (تحقیق) اور دوسری اسد محمود خان کی ’’درشک‘‘ (افسانے)۔ احباب جمع تھے، کوئی اور صاحب آ گئے اور بات کسی اور طرف مڑ گئی، سو میں یہ نہیں پوچھ پایا کہ وہ شعر کون سا تھا۔ رات کو کتاب لے کے بیٹھا تو آغا ضیا کے کتنے ہی ایسے اشعار سامنے آ گئے جو کسی بھی اہل نظر کو غواصی پر آمادہ کر سکتے ہیں ۔

            ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ کے مطابق بیسویں صدی کا ربع ثانی آغا صدیق حسن ضیا کے شعری عروج کا زمانہ تھا۔ وہ ادبی قافلے کے محض ایک رکن نہیں تھے، قافلہ سالار تھے۔ اپنے زمانے نے انہوں نے بہت شہرت پائی اور کئی ایک حاسد بھی پائے۔ تیس پینتیس برس کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ان کے شاگردِ رشید عزیز ملک نے ان کی زندگی کے کچھ گوشے اور کلام کا کچھ حصہ محفوظ کیا مگر مجموعی طور پر آغا ضیا کو فراموش کر دیا گیا۔آغا مرحوم کے اوصافِ کلام کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے: ’’وہ شعلۂ مستعجل تھے مگر جب تک رہے فضا انھی کے وجود سے دمکتی رہی۔ وہ صوفی بھی تھے اور فلسفی بھی۔ انھوں نے فکر کی گہرائی اور دل کی رمزیت کو مثنوی کے پیکر میں ڈھال کر شعر و فلسفہ کو نئے ذائقوں اور رنگوں سے آشنا کیا۔ ان کی مثنویاں فکر و فن کے اعتبار سے ادبیات کا شہ کار ہیں ۔ آغا ضیا فکرِ اقبال سے متاثر بھی تھے اور اس کے مقلد بھی۔ ان کی مثنویوں کو فکرِ اقبال کی توسیعی صورت قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔‘‘ (صفحہ ۹)

            پروفیسر امجد اقبال نے آغا ضیا کا دونوں حوالوں سے مطالعہ کیا ہے، اور آغا مرحوم کے زمانۂ حیات میں راولپنڈی کے ادبی ماحول کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں خطۂ پوٹھوہار کی قدیم تاریخ کو بھی مختصراً بیان کر دیا ہے۔ کتاب کی ایک بہت خاص بات یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی تحقیقی نگاہ صرف آغا ضیا تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے مقدمہ میں مذکور اہل قلم کے (جہاں مناسب اور ممکن ہوا ) تعارف، سوانح، حالات، تصانیف کا تذکرہ وغیرہ بھی حواشی میں مختصراً بیان کر دیے ہیں اور اُن کا نمونۂ کلام بھی شامل کر دیا ہے۔ جدید تحقیقی طریقہ کے اطلاق کی یہ بہت خوبصورت مثال ہے، کہ قاری کو موضوع کے ساتھ ساتھ متعلقاتِ موضوع سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔ راولپنڈی کے اس دور کے ادبی منظر نامے کے حوالے سے کچھ شخصیات کے نام اور چیدہ چیدہ مندرجات نقل کرتا ہوں ۔

افضل پرویز (پ: ۱۵؍ مارچ ۱۹۱۵) تصانیف: بن پھلواری، ککراں نی چھاں ، کہندا سائیں ، چٹھیاں ، غم روزگار کے، چینی کی شادی، لوک تھیٹر، پاکستان کے سنگیت ساز

عزیز ملک (پ: ۶؍ ستمبر ۱۹۱۶، ف:۴؍ جون ۱۹۹۹)تصانیف: راول دیس، پوٹھوہار، بلالِ حبشی، خونِ حسین، کارواں

کرم حیدری (پ: ۱۳؍ اگست ۱۹۱۵، ف: ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۴) تصانیف: سرزمینِ پوٹھوہار، داستانِ مری، پوٹھوہاری گیت، دوشِ فردا، حکمتِ بیدار

شاکر اٹکی (پ:ـ۱۱۰۷ھ سے۱۱۱۲ھ کے لگ بھگ) فارسی اور اردو کے شاعر تھے، فارسی دیوان شائع ہوا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی (پ: ۱۲؍ جون ۱۹۲۹) تصانیف: تاریخ ادب اردو، اور ۳۰ سے زائد علمی ادبی تحقیقی کتب، علمی ادبی، تعلیمی، انتظامی خدمات

ملک پیلو۔ چکوال کا گاؤں مہرو پیلو اسی نے بسایا تھا۔تصانیف: مرزا صاحباں ۔

میاں محمد بخش۔ تصانیف: قصہ سوہنی مہینوال، قصہ مرزا صاحباں ، قصہ شیریں فرہاد، سیف الملوک

موہن سنگھ (پ: ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۵، ف: ۳؍ مئی ۱۹۸۷) تصانیف: ساوے پتر، چار ہنجو، ادھ واٹے، کچ سچ، آوازاں ، وڈا ویلا، جندرے

سائیں احمد علی پشاوری (ف: ۱۶؍ اپریل ۱۹۳۷) پنجابی کے شاعر، پیر فضل گجراتی اور اللہ داد چنگی کے استاد تھے۔

بردا پشاوری (پ: ۱۸۲۷، ف: ۱۸۹۷)۔ سی حرفی

غلام نبی کامل (پ: ۱۸۸۰، ف: ۱۹۵۵) تصانیف: تحفہ مستری محمد قاضی، تعمیرِ جدید

عبدالعزیز فطرت(پ: ۵؍جنوری ۱۹۰۵، ف: ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۶۷) بزمِ ادب، بزمِ سخن، انجمن ترقیِ اردو راولپنڈی کے روحِ رواں تھے۔ انہیں شاعرِ پوٹھوہار اور بابائے پوٹھوہار بھی کہا جاتا ہے۔

حاجی سرمدی (پ: ۱۸۵۰، ف: ۱۹۴۹) چیمبرز انگلش ڈکشنری کا اردو ترجمہ کیا۔

عطا حسین کلیم (۱۵؍ فروری ۱۹۱۷، ف: ۱۹۹۸) تصانیف: کوئے شوق، بلتستان

آغا ضیا کا مختصر سوانحی خاکہ جو میں نے ’’گل صحرا‘‘ سے اخذ کیا ہے، احباب کی دل چسپی کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔

            آغا ضیا (پورا نام: آغا محمد صدیق حسن ضیاؔ قادری) وزیر آباد کے ایک کھاتے پیتے گھرانے میں ۱۹۱۱ء میں پیدا ہوئے، ان کے والد سلسلۂ معاش میں سہارن پور سے وزیرآباد منتقل ہوئے، ریلوے میں گارڈ رہے اور ملازمت کے بعد ڈھوک رتہ امرال (راولپنڈی) منتقل ہو گئے۔ آغا ضیا نے ابتدائی تعلیم وزیرآباد میں پائی اور میٹرک کا امتحان راولپنڈی سے پاس کیا۔ آغا ضیا بچپن سے تخلیقی ذہن رکھتے تھے، میٹرک میں پہنچے تو ان کے پاس معتد بہ شعری تخلیقات تھیں ۔ ایف ایس سی کے لئے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا، مضطر میرٹھی سے ملاقات ہوئی اور اُن کے شاگرد ہو رہے۔ استاد نے ان کا پورا دیوان قلمزد کر دیا تو آغا نے حقِّ شاگردی ادا کرتے ہوئے اسے تلف کر دیا۔ مضطر میرٹھی کی محافل میں شاعری کے رموز سے آگاہی پائی اور انہیں جذب کر لیا۔ کالج کے مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ ایک مشاعرے میں سر عبدالقادر نے کہا: ’’اس نوجوان کے قالب میں غالب کی روح کارفرما ہے‘‘۔ لاہور میں قیام کے دوران مولانا مضطر میرٹھی کے ہمراہ سہارن پور گئے تو حضرت یار محمد سہارن پوری کے ہاتھ پر بیعت کی۔ نامساعد حالات کے باعث لاہور سے مراجعت کی اور راولپنڈی کی ادبی محافل میں شرکت کرنے لگے۔ راولپنڈی میں ان کی اولین شناخت ڈرامہ نگاری کے حوالے سے تھی۔ ان کے لکھے ہوئے ڈرامے ان کی زندگی میں گم ہو گئے تھے، جس کا انہیں عمر بھر قلق رہا۔ انہوں نے فلمی گیت بھی لکھے۔ راولپنڈی میں آمد کے بعد آغا ضیا یہاں کی ادبی دنیا میں بہت فعال رہے اور اپنی نظموں کے حوالے سے خاص طور پر شہرت پائی۔ عبدالحمید عدم راولپنڈی میں وارد ہوئے تو یہاں ادبی گروہ بندی کا آغاز ہو گیا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے شعراء کو غزل سے نظم کی طرف مائل کرنے کا سلسلہ چلا، ایک موضوع دے دیا جاتا جس پر نظم کہنی ہوتی تھی۔ آغا صاحب نے ’’شاعر کا نصب العین‘‘ کے زیر عنوان ایک سو اسی اشعار کی نظم کہی اور حفیظ جالندھری کے زیرِ صدارت مشاعرے میں تحت اللفظ پیش کی۔ بہ ایں ہمہ ان کا دل اس فضا اور معاصرانہ چشمک سے اچاٹ ہونے لگا، رفتہ رفتہ کنارہ کش ہوتے گئے اور ۱۹۳۵ء کے بعد مشاعروں میں جانا ترک کر دیا۔نامساعد معاشی حالات اور دیگر مسائل نے آغا ضیا کی ذہنی فکری اور جسمانی حالت ابتر کر دی، وہ اکثر بیمار رہنے لگے اور اسی عالم میں چونتیس برس کی عمر پا کر گویا عالمِ جوانی میں ۲۷؍ مارچ ۱۹۴۵ء کو وفات پائی۔ آغا ضیا کے نقوشِ حیات کی تلاش میں پروفیسر امجد اقبال نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔تاہم اُن کی عائلی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا، انہوں نے گھر بسایا یا نہیں ؟ بسایا تو کیا رہا؟ یا موت نے مہلت ہی نہیں دی یا مفلسی نے اجازت نہیں دی؟ وغیرہ۔

            جیسا کہ اوپر اجمالاً ذکر ہو چکا، پروفیسر امجد اقبال نے اس دور کے ایسے اہل قلم کے بھی مختصر حالات اس کتاب میں شامل کر دئے ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر آغا صاحب سے نسبت رکھتے تھے۔ یہاں ہمیں کچھ دل چسپ معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں ، اور کچھ شعرا کا نمونۂ کلام بھی۔ مثال کے طور پر:

٭ عزیز ملک (۱۹۱۶۔۱۹۹۹) کے داد مولوی ہدایت اللہ نے قرآنِ پاک کا اولین پنجابی ترجمہ کیا۔

٭ شاہ مراد خان پوری (متوفی ۱۱۱۴ھ) اردو پنجابی اور فارسی تینوں زبانوں کے شاعر تھے۔

٭ چکوال کا گاؤں مہرو پیلو، ملک پیلو نے بسایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم ہے۔

٭ ساوے پتر اور دیگر پنجابی شعری مجموعوں کے خالق موہن سنگھ (۱۹۰۵۔۱۹۷۸) کی جنم بھومی راولپنڈی ہے۔

ماں ورگا گھن چھانواں بوٹا مینوں نظر نہ آئے

جس توں لے کے چھاں ادھاری رب نے سورگ بنائے

باقی کل جہان دے بوٹے جڑ سکیاں مرجھاندے

اے پر پھلاں دے مرجھایاں ایہ بوٹا سک جائے

٭ رجب علی جوہر (۱۸۶۸۔۱۹۴۸) پنجابی، اردو، فارسی، کشمیری اور پشتو میں شعر کہتے تھے۔

ب: بحر نبوت دی صدف وچوں بے بہا اک در یتیم آیا

واللیل گیسو، والشمس چہرہ لے کے قدرت تو طبعِ سلیم آیا

گیا زلزلہ پا قرار، اس دے زیرِ قدم جو عرش برین آیا

پا کے رنگ کریم دے رنگ وچوں جوہرؔ کہندا رسول کریم آیا

٭ محمد علی خان نامی (۱۸۵۰۔۱۹۶۲) کو اِس خطے کا پہلا نعت گو شاعر کہا جاتا ہے۔

اگر خوفِ خدا دل میں بشر رکھے تو اچھا ہے

مسافر پاس کچھ زادِ سفر رکھے تو اچھا ہے

چمک گوہر کی گم ہو جائے تو قطرہ ہے پانی کا

بشر قائم اگر شانِ بشر رکھے تو اچھا ہے

٭ پیر فضل گجراتی، اللہ داد چنگی اور عبدالکریم ہمسرؔ سائیں احمد علی پشاوری کے شاگرد تھے۔

میں ہسناں واں ایس گل ولوں مینوں ویکھ مخلوق پئی ہسدی اے

لوکی وسدے تے میں ویران ہوناں گل ایہ کوئی میرے وس دی اے

جنہوں ڈھونڈناں اوہ تے لبھدا نہیں باقی کھیڈ سب کوڑ ہوس دی اے

سائیاں ؔ لکھت پیشانی دی پیش آ گئی جو میں ویکھ رہیاں اوہ پئی دَسدی اے

 ٭ بردا ؔپشاوری (۱۸۲۷۔۱۸۹۷) نے راولپنڈی جیل میں قید کے حالات سی حرفی (۱۸۸۵ئ) میں لکھے۔

ک: کسے دے رب نہ پیش پاوے جیل خانہ ہے دنیا دی قرض داری

اک ظلم وچھوڑا ہے یار والا، دوجا پیر پیادہ تے منزل بھاری

برے دن نہ بری اولاد ہووے، برے پت دی کرے نہ انتظاری

برداؔ کہے اصیل دا قول ایہو، مر جائے نہ نیچ دی کرے یاری

٭ عبدالکریم ہمسرؔ

کھوتا کھوتیاں وچ شمار ہوندا زریں طوق سنگ نہ شکل خر بدلے

ہمسرؔ کدی نہیں اس دے نشان چھپدے شجرہ بھانویں کمینہ بشر بدلے

٭ قاضی سراج الدین احمد (۱۸۶۷۔۱۹۲۵) سر سید احمد خان کے قریبی ساتھی تھے۔ پہلی جنگِ عظیم میں انگریز سرکار کی طرف سے ’خان بہادر‘ کا خطاب ملا۔

٭ عطا محمد طاہرؔ (۱۸۹۵۔۱۹۵۳) بزمِ ادب راولپنڈی کے ناظم، اور متحرک ادبی شخصیت تھے۔

میں بھی کہسار کی ندی کی طرح ہوں طاہرؔ

نغمہ سنسان چٹانوں کو سنا جاتا ہوں

کر دئے دل پر نقوشِ غیر فانی مرتسم

ہے تصور بھی مصور آپ کی تصویر کا

 ٭ عبدالعزیز فطرتؔ بزمِ ادب، بزمِ سخن اور انجمن ترقیِ اردو کے روحِ رواں تھے اور علاقے میں اردو شاعری کے محرک تھے۔ انہیں شاعرِ پوٹھوہار اور بابائے پوٹھوہار بھی کہا جاتا ہے۔

غنچے کا جواب ہو گیا ہے

دل کھل کے گلاب ہو گیا ہے

مرنا بھی نہیں ہے اپنے بس میں

جینا بھی عذاب ہو گیا ہے

٭ پروفیسر محمد اعظم (متوفی ۱۹۵۴ء)۔

مرے قول و فعل میں فرق ہو کبھی آج تک تو ہوا نہیں

جو کہا نہیں وہ کیا نہیں جو کیا نہیں وہ کہا نہیں

٭ خدا بخش اظہرؔ (پ ۱۹۰۱) عطا محمد طاہرؔ کے ہم عصر تھے۔ راولپنڈی سے لاہور گئے تو ’زمیندار‘ اخبار سے منسلک ہو گئے۔

رو کشِ آئینہ آخر ہو گیا ان کا جمال

کیا مرا دل عکسِ روئے یار کے قابل نہ تھا

کیا پوچھتے ہو عالمِ دنیائے ہست و بود

اک خواب ہے جو دیدۂ عبرت نگر میں ہے

آغا ضیا کے شعری ورثے کی بازیافت کے لئے پروفیسر امجد اقبال کو یقیناً کڑے کوسوں کا سفر کرنا پڑا ہے۔ اس سفر کا کچھ احوال انہوں نے کلامِ آغا ضیا پر بحث میں ذکر بھی کیا ہے۔ شاعر، شعر اور بلند پایہ شاعری سے پروفیسر صاحب اس بات کے متقاضی ہیں کہ بقول سید علی مطہر اشعرؔ  (ع) بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے۔ لکھتے ہیں :

’’اعلیٰ اور بلند شاعری کے اوصاف میں سے چند ایک یہ ہیں کہ وہ بعید از فہم نہ ہو اور قارئین کے دل و دماغ پر ایسی کیفیت کی تصویریں کھینچ دے جیس کہ آئے دن ہم پر گزرتی رہتی ہیں ۔ ایسی شاعری کی تخلیق کے لیے لازمی ہے کہ شاعر کے جذبات، احساسات اور خیالات، ایک عام آدمی کے جذبات، احساست اور خیالات سے کہیں تیز، قوی، لطیف اور گہرے ہوں ۔ جیسے جوالا مکھی سے اٹھتے ہوئے شعلے میں معمولی سرخ آگ سے کئی گنا زیادہ روشنی اور گرمی ہوتی ہے۔ دوسرا، شاعر کی فطرت سریع الحس اور قوی الجذب ہو۔ ایک معمولی واقعہ، ایک ادنیٰ منظر اسے متاثر کرنے اور اپنے اندرونی جذبات کے اظہار پر مجبور کرنے کے لئے کافی ہو۔ شاعری مشاہدات، احساسات اور جذبات کی الفاظ میں مصوری ہے۔ خیالات اور قلبی جذبات کی تخلیق کا دار و مدار شاعر کے روزمرہ کے مشاہدات، ذہنی تجربات اور مطالعۂ فطرتِ انسانی پر ہے۔ ۔۔۔۔ سادگی، اصلیت اور جوش، شعر کے بنیادی اور ضروری اوصاف سمجھے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ تشبیہ اور استعارہ کے مناسب استعمال سے شعر میں روانی، سلاست، رنگینی، شعریت اور تاثیر بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ معیاری شاعری کی بہترین کسوٹی یہ ہے کہ اس کے مطالعہ سے انسانی مسرت میں اضافہ ہو، سماجی برائیاں دور ہوں ، زندگی کے مقاصد بلند ہو اور وہ پیچیدہ روحانی اور مادی مسائل، جن سے انسانیت ہمیشہ دو چار رہتی ہے، حل ہوتے نظر آئیں ۔‘‘ (صفحہ ۳۱۔۳۲)

            صاحبِ کتاب نے آغا ضیا کا کلام یک جا کرنے اور اس کی چھان پھٹک میں بلا شبہ نہ صرف بہت محنت کی ہے بلکہ جو کچھ دستیاب ہو سکا اس کی تدوین میں جدید تحقیقی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت احتیاط اور عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں : ’’یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آغا ضیا کا سب سے زیادہ دست یاب کلام اس کتاب کی زینت ہے اور میرے لیے یہ بات اعزاز سے کم نہیں کہ میں نے اس گم نام شاعر کے کلام کو کتابی صورت میں اردو کی ادبی تاریخ کے حوالے کر دیا ہے جس سے آنے والا زبان و ادب کے طالب علموں کو بیسویں صدی کی دوسری تیسری اور چوتھی دہائی کی پنڈی کی شعری روایت اور اسالیب کے تعین میں ضرور مدد ملے گی۔‘‘ (صفحہ ۳۷)۔ پروفیسر صاحب کے اس ارشاد کی روشنی میں اولین ضرورت اس امر کی ہے کہ آغا ضیا کے کلام پر تفصیل سے بات کی جائے، اور اِس کے فکری اور فنی محاسن کو اجاگر کیا جائے۔ ذیل میں اپنی طالب علمانہ کاوش اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ، اس امید کے ساتھ کہ وہ نہ صرف میری فروگزاشتوں کی اصلاح فرمائیں گے، بلکہ میری کم نگاہی سے اوجھل رہ جانے والے پہلوؤں کی طرف بھی راہ نمائی کریں گے۔   فن کیا ہے؟ یہ عشق کا حاصل ہے اور ضبط کا ثمر ہے۔ آغا ضیا کے الفاظ میں :۔

ہوا ضبط جب آب و گل میں محال

تو پھوٹی ہر اک مُو سے شاخِ خیال

کوئی شاخ تصویرِ رنگیں بنی

مصور کے ارماں کی تسکیں بنی

کوئی شاخِ خوش بن گئی غم کا راگ

بجھی جس سے مطرب کے سینے کی آگ

کوئی شاخِ خوش بن گئی شعرِ تر

ہوئی چشمِ شاعر میں پیدا نظر

تصاویر و اشعار و نغماتِ خوش

محبت نے باندھے خیالاتِ خوش

رموزِ صفا کا صحیفہ ہے عشق

بنائے فنونِ لطیفہ ہے عشق

            آغا ضیا کے ہاں فکر اور فن ایک دوجے کو نکھارتے ہیں ۔ بحور کے انتخاب میں آسانی اور رجھاؤ کا عنصر کار فرما دکھائی دیتا ہے۔ ان کے ہاں درمیانی اور چھوٹی بحور زیادہ مستعمل ہیں ۔ پروفیسر صاحب کے مرتب کردہ نقشے (صفحہ ۳۵) سے بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ آغا ضیا نے نئے نئے تجربات کی بجائے پہلے سے مانوس بحریں منتخب کیں ، اور اپنی صلاحیتوں کو فکر کی ترسیل کے لئے استعمال کیا۔ ان کی فکرِ رسا اُن کے لئے ردائف اور قوافی کا تعین کرتی ہے اور فن کا اسپِ تازی اس فکر کو تیز گام اور دُور رَس بنا دیتا ہے۔

            کتاب کی پہلی ورق گردانی میں مجھے آغا ضیا کے ہاں فکرِ اقبال کا تسلسل دکھائی دیا، اور کہیں کہیں اقبال کے لہجے کا اثر بھی۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ پہلے ہی اس طرف اشارہ کر چکے ہیں :۔ ’’آغا ضیا فکرِ اقبال سے متاثر بھی تھے اور اس کے مقلد بھی۔ ان کی مثنویوں کو فکرِ اقبال کی توسیعی صورت قرار دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا‘‘(صفحہ ۹)۔

            فی زمانہ ایک رسم چلی ہے، کہ جی آپ کا شعر کو پڑھ کر یا سن کر کسی دوسرے شاعر کا شعر ذہن میں نہیں آنا چاہئے، نہیں تو یہ آپ کے شعر کی خامی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ انسان کے بنیادی مسائل اور محسوساگ ہمیشہ اور ہر جگہ متماثل نہیں تو مماثل ضرور رہے ہیں ۔ صرف ادب کی بات نہیں کسی بھی میدانِ عمل میں نمایاں اور دور رس کام کر گزرنے والوں کے اثرات بھی دور رس ہوا کرتے ہیں ۔ ادب میں اقبالؔ کی شاعری بھی ایسے ہی دور رس اثرات رکھتی ہے۔ آغا ضیا کی دستیاب نظموں میں اقبال کے پرتوِ فکر سے انکار ممکن نہیں ، بسا اوقات لفظیات اور آہنگ بھی اقبال کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔بہ ایں ہمہ آغا ضیا اقبال میں گم نہیں ہو جاتے، اپنی شناخت قائم رکھتے ہیں ۔

            آغا ضیا کی منظومات میں بلا کی روانی پائی جاتی ہے اور یہ روانی کثیر الجہات ہے۔ آسان اور مانوس بحور کے انتخاب نے اس روانی میں اضافہ کیا ہے۔ اُن کی نظمیں پڑھتے چلے جائیے، کہیں بھی نہیں لگتا کہ انہوں نے بہ تکلف اشعار کہے ہوں ۔ اُن کے ہاں خطابیہ لہجہ نمایاں ہے اور نظمیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اُن کا خطاب سن رہے ہیں ۔ الفاظ کی تکرار جہاں شعر میں حسن پیدا کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے وہیں ایک مشکل کام بھی ہے۔آغا ضیا اس مشکل کام کو کمال سہولت سے کر گزرتے ہیں : (صفحہ ۳۹، ۴۱، ۴۸، ۴۹، ۵۱، ۵۲، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۷، ۶۹، ۸۷، ۹۹، ۱۰۸، ۱۱۱)۔ کہنے کو تو یہ آغا ضیا کی مثنویاں ہیں ، جس کی انتہائی قید اشعار کے ہم وزن ہونے کے ساتھ ایک شعر کے دونوں مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا ہے، لیکن آغا ضیا متواتر کئی کئی شعر ہم قافیہ (اور بسا اوقات ہم ردیف بھی) کہہ جاتے ہیں : (صفحہ ۴۰، ۴۵، ۵۴، ۵۹، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۹، ۷۴، ۹۰، ۱۰۳)۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ شعر کہہ نہیں رہے، بلکہ اُن سے کوئی قوت شعر کہلوا رہی ہے، یا اُن کے اندر سے بنے بنائے اشعار چشمے کی صورت پوری قوت سے پھوٹ رہے ہیں ۔ ایسے اشعار کہنے کے لئے عطائے وہبی کے ساتھ ساتھ اپنے فن سے ایمان کی حد تک لگاؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور بیان پر قدرت کی بھی۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجے کہ الفاظ آغا ضیا کے سامنے دست بستہ حاضر ہوتے ہیں ، بھاری بھرکم تراکیب اور مشکل الفاظ ان کے حضور سراپا ملائمت بن جاتے ہیں ، اور قاری کو ذرا سی ثقالت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

            آغا ضیا کی سوانح حیات میں ذکر ہوا کہ وہ ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ ڈرامے میں ایک مرکزی خیال ہوتا ہے، اور ڈرامہ نگار منظر بہ منظر تماشائیوں کو اس خیال کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر منظر اپنی جگہ ایک اکائی ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اُس مرکزی خیال سے جڑا ہوتا ہے بلکہ ایک منظر دوسرے منظر کا تسلسل بھی ہوا کرتا ہے۔ کچھ ایسی کیفیت آغا ضیا کی مثنویوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ کتاب میں شامل اُن کی پہلی مثنوی ’’جوہرِ مصطفٰی‘‘ (صفحہ ۳۹) کو دیکھئے گا۔ اس کا پہلا منظر ’’حسن منظور‘‘ ان اشعار سے شروع ہوتا ہے:۔

حسن کی فطرت میں ہے ذوقِ ظہور

نور ہو تو آنکھ کا کھلنا ضرور

نور پر کب تک حجابِ چشم بند

صدق پر کب تک حجابِ چون و چند

شعلہ پر کب تک دھوئیں کا سائباں

موج کب تک طبعِ دریا میں نہاں

            کلام کی روانی اور اظہار کی شدت یہاں بھی پوری قوت سے موجود ہے، مگر اس وقت ہمارا موضوع منظر بہ منظر ربط ہے۔ اس منظر کے آخری دو شعر دیکھئے:۔

جسم و جاں میں بے قراری بھر گئی

برق رگ رگ میں سرایت کر گئی

سانس کی صورت روانی آ گئی

بے قراری سے جوانی آ گئی

            آغا ضیا کے ہاں قادرالکلامی، تخیل کی بلندی، گہرائی اور نزاکت کے ساتھ انفرادیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے گویا انہوں نے خونِ جگر اپنے لفظوں میں بھر دیا ہے۔ قوتِ خیال، تشبیہ، استعارہ، تلمیح اور دیگر صنائع کا ایسا برمحل برتاؤ کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ دوسرے منظر کا عنوان ہے ’’شرحِ بے قراری‘‘، اور ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے:۔

بے قراری ہے کلیدِ زندگی

بے قراری سے ہے دیدِ زندگی

زندگی ہے وصفِ خوش تر کا ظہور

آب و گل سے مشک و عنبر کا ظہور

یا دلِ صحرا سے زم زم کا ظہور

یا شبِ نم گیں سے شبنم کا ظہور

            پڑھتے جائیے، بڑھتے جائیے!سانس پھولنے لگتا ہے اور تسلسل ہے کہ رکنے نہیں دیتا، گویا میں ای ٹی ٹی کے مرحلے سے گزر رہا ہوں ، جب تک بے دم ہو کر گر نہ پڑوں ۔ یہ منظر مجھے یہاں لے آتا ہے:۔

خون ہے گہ شیرِ تر گہ مشکِ ناب

ڈھونڈتا ہے منزلِ اوج و شباب

تخم ہے گہ نسترن گہ یاسمیں

ڈھونڈتا ہے منزلِ رنگِ یقیں

چشمہ ہے گہ جوئے خوش گہ آبشار

ہے بقا کی جستجو میں بے قرار

            اگلے منظر کا سرنامہ ’’معنیِ بقا‘‘ ہے، اور ابتدا یوں ہوتی ہے:۔

ہے بقا کیا اک شبابِ دائمی

شب سے آزاد آفتابِ دائمی

مہرِ ملت کو عروجِ دائمی

سیرِ افلاک و بروجِ دائمی

            اس منظر میں آغا ضیا انسان کے تحت الشعور کا مطالعہ کرتے ہوئے آگے پڑھتے ہیں اور بقائے حقیقی سے بقائے وہمی یعنی متاع غرور تک کا تجزیہ کرتے ہیں ، اور اگلے منظر کو ’’فساد‘‘ کا عنوان دیتے ہیں :۔

ہے فساد اپنی حقیقت سے عناد

زندگی کی قدر و قیمت سے عناد

ہے فساد اپنی طیبعت سے عناد

مثلِ غدار اپنی ملت سے عناد

            نظم اپنے منطقی بہاؤ میں فساد سے صلاح کی طرف بڑھتی ہے۔ یہاں اقبال کا حفظِ خودی کا فلسفہ آغا ضیا کے الفاظ کا جامہ اوڑھ لیتا ہے:۔

پاسبانی دل کی با ذوقِ یقیں

تا نہ کشتی رو میں بہہ جائے کہیں

            حفظِ خودی کا یہ مضمون آغا ضیا کے ہاں ’’حفظِ نفس‘‘ اور’’ حفظِ شباب‘‘ کے عنوانات پاتا ہوا اگلے منظر ’’عروجِ فطرت‘‘ کی راہ پر گامزن ہوتا ہے:۔

بامِ اوجِ عشق کا زینہ کھلا

زخم کیسا دل پہ آئینہ کھلا

آب و گل میں بے قراری بڑھ گئی

ابر برسا اور ندی چڑھ گئی

            فطرت کے مظاہر کو آغا ضیا نے رب العالمین کی نسبت سے عنوانات کے طور پر باندھا ہے: عالمِ طہارت (عالمِ جماد)، عالمِ قیام (عالمِ نباتات)، عالمِ ذکر و فکر (عالمِ طیور)، عالمِ سجود (عالمِ حیوانات)، اور عالمِ سلام (عالمِ انسان)۔ یہاں وہ انسانوں سے اللہ کریم کے آخری خطاب کی اولین آیات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے آیۂ ’’ثم رددنٰہ اسفل سافلین‘‘ کی رمز کھولتے ہوئے کہتے ہیں : ۔

آ ادھر اسرار کی تفسیر دیکھ

رجعتِ اعمال کی تصویر دیکھ

کھائی جب انسان نے خود سے شکست

بن گیا ترکِ وفا سے گرگِ مست

جب ہوا گرگِ کہن خود سے شکار

بن گیا صحرا میں نخلِ خار دار

            پھر ’’انشراح‘‘ کا مرحلہ آتا ہے جہاں آغا ضیا انسانوں پر رب العالمین کے انعامات کا ذکر کرتے ہیں اور سب سے بڑا انعام احسنِ تقویم کی وہ حجت ہے جو رحمت للعالمین کی صورت میں عالمِ انسانی کو عطا ہوئی۔آغا ضیا نے اگلا منظر ’’مناقبِ عشق‘‘ کا باندھا ہے اور پھر ’’خود آفرینی‘‘ کا۔ اس مثنوی کے آخری چند اشعار نقل کرتا ہوں :۔

اپنے خاکستر سے کرتا ہوں طلوع

اپنی جانب آپ کرتا ہوں رجوع

باندھتا ہوں اک طلسمِ نو بہار

اپنی گل سے ہوتا ہوں آپ آشکار

میرے کھل جانے سے کھلتی ہے حیات

آتی ہے حرکت میں ساری کائنات

ہے مری فطرت سراپا انقلاب

ہر تغیر ہے مجھے تازہ شباب

خود نشیں ہوں موت سے بے گانہ ہوں

جل کے جو روشن ہو وہ پروانہ ہوں

            آغا ضیا نے مثنوی کو ایک عنوان دیا اور پھر ذیلی عنوانات دئے، ہر ذیلی عنوان اپنے ماقبل سے معنوی اور فکری سطح پر تو مربوط ہے ہی، بسا اوقات لفظی سطح پر بھی مربوط ہوتا ہے۔ ذیلی عنوانات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے تاہم اگر اِن کو ہٹا بھی دیا جائے تو مثنوی کا بہاؤ از خود بتا دیتا ہے کہ کچھ نئی بات آ گئی ہے۔ ان کی مثنوی ’’زندہ رود‘‘ (صفحہ ۵۱) میں پہلا حصہ افتتاحیہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں انسان سے خطاب ہے:۔

اے امینِ زیست، اے انسانِ پاک

سلسلہ بندِ نظامِ آب و خاک

آ سناتا ہوں تجھے اسرارِ دل

آ ٹھاتا ہوں حجابِ آب و گل

دیکھ اس پردہ میں کیا مستور ہے

دیکھ اس عالم میں کیا دستور ہے

دیکھ اس دفتر میں کیا تحریر ہے

دیکھ اس جادو میں کیا تاثیر ہے

            یہاں فکرِ اقبال کی گونج وہاں سے ابھرتی سنائی دیتی ہے جہاں روحِ زمین آدم کا استقبال کرتی ہے۔ آغا ضیا اپنے رخشِ معانی کو دوڑاتے ہوئے ’’حاصلِ جذب‘‘ سے ہوتے ہوئے ’’حیات و حرکت‘‘ تک پہنچتے ہیں :۔

خوش لباسی اور ہے اعزاز اور

مرغِ تصویر اور ہے پرواز اور

خم گری سے دور ہے ساقی گری

شاعری سے دور ہے پیغمبری

دور ہے زورِ ہوا سے زورِ جاں

دور ہے شورِ دہل سے شورِ جاں

            ’’عالمِ حرکت‘‘ سے آگے ’’عالمِ حیات‘‘، ’’عالمِ بیداری‘‘ کی بات کرتے ہیں تو قاری کے آگے بہت سے ایسے سوالات رکھ دیتے ہیں جن میں جواب مضمر ہے:۔

آدمی کیوں جذب سے محروم ہے

اس گھٹا میں برق کیوں معدوم ہے

چشمہ اس کُہ سے ابلتا کیوں نہیں

حسن اس سانچے میں ڈھلتا کیوں نہیں

اس نگہ میں کُہ شگافی کیوں نہیں

اس دوا میں روحِ شافی کیوں نہیں

دور ہے معراج سے کیوں یہ نماز

دور ہے لاہوت سے کیوں یہ مجاز

اس زباں میں قدرتِ قُم کیوں نہیں

اس سمندر میں تلاطم کیوں نہیں

اس عمل میں زورِ قدرت کیوں نہیں

دین و دنیا کی حکومت کیوں نہیں

            نظم کے آخر میں ’’روحِ زندہ رود کا ظہور‘‘ کے زیرِ عنوان جوابِ شکوہ کی یاد دلا جاتے ہیں :۔

آسماں آہِ رسا سے شق ہوا

مردِ مومن کی دعا سے شق ہوا

عشق اترا عالمِ افلاک سے

چشمۂ سیماب پھوٹاخاک سے

دیکھتا کیا ہوں کہ روحِ زندہ رُود

عالمِ طوفاں میں محوِ سرُود

            اس حصے میں وہ مرکز سے منسلک رہنے کی اہمیت اور ضرورت کو نہایت دل پذیر پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں :

عالمِ مرکز ہے کیا اصلِ حیات

جس طرح اخلاص ہے اصلِ نجات

جس طرح ماحول ہے اصلِ شعور

جس طرح ہے بے خودی اصلِ حضور

زندگی مرکز سے کرتی ہے ظہور

آنکھ کے تل میں نگہ بنتا ہے نور

دوریِ مرکز سے جینا بے حضور

ٹوٹ کر تارہ فلک سے چور چور

            یہاں اشعار کا انتخاب کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ایک شعر دوسرے میں کچھ ایسے پیوست ہے کہ کوئی ایک مصرع رہ جائے تو خلا کا احساس ہوتا ہے۔ نظم کے آخری دو شعر نقل کرتا ہوں :۔

اے امینِ زیست اے انسانِ پاک

سلسلہ بندِ نظامِ آب و خاک

مست ہونا ہے تو روحِ رَز کو ڈھونڈ

زندہ رہنا ہے تو اٹھ مرکز کو ڈھونڈ

            آغا ضیا کی مثنوی ’’زلزلہ‘‘ (صفحہ۵۸) فی الواقع فکر و شعور میں زلزلہ بپا کر دینے والی نظم ہے۔ اس کے ابواب ہیں : ’’شاعر‘‘، ’’زندگی‘‘، ’’ظہورِ زندگی‘‘، ’’خفائے زندگی‘‘، ’’اصلِ حیات‘‘، ’’تفسیرِ غیب و ظہور‘‘، ’’مقامِ عشق‘‘، ’’زلزلہ‘‘، ’’مقامِ عقل‘‘، ’’اسبابِ ظہورِ زلزلہ‘‘، ’’امتحان و ابتلا‘‘،اور ’’ظہورِ زلزلہ‘‘۔ یہ مثنوی اول تا آخر حرف بہ حرف پڑھنے اورمحسوس کرنے کی ہے، یہاں انتخاب محال ہے۔

            کچھ ایسا ہی اسلوب ’’آبِ حیات‘‘ (صفحہ ۶۹) میں کار فرما ہے۔ اس کے ذیلی عنوانات درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں : فلسفۂ قدیم، فلسفہ قدیم کی تشریح، سیاسی اختلاف، فلسفہ جدید، زندگی میں ورود، مثالِ طفلی، شاہی، فتنۂ شیطان، فتنہ کا فطرت پر اثر، فکرِ انسان اور انقلابِ فطرت، جوانیِ فطرت، معنیِ تدبر،اور  نمودِ تدبر۔ اس نظم میں آغا ضیا ایک کامل، غیر جامد اور جیتا جاگتا فلسفہ پیش کرتے ہیں ۔ ’’نظریۂ خیر و شر‘‘ (صفحہ ۷۵)، ’’رمزِ بوتراب‘‘ (صفحہ ۸۳)، ’’دعوت نامہ‘‘ (صفحہ ۸۷)، ’’مثنوی مقامِ محمود‘‘ (صفحہ ۹۶)، ’’مثنوی بہشتِ ضمیر‘‘ (صفحہ۱۱۱)؛ اور ان کے ذیلی عنوانات میں ہم ایک عظیم المرتبت صوفی ہے مشرف بہ ملاقات ہوتے ہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے گہرے فکری مضامین کو عرفِ عام میں غیر دلچسپ سمجھے جاتے ہیں ، آغا ضیا کے ہاں کمال کی کشش کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔

            اس کتاب کی تفہیم و تحسین کا حق ادا کرنا مثالِ ’’کارے دارد‘‘ ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا، اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ عظیم کام اہلِ علم احباب پر چھوڑتا ہوں ۔ کتاب میں ایک مختصر نظم بغیر عنوان کے، علاوہ پانچ غزلیں اور متفرق اشعار ہیں ، جو سب بھی قابلِ تحسین ہیں تاہم ان کی آب و تاب آغا صاحب کی مثنویوں کے آگے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ مشتے از خروارے کے طور پر غزلوں سے چند اشعار نقل کرتا ہوں :

لذتِ شوق ہوئی راہِ طلب میں افزوں

میں تو ہر آبلہ کو ایک نیا دل سمجھا

اے ضیا تھی وہ مرے عزم کی خامی یکسر

میں رہِ دوست میں جس سنگ کو حائل سمجھا

شعلہ بجھتا تھا دھوئیں میں آ رہا تھا پیچ و تاب

غم زیادہ ہو رہا تھا درد کو کم دیکھ کر

آگ لگ جاتی ہے جس کو گھر وہ بنتا ہے چراغ

طالبِ غم ہو رہا ہوں لذتِ غم دیکھ کر

شورشِ تقدیر نے دیں دعوتیں تدبیر کو

ہمتِ شانہ بڑھی زلفوں کو برہم دیکھ کر

وحدت کا رنگ نقشۂ کثرت کا ہے فروغ

اک تخم گل میں بیش ہیں عالم بہار کے

اپنی تلاش میں مجھے خود رفتگی ہوئی

جاتا ہوں پیش پیش میں اپنے غبار کے

پردہ اٹھا کے ساز کا دیکھا تو کچھ نہ تھا

پھر کیا تھا جس کے نغمے کا ہر سو ظہور تھا

پہنچا گئے اٹھا کے لحد میں مجھے ضیا

منزل کے میں قریب تھکاوٹ سے چور تھا

نیت میں ضیا دیکھا فردوس بھی دوزخ بھی

یہ موج ہی کشتی ہے، یہ موج ہی طوفاں ہے

ٹوٹ کر تارِ نفس نے اے ضیا

رازِ سازِ زندگی افشا کیا

بیٹھ کر خمیازہ اپنی ترش رُوئی کا اٹھا

نشہ بن کر اڑ چلے ساقی تری محفل سے ہم

 پروفیسر امجد اقبال ، اپنی محنتِ  شاقہ کی بدولت آغا ضیا جیسے نابغۂ وقت کی شاعری (خاص طور پر مثنوی) کو ادب کے شائقین تک لائے۔ میری مقدور بھر گزارشات کیا اور میں کیا! تاہم مجھے قوی امید ہے کہ پروفیسر صاحب کی یہ تحقیق مثنوی میں نئی روح پھونکنے کا باعث بنے گی۔

٭٭٭

جمعہ  ۱۱  فروری  ۲۰۱۱ء

 دَر اِیں چہ شک

(اسد محمود خان کے افسانوں کی کتاب ’’درشک‘‘ پر اظہارِ جذبات)

            کسی کو سفر پر نکلنا ہو تو سو طرح کی تیاریاں کرتا ہے، سامانِ سفر بہم پہنچاتا ہے، روپیہ کا انتظام کرتا ہے اور بہت کچھ! اولین طے کرنے کی بات ہے ، منزل کا تعین۔ ادب کا سفر اِس سے بہت مختلف ہے، منزل کا تعین بھی کوئی کوئی کر پاتا ہے، ورنہ ہوتا یہی ہے کہ شوقِ سفر نے سرِ جادہ ڈال دیا اور چل پڑے، جہاں لے جائے۔ اپنے ساتھ تو یہی کچھ ہوا ہے! رہی زادِ راہ کی بات، تو وہ بھی یہی کچھ ہوا کرتا ہے، یعنی شدتِ شوقِ سفر۔

ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دئے

اجنبی تھا راستہ اور چل دئے

شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے

ناتواں دل کو لیا اور چل دئے

            اس سفر کی ابتدا ہوتی ہی بے سروسامانی سے ہے۔ جب ایک قلم کار پہلا لفظ، پہلا شعر، پہلا افسانہ، پہلا قطعہ، پہلی غزل کہتا ہے تو اس کے پاس وہی کچھ ہوتا ہے، اولین خامہ فرسائی! وہ سامان جسے ہو سکتا ہے، دورانِ سفر وہ خود ہی بارِ بے کار سمجھ کر کہیں پھینک جائے۔زادِ سفر تو وہ دورانِ سفر جمع کرتا ہے! منزلیں آتی ہیں گزر جاتی ہیں اور وہ نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ اسے کیا کہئے گا؟ منزلیں مارنے کی دھُن؟ یا زادِ سفر جمع کرنے کی ہوس؟ کچھ بھی کہئے یہ ہے بڑی کام کی چیز!۔ یہاں ہم زادِ سفر ہی جمع نہیں کرتے بہت سے ہم سفر بھی بنا لیتے ہیں ۔ اسد محمود خان بھی تو یہی کہتے ہیں نا: ’’میں نے ادبی سفر کا آغاز کیا تو تہی دست تھا، لیکن صد شکر کہ اب محبتوں اور دوستوں کا ایک کارواں ہم قدم ہے‘‘۔ گویا ’قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے‘۔ یہ تو بنا بنایا مصرع ہو گیا! بعض تحریریں محرک ہوتی ہیں ، انہیں پڑھئے تو لگتا ہے کسی نے دل کے تاروں کو چھو لیا ہے!۔

            میرا تعلق بنیادی طور پر شعر سے ہے اور وہ بھی روایتی شاعری سے۔ افسانہ تو نہیں البتہ کچھ کہانیاں مجھ سے بھی سرزد ہوئی ہیں ، جن کا ذکر اگر کہیں ضمناً آ جائے تو اسے میری ان گزارشات کا تسلسل سمجھ لیجئے گا۔’’قصہ مرے افسانے کا‘‘ کے زیرِ عنوان اسد محمود خان اپنی واردات کو ایک افسانہ نما کہانی یا ایک کہانی نما افسانہ کی صورت میں بیان کر گئے ہیں ، ایک ایسی خود نوشت جس میں تصنع کہیں نہیں ، صنعتیں بہت ہیں ۔ یہ انداز ان کے افسانوں کو شاعری جیسا رَسیلاپن دے جاتا ہے۔ افسانہ اور کہانی کے حوالے سے خالد قیوم تنولی اپنے تعارفی مضمون میں بڑی اچھی گفتگو کر گئے ہیں ۔ بہت دقیق فنی اور تجزیاتی مباحث سے پہلوتہی کرتے ہوئے اِسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ تاہم اپنے ہم نشین افسانہ نگاروں (سعید گل، ظفری پاشا، لیاقت خان اور دیگر دوستوں ) کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے سخن کی اس صنفِ نازک پر جو سخن طرازیاں ہوتی رہی ہیں ، اُن سے جو کچھ اخذ کر سکا ہوں ، اس کا خلاصہ یہاں درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں :۔

٭        افسانہ وہ ہے جس کا انجام قاری کے لئے غیر متوقع ہو، یا یہ کہ قاری کو چونکا دے، یا اس کو بے چین کر دے۔

٭        افسانہ وہ ہے جو قاری کو ایک عالمِ حیرت میں چھوڑ جائے اور غیر محسوس طور پر فکر کو ایک راہ بھی سجھا دے۔

٭        افسانہ وہ ہے جو عام زندگی کی کسی خاص حسیت کو اجاگر کرے، یا قاری کو چھیڑ کر چھوڑ دے۔

٭        ہر کہانی میں افسانہ نہیں ہوتا، ہر افسانہ میں کہانی ہوتی ہے، خواہ وہ بیانیہ ہو خواہ اشاریہ۔

٭        افسانہ فسوں سازی ہے اس کو سر چڑھ کر بولنا چاہئے۔

٭        افسانہ میں افسانہ نگار اور قاری بھی کہانی کے کردار ہوتے ہیں ۔

            میرے لئے یہ ساری تعریفات محترم ہیں ۔ مجھے ہر کہانی ہر افسانے میں اپنی اور اپنے ارد گرد کی تلاش رہتی ہے اور میں لاشعوری طور پر اس امر کا متمنی ہوتا ہوں کہ کہانی ہو یا افسانہ مجھے اپنی لپیٹ میں لے لے۔اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کتاب میں شامل چودہ کے چودہ افسانے مجھے اپنی داخلی کائنات کے چودہ طبق محسوس ہوئے۔ کہانی کا ماحول کوئی سا ہو، کرداروں کے نام کوئی سے ہوں یا نہ بھی ہوں ، مجھے ہر افسانے میں ایک محمد یعقوب دکھائی دیا، جو میری طرح سوچتا ہے اور محسوس کرتا ہے، تڑپتا ہے اور خوش ہوتا ہے، شکایت کرتا بھی ہے نہیں بھی کرتا۔ میری اپنی کہانیوں کے سامعین اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میرے اندر کا کہانی کار حساس اور جذباتی شخص ہے۔ اُس نے بسا اوقات مجھے میری اپنی تخلیق کردہ کہانیاں پڑھتے ہوئے سرِ محفل رُلا دیا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک کہانی کا پلاٹ، کردار، مکالمے سب کچھ وضع کردہ ہے۔ اسد محمود خان کے افسانوں کے پیچھے بھی میرا وہی ہم زاد اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے۔یوں اسد محمود خان اپنے افسانوں کا کردار رہا ہو یا نہ رہا ہو، کم از کم ایک قاری اِن افسانوں کا کردار ضرور ہے، اور وہ میں ہوں ۔ اسد محمود خان اپنی داستانِ حیات کا آغاز ساتویں دہائی کے آخر سے کرتے ہیں ۔ اس کو اتفاق ہی کہئے گا کہ ساتویں دہائی کے آخر میں میری ملاقات خالص دیہی پس منظر کے حامل ساڑھے پندرہ سالہ لڑکے محمد یعقوب سے ہوتی ہے جو اپنے مرحوم باپ کی تنگ دستی کا بوجھ اٹھائے حصولِ رزق کے لئے عملی تگ و دو کا آغاز کر چکا ہے۔ وہ لڑکا آج بھی میرے ساتھ ہے اور اسد محمود کے افسانوں کی تفہیم میں میرا راہنما اور معاون بھی۔ وہی مجھے بتا رہا ہے کہ کوئی واردات، کوئی واقعہ، سرگزشت سے آگے نکل کر دل گزشت کب بنتا ہے۔ یہ جاننے کے لئے اسد محمود خان کی دل گزشت کے چودہ مناظر کو ایک نظر دیکھنا ہوگا۔

گود ۔۔۔ یہ افسانہ میرے حواس پر دسمبر ۱۹۷۱ء کی اُس بھیانک رات کا منظر تازہ کر گیا، جب محمد یعقوب اپنے کمرے میں ریڈیو پر آٹھ بجے کی خبریں سنتے ہوئے بلک بلک کر رونے لگا تھا۔ دھرتی ماں کا سر اِس افسانے کے مرکزی کردار کی مٹھی میں آنے والی خاک سے جو اَٹ گیا تھا۔

دستک ۔۔۔ سچی بات ہے کہ یہ افسانہ پڑھ کر ایک چپ سی لگ گئی ہے۔ انسان اتنا مجبور بھی ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ لوگ، معاشرہ، بے حسی، اندر کی ٹوٹ پھوٹ، ضمیر، مجبوریاں ، اعتماد، خوش فہمیاں ؛ ایک مختصر سی کہانی میں سوچنے، سمجھنے اور جھنجھوڑنے والی اتنی ٹیسیں !۔

آرزو ۔۔۔ بہ ظاہر ایک سادہ سی کہانی ہے، فوج کا ایک سپاہی اپنے بیٹے کو فوج کے افسر کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ زندگی اُس سے تو وفا نہیں کرتی، اُس بیٹے کو وردی مل جاتی ہے مگر ماں جو اپنے مرحوم شوہر کی آرزو کی امانت دار ہے، وہ بھی بیٹے کو وردی میں نہیں دیکھ سکتی کہ وہ آرزو کی امانت دار تھی، تکمیلِ آرزو کی نہیں !۔ اُس نوجوان کے دل میں کتنے طوفان اٹھے ہوں گے!!!۔ ’جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا‘

انتظار ۔۔۔ ایک کبھی ختم نہ ہونے والا انتظار! مادرِ وطن پر عجب وقت آن پڑا ہے، سوچنے والے ذہن میں بھی دھماکے ہونے لگتے ہیں ! اس رَوِش کا بیج بونے والا اور ذمہ دار کون ہے، جو پل بھر میں بیسیوں سہاگنوں کی مانگ اجاڑ دیتی ہے، پچاسوں نومی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اُسی بھیڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو پہلے ہی دھماکوں سے سہمی ہوئی ہے۔ آگ اور خون کے کھیل کو روکنے والا بھی توکوئی ہو!۔

درشک ۔۔۔ یہ محض ایک درخت کو جذبات، محسوسات اور زبان دینے کی بات نہیں ہے، ایک بھرپور سانجھ کی کہانی اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ ہے۔ انسان اور فطرت کے اس تال میل میں قربانیوں کا اپنا ایک لازوال کردار ہے جو ہر دور میں کسی نہ کسی روپ میں موجود رہا ہے۔ وسائل کی بے تحاشا کھپت اور تباہی کا نظریہ اپنی جگہ، اسد محمود خان نے اُس سے کہیں آگے یہاں مٹی، پرند، مویشی، انسان، درخت سب کا ایک دوجے سے مربوط بقائے فطرت کا فلسفہ محسوساتی سطح پر جا کر پیش کیا ہے۔

چنری ۔۔۔ مجھے یہ افسانہ ’دستک‘ کا دوسرا پہلو محسوس ہوتا ہے۔ حقیقی بہی خواہوں کی مجبور سانسوں کی مہکار اور خون پسینہ جب عفت و ناموس کی حفاظت کرنے سے معذور ہو جائے تو بہت ساری چادریں اسی طرح لخت لخت ہوتی ہیں کہ گھر کی چوکھٹ سے ریل کی پٹڑی پر بکھرے لہو کی جھیل تک اُن کے تاگے انسانی ضمیر کو سانپ بن کر ڈسنے لگتے ہیں ۔ غربت اور ٹھاٹھ باٹھ میں ایک امتیاز یہ بھی تو ہے!۔

سوہا جوڑا ۔۔۔ یہ افسانہ’آرزو‘ کا دوسرا رُخ ہے۔ افسانہ نگار نے بہت ہوشیاری سے نازک جذبوں کی وہ کہانی رقم کی ہے، جہاں وفورِ شوق کسی المیے کو کہیں بڑا کر دیتا ہے۔ یہ اس نوبیاہتا کی کیفیات کی داستان ہے جو اپنے جسم اور جان کو نکھار کر دل کے خدا کے استقبال کے لئے بڑھتی ہے تو اُس پر کھلتا ہے کہ وہ اب بیوی نہیں رہی، بیوہ ہو چکی ہے۔

سگنل ۔۔۔ ’انتظار‘ میں ہم اُس نومی سے مل چکے جس کو ایک دھماکے نے باپ کے سائے سے محروم کر دیا۔ افسانہ ’سگنل‘ میں ایک اور نومی اپنے کلاس فیلو کی سوچوں کو ویران کر گیا۔ سگنل زندگی کی بے ترتیب اور بے ہنگام، آماج گاہِ عجلت کو کسی ضابطے کا پابند کرتا ہے، ضابطے مر جائیں یا اُن کو نظر انداز کر دیا جائے تو کسی کا گناہ کسی اور کے لئے سزا بن جایا کرتا ہے۔

تقدیر ۔۔۔ ’’سر آپ کے ہاں بڑی پیاری بچی پیدا ہوئی لیکن ۔۔۔۔۔‘‘ ۔ اس لیکن سے پہلے اور بعد ’’ٹپ ٹپ کرتے دعا کے موتی۔۔۔۔‘‘ ۔ زندگی جو ٹھہری!

القارعہ ۔۔۔۔ مظفر آباد کے دل دوز، چشم کشاسانحے سے ہم نے کیا سیکھا؟ ’اذا زلزلت الارض زلزالہا‘  یہ زلزلے یوں ہی تو نہیں آتے، بات کچھ اور ہے! یہ افسانہ دھڑکتے دلوں اور لرزتے آنسوؤں کے بین بین جنم لینے والی بھیگتے تبسم کی روداد ہے۔

صدی کی میت ۔۔۔۔ موت کی دہلیز کے اِس پار سے اُس پار تک جست لیتا ہوا، ایک انتہائی شدید تاثر کا حامل افسانہ ہے۔دنیا میں قائم ہونے والے رشتے ناطے پس منظر میں چلے جاتے ہیں ، ختم نہیں ہوا کرتے، جب تک دنیا قائم ہے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، اور اسد محمودخان کی لکھی ہوئی یہ کہانی نت نئے نئے روپ میں لکھی جاتی رہے گی۔

پرچمِ ستارہ و ہلال ۔۔۔۔ بات سمجھ لینے کی ہے، ایک شعر پیش کرتا ہوں ۔

کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے

مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

مترتا ۔۔۔ دوستی کے چاک پر گھومتی ایک کہانی دوسری کہانی کی جگہ لیتی ہے تو اسی طرح کی حیرتیں اٹھا کرتی ہیں ، کہ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں ۔

            اسد محمود خان کے افسانوں کا مطالعہ آپ نے بھی کیا میں نے بھی، ممکن ہے میں ان کہانیوں کو اس طرح نہ دیکھ پایا ہوں جیسے آپ نے دیکھا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں نے آپ کی سوچ سے روشنی لی ہو، ایک بات طے ہے کہ یہ افسانے قاری کو بے چین بھی کر دیتے ہیں ، حیرت میں بھی ڈالتے ہیں ، اور سوچ کو نئے راستے بھی دکھاتے ہیں ۔ ’’درشک‘‘ کے ایک قاری کی حیثیت سے میں نے محسوس کیا ہے میں ان چودہ میں سے کم از کم دس افسانوں میں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر موجود ہوں ۔ اسد محمود خان کا قاری ان کی کہانیوں کا قیدی ہو یا نہ ہو، اُن کے اسلوب کا گرفتار ضرور بن جاتا ہے۔

ع:       ’’ دام ہم رنگِ زمیں بود گرفتار شدم‘‘۔

            اسد محمود خان کے ہاں دام ہم رنگِ زمین نہیں ، زمین (یعنی دھرتی ماں ) خود دام ہے، دامن بھی، چنری بھی، گود بھی، آرزو بھی، سوہا جوڑا بھی، اور تقدیر بھی۔ پرچمِ ستارہ و ہلال کے سگنل کو دیکھنے اور اس کے اشاروں کو سمجھنے والوں کے لئے یہ خیالی جزیرہ، شہرِ آرزو بھی ہے، مترتا اور سانجھ بھی ہے۔ سانجھ سے یاد آیا، مصنف نے جا بجا پنجابی اور اس کے مختلف لہجوں کے الفاظ کی کمال ملائمت سے ہنر کاری بھی کی ہے۔ وہ اپنی تعارفی گفتگو میں بھی اور افسانوں میں بھی پنجابی زبان کے الفاظ کمال روانی سے بول جاتے ہیں :’’۔۔۔۔دادی سلور کی ترامی میں ریت ڈال کر چلھی میں بھختے انگاروں پر رکھ دیتی۔ ریت ذرا گرم ہوتی تو مٹکے میں بضاعت شدہ گھر کے کھیتوں سے چنی مونگ پھلی کو چھاننے میں ڈال کر لاتی اور ترامی میں ڈال دیتی۔ کائی کے تنکوں سے ہونجا بناتی ۔۔۔‘‘ (قصہ میرے افسانے کا:صفحہ۲۳)

            افسانوں کے افتتاحی کلمات کے بارے میں تنولی صاحب کے لکھے کو، اور ظفری پاشا اور لیاقت خان سے سنے کو، صاد کرتا ہوں ۔ یہ وہ عنصر ہے جو افسانہ شروع ہوتے ہی توجہ قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ ساڑھے پندرہ سالہ محمد یعقوب آنکھوں میں حیرتیں سجائے اسد محمود خان کی انگلی پکڑے کہانی میں سفر کرتا ہے، کرداروں سے ملتا، اور اُن سے مکالمہ کرتا ہے۔ یہ سفر تمام ہونے سے پہلے ہی محمد یعقوب کے بال برسے ہوئے بادلوں جیسے سفید ہو جاتے ہیں ۔ اُس کی حیران آنکھوں میں نمی سی جھلملانے لگتی ہے، اور آواز بھرّا جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

اتوار: ۱۳  فروری  ۲۰۱۱ء

میگھ سندیس

(عطاء الرحمٰن قاضی کے مجموعۂ رباعیات ’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘ پر اظہارِ خیال)

            مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ’’اُردُو کو تو جیسے نظر لگ گئی ہے‘‘ ۔ یہ زبان کہ جس کا تخم اعجازِ حجاز اور تمدنِ فارس کی دین ہے، سرزمینِ ہند کی مٹی اِس کو ایسی راس آئی کہ ڈیڑھ دو صدیوں میں اُردُو کی دھوم چار دانگِ عالم میں پھیل گئی۔ برِ صغیر کے ایک لشکری لہجے سے ایک مہذب زبان تک کا سفر جتنی تیزی سے اردو نے طے کیا شاید ہی کسی اور زبان نے طے کیا ہو گا۔

             انگریز سرکار کا ایک مجسٹریٹ میرزا نوشہ کے پاس حاضر ہوا کہ اُن سے اردو سیکھے اور روزمرہ پیشہ ورانہ مصروفیات میں ہندوستان کے لوگوں کی زبان سمجھنے بولنے کے قابل ہو سکے، میرزا نے اُس کو یہ کہہ کر چلتا کر دیا:’ میاں ، لوگوں کی زبان سیکھنی ہے تو جاؤ کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں ‘۔ بہ ظاہر چھوٹا سا یہ واقعہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں اردو مختلف لہجوں میں رواج پا چکی تھی۔دلی اور لکھنؤ کے لہجوں کا نمایاں فرق اور دونوں کی گیرائی تب بھی معروف تھی۔

            پنجابی کی معروف کہاوت ہے: ’’بولی تے بوٹے، دونہاں نوں مٹی چاہی دی اے‘‘ ۔ ہر زندہ زبان کے پیچھے ایک تہذیب ہوتی ہے، اردو برصغیر کی تہذیب میں پھوٹی اور پھلی پھولی، مقامی لہجوں بولیوں ، پراکرتوں سے بھی اثرات قبول کئے اور اپنے تہذیبی ورثہ فارسی اور عربی سے بھی اکتساب کیا، اور دنیا میں متعارف ہوئی۔ رہی وہ نظر لگنے کی بات، تو یہ دور بیسویں صدی کے آخری ربع سے شروع ہوتا ہے اور ہنوز جاری ہے۔ اس کے سیاسی سماجی، مذہبی، لسانی، معاشی اور دیگر عوامل پر گفتگو کسی اور موقع پر اٹھائے رکھتے ہیں ۔ دورِ حاضر کی تیز رفتاری، سماجی شکست و ریخت، مذہب سے بے گانگی، روایات سے بغاوت، مفادات کی چشمک اورسہل پسندی فنونِ لطیفہ میں انحطاط کا باعث بنی۔ فنی باریکیوں اور جمالیات کو کارِ بے کار سمجھا جانے لگا۔ اردو میں نام نہاد نثری نظم، آزاد غزل اور ہزل جیسی چیزیں سامنے آئیں ۔ ظاہری چمک دمک، خالی خولی لفاظی، اور کچھ نہ کر کے اہلِ علم و فن کہلوانے کا منفی رویہ پنپنے لگا۔ یہاں تک کہ فی زمانہ اپنی اصل سے بے گانہ، روایت سے بیزار، دوسروں کی نقالی کا دل دادہ طبقہ اردو کو اس کی مبادیات یعنی فارسی اور عربی کے اثرات سے ’’پاک‘‘ کرنے پر مصر ہے۔

            گزشتہ دنوں ایک دوست نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا کہ مثنوی مر رہی ہے۔ رباعی کو، لوگ باگ تو کیا اہل قلم کی اکثریت نے فراموش کر دیا ہے۔ بہ ایں ہمہ گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر سرگرمِ عمل کچھ دوستوں کی انفرادی کوششوں سے رباعی کے اوزان کی تفہیم کے کچھ نئے طریقے اور انداز سامنے آئے ہیں ۔ رو بہ انحطاط لسانی تہذیبی ادبی پیش منظر میں ایسے دوستوں کی کاوشیں خوش آئند ہیں ۔

            مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ عام شعراء کے لئے تو رباعی لکھنا ثریا کو چھُونا ہے ہی، مشاق شعراء بھی اسے مشکل گردانتے ہیں ۔ عمومی مشاہدے کے مطابق رباعی کے اوزان کی تفہیم کی طرف موثر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک بڑی وجہ علم عروض کی دقیق اصطلاحات اور اوزان کی تخریج کا مروجہ زحافاتی طریقہ ہے۔ اس ضمن میں جن دوستوں کی کاوشوں کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے، وہ دورِ جدید کے سہل انگار ذہنوں کے لئے نسبتاً آسان فہم ہیں ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ تفہیم کی یہ کاوشیں باروَر ہوں گی۔ رباعی کے اوزان کو دقیق الحصول کہنا قطعاً درست نہیں ، ہاں البتہ یہ ’غیرمانوس‘ کے زمرے میں رکھے جا سکتے ہیں ۔

            قاضی عطاء الرحمٰن کی رباعیوں پر مشتمل تازہ آمدہ کتاب ’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘ نہ صرف اردو کی شعری روایت کی علمی اور فنی بازیافت کے سفر میں ایک بہت سنجیدہ قدم ہے، بلکہ چکا چوند کی چلچلاتی دھوپ میں ایک توانا میگھ سندیس بھی ہے ۔ قاضی صاحب سے میرے پہلے تعارف کا باعث یہی خوشبو میں نہاتے رنگ ہیں ۔ کتاب کی ورق گردانی کے دوران مجھ پر کھلا کہ قاضی صاحب کی دو کتابیں ’’دعائیں سوکھ رہی ہیں ‘‘ ( نظمیں )، اور ’’خواب بھر روشنی‘‘ (غزلیں ) زیرِ ترتیب ہیں ۔ وہ اپنی اس عالی ہمتی پر داد کے مستحق ہیں کہ صاحبِ کتاب شاعر کی حیثیت سے ان کا اولین تعارف رباعی کے حوالے سے ہو رہا ہے۔

            اس سے قبل صرف رباعیوں پر مشتمل کوئی کتاب، جو ماضی قریب میں منظر پر آئی ہو، میرے علم میں نہیں ۔ قاضی صاحب کی وہ رباعی یہاں نقل کرتا ہوں جس سے انہوں نے کتاب کا نام کشید کیا ہے:۔

ہر سمت وہ خوشبو میں نہاتے ہوئے رنگ

اترے ہیں فلک سے جھلملاتے ہوئے رنگ

پھر موجِ ہوا میگھ سندیسہ لائی

پھر نکلے زمیں سے مسکراتے ہوئے رنگ

            ادب کی زمین میں عرصہ بعد پھوٹنے والے ان رنگوں ، اور فضا میں برسات کا پیغام لانے والی اِن ہواؤں سے مستفیض ہونے کے لئے اِس کتاب کا ورق بہ ورق مطالعہ کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ رباعی کے چوبیس مخصوص اوزان ہیں ، اور اِس کے چاروں مصرعے، انفرادی طور پر ان چوبیس میں سے بلا امتیاز کسی بھی وزن پر ہو سکتے ہیں ۔ پہلا، دوسرا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں ، ردیف اختیاری معاملہ ہے۔ ایک رباعی میں کوئی ایک مضمون مکمل بیان کرنا ہوتا ہے۔ یوں ، رباعی لکھنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں رہ جاتا۔

            افتخار عارف نے کہا ہے: ’’شاید گزشتہ چند برسوں میں صرف رباعیوں پر مشتمل کسی نوجوان شاعر کی یہ پہلی کتاب ہے۔ ان رباعیوں میں جمالیاتی تنوع بھی ہے اور موضوعاتی رنگارنگی بھی۔ عروض میرا موضوع نہیں ہے۔ تھوڑی بہت آہنگ کی شدھ بدھ کی گواہی پر کہہ سکتا ہوں کہ فنی اعتبار سے بھی یہ کتاب آپ کو مطالعے پر متوجہ کرتی ہے۔ نوجوان شاعر عطاء الرحمٰن قاضی کی یہ خوبصورت کوشش نئی نسل کے دوسرے شعراء کو رباعی کہنے پر مائل کر سکے تو یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ اختصار و آہنگ کی دل کش و دل نواز فضا میں نمود کرنے والی یہ صنفِ شعر اگر رواج پا جائے تو یہ کسی بڑے ادبی کارنامے سے کم نہیں ہو گا‘‘۔

             ڈاکٹر قاضی عابد کی آراء کتاب کی تفہیم و تنقید میں بہت معاونت کر رہی ہیں ؛ لکھتے ہیں :۔

٭ قاضی عطا کی یہ رباعیاں ان کے تخلیقی مزاج کی گواہی دے رہی ہیں ۔ انہوں نے رباعی کے موضوعات میں بھی (جو کم و بیش نظری سطح پر متعین ہیں ) ایک سچے اور کھرے فنکار کے طور پر بے حد تنوع سے کام لیا ہے اور رباعی کے اندر ما بعد الطبیعیات سے ابھرا ہوا ایک ایک اخلاقی نظام ترتیب دیا ہے جو اپنے ارد گرد سے بھی رشتہ جوڑے ہوئے ہے اور نئی نئی نکتہ آفرینی بھی کرتا نظر آتا ہے۔

٭ قاضی عطا کے ہاں مناظرِ فطرت کی تصویر گری میں داستانوی اور اساطیری حوالے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔

٭ ان رباعیوں میں جہاں ایک اخلاقی طرزِ احساس نظر آتا ہے وہیں پر وہ عشق کے تجربے کی مختلف جہات کو بھی اپنے تخلیقی عمل یا حصہ بناتے نظر آتے ہیں ۔

٭ ان کی یہ رباعیاں بے حد فنی امکانات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ۔

٭ قاضی عطا رباعی کی روایت میں ایک نمایاں اضافہ ہیں ۔

            قاضی عطا الرحمن کی لفظیات، مضامین، اسلوب اور اندازِ نگارش اُن کی رباعی کو دورِ جدید کے رجحانات سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں ۔ وہ رباعی کی جملہ پابندیوں کو نبھاتے ہوئے مضمون بندی اور مضمون آفرینی کے آج کے تقاضوں کو نہ صرف بہ طریقِ احسن پُورا کرتے ہیں بلکہ عربی اور فارسی پر مبنی تراکیب، استعارات، اور علامات کے موجود سرمائے میں مقامی زبانوں کو کمال ملائمت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے رباعی کے قاری کو بھی کچھ کہہ گزرنے کا حوصلہ دیتے ہیں ۔ اظہار کی تازہ کاری ملاحظہ ہو:۔

لفظوں کو ادائے کہکشانی دے دے

دریائے تکلم کو روانی دے دے

کچھ اور نہیں مانگتا میں در سے ترے

مجھ کو مرے ہونے کی نشانی دے دے

مدت سے جو تھا بند وہ دروازہ کھلا

چمکا سرِ بطحا گلِ مہتاب ایسا

اندھیر ہی اندھیر تھا تا حدِ نظر

آپ ﷺ آئے تو ہر سمت اجالا پھیلا

دل ہے کہ سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں

نشہ وہ چڑھا ہے کہ اترتا ہی نہیں

دیکھا ہے ترے حسن کا پرتو جب سے

آنکھوں میں کوئی نقش ٹھہرتا ہی نہیں

            آج کے سہل پسند رویے کے پیش منظر میں قاضی صاحب کے ہاں رباعی جیسی صنف میں  لفظیات کی رنگا رنگی، ردائف و قوافی کی بوقلمونیاں قابل تحسین ہیں ۔  استادانہ چابک دستی کے ساتھ ساتھ موضوع سے انصاف کرنے کی مثالیں دیکھئے:۔

کھلتا نہیں راز، لاکھ کِیجے توجیہ

اک اور بھی عالم ہے ورائے تشبیہ

کہتا ہے سکوتِ ارتفاعِ نشّہ

دو گام ذرا، سیرِ فضائے تنزیہ

ہر جامِ نشاط، واژگوں ہے، یوں ہے

خاموش، طلسمِ ارغنوں ہے، یوں ہے

بیدِ مجنوں کے سلسلوں میں پیچاں

جو دل ہے سو پابندِ جنوں ہے، یوں ہے

تھی وہ جو ازل سے بے قراری نہ گئی

تصویرِ مہِ حسن اُتاری نہ گئی

مشّاطگیِ بادِ بہاری معلوم!

ہم سے بھی تری زلف سنواری نہ گئی

 قاضی صاحب کی رباعیوں میں زبان، مضمون، اسلوب اور دیگر فنیات کے حوالے سے، بیک وقت ایک سے زیادہ خصائص پائے جاتے ہیں ۔ ’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘ کا عمیق مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام رباعیات انتخاب ہیں ۔ کہیں کہیں تو ایسی بے ساختگی پائی جاتی ہے گویا یہ رباعی نہیں ، مرصع نثر کا کوئی ٹکڑا رہا ہو:۔

اے نغمۂ بے تاب، ذرا اور چمک

اے شعلۂ نا یاب، ذرا اور چمک

بس جائے رگ و پے میں غمِ عشق کی لَو

اے درد کے مہتاب، ذرا اور چمک

تلووں کو نہ بیٹھے ہوئے سہلائیے گا

دیوار کے سائے سے نکل آیئے گا

آنکھوں سے اتاریے گا دل میں اپنے

کچھ اُس کا سراغ اگر کہیں پایئے گا

قاضی صاحب کی رباعیاں اس اعتبار سے بھی ہمہ گیر ہیں کہ ان کا فکری وجود، اسلوبِ گفتار، لفظیات، معنوی فضا اور فنی پیراہن ایک دوسرے کو حسن بخشتے ہیں ۔اِن میں سے کسی ایک سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں ۔میرے نزدیک مندرجہ ذیل رباعی اُن کے اسلوب کے ساتھ اِس کتاب کے مشمولات کی بھی آئینہ دار ہے:۔

ہو نکہتِ گل جیسے پَوَن میں شامل

خوشبوئے دہن ہوئی سخن میں شامل

ورنہ یہ چمک کہاں تھی پہناوے میں

ہے رنگِ بدن بھی پیرہن میں شامل

٭٭٭

مصنف کے شکریئے کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل مہیا کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید