FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

حج کے احکام و مسائل

 

 

 

                مولانا ندیم احمد انصاری

 

 

 

 

                حج کیا ہے؟

 

اسلام کے جو پانچ ارکان ہیں، ان میں ایک اہم رکن ’’حج‘‘ ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں، مخصوص فعل سے، مخصوص مکان کی زیارت کرنے کو حج کہتے ہیں۔ (تاتارخانیہ: 3/433زکریا، عمدۃ الفقہ:4/12)

 

                فرضیتِ حج

 

قرآن کریم میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا گیا: لوگوں پر اللہ کا حق، یعنی فرض ہے کہ، جو اس گھر (کعبہ بیت اللہ) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے، اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے۔(سورہ آل عمران: 97)

حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ حج ایک مرتبہ ہر اس مسلمان پر فرض کیا گیا ہے، جس میں حج کے شرائط پائے جاتے ہوں۔ (تا تارخانیہ:3/467 زکریا، لباب المناسک: 27)

 

                حج کے فضائل

 

حج کے فضائل احادیث میں بڑی کثرت سے وارد ہوئے ہیں، یہاں صرف بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ا کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص رضاء الہٰی کے لئے حج کرتا ہے، اس طرح کہ اس میں کسی قسم کی فحش اور برائی کی بات نہ کرے، اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلا نہ ہو تو وہ حج کے بعد اپنے گھر، گناہوں سے اس طرح پاک ہو  کر واپس لوٹے گا، جس طرح پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک، دنیا میں آیا تھا۔ (البخاری:1399)

حج میں تاخیر  پر وعید

جس طرح حج کرنے پر فضائل کی کثرت ہے، اسی طرح اس عظیم ترین عمل سے کوتاہی برتنے پر سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص باوجود استطاعت کے، حج نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے، چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ (الترمذی: 812)

 

                حج کس پر اور کب ؟

 

ہر اس شخص پر حج فرض ہو جاتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا مال عطا فرمایا ہو جس سے وہ اپنے وطن سے مکّۃ المکرمہ تک آنے جانے اور وہاں کے اخراجات پر قادر ہو، اور واپس آنے تک اپنے اہل و عیال اور بیوی بچوں وغیرہ کے مصارف بھی بآسانی برداشت کرسکتا ہو، اور راستہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو، مثلاً: حکومت کی طرف سے سفر کی منظوری ویزا اور سواری اور ٹکٹ کی فراہمی اور دشمن وغیرہ کے خطرات سے مامون ہو، وغیرہ۔ ان تمام سہولیات کے ساتھ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہوتا ہے۔(الشامیۃ:3/451زکریا، انوارِ مناسک: 157)

 

                عورت اور حج؟

 

عورت پر حج فرض ہونے کے لئے ذاتی صرفہ کے علاوہ ساتھ میں جانے والے محرم کا سفرِ خرچ بھی میسر ہونا لازم ہے، ورنہ عورت پر حج فرض نہیں ہوگا۔ یہ حکم اس وقت ہوگا جب کہ اس عورت کا یہ سفر، شرعی سفر یعنی ۳؍ دن یا اس سے زیادہ مسافت کا ہو۔

عورت کے ساتھ اس کا شوہر سفرِ حج پر جائے گا یا اس عورت کا کوئی محرم، لہذا! اگر محرم یا شوہر عورت کے ساتھ سفر کے لئے میسر نہ ہو، تو عورت پر حج فرض نہیں ہوگا۔ پس اگر مسافت، شرعی مسافت سے کم ہو تو اس عورت کو بغیر محرم کے یا بغیر شوہر کے بھی حج کے لئے جانا فرض ہے، البتہ! اگر کسی فساد وغیرہ کا اندیشہ ہو تو پھر اس شرعی مسافت سے کم میں بھی عورت کو بغیر شوہر یا محرم کے سفر کرنا مکروہ ہے اور ملا علی قاریؒ نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں کے فساد کی وجہ سے اسی قول پر فتویٰ دیا جائے گا۔(التاتارخانیہ:3/474- 475زکریا، اللباب المناسک:60-62، زبدۃ المناسک:33)

 

                حج کے فرض ہونے کی شرطیں

 

حج ہر اس مرد، عورت پر عمر میں ایک مرتبہ فرض عین ہے، جس کے اندر مندرجہ ذیل شرائط مکمل طور پر پائی جاتی ہوں:(۱) مسلمان ہونا(۲) عاقل ہونا (۳) بالغ ہونا(۴) آزاد ہونا (۵) حج کی استطاعت ہونا اور(۶) حج کا وقت ہونا۔ (التاتارخانیہ:3/467 زکریا)

 

                حج کے ارکان

 

حج کے دو رکن ہیں: (۱) طواف زیارت اور(۲) وقوف عرفہ، اور ان دونوں میں زیادہ اہم اور اقوی وقوف عرفہ ہے۔ (معلم الحجاج:89 )

 

                حج کے فرائض

؂

حج کے اصل فرض تین ہیں :(۱)احرام یعنی حج کی دل سے نیت کرنا اور تلبیہ: لَبَّیْکَ اَللّٰھَمَّ لَبَّیْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ وَالْمَلْکَ، لَاشَرِیْکَ لَک پڑھنا۔ (۲) وقوف عرفہ یعنی ۹؍ ذی الحجہ کی صبح صادق تک، عرفات میں کسی وقت ٹھہرنا، اگرچہ ایک ساعت ہی ہو۔ (۳) طواف زیارت کرنا، جو دسویں ذی الحجہ کی صبح سے بارہویں ذی الحجہ کے درمیان، سرکے بال منڈوانے یا کتروانے کے بعد کیا جاتا ہے۔ ان تینوں فرضوں میں سے اگر کوئی چیز چھوٹ جائے تو حج صحیح نہیں ہوگا، اور اس کی تلافی دم یعنی قربانی وغیرہ سے بھی نہیں ہوسکتی۔ ان تینوں فرائض کا ترتیب وار ادا کرنا اور ہر فرض کو اس کے مخصوص مکان اور وقت میں ادا کرنا بھی واجب ہے۔ وقوفِ عرفہ سے پہلے جماع کا ترک کرنا بھی واجب ہے، بلکہ فرائض کے ساتھ ملحق ہے۔ (التاتارخانیہ:3/467، معلم الحجاج: 88)

 

                حج کے واجبات

 

حج میں یہ امور واجب ہیں:

(۱) مزدلفہ میں وقوف کرنا، خواہ تھوڑی دیر ہو اور اس کا وقت ۱۰؍ ذی الحجہ کی صبح صادق اور طلوعِ شمس کے درمیان ہے۔ اس کو ترک کر دینے سے دم واجب ہوتا ہے۔

(۲) صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا، اس کے ترک کر دینے سے بھی دم واجب ہوتا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ سعی واجب اور حضرت امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک یہ رکن اور فرض میں داخل ہے۔

(۳) رمی جمرات یعنی قربانی کے دنوں میں ۳؍ مرتبہ شیطان کو کنکریاں مارنا، کسی نے ایک دن کی رمی ترک کر دی ہو یا تینوں دن کی، ایک ہی دم واجب ہوتا ہے۔

(۴) قارن و متمتع کا قربانی کرنا، لہذا! اگر قربانی کے بغیر احرام کھول دیا تو دم لازم ہوگا ۔

(۵) حلق یعنی سر کے بال منڈانا (مردوں کے لئے) یا تقصیر یعنی بال کتروانا، اگر کوئی حلق یا قصر کئے بغیر احرام کھول دیگا، تو دم لازم ہوگا، اور

(۶) طوافِ وداع یعنی آفاقی پر وطن روانہ ہوتے وقت طوافِ وداع کرنا واجب ہے۔ اس کے ترک سے دم واجب ہوگا۔ حج کے واجبات بلاواسطہ صرف یہ چھ ہیں۔

واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں سے کچھ چھوٹ جائے تو حج ہو جائے گا، خواہ قصداً چھوڑا ہو یا بھول کر چھوٹ گیا ہو، لیکن اس کی جزا یعنی قربانی دینی ہوگی۔ (معلم الحجاج:89)

 

                حج کی سنتیں

 

(۱) مفرد آفاقی اور قارن کو طوافِ قدوم کرنا۔

(۲) طوافِ قدوم میں رمل کرنا یعنی طوافِ کے پہلے تین چکروں میں اکٹر کر تیز چلنا، اگر طوافِ قدوم میں رمل نہ کیا ہو تو پھر طوافِ زیارت یا طوافِ وداع میں رمل کرنا ۔

(۳) امام کو تین مقامات پر خطبے پڑھنا، ایک مکہّ معظمہ میں ذی الحجہ کی ساتویں تاریخ کو، دوسرا عرفات میں حج کے دن زوال کے بعد اور ظہر کی نماز سے پہلے مسجد نمرہ میں، تیسرا منیٰ میں گیارہویں تاریخ کو۔

(۴) مکّہ معظمہ سے ۸؍ ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد عرفات کی طرف جانا۔

(۵) منیٰ میں ۸؍ ذی الحجہ کی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء اور نویں تاریخ کی فجر پڑھنا۔

(۶) نویں ذی الحجہ کو طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات جانا ۔

(۷) عرفات پر وقوف کے لئے غسل کونا۔

(۸) عرفات سے امام کے نکلنے کے بعد نکلنا۔

(۹) مزدلفہ میں عرفات سے واپس آتے ہوئے رات کو ٹھہرنا۔

(۱۰) مزدلفہ میں پوری رات رہنا۔

(۱۱) سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کی طرف لوٹنا۔

(۱۲) منیٰ سے واپسی میں محصّب میں ٹھہرنا اگرچہ ایک ساعت ہو۔

(۱۳) حج کی رات میں منیٰ میں رہنا۔

(۱۴) گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ کی راتیں، اس شخص کے لئے جو تیرہویں کو رمی کرنا چاہے، منیٰ میں رہنا سنت ہے۔

یہ سب سنتیں مؤکدہ ہیں اور ان کا چھوڑنا مکروہ اور نہایت برا ہے، بشرطیکہ بالقصد چھوڑ دے، مگر اس پر دم یا صدقہ وغیرہ نہیں دینا پڑتا ہے۔ (زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک:82، معلم الحجاج:89-90)

 

                حج کے مستحبات

 

حج کے مستحبات بہت سے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:

(۱) مرد کو بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور عورت کو آہستہ

(۲) حج مفرد کرنے والے کو قربانی کرنا

(۳) مکّہ معظمہ میں داخل ہونے کے لئے غسل کرنا

(۴) مزدلفہ میں آنے کیلئے غسل کرنا، مکّی ہو یا غیر مکّی

(۵) عرفات میں جبل رحمت کے نزدیک رہنا

(۶) عرفات پر امام کے ساتھ ظہر اور عصر کو اکٹھے پڑھنا

(۷) تلبیہ کی کثرت کرنا

(۸) عرفات پر کثرت سے دعا کرنا

(۹) مزدلفہ میں عید کے روز فجر کے وقت مشعر الحرام میں وقوف کرنا

(۱۰) فجر کی نماز بھی مشعر الحرام میں جا کر پڑھنا

(۱۱) مزدلفہ میں فجر کی نماز اندھیرے کے وقت میں پڑھنا

(۱۲) منیٰ میں پہنچتے ہی دسویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا۔

مستحب کا حکم یہ ہے کہ ان کے کرنے والے کو زیادہ اجر ملتا ہے، مگر سنت مؤکدہ سے کم ہے اور اس کے ترک کرنے سے فدیہ نہیں دینا پڑتا۔ (زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک: 83)

 

                حج کی قسمیں

 

حج کی تین قسمیں ہیں:

 

(۱) افراد

فقط حج کا احرام باندھنا، اسے ’افراد‘ کہتے ہیں

(۲) قران

حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باندھنا، اسے ’قران‘ کہتے ہیں

(۳) تمتّع

اوّل حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرے، پھر گھر لوٹے بغیر اسی سال حج کا احرام باندھ کر حج کرے، اسے ’تمتّع‘ کہتے ہیں۔ حج کی تینوں قسمیں جائز ہیں، مگر حنفیہ کے نزدیک سب سے افضل قران ہے، اس کے بعد تمتّع ، اسکے بعد افراد۔(معلم الحجاج: 99)

 

                میقات کا بیان

 

میقات اس مقام کو کہتے ہیں، جہاں سے آفاقی (غیر مکّی) کو بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں ہے، جو کہ حج کا قصد کر چکا ہو، احرام کے مقامات جہات کے اختلاف سے مختلف ہیں:

(۱) ذوالحلیفہ: بیر علی، مدینہ منوّرہ تبوک، اردن (جاڑدن) وغیرہ سے آنے والوں کیلئے۔

(۲) ذاتِ عرق: اہل عراق، ایران خراسان، ازبکستان، ترکمانستان، قزاقستان، چین، منگولیا، اور روس سے خشکی کے راستہ سے آنے والوں کیلئے۔

(۳) جحفہ: شام، مصر، الجزائر، سوڈان اور بر اعظم افریقہ، نیز ملکِ شام کے بعد ترکستان، بلغاریہ، روم، جرمنی، فرانس اور بر اعظم یوروپ کی طرف سے آنے والوں کیلئے۔

(۴) قرن المنازل: اہل نجد اور اس طرف سے آنے والوں کے لئے اور اب ہوائی سفر کے ذریعہ پہنچنے والے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما، سنگاپور، تھائی لینڈ، جاپان، ملیشیا، انڈونیشیا، برونئی، آسٹریلیا، مسقط، دبئی، عرب امارات وغیرہ سب کیلئے یہی قرن المنازل اور اس کے محاذات اور

(۵) یلملم: اہل یمن اور اس طرف سے آنے والوں کے لئے میقات ہے۔ اور ساحلی ممالک سے جو لوگ بحری جہاز سے جدّہ پہنچتے ہیں، وہ سب ادھر ہی سے گذرتے ہیں۔ لہذا بحری راستہ کے لحاظ سے مسقط، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما، سنگا پور، تھائی لینڈ، جاپان، ملیشیا، انڈونیشیا، برونئی، آسٹریلیا وغیرہ سب کے لئے جبلِ یلملم اور اس کے محاذ کے علاقے میقات ہیں۔ اسی طرح ہوائی سفر کے ذریعہ سے جو لوگ ادھر سے گذریں گے ان کے لئے یہی مقام اور اس کے محاذات کے علاقے میقات ہیں۔ اسی طرح تمام میقاتوں کے محاذ اور برابر کے علاقے بھی میقات کے حکم میں ہیں۔

جو شخص کسی میقات اور مکّۃالمکرمہ کے درمیان سکونت پذیر ہو، اسے ’اہل حِل‘ کہتے ہیں۔ ان کے لئے کل زمین حِل میقات ہے، انہیں حج و عمرہ کا احرام حرم کے حدود میں داخل ہونے سے قبل باندھ لینا ضروری ہے اور اپنے گھر سے باندھنا افضل ہے۔ اہل مکہّ کے لئے حج کا احرام باندھنے کیلئے کل زمین حرم میقات ہے، اور عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے کل زمین حل میقات ہے۔ (معلم الحجاج:91، انوارِ مناسک:239-241، الفقہ المیسّر:205)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید