حجاّم الہ آباد کے
راجندر سنگھ بیدی
میں جہاں ڈائیک پر کھڑا ہوں، یہاں سے نظارہ بہت خوبصورت ہے…یہ گدلی گنگا، وہ نیلی جمنا، اور بیچ میں کہیں سرسوتی مائی ہے، جو آج تک کسی کو نظر نہیں آئی ہے۔ ہم ان تینوں دریاؤں کو تربینی کہتے ہیں اور جی میں آئے تو ان کے ملاپ کی وجہ سے اسے سنگم بھی کہہ ڈالتے ہیں۔ مُوڈ مُوڈ کی بات ہے…
یہ سنگم یُوں تو اور بھی بہت سے کام آتا ہے، لیکن کسی مرے ہوئے لیڈر کی ہڈیاں بہانے کے لیے بہت ہی اچھا ہے۔ یہ قلعہ جو آپ دیکھ رہے ہیں، مغل شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا۔ اس کی نگاہ کتنی دُور رس تھی ۔گویا وہ صدیوں پہلے جانتا تھا کہ چین کی طرف سے حملہ ہو گا تو یہاں پہنچتے پہنچتے تو رُک ہی جائے گا۔ کچھ دریا روک لیں گے، رہا سہا یہ قلعہ روک لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جمنا کا پانی آج تک اس قلعہ کے پیر دھو دھو کر پیتا ہے — —
پیچھے الہ آباد کا شہر ہے ۔ نہ معلوم اسے کس فقیر کی دعا لگ گئی کہ ہر سال گنگا اور جمنا میں باڑھ آنے پر بھی یہ نہیں ڈوبتا۔ دارا گنج کے آس پاس کچھ جھونپڑیاں، کچھ کچّے مکان ہیں، جن کی بَلی دے کر یہ پھر سے اپنے پانو پر کھڑا ہو جاتا ہے، جیسے کوئی زچّہ چھٹی نہا کر اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ آج شہر پر کوئی دھُند سی چھائی ہے، یا شاید لوگوں کی آہوں کا دھواں ہے، فضا کی سرد مہری جسے اوپر نہیں اُٹھنے دیتی۔ نیچے زمین روکتی ہے، اوپر آسمان ٹوکتا ہے، لوگ بڑی خوشی سے گھُٹ گھُٹ جانے والی ان آہوں کو پھر سے سانس بنا کر استعمال کرتے ہیں۔
دُور، بائیں طرف الہ آباد کا نیا اسٹیشن ہے جو کمبھ کے موقع پر آنے والے بیشمار یاتریوں کے لیے بنوایا گیا اور جس پر ہماری سرکار کے لاکھوں روپئے لگے ہیں۔ کوئی ضروری نہیں، اس اسٹیشن پر صرف جاتری لوگ ہی اُتریں۔ ہم اور آپ بھی اُتر پڑیں تو کوئی نہیں روکتا۔ یہ لوک راج ہے نا — — جسے سانجھی واد کی پوٹ لگی ہے۔ جیسے بھانگ کو سنکھیے کی پوٹ لگا دی جائے تو وہ اور بھی تیز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارا یہ لوک راج اور بھی نشہ آور ہو گیا ہے — —اسٹیشن کے پیچھے سول لائنز کا علاقہ ہے جسے بنا تو انگریز گیا، استعمال ہم کر رہے ہیں۔ میں تو سمجھتاہوں کہ اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔ اس نے ایک گرجا بھی بنوایا جو بہت پکّا ہے۔ پچھلی صدی میں چھاؤنی کے جتنے انگریز افسر مرے، ان کی روحیں اب تک اس گرجے میں عبادت کرنے آتی ہیں اور خدا سے دُعا کرتی ہیں کہ انھیں بہشت کے عیش و آرام سے چھٹکارا دلوا کر، ایک بار پھر الہ آباد کی چھاؤنی میں بھیج دے… تو گویا ہر شام یہاں پُرانا الہ آبا، تیل میں سر بسائے، منھ کو گلوری میں دبائے، اس نئے موڈرن الہ آباد سے گلے ملنے چلا آتا ہے اور کافی یا وسکی پی کر، کسی مولوی کی طرح چوری کی مرغی بغل میں دبائے، کہیں بھی نکل جاتا ہے۔
میں — مجھے الہ آباد ہی کا سمجھو۔ یوں میں بیلہ ٹکئی کا رہنے والا ہوں، جو یہاں سے پچاس ساٹھ میل پرے ایک چھوٹا سا گانو ہے۔ برسوں پہلے، ایک اہیر بڈھے نے بیٹھے بیٹھے منوں ہی سن بٹ ڈالی، سینکڑوں ہی روپئے بنائے، لیکن سب کے سب میری پڑھائی پر ڈبو دیے۔ خود تو اندھا ہو گیا، پر مجھے دِکھنے لگا۔ یہ کالا اچھّر، جو ہمارے دیس کے بہت سے لوگوں کو بھینس برابر معلوم ہوتا ہے، مجھے بھُوری پڑیا نظر آتا ہے۔
میں، اس اُلٹی طرف بمرولی کے ہوائی اڈے پر کلرکی کرتا ہوں… دس بجے مجھے دفتر پہنچنا ہے۔ لیٹ ہو گیا تو میرا سیکشن انچارج بہت خفا ہو گا۔ وہ بے حد نروس آدمی ہے اور بلڈ پریشر کا مریض ۔ مجھے اپنا تو کچھ نہیں، البتہ مجھے گالی دیتے ہوئے وہ کانپا، منھ پر جھاگ لایا، اور گر گیا، تو پھر — میرا کیا ہو گا؟ لیکن، خیر… کوئی بات نہیں، ابھی بہت ٹائم ہے۔ پھر حجاّم لوک پتی کے گاہک بھی دھیرے دھیرے کم ہوتے جا رہے ہیں…
ہاں تو، وہاں بمرولی کے ہوائی اڈے پر جب میں آفس کے کیبن میں بیٹھتا ہوں تو کھڑکی سے مجھے ہوائی جہاز اترتے چڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ رَن وے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بڑا جیٹ ہوائی جہاز تو کوئی نہیں آتا، البتہ چھوٹے چھوٹے، بھنبٹ سے بیسیوں آتے ہیں۔ جیسے سیل چڑھے غسل خانے میں ریت مکھی اپنے آپ پیدا ہو جاتی ہے، ایسے ہی یہ جہاز ایکا ایکی آسمان کے کسی کونے سے ٹپک پڑتے ہیں۔ اگرچہ وہ سب چھوٹے ہیں ،لیکن آدمی ان میں سے بڑے اترتے ہیں۔ کبھی کبھی سانپوں، رسّہ اچھالنے والے مداریوں، ہاتھیوں، راجاؤں مہا راجاؤں اور نانگا سادھوؤں کی تلاش میں باہر سے ٹورسٹ بھی آ جاتے ہیں اور ہمیں اتنا سُکھی دیکھ کر بڑے دُکھی ہوتے ہیں۔ بس، میرا تعلق باہر کی دُنیا سے صرف اتنا ہی ہے اور یا پھر میں اخبار ’’لیڈر‘‘ پڑھ ڈالتا ہوں۔
اب لوک پتی زیادتی کر رہا ہے۔ دیکھیے مجھے اَدھ مُنڈا چھوڑ کر اس نے ایک اور گاہک کو پکڑ لیا۔ میں اس کی طرف نظروں کے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہتا ہوں۔ ’’دَیا کرو، لوک پتی !… میری حالت پر ترس کھاؤ۔‘‘
’’ابھی لو، ببوا‘‘ لوک پتی کہتا ہے۔ ’’ابھی پٹ سے سب صفا چٹ ہوا جاتا ہے‘‘ اور اپنے استرے سے وہ گاہک کے چہرے پر دو ایک خوبصورت سے خط بنا دیتا ہے۔ جبھی وہ ایک اور گاہک کو پکڑ لیتا ہے جو میری طرح چلاّتا ہے…
’’مجھے دفتر جانا ہے۔‘‘
’’سبھوں کو جانا، ببوا، سبھوں کو جانا ہے۔‘‘
اور لوک پتی کی آوازیں ہار سے ملی جُلی ، ایک فلسفیانہ سی جیت ہے، جس کی بنیاد ہمارے صدیوں کے پُرانے گرنتھوں اور شاستروں پر قائم ہے۔ معلوم ہوتا ہے، اس وقت وہ میرے دفتر کی نہیں، بھگوان کے گھر کی بات کر رہا ہے، مر کر جہاں — — سبھوں کو جانا ہے!
سوا آٹھ ہو گئے… زندگی بیتی جا رہی ہے، دفتر بیتا جا رہا ہے … یہاں سے گھر، گھر سے دفتر، دفتر سے شمشان… بیچ میں ازل ہی سے تھکی ہاری بیوی سے جھپٹ… مار کے بجائے کھانا کھانا… کھانا بھی وہ جو پکار پکار کے کہہ رہا ہے کھا، نہ کھا، نہ … سوائے گود کے بچّے کے باقی کے سب یا تو اسکول جا چکے ہوں گے اور یا باہر مٹی میں رُل رہے ہوں گے۔ میں تو کہتا ہوں رُل ہی جائیں تو اچھا ہے … ارے ہاں! ایک بات تو آپ کو بتائی ہی نہیں۔ میں جواہر نگر میں رہتا ہوں، جسے بنے بہت عرصہ نہیں ہوا۔ اس لیے سارے کا سارا نگر دھُول اور مٹی سے اَٹا ہے۔ میں مٹی کو بہت پسند کرتا ہوں۔ ایک تو اس لیے کہ میرا اور آپ کا، سب کا خمیر مٹی سے اُٹھایا گیا ہے، اور دوسرے اس لیے کہ جب تک کسی بچے کو مٹی کا چُمبن نہ ملے، وہ پنپتا ہی نہیں۔ بیس بیس روپیہ پانے والے، ٹیوشنوں پر جینے والے اسکول کے ٹیچر اس بات کے مہتو کو کیا سمجھیں؟ ذرا کسی بچے کے کپڑوں پر مٹی دیکھی، اُلٹا ماں کے پاس بھیج دیا، جو پہلے ہی گربھ وتی ہے۔ عورتوں کی زبان میں ’’اُس کی وہ تو پاجامے سے بھی چھُو جائے، تو پیٹ ہو جاتا ہے۔‘‘
نیچے ڈائیک بھی بھُربھُری ہے یا شاید دفتر سے لیٹ ہو جانے کا ڈر ہے جس کے کارن زمین پانو تلے سے سرکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے جیسے برسوں پہلے، کمبھ کے میلے پہ جو سینکڑوں ہزاروں لوگ اسٹیم پیڈ میں دَب گئے تھے، ان میں سے کوئی بچ گیا اور اب منوں مِٹی کو سر پر سے ہٹاتے ہوئے، باہر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سن رہے ہو؟… معلوم نہیں ہوتا جیسے دُور، نیچے سے ایک کورس کی آواز آ رہی ہے ’’آہستہ چل، ہو سکے تو چل ہی مت — — تیرے قدموں کے نیچے ہزار جانیں ہیں…‘‘
لوگ جیسے پاتال سے نکلنے کا جتن کر رہے ہیں۔ قلعے کے اندر، جہاں اُوپر بندر ہیں، نیچے مندر ہیں، کوئی کرشن جی کا، کوئی مہابیر جی کا اور کوئی کالی مائی کا۔ وہ سب قلعے میں، زمین کے نیچے کچھ یوں دبے ہوئے ہیں کہ ان کے اندر جانے سے بھی ڈر آتا ہے۔ لیکن اگر انسان آسمان کو تھگلی لگا سکتا ہے، چاند ستارے سے گلے مل سکتا ہے، تو کیا نیچے پاتال تک ہی نہیں پہنچ سکتا؟ اس گائے کے سینگوں کو نہیں چھو سکتا ،جو صدیوں سے ہماری اس دھرتی کا بوجھ اُٹھائے کھڑی ہے اور وہ بھی ایک سینگ پر؟ جس کے کارن ہماری زمین سورج کے گرد ٹیڑھی گھومتی ہے اور بیکار کے موسم بناتی رہتی ہے۔ آج پوس پڑ رہی ہے۔ کل جھُلس دینے والی لُو چل رہی ہے — —ابھی بارش سے برباد ہو رہے، پھر اوڑ لگنے سے مر رہے ہیں… اب کے جو لوگ پاتال سے آئے ہیں، عجیب سی خبر لائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، گائے بس سینگ بدلنے ہی والی ہے جس سے ساری دُنیا ہل جائے گی۔ سب تہس نہس ہو جائے گا — — نیچے کا اوپر، اوپر کا نیچے، دائیں کا بائیں… دیر تک زمین کانپتی رہے گی اور آخر تھم جائے گی اور صدیوں تک تھمی رہے گی۔ پھر گائے اسی وقت سینگ بدلے گی جب سائنس اتنی ترقی کر جائے گی کہ ہل دھرتی پہ چلنے کے بجائے، دھرتی ہل پہ چلنے لگے گی۔ عورت کے پیٹ میں خالی ہوا رہ جائے گی اور مرد کے پیٹ میں بچّہ —
لوک پتی کا نیا گاہک چلاّ رہا ہے۔ بات یہ ہے، اس نئے گاہک کی حجامت شروع کر کے، اس کے چہرے پر تین چار خوبصورت سے خط لگا کر، لوک پتی نے اس غریب کو بھی بیچ ہی میں چھوڑ دیا ہے، اور ایک نئے گاہک کو پکڑ لیا ہے۔ اب وہ پہلا گاہک لوک پتی سے لڑ رہا ہے، اسے گالی دے رہا ہے… ارے! یہ کیا ہوا؟ دُہائی لاٹ صاحب کی… وہ پہلا گاہک چپکے سے چل دیا ۔ وہ … میری طرف آ رہا ہے!
میں — — اسے جانتا ہوں…
’’اُگر؟… اُگرسین…‘‘
’’ہاں، جل توری!——تو یہاں کیسے؟‘‘ وہ مجھے دیکھتے ہوئے کہتا ہے… یوں میرا نام بدھان چند ہے ،لیکن میرے ویجی ٹرین ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ مجھے جل توری ہی کہہ کر پکارتا ہے اور میں بھی اسے نہیں بتاتا کہ جل توری اصل میں مچھلی کو کہتے ہیں، جو مانس سے بنی ہوتی ہے۔ اگر روہو اور کتلا ہو تو اس میں پھر نام کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، اور اگر کہیں میری طرح کی ٹراؤٹ ہو تو ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہی نہیں۔ پھر مجھے جل توری پُکارنے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ پچھلے چناؤ میں میں نے کانگریس کو ووٹ دیا تھا۔ آج تو وہ لوک پتی پہ خفا تھا، ورنہ ہمیشہ وہ مجھے ماں بہن کی یہ موٹی موٹی گالیاں دیا کرتا ہے، میرا بڑا مِتّر ہے!
میں کہتا ہوں — ’’بھائی میں تو اشنان کرنے آیا تھا، سوچا حجامت ہی کیوں نہ بنواتا جاؤں؟ اپنا اُسترا ذرا کند ہو گیا… کوئی سِلّی ہی نہیں ملتی، اسے لگانے، تیز کرنے کے لیے۔‘‘
’’تم بھی سیفٹی استعمال نہیں کرتے؟‘‘ اُگر مجھ سے پوچھتا ہے۔
’’آں ہاں…‘‘ میں کہتا ہوں۔ ’’سیفٹی کے ساتھ مزا نہیں آتا۔‘‘
’’تُف ‘‘ اُگر سر ہلاتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’یہ ہم ایسے ان سائنٹیفک لوگوں ہی کی وجہ سے ہے جو اِدھر بیویوں کو اور اُدھر دیس بھر کو مصیبت پڑی ہوئی ہے۔ خواہ مخواہ کی دن دُونی رات چوگنی، ترقی ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’تمھارے اور میرے جیسے لوگوں کو تو خصّی کر دینا چاہیے… اس سے تو اچھّا ہے، حجامت کے لیے وہاں، سیلُون چلے جایا کرو۔‘‘
’’نہ بھیّا‘‘ میں کہتا ہوں ’’سیلون مہنگا پڑتا ہے۔ گھر ہی اچھا ہے۔ تُو آج اُن کے چکر میں کیسے پڑ گیا؟‘‘
’’کیا بتاؤں یار؟‘‘ اُگر داڑھی کے ان کٹے حصّے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے—— ’’مؤناتھ سے میرے مؤسا دینا ناتھ آئے تھے۔ کہنے لگے سنگم پر نہائیں گے۔ میں نے کہا ’’نہائیے، میرا کیا جاتا ہے؟ جب تک میں حجامت بنوا لوں گا… اور یُوں میں ان کمینوں کے چکر میں پھنس گیا۔‘‘
اور میں اُگرسین کی طرف دیکھ کر ہنستا ہوں۔ لوک پتی نے اس کے چہرے پر کیا خوبصورت ڈاگ بنگلہ بنا دیا ہے۔ یعنی کہ مکان بھی ہے اور لان بھی ہے۔ ایک طرف سفیدی، دوسری طرف سیاہی —— معلوم ہوتا ہے، اپنے ہی ساتھ منھ کالا کیا ہے … اور پھر یکایک میری ہنسی بند ہو جاتی ہے— میں بھی تو ایسا ہی بُودم لگ رہا ہوں۔ اُگرسین کہیں منھ نہیں دکھا سکتا، تو میں بھی دفتر نہیں جا سکتا۔
ایک ہمدردی کی نظر سے اُگرسین کی طرف دیکھتے ہوئے میں اپنی بانہیں اس کے گِرد ڈال دیتا ہوں اور کہتا ہوں— ’’کوئی بات نہیں ، دوست! زندگی میں ایسا بھی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’زندگی کی ایسی تیسی‘‘ اُگرسین ایک دم آگ بگولا ہو کر کہتا ہے۔ بجائے اس بات کے کہ اس کی تسلّی ہو، میری ہمدردی کے الفاظ اس کی جلتی پر تیل کا کام کر جاتے ہیں اور وہ گالیاں، جو اُگر مجھے دیا کرتا تھا، حجّاموں کو دینے لگتا ہے۔ ’’اُن کی … ہر بات میں نفع خوری! اس نے پُورے مُلک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے‘‘ اور پھر ایک اور گالی، پہلی سے ذرا چھوٹی عمر کی اور کنواری… مجھے بڑی جلن ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے، میرے بجائے اس نے لوک پتی کو اپنا سالا بنا لیا ہے۔
’’سُنو اُگر۔‘‘ میں پوچھتا ہوں ’’تم کب سے اہنسا کے قائل ہو گئے؟‘‘
’’کیا کرتا؟‘‘
’’ارے لگاتے پکڑ کے اُسے، دو چار۔‘‘
اور ایسا کرنے میں مَیں اپنا مُکاّ زور سے ہَوا میں گھماتا ہوں۔ منھ میں گالیاں منمناتا ہوں، جو سب نا مرد لوگ کرتے ہیں—— ’’کیوں تم نے اس کی پٹائی نہ کی؟‘‘
’’کیسے کرتا؟‘‘ اُگرسین حجاموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے ’’یہ سامنے کیبنٹ ہیں نا، ان میں جتنے بیٹھے ہیں، سب کے ہاتھ میں ایک ایک اُسترا ہے۔‘‘
پھر ہم دونوں مل کر ہنستے ہیں، ایکا ایکی خفا ہو اُٹھتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے لنڈورے منھ کی طرف دیکھ کر کِھل کھِلا اُٹھتے ہیں۔ آخر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جیسے کیسے بھی ہیں، اپنے دیش کے نائی ہیں۔ ہمارے بیٹے بیٹیوں کا یہی رشتہ لانے والے ہیں۔ ہمیں ان سے سامنے کا جھگڑا نہیں مول لینا چاہیے۔ آخر تو اپنا گلا ان ہی کے ہاتھ میں آنا ہے۔
سنگم پر عورتیں نہا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک کا بھی جسم اچھا نہیں۔ کسی کا پیٹ لٹکا ہوا ہے، تو کسی کی ٹانگیں اوپر اُٹھی ہوئیں۔ معلوم ہوتا ہے نیشنل بنک کا ٹیلر (Teller) ہے، جو اونچی کرسی پر بیٹھا ہوا پبلک کے ساتھ بزنس کر رہا ہے۔ ایک بُڑھیا ہے، شہر کے گوالوں نے جس کی ممتا کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا اور بھرے بازار بیچ ڈالا۔ پیٹھ سے لگا ہوا اس کا پیٹ، سوکھی مرگھلّی ٹانگیں اور ٹھُنٹ سے بازو ہیں، جو دیکھنے میں اوپر اُٹھ کر سورج بھگوان کو انجلی ارپت کر رہے ہیں، لیکن اصل میں لپک لپک کر کیندری سرکار کے محکمے خوراک کی جان کو رو رہے ہیں۔ جیسے ہماری تصویر ’’پاتھیر پنچالی‘‘ بدیس پہنچی ہے اور وہاں کے لوگوں نے بہت پسند کی ہے، اسی طرح باہر کے لوگ اس بُڑھیا کی تصویر دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ فوٹو گرافی میں دُنیا کا سب سے بڑا انعام اسے ملے اور دُنیا بھر کے ملکوں سے غلّے کے جہاز کہیں اور جانے کے بجائے ہندوستان کی طرف پلٹ پڑیں… اچھی عورتیں ہمارے ملک میں کہاں رہ گئیں؟ وہ تو اب صرف کلینڈروں پر دکھائی دیتی ہیں، بشرطیکہ وہ بھی ’’لیڈر پریس‘‘ میں چھپے ہوں… ارے نہیں بھائی! اب بھی کہیں کوئی ایک آدھ دکھائی پڑ ہی جاتی ہے۔ وہ دیکھو سامنے… ایک نوعمر، نوخیز لڑکی بھی ہے۔ چلو ایک تو ہے جس نے صبح کے خالی منظر کو بھر دیا، اور رام دھُن کی یکساں اور تھکا دینے والی آواز مرتعش کر دی… وہ ساری سمیت نہا رہی ہے لیکن بے چاری،شرم کی ماری، ساڑھی کے بغیر بھی ہوتی تو نظر نہ آتی… پانی کی وجہ سے کپڑا اس کے بدن کے ساتھ چپک چپک جاتا ہے ، ادھر اُدھر دیکھتی ہوئی، جسے وہ بار بار اپنے آپ سے علاحدہ کرتی ہے۔ ہندستانیوں کی پُوری قوم کی طرح وہ اپنے جسم کو ناپاک اور نجس سمجھتی ہے اور اس غلط فہمی میں ہے کہ گنگا کا پانی اس کے عورت پنے کی گندگی اور میل کو دھو ڈالے گا، اس کے جسم کو پاک کر دے گا۔ کوئی بھی پانی اس کے جسم کو پاک نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ پانی جس سے زندگی عبارت ہے، اس میں وہ کھُل کے نہا نہیں سکتی۔ اس میں نہائے بغیر بھی نہیں رہ سکتی۔ اس کے بھائیوں کو اس احساس سے کوئی نہیں نکال سکتا کہ وہ جی رہے ہیں تو کتنا بڑا گناہ کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن کی گہرائیوں میں یہ چیز بس چکی ہے کہ گائے کے دودھ پر صرف بچھڑے کا حق ہے اور وہ دودھ پِیے بغیر نہیں رہ سکتے، بچھڑے کے ساتھ پاپ کیے بغیر کبھی نہیں رہ سکتے…
… ہا! یہ دُنیا دُکھ کا گھر ہے جس میں بڑی مچھلی، چھوٹی مچھلی کو کھا رہی ہے۔ سانس بھی لیتے ہیں تو ہزاروں کیڑے ہوا کے ساتھ اندر جاتے ہیں، ہلاک ہو جاتے ہیں۔ کیا کوئی ذریعہ نہیں—— پُران اور شاستر کا کوئی حوالہ نہیں جو اس سچ کو جھٹلا سکے کہ زندگی کا آدھار زندگی پر ہے؟ چلو، زندہ رہنے کے لیے اگر زندگی لینا ہی ضروری ہے تو کم سے کم تتوؤں کا ناش کیا جائے۔ مرد میں پانچ تتو ہوتے ہیں۔ ہوتے عورت میں بھی پانچ ہی ہیں، لیکن ہر دوسرے سال خاک اور خون میں لتھڑنے ،بچّے پیدا کرنے، گھربار میں اُلجھے رہنے کی وجہ سے آخر ساڑھے چار رہ جاتے ہیں۔ گائے، گھوڑے اور بکری میں چار، مُرغی بٹیر میں تین، کیڑے مکوڑے میں دو، اور پھل سبزی میں ایک… اس لیے پھل اور سبزی ہی سے پیٹ کا نرک بھرنا اچھا۔ آخر ایک ہی تتو کا ناش ہوتا ہے نا…
ارے، یاد آیا … مٹّی اگرچہ اُپجاؤ ہوتی ہے، اس پر بھی اس میں آدھا یا کوئی بھی تتو نہیں ہوتا۔ اس لیے مٹّی کھانی چاہیے۔ میں، بدھان چند، پرکھوں سے اچھا ہندو ہونے کے کارن کل سے مِٹّی ہی کا بھوجن کیا کروں گا۔
کشتی والے دھڑا دھڑ شردھا مارے لوگوں کو بیچ منجدھار کے لے جا رہے ہیں، جہاں گنگا جمنا اور سرسوتی ملتے ہیں۔ پانڈے لوگ پُوجا کے پھُول ٹوکریوں میں لیے انھیں دے رہے ہیں اور مختلف بہانوں سے پیسے بٹور رہے ہیں۔ ہاں، پھُول زمین پر تھوڑے اُگتے ہیں؟ وہ زمانہ گیا جب کمل اپنے آپ کِھل جایا کرتے تھے اور دھرتی کا اُلہاس اُوپر چلا آتا تھا۔ اور اس کی چھاتیوں پر موتیا اور کرنے اور مروا کے ساتھ چنبیلی، گلاب اور صد برگ کے نقش و نگار بنا دیا کرتا تھا۔
یہ لیجیے نو بج گئے —— اب ہم زچ ہونے لگے ہیں۔
مَیں اور اُگرسین دونوں ٹہلتے ہوئے لوک پتی کی طرف جانے لگتے ہیں۔ جبھی لوک پتی کا چوتھا گاہک بھی اپنی طرف آتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگرچہ میں اسے نہیں جانتا، لیکن شکل ہی سے وہ اپنی برادری کا جان پڑتا ہے——ویسے ہی آدھا مُنڈا ہوا، ویسے ہی دو چار خط چہرے کے بائیں طرف لگے ہوئے… میں ذرا ہمّت کر کے آگے بڑھتا ہوں اور اس سے پوچھتا ہوں——
’’کیوں بھیّا، کیا حال ہے؟‘‘
’’اچھا ہے‘‘ وہ کچھ جھینپ کر کہتا ہے۔
’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’یہی ——دُنیا کے رنگ۔‘‘
اور پھر وہ داڑھی کے ان کٹے حصّے پر ہاتھ پھیرنے لگتا ہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ہم تینوں ہنس رہے ہیں اور پھر ایکا ایکی تینوں ہی خفا ہو اُٹھے ہیں۔ میں اُگر سے کہتا ہوں،’’یہ ٹھیک ہے، لوک پتی کے ہاتھ میں اُسترا ہے۔ لیکن اگر ہم چاروں مل کر اس پر جھپٹ پڑیں تو وہ ہماری داڑھی صاف کرے یا نہ کرے، ہم ضرور اس کی طبیعت صاف کرسکتے ہیں۔‘‘
’’اُگر شک و شبہے کی نگاہ سے میری طرف دیکھنے لگتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو —— ’’چاروں مل کے؟‘‘ گویا کہ ہم چار کبھی مل ہی نہیں سکتے اور اگر مل گئے تو پھر ہم ہندستانی نہیں، ضرور ہم میں سے کسی کی رگوں میں بدیشی خون دَوڑ رہا ہے۔ اگر مجھے دفتر نہ جانا ہوتا تو بھائی میں تو ضرور ان کے ساتھ مل جاتا۔ ہاں، یہ چوتھا بھائی ہمارا —— خدا معلوم اس کی کیا آئیڈیا لوجی ہے؟
ہمارا چوتھا بھائی ہنکارنے لگتا ہے —— وہ لوک پتی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف زہر اُگلنے لگتا ہے — ’’یہ لُوٹ کھسوٹ، یہ نفع خوری غیر قانونی، غیر جمہوری ہے۔ ہمیں اس کے خلاف جہاد کرنا چاہیے، بغاوت کرنی چاہیے‘‘ اور پھر وہ دُور ہی سے حجّاموں کو دھمکیاں دینے لگتا ہے۔ جب وہ شروع ہوا تھا تو میں سمجھا اس کے ہاتھ میں اُسترے سے بھی تیز کوئی ہتھیار ہو گا، جسے گھماتے ہوئے وہ زور سے للکارے گا۔ دنیا جہان کے اَن مُنڈے لوگوں کو اُکسا بھڑکا کر، اپنی مدد کے لیے آمادہ کر لے گا اور لوک پتی اور اس کے ساتھیوں کا خون کر ڈالے گا۔ لیکن یہ جان کر دُکھ بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی کہ وہ بھی ہماری طرح پارلیمنٹری ڈیموکریسی کا قائل ہو گیا ہے، جہاں ہم تقریر کر کر کے ہار چکے ہیں، وہ نیا بھرتی ہونے کی وجہ سے ابھی تک جوش کے عالم میں چلاّ رہا ہے۔ زمین سے چار چار فٹ اُوپر اُچھل رہا ہے اور جب اُچھلتا ہے تو کچھ آگے بڑھنے کی بجائے تھوڑا پیچھے ہٹ جاتا ہے…
’’یہ لوک پتی‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’کہیں باہر سے دو اچھّر تو پڑھ آیا ہے، اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگا ہے۔ دُنیا جہان کی بہو بیٹیوں سے آنکھیں لڑاتا پھرتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کے اپنے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ جب وہ اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے، اس کی بیوی اسٹیل والے ایک سیٹھ کے ساتھ راس رچائے رہتی ہے۔ لڑکی ایک سٹئی کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے اور لڑکا چوا بازار کے کوٹھوں کا طواف کرتا ہے…‘‘
یہ چوتھا بھائی ہمار یہاں کے سب حجاّموں کو جانتا ہے۔ سب کے کچّے چٹھے کھول کر ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ یہ اسی نے بتایا ، ان میں تین چار اچھے حجاّم تھے جو پوری حجامت بنانے کے قائل تھے، لیکن بدقسمتی سے وہ ایک ایک کر کے مر گئے اور یا باقیوں کے شور مچانے کی وجہ سے نکال دیے گئے۔ وہ سب لوک پتی کے دوست تھے، اور ان کی وجہ سے لوک پتی سب کچھ کرسکتا تھا۔ کیونکہ اس کی سوجھ بوجھ اچھی تھی، نیت صاف تھی، لیکن ان کے چلے جانے کے بعد وہ اکیلا رہ گیا ہے۔ مجبوراً اسے دوسروں کی حرکتوں پر خاموش رہنا پڑتا ہے۔ اور کبھی وہ خود بھی وہی کرنے لگتا ہے جو اس کے باقی حجاّم ساتھی کرتے ہیں۔
ان حجاّموں کے علاوہ دوسرے جو دڑبوں سے باہر بیٹھے ہیں، اس کھیل کے قاعدے قانون سے واقف ہو چکے ہیں۔ الہٰ آباد شہر، جس کے نیچے کہیں سرسوتی بہتی ہے، کسی ایسے شخص کو جذب نہیں کرسکتا جو پڑھا لکھا نہ ہو۔ اگر اتفاق سے کوئی اَن پڑھ آ بھی جائے تو چند ہی دن میں وہ اتنا پڑھ جاتا ہے کہ یونیورسٹی کا کوئی بھی اچھّے سے اچھّا ودیارتھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ الہ آباد کے حجاّم، آدمی بڑے مزے کے ہیں۔ خوب دور کی سوچتے ہیں۔ لمبی چوڑی یوجنائیں بناتے ہیں، جن میں سے پوری ایک بھی نہیں کر پاتے۔ بس بھاشن دیتے ہیں۔ زبان کے معاملے میں رائے ضرور رکھتے ہیں، لیکن اسے عملی جامہ پہنانا تو ایک طرف ننگا بھی گھومنے نہیں دیتے۔ آپس میں مل کر کچھ گوشٹی سی کرتے رہتے ہیں… ان میں سے ایک شاعر ہے جس کا نام چندربھان ہے اور جو دیوگؔ تخلّص کرتا ہے۔ ہندی کے چھند سے اُردو کو عقل مند بناتا ہے۔ طبیعت اس قدر حاضر ہے کہ اپسرا کی بجائے، دیو بالک پسند کرتا ہے۔ جانتا ہے نا کہ عورت سے پیار تو ایک قدرتی بات ہے ،لیکن مرد سے پیار سرواُچ کلا …
ایک دن بیٹھے بیٹھے چندربھان دیوگؔ نے بہت پی لی اور رویا کے عالم میں بہت رویا۔ اسے یقین ہو گیا کہ وہ پیغمبر ہے۔ ہائے، دنیا نے نہیں سمجھا۔ میں نے کہا —— ’’کوئی بات نہیں دیوگ جی۔ دنیا آج نہیں تو کل آپ کو سمجھ لے گی…‘‘ پھر مدہومدیرا کے سب راز چندربھان دیوگؔ پر کھُل گئے اور وہ نشے میں دھُت رہنے لگا۔ اب وہ جیون کے رنگ منچ پر آتا تو خوب ہی لڑکھڑاتا۔ لوگ اس کے لڑکھڑانے کو بھی ابھِنے کی ایک قسم سمجھتے، جسے ناچتے ناچتے اس کے باقی ساتھی تو رنگ منچ کے وِنگ میں گئے، سو گئے…
چند ہی برسوں کی بات ہے الہ آباد کے ان حجاّموں میں پنجاب کا ایک حجاّم آ گیا۔بس، پھر کیا تھا، سب لٹھ لے کر اس کی طرف دوڑے اور اسے نکال پھینکنے کی ترکیبیں لڑانے لگے۔ لیکن وہ بھی ایک ہی بدمعاش تھا۔ باقاعدہ سینہ تان کر سامنے کھڑا ہو گیا۔ اگر کسی نے ایک اُسترا نکالا تو اُس نے دو نکال لیے۔ باقی حجاّم ڈر کر بیٹھ گئے اور سامنے ہو کر لڑنے کی بجائے نیتی کی باتیں کرنے لگے۔ وہ گھاگ سب کچھ سمجھ گیا۔ اس نے اپنے کیبن کے پیچھے سے کچھ تختے نکال کر ایک کھڑکی بنالی اور اس پر ایک بورڈ لگا دیا — — ’’کوشک چیری ٹیبل، ہومیوپیتھک ڈسپنسری‘‘ اور کچھ دوائی کی شیشیاں رکھ لیں ——مدرٹنکچر، چھ ایکس پوٹینسی، تیس، دوسو، ہزار، پچاس ہزار، لاکھ کی پوٹینسی۔ بس پھر کیا تھا۔ آس پاس کے غریب غربا، بنا پوٹینسی کے سب لوگ علاج کے لیے اس کے پاس آنے لگے۔ دوسرے حجاّم لوگ بِدکے۔ ایک میٹنگ کر کے انھوں نے اس کے خلاف فیصلہ کر لیا، لیکن جب تک کوشک، کمیٹی کی حمایت حاصل کر چکا تھا۔ اس سے گرانٹ بھی لے چکا تھا۔ اب اسے وہاں سے کوئی نہ ہلا سکتا تھا۔ چنانچہ آج تک وہ وہاں بیٹھا ،سب کی چھاتی پر مونگ دَل رہا ہے۔ چہ جائے کہ باقی حجاّم اس کا کچھ بگاڑ سکیں، اپنے بھی بیٹوں بیٹیوں کے رشتے، نائی ہونے کے ناطے اس سے کرواتے ہیں۔
اس پر طرہّ یہ کہ ان کے بیچ ایک حجاّم بھی چلا آیا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اس کا کاروبار کیا چلے گا جس کی اپنی شیو نہیں بنی ہے۔ لیکن صاحب، جو اندازہ سیانے کا ہوتا ہے، دیوانے کا نہیں ہوتا۔ اُلٹا اس کے پاس زیادہ گاہک آنے لگے۔ وہ جانتے تھے نا کہ بالوں کے بارے میں جتنا یہ جانتا ہے، کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔ اگر اسے بالوں سے محبت ہو گی تو ایسی پیاری شیو بنائے گا کہ راہ چلتی لڑکی گال سے گال رگڑے گی اور نفرت ہو گی تو یوں کھونٹی سے اُکھاڑ پھینکے گا کہ سات جنم تک ٹھوڑی پہ بال اُگیں گے، نہ دماغ میں خیال پیدا ہو گا۔
یہ چوتھا بھائی ہمارا، سنگم کے نائیوں کے بارے میں اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا ہے، لیکن میں اُگرسین کو آنکھ مارتا ہوں اور کہتا ہوں —— ’’بھائی، میں تو چلا، ساڑھے نو ہو گئے۔‘‘
اُگر حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے’’ایسے ہی چل دو گے، جل توری؟‘‘ ’’کیا کروں؟‘‘ میں کہتا ہوں ’’گیا تو بیوی ہی چلی جائے گی نا، نوکری تو نہیں جائے گی؟‘‘
اور حسرت کی نظر سے لوک پتی کو دیکھتے ہوئے چل دیتا ہوں، جس کے پاس ابھی تک گاہکوں کا تانتا بندھا ہے۔ میرے من میں یہ خیال چٹکی لیتا ہے کہ شاید لوک پتی اب بھی مجھے بلا لے اور اگلے پانچ منٹ میں نک سُک سے درست ہو کر جاؤں۔ لیکن صاحب، لوک پتی کو کہاں وقت ہے؟ اور میں رکشا لے کر گھر پہنچ جاتا ہوں…
ودّیا ، میری بیوی میرا انتظار کر رہی ہے۔
’’ہائے جی، کیا ہوا‘‘ وہ چوکھٹ پر میری آہٹ سنتے ہوئے بول اُٹھتی ہے۔
’’کیا ہوا کیا؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔
’’کہاں بھانگ پی کے پڑ گئے؟‘‘
میں کوئی جواب نہیں دیتا، لیکن وہ کہے جاتی ہے ’’اتنا بھی نہ سوچا، دفتر کا وقت ہو گیا۔ تمھیں تو بس کوئی باتیں کرنے کو مل جائے…‘‘
جبھی اس کی نگاہ میرے چہرے پر پڑتی ہے——
’’سیاّ ری!‘‘ وہ کہتی ہے ’’یہ کیا؟‘‘ اور پھر وہ دوپٹّہ منھ پر کرتے ہوئے ہنسنے لگتی ہے۔ پھر اس پہ بس نہیں۔ پڑوس میں آواز دیتی ہے’’جگن بھیّا۔‘‘ اے ذرا ان کو بھی دیکھنا—‘‘
میں ہاتھ جوڑ دیتا ہوں۔ ’’وِدّیا —— بھگوان کے لیے …‘‘
اور پھر وہ خود ہی دیکھنے کے لیے ہاتھ میری داڑھی کی طرف بڑھاتی ہے۔
’’خبردار‘‘ میں اس کا ہاتھ جھٹکتے، خفا ہوتے ہوئے کہتا ہوں ’’تو ہاتھ لگائے گی تو میں لات لگاؤں گا۔‘‘
اور پھر میں سوچتا ہوں —— اس میں بیچاری وِدّیا کا کیا قصور؟ ایک سرد آہ بھرتے ہوئے میں اسے صرف اتنا ہی کہتا ہوں ’’شکر کرو تم عورتوں کی حجامت کسی لوک پتی نے نہیں، ترلوک پتی نے بنائی ہے‘‘ اور ایسا کرنے میں مَیں اُوپر بھگوان کی طرف اشارا کرتا ہوں۔
’’ہمیں اور تھوڑی مصیبتیں ہیں؟‘‘ وِدّیا کہتی ہے ’’تمھیں تو صرف ایک حجامت بنوانی پڑتی ہے۔‘‘
اس کے بعد وِدّیا کھانا نکالنے لگتی ہے۔ میں غصّے میں کہتا ہوں— ’’آج کھانا نہیں کھاؤں گا۔‘‘
وہ ہاتھ ملتے ہوئے کہتی ہے ’’ہائے جی، کیا انرتھ ہے۔ گِرے گدھے پر سے، اور غصّہ غریب کمہار پر نکال رہے ہو—؟‘‘
پھر میں سوچتا ہوں —— کھانے کے ساتھ میرا کیا جھگڑا؟— ’’اچھّا، لاؤ کھانا۔‘‘
وِدّیا کھانا پروستی ہے۔ میں جلدی جلدی نوالے منھ میں ڈالتا ہوں، جو اُوپر سے نیچے جانے کے بجائے، نیچے سے —— اُوپر جانے لگتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے میں کھانا نہیں کھا رہا، کھانا مجھے کھا رہا ہے۔ یا کوئی نیولی کرم کرنے بیٹھا ہوں۔ کھانا کھاتے ہوئے ہمدردی، محض ہمدردی حاصل کرنے کے لیے وِدّیا کے سامنے اپنی آج کی مصیبت کی داستان دُہراتا ہوں۔ وہ بے چاری، بھولی بھالی نہیں سمجھتی کہ اس کے مُنھ سے نکلا ایک بھی ہمدردی کا لفظ مجھے کتنا دُکھ پہنچائے گا۔ میرے بیان کے آخر میں وہ کہہ اُٹھتی ہے۔
’’ٹپکی پڑے ان نگوڑوں پر ——آج دفتر مت جاؤ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’خواہ مخواہ کیوں تماشا بننا——‘‘
اس پر میں ایکا ایکی بھڑک اُٹھتا ہوں—— کیا مطلب؟—— میری شکل—— میں اسے بھی تماشا دکھائی دے رہا ہوں؟ کم از کم اسے تو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ میں دفتر نہیں جا سکتا تو گھر بھی نہیں آسکتا؟ اور میں وِدّیا کو گالیاں دینے لگتا ہوں، جو دراصل مجھے سنگم کے نائیوں کو دینا چاہئیں تھیں، یا اپنے آپ کو ۔ وِدّیا اندر چلی جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں، مجھ سے ڈر گئی۔ لیکن وہ باہر آتی ہے تو ہاتھ میں ایک کٹوری لاتی ہے جس میں گرم پانی ہے۔ دوسرے ہاتھ میں شیونگ اسٹک اور اُسترا۔ سیفٹی نہیں، وہی لوک پتی والا ……
میں سوچتا ہوں۔ چلو اُسترا کُند ہے تو کیا۔ ذرا زور سے لگاؤں گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر بجائے اس کے کہ لوگ مجھ پر ہنسیں، میں اُن پر ہنسوں گا۔ چنانچہ جلدی جلدی چہرے پر جھاگ پیدا کر کے میں اُسترا پھیرنا شروع کرتا ہوں۔ لیکن صاحب، اُسترا ہے کہ کہیں بھی ٹکنے کی بجائے، اوپر سے یوں پھسلتا ہوا ٹھوڑی پر آ جاتا ہے، جیسے پارک میں سلپنگ روسٹرم سے بچے ایک دم پھسلتے ہوئے نیچے آ رہتے ہیں… میں جھلاّ کر پانی کی کٹوری نیچے پٹخ دیتا ہوں۔ اُسترا دُور پھینک دیتا ہوں۔
’’کیا بکواس ہے‘‘ میں ہنکارتا ہوں —— ’’ہ اُسترا لے کے دیا تھا… تیرے میکے والوں نے؟‘‘
’’ہائے جی‘‘ وِدّیا کہتی ہے‘‘ اُنھوں نے تو ٹھیک ہی لے کر دیا تھا۔ تم ہی نے سِلّی گُم کر دی۔‘‘
’’کس نے سِلّی گُم کر دی؟‘‘
’’تم نے —— روز نکال بیٹھتے تھے۔‘‘
’’جھُوٹ!——معلوم ہوتا ہے تم اس سے اروی چھیلتی رہی ہو۔‘‘
وِدّیا خفیف سی ہو کر اُسترا اُٹھا لیتی ہے۔ میں پلٹ کر اس کی طرف دیکھتا ہوں، تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ دوپٹے کے پیچھے اپنی ہنسی کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور جب میں اسے شدھ انگریزی کے لہجے میں ’’شٹ اپ‘‘ کہتا ہوں، تو معلوم ہوتا ہے غلطی سے ’’بک اپ‘‘ کہہ دیا۔ ایک قہقہہ پوری فضا کو بھر دیتا ہے اور وِدّیا اُسترے کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے مجھے دکھاتی ہے ’’حجامت ہو بھی کیسے، اُلٹے ہی استرے سے اپنے آپ کو مُونڈتے رہے۔‘‘
میں دیکھتا ہوں جلدی کے عالم میں مَیں سچ مچ اپنے منھ پر اُلٹا اُسترا پھیرتا رہا تھا۔ وِدّیا کہتی ہے ’’خواہ مخواہ میرے مائیکے والوں کا نام بدّو کیا۔‘‘
’’اچھّا اچھّا‘‘ میں جِز بِز ہو کر کہتا ہوں اور پھر اپنی پوری سبھِّتا، اپنے پورے کرم دھرم ،اپنے اعتقادات پر تبرّے بھیجنے لگتا ہوں۔ وِدّیا بول اُٹھتی ہے ’’خبردار—! اس میں سنگم کا کیا قصور؟ گنگا میّا کا کیا دوش؟— میں تو کہتی ہوں۔ میں مروں تو مجھے جلانا مت۔ گنگا میں میرا جل پروا کر دینا——‘‘
اور میں یہی سوچتے ہوئے چل دیتا ہوں۔ گنگا میں جل پروا؟ کیسی مان مریادا ہے یہ؟ کیسا پاگل پن ہے ہماری پوری قوم کا؟ اور مجھے یاد آتا ہے وہ دن، جب میں دروپدی گھاٹ کی طرف گنگا میں نہانے نکل گیا تھا۔ سردی اور گرمی، بیچ کے دن تھے۔ گنگا میں جب باڑھ نہیں آئی تھی اور دریا منوں ہی بالو چھوڑ کر خود کناروں سے بہت دور چلا گیا تھا۔ مجھے دریاؤں اور چشموں کا بہت شوق ہے۔ باؤلے کُتّے کا کاٹا ہوا جتنا پانی کو دیکھ کر ڈرتا ہے، اتنا ہی میں پانی کے نظارے سے خوش ہوتا ہوں۔ پہلے کنارے کے پاس کی چکنی مٹی پیٹ پر ملتا ہوں، جس سے جسم کی بیماریاں تو کیا دِل اور دماغ کی بھی ساری اُلجھنیں جاتی رہتی ہیں۔ پھر اڈولف جُسٹ کاسِٹز باتھ لیتا ہوں، جس میں اپنے بدن کے نہایت شرمناک حصّے کو پانی میں ڈبو کر ایک ہاتھ سے پانی پیٹ پر ڈالتا ہوں اور دوسرے سے پیٹ کو خوب ہی زور سے ملتا ہوں۔ اندر آنتیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ مرے ہوئے ٹِشو بھی زندہ ہو جاتے ہیں۔ پھر کنارے پر کھڑے ہو کر تولیے کی بجائے ہاتھ سے پورا جسم رگڑتا ہوں۔ روم روم جاگ اُٹھتا ہے اور بدن اسکول کی لڑکی کے بدن کی طرح، نرم اور چکنا ہو جاتا ہے۔ چونکہ ننگا ہوتا ہوں اور سب کی طرف دیکھتا بھی ہوں، اس لیے میری طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ بندر بھی گھبرا کر بھاگ جاتے ہیں۔ شاید سمجھتے ہیں کہ ہم سے بڑا کوئی آ گیا۔ چنانچہ اس دن باتھ لینے کے لیے گیا تو کیا دیکھتا ہوں، ایک انسانی کھوپڑی پڑی ہے، جس کے ساتھ ریڑھ کی ہڈی لگی ہے۔ ضرور کسی ودّیا کی بہن یا اس کے بھائی کا جل پروا ہوا ہو گا۔ مجھے اس کا اتنا نہیں لگا ،جتنا اس بات کا کہ ——ہائیں! ہم ہندستانیوں کے بھی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے!—— یہ نہیں ہو سکتا۔ کسی اور قوم کا کوئی آ کر یہاں ڈوب مرا ہو —— مگر ایسا ہو تو دنیا جہان میں کہرام مچ جائے اور وہاں کے لوگ رِگ لگا کر پوری بالو کو چھان ماریں اور اپنا مُردہ بھی یہاں سے نکال کر لے جائیں…
اس کھوپڑی سے کچھ پرے ہو کر کنارے پر کپڑے رکھتے ہوئے میں پانی میں اُترا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ پاس ہی کے ایک اُجول اور پاون جل میں سچ مچ کا ایک مُردہ پڑا ہے۔ میں اُچھل کر باہر آ گیا اور گھِن اور خوف سے کانپتا ہوا اس کی طرف دیکھنے لگا ،جس کا جل پروا ہوا تھا اور اب اِسے جل کی پروا نہ تھی—— اس کے بدن کا گوشت مچھلیاں کھاچکی تھیں۔ اگر میں بھُولتا نہیں، تو مُردے کے نُچے ہوئے چہرے پر ایک طرف داڑھی تھی اور دوسری طرف سب صفاچٹ تھا۔ آج کے تجربے سے میں اس بات کا اندازہ کرتا ہوں کہ مرنے سے پہلے وہ ضرور سنگم پر گیا ہو گا اور وہاں کے کسی لوک پتی، چندربھان یا کوشِک سے حجامت بنوائی ہو گی!—خیر میں اپنے کپڑے پکڑ کر دریا کے اوپر کی طرف ہولیا، تاکہ اس نمازی مرد کے گھناؤنے بدن سے لگا ہوا پانی مجھ تک نہ آئے۔ ایک بار پھر کپڑے رکھ کر دریا میں اترا ہی تھا کہ پانی میں سے دو ٹانگیں باہر اُٹھتی ہوئی دِکھائی دیں۔ میں بھاگ آیا اور جب سے میں نے دروپدی گھاٹ تو کیا ،کسی سیتا یا ساوتری گھاٹ پر بھی نہانے کا ارادہ نہیں کیا——اور یہ ودّیا، میری بیوی، ایک عجیب طرح کے پاگل پنے میں اپنا جل پروا کرنے کو کہہ رہی ہے… نا بابا! میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد بھی کسی کی ٹانگیں یوں پانی سے باہر اُٹھی ہوں۔
بازار جاتا ہوں تو وہاں ایک مسلمنٹے سے میری لڑائی ہونے لگتی ہے۔ ایک پل میں یوں نظر آنے لگتا ہے، جیسے شہر بھر میں ہندومسلم فساد ہو کر رہیں گے۔ کشتوں کے پُشتے لگ جائیں گے۔ یہ بات نہیں کہ وہ میری طرف دیکھ کر ہنس دیا۔ اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ وہ ایک شعر گنگنا رہا تھا ؎
یہ عجب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
اس نے صرف ایک بار میری طرف دیکھا تھا اور میں نے سمجھا وہ شعر مجھ پر چپکا رہا ہے۔ میری آدھی منڈی ہوئی داڑھی کا مذاق اُڑا رہا ہے۔ مگر جب کوئی مسلمان اللہ رسول کی قسمیں کھاتا ہے، تب تو ماننا ہی پڑتا ہے۔ یہ طے بات ہے کہ وہ یوں ہی اپنے البیلے پن میں شعر پڑھ رہا ہو گا اور میں اپنی نروز کا شکار اسے غلط سمجھ گیا ہوں گا۔
میں دفتر پہنچتا ہوں—— لیٹ!… اور چپکے سے اپنی سیٹ میں جا دبکتا ہوں۔ یوں کام میں لگ جاتا ہوں، جیسے صبح ہی سے مرنے کی فرصت نہیں اور قریب دو گھنٹے سے اس دفتری نزع کے عالم میں رہا ہوں۔ کلرک میری طرف دیکھتے ہیں ۔ کھُل کے ہنستے ہیں اور بار بار میری عیادت کے لیے آتے ہیں۔ اس عرصے میں میرا سیکشن انچارج صرف ایک بار میرے پاس آتا ہے۔ میں بہت کچھ اپنا چہرہ اس سے چھپانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن جبھی لاگ بُک کے گُم ہو جانے میں جو ہنگامہ بپا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے، اپنے آپ کو بھُول کر مجھے اس کی طرف دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ وہ میری طرف دیکھتے ہی کہہ اُٹھتا ہے—— ’’آج تم سنگم پر گئے تھے؟‘‘
’’جی، سر‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔ اور میرا ہاتھ اپنے آپ چہرے کی طرف اُٹھ جاتا ہے۔ میں ڈرتا، لرزتا ہوں کہ نہ معلوم اب وہ مجھے کیا کہے گا؟ لیکن صاحب وہ ایک ایسی بات کرتا ہے کہ میں سوچتا رہ جاتا ہوں کہ اس بات سے میری داڑھی کا کیا تعلق؟ وہ کہتا ہے—— ’’کوئی بات نہیں… لاگ بُک کل مل جائے گی——‘‘… پھر وہ چلا جاتا ہے۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ چہرہ کانوں تک تمتما اُٹھتا ہے اور اس کے اَن منڈے حصّے پر ایکا ایکی عجیب سی خارش ہونے لگتی ہے۔ میں جتنا اسے کھجاتا ہوں، اُتنا ہی اوپر سے نیچے تک میری خارش بڑھتی جاتی ہے۔
میں کام کے بیچ سے اُٹھ کر، اپنا جی لگانے کے لیے باہر چلا جاتا ہوں۔ کچھ ٹورسٹ آتے ہیں، جو میری طرف بالکل نہیں دیکھتے۔ باہر کے لوگوں کا یہی ہوتا ہے نا، ہم ہندستانیوں کی طرح دوسرے کے پرائیوٹ معاملوں میں اپنی ٹانگ نہیں اڑاتے۔ ان میں سے ایک بنچ پر میرے پاس آبیٹھتا ہے اور اپنا ایئربیگ نکال کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ پھر وہ بظاہر ایک اچٹتی ہوئی نظر مجھ پر ڈالتے، اپنا بیگ پکڑ کر اس میں سے آئینہ نکالتے ہوئے اپنا منھ دیکھنے لگتا ہے۔
میری سمجھ میں کچھ آتا ہے، کچھ نہیں آتا۔ اگر سویرے، بازار میں اس مسلمنٹے سے میری لڑائی نہ ہوتی تو شاید میں اس گورے کرسٹان سے بھی بھڑ جاتا۔ شاید میں اس لیے چُپ رہا کہ ان گوروں کا اب تک ہم پر بہت رعب ہے—— یہ بھی ہو سکتا ہے، اس کے آئینہ دیکھنے کا میری داڑھی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ میں اس کنفیوزڈ حالت میں اس کی طرف دیکھ کر اپنی ٹوٹی پھُوٹی انگریزی میں اس سے باتیں کرنے لگتا ہوں۔
’’میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟‘‘
’’ضرور… ضرور۔‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’میرا نان رچرڈکینیڈی ہے۔‘‘
اور پھر میرے پوچھے بنا وہ کہے جاتا ہے ’’میں امریکا سے آیا ہوں۔ ہاربرویل کے شہر سے۔‘‘
میں اپنے کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتا ہوں — سالا آیا بھی ہے تو ہاربرویل سے!——یا شاید میری داڑھی کی طرف دیکھ کر اس نے کسی فرضی قصبے کا نام لے لیا۔ بہرحال، میں پھر پوچھتا ہوں۔
’’اس وقت آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
’’بنارس سے… میں سارناتھ میں بُدھ کا ستُوپ دیکھنے گیا تھا‘‘ اور پھر وہ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ’’وہاں سے گاڑی میں آیا ہوں اور اب جہاز کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
’’ستُوپ اچھا لگا آپ کو؟‘‘
’’بہت‘‘ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے ’’لیکن معلوم ہوتا ہے انڈیا میں لوگ قدیم تاریخی چیزوں کو ٹھیک سے سنبھال کر نہیں رکھتے۔ دیکھو نا، اس کے ایک طرف خشک گھاس سی اُگی ہے…‘‘
اس سے پہلے کہ میں اس کی بات پر ری ایکٹ کروں، لاؤڈ اسپیکر پر سے آواز آتی ہے—— یُور اٹنشن پلیز —— فلائٹ ٹو اوتھری کے پسنجر…‘‘
رچرڈ اپنا بیگ لیے اُٹھتا ہے۔ وہ فِقرہ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے، جو مجھ سے رخصت ہوتے، ہاتھ ملاتے، مسکراتے ہوئے اس نے کہا۔
’’میں بیکار ہی سارناتھ گیا، ستُوپ دیکھنے کے لیے۔‘‘
دفتر میں جیسے تیسے بھی دن کٹتا ہے، میں وقت سے پہلے ہی اُٹھ کر چل دیتا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ چاہے میری پوری جائداد لگ جائے، سیلون میں جا کر حجامت بنواؤں گا، پھر کوئی دُنیا کا اور کام کروں گا۔ جبھی میں اپنے آپ کو یونیورسٹی ہیر کٹنگ سیلون کے سامنے پاتا ہوں جو گرانڈ ٹرنک روڈ پر ہونے کی بجائے ، خُلدآباد کے ایک کونے میں ہے۔ سامنے اس نام کا بورڈ لگا ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے ——پروپرائٹر۔ ناصر حسین…
اندر داخل ہوتے ہی میں ایک ایسی کرسی پر جا بیٹھتا ہوں، جس میں مجھے ماں کی گود کا سا سکون حاصل ہوتا ہے۔
ناصرحسین میرے پاس آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ہاتھ کا ٹوال میرے گلے میں باندھ دے ،وہ مجھ سے پوچھتا ہے’’آپ شیعہ ہیں یا سُنّی؟‘‘
’’جی؟‘‘—— میں حیران ہوتا ہوں۔ میں پوچھتا ہوں۔ ’’آپ شیعہ مسلمان ہیں، یا سُنّی؟‘‘
’’کیوں بھائی؟‘‘ میں کہتا ہوں ’’حجامت کا شیعہ ، سُنّی سے کیا تعلق؟‘‘
’’معاف کیجیے میں… میں سُنّیوں کی حجامت نہیں بناتا۔‘‘
’’آپ شیعہ ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’تب تو اُلٹا آپ کو سُنّیوں کی خوب ہی حجامت بنانی چاہیے۔ ویسے میں ہندو شیعہ ہوں—بدھان چند میرا نام ہے۔‘‘
’’او‘‘ ناصرحسین کہتا ہے ’’پھر ٹھیک ہے۔ مجھے صرف سُنّیوں سے نفرت ہے۔ ان سے تو ہندو ہی لاکھ درجہ اچھّے ہیں۔‘‘
پھر وہ تولیہ میرے گلے میں ڈال دیتا ہے اور سنتا ہی نہیں کہ مجھے حجامت بنوانا ہے، بال نہیں کٹوانا۔ آخر اسے پتہ چل جاتا ہے اور وہ شیونگ بُرش لے کر میری طرف بڑھتا ہے۔ جبھی میرے چہرے کی طرف دیکھ کر وہ ایک دم رُک جاتا ہے!… پھر غور سے دیکھتا ہے اور شیونگ اسٹک کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے——
’’آپ اُٹھ جائیے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں حجامت کو قریب آ کر دور ہٹتے ہوئے دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں—— ’’کہا نا، میں سُنّی نہیں۔‘‘
’’سُنّی وُنّی کی بات نہیں۔‘‘
’’بات یہ ہے تو پھر ——کیا بات ہے؟‘‘
’’میں جو خوشی کے اس غبارے پر سوار تھا جو لکھنؤ میں پہلی بار کسی انگریز نے اُڑایا تھا، اس کے پنکچر ہو جانے سے ایک دم بھُووُوُوُ——کی آواز سے نیچے آ رہتا ہوں۔ ناصرحسین کہتا ہے—
’’کسی اور نے آپ کی شیو شروع کی تھی؟‘‘
’’ہاں!‘‘ میں کہتا ہوں ’’لوک پتی نے، سنگم پہ… گریٹ آدمی ہے۔‘‘
’’کچھ بھی ہو‘‘ ناصرحسین آواز میں ایک قطعیت پیدا کرتے ہوئے کہتا ہے ’’کتنا بھی گریٹ ہو۔ لیکن بات یہ ہے——کسی کے بھی چہرے پہ، کوئی سا بھی حجاّم ، ایک بار کیسا بھی خط لگا دے، کوئی دُوسرا حجاّم اسے ٹچ نہیں کرسکتا—— یہ ہماری یونین کا قانون ہے۔‘‘
’’آپ کی یونین کی ایسی تَیسی‘‘ میں ایک دم آگ بگولا ہو کر کہتا ہوں— ’’ایک طرف ہمارے حاکم ہیں‘‘ دوسری طرف کامگار، مزدور اور اُن کی یونین… بیچ میں ہم لٹک رہے ہیں… کیا آپ نے کسی بزرگ سے نہیں سُنا—مَرو اور مَرنے دو؟ ہم جائیں تو کہاں جائیں؟‘‘
’’باہر‘‘ ناصرحسین کہتا ہے۔
میں ایک دم سب کچھ بھول کر پہلے باہر کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر اس بات کے معنی سمجھتا ہوں۔ مجھے اُمید ہی نہ تھی، یونیورسٹی ہیئر کٹنگ سیلون کا ناصر حسین آزادی کے بعد میرے ساتھ ایسا سلوک کرے گا۔ ہوش میں آتے ہوئے ،ناصرحسین سے کہتا ہوں۔’’مَیں تمھاری یونین کے خلاف اسٹرائیک کرا دوں گا۔ بھُوک ہڑتال کر دوں گا… میں … مَیں پنڈت جی تک پہنچوں گاجو یہاں کے رہنے والے ہیں۔ اپنے وطنی ہیں۔ الہ آباد میں ایک بار آنے دیجیے انھیں۔ میں انھیں کہوں گا— ’’پنڈت جی! یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ابھی تک، اس عمر میں آپ نے دیش کا معاملہ ٹھیک نہ کیا تو بڑے ہو کر کیا کریں گے؟‘‘
اور جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا، تو میں ناصرحسین کے حضور میں گِڑ گڑانے لگتا ہوں— ’’ناصر جی! آپ مجھ سے سو روپئے … دس بیس روپئے لے لیجیے لیکن بھگوان—— نہیں نہیں، اللہ کے لیے ایک بار میری حجامت بنا دیجیے۔ نہیں میں دنیا جہان میں کہیں مُنھ دِکھانے کے قابل نہیں رہوں گا… سب مجھ پر ہنس رہے ہیں… ایک میں رو رہا ہوں۔‘‘
بجائے اس کے کہ ناصر حسین میری حالت پر رحم کھائے، وہ کہتا ہے ’’رات ہو گئی، اس وقت کون مُنھ دیکھتا ہے؟‘‘
بیکار ہے۔ سب کچھ بیکار ہے۔ چنانچہ میں کوئی فرضی چھڑی اُٹھا کر، فرضی ہوا میں اسے گھُماتا ہوا، کسی فرضی گھر کی طرف چل دیتا ہوں…
رات بھر وِدّیا، میری بیوی پاس نہیں آتی۔ مجھے یُوں معلوم ہوتا ہے جیسے میں کوئی کبوتر ہوں جسے کسی نے لال رنگ لگا دیا، یا چڑا ہوں جس کے گلے میں کسی نے پھُندنا باندھ دیا، اور اب میرے ہی عزیز مجھے اپنے گھر میں گھسنے نہیں دیتے۔ چونچیں مار مار کر لہولہان کر رہے ہیں، کاٹ کاٹ کر بھگا دینے کی کوشش میں ہیں۔
تڑکے ہی اُٹھ کر میں سنگم کی طرف چل دیتا ہوں اور لوک پتی کے پاس پہنچ کر ہاتھ جوڑ دیتا ہوں— ’’ہے، لوک پتی!… بھگوان کے لیے میری حجامت بناؤ۔ تم نے کب سے مجھے اس حالت میں لٹکا رکھا ہے، نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں… حالانکہ میں نے تمھیں پُورا ٹیکس دیا ہے۔‘‘
لوک پتی، جس نے کسی کے چہرے پر کچھ خط لگا رکھے تھے، اسے چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے۔ ’’آپ ذرا ٹھہریے، شریمان—‘‘
’’نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ آدمی احتجاج کرتا ہے ’’مجھے دُکان پر جانا ہے۔‘‘
’’سبھوں کا جانا ہے بھیّا‘‘ لوک پتی کہتا ہے’’سبھوں کو جانا ہے… کل ان کی حجامت بیچ ہی میں رہ گئی تھی۔‘‘
’’یہ جائیں بھاڑ میں، اور تم جاؤ جہنّم میں‘‘ وہ آدمی مُنھ پر کف لاتے ہوئے کہتا ہے۔ ان کی تو کل حجامت رہ گئی، میں پچھلے اتوار سے اَن مُنڈا بیٹھا ہوں—‘‘
معلوم ہوتا ہے اس آدمی کی برداشت آخری حد تک پہنچ گئی ہے اور وہ لوک پتی کو مارے گا، لیکن لوک پتی کی ایک ہی کڑی نظر اور ہاتھ میں اُسترا دیکھ کر وہ کہتا ہے—— ’’اچھّا ——مت بھُولیو، ان کے بعد میری باری ہے۔‘‘
اور میں اطمینان سے لوک پتی کے ہاتھ میں اپنا گلا دے رہتا ہوں اور سوچتا ہوں، کچھ بھی ہو، لوک پتی آدمی بُرا نہیں۔ معاملے کا بہت کھرا ہے…
تھوڑی ہی دیر میں چہرے کا وہ حصّہ صاف ہو جاتا ہے، جو کل اَن کٹا رہ گیا تھا۔ میں اس پر ہاتھ پھیرتا ہوں۔ کیا جرنیلی سڑک، بلکہ آٹوباہن کی طرح سے صاف ہے، جس پر کوئی سو میل کی رفتار سے گاڑی چلا سکتا ہے۔ جبھی لوک پتی مجھ سے کہتا ہے۔ ’’اب آپ اُٹھ جائیے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں آخری بار حیران ہو کر پوچھتا ہوں۔
’’جو اَن کٹا رہ گیا تھا، وہ میں نے کاٹ دیا۔‘‘
’’مگر‘‘ میں چہرے کے دوسرے حصّے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہوں۔ ’’رات میں ادھر بھی تو بال اُگ آئے ہیں—؟—!—!!‘‘
’’کٹ جائیں کے ببوا… وہ بھی کٹ جائیں گے۔‘‘لوک پتی سِلّی پہ اُسترا تیز کرتے ہوئے کہتا ہے— ’’باری سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
اور میں ڈائیک پر کھڑا اپنی باری کا انتظار کرنے لگتا ہوں جو آئے گی، پر نہیں آئے گی۔ کوشِک بلند آواز سے اپنی فتح مندی پر ہنس رہا ہے۔ چندربھان نہ معلوم کس کو دیکھ کر ایکٹرس جمنا کا وہ شعر پڑھنے لگتا ہے، جو اس نے فلم ’’دیوداس‘‘ میں بولا تھا ؎
کوئی میرے دل سے پُوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
سامنے دریا میں عورتیں نہا رہی ہیں۔ ایک دوشیزہ نے ہرقسم کی شرم و حیا سے بے نیاز ہو کر سب کپڑے اُتار دیے اور زور سے انھیں دُور، کناروں کی طرف پھینک دیا اور پورے پر تول کر پانی میں کود گئی، جتنے زور سے پانی اس سے لپٹنے کو آیا۔ اس حسین ڈائیونگ کے بعد ابھی وہ سطح پر نہیں آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے، نیچے سرسوتی کی تھاہ پانے کی کوشش کر رہی ہے۔
جاتری لوگ نہ معلوم کیوں ایکا ایکی چوکس ہو گئے اور اب پانڈوں کے پھُول نہیں بکتے۔ وہ ٹوکریاں ہاتھ میں لیے سب کی طرف بِڑ بِڑ دیکھ رہے ہیں۔
قلعہ جسے شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا، ایک منی ایچر ہو گیا ،جو وقت کے عجائب گھر میں پڑا ہے۔ مندر زمین میں دھنس چکے ہیں اور بندر شاید اوپر چاند، شکر اور منگل پر کُودگئے، جو اب ہماری دھرتی کے صوبے ہو چکے ہیں… ایک فقیر جو شکل سے حکیم وقت معلوم ہوتا ہے، بد دُعا دیتا ہے، جو مجھے دُعا معلوم ہوتی ہے——
’’جا بچّہ! سیفٹی کے سِوا تیرا کوئی دارُو نہیں۔‘‘
اور میں خوشی خوشی گھر لَوٹ جاتا ہوں، جس کا راستہ بازار میں سے ہو کر جاتا ہے!
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید