جمع و ترتیب: اعجاز عبید
فہرست مضامین
حبِ رسول اور اس کے عملی تقاضے
اس جہانِ رنگ و بو میں شیطان کے حملوں سے بچتے ہوئے شریعتِ الٰہیہ کے مطابق زندگی گزارنا ایک انتہائی دشوار امر ہے- مگر اللہ ربّ العزت نے اس کو ہمارے لئے یوں آسان بنا دیا کہ ایمان کی محبت کو ہمارے دلوں میں جاگزیں کر دیا- سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَلٰکنَّ اللہ حَبَّبَ إلَیْکمُ الِایْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکمْ وَکرَّہ إِلَیْکمُ الْکفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ، اُوْلٰئِک ہمُ الرَّاشِدُوْنَ﴾ (آیت نمبر ۷ )
”اور لینo اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نا فرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا-یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں -“
اس آیت میں ایمان کی محبت میں حبِ الٰہی اور حبِ رسول بھی شامل ہے-گویا حبِ رسول انعامِ خداوندی ہے اور حبِ رسول ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلہ عین ایمان ہے- حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوستای جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو-“ (بخاری و مسلم)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوٴمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسِہمْ﴾ (آیت نمبر ۶)
”نبی مومنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں -“
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ
”حضرت عمرؓ آنحضرت سے کہنے لگے: آپ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں – آپ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تم مومن نہیں ہوستےں- سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپؐ نے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱/۵۹)
سورۂ توبہ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿قُلْ إنْ کانَ اٰبَاؤکمْ وَاَبْنَاءُ کم وَاِخْوَانُکمْ وَاَزْوَاجُکمْ وَعَشِیْرَتُکمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہا وَتِجَارَۃ تَخْشَوْنَ کسَادَہا وَمَسَاکنُ تَرْضَوْنَہا اَحَبَّ إلَیْکمْ مِنَ اللہ وَرَسُوْلِہ وَجِہادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہ بِاَمْرِہ ﴾
”(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں ، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مامن جو تمہیں پسند ہیں ؛ اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حمو لے آئے-“
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے-اس لئے انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے- اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوستاو ہے- اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین و جائیداد اور تجارت اور پسندیدہ ماتنات خدا اور رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے-
محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے- یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو ’طبعی محبت‘ کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال و کمال یا احسان کی وجہ سے ہو تو ’عقلی محبت‘ کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو ’روحانی محبت‘ یا ’ایمان کی محبت‘ کہلاتی ہے-
رسول اللہؐ کے ساتھ ’محبتِ طبعی‘ بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونہ آنحضورؐ اُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ ’روحانی مائیں ‘ جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایا گیا: ﴿وَاَزْوَاجُہ اُمَّہاتُہمْ﴾ بعض شاذ قراتوں میں ہو أبوہم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریم تمہارے والد کی جگہ پر ہیں – تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالل فطری امر ہے-
نبی کریم کا ظاہری و باطنی کمال و جمال
محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بہی، خواہ ظاہری ہو یا باطنی- آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی- شلض و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں :
”کان مثل الشمس والقمر (مسنداحمد:۵/۱٠۴ )
آپ کا چہرہ آفتاب و ماہتاب جیسا تھا-“
ربیع بنت معوذ آپؐ کے بارے میں فرماتی ہیں :
”لورأیت الشمس طالعۃ (مجمع الزوائد: ۸/۲۸٠)
اگر تم رسول اللہ کو دیکھتے توایسے سمجھتی جیسے سورج نلی رہا ہے-“
آپ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیین، سید المرسلین، امام الاوّلین و الآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا- آپ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں بلہن آپ محسن انسانیت ہیں – صاحبِ جمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے- حضرت خدیجتہ البرِیٰ ؓآپ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں :
(پہلی وحی کے موقعہ پر آپ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا) ”آپ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے، درماندوں اور بے کسوں کو سواری دینے والے، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے اور مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں -“ (بخاری :کتاب بدء الوحی حدیث، رقم:۳)
تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے- حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے- مگر آپ کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتیٰ کہ تمام انبیا میں جو جو خوبیاں تہیں ، وہ تنہا آنحضورؐ کی ذاتِ اقدس میں تہیں – بقولِ شاعر
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری !
رسول اللہﷺ کے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں ، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اور کچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے- ذیل میں ہم ان سب تقاضوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
احترام و تعظیم رسول
ع ”ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں -“ حبِ رسول کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسول ہے- یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حما عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گرِ ایمان ہے- سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورؐ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں :
”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے- اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو- ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو-بلاشبہ جو لوگ رسول اللہؐ کے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے- اے نبی! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پاارتے ہیں ، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں – اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنہو آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے- “ (الحجرات : ۱تا۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پر بلند تہی، ایمان ضائع ہو جانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہو کر بیٹھ گئے- آپ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ”تم اہل دوزخ سے نہیں بلہی اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا :
”میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورؐ سے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہو جاؤں گا-“ (بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مہن والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جا کر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے-عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ
”بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چال ہوں – خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں – خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پر گرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکاً اس کو مل لیتا ہے- وہ جب کوئی حما دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حمن کو بجا لاتے ہیں ، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں – وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہو جاتی ہیں – وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنھض بھر کر نہیں دیکھتے- “ (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہو جاتا تو اپنی سواری کو آنحضورؐ کی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے- غایتِ ادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی- دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا- اگر آپ ماان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہؐ کے اوپر چل پھر رہے ہیں ، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا-
یہ تو تھا آپ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپ کی عزت و ترییم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپ سے صدقِ دل سے محبت کریں ، آپ کے فرمودات پر عمل کریں ، اپنی زندگی میں آپ کو واقعی اپنے لئے اُسوہٴ حسنہ سمجھیں -جب حدیث پڑہی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے- حدیث کی تعظیم رسول اللہ اکی تعظیم ہے-
حبِ رسول کا حقیقی معیار … اطاعتِ رسول
حبِ رسول کا سب سے اہم تقاضا اطاعتِ رسول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
ایک صحابیؓ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
” یارسول اللہ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں ، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتا ہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں ، آپ کا دیدار کر کے سوقن حاصل کر لیتا ہوں – لینے جب میں اپنی اور آپؐ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سولں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا- (یہ سوچ کر) بے چین ہو جاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ وَمَنْ یُّطِعِ اللہ وَالرَّسُوْلَ فَاُؤلٰئِک مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہ عَلَیْہمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِک رَفِیْقًا ﴾ (سورۃ النساء :۶۹) ”اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں -“ (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کر کے واضح فرما دیا کہ اگر تم حبِ رسول میں سچے ہو اور آنحضور کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمؐ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو-
حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
”(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: مانگ لو (جو مانگنا چاہتے ہو)- میں نے عرض کیا: ”جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں -“ آپ نے فرمایا ”کچھ اس کے علاوہ بھی ؟“ میں نے عرض کیا ”بس یہی مطلوب ہے-“ تو آپ نے فرمایا ”تو پہر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو-“ (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)-
(صحیح ابوداود؛ ۱۱۸۲)
گویا آپ نے واضح فرما دیا کہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو- یہی حبِ رسول ہے اور معیتِ رسول حاصل کرنے کا ذریعہ بہی-
حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
”یارسول اللہ ا! مجھے آپ سے محبت ہے- آپ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو- تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپ سے محبت ہے- آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقر و فاقہ کے لئے تیار ہو جاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونہ جو مجہ سے محبت کرتا ہے فقر و فاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے-“ (ترمذی؛۲۳۵٠)
گویا جس کے دل میں حبِ رسول ہے، اسے چاہئے کہ آنحضورؐ کی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبر و تحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے-
فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے :
”من أحب سنتی فقد أحبنی ومن أحبنی کان معی فی الجۃ“
”جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا-“ (تاریخ ابن عساکر:۳/۱۴۵)
فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:
”لا یوٴمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ “
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوستاع جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے-“ (مشوٰ ۃ للالبانی:۱۶۷)
یعنی کافر اور مومن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسول کی تابعداری کرے گا وہ مومن ہو گا اور جو رسول اللہؐ کی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہو گا جیساکہ
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
کل أمتی یدخلون الجنۃ إلا من أبٰی قالوا یارسول اللہ ! ومن یأبی قال: من أطاعنی دخل الجنۃ ومن عصانی فقد أبٰی (بخاری؛۷۲۸٠)
”میری اُمت کا ہر شخص جنت میں داخل ہو گا، سوائے اس کے جس نے اناقر کیا- صحابہؓ نے پوچہا: اے اللہ کے رسول وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے) انا ر کیا؟ آپ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اناعر کیا-“
قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بار بار یہ بات ہمیں سمجھائی ہے- مثلاً
سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہ﴾ ( آیت نمبر ۶۴)
”ہم نے رسول بھیجے ہی اس لئے ہیں کہ اللہ کے حمم سے ان کی اطاعت کی جائے-“
سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ﴾ (آیت نمبر ۸٠ )
”جس نے رسول کی اطاعت کی دراصل اس نے اللہ کی اطاعت کی -“
سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
﴿لَقَدْ کانَ لَکمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہ اُسْوَۃ حَسَنَۃ لِمَنْ کانَ یَرْجُوْ اللہ وَالْیَومَ الاٰخِرَ ﴾ (آیت نمبر۲۱)
”تم میں سے جو کوئی اللہ سے ملاقات اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لئے رسول اللہ کی ذات والا صفات میں اچھا نمونہ ہے-“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنھیںن کھل جاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے حبِ رسول کا حق ادا کیا- آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو- قاضی عیاض اپنی کتاب ’الشفاء‘ میں فرماتے ہیں : فقال سفیان المحبۃ اتباع رسول اللہﷺ
”سفیان ثوری (تابعی) نے فرمایا کہ حبِ رسول کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول اللہﷺ ہے-“
بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیثِ رسول کی روشنی میں یہ بات باللا واضح ہے کہ حب رسولؐ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ کی اطاعت کی جائے- وہ محبت جو سنت رسول اللہؐ پر عمل کرنا نہ سھا ئے محض دھوکہ اور فریب ہے- وہ محبت جو رسول اکرمﷺ کی اطاعت و پیروی نہ سھالئے محض لفاظی اور نفاق ہے- وہ محبت جو رسول اللہؐ کی غلامی کے عملی آداب نہ سھا ئے محض ریا اور دکھاوا ہے- وہ محبت جو سنتِ رسول کے علم کو سربلند نہ کرے محض بولہبی ہے-
یہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی اوست
قلبیمحبت
تمیل ایمان کے لئے رسول اللہؐ کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلہت قلبی تسلیم و رضا بھی ضروری ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلاَ وَرَبِّک لاَ یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکمُوْک فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أنْفُسِہمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء :۶۵)
”نہیں ، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوستےا جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں – پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلہا دل و جان سے اسے تسلیم کر لیں -“
حضرت حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ
”میں عمرؓ بن خطاب کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ اگر قربانی کے دن طوافِ زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہو جائے تو کیا کرے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے- حارث نے کہا: رسول اللہؐ نے بھی مجھے یہی فتویٰ دیا تھا- اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جو رسول اللہؐ سے پوچھ چار تھا، تاکہ میں رسول اللہؐ کے خلاف فیصلہ کروں -“ (صحیح ابوداود؛۱۷۶٠)
سنت کا علم ہونے کے باوجود مسئلہ دریافت کرنے پر حضرت عمرؓ کی ناراضگی اس بنا پر تھی کہ رسول اللہؐ کے فیصلے کو دلی رضا مندی کے ساتھ کیوں نہیں تسلیم کیا- ایک اور حدیث ملاحظہ کریں – حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ
”میرے باپ زبیر اور ایک انصاری میں فرہ کے مقام پر پانی پر جھگڑا ہوا- آپ نے زبیر کو کہا کہ تم اپنے درختوں کو پانی لگا لو- پھر اسے ہمسائے کے باغ میں جانے دو- یہ سن کر انصاری کہنے لگا :کیوں نہیں ، آخر زبیر آپ کے پھوپھی زاد جو ہوئے (اس لئے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا ہے)… یہ سن کر آپ کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر کو کہا: زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ جب تک پانی منڈیروں پرنہ پہنچ جائے، اس کے لئے پانی نہ چھوڑو-“ (بخاری؛۴۵۸۵)
یعنی جب انصاری نے آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا تو آپ کو غصہ آ گیا تو آپ نے انصاف والا حمن جاری فرمایا- جب کہ آپ کے پہلے حمن میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی-
رسول اللہﷺکے حمں کی موجودگی میں اپنی مرضی یا کسی دوسرے کے حمگ پر عمل کرنے کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں -سورۃ الاحزاب میں فرمانِ خداوندی ہے:
﴿وَمَا کانَ لِمُوٴْمِنٍ وَّلاَ مُوْمِنَۃ إذَا قَضَی اللہ وَرَسُوْلُہٗ أمْرًا أنْ یَّکوْنَ لَہمُ الْخِیَرَۃ مِنْ أَمْرِہمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللہ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِیْنًا﴾
”کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسول کی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا-“ (آیت نمبر ۳۶ )
سورۃ الحشر، آیت نمبر ۷ میں ارشادِ الٰہی ہے :
﴿ وَمَا اٰتٰکمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہٗ وَمَا نَہٰکمْ عَنْہٗ فَانْتَہوْا وَاتَّقُوْا اللہ اِنَّ اللہ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ”جو کچہ رسول تمہیں دیں ، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں ، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈر جاؤ، وہ شدید عذاب دینے والا ہے-“
گویا آپ کا حمن اور عمل ہی فیصلہ کن سند قرار پائے اور اس حمؤ کو ماننے یا نہ ماننے اور اس پر ناگواری کے احساس یا عدمِ احساس پر ہی آدمی کے مومن ہونے یا نہ ہونے کا انحصار ٹھہرا ہے- یہ ممنا ہی نہیں کہ مومن اللہ اور اس کے رسول کے کئے گئے فیصلہ کے متعلق عدم اطمینان کا شائبہ تک دل میں لائے-آج کے مسلمانوں کواپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ حبِ رسول کے اس تقاضے کو کس حد تک نباہتے ہیں ؟
اتباعِ رسول
اتباع اور اطاعت کے معنی میں یہ فرق ہے کہ اطاعت کا مطلب دیے گئے حمن کی تعمیل کرنا ہے مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا ہے، چاہے اس کام کابا قاعدہ حمے دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو- گویا یہ مقامِ ’خلت‘ ہے، انتہائے محبت ہے کہ محبوب کی ہر ادا پر قربان ہونے کو جی چاہے-
آپ کے صحابہ کرامؓ کو حضور سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضور نے کیا ہوتا- ان کو وہی کھانا پسند ہوتا جو آپ کو پسند ہوتا- جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے یا نماز پڑھ لیتے، وہ جگہ بھی واجب الاحترام ہو جاتی اور اس مقام پر وہی عمل انجام دینا وہ اپنی سعادت جانتے، جیساکہ درج ذیل روایات سے واضح ہوتا ہے:
موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیھا کہ وہ دورانِ سفر راستے میں بعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیونہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیھا تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیھا تھا- (بخاری:۴۸۳)
حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعائے مسنون پڑھنے کے بعد مسرؓانے لگے- کسی نے پوچہا: امیرالمومنین! مسررانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم کو دیکھا تھا کہ آپ نے سواری پرسوار ہو کر اسی طرح دعا پڑھی، پہر آپ مسراائے تھے- لہٰذا میں بھی حضور کی اتباع میں مسرہایا ہوں – (ابوداود؛۲۶٠۲)
حضرت انسؓ نے دیکھا کہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کدو پسند ہیں – تو وہ بھی کدو پسند کرنے لگے- (مسنداحمد:۳/۱۷۷)
ایک بار آپ نے سرکے کے بارے میں فرمایا کہ سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہو گئی ہے- (دارمی؛۲۱۸۱)
ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپؐ نے دیکھی تو آپ نے اس کے ہاتہ سے اُتار کر دور پھینک دی گویا آپ نے اظہارِ ناراضگی کیا- آپ کے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کر لو (کیونہت حضورؐ نے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا -کیونہح رسول اللہؐ نے اسے پھینک دیا ہے- (مسلم؛۲٠۹٠)
مسجدِ نبوی میں خواتین بھی شریک جماعت ہوتیں مگر ان کے لئے کوئی دروازہ مخصوص نہ تھا-ایک روز آپ نے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا: ”کاش ہم یہ دروازہ عورتوں کے لئے چھوڑ دیتے-“ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس شدت سے آپ کی اس خواہش کی پابندی کی کہ پہر تا دمِ مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہ ہوئے-
کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ”لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا-“ تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جا رہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو- (مسنداحمد:۵/۲۷۷)
’اتباع‘ کا مملت مفہوم سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں :
کوئی گاڑی کسی گاڑی کے تعاقب میں ہے، اب پیچھے والی گاڑی آگے والی گاڑی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے- جہاں وہ تیز ہو گی، یہ بھی تیز ہو گی- جدھر وہ مڑے گی یہ بھی ادھر مڑے گی- جدھر وہ آہستہ ہو گی، یہ بھی آہستہ ہو جائے گی حتیٰ کہ جہاں وہ رک جائے گی پیچھے والی گاڑی بھی رک جائے گی- یہ اتباع ہے اور حبِ رسول کا تقاضا صرف اطاعتِ رسول ہی نہیں بلہی اتباعِ رسول ہے-
یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حبِ رسول کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور نعتِ رسول بیان کرنے کی حد تک سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسول سے باللم تھی دامن ہو گئے- اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاک کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو غور سے پڑہیں ، سیکھیں ، اُسوۂ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرونِ اولیٰ میں تھا- انہوں نے سچے جذبے، پےو عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے-
ائمہ کرام اور بزرگوں کی عقیدت میں غلو:جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرانا ممنوع ہے، اسی طرح نبی کی رسالت اور آپ کے واجب الاتباع ہونے میں کسی دوسرے انسان کو لانا درست نہیں – نبی کریمؐ کا ہی یہ مقام ہے کہ آپ معصوم ہیں اور غلطی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا کر رکھا ہے- یہ حیثیت آپ کے کسی اُمتی کو حاصل نہیں – لینا بعض لوگ ائمہ کرام کے احترام میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ وہ انہیں بھی نبی کی طرح معصوم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں – نبی کریم کا صریح فرمان آنے کے باوجود وہ اپنے امام کی بات ماننے پر ہی مصر رہتے ہیں –
ائمہ اربعہ یعنی امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد رحمہم اللہ عنہم کے مدوّن کردہ مسائل اور ان کے بیان کردہ احاگمِ دین و شرع درحقیقت اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول سے ہی حاصل کردہ ہیں – اس و جہ سے ان ائمہ عظام کے بیان کردہ فقہ کے مسائل کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں کوئی حرج نہیں -لینں جب انہیں کوئی صریح نص یعنی کوئی آیت یا حدیثِ صحیح نہ مل سےن تو پھر یہ قیاس واستنباط کرتے ہیں – مگر ایسی صورت میں ان سب ائمہ نے اپنے اپنے شاگردوں پر واضح کر دیا کہ ”جب حدیثِ رسول مل جائے تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دینا-“
بڑی مناسب بات تھی جو انہوں نے فرمائی- مگر ان کے عقیدت مندوں نے ان کی عقیدت میں ان کے اَقوال کو تو نہ چھوڑا اور احادیثِ رسول کو چھوڑ دیا- پہر اسی بنیاد پر اپنے الگ الگ مسلک بنا لئے- بے شک یہ سب فروعی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر مسالک وجود میں آئے، مگر اُمتِ محمدیہ میں تو گروہ بندی ہو گئی جس سے قرآن و حدیث نے شدت سے منع فرمایا تھا –
ضرورت اس امر کی ہے کہ حبِ رسول سے سرشار ہو کر اپنے نقطہ نظر میں لچک پیدا کی جائے اور حتی المقدور احادیثِ رسول کو ہی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں بنیاد بنایا جائے-
آباء پرستی سے اجتناب
اسی طرح اَن پڑھ اور جاہل عوام کی کثیر تعداد اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتی ہے- حالانہھ حبِ رسول کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ کے فرمان کے سامنے ہر کسی کی بات ہیچ ہو اور ہر ایسی خاندانی روایت اور معاشرتی چلن، جو کہ اسلام سے متصادم ہیں، چھوڑ دیئے جائیں اور سنتِ رسول کو جاری و ساری کیا جائے-
سورۃ لقمان آیت نمبر۲۱ میں ارشادِ خداوندی ہے :
”جب انہیں کہا جائے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے،ا س کی اتباع کرو تو کہتے ہیں بلہڑ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء کو پایا-“
سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷٠ میں فرمایا :
”جب انہیں کہا جائے کہ اس کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو کہتے ہیں بلہ ہم اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا- اگرچہ ان کے آباء نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہدایت یافتہ ہوں -“
نیز ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۱ میں فرمایا :
”یہ گونگے بہرے اندھے لوگ ہیں – یہ جانوروں کا ریوڑ ہیں ، ان کو کچھ عقل نہیں -“
حبِ رسول کی صداقت و سچائی کا معیار یہ ہے کہ سنتِ رسول کے علاوہ ہر طریق کو چھوڑ دیا جائے- بعض لوگ ائمہ فقہاء کی تقلید میں غیر مسنون افعال انجام دیتے ہیں اور بعض اپنے آباء و اجداد کی لیرا کے فقیر بنے رہتے ہیں – سنت سے دوری کی کوئی بھی صورت ہو اس سے اجتناب بہر حال ضروری ہے-
درود … صلوٰۃ و سلام
حبِ رسول کے اظہار و اثبات کے لئے لازم ہے کہ جب آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نامی پڑھنے، سننے یا بولنے میں آئے تو فوراً صلوٰۃ و سلام ورد زبان ہو جائے- خود اللہ اور اس کے فرشتے بھی آنحضور پر درود بھیجتے ہیں -سورۃ احزاب میں ارشاد ہے:
﴿إنَّ اللہ وَمَلٰئِکتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰاَیُّہا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ صَلُّوْا عَلَیْہ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ﴾ (آیت نمبر ۵۶ )
”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں – اے ایمان والو! تم بھی آپ پر درود و سلام بھیجو-“
ابوالعالیہؓ نے کہا کہ
”اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے آپ کی تعریف فرماتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے مراد ہے کہ وہ آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں – ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ یصلون کا معنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں – “
(بخاری، کتاب التفسیر: باب قولہ ان اللہ وملائکتہ یصلون علیٰ النبی)
حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں : ”جب تک تو اپنے نبی پر درود نہ بھیجے، دعا زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتی ہے، اوپر نہیں چڑھتی-“ (صحیح ترمذی للالبانی؛۴٠۳)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
”وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا-“ (مسنداحمد:۱/۲٠۱)
ایک بار منبر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے تین بار آپ نے آمین آمین آمین کہا تو صحابہؓ کے استفسار پر آپ نے فر مایا:
”میرے پاس جبرائیلؑ آئے تھے- تین کاموں کے نہ کرنے والے پر انہوں نے اللہ کی لعنت بتائی تو میں نےا س پر آمین کہا-ان باتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جس مسلمان کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو- اور میں نے اس پر آمین کہا-“ (مستدرک حاکم:۴/۱۵۳ و بخاری)
درود و سلام درحقیقت ایک دعائے رحمت و برکت ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں جن کے ذریعے ایمان و اسلام کی عظیم نعمت سے ہم سرفراز ہوئے- اس احسان کا بدلہ مسلمان کبھی بھی اُتار نہیں ستےل- تاہم اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ اس عظیم ہستی کی محبت سے سرشار ہو کر ان کے حق میں دعائے رحمت و برکت کیا کریں -مگر اللہ کی رحمت کی انتہا دیکھئے کہ اس عمل کو ہمارے لئے بھی انتہا درجہ باعث اجر و ثواب بنا دیا-
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے- “ (مجمع الزوائد:۱٠/۱۶۱)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہؐ نے فرمایا کہ
”قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے والا ہو گا-“ (فتح الباری:۱۱/۱۶۷)
درود شریف دراصل ایک مسلمان کا ترانۂ محبت ہے جو وہ اپنے محبوبﷺ کے حضور پیش کرتا ہے اور نتیجے میں اپنے لئے بھی درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش کی نوید حاصل کرتا ہے-
آپ کے حضور درود کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی محفل ہی برپا کی جائے یا کوئی خاص وقت ہی صرف کیا جائے بلہہ یہ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور خاص طور پر جب آپ کا نام کا تذکرہ ہو تو فوری ’صلی اللہ علیہ وسلم‘ کے مبارک الفاظ کے ساتھ یہ نذرانہ آپ کے حضور پیش کر دینا چاہئے کہ یہی حبِ رسول کا تقاضا ہے-
صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کی محبت
حبِ رسول کا تقاضا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہو- کیونہک آپؐ کو ان سے محبت تہی-
صحابہ کرامؓ کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالسَّابِقُوْنَ الاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہاجِرِیْنَ وَالاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللہ عَنْہمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ﴾ (سورۃ التوبہ :۱٠٠)
”اور جو مہاجر اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے-“
سورۃ الفتح میں صحابہ کرام ؓ کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہمْ تَرَاہمْ رُکعًا سُجًّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللہ وَرِضْوَانًا ﴾ (سورۃ الفتح :۲۹)
”محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور آپ کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں ، آپ انہیں رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھیں گے- یہ اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی ہیں “
رسول اللہؐ نے فرمایا:
”میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خو ف کرو- میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا، پس جو ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے، وہ میرے بغض کی وجہ سے ایسا کرتا ہے- جو انہیں ایذا دے گا اس نے مجھے ایذا دی- جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی، اللہ تعالیٰ اس کو پڑلے گا- “ (مسنداحمد:۵/۵۴)
حضرت فاطمہ الزہراؓ کے لئے آپ نے فرمایا:
”فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں -“ (بخاری تعلیقا فی مناقب قرابۃ رسول اللہ و مسلم؛۶۲۶۴)
حضرت حسنؓ، حسینؓ کے بارے میں فرمایا:
”اللہم أحبہما، إنی أحبہما“ (بخاری؛۳۷۴۷)
”اے اللہ! ان سے محبت فرما! میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں -“
رسول اللہؐ کی ازواجِ مطہرات کی عزت و احترام بھی حبِ رسول کا لازمی تقاضا ہے بلہ۴ عین منشائے قرآنی ہے- سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۶ میں فرمایا:
﴿وَاَزْوَاجُہٗ اُمَّہاتُہمْ﴾ ”آپ کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں -“
صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کے ساتھ عقیدت و محبت کے حوالے سے مسلم امہ میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اُمت کے دو بڑے فرقے وجود میں آ گئے- اہل سنت اور اہل تشیع- اوّل الذکر اگرچہ دونوں کی محبت و احترام کے قائل ہیں ، مگر تعصب کی بنا پر اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ وہ اہل بیت کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے- دوسری طرف اہل تشیع کبار صحابہ کرام پر(نعوذ باللہ) تبرا بازی کرتے ہیں -اسلامی عقائد کی رو سے صحابہ کرامؓ، اہل بیت اور ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ یسااں طور پر محبت و عقیدت رکھنا لازمی ہے- اگر اس معاملے میں فریقین وسعتِ نظر اور وسعتِ قلب سے کام لیں تو حبِ رسول کے نام پر مغائرت دور ہوستیی اور اُمت متحد ہوستیا ہے-
تابعین کرام، محدثین عظام اور فقہائے کرام کا احترام
ہر مسلمان کے دل میں ان کی محبت ہونا بھی ضروری ہے- کیونہ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے انتہائی مشقتیں اور تلیفیں اٹھا کر دین ہم تک پہنچایا- حبِ رسول کا تقاضا ہے کہ ان سے بھی محبت کی جائے-
قرآنِ پاک میں ان کا تذکرہ سورۂ توبہ میں کیا گیا ہے
(وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللہ )(آیت نمبر ۱٠٠)
”اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان (صحابہ کرامؓ) کی پیروی کی ہے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں -“
رسول اللہ نے فرمایا:
”خیرکم قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم“
”سب سے بہتر میرا دور ہے- پھر ان لوگوں کا جو اس دور کے بعد ہیں پھر جو ان سے بعد ہیں -“ (بخاری ؛۳۶۵۱/ مسلم؛۶۴۱۹)
اس حدیث میں تابعین اور تبع تابعین کی فضیلت ثابت ہے-
علم کی دنیا میں حدیث کے حوالے سے ان کے کارنامے ایسے عظیم الشان ہیں کہ اَغیار بھی خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں – مشہور مستشرق پروفیسر مارگریتہ نے کہا:
”علم حدیث پر مسلمانوں کا فخر کرنا بجا ہے-“
مستشرق گولڈزیہر نے محدثین کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :
”محدثین نے دنیائے اسلام کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، اندلس سے وسط ایشیا تک کی خاک چھانی اور شہر شہر اور گاؤں گاؤں پیدل سفر کیا تاکہ حدیثیں جمع کریں اور اپنے شاگردوں میں پھیلائیں – بلا شبہ رحال (بہت سفر کرنے والے) اور جوال (بہت زیادہ گھومنے والے) جیسے اَلقاب کے مستحق یہی لوگ تھے-“
بدعات سے اجتناب
حبِ رسول کا تقاضا ہے کہ بدعات سے بچ کر صرف اور صرف سنت رسول کے چشمہ صافی سے فیض حاصل کیا جائے-
بدعت کی تعریف: ہر وہ عمل بدعت کہلاتا ہے جو ثواب اور نییل سمجھ کر کیا جائے لینے شریعت میں اس کی کوئی بنیاد یا ثبوت نہ ہو یعنی نہ تو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود وہ عمل کیا اور نہ کسی کو اس کا حمگ دیا اور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی ہو- ایسا عمل اللہ کے ہاں مردود ہے- جیسا کہ حدیث نبوی ہے:
”عن عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہورد“ (بخاری تعلیقا: کتاب الاعتصام)
”جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حما نہیں ، وہ عمل ردّ ہے-“
ایک کام کو کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوتے ہیں ، ان میں سے انسان جو طریقہ اپناتا ہے گویا وہ اس کو پسند کر رہا ہوتا ہے یا وہ اس کو سب سے بہتر جانتا ہے، اسی لئے ترجیح دیتا ہے- چنانچہ اگر کوئی سنت کے مقابلے میں بدعت کو اپنا لے تو گویا اس نے قولِ رسول کو چھوڑ دیا اور بدعت کو ترجیح دی- یہ حبِ رسول کے منافی ہے- حق یہ ہے کہ سب سے فائق وسربلندسنت رسول ہو اور اس پر عمل کو سعادت سمجھا جائے-
دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیزیں بدعات ہیں – اُمت کے اندر اختلاف کی اصل جڑ بھی یہی بدعات ہیں – اسلام کا اصل چہرہ بدعات کی دبیز تہوں میں چھپ جاتا ہے- فرمانِ نبوی ہے:
”جب کسی بدعت کو اپنایا جاتا ہے تو ایک سنت اُٹھ جاتی ہے-“ (احمد:۴/۱٠۵)
قیامت کے روز بدعتی حوضِ کوثر کے آبِ حیات سے محروم رہیں گے- سہل بن سعد روایت کرتے ہیں ، رسول اللہؐ نے فرمایا :
”میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیشرو ہوں گا- جو وہاں آئے گا پانی پئے گا، جو ایک بار پی لے گا اسے کبھی پیاس نہ لگے گی- بعض ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانیں گے- مگر انہیں مجھ تک آنے سے روک دیا جائے گا- میں کہوں گا یہ تو میرے اُمتی ہیں – لین مجھے بتایا جائے گا: کہ (اے محمد! ) آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انہوں نے کیسی کیسی بدعتیں جاری کیں – پہر میں کہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ایسے لوگوں کیلئے، جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا-“ (بخاری؛۷٠۵٠)
پس وہ عبادت و ریاضت جو سنتِ رسول کے مطابق نہ ہو- صرف ضلالت اور گمراہی ہے- وہ اذکار و وظائف جو سنت رسول سے ثابت نہ ہوں بے کار اور لاحاصل ہیں – وہ محنت ومشقت جو حمن رسول کے مطابق نہیں ، وہ جہنم کا ایندھن ہے-
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ تین صحابہ نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہؐ کے اعمال و عبادت کے بارے میں پوچھا- جب انہوں نے بتایا تو صحابہ نے اپنے لئے اسے کم جانا اور آپس میں کہنے لگے ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے- ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا-دوسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا- تیسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا- جب رسول اللہؐ کو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا:
”میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں – سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ، لینی میں روزہ رکھتا ہوں ، ترک بھی کرتا ہوں ، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے ناںح بھی کئے ہیں (یاد رکھو) جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں – “ (بخاری:۵٠۶۳)
خلاصہ
آخر میں حبِ رسول کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعتِ رسول صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلہب یہ طاعتِ رسول ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے- نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے- جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے- اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے- ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے- منرےات کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو- سنت رسول ہر جگہ جاری ہونی چاہئے- اے اللہ! ہمیں آنحضورؐ کی سچی اور عملی محبت نصیب فرما- آمین!
مسلم حکامِ وقت کی اطاعت
اللہ کے فرمان اور آنحضورؐ کے احاےمات کی بنا پر ان کی اطاعت واجب ہے- ان کی اطاعت گویا اللہ و رسول کی اطاعت ہے-
سورۃ نساء آیت نمبر ۵۹ میں فرمان الٰہی ہے:
﴿یٰاَیُّہا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللہ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الاَمْرِ مِنْکمْ﴾
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اُمرا کی بھی اطاعت کرو-“ (اُمراء کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے)
رسول اللہؐ نے فرمایا:
”سنو اور اطاعت کرو، چاہے تم پر ناک کٹا حبشی غلام امیر بن جائے- “ (مسلم؛ ۴۷۳۹)
نیز آپ نے فرمایا:
”جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی تابعداری کی، ا س نے میری تابعداری کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی-“ (مسلم:۴۷۲۴)
لینہ امیر کی یہ اطاعت بھی اللہ و رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے- کیونہ ارشادِ خداوندی ہے :﴿وَلاَ یَعْصِیْنَک فِیْ مَعْرُوْفٍ﴾ (سورۃ الممتحنہ:۱۲)
”اور وہ نییی میں تیری نافرمانی نہ کریں -“
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ …“ (صحیح مسلم: کتاب الامارۃ؛۳۷۴۲)
”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ،مخلوق کی اطاعت صرف نییر میں ہے- “
فرمان رسول اللہﷺ ہے:
”سننا اور اطاعت کرنا- پسند آئے یا نہ آئے- اس وقت تک مسلمانوں پر لازم ہے جب تک کہ گناہ کا حمل نہ دیا جائے- اگر گناہ اور نافرمانی کا حمت دیا جائے تو پہر سمع و طاعت نہیں – (مسلم؛۴۷۴)
حکامِ وقت کے خلاف خروج و بغاوت حرام ہے
رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
”جو اپنے امیر میں ناپسندیدہ بات دیکھے اس پر صبر کرے اس لئے کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی دور نلپ جائے، وہ جاہلیت کی موت مرا-“ (مسلم :۴۷۶۷)
فرمانِ رسول اللہﷺ ہے:
”سنو اور اطاعت کرو، ان کے فرائض ان کے ذمہ اور تمہارے فرائض تمہارے ذمہ ہیں-“ (یعنی تم اپنے فرض پورا کرتے رہو) (مسلم کتاب الامارۃ:۴۷۶٠)
آپ نے فرمایا:
”امیر کی سنو اور اطاعت کرو- اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر مارے اور تمہارا مال چھین لے پھر بھی سنو اور اطاعت کرو-“ (مسلم کتاب الامارہ:۴۷۶۲)
دراصل امیر کے خلاف خروج و بغاوت سے اتحادِ ملت پارہ پارہ ہو جاتا ہے- اتحاد، جو مسلم اُمہ کی قوت ہے، اسے ہر حال میں قائم رہنا چاہئے- حمراانوں کی زیادتیوں پر اللہ سے اَجر کا طالب ہونا چاہئے-
ماخذ:
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=7097
٭٭٭
سیرتِ طیّبہﷺ اور اس کے تقاضے
ڈاکٹر انیس احمد
ہر سال ربیع الاول کا مہنے رحمتوں ، برکتوں اور روحانی نعمتوں کا تحفہ لے کر آتا ہے اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہر لمحے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ حبِ رسولﷺ کا تعلق نہ کسی خاص مینے سے ہے، نہ کسی خاص مقام اور موسم سے۔ یہ تو وہ سدابایر کیفیت ہے جو ایمان کے پلے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایۂ زیست ہے، شرط ایمان ہے۔
شعوری طور پر، حتیٰ کہ صرف رسمی طور پر بھی جب ایک شخص اپنے مسلمان ہونے کا اعلان یہ کہہ کر کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا وحدہٗ لاشریک رب مانتا ہے اور خاتم النبیینﷺ کو اللہ کا سچا رسول اور بندہ تسلیم کرتا ہے (اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ)، تو وہ اللہ اوررسولﷺ سے ایک پیمانِ محبت باندھتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے رب، مالکِ حقیقی اور اپنے رہنما، قائد، محسن اور ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایسے رشتے میں منسلک کرتا ہے جو اسے رنگ و نسل، خون اور مقام کی قید سے آزاد اُمت مسلمہ اور اُمت محمدؐ یہ کا ایک جزولاینفک بنادیتا ہے۔ بلاشبہہ اس رشتے کا اصل لطف شعوری تعلق کی صورت میں ہے لیکن یہ بھی اللہ کا انعام ہے کہ جس شخص نے صرف زبان سے اظاقر اور دل سے اقرار کیا ہو، اور اس نے اس رشتے سے وابستہ ہونے کے مطالبات اور شرائط و واجبات پر غور نہ بھی کیا ہو، تب بھی وہ اپنے قائد و رہنما محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل کی ہر دھڑکن میں محسوس کرتا ہے اور یہ محبت ساری زندگی اس کی رگوں میں خون کی شکل میں گردش کرتی رہتی ہے۔ وہ ایک دیاہتی ہو، شرہی ہو، کوہستانی ہو، صحرا نشین ہو، سمندر میں دن رات سفر کرنے والا مچھیرا ہو، ایک طالب علم ہو یا دانش ور، وہ اپنے آپ کو اس رشتے سے اس طرح وابستہ کردیتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت بھی، حتیٰ کہ جب موت سامنے نظر آرہی ہو، اس وقت بھی وہ نںکا چاہتا کہ اس کے رسولؐ اس کے محسنﷺ کی ذات و شخصیت کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پنچے ۔ حضرت خبیبؓ کا واقعہ ہںین یاد دلاتا ہے کہ جب انھیں شیدگ کرتے وقت ان کے قاتل نے سوال کیا کہ اگر تمھاری جگہ یہ عمل تمھارے رسولﷺ پر کیا جاتا تو تم کیا محسوس کرتے، تو ان کا جواب قیامت تک کے لیے ہرمسلم و مومن کی طرف سے دیا جانے والا جواب تھا، یعنی میں تویہ بھی نںیہ پسند کروں گا کہ اس ہستی کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پنچے ۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی قرادؓ فرماتے ہںھ : ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ آپؐ کے کچھ اصحاب آپؐ کے وضو کا پانی لے کر اپنے چراوں پر مَلنے لگے تو آپؐ نے پوچھا: تمھارے اس کام کا محرک کیا ہے؟ لوگوں نے کای: اللہ اوررسولؐ کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا: جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت کرتے ہںؐ تو انھیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں ، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بہ حفاظت) مالک کے حوالے کریں ، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ (مشکوٰۃ)
حضرت انسؓ کتےم ہںل : رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نںےب ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (بخاری، مسلم)
اگر صرف ان دو احادیث پر غور کیا جائے تو آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہںا ان کے حوالے سے ان میں بیش باا ہدایات موجود ہںا۔
راستی،سچائی اورسچ کو اختیار کرنا
سب سے پلیس بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے۔ بلا شہل محبت کے مظاہر ایک فطری عمل ہںا اور حضورﷺ سے تعلق کا منہ بولتا ثبوت ہںپ لیکن اس کے ساتھ محبت کی اصل روح اور تقاضوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محبت کی تعریف اور مفوںم یہ نںتے ہے کہ رسول کریمﷺ نے جس پانی سے وضو فرمایا ہو اس کو تبرکاً اپنے چروے پر مَل کر یہ سمجھ لیا جائے کہ اسی برکت کے ساترے ربِ کریم ہم پر عنایت فرما دے گا، بلکہ محبت کا تعلق ’عمل‘ سے ہے۔ خاتم النبیینﷺ نے اپنے اصحاب کی قلبی کیفیت اور وابستگی کو حکمتِ رسالت کے ذریعے تین ایسے اعمال میں بدل دینے کا حکم دیا جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مومن بنا سکتے ہںت ، چنانچہ پلیر بات یہ ارشاد فرمائی کہ جب بات کریں تو سچ (صدق) کو اختیار کریں۔ یہ صدق محض زبان سے سچی بات کنےا تک محدود نںای ہے، گو اس کی بھی غیرمعمولی اہمیت ہے، بلکہ اصل مقصد اور ہدف اپنے تمام معاملات میں صدق کو اختیار کرنا مطلوب ہے جس کی مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اسوہ میں ہے کہ اللہ کی کتاب میں ان کی زندگی کا مرکزی وصف ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کا سچا تھا (سورۂ مریم ۱۹:۵۰)۔ ییا نکتہ اس ارشاد ربانی سے بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خاندانی زندگی کے آغاز کے موقع پر جو اصطلاح مرم کے حوالے سے پسند فرمائی وہ بھی اسی مادے سے تعلق رکھتی ہے: وَ ٰاتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً ط (النساء۴:۴) ’’اور عورتوں کے مری خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔
اہلِ ایمان کی پچاّن اسی صدق کو قرار دیا گیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبہ ۹:۱۱۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام، حق کے غالب آنے اور باطل کے مٹ جانے کے عمل کو بھی صدق کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور ہجرتِ نبویؐ کے حوالے سے قرآن کریم نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دعا تعلیم فرمائی وہ صداقت اور شاددتِ حق کے ساتھ مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرنے کے بعد صداقت اور شاادتِ حق دیتے ہوئے دارالاسلام اور مرکز اُمت کے قیام کی طرف اشارہ کرتی ہے:
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جارں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جالں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
صدق جس کی طرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے حبِ رسول کے حوالے سے متوجہ فرمایا اہلِ ایمان کی صفات کے حوالے سے بارہا قرآن کریم میں بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ احزاب میں اہلِ ایمان کی جن صفات کا ذکر ہے اس میں صدق کو اعلیٰ مقام حاصل ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآءِمِیْنَ وَالصّآءِمٰت وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًاO (احزاب ۳۳:۳۵) ’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہںَ ، مومن ہںع ، مطیع فرمان ہںظ ، راست باز (صادق اور صادقات) ہںْ ، صابر ہںر ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہںا ، صدقہ (بشمول زکوٰۃ) دینے والے ہںْ ، روزے رکھنے والے ہںْ ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہںَ ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہںت ، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر میام کررکھا ہے‘‘۔
صداقت، صالحیت اور شالدت میں ربط اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ قولِ صادق عملِ صالح میں اور عملِ صالح اللہ کے حضور شاردت کا ذریعہ بنتا ہے، اور اس دنیا میں بھی ایک مردِصادق یا ایک صادقہ خاتون اپنے زبانی اعلان و اقرار کو اپنی صالحیت، بھلائی پر قائم رہنے کے ذریعے اپنے مومن یا مومنہ ہونے کی شاودت فراہم کرتے ہںل ، حتیٰ کہ جان اور مال کے ذریعے تصدیق کرتے ہوئے شاتدت کے اعلیٰ مقام تک پنچتے ہںث۔
امانت، اہلِ امانت کے سپرد کرنا
رحمت للعالمینﷺنے جس دوسرے عملِ صالح کے ذریعے حبِ رسولؐ کے لازمی مظرن کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے وہ بھی قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک اہم عمل ہے جس کے بغیر ہم موجودہ اخلاقی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انتشار سے نںرن نکل سکتے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ویُؤَدِّ امانتہٗ اذائتُمِنَ، یعنی امانت کو بہ حفاظت مالک کے حوالے کرے۔
قرآن کریم نے امانت کو اہلِ ایمان کی اوّلین صفات کے طور پر جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مومنون میں فرمایا گیا: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o(المومنون ۲۳: ۸) ’’اپنی امانتوں اور اپنے عدی و پیمان کا پاس رکھتے ہںا ‘‘۔ انبیائے کرام ؑ کے حوالے سے بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ امانت دار رسول (رسولٌ امین) یا قوی اور امین ہںو۔ (الشعراء ۲۶: ۱۰۷، ۱۶۳، ۱۹۳، النمل ۲۷:۳۹)
ذمہ داریوں اور قیادت کے حوالے سے یہ صفت شرط کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ حضرت موسٰی ؑ کے حوالے سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے (القصص ۲۸:۳۶)، اور حکومتی اور فنی امور کے حوالے سے قرآن کریم یہ حکم دیتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلیٰ اَھْلِھَا لا (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں رب کریم نے بطور مشورہ یا تجویز کے نںئت بلکہ بطورِ حکم یہ بات فرمائی ہے کہ اہلِ ایمان اپنے معاملات ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو اُس ذمہ داری کے اہل ہوں۔ اس کے مضمرات معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی و ابلاغی شعبوں میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہں۵۔
اگر ابلاغی سطح پر صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ کو ایسے افراد کے حوالے کر دیا جائے جو ذہناً یا تو مغرب کے غلام ہوں یا ہندوانہ ثقافت اور مفادات کی حمایت میں اپنی دانش وری کو استعمال کرنے کے لیے مشونر ہوں تو الزام کسے دیا جائے گا؟ اگر تعلیم گاہ میں ایک ایسے شخص کو استاد بنا دیا جائے جو نہ علم رکھتا ہو نہ کردار، تو جو نسل اُس کے زیر ٭٭تربیت پیدا ہو گی کیا اس میں صداقت اور امانت پیدا ہوسکتی ہے؟ اقبال نے صداقت اور امانت کے حوالے ہی سے کاب تھا کہ ان دو اسلامی اقدار اور احکاماتِ نبویؐ کو جب تک اختیار نںرم کیا جائے گا اس وقت تک قوموں کی امامت کا فریضہ ادا نںار ہوسکتا
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ماخذ:
http://www.monthlyalhayat.com/mutaala-seerat-tayibba-saw/seerat-e-tayyiba-aur-us-ke-takaze
٭٭٭
محبت رسول اللہﷺ اور اس کے تقاضے
محمد افضل قادری
صحیح بخاری کی کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان، صفہ نمبر 9 پر حدیث نبوی ہے کہ: ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک مؤمن نںرت ہو سکتا جب تک میں اُسے اُس کے والد، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ ‘‘ ایمان کا لغوی معنی ہے: تصدیق کرنا، کسی کو بے خوف کرنا۔ اور ایمان کا شرعی معنیٰ ہے: رسول اللہﷺ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے، اُس کی دل سے تصدیق کرنا اور اگر اکراہ اور اضطرار کی حالت نہ ہو تو زبان سے اظافر کرنا۔ کفر ایمان کی ضد ہے۔ کفر کا لغوی معنی ہے: چھپانا، انکار کرنا، ناشکری کرنا وغیرہ۔ اور کفر کا شرعی معنیٰ ہے: ضروریات دین (یعنی وہ دینی اُمور جنںن خاص و عام جانتے ہوں کہ یہ دین میں سے ہںل۔ ) میں سے کسی ایک چیز کا انکار کر دینا۔
تو درج بالا حدیث نبوی میں محبت نبوی کو ایمان کیلئے اسا س یعنی شرط قرار دیا گیا ہے۔ جیسے وضو نماز کے لئے شرط ہے۔ یعنی اگر کوئی وضو پر قادر ہونے کے باوجود بغیر وضو کیے نماز پڑھے تو وہ نماز قبول نںںل ہوتی، ایسے ہی محبت نبوی ایمان کے لئے بمنزلہ وضو کے ہے بلکہ وضو سے بھی زیادہ اہم ہے۔ بعض حالات میں وضو کی بجائے تیمم سے نماز ادا ہو جاتی ہے، لیکن محبت رسول کے بغیر ایمان کے قبول ہونے کا سوال ہی پیدا نںنی ہوتا۔ اس حدیث مبارکہ میں ییr حقیقت بیان کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ صرف محبت نبوی کافی نںری بلکہ مسلمان کیلئے لازم ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمدﷺ کی محبت دنیا کی ہر پیاری چیز حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ ہو۔ جیسا کہ قرآن مجید پارہ نمبر 21، سورہ احزاب آیت نمبر 6 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’نبی (ﷺ) مسلمانوں کے، اُن کی جانوں سے بھی زیادہ مالک ہںا۔ ‘‘
نیز قرآن مجید پارہ نمبر 10، سورہ توبہ، آیت نمبر 24 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’فرما دو! (اے نبی اکرمﷺ) اگر تمںض تماہرے باپ دادے، تمامرے بیٹے پوتے، تماہرے بھائی، تمامری بیویاں ، تماررے خاندان، تماارے مال جو تم نے محنت کر کے کمائے، تماثری تجارتیں جن میں خسارے کی تمںرہ فکر رہتی ہے اور تمایرے پسندیدہ گھر اللہ اور اس کے رسول اور جااد فی سبیل اللہ سے زیادہ پیارے ہںر ، تو انتظار کرو حتی کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب کا) لے آئے اور اللہ (اس حکم کے) نافرمانوں کو منزل مقصود تک نںام پنچا تا۔ ‘‘
اور بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ پیارے ہںہ۔ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: نںلہ ! قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب تک کہ میں تجھے جان سے پیارا نہ ہو جاؤں۔ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: قسم بخدا! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہو گئے ہںل۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ’’عمر اب تماےرا ایمان کامل ہو گیا۔ ‘‘
حوالہ کیلئے صحیح بخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبیﷺ، حدیث نمبر 6142۔
شارح مشکوٰۃ حضرت ملا علی قاری مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہںچ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں یکدم محبت نبوی کا کامل ہو جانا نبی اکرم (ﷺ) کی باطنی توجہ کی برکت سے تھا۔
محبت کی کتنی قسمیں ہںی اور حدیث میں کونسی مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محبت کی تین قسمیں ہںل :
1. محبت طبعی۔ یعنی جن محبتوں کا طبیعت تقاضہ کرتی ہے۔
2. محبت عقلی۔ یعنی جن محبتوں کا عقل تقاضہ کرتی ہے۔ جیسے مریض طبعاً کڑوی دوائی کو نا پسند کرتا ہے، لیکن عقل کے تقاضہ سے وہ دوائی کھا لیتا ہے۔
3. محبت ایمانی۔ یعنی وہ محبت جس کا ایمان تقاضہ کرتا ہے۔ جیسا کہ اگر نبی اکرمﷺ کا فر باپ یا کافر بیٹے کو جنگ میں قتل کرنے کا حکم دیں تو محبت طبعی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ باپ اور بیٹے کو قتل نہ کیا جائے لیکن محبت ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے باپ اور بیٹے کو قتل کر دے۔ جیساکہ غزوہ بدر میں حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد جراح کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے سے لڑائی اور اُسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔
ان تین قسموں میں سے حدیث بالا میں محبت عقلی اور محبت ایمانی مراد ہے۔ محبت طبعی انسان کے اختیار میں نںوی ، لذںا مسلمان محبت طبعی کا مکلف نںما ہے۔ البتہ محبت عقلی اور محبت ایمانی کا مسلمان مکلف ہے، محبت ایمانی کی بنیاد پر حضور نبی اکرمﷺ کو دنیا کی ہر چیز سے عزیز جاننا حدیث بالا اور دیگر مذکورہ بالا دلائل شرعیہ سے واضح ہے۔
لیکن محبت عقلی کی رو سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ محبت کی بنیاد کسی شے کا حسن، کمال اور حسان ہے۔ اور دلائل عقلیہ ونقلیہ سے ثابت ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین وجمیل سب سے باکمال اور صاحب فضائل اور سب سے بڑے محسن و کریم صرف اور صرف سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عناے کے لعل، محبوب خدا، سید المرسلین، رحمۃ العالمین، شفیع المذنبین، سراج منیر، حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ فداہ روحی وصلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ سلم ہی ہںی۔ لذیا ایمان کے ساتھ ساتھ عقل کا بھی تقاضہ ییا ہے کہ مسلمان دنیا کی ہر شے سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کو محبوب جانے۔
اب ہم محبت نبوی کے تقاضے او علامات کی طرف آتے ہںی۔ قرآن وسنت کی رو سے محبت نبوی کے تقاضے اور علامات درج ذیل ہںے :
شان رسالت پر ایمان کامل
جس طرح محض اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے پر ایمان کافی نںرف بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور کمالات کو ماننا لازم ہے، اسی طرح سرور دو عالم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کو صرف نبی یعنی صاحب وحی ماننا کافی نںبو بلکہ آپ کے فضائل و کمالات مثلاً یہ کہ
٭آپ اسلام کے شارع یعنی قانون ساز ہںے۔
٭آپ گناہوں سے معصوم ہںن۔
٭آپ اللہ کی عطا سے ماکان ومایکون (جو ہو چکا اور جو کچھ ہونے والا ہے) کو جاننے والے ہںل۔
٭آپ شاہد ہںی یعنی پوری کائنات کا مشاہدہ فرما رہے ہںآ۔
٭آپ کو لاتعداد معجزات عطا کئے گئے۔
٭آپ اللہ کے اذن سے مشکل کشا اور حاجت روا ہںم۔
٭آپ تمام جاتنوں میں شفاعت فرمانے والے ہںب۔
٭آپ اپنی قبر انور میں زندہ ہںے اور قبر انور میں بھی خدا کے خزانے تقسیم فرما رہے ہںی۔
٭آپ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
٭آپ کی گستاخی کفر ہے اور خدا تعالیٰ کی گستاخی ہے۔
٭آپ آخری نبی ہںل۔
٭آپ اللہ تعالیٰ کی ذاتی اور صفاتی تجلیات کا مرکز ہںں۔
٭سید المرسلین ہںا۔
٭رحمۃ اللعلمین ہںا۔
٭اللہ تعالیٰ کے محبوب ہںر۔
٭اور اللہ تعالیٰ کی عطا سے اس کے خزانوں کے مالک ہںب۔
٭امام الانبیاء ہںا۔
٭اللہ تعالیٰ اور مخلوقات کے درمیان وسیلہ کبریٰ اور واسطہ عظمیٰ ہںھ۔
٭انسان کامل ہںی۔
٭اور آپ کی حقیقت نور ہے۔
٭آپ ہی کا نور اول المخلوقات ہے۔
٭اور دیگر لا تعداد فضائل و خصائص اور کمالات پر ایمان بھی لازم ہے۔
آپ کا ادب و احترام
محبت نبوی کا دوسرا بڑا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بعد ساری کائنات میں سب سے زیادہ حضور نبی اکرمﷺ کا ادب و احترام کرے۔
بخاری کتاب الشروط میں ہے کہ جب سفیر قریش عروہ بن مسعود ثقفی حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہﷺ سے مذاکرات کر کے مکہ مکرمہ لوٹے تو قریش مکہ سے کای
ترجمہ: ’’اے میری قوم! میں کئی بادشاہوں کے پاس سفیر بن کر گیا ہوں ، میں قیصر روم، کسریٰ ایران اور نجاشی حبشہ کے پاس بھی سفیر بن کر گیا۔ اللہ کی قسم! کسی بادشاہ کے ساتھی کسی بادشاہ کی اتنی تعظیم نںمئ کرتے جیسا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھی اُن کی تعظیم کرتے ہںا۔ اگر وہ تھوکتے ہںس تو اُن کا تھوک کسی ہاتھ پر پڑتا ہے تو وہ اُسے چرنے اور جسم پر مل لیتا ہے۔ اور وضو کرتے ہںر تو وضو کااستعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے لڑائی تک نوبت پنچتی ہے۔ اور جب کلام کرتے ہںم تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ وہ اُن کی تعظیم کی وجہ سے اُنںمو آنکھ بھر کر نںرض دیکھتے۔ یقیناً اُس شخص (حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم) نے تم پر ہدایت پیش کی ہے تم اُسے قبول کر لو!‘‘
یہ حدیث مبارک ایک نمونہ ہے، وگرنہ صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ سے منسوب اشیاء، آپ کا لباس، برتن، آپ کے قیام کی جگںطث ، آپ کا منبر مبارک اور دیگر آثار و تبرکات کی بے پناہ تعظیم کرتے اور آثار نبوی سے برکت وسکون حاصل کرتے تھے اور اس پر بعد میں اُمت مسلمہ کا عمل رہا۔
شارح بخاری امام احمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مواہب لدنیہ میں فرماتے ہںہ : ترجمہ: ’’آپ کی محبت کی علامت آپ کے آل و اصحاب، آپ کے دین، آپ کے شرں (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ) سے محبت، بلکہ ہر اُس شے سے محبت ہے جو آپ کی طرف منسوب ہو۔ ‘‘
آپ کی اطاعت
آپ الہر تعالیٰ کے بعد اسلام کے شارع (قانون ساز) ہںن اور گناہوں سے معصوم ہںے ، آپ کا ہر قول و فعل وحی خفی ہے۔ لذاا آپ کا ہر قول و فعل شریعت ہے، دین ہے اور جب تک ثابت نہ ہو جائے کہ آپ کا قول و فعل منسوخ ہے، یا آپ کا خاصہ ہے، آپ کے ہر قول و فعل کی پیروی و اطاعت مسلمانوں پر لازم ہے۔ بلکہ آپ کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ عقائد اسلامیہ، عبادات، معاملات، اخلاقیات، بود و باش، آداب زندگی، تجارت، سیاست اور دیگر تمام اُمور میں حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع و اطاعت اختیار کریں۔ قرآن مجید، پارہ نمبر، سورہ آل عمران، آیت نمبر 31 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’فرما دو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو! پھر اللہ تعالیٰ تمںہو اپنی محبت سے نوازے گا۔ ‘‘
آپ پر ہر چیز کو فدا کر دینا
جیسا کہ آیت ’’قُلْ اِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ۔ ۔ ۔ الخ‘‘ سے واضح ہے کہ محبت نبوی کا تقاضہ ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کی سنت کے مطابق نبی اکرمﷺ کے ناموس اور آپ کے دین کی حفاظت و مدافعت کیلئے اپنی عزت، جان، مال، اولاد سمیت ہر پیاری چیز کو قربان کر دینا ضروری ہے۔
حضرت قاضی عیاض ’’شفا شریف‘‘ میں فرماتے ہںی : ترجمہ: ’’آپ کے دین کی امداد اور آپ کی شریعت مطریہ کے دفاع کیلئے قربانیاں دینا ہی آپ کی محبت کی علامت ہے۔ ‘‘
کثرت درود و سلام و کثرت ثنا خوانی
ارشاد نبوی ہے: ترجمہ: ’’تم میں سے قیامت کے روز میرے سب سے زیادہ قریب (اور ایک روایت میں ہے) روز قیامت (میری شفاعت کا) سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا درود وسلام زیادہ ہو گا۔ ‘‘ ایسے ہی حضورﷺ کے معجزات، میلاد، معراج، سیرت و صورت اور دیگر کمالات کو بیان کرنا سنت صحابہ ہے۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ ایک ثنا خوان حضرت کعب بن زہیر سلمی رضی اللہ عنہ کو حضورﷺ نے اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور حضرت عباس و حضرت حسان رضی اللہ عنماص کو ثنا خوانی و نعت خوانی و میلاد بیان کرنے پر دعاؤں سے نوازا۔ بلکہ بخاری شریف میں ہے کہ نبی علیہ السلام حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نعت سننے کے لئے مسجد نبوی میں منبر بچھواتے تھے۔ !
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل اُمت مسلمہ کو حضور سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ کی اعلیٰ و ارفع نسبتوں سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماخذ:
http://www.urdusky.com/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-islam/%D9%85%D8%AD%D8%A8%D8%AA-%D8%B1%D8%B3%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81%EF%B7%BA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D9%82%D8%A7%D8%B6%DB%92.html/
٭٭٭
محبتِ رسول کے تقاضے
سید احمد محمدی
محبت ایک پاکیزہ لفظ ہے جو دل کے صحیح میلان کا نام ہے۔ اگر محبت میں صداقت ہو تو اس میں احترام، اتباع اور پائداری کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ وہ اپنی بیمار اور پریشان حال ماں جو دواؤں اور خدمت کی محتاج ہو‘ سے بتر محبت کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کی ضروریاتا ور تقاضے کو نظر انداز کر رہا ہے، تو کیا کوئی اس کی محبت کے دعوی کو تسلیم کرے گا۔ ہرگز نںر/ ! محبت محبوب کے تقاضے سے مشروط ہوتی ہے،اگر تقاضے کی تکمیل نہ ہو تو دعوی بے بنیاد اور کھوکھلا ثابت ہوتا ہے۔
بعینہ اگر ہںید اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہے تواس کے تقاضے سامنے آنے چاہںیا ،زیر نظر مضمون میں محبت رسول کے چند تقاضوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے:
1. سنتِ رسول کا علم
محبت رسول کے لیے سنت رسول کا علم ضروری ہے تاکہ مقام سنت کی صحیح معرفت حاصل ہوسکے،کیونکہ صحابہ کرام شرسے اجتناب اور خیر میں سبقت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ کے اس قول پر غور کریں تو دونوں باتیں واضح ہو جاتی ہںو :
”صحابہ کرام آپ سے خیر کے بارے میں دریافت کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا مبادا کہ اس میں واقع ہو جاؤں۔ “ (مسند احمد : حدیث نمبر: 23390)
2. اطاعت
بغیر اطاعت کے محبت کا دعوی جھوٹا مانا جاتا ہے۔ محمود بن حسن وراق نے کیا خوب کا3 ہے:
لوکان حبک صادقا لاطعتہ
ان المحب لمن یحب مطیع
اگر تماعری محبت سچی ہوتی تو تم اس کی اطاعت کرتے کیونہس محبت کرنے والا اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے۔
اگرکسی مسلمان سے یہ سوال کیا جائے کہ تم سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہو؟ تو یقیناً امت مسلمہ کے ہر فرد کی زبان پر بلا تردد یہ الفاظ ہوں گے کہ اللہ اور اس کے رسول اسے،لیکن کیا واقعی ہم اپنے دعوی محبت میں سچے ہںم ؟ کیا ہماری زندگی حقیقی معنوں میں حب اللہ اور حب رسول اکا مظری ہے ؟ کیا اللہ کے اس فرمان کو ہم نے صحیح طریقہ سے سمجھا ہے؟ ( قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم ) ( آل عمران: 31) ترجمہ: ”کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تماارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مردبان ہے۔ “
چنانچہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت اسی وقت ثابت ہو گی جبکہ اس کے تقاضے کی تکمیل ہو یعنی اتباع رسول کا عملی جامہ پنن لیں۔ اللہ نے نبی اکرمؐ کی اطاعت کوعین اپنی اطاعت قرار دیا ہے:من یطع الرسول فقد اطاع اللہ (سورۃ النساء: 80) ” جو رسول کی اطاعت کرتا ہے تو اس نے میری فرمانبرداری کی“
نیز فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:من اطاعنی فقد اطاع اللہ ومن عصانی فقد عصی اللہ( صحیحین )”جس نے میری اتباع کی، اس نے اللہ کی اتباع کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی“۔ (بخاری 7137 مسلم 32)
اللہ اور اس کے رسول اسے ان کی اطاعت کے بغیر محبت تسلیم نںوب کی جاتی گرچہ انسان دل سے محبت کیوں نہ کرتا ہو۔ کیونکہ ابو طالب جو رسول اکرمؐ کے چچا تھے وہ بھی نبی اکرمؐ سے محبت کرتے تھے۔ ابو طالب نے اپنے بھتیجے کی محبت میں سارے مکہ والوں سے دشمنی مول لی اور ان کی پرورش کے لیے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں ، ان کی ہر ابتلاء اور آزمائش میں قدم بقدم آپ کا ساتھ دیا،ییے وجہ تھی کہ ان کے انتقال پر نبی اکرم ؐ بتب زیادہ غمزدہ ہوئے تھے۔ محبت رسول اور دفاع رسول ؐ میں اس قدر رول ادا کرنے کے باوجود اللہ نے ان کا ٹھکانہ جنمک قرار دیا کیونکہ ایمان اور اطاعت رسول سے ان کا دامن خالی تھا۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے،رسولؐ نے فرمایا:
” جنمن کے عذابوں میں سب سے خفیف عذاب ابوطالب کو دیا جائے گا اور وہ یہ کہ جنما میں اسے آگ کے دو جوتے پناائے جائیں گے جسکی وجہ سے ان کا دماغ پک رہا ہو گا“ (صحیح مسلم: 367)۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ لگاؤ تھا، جب انںھ علم ہوا کہ ابوجلے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بدسلوکی اور بدزبانی کی، تو بھتیجے کی محبت امنڈ پڑتی ہے اور بلا توقف ابو جلر کا رخ کرتے ہںی ، ابو جلی کو ذلت آمیز الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے اس پر اپنے کمان سے حملہ آور ہوتے ہںر اور انتقام لینے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوتے ہںس ، اور کتےہ ہںی کہ بھتیجے خوش ہو جا، میں نے تمالرے دشمن سے تماجرا بدلہ لے لیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرماتے ہںی۔ مجھے ان دنیوی محبتوں سے کبھی خوشی نںول ملتی جب تک کہ آپ اللہ پر ایمان نہ لے آئیں اور میری اتباع نہ کریں۔ یہ سن کر حمزہ رضی اللہ عنہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو فرض قرار دیا ہے۔ اور جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتاہے گویا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
…. ومن عصانی فقد عصی اللہ۔ ” اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی“ (بخاری: حدیث نمبر: : 7137 مسلم،حدیث نمبر: 32)
3. ہر قول وفعل پر عمل اور ہر نواہی سے اجتناب
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول و فعل پر عمل کرنا اور ہر نواہی سے رک جانا محبت رسول کا بنیادی تقاضا ہے، ارشاد ربانی ہے: وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔
”اور رسول جو کچھ دے،لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ “۔ ( سورۃ الحشر:7)
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ان کے ہر قول و فعل کو حرز جان بنانے ہی میں ایک مسلم کی فلاح و ببوہد مضمر ہے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی بھی اسی وقت قابل قبول ہے جب حقیقی اطاعت پائی جائے۔ آج اگر امت مسلمہ کے بےشمار افراد کے دعوی محبت کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان کا دعوی کس قدر کمزور ہے، جسے کسی فرمان رسول اللہ کا پاس و لحاظ نںول ، اور نہ ہی تقاضہ رسالت کا شعور ہے۔ امت کا ایک بڑا طبقہ اتباع ہوائے نفس میں غرق ہے تو دوسرا سنت رسول اللہ کی جگہ بدعات کے دلدل اور دن بدن نت نئی خرافات کا شکار ہے۔ مقام رسالت کی صحیح معرفت نہ ہونے کی وجہ سے شرک بالرسالت کا ارتکاب کر رہا ہے، اللہ تعالی نے رسول صلی للہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع واجب قرار دیا ہے جبکہ ہم نے بے شمار شخصیتوں کو اتباع و اقتداء کے قابل مانا، اللہ نے قرآن و اقوال رسولؐ کو شریعت قرار دیا ہے جبکہ ہم نے بے شمار ہستیوں کے اقوال و آراء کو شریعت تسلیم کیا ہوا ہے۔ اللہ نے اپنے اور نبیؐ کے قول کو قول فیصل کای ہے۔ لیکن ہم نے بیشمار شخصیتوں اور بزرگان دین کے اقوال کو قول فیصل مان رکھا ہے۔
4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی باعث ہلاکت و آزمائش
رسول صلی الہم علیہ وسلم کی نافرمانی بڑے گناہوں میں سے ہے جس کے مرتکب کو اللہ تعالی نے عذاب سے ڈرایا ہے۔ :
”آپ کہہ دیجیے : اگر تماحرے باپ اور تمامرے لڑکے اور تمانرے بھائی اور تماکری بیویاں اور تمابرے کنبے اور تماارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنںہا تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمںل اللہ سے اور اس کے رسول اور اس کی راہ کے جااد سے بھی زیادہ عزیز ہںا ، تو تم اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔ “ (التوبہ:24)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:﴾ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم﴿(سورۃ النور: 15) ترجمہ: ” غور سے سنو! جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہںی ،انںر ڈرتے رہنا چاہیے کہ کںنی ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انںن دردناک عذاب(نہ) پنچے “۔
بلکہ اللہ نے صراحتاً فرما دیا کہ ہر مسلم اختلاف کی صورت میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرمان کو حرف آخر تسلیم کرے، کسی کی صالحیت اور بزرگی کی بنا پر اس کے اقوال و آراء کو قول فیصل ماننا ضلالت ہے۔ اللہ کا ییذ فرمان ہے:
فان تنازعتم فی شیءفردوہ الی اللہ والرسول….﴿ ( سورہ النساء: 8 ) ”پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے کی طرف لوٹاؤ “ کیونکہ مقام رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے، کسی اور کو نںپل۔
ماخذ:
http://www.misbahmagazine.com/?p=1205
٭٭٭
محبت رسولﷺ کے تقاضے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہُ أُمَّہَاتُہُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَی أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا کَانَ ذَلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورًا (الاحزاب:۶) نبیﷺ مومنوں پر ان کی ذات سے زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہںن اور رشتہ دار اللہ کی کتاب کے مطابق ایک دوسرے کیلئے مومنوں اور ماوجروں سے زیادہ حقدار ہںل سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں کیلئے پسندیدہ طور پر کچھ کرو۔ یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
اسلام اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑا انسان بھی اس محبت میں شریک نںلہ ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہںت : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ البقرۃ:۱۶۵
کچھ لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہںو جن کے ساتھ وہ ایسی محبت کرتے ہںِ جو کہ اللہ کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ایمان والوں کی محبت تو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی کے ساتھ بھی ایمان والوں کی محبت نںرگ ہوتی۔ اس کے بعد پھر رسول کریمﷺ کی محبت ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف اللہ کے رسولﷺ ہوں اور دوسری طرف کائنات کی کوئی بھی چیز ہو، جب تک انسان رسول اللہﷺ کی محبت پر کسی دوسرے کو ترجیح دیتا ہے، وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نںبّ ہوا جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی چنانچہ رسول معظمﷺ فرماتے ہںم : وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لاَ یُومِنُ اَحَدُکُم حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ إِلَیہِ مِن وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجمَعِینَ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تم میں سے اپنے بیٹے اور والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک کوئی شخص صاحب ایمان اور مسلمان نںرَ ہو سکتا۔
اللہ نے ہںیم پیدا فرمایا ہے ہماری خواہںیل ، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نںلہ جانتا۔ اللہ نے فرمایا :
﴿قُلْ إِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ﴾(التوبہ:۲۴)
کہہ دیجئے اگر تمںَو اپنے والدین اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور رشتہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہںئ اور تجارت جس میں گھاٹے سے ڈرتے ہو اور تماِرے مکانات جنںہ تم پسند کرتے ہو، تمںئں اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کی راہ میں جارد سے زیادہ محبوب ہںئ تو پھر انتظار کرو یارں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نںلر دیا کرتے۔
یعنی اللہ تعالیٰ انںلت رستہ دکھاتے ہی نںْم لذاا ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سب سے بڑھ کر محبت ہو۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں آ جاتی ہںں ، وہ ایمان کی لذت پالیتا ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے ان میں پلیَ چیز اللہ اور اس کے حبیبﷺ محبت رکھتا ہے
اس حدیث کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے :
شدر میٹھا ہے لیکن جو شخص بیمار ہو جاتا ہے جب وہ شدَ کو منہ میں ڈالتا ہے تو اسے کڑ وا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شدا کڑ وا نں ج بلکہ بیمار کے منہ کا ذائقہ خراب ہے اور اس کا مزاج بگڑ چکا ہے۔ بیماری کی وجہ سے اس کا احساس درست نںکُ رہا۔ شدں میٹھا اسے ہی محسوس ہو گا جو تندرست ہو گا بیمار کو تو شدم کڑوا ہی محسوس ہو گا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا بڑ ی ہی عزیز چیز ہے۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر میں قریش کا ایک سردار قتل کر ڈالا اس کے بعد ایک اور موقعہ پر وہ ایک جنگی مما میں شامل ہوے تو اس میں گرفتار ہو گئے۔ جس آدمی کو قتل کیا تھا، اس کے وارثوں نے انںا خرید لیا اور اعلان کر دیا کہ ہم انںتا قتل کر کے اپنا بدلہ لیں گے ایک دن مقرر ہو گیا کہ فلاں دن خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑھایا جائے گا۔ یامں ایک بات سمجھنے کی ہے، وہ یہ کہ پھانسی اور چیز ہے سولی اور چیز ہے۔ پھانسی یہ ہے کہ گلے میں ایک رسی ڈال کر نیچے تختہ رکھا جاتا ہے۔ اس کے نیچے ایک گڑھا ہوتا ہے وہ تختہ ہٹا لیا جاتا ہے تو وہ شخص پھندے کے ساتھ جھولتا رہتا ہے اس کا گلا گھٹتا ہے اور یوں وہ مر جاتا ہے۔ لمحے کی بات ہوتی ہے، یا چند لمحوں کی۔ مگر سولی والی موت بتٹ المناک سزا ہوتی ہے۔ سولی کے لیے ایک اونچا لمبا کھمبا گاڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر ایک آڑ ی ترچھی لکڑ ی رکھی جاتی ہے جیسے صلیب ہوتی ہے پھر جس شخص کو سولی دینا ہوتی ہے، اس کے جسم کو سیدھی لکڑ ی کے ساتھ اور ہاتھ ترچھی لکڑ ی کے ساتھ باندھ دیئے جاتے ہںت پھر اس کو نیزوں اور تلواروں کے کچو کے دے دے کر مارا جاتا ہے یا بعض کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ دھوپ میں پڑا رہے اور پرندے اور درندے اسے آ کر نوچتے رہتے ہںک یہ بڑ ی ہی خوفناک سزا ہے۔
اب خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑھا دیا گیا انںئہ ایک ظالم کافر نے نیزے سے کچو کہ مارا اور کنےا لگا، آج تو پسند کرتا ہو گا کہ تیری جگہ محمدﷺ ہوتے اور تو ان کے بدلہ مںن چھوڑ دیا جاتا تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ کنےی لگے، میں تو یہ بھی پسند نںرہ کرتا کہ محمدﷺ کو کانٹا بھی چبھے اور میری جان بچ جائے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اتنا کسی اور کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق نںفن ہو سکتا۔ اگر ہو تو پھر سمجھ لو کہ اس کے ایمان میں کمی ہے نبیﷺ نے فرمایا: ایمان کا ذائقہ وہ شخص چکھتا ہے جس میں تین چیزیں ہوں : پلیہ چیز یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محبت رکھے تو صرف اللہ کے لیے محبت رکھے، یااں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس سے مسلمان محبت رکھے اللہ کی خاطر رکھے۔ جو شخص دنیا کی طمع رکھتا ہے، وہ ایمان کی لذت سے کسی صورت آشنا نںھے ہو سکتا۔ ایسا آدمی طامع اور لالچی ہے جاعں لالچ نظر آتا ہے اس طرف بڑھ جاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ اور ایمان سے اس کا کیا واسطہ؟ اس قسم کا شخص بھی ایمان کی لذت سے کبھی آشنا نںول ہو سکتا۔ یامں ایک بات سمجھنے کی ہے ایک حب طبعی ہوتی ہے اور ایک حب عقلی و ایمانی۔ حب طبعی کا معنی طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے محبت ہے حب عقلی و ایمانی کا مطلب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ اس سے محبت کی جائے جیسا کہ ہںیی بے شمار دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کا ہم پر یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ اس نے ہںیت پیدا کیا اس لیے اس کا حق ہے کہ اس سے محبت رکھیں اور اس کی عبادت کریں اس کے بعد رسول اللہﷺ اور یہ اس کا ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہںیت سیدھا راستہ معلوم ہوا ان کا حق ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کی اطاعت کریں چونکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ ہمارے تمام دوستوں اور عام لوگوں سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہںں اس لئے جب ہماری طبیعت کی محبوب چیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان مقابلہ ہو تو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ، لوگوں اور چیزوں سے زیادہ خیرخواہ ہںا کہ ایک طرف بیٹے، بیوی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے محمد رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ ایسی حالت میں پتہ چلتا ہے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے ؟ تیسری چیز یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو کفر کی طرف لوٹنا آگ میں گرائے جانے سے برا معلوم ہو۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ نبیؐ کے ایک صحابی مرثد رضی اللہ عنہ باےدر اور دلیر تھے۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی کریمﷺ نے ان کی ذمہ داری ایک نامیت مشکل کام پر لگا دی۔ مکے میں کافروں نے اپنے کچھ عزیزوں کو ہجرت سے روک کر ان کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے مرثد! تم نے پلےب ان کا پتہ کرنا ہے کہ قیدی کاعں ہںھ پھر ان کے نکالنے کی سبیل کرنی ہے پھر وہاں سے انںیل نکال کر مدینہ لانا ہے۔ بھائیو! دشمنوں کے گھر میں جا کر جایں کوئی مونس و مددگار نںںل ، وہاں اکیلے شخص کا ایسی ڈیوٹی کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں نقب زنی کرتے رہے تھے، ڈاکے مارتے رہے تھے۔ قدرت نے وہ ساری تربیت ایک سیدھے کام کی طرف لگا دی یہ مکہ میں ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر کھڑ ے تھے تو عناق نامی ایک عورت نے انںدد دیکھ لیا (یہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے عشق و محبت کرتے تھے ) اس نے کای مرثد ہو؟ فرمایا: ہاں مرثد ہوں کتیت ہے مرحبا۔ آؤ پھر آج رات ہمارے پاس گزار لو، اب دیکھتے خواہش نفس پوری کرنے کا مکمل موقع ہے۔ مرثد نے کیا ایمان افروز جواب دیا۔ فرمایا اے عناق! اسلام میرے اور تیرے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ قَد حَرَّمَ الزِّنَا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے۔
حالانکہ مرثد کو خوب معلوم تھا کہ اگر اس کی خواہش پوری نہ کروں گا تو یہ شور مچائے گی ایک طرف رسول اللہﷺ کے فرامین ہںا کہ زنا حرام ہے تو دوسری طرف پرانی محبت چھوڑ دی۔
قارئین کرام! ایسی محبت مصیبت ہوتی ہے مرثد کی اللہ اور اس کے رسول سے ایمانی محبت تھی۔ اس لئے انوےں نے کافرہ عورت سے تعلقات توڑ ڈالے اور بھاگ کر ایک جگہ چھپ گئے۔ فرماتے ہںس میں جس جگہ چھپا ہوا تھا، وہاں ایک کافر نے پیشاب کیا تو اس کی دھار مجھ پر پڑ ی لیکن اللہ نے کافر کو اندھا کر دیا اور وہ مجھے دیکھ نہ سکا۔ اس کے بعد میں اس جگہ پنچا جاےں وہ قیدی تھا جسے نکالنا تھا¸اس کی زنجیریں کھولیں اور اپنے ساتھ مدینہ لے آیا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں عناق سے نکاح کر لوں ؟ آپﷺ نے یہ آیت پڑھی۔
﴿ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ﴾(النور:۳)
زانی نکاح نںال کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کے ساتھ نکاح نںاق کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک اور یہ چیز مومنوں پر حرام کر دی گئی ہںر۔
یہ آیت پڑھ کر آپﷺ نے فرمایا : اس سے نکاح مت کرو اس آیت میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کیا گیا کیونکہ مشرک بے غیرت ہوتا ہے، اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے اور زانی بھی بے غیرت ہوتا ہے جو اپنی محبوبہ میں غیر کی شرکت کو برداشت کرتا ہے۔
رسول اللہﷺ کے صحابہ نجد کے بادشاہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے لے آئے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دو۔ نبیﷺ مسجد میں تشریف لائے پوچھا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ کاو ٹھیک ہے۔ اگر آپ قتل کریں گے تو اس شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لینے والے موجود ہںی اور اگر احسان کر دو تو ایک قدر دان شکر گزار پر احسان کرو گے۔ اگر دولت چاہتے ہو تو میں دولت منگوا کر دے دیتا ہوں۔ نبیﷺ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ مقصود یہ تھا کہ یہ مسجد میں مسلمانوں کی عبادت باہمی محبت اور اخلاق دیکھے کیونکہ سنا سنایا تو بتت کچھ ہوتا ہے جو خلاف اسلام ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں فرق ہوتا ہے چنانچہ نبیﷺ دوسرے دن پھر تشریف لائے تو آپؐ نے پھر اس سے احوال دریافت فرمایا: اس نے پھر ییک تینوں باتیں دہرائیں۔ تیسرے دن پھر آپﷺ تشریف لائے تو اس نے پھر ییا الفاظ دہرائے نبیﷺ نے فرمایا : اَطلِقُوا ثَمَامَۃَ ثمامہ کو آزاد کر دو۔
اس کے بعد ثمامہ ایک آدمی سے پوچھتا ہے۔ بھائی جان ! بتاؤ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس نے کاد غسل کرو کلمہ پڑھو تو مسلمان ہو جاؤ گے۔ اس آدمی نے قریب کے چشمہ کی طرف رہنمائی کی۔ وہ وہاں گیا غسل کیا اور آ کر کلمہ پڑھا۔ اشدی ان لا إلہ إلا اللہ واشدہ أن محمداً عبدہ ورسولہ۔ اب جو میں بات کرنا چاہتا ہوں ، وہ اس سے آگے ہے۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ کتےھ ہںا یا رسول اللہ ! ایمان لانے سے پلےا اس روئے زمین پر کوئی چراہ آپﷺ سے زیادہ برا چرکہ نظر نںلہ آتا تھا مجھے سب سے زیادہ نفرت آپﷺ سے تھی۔ اب یہ حال ہے کہ اس دنیا میں آپ کے چرلے سے زیادہ محبوب چررہ میری نظر میں کوئی نںطل۔
ذرا غور کرنا ہے کہ اسلام قبول کیے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو کتنی مدت ہوئی ہے ؟ لیکن آپﷺ کی شکل و صورت سے کس حد تک پیار ہے۔ ایک ہم بھی مسلمان ہںل۔ 60,50,40اور70 سال عمر گزار چکے، جانتے بھی ہںا کہ رسول اللہﷺ کی شکل و صورت کیسی تھی؟ آپ نے داڑھی پوری رکھی تھی۔ آپ سیدھی مانگ نکالتے تھے آپ کا لباس کیسا تھا؟ مگر عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ہم میں نبیﷺ کے ساتھ اتنی محبت بھی پیدا نںا؟ ہو سکی کہ ہم اپنی شکل ہی نبیﷺ کی شکل مبارک کے مطابق بنا لیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہںیو رسول اللہﷺ سے سچی محبت کرنے والا بنا دے اور ہںیہ علم نافع عطا فرمائے۔ آمین
ماخذ:
http://www.islamqaonline.com/index.php?option=com_content&view=article&id=237:2011-04-20-11-14-53&catid=45:book-unicode&Itemid=88
٭٭٭
حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے
محمد شفیق سلطان
حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاء باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروئے شریعت کچھ تقاضے ہںز۔ خود نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے: ’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نںبو ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض جمیع انسانیت سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے‘۔ ان تقاضوں میں سے ایک تقاضا تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب و احترام کرنا، آپ سے محبت رکھنا ہے۔ اگر آدابِ محبت سے شناسائی نہ ہو تو قرآن مجید فرقان حمید، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین کا جائزہ لیا جائے، ہر چیز واضح ہو جائے گی۔ رب تعالیٰ نے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کو ظاہر فرماتے ہوئے سورۃ البلد میں ارشاد فرمایا ہے: ’اے پیغمبر! ہم اس شری کی قسم کھاتے ہںئ اور اس لیے کہ تم اس میں مقیم ہو‘۔ ایمان والوں کو ارشاد ہوتا ہے : ’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اللہ سے ڈرو‘ (الحجرات)، پھر ارشاد ہوتا ہے : ’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی آواز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ کرو‘۔ رب تعالیٰ نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک لفظ بھی گستاخی کا برداشت نہ کیا۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین ’راعنا‘ کہہ کر پکارتے تو اس کو لمبا کر دیتے جس سے معانی بدل جاتے اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گستاخی کا پلوع نکلتا، رب تعالیٰ نے اُن کی اس گستاخ سوچ کو سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 104 میں رَد کرتے ہوئے ایمان والوں کو حکم دیا: ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو راعنا نہ کای کرو بلکہ ”انظرنا“ کان کرو‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات سے بغض رکھنے والے ابولبم کے متعلق ارشاد فرمایا: ’ٹوٹ گئے ہاتھ ابولبک کے‘ (سورۃ لبل)۔ الغرض رب تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی خود تکذیب فرمائی۔ آج کچھ نادان لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے واقعات کو جواز بناتے ہوئے کتےا نظر آتے ہں& کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے تو کوڑا پھینکنے والی عورت کو بھی معاف فرما دیا تو توہین رسالت کے مرتکب افراد کو بھی معافی ملنی چاہئے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اُن لوگوں نے اسوہ حسنہ اور سیرت صحابہ پر غور نںنل کیا۔ خود نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا تو ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ وہ اشخاص جنوسں نے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی اور ناموس رسالت کے مجرم تھے اُن کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جائے، اُنںشا معافی نںلا خواہ وہ کعبے کے پردوں سے لٹک جائیں (اہل عرب میں یہ دستور تھا جو شخص کعبے کے پردے سے لٹک جاتا، اُس کو معافی مل جاتی)۔ امام بخاریؒ کے استاد عبدالرزاق بن ھمامؒ (جو تابعین میں سے ہںی ) نے اپنی کتاب المصنف میں 9705 نمبر حدیث روایت کی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر اُس عورت کو قتل کیا۔ قاضی عیاض ؒ کی کتاب ”الشفاء“ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ خطمہ کی ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: کون ہے جو میرے لیے اس کو ٹھکانے لگائے گا؟ اُس قبیلے کے ہی ایک شخص نے اُس ملعون عورت کو ٹھکانے لگایا تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا خون مباح ہے۔
قانون توہین رسالت پر فضول بحث کرنے والے افراد کو اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس معاملہ پر کئی غازی علم الدین شیدض پیدا ہو سکتے ہںت کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر بنے ہوئے قانون کی حفاظت کے لیے مسلمان جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نںمو کریں گے۔ بقول شاعر:
زندہ ہو جاتے ہںا جو مرتے ہںا اُن کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا
ماخذ:
http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/15-Jan-2011/116878
٭٭٭
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ماشاءاللہ