FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

جہاں کارواں ٹھہرا تھا

 

 

 

                قرۃ العین حیدر

جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید

 

 

 

 

جہاں کارواں ٹھہرا تھا

 

اس سنسان اکیلی روش پر نرگس کی پتیوں کا سایہ جھک گیا۔ بے کراں رات کی خاموشی میں چھوٹے چھوٹے خداؤں کی سرگوشیاں منڈلا رہی تھیں۔ پیانو آہستہ آہستہ بجتا رہا اور اسے ایسا لگا جیسے ساری دنیا، ساری کائنات ایک ذرّے کے برابر بھی نہیں ہے اور اس وسیع خلا میں صرف اس کا خیال، اس کی یاد، اس کا تصور لرزاں ہے۔ اور اس وقت اس نے محسوس کیا کہ رات، مرغ زاروں کی ہوا اور اس کی یاد ایک بار پھر جمع ہو گئے تھے۔ لیکن اسی وقت دھندلے ستاروں کی مدھم چیخیں آسمان پر گونج اٹھیں اور ان تینوں ساتھیوں کو منتشر کرتی ہوئی پہاڑیوں کی دوسری طرف جا کر ڈوب گئیں اور وہ خیالوں کے دھندلکے میں سے کہتا سنائی دیا: لیڈی ویرونیکا۔ می لیڈی۔ ہُش۔ چاند سن لے گا۔ پھول جاگ اٹھیں گے۔ اپنے ساز اور رواں نہ کرو۔ نیندوں کی بستی کے راستوں پر سے خوابوں کا، پھولوں اور گیتوں کا کارواں آہستہ آہستہ گزر رہا ہے اور اس نے انتہائی تکلیف کے ساتھ سوچا، اور ایسا سوچتے ہوئے اسے نا معلوم سی خوشی ہوئی کہ کاش، کاش وہ مر ہی جائے۔ وہ جس کی آواز اب تک ستاروں کے دھندلکے میں گونج رہی تھی۔ وہ بس مر جائے۔ اگر وہ خود نہیں مرسکی تو وہ کیوں نہیں مرتا۔ لیکن وہ زندہ ہے۔ سب زندہ ہیں۔ اور چاند آلوچے کی ٹہنیوں کے پیچھے چھپ گیا اور چاندنی رات کا گیت تھم گیا۔ مہا گنی کے بھاری سیاہ آتش دان کے کونے پر جلتی ہوئی شمع لرز اٹھی اور تصویر کے بڑے سے شیشے کی سطح پر دھندلی زرد روشنی کی لکیریں تیرتی رہیں اور نیلگوں رات کے ایوانوں میں سے جھک کر چھوٹے چھوٹے خداؤں نے چپکے سے اس سے کہا: لیڈی ویر ونیکا، ہوائیں خاموش ہیں، پھول سوچکے ہیں۔ تمہاری تصویر کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں کے اوپر کے شیشے کو گرد نے دھندلا کر دیا ہے اور اُس پر پرانے نقرئی شمع دان کا اجالا جھلملا رہا ہے کیوں کہ تم لیڈی ویر ونیکا نہیں ہو اور نہ زندگی وہ زندگی ہے جس میں چاند کی روشنی، شوپاں کی موسیقی، پھولوں کے رنگ اور سمندر کی موجیں تھیں۔ خوب صورت زندگی، خوب صورت دنیا اور خوب صورت لیڈی ویر ونیکا __ Oh! you silly little Lady make believe۔ شمع کا دھواں دیوار پر لہرا رہا ہے اور مہاگنی کا سیاہ آتش دان زیادہ مہیب نظر آتا ہے۔ زندگی مہیب ہے۔ ہیبت ناک، خوف ناک اور اکتائی ہوئی۔ زندگی اپنے آپ سے اکتا گئی ہے۔ زندگی کبھی ہاتھ نہ آنے والی اور دور سے نظر آ کر پھر کھو جانے والی فردوس کے لیے روتے روتے تھک چکی ہے۔

اور اس اندھیری روش پر سے آدھی رات کی ہوائیں شور کرتی ہوئی گزرتی ہیں۔ اس نے پیانو بند کر دیا اور اسے خیال آیا کسی نے کہا ہے: ’’ خدا نے ہمیں یادوں کا قیمتی خزانہ اس لیے عطا کیا ہے کہ ہم سرماکی برفانی فضاؤں میں بہار کے گلاب کی گرم خوشبوئیں حاصل کرسکیں۔‘‘ یہ یادیں۔ اس نے محسوس کیا کہ یادوں کی اس فراوانی نے اسے تھکا دیا ہے۔ پھر بھی وہ یادیں اور احمقانہ خواہشیں آگ کی سی تیزی کے ساتھ جل رہی ہیں اور ہوا کے ایک تیز جھونکے سے لیڈی ویر ونیکا کی تصویر کے نیچے لرزاں شمع یک لخت بھڑک کر بجھ گئی اور موسیقی کی کتاب کے چند ورق منتشر ہو کر پیانو سے نیچے گر پڑے۔ قریب کی کوٹھی میں کسی نے ریڈیو گرام پر ایک پرانے نغمے کا ریکارڈ بجانا شروع کر دیا تھا: ’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں اور ان محلات کی چار دیواری کے باسی مجھ پر نازاں ہیں اور میں ان کی امیدوں کا سہارا ہوں۔ میرے پاس بے شمار دولت ہے اور میں بے انتہا اعلیٰ نسب ہوں، اور خواب میں میں نے یہ بھی دیکھا، جس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی، کہ تم اب بھی مجھے اتنا ہی چاہتے ہو۔‘‘ ایک مرتبہ کالج کے اوپیرا میں اس نے یہ گیت اس آسٹرین ڈیوک کی لڑکی کا پارٹ ادا کرتے ہوئے، جسے بچپن میں خانہ بدوش چُرا لائے تھے، پائن کے جنگلوں میں پناہ گزیں پولش فوجی افسر کو سنایا تھا۔ شاید ایڈوینا نے بھی، جو اوپیرا میں ہیرو بنی تھی، اب تک یہ گیت فراموش کر دیا تھا۔ ہم سب یہ گیت بھول چکے تھے۔ میں اور کملا اور وملا اور مہر جبیں۔ ایسے بے کار کے جذباتی نغموں کا اثر کون لیتا ہے اور کون یاد رکھتا ہے؟ اور اس نے بہت شدّت اور تکلیف کے ساتھ سوچا، کاش تم نے اس وقت مجھے چاہا ہوتا جب میں نے بھی تمہیں چاہا تھا۔ لیکن خداؤں نے ایسا نہ ہونے دیا کیوں کہ پھر وہ یقیناً مر جاتی اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اکیلی ہے اور اس سے بہت دور ہے اور وقت کسی پرانے دیوتا کا پرانا خواب بن کر اپنی جگہ پر ٹھہر گیا ہے۔ وہاں پر صرف رات کی چیخیں تھیں اور خوابیدہ کائنات کی سسکیاں اور چاندنی کی ٹھنڈی آگ۔

وہ ریلنگ کے سہارے برآمدے کے ٹھنڈے فرش پر لیٹی رہی اور اسے ایسا لگا جیسے اس کے چاروں طرف شبنمی راہیں پھیلی ہوئی تھیں اور ان راہوں کے کنارے، ان راستوں کی منزلوں پر ہم سب وہاں موجود تھے، اس کے منتظر تھے لیکن وہ ہم کو پیچھے چھوڑ آئی تھی۔

اور پھر یہ سب کچھ سوچتے سوچتے نیلو فر سو گئی اور فضاؤں میں ہوا کے راگ اور خداؤں کی سرگوشیاں بند ہو گئیں۔

کس قدر جلد یہ سب مذاق ختم ہو گئے۔ ایک تصویر کو آخری ٹچ دیتے ہوئے مجھے خیال آیا۔ زندگی کا نیا چاند قہقہوں، آنسوؤں اور خوابوں کی حدوں سے دور، شفق کے جزیروں پر کبھی طلوع نہیں ہوتا اور ہم اس کے انتظار میں تھک کر سو جاتے ہیں اور پھر رات آتی ہے اور رات کی خاموشی اور پھر موت __ عشق کی موت۔ لیکن پھر بھی ہم زندگی کو دل چسپ اور زندہ رہنے کے قابل سمجھنے کے لیے مجبور ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں، ریوپرٹ بروک کی نظمیں، مہاراشٹرین طرز کی کلاسیکل موسیقی، والز کے نغمے، جیمس میسن کے فلم__ یہ ٹوٹی پھوٹی احمق چیزیں __ زندہ رہنے کی یہ بے وقوفی۔ زندگی بہت ہی مضحکہ خیز چیز ہے__ ہے نا! اس میں کوئی پلاٹ نہیں، کوئی تک نہیں۔ بہت سی باتیں ہیں۔ ایک کے بعد ایک، لگاتار بس ہوتی چلی جاتی ہیں جن کا آپس میں کوئی منطقی ربط تلاش نہیں کیا جا سکتا، جن کا پہلے سے کچھ پتہ نہیں ہوتا اور نہ بعد میں پتا چلتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جی ہاں، زندگی مضحکہ خیز ہے اور اس وقت چائنا پلیٹ میں رنگوں کو ملاتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ میری اور کملا کی ساری منطق اور فلسفہ طرازیاں یہاں پہنچ کر بالکل نا کام ثابت ہوئیں۔

کیوں کہ بہار کی ایک نارنجی سہ پہر کو کالج کے سوئمنگ پول کے مرمریں فرش پر کُہنیوں کے بل لیٹے لیٹے ہم نے اچانک یہ محسوس کیا کہ نیلو فر کی نیلی آنکھوں میں اُداسی کی لہریں تیرنے لگی ہیں اور اکنومکس پڑھنے کی کوشش ملتوی کر کے چاروں طرف جھکے ہوئے آم کے درختوں کے پرے دیکھتے ہوئے ڈورس نے دفعتاً ایک سوال کیا: ’’ اس کو دیکھا؟‘‘

’’ ہوں !‘‘

سب نے ایک ساتھ جواب دیا، پھر خاموشی چھا گئی: ’’ واش آؤٹ ہے بالکل۔‘‘ نیلو فر نے بے تعلقی سے رائے ظاہر کی۔ ’’ اینی کے سامنے کچھ مت کہو۔ اس کو اپنے اس بھائی پر بہت فخر ہے۔ ‘‘ سعیدہ نے کہا۔ ’’ خیر بھائی وہ ہرگز نہیں بگڑے گی۔ واش آؤٹ تو وہ بالکل نہیں ہے۔ مگر جناب وہ اپنے بھائیوں کا پروپیگنڈا قطعی نہیں کرتی ہے۔ بلکہ اس نے تو بہت انکساری اور خاکساری سے اور بالکل یوں ہی تذکرہ کیا تھا کہ اور تو اور زبیدہ عثمانی تک اس کے تازہ وارد بھائی سے فلرٹ کرنے کی فکر میں ہیں۔‘‘ ڈورس آہنی سیڑھیوں پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

__ اور اسی طرح دیر تک ان نئے انکشافات کے متعلق باتیں ہوتی رہیں اور جب پھولوں کا موسم گزر کر نیلے بادلوں اور پھواروں کا زمانہ آیا، جب دوپہر اور سہ پہر کے وقت قہوہ خانوں میں انتہائی چہل پہل اور رونق ہوتی ہے، تو کالج میں اچھا خاصا سنسنی خیز تہلکہ مچ گیا! ’’ فرخندہ آج بھی وہ قہوہ خانہ میں سخت show off کر رہا تھا اور اکثر سیاہ چشمہ لگاتا ہے چُغد کہیں کا کیوں کہ سیاہ چشموں سے زیادہ خوب صورت نظر آسکتا ہے اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہال کے بیچ کی نشستوں پر بیٹھ کر گوگلز کے ذریعے آپ سب کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم ہوسکتا کہ آپ کی نظریں کس کس طرف ہیں۔ مگر بھئی بے حد شان دار ہے اور اتراتا کس قدر ہے۔ آخر ہے کون یہ ؟ ‘‘ اور میں نے شرارتاً یوں ہی بے خیالی میں کہہ دیا: ’’ وہ ہے __ وہ ہے __ نیلو فر کا فیانسے۔‘‘ اور سارے کالج میں جانے کس طرح آپ سے آپ یہ خبر مشہور ہو گئی کہ نیلوفر کی شادی امتحانات کے فوراً بعد ہو جائے گی اور اس کافیانسے آج کل لکھنؤ میں ہے۔ اور جانے کس طرح نیلوفر نے یہ سوچ لیا__ جانے کیا کیا سوچ لیا۔ اور سعیدہ نے کہا : ’’ بھئی نیلوفر اپنی ساری آئیڈیلزم تہہ کر کے رکھ دو۔ بہترین پتنگ ہے۔ خوب صورت، دل کش اور اعلیٰ عہدے پر، اور تمہاری ہی دوست کا کزن بھی ہے۔‘‘ نیلوفر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ بچپن میں پورٹ بلیئر میں ہم لوگوں کے ساتھ رہ چکا ہے۔ میں نے اور کملا نے دماغ پر بہت زور ڈالا لیکن قطعی یاد نہیں آیا اور پھر ڈورس نے کہا کہ بھئی وہ تمہارے بچپن کے جاننے والے بھی نکل آئے Go ahead sister وہ اپنے مخصوص اینگلوانڈین انداز میں بولی اور نیلوفر فوراً رو پڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ ’’ بچپن کے جاننے والے کیا تمہارے نہیں ہیں۔ اینی کے تو کزن ہیں۔‘‘

’’ ہوں گے بھئی، ہم کو تو بالکل یاد نہیں۔ پورٹ بلیئر کا زمانہ گزرے اتنا عرصہ ہو گیا۔ اگر ہمیں پہلے نہ معلوم ہوتا کہ تم کنیرڈ سے آئی۔ ٹی۔ آر ہی ہو تو ہم تم کو بھی نہ پہچان سکتے۔‘‘ وملا نے کہا۔

اور ہمارے ٹیلی فون کی گھنٹیاں زیادہ تیزی سے بجنے لگیں۔ جب تک مسعود بھیّا کو الگ کوٹھی نہیں ملی وہ ہمارے یہاں ہی رہے اور ہماری ایک دوست کی دوست زبیدہ عثمانی نے، جو ایم۔ اے۔ اور لاء کے امتحان دیا کرتی تھی، اب براہ راست میری دوست بن جانا از حد مناسب سمجھا۔ وہ دو دن میں آٹھ بار فون کرتیں۔ نوکروں سے کہہ دیا گیا تھا کہ جب ان کا فون آئے تو کہہ دینا کوئی گھر پر نہیں ہے۔

اور اس شام نیلوفر قانون کی کلاس کے بعد ہوسٹل جانے کے بجائے سیدھی ہمارے یہاں آ گئی۔ لان پر درختوں کے اندھیرے میں سب گھر والے جمع تھے۔ اس نے پھاٹک سے ہی دیکھ لیا کہ ایک شان دار نیلی اسپورٹس کار برساتی میں کھڑی ہے۔ سبزے پر پہنچ کو سرو کے درختوں سے چھنتی ہوئی روشنی میں اس نے غور سے دیکھا کہ سوائے کنور مہندر سنگھ اور ایک صاحب کے باہر کا آدمی کوئی نہ تھا۔ اس نے سوچا شاید کنور صاحب نے اپنی کار تبدیل کر لی ہے۔ وکیل صاحب آ گئے بھئی۔ نیلو فر تھکی تھکائی ممی کے قریب آرام کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہلو وکیل صاحب۔ کنور مہندر نے دوبارہ کہا۔ ’’ اوہو آپ کب آئے مہندر بھائی۔ نیلو فر نے چونک کر کہا۔ شکر کہ بیرسٹر صاحب کو یاد تو آیا کہ اس خاکسار کو مہندر کہتے ہیں اور میں مسعود جاوید ہوں۔ مہندر کے ساتھی نے کھڑے ہو کر اس وثوق اور خود اعتمادی کے ساتھ اپنا تعارف کرایا جیسے دنیا میں صرف ایک وہی مسعود جاوید ہوسکتے ہیں، کوئی بہت ہی اہم اور مشہور ہستی۔ نیلوفر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا__ ہونھ __ اتراہٹ کی انتہا __ رات کا وقت ہے ورنہ گوگلز اس وقت بھی موجود ہوتے۔ کھانے کا انتظام کروا کے تھوڑی دیر بعد میں باہر آ گئی۔ بھائی جان بھی شام کی شفٹ ختم کر کے پائینر کے دفتر سے واپس آ گئے تھے۔ چاند سرو کے درختوں کے پیچھے سے طلوع ہو چکا تھا۔ کھانے کے وقت تک کے لیے ہم سب مس عثمانی کے فون کی باتیں کرتے ہوئے باہر خاموش سڑک پر ٹہلنے لگے۔ کنور مہندر نے کہا : مسعود کو اب تک لکھنؤ کی تاریخی عمارتوں کی سیر نہیں کرائی گئی۔ اگر اگلے مہینے اس کا یہاں سے بھی تبادلہ ہو گیا تو وہ کچھ نہیں دیکھ پائے گا۔

میں نے بے حد سنجیدگی سے انہیں بتایا لکھنؤ کے سب سے زیادہ تاریخی اور اہم ترین مقامات صرف تین ہیں : 21فیض آباد روڈ -3 فیض آباد روڈ، جہاں کملا رہتی ہے، اور ہمارے کالج کا لیڈی مہاراج سنگھ سوئمنگ پول جس کی خشک تہہ میں جمع ہو کر ہمارے اسکینڈل مونگرنگ کلب کی میٹنگ ہوتی ہے۔ اتنے میں گومتی کے قریب والی سڑک پر سے انوری بیگم اور قمر الاسلام آتے دکھائی دیئے۔ دیکھو مسعود بھیّا اسے مون لائٹ سیرینیڈ کہتے ہیں، میں نے ایک مستعد گائیڈ کی طرح سمجھایا۔ کنور مہندر، بھائی جان اور مسعود بھیّا نے اپنی خوب صورت یونانی قسم کی ناکیں سُکیڑ کر گویا کچھ سونگھنے کی کوشش کی۔ مسعود بھیّا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: اور تمہارے یہاں ڈونکی سیرینیڈ کیسا ہوتا ہے؟ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ہم ٹہلتے ہوئے ریلوے کراسنگ تک چلے گئے۔ وہاں تاروں پر بیٹھتے ہوئے مسعود بھیّا کو دفعتاً جیسے کچھ یاد آ گیا ہو اور انہوں نے آہستہ سے کہا: لیڈی ویروینکا۔ نیلوفر چونک پڑی اور پھر ہم سب کو دور، ریلوے لائن کے اس پار، گنّے کے کھیتوں کے اوپر جھکے ہوئے چاند کے اُجالے میں یاد آیا۔ پورٹ بلیئر میں ایک بار وملا کی سالگرہ کے فینسی ڈریس بال روم میں نیلوفر اٹھارویں صدی کی ایک مغربی شہزادی بنی تھی__ لیڈی ویرونیکا __ می لیڈی ! اور ڈھیروں جھالروں اور ریتوں والے وزنی لباس میں چھپی ہوئی چھوٹی سی لیڈی ویرونیکا نے اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھیں جھپکا کر شاہانہ وقار سے اپنی پنکھیا ہلاتے ہوئے کہا تھا: وی موسیو! مجھے ماری انطونی کہو۔ اور مسعود بھیّا نے دو زانو جھک کر اس کے حکم کی تعمیل کی تھی اور نیلوفر نے اپنی عجیب مضحکہ خیز حماقت آفرین ٹوپی کا پر چھوتے ہوئے کہا تھا: ارے میرے ڈارلنگ لوئی__ میرا بھیڑ کا سفید بچہ تم نے اب تک پیرس سے نہیں منگوایا۔ اور اچھا بھئی تم جیسے ایک بے وقوف سے سوئیڈش کاؤنٹ ہو، اب تم جھک کر ہکلاتے ہوئے کہو__ یور__ یور میجسٹی __ آپ دنیا کی خوب صورت ترین ملکہ ہیں۔

__ اور اس وقت چاند کے مدھم اجالے میں ہمیں جزائر انڈیمان میں گزارا ہوا اپنا بچپن یاد آ گیا۔ جزیرے میں جو کئی افسر سمندر پار سے تبدیل ہو کر آتا ہم سب سے پہلے یہ کھوج لگاتے کہ اس کے ساتھ بچے ہیں یا نہیں۔ مسٹر جسپال کے بچّے، ہم بہن بھائی، نیلوفر اور اس کی دونوں بڑی بہنیں اور چیف کمشنر کی لڑکی ایزمی __ سارے جزیرے میں صرف اتنے بچّے تھے۔ ہم صبح سے شام تک کھیلتے اور لڑتے۔ سہ پہر کو ساحل پر جا کر سیپیاں جمع کرتے، ریت کے قلعے بناتے، ایزمی کی قیادت میں کنارے کنارے تیرنے کی مشق کرتے اور رات کو بیٹھ کر جیومیٹری اور گرامر میں سرکھپاتے۔ بھائی جان، کملا اور وملا کے بڑے بھائی، ہم سب میں بلند و بالا اور قابلِ قدر ہستیاں سمجھی جاتیں کیوں کہ دونوں ہم سے دور، سمندر پار، کرنل بوائز میں پڑھ رہے تھے۔ کرسمس اور گرمیوں کی چھٹیوں میں جب یہ دونوں دہرہ دون پورٹ بلیئر آتے تو ہم سب کو کس قدر خوشی ہوتی تھی۔ ہم سب کی کوٹھیاں پاس پاس تھیں۔ لکڑی کے دو منزلہ جاپانی وضع کے سرخ چھتوں اور سبز جنگلوں والے ہمارے پیارے پیارے سے گھر۔ نچلی منزل میں ہماری کوٹھی کی حفاظت کے لیے گارڈ کے سپاہی رہتے تھے۔ برساتی کے اوپر سمندر کے رخ پر بڑے بڑے شیشے کے دریچوں والا ڈرائنگ روم تھا جہاں سے بندرگاہ کی طرف آتے ہوئے جہاز نظر آتے رہتے تھے۔ رات کو افق کی سیاہ لکیر کے قریب لائٹ ہاؤس کی روشنی جھلملاتی تھی۔ وہاں رنگوں کی کس قدر فراوانی تھی۔ گہرا نیلا اور گہرا سبز سمندر، سنہری ریت، سرمئی چٹانیں، کوٹھیوں کی سرخ چھتیں، ناریل کے ہرے جھنڈ، ساحل پر لہریں مارتی ہوئی نارنجی دھوپ، سفید سمندری پرندے اور ہماری کشتیوں کے سفید بادبان __ چاروں طرف رنگ ہی رنگ پھیلا ہوا تھا۔ کاش میں بڑی ہوتی تو ان رنگوں کو سمیٹ کر کینوس پر بکھیر دیتی۔ حدِ نظر تک پھیلے ہوئے لالہ زاروں پر برستی ہوئی دھوپ میں ایسا لگتا تھا جیسے فضا میں آگ لگ گئی ہے اور رنگ برنگے شعلے لپک رہے ہیں۔ ہمارے باغ کی ڈھلوان کے اختتام پر ناریل کے جھنڈ میں چھپی ہوئی مسٹر جسپال کی کوٹھی تھی۔ جب ابّا جان اور انکل جسپال اپنے دفتروں کو چلے جاتے اور ہمیں با دلِ ناخواستہ اپنے اپنے گھروں میں ماسٹروں سے پڑھنا پڑتا اس وقت ٹیلی فون کی شامت آ جاتی۔

وملا فون کرتی: اینی تمہارے ٹیڈی بیئر کی طبیعت اب کیسی ہے؟ میری پوسی کو زکام ہو گیا ہے اور شکنتلا نے میرے اسکوٹر کے پہیے توڑ ڈالے ہیں __ تمہارے مولی صاحب اب تک نہیں سوئے۔

سہ پہر تک یہی ہوتا رہتا تا وقتے کہ ممی کی ڈانٹ نہ پڑ جاتی یا مولی صاحب اس شور سے گھبرا کر اپنے مراقبے سے نہ چونک اٹھتے۔ ہمیں اُردو بالکل نہیں آتی تھی۔ ابّا جان کو سخت پریشانی تھی کہ اگر یہی عالم رہا تو بچّے بالکل اینگلو انڈین بن کر رہ جائیں گے۔

چناں چہ بے حد انتظام سے کلکتہ سے ایک سرخ داڑھی والے مولی صاحب کو پکڑ کر منگوایا گیا تھا اور الٹی میٹم ملا تھا کہ اگر تم نے مولی صاحب کے ساتھ بھی شرارت کی تو یاد رکھو کان پکڑ کر علی گڑھ بھیج دیا جائے گا۔ یہ بات اس قدر خوف ناک معلوم ہوئی تھی کہ دل پر جبر کر کے ہم نے اُردو کی گرامر اور آمد نامہ یاد کرنا شروع کر دیا تھا__ مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہے کہ جس روز مولی صاحب پہلی مرتبہ آئے تو انہوں نے قرآن شریف شروع کروانے سے پہلے بے حد سنجیدگی سے پوچھا: بی بی تم ہاتھ کھول کر نماز پڑھتی ہو یا ہاتھ باندھ کر۔ ہم نے بتایا کہ ہم نماز ہی نہیں پڑھتے۔ اتنے چھوٹے سے تو ہیں، کیسے پڑھیں۔ پھر انہوں نے پوچھا: اچھا تمہاری ممی کس طرح پڑھتی ہیں __ جواب ملا معلوم نہیں۔

انہوں نے پریشان ہو کر ابّا جان سے اس مسئلے پر رجوع کیا۔ روزانہ ہمیں آٹھ بجے ہی سونے کو بھیج دیا جاتا لیکن ہفتے اور اتوار کی رات ہمارے لیے گالا نائٹ ہوتی تھی کیوں کہ اس روز ہم سب کے امّی اور ابّا جزیرہ نکوبار کے کلب سے بہت رات گئے واپس آتے۔ ان کی غیر موجودگی میں بچّوں کی حفاظت کے لیے گارڈ دہری کر دی جاتی تھی اور ہم سب کوجمع کر کے شکنتلا یا ایزمی کے سپرد کر دیا جاتا تھا۔ ہم لوگ جی بھر کے شورمچاتے __ اندھیرے کمروں، گیلریوں اور زینوں میں چھپ کر آنکھ مچولی کھیلتے۔ اس قدر زور زور سے گاتے کہ پیانو کے پردے ٹوٹتے ٹوٹتے رہ جاتے__ اور پھر ایک روز ہم نے سنا کہ ہماری اس جنت میں ایک اور فرد کا اضافہ ہونے والا ہے۔ میں باغ کی سیڑھیوں پر بیٹھی فرنچ گرامر یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ نیلو فر بھاگی بھاگی آئی اور اپنی نیلی آنکھیں پوری طرح کھول کر بولی: اینی آج صبح جو بہت لمبا سا سفید جہاز سنگاپور سے آیا ہے اس میں سے ایک کرنل صاحب اترے ہیں۔ ان کی بیوی انگریز ہیں اور دو بچّے ہیں __ اور وہ سب اس وقت انکل جسپال کے یہاں چائے پی رہے ہیں۔ میں نے کتاب وہیں سیڑھیوں پر چھوڑ دی اور ہم دونوں باغ کے نشیب کا فاصلہ پھلانگتے ہوئے انکل جسپال کے یہاں پہنچے۔ ہمیں آتا دیکھ کر کملا اسی رفتار سے دوڑتی ہوئی برآمدے کے سبز جنگلے پر سے کود کر ہماری طرف بھاگی۔ ہمارے دو ساتھی اور آ گئے۔ دونوں پوری طرح شیطان ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اسکیٹنگ اور تیرنے کے مقابلے میں وہ ہم کو ہرا دیں گے۔

لیکن کمّا __ ان کے ڈیڈی بھی دُم والا کوٹ پہنتے ہیں نا یعنی ٹیل کوٹ __ میں نے کچھ سوچ کر پوچھا کیوں کہ ابّا جان شام کے وقت دُم والا سیاہ کوٹ پہن کر اپنی موٹر بوٹ میں بیٹھ کے جزیرہ نکوبار کی طرف جایا کرتے تھے جہاں کلب تھا جس میں ہر وقت موسیقی گونجتی رہتی تھی اور جہاں رات گئے تک خوب تیز روشنی رہتی تھی اور میرا خیال تھا کہ دنیا میں صرف دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں : وہ جو شام کو دُم والا کوٹ پہنتے ہیں جیسے انگریز چیف کمشنر، ابّا جان اور انکل جسپال اور نیلوفر کے ڈیڈی اور دوسرے جو دُم والا کوٹ نہیں پہنتے۔ کیوں نہیں پہنتے؟ یہ سوال میرے دماغ میں نہیں آسکا تھا اور نہ یہ کہ ان دوسرے قسم کے لوگوں کے بچّوں کے ساتھ کھیلنے کی ہمیں اجازت کیوں نہیں ملتی۔

اور ان دونوں بچوں کی وجہ سے ہماری زندگی زیادہ دل چسپ بن گئی۔ ممی کے بہن بھائیوں کی قوم سارے ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں بھائی بھی کسی رشتے سے بالکل ہمارے فرسٹ یا سیکنڈ کزن ثابت ہو گئے۔ ان کی ممی یعنی ہماری خالہ کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کے ڈیڈی نے ایک انگریز خاتون سے شادی کر لی تھی اور چونکہ وہ ممی کے بھانجے تھے لہذا وہ ان کی نگہداشت اور خاطر مدارات کی خود ہی انچارج مقرر ہو گئیں۔ وہ جتنی بھی شرارتیں کریں اور ہمیں تنگ کریں سب بجا اور روا تھا کیوں کہ دکھیا، بن ماں کے بچے ہیں۔ مسعود بھیا ہم سب اور ہمارے سمندر پار والے بھائیوں سے بھی عمر میں بڑے تھے۔ بیک وقت بے حد سنجیدہ اور بے حد شریر۔ ہر بات میں ہم سب کو Boxکرتے تھے اور ہم اپنی عافیت اسی میں سمجھتے تھے کہ ان کا ہر حکم چپکے سے مان لیں۔ ایک روز مسعود بھیا کی شرارتوں سے عاجز آ کر وملا اور میں نے آنکھوں میں آنسو بھر کے دعا مانگی تھی کہ اللہ کرے بھیا جلدی سے دہرہ دون سے آ جائیں۔ وہ آ کے سارے مظالم کا انتقام لیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے اگلی چھٹیوں میں ہمارے بھائیوں میں جہاز سے اترتے ہی مسعود بھیا سے اس قدر گہری دوستی ہو گئی کہ ہمیں بھی انتقام سے نا امید ہونا پڑا۔

اور اس طوفانی بچپن کے دن تیزی سے پرواز کرتے رہے۔ چند سال بعد ابا جان اور انکل جسپال کا تبادلہ ساتھ ساتھ پھر ہندوستان کا ہو گیا۔ ایزمی ہمارے آنے کے کچھ عرصے بعد انگلستان واپس چلی گئی۔ مسعود بھیا بھی جانے کہاں گئے اور بے چاری نیلوفر جزیرے میں اکیلی رہ گئی۔

پورٹ بلیئر سے آنے کے بعد ہم ان سب کو بھول گئے۔ ہندوستان واپس آ کر شکنتلا، کملا، وملا اور میں دہرہ دون کے کانونٹ میں پڑھنے لگے۔ پھر ریٹائر ہونے کے بعد ابا جان ہماری اعلیٰ تعلیم کے خیال سے لکھنؤ میں رہنے لگے۔ اسی دوران میں انکل جسپال کا تبادلہ الٰہ آباد سے لکھنؤ کا ہو گیا اور ہم سب ساتھ ساتھ کالج اور یونی ورسٹی کی مختلف کلاسوں میں داخل ہوئے اور بڑے ہو کر تو ہم سب اس قدر تیز نکلے کہ خدا کی پناہ۔ شکنتلا اور کملا بی۔ اے۔ ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی۔ سب امتحانوں میں فرسٹ آتی چلی گئیں۔ تقریری مقابلوں میں ڈھیروں کپ جیت ڈالے۔ کملا اور وملا نے اودے شنکر کے سینٹر جا کر کلاسیکل رقص میں مہارت حاصل کر لی۔ کملا انٹر یونی ورسٹی تقریری مقابلے میں علی گڑھ جا کر ایک بڑی سی چاندی کی مسجد اٹھا لائی اور میں نے تصویروں کے کینوس تہہ کر کے افسانے جو لکھنے شروع کیے تو سب گھر والوں کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ افوہ، ذرا سوچو تو سہی، بی بی گھر سے باہر کی دنیا میں افسانہ نگار مشہور ہیں۔ اور کھانے کی میز پر اس قدر شور مچتا____ میں بے چاری سب سے لڑتی کہ بھائی قسم خدا کی میں اتنے اچھے افسانے لکھتی ہوں۔

ابھی یہ دیکھیے ’’ ادبِ لطیف‘‘ اور ساقی کے ایڈیٹروں کے خط آئے ہیں کہ سالنامے کے لیے مضمون بھیجئے۔ اور وہ قہقہہ پڑتا کہ رونا آ جاتا۔

ایک روز میں نے بے حد خوش ہو کر چائے کے وقت سب کو یہ خبر سنائی کہ بھئی ہمارا مجموعہ شائع ہو رہا ہے۔ کسی کو یقین ہی نہ آئے۔ بھائی جان کے ایک دوست نے انتہائی سنجیدگی سے فرمایا کہ کتاب کے ساتھ ساتھ ایک شرح بھی چھپوا لیجیے تاکہ پڑھنے والوں کی سمجھ میں آ جائے کہ آپ نے کیا لکھا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم سب اس قدر انٹلکچوئیل بن گئے کہ افوہ۔ ہمارا اپنا فلسفہ تھا، اپنی زندگی تھی، اپنا مخصوص ماحول، اپنی مصروفیتیں۔ اور زندگی بڑے سکون اور اطمینان سے گزر رہی تھی۔ ہم گھنٹوں ٹینس کھیلتے، کالج کے سوئمنگ پول میں پیرتے، کالج کے ڈراموں اور رقصوں کی مشق اور ریڈیو پروگراموں کی ری ہرسل کرتے۔ scandal mongering کی جاتی۔ رات کو ابّا جان کے ساتھ میں دیر تک اقبال کی شاعری اور دنیا جہاں کی باتوں پر بحث کرتی رہتی۔ اباّ جان میرے بہترین دوست تھے۔

__ لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے اور کملا کو اپنا confusionism کا سارا فلسفہ بھول جانا پڑا۔ زندگی کے متعلق ہمارے اصول اور نظریے بالکل غلط اور بے کار ثابت ہوئے۔ ہم نے تجزیہ نفس کے سارے تجربے پڑھ ڈالے پر کچھ فائدہ نہ ہوا۔

__ کیوں کہ نیلوفر کی نیلی آنکھوں میں آنسو جھلملا اُٹھے۔ کس قدر چغد ہو، میں نے انتہائی بے زاری کے ساتھ کہنا چاہا۔ محبت __ محبت جو ابلیس کی طرح جنت سے جہنم میں پھینک دی جاتی ہے اور دھندلکوں میں بھٹکے ہوئے وہ احمق راہی، جو سایوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے دیوتاؤں کے پاؤں مٹی کے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان الفاظ کے ذریعے نیلوفر کے سر میں عقل واپس آ جائے گی لیکن اس کی آنکھوں میں پانی اسی طرح مچلتا رہا۔

__ اور اسی وقت فون کی گھنٹی تھرّا اٹھی۔ مسعود بھیا کو علاحدہ کوٹھی مل گئی تھی اور وہ ہمارے یہاں سے جا چکے تھے لیکن مس عثمانی برابر فون کیے چلی جا رہی تھیں۔

آج پہلی مرتبہ مس عثمانی سے میرا سابقہ پڑا۔ ادھر سے آواز آئی: ’’ ہلو ! آپ کہاں سے بول رہی ہیں۔‘‘فرمائیے۔ ’’ ار __ مسعود امام صاحب ہیں ؟‘‘

’’ ار __ وہ آپ کے بھائی۔ یعنی کہ وہ اس وقت گھر پر موجود ہیں ؟‘‘

’’ جی نہیں ‘‘ میں نے فون بند کرنا چاہا لیکن وہ پھر بولیں :

’’ کہاں گئے ہیں ؟ دل کشا کلب تو نہیں ؟ اوہو تو ضرور اودھ جیم خانہ گئے ہوں گے۔ آج وہاں غوث محمد کا سیمی فائنل ہے یا چھتر منزل کلب__ انڈیا کافی ہاؤس تو آج نہ گئے ہوں گے۔‘‘

’’ جی۔‘‘ میں نے جل بھن کر جواب دیا، ’’ میں کیا بتاؤں، آپ کو خود ہی معلوم ہے کہ انہیں کہاں کہاں پایا جا سکتا ہے۔‘‘

’’ جی __ جی ہاں __ ‘‘

’’ واقعہ یہ ہے مس عثمانی __ ‘‘ میں نے کھنکار کر کہنا شروع کیا، کہ مسعود صاحب کو کوتوالی لے جایا گیا ہے۔‘‘

’’ ایں !‘‘

’’ جی ہاں۔ در اصل ان کے پیچھے وارنٹ نکلا ہے کیوں کہ وہ الٰہ آباد سے کلکٹر کے یہاں کے چاندی کے چمچے چرا کر بھاگے ہیں اور یہاں بھیس بدل کر گھوم رہے ہیں۔ وہ جوائنٹ مجسٹریٹ وغیرہ کچھ نہیں ہیں بلکہ فیض آباد میں جو توں کی دکان کرتے ہیں۔ اور مس عثمانی بات یہ ہے کہ __ ‘‘

دوسرے سرے پر کھٹ سے ریسیور رکھ دیا گیا۔

مجھے ساری دنیا پر غصہ آ رہا تھا۔نیلو فر اور زبیدہ عثمانی اور وہ سب جن کی عقلیں خراب ہو گئی ہیں۔ میں نے اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی جگمگاتی جاگتی بے وقوف دنیا کو دیکھا۔ سامنے درختوں کے اندھیرے کے پار کالج کے اونچے اونچے مرمریں ایوانوں میں کرسمس کیرل گائے جا رہے تھے۔ سڑکوں پر شور مچاتی ہوئی لمبی لمبی چمکیلی موٹریں بھاگ رہی تھیں۔ ندی کے اس پار کافی ہاؤسوں کی فضائیں دہک رہی تھیں اور نیلو فر اپنے ہوسٹل کے ڈرائنگ روم میں پیانو بجا رہی تھی۔

لیکن پھر دنیا کی حماقتوں اور کمزوریوں پر غصہ آنے کی بجائے مجھے ان بے وقوفوں سے ہمدردی سی ہو گئی اور میں نے سوچا کیوں نہ ان چیزوں کو فراخ دلی سے دیکھا جائے کیوں کہ سوئمنگ پول کے اسکینڈل کلب میں ایک روز یہ انکشاف ہوا کہ سر رحمن کی جو نارنجی بالوں والی لڑکی لوریٹو کا نونٹ میں پڑھتی ہے مسعود بھائی سے کرسمس میں اس کی شادی ہو رہی ہے۔

__ خداؤں کے یہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچّے رقصاں ساعتوں کے ساتھ ساتھ ناچتے ہوئے کھلے سبزہ زاروں میں نکل گئے لیکن جب وہ ستارہ سحری کی کلیاں جمع کر کے واپس آئے تو انہوں نے جنگل کے دیوتاؤں کو وہاں نہ پایا۔

ریڈیو پر رقص کے نئے ریکارڈ بج رہے تھے اور بھائی جان نے، جو اس وقت موڈ میں تھے، کہا: ’’آؤ بی بی تمہیں نئے Stepsسکھائیں۔‘‘ ہم حسب معمول برآمدے کے فرش پر رقص کرنے لگے۔ ’’اونھ، ٹھیک سے قدم رکھو۔‘‘ بھائی جان نے ڈانٹا۔ وہ سکھاتے سکھاتے تھک گئے لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ پھر ایک دم سے انہیں کچھ یاد آ گیا۔ ’’تمہاری دوست کا رومان کیسا چل رہا ہے؟ ہاں، اس پر خیال آیا، ابھی جب میں دفتر سے آ رہا تھا تو مسعود سر عزیز الرحمن کی پیکارڈ میں لاپلاز کی طرف جاتا نظر آیا تھا۔‘‘ میرا دل ڈوب سا گیا اور بھائی جان کہہ رہے تھے: ’’ بے ایمان کہیں کا۔ فلرٹ ہے بالکل۔ ارے کل اتوار ہے۔ مجھے میگزین سیکشن کی تیاری کرنی ہے۔‘‘ اور وہ برآمدے کے فرش پر سے کود کر برساتی ہیں رکھی ہوئی سائیکل پر بیٹھے اور پھاٹک سے باہر نکل گئے۔ میں انہیں سرو کے درختوں کے پیچھے اوجھل ہوتا ہوا دیکھتی رہی اور مجھے یاد آیا: پانیر کی عظیم الشان امریکن وضع کی عمارت کے نیچے برساتی میں ہم نے پہلی مرتبہ مسعود بھائی کو دیکھا تھا جواسٹیشن سے سیدھے بھائی جان کے پاس آ گئے تھے اور وہاں سے ہمارے ساتھ گھر آئے تھے اور خداؤں نے چپکے سے نیلوفر سے کہا تھا: یہ وہی ہے، یہ وہی ہے جس کے لیے زندگی منتظر تھی!

__ اور نیلوفر سوچتی رہی۔ شہد کے جنگلوں کا دیوتا شفق زاروں میں شاید اب بھی موجود ہے۔ میرے اللہ کس قدر شاعری کی حد تک احمقانہ خیال تھا۔

ایک بہت طویل راستہ ہے__ اندھیرا اور خاموش اور اس کے کناروں پر دور دور پرستان کے چھوٹے چھوٹے شہر جگمگا رہے ہیں اور اس راستے کے اختتام پر کسی جگہ وہ اس کا منتظر ہو گا۔ لیکن اس کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ آگے چلی جائے گی اور اس کے خواب پیچھے پڑے رہ جائیں گے اور ڈورس فون پر کہہ رہی تھی: ’’ اینی، نیلوفر کی پتنگ کٹ گئی۔‘‘ بھئی خدا کے لیے چُپ رہو۔ ‘‘ میں نے اُکتا کر کہا۔ وہ بولتی رہی: ’’ نکہت رحمن کی شادی ۲۳۔ دسمبر کو ہو رہی ہے۔ بتاؤ کیا پہنیں گے؟ میں تو رو پہلے ٹشو کی ساڑھی پہنوں گی اور کملا سرخ مدراسی ساڑھی پہن رہی ہے۔‘‘ اور پھر ہم دیر تک کپڑوں اور زیوروں کے متعلق طے کرتے رہے۔

__ نیلو فر پیانو کے پردوں پر زور سے انگلیاں پٹخ کر کھڑی ہو گئی۔ فوہ، تم یہی کہو گی ناکہ کیا حماقت ہے؟ تمہارا یہ فلسفہ کہ دنیا کی ہر بات حماقت ہے، سب سے زیادہ عقل مند بس آپ ہی ہیں۔ میں تھک گئی ہوں اس فلسفے سے تمہارے۔ یہ تو ہئی __ میں نے کہا۔ ایک بزرگوار کا، جنہیں آپ نے کہیں بچپن میں دیکھا تھا، اپنے خیالوں میں آپ نے ایک انتہائی رومینٹک کردار بنا لیا اور اب ان کی شادی آپ سے نہیں بلکہ کسی اور لڑکی سے ہو رہی ہے، یعنی ایک بہت ہی میٹر آف فیکٹ واقعہ۔

__ لیکن ریڈیو پروگرام پر وہ پرانا نغمہ بجتا رہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں۔ I dreamt that I dwelt in marble hallsاور میں نے محسوس کیا کہ میں واقعی تھک گئی ہوں۔ اسے کس طرح یقین دلاؤں کہ یہ سب کچھ سچ مچ کی حماقت ہے۔ وہ کیوں نہیں دیکھتی کہ ہم سب اپنے آپ سے کس قدر مطمئن اور خوش ہیں۔

اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی دنیا، جو خواب نہیں دیکھتی، کیسی پرسکون اور قانع ہے۔ سوتے ہوئے بوڑھے، روتے ہوئے بچّے، بارش کے بعد کا آسمان، موسم خزاں کے ویران راستے، دریچے کے نیچے بکھرے ہوئے زرد اور سرخ پتّے، سرما کی راتوں میں آتش دان کے پاس قہوے کی دل نواز بھاپ اور دوستوں کے قہقہے۔ مگر نیلو فر نہ سمجھ سکی۔

__ پھر مجھے ریوپرٹ بروک کی ایک نظم یاد آئی۔ خداؤں سے انتقام لینے کے لیے وہ اُن کے آتشین تخت کے قریب گیا لیکن وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ جنت کے سارے ایوان خالی پڑے ہیں اور فضاؤں میں صرف ایک آواز بازگشت کی گونج تیر رہی تھی__ اور بارگاہِ خداوندی میں گھاس اُگ آئی تھی اور خالی تخت کے چاروں طرف ہوا کا ایک بھولا بھٹکا جھونکا کاہلی سے منڈلا رہا تھا جس سے ایوانوں کے پردے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ اور ہوا کے اس جھونکے نے مرے ہوئے خداؤں کی خاکستر خلائے بے کراں میں منتشر کر دی تھی۔

__ کتنی جلدی یہ سب کچھ ختم ہو گیا اور جب سرما کی اس جگمگاتی ہوئی شام کے اختتام پر شادی کے ایٹ ہوم کے بعد ہم لاپلاز سے واپس آ رہت تھے تو دفعتاً میں نے محسوس کیا کہ زندگی کے راستوں کی قندیلیں بجھ گئی ہیں اور ستارے دھندلے پڑ گئے ہیں اور وہ واقعی اکیلی رہ گئی ہے اور ہمارے قریب سے بارش کے چھینٹے اڑاتی سر عزیز الرحمن کی پیکارڈ تیزی سے گزر گئی اور ہم نے دیکھا کہ وہ دونوں اپنے نئے گھر، اپنی نئی زندگی کی طرف جا رہے تھے اور کار مال پر بڑھتے ہوئے کہرے میں کھو گئی اور میں نے خود کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہوئے پھر دعا مانگی کہ کاش وہ سمجھ سکے، کاش وہ سمجھ جائے اور اس نے مڑ کر دیکھا، اس کا خیال تھا کہ محبت گرتی پڑتی اس کے پیچھے بھاگتی آ رہی ہے لیکن وہاں پر صرف ستاروں کا دھندلکا تھا اور سرما کی بارش کے ٹھنڈے قطرے تھے اور کہر آلود برفانی ہوائیں تھیں کیوں کہ محبت کب کی مر چکی تھی!

__ اور اس نے قہقہہ لگا کر اپنے پرانے انداز میں کہا: ’’ ٹھیرو بچیو! ڈورس، اینی، کملا، وملا، مہرجبیں __ میں تم سب کے ساتھ کافی ہاؤس آ رہی ہوں۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

دوسرا کنارہ

 

 

 

اندھیرا۔ بہت گہرا اندھیرا۔ خوابوں کا شہر، پرانے نغموں، پرانی یادوں کاچھوٹاسا ویرانہ، اس پر اندھیرا چھا گیا۔ سارے ایک دوسرے سے مل کر روتے ہوئے آگے روانہ ہو گئے۔ تاریک راستوں پر سے گزرتے ہوئے۔ سب امیدیں، سارے سپنے ان تاریک راستوں کے کنارے تھک کر گر پڑے۔ اور روحیں آئیں۔ تاریکی، وحشت اور ویرانی کی روحیں۔ چیختی چلاتی___ اور سائیں سائیں کرتی ہوائیں چلیں۔ اور آہستہ آہستہ بہنے والے سرخ دریا کے ساحل پر دھواں اٹھا اور احمق خداؤں کے سیاہ معبدوں میں جلنے والے چراغ روتے رہے۔ اور خوابوں کے اس ویران شہر میں رہنے والے شکست خوردہ انسان آگے بڑھے۔ ان کے دکھ بہت تھے۔ ان کے راز بے حد چھوٹے چھوٹے، بے بس، مجبور اور حماقت خیز۔ اور تاریکی چھا گئی۔ خاموش، ستاروں اور خوشبوؤں والی رات کی تاریکی۔گہری۔ اور گہری۔ سناٹا۔ اکیلا اور ابدی اور لازوال۔ اور تھکے ہوئے وقت کے اس ریگستان کے پرے سے، اس کی عمیق وسعتوں کو کاٹتی ہوئی، ایک تیز، گمبھیر آواز تیر کی طرح نکلی اور بلند ہوئی۔ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔ اور دھواں اوپر اٹھتا رہا۔ شعلوں کی سرخ اور زرد رقصاں پرچھائیوں نے پانی کی سطح کو اور سرخ کر دیا۔ اور چاند ڈوب گیا۔ پرانے درختوں کی شاخیں آگے جھک آئیں۔ آبشار ٹوٹ کر چٹانوں پر بکھر گئے۔ چاند ٹوٹ پھوٹ کر، تھک کر، نیچے گرپڑا۔ اور ہوائیں روتی رہیں۔

پھر یہ اندھیرا کم ہوا۔ اور صبح ہوئی۔ ایک اور صبح۔ اور چھاؤنی کا بگل بج اٹھا۔ صبح، دوپہر، شام، رات، وہ بگل ہمیشہ اسی طرح بجا کرتا۔ ٹھنڈی اور سہانی صبح۔ اور دریچے کے باہر سوئیٹ پی کی خوشبوئیں اڑنے لگیں۔ اور گوبھی کے پتوں پر شبنم کے قطرے جھلملا اٹھے۔ دور پریڈ گراؤنڈز میں بگل بجتا رہا۔ پھر سورج نکلا۔ پھر بادل چھٹے۔ پھر روشنی پھیل گئی۔ پر وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ بہت دور تھا۔ بہت دور۔ لا پرواہ، مذاق اڑاتا ہوا، خودپسند، مغرور۔ اور کرائیسٹ چرچ کے گھنٹے بجنے لگے۔ اور بہت سے شور بہت سی آوازیں۔ سب نے مل کر چاروں طرف سے جیسے اس کو دبا دیا۔ وہ بہت اکتا کر، بہت تھک کر اپنی بڑی بڑی آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ بیٹا صاحب جگ گئیں۔مہریوں نے ایک دوسرے سے سرگوشی میں کہا اور دوڑ بھاگ مچا کر اس کے کام میں مصروف ہو گئیں۔ اس کا کتا اچھلتا کودتا آ کرمسہری کے قریب صوفے پر پیر لٹکا کر کھڑا ہو گیا۔کھانے کے کمرے میں صبح کی چائے کی گھنٹی تھرانے لگی۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ بند کر لیں۔ سرخ اندھیرا اور زیادہ گہرا ہوتا گیا۔ اس نے کسی چیز کو دیکھنا نہ چاہا۔ ہر چیز سے۔ ہر ذرے سے اس کا خیال وابستہ تھا۔ وہ دریچے کے نیچے اس روش پر سے گزر کر اپنی کار میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ گیلری میں رکھے ہوئے ریک پر اپنی ہیٹ پھینکتا ہوا پردہ اٹھا کر اندر بڑے بھیا کے کمرے میں چلا جاتا تھا۔ وہ ٹیلیفون کی میز پر جھک کر ڈائریکٹری کے ورق پلٹتا تھا۔ وہ اسی نیلے آسمان کے نیچے، ان ہی فضاؤں میں اب بھی سانس لے رہا ہے۔ کاش۔ کاش۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ کچھ نہ ہوتا۔ پر ایسا نہیں تھا۔اور اس کا کتا مسہری کے نیچے کھڑا چوکلیٹ کے انتظار میں دم ہلا رہا تھا۔ وہ اس کمبخت کتے کو بھی چھو چکا تھا۔ اسے اپنے ہاتھ سے چوکلیٹ کھلا چکا تھا۔ اس نے مسہری پر سے جھک کے کتے کے ریشمی بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اور ایسا کرتے ہوئے اسے انتہائی تکلیف محسوس ہوئی۔ باہر برآمدے میں آیا بڑے بھیا کے بچے کو ڈانٹ رہی تھی۔ اگر تم نے پھر شرارت کی تو آنکل جمیلؔ نہیں آیا کریں گے۔ وہ تمہیں کبھی اپنی موٹر سائیکل پر نہیں بٹھائیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے ٹونی بڑا برا ہے۔ ہم اس سے خفا ہو کر جا رہے ہیں۔ آیا برابر ٹونی سے باتیں کرتی رہی۔ کتا برابر دم ہلاتا رہا۔ اب وہ پاگل ہو جائے گی۔ قطعی پاگل۔ بالکل باؤلی ایسی۔

پھر وہ مسہری پر سے اتری۔ ایک مہری روز کی طرح اس کو صبح کا اخبار دے گئی۔ وہ صوبے کا گزٹ کبھی نہیں دیکھتی تھی۔ پر اس وقت اس کی نظریں پانیئر کے گزٹ کے کالم پر پڑ گئیں۔ اس کا تبادلہ کہیں بہت دور ہو گیا تھا۔ اس نے اخبار قالین پر پھینک دیا۔ کمبخت گدھا کہیں کا۔ گدھا۔ الو۔ چھاؤنی کے بگل بجتے رہے۔ صبح، شام، رات، صبح، شام، رات۔ رنگ برنگی روشنیاں اور لرزاں سائے اس کے چاروں طرف ناچا کیے۔

اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے بھولنا چاہا۔ ہمیشہ کے لیے بھول جانا چاہا۔ وہ لمحے۔ وہ ساعتیں۔ وہ انتہائی تکلیف دہ ساعتیں۔ ان کی انتہائی کرب انگیز یاد۔ جب اس کی بہن کی شادی کے ڈنر کی رات وہاں پر خوب تیز روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ اور دور دور تک پھیلے ہوئے یوکلپٹس اور پام کے درختوں کے پتے رات کی ہواؤں میں سرسرا رہے تھے، اور ’’شرارت‘‘ اور ’’صندل‘‘ اور ’’پیرس کی شام‘‘ کی خوشبوئیں ’’رات کی رانی‘‘ کی مہک میں مل جل کر ہوا میں اڑ رہی تھیں۔ اور لا تعداد چمک دار طویل کاروں کی قطاریں برآمدوں، درختوں اور شہ نشینوں میں سے جھانکتی ہوئی برقی روشنیوں میں جگمگا تی تھیں اور سبزے پر ملٹری بینڈ بجایا جا رہا تھا۔ اور مہمانوں کے گروپ گھاس کے قطعوں پر، جگمگاتے درختوں کے نیچے، برآمدوں اور شہ نشینوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ اور اندر آرکیسٹرا بج رہا تھا۔ اور اس وقت وہ تھوڑی دیر کے لیے گل مہر کے پیڑ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کی انگلیوں میں سگریٹ جل رہا تھا۔ اور اس نے ٹوٹو سے کہا تھا۔ میرا عزیز ترین دوست لیفٹننٹ کمانڈر رحمن کراچی سے آیا ہوا ہے۔ وہ راج کماری صاحبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے میں بھی اس کی پر زور سفارش کرتا ہوں۔ راج کماری سے پوچھنا کیا وہ اسے پسند کر لیں گی مجھے تو وہ بے حد پسند ہے۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ پھر وہ ٹوٹو سے باتیں کرتا ہوا دوسرے مہمانوں کی طرف چلا گیا تھا۔ اور سبز درختوں اور سرخ شہ نشینوں میں نارنجی اور نیلے برقی قمقمے جل رہے تھے اور وہ قمقمے سب کے سب ایک دم سے بجھ گئے۔ آرکیسٹرا کی موسیقی بجتی رہی۔ اور دریا کے سرخ پانیوں کے کنارے دھواں بل کھاتا ہوا اوپر اٹھا۔ اٹھتا گیا۔ اور اس کے پپوٹوں کی جلن زیادہ ہو گئی۔

اور رات کے گہرے اندھیرے میں ریڈیو گرام چلاتا رہا۔ تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم۔ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔ اگر نامہ بر ملے۔

پھر وہ وہاں سے چلا گیا۔

اس وقت وہ سب بالکونی کے نیچے باتوں میں مصروف تھے۔ گل مہر کی شاخوں کے پرے اس کی ٹرک کھڑی تھی۔ اور درختوں میں بڑے بڑے سرخ پھولوں سے جیسے آگ لگ رہی تھی۔ وہ اپنی بہن کی شادی میں آئے ہوئے مہمانوں کو اپنے ساتھ پکنک اور مچھلی کے شکار پر لے جانے کے پروگرام بنا رہا تھا۔ اور اس نے بڑے بے تکلفی سے اس کی طرف مڑ کر اسماء سے کہا آپ کی ممی بھی ہمارے ساتھ جاویں گی ؟ آپ کے لیے کل صبح پانچ بجے تک اسٹیشن ویگن اور ٹرک بھجو ا دیئے جاویں گے۔ پھر اس نے سب کو اپنی مترنم آواز میں خدا حافظ کہا اور اس کی ٹرک سرخ بجری والی سڑک پر سے گزرتی صنوبر کے درختوں کے پرے جا کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

پھر وہ اسماء کے لیے جس کے شوہر کا تبادلہ ان ہی دنوں پونا سے وہاں کا ہوا تھا، کوٹھی کے متعلق طے کرنے کے لیے اس راستے پر سے گزری جس کے دونوں طرف جامن کے سایہ دار درخت تھے۔ اس نے اس گھر کے آگے کار روک لی جس کی روشوں کے ساتھ ساتھ چنار اور صنوبر کے درخت کھڑے تھے۔ جہاں چاروں طرف سبز گھاس کے وسیع قطعوں میں جن کے کنارے کنارے تیز سرخ، کاسنی اور سفید پھول لہلہا رہے تھے، پانی دیا جا رہا تھا۔ گھاس پر پانی کے ٹیوب دور دور تک بکھرے پڑے تھے ان میں سے بہہ بہہ کر پانی آہستہ آہستہ گھاس میں جذب ہو رہا تھا۔ سرد پرسکون۔ خاموش۔ وہ اس کا گھر تھا۔ اس کا ہوسکتا تھا۔ پر اس کا نہیں تھا۔ مالی اپنا برہا ختم کر کے لمبے لمبے قدم رکھتا پھاٹک تک آیا۔ کوٹھی ابھی خالی نہیں ہو گی مس صاب۔ صاحب بہادر سرکاری کام سے تھوڑے دن کے لیے ولایت جانے والا ہے۔ اس لیے پوری کوٹھی بند کر دی جائے گی خالی دفتر کے کمرے کھلے رہیں گے۔ اپنا کارڈ چھور جائیے مس صاحب۔ اس کی کار ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی اور دوسرے پھاٹک سے نکل کر خاموش، سایہ دار سڑک پر آ گئی۔

اور وہ اندر سو رہا تھا۔ وہ باہر ہی سے واپس چلی گئی۔ اور وہ اندر سو رہا تھا۔ پھر وہ جاگ کر اپنی ساگوان کی مسہری پر سے اٹھا۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ اس نے سگریٹ جلایا۔ اس نے ڈریسنگ گاؤن پہنا۔ اور وہ اپنے پرانے ووڈ اسٹاک اسکول کا ایک پرانا گیت گنگناتا ہوا غسل خانے میں گیا، وہاں نہاتے میں اس کی ناک میں صابن گھسا اور اسے خوب چھینکیں آئیں۔ اور اس نے چپکے سے کہا لاحول ولاقوۃ۔ پھر وہ ٹینس کے لیے تیار ہونے لگا۔ اور چائے پیتے پیتے اس نے ریڈیو گرام پر اپنا پسندیدہ ریکارڈ لگا دیا۔ تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم۔ میراسلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔

جبکہ وہ اس سایہ دار سڑک پر سے واپس جا رہی تھی۔

پھر اندھیرے میں دو کاریں آمنے سامنے مخالف سمتوں سے ایک دوسرے کی طرف بڑھیں۔ پہلی کار نے قریب پہنچ کر اپنی سامنے کی روشنیاں مدھم کر دیں۔ اور دوسری کار زناٹے کے ساتھ برابر سے نکل گئی۔ وہ کلب سے واپس آ رہا تھا۔ اور وہ اسی وقت کلب جا رہی تھی۔

وہ چلتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ دریا کے آخری پل تک پہنچ گئی۔ اس نے کار روک لی۔ وہ اسے بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔

اور خوابوں، امیدوں کا ایک روتا ہوا ہجوم اندھیرے میں آگے بڑھتا گیا۔ اس کے پپوٹے یوں ہی جلتے رہے۔ چھاؤنی کا بگل بجا اور آدھی رات کے پرند باغ کی تاریک جھاڑیوں میں شور مچانے لگے۔ اللہ۔ اللہ میرے۔ میں کس قدر کی احمق ہوں۔اُلو۔ وہ جتنی مرتبہ اب تک اس سے ملی تھی۔ کلب کے بال روم میں، ٹینس کورٹ پر، سال نو کی پریڈ کے موقع پر، ٹی پارٹیوں میں، اس کو ایک ایک منظر، ایک ایک لفظ، ایک ایک بات یاد تھی۔ وہ کس کس سے باتیں کرتا رہا تھا۔ اس نے کیا کیا کہا تھا۔ وہ کس کس موقع پر ہنسا تھا۔ اس نے کب اپنے مخصوص انداز میں اپنی سیاہ آنکھیں جھپکائی تھیں اور اس کو یہ بھی یاد تھا کہ اتنے سارے موقعوں پر اس نے کبھی اس سے ایک بات بھی نہیں کی تھی۔ وہ ہمیشہ دوسری لڑکیوں کا پارٹنر بنتا۔ کھیلوں میں، رقص میں، بحثوں میں، وہ کبھی اس گروپ میں شامل نہیں ہوا جس میں وہ موجود رہی ہو۔ سال نو پر اس نے سب کو اپنے ضلع کے جنگلوں میں شکار کے لیے مدعو کیا۔ پر اس کی طرف مڑ کر دیکھا بھی نہیں۔ وہ جب بھی کسی جگہ جاتی ہمیشہ ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ چند لمحے قبل وہاں سے جا چکا ہوتا یا پھر اس کے جانے کے بعد وہاں پہنچتا۔ اس ساری بے تعلقی اور بے نیازی کے باوجود وہ بڑے بھیا کا بہت گہرا دوست تھا، اور ٹوٹو کا، اور اس کی ممی بڑی کنور رانی صاحبہ کا۔ بڑی کنور رانی صاحبہ کو وہ ہمیشہ ان کی ریاست کے مقدموں کے متعلق طرح طرح کے دل چسپ مشورے دیا کرتا۔ ان کے اختلاج قلب کے وہمی عارضے کے لیے نئے نئے معالج تجویز کرتا۔ بڑے بھیا کو گھوڑوں، کتوں اور موٹروں کی خریداری میں ان کی مدد کرتا۔ بڑے بھیا کی ولایتی بیوی یعنی چھوٹی کنور رانی صاحبہ کے ساتھ ان کے پسندیدہ رقص کرتا۔ ٹونی سے کھیلتا۔ ٹوٹو سے اس کی فزکس اور ہوائی جہازوں کی باتیں کرتا۔

پھر اس کا تبادلہ ہو گیا اور وہ وہاں سے بہت دور چلا گیا۔

اور اس نے یوپی گزٹ کا پرچہ آتش دان میں پھینک دیا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں کے پپوٹے اسی شدت سے جلاکیے۔

وہ اپنی اس بے کار، بے مصرف، احمق زندگی سے عاجز آ گئی۔ پھر وہ جاڑوں کے سرد، اکتائے ہوئے بے رنگ دن گزارنے کے لیے اپنے تعلقے پر چلی گئی۔ اس نے اپنے پرانے قصباتی محل کی ایک ایک چیز کو چھوا۔ شہ نشین، دالان، گیلریاں، کمرے، وہ پھاٹک جن کی محرابوں پر اودھ کی سلطنت کا پرانا نشان آمنے سامنے دو بڑی بڑی مچھلیاں سرخ پتھر سے بنی ہوئی تھیں۔ وہ درخت جن کی شاخوں پر بیٹھ کر وہ ٹوٹو کے ساتھ بچپن میں اسکول کا ہوم ورک ختم کیا کرتی تھی۔ اور باغ کے نشیب میں بانس کے ہرے جھنڈ کے نیچے بڑے حوض کے جنگلے کی جالی کے کچھ حصے شکستہ ہو کر پانی میں گر چکے تھے۔ آم کے سائے میں سرخ پتھر کے چبوترے کے چاروں طرف اونچی اونچی گھاس اور خودرو پودے اگ آئے تھے۔ اور چبوترے کی سیڑھیوں کے کونے ٹوٹ گئے تھے۔ موٹر خانے اور اصطبل کی چھت کے بھاری شہتیر بہت نیچے جھک آئے تھے۔ اور اس کا دل جیسے بیٹھا جا رہا تھا۔ اور سارے قصبے میں شور مچ رہا تھا۔ بٹیا صاحب واپس آ گئیں۔ بٹیا صاحب اب بہت بڑی ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کالج، ولایت سب پاس کر لیا ہے۔ بڑے بھیا صاحب اتنا پڑھ گئی ہیں۔ پر اب ان کو گھوڑوں کا شوق نہیں رہا۔ ان کے دونوں گھوڑے اصطبل میں اکتائے ہوئے کھڑے ہیں پر بٹیا صاحب نے بھول کر بھی رام آسرے سے ان کے لیے کچھ نہیں پوچھا۔ و ہ اب موٹر بھی اتنی تیزی سے نہیں چلاتیں۔ بس دن بھر اکیلی اکیلی باغ میں گھوما کرتی ہیں یا بڑے چودھری صاحب کے مزار کی سیڑھیوں پر بیٹھی جانے کیا کیا لکھا کرتی ہیں۔

پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں۔ بٹیا صاحب کی بڑے بھیا صاحب سے لڑائی ہو گئی ہے۔ چھوٹے کنور صاحب ٹوٹو میاں تو گزارے دار ہیں ان سے بڑے بھیا سے کوئی مطلب نہیں لیکن بڑے چودھری صاحب بٹیا صاحب کو بہت چہیتے تھے و ہ بٹیا صاحب کے نام بہت سے گاؤں لکھ گئے ہیں۔ ویسے تعلقداری کے قانون کے لحاظ سے لڑکی کو وراثت میں کچھ نہیں ملتا۔ اسی لیے بڑے بھیا اب ان سے جلتے ہیں۔ بڑے بھیا اپنی ریاست میں بہت ہردلعزیز تھے۔ انہیں ٹینس، کتوں، گھوڑوں اور موٹروں کا بے حد شوق تھا۔ وہ ہر سال نئی موٹریں خریدتے اور عمدہ گھوڑے اور کتے۔ لیکن وہ کبھی ریس میں نہیں جاتے تھے۔ کبھی ڈرنک نہیں کرتے تھے۔ چھتر منزل اور دل کشا کلب میں رات رات بھر ڈانس میں نہیں گزارتے تھے۔ ان کے تعلقے کو کورٹ آف وارڈ سے چھٹکارا حاصل کیے بہت کم عرصہ ہوا تھا لیکن اتنے دنوں میں انہوں نے اپنی رعایا کے دلوں میں بہت جلد جگہ بنا لی تھی۔ ان کی ولایتی میم صاحب کبھی پتلون یا اونچی اونچی اسکرٹ پہن کر باہر نہیں گھومتی تھیں جیسا کہ سنا گیا تھا کہ وہ لکھنؤ، نینی تال اور مسوری میں کرتی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ بڑی کنور رانی صاحب اور بٹیا صاحب کی طرح ساڑی پہن کر اور آنچل سے سر ڈھک کر باہر نکلتی تھیں۔ پر اتنے اچھے بھیا صاحب کو جانے کیا ہوا کہ اپنی اکلوتی بہن سے لڑ بیٹھے۔

اور پرانی محل سرائے کی ساری مہریاں، مغلانیاں، سائیس، رکاب دار اور دوسرے ملازمین سائے کی طرح جیسے چپکے ادھر ادھر سرگوشیاں کرتے پھرتے۔ بٹیا صاحب کو دیکھ کر انہیں بڑے چودھری صاحب کا زمانہ یاد آ رہا تھا۔ ان کو مرے کتنے کم دن ہوئے تھے پر لگتا تھا جیسے مدتیں گزر گئیں۔ وہ دن جب بٹیا صاحب اسکول بند ہونے پر چھٹیوں میں نینی تال سے آتی تھیں اور چھوٹے بھیا کے ساتھ دور دور تک گھوڑا دوڑاتی چلی جاتی تھیں اور جب گرمیوں میں آم کھانے کے لیے لکھنؤ سے بھیا صاحب کے دوستوں اور ان کی سہیلیوں کی پارٹیوں کے ٹرک اور اسٹیشن ویگنیں خوب دھول اڑاتے قصبے کی سڑک پر داخل ہوتے تھے۔ وہ سب زمانے گزر گئے۔ اور بڑے چودھری صاحب سفید جالی والے سنگ مرمر کے مزار پر موتیا اور بیلے کے جھاڑ جھک آئے اور ان کے گھوڑے اصطبل میں کھڑے کھڑے بوڑھے ہو چلے۔ اور بٹیا صاحب اکیلی اکیلی دن بھر آم کے باغوں میں گھوما کرتیں۔

پھر وہ اپنے باغوں سے بھی اکتا گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کرے۔

اور ایک روز لکھنؤ سے آنے والی سیمنٹ کی چوڑی سڑک پر سے گرد اڑاتی ہوئی ایک سفید اسٹیشن ویگن آم کے ان ہرے کنجوں میں داخل ہوئی اور سرجو کے کنارے آ کر رک گئی۔

اور سارے میں کھلبلی مچ گئی۔ کیونکہ بڑے بھیا صاحب اور چھوٹے کنور صاحب کی غیر موجودگی میں بڑے صاحب ضلع کا دورہ کرتے ہوئے وہاں آن پہنچے تھے۔ اور بٹیا صاحب کو یہ خبر سنانے کے لیے مہریاں سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھیر دار سرخ اور اودے لہنگے سمیٹتی اور پیروں کے کڑے اور جھاجن بجاتی محل سرا کے اندر بھاگیں۔ اور ڈیوڑھیوں میں بیٹھ کر شطرنج کھیلنے اور حقہ پینے والے منشی اور لالہ اور بھیا صاحب کا سارا عملہ ہڑبڑا کر اپنے اپنے کاغذات اور رجسٹروں کی طرف لپکا۔

اور قیامت کی طرح وہ اپنی سفید اسٹیشن ویگن میں سے اترا۔ اور اپنے گوگلز اتار کر اس نے چاروں طرف کی ہریالی، اور سرجوؔ کے پگھلی ہوئی چاندی جیسے پانی پر نظر ڈالی۔ اور پھر وہ اپنے عملے کے ساتھ جانچ پڑتال کے لیے آگے روانہ ہو گیا۔

اور بٹیا صاحب پرانی محل سرا کے اندر اپنے وکٹورین طرز کے سجے ہوئے کمرے میں بیٹھی پیانو بجاتی رہیں۔ اور سرجوؔ کے کنارے آم کے باغ میں بڑے صاحب کا پڑاؤ کئی دن تک رہا۔

اور ایکا ایکی بٹیا صاحب اپنی بیوک میں بیٹھ کر لکھنؤ واپس جانے لگیں۔ ان کا سارا عملہ او سارے رشتے دار انہیں خدا حافظ کہنے باغ کے بڑے پھاٹک تک آئے جس کی محرابوں پر سرخ پتھروں کی دو مچھلیاں بنی ہوئی تھیں۔ اور پھر دو موٹریں اسی ٹرک پر جامنوں کی چھاؤں میں آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایک سفید اسٹیشن ویگن۔ اور ایک گہری سرمئی بیوک ایک جھٹکے کے ساتھ نیلے دھوئیں کے بادل چھوڑتی ہوئی آگے نکل گئی اور اسٹیشن ویگن سیمنٹ کی سفید ویران سڑک پر رینگتی رہی۔

اس کی آنکھوں کے پپوٹے یوں ہی چلتے رہے۔ اور چھاؤنی کے بگل اسی طرح بجا کیے۔ اور کرائیسٹ چرچ کے گھنٹے۔ پھر گرمیاں آئیں۔ اور مسوری کا سیزن… وہ ایک انگریز پولیس آفیسر تھا۔ جو صرف تین سال قبل انگلستان سے آیا تھا اور کہتے ہیں اس سیزن میں وہ اس پر بالکل مر مٹا۔اور قصبے میں پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں۔ بٹیا صاحب کو کیا ہو گیا جو انگریز سے شادی کیے لے رہی ہیں۔ اور مسوری کی روایت ہے کہ ایلمر بریڈلے تو چٹان پر سے کود کر خودکشی کے لیے تیار تھا۔ ٹوٹو کا بمبئی سے تار آیا۔ کیا یہ افواہ صحیح ہے۔ کاش وہ صرف یہ محسوس کر لیتا۔ کاش اس کا اندازہ ہو جاتا کہ وہ یہ کچھ محض انتقاماً کرنا چاہ رہی ہے۔ بے بسی کا انتقام۔ لیکن وہ بہت دور تھا اور ہمیشہ کی طرح سب بے نیاز اور بے تعلق۔ چاہے وہ اس سے بھی زیادہ کوئی انتہائی حماقت انگیز حرکت کر بیٹھتی تب بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ اس کے متعلق کچھ سوچتا بھی نہیں۔

اور بریڈلے کی چھٹی ختم ہو رہی تھی اور وہ الٰہ آباد واپس جا رہا تھا جہاں کا وہ ایس پی تھا۔

اور جب وہ رنک سے نکل کر ایلمربریڈلے کے ساتھ رکشا میں بیٹھ رہی تھی اسی وقت وہ لیڈی اعجاز کے خاندان کے ساتھ اس طرف آتا نظر آیا۔ اس کی سیاہ آنکھوں کی گہرائیاں بہت خاموش تھیں۔ ہمیشہ کی طرح بہت خاموش لیکن متبسم۔ رکشا کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں دیکھ کر وہ بریڈلے سے باتیں کرنے لگا۔ ادھر ادھر کی باتیں۔ اپنے اپنے محکموں کے واقعات۔ اور پھر قہقہے، مترنم قہقہے۔ اور مسوری کی ساری روشنیاں چکر کھاتی، گھومتی ہوئی نیچے ڈوبی جا رہی تھیں۔ اور جس چٹان پر اس کی رکشا کھڑی تھی وہ ٹوٹ کر تیزی سے نیچے کھڈ میں گر رہی تھی۔

پھر وہ اس کو سلام کیے بغیر، اس کو دیکھے بغیر لیڈی اعجاز کی چھوٹی لڑکی اور دونوں بڑے بیٹوں کے ساتھ وادی کی طرف اتر گیا۔ شاید وہ سب چاندنی رات کی پکنک کے لیے جا رہے تھے۔ یہ راج کماری جہاں آرا بیگم اس انگریز شخص سے کیوں شادی کر رہی ہیں۔ اس سے تو ہمارا لیفٹنٹ کمانڈر حفیظ الرحمن ہی کہیں بہتر تھا جو میں نے تجویز کیا تھا۔ اس نے دور سے اسے کہتے سنا پھر وہ سب وادی میں اترتے ہوئے چاندنی کے دھندلکے میں کھوگئے۔

اور اس شام، واپس سوائے پہنچ کر اس نے رات بھر میں اپنا سارا سامان پیک کر لیا۔ ٹوٹو بمبئی سے آچکا تھا۔ بڑی کنور رانی صاحبہ کی دیکھ بھال اس کے سپرد کر کے وہ صبح پہلے گیٹ سے دہرہ دون آ گئی۔ راجپور سے اس نے ایلمربریڈلے کو فون کیا کہ وہ جا رہی ہے اور افسوس ہے کہ اب اس سے کبھی نہیں مل سکے گی کیونکہ اس نے اپنا شادی کا ارادہ تبدیل کر دیا ہے۔

وہ گھر واپس پہنچی اور کار سے اتر نے کے بعد سیدھی اپنے کمرے میں جا کر مسہری پر گر گئی۔ اور خوب خوب رونے سے زیادہ مناسب کام اس کی سمجھ میں اس وقت اور کوئی نہ آیا۔ وہ خوب روئی۔ یہاں تک کہ شام کا اندھیرا چھا گیا اور مال پر قمقمے جگمگا اٹھے۔پھر چھاؤنی کا رات کا بگل بجا۔ اور باغ میں رات کے پرند چیخنے لگے۔

پھر صبح ہوئی۔ ایک اور صبح۔ اور وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی۔ اور مسہری کے سرہانے کی میز پر اس کی غیر موجودگی میں جمع شدہ ڈاک کے ایک نقرئی لفافے پر اس کی نظر پڑی۔ وہ سَر احمد و لیڈی اعجاز کی چھوٹی لڑکی کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔ اور کھانے کے کمرے میں چھوٹی کنور رانی صاحبہ اپنے بچے کو اوولٹین پلانے کے مرحلے میں مصروف اسے طرح طرح سے بہلاپھسلارہی تھیں ٹونی اب کے سے تمہارے انکل جمیل تمہارے لیے اسکوٹر لائیں گے۔ اور اچھا تم اپنی نئی آنٹی کو دیکھو گے؟ انکل جمیل تمہارے لیے ایک پیاری سی آنٹی لینے گئے ہیں۔ تم نے اوولٹین نہیں پیا تو ریحانہ آنٹی تم سے کبھی نہیں بولیں گی۔ اور ٹونی نے فوراً اوولٹین پینا شروع کر دیا۔

اور رات آئی۔ ایک اور رات۔ جبکہ ہوائیں چل رہی تھیں اور بارش ہو رہی تھی۔ بڑے بھیا اور چھوٹی کنور رانی صاحب گورنمنٹ ہاؤس کے ڈنر میں گئے ہوئے تھے۔ اور وہ اکیلی تھی۔ اتنے بڑے گھر میں اکیلی۔ بالکل تنہا۔ اور اس وقت اس نے سوچا۔ وہ کیوں پیدا ہوئی۔ کیوں بڑی ہوئی۔ اس نے کیوں اتنا پڑھا لکھا۔ وہ مسوری کے مقابلہ حسن میں کیوں ہمیشہ فرسٹ آئی۔ اس نے شہسواری اور پیانو میں مہارت کس لیے حاصل کی۔ کس لیے انسان اتنا مجبور اور بے بس ہے۔ اتنا بے بس۔

پھر ٹوٹو نے بمبئی سے لکھا۔ بٹیا۔ لفٹنٹ کمانڈر رحمن سے اب بھی شادی کر لو۔ وہ تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔ لیکن وہ خاموش رہی، جن باتوں کا وہ مذاق اڑایا کرتی تھی وہی سب باتیں ایک ایک کر کے اس کے ساتھ ہو رہی تھیں۔ قسمت کتنی ستم ظریف ہے۔

اور روایت ہے کہ ایلمر بریڈلے اس قدر دل شکستہ ہوا کہ اس نے آئی سی ایس اور آئی پی والوں کے لیے (Compensation) کی تجویز منظور کر لی اور اگلے جہاز سے ولایت واپس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔

اور پھر بڑے بھیا نے کہلوایا۔ میں ہرگز یہ پسند نہیں کرسکتا کہ تم اس طرح بے کار بے کار ادھر ادھر گھوما کرو۔ تمہیں اب کسی نہ کسی سے شادی ضرور کرنا پڑے گی۔ بڑی کنور رانی صاحبہ پر اختلاج قلب کا بہت سخت دورہ پڑنے والا تھا لیکن اس کی شادی کی خوشی میں وہ اچھی ہونے لگیں۔

اور پھر اسی طرح شہ نشینوں اور درختوں میں برقی قمقمے جگمگائے۔ اسی طرح ملٹری بینڈ اور آرکیسٹرا چیخا۔ اور اس کی شادی ہو گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو ایک آدھ مرتبہ پہلے کبھی مسوری میں دیکھا تھا۔وہ ایک چھوٹاسا تعلقہ دار تھا۔ اس کی تعلیم لکھنؤ کے لامارٹنیز اور کالون تعلقہ دارز کالج سے آگے نہ تھی۔ لیکن وہ اچھا ڈانسر تھا اور ٹینس کا اچھا کھلاڑی۔ اور اچھا فلرٹ۔ مسوری آئی ہوئی ہندوستان کی ساری راج کماریوں اور بیگمات سے فلرٹ کرنا اس کا دل چسپ ترین مشغلہ تھا۔ اور اس کی شادی ہو گئی اور وہ اس زندگی میں زبردستی دل چسپی لینے لگی جو اسے کبھی بھی زیادہ پسند نہ تھی۔ وہ گرمیوں کے چار مہینے پہاڑ پر اور سال کا باقی حصہ اپنے شوہر کے تعلقے پر بارہ بنکی یا سیتا پور میں گزارتی جہاں روز کسی نہ کسی انگریز یا ہندوستانی افسر کی آمد پر دعوتیں ہوتیں اور اکثراسے رات گئے تک رقص میں جاگنا پڑتا۔ لیکن وہ خاموش رہی۔ وہ اپنی آنکھوں کے پپوٹوں کی جلن کو بھلانے میں خاصی کامیاب ہو چکی تھی۔ اور چھاؤنی کے بگل کی آواز کو ____ پھر وہ اپنے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف رہنے لگی۔ اور پھر ایسا ہوا کہ اس کا تبادلہ اسی ضلع کا ہو گیا جہاں اس کے شوہر کی ریاست تھی۔ اس کی بیوی ان دنوں اپنی ممی لیڈی اعجاز کے وہاں شملے گئی ہوئی تھی۔ کاش کوئی آ کر اس سے کہتا کہ وہ بالکل اپنی بیوی سے خوش نہیں ہے۔ وہ بہت رنجیدہ رہتا ہے۔ وہ اکثر افسوس کیا کرتا ہے کہ اس نے ریحانہ اعجاز سے کیوں شادی کر لی۔ لیکن وہ تو ہمیشہ کی طرح بہت خوش اور  بشاش تھا۔ اس کی سیاہ آنکھیں ویسے ہی متبسم تھیں اور اس کے قہقہے ویسے ہی مترنم۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔

اور اس سال مسوری میں اس کا شوہر جس کی اپنے مخصوص مشغلہ میں دل چسپی ایسی ہی برقرار تھی، سوسائٹی کے ایک بہت زبردست اسکینڈل میں انوولو (Involve) ہو گیا اور نئی دہلی کے ایک ’’نائٹ‘‘ کی لڑکی نے اسے کورٹ تک پہنچانے کی دھمکی دی وہ یہ سب باتیں برداشت نہیں کرسکی۔ اس نے خاموشی سے طلاق لے لی اور ایک بار پھر لکھنؤ واپس آ گئی۔ اس کا بچہ اسے نہیں مل سکا بڑی کنور رانی صاحبہ نے اس سے بولنا چھوڑ دیا۔ بڑے بھیا نے اس سے قطع تعلق کر لیا ٹوٹو کسی ٹریننگ کے لیے امریکہ جا چکا تھا۔

اور اس وقت اسے ایلمربریڈلے کا خیال آیا۔ وہ ابھی ہندوستان ہی میں تھا اور اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے چکی ہے۔ وہ اپنے بچے کو کسی طرح نہ چھوڑنا چاہتی تھی۔ وہ اس کو نہیں مل سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے باپ کی ریاست کا ولی عہد تھا۔ اس کے لیے اس نے خود تلاش کر ایک عمدہ سی کورنس بھجوائی اور اس کے پہلے شوہر نے وعدہ کر لیا کہ وہ جب چاہے بچے کو آ کر دیکھ سکتی ہے۔ وہ کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔

اور اس کے چاروں طرف اتنا گہرا، اتنا سرخ، اتنا بھاری اندھیرا چھا گیا کہ وہ اپنی آنکھیں نہ کھول سکی۔ فضاؤں میں وحشت اور ویرانی کی تاریک روحیں زور سے چیخیں مارنے لگیں۔ ہوائیں روتی رہیں۔ سرخ دریا کے کنارے دھواں بلند ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ ساری کائنات پر چھا گیا۔ پر شور طوفان کی زد میں آ کر تیزی سے گھومتے ہوئے نڈھال چاند کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر اتھاہ تاریکی میں گم ہونے لگے۔

اور ایلمربریڈ لے سے اس کی سول میرج ہو گئی۔

سارے صوبے کی سوسائٹی میں اچھا خاصا تہلکہ مچ گیا۔ انڈین پولیس کے ایک یورپین آفیسر نے ایک ہندوستانی تعلقہ دار کی لڑکی سے شادی کر لی۔ گورنر سمیت سارا یورپین طبقہ تلملا اٹھا۔ لیکن ایلمربریڈلے خاموشی سے اسے اپنے ساتھ لے کر چند ہفتوں کے لیے کشمیر چلا گیا۔

اور اس کے کچھ عرصے بعد اس کے پہلے شوہر نے اپنے خاندان کی ایک پردہ نشین لڑکی سے دوسری شادی کر لی جو اس کی تفریحات میں قطعی مداخلت نہیں کرسکتی تھی۔

وہ کشمیر سے الٰہ آباد آئی دن تیزی سے پرواز کرنے لگے۔ اس کا دل بے انتہا چاہ رہا تھا کہ اپنے بچے کو دیکھے لیکن ایلمربریڈلے کو قطعی گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنی گزشتہ زندگی سے کسی قسم کا تعلق بھی قائم رکھے۔

پھر اس سال مسوری میں ایسا اتفاق ہوا کہ سوائے میں اپنے برابر والے سوٹ میں اس کا پہلا شوہر مع اپنی بیوی اور اس کے بچے کے آ کر ٹھیرا۔ اکثر لان پر اس کو اپنا بچہ کھیلتا ہوا نظر پڑ جاتا۔ وہ دوڑ کر اس کے پاس جاتی اسے چوکلیٹ اور کھلونے دیتی۔ بچہ ممی ممی کہہ کر اس کی ساری کے آنچل یا دوپٹے کے پلو کو اپنی طرف کھینچتا لیکن وہ جی پر جبر کر کے اسے گورنس کے پاس چھوڑ کر اپنے کمروں کی طرف چلی آتی۔ اس کے پہلے شوہر کا حکم تھا کہ بچے کو تو یہ بالکل معلوم نہ ہونے پائے کہ اس کی ماں کا دوسرا شوہر ایک انگریز ہے اور اس کے سوتیلے بہن بھائی اینگلو انڈین ہوں گے۔

اور مسوری کا سارا سیزن اسی طرح گزرا اور وہ چپکے چپکے خدا سے دعا مانگتی رہی کہ وہ مر جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور اس وقت وہ ایک چٹان پر کھڑی تھی۔ اس کے سیاہ لہروں والے بال اسکارف میں سے نکل نکل کر ہوا میں اڑ رہے تھے، اس کی ساڑی ہوا کے تھپیڑوں سے مخالف سمت میں اڑی جا رہی تھی۔ اور وہ اکتا کر دوربین کے ذریعے وادی کا نظارہ کر رہی تھی۔ چٹان کے نیچے بل کھاتی ہوئی سڑک پر موٹریں اور بسیں کنکھجوروں کی طرح ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہوئی اوپر چڑھ رہی تھیں یا نیچے اتر رہی تھیں۔ ایلمر کیمرہ لے کر پہاڑی کی چوٹی کی طرف چڑھ گیا تھا اور وہاں سے اس کو آواز دے رہا تھا اور اسے ایک طویل سفید اسٹیشن ویگن نظر آئی جو لہراتی ہوئی سڑک پر اوپر چڑھ رہی تھی۔ اور اس نے دوربین اپنی آنکھوں پر سے ہٹا دی۔

پھر وہ ایلمر کا سہارا لے کر چٹان سے نیچے اتر آئی۔ اور ایلمر نے اس سے کہا تھا کہ وہ اب سرکاری معاوضہ لے کر ولایت واپس جانا چاہتا ہے اور اس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اس کے انگلستان کے خوب صورت پرسکون قصباتی مکان میں اور سیب اور چیری کے شگوفوں کے درمیان پہلے سے کہیں زیادہ خوش رہ سکے گی۔ اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ قسمت۔ قسمت کی ستم ظریفیاں۔ کم از کم اس کو اب تک یہ اطمینان تھا کہ وہ اپنے پیارے بچے کو جس سے اسے بے حد محبت تھی کبھی کبھی دیکھ سکتی تھی۔ پر اب وہ بھی اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹ رہا تھا۔ وہ انتقاماً اپنی پہلی شادی کے لیے راضی ہو گئی تھی، پھر انتقاماً اس نے اپنے پہلے شوہر کو طلاق دے دی تھی۔ اب اس تیسرے شخص سے انتقام لے کر وہ کہاں جا سکتی تھی۔

اور رات ہو رہی تھی۔ وہ سب تاج کے ٹیرس پر بیٹھے تھے۔ ایلمر وطن جانے کی خوشی میں سیٹیاں بجا رہا تھا اور اپنے دوستوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ وہ مشر ق کی الف لیلوی سرزمین میں آ کر یہاں سے ایک سچ مچ کی چھوٹی سی سوتی جاگتی گڑیا ایسی ’’پرنسس‘‘ کو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہے۔ وہ ریلنگ پر جھک گئی۔ اس نے دیکھا۔ نچلی منزل سے وہ لفٹ کے ذریعے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جو کسی سرکاری کام سے انگلستان بھیجا جا رہا تھا اور وہ ان ہی کے جہاز میں سفر کرنے والا تھا۔ وہ سب ایک ساتھ ٹہلتے ہوئے گیٹ وے آف انڈیا تک گئے۔ گرین فر کے قریب تیزی سے بینڈ بج رہا تھا اور سمندر کی سیاہی مائل گہری سبز موجیں گیٹ وے کی سڑھیوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس جا رہی تھیں۔ تھکا ہوا، اکتایا ہوا چاند ناریل کے درختوں کے پیچھے سے طلوع ہو رہا تھا۔ اور کولابہ کی طرف سے ہوا کے خنک اور نم جھونکے آ رہت تھے۔

پھر اس لمبے، سفید جہاز نے سیٹی دی۔ وہ عرشے پر کھڑی رہی۔ ساحل آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتا گیا۔ شام ہوئی عرشے پر ڈانس شروع ہو گیا۔ وہ تھک کر اپنے کیبن میں آ کر سوگئی۔ اور سمندر اور آسمان کی تاریکی گھل مل کر سب گہری ہو گئی۔ موجوں کی سطح پر بہت سی آوازیں تیر رہی تھیں۔ مانوس، پرانی آوازیں۔ اور وہ آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔ لائٹ ہاؤس کی سرخ روشنیاں رفتہ رفتہ افق میں کھو کر اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ دور۔ سب دور۔ لیکن وہ اس سے دور نہیں تھا۔ وہ جو اس وقت اس کے برابر والے کیبن میں سو رہا تھا۔ اور وہ خود ایک غیرملکی شخص کے ساتھ ایک اجنبی سرزمین کی طرف جا رہی تھی۔ ہمیشہ کے لیے، ایک نامعلوم منزل کی طرف۔ اور بڑے بڑے چینی کے گل دانوں کے سائے دیوار پر پھیل گئے۔

اور ایلمربریڈلے اپنی برف جیسی سفید برتھ پر لیٹا خالص انگریزی اور امپریلسٹک انداز سے خراٹے لے رہا تھا۔ اور برابر والے کیبن میں دوسرا شخص بھی سورہا تھا۔ وہ کم بخت دوسرا شخص۔ سفید پردوں کی دوسری جانب۔ سفید ریشمی پر دے جو آدھی رات کی سمندری ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ جہاز موجوں کے سفید جھاگ کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا گیا اور اندھیرا گہرا ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

شیشے کے گھر جو ٹوٹ گئے

 

 

جب وہ پہلی بار وہاں گیا تو اس نے دیکھا تھا کہ ہر طرف آم کے باغ حد نظر تک پھیلے ہوئے تھے۔ اور ان کے درمیان سے گھاگھرا خاموشی سے بل کھاتی، لہراتی گزرتی تھی۔ اور ایک صاف شفاف کول تارکی چوڑی اور طویل سڑک تھی جس پر سے اکثر ٹن ٹن کرتے ایکے اور شورمچاتی لاریاں نکل جاتی تھیں۔ اور تمباکو اور ارہر کے کھیتوں کے پرے ایک نہر جو گھاگھرا میں سے نکالی گئی تھی، اور نہر کے پاس ہائیڈرو الیکٹرک کا چھوٹا سا پاور ہاؤس، نہر کے کنارے ایک پھونس کی چھت کا ڈاک بنگلہ بھی تھا جس میں کبھی کبھی سپرنٹنڈنٹ انجینئر آ کر ٹھہرتا یا پکنک منانے والے منچلوں کی ٹولیاں یا یو۔ ٹی۔ سی کے دستے رک جاتے۔ پھر آم کے کنجوں کے چاروں طرف کچی منڈیروں کے ساتھ ساتھ ایکھ کے جھنڈ کھڑے تھے۔ وہاں پر خوب ہریالی تھی۔ اور ٹھنڈک اور سکون اور کیلے کے درختوں میں چھپے ہوئے ٹھاکر راجندر پرتاپ سنگھ کے پرانے مندر کا بد رنگ سا جھنڈا پروائی ہوا میں لہراتا رہتا تھا۔ مندر کے بڑے دروازے کا رخ ٹھاکر صاحب کی نئی کوٹھی کی طرف تھا۔ وہ شیوجی کا مندر تھا۔ اور مندر کی مورتی دن بھر ڈھیروں پانی میں نہاتی رہتی اور وہ پانی سیندور سے لپے پتے فرش پر سے بہہ بہہ کر مندر کے چبوترے کے نیچے گیندے اور گل ہزارہ کی کیاریوں میں جذب ہو جاتا۔ اور گائے بھینس۔ بھینس سنگھاڑے والی جھیل میں قیلولہ میں مصروف رہتیں۔ کبھی کبھی کسی بھینس کی پیٹھ پر ایک کالا بھتنا ایسا بچہ بیٹھا اسے لکڑی سے مارتا مارتا جھیل کی طرف جاتا نظر آتا۔ اور اکثر ٹھاکر راجندر پرتاپ سنگھ کی کوٹھی میں سے سنکھ اور کیرتن کی آواز بلند ہوتی۔ رگھوپتی راگھو راجہ رام، پتی تے پاون سیتا رام۔ کول تار والی سڑک پر سے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد چھاؤنی کی طرف جاتے ہوئے بڑے بڑے کمانڈو اور جیپ اور ٹرک زناٹے سے گزر جاتے۔ اور اس سڑک سے ذرا ہٹ کر ایک ڈیڑھ فرلانگ بھر کا سرخ بجری والا راستہ تھا جو سول لائنز اور چھاؤنی کی آبادی شروع ہونے سے پہلے کول تار کی سڑک سے جدا ہو کر اس زرد دیواروں والی بہت بڑی اور بہت پرانی کوٹھی کی طرف جاتا تھا۔ جس کی برساتی میں ۱۹۳۹ء کے موڈل کی ایک سبز فورڈ کھڑی رہتی تھی اور جس کے باغ میں گلاب اور چنبیلی کی جھاڑیاں تھیں اور اس راستے کے شروع میں ایک جھکا ہوا شکستہ لکڑی کا بورڈ لگا تھا جس پر لکھا تھا ’’یہ عام راستہ نہیں ‘‘۔ وہ راستہ بڑا ہی خوب صورت تھا۔ صاف، سایہ دار اور خاموش۔

اور اس وقت آہستہ آہستہ قدم رکھتی ہوئی وہ اس راستے کے سرے پر آ کر کھڑی ہوئی اور پرانی اینٹوں کی ایک شکستہ نیچی سی دیوار پر جھک کر سامنے کی طرف دیکھنے لگی۔ سامنے جدھر جھیل تھی اور آم کے جھرمٹ اور جوئی کے پھولوں پر بھنورے گونج رہے تھے اور جامنوں کے باغ میں کوئلیں شور مچا رہی تھیں۔

وہ بہت دیر تک اس جگہ کھڑی رہی۔ یہاں تک کہ سورج مولسری اور چمپا اور جامنوں کے پرے، ندی کے گل رنگ پانیوں میں جا چھپا۔ پھر دو آدمی اس راستے کی جانب بڑھتے نظر آئے۔ اور اس شکستہ دیوار کے اختتام پر جو پرانے ستونوں والا پھاٹک تھا اس کے قریب پہنچ کر وہ رک گئے۔ وہ دونوں خاصے اسمارٹ تھے اور غالباً کسی ہمسایہ زمین داری کے رئیس کے لڑکے تھے اور رینکنؔ کے سلے ہوئے بہترین دھاری دار سوٹ اور چیختے چلاتے رنگوں کے اسکارف پہنتے تھے۔ وہ دیوار پر اسی طرح جھکی سامنے کی طرف دیکھتی رہی۔ وہ اس کے پاس پہنچے۔

’’تسلیمات عرض ہے لیلیٰؔ بیگم۔‘‘

’’آداب۔‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔

’’کیا۔ کیا راجہ صاحب اس وقت اندر تشریف رکھتے ہیں ؟‘‘

’’پتہ نہیں، آگے جا کر کسی سے معلوم کر لیجئے۔‘‘

’’آپ یہاں کب سے ہیں ؟‘‘

’’کافی دنوں سے۔‘‘

’’جی۔ جی ہاں۔ اس مرتبہ آپ کو نینی تال میں نہیں دیکھا تو خیال ہوا تھا کہ آپ یہاں تشریف لے آئی ہوں گی۔‘‘

’’جی۔‘‘

زیادہ ہمت افزا جواب نہ پا کر وہ دونوں جھینپی سی ہنسی ہنستے ہوئے سرخ بجری والے راستے پر سے گزر کرکوٹھی کی طرف چلے گئے۔

’’ہونہہ‘‘۔ اس نے دور تک پھیلی ہوئی اکاس بیل کا ایک پتہ جھٹکے سے توڑا اور دیوار کی اینٹوں پر سے نیچے اتر آئی۔

’’آپا۔ آپا۔‘‘ کول تار کی سڑک پر ایک آسٹنؔ آن کر رکی اور ایک نوجوان اس کی سمت بھاگتا ہوا آیا۔

’’ہلو عباس میاں کب آئے۔‘‘

’’آپا میں ابھی آ رہا ہوں۔ تم کیسی ہو۔ تم بہت زرد نظر آ رہی ہو۔ تم نے ان دونوں گدھوں اکرم اور مظفر کو ادھر آتے دیکھا؟ وہ میرے ساتھ ہی ردولی تک آئے تھے۔

افوّہ۔ وہ ایک سانس میں یہ سب کہہ گیا اور پھر رومال سے پیشانی پوچھی۔

’’چلو اندر چلیں۔‘‘ اس نے بڑے سکون سے جواب دیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مکان کی طرف جانے لگی۔

اور اس خوب صورت راستے پر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ دونوں بہت اچھے معلوم ہوئے، وہ لڑکی جس کی چمپئی رنگت اور سیاہ لانبی لانبی پلکیں تھیں اور وہ خوب صورت اور شان دار نوجوان، دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کوٹھی کے پہلو والے برآمدے تک پہنچ گئے۔ اندر نشست کے کمرے میں زور زور سے باتیں ہو رہی تھیں اور نقرئی پیچوان گڑگڑا ئے جا رہے تھے۔

’’آپا بھائی صاحب کو چھٹی نہیں ملی۔ وہ سیدھے نینی تال سے پرتاپ گڈھ چلے گئے۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ اس نے پیشانی پر سے بالوں کی لٹ ہٹائی۔ اس نے بھائی صاحب کے متعلق قطعی کچھ نہیں پوچھا تھا۔

خوب صورت نوجوان کہتا رہا۔’’آپا۔ میں انٹرویو میں آ گیا۔‘‘

’’اچھا۔ بڑی خوشی کی بات ہے۔ ‘‘

’’آپا یہ دونوں گدھے کیوں آئے ہیں۔‘‘ اس نے پھر پوچھا۔

’’ مجھے کیا پتہ بھئی۔‘‘

’’اچھا میں ذرا ممانی اماں کے پاس ہو آؤں۔‘‘ وہ برآمدہ کی چک اٹھا کر اندر چلا گیا۔

وہ اپنے کمرے میں آ گئی اور زور سے دروازہ بند کر کے ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔ اور پھر یکایک کشنوں میں منھ چھپا کر رونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور وہ نوجوان اندر داخل ہوا۔ اور چمپئی رنگت والی لڑکی کو روتا دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔

’’آپا۔ آپا۔ کیا بات ہے۔ تم رو رہی ہو۔‘‘ اس نے پیشانی پر سے بالوں کی لٹیں ہٹائیں اور بچوں کی طرح آنکھوں پر انگلیاں پھیر کر آنسو خشک کرنے لگی۔

وہ دونوں شخص زور زور سے باتیں کرتے اور  قہقہے لگاتے گیلری میں سے نکل کر باہر چلے گئے۔ ’’سور کہیں کے۔‘‘ خوب صورت نوجوان بڑبڑایا۔’’میاں ان گدھوں کو منھ کیوں لگاتے ہیں۔ کیا ساملؔ پور والے مقدمے کا قصہ اب تک ختم نہیں ہوا؟‘‘

’’پتہ نہیں۔‘‘ لڑکی نے بے زاری اور اکتاہٹ سے جواب دیا۔ اس کی پلکوں پر آنسو کے قطرے اب بھی جھملا رہے تھے۔

’’آپا جب سے میں آیا ہوں تم پتہ نہیں اور معلوم نہیں کے علاوہ کچھ بولتی ہی نہیں جانے تم کو کیاہو گیا ہے۔ اگلے ہفتے میں ٹریننگ کے لیے آر ایم اے چلا جاؤ ں گا۔ بھائی صاحب جانے کب تک پرتاپ گڈھ سے واپس آئیں گے۔ یہاں تم منھ پھلائے بیٹھی ہو۔ میں ردولیؔ سے اتنا خوش خوش آیا تھا۔ میں تو وہاں دو دن بھی نہیں ٹھہرا کہ یہاں تم سب سے مل کر لکھنؤ واپس جاتے ہوئے وہاں ٹھہرتا جاؤں گا۔ سب اتنا روک رہے تھے۔ سندیلے میں جو عطیہؔ آپا نہیں تھی۔ عسکری چچا کی لڑکی ان کی شادی پچھلے مہینے ایک صاحب سے ہوئی ہے جو اپنے آپ کو بڑا لاٹ صاحب کا بچہ اور تمہارے چارلس بوائیر کے چھوٹا بھائی سمجھتے ہیں۔ اور بمبئی میں کسی بہت بڑے عہدے پر ہیں۔وہ بھی ردولیؔ آئے تھے۔ چغد ترین انسان ہیں بالکل____‘‘

____آپا تم تو چپ ہی نہیں ہوتیں۔ واللہ بھئی عجیب آدمی ہو۔ خدا کی قسم۔‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور کشنوں کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر چپ چاپ بیٹھ گئی۔

جب وہ پہلی بار وہاں گیاتو اس نے آس پاس کے خوب صورت مناظر کو دیکھا تھا اور مولسری اور چمپا کے درختوں کو، اور گھاگھرا کے ہرے بھرے ساحلو ں کو۔ اور آم کے کنجوں کو جن کی بور آئی ہوئی ڈالیوں پر کوئلیں شور مچاتی تھیں، لیکن اس چمپئی رنگت اور سیاہ لانبی پلکوں والی لڑکی کی طرف نظر بھر کر دیکھنے کی اسے ہمت نہ ہوتی تھی۔ وہ سوچتا تھا کس قدر احمق ہوں میں۔ پھر اسے خیال آتا۔ عباس نے ایک دفعہ بغیر یہ جانے ہوئے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، کہا تھا۔’’لیلیٰ آپا کچھ ایسی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں کہ انہیں دیکھ کر آپ سے آپ جی گھبرانے سا لگتا ہے۔‘‘

ا ور اس وقت لکھنؤ کے اس بلند پایہ کلب میں ریڈیو کے قریب لِس نر کی ورق گردانی کرتے ہوئے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آس پاس کی سب چیزیں، صوفے، میزیں، برقی پنکھے، رقصاں جوڑے، گوانی، بیرے، سب کے سب تیزی سے گھوم رہے ہیں۔ چکر کھا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ وہ چند لمحے قبل اس کے قریب ایک صوفے پر سے اٹھ کر اپنی ایک دوست کے ساتھ ڈائننگ ہال کی طرف چلی گئی تھی۔ اور وہ بظاہر بڑی بے تکلفی اور بے پروائی سے اپنے خیالوں میں محولس نر کے صفحے پلٹ رہا تھا۔

’’یار یقیناً تمہیں کوئی لڑکی جلٹ کر چکی ہے ورنہ ایسی حسینہ سے اس قدر بے رخی اور بے نیازی کے کیا معنی؟ یا آپ بھی Cynic بننے اور عورتوں سے نفرت کرنے کا پوز فرماتے ہیں۔؟‘‘ برابر کی کرسی پر بیٹھا دھاری دار سوٹ میں ملبوس ایک شخص اس سے کہہ رہا تھا۔

’’خدا کے لیے چپ رہو بھئی مظفرؔ۔‘‘ اس نے بے زاری سے کہا۔ ’’اچھا بھئی، بندے خاں تو جاتے ہیں۔ مگر یار بڑی ماسٹرپیس چیز ہے خدا کی قسم۔ کسی کو لفٹ ہی نہیں دیتی۔ لیکن اگر بحث کرنے پر آتی ہے تو لگتا ہے کہ مشین گن چل گئی۔ خوب ناچتی ہے۔ فیض آباد والے راجہ صاحب نہیں ہیں۔ راجہ شرافت احمد خاں تعلقہ دارسامل پور کی لڑکی ہے۔ یار کیا چیز ہے واللہ۔‘‘ پھر وہ دونوں دھاری دار سوٹوں والے آدمی بار کی طرف چلے گئے۔

وہ تھوڑی دیر تک بڑی بے چینی سے وہاں بیٹھا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر آ گیا۔ جہاں نسبتاً خنکی تھی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ لان پر مولسری کے نیچے سبز بید کی کرسیوں پر مسٹر ہری ہر پال آئی سی ایس کی ۳۵ سالہ خوب صورت بیوی اندرا اور نواب زادہ اصغر امام باتوں میں مصروف تھے۔ ہلکے ہلکے قہقہے کوک ٹیل کے گلاسوں کی کھنکھناہٹ کے ساتھ فضا میں منتشر ہو رہے تھے۔ وہ مولسری کے درخت کو پیچھے چھوڑتا ہوا ٹینس کورٹ کی سمت آ گیا جہاں کلب میں آنے والوں کی موٹریں کھڑی تھیں۔ یک لخت کلب میں اندھیرا چھا گیا۔ موسیقی جاری رہی۔ خواتین کی ہلکی ہلکی ’’آہ‘‘ اور ’’اوہ‘‘ کی آواز یں اور مردوں کے ادھر ادھر بھاگنے کا شور زیادہ ہو گیا۔ کوئی بجلی گھر کو فون کرنے دوڑا جا رہا تھا کوئی اندھیرے میں اپنے ساتھیوں کو پکار رہا تھا۔ اپنی کار تک پہنچ کر اسے اپنی ہیٹ کا خیال آیا جو لاؤنج میں پڑی تھی۔ اندھیرے میں لان اور برآمدوں اور ہال کو عبور کرتا ہوا وہ واپس لاؤنج تک پہنچا۔ اور اس تاریکی میں اس نے محسوس کیا کہ ہال کے بڑے دریچے میں سے جو پچھلے باغ میں کھلتا تھا، کوئی ایک دھماکے کے ساتھ اندر کو د آیا ہے۔ باہر باغ میں قہقہوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ ظاہر تھا کہ اندھیرے میں آنکھ مچولی کھیلی جا رہی تھی۔ اس کے لاؤنج میں کود آنے سے ایک کرسی الٹ گئی اور وہ ایک میز سے ٹکرا گئی جس کے قریب وہ کھڑا تھا۔ جب اس کی آنکھیں اس گھپ اندھیرے سے مانوس ہوئیں تو اس نے چاروں طرف دیکھا اور گھبرا کر بولی۔’’اوہ۔ معاف کیجئے گا۔‘‘ پام کے گملوں کے پرے ہال میں خوب شور مچ رہا تھا اور بیرے لیمپ اور موم بتیاں جلاتے پھر رہے تھے۔

’’بالکل ٹھیک ہے۔ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں ؟ ادھر آ جائیے۔ اس طرف نسبتاً روشنی ہے۔‘‘ چاند پچھلے لان کے کنارے کنارے کھڑے ہوئے پام کے درختوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ طلوع ہو رہا تھا۔ ان کرنوں کی مدھم روشنی میں اس نے اس چمپئی رنگت والی لڑکی کو پہلی مرتبہ ہمت کر کے غور سے دیکھا۔

’’آپ۔ آپ ہی اس وقت ریڈیو سے شوق فرما رہے تھے؟‘‘

’’گھبراؤ نہیں۔ تم میرے لیے اجنبی نہیں ہو۔ میں تم کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ اس نے بالکل غیر متوقع طور پر اپنے آپ کو کہتے پایا۔

اور جب وہ باہر آ رہت تھے تو لڑکی نے پوچھا ’’ارے آپ ہی کی شادی عسکری چچا کے یہاں ہوئی ہے نا؟‘‘

’’ہُم‘‘۔

’’عطیہؔ کہاں ہیں۔ آپ ان کو یہاں اپنے ساتھ نہیں لائے۔‘‘

’’عطیہؔ آج کل ردولی آئی ہوئی ہیں۔ تم ہماری شادی میں کیوں نہیں آئی تھیں ؟‘‘

’’ارے ہم کو پتہ ہی نہیں تھا۔ میاں گئے ہوں گے۔ ہم تو نینی تال میں تھے۔‘‘ وہ موٹروں کی قطار تک پہنچ گئے۔

’’تم بہت چھوٹی سی تھیں یاد ہے جب آل سینٹس میں پڑھتی تھیں اور ٹٹو پر بیٹھ کر مال پر گھومنے جایا کرتی تھیں۔ اس کے بعد میں نے تم کو آج دیکھا ہے۔ یاد ہے؟‘‘

’’اوں ہنک‘‘۔ اس نے پیشانی پر سے بالوں کی ایک لٹ ہٹائی۔ ہمیں تو بالکل یاد نہیں۔ ارے ہاں ٹھیک ہے آپ شاید بھائی صاحب کے ساتھ نینی تال آئے تھے۔ اور شاید ایک بار ہمارے یہاں فیض آباد بھی آئے تھے نا۔ اب تو آپ کی ہم لوگوں سے رشتے داری بھی تو ہو گئی۔ عطیہ سے آپ پہلے کہاں ملے تھے؟‘‘

’’کہیں بھی نہیں۔‘‘

’’اچھا تو یہ Arranged شادی ہے عطیہ کی۔‘‘

’’بالکل ‘‘۔

اس نے ۱۹۳۹ء کے موڈل کی ایک سبز فورڈ کا دروازہ کھولا۔ڈرائیور جو پچھلی سیٹ پر پڑا سور ہا تھا، ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ پھر وہ ’شب بخیر‘ کہہ کر اس فورڈ میں بیٹھ کر چلی گئی۔

ایک مرتبہ پھر اس نے سوچا۔ کس قدر احمق ہوں میں۔ لیکن اس نے اپنے آپ کو فیض آباد کے اس خوب صورت، سایہ دار اور پرسکون سرخ بجری والے راستے پر پایا۔ محض اس کو ایک بار پھر دیکھ لینے، اس کی آواز سننے، اس کا قرب محسوس کرنے اور وہ پرانی اینٹوں والی شکستہ دیوار پر بیٹھی انتہائی اخلاق سے اس سے کہہ رہی تھی۔‘ ‘ آپ نے پہلے کبھی یہاں کی سیر نہیں کی؟ نواب بہو بیگم کا مقبرہ اور گلاب باری اور گھاگھرا کے خاموش ساحل۔ اور گپتار گھاٹ جس کی سیڑھیوں پر سے دریا کی لہروں میں کود کر کرشن مہاراج ہمیشہ کے لیے گیتا ہو گئے تھے۔ اور اور نگ زیب کی مسجد اور اس کی دیوار کے سائے میں سیتا جی کی رسوائی۔ ہمارے یہاں کا کلب بھی بہت خوب صورت ہے۔ اور ہمارے پاس ایک کشتی بھی ہے جو ہمارے باغ کی ڈھلوان پر امرود کے سائے میں پانی کے کنارے پر بندھی رہتی ہے لیکن آپ کو بھلا یہ سب کیا اچھا لگے گا۔ اپنے بڑے بڑے شہروں کے مقابلے میں تو آپ کو یہ بالکل گاؤں معلوم ہوتا ہو گا۔ اچھا آپ ہمارے ساتھ شکار کے لیے چلیے گا۔‘‘

وہ دیر تک اسی طرح باتیں کرتی رہی۔‘‘ میاں ردولی سے واپس آ جائیں تو نیپال گنج کے جنگلوں میں چلیں گے۔ بہرائچ سے آگے۔ آپ کبھی اس طرف گئے ہیں۔؟ وہاں سے نیپال کی سرحد شروع ہوتی ہے اور وہاں ڈھیروں شکار ملتا ہے۔ دیکھئے وہ جو برآمدے میں چیتے کی کھال بچھی ہے وہ پچھلے سال میاں نے مارا تھا۔ اور وہ بارہ سنگھا میں نے۔ پر میرا نشانہ تو بے حد خراب ہے۔ کم از کم میاں یہی کہتے ہیں، میاں میرے ساتھ اتنا سرکھپاتے ہیں لیکن مجھے شکار بالکل پسند نہیں۔ کیا تک ہے کہ بس ہونقوں کی طرح مچان پر چڑھے بیٹھے ہیں، اچھا چلیے آپ کو اپنے زردگلاب دکھائیں، ان کی قلمیں میاں نے ابھی غازی پور سے منگوائی ہیں۔‘‘

اور اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک بہترین میزبان ثابت ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ بھی کہ یہ ساری توجہ محض اس کے لیے ہی مخصوص نہیں۔ وہ جو کوئی بھی مہمان اس کے یہاں آئے گا وہ اس سے اسی طرح اسی اخلاق اور توجہ سے اس کی دل چسپی کے لیے باتیں کرے گی۔ اس سے گھاگھرا کے ساحلوں اور نیپال گنج کے جنگلوں اور بہو بیگم کے مقبرے کا ذکر کرے گی۔ اسے اپنے باغ کے زرد گلاب دکھائے گی۔ وہ واقعی ایک مکمل میزبان تھی۔ خاطر تواضع کا فن اور میزبانی کے فرائض جو اس نے آل سنٹیسؔ اور لیڈی ارونؔ میں سیکھے تھے، ان کا استعمال وہ خوب جانتی تھی۔

بارش ہو رہی تھی۔ اور باہر لان کی نکھری ہوئی، تیز سبز گھاس میں کبھی کبھی سرخ سرخ مخملیں بیر بہوٹیاں رینگتی ہوئی نظر آ جاتی تھیں اور جامن اور فالسے اور مولسری کے پیڑ بارش کی پھواروں سے بوجھل ہواؤں میں جھوم رہے تھے۔ اس کا جی گھبرانے سا لگا۔ اس نے محسوس کیا اور اسے پھر عباس کی بات کا خیال آ گیا۔

برآمدے میں راجہ صاحب آرام کرسی پر نیم دراز نقرئی پیچوان گڑگڑا رہے تھے۔ دوسری آرام کرسی پر ٹھاکر راجندر پرتاپ سنگھ پانیئر کے صفحات میں غرق، کنور سرجگدیش پرشاد کی تازہ اسمبلی کی تقریر پڑھنے میں مصروف تھے۔ بڑی پُرسکون، مطمئن، قانع، کائنات تھی۔ پہلو کے برآمدے میں لڑکیوں نے ملہار شروع کر دیا تھا۔ ڈھولک پِٹ رہی تھی۔ ساون اور کجریاں اور بارہ ماسے اور ڈھولک کے گیت الاپے جا رہے تھے۔ طبلہ ٹھک رہا تھا۔ تان پورے کے تار چھیڑے جا رہے تھے۔ او خدا… زندگی۔ زندگی اگر ایسی ہی آرام دہ، پُر کیف اور پرسکون ہے تو مجھے اس کی ایک جھلک پہلے کیوں نہ دکھا دی۔

ٹھاکر صاحب نے بے زاری کے ساتھ اخبار فرش پر ڈال دیا اور پیچوان منھ سے لگا کر اور آنکھیں بند کر کے زیر لب ’’ اوم شو سنکر شوشنکر‘‘ کا ورد کرنے میں مشغول ہو گئے۔ وہ جھکی اور فرش پر سے اخبار اٹھا لیا۔‘‘ہونہہ ہماری سب نروہیؔ اور ککرولیؔ کے گاؤں ملا کر دس بارہ لاکھ کی مالیت کی زمینیں ہیں۔ اور معاوضہ دینے کو کہتے ہیں۔ میز لی ساٹھ ہزار اور ٹھاکر چچا سیر کرے بھر کی زمین؟‘‘ غصے سے اپنے بالوں کی لٹیں جھٹک کر اس نے ٹھاکر صاحب کو دیکھا۔ ٹھاکر صاحب اور راجہ صاحب دونوں مراقبے میں مستغرق تھے۔

’’مسز پنڈت اور ان کی بڑی صاحبزادی سے تو تمہاری بہت گہری دوستی ہے۔ ان سے تم نے پوچھا؟ وہ کیا کہتی ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا۔

’’ہنہ۔ وہ کیا کہتیں۔ جناب سرمایہ داری کے خلاف گرما گرم بحثیں اور تقریریں کر لینا آسان بات ہے لیکن جس کے پاس سے جاتا ہے اسی کو قدر و عافیت معلوم ہوتی ہے۔

’’لیکن لیلیٰ کتنے بہت سے انسان ایسے بھی تو ہیں جنہوں نے کسی بڑے آئیڈیل کی خاطر اپنا سب کچھ تج دیا ہے‘‘۔ اس نے محض اس سے باتوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی غرض سے کہا۔

’’آئیڈیل۔ ہنہ۔ میں اتنا مکمل انسان بننے کا دعویٰ نہیں کرتی۔ مجھے اپنی دولت اور وہ معیار جس کے مطابق زندگی بسر کرتی آئی ہوں چاہئے۔ آئیڈیلز۔ یقیناً۔!!‘‘

اور یہاں سے مکمل انسان کی بات چلی۔پہلو کے برآمدے میں کوئی لڑکی ’’چلی جائے موری نیّا کنارے کنارے۔‘‘ الاپ رہی تھی۔ بارش کی پھواریں لان کی اونچی اونچی گھاس کو دہرا کیے دے رہی تھیں، باغ کے سرے پر گھاگھرا کا پانی ڈھلان پر سے گزرتا ہوا جامن کے درختوں تک بڑھ آیا تھا۔ اور دور امرود کے نیچے بندھی ہوئی کشتی لہروں پر جھکولے کھا رہی تھی۔ اچانک اسے ایک خیال آیا۔ اس نے پوچھا۔’’لیلیٰ۔ فرض کرو تمہیں ایک ایسا نوجوان پسند آ جائے جو تمہارے لیے وہ سب آسائشیں مہیا نہ کرسکتا ہو جن کی تم عادی رہی ہو، تو کیا تم اس سے شادی کرنے کو تیار ہو جاؤ گی۔‘‘

’’فرض کیسے کر لو! ایسا آدمی پسند ہی کیسے آ جائے گا۔ اور اگر پسند بھی آ گیا تو اس کے ساتھ شادی ہی کیوں کر لی جائے گی؟‘‘ پھر وہ ہنس پڑی۔ شوک پہنچ گیا آپ کو۔ غالباً میں پہلی ہی ایسی لڑکی آپ سے ملی ہوں جس کے دماغ میں بڑی رومنٹیک قسم کے تخیل پر ستی نہیں !!‘‘ وہ چپ رہا۔ دوسرے برآمدے میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں نے ’’ساون جھر لا گے ہو دھیرے دھیرے ‘‘ شروع کر دیا تھا۔

اور جب آم کے وہ ہرے کنج اور گھاگھرا کے خاموش ساحل اور ٹھاکر صاحب کے مندر کے کلس اس کی نظروں سے اوجھل ہوئے تو اسے ایک نامعلوم ناقابل برداشت تکلیف سی محسوس ہوئی۔ ہر وہ چیز جس کا اس چمپئی رنگت والی لڑکی سے کوئی تعلق تھا اس کے لیے ایک مقناطیسی کشش رکھتی تھی۔ وہ شہر جہاں وہ رہتی تھی۔ وہ کلب جہاں وہ رولر اسکیٹنگ کرنے یا ٹینس کھیلنے جاتی تھی۔ وہ پولیٹکس جس پر وہ بحث کرتی تھی۔ اب تک اسے زمین داری کے خاتمے کی سرکاری تحریک سے قطعی کوئی دل چسپی یا سروکار نہیں تھا۔ لیکن اب وہ روزانہ بے حد انہماک اور توجہ سے اس سوال کے متعلق اسمبلی کے مباحثے اور دوسری خبریں پڑھنے لگا۔ انسان واقعی بعض مرتبہ خود کو کتنا احمق محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسے وہ رینکن کے سلے ہوئے دھاری دار سوٹ پہننے والے ڈینڈی ایک آنکھ نہ بھاتے تھے لیکن اس وقت چھتر منزل کے عظیم الشان، منقش ستونوں والے ہال کے کنارے بلوریں میزوں کے گرد بیٹھے ہوئے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی باتوں کی آواز نے اسے متوجہ کر لیا۔

’’قیامت آئے، وہ آئیں یا انقلاب آئے۔‘‘ ان میں سے ایک نے بے حد اسٹائل سے ایک مصرع پڑھتے ہوئے سوئمنگ پول کی گیلری کی طرف دیکھا جدھر سے وہ بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنستی ہوئی راج کماری کروا ہا راج کے ساتھ گزر رہی تھی۔

اس کا دل پھر ڈوب سا گیا۔ ہال کے منقش ستون اور بلوریں میزیں اور رقصاں جوڑے پھر تیزی سے چکر کھانے لگے۔

وہ بے کار بے مصر ف امیر زادے جو کلبوں میں سگار کے دھوئیں اڑاتے اڑاتے کوک ٹیل کے گلاس خالی کرتے کرتے سوسائٹی کے اسکینڈلز اور Gossips پر زندہ رہتے ہوئے یوں ہی اپنی عمریں بتاتے ہیں، ان میں سے ایک کہہ رہا تھا۔ ’’ وہ دوسری، سبز ساڑی والی سامل پور کی لڑکی ہے جانتے ہو؟‘‘

’’ہم۔ وہی اسے کون نہیں جانتا۔‘‘

’’سنا ہے آزاد بہت زیادہ ہے۔ مگر بھئی ہے بڑی فرسٹ کلاس لڑکی۔‘‘

’’سنئے جناب! لفظ ’’آزادی‘‘ ایک بہت ہی اضافی ٹرم ہے۔ بہت سی باتیں جو میرے نزدیک بالکل ٹھیک اور جائز ہیں آپ کے خیال میں آزادی میں داخل ہوں گی۔ اسی طرح جن چیزوں کو میں آزادی سمجھتا ہوں وہ اور بہت سے لوگوں کو بالکل مناسب معلوم ہوتی ہوں گی۔ اس طرح کا فیصلہ۔‘‘ اس نے خود کو اپنے دوستوں سے سرگرمی کے ساتھ بحث میں مشغول پایا۔

’’صریحاً تمہارے لیے انگور بہت ترش ثابت ہوئے ہیں۔مظفرؔ میاں۔‘‘ ایک نے کہا۔

’’ہلوفوکس۔ بڑے زوروں میں بحث ہو رہی ہے۔‘‘ وہ ان کی میز کی طرف آتے ہوئے بولی۔ سب انتہائی اخلاق سے تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے۔

’’لیلیٰ بیگم عورت کی آزادی کا تذکرہ تھا۔‘‘ دوسرے نے کہا۔

’’افوہ۔ کس قدر، دل چسپ۔‘‘ اس نے برا سنا منہ بناتے ہوئے کہا۔

’’بھئی آپ لوگ تو عورت بے چاری کو ہر طرح ہی سے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔‘‘ راج کماری کرواہا نے اسٹائل سے بات شروع کی۔

’’افوہ بھئی کس قدر پٹی ہوئی بحث لے بیٹھے آپ لوگ۔ ان چیزوں پر کچھ سوچنا ہی سخت حماقت ہے، آپ سب اسکیٹنگ کے لیے نہیں چل رہے؟‘‘ اس نے میز پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔

’’اہم۔ حماقت تو ممکن ہے کہ ہو لیکن لیلیٰ بیگم آپ کیا یہ برداشت کر لیں گی کہ معاف کیجئے گا، آپ کا شوہر دوسری لڑکیوں میں دل چسپی لیتا پھرے اور … اور یہی سب کچھ جو ہماری اس ’’ہائی لائف‘‘ میں ہوتا ہے۔‘‘

’’اب تک تو میں شادی کی نعمت سے محروم ہوں اس لیے اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘ ‘ پھر وہ اسی طرح بچوں کی سی شریر ہنسی ہنستی ہوئی اسکیٹنک کے ہال کی طرف چلی گئی۔

’’ہا۔ ہا۔ ہاہ‘‘۔ ان دوستوں نے اس کو دور گیلری میں جاتے ہوئے کہا۔ ’’ واقعہ یہ ہے کہ عورت کو کبھی ایک مقررہ حد سے آگے نہ بڑھنے دینا چاہئے ورنہ وہ بڑی گڑبڑ پھیلاتی ہے۔‘‘

’’لیکن یہ حد کس معیار کے مطابق مقرر کی جائے اور کون مقرر کرے؟ ارے میاں عورت تو جذبات پر زندہ رہتی ہے، منطق اور اصولوں پر نہیں۔ جذبات جو بیوی، ماں، بہن اور بیٹی کی محبت کا سرچشمہ ہیں۔‘‘

’’اور یہ اسٹریم لائنڈ  بد معاشیاں کن بلند ومقدس جذبات کی پیداوار ہیں۔‘‘

بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔

لیکن ہم سے کسی کو بھی اپنے امپلسز پر قابو نہیں تو ہم محض عورت بے چاری ہی کو کیوں الزام دیتے ہیں۔‘‘ اس نے پھر کہا۔

’’اچھا بھئی اگر تمہیں کسی شادی شدہ عورت سے عشق ہو جائے تو کیا کرو گے؟‘‘ ان میں سے ایک نے اس سے پوچھا۔

’’غالباً اسٹریم لائنڈ آوارگی۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ بڑا زور دار اور فرمائشی قہقہہ لگایا گیا۔ گویا کوئی بہت ہی پر لطف بات کہہ دی گئی تھی۔

’’ اور یا پھر ہم ایک دوسرے کی کمزوریوں کو درگزر کرنے لگیں یعنی وہی سمجھوتے کا راستہ۔‘‘

’’ وہ تو بہت مشکل ہے۔‘‘

’’ مشکل؟ قطعی نہیں۔ ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہر زمانے میں ہوا ہے۔ ہر صورت حال میں ممکن ہے۔ مسٹر ہری ہر پالؔ اور مسز شکنتلاؔ باجپئیؔ، مسز اندرا ہری ہر پالؔ اور نواب زادہ اصغرؔ امام۔ بیگم سکینہ اصغر امام اور کرنل راجین باجپئی اس سنہری وایا میڈیا کی کہاں تک تشریح کی جائے۔ !‘‘

وہ گھبرا کر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا، اسے یہ محسوس کر کے انتہائی تکلیف ہوئی کہ لیلیٰ ایسی گفتگو کا موضوع ہے۔ وہ منقش ستونوں کے پیچھے سے گزرتا ہوا گیلری میں آ گیا، اسکیٹنگ کے ہال سے نکل کر وہ اسی گیلری میں آ رہی تھی۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے سوئمنگ پول کے ہال میں داخل ہوئے۔ وہاں پر گہری سبز روشنی ہو رہی تھی اور اس روشنی میں جھلملاتا ہوا حوض کا پانی آنکھوں کو بہت ٹھنڈا اور اچھا معلوم ہو رہا تھا۔ وہ بہت اکتاہٹ کے ساتھ کنارے کے مرمریں فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر بیٹھ گئی اور کہنیوں کے بل جھک کر پانی دیکھنے لگی۔ وہ خاموش رہا۔ پھر وہ یک لخت بولی۔ ’’یہاں پر بہت گرمی ہے۔ باہر چلیے۔ وہ گیلریاں اور چبوترے طے کرتے ہوئے باہر آ گئے۔ اور دریا میں اترنے والی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ سفید بے نور آنکھوں والی دو مرمریں عورتیں جو بڑے پراسرار اندازسے عمارت کی رکھوالی کرتی معلوم ہوتی تھیں، چاندنی میں بہت خوب صورت نظر آ رہی تھیں۔ دریا کا پانی سرد تھا۔ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔

اس نے پوچھا ’’لیلیٰ تمہیں ان لوگوں کی یہ غیر ذمہ دارانہ باتیں ناگوار تو نہیں معلوم ہوتیں۔‘‘

’’ناگوار۔ ان گدھوں کی باتیں۔ قطعی نہیں۔‘‘ پھر اس نے آہستہ آہستہ کہا:’’ فراخ دلی۔ فراخ دلی کہیں نہیں ہے، سب بڑے ہی تنگ نظر ہیں۔ سب کے بہت ہی گھٹیا خیالات ہیں۔ لیکن دوسروں کو الزام کیوں دیجئے۔ ہم توازن قائم نہیں رکھ سکتے۔ محبت کرتے ہیں تو بے تحاشا کرتے ہیں نفرت کرتے ہیں تو بے تحاشا کرتے ہیں۔ آزادی اختیار کر لیتے ہیں تو بے تحاشا آزاد ہو جاتے ہیں۔ آزاد نہیں ہوتے تو بالکل نہیں ہوتے اور صدیوں پرانی باتوں کو بیٹھے پیٹے جاتے ہیں۔ کیسی ٹریجڈی ہے۔‘‘

’’لیلیٰ۔ تم کتنی قرینے کی، سمجھ داری کی باتیں کرتی ہو۔ اور پھر بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کی طرح رونے لگتی ہو۔‘‘

’’مثلاً …؟‘‘

’’مثلاً جب تم سے عباس کے بڑے بھائی سے شادی کے لیے کہا گیا تو سنا ہے تم خوب پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔‘‘

’’ ہٹیئے…!‘‘

’’ہٹیئے کیا۔ یہ سچ نہیں ہے؟ ‘‘

’’بالکل سچ ہے۔‘‘

پھر وہ چپ ہو گئی۔ ندّی ان کے قدموں کے نیچے بڑے سکون سے بہہ رہی تھی۔ دور موتی محل برج پر سے کبھی کبھی کوئی موٹر پانی میں اپنی سرخ روشنیوں کا عکس پھینکتی ہوئی گزر جاتی تھی۔ پیچھے کلب کے ہال میں کوئی خوب صورت سا موسیقی کا ٹکڑا بار بار دہرایا جا رہا تھا۔

’’ہم سب کی اپنی اپنی کمزوریاں ہیں۔ لیکن ہم سب خوب ہی پوز کرتے ہیں۔ بڑی کامیابی اور خوب صورتی سے دوسروں کو عمر بھر فریب اور دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں۔ کسی میں اخلاقی جرأت نہیں۔ توازن نہیں۔ ایک دوسرے پراعتماد نہیں۔‘‘

’’لیکن لیلیٰ مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں بن سکتا۔ ایک بار تم ہی نے کہا تھا۔‘‘

’’ہاں مگر مکمل نظر آنے کا پوز کاہے کے لیے کیا جاتا ہے؟‘‘

’’ہاں ____ واقعی____ ‘‘

پھر اس نے یک لخت سوال کیا۔ ’’لیلیٰ کیا تم نے کبھی آج تک کسی قسم کا پوز نہیں کیا۔ کسی طرح کا خوب صورت دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔ تم جو اپنے پولشڈ الفاظ کے ذریعہ دوسرے کو اپنی جگہ پر انتہائی احمق محسوس کرنے اور اریبین نائیٹس، ایسے خواب دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہو۔‘‘

وہ تھوڑی دیر خاموش رہی پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’افوہ سلیم بھائی۔‘‘ اس نے کہا ’’غالباً آپ متوقع ہوں گے کہ آپ کی ان سب باتوں کے جواب میں میں آنکھوں میں آنسو بھر کے بتاؤں گی کہ مجھے اپنی اس فریب آلود زندگی سے سخت نفرت ہے اور مجبوراً مجھے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ پر یہ قطعی غلط ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھے یہ سب چیزیں بے حد پسند ہیں۔ میں اپنی اس زندگی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ شاید آپ کو یہ کچھ کلوپیٹرا قسم کی بات معلوم ہو۔ یا جو کچھ بھی ہو۔ لیکن میں ایک حد تک اپنے آپ سے خاصی مطمئن ہوں۔ کیونکہ میں نے مکمل انسان بن جانے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھ میں کمزوریاں ہیں۔ کمزوریاں جن کی بدولت ہم اپنے آپ کو احمق محسوس کرتے ہیں۔ اپنا مذاق اڑواتے ہیں۔ دنیا کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ لیکن کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘

پھر وہ خاموش ہو گئی۔ رات کا سناٹا گہرا ہوتا گیا۔

تھوڑی دیر بعد راج کماری کرواہا نے پیچھے سے اسے آواز دی اور وہ ان سیڑھیوں پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح اخلاق سے اسے شب بخیر کہا اور اپنی ۱۹۳۹ء کے موڈل کی سبز فورڈ میں بیٹھ کر چلی گئی۔

بہت دن گذر گئے۔

اور اس وقت اس نے اس خوب صورت سفید ریشمی فیتے والے شادی کے دعوت نامے کو کئی بار الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اس کے ایک کونے میں انگریزی میں لکھا تھا ’’ضرور آنے کی کوشش کیجئے گا۔‘‘ اس کی کنپٹیاں پھر جل اٹھیں۔ اس کا سر چکراگیا۔ اس کا خوب صورت اور آرام دہ چھوٹاسا ڈرائنگ روم، اندر کے کمرے میں تخت پر مشین سے کپڑے سیتی ہوئی عطیہ، نیچے سڑک پر چلتے ہوئے لوگ، سب تیزی سے گھومنے لگے۔ اس کی بچی قالین پر لکڑی کے رنگین ٹکڑوں سے کھیل رہی تھی۔ گھاٹن گیلری کے فرش کو رگڑنے میں مصروف تھی۔ آیا طوطے کے پنجرے میں پانی ڈال رہی تھی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ وہ خاموشی سے زینہ طے کر کے نیچے اپنے گیرج کی طرف گیا۔ اس نے کار نکالی، ڈرائیور کو ساتھ بٹھایا اور وکٹوریہ ٹرمنس پہنچ گیا۔ راستے میں اس نے سوچا کہ اسے کیا تحفہ لے جانا چاہئے۔ لیکن کوئی تحفہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے طے کیا کہ وہ ایک چیک لکھ دے گا۔ اسٹیشن پر بہت سارے چپراسی اور ڈرائیور موٹریں لیے ہوئے مہمانوں کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ سڑک پر کئی فرلانگ تک سرخ فرش بچھایا گیا تھا۔ جگہ جگہ اونچے اونچے پھاٹک بنائے گئے تھے۔ کوٹھی کے احاطے میں مہمانوں کے لیے خیمے لگ رہے تھے۔ سامنے کے بڑے لان پر بہت بڑا سرخ شامیانہ کھڑا تھاجس کی زرنگار چھت میں برقی قمقمے روشن کیے جا رہے تھے۔ چاروں طرف لاؤڈ اسپیکر شور مچا رہے تھے اور مولسری کے نیچے ایک خیمے میں مائیکروفون پر نظمیں پڑھی جا رہی تھیں، ریکارڈ بجائے جا رہے تھے، اور طرح طرح کے دل چسپ اعلان ہو رہے تھے۔ وہاں گہما گہمی تھی اور تیز روشنی تھی۔ اور جگمگاہٹ تھی، رنگ برنگی موٹروں کی اور چمک دار ساڑیوں اور غراروں کی اور ہیروں کے زیورات کی۔ اور اس تیز روشنی میں چاندی کے برتن جھلملا رہے تھے اور سفید براق کپڑوں والے بیرے ہاتھوں میں کشتیاں اور پلیٹیں اٹھائے ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ اور یہ ساری جگمگاہٹ، یہ سارا بکھیڑا، یہ سارا ہنگامہ اسے گھومتا، چکر کھاتا معلوم ہوا۔ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ شامیانے کے کنارے ایک صوفے پر بیٹھ گیا اور ریکارڈ چیختے رہے، اور شور ہوا کیا۔ اور پولیس بینڈ بجتا رہا اور پھر شور میں زیادتی ہوئی اور گورنمنٹ ہاؤس کی سیاہ، طویل، شان دار کار جس کے سامنے انجن کے اوپر سرخ روشنی جل رہی تھی، آہستہ آہستہ پھاٹک کے اندر داخل ہوئی۔ سارا مجمع ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ صوبے کا انگریز گورنر مع میم صاحب کے شامیانے میں داخل ہوا۔ کوک ٹیل سرو کیے گئے۔ تھوڑی دیر وسطی نشست پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے نئے جوڑے کے پاس جا کر مبارکباد دی اور اس سیاہ کار میں سوار ہو کر واپس چلے گئے۔ سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ سب کی جان میں جان آئی۔ پھر باتیں شروع ہوئیں۔ پھر شور مچا۔ اور پھر وہ چنبیلی، موتیا اور جوہی کے گجروں سے ڈھکی ہوئی پیکارڈ میں بیٹھ کر چلی گئی اور یک لخت شامیانے میں ایسا سناٹا چھایا جیسے کوئی مرگیا ہو۔

اور تیسرے دن جب وہ بمبئی واپس جا رہا تھا تو اس نے نہایت شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ وہ بے حد، بے حد احمق ہے۔ بالکل ٹھیک۔ وہ بہت ہی بے وقوف ہے۔ چغد ترین انسان ہے۔

چنانچہ یہ قصہ بھی ختم ہوا۔ اس نے سوچا۔

اور پھر آج، اتنے عرصے بعد، وہ اسے ورسوا کے ایک خوب صورت لکڑی کے بنگلے کے سامنے ریت میں ایک سن شیڈ کے نیچے بیٹھی نظر آئی۔’’ارے لیلیٰ تم یہاں کب آئیں ؟‘‘

’’کافی دن ہوئے۔‘‘ وہ بے پروائی سے میز پر اپنی چمپئی مخروطی انگلیوں سے گت توڑا بجاتی رہی۔

’’اور عباس کا بھائی کہاں ہے؟‘‘

’’پتہ نہیں۔‘‘ اس نے اسی لاپروائی سے جواب دیا۔ تو گویا وہ سب باتیں۔ وہ ساری افواہیں بالکل سچ تھیں۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کا دل ڈوبا جا رہا ہے۔ اس نے آہستہ آہستہ کہا۔ ’’ لیلیٰ تم مجھے اپنا مخلص اور ہمدرد دوست سمجھتی ہو؟‘‘

’’ایسا نہ سمجھنے کی کوئی وجہ تو نہیں۔‘‘

’’تو میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ عطیہ تم سے مل کر بہت خوش ہو گی۔‘‘

’’آپ کی اس دعوت کا بہت بہت شکریہ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میں یہاں پر بالکل ٹھیک ہو۔‘‘

’’تم یہاں کب تک رہو گی؟‘‘

’’پتہ نہیں۔‘‘

’’تو میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔؟‘‘

’’میرا خیال ہے کہ نہیں۔‘‘

اتنے میں بنگلے کی برساتی کی طرف سے ایک اسمارٹ، شان دار قسم کا نوجوان بڑے اسٹائل سے ہونٹوں میں پائپ دبائے ادھر آتا نظر آیا۔ اور وہ اسے بڑے اخلاق سے خدا حافظ کہہ کر اپنے ساتھی کا اس سے تعارف کرائے بغیر ایک دوسرے سن شیڈ کی طرف چلی گئی جس کے سائے میں بہت سی شان دار قسم کی خواتین ہلکے ہلکے قہقہے لگا رہی تھیں اور جہاں چائے کا دور چل رہا تھا۔

عورتیں __عورتیں کیا واقعی ایسی ہوتی ہیں۔ اس شام چکراتے ہوئے سر اور جلتی ہوئی کنپٹیوں کے ساتھ میرین ڈرائیو کے اپنے خوب صورت اور آرام دہ فلیٹ پر واپس پہنچ کر اس نے بالکل غیر ارادی طور پر عطیہؔ کو ایک لحظے کے لیے غور سے دیکھا۔ وہ بڑے سکون سے تخت پر بیٹھی کھٹاکھٹ مشین چلا رہی تھی۔ وہ اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ ’’عطیہؔ__‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا۔ عطیہؔ نے خاموشی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔‘‘ کیا بات ہے آپ نے اب تک چائے نہیں پی؟ پھر آپ کلب کس وقت جائیے گا۔‘‘ اور دوسرے لمحے تخت پر سے اٹھ کر چائے منگوانے کے لیے باورچی خانے کی گیلری کی طرف چلی گئی۔

باہر سناٹا تھا اور میرین ڈرائیو پر روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ اور دور سمندر کی موجیں مدھم سا شورکر رہی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

جب طوفان گذر چکا

 

 

تو کبوتر آسمانوں سے نیچے اترا۔ اور اس کی چونچ میں زیتون کی ایک سبز ڈالی تھی اور اس ڈالی کو دیکھ کر وہ سب زمین کی اس وادی میں پہنچے اور خداوند خدا کی بزرگی کا نشان قائم کرنے کے لیے آس پاس کی پہاڑیوں کے نیلے بھورے پتھر جمع کر کے انہوں نے ایک عبادت گاہ بنائی۔ اور اس میں وہ آسمانوں کے بادشاہ کی حمد کرنے لگے جس نے انہیں طوفان سے بچایا۔ اور تب خداوند اسرائیل کے خدا کا جلال زیادہ ہوا اور کائنات نور سے معمور ہو گئی اور وادی میں رنگ برنگے پھول کھل گئے۔ اور خانقاہ کے چاروں طرف انگور کی بیلیں اور زیتون اور انجیر کے درخت اُگ آئے۔

اور یوں ہوا کہ اس خانقاہ میں از ابلا رہتی تھی۔ جو لوریٹو کی مریم کی کنواریوں میں سے ایک تھی۔ اس کے بالوں کی لٹیں سرخی مائل سنہری اور اس کی آنکھیں نیلی اور بچوں کی طرح بڑی بڑی تھیں۔ اور اس کی پیشانی پر فرشتوں کا تقدس جھلکتا تھا اور ازابلا خانقاہ کی سب سے زیادہ خوب صورت، سب سے زیادہ خوش آواز اور سب سے زیادہ نیک لڑکی تھی۔ جب وہ صبح کی سروس کے وقت موم بتیوں کی دھندلی روشنی میں کوائر کے ساتھ ’’ ہیل میری فل آف گریس‘‘ گاتی تھی تو قربان گاہ کے پیچھے محرابوں کے اندھیرے میں فرشتوں کے پروں کی سرسراہٹ سنائی دینے لگتی تھی اور ازابلا خانقاہ کے مدرسے کی سب سے زیادہ ذہین اور سب سے زیادہ ہردلعزیز طالب علم تھی۔ وہ ہمیشہ اچھی اچھی باتیں سوچتی تھی اور اچھی کتابیں پڑھتی تھی اور اچھی فلم دیکھتی تھی____ ایک قدم جنت میں ’’اور برنادیت کا نغمہ‘‘ اور ’’ بادشاہت کی کنجیاں ‘‘ اور اس طرح کے سارے فلم اس نے دیکھ رکھے تھے۔ اور جب ازابلا خانقاہ کی دوسری کنواریوں کے ساتھ لوریٹو کی مریم کی مقدس راہبات کی نگرانی میں وادی کے خوب صورت سایہ دار راستوں پر سے گزرتی ہوئی کیتھڈرل یا وادی کی طرف جاتی تو راہ گیر ایک دوسرے سے سرگوشی میں کہتے آج بھگتن کے اسکول کی بابا لوگ ٹہلنے جا رہی ہیں یا کالا اسکول آج سنیما جا رہا ہے۔

اور اس سرسبز وادی میں رہنے والی ازابلا کی خانقاہ کالا اسکول اس لیے نہیں کہلاتی تھی کہ اس میں کالا لوگ پڑھتے تھے بلکہ اس لیے کہ اس کی راہبات کا لباس سیاہ اور اس کی لڑکیوں کے فراک سیاہی مائل نیلے ہوتے تھے اور اس خانقاہ کا خدا خاص الخاص گورے لوگوں کا خدا تھا اور کالوں کی روحانی اصلاح اور تربیت کے لیے خانقاہ کے باغ کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا چیپل الگ سے بنا دیا گیا تھا کیوں کہ طوفان کے بعد ہی خداوند مسٹر نوح کے خدا کے کالے کالے بچوں کے لیے کشتی میں چند نشستیں علاحدہ ریزور کر دی گئی تھیں اور خداوند خدا کے یہ کالے کالے بچے گورے بچوں کے خانے میں کسی طرح داخل نہ ہوسکتے تھے۔

اور یوں ہوتاکہ مقدس مریم کی سیاہ پوش راہبات خانقاہ کی لمبی سفید کار میں جب باہر نکلتی تھیں تو کار کی کھڑکیوں پر کریب ڈی شین کے نیلے پردے کھینچ دیئے جاتے تھے۔ کیوں کہ وہ ناپاک دنیا کی خرافات کے نظاروں سے اپنی پاک اور معصوم نگاہوں کو ملوث نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اور یوں ہوتا کہ یسوع کے سیدھے راستے پر چلنے والی ایک اچھی کیتھولک کی طرح ازابلا بھی خانقاہ کی دنیا سے باہر اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھیں ہمیشہ نیچی رکھتی۔ اور جب نومبر اور دسمبر کے برفانی مہینوں کا کہرا وادی پر چھا جاتا تو ازابلا دوسری لڑکیوں کے ساتھ خانقاہ کے بڑے ہال میں آتش دان کے قریب بیٹھ کر الجبرا کے سوال حل کرتی اور وادی کے غرب بچوں کے لیے اونی چیزیں تیار کرتی۔ اور جب باہر برف گر رہی ہوتی اور دیودار کے درختوں کی ساری ٹہنیاں اور خوبانی اور آلوچے کے سارے پیڑ نرم نرم سفیدبرف سے لد جاتے تو وہ سب بڑے بڑے دریچوں والے موسیقی کے کلاس روم کے لکڑی کے فرش پر جمع ہو کر اپنے پسندیدہ رقص کرتیں اور پیانو پر رکھے ہوئے چاندی کے اونچے شمع دانوں کی روشنی میں کنواری مریم کی تقدیس کے گیت گاتیں اور فرصت کے لمحوں میں ازابلا اپنی رفیق کے ساتھ دریچے کی نشست پر بیٹھ کر میڈونا کی تصویریں بناتی اور اسی طرح کی دوسری اچھی اچھی باتیں کرتی۔

پراکثر ازابلا کو بہت دکھ ہوتا کہ اس کی عزیز ترین دوست کا جی ایسی اچھی اچھی باتوں میں نہیں لگتا۔ وہ خانقاہ بھر میں اس کی سب سے پیاری سہیلی تھی اور وہ اس کے ساتھ پڑھتی تھی اور روز میری میں ان کے برف جیسے سفید پلنگ بھی پاس پاس تھے اور اس کا نام راحیل تھا۔

اور یوں ہوتا کہ راحیل بائبل ہسٹری کے سبق کبھی یاد نہ کرتی اور __ (Maculate conception…..) کی تھیوری سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے مطالعے کے گھنٹے میں وہ اپنے چچا زاد بھائی عمران کو لمبے لمبے دل چسپ خط لکھا کرتی جو اس برفانی وادی سے بہت دور پہاڑوں کے اس پار ان سبز میدانوں میں رہتا تھا۔ جن میں سے پگھلی ہوئی چاندی جیسے کئی دریا بل کھاتے ہوئے گذر کے مشرقی سمندروں میں جاگرتے تھے۔ اور راحیل کی کتابوں میں مریم اور اس کے الوہی بیٹے اور مقدس خاندان اور مشرق کے تینوں عقل مند بادشاہوں کی رنگین تصویروں کے ساتھ عمران کی تصویریں بھی رکھی رہتیں۔ بلکہ عمران کی تصویروں کی تعداد زیادہ تھی۔

اور ازابلا کو یہ سب جان کر بڑا دکھ ہوتا۔ رات کو جب دعائے شب کے بعد خانقاہ کی روشنیاں بجھا دی جاتیں اور مدر اینجیلا ڈور مٹری کا چکر لگا کر اپنے حجرے کی طرف چلی جاتیں تو ازابلا اپنے چھوٹے سے سفید بستر کے پاس دو زانو جھک کر زیر لب سوتے وقت کی دعا دہراتی: ’’ مقدس مریم، خداوند کی ماں ہم گنہگاروں کے لیے دعا کیجئے‘‘ اور پلیز میری راحیل کے لیے بھی دعا کیجئے۔ ‘‘ پھر وہ سوجاتی اور سوتے میں اسے لگتا جیسے اس کے پلنگ کے آس پاس خوب تیز روشنی ہو رہی ہے اور ورجن میری نے راحیل کو معاف کر دیا ہے کیوں کہ اس نے عمران کو خط لکھنا چھوڑ دیا ہے اور اس کی ساری تصویریں آتش دان میں پھینک دی ہیں۔

اور سردیوں کی ایسی راتوں میں جب برفانی ہوائیں خانقاہ کے دریچوں سے ٹکرا کر شور مچاتی تھیں ازابلا کو اپنی پر سکون نیند میں بڑی اچھی اچھی سنہری دھوپ کا سماں دکھائی دیتا تھا پر پھیلائے ہوئے فوارے کے چاروں طرف سفید خوشبودار پھولوں کے انبار ہی انبار اور رو پہلے پروں والے فرشتوں کے بازوؤں میں آسمان کی بلندیوں کی طرف اٹھتی ہوئی مقدس کنواریاں۔ اور دور دراز کی صحرائی اور کوہستانی خانقاہوں میں رہنے والے اور بانسریوں پر الوہی نغمے چھیڑتے ہوئے خوب صورت راہب اور اسی طرح کی اور بہت سی چیزیں جو راحیل کو ہرگز نظر نہ آسکتی تھیں۔

اور ایک بار ایسا ہوا کہ بہار کی ایک خوش گوار سہ پہر جب کہ خانقاہ کی فضا پر ایک مطمئن اور بشاش سکوت چھایا ہوا تھا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کچھ راہبات باغ کی کیاریوں میں کام کر رہی تھیں، باورچی خانے میں یسوع کے دوبارہ زندہ ہو جانے کی عید کے لیے انڈے رنگے جا رہے تھے اور کلاسوں میں خاموشی سے پڑھائی ہو رہی تھی۔ یکایک سیب اور بادام کے جھنڈ میں چھپے ہوئے عبادت خانے کا گھنٹہ زور زور سے بجنے لگا اور سب کے دل ایک لحظے کے لیے ڈوب سے گئے اور بخشش کی دعائیں لبوں پر لرز اٹھیں کیوں کہ یہ گھنٹہ اتنے زور زور سے اور بے وقت تب ہی بجایا جاتا تھا جب خانقاہ کے کسی باسی کی روح دنیا کے پل کو عبور کر کے ابدی خلائے بے کراں میں جاسماتی تھی اور سب اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر قطار در قطار خاموشی سے عبادت خانے کی طرف جانے لگے۔ کیوں کہ سسٹر ایڈونا کو جو ایک عرصے سے سخت ترین جسمانی تکالیف انتہائی صبر و سکون سے برداشت کر رہی تھی مریم نے اپنے پاس آسمانوں پر بلا لیا تھا۔ راہبات کے چہروں پر مسرت جھلک رہی تھی۔ وہ کتنی خوش قسمت تھی کہ اتنی جلدی اس کم عمری میں مریم کے پاس پہنچ گئی اور جتنی راہبات اور لڑکیاں ایڈونا کے آخری وقت میں اس کے پاس موجود تھیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اس کا نیلے پتھروں والا حجرہ ایک لحظے کے لیے آسمانی نور سے جگمگا اٹھا تھا اور اس نے اس نور میں مریم کا جگمگاتا چہرہ دیکھ کر ہوا میں اپنے بازو پھیلا دیئے تھے۔ کتنی قابل رشک موت تھی اور جب اس کے جنازے کے جلوس کے آگے اونچی اونچی شمع دانیں لیے مقدس باپ ناشپاتی اور سیب کے جھنڈ کے سایوں میں کھو گئے اور جب چیپل میں اس کی موت کا ماس ختم ہو گیا اور سب باری باری قربان گاہ کے کالے پردے کو چوم کر نیچے اتر آئے تو راحیل سب سے آخر میں شاہ بلوط کا بھاری سفید روغنی دروازہ آہستہ سے بند کر کے عبادت خانے کی پچھلی سیڑھیوں پر آ کر بیٹھ گئی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کے قریب ہی ایک پتھر پر ازابلا دعا کی کتاب بند کر کے خاموشی سے بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی اور پھر اس نے راحیل سے کہا مت روؤ راحیلہ، ایڈونا سویٹ جینرس کے بازوؤں میں پہنچ چکی ہے لیکن راحیل کی سمجھ میں یہ قطعی نہیں آیا وہ کہتی رہی ایڈونا کیوں مر گئی، کیوں مر گئی اور ازابلا لرز اٹھی۔ راحیلہ ایسی کفر کی باتیں کیوں سوچتی ہے پھر اسے یاد آیا کہ وہ یسوع کے گلے میں شامل نہیں ہے اور بپتسمہ کی نعمت سے محروم رہی ہے۔ اسی لیے راحیل پھر چلا اٹھی۔ کہاں ہے تمہارا سویٹ جینرس۔ اور ازابلا نے جلدی سے صلیب کا نشان بنا لیا اور سوچنے لگی کہ اسے خدا سے کوئی شکایت نہیں، وہ اپنی دنیا اور اپنی زندگی سے بے حد مطمئن ہے اور پھر اس نے خداوند کی بے شمار رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کے لیے اس کا شکریہ اداکیا۔

اور دن اسی طرح گزرتے رہے۔ ایسٹر کے بعد موسم گرما کی ہوائیں چلنے لگتیں اور راحیلہ اور خانقاہ کے بورڈنگ کی بہت سی لڑکیاں اپنے گھروں کو چلی جاتیں اور بارشوں کا زمانہ آنے پر خانقاہ مدرسہ دوبارہ کھلتا۔ پھر پت جھڑ کے مہینے آتے اور سردیوں کی آمد کے ساتھ ساتھ کرسمس کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔ فضا میں کرسمس کے نغمے گونجنے لگتے اور خاموش اندھیری راتوں میں الاؤ کے گرد بیٹھ کر پر انی اور محبوب حمدیں گائی جاتیں __ سائیلنٹ نائٹ، ہولی نائٹ ہولی نائٹ، ہولی مدراینڈ دی چائیلڈ اور سٹار آف ونڈر اسٹار آف لائٹ __ والے گیت اور بیت اللحم کا ستارہ اسی تابانی سے جھلملاتا جیسے اس رات بیت الحم کے اس اصطبل پر جھلملایا کرتا تھا جہاں خداوند خدا کے اکلوتے بیٹے نے بھو سے کے ڈھیر پر جنم لیا تھا۔ پھر کرسمس کا شان دار پیجنیٹ ہوتا اور اس کے بعد سال نوکی ضیافت مریم اور سینٹ پال اور سینٹ فلورا اور ساری مقدس روحوں کے تہواروں کی خوشیاں منائی جاتیں اور پھر اسی سیدھے راستے پر سے گزرنے کے لیے زندگی کا ایک اور سال شروع ہو جاتا اور ازابلا انتہائی اشتیاق سے اس وقت کی منتظر تھی جب تعلیم ختم کرنے کے بعد اسے ’’ ہماری لوریٹوکی لیڈی‘‘ کے آرڈر میں باقاعدہ داخل کر لیا جائے گا۔ اور اس کی سرخی مائل سنہری لٹوں کو مونڈ کر اس کا سر سفید چھجے والے سیاہ ہڈ میں اور اس کی پیشانی سفید پٹی میں چھپا دی جائے گی اور جب وہ ایک ملکوتی وقار کے ساتھ اپنی کمر سے نقرئی صلیب کی زنجیر لٹکائے اپنا سیاہ لبادہ سرسراتی خانقاہ کے برآمدوں اور غلام گردشوں میں سے گزرا کرے گی تو راحیلہ کے بچے اپنے ساتھیوں کو فخریہ بتائیں گے کہ ان کی ممی نے سسٹر ازابلا کے ساتھ پڑھا تھا۔ پھر ایک مبارک وقت ایسا آئے گا جب اس کی دنیاوی زندگی کے دن خداوند کی مرضی کے مطابق پورے ہو جائیں گے اور اسے اوپر اٹھا لیا جائے گا اور اسے باغ کی سایہ دار روشوں پر سے اسی طرح لے جائیں گے جیسے ایڈونا کو لے گئے تھے اور اس کے سیاہ تابوت کے ساتھ بہت سی شمعیں ہوں گی جس طرح کور پس کرسٹی کے تہوار کے جلوس میں سب کے ہاتھوں میں ایک ایک اونچی سی شمع ہوتی ہے۔

اور ازابلا یہ سب سوچ سوچ کر بے حد خوش ہوا کرتی اور اسکول کے پہلے گھنٹے میں دینیات کے وقت قریب بیٹھی ہوئی راحیلہ کو چپکے چپکے ساری ضروری باتیں یاد کرا دیتی۔ پیدائش کا بیان اور رومیوں کا خط اور داؤد کے نغمے اور یوحنا اور لوقا کے باب تاکہ اگر مدر سپریر پڑھاتے پڑھاتے کوئی سوال کر بیٹھیں تو راحیلہ کو سٹپٹانا نہ پڑے۔ اور وہ پڑھتیں۔ اور خدا کی روح سمندر کی سطح پر منڈلا رہی تھی اور یہ چھٹا گھنٹہ تھا اور یسوع نے کہا خداوند خدا میرے باپ کا جلال زیادہ ہو اور وہ زیتون اور انجیر اور شراب اس کے سامنے لائے اور یہ اٹھارواں گھنٹہ تھا اور اس نے تھوڑی تھوڑی مچھلیاں سب کو دیں۔ اور یوں ہوا کہ وہ مچھلیاں اتنی ہی رہیں اور خداوند خدا نے ایک کبوتر آسمان سے کنواری مریم کے پاس بھیجا اور یوں ہوا کہ وہ روح القدس سے بھر گئی__ اور یوں ہوا__

اور پھر یوں ہوا کہ ایک شام راحیل کی اٹھارویں سالگرہ کی ضیافت کے موقع پر جب اس نے دیکھا کہ راحیل عمران کے علاوہ اور بہت سے نوجوانوں سے بھی اسی طرح ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے، جو باتیں اسے صرف عمران سے ہی کرنی چاہیں تھیں تو اسے یہ بات اس قدر خوف ناک طور پر نامناسب معلوم ہوئی کہ اس نے چاہا کہ چپکے سے فوراً صلیب کا نشان بنا لے لیکن وہ ایسا نہ کرسکی کیوں کہ دوسرے لمحے ایک شان دار اور خوب صورت نوجوان جو کافی دیر سے پیانو کے قریب کھڑا اپنی سیاہ آنکھوں کے تبسم کے ذریعے ایوان رقص میں موجود ساری خواتین کے نازک اور معصوم دلوں پر سینکڑوں بجلیاں گرا رہا تھا اس کے پاس آ گیا اور رومال سے پیشانی پونچھ کر بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے کہنے لگا: کہ آج کی شام کس قدر گرم ہے اور ازابلا نے جو کہ اپنی خوش خلقی کے لیے مشہور تھی، اس کی رائے سے اتفاق ظاہر کیا۔ اور پھر جب آرکیسٹرا کے سازوں پر زور زور سے چوٹیں پڑنا شروع ہوئیں تو راحیل اپنے مہمانوں کو فردا فرداً محظوظ کرتی ہوئی ان کی طرف بھی آئی اور اس نوجوان کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتی ہوئی فلور پر لے گئی۔ جہاں وہ رقص کرنے والوں کے مجمع میں کھو گیا اور پھرایسا ہوا کہ دوسرا ناچ شروع ہونے سے قبل کے وقفہ میں راحیلہ نے ازابلا کا اس سیاہ متبسم آنکھوں والے نوجوان سے تعارف کرایا۔ چنانچہ یوں ہوا کہ اس نے ازابلا سے درخواست کی اگلے اسپینش والز میں وہ اس کے ساتھ ناچے اور رقص کے بعد اس نے دوبارہ گرمی کی زیادتی کی شکایت کی اور پھر وہ ہال سے باہر آ کر نیچے باغ میں اتر گئے۔ اور وہ فوارے کے قریب ستاروں کے نیچے بہت دیر تک بے حد دل چسپ باتیں کرتا رہا۔ اور اس نے بتایا کہ وہ کون کون سے ملکوں میں گھوم چکا ہے اور کیا کیا چیزیں دیکھ رکھی ہیں، پھر اس نے ازابلا سے پوچھا کہ اس نے کون سے نئے فلم دیکھے ہیں اور کیا کیا کتابیں پڑھی ہیں اور اسے فرانسیسی، لاطینی اور جرمن کے علاوہ اور کون کون سی زبانیں آتی ہیں اور اسی طرح کی بہت سی باتیں اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اسے جرمن موسیقی سے عشق ہے اور زرد گلاب کے پھولوں سے اور دھوپ کی رنگت والے سرخی مائل نارنجی بالوں اور نیلی آنکھوں سے، اور اس وقت ہوا گرم تھی اور اس میں زرد گلاب کے شگوفوں کی خوشبوئیں ملی ہوئی تھیں اور راحیلہ کے خوب صورت باغ کے کنارے پل کے نیچے کوہستانی ندی مدھم سا شور کرتی بہہ رہی تھی اور جگمگاتی ہوئی دنیا ان کے چاروں طرف دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور پہاڑی راستوں پر چرواہے بانسریاں بجاتے ہوئے گذر رہے تھے۔اور ایوان رقص میں اس کی طرح کے اور بہت سے شان دار اور سیاہ لباسوں والے آدمی خوب صورت عورتوں سے اسی قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ اور چاندی کے برتنوں پر برقی فانوسوں اور تیزی سے گھومتے ہوئے سفید برقی پنکھوں کا عکس جھلملا رہا تھا۔

اور دوسری جگمگاتی ہوئی روشن صبح ازابلا دوسرے مہمانوں کے ساتھ راحیلہ کی خوب صورت جھنڈ کی سیر کر کے واپس آ رہی تھی تو اس نے دیکھا کہ باغ کے سرے پر ندی کے پل کے پاس پچھلی رات کا ساتھی چند اور آدمیوں کے ساتھ کھڑا گھوڑوں پر زین کسوا رہا ہے اور جب وہ ان کے قریب سے گزری تو وہ تعظیماً اپنی ٹوپی اتار کر مسکرا دیا اور پھر اپنے دوستوں کی طرف مڑ کر ان سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔

اور پھر دوسری شام آئی اور راحیل کے گھر پر طعام شب کے بعد اسے اچانک یاد آیا کہ یہ سینٹ فرانسس کے تہوار کی رات ہے اور اس نے گھبرا کر اپنے چاروں طرف دیکھا اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ اس مقدس رات کے احترام کی پرواہ کسی کو نہیں۔ سب لوگ کھیل کود میں بے طرح مصروف تھے۔

اور تب ایسا ہوا کہ اس رات اس نے نیندوں کی بستی میں پہنچ کر دیکھا کہ راحیلہ کے مہمان خانے کی خوب صورت نیل گوں خواب گاہ میں خوب تیز روشنی ہو رہی ہے اور فصا میں فرشتوں کے نغمے لرزاں ہیں اور پھر اسے ایک بے حد خوب صورت اور شان دار آدمی نظر آیا جس نے گہرے عنابی رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اور اس کی ٹوپی میں ایک لمبا سا نیلا پر لہرا رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں چاندی کی بانسری تھی اور ازابلا صلیب کا نشان بنا کر فوراً دو زانو جھک گئی۔ ’’سینٹ فرانسس‘‘ ___اس نے خوشی سے بھرپور آواز میں آہستہ سے کہا اور اس شخص نے اپنی بانسری کو جنبش دے کر بے حد شیریں اور بے حد گہری آواز میں جیسے کہیں دور ڈینیوب کے پانیوں پر چاندنی رات میں گٹار بجایا جا رہا ہو، اسی آہستگی سے جواب دیا: ’’ میں سینٹ فرانسس قطعی نہیں ہوں ‘‘۔ اور پھر وہ ایک قہقہہ لگا کر غائب ہو گیا اور روشنی بجھ گئی اور فضاؤں کے راگ بند ہو گئے۔ اور ازابلا اسی طرح دو زانو بیٹھی رہ گئی اور یک لخت اس نے محسوس کیا کہ نیندوں کی بستی کی ساری شمعیں ماند پڑتی جا رہی ہیں اور پھر خواب گاہ کے خوب صورت نیلے ایرانی قالین پر سے اسے بازوؤں کی مضبوط گرفت میں کسی نے اوپر اٹھا لیا اور دریچے سے باہر چاندنی رات کی ہوائیں چلنا بند ہو گئیں اور فضا میں گرمی بڑھ گئی۔

اور یوں ہوا کہ ایک کبوتر مریم کے پاس آیا اور یوں ہوا کہ وہ روح القدس سے بھر گئی۔

٭٭٭

 

 

 

سر را ہے

 

 

موسم گرما کے چاند کی کرنیں دور دور تک سفیداور بھوری چٹانوں پر بکھر گئی تھیں۔ اور ہواؤں میں رات کے پھولوں کی تیز مہک اڑ رہی تھی۔ اور دیواروں کے پرے ہوٹل کونٹی نینٹل میں شومین کا ’’ کارینول ‘‘ بج رہا تھا۔ اور چنار کے درختوں کے نیچے رسپنا کا نقرئی پانی نیلگوں سنگریزوں پر سے آہستہ آہستہ شور کرتا ہوا گزر رہا تھا اور اس وقت پرانی کشتیوں کے پل پر چلتے چلتے دفعتاً رک کر اس نے کہا ’’ تمہارے خیال میں کیا یہ ایسی مکمل رات نہیں جس میں خود کشی کر لی جائے۔‘‘

پھر وہ خاموش ہو گئی اور وہ سوچ رہی تھی کہ وہ خوب ہنسے گا۔ کتنا عجیب خیال ہے۔ وہ جو نارنجی بالوں اور گہری سبز آنکھوں والی ایک گڑیا تھی جو ہنس اینڈ رسن کی کہانیوں میں سے نکل کر دنیا میں آ گئی تھی۔ اور رانی راپزل اور روز ریڈ کی طرح اس نے صنوبروں کے جنگل میں پلم کیک کا ایک گڑیا گھر بنایا تھا جس میں صرف چوکولیٹ کریم سے بنے ہوئے لوگ رہ سکتے تھے۔ بالکل جیسے ’’ ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ والے خرگوش کا چھوٹا سا سفید گھر تھا اور اس کے دریچے میں ایک گلابی چونچ والا کا کا توا بیٹھا اپنے پروں سے اپنی چونچ صاف کرتا رہتا تھا۔ اور اس گھر کی سرخ چھت پر ایک بڑی سی سفید ایرانی بلی بھی بیٹھی رہتی تھی۔ یہ سب اس نے خود ہی سوچ رکھا تھا۔ ظاہر ہے اور ہنس اینڈر سن کی کہانیوں والی سوتی جاگتی گڑیاں عجیب باتیں ہرگز نہیں سوچ سکتیں۔ وہ صرف اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپکا کر ’’ ممی ممی ‘‘ کہہ سکتی ہیں۔

اور اس لیے یہ سب سن کر دنیا کے چھوٹے چھوٹے انسانوں نے اپنی اپنی ناکیں اوپر اٹھالیں۔

اور میں زرین تاج جو، ان چھوٹے چھوٹے انسانوں میں سے ایک ہوں میں نے بھی اپنی چھوٹی سی ناک اوپر اٹھا لی۔

اور اس سے کہنا شروع کیا ’’اسے کہ تم صرف ایک چینی کی بڑی سی نہایت احمق گڑیا ہو‘‘___ لیکن وہ خاموش رہی___’’ ہوٹل کو نیٹینٹیل کی موسیقی بھی دور اپنے سروں پر ٹھہر گئی اور فضا پر ایسا سکوت طاری ہو گیا جیسا آندھی آنے سے پہلے ہوتا ہے۔

اور ایسا ہوا کہ ہم دونوں اپنے کمرے کے دریچے میں بیٹھے کچھ نہ کرنے میں مصروف رہے یعنی وہ اور میں۔ ہمارے باغ کے نشیب میں سیب کے شگوفوں کے نیچے چھوٹی چھوٹی پریاں رہتی ہیں۔ ایک دفعہ بارش کے بعد سفید برساتی مشروم جمع کرتے ہوئے میں نے اسے پریوں کا پتہ بتایا تھا۔ اس وقت دریچے میں بیٹھ کر کچھ نہ کرتے ہوئے شدت سے میرا جی چاہا کہ میں پریوں سے ملوں۔

’’ بڑی گڑ بڑ ہے بھئی۔‘‘ بے حد اکتا کر اس نے دفعتاً کہا۔

’’ ہاں بڑی گڑ بڑ ہے پریاں کہیں نہیں ملتیں ‘‘ میں نے کہا۔

’’ سخت انتشار کا عالم ‘‘ اس نے دوبارہ کہا۔

’’ بہت سخت انتشار کا عالم‘‘ میں نے دوبارہ جواب دیا۔

’’ سکون مفقود ‘‘ اس نے رائے ظاہر کی۔

’’قطعی مفقود‘‘ میں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔

’’ تمہیں وہ خود رو سفید پھول یاد ہیں۔‘‘

’’ خود رو سفید کیا؟‘‘

’’ میں اپنے ساتھ سفید جنگلی پھول لے کر تمہارے پاس آؤں گا۔ اور ان پھولوں کی پنکھڑیاں بہار کی گرم شام کے نقرئی جھونکوں سے گھبرا کر نہ گر سکیں گی۔

کیوں کہ ہمارے خوابوں کی طرح ہیں۔ جو ان جانی ہواؤں کے ساتھ بھٹکتے پھریں۔ اندھیرے کے سایوں میں چھپی ہوئی تمہاری سیاہ آنکھوں کو دیکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔

ان کی گہرائیوں میں کہیں حقیقت نظر نہ آ جائے۔

لیکن میرے سفید خود رو پھولوں کو یاد رکھنا۔

رات گزرنے کے بعد تم جاگ اٹھو گی۔

’’ لیکن یہ خود رو کلیاں خوابوں کے اندھیارے میں ہمیشہ جگمگاتی رہیں گی۔‘‘

اور فضا پر مکمل سکوت چھا گیا۔ اور پیانو پر رکھے ہوئے جاپانی واز کا اکیلا سفید پھول اپنے ڈنٹھل سے الگ ہو کر نیچے پیانو کے پردوں پر گر پڑا۔ پردہ اتنا چھوٹا اور اتنا ہلکا تھا کہ اس کے گرنے سے پردوں میں سے ذرا سی آواز بھی پیدا نہ ہوئی۔

’’ پر ایسا کبھی ہو نہیں سکتا‘‘ اس نے کہا۔

اور پھر یہ ہوا کہ بڑے زور کی آندھی اٹھی۔ اور آگ جیسا سرخ چاند اندھیرے میں پہاڑیوں کی سیاہ چوٹیوں سے ٹکرا گیا۔ اور طوفان کے بہاؤ میں پھولوں کے سارے ہرے پودے جھک گئے اور نئے درختوں کی ساری پتلی ٹہنیاں ٹوٹ ٹوٹ کر روشوں پر گر پڑیں اور اس نے سب دریچے بند کر دیئے اور پھر وہ اپنے آپ سے اور بھی زیادہ اکتا کر فان میر کی اس تصویر کی طرف غور سے دیکھنے لگی جو میں یعنی زریں تاج نے روغنی رنگوں میں پینٹ کر کے موسیقی کے ٹرنٹی کالج کا امتحان پاس کرنے پر اسے تحفے میں دی تھی۔ اور اسے ندی پار کے صنوبروں کے جنگل والے چوکولیٹ کے مکان کا خیال آیا (کچھ یوں جیسے سڑک کی دوسری طرف خوبانیوں اور لیچیوں کے جھنڈ کے پیچھے ریاست رام پور کے صاحبزادہ سعید الظفر خان کی ایلزیبتھن وضع کی دو منزلہ کوٹھی ہے) جس کی دیواروں پر آیوئی چمٹی ہوئی تھی اور جس کے ایک دریچے میں گلابی چونچ والا کاکا توا بیٹھا تھا اور جب جھکڑ کا زور کم ہوا اور سرخ چاند مدھم پڑ کے نیلگوں پہاڑوں کے پیچھے چھپ گیا۔ اور صبح کا دھند لکا وادی کے راستوں پر بکھرنے لگا تو شور مچاتے ہوئے پہاڑی نالے کے پرے جیزس اینڈ میریز کے اداس سرمئی رنگت والے عبادت خانے میں سے شکرانے کی نماز کے گھنٹوں کی آواز بلند ہوئی کہ خداوند ہمارے خدا نے ہمیں ایک اور طوفان سے بچا لیا۔

اور جب صبح کے آفتاب کی روشن کرنیں دریچے میں سے اندر داخل ہوئیں اور میری چھوٹی سی ناک کی کافی خوب صورت نوک سردی سے محفوظ ہو گئی، تو ابا میاں کے لیے انڈے کا پوچ تیار کرتے کرتے میری نظریں فان میر کے اس شاہکار پر پڑ گئیں جسے میں نے ووڈ اسٹاک میں اور یجنل سے ری پروڈیوس کیا تھا۔

’’اللہ بھئی کیوں اتنی گڑ بڑ ہے‘‘ گڑیا مار ملیڈ بھی کھاتی جا رہی تھی۔

’’ ہم‘‘ صنوبروں کے جھنڈ اور شومین کے نغمے مجھے یاد آ گئے۔

’’ رات اتنی بڑی آندھی آئی تھی‘‘ گڈو نے بتایا۔

پھر گڑیا شفتالو اور چیری کے پھولوں والی اپنی جاپانی چھتری اٹھا کر پہاڑی نالے کے اس پار اپنی موسیقی کی کلاس لینے چلی گئی۔

اور بگولے کی سی تیزی کے ساتھ پنٹو واپس آیا جو سیب کے شگوفوں تلے بسنے والے چھوٹے چھوٹے معصوم انسانوں میں سے ایک تھا۔

’’ گڑیا کہاں ہے؟ ‘‘ اس نے چاروں طرف دیکھ کر پوچھا اور پھر اس نے آہستہ سے کہا کہ ’’’ اب اس کا دماغ ٹھیک ہے نا؟ ‘‘

میں زریں تاج چپ چاپ پوچ تیار کرتی رہی۔

تو پھر میں ممی سے کہہ دوں نا؟ اور پنٹو جواب کا انتظار کیے بغیر بگولے کی سی تیز رفتاری سے غائب ہو گیا۔

پیانو پر جاپانی واز کے قریب رکھی ہوئی تصویر کی ڈچ لڑکی، اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھیں جھپکتی رہ گئی۔

اور پھر ابا میاں کو پوچ کھلا دینے کے بعد گلابی آنکھوں والے اپنے سفید خرگوشوں کو دیکھنے کے لیے باہر آئی۔

پنٹو جھکی ہوئی خوبانیوں کے نیچے ایک نیلے پتھر پر بیٹھا ہاتھوں پر ٹھوڑی رکھے سخت غور و فکر میں مصروف تھا اور ’’ عبد اللہ‘‘ پی رہا تھا۔ مجھے خرگوشوں کی طرف جاتے دیکھ کر اس نے نہایت بے فکری سے سیٹی بجانی شروع کر دی ٹارا لارا ٹارا لارا…

اور اس وقت وہ اتنا ہی معصوم اور شریر نظر آیا جتنا معصوم اور شریر وہ اپنے اسکول کے دنوں میں لگا کرتا تھا۔ اور سینٹ جار جزرائل اکیڈمی سے چھٹیوں میں گھر آ کر شور مچاتا تھا۔

’’ گڑیا اسکول چلی گئی؟ ‘‘ اس نے دوسرا سگرٹ جلایا۔

’’ پتہ نہیں … ہنہ … ‘‘

’’ تم دونوں بلیاں آج پھر لڑی ہو؟ ‘‘

’’ جناب میں بلی ہرگز نہیں ہوں۔ تم خود ہو اس قدر کے لڑاکا بلے‘‘

’’ فوہ‘‘

’’ بلکہ لڑاکا مرغے‘‘

’’ فوہ… فوہ… ‘‘

’’ یا اللہ تو فرخندہ آپا کو آج ہی پہلے ’’ گیٹ سے ‘‘ بھیج دے۔‘‘

’’ ہم ___عرض یہ ہے کہ پہلے ’’ گیٹ‘‘ سے انور آ رہا ہے۔‘‘

’’ ایں ؟ ‘‘

’’ ہم ‘‘

پھر پنٹو اس پتھر پر سے اٹھ کر اپنی نیلی اسپورٹس کار صاف کروانے کے لیے سیٹی بجاتا اور سگریٹ پیتا ہوا گیرج کی طرف چلا گیا۔ اور روش کی اودی اور سفید اور سرمئی بجری پر اس کے بوٹوں کی رگڑ سے دیر تک شور ہوا کیا اور سردی کے مارے اس کو بڑے زوروں کا زکام ہو گیا تھا۔

اور اپنا صبح کا ناشتہ ختم کرنے کے بعد میرے سارے خرگوش جھاڑیوں میں بھاگ گئے۔ اور مالیوں نے رات کی آندھی سے باغ کے پامال شدہ حصوں کی صفائی شروع کر دی۔ بدلتے موسم میں آندھیاں بالکل اچانک اور بڑے زور شور سے آتی ہیں۔

پھر کپٹن انور اور فرخندہ آپا آئیں۔ اور فرخندہ آپا کے پاس ایک نہایت خلیق میزبان کی حیثیت سے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ان کو البم دکھایا گیا۔ تاکہ سہ پہر کی چائے سے لے کر شام کے کھانے تک کے وقفے کی بوریت میں کچھ کمی پیدا کی جا سکے۔اور نپٹو کپٹن انور کی جائے قیام پر راجپور گیا ہوا تھا اور پہاڑی نالے کے پرے کانونٹ کے پرانے میوزک روم میں بے کار لڑکیوں کے ساتھ ای فلیٹ میجر اور اے مائیز پر سر کھپانے کے بعد واپس آ کر گڑیا انتہائی اکتاہٹ سے آم کی آئس کریم بنانے میں مشغول تھی اور دنیا بے حد فضول اور غیر دل چسپ جگہ معلوم ہو رہی تھی۔

کہ فرخندہ آپا البم کے ایک صفحے پر رک گئیں۔

…؟

’’ فرخندہ آپا، یہ گڑیا کا بھائی ہے بے چارہ‘‘

…؟

’’جی گڑیا، یعنی نادر کا بڑا بھائی‘‘ ’’ او… لیکن نادر کا تو…‘‘

’’ جی ہاں فرخندہ آپا در اصل گڑیا کی دو ممی ہیں، اور دو ابا میاں ہیں اور ایک بھائی ہے یعنی نپٹو‘‘

’’ ایں ؟‘‘

’’ ہم۔ گڑیا کی ممی تو اس کی اپنی ممی ہیں اور خالہ بیگم نے اس کو متبنی بنا کر رکھا ہے اور خالہ بیگم نپٹو کی ممی ہیں اتنے طویل رشتے سمجھاتے سمجھاتے میں فوراً اور بھی زیادہ بور ہو گئی‘‘

اور گڑیا بے تعلقی سے پنٹری کے دروازے میں بیٹھی ایک حماقت زدہ ککری بک پڑھ رہی تھی۔

پھر خالہ بیگم نے پچھلے برآمدے میں سے نماز کے تخت پر سے سلام پھیر کر اترتے ہوئے آواز دی: تم سب لڑکیاں آج شام کو گھر پر نہ رہو اور جاؤ باورچی خانہ صاف کرو۔

اور گڑیا کا جی مرنے کو نہیں چاہا کیوں کہ ایسے موقعوں پر مرنے کی خواہش بے حد عام اور بے وقعت چیز ہے اور میں زریں تاج جو زندگی کے متعلق ایک نہایت صحت مند نظریہ رکھتی ہوں، میں نے اس وقت بوریت کو کم کرنے کے لیے اس سے اپنی خاص فرنچ یا فارسی شروع کرنی چاہی لیکن وہ فوراً پینڑی کی الماری میں سے ایک اور ککری بک نکال لائی اور باورچی خانے کے پچھلے باغ میں کھلنے والے نیچے دریچے میں بیٹھ کر ایک اطالوی یا جاپانی یا شاید ترکستانی پڈنگ کی ترکیب پر غور کرنے میں مصروف ہو گئی۔ پھر اسی وقت اپنے قبیلے کی ایک اور فرد، فرحت کا فون آیا جسے صبح پتہ چل گیا تھا کہ بے حد اہم مہمان آ رہت ہیں۔

’’ پتنگ آ گئی۔ کیا نام ہے ان کا ؟ ‘‘

’’ ہاں بھئی آ گئی۔ تمہارے منہ میں شکر گھی اور ٹافی‘‘

’’ کون آ گئی؟ ‘‘ خالہ بیگم نے پچھلے برآمدے سے دریافت کیا اور اس لیے اپنی فارسی شروع کی گئی۔

بلے ونام اوں مرد مومن خپتون دکتور انور است… ‘‘ فارسی کے دریا اور بہائے جاتے لیکن ڈرائنگ روم نہ ٹھیک کرنے کے سلسلے میں خالہ بیگم کی تیسری ڈانٹ سنائی دی۔

اور ریسور رکھا ہی تھا کہ دوبارہ گھنٹی بجی۔ خیال ہوا کہ بے چاری فرحت بات ختم کرنی چاہتی ہے۔ فارسی کی رو میں بغیر اچھی طرح سنے جلدی جلدی جواب دیئے گئے۔

’’ عارف صاحب تشریف رکھتے ہیں۔‘‘

’’ بلے ؟‘‘

’’ ہلو۔ عارف صاحب ہلو‘‘

’’ نمی دانم‘‘

’’جی‘‘

’’ من نمی دانم کہ اوں …‘‘ وقفہ

’’ ہلو… ‘‘ پھر دوسرے سرے پر قطعی طور پر جھنجھلاہٹ کے ساتھ ریسیور رکھ دیا گیا۔

پھر شام کو ڈاکٹر انور کے آنے سے ذرا پہلے پنٹو نے آ کر کہا: ارے بھئی دوپہر انور نے راج پور سے فون کیا تھا، یہاں سے کوئی جواب ہی نہیں ملا۔ نہ جانے کس زبان میں بات کی جا رہی تھی۔ اس نے سوچا۔ شاید اس نے غلط نمبر ڈائل کیا ہو گا۔ اور تقریباً ہارٹ فیل ہو گیا۔ اپنی ہونے والی منگیتر کی بہن صاحبہ کا کس قدر نفیس امپریشن پڑا ہو گا۔ فون پر کیا فارسی بولتی ہیں ‘‘

اور رات کے کھانے پر فرخندہ آپا پہلی بار پنٹو سے ملیں۔ فرخندہ آپ جو سلیکس پہنتی تھیں اور سرپر جارجٹ کے اسکارف کی ٹربن لپیٹتی تھیں۔ اور کسی آئی۔ سی۔ ایس کے لیے منتظر ہو بیٹھی تھیں۔

اور کھانے کے بعد برساتی سے لے کر پھاٹک تک کے راستے میں حسب ذیل مکالمہ شروع ہوا۔

’’ مسٹر عارف ڈویوڈ آنس ؟‘‘ (ڈانس کا الف ذرا کھینچ کر پڑھیئے)

’’ نو ‘‘

’’ اوہ آئی لوڈا نسنگ۔ اسپیشلی رمبا اینڈ ٹینگو‘‘

’’ مسٹر عارف ڈویو پلے ؟ ‘‘ (پلے کی یے کھینچنے)

’’ یس فرخندہ آپا‘‘

’’ ووٹ ؟ ‘‘ انتہائی شگفتگی سے سوال ہوا۔

’’ کرکٹ پنٹو نے مستعدی سے کہا۔‘‘

’’ اوہ، آئی مین اینی انسسٹرو مینٹس لائیک، وائیلن اور پیانو۔ آئی لوپیا نو (لو کے ل پر خوب زور دیجئے)

… خاموشی____

’’مسٹر عارف‘‘

(چھینکیں )… ‘‘ ار… فرخندہ آپا مجھے بڑا سخت زکام ہو رہا ہے۔ کہیں آپ کو نہ لگ جائے‘‘

’’ اوہ نو … ‘‘

اور زیادہ چھینکیں …

اور سڑک پر پہنچ کر پنٹو، انور کے ساتھ اپنی نیلی اسپوٹس کار میں بگولے کی سی تیزی سے بھاگا۔

پھر منگنی کے آفیشیل اناؤنس منٹ کے لیے ہوٹل کو نٹی نینٹل میں ڈنر دیا گیا۔ جہاں ڈاکٹر انور سے اچھی طرح باتیں کرنے کا موقع ملا۔ جو ایک بہت اچھا انسان تھا۔ سلجھے ہوئے خیالات، بے حد پر مذاق اور انتہائی ذہین بالکل جیسا پنٹو کے ایک دوست کو ہونا چاہئے تھا۔

اور بالکونی کے قریب بچھی ہوئی طویل سفید میز پر تیز سرخ گلاب کے پھولوں کے ڈھیر کی دوسری طرف گڑیا بے حد اخلاق سے انور سے باتیں کرتی رہی۔ بالکونی سے باہر دیودار اور صنوبروں کے پرے افق کی نیلگوں لکیر پر مسوری کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔

اور رات کے آخری لمحوں تک وہ سوچتی رہی۔ ندی کے پار کے پلم کیک والے مکان کے نقرئی شمع دان شاید اب بھی روشن ہوں۔ مگر صنوبروں پر سے سرسراتا ہوا ایک خنک اور تیز جھونکا آیا۔ اور ایوان طعام کے دریچوں کے پٹ زور سے بند ہو گئے۔

فرحت نے مبارک باد کا گیت ختم کرنے کے بعد پیانو پر زور سے انگلیاں ٹپکیں۔ اور سارا مجمع میزوں پر سے کھڑا ہو گیا۔ رقص، لکڑی کے چھوٹے چھوٹے رنگین گھوڑوں کی ریس اور دوسرے خوب شور مچانے والے کھیلوں کے لیے گروہ بننے شروع ہوئے اور پنٹو فرداً فرداًسارے مہمانوں کو تفریحات میں حصہ لینے کے لیے بلاتا ہوا کیپٹن انور کے ساتھی مسٹر کاظمی کی طرف آیا۔ جو ابا میاں کو پنجاب کی یونینسٹ گورنمنٹ کی پالیسی کے نکات سمجھانے پر مصر تھے اور فرخندہ آپا کو دیکھتے جاتے تھے۔

’’ آپ رقص فرمائیں گے؟ ‘‘ نپٹو نے پوچھا۔

’’ لاحول ولا۔ مسلمان پر لہو و لعب حرام ہے۔‘‘

’’ ار… اچھا، توآپ یہیں بیٹھے رہیں گے۔ کسی کھیل میں بھی شریک نہ ہوئیے گا۔‘‘

’’ ذی ہوش آدمیوں کا بچوں کی طرح لکڑی کے گھوڑوں اور کاغذی ٹوپیوں میں دل چسپی لینا سخت مضحکہ خیز حرکت ہے۔‘‘

ڈنر کی رات کے اختتام پر جب اس نے گھر واپس آ کر پیانو پر رکھے ہوئے نقرئی شمع دان کی مدھم روشنی میں سونے کے لیے اپنی گہری سبز آنکھیں بند کیں تو جھلملاتی شمعوں کے دھندلے سائے اس کے چاروں طرف پھیل گئے۔ جیسے ایک بار خوابوں کے ساحلوں سے اس نے، اس دوسرے انسان نے آہستہ سے پکارا تھا۔

آسمان کا زرنگار فرش اگر میرے پاس ہوتا۔ سیاہ اور نیلگوں رات کی نقرئی اور سنہری روشنیوں اور جھلملاتے دھندلکوں کا فرش، تو میں اسے تمہارے قدموں کے نیچے بچھا دیتا۔

لیکن میں غریب ہوں اور میرے پاس صرف خواب ہیں۔

اور میں نے اپنے خواب تمہارے راستے میں بچھا دیئے ہیں۔

آہستہ آہستہ قدم رکھو۔

کیوں کہ تم میرے خوابوں پر سے گزر رہی ہو۔

دور، صنوبروں کے پرے، ہوٹل کونٹی نینٹل کی گیلری میں وہ دو ایک ہیٹ ریک کے سہارے کھڑے رات کا آخری سگریٹ ختم کر رہے تھے۔

تم اس سے واقعی شادی کر رہے ہو۔ وہ لڑکی جس کے ساتھ ایک ماضی ہے‘‘

مسٹر کاظمی نے اپنے سگریٹ کی راکھ جھٹکی۔

ہر مرد کے ساتھ اس کی شادی کے وقت اس کا ماضی نہیں ہوتا کیا؟

’’ ہوں ‘‘

’’ اور اس کا ماضی کیا تھا؟‘‘

’’ ذو الفقار‘‘

’’ انور اس کا مستقبل ہوسکتا ہے‘‘

پھر وہ دو گیلری کی نارنجی روشنی میں سے گزر کر مر مریں پورچ میں اتر گئے۔ جہاں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

رات کے سائے طویل ہو گئے۔

ندی کے اس پار خوابوں کے ساحل پر ذو الفقار کے بالکل اپالو جیسے ہونٹوں پر تبسم بکھر گیا۔ ’’ تمہارے خیال میں یہ ایسی مکمل رات نہیں جس میں خودکشی کر لی جائے‘‘؟

پھر وہ سوتی جاگتی گڑیا اپنے چھوٹے چھوٹے سفید ہاتھوں سے اپنی بچوں کی سی بڑی بڑی آنکھیں ملتے ہوئے جاگی۔ وہ سب سچ نہیں تھا۔ وہ سب سچ نہیں تھا! اس نے چپکے سے اپنے آپ کو بتایا۔ سفید خود رو جنگلی پھول اور سیب کے شگوفے اور شو مین کے نغمے۔

جب کہ میں زرین تاج نے اسے ان سب چیزوں کا یقین دلایا تھا۔ جب اپنی اور اس کی سال گرہ کی پارٹیوں پر سچ مچ کے چوکولیٹ کے چھوٹے چھوٹے قلعوں پر شمعیں روشن کی جاتی تھیں۔ جب دسمبر اور جنوری کے برفانی مہینوں میں ابا میاں کے ساتھ ضلعوں کے دور دراز کے گاؤں کے دورے پر جاتے ہوئے رات کو خیموں میں آگ کے قریب بیٹھ کر بڑی بڑی رنگین تصویروں والی ایڈونچرز کی کہانیوں کی کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ اور باہر ہوا کے سرد جھونکوں کے ساتھ ساتھ آم کے باغوں کے کناروں پر پڑاؤ کے نزدیک ٹھہرے ہوئے عملے اور سامان کی بیل گاڑیوں کی گھنٹیاں بجتی رہتی تھیں۔ جب دور ارہر کے کھیتوں کی منڈیروں پر الاؤ کے گرد آلہا، اودل اور برہاکی تانیں بلند ہوتی تھیں۔ اور ہرے سنگھاڑوں اور کنول کے پتوں سے چھپے ہوئے تالابوں کے کنارے کنارے ہاتھیوں، رنگ برنگی اور منقش پالکیوں، چوپہلوں اور رتھوں پر انتہائی شوق کے ساتھ سواری کی جاتی تھی۔ جب اسکول میں پہلی برفباری کے بعد اسنو مین بنایا جاتا تھا۔ اور رات کو مدر سپیرئر کے کمرے میں آتش دان پر قہوہ اور ٹافی تیار کی جاتی تھی۔ زندگی کا یہ چھوٹا سا طلسم بالکل ٹھیک تھا اور پریوں کی جرمن کہانیوں کی طرح بالکل سچ۔ اور جرمنی سے تعلق رکھنے والی ہر بات بے حد مزیدار تھی۔

رائن کے نقرئی پانی اور شاہ بلوط کے جنگل اور پھر جرمن نام۔ میونخ، وی آنا، موزارٹ، نٹشے، فاؤسٹ کی مار گریٹ، گوئٹے، پھر اقبال۔ اس کے الفاظ کا اتنا زبردست طلسم کہ جی چاہتا تھا بس مر جاؤ۔ مرد قلندراور شاہین قہستانی اور چراغ لالہ صحرا اور رومی و رازی اور بس جیسے بخارا، سمر قند، یا الحمراء یا قرطبہ کی قسم کا ایک شہر ہے جس کے چاروں طرف نقرئی صحرا اور سبز نخلستان پھیلے ہوئے ہیں۔ اور فصیل کے اس پار کاروانوں کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ اور دور عظیم الشان مسجدوں کے اونچے اونچے میناروں سے اذان کی لرزہ خیز آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اور ایسے بازار ہیں جن پر چھتیس پڑی ہیں۔ (جیسے کچھ کچھ بمبئی کا کرافرڈ مارکیٹ یا پشاور کا بازار قصہ خوانی جو نام سے بے حد الف لیلوی لگتا ہے) اور جن کے راستوں میں قالین بچھے ہیں۔ اور بے انتہا تیزی سے دوڑتے ہوئے شان دار عربی گھوڑوں پر سوار مرد مومن سرپٹ چلے آ رہت ہیں (جیسے ٹائرن پاور ’’ سوئیز‘‘ میں تھا) اور کچھ اس قسم کا رومان جو خالدہ ادیب خانم، جمال الدین افغانی اور نامق کمال کے ناموں سے وابستہ ہے۔ اور نامق کمال کے ڈرامے اور با تصویر ترکی اخباروں کے وہ پلندے جو انقرہ، قسطنطنیہ اور قاہرہ سے آیا کرتے تھے۔

اور پھر گڑیا نے اپنی لمبی لمبی پلکیں پوری طرح ایسے جھپکائیں۔ گویا اب وہ قطعی طور پر مشین گن چلانے جا رہی ہے۔ ’’سنا تم نے۔ میں نے اب فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘

’’ فیصلہ! آپ بھلا کیا فیصلہ کریں گی‘‘ مجھے بے حد ہنسی آئی۔

اور وہ بہت سخت خفا ہو گئی۔ اور خفا ہوتے وقت وہ محض اتنی بڑی اسکول کی لڑکی نظر آئی جس نے ابھی جونیئر کیمبرج نہ کیا ہو۔ نیلے رنگ کا ٹیونک پہنے اور سیدھے طریقے سے بالوں کی دو چوٹیاں ربن سے باندھنے والی باسکٹ بال کھیلنے اور ڈرامے اسٹیج کرنے کی شوقین، جو پہلی بار شا اور ویلز پڑھ کر سخت متحیر اور مرعوب ہو جائے، جو زندگی سے خائف ہو۔

’’ گڑیا آؤ۔ خرگوشوں کو صبح کا ناشتہ کرائیں ‘‘ میں نے اسے آواز دی۔

’’ ہنہ‘‘

’’ تو چلو پیانو بجائیں گے‘‘

’’ فوں ‘‘

’’ اچھا تو لو یہ اپنی ککری بک پڑھو‘‘

’’ فون فوہ‘‘

’’ در اصل قصہ یہ ہے گڑیا کہ تم کو زندگی سے صلح کر لینی چاہئے۔‘‘

’’ جی، آپ فراری ہیں بالکل ___شکست خوردہ___ذہنیت ہے آپ کی ‘‘ اس نے تقریباً چلا کر کہا۔

’’ واقعہ یہ ہے ‘‘ میں نے کھنکار کے بڑے عالمانہ انداز میں کہنا شروع کیا ’’ نادرہ بیگم آپ ابھی سخت امیچیور ہیں۔ اور ہرا میچیور دماغ پر اس عمر میں فلسفے کا دورہ پڑتا ہے۔

بس ایک آدھ سال کی بات اور ہے۔ جب تم بڑی ہو جاؤ گی اور یہ سب سوچ کر اپنا وقت خراب نہیں کیا کرو گی‘‘

وہ اور بھی خفا ہو گئی۔

اور پھر مجھے انور کا خیال آیا۔ جو خوابوں کے ساحل کے اسی طرف کھڑا تھا۔ اور خود رو سفیدجنگلی پھولوں والے ذو الفقار کا اور فرخندہ آپا اور پنٹو کا اور میں نے اس سے کہا:

’’ گڑیا۔ انور سے سنجیدگی کے ساتھ شادی کر لو۔ ذو الفقار تم تو جانتی ہو کیسا نالائق ہے۔ خرافات ہے بالکل۔ بلکہ اس کو دیکھ کر تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ابھی جانے کیا کر بیٹھے گا۔ الٹا لٹک جائے گا، یا کیا باؤلا سا‘‘

اور ذو الفقار مجھے پسند نہیں تھا۔ اس کی موجود گی یقین دلاتی تھی کہ آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اور وہ سب کچھ ہے۔ وہ سب کچھ جو آپ سوچ سکتی ہیں۔ بلکہ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ وہ ان سب چیزوں کے متعلق باتیں کرسکتا تھا جن کو آپ بالکل نہیں جانتیں۔ وہ جہاں کہیں بھی موجود ہوتا کمرے میں یا سڑک پر یا ٹینس کورٹ پر ایسا محسوس ہوتا کہ فضا اور ماحول میں اس کی وجہ سے ایک ٹھیک قسم کا ’’ ٹون‘‘ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کو دیکھ کر خیال آتا تھا کہ کمرہ خوب گرم اور روشن ہے۔ اور چاروں طرف ریشمی کشن بکھرے ہوئے ہیں اور لیمپ کے رنگین شیڈ مدھم مدھم روشنی بکھیر رہے ہیں۔ اور آگ پر قہوے کی بھاپ اٹھ رہی ہے۔ پنٹو اور انور چوکو لیٹ کریم ہیرو نہیں تھے۔ ذوالفقار چوکو لیٹ کریم ہیرو تھا۔ یعنی وہ کچھ ایسا تھا جیسے موسم گرما کی طویل دوپہر کی حدت۔ جب باغ میں شہد کی رنگین مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ اور وہ ایک اونچے سے مرمرین ستوں پر چڑھا بیٹھا تھا۔ اور نادرہ کی زندگی کے سائے اس ستون کے نیچے لرز رہے تھے۔

’’ دیو داسی کے ناچ کی طرح ہمیں چاکولیٹ کریم ہیرو نہیں چاہییں اور نہ دیواسی کے ناچ۔ اور اس نے اپنے تیار کیے نغمے سنائے تھے اور اپنی کتابیں دکھائی تھیں۔ وہ کیا پڑھتی ہے کیا سوچتی ہے کیا کرتی ہے اس کی زندگی ایسی کیوں ہے اور اس کا ماحول اور اس کے عزیز۔ اسے اپنی زندگی سے بہت سی شکایتیں تھیں۔ وہ سکون چاہتی تھی۔ لیکن کیا عجیب دنیا تھی۔ ہر طرف چیخ پکار اور مستقبل کی باتیں۔ خالہ بیگم اور ممی اور ان کے ملنے والیاں سب مل کر ہر وقت باتیں کرتیں۔ نوکر باتیں کرتے۔ پنٹو اور اس کے دوست شور مچاتے۔ زریں تاج جو دنیا کی ہر چیز میں اپنی ٹانگ اڑانے کی شوقین تھی اور اس کی انتہائی بکواس سہیلیاں بالکل بے تکی باتوں پر متواتر ہنستی رہتیں۔ یہ سب چیزیں زرین تاج کے نزدیک زندگی کی صحت مندی کی علامت تھیں۔ لیکن اس نے کہا: وہ ایسی پہلوانی زندگی نہیں چاہتی۔ وہ خزاں کی چاندنی کی ایسی خاموشی پسند کرتی ہے۔ پھر اس نے کہا ’’ میرا کالج جس کے عظیم الشان یونانی ستون اور نیویارک کے اسکائی اسکر یپر طرز کی طویل عمارتیں دیکھ کر تم کو بالکل پتہ نہیں چلے گا کہ تم ہندوستان میں ہو۔ جہاں تم چاروں طرف امریکن لہجے کی انگریزی سنو گے، جس کے مرمریں اور نیلگوں سوئمنگ پول کے کناروں پر تمہیں خیال آئے گا کہ شاید تم کیلی فورنیا کے ساحل پر کھڑے ہو۔ اور زرین تاج، جو تمہارا مذاق اڑائے گی، کیوں کہ اس کے خیال میں تم بھی بہت امیچیور ہو گے۔ وہ کسی چیز کو سنجیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتی۔ وہ تم کو بتائے گی کہ تم ایک pseudo دنیا میں رہتے ہو۔ وہ اپنے آپ کو ایک ’’ واقعہ‘‘ کہتی ہے۔ وہ تم کو نہیں سمجھ سکے گی۔ وہ مجھ کو بھی نہیں سمجھ سکتی اور پنٹو میرا بھائی۔ میں اس کو نہیں جانتی۔ ہم سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں اور اوپر سے ہم کتنا بنتے ہیں۔

یہ سب باتیں اس نے ذو الفقار سے کہی تھیں۔

پھر آندھیوں کا موسم ختم ہو گیا۔ اور پت جھڑ اور خزاں کی خشک ہواؤں کا۔

اور خاموشی سے برف گرنے لگی۔ جیسے کوئی دل ہی دل میں رو رہا ہو۔

اور پنٹو بنگلور واپس چلا گیا۔ اور میجر انور بھی۔

اور اپنے کمرے کے دریچے میں کچھ نہ کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ اگر ہم سب بیٹھے بیٹھے تحلیل ہو جائیں برف کی طرح، تو افوہ کتنا مزا آئے۔ ہم سب کے سب پنٹو اور انور اور میں یعنی زرین تاج اور گڑیا اور فرخندہ آپا جیسے اسکول میں دھوپ نکلنے کے بعد اسنومین پگھل جایا کرتے تھے۔

لیکن کوئی بھی نہیں پگھلا اور فرخندہ آپا اندر آئیں۔ جو نئی حکومت کے کسی نئے محکمے میں ایک نازک سا عہدہ سنبھال کر کہیں جانے والی تھیں۔ اور انہیں دیکھ کر وہ ساری باتیں یاد آ گئیں، اسپیشلی رمبا اینڈ ٹینگو اور ان کی ساری پتنگیں۔ ان کی وہ مسوری والی پتنگ کہاں ہے؟ فرحت نے چپکے سے پوچھا۔

’’ اور گڑیا کی پہلی والی پتنگ۔ وہ تو اڑ گئی‘‘ میں نے بتایا۔

اور فرخندہ آپا نے پوچھا ’’ زریں تاج! آج کل کیا کر رہی ہو۔‘‘

’’ فرخندہ آپا! میں نے فی الحال فلسفہ اور روحانیت سے رجوع کیا ہے‘‘ میں نے سوچ کر جواب دیا۔

’’ لیکن یہ پتنگوں وغیرہ کا تذکرہ جو تم کر رہی تھیں ؟ ‘‘ انہوں نے پوچھا۔ ’’ جی ہاں فرخندہ آپا۔ یہ جو مختلف انواع و اقسام کی رنگا رنگ پتنگیں آسمان پر اڑتی نظر آتی ہیں، بالکل میٹا فزیکل پتنگیں، فرخندہ آپا‘‘

اور پھر اسی رات ریڈیو پر خبر آئی کہ آئی سی ایس اور آئی پی ختم۔ بالکل اوس پڑ گئی۔ اب کیا ہو گا فرخندہ آپا۔ یاد آئے وہ دن جب کرسمس کے زمانے میں صاحب لوگ کے انداز میں ترائی کے جنگلوں میں کیمپ لگائے جاتے تھے۔ ایک خیمے میں بابا لوگ کی نرسری، ایک میں نشست، ایک میں طعام، ہاتھی اور شکار، ہائے کیا کیا زمانے تھے جو گزر گئے۔ قریب تھا کہ وہ رو پڑیں۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ نظروں کے سامنے پھر گیا۔ کیا کیا بہاریں تھیں۔ جوان آنکھوں نے دیکھ لیں۔ پر آپا اب تو صبر شکر کر کے قناعت سے بیٹھنا ہے۔ میرا جی چاہا کہ اس سانحے کے غم میں خوب اپنی فارسی بولوں۔

لیکن گڑیا خاموشی سے ککری بک پڑھتی رہی اور برف گر رہی تھی اور چوکولیٹ کے گڑیا گھر کے باہر دنیا کا انتشار بڑھتا جا رہا تھا۔ اور کاظمی صاحب نے ڈاکٹر انور کو رائے دی تھی کہ تعلق داری ختم کی جا رہی ہے۔ اب نادرہ بیگم سے شادی کرنے کا کیا فائدہ، جہیز میں وعدے کے مطابق ماسٹر بیوک نہیں مل سکے گی۔

اور پھر آخری روز ذو الفقار اس کے پاس آیا۔ وہ نئی حکومت کی طرف سے بھیجے جانے والے سفارت خانے کے ساتھ قاہرہ جا رہا تھا۔ اور اس نے افسوس ظاہر کیا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں جا سکتی۔ جیسا کہ پہلے انہوں نے پروگرام بنایا تھا۔ حالات کچھ ایسے ہی ہیں لیکن امید ہے کہ وہ اسے نہیں بھولے گی۔ اور وہ ہمیشہ بہترین دوست رہیں گے اور یہ بھی کہ اس کی بہترین خواہشیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں گی۔

اور برف زیادہ تیزی سے پرنے لگی اور گلابی چونچ والا کاکا توا سردی کی شدت کی وجہ سے گڑیا کے گھر کے دریچے میں بیٹھے بیٹھے مر گیا۔ اور پھر بہت تیزی سے بارش کا ایک ریلا آیا جیسے ساری دنیا کو بہا لے جائے گا۔

اور جب میجر انور نے کار اسٹارٹ کی تو وہ تھک کر پچھلی سیٹ کے کشنوں پر سوچکی تھی۔

اور پھر ایک نہایت بے انتہا، بہت ہی عجیب بات ہوئی۔ وہ یہ کہ جھکی ہوئی خوبانیوں کے نیچے ایک نیلے پتھر پر بیٹھ کر پنٹو پھر غور و فکر میں مصروف ہو گیا۔ پنٹو جو سارے فیشن ایبل مشغلوں میں دل چسپی لیتا۔ ٹھیک قسم کے خیالات سوچتا، سیب کے شگوفوں تلے بسنے والوں کی طرح خوش گوار باتیں کرتا اور ایک دم جانے کیا ہوا کہ قطعی اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کرے۔

اور ایک بار اس نے ذو الفقار سے پوچھا تھا ’’ تم یہ سب باتیں کیسے کر لیتے ہو؟‘‘ اور ذوالفقار نے کہا تھا ’’ بس ایسے ہی، ذرا تفریح آتی ہے‘‘

اور پنٹو کا جی چاہا کہ خوب تفریح کرے لیکن اب اسے کوئی تفریح موزوں نظر نہیں آئی اور وہ بہت جلد یہ سوچ کر پریشان ہو گیا کہ لوگ اتنی آسانی سے خوش کیسے ہولیتے ہیں۔ پنٹو جو لکڑی کے رنگین گھوڑوں کی ریس میں ’’ بکی‘‘ بن کر خوب شور مچاتا تھا اور جس کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ زن سے نکل جانے والی ایک سپر قسم کی اسپورٹس کا رمیں بیٹھ کر بگولے کی طرح اڑتا پھرے۔

اور جب گلابی آنکھوں والے میرے سفید خرگوش اپنا شام کا کھانا ختم کر کے ادھر ادھر جھاڑیوں میں بھاگ گئے تو میں اس کے قریب آئی اور وہ معصومیت اور شرارت کے ساتھ سیٹی بجا رہا تھا۔

اور اس سے قبل کہ میں زرین تاج اسے ایک چھوٹا سا، نفیس سا لیکچر پلاؤں اس نے تقریباً چلا کر کہا ’’ میں امیچیور نہیں ہوں ‘‘ میں قطعی امیچیور نہیں ہوں ‘‘ اور وہ نیلے پتھر پر سے اٹھ کر باغ کے نشیب کی طرف چلاگیا۔ جہاں سیب کے درخت کے نیچے چھوٹی چھوٹی پریاں رہتی تھیں۔

پھر شدت سے میرا جی چاہا کہ کاش یہاں پر صرف پریاں ہوتیں اور خرگوش اور گلابی چونچ والے کاکا توے۔

لیکن میں نے دیکھا کہ چاروں طرف دنیا کے راستوں کے کناروں پر صرف چھوٹے چھوٹے انسان بیٹھے سستا رہے تھے۔ اتنے بہت سارے پنٹو اور انور اور ذو الفقار اور پھر ایسے لوگ جو محض پروفیشنل طور پر انسان بن کر زندہ رہے تھے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی دل چسپیاں، خیالات، ہمدردیاں، فیصلے، رائیں، جن کی یہ ذرا ذرا سی ٹریجک شخصیتیں اور ہستیاں کائنات کے اس بہت بڑے جھمیلے میں تھوڑی سی بھی اہمیت نہیں رکھتیں۔ اتنے ڈھیروں کاظمی صاحب اتنی بے شمار فرخندہ آپائیں۔

اور پنٹو کہہ رہا تھا۔ آدم کے بیٹوں کو کیا ملتا ہے۔ خواہشیں، ان کے بدلے قناعت کی تلقین اور پھر شکر بجا لانے کا حکم اور برف بڑی آہستگی سے گر رہی تھی۔ جیسے کوئی چپکے چپکے، دل ہی دل میں روتا ہو۔

پھر برف باری کے بعد پہاڑی نالے کے پرے جنیز س اینڈ میریز کے گھنٹے بجنے شروع ہو گئے کہ خداوندہمارے خدا نے جس نے ہم سے اپنی آسمانی بادشاہت کا وعدہ کر رکھا ہے، ہمیں برف اور طوفان کی بجلیوں کی آگ اور دنیا کی دوسری مصیبتوں سے بچایا۔ اور میں زریں تاج جو زندگی کے متعلق ایک نہایت بشاش صحت مند نظریہ رکھتی ہوں، میں نے پنٹو سے کہا’’ کیا تم وہ ساری حمدیں بھول گئے۔ جو سینٹ جارجز کے لڑکوں کے ساتھ ماس میں دو زانو جھک کر گایا کرتے تھے۔ اور مولوی صاحب کا وہ ڈنڈا اور اہدنا الصراط المستقیم۔ صراط المستقیم پر چلو میرے بھائی۔

اور پھر ایسا ہوا کہ یکایک پنٹونے دوبارہ صراط المستقیم پر چلنا شروع کیا۔ اسے ہر چیز میں تفریح ’’ آنے‘‘ لگی۔ وہ اپنا طیارہ بعض مرتبہ اس قدر اونچا لے گیا کہ مرتے مرتے بچا۔ وہ رات رات بھر بال روم میں رقص کرتا رہا‘‘ اسپیشلی رمبا اینڈ ٹینگو‘‘ اس نے فرخندہ آپا سے شادی کر لی اور چار مہینے بعد انہیں طلاق دے دی۔ اس کی نیلی اسپورٹس کا ر ہر وقت سڑک پر رہنے لگی۔

دیوداروں کے پرے ہوٹل کونٹی نینٹل میں شومین کا ’’ کارنیول‘‘ پہلے سے زیادہ تیزی سے بجتا رہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

انت بھئے رت بسنت میرو

 

 

لکڑی کا چھوٹا سا سفید پھاٹک کھول کر ٹونی پنیزی کی کیاری میں کود آیا۔ چاروں اور پھول کھلے تھے۔ زمین میں ابھی پانی دیا گیا تھا۔ بھیگی ہوئی گھاس میں ٹونی کے چھوٹے چھوٹے فل بوٹ چمکنے لگے۔ چند کنکروں کو ادھر اُدھر ٹھوکر مار نے کے بعد اس نے فاتحانہ انداز سے ہرے رنگ کے پردوں والے مکان کی طرف دیکھا جو سڑک کی دوسری جانب ٹونی کے آمد کی مطلق کوئی پروا نہ کرتے ہوئے چپکا کھڑا تھا۔ ٹارا لارا ٹا لارا __ پھاٹک کے جنگلے پر چڑھ کر ٹونی زور سے چلایا۔ پینزی کے پھول ابھی سو رہے تھے۔ ایک قطار میں ہولی ہو کس کھڑے تھے۔ ان کے چوڑے پتوں پرسے پانی کی بوندیں گھاس میں گر جاتیں۔ درختوں کی ٹہنیوں میں سے دھوپ چھن رہی تھی۔ حوض کی ٹوٹی ہوئی مڈیر پر وہ اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اب یہاں وہ مزے سے رائے روجرز کی کہانی کا دوسرا حصہ پڑھے گا۔ جس میں اس نے سات ریڈ انڈین مارے۔

سامان اتار کر برآمدے میں رکھا جا رہا تھا۔ پھاٹک تک صندوق اور کریٹ بکھرے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے اس کا سرخ اسکوٹر ٹرک میں سے اتارا گیا تھا۔ ابو کے اسپینارڈ دوست اس کے کتے کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے تھے۔ ابو جو اس کے لیے اسکیٹس لائے تھے۔ انہیں پہن کر وہ اسکیموز کے ملک کی طرف سفر کرے گا۔ اور روکیز میں جا کر لون رینجر سے ملاقات کرے گا۔

’’ ای ہو__ ‘‘ ابو چلائے۔ برآمدے کی سیڑھیوں پر تینوں اسپینش دوستوں کے ساتھ بیٹھے وہ نہایت زور شور سے گا رہے تھے۔ ٹونی کو دیکھ کر انہوں نے زور سے ہوا میں ہاتھ ہلایا۔ ہرے پردوں والے مکان کی طرف بشاشت سے نظر ڈالی۔ جہاں اوپر سے برآمدے کی ریلنگ کے سہارے کوئی لڑکی دھوپ کے رخ بیٹھی نٹنگ کر رہی تھی۔ یہاں اس کی صورت صاف دکھائی نہ دیتی تھی۔ لیکن اس کے بال جو ہوا میں اڑ رہے تھے اتنی دور سے بہت اچھے معلوم ہوتے تھے۔

’’ ای ہو __ ٹونی۔ ویٹ از سم ڈیم __ واٹ __ ؟ ‘‘ ابو نے اسے مخاطب کر کے کہا۔ پھر وہ اور ان کے دوست کسی بات پر بے حد محظوظ ہوئے۔ غالباً‘‘ وہ لوگ راستے بھر جو مسخرے پن کی باتیں رہی تھیں ان کا تذکرہ تھا۔ ابو نے لائیٹر کو ٹھونک بجا کر ٹھیک کرنا شروع کر دیا تھا اور اپنے تینوں دوستوں کے ساتھ نہایت بشاشت سے جٹ طیاروں کے انجنوں پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ ٹونی نے بے حد سمجھ داری سے ان پر نظر ڈالی۔ ’’ بالکل ٹھیک ہے ابو اتنی پیاری دنیا میں تم کو ہم سب کواس سے بھی زیادہ خوش ہونا چاہئے۔ اگر تم چاہو تو تم بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رائے روجرزکا قصہ پڑھ سکتے ہو۔ لیکن تمہارے جوتوں کے بوجھ سے سارے پھول ٹوٹ جائیں گے۔‘‘ احتیاط سے اس نے پینزی کے پتوں کو چھوا۔

پر اسرار صندوق اب فرش پر ادھر ادھر گھسیٹے جا رہے تھے۔ کئی دن تک ابو بچوں کی سی خوشی کے ساتھ کمرے سجانے میں جٹے رہیں گے۔ پھر وہ ابو کے ساتھ مل کر پچھلے برآمدے میں اپنی ورک شاپ تیار کرے گا۔ ممی کا اس کی اور ابو کی اس علاحدہ دنیا سے کچھ زیادہ تعلق نہ تھا۔ ٹونی اور ابو۔ اس کو اپنی اہمیت کا شدت سے احساس ہوا۔ تصویروں والی کتاب اٹھا کے اور اپنا کوٹ بڑے آدمیوں کی طرح کندھے پر لٹکا کر بہت مدبرانہ انداز سے روش پر چلنا شروع کیا۔ ’’ میں تم سب کے محسوسات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔‘‘ برآمدے کی سیڑھیوں پر جمع ابو اور ان کے دوستوں کو یگانگت کے احساس کے ساتھ دیکھا اور روش پر چلتا رہا۔ ممی تیزی سے سامنے سے گذر گئیں۔ اس نے ان کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔

’’ ای ہو__ ‘‘ ابو نے پھر سیٹی بجائی۔ ان کے اسپینش دوست نے سامان میں سے گراموفون نکال کر لاپلوما بجانا شروع کر دیا۔

شور سن کر وہ ریلنگ پر جھک گئی۔ نیچے کا منظر جاڑوں کی مدھم دھوپ میں کھل کر پینزی کی کیاریوں تک پھیل گیا۔ سامنے کے مکان کے باغ میں چند سیاہ بالوں والے غیر ملکی اداس آواز میں پلوما کا نغمہ گا رہے تھے۔

جب کبھی کبوتری تمہارے دریچے میں آ کر بیٹھے تو اس کا خیال کرنا۔ کیوں کہ وہ میری طرح ہے۔

جب کبھی یہ نغمہ بجایا جائے تو میرا خیال کرنا کیوں کہ ہمیں یہ نغمہ پسند تھا۔ گذرتے ہوئے وقت کے گہرے تیز رنگ سارے میں پھیلتے چلے گئے۔ سامنے کا منظر دھوپ کی زرد سطح میں روشن ہو گیا۔

اس منظر میں ایک پرانا مانوس چہرہ تھا۔ خوش باش لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے۔ جانے پہچانے آدمی ہیں۔ کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے ______

ان آدمیوں نے ٹوپیاں گھاس پر پھینک کر خالی کریٹ پر چائے کا سامان نکال کر رکھا۔ بلو جینز پہنے ایک عورت نے ہنستے ہوئے ان کے لیے ٹوکرا گھسیٹا۔ دو کالے بالوں والے غیر ملکی پلوما کا گیت الاپتے رہے۔

لیکن سنو سنو لا پلوما بجانے والو۔ تم جو ساری دنیا میں تاروں پر اور پردوں پر یہ راگ بجاتے ہو۔ تمہاری آوازیں گونجتی ہیں۔ لوگ اداسی سے ناچتے ہیں۔ معصومیت اور رنجیدگی کے ساتھ ان الفاظ کو دہراتے ہیں۔ لیکن پھر کچھ نہیں ہوتا۔ ٹونی______ ؟ ٹونی ادھر آؤ تمہارا اولٹین تیار ہے‘‘۔ نیچے کوئی کہہ رہا ہے۔

’’ ٹونی __ ؟ پیارے شریر آنکھوں والے بچے۔ میں نے ابھی تمہاری آواز سنی ہے۔ تم پنیزی کے پھولوں میں چہکتے پھر رہے ہو اور نیلے لباس والی تمہاری ماں ‘‘۔

اور اب دفعتاً ذہن پر ایک مکمل تاریکی چھا گئی۔ منظر کی روشنی اور گاتے ہوئے وقت کے رنگ اس تاریکی میں ڈوب گئے۔ میں یقیناً جاگ رہی ہوں۔ اور یہ شام کا سمے ہے۔ میں نٹنگ کر رہی ہوں۔ مجھے قطعی ساری روشنیاں نظر آ رہی ہیں۔ یہ میرا گھر ہے۔ اس کے سامنے باغ ہے۔ اس کے پرے ایک اور گھر ہے۔ اب رات چھانے والی ہے۔ بارن کے جنگلوں پر بیٹھ کر وہ گٹار بجاتے ہیں۔ وادی میں لالٹین کی روشنی اور چیڑھ کے پتوں کے دھوئیں میں تاریخ کے نظریوں پر بحث ہوتی ہے۔ اب کے جو کرسمس آئی تو انہوں نے مسلسل چھ دفعہ لاپلوما بجوا کر سارے مجمع کو مستقل اسی پر ناچتے رہنے پر مجبور کر دیا۔ کٹی بے حد ہنستی تھی۔ تم لوگ صریحاً کریک ہو۔

اور دن رات مہا بھارت __ جی نہیں جناب والا آج ہم صبح سے متواتر نہایت صلح و آشتی اور مفاہمت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مثلاً ابھی میں اس کے رومال پر استری کر کے آ رہی ہوں۔

اور اس پر گرا دیا اپنا کیوٹکس __ تم ہو کس لائق __ ؟ بیٹھی اترا رہی ہیں، وہ دھاڑتا ہے۔

ماموں میاں کے ملنے والے بہت سارے بین الاقوامی شہرت کے انتہائی قابل اور سنجیدہ لوگ بیٹھے نہایت بقراطی سے سگار پی رہے ہیں۔ وہ فون کرنے کی خاطر کھڑکی میں سے اندر کودی۔

یہ کیا آفت مچا رکھی ہے۔ ہر وقت ہو حق __ ماموں میاں نے چونک کر کہا۔

ماموں میاں جیر لڈین سالرز کے چہیتے میک سالزر نے کل انتقال کیا ان کی وجہ سے ذرا اظہار افسوس کر رہے تھے۔

ایں __ جیر لڈین سالرز کے چہیتے میک__ کیا عمر تھی بے چارے کی۔ ماموں میاں نے عینک پیشانی پر چڑھا کر افسوس کے ساتھ سوال کیا۔

آٹھ سال کے تھے غریب اور نہایت ذہین ______

ماموں میاں نے ہڑ بڑا کر فون اٹھایا۔ جیر لڈین سالرز کالج کی امریکن پرنسپل تھیں۔ آپ کے پیارے بیٹے کے انتقال کی خبر سن کر سخت صدمہ ہوا۔ انہوں نے کہنا شروع کیا۔ وہ سرپٹ باہر بھاگی۔ گیلری میں سے وہ آ رہا تھا۔

’’ کہاں بھاگی۔ جاتی ہو______‘‘

’’ ہک سالرز __ انہوں نے کل جان شیریں، جان آفرین کے سپرد کی__؟

__ خاصا شریف کتا تھا غریب، گو چور تھا۔

’’ ہرگز چور نہیں تھا۔‘‘ اس نے لڑنا شروع کیا۔

’’ چور۔ اور جو گیٹ کریشنگ کرتا تھا مرحوم۔ کہیں چائے ہوئی آ گئے۔ اب کھڑے دم ہلا رہے ہیں۔ بہر حال اگر اس وقت تمہارے کالج کی کوئی خوب صورت لڑکیاں بھی مس سالرز کے وہاں موجود ہوں تو میں بھی تعزیت کی خاطر تمہارے ہم راہ چلا چلوں گا۔ کیا ایک سے ایک مدراسن کو چن چن کر تم دوست بناتی ہو‘‘ اس نے خفگی کے ساتھ کہا۔

راستوں پر دھوپ پھیل گئی۔ گلابی مکانوں میں سے دھواں نکل رہا ہے۔ خنکی میں پردے ہل رہے ہیں۔ عمیق ٹھنڈے کمروں کی کھڑکیوں میں فرن کے پودے رکھے ہیں۔ زرد کنارے والے کاغذ جن پر خزاں کے مناظر ہیں۔ امی بیگم کی تصویریں، جن میں سفید لیس میں ملبوس، وکٹورین صوفوں پر بیٹھی مسکرائے جاتی ہیں۔ ورک باکس میں سے پرانے پھولوں کی مہک آتی ہے۔ ارما ارما۔

ارما__ ؟ ہاں۔ میں ارما ہوں۔ بیس سال میں نے اس گھر میں گذارے۔ نیلے پہاڑوں پر خچر پر بٹھا کر مجھے فرانسیسی گرامر پڑھانے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ چھ سال میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا۔ مالینی شیرا لے میری دوست تھی۔ اس نے مجھ سے کہا۔ ارما تم زندگی میں مرو گی۔ مجھے معلوم ہے وہ دیدانت کی بڑی استاد تھی۔ اور سیمل کے نیچے خیمے میں بیٹھ کر بڑی عقل مندی کی باتیں کرتی۔ ارما__ وہ کہتی زندگی میں صرف جھوٹ ہے۔ مایا میں جو روشنی داخل ہوئی۔ وہ گیان کی تھی۔ اور گیان اس وقت اتم ہوا جب وہ مایا سے پھر باہر نکل گیا۔ ویسے مالینی شیرالے دن بھر برج کھیلتی تھی۔ اور اپنی ماں کو خوش کرنے کے لیے اچار اور مر بے بنایا کرتی تھی۔ ارما۔ اس نے کہا۔ زندگی میں صرف دل کی وہ بے اطمینانی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ موت آ جاتی ہے۔ موت اصل گیان ہے۔ شام کو مالینی اپنے چاروں بھائیوں کے ساتھ رمبا کے فینسی اٹیپس کیا کرتی۔ ارما۔ وہ کہتی تم بھی سایہ ہو۔ میں بھی سایہ ہوں۔ اوٹو بھی سایہ ہے۔

اوٹو__ ؟ یعنی سید باقر اصطفیٰ رضوی۔ نام کی بوریت کی بھی ایک حد ہونی چاہئے۔

’’ اوٹو__‘‘۔ آنسو خشک کرنے کے بعد اہتمام سے پائنچے پھیلا کر قالین پر بیٹھنے کے بعد اس نے سوگوار آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’ اوٹو نے ہمارا کیا ساتھ دیا۔‘‘ بالکل اپنی اماں کے انداز میں کوشش کے ساتھ سنجیدگی اور ناراضگی کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’ جی ہاں وہ میرا بھائی تھا ایک قسم کا ___کزن ہونے کے علاوہ یعنی میرے بابا نے اس کو متبنی بنایا تھا۔ وہ بابا کا بھانجا تھا۔ وہ ان کو ماموں میاں کہتا تھا۔ بچپن سے مجھے بھی بابا کو ماموں میاں کہنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ اس کو متبنی کرنے کے سات سال بعد میرے دونوں بھائی پیدا ہوئے۔ تو اس نے جلنا شروع کر دیا۔ ہم لوگوں سے بھی جلتا رہا۔ مستقل۔ پھر بابا کے مرنے پر برسوں اس نے کہا کہ جائیداد میں میرا بھی صریحاً قانونی حصہ ہے۔ کیوں کہ میں متبنی ہوں۔ اس نے یہ کبھی نہ کہا تھا۔ لیکن ہمدرد خواتین کو جو ماموں میاں کے پر سے کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ اس نے بڑی تفصیل سے یہ مکالمہ سنایا۔ اپنی اماں کی طرح وہ سفید دوپٹہ اور کھڑے پائنچے میں ملبوس تخت پر چڑھی بیٹھی رہی۔ اور کچھ وقفے کے بعد وہ آنسو خشک کرتی۔ باہر تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ جن میں سرخ پتے اڑ رہے تھے۔ اگر وہ اس وقت کمرے میں آ جاتا تو دھاڑ کر اس سے کہتا ’’ یہ کیا مسخرہ پن لگا رکھا ہے۔ تم بالکل ناقابل اعتماد ہو‘‘ (یہ اس کا خاص لفظ تھا) لیکن وہ ماموں میاں کے مرنے کے بعد واپس نہ آیا۔ ویسے عموماً وہ اپنے کلب میں ہی رہتا تھا۔ دوستوں سے اس نے کہا۔ مور بڈٹی سے مجھے نفرت ہے۔ یہ لوگ موربڈ (Morbid)ہیں۔ اسی موربڈٹی کے تحت اماں نے مجھے بیٹا بنایا تھا۔

یہ لوگ __ ؟ وہ ارما ہے۔ جس میں اس کا مطلق قصور نہیں۔ اس کا اب وہ کیا علاج کرسکتی ہے کہ وہ __ ایک مخصوص گھرانے میں پیدا ہوئی۔ مثلاً اگر وہ آغا رفاقت حسین کے ہاں پیدا ہوئی ہوتی تو اس وقت برقع پہنے امیر الدولہ پارک میں کامدانی کی دوکان پر کھڑی کرن گوکھرو خریدتی ہوتی۔ یا وہ ودیا وتی بھار گوا بھی ہوسکتی تھی۔ بہر حال اب وہ ارما تھی۔ اس طرح بے تکی باتیں سوچے جانے میں کبھی کبھی اسے بہت مزہ آتا۔ ایک قسم کا ذہنی اوپیرا اپنے کرداروں سے جس طرح کی چاہی ایکٹنگ کروائی۔ اور جیسے چاہے مکالمہ ادا کروائے۔ اور ساتھ ساتھ فٹ نوٹ لکھے جا رہے ہیں۔

لیکن اب تو وہ اٹھائیس سال کی ہو چکی ہے( اس نے ایک نامعلوم سی پھریری لی) یہ کرسمس کی سہ پہر ہے، اپنی نند کی لڑکی کے لیے صبح سے وہ کوٹی بننے میں لگی ہے۔ اوٹو نے بنگلور جا کر اسے چند مشفقانہ خط لکھے جن میں اس نے رائے دی کہ اسے یقیناً کہیں جا کر اور زیادہ تاریخ پڑھنی چاہئے۔ مثلاً ہو پکنز یونی ورسٹی جہاں مالینی شیرالے گئی ہوئی ہے۔ جو اس کی گرو تھی۔ اور وہ خود بھی سٹل ڈاؤن ہو جائے گا( یہ اس نے اپنے دوستوں کو بتایا)

اوٹو کے چلے جانے اور ماموں میاں کی پہلی برسی کے بعداس کا بیاہ ہوا۔ اس کا میاں بھی کہیں پر کسی زمانے میں اوٹو کا ہم جماعت رہ چکا تھا اور اوٹو کے متعلق کچھ زیادہ قابل ذکر رائے نہ رکھتا تھا۔ اور ہمیشہ اس کا پورا نام لیتا تھا۔ سید باقر اصطفیٰ رضوی۔

شادی بھی کوئی ایسا خاص ذہنی تجربہ ثابت نہ ہوئی جیسا کہ اس کا خیال تھا اور جس کی مالینی شیرالے کو توقع تھی (کالج میں ایک صاحبزادی اسماء سلطانہ تھیں۔ جس بیچلر سے بھی شامت کے مارے سے، ان کی ملاقات ہوتی ان کو فوراً یقین کامل ہو جاتا ہے کہ بس اب یہ دوچار روز میں پروپوز کرنے والا ہے، اور عرصے تک جب وہ پروپوز کرنے ہی میں نہ آتا تو وہ ساری دنیا سے خفا ہو جاتیں اور زندگی کی زیادتیوں کی شاکی رہتیں۔ ان کا ایمان تھا کہ جتنے بھی انسان اس دنیائے فانی میں ان سے ملتے ہیں سب کے سب ان کے مداح ہیں۔ ارما کو زندگی کے متعلق ان کا اتنا صحت مند نظریہ بہت پسند تھا۔ اکثر اس نے مالینی شیرالے کے سامنے ان کی زندہ مثال پیش کی۔ لیکن مالینی شیرالے نے ہمیشہ سر ہلا کر سنسکرت کا کوئی اور مقولہ دہرا دیا اور منہ لٹکائے شلجم کا اچار بنانے میں مصروف رہی۔ تم بالکل ڈی مور الائیز ہو چکی ہو۔ وہ جل کر مالینی سے کہتی)

اور اوٹو ہے۔ اس کا سامان ابھی اتار کر سامنے کے مکان میں رکھا گیا ہے۔ اور اس کی بیوی بلوجنیز میں ملبوس ادھر ادھر حکم چلاتی پھر رہی ہے۔ شام کو اس کا میاں کہے گا چلو بھائی ارما ذرا رضوی کے یہاں ہو آویں۔ دوستوں سے وہ بے حد خوش مزاجی کے ساتھ تعارف کروائے گا۔ یہ میرے سالے ہیں ہا ہا ہا !!!

چناں چہ بہت بڑی دنیا پڑی ہے۔ ہزاروں مشغلے ہیں۔ وہ خود بے حد ہردلعزیز ہے اور کیا عمدہ گاتی ہے۔

لیکن اوٹو موجود ہے۔ پر وہ جا چکا ہے۔ وہ جا چکا ہے۔ لیکن موجود ہے اور سب مایا ہے اور اسے زندہ رہنا ہے۔ اس طرح کی کوئی قابلیت کی بات اس کی پیاری مالینی رانی اس سے کہتی اگر وہ یہاں ہوتی۔

پرانے خاندانی جھگڑوں قصوں کو بھول جاؤ ارما ڈارلنگ، کل تمہارے بھائی صاحب اور بھاوج کو ہم کھانے پر بلاتے ہیں۔ اس کا میاں خوش دلی اور سادگی سے اس سے کہے گا۔

کیا آئیڈیل میچ ہے واہ وا__ عمر بھر وہ اپنے اور اوٹو کے لیے دوسروں سے یہ سنتی آئی تھی۔ اوٹو اس کے ساتھ کس قدر محبت سے پیش آتا تھا۔ کمینہ وہ اس لیے بنا کہ در اصل اسے ارما کچھ زیادہ پسند نہ تھی۔ اگر وہ ماموں میاں کے مرنے کے بعد بھی اتنا ہی فرماں بردار متبنی بیٹا بنا رہتا تو لامحالہ اس کو ارما سے بیاہ کرنا پڑتا۔ سارے عالم کو پتہ تھا کہ اوٹو بھیا کا بیٹا سے بیاہ ہو گا۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ وہ انتہائی کمینے پن پر اتر کر ان سب سے لڑائی مول لے اور ہمیشہ کے لیے خاندان سے علاحدہ اور آزاد ہو جائے۔ یہ سب اس نے خود سوچا تھا اور یہ سوچ کر ایک حد تک مطمئن ہو گئی تھی۔ اگر اس بلو جنیز والی امریکن نما، لیکن خاصی حسین عورت کی بجائے وہ اس وقت اس شدید مالکانہ طمانیت کے ساتھ اوٹو کا سامان برآمدے میں رکھواتی ہوتی۔ اس کے دوست اس سے چائے کی فرمائش کرتے اور وہ چلاتا__ ای ہو__ لیکن ایسا کون سا فرق پڑا ہے۔ کوئی بھی نہیں۔ کل رات کو یقیناً میں ان لوگوں کو مدعو کروں گی اور اس قدر اخلاق اور یگانگت کا برتاؤ کروں گی کہ یہ لوگ بھی کیا یاد کریں گے۔ آخر فرق ہی کیا پڑتا ہے۔ اس نے ہوا کی زد سے بچنے کے لیے ساری کو چاروں اور لپیٹ کر سوچا۔ در اصل یہ سب ایک طرح کا ذہنی تاثر تھا۔ جس میں عرصہ ہوا نکل چکی ہوں ( پیٹرن بک اٹھا کر اس نے نند کی بچی کے لیے دوسرا نمونہ سلائی پر اتارا) گو کہ یہ عورت__

یہ عورت اوٹو کے گھر میں رہتی ہے۔ سنا ہے کہ بد مزاج بھی ہے۔ وہ اوٹو کی بیوی اور بد دماغ الگ اور عقل میں بہت کم ہے____

سر پر سے رومال ہٹا کر بلو جنیز میں ملبوس عورت نے دوسرا ٹوکرا گھسیٹا۔ کسی بات پر سب لوگ ہنسے۔ اوٹو نے آواز دی۔ ای ہو__ ڈارلنگ__‘‘

ہاں کیا فرق پڑتا ہے۔ ریلنگ پر سے ہٹ کر اس نے سوچا۔ دھوپ ڈھلتی ہوئی پنیزی کی کیاریوں کے پرے چلی گئی۔ کاسنی پھولوں کی بیلیں زور زور سے ہوا میں جھولنے لگیں۔

ٹونی نے ناقدانہ نگاہوں سے منظرکو دیکھا۔ اس کے اتنے شان دار اور بالکل قطعی ونڈر فل رائے روجرز سے بھی عمدہ ابو اب اندر چلے گئے تھے۔ ان کے دوست گرامو فون کے ریکارڈ سمیٹ رہے تھے۔ ممی حسب معمول نوکروں پر چلا رہی تھیں۔ شانوں پر کوٹ جھلاتا ہوا وہ روش کے اختتام پر پہنچا۔ سامنے والے مکان کی دوسری منزل پراتنا عمدہ کھلا ہوا شفاف فرش والا برآمدہ تھا۔ کاش وہ اسی وقت وہاں پہنچ کر اپنے نئے والر سیکٹس کا تجربہ کرسکتا۔ ممکنات کا معائنہ کرنے کی غرض سے چھوٹے چھوٹے پر اعتماد قدم رکھتا وہ زینے پر چڑھا اور ریلنگ کے سہارے بیٹھی ہوئی لڑکی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔

بلیک آؤٹ پوری کائنات میں پھیل گیا۔ رنگ اور فضا، اور محسوسات۔ ایک اچانک صدمے کے ساتھ بالکل اس اندھیرے کی تہہ میں جا گرے۔ ’’ آنٹی‘‘۔ دوستی کے انداز میں اجنبی بچے نے ہاتھ بڑھائے۔ میں تمہارے برآمدے میں اپنے اسیکٹس پہن سکتا ہوں __ ؟ ‘‘ چھوٹی سی آواز میں اس نے سوال کیا۔

اندھیرے میں وہ کرسی پر سے اٹھی۔

’’ باہر جاؤ__‘‘ وہ دفعتاً چیخی__‘‘ چلو واپس جاؤ‘‘ اور بچے کو مخاطب کر کے ڈانٹنے کی بجائے وہ دیوار کے قریب بچھی ہوئی سیٹی پر اوندھی گر گئی۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’ نیچے جاؤ __ چلو__ فوراً بھاگو یہاں سے __‘‘۔ روتے روتے وہ پھر چلائی۔

ٹونی نے اپنی پشت پر ہاتھ باندھ کر ایک لمحے کے لیے اس کو حیرت اور غور سے دیکھا۔ اور افسوس سے سر ہلا کر نیچے اتر گیا۔ بڑے انسانوں کی بعض حرکتیں اس قدر عجیب و غریب اور مسخرے پن کی ہوتی ہیں۔ اس نے خیال کیا۔

’’ ای ہو__ ویٹ از سم ڈیم ابو__ پینزی کے پھولوں میں واپس پہنچ کر اس نے کہا اور پھر رائے روجز کی کتاب نکال کر اس کہانی کے تیسرے باب میں منہمک ہو گیا۔ جس میں رائے روجز نے چار ڈاکوؤں کو پکڑ کر مارا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہی زمانہ وہی فسانہ

 

 

ٹوُ ٹَس نے مجرمانہ انداز میں ’’اولڈ مین رور‘‘ شیلف میں واپس رکھ دیا اور چپکا بیٹھ رہا۔ اللہ اکبر۔ اس نے دل میں کہا۔

ٹوٹسی ووٹسی۔ پکسیؔ نے شفقت کے ساتھ سوال کیا۔ کیا بات ہے۔ پھر وہ باورچی خانے کی سمت روانہ ہو گئی۔

جہنم۔ اس نے ریکارڈوں کے البم کو دیکھا اور کتابیں جن سے الماریاں سجی تھیں۔ ایک چوکور کتاب کے اوپر لکڑی کا ڈچ جوتا رکھا تھا اور ایک اسپنش پنکھا۔ کشتی میں چائے تھی۔ ٹی کوزی کے اوپر جو جاپانی عورت کڑھی تھی وہ تکونے پل پر سے بے اندازہ نزاکت کے ساتھ گزر رہی تھی۔ اس کی ترچھی آنکھوں پر موسم گرما کی دوپہروں کا چکر کاٹنے والی ایک مکھی آن بیٹھی۔

پھر باورچی خانے میں پانی گرنے کی آواز آئی۔ ایک نوکر کی بیوی نے دوسرے نوکر کی بیوی سے تبادلہ خیالات کے دوران بہ آواز بلند اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ ہمسایوں کے ہاں ایک دو سالہ بچہ رویا۔دھوبی سامنے سے گزرا۔

گھر

جب میں زمانے بھر کا چیمپئن تھا (ٹوٹس نے ہری مکھی کو مخاطب کیا) اور کھیتوں پر ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں۔ اور دریا کے کنارے نیلے پھول کھلتے تھے اور بارشوں کے زمانے میں میں چودھری صاحب کے پاس بیٹھ کر بٹلرؔ کے زمانے کے واقعات سنتا تھا۔ یہ نوجوان لڑکا نہایت عمدہ ہے۔ اس کو اپنی کلچر سے گہری دل چسپی ہے۔ یہ مضمون بھی لکھتا ہے۔ پرسوں اس نے پرانے ووڈاسٹا کیوں کے ڈنر پر سترہویں صدی کے ماسک کے متعلق تقریر کی۔ یہ نوجوان لڑکا۔ لوگوں نے دہرایا۔ نہایت عقل مند ہے۔

ٹوٹسی ووٹسی____

ہاؤ__ہو__ اس نے نعرہ بلند کیا۔ تم جو چاہو کرو لیکن للہ آئندہ مجھے اس نفرت انگیز پیارے نام سے یاد نہ کرنا۔ میں فقط ٹوٹسؔ ہوں۔ عمدہ اور عقل مند ٹوٹسؔ۔ اس نے بہادری سے کہا۔ لیکن ہری مکھی کو دیکھ کر پھر چپکا ہو گیا۔

میں بھی بے حد بہادر ہوں ____ ڈوپی نے اس سے کہا۔

تھیں ____ اس نے تصحیح کی۔

ڈوپی چائے کا سامان ادھر ادھر رکھتی رہی۔

ساری بات یہ ہے، ٹوٹسؔ نے ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھتے ہوئے پروفیسروں کی طرح انکشاف کیا کہ اب تمہارے دل میں شک و شبہے پیدا ہو چلے ہیں۔

وہ خاموش رہی۔

پھر کیا کیا جائے__؟ تھوڑی دیر بعد ڈوپیؔ نے پوچھا۔

دیکھو۔ میں کیا کر رہا ہوں۔ ٹوٹسؔ نے ہاتھ کھول کر جواب دیا۔

ٹوٹسی ووٹسی __ڈوپیؔ نے پیار سے کہا۔

ہری مکھی جو گرما کی سہ پہر میں دور دراز کا سفر طے کرتی ہوئی آئی تھی، ان لوگوں کی باتوں سے بور ہو کر شکر دان کے کنارے پر سے اڑی اور لیمپ کے پیچھے جا بیٹھی۔

شام کو یہاں بھی بگل بجتا ہے۔ ڈوپیؔ نے افسوس کے ساتھ کہا۔

معلوم ہے۔ ٹوٹسؔ نے جواب دیا۔ اس قدر شدت یعنی زندگی کے احساس کی شدت۔ ایک قسم کی یعنی کہ۔

جوتا۔ ڈوپی نے جواب دیا۔

تم جو اپنی بیگماتی زبان میں گفتگو کرتی ہو تو دراصل تمہیں جوتی کہنا چاہئے کہ تمہاری جوتی کو کیا پروا ہے۔

جو شام کو یہاں بھی بگل بجتا ہے__؟؟ ڈوپیؔ نے کہا۔

پھر پکسیؔ اندر آئی۔ باورچی خانے میں وہ شکر قند کا حلوہ بنا رہی تھی جو اس نے اکثر لوگوں کو بتلایا تھا کہ اس کے قصبے کی خاص چیز ہے۔ لوگ ہمیشہ سنی ان سنی کر دیتے تھے۔

پکسیؔ اکثر لوگوں کو اکثر باتیں بتایا کرتی تھی۔ یہ کہ وہ بہت قابل تھی۔ لیکن اب اس نے جان بوجھ کر ساری قابلیت، سارے مختلف علوم و فنون بھلانے شروع کر دئے تھے۔ وہ اخبار بھی نکالا کرتی تھی۔ چیلاپتیؔ راؤڈیسمنڈؔ ینگ اور گھوشؔ کا ذکر وہ نہایت مشفقانہ انداز میں کرتی۔

لوگ اس کی بھی سنی ان سنی کر دیتے۔

لوگ بہت سے تھے۔ ٹوٹسؔ۔ جس کو اس نے ہمیشہ سعادت علیؔ خاں کہا۔ بھائی سعادت علیؔ خاں۔ ڈوپیؔ، طلعتؔ، عرفانؔ احمد، بیگم عرفانؔ احمد اور بھی بہت سارے۔ تمام دنیا۔ یہ سب ایک طرف تھے اور اس کے مخالف تھے۔ ان سب سے علاحدہ اور برگزیدہ پکسیؔ تھی۔

سعادت میاں۔ اس نے ساری کے آنچل سے ہاتھ صاف کر کے کہا۔ تمہاری بی بی یعنی طلعت بیگم اب کیسی ہیں۔

نہایت تندرست و توانا۔ ٹوٹسؔ نے جواب دیا۔

ابھی میں طلعتؔ کو حلوہ بھجواؤں گی۔ وہ اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ ابو وغیرہ سب آئے ہوں گے۔ پھر شام کو کھانا ہے۔ ہم کو چاہئے کہ کمرے صاف کریں۔

ٹوٹسؔ اور ڈوپیؔ نے اس کی بھی سنی ان سنی کر دی۔

ابھی دھوبی بھی نہیں آیا۔ پکسی نے پھر کہا۔

پکسی وِکسیؔ ____ ٹوٹسؔ نے یک بیک بے حد تفصیل سے اس کو مخاطب کیا۔ پچھلے چوبیس سال سے تم مستقل ایکٹنگ کیے جا رہی ہو اور کمال یہ ہے کہ اب تک بور نہیں ہوئیں۔

ڈوپیؔ اٹھ گئی اور برآمدے میں چلی گئی۔ جہاں وہ فلم انڈیا پڑھے گی کیونکہ اب ان دونوں آدمیوں کے مابین زندگی کے متعلق نہایت بصیرت افروز مکالمہ شروع ہو چکا تھا جسے وہ کئی ہزار مرتبہ سن چکی تھی۔ ہمیشہ سے خود اس میں شامل تھی۔ اور اب چونکہ ٹوٹس نے جو اپنی بیوی طلعت آراء کی مکمل ہاؤس کیپنگ اور مکمل ذہنی رفاقت اور آئیڈیل کامریڈ پنے سے عاجز آ کر کچھ دیر کے لیے یہاں آیا تھا تو یہاں پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ طلعتؔ اور ڈوپیؔ اور پکسیؔ اپنی پیدائش سے لے کر اب تک مختلف قسم کے مکالموں سے اسے مستفید کرتی آئی تھیں۔ وہ ان تینوں سے سات آٹھ سال قبل دنیا میں آ گیا تھا۔ دنیا ان دنوں طویل ویک اینڈ منا رہی تھی پھر لڑائی شروع ہوئی اور وہ نیوی میں چلا گیا۔ اور ہانگ کانگ میں اشتمالی ہونے کے شبہے میں پکڑا گیا۔ جیل میں رہ کر اس نے نظمیں لکھیں۔ اس کے بعد نارمن میلرؔ سے دوستی کی۔ نیویارک کے گرینچ ویلج میں رہ کر اس نے پال روبنسنؔ کے نیگرو روحانی نغموں پر مقالے لکھے اور جن چینی اور لیتھونین گیتوں کا ترجمہ کیا وہ الگ۔ اس کے گلیمر کی انتہا آپ سمجھ لیجئے یہ تھی کہ اس نے اسٹیوٹؔ گرینجر کے ساتھ ایک فلم بنا یا تھا اور بمبئی لوٹ کر وہ چیتن آنند وغیرہ انٹلیکچول لوگوں کے ساتھ ایک انتہائی پُر انٹلیکچول تصویر بنانے کی فکر میں تھا لیکن پھر اس نے شادی کر لی اور یہاں آ گیا۔ ان دنوں وہ آرمی کے حساب کتاب کی جانچ پڑتال کرتا تھا اور رات کو ’’اولڈمینؔ رِوَر‘‘ بجاتا تھا اور اس کو ان لوگوں سے شدید چڑ تھی جو ہر وقت کہتے تھے، وہ زندگی سے انتہائی غیر مطمئن ہیں وغیرہ۔

ڈوپیؔ ریلنگ پر جھکی فلم انڈیا پڑھتی رہی۔

ایک صحیح آئیڈیالوجی کا فقدان____ اندر پکسیؔ دھاڑ رہی تھی۔

پھر یک لخت کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ ڈوپیؔ نے اندر جھانک کر دیکھا۔ پکسی چائے کے سامان اٹھانے میں جٹی تھی اور ٹوٹسؔ نے ٹانگیں پھیلا کر سیٹی بجائی۔ لڑکیوں کے سامنے وہ ہمیشہ فتح مند رہا ہے۔ اسی فتح مندی کے چکر میں اسے طلعتؔ سے شادی کرنی پڑ گئی تھی۔ گو یہ بات نہ تھی کہ وہ طلعت کی طرف سے ڈز الوژن ہو گیا ہو۔ حالانکہ ان کی شادی کو پورے پانچ ماہ کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔

وہ برآمدے میں آ گیا۔

ٹوٹسی ووٹسیؔ____ !! ڈوپی نے دہرایا۔

اس نے مطلق برا نہ مانا اور زینے کے ستون پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ نیچے نم کیاری میں کاغذ کے چند ٹکڑے پڑے تھے اور ہمسایوں کے ہاں کوئی لونیاں گاتا تھا۔

پکسیؔ کیا کہہ رہی ہے۔ ڈوپیؔ نے فکر مندی سے پوچھا۔ کیونکہ ڈیسمنڈینگ یا نہیں ڈیسمنڈینگ ___ پکسیؔ ان سب کی پسندیدہ کزن تھی۔

ہمسایوں کے یہاں سلائی کی مشین چلائی جا رہی تھی۔ اور کوئی صاحب میز پر طبلہ بجا رہے تھے۔ پلائی ووڈ کی جو دیوار برآمدے کو دو حصوں میں منقسم کرتی تھی اس پر پورچ پر پھیلی ہوئی بیل کا سایہ پڑ رہا تھا۔

بیگم عرفانؔ نے ساڑھے تین سو روپے کا ڈھیلا پائجامہ سلوایا ہے ویلوشین کا جس کے اوپر جارجیٹ ہے، اور اس کو پہن کر ان کا خیال ہے وہ کسی انگریزی کاسٹیوم فلم کی ’’ہیروئن‘‘ لگیں گی۔ ڈوپی نے رسیور اٹھا کر طلعتؔ کو مطلع کیا۔

حالانکہ ’’ہیروئن‘‘ تووہ مسلم سوشل پکچر کی بھی نہیں لگتیں۔ طلعت نے شگفتگی سے جواب دیا۔

اب تم کٹو____ میں ٹوٹسؔ سے ضروری باتیں کر رہی ہوں۔ فون بند کر کے وہ پھر ریلنگ پر جھک گئی۔

ٹوٹسؔ نے اسے غور سے دیکھا۔

گڈوؔ۔ ڈوپؔ سی ڈوپؔ____ ڈوپی نے پیار سے اسے مخاطب کیا۔

وہ ستون پر بیٹھا رہا۔ پھر ٹانگیں ہلا کر اس نے گانا شروع کیا۔ عرض کیا ہے کہ مورے مندر اب یوں ناہیں آئے __ وہ اگر کوئی گانا نٹ بہاگ میں شروع کرتا تو اُسے شنکرا مالکوس بھیروں بہار سے گزارتا اس بدقسمت گانے کو حمیر میں لا کر ختم کرتا۔

پھر وہ گانا بھی ختم ہو گیا جس میں ہر بار یہ کہا جاتا تھا کہ مورے مندر اب لو یوں ناہیں آئے۔گنگا کے کنارے سرکنڈ ے اگ آئے تھے۔ اداس آنکھوں والے سنیاسی ورندابن سے جا چکے تھے اور ہوائیں دہشت ناک سروں میں بڑی رنجیدہ باتیں یاد دلاتی تھیں۔

سہ پہر کا سناٹا شام کی آوازوں میں ڈھلنے لگا۔ اکثر خالی گھروں میں جب تین چار آدمی الگ الگ چپ چاپ بیٹھے ہوں تو کیسی پراسرار خاموشی چھا جاتی ہے۔

اب شام ہو رہی ہے ٹوٹسؔ __ ڈوپی نے خوف زدہ ہو کر کہا۔

برآمدے کے نیچے سے گزر کر ایک کالی ہل مین تیزی سے ہمسایوں کے پورچ کی سمت مڑ گئی۔ اس میں سے عرفان احمد اترے اور ان کی بیگم صاحبہ__

جن کے لباس پر دو کمینی بلیوں کی طرح __ طلعتؔ اور ڈوپیؔ نے تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے مڑ کر ٹوٹس کو دیکھا اور اخلاقاً ہاتھ ہلایا اور بیگم عرفان زور سے کسی بات پر ہنسیں۔ پھر وہ پورچ میں چلے گئے۔

پورچ پر سرخ پھولوں والی بیل تھی اور بلب کی زرد روشنی پتوں میں سے چھن کر باہر گھاس پر پھیل گئی تھی اور شام کی اداسی سرسراتی ہوئی روحوں میں داخل ہو رہی تھی اور زندگیاں اتنی حقیر تھیں۔

اللہ اکبر۔ ٹوٹسؔ نے آہستہ سے دہرایا۔

ڈوپیؔ لیمپ جلا کر باہر آئی اور فون کے قریب والی آرام کرسی پر بیٹھ گئی۔

شام کو بیگم عرفان وہی مخملیں کوسٹیوم پہن کر آئیں گی____ ! اس نے بڑے اہتمام سے لہجے میں بشاشت پیدا کر کے کہنا شروع کیا۔

ڈوپ زی____ ٹوٹس نے جھنجھلا کر کہا۔

اب کچھ کہنے کا کیا فائدہ تھا۔ ڈوپیؔ نے سوچا۔

جب تم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہو کہ بیگم عرفان سے تمہاری کتنی دوستی ہے، یا خود عرفان احمد بالکل یوں ہی محض ایک اور دوست ہیں تو تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ تم سخت مضحکہ خیز اور قابل رحم نظر آتی ہو۔ ایکٹنگ۔ مستقل ایکٹنگ۔ ٹوٹس نے غصے سے کہا۔

شاید ہم لوگوں کو پیدا نہ ہونا چاہئے تھا۔ ڈوپی نے سوچ کر افسوس کے ساتھ کہا۔

ڈوپ زی۔ ٹوٹسؔ نے پیار سے کہا۔

اب یہ کیا میلو ڈرامہ ہو رہا ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔ دوسرے لمحے ٹوٹس نے غصے سے سوچا۔

دودھ والا سڑک پر سے گزرا۔ دوسری منزل پر بچہ پھر رویا۔ بیگم عرفان احمد کا بچہ، پینٹری میں چائے کے چمچوں کے کھنکنے کی آواز آئی۔

گھر۔

لیکن میں اب بھی الگ ہوں۔ ٹوٹس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر خیال کیا۔ (حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو بات کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے بعد میں سوچا)____

الماری کے پاس وہ کھڑا تھا۔ اور آلوؤں کی پلیٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔اسی صبح وہ سب تین طیاروں میں بھرکر سمندر پار سے آئے تھے جہاں وہ جگہ جگہ تقریریں کرتا پھرا تھا اور اس کی تصویریں کھینچی تھیں۔ اور طہران سے اس نے بہت ساری ووڈ کا ساتھ لے لی تھی۔ اب وہ اطمینان سے کھڑا ’آفٹر ڈنر‘ قصے سنا رہا تھا۔ٹوٹس نے اس کا زیادہ نوٹس نہ لیا۔ کیونکہ ٹوٹس بہت سی باتوں کے متعلق اپنی رائے سختی سے محفوظ رکھتا تھا اور ڈوپیؔ بے حد فرماں برداری کے ساتھ اس کی رائے صحیح سمجھتی تھی۔ وہ الماری کے پاس کھڑا تھا۔ بہت سارے مہمان ادھر ادھر کھڑکیوں میں، آتش دان پر، میزوں پر ٹنگے بیٹھے تھے۔ باہر اندھیرا ہے جس میں گلاب کھلے ہیں اور پانی کے راستے خوف ناک ہیں۔ اور دروازے بند ہو جائیں گے اور میں جاگتی رہوں گی۔ پھر میں بھی سوجاؤں گی کیونکہ اندھیرا اٹل ہے)

لہٰذا جناب جب گلدر نزدیک آیا__وہ کہہ رہا تھا۔

کھنکار نے کی ضرورت ہے__ڈوپیؔ نے شگفتگی سے پوچھا۔

واللہ مقصد دور کی کھینچتے ہیں آپ۔ ٹوٹسؔ نے اخلاقاً تعریف کی۔

کیا____ ؟ ایک صاحب نے دریافت کیا۔

ہنستے ہنستے ڈوپیؔ پھر کھڑکی میں جا بیٹھی۔

(کیا تم سب کو یاد رہے گا۔ اب تک جو کچھ ہوا تم سب کو یاد ہے؟) حضرات! اولڈ لانگ زائن گائیے۔ اس نے زور سے تالی بجائی (ساری پچھلی سردیاں ____ اسکول کے نیم روشن ہال۔ گرم آتش دان۔ بارش اور پہاڑی راستے۔ اجل مزگاؤں کر تھا۔ ایرک والٹرزؔ۔ اپنی پکسیؔ۔ گڈ اولڈ پکسیؔ۔ اب میں ان لوگوں میں سے کسی ایک سے شادی کر لوں گی۔ سارے پروبلمزآ پ سے آپ حل ہو جائیں گے)

آج رات بہت سے جہاز اڑیں گے۔ کسی نے کہنا شروع کیا۔

دراصل ملک کی معاشی تنظیم____ کوئی اور کہہ رہا تھا____

(بہار کی دوپہروں میں پروفیسر رادھاؔ کمل مکرجی کے باغ کے خنک قطعے جہاں سیتل پائیاں بچھائی جاتی تھیں اور اوما پنچالؔ تُکا رامؔ کے بھجن گاتی تھی۔ چھ اعلیٰ امتحان اس نے پاس کیے۔ لاء کی ڈگری لی۔ اور کافی ساریاں خریدیں )

عرفان احمد صاحب یہ پلیٹ لے لیجئے۔ اس نے بہ آواز بلند کہا۔ (کیا بور نام ہے۔ دل میں اس نے سوچا اور خوب ہنسی)

عرفان احمد وہ کہلاتا تھا۔ اس نے ڈوپیؔ کے ہاتھ سے پلیٹ لے کر سائیڈ بورڈ پر رکھ دی۔ برآمدے کی ریلنگ پر اکٹھے جھک کر سامنے پانی کو دیکھتے رہئے تو کیسی یگانگت کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ ڈوپی سے وہ پہلی بار اسی وقت کھانے کے موقع پر ملا تھا۔ نیچے گھاس پر ہمسایوں کے بچے کھیل رہے تھے۔

بچے____؟ ؟ جب میرا ایک بہت بڑا خاندان ہو گا تو میں ان شیطان کے خالوؤں کے کیا نام رکھوں گا۔ یہ ڈوپی پکسی ٹوٹس کس قدر خوف ناک خرافات ہے۔ جس لڑکی سے میں شادی کروں گا وہ سلطانہ خاتون ہو گی یا کنیز فاطمہ بیگم۔ (جس لڑکی سے اس کی شادی طے ہوئی تھی اس کا نام سکینہ بانو تھا)

سکینہ بانو کی طبیعت کیسی ہے۔ پکسیؔ نے کسی دوسرے مہمان سے پوچھا۔ مجھے لگتا ہے وہ ہمیشہ بیمار رہا کرے گی مثلاً اسے بران کائٹس رہا کرے گا عموماً۔ یا اپنڈی سائٹس، پکسیؔ نے پیغمبرانہ انداز سے کہا۔

اب کھانے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ پکسیؔ مصروفیت سے باہر آئی۔ مہمان پھر جمع ہو رہے تھے اور کھڑکیوں، آتش دانوں اور الماریوں پر لٹکنا شروع ہو گئے تھے۔ عرفان احمد اسی الماری کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور ڈوپی نے پلیٹ اٹھا کر انہیں دی۔

سکینہؔ بانو۔ تمہارا پائجامہ کس قدر ڈیوائن ہے۔ طلعتؔ نے تعریف کی۔ بیگم عرفان خوشی سے کھلکھلا کر ہنسیں۔

ڈوپی دوسری کھڑکی کے پا س گئی جہاں کچھ مہمان ریکارڈوں پر جھکے ہوئے تھے۔ یہ ’’اولڈ مین رِوَر‘‘ بجا بجا کر اتنا گھس ڈالا____؟

انہوں نے کہا۔

(آخر تم کو پریشانی کیا ہے۔ ہم دونوں اتنے بہادر ہیں۔ ڈوپیؔ نے آنکھیں اٹھا کر خاموشی سے ٹوٹس سے کہا۔)

ڈوپی ایک مذہبی، خدا ترس بلی ہے جو برابر اداس رہتی ہے۔ ٹوٹسؔ نے دل میں کہا۔ جی ہاں۔ اس نے دوسرے مہمان سے اتفاق رائے کیا۔ ورلڈ بینک کی پالیسی____

ایسی جگہیں ہیں جہاں میں اس وقت فوراً دوبارہ واپس جانا چاہتی ہوں۔ ترائیؔ کا وہ چھوٹا سا اسٹیشن جہاں صبح منھ اندھیرے ایک لڑکا کھڑکی میں سے سرداخل کر کے کہتا تھا۔ پھلیندے لیجئے گا مس بابا____ ؟ اور نارائن مالی کا گھر جس کے آنگن میں بیٹھ کر ہم امرود کھاتے تھے۔ پھر ایک روز اس نے پرانے عہد نامے کا انکشاف کیا تھا۔ میرا خدا جو مجھے ٹھنڈے خاموش پانیوں کے کنارے کنارے لے جاتا ہے۔ سینٹ کولمبا____ اگر مجھے میرا دماغ واپس مل گیا تو میں تمہارے سامنے چار شمعیں جلاؤں گی۔

ڈوپیؔ نے ڈشیں سائیڈ بورڈ پر رکھ دیں اور کافی کے انتظام میں جٹ گئی۔

مسوری بھی رہ گئی پیچھے____ انورؔ آپا افسوس کے ساتھ کہہ رہی تھیں (کھانا ختم کر کے وہ سب پھر اپنی اپنی جگہوں پر واپس لٹک گئے تھے)

ہر سال ہم جاتے تھے مسوری__ انور آپا نے دوبارہ کہا۔

ارے آپا جانی۔ گولی مارئیے مسوری کو____ یہاں آ کر تو ہم نے ایک بار آپ کو مری بھی نہ جاتے دیکھا۔ ہٹائیے پرانے قصوں کو ____ کسی نے چپکے سے کہا۔

اور جس فلیٹ میں بیٹا اب ہم رہتے ہیں اس سے چوگنا بڑا اور خوب صورت تو ہمارا شاگرد پیشہ تھا______خالہ بیگم نے کہا۔بیگمات دوسرے کمرے میں جمع تھیں۔

جانے دیجئے____ کسی اور نے کہا۔ یہ قصے بھی اب پرانے ہو گئے۔ دنیا نے آپ کو جس طرح آپ اب ہیں اسی طرح Accept کر لیا ہے۔

پرانی تاریخ کو ہٹائیے۔

پرانی تاریخ__؟! ابھی کل ساڑھے تین سال گزرے ہیں بھیا(یہ دراصل ٹوٹسؔ تھا)ابھی کل کی بات ہے کہ ہم لکھنؤ میں چین سے رہتے تھے۔

(اور مسوری جاتے تھے۔ انورؔ آپا نے کہا)

لوگوں نے Acceptکر لیا ہے__؟ کہ میں کون ہوں۔ ڈوپیؔ نے برآمد ے میں آ کر خود سے پوچھا۔

مہمانوں نے سیڑھیوں پہ آ کر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہنا شروع کیا۔

گڈ نائٹ عرفانؔ صاحب

گڈ نائٹ سکینہؔ بانو

شب بخیر طلعتؔ بیگم

گڈ نائٹ __ ہاؤس وارمنگؔ کب ہے؟

آپ کا لباس واقعی بہت خوب صورت ہے۔

تھینکس اے لوٹ____

گڈ نائٹ۔

گڈ نائٹ۔

ٹوٹس____ ڈوپیؔ نے آہستہ سے کہا۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ باہر کتے روتے ہیں اور پانی پر تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔

وہ روش پر سے گزر کر پھاٹک پر آ گئے۔

یہ ازل تھی۔ یہ ابد ہے۔ یہیں سارا خاتمہ ہے۔ یہیں نئی زندگی ملے گی۔ یہ ہم سب کی دنیا ہے۔ ہم اسی راستے سے آگے بڑھیں گے۔

سڑک پر خنکی تھی۔ دو مشنری عورتیں ڈبے لیے ہوئے گزر رہی تھیں۔ دن بھر کی تھکی ہاری اب یہ اپنے سنٹر کو لوٹیں گی۔ اور سینڈونچزکا ناشتہ کرنے کے بعد سوجائیں گی۔ یہ دور دراز کنیڈا سے آئی ہوں گی اور نجات ان کو بھی ملے گی۔

خیال یہ ہے کہ اپنے اوپر ترس کبھی نہ کھانا چاہئے۔ ٹوٹسؔ نے سوچ کر کہا۔

تم نہیں کھاتے ترس اپنے اوپر____ ڈوپیؔ نے غصے سے پوچھا۔

چلو عرفانؔ احمد سے پوچھیں ان کا کیا خیال ہے۔

عرفان احمد ____ خداوند تعالیٰ تو ہیں نہیں۔ ڈوپیؔ نے جل کر کہا۔

تھوڑے سے تو ہیں ____!! ٹوٹسؔ نے کہا۔

وہ واپس آ کر پھر سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ یہ اسوک کی شاخ ہے۔ ڈوپیؔ نے بہ آواز بلند کہا۔

لیکن اس ملک میں اسے کچھ اور کہتے ہیں۔ ٹوٹس نے جواب دیا۔

اب وہ دونوں بہت خوش تھے۔

ڈوپیؔ نے مسرت کے ساتھ پتوں کو چھوا۔ اب عرفانؔ احمد تک کا خیال خوش گوار تھا۔

بہرحال۔ سکینہ بانو اتنی بری نہیں۔ اس نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ کہا۔

ایک مشنری عورت پھاٹک کے قریب آ گئی۔

گڈ ایوننگ مائی ڈیرز____ اس نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا۔

ڈوپی نے پانچ روپے پرس میں سے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئے۔ وہ ششدر ہو کر ڈوپیؔ کو دیکھتی رہی۔ ہم تمہارے لیے دعا کریں گے۔ دونوں عورتوں نے ایک ساتھ کہا۔

میں خود تمہارے لیے شب و روز دعائیں کرتی ہوں۔ ڈوپیؔ نے سنجیدگی سے کہا اور مسرت کا ایک گہرا سانس لیا۔ پیارے سینٹ کولمبا!!

اور میں بھی ____ !! ٹوٹسؔ نے جھک کر صلیب کا نشان بنایا۔

وہ پھرسڑک پر آ گئے۔ ایک ایمبولنس سامنے سے گزری۔ چند آوارہ گرد دو تارہ بجاتے جا رہے تھے۔

ڈوپ زی۔ ٹوٹس نے یک لخت کہا۔ میں خوش ہوں کہ ہم لوگ زندہ ہیں۔

وہ وہیں ٹھیر گئی۔ اس نے یاد کیا۔ رات ہے، تیز ہوائیں اور یہ ساری میری مہذب Imagery اور ہم واپس جا رہے ہیں۔

اچھا خدا حافظ ڈوپ زی۔ ٹوٹسؔ نے رک کر کہا۔

میں بالکل بہادر نہیں ہوں۔ ڈوپیؔ نے اس سے کہا۔

نہ میں۔ ٹوٹسؔ نے جھک کر دوسری طرف دیکھا۔

اور عرفانؔ احمد اور سکینہؔ بانو اور طلعتؔ آراء بے حد چین کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے خیالات صحیح خیالات ہیں۔

سنسان راستے پر چلتے ہوئے وہ اپنی اپنی تاریکیوں کی طرف چلے گئے۔

اندر پکسی نے ’’اولڈمین رور ‘‘لگا دیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

ایک مکالمہ

 

 

الف   :       گرمیوں کا مہینا جا رہا ہے۔ ہم ایک قدم اور قبر کی طرف بڑھا چکے ہیں۔ دوپہر کو بگولے اڑتے ہیں۔ غریبوں کے محلوں میں لوگ دھڑا دھڑ مر رہے ہیں۔

ب     :       سنا ہے بڑی سخت وبا پھیلی ہے۔

الف   :       ہاں۔ وبا پھیلی ہے اور لوگ مرتے ہیں۔ اگر نہ مریں تو دنیا کی آبادی اور بڑھ جائے اور مزید گڑبڑ پھیلے۔

ب     :       پہلے ہی کیا کم گڑ بڑ ہے؟

الف   :       خدا سے امید ہے پچاس لاکھ تومر ہی جائیں گے۔

ب     :       اتنے بہت سے ؟

الف   :       تب بھی کمی نہیں آئے گی، دنیا بھری پڑی ہے۔

ب     :       خصوصاً ایشیا۔

الف   :       زیادہ تر ان لوگوں کو مرنا چاہئے جو بالکل بے کار ہیں۔ تم نے ان کے مکان دیکھے ہیں ؟

ب     :       نہیں۔

الف   :       نا قابل یقین۔ یہ لوگ گندگی میں زندہ رہتے ہیں۔ مکھّیوں اور بھنگوں کی طرح، اور مکھّیوں کی طرح مرتے ہیں۔ ان کو شرم بالکل نہیں۔

ب     :       انہوں نے خدا کی حسین دنیا کو تباہ کر دیا___ اس قدر غلاظت!

الف   :       ہاں۔ میں نے ایک روز اُن کے لیڈر سے کہا کہ شفق کی سرخی اور پھولوں کے حسن کو دیکھ کر ایمان تازہ کرے مگر وہ اسی طرح ٹرّاتا رہا۔

ب     :       کوئی اچھی خبر سناؤ۔

الف   :       اچھی خبریں بہت کم ہیں۔ تم کل کہتے تھے زلزلہ آنے والا ہے۔

ب     :       جو بات کی۔ منحوس ___ میں نے استعارہ استعمال کیا تھا۔

الف   :       ’’ اولڈ آرڈر‘‘___ ابھی سالم اور محفوظ رہے گا۔

الف   :       عبدل کا تمہیں ممنون ہونا چاہیے۔ میں اسے دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔

ب     :       تم آج کل گرمیاں کہاں گزارتے ہو؟

الف   :       بڑا پرابلم ہے۔ پچھلے سال ویزا لے کر مسوری گیا تھا مگر وہاں جا کر اور بور ہوا۔ دنیا بدل چکی ہے۔

ب     :       ٹھیک کہتے ہو۔

الف   :       دنیا بدل گئی ہے اور ہم بھی۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کس طرح بدلی؟ کیا ہم اس کی کایا پلٹ کو نہیں روک سکتے___؟ تم میرا مطلب سمجھتے ہو___؟

ب     :       ہاں ! مگر تم بہت خوف زدہ ہو۔ اتنا گھبرانے کی بات نہیں۔ اب بھی کچھ نہیں کھویا بلکہ کچھ بھی نہیں کھویا۔

الف   :       لڑکیاں تک بدل گئی ہیں۔ میرا مطلب سمجھتے ہو ؟

ب     :       ہاں ! لیکن ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہئے۔

الف   :       میں بیگمات کا ممنون ہوں۔

ب     :       آہ بیگمات___! بڑی دلآویز ہستیاں ہیں۔

الف   :       ان کے دم قدم سے یہ آرڈر قائم ہے۔ عبدل اور بیگمات اور ___

ب     :       اور ینگ جمیؔ ___

الف   :       اور ینگ جمی___ (رک کر) وہ کون ہے؟

ب     :       ینگ جمی میرا چھوٹا بھائی ہے۔ تم کو اس سے ضرور ملنا چاہئے۔ اولڈ آرڈر کا نیا ورژن اس کے دم قدم سے قائم ہے۔

الف   :       ینگ جمی کیا کرتا ہے؟

ب     :       سول سروس۔ اوکسفرڈ (انڈر کولمبو پلان) ایک سال امریکہ (فل برائٹ) اسپورٹس ___ ٹینس___ مشغلے___ سمفنی کے ایل۔ پی ریکارڈ جمع کرنا۔ سابق سندھ کا بڑا ہوشیار سویلین سمجھا جاتا ہے۔

الف   :       آہ ___ میرے مرحوم چچا بھی بالکل ایسے ہی تھے۔ اوکسفرڈ۔ اسپورٹس میں ہاکی اور ٹینس۔ سمفنی کے ایل۔ پی ریکارڈوں کے بجائے ان کو چیتے کے شکار کا شوق تھا۔ سی پی۔ کے بڑے ذہین سویلین سمجھے جاتے تھے۔

ب     :       ینگ جمی نے ان کا تذکرہ اکثر اپنے سینئر افسروں سے سنا ہے۔ ان کو وہ اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔ خصوصاً وہ واقعہ جب انہوں نے ___

الف   :       جب انہوں نے بارہ سنگھا پور میں کانگریسیوں کے جنگلی ہجوم پر گولیاں چلوائی تھیں ___

ب     :       ہاں اور وہ واقعہ بھی جب انہوں نے سن بیالیس میں آدھے ضلع کو جیل بھیج دیا تھا۔

الف   :       آہ ! وہ زمانے خواب و خیال ہو گئے جب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ شیر دل ہوتے تھے۔

ب     :       اب بھی وہ زمانے موجود ہیں۔ ہجوم کی ذہنیت کہاں بدلی۔ ہجوم ابدی ہے۔

الف   : ہاں ! ہجوم ابدی ہے!

ب     :       جس طرح جنگل اور شیر، چیتے اور شکاری ابدی ہیں۔

الف   :       میں ینگ جمی سے ضرور ملوں گا۔

ب     :       اور کوئی گپ شپ؟

الف   :       کیا سناؤں، سارے موضوع ختم ہو گئے۔ میرا دل اُچاٹ ہو چکا ہے۔

ب     :       کیا تمہارے لا شعور میں کوئی پے چیدگی ہے ___؟ کیا تم کو اندھیرے اور گہرائی اور وسعت، اور سنّاٹے سے ڈر لگتا ہے یا مجمع اور تنگ جگہوں اور نیچی چھتوں اور اجنبیوں اور عورتوں اور بچّوں سے تمہارا دم گھبراتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو___

الف   :       مجھے ہجوم سے نفرت ہے ___ باہر دیکھو، وقت کھسکتا جا رہا ہے۔ وقت کے لیے ساری تشبیہیں بے کار ہیں۔ وہ لنگڑا، یا اندھا، یا بے حس نہیں۔ وہ بہت مکّار اور دغا باز اور چار سو بیس ہے۔ میں بوڑھا ہوتا جا رہا ہوں۔ دیکھو ایک سال اور گزر گیا۔ یہ جون کا مہینہ ہے۔

ب     :       یہ جون کا مہینا ہے۔ یہ گیت کا موضوع ہوسکتا ہے۔ تم اس کا مرثیہ بناتے ہو۔ تمہاری پریشانی کی کوئی ایک وجہ ہے ___؟

الف   :       مجھے لوگ ’’ ٹائپ ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اخبار والے، مصنّف اور ڈراما نگار اور واعظ اور نقّاد___ تم سمجھتے ہو، میں ٹائپ ہوں ؟ کمزور، بزدل، ڈرپوک، ہوشیار، چالاک، سمجھ دار، کامیاب انسان۔ جس نے نوجوانی میں خواب دیکھے اور دھکّے کھانے کے بعد صراط مستقیم پکڑی اور جسے اب بھی چین نہیں۔ کیونکہ اب اس کا ہاضمہ خراب ہے اور مستقل اکتاتا ہے اور عمر نکلتی جا رہی ہے۔ میں کیسا واہیات ’ٹائپ، ہوں۔

ب     :       تمہارے بغیر دنیا کی گزر نہیں۔ تم دنیا کی مشین کو چلاتے ہو۔

الف   :       میں ___؟ میں ___؟

ب     :       ہاں ___!

الف   :       لوگ جنہوں نے مجھے ٹائپ بنایا ہے کہتے ہیں کہ میں بے حس ہوں اور انسانیت کا مذاق اُڑاتا ہوں۔ اور جنگ میں میرا فائدہ ہے اور ___

ب     :       لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔

الف   :       کارخانوں سے لوگ خالی ناشتے دانوں کی میلی پوٹلیاں باندھے چیونٹوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ کلرکوں کی قطاریں سر جھکائے پیلی بار کول کے سامنے بسوں کے انتظار میں کھڑی ہیں۔ دو گھنٹے سے یہ سب اسی طرح کھڑے ہیں یہ گھر کیوں نہیں جاتے___؟ چائے خانوں میں دھواں بھرا ہے۔ فٹ پاتھ پر سونے والے جمع ہو رہے ہیں، شام ہو گئی۔

ب     :       اس وقت بھی لوگ مر رہے ہوں گے۔

الف   :       یقینا۔ ہر لحظہ، ہر سیکنڈ لوگ مرتے ہیں۔

ب     :       اور خود سے نہیں۔

الف   :       مولانا عبد المتین ندوی نے کہا ہے کہ سب مشیت ایزدی ہے۔

ب     :       کہ چند انسان دوسرے انسانوں کو ماریں یا ان کی موت کا حیلہ بنیں ؟

الف   :       سب اُس نیلی چھتری والے کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم بِنا پتّا نہیں ہل سکتا۔

ب     :       اور سناؤ۔ کیا حال چال ہیں ؟

الف   :       مجھے کچھ شکوک نے گھیرا ہے۔

ب     :       مکڑی بیٹھی جالا بُن رہی ہے۔ مکڑی بیٹھی جالا بُن رہی ہے۔

الف   :       اس مکڑی سے بچو؟

ب     :       ہاں۔ حالات اتنے خراب نہیں۔ ابھی تمہارے لیے بہت کچھ باقی ہے۔

الف   :       شاید۔ مگر میں بہت ناخوش ہوں۔ میرے آغاز میں میرا انجام ہے وغیرہ___

ب     :       بکو مت۔

الف   :       باغ میں دوسری آوازیں گونج رہی ہیں۔ کیا ہم ان کا تعاقب کریں ؟ جلدی کرو___ جلدی___ چڑیا نے کہا۔

ب     :       بکواس مت کرو!

الف   :       آگے بڑھومسافرو۔ تم جو سوچتے ہو کہ سفر میں ہو۔ تم وہ نہیں جس نے بندرگاہ کو نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھا۔ نہ تم وہ ہو جو دوسرے کنارے پر اُترو گے۔ یہاں اور دوسرے کنارے کے درمیان وقت معطل ہو چکا ہے!

ب     :       چپ رہو، اور باہر دیکھو۔ رات ہو رہی ہے۔

الف   :       لوگ گھروں کو جا رہے ہیں۔ سر جھکائے حسب معمول، یہ سر اٹھا کر کیوں نہیں چلتے؟ تمہارا مطلب ہے ان کی قسمت میں کوئی خوشی نہیں ؟ یہ یوں ہی جیے جائیں گے؟

ب     :       اور مرے جائیں گے۔

الف   :       تم نے پھر موت کا خیال دلا دیا۔ میں خود ہر گھڑی موت کو یاد کرتا ہوں میرا دماغ چکراتا ہے۔ میں اپنی رسّی کے آخری سرے پر ہوں۔ میرے آغاز میں ___

ب     :       مجھے تمہاری طرف سے فکر ہے۔

الف   :       مجھے ذرا ذرا سی بات پر غصہ آتا ہے اور غصّے کے لیے کیا کم باتیں ہیں۔ میرا خون کھولتا رہتا ہے۔ میں مجموعی طور پر زندگی سے بے زار ہوں !

ب:    تم کیوں نہیں مانتے کہ جو ہونا ہے وہی ہو گا۔

الف   :       یہ بے وقوفی کی بات ہے۔ جو ہونا ہے ظاہر ہے وہی ہو گا، اور کوئی بات ہونے والی ہو گی تو ظاہر ہے وہ کوئی اور بات ہو گی۔ وہ نہ ہو گی جو ہونی ہے ___!

ب     :       بے کار میں مٹیا فزیکل نہ بنو!

الف   :       تم سمجھتے ہو، دنیا کے مسائل اور پریشانی کی بنیادی وجہ نفسیاتی نہیں اقتصادی ہے؟

ب     :       پریس کی مشینیں گھڑ گھڑ چل رہی ہیں۔ خبریں بھیانک ہیں، اس لنگڑے اخبار فروش کو دیکھو جو دیوانوں کی طرح چلّا رہا ہے۔

الف   :       یہ سمبلز کی دنیا ہے۔ مجھے ہر شے میں کوئی نہ کوئی سمبل نظر آتا ہے۔ میں ہمہ وقت سطروں کے درمیان پڑھتا ہوں۔

ب     :       تم نے جو کچھ پڑھا ہے بھول جاؤ۔ ہمارے ماہرین تعلیم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تعلیم بے کار ہے۔

الف   :       وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہمیں کتابوں کے بجائے بندوقوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ قوم کے نونہالوں کو کتابوں کی جگہ بندوقیں دو___ تاکہ وہ مجاہد بنیں ___ مردِ مومن، شاہین۔

ب     :       تعلیم___ یہ سب غریبوں کی افیم ہے۔ غریبوں کو افیم مت دو ! اسے کھا کر ان کا دماغ چکرا جاتا ہے! ان کی عقل چرخ ہو جاتی ہے !!

الف   :       مگر یہ اتنا چلّاتے ہیں۔

ب     :       چلّانے دو۔ تم نے ان کُتّوں کو دیکھا ہے جو سرد راتوں میں چاند کے نیچے بیٹھ کر آسمان کی سمت منہ اٹھائے اٹھائے روتے ہیں ؟

الف   :       چاند کی تمنا میں ؟

ب     :       نہیں۔ ان کو محض سردی لگتی ہے!

الف   :       میرے دادا نواب بہادر جھپسٹ گڑھ کے پاس درجنوں ایک سے ایک اعلا شکاری کتّے تھے۔ آہ جب مجھے اپنے محل کا خیال آتا ہے جو میں وہاں چھوڑ آیا___

ب     :       بکو مت۔ اس من گھڑت محل سے چوگنے بڑے محلات تم یہاں بنوا چکے ہو۔ مگرمچھ کے آنسو مت بہاؤ___!

(الف : کیا تم مجھے تھوڑی سی جذباتی عیاشی نہ کرنے دو گے؟

ب     :       تم کو کسی بات کا غم نہ ہونا چاہیے۔ تم نے ایک ایسی دنیا بنائی ہے جس میں بچّے بھیک مانگتے ہیں اور نوجوان عورتوں کی عزت محفوظ نہیں، اور نوجوان لڑکے ٹی۔ بی میں مبتلا ہیں ___ اور ___

الف   :       یہ دنیا ہمیشہ سے تھی۔ میں نے اس میں محض چند کلی پھندنے لگا دیئے ہیں ایسی الٹرا ماڈرن طرز تعمیر کی کوٹھیاں، ایسے کلب، ایسے جشن پہلے تم نے کبھی خواب میں بھی دیکھے تھے___؟ اور طویل موٹروں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر___!

ب     :       بیس سال پہلے ایک اسپین تھا۔ آج چاروں طرف اسپین ہیں۔

الف   :       میرا ایک عزیز دوست بھی اس زمانے میں کیمبرج میں پڑھتا تھا۔ لڑنے گیا تھا۔ لیکن اب تو اسے غائب ہوئے بھی زمانہ گزر گیا۔

ب     :       اب ہنسی اور آنسو دونوں بے کار ہیں۔ ہر چیز کا سمے بیت چکا ہے۔

الف   :       سنا ہے کلچر میں بڑی طاقت ہے۔ وہ ہمیں بچا لے گی۔ آج کل اس کا بڑا چرچا ہے۔ اس میں کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔

ب     :       یورپ میں گوتھک اور بروک کیتھڈول بمباری کا نشانہ بن گئے۔

الف   :       اصول کیا شے ہے۔ اصول کون طے کرے گا؟

ب     :       یہ سوال کسی وید انیتسٹ سے کرو کہ کون کس کا فیصلہ کرے گا۔ مگر الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو چلا ہے!

الف   :       میں فیصلوں سے ڈرتا ہوں۔

ب     :       تم اپنے سے کمزوروں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہو۔

الف   :       اور مجھ سے زیادہ طاقت ور میری قسمت کا فیصلے کرتے ہیں۔

ب     :       ایک وقت تھا کہ زندگی آسان تھی۔ گو ایک حد تک پراونشل تھی۔

الف   :       ہاں، زندگی میں الجھنیں نہ تھیں اور سیاسی حد بندیاں، مجھے وہ زمانہ یاد ہے، جب ۲؍ ستمبر ۱۹۳۹ء تک ___ ہانگ کانگ سے ٹرین میں بیٹھو تو وہی ٹرین سیدھی لندن پہنچا دیتی تھی۔ زندگی آسان تھی۔

ب     :       ہاں ! ___ تب ہر شے اپنی اصلیت سے سوگنا بڑھی نہ ہوئی تھی___ لوگ جن کا ذہن سیکڑوں سے آگے نہ پہنچ سکتا تھا، اب لاکھوں اور کروڑوں کے وارے نیارے کرتے ہیں۔ اب ہر شے انلارجڈ ہے اور آؤٹ آف فوکس، شہر جل رہے ہیں۔ کھیتوں میں آگ لگی ہے۔ مگر کسی کو نہ شعلے نظر آتے ہیں، نہ دھواں۔

الف   :       اب کیا ہو گا؟

ب     :       پانسے تیار ہیں اور پھینکے جانے والے ہیں۔

الف   :       بارود کے دھوئیں سے میرا دم گھٹا جا رہا ہے۔ مجھے ہر شے میں بارود کی مہک آ رہی ہے!

ب     :       ہیومینسٹ، کویکر، ویداینتسٹ، تھیوسوفسٹ، برطانوی لبرل، لفٹ ونگ انٹلکچوئیل، امن پرست، روشن خیال مولانا جو روس میں اسلام پر مضمون لکھتے ہیں، اسکول ٹیچر، نفسیات کے ڈاکٹر، یونی ورسٹی کے پروفیسر جو کم تنخواہیں لے کر علم اوڑھتے بچھاتے اسی طمانیت میں زندگیاں ختم کر دیتے ہیں کہ وہ غالباً نوبل پروفیشن میں تھے، اور وہ جن کو (چونکہ انہوں نے ہائیڈروجن بم کے خلاف احتجاج کیا) سنکی اور ہم سفر اور دشمن کے ایجنٹ اور مفسد سمجھا گیا اور بوڑھے یہودی سائنس دان، اور بوڑھا مسلمان عالم جو قوم پرست ہے اور اعظم گڑھ میں، یا بہرائچ میں، یا گورکھ پور میں چپ چاپ بیٹھا ہے، اور عورتیں جن کے لڑکے ___

کوریا میں

ڈین بین پھو میں

کینیا میں

ملایا میں

انڈونیشیا میں

اسرائیل اور اردن اور لبنان اور شام اور مصر اور ہندستان اور پاکستان کی سرحدوں پر

الجزائر میں

مراقش میں

سرماندی کے کنارے

مارے گئے اور مارے جا رہے ہیں۔ ہر لحظہ، ہر منٹ، صبح، شام اور ان سب نے نعرے لگائے تھے کہ انہیں امن چاہیے۔ کیوں کہ جب یورپ کی جنگ ختم ہوئی، جس میں آج مرنے والے لڑکوں کے باپ موت کے گھاٹ اترے تھے، اس وقت ان کی ماؤں سے کہا گیا تھا کہ تم نے دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے یہ قربانی دی ہے۔ تاکہ تمہارے بچّے امن کی دنیا میں زندہ سلامت رہیں۔

الف   :       تم مجھ کو یہ سب کیوں سنا رہے ہو؟

ب     :       اور یہ بچے بڑے نہ ہونے پائے تھے کہ کٹ بیگ کاندھوں پر لاد، مارچ کرتے نئی خندقوں کی طرف چل پڑے اور گو اس وقت آفیشیل طور پر دنیا میں کوئی جنگ جاری نہیں ہے اور خوب صورت تھائی، اور جاپانی اور فرنچ اور پاکستانی اور ہندستانی گائڈ لڑکیاں نیو یارک میں یو، این کی عمارت کی سیاحوں کو سیر کرا رہی ہیں۔

الف   :       سڑکیں جگمگا اٹھیں۔ کاریں، بد وضع ہیبت ناک بسیں، موٹر رکشائیں، گرمی حبس، نئے دولت مندوں کی طمانیت، فیشن ایبل شاپنگ سنٹر، کے سیکنڈ ریٹ ماحول میں دم گھٹا جا رہا ہے۔ سنیماؤں پر میری لین مزوؔ کے قد آدم مجسمے سب سے بلند تر ہیں۔ سیاہ فام مکرانی اور گوانی لڑکے جنیز پہنے روک اینڈ رول کی دھنیں گنگنا رہے ہیں۔ بیگمات نے خوب صورت سوتی ساڑیاں پہننا شروع کر دی ہیں جو وہ ’’ انڈیا‘‘ سے خرید کر لاتی ہیں۔ بالوں کے ’پونی ٹیل، بنائے شلواروں پر نیچی نیچی قمیصیں پہنے لڑکیاں سبزے پر بیٹھی کیا سوچتی ہیں ( اگر وہ کچھ سوچتی ہیں ) میں ان کے خیالات کے لیے ایک پینی دوں گا___ !

ب     :       لا تعلق رہو۔ تجرید اصل شے ہے۔ تمہیں بیان میں جذباتی نہ ہونا چاہیے۔

الف   :       دنیا کی گاڑی اب چلائی نہیں جاتی ہے۔ دنیا چاروں طرف سے ٹوٹ ٹوٹ کر میرے اِرد گرد گر رہی ہے۔

ب     :       ہر وہ چیز جسے ہم بچپن سے غلط سمجھتے آئے تھے، صحیح ثابت کر دی گئی ہے صحیح غلط ہے اور غلط صحیح___ جیو ہتھیا مہا پاپ نہیں ہے۔ اسی کے ذریعے ملکوں کے نقشے بدلے جاتے ہیں۔ سرحدوں کی لکیریں بہت اہم ہیں۔ آدمی کی ان لکیروں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں، اور مارو___ مزید آدمیوں کو مارو ___ مارو___ !

الف   :       کیا ہوا۔ کہیں بلوہ ہو گیا___ غنڈہ گردی ___ پولس کو فون کرو___ یا ممکن ہے ڈاکو گھس آئے ہوں۔ یہ شہر مشرق کا سب سے کرپٹ، دار السلطنت ہے۔ اسے مشرقی کا شکا گو ہونے کا فخر حاصل ہونے والا ہے۔ غیر ملکی جرنلسٹوں کو بلاؤ، تاکہ میں ایک بیان دوں !

ب     :       جان جبرلڈ ایمبل اسٹین فرڈ کا کھلاڑی، فلاڈلفیا میں ایریا ٹریننگ لے کر پہنچا اب اس کو سب معلوم تھا۔ افغانوں کے رسم و رواج۔ ریاست چترال کا بجٹ، چاٹگام کی ٹریڈ یونینوں کا احوال، سندھ کے ہاریوں کی کہانی اور پیلیس پالٹیکس کی ساری تفصیلات اسے از بر تھیں۔ بہ الفاظِ دیگر وہ بڑا جیدّ قسم کا مڈل ایسٹ ایکسپرٹ تھا۔ اس نے میرا امتحان لینا چاہا۔ اس نے سوال کیا ___ ہنگری کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ الجزائر کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ___؟ میں نے جواباً پوچھا۔

ڈاکٹر عقاب آفاقی آٹھویں صدی کی فقہ پر ریسرچ کر کے اوکسفرڈ سے لوٹا ___ تم تم کھوکھلے انسان ہو ___ تم سب جو اکٹھے ہو کر روتے ہو ___ کیا تم کو نہیں معلوم کہ اسلام میں سارے دکھوں کا علاج موجود ہے___؟

لہٰذا میں نے جماعت اسلامی کا ایک مصوّر رسالہ پڑھنا شروع کیا۔ مگر غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ اسے کامریڈ صفت حسن ایڈٹ کرتے ہیں تاکہ انقلاب اسلام کے راستے داخل ہو۔ مجبوری سب کچھ کروا دیتی ہے!

الف   :       مجھ میں اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ میں دنیا کے معاملات میں کروڑوں انسانوں کی زندگیاں سنوارنے بگاڑنے میں اخلاقی اور سماجی اور مذہبی تصورات گھڑنے میں دخل دوں۔ انتہائی آفاقی اہمیت کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑاؤں۔ میں نے یہ سب کس طرح کیا۔ میں صرف ذاتی نفع چاہتا تھا۔ اور نام و نمود۔ کیونکہ انسان اگر اقتدار حاصل کرنے سے خائف ہے تو اسے چاہیے کہ سر گھٹا کر سادھو بن جائے۔ اقتدار، استحکام، طاقت، ضابطہ، نظام، ضمیر، اصول ___ یہ الفاظ میرے سامنے سے ہٹاؤ ___ مجھے صرف بادل چاہیں اور پتّوں کی سر سراہٹ!

ب     :       مگر پانسا پھینکا جا چکا۔ اقتدار تمہارے حصّے میں آیا ہے۔ تم طاقت ور ہو، اور تمہاری طاقت دوسروں کے لیے، ہر انسان کے لیے نقصان دہ ہے سوا تمہارے ___ اس وقت جو تم یہاں بیٹھے ہو اور سامنے سبزے پر لڑکیاں ہنس رہی ہیں اور بچّے کھیل رہے ہیں اور موسیقی بج رہی ہے۔ عین اسی منٹ تمہاری وجہ سے صحراؤں میں اور جنگلوں میں اور بستیوں میں بارود کے گولے پھٹ رہے ہیں اور انسانی جسموں کے پرخچے اُڑ رہے ہیں ___!

الف   :       یہ منظر کشی کر کے مجھے دھمکانے کی کوشش مت کرو۔

ب     :       میرے سامنے ایک پولس افسر آتا ہے جو پچھلے اتوار کو موں مارترؔ کے کیفے میں بیٹھا سارتر پڑھ رہا تھا اور آزادی کا حامی تھا۔

الف   :       اب میں بھی دیکھ رہا ہوں ___ وہ حکم دیتا ہے کہ اپنے کپڑے اُتار دو___

ب     :       اور وہ اپنے کپڑے اُتار دیتی ہے۔(الجزائر میں ہر فرانسیسی فوجی یا پولس افسر الجیرین عورت کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ اپنے سارے کپڑے اتار کر ثابت کرے کہ اس نے اسلحہ یا بم نہیں چھپائے ہیں )

ابھی بیگمات دوسرا رقص کریں گی۔ سا زندوں سے کہو۔ ارتھا کٹ کا کوئی نغمہ بجائیں۔ یا سیمباؔ ___ بیگم صاحبہ کے لیے ایک شیریؔ۔

الف   :       عبدلؔ تم آ گئے ___ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ مجھے بُرے بُرے خواب دکھلائی دیتے ہیں۔ ہول آتا ہے ___ عبدلؔ کیا یہ بھی روایت ہے کہ تمہارے دم سے اولڈ آرڈر قائم ہے؟ جیسے یہ روایت ہے کہ کسان آزاد اور خوش باش ہیں۔ طالب علم مفلس اور ذہین___ لڑکیاں با عصمت اور وفادار۔ میں تمہارے چہرے پر جھرّیاں دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری داڑھی بالکل سفید ہو گئی ہے۔ کیا تم کو بخشش کم ملتی ہے حالانکہ تمہارے نئے امریکن صاحب لوگ تمہارے پرانے انگریز صاحب لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دریا دل ہیں ___ کیا یہ بھی ایک روایت ہے___؟

ب     :       سایے کی طرح چلتا ہوا عبدل بیگم صاحبہ کے لیے ڈرائی مارٹینی لینے چلا گیا۔ پینٹری میں جا کر وہ اپنے آب دار سے کہے گا کہ بڑے صاحب آج معمول سے زیادہ اُداس ہیں !

الف   :       ___جب میں باتیں کرتا ہوں مجھے لگتا ہے، میں کسی مردہ زبان میں بول رہا ہوں۔ لوگ مجھے سمجھ نہیں سکتے۔ سنسکرت، یا پہلوی، یا لاطینی الفاظ کے معنی بدل گئے ہیں۔

ب     :       والنس بیگم صاحبہ کا پسندیدہ رقص ہے۔ آج کل لوگ سوائے اور تھری ہنڈرڈ میں کون سا ناچ ناچ رہے ہیں ؟

الف   :       بہت سے لوگ ہیں (اور تمہیں پتا ہے کہ کون) جن کو نہ میری طرح ڈراونے خواب آتے ہیں نہ جن کا دل ہولتا ہے۔ حالانکہ وہ بھی وہی سب کر رہے ہیں جو میں کرتا ہوں۔ تمہارا خیال ہے یہ محض اوور ورک کا نتیجہ ہے۔

ب     :       بیگم صاحبہ کو ایک اور ڈرائی مارٹینی دو۔

الف   :       غدّار اور جاسوس اور مجرم اور قاتل اور جیلر اور پھانسی کی رسّی اور کوٹھری کی سلاخیں اور بے عزتی کی زندگی، اور بے عزتی کی موت اور جگ ہنسائی اور رسوائی اور اس طرح کے تصوّرات کا گویا ایک بیلے ہے جو رات کو دیوار پر میرے سامنے ہوتا ہے۔ اتنے قتل ہوئے ___ اتنوں پر مقدمہ چلا۔ کس کو گھوس دی۔ کس نے کون سا جال پھیلایا۔ جج رشوت کھا گیا۔ وکیل قتل کر دیا گیا۔ غلط آدمی کو جیل ہو گئی۔ مجرم ولایت سے نئی کار خرید لایا۔ علیٰ ہذا القیاس میرے دماغ میں ہر وقت سنسنی خیز اخبار چھپتے رہتے ہیں۔ میرے ذہن کی ٹیلیکس پر عجیب عجیب خبریں آتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے حفاظت کہیں نہیں ہے۔ میں ہمہ وقت خطرے میں ہوں۔ مکانات، روپیا، شہرت، عزت، تجربے سب لا یعنی ہیں۔ خصوصاً ذاتی جائیداد یعنی پرائیوٹ پراپرٹی بالکل پانی کا بلبلا سمجھو اسے۔ نہ جانے کس وقت میں مر جاؤں اور یہ سب دھرا رہ جائے کس وقت، میں زندہ ہی ہوں مگر میرے ہاتھوں سے یہ سب نکل جائے۔ بڑا دل دہلتا ہے۔ حفاظت نہیں ہے۔

ب     :       آبادیوں کی آبادیاں، ملک کے ملک کنسنٹریشن کیمپوں میں تبدیل کر دیئے گئے۔ پہلے ایک بیلسن تھا اب ہر طرف بیلسنؔ ہیں۔

الف   :       میں تو صرف اتنا چاہتا تھا کہ جب میں جانے لگوں تو طمانیت کے ساتھ اتنا کہہ سکوں کہ شکریہ دنیا والو، میں ایک اچھی دعوت میں آیا تھا۔ شکریہ ___!

ب     :       ان لوگوں سے کہو جو سال کے سال، سالِ نو کی مبارک باد کے کارڈ تیار کرتے ہیں کہ ایک بڑا الاؤ بناؤ اور ساری تہنیتیں، ریاکاری کی ساری، بہترین خواہشوں ‘‘ سمیت اس الاؤ میں جھونک دو۔

الف   :       اس کھڑکی میں سے جھانکتا میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں، آج کی رات میں یہ ہوں۔

ب     :       بہت سے لوگ تاریخ کی باتیں کرتے ہیں اور فلسفے کی اور اخلاقیات اور مذہب کی اور میں ان کو حیرت سے دیکھتا ہوں۔

الف   :       عمر، خالد، طارق، اور نگ زیب، ٹیپو، سراج الدولہ، سید احمد، جمال الدین، سرسید، شہزادہ علی خاں، بادشاہی مسجد، شالیمار باغ، ملتان کے مقبرے، مغل شہنشاہ، مزید مسجدیں، اسلام اسلام اسلام۔

ب     :       بیگم صاحبہ فرانس سے انٹیرئیرڈیکوریشن میں ڈگری لے کر آئی ہیں۔ پھولوں کی آرایش کے فن پر ان کا مطالعہ وسیع ہے۔

الف   :       اپنی حماقتوں کو اپنی ڈھال اپنا علم اپنا نقارہ بنا کر میں (اور ہم سب، تم جانتے ہو کہ کون) مارچ کر رہا ہوں۔ لفٹ رائٹ یہاں تک کہ مجھے خود یقین ہو چلا ہے کہ میں دنیا کا اہم ترین، عقل مند ترین انسان ہوں۔ میں باقی دنیا پر فیصلے صادر کرتا ہوں۔ میری رائے حرف آخر ہے۔ کون ہے جو میرے منہ آئے۔ تاریخ کے اہم فیصلے ہمیشہ احمقوں نے کیے ہیں۔

ب     :       بیگم صاحبہ آپ کو شاعری سے دل چسپی ہے؟ خوب۔ آئیے میں آپ کو چند اشعار سناؤں۔ پسند نہ آئیں تو تکلفاً تعریف نہ کیجئے گا۔ کیونکہ اشعار میرے نہیں۔ بیگم صاحبہ!

جہاں الفاظ پھنکارتے ہوئے ناگ ہیں یا مکھّیاں جو مسجد مندر اور مردہ گھروں میں بھنبھناتے ہوئے، انسانوں کی غلطی سے دیوانہ وار

اپنا پیٹ بھرتی ہیں

لیکن پھر بھی ہر لاش ابدی ہے

جہاں بڑکا درخت اپنے بچوں کی قسمت پر رو رہا ہے___

اور فٹ پاتھوں پر خون اور زخموں کے پھول کھلتے ہیں

چنانچہ بدھ ستو پوں اور مغل مقبروں اور مدراؤں، اور ساریوں اور مقدس صحیفوں کے منتروں میں چھپے ہوئے سارے حسن کے باوجود جو روح کی تاریک رات کو روشن کرتا ہے

ابخرات کے اس مہلک بھنور میں ہماری مختصر سی رات کو جگہ نہ مل سکی۔

یہ بھنور جہاں جیتے ہوئے، مسکراتے ہوئے،

مارتے اور مرتے ہوئے،

ان کی زندگی کی تمنا موت کی تمنا سے تقریباً ہم کنار رہتی ہے۔

اور یہ سارا رنگ دبو ایک مسلسل بے کیفی میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں نہ عود سلگتا ہے

نہ کنول کھلتے ہیں۔

یہ حقیقت تھی جسے اب ہم نے دیکھا۔

یہ قیامت تھی۔ اس تاریخ غار میں جو کیڑے رینگ رہے ہیں وہ ہم ہیں۔

ہم ہمیشہ تھے۔

اور ہم نے ہمیشہ آلتی پالتی مار کر صرف ماور ا پر دھیان کیا۔

لیکن اب یہ منظر ہمارے بہت قریب ہے۔ ہمارے سامنے ہے۔

الف   :       تم نے بیگم صاحبہ کی طبعیت مکدّر کر دی۔ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟ کیا تمہیں خوف ِ خدا نہیں، کیا تم یہ نہیں جانتے کہ تم اپنے حق میں کانٹے بو رہے ہو، اور سب دروازے تم پر بند ہو جائیں گے؟ تم جو اس ڈرامے میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہو جو ہم زرتار شامیانوں کے نیچے ایک بہت بڑی بھیڑیا دھسان خلقت کی خاطر اسٹیج کر رہے ہیں۔ اتنے سارے اسٹیج ہم نے بنائے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ ہے۔ یہ یونی ورسٹیاں ہیں۔ یہ کابینہ ہے۔ یہ عدالتیں ہیں، ہم نے اگر یہ ڈراما کامیابی سے نہ کھیلا تو ہماری بھیڑیا دھسان خلقت کا دل ٹوٹ جائے گا اور وہ چونّی واپس کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ ابھی سے وہ اکثر وقتاً فوقتاً ہوٹنگ کرنے لگی ہے۔ تم اگر ہمارے ساتھ شامل ہو گے تو تم پہ چوکسی سے نگرانی کی جائے گا شاید تم کو معلوم نہیں کہ میں ہی تمہارا جج ہوں، میں ہی گواہ۔ میں تم کوکسی لمحے بھی مجرم ثابت کرسکتا ہوں۔ اب دودھ کا دودھ، پانی کا پانی الگ ہو چکا ہے۔ میرے ہاتھ میں ترازو ہے۔ میں ہمہ وقت فیصلے صادر کر رہا ہوں۔ منتظر رہو، نہ جانے کس وقت جلّاد آ کر تمہارا دروازہ کھٹکھٹائے۔ وقت بہت کم ہے۔ جو کچھ کہنا ہے کہہ لو، تم دنیا کے نام کوئی پیغام کوئی وصیت چھوڑنا چاہتے ہو؟ عنقریب تمہارا ہم سب کا خاتمہ ہے۔

ب     :       مائی لارڈ۔ آپ کو جج کس نے مقرر کیا ہے اور آخری فیصلہ کس کی عدالت سے ہو گا؟

الف   :       خود میں نے۔ اور آخری عدالت بھی میں ہی ہوں گا۔ خود کو زہ و خود کوزہ گرد خود گلِ کوزہ ___ میں سب کچھ ہوں اور ارجن میرے مظاہر بے کراں ہیں ___ میں ایمان دار ہوں۔ تمہارے ایمان میں فتور ہے۔ میں محب وطن ہوں۔ ملک کے لیے کٹ مروں گا۔ خون کا آخری قطرہ سب سے پہلے میں ہی بہاؤں گا۔ تم غدّار ہو۔ میرے آدرش بلند ہیں۔ تم کمینے ہو۔ مجھے حق ہے کہ میں آرام و آسائش سے رہوں۔ کیوں کہ میرے کاندھوں پر بڑی عظیم ذمہ داریاں ہیں۔ یہ زمینیں، یہ دریا، یہ وادیاں یہ پہاڑ، یہ کھیت، یہ باغات، یہ شاہراہیں، یہ کارخانے، یہ بازار، یہ کھلیان، یہ کوٹھیاں، یہ بنکوں کی عمارات، یہ سب میری ہیں۔ میں ان کا اصل مالک اور حق دار ہوں۔ مجھے غصہ نہ دلاؤ ورنہ میں تم کو ___ میں تم کو ___ اوہ ___ میں کہتا ہوں تم اپنی اوقات کیوں بھول گئے۔ واپس جاؤ ___ نیچے اترو___ اور نیچے___ وہی جگہ تمہاری ہے۔ یہ محلے، یہ کوٹھریوں کی قطاریں، یہ بستیاں، یہ ٹاٹ اور چٹائیوں اور بانسوں اور ٹوٹی کھٹیوں کے انبار___ کیا یہ سب تمہارے لیے کافی نہیں ___؟ اور تم کیا چاہتے ہو گورنمنٹ ہاؤس میں رہو گے؟ کیا گورنمنٹ ہاؤس تمہارے باپ کا ہے؟ گورنمنٹ ہاؤس میرے باپ کا ہے___ !

ب     :       میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو فوج میں لفٹیننٹ کرنل ہے لیکن ولی اللہ ہو گیا ہے___!

الف   :       اچھا ___؟

ب     :       ہاں !___ اور وہ کہتا ہے کہ تصوّف کی، یاجو کچھ بھی وہ ہوتا ہے، اس کی ساری منازل طے کر چکا ہوں۔ اس کا قول ہے کہ وہ پچھلے پندرہ سال سے رات کو نہیں سویا۔ اور رات بھر جاگتا ہے۔ یعنی عابد شب زندہ دار ہے۔ پورا پرم ہنس سمجھو اُسے___ اور اب اس میں اتنی طاقت ہے کہ اپنی چشم باطن کے ذریعے انسانوں کی جو اصلیت ہے اسے دیکھ لیتا ہے یعنی کسی میس کی بار میں جاتا ہے تو اسے اسٹولوں پر سور اور گھوڑے اور خچّر اور چوہے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ڈرائنگ روم کے صوفوں پر اسے بکریاں اور بلّیاں اور گدّھیاں اور ہتھنیاں اور سیار دکھلائی دیتے ہیں۔

الف   :       اللہ اکبر ___ کیسا قیامت خیز تصور ہے !

ب     :       جب وہ مجھ سے بات کرتا ہے تو اسے میری ظاہری انسانی شکل کے بجائے میری اصل صورت نظر آتی ہے۔ گو اس نے مجھے آج تک بتایا نہیں کہ یہ کیسی صورت ہے۔

الف   :       حد ہے۔ ہماری فوج کی یہ حالت ہو گئی ___ ؟

ب     :       ہاں۔ صوفی اور ولی اللہ تو ہر جگہ پیدا ہوتے آئے ہیں۔

الف   :       میں اپنے آپ کو گیدڑ سمجھتا ہوں۔

ب     :       میں تم کو گدھ کہوں گا جو ڈریس سوٹ پہنے ایک لمبی سی شاہ بلوط کی ڈائننگ ٹیبل کے سرے پربیٹھا اونگھ رہا ہے اور منتظر ہے اور اس کے پنجوں میں ___

الف   :       تشبیہ کو آگے نہ لے جاؤ۔ ورنہ میرے وحشت ناک خوابوں میں اضافہ ہو گا۔

ب     :       سارا ملک پارسیوں کا ایک عظیم الشان، وسیع، لق و دق برج خموشاں ہے نیچے چونے اور تیزاب کا کھڈ ہے اور ہماری لاشیں پٹاپٹ اس میں گر رہی ہیں اور ہم اس کھاد میں تبدیل ہو رہے ہیں جس سے تمہارے لان کی مٹّی کو زر خیز کیا جائے گا۔ تم مجھے اس آتش پرست پروہت کی مانند نظر آتے ہو جو سر تا پا سفید کپڑوں میں ملبوس میری لاش پر وہی لگا رہا ہے۔ میری لاش تو ایسی ہے کہ کتّا بھی اُسے سونگھ کر چھوڑ دے۔

الف   :       بڑا زبردست جھکڑ چل رہا ہے۔ زرد اور سرخ اور سیاہ ریت میں میری آنکھوں میں جا گھسی ہے۔ میرا دماغ اب کام نہیں کرتا ___ کوئی ہے جو آ کر مجھے بچائے۔

ب     :       ہم ایک ایسی دنیا میں زندہ ہیں جس میں ہر شخص ایک دوسرے پر جاسوسی کر رہا ہے۔ دوست دوست پر، افسر ماتحت پر، بھائی بھائی پر، تم کس کو مدد کے لیے پکارو گے؟

الف   :       جہاں ہم اور تم وقت میں خیمہ زن ہیں اور بڑی بھاری سیاہ آندھی اٹھی ہے اور بگولے چکّر کاٹ رہے ہیں ___ تمہیں پتا ہے میں نے ایک زمانے میں خواب دیکھے تھے۔ مدّتوں چپکے چپکے دیکھا کیا۔

ب     :       پتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے اپنے خوابوں کو یوں ہی کھو جانے دیا ہے۔

الف   :       جنگل کی طرف ایک پہاڑی راستہ جاتا ہے۔ دونوں طرف دیواروں کی گھاٹیاں ہیں جن پر نیلا کہرا منڈلا رہا ہے اور سرخ مکانوں کی چھتیں، اور بارش سے بھیگے ہوئے پتھر پر ایک بڑھیا بیٹھی ہے۔ وہ راہ گیروں کو خاموشی سے دیکھتی ہے۔ ایک اسکول کا لڑکا نیلے موزے پہنے بھاری بستہ پیٹھ پر لادے سیٹی بجاتا، سیب کھاتا چڑھائی پر چڑھ رہا ہے ___ معصوم ___ بھولا بھالا___ بارہ سالہ لڑکا___ میں اکثر جاگتے میں وہاں واپس جانا چاہتا ہوں۔

ب     :       دیواروں کے پیچھے تارا ہال ہے۔ چاروں طرف کوہستانی گلاب مہک رہے ہیں۔ رات گئے میں انجانی موسیقی سننے کے لیے پچھلے برآمدے کی سیڑھیوں پر کھڑا ہوں۔ جو بٹاویاؔ کے ریڈیواسٹیشن سے آ رہی ہے۔ یہ ۳۷ ء ہے۔ میں متحیر ہوں آسمان پر تارے کھلے ہیں۔ ہوا میں پہاڑی صندل کی مہک ہے۔ مجھے بھی نہیں معلوم کہ ابھی مجھے دنیا میں کیا کیا جھیلنا ہے___ میں وشوا بھارتی جانا چاہتا ہوں۔ میں صرف وشوا بھارتی جانا چاہتا ہوں۔

الف   :       اب میرا خواب سنو___ ! مگر رہنے دو، سب بے کار ہے۔

الف اور ب:   (اکٹھے ) ہم مجرم ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے خواب کھو جانے دیئے۔

الف   :       تم کو یہ حق کس طرح پہنچتا تھا کہ تم دوسروں سے کہو کہ اس طرح کے خواب دیکھو، اس طرح کے نہیں !

ب     :       اب میری مدد کے لیے کون آئے گا؟

ب     :       مجھے معلوم نہیں۔

الف   :       میں اور تم دونوں ایک دوسرے کے جاسوس ہیں۔ ہم دو سانپ ہیں۔ ہم دو بچھّو ہیں۔ ہم دونوں دو قسم کے کتّے ہیں۔ ایک کوکر اسپنیل رونٹیک، اداس آنکھیں نیم وا کیے صوفے پر بیٹھا ہے۔ دوسرا گلی کا کتّا سڑک کے کنارے بھوک سے بلبلا رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وقت مقررہ پر ہڈّیاں ایک کے آگے ڈال دی جاتی ہیں۔ دوسرا اسی طرح بلبلاتا رہتا ہے۔

ب     :       بیگم صاحبہ آپ کو ارتھا کٹؔ کی آواز پسند آئی؟

الف   :       جھکّڑ تیز ہو گیا ہے۔ اب تو کان پڑے آواز نہیں سنائی دیتی۔ عجیب عجیب شکلوں کے لوگ جن کے منہ کالے ٹوپ میں چھپے ہیں اور مجھے اچھی طرح نظر نہیں آتے ہیں بگولوں پر چڑیلوں کی طرح سوار چکر کاٹ رہے ہیں۔

ب     :       میں ان کو پہچانتا ہوں ___ تمہیں بھی ان کو پہچاننا چاہیے۔

الف   :       ہاں ! میرے سامنے حُسین فاطمی اور ہنگری والے اور اخوان المسلمین والے اور بے شمار چینی، اور روسی اور جاپانی اور حبشی اور کورین اور ملایائی اور جانے کون کون ایک قطار میں رسیوں سے لٹک رہے ہیں اور جھگڑ میں ان کی ٹانگیں ہل رہی ہیں۔

ب     :       حُسین فاطمی بڑا وجیہہ نوجوان تھا۔

الف   :       ہاں ! مجھے وہ نظر آ رہا ہے۔ وہ تو مسکراتا ہے۔ مجھے اس کی مسکراہٹ سے ڈر لگ رہا ہے۔

ب     :       کیا ہنگری والا بھی مسکرا رہا ہے؟

الف   :       ہاں ! اور باقی سب قہقہے لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ مارے جانے پر اس قدر خوش کیوں ہیں ؟

ب     :       یہ تم نہیں سمجھ سکتے۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے خوابوں کو کھونے نہیں دیا۔

الف   :       میں جانتا ہوں۔ اب میں کسے بلاؤں گا جو مجھے ان ہولناک تصورات سے نجات دلائے گا___؟

عبد لؔ ___ عبدلؔ ___ عبدلؔ___!

ب     :       ینگِ جمی بھی ٹینس کورٹ سے واپس آ گیا ہے۔

الف   :       ہائی ___ جمیؔ___ عبد لؔ۔ صاحب کے لیے ایک ڈرائی مارٹینی ہے۔

پردہ

٭٭٭

 

 

 

رام یہ کیسا گورکھ دھندا ہے

 

پھر شیشے کا بڑا دروازہ کھلا اور اس میں سے جو لوگ اندر آ رہت تھے اور باہر جا رہے تھے ان میں چمپا بھی تھی اس نے مجھے دیکھا اور میری میز پر آ کر بیٹھ گئی۔ ہلو…اس نے کہا۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔ یہ کون لوگ ہیں، یہ کون جگہ ہے۔ کتنے برس بیت رہے ہیں۔ میں نے سوچا اور سوچتے ہوئے مجھے ڈر لگا۔ زمانہ بہے جا رہا ہے۔ چمپا باجی میرے سامنے موجود ہیں، ان کے بال بھی وہی ہیں۔ انہوں نے ساری بھی اسی انداز سے پہنی ہے۔ وقت کا الاؤ جو جل رہا ہے۔ اس کی لپٹوں کی روشنی میں وہ بڑی نکھری ہوئی دکھلائی دے رہی ہے۔ اور مجھے یہ بھی احساس ہوا ہے کہ اس کو دیکھ کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ کوئی رنج بھی نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہ میں اب یہاں سے اٹھ کر بھاگنا چاہتا ہوں۔ شمیم نے مجھے فون کیا تھا کہ تم لوگ کل پرسوں جانے والے ہو۔ اچھا ہوا تم سے اس وقت ملنا ہو گیا۔ اپی کیسی ہیں ؟ شمیم میری بیوی کا نام ہے۔ چمپا باجی واقعہ یہ ہے کہ جس قدر اطمینان اور جس پرسکون انداز سے تم مجھ سے یہ باتیں کر رہی ہو۔ شمیم کی باتیں۔ اپی اور دوسرے دوستوں کے قصے۔ اور یہ کہ کل تم نے ایک بے حد دل چسپ سوئیڈش فلم دیکھا اور میں بھی تم سے دنیا جہان کی باتیں کر رہا ہوں۔ تم کو اپنے اور میرے اس کمینے پن پر ہنسی نہیں آتی۔ میں دل میں دعا مانگ رہا ہوں کہ تم کو یک لخت کوئی ضروری کام یاد آ جائے۔ اور تم اٹھ کر چلی جاؤ۔ مجھے تم سے مل کر خوشی نہیں ہوئی۔ میں صریحاً، مجھے ایسا سوچنا نہیں چاہئے۔ لیکن بور ہو رہا ہوں۔ میں کیا کرسکتا ہوں کہ تم چمپا ہو۔ تم دوبارہ دس پندرہ سال تک بھی نظر نہ آؤ گی تو مجھے فکر نہ ہو گی۔ پندرہ سال ہوئے میں تم کو بے بی کہتا تھا۔ اب تم تب سے بھی زیادہ خوب صورت نظر آ رہی ہو۔ زیادہ سمجھ دار، سنجیدہ، بردبار، اللہ جانے تم کیا کیا بن چکی ہو مجھ پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔میرا خیال تھا کہ تم مجھے بتاؤ گی کہ تم کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ تم کو اپنے لیے مسلسل جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ پر یہ سب تم نے نہ کہا۔ اپی نے لکھا تھا انھوں کسی ڈوکومنٹری فلم میں تم کو دیکھا تھا۔ پھر تم کسی فلم میں اپنی آواز اردو میں ڈب۔ کرنے کے لیے روم چلی گئی تھیں۔ پھر تم تو بے حد شگفتہ، بشاش معلوم ہوتی تھیں۔ مستقل ایک کے بعد ایک لطیفے سنائے چلی جا رہی تھیں۔ میں نے باقاعدہ بور ہونا شروع کیا۔ مجھے اپنی اس بے ہودگی پرسخت غصہ آ رہا تھا پھر میں بتاؤ تو سہی کہ کیا کرسکتا تھا۔

آسمان پر بادل گھر آئے تھے۔ اور ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ چمپا باجی سامنے کون سی فلم چل رہی ہے۔ میں نے گھڑی دیکھ کر کہا۔ میں گھر جانا چاہتا تھا۔ میں نے اس کو گھر مدعو نہیں کیا۔ بڑا جھنجھٹ ہے۔ میں نے دل میں سوچا۔ ہاں چلو دیکھ لیں۔ مجھے سات بجے تک یہاں اُجلا کا انتظار کرنا ہے۔ اس نے کہا پھر ہم سنیما ہال کے اندر چلے گئے۔ آدھی فلم دیکھ کر ہم دوبارہ باہر آئے۔ دو گھنٹے، تین گھنٹے، چار گھنٹے۔ کیا میری ساری شام اس طرح برباد ہو جائے گی۔ لوگ جو سنیماؤں سے باہر نکل رہے تھے۔ ان کے چہرے اداس تھے۔ اداسی سارے ماحول پر چھائی تھی۔ بارش تیزی سے برس رہی تھی۔ روشنیاں غمگین تھیں۔ موسیقی رو رہی تھی۔ سڑک پر موٹروں اور بسوں کے چلنے کی آواز میں پژمردگی تھی۔ وقت گھٹتا جا رہا تھا۔ شام کا اندھیرا سسکیاں بھر رہا تھا۔ بارش کی پھواروں میں چمپا کا چہرہ کنول کی طرح دمکتا رہا۔ وہ شیشے کی بڑی دیوار سے ناک چپکا کر کھڑی ہو گئی اور باہر کے ٹریفک کو دیکھتی رہی۔ میں بارش کے تھمنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تم چلے جاؤ۔

نہیں …، نہیں …، میں تم کو ٹرین تک پہنچا کر جاؤں گا۔ میں نے بڑی گرم جوشی سے کہا اس نے مطلق نوٹس نہ لیا۔ اور اب ایک پھول بیچنے والی بڑھیا سے باتیں کرنے لگی۔ اچھا تو میں تو شاید چل ہی دوں، میں نے غیر یقینی لہجے میں کہا۔

ہاں۔بالکل۔ کاہے اپنا رستہ کھوٹا کرتے ہو۔ شمیم سے کہنا مجھے فون کر لے۔

اب میں کبھی اس سے نہ ملوں گا۔ تم گھر نہیں چلو گی۔؟

میں نے اخلاق سے دریافت کیا۔

نہیں اس وقت تو مجھے جلدی ہے۔ اس نے کہا۔

اب میں نے اس کو بہت پیچھے کھڑا چھوڑ دیا ہے۔ میں گھر کی طرف جا رہا ہوں۔ وہی اس بے کراں اداسی، سناٹے کے اس پر شور بھنور میں اکیلی چپ چاپ شیشے کے دروازے کے پاس کھڑی رہ گئی ہے۔ وہ اور اُجلا ابھی اور دوسری باتیں کریں گی۔ قصے بیان ہوں گے۔ تازہ اسکینڈل، دوستوں کے لطیفے، دن بھر کے واقعات۔ چمپا باجی کی زندگی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ میں کیوں اس قدر تھک گیا ہوں۔ مجھے اب چپکا بیٹھا رہنے دو۔ ٹرین مضافات میں داخل ہو رہی تھی۔ کھڑکی میں سے ہوا کا جھونکا کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا۔ اس میں آم کے پتوں کی مہک تھی۔ اب میلوں دور تک عالم باغ کا سلسلہ پھیلتا چلا آ رہا تھا۔ بارش میں بھیگی ہوئی ان گنت ریل کی پٹریاں، ریلوے ورک شاپ، کنارے کنارے پر پھولوں میں چھپے ہوئے بنگلے، ان کے سامنے اینگلو انڈین بچے کھیل رہے تھے۔ پھر ٹرین آہستہ آہستہ عالم باغ کو پیچھے چھوڑتی ہوئی چار باغ جنکشن میں داخل ہوئی۔ اسٹیشن کی سنگ سرخ کی راج پوت مغل طرز کی سیکڑوں اونچی اونچی برجیوں، گنبدوں، میناروں اور شہ نشینوں والی بے تحاشا طویل و عریض عمارات جو کسی طرح بھی ریلوے اسٹیشن نہ معلوم ہوتی تھی۔ پلیٹ فارم کے شفاف سرمئی فرش پر لوگ نرم روی سے ادھر ادھر چلتے پھرتے تھے۔ چیخ پکار تھی۔ لیکن اس شور و شغف میں تیرتے ہوئے جو جملے اور فقرے کانوں میں آتے تھے۔ وہ سرشار نے اپنے ناولوں میں لکھے تھے۔ صبح صبح ہلکے خنک دھندلے میں سندیلے کا چھوٹا ساخوب صورت اسٹیشن آتا تھا۔ یہاں لڈو ہوتے ہیں۔ شنکر نے خیال ظاہر کیا اور اسی سمے ’’لڈو سنڈیلے والے‘‘ کی صدا سنائی دی۔ سرخ بجری والے پلیٹ فارم پر نستعلیق لوگ انگرکھے، دو پلی ٹوپیاں، سفید براق پاجامے، اجلی دھوتیاں پہنے ٹرین کے انتظار میں اطمینان سے ٹہلتے تھے۔ بے اندازہ اطمینان اور سکون۔ سرخ بجری اور سفید پھولوں سے گھرا ہوا اسٹیشن آم کے باغات، باریک سرخ کاغذ میں لپٹی مٹی کی ہانڈیوں میں رکھے ہوئے لڈو بیچنے والوں کی صدائیں۔

میں نے برتھ پر لیٹے۔ لیٹے ذرا سا سر اونچا کر کے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ پھر گھڑی پر نظر ڈالی۔ کیا وقت بھی یہاں دوبارہ واپس پہنچ کر اپنے مستقر پر آن کر ٹھہر گیا تھا، میں نے آنکھیں بند کر کے فضا کی مہک مکمل طرح اپنی ناک میں داخل کی۔ اوپر کی برتھ پر سے ’’شنکر نے آواز لگائی میں ذرا بھیرو کا ریاض کرنا چاہتا ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو۔

میاں تم کو کون روک سکتا ہے تم بھیرو چھوڑ…

آ…آ… رے…رے…دھاپا…گا…اوہو…ہو… جاگو… جاگو ارے بھائی جاگوموہن…اس نے دہاڑنا شروع کیا۔

لاحول ولا …کس قدر ایلی منٹری بھیرو…یہ والا بھجن تو فرسٹ ایئر میں سکھایاجاتا ہے۔ میں نے کروٹ بدل لی…اور دوسری بات یہ کہ میں ذرا چند لڈو کھانا چاہتا ہوں۔ میں نے اظہار خیال کیا…اے میاں …اے بھائی…جہنم میں جائے تمہارا ریاض…تم ذرا ایک دن مجھ سے اس کو بلمپت میں سننا…اے بھائی۔ میں نے آدھی بات شنکر سے کہنے کے بعد پھر لڈو والے کو آواز دی۔

کہئے مہربان…کھڑکی میں سے اندر جھانک کر لڈو والے نے نہایت شائستگی سے جواب دیا۔

جاگو…ہی ہی ہو…ارے کیا مرکیاں لیتا ہوں شنکر چنگھاڑتا رہا۔

ذرا دماغ پر زور ڈالو اور تصور کرو کہ برابر کے ڈبے میں سے تان پورے کی گونج کے ساتھ ایک مدھر آواز بلند ہو۔ ہو۔ہواگوال بال سب گئینئے چراوت۔اس نے انترہ اٹھایا۔

تمہرے درس کو بھوکے ٹھاڑے … میں نے غصے کے ساتھ گرج کر آواز ملائی۔ میاں شنکر یہ باتیں محض ناولوں میں ہوتی ہیں۔ وہ کانن کا نیا فلم دیکھا ہے۔ ’’جوانی کی ریت‘‘ کہ ؎ موہے اُن بِن یہ جلسہ سہائے نہ۔ کہاں دیکھا۔ ہم تو بیٹھے مرزا پور میں جھینک رہے تھے۔

کیوں گپ مارتا ہے بے…مرزا پور میں جھینک رہے تھے۔ تم مجھے بھیج دو وہاں جھینکنے کے لیے۔ میں نے غصے سے کہا۔

چلا جا بھائی لللہ وہاں چلا جا۔ اور میری جان بخش کر … شنکر نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی۔

پر مجھے معلوم تھا کہ گپ مارتا ہے۔ نامعقول خود ہی خود بر دکھوئے کے لیے پہنچ گیا۔ اور مجھ پر رعب جھاڑ رہا تھا۔ میں ساری چھٹیاں اکیلا مسوری میں بور ہوتا رہا۔ اور شنکر سریواستو تھے کہ مرزا پور میں بیٹھے کجریاں الاپ رہے تھے۔ اب پچھلے ہفتے امّاں بیگم کا خط پہنچا کہ فوراً لوٹو ردولی سے اَپی بھی آ رہی تھیں۔ یونی ورسٹی کھلنے میں ایک ہفتہ ابھی باقی تھا۔ لیکن گھر میں ایک کرائسس درپیش تھا۔ اماّں بیگم نے لکھا تھا کہ خدا خدا کر کے بھیا نے بیاہ کے لیے ہاں کر دی تھی۔ سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کہ بھیا نے ہاں کی تو لڑکی ندارد۔ اطلاع ملی کہ چمپا باجی نے انکار کر دیا ہے۔ اب گھر پہ ہائی کمانڈر کا اجلاس ہونے والا تھا۔

بھئی ذرا سرلا سروج سے پوچھنا کوئی لونڈیا ہے ان کی نظر میں … میں نے برتھ پر سے اتر کر اپنے جوتے ڈھونڈتے ہوئے کہا۔

کس قسم کی… ؟ ویسی ہی جیسی چمپا باجی ہیں ؟ ایسی تو دستیاب ہونا ناممکن ہے۔ شنکر نے یک لخت بڑی سنجیدگی سے کہا۔

میں بھی چپ ہو گیا۔ لاؤ ایک بیڑی دیو۔ میں نے ایکّے والوں کے لہجے میں اس سے کہا۔ اس نے خاموشی سے سگریٹ کیس اوپر سے پھینک دیا۔ میں پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ اب ہم تیزی سے شہر کی اور آ رہت تھے۔ عالم باغ شروع ہو چکا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں، میرا دماغ دراصل ایک قسم کا بھان متی کا پٹارا تھا۔ میں بہت سی باتوں کو الگ الگ کر کے ان پرغور کرنا چاہتا تھا۔ پروہ پھر گڈمڈ ہو جاتی تھیں۔ میری تعلیمی مصروفیات تھیں۔ کنبہ تھا۔ قصبے اور زمین داری کی ذمہ داریاں دوستوں کا گروہ پھر ایک عجیب حسن اور گمبھیرتا اور نرمی کا احساس جو اس پس منظر پر چھایا ہوا تھا۔ مجھے اس سمے کسی چیز کی ضرورت نہ تھی بجز ایک سندیلے کے لڈو کے۔ میں نے شنکر سے کہا…لڈو پھینکو۔

وہ تو سماپت ہوئے… اس نے اطمینان سے منھ چلاتے ہوئے جواب دیا۔ کیا چمپا باجی نے منگوائے تھے۔؟

وہ مجھ سے کون سی چیزیں منگواتی ہیں، میں کوئی بھیا ہوں …؟

ہاں یہ بھی ٹھیک کہتے ہو… شنکر نے عقل مندی سے سرہلایا۔

تمہاری تو بڑی خاطریں ہوئی ہوں گی مرزا پور میں۔ میں نے کروٹ بدلتے ہوئے دل چسپی سے پوچھا۔

ہاں آں …ہوئی تھیں۔ اس نے بے تعلقی سے جواب دیا۔ مگر خاطریں تو ہماری گورکھپور میں ہوئی تھیں پچھلے سال… یہ شنکر کا باقاعدہ کیریر بنتا جا رہا تھا۔ سال میں کہیں نہ کہیں بر دکھوے کے لیے بلایا جاتا۔ ٹھاٹھ تھے بھائی کے۔

اب تو سر لا کو بدا کر کے بندہ چین کی بنسی بجائے گا۔اس نے آرام سے لیٹے ہوئے اظہار خیال کیا۔

کمینے …بہن کو بدا کرتے سمے اس کے بجائے کہ روؤ بیٹھے خوش ہو رہے ہیں۔ کہ اب فرصت ہی فرصت ہے لکڑیوں میں گھومنے کی… میں نے اسے شرم دلانا چاہی۔

ارے پہلے کون فرصت نہیں تھی۔ میں اس غریب کی کہاں سنتا تھا۔ پھر اس نے وقعتا بڑی اداسی سے کہا … دیکھو بہنیں ہیں۔ وہ بدا ہو جاتی ہیں۔

ہاں … میں چپ ہو گیا۔

سرلا مجھ سے کہتی تھی۔ کمال بھیا…چمپا کی طرف سے خبر دار رہو… اس کی اور سے تم کو بڑے دکھ پہنچیں گے۔

شنکر…

ہاں یار…

ہفتے کے روز ریڈیو پر یونی ورسٹی کا پروگرام ہے…

ہاں یار…

’’وہی‘‘ ہوا پور یونی ورسٹی کا کانوکیشن۔‘‘…

ہاں …

تزئین دریافت کریں گی کہ اسکرپٹ مکمل کر لیا یا نہیں

چمپاباجی کے وہاں جاؤ گیے…؟

جو بات میں ختم کرناچاہتا تھا شنکر معاً اسی نقطے پر پہنچ گیا…

ہاں … نہیں …پتہ…نہیں

یہ چار الفاظ ہم سب کی زندگیوں کا گویا مکمل عنوان تھے۔ جلی حروف میں لکھی ہوئی سرخی۔

ہاں …نہیں …پتہ…نہیں …

ضرور جاؤں گا۔ وہ میرا کیا کرسکتی ہیں۔ وہ پیلی رنگت والی دبلی پتلی لڑکی۔ بات کرنے تک کا تو ان میں سلیقہ نہیں۔ یونین میں تقریر کرنے کھڑی ہوتی ہیں تو گھبرا جاتی ہیں۔ ہر قسم کی عقل سے معذور۔ ایک ہزار مرتبہ سمجھا یا۔ ہوائی جہاز ایسے اڑتا ہے۔ ریڈیو ایسے بجتا ہے۔ گراموفون میں آواز اس طرح بھری جاتی ہے۔ ہر دفعہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ، میرے پلے تمہارا سائنس نہیں پڑتا۔ واہ کیا ادا ہے۔ جی ہاں میں ان سے نہیں ڈرتا ہوں۔ مطلق نہیں ڈرتا ہوں، مطلق نہیں ڈرتا ہوں۔ میں بہت معمولی ہوں، انہوں نے بھیا سے کہا تھا۔ بھیا کون آئن اسٹائن تھے۔ میں کون مارشل فوش ہوں۔ پر بھیا جب چمپا باجی سے عشق فرما رہے تھے تو لگتا تھا کہ لیگ آف نیشنز کا اجلاس ہو رہا ہے۔ یا ہاؤس آف لارڈز میں بحث کی جا رہی ہے، یا سدھانتا صاحب اٹھارہویں صدی کی انگلش نثر پر لکچر دے رہے ہیں۔

اَپی کیا کر رہی ہیں۔ شنکر نے دفعتاً سوال کیا۔ میں نے غصے سے دانت پیسے۔ میں اس ہری شنکر سریواستو سے عاجز تھا۔ جو بات میں سوچتا تھا وہ بے تار برقی کی لہر کی طرح اس کے دماغ میں پہنچ جاتی تھی یا پہلے سے ہوتی تھی۔ ہم زاد کی طرح اس سے کہیں مفر نہ تھی۔ اگر میں اس سے باتیں نہ کرتا تو بھی بے کار تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ ایسا پہنچا ہوا بھگت بن چکا ہے کہ اس سے زبانی گفتگو کی ضرورت ہی نہیں۔ پورے دو سال سے اسے معلوم تھا کہ میں چمپا کے عشق حقیقی میں مبتلا ہوں۔ نہایت ڈھٹائی سے وہ بھیا سے کہتا۔ بھیا اب چمپا باجی سے بیاہ کر لیجئے۔ یہی کمال کی بھی تمنا ہے۔ کہ آپ چمپا باجی…کیونکہ یہی بات میں بھیا سے کہتا تھا۔ بلکہ جن خوب صورت الفاظ میں کہنا چاہتا تھا۔ یہ شنکر کا بچہ مجھ سے پہلے جا کر بک آتا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے بھگوان کرشن اور ارجن کا درجہ رکھتے تھے۔ اکثر یہ درجے ادلتے بدلتے رہتے تھے۔

اَپی کیا کر رہی ہیں … اس نے آہستہ سے پوچھا۔

پتہ نہیں۔

بہن …بدا ہو جاتی ہیں … میں نے سوچا۔ پھر مجھے ایک وحشت ناک، لرزہ خیز خیال آیا۔ آپی کا کیا اب کبھی بیاہ نہ ہو گا۔ میں نے آنکھیں تکیے میں چھپالیں۔ ’’اور پھر کچھ ایسا ہوتا ہے۔ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔‘‘

اس سہ پہر ہم ایک اور لمبا سفر طے کر کے پانی کے کنارے پہنچے۔ جہاں گھاس پر سفیدپھول کھلے تھے اور لمبی ایالوں والے گھوڑے اور گائیں سبزے پر چر رہی تھیں۔ کیم ندی کے کنارے لکڑی کی دو منزلہ عمارت تھی جس کی بالکنی سرخ رنگ کی تھی۔ اس پر زرد گلاب کی بیل ہوا میں سرسرا رہی تھی۔ کہیں دور سے بڑھئی کی کھٹ کھٹ کی آواز آ رہی تھی۔ موسم بہار کی مکمل دوپہر۔ ہم اوپر آ کر بالکنی میں بیٹھ گئے۔ چمپا باجی تم بہت خوش تھیں جیسے ایک سفید آبی پرندے کی مانند فضاؤں میں بہتی پھر رہی ہو۔ نیچے ندی میں ڈونگیاں چل رہی تھیں اور بطخیں، بہت دور کچھ لڑکے درخت کی شاخوں کے سائے میں سے پانی میں کود رہے تھے۔ بہت مدھم سی ان کے ہنسنے کی آواز سناٹے کی لہروں پر تیر تی ہوئی ادھر تک آ جاتی تھی۔ تم نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے ناچ کی دھن پر پیر چلانے شروع کر دئے۔ تم چلتے چلتے کھڑے کھڑے کوئی گیت، کوئی نغمہ یاد کر کے دفعتاً ناچنا شروع کر دیتی تھیں۔ میں دراصل ایک Frustrated رقاصہ ہوں۔ تم بنچوں کے بل پر کھڑے ہو کر بیلے کے انداز میں پھر کی کی طرح گھوم کر کہتیں۔ اگر میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا نہ ہوئی ہوتی تو میں اس وقت ملک کی سب سے بڑی رقاصہ ہوتی۔ بہار کی دھوپ میں ایک جھونکا ہوا کا پانی پر سے گزرتا ہوا آیا جس میں جانے کاہے کی خوشبو تھی۔ نیچے جہاں کشتیاں بندھی تھیں ان کے لکڑی کے نم تختوں کو پھلانگتی گانے والوں کی ایک ٹولی گزری۔ آسمان پر سفید بادل کاہلی سے ڈولتے رہے۔ ہم نے خادمہ کو آواز دی جو ہمارے لیے چائے لے کر آئی۔ وہ اداسی سے مسکراتی رہی، مجھے اس کی شکل یاد ہے۔ اس کی سفید، زردی مائل رنگت تھی اور اس نے درمیان کی مانگ نکال کر بال بڑی نفاست سے سنوارے تھے۔ جیسے فلیمش تصویریں ہوتی ہیں۔ اور وہ بڑی خوش ہوئی۔ پھر چند لڑکیوں اور لڑکوں نے لکڑی کے زینے پر پہنچ کر بالکنی میں جھانکا۔ وہ دروازے میں کھڑے تھے اور یہ بحث کر رہے تھے کہ پہلے اندر آ کر سستائیں یا سوئمنگ کے بعد آ کر چائے پئیں۔ ہم نے ان کی طرف نظر یں اٹھائیں اور ہم بھی بلاوجہ مسکراتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ پہلے تم سب یہاں بیٹھ کر تازہ دم ہولو اور پھر تیرنے کے لیے جاؤ، تم نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔ گویا تم ان کی بڑی پرانی ملاقاتی تھیں۔ وہ بشاشت سے ہمارے نزدیک آ کر ادھر ادھر بیٹھ گئے۔ وہ غالباً چار پانچ تھے۔ تین لڑکے اور دو لڑکیاں۔ ہم نے کرسیاں میز کے گرد کھینچ لیں اور باتیں شروع ہو گئیں۔ یہ لمحے انسانیت کی دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ تھے۔ یہی ہونا چاہئے تھا۔ یہ ہماری ایسی برادری تھی جس کی تشریح سوشیولوجی اور سیاسیات اور فلسفہ کا کوئی نظریہ نہ کرسکتا تھا۔ وہ جگہ جہاں ہم اس وقت خود کو موجود پا رہے تھے۔ کوئی مخصوص جگہ نہ تھی۔ یہ کسی ملک، کسی براعظم کا حصہ نہ تھا۔ یہ ساری کائنات کا مرکز تھا۔ وہ کون جگہ تھی۔ مجھے یاد نہیں۔ شاید وہ نینی تال تھا یا بخشی کا تالاب۔ یا سان مارنیو۔ وہ لڑکیاں اور لڑکے کون تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں۔ شاید یہ پریاگ کے باشندے تھے۔ یا مہابلی پورم کے۔ یا اطالوی یا کرائیسٹ چرچ، اوکسفرڈ کے طالب علم۔ یہ وہی لوگ تھے جو پریاگ کی گلیوں میں ایک دوسرے کو مذہب کی بنا پر چھرے بھونکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیس بدر کرتے ہیں۔ پندرہویں صدی کے کلیساؤں پر بمباری کرتے ہیں۔ تم لڑکیوں کے ساتھ کراس اسٹیج کے ایک نمونے پر تبادلہ خیالات کرنے لگیں جو میز پوش پر بنا تھا۔ اور لڑکے کسی آسٹریلین کھلاڑی کے متعلق باتیں کرنے میں محو ہو گئے۔ خادمہ بھی ہماری اس سازش میں شامل تھی۔ گویا ہم کو پہچانتی تھی۔ اس کا نام کیا تھا…؟ امامن مہری۔ ماریا تو رنتو۔ دوروتھی اولسن۔ مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔

میں ڈک چیر دھوپ میں گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

بڑی گھام ہے۔ چمپا باجی نے بے دھیانی سے درختوں کی اور دیکھ کر کہا۔

بھیا اتنی جلدی اٹھ کر کیوں چلے گئے۔ ؟ میں نے کوشش کر کے ریڈیو کے اسکرپٹ پر دھیان دیتے ہوئے پوچھا(’’ہوا پور یونی ورسٹی کا کانوکیشن۔‘‘ میں نے بے دلی سے دیکھا۔)

اللہ بہتر جانتا ہے۔ یا تم…، تم ان کے کزن ہو‘‘

باجی… یہ اپنا پارٹ لیجئے۔

تمہارے گھر میں …، انہوں نے کاغذات اٹھا کر کہا…، میں نے سنا ہے کہ ایک کرائستیں آ گئی ہے۔

باجی… یہ اسکرپٹ …، پدما کو بھیج دیجئے گا۔

تمہارا ہم زاد ہری شنکر…، تم نے اسے کہاں روانہ کر دیا؟

پتہ نہیں …، دن بھر تو وہ بھیا کے ساتھ ہی گھومتا رہا ہے۔

تم لوگ…کس قدر ڈریمٹک ہو…چمپا نے کہا۔

میں نے ان کو غور سے دیکھا۔، وہ میز کے کنارے پر انگلیاں رکھے یوں بیٹھی تھیں جیسے وہ ان کا ہاتھ نہیں تھا۔ کہیں اور سے وہاں آ گیا تھا۔

کہاں گئے ہیں ہر ی شنکر۔، انہوں نے یونہی دوبارہ پوچھا۔

دیبی…، کیا اداس تھی۔ کیا ہم سب سے خفا تھی۔

باجی وہ دراصل بمبئی سے پیرین بھڑوچہ آئی ہیں آج سب لو گ اس میں لگے ہیں۔

اندر ریڈیو سے گیان وتی بھٹناگر کے گانے کی آواز آ رہی تھی۔ دنیا میں حفاظت کا احساس تھی اور سکون اور نرمی۔ بہار کی دھوپ۔

یہ آکسفورڈ اسٹریٹ تھی۔ دیبی شیشے کے دروازے کے پیچھے کھڑی رہ گئی ہے۔ اب مجھے کچھ یاد نہیں۔ میری بیچارگی کو دیکھو۔ گزرتے ہوئے برس بگولوں کی طرح میرے چاروں اور منڈلا رہے ہیں۔ سڑکیں ہیں جن پر بارش میں رات کی روشنیاں جھلملاتی ہیں۔ سوتے ہوئے مکانوں کی چمنیوں پر سے چاند لڑھکتا ہوا سمندر کی اور جا رہا ہے۔ ندی کے کنارے، آم کے باغوں میں ایسٹ اینگلیا کے جنگلوں میں تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔ سنسان بندرگاہوں میں سمندر کے سیاہ پانیوں پر رات کے پرند منڈلا رہے ہیں۔

میرے سامنے سے لوگوں کے ہجوم گزر رہے ہیں۔ ندی میں ڈونگیاں تیرتی ہیں۔ میں کنارے پر ہوں۔ مجھے اب اپنے جہاز کو تلاش کرنا۔ ایسا جہاز جس کی روشنیاں بجھ گئی ہوں اور جو چپکے سے سمندر کی عمیق تاریکی میں داخل ہو جائے۔ ایسا جہاز جو صرف اس سمت جاتا ہو جہاں مجھے کوئی خوش آمدید کہنے والا نہ ہو گا۔

٭٭٭

ماخذ: باز گشت ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید