FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

جوانانِ مصر۔۔۔  تشنہ لب، خالی ایاغ

               ڈاکٹر زاہد منیر عامر

 

عرب دنیا کے پاس تیل کے بعد دوسرا بڑا خزانہ اس کی نوجوان نسل ہے۔  مصر کے پاس یوں تو سیاحت، سویز، تیل اور قدرتی گیس ایسے بڑے ذرائع آمدن موجود ہیں لیکن اگر بنیادی حقوق، احترام اور روزگار کے ذرائع میسر ہوں تو اس کی نوجوان نسل ان سب پر فائق ہوسکتی ہے۔ بعض ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں، جن کی بیشتر آبادی کہن سال ہو چکی ہے، مصر کو بہ کثرت نوجوان افرادی قوت میسر ہے۔

مصری عوام پہلے ایک طویل عرصے تک ملوکیت کا شکار رہے پھر انھیں سوشلزم کاسبز باغ دکھایا گیا لیکن یہ خواب تعبیر پانے سے پہلے ہی بکھر کر رہ گیا۔ پھر مصری، سوشلزم کے آسمان سے سرمایہ دارانہ نظام کی کھجور میں جا کر گرے۔  اس نظام سے تو انھیں کوئی خیر نہ مل سکی البتہ مسلسل فوجی آمریتوں کے ہاتھوں وہ ایک طویل عرصے سے بنیادی حقوق سے بھی محروم چلے آرہے ہیں۔ مصر کی آبادی آٹھ کروڑ کے قریب ہے جو ۲۰۵۰ء تک ساڑھے بارہ کروڑ ہو جائے گی۔  اس میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے یہ اندازہ لگانے کے لیے کسی بقراط کی ضرورت نہیں کہ اس وقت تک نوجوانوں کی تعداد کیا ہو گی ؟ان نوجوانوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر ہوں تو یہ مصر کے لیے غیر مختتم توانائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ سرِدست تو یہ نوجوان اپنی محرومیوں کے ہاتھوں زندگی سے مایوس اور بغاوت پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ عرب دنیا میں تبدیلی کی حالیہ لہر کا آغاز بھی ایک ایسے ہی مایوس نوجوان سے ہو ا۔  تیونس کا چھبیس(۲۶) سالہ سبزی فرو ش بو عزیزی بارش کا پہلا قطرہ تھاجس نے حصولِ انصاف میں ناکامی پر خود کو آگ لگا کر اپنی شمعِ حیات کو خاکستر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد اس آگ کے شعلے مصر تک پہنچ گئے اور مصر کے تن بہ تقدیراورمایوس نوجوان قاہرہ کے میدانِ تحریر میں جبر و قہر کے خلاف نئی داستان تحریر کرنے لگے۔

مصر میں سہ سالہ قیام کے دوران مجھے وہاں کے نوجوانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا…یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان، ٹیکسی ڈرائیور، شام ہوتے ہی قہوہ خانوں کی رونق بن جانے والے، رقص و موسیقی کے دلدادہ نوجوان اور رمضان المبارک میں مساجد میں معتکف ہو جانے والے نوجوان۔ یہ مختلف طبقات، نوجوانوں ہی کی نہیں بلکہ مصری معاشرے کی تقسیم کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان بالعموم مایوسی کا شکار تھے۔  رقص وموسیقی کی محفلوں کے دلدادہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے رویے پر عامل تھے۔  رمضان المبارک میں مساجد کی رونق بڑھانے والے قدرے ڈرے ہوئے اور اظہار خیال میں محتاط لیکن اپنی ملکی صورت حال سے ناخوش تھے…

یونی ورسٹیوں کے نوجوان اپنے ملک کے مقابلے میں دوسرے ممالک کی زندگیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے اور کسی نہ کسی طرح مصر سے نکل جانے کی تمنا رکھنے والے تھے۔  خود میرے ازہری شاگردوں میں بھی ایسے تھے جو مختلف سفارت خانوں کے چکر لگاتے، ان کی تقریبات میں شرکت کرتے اور کسی نہ کسی طرح سفارت خانوں کے ملازمین کے توسط سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کرتے تھے۔ ان کے نزدیک مصر سے باہر کی دنیا کی زندگی پُر آسائش اور قابلِ رشک ہے۔ اس احساس میں صرف تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہی نہیں بلکہ ان کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔  جامعہ الازہر کے جن نوجوان اساتذہ یا طلبہ سے میرا مکالمہ رہتا تھا اور میں جنھیں ملازمتوں کی سطح سے اوپر اٹھ کر زندگی میں کچھ کرنے اور روز و شب کو تسخیر کرنے کی ترغیب دیتا ان کا رد عمل مایوسی پر مبنی ہوتا تھا۔  وہ اپنی معاشی صورت حال کو اپنی تمام بے عملی، ناکامیوں، محرومیوں اور مایوسیوں کا سبب قرار دیتے تھے۔

یونی ورسٹیوں سے باہر نوجوانوں کی ایک دنیا وہ تھی جو مصر میں ہر گلی کوچے میں قائم قہوہ خانوں میں دھوئیں کے مرغولوں کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔  یہ شام ہوتے ہی گھروں سے نکل آتے ہیں۔  دریائے نیل کی مختلف شاخوں پر یہاں وہاں جھولتے پلوں پر اپنی دوستوں کی بانہوں میں جھولتے ہیں جس میں پولیس یا معاشرے کا کوئی دوسرا فرد مخل نہیں ہوتا۔ ایک طبقہ نائٹ کلبوں یا دریائے نیل کے سینے پر ڈولتے کشتی گھروں میں چلا جاتا ہے جہاں انھیں حسبِ طلب واستطاعت سب کچھ میسر ہوتا ہے، جنھیں شب باشی کے لیے مناسب جگہ نہیں ملتی وہ قہوہ خانوں میں آ جاتے ہیں اور بعض اوقات تمام تمام رات شیشہ پیتے اور گپیں لگاتے گزار دیتے ہیں قہوہ خانوں میں ذکور و اناث اکٹھے آتے اور بیٹھتے ہیں ان کے لیے وقت کی رفتار تھم جاتی ہے اور وہ گویا رخِ روشن کے آگے’’ شیشہ ‘‘ رکھ کر کہتے ہیں   ؎

ع      ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر آتا ہے پروانہ

’’شیشہ ‘‘ جو اب پاکستان کے ماڈرن شہروں میں بھی اجنبی نہیں رہا، حقے کو کہا جاتا ہے یہ ماڈرن وضع کے مختلف اور زیبا حقے ہوتے ہیں جنھیں قہو ہ خانوں کے ملازم، گرم رکھتے ہیں اور لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں جن کا شوق کرتی ہیں۔  شیشے سے لگاؤ صرف نوجوانوں ہی میں نہیں پایا جاتا خواتین و حضرات سبھی شیشہ پسند واقع ہوئے ہیں۔ قاہرہ کے جس علاقے میں میری رہائش تھی وہ ایک ماڈرن اور مہنگا علاقہ یعنی زمالک تھا۔  یہاں قدم قدم پر شیشہ گھر تھے، نائٹ کلب اور پب بھی تھے، اونچے ہوٹل بھی تمام صفات سے متصف تھے۔  نیل کنارے قطار اندر قطار نادی تھے۔  ’’نادی‘‘ بھی کلب کو کہا جاتا ہے۔  ان نوادی (کلبوں ) کے ماحول کا اندازہ ایک نادی کے دروازے پر لگے اس اعلان سے کیا جا سکتا ہے جس میں لکھا ہوا تھا ممنوع الدخول للنقاب والجلباب و ذوی اللحیۃ یعنی نقاب پوش خواتین، قدیم مصر ی طرز کا لباس جلباب جو ایک لمبی عبا ہوتی ہے، پہننے والے اور داڑھیوں والے حضرات نادی میں داخل نہیں ہوسکتے۔ بعض نوادی کی رکنیت لینے کے لیے باقاعدہ انٹرویو ہوتا ہے جس کا وقت رات گیارہ بارہ بجے کے بعد ہوتا ہے اور انٹرویو کی تاریخ لینے کے لیے رجسٹریشن کروائی جاتی ہے۔ امیدوار کے پیشے اور حلیے کو دیکھ کر اس کی رجسٹریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

 قیامِ مصر کے تین سالوں میں راقم نے قاہرہ کی سڑکوں پر پانی کی طرح دوڑتی ٹیکسیوں کو ذریعہ سفر بنائے رکھا۔ ان ٹیکسیوں کے ڈرائیور بیشتر نوجوان تھے۔  ٹیکسیاں چلانے والے اکثر نوجوان گریجویٹ ہیں۔  کوئی جامعہ قاہرہ کا پڑھا ہوا ہے، کو ئی الازہر کا، کوئی جامعہ عین شمس کا بلکہ الازہر کے تو بعض اساتذہ بھی ٹیکسیاں چلاتے ہوئے ملے۔  نوجوانوں کی بے روزگاری، مصر میں بے روزگاری کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ ملک کے نوے فی صد بے روزگاروں کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ اور ایک بڑی تعداد کم تر روزگار کے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ مصر کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پچیس فیصد مصریوں کی عمر اٹھارہ سے انتیس سال کے درمیان ہے اور چالیس فیصد کی عمر دس سے انتیس برس کے درمیان ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مصر کی قریباً بیس فیصد آبادی کو غریب کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔  راقم کو مصر کے بعض دیہات میں جانے کا موقع بھی ملا۔  ان کا منظر نامہ پاکستانی دیہات سے مختلف نہیں۔  پاکستان میں تو پھر بھی بڑے شہروں سے جڑے دیہات میں شہری زندگی کے ثمرات پہنچے ہوئے ہیں لیکن مصری دیہات شہری زندگی کے ثمرات سے محروم ہی دکھائی دیے۔ مصری معاشرے کا ایک طبقہ تو وہ ہے جو نائٹ کلبوں میں شب بسری کی استطاعت رکھتا ہے دوسری طرف اسی معاشرے کی دیہی آبادی جو کل آبادی کا اسّی فیصد ہے، کی بیاسی فیصد لڑکیاں غربت کے باعث سکول نہیں جا سکتیں۔ ٹیکسیاں چلانے والے گریجویٹ ڈرائیوروں سے جب میں کہتا کہ آپ نے بی اے کرنے کے بعد کوئی ملازمت کیوں نہیں کی تو وہ بتاتے کہ سرکاری ملازمت کرنے والوں کو جو تنخواہ ملتی ہے اس سے مہنگائی کے آسیب کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پرائیویٹ سیکٹر کی ملازمتیں سرکاری ملازمتوں کے مقابلے میں بہتر ہیں لیکن ان کا حصول آسان نہیں۔ بعض مصری یونی ورسٹیوں میں فنادق و سیاحت کی فیکلٹی (Faculty of hoteling and tourism) بھی موجود ہے۔  تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے نوجوانوں کا میلان اس کی طرف ہے کیونکہ اس طرح وہ مصر کے بڑے ذریعہ آمدن سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہو سکیں گے اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہو جانا گویا سونے کی چڑیا ہاتھ آ جانا ہے۔  سیاح چونکہ عام طور سے اجنبی اور مقامی نرخوں سے ناواقف ہوتا ہے اس لیے اس سے وابستگی جائز و  نا جائز جلب زر کا موقع فراہم کر دیتی ہے۔  اس چیز نے عام مصری اخلاق و کردار پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

 مصر کا مذہبی خیالات رکھنے والا نوجوان سماج کو اپنے ہی زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔  ایک ایسے ہی نوجوان سے جب نجیب محفوظ کے افسانوں اور ناولوں میں پائے جانے والے سماجی منظر نامے پر گفتگو ہوئی تو اس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجیب محفوظ کا قلم، مساجد سے بلند ہوتی تکبیر کی صداؤں اور یہاں کی رونق بننے والے نوجوانوں سے ناآشنا ہے۔  اسے صرف کلبوں میں شب بسری کرنے والے، آوارہ گرد یا غربت کے مارے نوجوان ہی دکھائی دیتے ہیں … راقم نے اپنے تین سالہ قیام مصر میں اس طبقے کو بھی قریب سے دیکھا۔ مساجد کی رونق عام طور سے اسی قدر ہے جس قدر کہ ہمارے ہاں دکھائی دیتی ہے۔  رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مساجد کی رونق زیادہ تر نوجوان بنتے ہیں۔  یہاں یہ بھی بتانا چاہیے کہ مصر میں ہر مسجد میں اعتکاف کی اجازت نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے ایک منطقے میں ایک مسجد نامزد کی جاتی ہے۔  اس ایک مسجد میں پورے منطقے سے لوگ معتکف ہوتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں یونی ورسٹیوں کے طالب علم، مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے اور تجارت پیشہ ہر طرح کے نوجوان شامل ہوتے ہیں یہاں بعض بہت باخبر اور ہوشمند نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی بلکہ وائل غنیم نامی وہ نوجوان جس نے فیس بک (Face Book) میں اکاؤنٹ بنا کر مصر کی تاریخ بدل دی گزشتہ رمضان میں اسی مسجد میں معتکف تھا جہاں راقم۔ میں دس روز تک اس خاموش طبع اور گہرے نوجوان کو دیکھتا رہا۔ دوسرے مصری نوجوانوں کی طرح سیاسی موضوعات پر گفتگو سے وہ بھی گریز کرتا تھا۔ یہ ان نوجوانوں میں شامل تھا جنھوں نے فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے ۲۵ جنوری۲۰۱۱ء کے یوم الغضب کی راہ ہموار کی جس میں تیس ہزار لوگ جمع ہوئے اور پھر یہ تعداد بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ حسنی مبارک کا تیس سالہ اقتدار اپنے انجام کو پہنچ گیا۔  ملکی نظام سے مصری نوجوان کی ناراضی اتنی واضح تھی کہ وہ چھپائے نہیں چھپتی تھی۔  ان کی مایوسی ان کی گفتگو سے جھلکتی بلکہ چھلکتی تھی۔  تعلیم مکمل کر کے قاہرہ کی عدالت میں تعینات ہو جانے والے ایک جج صاحب سے بھی میرا رابطہ رہا، اپنی شادی کے حوالے سے ان کی پریشانی بھی ختم ہونے میں نہ آئی، جب ان سے کہا گیا کہ عالم اسلام ایک روشن مستقبل کے لیے مصر کے کردار کا منتظر ہے تو ان کا فوری جواب تھا کہ آپ خاطر جمع رکھیں مصر اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا۔ ایک ایسے نوجوان سے بھی ملاقات ہوئی جو پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھتا تھا اور جسے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں سے بھی خاصی واقفیت تھی لیکن یہ غالباً ایک استثنا تھا کیونکہ مصر میں پاکستان سے واقفیت اور دل چسپی عام نہیں ہے بلکہ مساجد میں ائمہ کرام جب عالم اسلام کے لیے دعائیں کرواتے ہیں تو ان میں بھی پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ راقم نے بعض ائمہ سے مل کر انھیں پاکستان اور عالم اسلام میں اس کی اہمیت اور یہاں کے عوام کو درپیش عالمی چیلنجز سے آگاہ کیا اور کشمیر کے انسانی مسئلے کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ پاکستانی عوام کے دل کس طرح عالم اسلام کے لیے دھڑکتے ہیں اور ہماری مساجد میں فلسطین اور عربوں کے لیے کس طرح التزام سے دعائیں مانگی جاتی ہیں تو انھوں نے اپنی دعا میں پاکستان کا اضافہ کیا…

 پرانی نسل کے لوگ اقبال سے واقف ہیں لیکن نوجوان نہیں۔  یونی ورسٹیوں میں اردو یا جنوبی ایشیا کے تعلق سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اقبال کو جانتے ہیں لیکن اقبال سے ان کی واقفیت ایک زندہ پیغام کی حیثیت سے نہیں ایک اکیڈیمک موضوع کی حیثیت سے ہے جس کے امکانات پورے ہو چکے ہیں۔  راقم نے الازہر میں اردو کی تدریس کے لیے اقبال کے متن کو بنیاد بنانا چاہا تو ایم اے کی طالبات نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اقبال اقبال بہت ہو چکی اب کسی نئے موضوع پر بات ہونی چاہیے اس پر راقم نے پیغامِ اقبال کے، ان کی موجودہ زندگی سے، تعلق کو واضح کیا تو وہ اس پر آمادہ ہو گئیں اور یوں یہ سلسلہ شروع ہوسکا۔ راقم نے اس مقصد کے لیے امِ کلثوم کے حدیث الروح سے بھی مدد لی۔ کلاس روم میں اس کا ریکارڈ سنانے پر کچھ طالبات نے ڈر کر دروازے بند کر لینے کا مشورہ دیا اور راقم کو یاد دلایا کہ ’’یہ جامعہ الازہر ہے‘‘ ۔  اس رویے کا سبب اقبال سے آگاہی کے مدعی وہ اساتذہ ہیں جو اقبال کو ایک زندہ اور توانا فن کا ر کی حیثیت سے نہیں محض ڈگریوں کے حصول کا سبب بننے والے ایک موضوع کی حیثیت سے جانتے ہیں اور اقبال کے پیغام میں پنہاں حرکت و حریت کے جوہر سے محض ناواقف ہیں۔  بدقسمتی سے ایسے اساتذہ کی پاکستان میں بھی کمی نہیں۔  بعض جامعات کے اساتذہ سے بھی اسی قسم کے خیالات سننے کو ملے جیسے جامعہ الازہر کی ایم اے اردو کی طالبات کے تھے۔  مصر کے ایک نام ور’ اقبال شناس ‘نے بھی، تحقیق کے لیے اقبال کے موضوع کو’ ختم شدہ ‘قرار دیا۔ اس صورت حال کے علی الرغم راقم تین برس تک مختلف فورمز پر اور مصری اخبارات کے ذریعے بنی نوع انسان کے نام بالعموم اور عالم عرب کے نام بالخصوص اقبال کے فراموش شدہ پیغام کو یاد دلاتا رہاجس کے خاطر خواہ نتائج دیکھنے میں آئے۔

گزشتہ برس مصر کی ہیومن ڈیویلپمنٹ کونسل نے مصر کی نوجوان نسل کے مسائل کے حوالے سے  YOUTH IN EGYPT BUILDING THE FUTUREکے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی۔  اس رپورٹ میں بے روزگاری، تاخیر سے شادی اور غربت کو مصری نوجوان کے تین بڑے مسائل قرار دیا گیا۔  وزیر اعظم کی سطح پر جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر مصر ی نوجوانوں کو اچھا احساس، اچھی تعلیم، معاشرے میں شائستہ اور تعمیری کردار ادا کرنے اور ایسی شادیوں کے جو وہ افورڈ کرسکتے ہوں، مواقع دیے جائیں تو وہ ترقی کی دوڑ میں ایک مؤثر قوت کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

مصر میں مستقل ملازمتوں کے فقدان کا مسئلہ مستقلاًغربت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ غریب نوجوانوں کو جو بھی ملازمت ملتی ہے وہ اسے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں چاہے وہ موسمی ہو یا عارضی کیونکہ ان کے لیے طویل عرصے تک مسلسل بے روزگار رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ حکومتی دعویٰ یہ تھا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بے روزگاری کا گراف کم ہو رہا ہے اور ۲۰۰۹ء میں اس کے گراف میں ۲۴ فیصد کمی ہوئی ہے لیکن جنوری ۲۰۱۱ء میں عوامی قوت کے سیلاب نے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

راقم نے اکثر مصری نوجوانوں کو شادی کے لیے مضطرب اور پریشان دیکھا الازہر کے طالب علم پاکستان میں شادی کے طریق کار سے آگاہ ہونے پر پاکستان میں شادی کی تمنا کرتے تھے بعض ادارے تیسیر للزواج یعنی شادی میں سہولت کے پروگرام جاری کرتے ہیں۔  ایک دوسرے کو اپنی شادی کے لیے کہنا بھی معیوب نہیں سمجھاجاتا۔  ایک لڑکی نے میر ی موجودگی میں ایک کاغذ پر اپنا اور اپنے والد کا نام لکھ کر یہ درخواست مسجد میں بھیجی کہ اس کے لیے زوج صالح اور ذریّت صالحہ کی دعا کی جائے۔ حقیقت میں مصری نوجوانوں کے لیے شادی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔  معاشرہ شادی سے پہلے لڑکی کے لیے آزادانہ رہائش کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ لڑکے کے لیے، بے روزگاری کے باعث، جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہوتا ہے کجا کہ وہ لڑکی کو دان کرنے کے لیے کوئی فلیٹ خرید سکے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مصر میں ۹ملین سے زیادہ نوجوان ایسے ہیں جو پینتیس سال کی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود شادی نہیں کرسکے اور نوجوان جوڑوں میں طلاق کی شرح باون(۵۲) فی صد ہے۔  بیالیس(۴۲) فی صد جوڑے شادی کے پہلے چار سال میں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔

خراب معاشی اور سماجی صورت حال نے بعض اخلاقی خرابیوں کو بھی جنم دیا ہے جن میں ’’زواج عرفی‘‘ بھی شامل ہے۔  اس طریقِ ازدواج میں لڑکا اور لڑکی کسی گواہ کے بغیر، ایک کاغذ پر معاہدہ کر کے، میاں بیوی بن جاتے ہیں اور  ر قوت کا کردا ان کے والدین یا معاشرے کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔ دونوں اپنے اپنے والدین کے ہاں مقیم رہتے ہوئے کسی تیسرے مقام پر تعلقات زناشوئی قائم کر لیتے ہیں۔  معاشرے کو اس وقت پتا چلتا ہے جب اس تعلق میں کوئی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچتا ہے۔  مصر میں زواج عرفی کا تجربہ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد ۲۴ فی صد ہو چکی ہے۔  اگرچہ ازہری علماء اس طریق ازدواج کے خلاف ہیں لیکن عدالتیں عام طور سے ایسے مقدمات میں نرمی کا رویہ اختیار کرتی ہیں۔

گزشتہ سطور میں جس رپورٹ کا ذکر ہوا اس میں مصری نوجوان کو مایوسیوں سے نکالنے کے لیے نو ایریاز کی نشان دہی کی گئی جن میں تعلیم کی ناکامی پر قابو پانا، غربت کے چکر کو توڑنا، نئی ملازمتوں کی تخلیق، حسنِ انتظام اور نقلِ مکانی۔  تعلیمی اداروں کی آؤٹ پٹ اور مارکیٹ کے مطالبوں میں توازن پیدا کرنا۔  فنی تعلیم کا معیار بڑھانا اور نصابات کو بہتر بنانا۔ نوجوانوں کو رضاکارانہ بنیاد پر کام کے لیے تیار کرنا شامل ہیں۔  مصر کی نئی حکومت ان نو ایریاز پر قابو پا سکتی ہے یا نہیں یہ تو ایک الگ سوال ہے ایریاز کی نشاندہی بجائے خود بہت اہم ہے جس سے مصر کے تشنہ لب، خالی ایاغ نوجوان کے المیے کو سمجھا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

اقبالیات، جلد ۵۳، شمارہ ۱۳، جنوری تا جولائی ۲۰۱۲ء

http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/iqbaliyat/jan12/10.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید