فہرست مضامین
جنگل کتھا
Jungle Lore
جم کاربٹ
ترجمہ: منصور قیصرانی
ڈاؤن لوڈ کریں
باب 1
لڑکیاں جن کی عمریں آٹھ سے اٹھارہ کے درمیان میں تھیں، لکڑی سے بنے پل کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے جو کالا ڈھنگی میں دریائے بور پر بنایا گیا تھا اور ہم پوری توجہ سے ڈینسی کی بھوت پریت کی کہانیاں سن رہے تھے۔ سڑک کے درمیان میں آگ جل رہی تھی جو آس پاس موجود لکڑیاں جمع کر کے جلائی گئی تھی اور اب آگ میں محض دہکتے کوئلے ہی باقی بچے تھے۔ تاریکی چھا رہی تھی اور ڈینسی نے اپنی خوفناک کہانیاں سنانے کے لیے بہترین وقت چنا تھا۔ ایک لڑکی اپنی سہیلی سے کہہ رہی تھی "بار بار پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔ مجھے ڈر لگتا ہے”۔
ڈینسی آئرش النسل تھا اور جن بھوتوں پر پوری طرح اعتقاد رکھتا تھا۔ اس لیے جب وہ ایسی کہانیاں سناتا تو سماں باندھ دیتا تھا۔ اس رات کی کہانیاں بگڑے چہروں، کڑکڑاتی ہڈیوں، دروازوں کا پراسرار طور پر کھلنا بند ہونا اور پرانی عمارتوں میں سے سیڑھیوں سے خودبخود آوازیں آنا شامل تھیں۔ چونکہ میں نے کبھی آسیب زدہ پرانی عمارتیں نہیں دیکھی تھیں، اس لیے مجھے ڈینسی کی کہانیوں سے کوئی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ جب ڈینسی نے رگوں میں خون جما دینے والی ایک کہانی پوری کی ہی تھی کہ ہمارے سروں کے اوپر سے ایک بوڑھا اُلو ہو ہو کرتا ہوا شکار کی تلاش میں نکلا۔ یہ الو سارا دن بیلوں سے گھرے درخت پر اونگھتا رہتا تھا جہاں اسے کوے اور دیگر پرندے تنگ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ درخت ہلدو کا تھا جو برسوں پہلے آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا اور ہم سب جو تتلیاں پکڑنے یا غلیل سے شکار کھیلنے آتے تھے، اسے بخوبی پہچانتے تھے۔ اُلو کی آواز کو بعض ناواقف افراد شیر کی دھاڑ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اُلو کی آواز کا جواب نہر کے دوسرے کنارے پر موجود اس کی مادہ نے دیا۔ افزائش نسل کے علاوہ دونوں اُلو الگ الگ رہتے تھے۔ اُلو کی آواز سنتے ہی ڈینسی نے جن بھوتوں کی کہانیاں ختم کر دیں اور بنشی کی کہانیاں شروع کر دیں۔ ڈینسی کو جن بھوت سے بھی زیادہ اعتقاد بنشی پر تھا۔ ڈینسی کے مطابق بنشی ایک عورت کی بد روح ہے جو گھنے جنگلوں میں رہتی ہے اور اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ محض اس کی آواز سننے سے سننے والے اور اس کے پورے خاندان پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔ اگر بنشی پر نظر پڑ جائے تو پھر اس بدقسمت فرد کی موت لازمی ہو جاتی ہے۔ بنشی سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ جنگلوں میں پائی جاتی تھی اور تتلیوں اور پرندوں کے انڈوں کی تلاش میں میں جنگلوں میں مٹرگشت کرتا تھا۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ آئرلینڈ میں پائی جانی والی بنشیاں کیسی ہوتی ہیں لیکن مجھے یہ پتہ تھا کہ وہ دو کیسی بنشیاں ہیں جن کی آواز اس نے کالاڈھنگی کے جنگلوں میں سنی تھی۔ ایک بنشی کے بارے بعد میں بات کرتے ہیں۔ دوسری بنشی کو ہمالیہ کے دامن اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے چڑیل کے نام سے جانتے ہیں۔ بد ارواح میں چڑیل کو سب سے برا سمجھا جاتا ہے اور یہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ الٹے پیروں والی یہ چڑیل کسی انسان کو اپنا شکار چن لیتی ہے اور پھر سانپ کی طرح اسے مسمرائز کر کے اس کا شکار کرتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ سے آنکھوں کو ڈھک کر اور اگر گھر کے اندر ہوں تو کمبل کو سر تک تان لیا جائے۔
غار میں رہنے والے انسان چاہے جیسے بھی ہوں، موجودہ دور کا انسان دن کی مخلوق ہے۔ دن کی روشنی میں ہمیں آسانی رہتی ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں چند گھنٹے قبل والی تاریکی کی باتوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے۔ جب دن کی روشنی ختم ہوتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر طرف چھا جاتا ہے اور ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تو ہمارا تخیل عجب تماشے دکھانے لگ جاتا ہے۔ جب تخیل کے ساتھ مافوق الفطرت عناصر پر اندھا اعتقاد بھی ساتھ شامل ہو تو عجب نہیں کہ گھنے جنگلوں سے گھرے دیہاتوں میں رات کے وقت لوگوں کا خون خشک ہونے لگ جاتا ہے کہ ان کے پاس سواری کے نام پر اپنی ٹانگیں اور روشنی کے نام پر محض مشعلیں ہوتی ہیں۔
کئی کئی ماہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے اور ان کی زبان بولنے کے سبب ڈینسی کے اپنے توہمات پر مقامی پہاڑی لوگوں کے توہمات کا گہرا غلاف بھی چڑھ چکا تھا۔ ہمارے دیہاتی ہوں یا کہ ڈینسی، ان کی بہادری میں کوئی شک نہیں لیکن مافوق الفطرت پر ان کا اعتقاد انہیں چڑیل یا بنشی کے بارے تحقیق کرنے سے روکتا ہے۔ برسوں میں کماؤں میں رہا اور جنگل میں سینکڑوں راتیں گذاریں، مجھے چڑیل کی آواز تین بار سنائی دی ہے جو ہمیشہ رات کو آتی تھی اور ایک بار اسے دیکھا بھی ہے۔
مارچ کا مہینہ تھا۔ سرسوں کی بہترین فصل کٹ چکی تھی اور ہمارے کاٹیج کے آس پاس پورا گاؤں خوش تھا۔ سارے مرد، عورتیں اور بچے گا بجا رہے تھے۔ چاند کی گیارہویں یا بارہویں تاریخ تھی اور رات کو بھی دن جیسا سماں تھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے اور میگی اور میں رات کا کھانا کھانے ہی لگے تھے پر سکون رات میں اچانک چڑیل کی آواز آئی اور اسے سنتے ہی دیگر تمام آوازیں تہم گئیں۔ صحن کے دائیں کونے پر اور ہمارے کاٹیج سے پچاس گز دور ہلدو کا درخت ہے۔ نسل در نسل گدھوں، عقابوں، بازوں، چیلوں، کوؤں اور دیگر پرندوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوپری شاخوں کی کھال اتر گئی ہے اور اوپری شاخیں مر چکی ہیں۔ ہمارا بیرونی دروازہ شمالی سرد ہوا سے بچاؤ کی خاطر بند تھا، کو کھول کر میں اور میگی برآمدے میں نکلے اور عین اسی وقت چڑیل پھر بولی۔ یہ آواز ہلدو کے درخت سے آئی تھی اور اس کی سب سے بلند شاخ پر چڑیل بیٹھی تھی۔
مختلف آوازوں کو آپ لکھ کر ظاہر کر سکتے ہیں جیسے کوئی، ٹیپ ٹیپ کی آواز جو ہُدہُد پیدا کرتا ہے، لیکن چڑیل کی آواز کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی الفاظ نہیں۔ اگر میں ایسا کہوں کہ انتہائی اذیت کا شکار انسان چیخ رہا ہو یا کوئی روح انتہائی تکلیف میں ہو تو اس سے بات واضح نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم نے یہ آوازیں کبھی سنی ہی نہیں۔ نہ ہی یہ آواز جنگل کی کسی آواز سے ملتی جلتی تھی کیونکہ یہ آواز ہماری دنیا کی لگتی ہی نہیں تھی اور اسے سنتے ہی رگوں میں خون جمنے اور دل کی دھڑکن رکنے لگ جاتی تھی۔ یہ آواز میں نے پہلے بھی کئی بار سنی تھی اور میرا اندازا تھا کہ یہ کوئی مہاجر الو ہے کیونکہ ہمارے مقامی الوؤں کی آوازیں میرے لیے اجنبی نہیں تھیں اور میں انہیں بخوبی پہچانتا ہوں۔ کمرے میں گھس کر میں نے وہ دوربین اٹھائی جو پہلی جنگ عظیم میں میں دشمن کے توپ خانے کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا تھا اور بہترین قسم کی دوربین تھی۔ اس دوربین کی مدد سے میں نے اس پرندے کا بغور جائزہ لیا۔ آپ کو اس نیت سے بتا رہا ہوں کہ شاید آپ اس پرندے کو مجھ سے بہتر جانتے ہوں:
اس پرندے کی جسامت سنہرے عقاب سے تھوڑی سی چھوٹی تھی
نسبتاً لمبی ٹانگوں پر سیدھا کھڑا تھا
دم نسبتاً چھوٹی لیکن الو سے بڑی تھی
الو جیسا گول سر نہیں تھا اور نہ ہی الو جیسی چھوٹی گردن
سر پر کوئی تاج یا سینگ نہیں تھے
جب یہ بولا، جیسا کہ ہر نصف منٹ بعد بولتا تھا، سر کو آسمان کی جانب بلند کر کے اور پوری چونچ کھول کر بولتا تھا
پورا جسم کالے رنگ کا تھا لیکن عین ممکن ہے کہ گہرا بھورا ہو جو چاندنی میں مجھے سیاہ دکھائی دیا
میرے پاس 28 بور کی شاٹ گن رکھی تھی لیکن یہ پرندہ اس کی مار سے دور بیٹھا تھا اور رائفل استعمال کرنے سے مجھے جھجھک ہو رہی تھی کہ چاندنی رات میں رائفل کا نشانہ اس طرح کے پرندے پر لینا بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر نشانہ خطا جاتا تو جہاں تک رائفل کی آواز جاتی، لوگوں کو یقین ہو جاتا کہ چڑیل پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ بیس بار بولنے کے بعد اس پرندے نے پر کھولے اور اڑ کر اندھیرے میں نظروں سے غائب ہو گیا۔
ساری رات گاؤں پر خاموشی رہی اور اگلے دن کسی نے بھی چڑیل کا ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ مجھے بچپن میں کنور سنگھ نے سمجھایا تھا کہ جنگل میں شیر کا نام کبھی مت لینا، ورنہ شیر سے لازمی ٹاکرا ہو گا۔ اسی وجہ سے پہاڑی علاقے کے لوگ چڑیل کا ذکر نہیں کرتے۔
کالا ڈھنگی میں سردیاں بسر کرنے والے دونوں خاندانوں کے بچوں کی کل تعداد 14 تھی۔ میرا چھوٹا بھائی اتنا چھوٹا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ گھر سے باہر رات کو بون فائر یا تالاب میں نہانے کے لیے نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اسے شمار کرنا فضول ہے۔ میں ان 14 بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سب سے چھوٹا لڑکا ہونے کی وجہ سے مجھے ہر وہ کام کرنا پڑتا تھا جو مجھے سخت ناپسند تھے۔ مثلاۢ ہمارے بچپن میں لڑکیاں جب ہماری جاگیر کے کنارے والی نہر پر نہانے جاتیں تو کسی لڑکے کو ساتھ لازمی جانا پڑتا تھا۔ لڑکیاں اتوار چھوڑ ہر روز نہانے جاتی تھیں۔ اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اتوار کو کیوں نہ نہایا جائے۔ لڑکیوں کے شب خوابی کے لباس اور تولیے اٹھانا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی کیونکہ اُن دنوں تیراکی کے لباس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جب لڑکیاں نہا رہی ہوں تو نزدیکی پگڈنڈی سے گذرتے ہوئے مردوں سے انہیں خبردار کرنا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی۔ نہر پختہ تھی اور دس فٹ چوڑی اور تین فٹ گہری تھی۔ جہاں اس نہر سے ہماری جاگیر کو آبپاشی کا پانی جاتا، اس جگہ سر ہنری ریمزے کے حکم پر نہر کو کھود کر چند گز کے لیے چھ فٹ گہرا کر دیا گیا تھا۔ ہر روز جب لڑکیاں نہانے کو جاتیں تو مجھے حکم ملتا کہ کسی لڑکی اس گہری جگہ ڈوبنے نہ دوں۔ کاٹن کے پتلے شب خوابی کے لباس پہن کر جب تین فٹ گہرے پانی میں پیر پھسلے یا اچانک بیٹھنا ہو تو سارا لباس ہوا بھرنے کے بعد سطح پر تیرنے لگ جاتا تھا اور ہر لڑکی پانی میں پہنچتے ہی یہی کچھ کرتی تھی۔ جب بھی ایسا ہوتا، اور یہ بار بار ہوتا تھا، مجھے سخت حکم تھا کہ دوسری جانب دیکھنے لگ جاؤں۔
جب میں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوتا اور بوقتِ ضرورت دوسری جانب دیکھتا تو اس وقت دوسرے لڑکے نہر کے ایک سرے پر موجود گہرے تالاب میں نہا رہے ہوتے اور غلیل سے درختوں سے پھول گراتے یا پرندوں کا شکار کرنے کی کوشش کرتے۔ سیمل کے درختوں پر پرندے اور گلہریاں کھانے سے زیادہ پھول نیچے گراتے جو بعد میں جنگلی سور اور ہرن کھانتے۔ پیپل کے درخت پر بیٹھا الو ہمیشہ اتنا محتاط رہتا کہ کبھی بھی اس پر غلیل سے حملہ نہیں کیا جا سکتا تھا پھر بھی لڑکے اس پر غلہ چلا دیتے۔ بڑے تالاب پر پہنچتے ہی مقابلہ شروع ہو جاتا کہ کون سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گھر میں بنی دستی بنسیاں اور دھاگوں کی ریلیں استعمال ہوتی تھیں۔ جب مچھلی پکڑنے والی پیسٹ ساری ختم ہو جاتی یا پانی میں گر جاتی اور چند ہی مچھلیاں پکڑی گئی ہوتیں تو پھر کپڑے اتار کر سارے ہی تالاب میں نہانے کے لیے چھلانگیں مارتے اور مقابلہ ہوتا کہ دوسرے کنارے کو پہلے کون پہنچے گا۔ جب سارے لڑکے ان دلچسپ مشغلوں میں مصروف ہوتے، میں ان سے ایک میل دور بیٹھا لڑکیوں کی جھڑکیان سن رہا ہوتا کہ اپنے خیالات میں مگن ہونے کی وجہ سے میں لڑکیوں کو پاس سے گذرتے ہوئے کسی دیہاتی کا بتانا بھول جاتا تھا۔ تاہم اس بیگار کا ایک مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ مجھے لڑکیوں کے سارے خفیہ منصوبے پہلے سے پتہ چل جاتے جو وہ لڑکوں کے خلاف بالعموم اور ڈینسی اور نیل فلیمنگ کے خلاف بالخصوص بناتیں۔
ڈینسی اور نیل دونوں ہی آئرش النسل تھے اور یہی ان کی واحد مشترکہ خاصیت تھی۔ ڈینسی پستہ قد، بالوں سے بھرا اور کسی ریچھ کی مانند طاقتور تھا تو نیل بید مجنون کی مانند نازک اور پھول کی مانند کمزور تھا۔ ڈینسی رائفل ہاتھ میں لیے جنگل میں پیدل شیروں کا تعاقب کر کے شکار کرتا تھا تو نیل کو جنگل کے نام سے ہی بخار چڑھ جاتا تھا اور اس نے کبھی بندوق بھی نہیں چلائی تھی۔ ان میں ایک اور مشترکہ بات بھی تھی کہ دونوں ہی ایک دوسرے سے پوری طرح نفرت کرتے تھے کہ دونوں ہی بیک وقت ساری لڑکیوں پر عاشق تھے۔ ڈینسی کا باپ ایک جنرل تھا جس کی خواہش تھی کہ ڈینسی فوج میں جائے اور ڈینسی کے انکار پر اسے عاق کر دیا تھا۔ ڈینسی میرے بڑے بھائیوں کے ساتھ سرکاری اسکول میں پڑھتا تھا اور ابھی اس کی محکمہ جنگلات کی ملازمت کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور اسے توقع تھی کہ جلد ہی پولیٹکل سروس میں اسے جگہ مل جائے گی۔ نیل میرے بڑے بھائی ٹام کے ماتحت ڈاکخانے میں کام کرتا تھا۔ اگرچہ دونوں ہی کسی لڑکی سے شادی کے قابل نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کی باہمی نفرت اور لڑکیوں سے محبت عروج پر تھیں۔
نہر کنارے بیٹھ کر لڑکیوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ نیل پچھلی بار جب کالاڈھنگی آیا تو بہت مغرور ہو گیا تھا اور اس نے خوامخواہ فرض کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ ڈینسی بہت شرمیلا اور جھجھک رہا تھا۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے نیل کو بے عزت کرنا اور ڈینسی کو آگے لانا ضروری تھا لیکن تھوڑا سا۔ اگر زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی تو ڈینسی بھی فرض کرنے لگ جائے گا۔ اب فرض کرنے سے کیا مراد تھی، مجھے نہ تو پتہ تھا اور نہ ہی مجھے اچھا لگا کہ پوچھتا۔ ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی نیت سے انہوں نے سوچا کہ دونوں کے ساتھ کوئی حرکت کی جائے۔ کئی منصوبے بنے لیکن آخر جس منصوبے پر اتفاق ہوا، اس میں میرے بڑے بھائی ٹام کی مدد درکار تھی۔ سردیوں میں نینی تال کے ڈاکخانے میں کام بہت ہلکا ہوتا تھا اور ٹام کی عادت تھی کہ وہ نیل کو ہر دوسرے ہفتے ہفتے کی شام سے پیر کی صبح تک کی چھٹی دے دیا کرتا تھا۔ یہ چھٹی وہ کالاڈھنگی میں موجود دونوں میں سے کسی ایک خاندان کے ساتھ گذارتا تھا اور اپنی طبعیت اور اچھی آواز کی وجہ سے ہمیشہ اسے خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ٹام کو بذریعہ خط یہ کہا گیا کہ نیل کو ہفتے کی شام کو کسی نہ کسی بہانے سے دیر تک روک کر بھیجا جائے تاکہ پندرہ میل کا سفر طے کر کے جب وہ کالاڈھنگی پہنچے تو رات ہو رہی ہو۔ مزید ٹام نیل کو یہ بھی بتائے کہ اس کی آمد میں تاخیر کی وجہ سے وہ اسے بتا دے کہ عین ممکن ہے کہ لڑکیاں اس کی تاخیر سے پریشان ہو کر شاید اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوں۔ مزید یہ بھی طے کیا گیا کہ ڈینسی اپنے شکار کردہ ریچھوں میں سے ایک کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ نینی تال کی طرف دو میل جا کر سڑک کے ایک تنگ موڑ کے پیچھے جا کر چھپ جائے۔ جب نیل پہنچے تو ڈینسی اس پر کسی ریچھ کی طرح حملہ کرے گا اور ریچھ کو دیکھتے ہی نیل بھاگ کر سیدھا لڑکیوں کی بانہوں میں جا سمائے گا جو اس کی کہانی سن کر اس کی بزدلی پر ہنسیں گی اور جب ڈینسی بھی اپنی کھال اتار کر آن پہنچے گا تو خوب لطف رہے گا۔ ڈینسی نے اس منصوبے پر اعتراض کیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے سینڈوچ میں دو ہفتے قبل جو لال رنگ کی دھجی نکلی تھی اور جس کی وجہ سے اسے پکنک پر سخت شرمندگی ہوئی تھی، وہ نیل نے تجویز کی تھی۔
کالاڈھنگی سے نینی تال کی سڑک پر آمد و رفت سورج غروب ہوتے ہی رک جاتی تھی اور مطلوبہ دن ڈینسی ایک ریچھ کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ مطلوبہ مقام کو چل دیا۔ راستے میں کبھی وہ دو پیروں تو کبھی چاروں پر چلتا۔ چونکہ شام کافی گرم تھی اور ڈینسی نے اپنے کپڑوں کے اوپر کھال پہنی تھی اس لیے بے چارہ پسینے میں شرابور تھا۔ دوسری طرف نینی تال میں نیل کو ایک کے بعد دوسرا کام دیا جا رہا تھا حتیٰ کہ اس کے عام طور پر روانگی کا وقت بھی گزر گیا۔ کافی دیر بعد جب ٹام نے اسے اجازت دی تو جانے سے قبل ٹام نے اس کے ہاتھ میں ایک دو نالی بندوق اور دو کارتوس بھی پکڑا دیے اور بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کام آئیں گے۔ نینی تال سے کالاڈھنگی کا راستہ سارا بالعموم اترائی ہے اور ابتدائی آٹھ میل مزروعہ زمینوں سے ہو کر گذرتے ہیں اور پھر اس سے آگے عین کالاڈھنگی تک سارا راستہ گھنے جنگل سے گذرتا ہے۔ ڈینسی اور لڑکیاں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ گئیں اور جب روشنی کم ہونے لگی تھی کہ سڑک سے نیل کے گانے کی آواز آئی۔ شاید اپنا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ گا رہا تھا۔ آواز قریب سے قریب ہوتی چلی آئی اور لڑکیوں نے بعد میں بتایا کہ انہوں نے نیل کو کبھی اتنا اچھا گاتے نہیں سنا تھا۔ جب نیل اس موڑ پر پہنچا جس کے پیچھے ڈینسی اس کا منتظر تھا، ڈینسی نے پیروں پر کھڑا ہو کر ریچھ کی طرح آواز نکالی۔ عین اسی وقت نیل نے بندوق چھتیائی اور سیدھا ڈینسی پر دو فائر کر دیے۔ دھوئیں کے بادل نے نیل کے سامنے پردہ سا تان دیا اور جب وہ بھاگا تو اسے "ریچھ” کے نیچے کھائی میں لڑھکنے کی آواز آنے لگی تھی۔ عین اسی وقت لڑکیاں بھاگ پر اس جگہ پہنچیں۔ لڑکیوں کو دیکھتے ہی نیل نے اپنی بندوق لہرائی اور بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بہت بڑے ریچھ کو مار ڈالا ہے جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔ جب لڑکیوں نے پوچھا کہ ریچھ کہاں گیا تو نیل نے بے پروائی سے نیچے کھائی کی طرف بندوق سے اشارہ کیا کہ ادھر ہے۔ پھر اپنے شکار کو دیکھنے کے لیے نیل نے نیچے اترنے کا سوچا اور لڑکیوں سے بھی کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلیں کہ ریچھ تو کب کا مر چکا ہے۔ تاہم لڑکیوں نے سختی سے انکار کیا اور کہا کہ اسے اکیلے ہی جانا ہو گا۔ لڑکیوں کے بہتے آنسوؤں سے نیل کو بہت خوشی ہوئی کہ لڑکیاں اس کے بچ نکلنے پر کتنی خوش ہو رہی ہیں۔ خیر وہ نیچے اترا۔ ڈینسی نے نیل سے اور نیل نے ڈینسی سے کیا کہا اور کیا نہیں، اس بارے کوئی معلومات نہیں لیکن جب کافی دیر بعد دونوں اوپر پہنچے تو ڈینسی نے بندوق جبکہ نیل نے ریچھ کی کھال اٹھائی ہوئی تھی۔ ڈینسی بے چارہ سینے پر دو گولیاں کھا کر سیدھا نیچے گرا لیکن ریچھ کی کھال نے اسے چوٹوں سے بچا لیا۔ جب نیل سے پوچھا گیا کہ بھئی تمہارے پاس بندوق کیسے آئی کہ جس سے ایک مہلک حادثہ ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے بتایا کہ یہ بندوق اور کارتوس اسے ٹام نے دیے تھے۔ ساری ذمہ داری ٹام کی غائب دماغی پر ڈال دی گئی۔
چونکہ سوموار کو سرکاری تعطیل تھی اس لیے ٹام اتوار کی رات کو آن پہنچا تاکہ چھٹی گھر پر گزار سکے۔ فوراً ہی اسے ناراض لڑکیوں نے گھیر لیا کہ اس نے نیل کو بندوق اور کارتوس کیوں دیے تھے جس سے ڈینسی کی زندگی خطرے میں پڑی۔ ٹام نے آرام سے ساری باتیں سنیں۔ جب لڑکیاں اس جگہ پہنچیں جب نیل کے فائر سے ڈینسی کھائی میں جا گرا تو لڑکیاں اس کی بے وقت موت پر رونے لگیں تھیں کہ ٹام قہقہے لگانے لگا اور پھر اس نے بتایا کہ جب اسے خط ملا تو اسے احساس ہوا کہ شرارت ہونے لگی ہے۔ اس لیے اس نے کارتوسوں سے گولیاں نکال کر آٹا بھر دیا تھا۔ اس سارے مذاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈینسی مزید شرمیلا ہو گیا جبکہ نیل کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔
٭٭٭
باب 2
لڑکیوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ڈینسی نے یہ غلط فہمی پال لی کہ ریچھ والے واقعے میں میرا بھی ہاتھ تھا۔ حالانکہ میرا ہاتھ صرف اتنا تھا کہ میں نے کھال کو سینے کے لیے دھاگے کی بجائے موٹی بیل استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ایک صبح جب میں اپنے دوستوں کو درخت کی ایک شاخ سے جھول کر دوسری تک جانے کا طریقہ سکھا رہا تھا کہ ڈینسی مجھے شکار کے لیے اپنے ساتھ لینے آن پہنچا۔ میں اس عزت افزائی پر پھولے نہ سمایا اور فوراً اس کے ساتھ چل دیا۔ راستے میں ڈینسی نے بتایا کہ وہ مجھے پیدل شیر کا شکار سکھانے لے جا رہا ہے۔ دھونیگر پہنچ کر ہمیں بہت سارے شیروں کے پگ تو دکھائی دیے مگر شیر نہیں ملے۔ بعد کے سالوں میں میں نے یہاں بہت شیر دیکھے تھے۔ خیر، واپسی پر راستے میں ڈینسی نے مجھے پہلی بار بندوق چلانے کا تجربہ کرانے کا سوچا۔ جب اسے یہ خیال سوجھا تو ہمارے سامنے ایک کھلا میدان تھا جس میں بہت سارے پرندے دیمک کی تلاش میں زمین پر خشک پتے کھدیڑ رہے تھے۔ شیر کے شکار پر جب ہم نکلے تو ڈینسی کے ہاتھ میں مزل لوڈر رائفل تھی اور کندھے پر مزل لوڈر بندوق بھی۔ اب اس نے بندوق اتار کر مجھے دی اور بتایا کہ دائیاں پاؤں ذرا آگے بڑھا کر بندوق شانے سے لگا کر کیسے فائر کرنا ہے۔ اتنے سال گذرنے کے بعد بھی مجھے یہ بات سمجھ نہی آتی کہ آیا میری خاطر ڈینسی نے بندوق میں اضافی بارود ڈالا تھا یا اس کی یہ عادت تھی۔ خیر، جب میرے ہوش ٹھکانے لگے تو دیکھا کہ ڈینسی بندوق کی نال پر ہاتھ پھیر کر دیکھ رہا ہے کہ کہیں کوئی ڈینٹ تو نہیں پڑا، کیونکہ بندوق چلاتے ہی میں اچھل کر پیچھے گرا اور بندوق بھی کہیں کی کہیں جا پڑی۔ بندوق چلتے ہی ہمارے سامنے والے سارے پرندے اڑ گئے لیکن ایک چھوٹا سا پرندہ زمین پر پڑا دکھائی دیا۔ جب ہم نے دیکھا تو اسے کوئی زخم نہیں لگا تھا۔ ڈینسی نے بتایا کہ شاید یہ پرندہ خوف سے مر گیا ہو گا۔ مجھے دل و جان سے اس کی بات سچ لگی کیونکہ دہشت کے مارے میں خود چند منٹ قبل مرتے مرتے بچا تھا۔
ڈینسی والے واقعے کے بعد کچھ وقت ہی گذرا ہو گا کہ میرے بڑے بھائی ٹام نے والدہ کو بتایا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ ریچھ کے شکار پر لے جا رہا ہے۔ میں چار سال کا تھا کہ میرے والد کا انتقال ہوا اور ٹام نے اس وقت سے گھر کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ والدہ کو یہ بات بالکل نہ بھائی کیونکہ تمام تر بہادری کے باوجود وہ نرم دل تھیں۔ میں پوری توجہ سے ٹام اور والدہ کی باتیں سنتا رہا اور ٹام نے والدہ کو پوری طرح یقین دلایا کہ وہ میرا پورا خیال رکھے گا اور ہرگز کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ جب والدہ نے اجازت دی تو میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ ہر طرح کے نقصان سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ بھائی کے ساتھ چپکا رہوں۔
اس شام ہم روانہ ہوئے تو ٹام نے اپنی رائفل اور میری بندوق اٹھائی ہوئی تھی۔ ہم لوگ پہاڑ پر متوازی ایک راستے پر چل پڑے۔ یہاں نصف فاصلے پر ہمیں ایک انتہائی خوفناک اور گہری کھائی دکھائی دی۔ اس جگہ ٹام نے رک کر مجھے بتایا کہ ریچھ کے شکار کے لیے یہ بہترین جگہ ہے کیونکہ ریچھ اوپر جا رہے ہوں یا نیچے اتر رہے ہوں، ہر صورت میں یہاں سے گذریں گے۔ پھر اس نے مجھے بیٹھنے کے لیے ایک جگہ دکھائی اور بندوق اور گولی کے دو کارتوس مجھے تھمائے اور ہدایت کی کہ ریچھ کو زخمی کرنے کی بجائے ہلاک کروں۔ پھر 800 گز دور پہاڑ کے کنارے پر ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے اس نے بتایا کہ وہ ادھر جا کر بیٹھے گا۔ اگر کوئی ریچھ ایسی جگہ سے گذرا کہ جو میرے خیال میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو تو میں بھاگ کر اسے ریچھ کے بارے بتاؤں۔ یہ کہہ کر ٹام چل دیا۔
تیز ہوا چل رہی تھی اور خشک گھاس اور سوکھے پتے عجیب آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ میرے تخیل نے میرے آس پاس کے سارے جنگل کو بھوکے اور خونخوار ریچھوں سے بھر دیا تھا (واضح رہے کہ اس موسم سرما میں اسی پہاڑ پر 9 ریچھ شکار ہوئے تھے )۔ مجھے اس بات پر قطعی کوئی شبہ نہیں تھا کہ ریچھ مجھے پھاڑ کھائیں گے، مجھے صرف یہ فکر ستا رہی تھی کہ مجھے کتنی تکلیف ہو گی۔ وقت انتہائی آہستگی سے گذرتا رہا اور ہر لمحہ میری دہشت بڑھتی گئی۔ سورج ڈوبتے جب پہاڑوں پر ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی تو میں نے ٹام کے درخت سے چند سو گز اوپر ایک ریچھ کو آہستگی سے نیچے اترتے دیکھا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ٹام نے ریچھ کو دیکھا یا نہیں دیکھا، میری دعا قبول ہو گئی تھی کہ مجھے اس خوفناک جگہ سے بھاگنے کا بہانہ مل گیا تھا۔ بندوق کندھے پر لاد کر میں ٹام کو ریچھ کے بارے بتانے چل پڑا۔ ڈینسی والے حالیہ واقعے کی وجہ سے بندوق بھرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
ہمارے علاقوں میں ہمالیہ کا کالا ریچھ بلوط کے پھل پر زندہ رہتا ہے۔ چونکہ ریچھ بہت بھاری ہوتے ہیں اور پھل درختوں پر بلندی پر اگتا ہے تو ریچھ نازک شاخوں کو موڑ کر پھل توڑ لیتے ہیں۔ کچھ شاخیں ٹوٹنے کے باوجود درخت سے لگی سالوں تک سرسبز رہتی ہیں جبکہ کئی شاخیں ٹوٹ کر نیچے گر جاتی ہیں یا محض چھال کے سہارے لٹکی ہوتی ہیں۔ جب کھائی عبور کر کے میں دوسرے کنارے پر چڑھا تو مجھے زور کی آواز آئی۔ دہشت کے مارے میں وہیں رک گیا اور آواز لمحہ بہ لمحہ قریب تر ہوتی گئی اور دھچکے کے ساتھ کوئی بڑی چیز میرے عین سامنے گری۔ یہ شاخ کسی ریچھ نے توڑی تھی جو محض چھال کے سہارے لٹک رہی تھی اور ابھی تیز ہوا کی وجہ سے ٹوٹ کر عین اسی وقت نیچے گری جب میں وہاں سے گذرنے لگا تھا۔ اس وقت مجھے جتنا ڈر لگا، اگر میرے سامنے ایشیاء کا سب سے بڑا ریچھ بھی آ جاتا تو بھی اس سے زیادہ نہ ڈرتا۔ ٹام کے پاس جانے کا سارا حوصلہ ختم ہو چکا تھا اور میں واپس اپنی جگہ جا کر بیٹھ گیا۔ اگر کوئی انسان محض دہشت سے مر سکتا ہو تو پھر اس رات اور اس کے بعد بھی بے شمار مرتبہ میں مر چکا ہوتا۔
شفق کی لالی پہاڑوں کے اوپر سے غائب ہو رہی تھی کہ تاریکی سے ٹام کا سایہ سامنے نمودار ہوا۔ "تمہیں ڈر تو نہیں لگا؟” بندوق لیتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اب مجھے ڈر نہیں لگ رہا تو اس نے کمال مہربانی سے بات گول کر دی۔
جب بھی ہم شکار کو جاتے تو ٹام ہمیشہ علی الصبح روانہ ہونے کو تیار ہو جاتا۔ ایک دن جب ہم موروں کا شکار کرنے صبح 4 بجے نکلنے لگے تو اس نے خاموشی سے میرا ہاتھ منہ دھو کر میرے کپڑے بدلے تاکہ دیگر لوگ نہ جاگ جائیں اور پھر نصف گھنٹے بعد گرما گرم چائے اور بسکٹوں سے پیٹ بھر کر ہم سات میل دور گروپو کے جنگل کو روانہ ہو گئے۔
اپنی زندگی میں میں نے جنگلوں میں بے انتہائی تبدیلیاں ہوتے دیکھی ہیں۔ کئی تبدیلیاں انسانی مداخلت سے جبکہ دیگر قدرتی طور پر واقع ہوئیں۔ گھنے جنگل کی جگہ گھاس پھونس اور جھاڑیوں کی جگہ گھنا جنگل اگتے دیکھا ہے۔ گروپو کے جنگل کے جنوب مشرقی سرے پر جس کا میں بتا رہا ہوں، اس وقت اونچی گھاس اور آلو بخارے کی جھاڑیاں تھیں۔ اس جگہ کے لیے ہم روانہ ہوئے تھے کہ آلو بخارے پک چکے تھے اور نہ صرف ہرن اور سور بلکہ مور بھی اسے کھانے کو دور دور سے آتے تھے۔
جب ہم گروپو پہنچے تو ابھی اندھیرا باقی تھا۔ کنویں کے پاس بیٹھ کر ہم نے تاریکی ختم ہوتے اور روشنی نمودار ہوتے دیکھی۔ ساتھ ہی ہم جنگل کے بیدار ہونے کی آوازیں بھی سنتے رہے۔ ہر طرف سرخ جنگلی مرغوں کی بانگیں سنائی دے رہی تھیں جو نیند سے بیدار ہو کر صبح کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ سیمل کے اونچے درخت پر بیٹھے ایک مور نے بھی بولنا شروع کر دیا۔ جب سورج درختوں کی چوٹیوں تک بلند ہوا تو سیمل کی شاخیں ہمیں دکھائی دینے لگ گئیں۔ اس درخت سے بیس سے بھی زیادہ مور نیچے اترے۔ اپنے پائپ کو بجھا کر ٹام نے مجھے اپنے ساتھ اٹھنے کا اشارہ کیا اور بتایا کہ اب جنگل میں داخل ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ کہرا گہرا تھا اور تیس فٹ کی بلندی تک چھایا ہوا تھا۔ درختوں کے پتوں سے شبنم کے قطرے اس طرح ٹپک رہے تھے جیسے بوندا باندی ہو رہی ہو۔ یہاں گھاس میری تھوڑی تک جبکہ ٹام کی کمر تک آتی تھی۔ ابھی ہم یہاں چند گز ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ہمارے کپڑے پوری طرح گیلے ہو کر ہمارے جسموں سے چپک گئے اور سردی ناقابل برداشت ہو گئی۔ دسمبر کی یہ صبح کافی سرد تھی۔
سیمل کے درخت کی سمت گئے تو ہمیں دس بارہ مور دکھائی دیے جو نیچے گھاس میں اتر آئے۔ ایک نر مور سیدھا اوپر درخت کی اونچی شاخ پر جا کر بیٹھ گیا۔ بارہ بور کی بندوق میرے ہاتھ دے کر جب ٹام نے مجھے کارتوس تھمائے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے ہدایت کی کہ آگے بڑھ کر اس نر مور کو شکار کرو۔ ابھی ڈیڑھ سو گز دور جا کر مجھے شکار کرنا تھا۔ چالیس گز جتنا چل کر میں رکا تاکہ بندوق کو بھر سکوں۔ جونہی میں رکا تو مجھے ٹام کی سیٹی سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو وہ مجھے واپس بلا رہا تھا۔ جب میں واپس ٹام تک پہنچا تو اس نے بتایا کہ مور ابھی بندوق کی مار سے دور تھا۔ میں نے بتایا کہ میں بندوق بھر رہا تھا، چلا نہیں رہا تھا۔ اس نے مجھے ہدایت کی کہ بھری ہوئی بندوق ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ گھاس میں گڑھے وغیرہ سے اگر پاؤں رپٹ جائے تو بندوق چل سکتی ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ اب دوبارہ کوشش کرو۔ آلوبخارے کی جھاڑی سے چھپتا ہوا میں آگے بڑھا اور آسانی سے مور بندوق کی مار میں آ گیا۔ سیمل کا درخت پتوں کے بغیر لیکن بڑے بڑے سرخ پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور سورج کی روشنی میں اس سے زیادہ خوبصورت مور میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اب بندوق بھرنے کا وقت تو آ گیا تھا لیکن جوش اور سردی سے جمی ہوئی انگلیوں کی وجہ سے گھوڑے نہ چڑھا سکا۔ ابھی میں کوشش کر ہی رہا تھا کہ مور اڑ گیا۔ جب واپس پہنچا تو ٹام نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اگلی بار سہی۔ تاہم اس روز میری قسمت میں کوئی شکار نہیں لکھا تھا اور جب ٹام نے ایک سرخ جنگلی مرغ اور تین مور مار لیے تو ہم گھر کو واپس لوٹے تاکہ ناشتا کر سکیں۔
٭٭٭
باب 3
ابھی تک میں نے جنگل کی تربیت کے جو تین واقعات بیان کئے ہیں، پر میری تربیت ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ بندوق کو کیسے سنبھالنا اور چلانا ہے، شیر اور ریچھوں کے جنگل میں لے جا کر مجھے دکھایا گیا کہ جب تک یہ جانور زخمی نہ ہوں، ان سے خطرہ نہیں ہوتا۔ کم عمری میں اگر سبق اچھی طرح سیکھ لیے جائیں تو وہ ساری زندگی نہیں بھولتے۔ اب اگر ان اسباق سے میں کوئی فائدہ اٹھاتا یا نہ اٹھاتا، یہ میری مرضی تھی۔ اب میں تھا اور شکار تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ کسی نے زبردستی مجھے کچھ کرنے کو نہیں کہا۔
لڑکوں کو اگر اپنی مرضی سے کام کرنے دیا جائے اور شکار کے مواقع بھی ہوں تو وہ اپنی مرضی کے شکار کو آسانی سے اپنا لیتے ہیں جس کے لیے وہ جسمانی اور ذہنی، دونوں طور پرمناسب ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر انہیں کسی ایسے مشغلے میں لگا دیا جائے جو انہیں پسند نہ ہو تو یہ ظلم ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کے شکار سے وہ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔
میری والدہ اور بہنوں کی مدد کے لیے ٹام سامنے آیا اور جب میں نمونیہ کے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور زندگی کی ڈوریں میرے ہاتھ سے نکلنے ہی والی تھیں کہ اس نے مجھے پہلی غلیل دی۔ بستر پر میرے پاس بیٹھ کر اس نے اپنی جیب سے غلیل نکالی اور میرے ہاتھوں دینے کے بعد ساتھ میز سے گائے کی یخنی کا پیالہ اٹھایا اور مجھے کہنے لگا کہ یخنی پیو تاکہ تمہارے اندر طاقت آئے اور تم غلیل چلانے کے قابل ہو جاؤ۔ اس دن سے میں نے زندگی میں پھر سے دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اسی دوران میں گھر والے مجھے نہ صرف جنگل کے بارے بتاتے رہے بلکہ یہ بھی کہ غلیل کو کیسے چلانا چاہیے۔
ٹام نے مجھے بتایا کہ شکاری کے لیے سال کے دو حصے ہوتے ہیں۔ شکار کے لیے کھلا اور شکار کے لیے بند سیزن۔ بند سیزن میں پرندے گھونسلے بنا کر بچے پیدا کرتے ہیں اور اس دوران میں انہیں شکار کرنا ظلم ہوتا ہے۔ کھلے سیزن میں جتنے پرندے چاہیں، مارے جا سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ میں کوئی پرندہ فالتو نہ ہلاک کروں۔ ہریل اور کشمیرے ہمارے پہاڑوں میں بکثرت ملتے ہیں، انہیں شکار کر کے کھایا جا سکتا ہے اور باقی تمام پرندے ہلاک کرنے کے بعد ان کی کھال اتار کر انہیں حنوط کیا جا سکتا ہے۔ جب میں اس قابل ہوا تو ٹام نے مجھے ایک چاقو اور آرسینک کا آمیزہ دیا۔ پرندے حنوط کرنے میں ٹام کی مہارت واجبی سی تھی لیکن جب اس نے میرے سامنے ایک پرندے کی کھال اتار کر اسے محفوظ کیا تو مجھے اندازا ہو گیا کہ یہ کام کیسے کرتے ہیں اور بعد میں مسلسل مشق نے مجھے ماہر بنا دیا۔ ہمارا ایک قریبی رشتہ دار سٹیفن ڈیز ان دنوں کماؤں کے پرندوں پر ایک کتاب لکھ رہا تھا اور 480 رنگین تصاویر میں سے زیادہ تر پرندے میرے مجموعے سے یا ان پرندوں سے لیے جو میں اس کے لیے مار لاتا تھا۔
ٹام کے پاس دو کتے تھے۔ ا یک کا نام پوپی تھا جو اس نے دوسری افغان جنگ کے دوران میں کابل کی سڑکوں پر پھرتے دیکھا تھا۔ یہ لال رنگ کا عام دیہاتی کتا تھا جسے ٹام اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا۔ دوسرا کتا سپینئل نسل کا کلیجی اور سفید رنگ کا تھا اور اتنا مضبوط تھا کہ مجھے کچھ فاصلے تک لاد کر بھی لے جاتا تھا۔ نہ صرف وہ میرا محافظ بن جاتا تھا بلکہ اس کی ساری توجہ میری ہی جانب رہتی تھی۔ میگگ سے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی کہ گھنی جھاڑیوں سے ہمیشہ دور سے گزرنا چاہئے کہ ان میں لیٹے جانور آپ کی موجودگی سے ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔ میگگ سے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی کہ جنگل میں کتا بھی اتنی ہی خاموشی سے چل سکتا ہے جتنی خاموشی سے بلی۔ میگگ کی مدد سے ہی میں جنگل کے ان حصوں میں مٹرگشت کے قابل ہوا جہاں میں اکیلا جانے سے ڈرتا تھا۔ میرے غلیل والے دنوں کا ایک یادگار واقعہ درج ذیل ہے جس میں میگگ مرتے مرتے بچا تھا۔
اس روز ہم ڈینسی کے لیے ایک پرندہ تلاش کرنے گھر سے نکلے تھے۔ ہمارے ساتھ اس کا سکاٹش کتا بھی تھا جس کا نام تھسل تھا۔ دونوں کتے ایک ودسرے کو ناپسند کرتے تھے لیکن لڑنے پرہیز کرتے تھے۔ ابھی ہم تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ تھسل نے ایک خارپشت یعنی سیہی کو بھگایا۔ میرے منع کرنے کے باوجود میگگ اس کے پیچھے لگ گیا۔ ڈینسی کے پاس مزل لوڈنگ بندوق تھی لیکن اگر وہ گولی چلاتا تو کتوں کے زخمی ہونے کا اندیشہ تھا کہ دونوں کتے سیہی کے دائیں بائیں بھاگتے ہوئے اسے کاٹ رہے تھے۔ ڈینسی بھاگنے میں کمزور تھا اور بھاری بندوق کے وزن سے وہ ہم سے کافی پیچھے رہ گیا۔ خارپشت یا سیہی سے مقابلہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ ا گرچہ سیہی اپنے کانٹے پھینک نہیں سکتی لیکن اس کے کانٹے بہت سخت اور بھاگنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ دفاع کی نیت سے سیہی عموماً اپنے کانٹے کھڑے کر کے پیچھے کو ہٹنا شروع کر دیتی ہے۔
تعاقب کرنے سے قبل میں نے غلیل کو جیب میں ڈالا اور ایک مضبوط ڈنڈا اٹھا لیا۔ تاہم اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا کہ جونہی میں اس کے قریب پہنچتا، سیہی کانٹے کھڑے کر کے مجھ پر حملہ آور ہو جاتی۔ کئی بار کتوں نے مجھے بچایا۔ یہ تعاقب نصف میل تک جاری رہا اور ہم ایک گہری کھائی کے کنارے جا پہنچے۔ اسی کھائی میں کئی سیہوں کے بل تھے۔ اچانک میگگ نے سیہی کے ناک سے اور تھسل نے گلے سے پکڑ لیا۔ جب ڈینسی پہنچا تو ساری کشمکش ختم ہو چکی تھی۔ تاہم اپنے اطمینان کے لیے اس نے سیہی پر کارتوس چلا دیا۔ دونوں کتے خون سے نہائے ہوئے تھے اور پھر جتنے کانٹے ہم نکال سکتے تھے، نکالنے کے بعد گھر روانہ ہوئے۔ ڈینسی نے مردہ سیہی کو اپنے کاندھے سے لٹکایا ہوا تھا۔ چونکہ کتوں کے جسم میں کئی کانٹے ٹوٹ کر پھنس گئے تھے، اس لیے ہمارا خیال تھا کہ انہیں چمٹیوں کی مدد سے نکالیں گے۔ سیہی کے کانٹے خاردار ہوتے ہیں اور انہیں نکالنا مشکل ہوتا ہے۔
ساری رات میگگ نے تکلیف سے گذاری اور مسلسل چھینکتا رہا۔ ہر چھینک کے ساتھ خون کا لوتھڑا بھی گرتا تھا۔ اگلے دن اتوار تھا اور میرا بھائی ٹام خوش قسمتی سے نینی تال سے گھر آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کانٹا میگگ کی ناک میں ٹوٹ کر پھنس گیا ہے۔ کئی بار کی کوشش کے بعد ٹام نے چمٹی سے چھ انچ لمبا کانٹا نکالا۔ اس کی موٹائی پین ہولڈر جتنی ہو گی۔ کانٹا نکلتے ہی خون کی دھار بہہ نکلی۔ چونکہ ہمارے پاس خون روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس لیے ہم کچھ نہ کر سکے۔ تاہم اس کی دیکھ بھال جاری رہی اور آخرکار وہ تندرست ہو گیا۔ تھسل کو زیادہ زخم نہیں لگے تھے اس لیے وہ سستا چھوٹ گیا۔
جب مجھے مزل لوڈنگ بندوق ملی، جس کے بارے میں آگے چل کر بات کروں گا، تو میگگ اور میں دو بار بہت سنسنی خیز واقعات سے دوچار ہوئے۔ ایک واقعہ کالاڈھنگی جبکہ دوسرا نینی تال میں پیش آیا۔ نیا گاؤں دیہات جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس وقت پوری طرح زیر کاشت تھا اور مزروعہ زمینوں اور دھونیگر ندی کے درمیان میں جنگل کی ایک پٹی سی تھی جس میں جگہ جگہ کھلے قطعے بھی تھے۔ چوتھائی میل لمبی اور نصف میل چوڑی اس پٹی میں جنگلی جانوروں کی ایک پگڈنڈی گذرتی تھی۔ ندی کے دونوں کناروں پر گھنا جنگل شکار کے قابل جانوروں اور پرندوں سے بھرا ہوا تھا۔ سرخ جنگلی مرغ، مور، ہرن اور سور، بے شمار پائے جاتے تھے۔ یہ سارے جانور اسی پگڈنڈی سے گزر کر ہی فصلوں کو کھانے جاتے تھے۔ اسی پگڈنڈی پر پہلا واقعہ مجھے اور میگگ کو پیش آیا۔
نیا گاؤں کالاڈھنگی میں ہمارے گھر سے تین میل دور تھا اور علی الصبح میں اور میگگ مور شکار کرنے کی نیت سے نکلے۔ کھلی پگڈنڈی کے عین درمیان میں چلتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں جنگلی جانوروں کے زیراستعمال ایک پگڈنڈی آن ملتی تھی۔ درمیان میں چلنے کی وجہ یہ تھی کہ ابھی روشنی بہت کم تھی اور اس جگہ شیر اور تیندوے بکثرت تھے۔ اس جگہ میں نے بندوق کو بھرنا شروع کیا۔ مزل لوڈنگ بندوق کو بھرنا طویل کام ہوتا ہے کہ پہلے ماپ کر بارود نال میں ڈالنا، پھر کپڑے کی دھجی سے اسے جمانا اور پھر چھرے ڈال موٹے کاغذ کا ٹکڑا اس پر جمانا اور پھر موٹی سلاخ کی مدد سے انہیں ٹھونک کر جمانا۔ پھر گھوڑے کو نصف اٹھا کر بارودی ٹوپی اس پر جمانا۔ جب میرے خیال سے یہ سب کچھ بہترین طور پر ہو گیا تو سامان بیگ میں ڈال کر میں اور میگگ چل پڑے۔ اس دوران میں بہت سارے جنگلی مرغ اور مور سڑک سے گذرے لیکن کوئی بھی اتنی دیر نہیں رکا کہ میں اس پر گولی چلا سکتا۔ ابھی ہم نصف میل ہی گئے ہوں گے کہ ایک کھلا قطعہ آیا اور 7 مور ہمارے سامنے اس قطعے کو عبور کر کے دوسری جانب گم ہو گئے۔ چند لمحے رک کر میں نے میگگ کو بھیجا تاکہ وہ انہیں جا کر اڑائے۔
جب کسی کتے کی وجہ سے مور اڑیں تو ہمیشہ کسی درخت کی شاخ پر جا بیٹھتے ہیں۔ ان دنوں میرے لیے بیٹھا پرندہ شکار کرنا بھی مشکل ہوتا تھا اور اکثر میگگ اور میری مشترکہ کوششوں سے ہی جا کر مور شکار ہوتا تھا۔ میگگ کو شکار میں مور سب سے زیادہ پسند تھے اور جب مور درخت پر بیٹھے تو وہ ان پر بھونکتا رہتا۔ موروں کی ساری توجہ میگگ کی طرف ہوتی اور مجھے چھپ کر پاس آنے اور گولی چلانے کا موقع مل جاتا۔
شاید موروں نے میگگ کو دیکھ کر دوڑ لگا دی ہو گی کہ سو گز دور جا کر مجھے موروں کے اڑنے کی آواز سنائی دی۔ اسی وقت میگگ کی چیخیں اور شیر کی دھاڑ بھی سنائی دی۔ مور شاید میگگ کو جان بوجھ کر سوئے ہوئے شیر تک لے گئے تھے اور اب مور، کتا اور شیر، سب ہی اپنے اپنے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ میگگ نے خوف سے چیخ ماری اور دوڑتا ہوا میری طرف آیا۔ اس کے پیچھے شیر دھاڑتا ہوا آ رہا تھا۔ اسی الجھن میں موروں نے خطرے کی آواز نکالی اور سیدھا اڑتے ہوئے میرے اوپر موجود درخت پر آن کر بیٹھ گئے۔ اس وقت تک مجھے موروں کا ہوش بھی نہیں رہا تھا اور میری واحد خواہش یہ تھی کہ میں کہیں ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں شیر دور دور تک نہ ہوں۔ چونکہ میری دو ٹانگوں کی نسبت میگگ کی چار ٹانگیں تھیں، اس لیے اس کی فکر چھوڑ کر میں بھاگ نکلا۔ اتنا تیز کہ کبھی اتنا تیز نہیں بھاگا ہوں گا۔ اتنی دیر میں میگگ مجھ سے آگے نکل گیا اور شیر کی دھاڑیں بھی تہم گئیں۔
اُس وقت تو میرے لیے یہ جاننا ممکن نہیں تھا لیکن اب میں چشم تصور میں دیکھ سکتا ہوں کہ شیر اپنی پچھلی ٹانگوں پر بیٹھا ہنس رہا ہو گا کہ اس کے سامنے ایک چھوٹا بچہ اور ایک کتا سر پر پیر رکھ کر بھاگے جا رہے ہیں حالانکہ اس نے تو کتے کو محض ڈرایا تھا کیونکہ اس کی نیند میں کتا مخل ہوا تھا۔
گرمیوں میں کالاڈھنگی سے نینی تال منتقل ہونے سے قبل دوسرا واقعہ پیش آیا۔ اس بار میں اکیلا تھا کہ میگگ میرے ساتھ نہیں تھا۔ کچھ عرصے سے میں گھنی جھاڑیوں سے بچ کر چلتا تھا اور اس بار میں گروپو روڈ پر جنگلی مرغ کی تلاش میں نکلا۔ پرندے تو بہت دکھائی دیے جو زمین پر چر چگ رہے تھے لیکن کسی کے نزدیک نہ پہنچ سکا۔ پھر میں سڑک سے اتر کر جنگل میں داخل ہوا۔ اس جگہ اکا دکا جھاڑیاں اور بکثرت درخت اور چھوٹی گھاس تھی۔ سڑک سے اترنے سے قبل میں نے جرابیں اور جوتے اتار دیے۔ تھوڑی دور جا کر مجھے سرخ جنگلی مرغ دکھائی دیے۔
جب جنگلی مرغ سوکھے پتے کرید رہے ہوں تو بار بار سر اٹھا کر خطرے کو بھانپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو پھر چگنے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ میں ننگے پیر تھا اور مور بندوق کی مار سے باہر تو میں نے چھپ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ جب مرغ سر نیچے کرتا تو میں ایک یا دو گز آگے بڑھ جاتا اور جب اس کا سر اٹھتا تو میں وہیں تہم جاتا۔ جب میں بندوق کی مار تک پہنچنے والا تھا کہ میرے سامنے ایک گہرا گڑھا آیا۔ ایک قدم گڑھے میں اور پھر دو قدم مزید آگے، اور جنگلی مرغ مار میں آ جاتا۔ اس کے علاوہ سامنے ایک چھوٹا سا درخت بھی موجود تھا جس پر میں اپنی بھاری بندوق رکھ کر اور اطمینان سے نشانہ لے کر کارتوس چلا سکتا تھا۔ جونہی مرغ کا سر نیچے ہوا، میں نے گڑھے میں قدم رکھا جو سیدھا ایک اژدھے کے بل کھائے جسم پر پڑا۔ چند دن قبل میگگ اور میں شیر کے آگے اتنا تیز بھاگے کہ شاید ہی اتنا تیز بھاگے ہوں اور اب میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے جست کر کے نکلا اور اژدھے پر کارتوس چلاتے ہی بھاگ پڑا اور سیدھا سڑک پر ہی جا کر دم لیا۔ شمالی ہندوستان کے جنگلوں میں میں اتنے برسوں سے شکار کھیل رہا ہوں اور کبھی میں نے نہیں سنا کہ اژدھے نے کسی انسان کو مارا ہو۔ تاہم مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ میں خوش قسمتی سے بچ گیا کہ اژدہا سویا ہوا تھا ورنہ مجھے ٹانگ سے پکڑ لیتا۔ چاہے پھر اژدہا مجھے نہ بھی جکڑتا، پھر بھی میں دہشت سے مر جاتا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ مادہ چیتل کو اژدھے نے دم سے پکڑا اور وہ دہشت کے مارے مر گئی۔ اس اژدھے کو مارنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ یہ اژدہا کتنا لمبا تھا اور یہ کہ میرے کارتوس سے وہ مرا بھی کہ نہیں، مجھے علم نہیں۔ میں دوبارہ اس جگہ نہیں گیا۔ تاہم اس علاقے میں اٹھارہ فٹ لمبے اژدھے بھی میں نے دیکھے ہیں۔ ایک بار ایک اژدھے نے چیتل جبکہ دوسرے نے سالم کاکڑ نگل لیے تھے۔
میگگ اور میرے ساتھ دوسرا واقعہ نینی تال سے کالاڈھنگی واپس آنے کے فوراً بعد پیش آیا۔ نینی تال کے آس پاس کے جنگل مرغ زریں اور دیگر شکاری جانوروں اور پرندے سے پٹے پڑے تھے اور کم شکاری ہونے کی وجہ سے شکار پر کوئی پابندی بھی نہیں تھی۔ اس لئے اسکول کے بعد میں اور میگگ اکثر جا کر رات کے کھانے کے لیے مرغ زریں یا تیتر وغیرہ شکار کرنے جاتے تھے۔
ایک شام میگگ اور میں کالاڈھنگی کی سڑک پر نکلے۔ اگرچہ میگگ نے کئی مرغ زریں اڑائے لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنی دیر درخت پر نہیں بیٹھا کہ اس پر گولی چلائی جا سکتی۔ سریا تال نامی جھیل جو وادی کے سرے پر ہے، سے ہم بائیں مڑے اور جنگل میں داخل ہو گئے۔ ارادہ یہ تھا کہ پیچھے سے ہم وادی کے اوپر کی طرف جائیں گے۔ جھیل کے پاس میں نے ایک مرغ زریں شکار کیا۔ گھنی جھاڑیوں اور پتھروں کے ڈھیروں سے گذرتے ہوئے ابھی ہم سڑک سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ ایک جھاڑی پر لگی بیریاں کھاتے ہوئے کئی مرغ زریں دکھائی دیے جو مسلسل اچھل رہے تھے۔ جب وہ اوپر اچھلتے تو مجھے دکھائی دیتے۔ ابھی میں اتنا ماہر نہیں ہوا تھا کہ متحرک چیز پر نشانہ لگا سکوں، میں زمین پر بیٹھ گیا اور میگگ میرے ساتھ لیٹ گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ جب بھی کوئی پرندہ ہمارے سامنے نمودار ہوا تو شکار کر لوں گا۔
ابھی ہمیں یہاں رکے کچھ ہی دیر ہوئی تھی اور پرندوں کی اچھل کود جاری تھی کہ سڑک کی جانب سے کئی بندوں کے بات کرنے اور ہنسنے کی آواز آئی۔ یہ سڑک پہاڑ کے سامنے سے گذرتی تھی۔ ان کے ٹین کے ڈبوں کی آواز سے مجھے پتہ چل گیا کہ یہ گوالے ہیں جو نینی تال اپنا دودھ بیچ کر آ رہے ہیں۔ ان کے گھر سریا تال سے نیچے تھے۔ ابھی یہ بندے ہم سے چار سو گز دور تھے کہ مجھے ان کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ ایک موڑ مڑ کر اچانک انہوں نے مل کر شور مچایا اور جیسے وہ کسی جانور کو راستے سے ہٹا رہے ہوں۔ اگلے منٹ میں ہمارے اوپر کے جنگل سے کسی بڑے جانور کے بھاگنے کی آواز آئی۔ یہاں جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا تاہم اس نے سارے مرغ زریں اڑا دیے۔ اچانک ہمارے سامنے کھلے قطعے میں ایک تیندوا نمودار ہوا۔ ابھی تیندوا ہوا میں ہی تھا کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا۔ جونہی وہ نیچے زمین پر پہنچا، وہیں لیٹ کر بے حس و حرکت ہو گیا۔ یہ قطعہ تقریباً 30 ڈگری بلند ہو گا۔ تیندوا ہم سے دس گز دور رہا ہو گا اور اس کے جسم کا ہر حصہ، سر سے دم تک ہمارے سامنے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ جونہی تیندوا سامنے پہنچا تھا تو میں نے بندوق سے ہاتھ ہٹا کر میگگ پر رکھ دیا تھا۔ میگگ کے رونگٹے کھڑے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اور میرا بھی عین یہی حال تھا۔
میگگ اور میرا یہ پہلا تیندوا تھا۔ ہوا چونکہ ہماری جانب سے تیندوے کو جا رہی تھی۔ میں انتہائی پر جوش تھا لیکن مجھے ڈر بالکل نہیں لگا۔ اب زندگی بھر کے تجربے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ تیندوا ہماری طرف بری نیت نہیں رکھتا تھا، اس لیے مجھے ڈر نہیں لگا۔ سڑک سے بھگائے جانے کے بعد تیندوا انہی پتھروں کی طرف بھاگا جہاں سے ہم آ رہے تھے اور ہمارے سامنے پہنچتے ہی اس نے ایک چھوٹے بچے اور ایک کتے کو دیکھا جو عین اس کی راہ فرار پر بیٹھے تھے۔ اس نے وہیں رک کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ ایک نظر میں تیندوے نے بھانپ لیا کہ اسے ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہمارے جنگلوں میں تیندوا صورتحال کا سب سے زیادہ تیزی سے ادراک کر لیتا ہے۔ جب وہ ہماری جانب سے مطمئن ہوا کہ ہمارے پیچھے اور کوئی انسان نہیں جو اس کا راستہ روک سکے، تیندوا اٹھا اور نہایت نفاست اور پھرتی سے ہمارے پیچھے جنگل میں گم ہو گیا۔ جب ہوا نے تیندوے کی بو میگگ تک پہنچائی تو اسے احساس ہوا کہ ابھی تک بلا خوف وہ جس خوبصورت جانور کو دیکھ رہا تھا، وہ اس کی جان بھی لے سکتا تھا۔ میگگ کی بڑی جسامت بھی تیندوے کے لیے مسئلہ نہیں تھی کہ ہمارے جنگلوں میں تیندوے سے زیادہ ماہر شکاری اور کوئی نہیں۔
٭٭٭
باب 4
غلیل اور مزل لوڈر بندوق کے درمیان میں ایک مختصر عرصہ میں نے تیر کمان سے بھی شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اس دوران میں کبھی شکار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا پھر بھی مجھے ان دنوں کے بارے سوچ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے۔ تاہم میں نے فطرت سے اپنا تعلق جوڑ لیا اور اس سے سیکھی ہوئی چیزیں میرے لیے ساری زندگی ہی مسرت کا سبب بنی ہیں۔
تاہم یہ علم میں نے سیکھا نہیں بلکہ جذب کیا ہے۔ یہ وہ علم نہیں جو آپ کو کسی کتاب میں ملے، یہ علم آپ کو مسلسل اور تھوڑا تھوڑا کر کے سیکھتے ہیں اور اس میں آپ کی دلچسپی کبھی کم نہیں ہوتی اور یہ علم کبھی نہ تو پرانا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل ہوتا ہے۔ ساری زندگی سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔
آج بہار ہے اور آپ کے سامنے درخت پر پھول کھلے ہوئے ہیں۔ پھولوں کی کشش سے مختلف پرندے اس پر منڈلا رہے ہوں گے، بعض ان پھولوں کا رس پی رہے ہوں گے تو کئی ایسے بھی ہوں گے جو ان پھولوں پر منڈلاتی شہد کی مکھیوں کو شکار کر رہے ہوں گے، بعض پھولوں کی پتیوں سے پیٹ بھر رہے ہوں گے تو شہد کی مکھیاں شہد کی تیاری میں جٹی ہوئی ہوں گی۔ کل پھولوں کی جگہ پھل لے لیں گے اور مزید مختلف نوعیت کے پرندے اس درخت پر آئے ہوئے ہوں گے۔ ہر قسم کے پرندے کا قدرت میں اپنا کام ہوتا ہے۔ ایک قسم کے پرندے اگر فطرت کی خوبصورتی کا حصہ ہوتے ہیں تو دوسرے پرندے اپنی خوش کن آواز سے رس بھرتے ہیں تو دیگر کا کام قدرت کے باغ کی ترویج میں حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔
موسم در موسم، سال بہ سال منظر بدلتا رہتا ہے۔ ہر بار پرندوں کی اگلی نسل اپنے پرکھوں کا کام سنبھالتی ہے اور ان کی نسل اور تعداد بدلتی رہتی ہے۔ طوفان سے درخت کی شاخیں ٹوٹتی ہیں یا درخت مر جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا درخت لے لیتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہتا ہے۔
راستے میں آپ کے سامنے شاید گھنٹہ بھر قبل ایک سانپ گذرا ہے۔ یہ سانپ راستے کے دائیں کنارے سے بائیں کو جا رہا تھا اور اس کی موٹائی تین انچ کے لگ بھگ ہو گی اور آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سانپ زہریلا ہے۔ کل اسی راستے پر یا کسی اور راستے پر آپ کسی اور سانپ کے نشان دیکھیں گے جو آپ سے پانچ منٹ ہی قبل بائیں سے دائیں گذرا ہو گا اور اس کی موٹائی شاید 5 انچ رہی ہو اور زہریلا نہ ہو۔
اسی طرح جو کچھ آپ نے آج سیکھا، وہ آپ کے آئندہ سیکھے جانے والے علم کا اضافہ ہو گا۔ سیکھے جانے والے علم کی مقدار کا انحصار آپ کے سیکھنے کی صلاحیت پر ہو گا اور یہ کہ آپ زیادہ سے زیادہ کتنا سیکھ سکتے ہیں۔ علم جمع کرنے کے عمل کے بعد، چاہے وہ ایک برس پر محیط ہو یا پھر 50 برس پر، آپ کو ہمیشہ یہی لگے گا کہ آپ ابھی علم سیکھنے کے پہلے مرحلے پر ہی ہیں اور فطرت کا پورا مضمون آپ کے سامنے آپ کا منتظر ہے کہ آپ کب اسے جذب کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اگر آپ کو سیکھنے میں دلچسپی نہ ہو یا آپ سیکھنا نہ چاہتے ہوں تو آپ کچھ بھی نہیں سیکھ سکیں گے۔
ایک بار میں ایک بندے کے ساتھ خوبصورت جنگل میں ایک کیمپ سے دوسرے کی طرف جاتے ہوئے 12 میل چلا۔ اپریل کا مہینہ چل رہا تھا اور چاروں طرف بہار ہی بہار چھائی ہوئی تھی۔ درخت، جھاڑیاں اور بیلیں، سب ہی پوری طرح سبز اور پھولوں سے ڈھکی تھیں۔ پھولوں پر تتلیاں منڈلا رہی تھیں اور پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ سفر کے خاتمے پر میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ سفر کیسا رہا اور کیا وہ لطف اندوز ہوا؟ جواب ملا کہ "نہیں، راستہ انتہائی دشوار تھا”۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد میں برٹش انڈیا کے بحری جہاز کاراگولا سے بمبئی سے ممباسہ جا رہا تھا۔ ہم میں سے پانچ افراد اوپری منزل پر تھے۔ میرا ارادہ تھا کہ ٹانگانیکا جا کر ایک گھر بناؤں جبکہ دیگر چار افراد کینیا جا رہے تھے۔ ایک بندے کا ارادہ تھا کہ وہ وہاں اپنے خریدے ہوئے فارم ہاؤس کی دیکھ بھال کرے گا جبکہ دیگر تین افراد شکار کے لیے جا رہے تھے۔ چونکہ مجھے بحری سفر راس نہیں آتا، اس لیے میں نے زیادہ تر وقت تمباکو نوشی کے کمرے کے ایک کونے میں اونگھتے ہوئے گذارا۔ باقی لوگ ساتھ بیٹھے تاش کھیلتے رہے تھے۔ ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو ان میں سب سے کم عمر ساتھی دوسروں سے کہہ رہا تھا کہ "پچھلے سال میں نے دو ہفتے فارسٹ آفیسر کے ساتھ سینٹرل پراونس میں گذارے تھے اور مجھے شیروں کے بارے سب کچھ پتہ ہے۔”
ظاہر ہے کہ یہ دو انتہائی مختلف مثالیں ہیں تاہم ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب تک آپ کو دلچسپی نہ ہو، تب تک آپ جس راہ پر چل رہے ہوں، آپ کو کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا اور اسی طرح اگر آپ سیکھنا نہ چاہیں اور فرض کر لیں کہ دو ہفتوں میں آپ وہ سب کچھ سیکھ سکتے ہیں جو پوری زندگی میں بھی سیکھنا ممکن نہ ہو، تو آپ کو اس کے بارے کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔
٭٭٭
باب 5
(ہمسٹرنگ کرنا یعنی ٹانگوں کے پٹھے کاٹ کر جانور کو کھڑے ہونے یا بھاگنے سے معذور کر دینا)
بچپن کے دن اور وہ سال جو میں نے اسکول میں گذارے اور پھر جب میں بنگال میں کام کر رہا تھا یا پھر دونوں عالمی جنگوں کے درمیان، میں نے اپنی ساری چھٹیاں ہمیشہ کالاڈھنگی اور اس کے آس پاس کے جنگلوں میں گذاریں۔ ان برسوں کے دوران میں اگر میں اتنا نہیں سیکھ سکا جتنا کہ مجھے سیکھنا چاہیے تھا تو یہ میری غلطی شمار ہو گی کیونکہ میرے پاس یہ سب سیکھنے کے بے شمار مواقع تھے۔ یہ مواقع اب شاید ہی کسی کو ملیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کی وجہ سے وہ جگہیں بھی کاشت کاری کے لیے استعمال ہو رہی ہیں جو میرے وقتوں میں جنگلی جانوروں کی آماج گاہیں ہوتی تھیں۔ میرے خیال میں اس تباہی کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بندر جنگل سے نکل کر آباد زمینوں میں گھس گئے ہیں اور اب حکومتی سطح پر بھی ان سے نمٹنا مشکل ہو گیا ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک دن ایسا آئے گا کہ ان بندروں سے چھٹکارا پانا ضروری ہو جائے گا کہ محض وسطی صوبوں میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم ایک کروڑ بندر ہیں۔ جب یہ ایک کروڑ بندر فصلوں اور باغات کے پھلوں پر گذارا کر رہے ہوں تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
اگر مجھے پہلے سے علم ہوتا کہ میں یہ کتاب لکھوں گا تو میں کہیں زیادہ ذوق و شوق سے سیکھتا کیونکہ جنگل میں گھومنے پھرنے سے مجھے ہمیشہ دلی خوشی ملتی ہے اور وہی خوشی میں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ میری خوشی اس وجہ سے ہے کہ جنگلی جانور اپنے فطری ماحول میں ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ فطرت میں اداسی یا تاسف نہیں ہوتا۔ پرندوں کے غول سے ایک پرندہ اگر باز پکڑ لے جائے یا جانوروں میں سے ایک کو کوئی درندہ مار کھائے تو باقی یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ شکر ہے کہ آج ان کی باری نہیں تھی اور کل کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ جب میں نادان تھا تو میں باز اور عقاب کے شکار کردہ پرندوں اور درندوں کے شکار کردہ جانور کو بچانے کی کوشش کرتا تھا۔ تاہم ایک جان بچانے کی کوشش میں ہمیشہ دو جانیں ہی ضائع ہوتی تھیں۔ باز، عقاب اور درندوں کے پنجوں میں گلا سڑا گوشت لگا ہوتا ہے اور ان سے لگنے والے زخم کا فوری علاج نہ کیا جائے تو شاید ہی سو میں سے ایک جانور یا پرندہ بچ سکے۔ مزید برآں، اپنے شکار سے ہاتھ دھونے کے بعد یہی پرندے یا جانور اپنی یا اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے فوراً دوسرا شکار کر لیتے تھے۔
چند مخصوص پرندے اور جانور فطرت میں توازن کا کام دیتے ہیں۔ اس کام کو سرانجام دینے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے وہ شکار کرتے ہیں کیونکہ ان کا معدہ محض گوشت ہضم کرتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، شکار انتہائی تیزی اور مہارت سے ہوتا ہے۔ شکار کو ہر ممکن جلدی ہلاک کرنے میں شکاری کا یہ مفاد ہوتا ہے کہ اس طرح دیگر جانوروں کو اس کا پتہ نہیں چلتا جبکہ شکار کو زیادہ تکلیف کے بغیر موت آ جاتی ہے۔
ہر نسل کے شکاری کے شکار کا اپنا طریقہ ہوتا ہے اور زیادہ تر یہ شکاری اور شکار کی جسامت پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شکرا ہمیشہ زمین پر شکار کرتا اور وہیں کھاتا ہے لیکن بعض اوقات اڑتے ہوئے ہوا میں ہی چھوٹا پرندہ پکڑ کر وہیں چٹ کر جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات شیر پنجے کی ایک ہی ضرب سے جانور مار لیتا ہے تو بعض اوقات اسے پہلے جانور کو ہمسٹرنگ کر کے پھر مارنا پڑتا ہے۔
درندے ہوں یا پرندے، کبھی اپنی ضرورت سے زیادہ شکار نہیں کرتے۔ تاہم محض شکار کی نیت سے زیادہ شکار کرنے کا کام چند ہی جانور انتہائی مخصوص حالات میں کرتے ہیں۔ ان کی مثال پائن مارٹن، جنگلی بلی اور نیولے ہیں۔ شکار انتہائی وسیع موضوع ہے اور ذیل کے دو واقعات سے وضاحت کرتا ہوں۔
جب پرسی ونڈہم کماؤں کے کمشنر تھے تو سر ہارکورٹ بٹلر، صوبجات متحدہ کے گورنر نے ان سے فرمائش کی کہ لکھنؤ کے نئے چڑیا گھر کے لیے ایک اژدہا تلاش کریں۔ ونڈہم اس وقت اپنے سرمائی دورے پر نکلے تھے اور کالاڈھنگی پہنچ کر انہوں نے مجھے اس بارے بتایا۔ اس وقت مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہی ایک اژدہا پاس ہی رہتا ہے۔ اگلے دن ونڈہم اور ان کے دو شکاریوں کو ساتھ لے کر میں ہاتھی پر نکلا۔ میں اس اژدہے کو برسوں سے ایک ہی علاقے میں دیکھ رہا تھا اس لیے اس کی تلاش آسان تھی۔
جب ہم اس جگہ پہنچے تو اس وقت اژدہا ندی کی تہہ میں لیٹا ہوا تھا اور ایک یا دو انچ جتنا شفاف پانی اس کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ دور سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی عجائب گھر کے شیشے کے ڈبے میں بند ہو۔ جونہی ونڈہم کی نظر پڑی، وہ فوراً بولے کہ یہی اژدہا چاہیے۔ انہوں نے فوراً اپنے شکاریوں کو ہاتھی سے بندھی رسی کھولنے کا حکم دیا۔ پھر انہوں نے خود رسی کے ایک طرف پھندا بنایا اور شکاریوں کو نیچے اتر کر اژدہے کو اس پھندے میں پھنسانے کا حکم دیا۔ دونوں شکاری ہکا بکا رہ گئے اور بولے کہ یہ تو ممکن نہیں۔ ونڈہم نے انہیں تسلی دی کہ "فکر نہ کرو، اگر اس نے حملہ کیا تو رائفل سے اسے گولی مار دوں گا”۔ تاہم شکاریوں نے پھر بھی انکار کیا۔ ونڈہم نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں یہ کام کرنا چاہوں۔ میں نے پورے خلوص دل سے انہیں بتایا کہ کسی بھی قیمت پر میں یہ کام نہیں کرنے والا۔ خیر، رائفل مجھے پکڑا کر ونڈہم ہاتھی سے نیچے اترے۔
مجھے ابھی تک افسوس ہے کہ اس وقت میرے ہاتھ میں رائفل کی بجائے وڈیو کیمرا نہیں تھا ورنہ اگلے چند منٹ جو کچھ میں نے دیکھا، اس سے زیادہ ہنسی مجھے کبھی نہیں آئی۔ ونڈہم کا ارادہ تھا کہ اژدہے کی دم کو پھندے میں پھنسا کر اسے خشکی پر گھسیٹ کر باندھ لیں گے اور ہاتھی پر لاد کر گھر روانہ ہو جائیں گے۔ جب ونڈہم نے یہ منصوبہ شکاریوں کو بتایا تو وہ بولے کہ آپ اژدہے کی دم میں پھندا ڈال دیں، ہم اسے گھسیٹ کر خشکی پر لائیں گے۔ تاہم ونڈہم کے خیال میں شکاری یہ کام بہتر کر سکتے تھے۔ آخرکار آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے تینوں بندے پانی میں اترے۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ رسی کو پھندے سے سب سے دور سے پکڑیں۔ جب وہ اژدہے کے بالکل قریب پہنچ گئے تو انہوں نے اس بات پر بحث شروع کر دی کہ ان میں سے کون اژدہے کی دم پھندے میں ڈالے گا۔ ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ اژدہے نے اپنا سر پانی سے ایک یا دو فٹ جتنا اوپر اٹھایا اور ان کی طرف سرکنے لگا۔ "بھاگو صاحب” کا نعرہ لگا کر تینوں ہی پانی سے نکل بھاگے۔ جتنی دیر تک وہ کنارے پر جھاڑیوں تک پہنچتے، اژدہا جامن کے درخت کی جڑوں کے نیچے سے ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا جبکہ میں اور مہاوت ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔
ایک ماہ بعد مجھے ونڈہم کا خط ملا کہ وہ اگلے روز کالا ڈھنگی پہنچ رہے ہیں اور ایک بار پھر سے وہ اژدہے کو پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ جیف ہاپکنز اور ان کا ایک دوست انہی دنوں انگلینڈ سے آئے ہوئے تھے، بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم تینوں اسی اژدہے کو تلاش کرنے نکلے۔ اس کی رہائش گاہ کے نزدیک سانبھروں کی ایک گذر گاہ تھی۔ اس جگہ سانبھروں کے کھروں کے کٹاؤ سے زمین پر انتہائی باریک مٹی جمع ہو گئی تھی۔ اسی جگہ ہم نے اژدہا دیکھا جو چند منٹ ہی قبل مارا گیا تھا۔ اسے اودبلاؤ کے جوڑے نے مارا تھا۔
اژدہے یا مگرمچھ کو اود بلاؤ ہمیشہ شکار کی نیت سے مارتے ہیں اور انہیں کبھی چکھتے تک نہیں۔ عام طور پر نر اور مادہ دونوں طرف سے اپنے شکار کو گھیر لیتے ہیں۔ جب اژدہا یا مگرمچھ ایک طرف اپنا بچاؤ کرنے کے لیے مڑتا ہے تو دوسری جانب کا اودبلاؤ جست کر کے سر کے نزدیک سے ایک بوٹی کاٹ لیتا ہے۔ جتنی دیر میں شکار اس جانب مڑے، دوسری جانب والا اودبلاؤ یہی کچھ کرتا ہے۔ اس طرح گوشت کترتے کترتے گردن کی ہڈی تک پہنچ جاتے ہیں تو شکار جا کر ہلاک ہوتا ہے کیونکہ مگرمچھ ہو یا اژدہا، دونوں بہت سخت جان ہوتے ہیں۔
یہ والا اژدہا ساڑھے 17 فٹ لمبا اور کم از کم 26 انچ موٹا تھا۔ اسے مارنے میں اودبلاؤ کے جوڑے کو کافی مشکل پیش آئی ہو گی۔ تاہم اودبلاؤ بہت بہادر ہوتے ہیں اور شکار میں خطرے کی مقدار جتنی زیادہ ہو، اسے اتنی اہمیت دیتے ہیں۔
دوسرے واقعے میں ایک بڑے نر ہاتھی اور شیروں کے جوڑے کے درمیان میں جنگ ہوئی تھی۔ اگر اسے ہم شکار برائے شکار نہ سمجھیں تو پھر میرے پاس کوئی اور وجہ نہیں کہ یہ لڑائی کیوں ہوئی تھی۔ اس واقعے کو ہندوستانی پریس میں کئی بار پیش کیا گیا اور مشہور شکاریوں نے دی پائنیر اور دی سٹیٹس میں کو خط لکھے۔ مشہور مفروضے یہ تھے کہ شیروں نے بدلہ لینے کے لیے ہاتھی کو ہلاک کیا کہ ہاتھی نے ان کا بچہ مارا تھا، پرانی دشمنی اور پیٹ بھرنے کے لیے شکار کیا گیا۔ تاہم کسی بھی لکھاری یا شکاری نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اس طرح کا واقعہ کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آیا، اس لیے یہ نظریات محض مفروضات ہی ہیں۔
پہلی بار میں نے ہاتھی اور شیروں کے اس مقابلے کے بارے تب سنا جب مجھ سے ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا 200 گیلن مٹی کا تیل ایک ہاتھی کی لاش کو جلانے کے لیے کافی ہے؟ جب انہوں نے مزید تفتیش کی تو پتہ چلا کہ شیروں کے جوڑے نے ہاتھی کو تنک پور میں پتھریلی زمین پر ہلاک کیا ہے اور اسے دفن کرنا ممکن نہیں۔ ہاتھی کی لاش جلانے والے اب اپنے اخراجات وصول کرنا چاہ رہے تھے۔ مجھے یہ سارا معاملہ بہت دلچسپ لگا لیکن دس دن پرانا واقعہ ہونے کی وجہ سے نشانات مٹ گئے تھے اور جو باقی بچے تھے، وہ آگ لگنے اور تیز بارش کی وجہ سے ختم ہو گئے تھے۔
تنک پور کا نائب تحصیلدار میرا دوست ہے اور اس نے اگرچہ یہ سارا واقعہ دیکھا تو نہیں لیکن اپنے کانوں سے سنا تھا۔ اس نے مجھے یہ واقعہ بتایا:
تنک پور چونکہ اودھ سے ترہٹ جانے والی ریلوے کا آخری سٹیشن اور تجارتی مرکز ہے، اس لیے اس کی اپنی اہمیت ہے اور یہ دریائے سردا کے دائیں کنارے عین اس جگہ واقع ہے جہاں دریا پہاڑوں سے نکلتا ہے۔ 30 سال قبل دریا تنک پور کے ساتھ سے گذرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا رخ بدلتا رہا اور مندرجہ بالا واقعے کے وقت تنک پور سے دریا دو میل دور بہتا تھا۔ دریا کا کنارہ تو سو فٹ بلند ہے لیکن دریا کی کئی شاخیں گذرتی ہیں جن میں بنے جزیروں پر درخت اور دیگر جھاڑ جھنکار اگ آئے ہیں۔
ایک دن دو ملاح جو تنک پور رہتے تھے، سردا سے مچھلیاں پکڑنے گئے۔ اس دن وہ کچھ زیادہ دیر تک رکے رہے اور جب واپسی کا رخ کیا تو سورج ڈوبنے لگا تھا اور ان کے سامنے دو میل کا سفر باقی تھا۔ سو فٹ اونچے کنارے اور ان کے درمیان میں دریا کی ایک چھوٹی سی شاخ بہہ رہی تھی اور جب وہ گھاس کے گھنے قطعے سے نکلے تو ان کے سامنے دوسرے کنارے پر دو شیر کھڑے دکھائی دیے۔ یہ شاخ کوئی 40 گز چوڑی ہو گی اور تھوڑا سا پانی اس میں بہہ رہا تھا۔ چونکہ شیر عین ان کے راستے پر کھڑے تھے، اس لیے یہ دونوں وہیں گھاس میں ہی چھپ کر بیٹھ گئے تاکہ کچھ دیر میں شیر کہیں چل دیں۔ چونکہ ان جنگلوں میں شیر دکھائی دینا عام بات تھی اس لیے ملاحوں نے زیادہ فکر نہ کی۔ اب جو افراد جنگل سے زیادہ واقف نہیں ہیں، ان کی سہولت کے لیے میں بتاتا ہوں کہ سورج ڈوب چکا تھا اور ہلکی روشنی باقی تھی کہ پورا چاند طلوع ہو گیا۔ دونوں شیر اچھی روشنی میں سامنے دکھائی دے رہے تھے۔ جس جانب سے یہ ملاح آئے تھے، اسی طرف گھاس ہلی اور اس میں سے ایک ہاتھی نکلا۔ یہ ہاتھی تنک پور کے جنگلوں میں کافی بدنام تھا کہ وہ فارسٹ بنگلے کی چھت کے ستون اکھاڑتا رہتا تھا۔ تاہم یہ ہاتھی مست یا دیوانہ نہیں تھا اور اس نے کبھی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
جب ہاتھی پانی کے پاس پہنچا تو سامنے دو شیروں کو دیکھ کر اس نے اپنی سونڈ اونچی کی اور زور سے آواز نکال کر ان کی طرف بڑھا۔ شیروں نے اب ہاتھی کا رخ کیا۔ جب ہاتھی ان کے پاس پہنچا تو ایک شیر ہاتھی کے سامنے دھاڑنے لگا جبکہ دوسرا شیر چکر کاٹ کر پیچھے جا پہنچا۔ اب اس نے جست لگائی اور ہاتھی کی پیٹھ پر چڑھ گیا۔ جھومتے ہوئے ہاتھی نے اس شیر کو پیٹھ سے ہٹانے کے لیے سونڈ ہلائی تو سامنے والا شیر اس کے سر پر جھپٹ پڑا۔ غصے سے ہاتھی چلا رہا تھا اور دونوں شیر پوری قوت سے دھاڑ رہے تھے۔ جب شیر غصے سے دھاڑے تو بہت دہشت ناک آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب اس شور و غل میں ہاتھی کی چنگھاڑیں شامل ہوئیں تو ملاحوں کی ہمت جواب دے گئی اور اپنے جال اور مچھلیاں چھوڑ کر وہ سیدھے تنک پور کو بھاگے۔
تنک پور میں رات کے کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ انہیں یہ شور سنائی دیا۔ کچھ ہی دیر بعد دونوں ملاح بھی آن پہنچے اور پوری کہانی سنائی۔ کئی منچلے لڑائی دیکھنے دریا کے سو فٹ بلند کنارے پر جا پہنچے۔ تاہم جب انہیں احساس ہوا کہ لڑائی کی آوازیں لحظہ بہ لحظہ قریب تر ہوتی جا رہی ہیں تو ہر کوئی سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور سارے گھروں کے دروازے بند ہو گئے۔ لڑائی کے دورانیہ کے بارے متضاد بیانات ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لڑائی ساری رات جاری رہی اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نصف شب تک لڑائی ختم ہو گئی تھی۔ مسٹر میتھیسن جن کا بنگلہ اسی اونچے کنارے کے پاس ہی تھا، کے بقول یہ لڑائی کئی گھنٹے جاری رہی اور ان کے مطابق انہوں نے کبھی اس سے زیادہ خوفناک آوازیں نہیں سنیں۔ رات کی خاموشی میں کئی بار گولیوں کی آوازیں سنائی دیں لیکن یہ بات واضح نہیں کہ گولیاں پولیس نے چلائی تھیں یا پھر مسٹر میتھیسن نے، لیکن لڑائی پر کوئی فرق نہ پڑا اور وہ پوری شدت سے جاری رہی۔
صبح جب تنک پور کے باشندے دریا کے اونچے کنارے پر جمع ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ہاتھی مر چکا تھا۔ نائب تحصیلدار کی بتائی ہوئی تفصیل سے میرا اندازا ہے کہ ہاتھی جریان خون سے مرا۔ شیروں نے ایک لقمہ تک ہاتھی کی لاش سے نہ کھایا اور ہاتھی کے پاس یا تنک پور کے گرد و نواح میں زخمی یا مردہ کوئی شیر بھی نہ دکھائی دیا۔
میرا خیال ہے کہ لڑائی کے شروع میں شیروں کی نیت ہاتھی کو ہلاک کرنے کی ہرگز نہیں تھی۔ پرانی دشمنی، بچے کا بدلہ وغیرہ سب غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نر ہاتھی جس کے بیرونی دانتوں کا وزن 90 پاؤنڈ سے زیادہ تھا، کو دو شیروں نے ہلاک کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ جب دو شیروں کے ملاپ کے وقت ہاتھی نے انہیں دھمکانے کی کوشش کی تو اصل لڑائی شروع ہو گئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جب دوسرا شیر ہاتھی کے سر پر جھپٹا تو اس نے فوراً ہی ہاتھی کی آنکھیں نکال دی ہوں گی۔ درد سے بے تاب ہو کر ہاتھی جب دریا کے کنارے گول پتھروں پر پہنچا تو وہیں پھنس گیا کہ اندھا ہونے اور پھسلوان زمین کی وجہ سے وہ بھاگ نہ سکا اور پھر شیروں نے اسے مار ڈالا۔
تمام درندے اپنے شکار کو اپنے دانتوں سے ہلاک کرتے ہیں اور وہ درندے جو پنجوں سے شکار کو ہلاک کرتے ہیں، وہ بھی بعض اوقات شکار کو پکڑنے اور ہلاک کرنے سے قبل قابو کرنے کے لیے دانت استعمال کرتے ہیں۔ اگر شکار کا پیچھا کر کے اسے ہلاک نہ کیا جائے تو درندے جب شکار پر جھپٹتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب کیا ہوا۔ بیسیوں بار بھی یہ مناظر دیکھ کر میں آج تک ان کی درست حرکات و سکنات کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ صرف ایک بار میں نے ایک مادہ چیتل پر ہوا کی مخالف سمت سے اور سیدھا سامنے سے ہوتا ہوا حملہ میں نے دیکھا ہے۔ شیر اور تیندوے جن جانوروں کو شکار کرتے ہیں، ان کے سینگ درندوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ باقی تمام حملے جو میں نے دیکھے، وہ پہلو سے یا عقب سے کئے گئے تھے اور ایک جست اور چند قدم کی دوڑ اور پھر حملہ کر کے پنجوں سے شکار کو گرا کر اس کا گلا دبوچ لینا، بجلی کی سی رفتار سے ہوتا ہے۔ چرندوں کو شکار کرتے وقت درندوں کو کافی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ سانبھر یا چیتل کے کھر کی ایک ہی ضرب درندے کی آنتیں باہر نکال سکتی ہے۔ چوٹ سے بچنے اور جانور کو کھڑے ہونے سے روکنے کے لیے درندے شکار کے سر کو پکڑ کر نیچے موڑتے ہوئے گھما دیتے ہیں جس سے جانور نہ تو اٹھ کر بھاگ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے کھر درندے کو کوئی نقصان دے سکتے ہیں۔ اگر جانور اٹھنے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ بہت بڑا جانور ہو تو گرتے ہی اس کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ بعض اوقات درندوں کے بڑے دانت بھی گردن توڑ دیتے ہیں۔ تاہم اگر گردن نہ ٹوٹے تو پھر شکار کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کیا جاتا ہے۔
میرے مشاہدے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تیندوے نے اپنے شکار کو ہلاک کرنے سے قبل اس کو ہمسٹرنگ کیا ہو لیکن شیروں کو کئی بار ایسا کرتے دیکھا ہے۔ تاہم ان تمام مشاہدات میں ہمسٹرنگ یا کام دانتوں کی بجائے پنجوں سے کیا گیا تھا۔ ایک بار میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان کی ایک گائے کو نینی تال سے چھ میل دور ہلاک کیا گیا ہے۔ ان کے پاس مویشیوں کا بہت بڑا ریوڑ تھا اور انہوں نے بہت بار اپنے مویشی شیروں اور تیندوؤں سے ہلاک ہوتے دیکھے تھے۔ مذکورہ واقعے میں گردن پر دانتوں کے نشانات کی عدم موجودگی اور جس طریقے سے گوشت نوچا گیا تھا، اس سے انہوں نے اندازا لگایا کہ یہ کسی نامعلوم جانور کا کام ہے۔ جب مجھے خبر ملی تو دن کافی باقی تھا، اس لیے دو گھنٹے بعد ہم جائے وقوعہ پر جا پہنچے۔ پوری طرح جوان گائے کو 50 فٹ چوڑے فائر ٹریک کے عین درمیان میں ہلاک کیا گیا تھا اور اسے گھسیٹ کر لے جانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جب مجھے اس واردات کی اطلاع ملی تو تفصیل سے میں نے اندازا لگایا کہ کسی ریچھ نے گائے کو ہلاک کیا ہو گا۔ اگرچہ ریچھ باقاعدہ گوشت خور جانور نہیں لیکن کبھی کبھار وہ جانور مار کر کھا بھی لیتے ہیں۔ چونکہ ان کی جسمانی ساخت جانوروں کا شکار کرنے کے لیے مناسب نہیں، اس لیے وہ بہت برے شکاری ہوتے ہیں۔ تاہم اس گائے کو ریچھ نے نہیں بلکہ شیر نے انتہائی عجیب طریقے سے ہلاک کیا تھا۔ شیر نے پہلے ہمسٹرنگ کیا اور پھر پیٹ پھاڑ کر گائے کو ہلاک کیا۔ ہلاک کرنے کے بعد شیر نے پنجوں سے گائے کے پچھلے حصے سے گوشت نوچ نوچ کر کھایا۔ چونکہ سخت زمین پر کھوج لگانا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے باقی کا سارا دن اس شیر کو تلاش کر کے شکار کرنے کی کوشش میں صرف کیا۔ مغرب کے وقت میں گائے کی لاش پر لوٹا اور ساری رات ایک درخت پر بیٹھ کر گذاری۔ شیر نہ تو اس شکار پر واپس آیا اور نہ ہی اپنے شکار کردہ اگلے نو جانوروں پر۔ یہ جانور بھی عین اسی طرح ہلاک کئے گئے تھے جن میں تین کم عمر بھینسے اور 6 گائیں تھیں۔
انسانی نکتہ نظر سے جانور ہلاک کرنے کا یہ طریقہ انتہائی ظالمانہ تھا لیکن شیر کے لیے یہ بات بیکار ہے۔ چونکہ شیر اپنی خوراک خود مار کر کھاتا ہے تو اس کا شکار کرنے کا طریقہ اس کی جسمانی حالت پر منحصر ہے۔ جانور کو پنجوں کی مدد سے مارنا، اسے گھسیٹ کر منتقل نہ کرنا اور پھر پنجوں سے گوشت نوچ نوچ کر کھانا، سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ شیر کو کوئی نہ کوئی جسمانی نقص تھا۔ میرے خیال میں یہ جسمانی نقص کسی رائفل کی گولی سے پیدا ہوا تھا جو اس کے نچلے جبڑے کا کچھ حصہ اڑا لے گئی ہو گی۔ میں نے یہ رائے پہلے شکار کو دیکھ کر قائم کی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مضبوط ہوتی گئی کہ شیر نے اگلا ہر شکار نسبتاً زیادہ وقفے سے کیا اور نسبتاً کم گوشت کھایا۔ شاید اپنے شکار پر واپس آتے وقت اسے یہ گولی لگی ہو گی اور اسی وجہ سے وہ واپس کبھی اپنے شکار پر نہ لوٹا۔ چونکہ اس علاقے میں ان دنوں نہ تو کوئی شیر شکار ہوا اور نہ ہی کوئی مردہ شیر دکھائی دیا، میرا اندازا ہے کہ یہ شیر پاس ہی موجود پہاڑوں کی کسی غار میں سسک سسک کر مر گیا ہو گا۔
ظاہر ہے کہ یہ واقعہ نوعیت کے اعتبار سے غیر معمولی ہے لیکن میں نے اس کے علاوہ بھی ہمسٹرنگ ہوتی دیکھی ہے۔ شیروں کے شکار کئے ہوئے دو سب سے بڑے بھینسے بھی اسی طرح ہمسٹرنگ کر کے شکار کئے گئے تھے۔
٭٭٭
باب 6
ٹام کی دی ہوئی غلیل کا ربڑ جب ختم ہو گیا تو میں نے ایک کمان بنائی۔ یہ کمان تیر کی بجائے غلہ پھینک سکتی تھی۔ عام کمان کی نسبت اس کا حجم چھوٹا اور سخت تھا۔ ربڑ کی دو لڑیوں کے درمیان میں غلہ رکھنے کی جگہ تھی۔ تاہم اسے چلانے میں کافی احتیاط کرنی پڑتی تھی کہ اگر غلہ چھوڑتے وقت دوسرے ہاتھ کی کلائی عین وقت پر حرکت نہ کرے تو انگوٹھے پر سخت چوٹ لگ سکتی ہے۔ غلیل کی نسبت کمان سے غلہ دو گنا تیزی سے پھینکا جاتا ہے لیکن نشانہ اتنا پکا نہیں ہوتا۔ ہمارے گرمائی گھر کے عین سامنے نینی تال کا خزانہ تھا جس پر گورکھے سرکاری طور پر متعین تھے۔ وہ مقابلے کے لیے مجھے بلاتے تھے۔ میدان کے عین وسط میں گھنٹہ نصب تھا جو ہر گھنٹے بعد بجایا جاتا تھا۔ اس جگہ ماچس کی ڈبیا رکھ کر بیس گز کے فاصلے سے اس پر نشانے لگائے جاتے تھے۔ گٹھے جسم کا حوالدار ان کا بہترین نشانچی تھا لیکن وہ کبھی مجھے ہرا نہ سکا۔
اگرچہ غلیل کے بعد کمان میری مجبوری تھی اور میں نے اچھا نشانہ بنا لیا تھا اور اس سے پرندے بھی مار سکتا تھا لیکن کبھی اس نے غلیل کی طرح میری توجہ نہیں حاصل کی۔ بعد میں فینی مور کوپر کی کتب پڑھ کر میں نے غلے کی کمان کی بجائے تیر والی کمان بنا لی۔ اگر کوپر کی کتب والے ریڈ انڈین تیر کمان سے شکار کر سکتے تھے تو میں کیوں نہیں؟ تاہم انڈیا میں ہمارے علاقوں میں لوگ تیر کمان استعمال نہیں کرتے، اس لیے میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کئی بار کی ناکام کوشش کے بعد میں نے ایک اچھی کمان اور دو تیر بنا لیے جن کی نوکوں میں کیل لگے تھے۔ اب ریڈ انڈین کی نقالی کرنا میرا مشغلہ بن گیا۔ مجھے ان تیروں کی ہلاکت خیزی پر پورا یقین تھا اور اب میں جنگل میں بلا جھجھک جا سکتا تھا جہاں شکار کے قابل جانور اور پرندے تو بہت تھے لیکن ایسے جانور بھی جن سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ جانوروں پر گھات لگانے اور خطرے کے وقت درخت پر چڑھنے کی آسانی کی خاطر میں جوتے اتار دیا کرتا تھا۔ ان دنوں ربر کے پتلے سول والے جوتے نہیں ہوتے تھے، اس لیے بھاری جوتے چھوڑنے پڑے کہ وہ نہ تو جانوروں پر گھات لگانے اور نہ ہی درخت پر چڑھنے میں کوئی مدد دیتے تھے۔
ہماری جائداد کے نچلے سرے پر دو آبی گذر گاہیں ملتی تھیں جو بارش کے وقت ہی پانی کی شکل دیکھتی تھیں۔ ان کی تہہ ریتلی تھی اور ان کے درمیان میں گھنا جنگل تھا جو نچلے سرے پر نصف میل جبکہ اوپری سرے پر دو میل چوڑا اور ایک میل لمبا تھا۔ یہاں ہر قسم کے جانور اور پرندے رہتے تھے۔ جس نہر میں لڑکیاں نہاتی تھیں، وہ ہماری جائداد اور جنگل کے درمیان میں سرحد کا کام دیتی تھی۔ نہر پر درخت کے تنے سے بنے پل کو عبور کرتے ہی شکار میرے سامنے ہوتا تھا۔ بعد ازاں جب میرے پاس وڈیو کیمرا تھا تو میں نے نہر پر ہماری طرف والے درخت پر کئی دن گذارے تاکہ نہر سے پانی پیتے جانوروں کی وڈیو بنا سکوں۔ اسی جنگل میں میں نے ہٹلر کی جنگ کے بعد اپنا آخری شیر مارا۔ یہ شیر مختلف اوقات میں گھوڑا، بچھڑا اور دو بیل مار چکا تھا۔ اسے بھگانے کی جب تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں تو میں نے اسے گولی مار دی۔ میری بہن میگی کا خیال تھا کہ میرا ہاتھ کانپ جائے گا کیونکہ مجھے ان دنوں ملیریا بخار بہت زیادہ ہوتا تھا۔ تاہم میں نے شیر کو بلایا، اسے مجرم پایا اور چند فٹ کے فاصلے سے، جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا تو میں نے اس کی آنکھ میں گولی اتار دی۔ اگرچہ یہ شیر کا قتل تھا لیکن اس قتل کا جواز کافی معقول تھا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ شیر گاؤں سے 200 گز دور خاردار جھاڑیوں تک رہے اور اس کے شکار کردہ جانوروں کی قیمت بھی میں اپنی جیب سے ادا کرتا رہا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے ملک بھر میں مویشیوں کی قلت تھی اور شیر نے یہ جگہ چھوڑنے سے قطعی انکار کر دیا تھا۔
میگگ کی مدد سے میں نے دونوں آبی گذر گاہوں کے درمیانی جنگل کو اچھی طرح چھانا تھا اور مجھے بخوبی علم تھا کہ کس جگہ نہیں جانا۔ اس کے باوجود بھی مور اور جنگلی مرغ کا شکار کرنے کے لیے نہر عبور کرنے سے قبل میں دیکھ لیا کرتا تھا کہ کوئی شیر تو یہاں سے نہیں گذرا۔ جنگل میں بائیں جانب نہر کے کنارے میں بغور شیر کے پگ دیکھتا تھا جہاں سے شیر غروب آفتاب کے بعد شکار کے لیے آتے تھے اور سورج طلوع ہونے سے قبل واپس چلے جاتے تھے۔ نہر کے کنارے ریتلی زمین کا بغور جائزہ لینے سے اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ کیا کوئی شیر تو نہیں یہاں نہیں آیا، اور اگر آیا ہے تو کیا واپس لوٹا یا ابھی تک جنگل میں ہی ہے؟ اگر شیروں کے صرف جانے کے نشانات ملتے تو وہ دن میں کہیں اور شکار کھیلنے میں گذارتا تھا۔
یہ آبی گذر گاہیں میرے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث تھیں۔ شیروں کے علاوہ ہر جانور اور ہر گزندہ چاہے وہ اس جگہ سے کئی میل دور بھی کیوں نہ رہتا ہوں، یہاں سے گذرتے وقت اپنے نشان چھوڑ جاتا تھا۔ اسی جگہ پہلے پہل غلیل، پھر کمان، پھر مزل لوڈر اور پھر جدید رائفل سے مسلح ہو کر میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے جنگل کی زبان سیکھی ہے۔ طلوعِ آفتاب کے وقت روانہ ہو کر اور جنگل میں ننگے پیر خاموشی سے چلتے ہوئے میں نے تمام جانوروں اور گزندوں کو گذرتے دیکھا۔ آخر وہ وقت آیا کہ جب ان کے گذرنے کے نشان سے میں ان تمام جانوروں اور گزندوں کو پہچاننا سیکھ گیا۔ تاہم یہ محض ابتداء تھی کہ میں نے ابھی جانوروں کی عادات، ان کی زبان اور فطرت میں ان کے کردار کو سمجھنا تھا۔ ان علوم کو سیکھنے کے ساتھ ہی ساتھ میں نے پرندوں کی زبان بھی سیکھی اور فطرت میں ان کے کردار کو بھی جانا۔
سب سے پہلے تو میں نے پرندوں، جانوروں اور گزندوں کو درجِ ذیل چھ گروہوں میں بانٹا:
پرندے جو فطرت کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں۔ ان میں Minivets, Oriols, sunbirds شامل کئے
خوش آواز پرندے، جن میں thrushes, robins, shamasam شامل ہیں
ایسے پرندے جو پودوں کی افزائش نسل میں مدد دیتے ہیں، ان میں بلبل، ہارن بل اور barbetsشامل ہیں
خطرے سے آگاہی دینے والے پرندے، جن میں Drongo، سرخ جنگلی مرغ، بیبلرز شامل ہیں
فطرت میں توازن قائم رکھنے والے پرندے، جن میں عقاب، باز اور الو شامل ہیں
مردار خور پرندے جن میں گدھ، چیل اور کوے شامل ہیں
جانوروں کو میں نے 5 گروہوں میں تقسیم کیا:
فطرت کی خوبصورت بڑھانے والے جانور جیسا کہ مختلف اقسام کے ہرن اور بندر
ایسے جانور جو مٹی اکھاڑنے کا کام کرتے ہیں جیسا کہ ریچھ، سور اور سیہی
خطرے کی اطلاع دینے والے جانور مثلاً ہرن، بندر اور گلہریاں
فطری توازن برقرار رکھنے والے جانور جیسا کہ شیر، تیندوے اور جنگلی کتے
مردار خور جیسا کہ لگڑبگڑ، گیدڑ اور سور
رینگنے والے جانور یعنی گزندوں کی محض دو اقسام بنائیں:
زہریلے سانپ جن میں کوبرا، کریٹ اور وائپر شامل ہیں
غیر زہریلے سانپ جیسا کہ دھامن، عام سانپ اور اژدہے
تمام اہم جانوروں اور پرندوں کو بنیادی گروہوں میں بانٹنے کے بعد ہر نئے جانور کو ان کے کام کے اعتبار سے مناسب گروہ میں رکھنا آسان ہو گیا۔ اگلے مرحلے میں میں نے جنگلی جانوروں کی زبان سیکھنے اور پھر انسان کے لیے ممکن آوازوں کی نقالی کرنے کا کام سیکھا۔ اگرچہ چند اقسام کو چھوڑ کر دیگر تمام جنگلی جانور اور پرندے ایک دوسری کی بولی نہیں بول سکتے لیکن وہ ایک دوسرے کی بولی سمجھ ضرور لیتے ہیں۔ ان چند اقسام کے پرندوں میں Racket-tailed drongo, rufous-backed shrike اور gold-fronted green bulbul ہیں۔ پرندوں کے شائقین کے لیے racket-tailed drongo نہ ختم ہونے والی خوشی کا خزانہ ہوتے ہیں۔ ہمارے جنگلوں کا یہ پرندہ صرف انتہائی دلیر ہوتا ہے بلکہ زیادہ تر پرندوں اور چیتل کی آواز کی نقالی بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پرندہ بہت ستم ظریف بھی ہے۔ زمین پر دانا دنکا چگتے کسی بھی قسم کے پرندوں کے غول کے ساتھ ہو جاتا ہے اور اپنے گانوں کے ساتھ ساتھ دیگر پرندوں کی بولیوں کی نقالی کرتے ہوئے بازوں، بلیوں، سانپوں اور غلیل والے لڑکوں پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ اس کی طرف سے دی جانے والے خطرے کی آواز کبھی بھی نظرانداز نہیں ہوتی۔ تاہم اس ذمہ داری کے بدلے اسے خوراک بھی چاہیے ہوتی ہے۔ اس کی تیز نظروں سے کچھ بھی نہیں بچ سکتا۔ جونہی کوئی پرندہ زمین یا پتے کھود کر موٹی سنڈی یا بچھو نکالتے ہیں، یہ فوراً باز کی آواز نکال کر یا نیچے موجود پرندوں میں سے کسی ایک کی ایسی آواز نکال کر کہ جیسے اسے کوئی باز پکڑ رہا ہو، سیدھا اس سنڈی یا کیچوے کو پکڑ کر واپس اسی شاخ پر آ بیٹھتا ہے۔ اپنا گانا دوبارہ سے شروع کر کے اپنے شکار کو ہلاک کر کے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ دس میں سے نو بار یہ پرندہ اس طرح شکار چھیننے میں کامیاب رہتا ہے۔
Racket-tailed drongo چیتل کے گروہ سے بھی مل جاتا ہے اور ان کے گذرنے سے اڑنے والے ٹڈیاں وغیرہ کھاتا جاتا ہے۔ جب کبھی چیتل تیندوے کو دیکھ کر خطرے کی آواز نکالیں تو یہ بھی سیکھ جاتا ہے۔ ایک بار میں ایسے ہی موقع پر موجود تھا جب تیندوے نے ایک سال کی عمر کے چیتل کو مارا۔ تیندوے کو کچھ دور بھگا کر میں نے چیتل کو ایک چھوٹی جھاڑی سے باندھ دیا اور خود وڈیو کیمرا لے کر ایک جھاڑی کے پاس بیٹھ گیا۔ اسی اثناء میں Racket-tailed drongo دیگر پرندوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ مردہ چیتل کو دیکھتے ہی اس نے اڑان بھری اور قریب سے آن کر جائزہ لینے لگا۔ تیندوے کا شکار اس کے لیے عام سی بات تھی لیکن جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو ہوشیار ہو گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اسے میری طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو اس نے پھر اڑان بھری اور دیگر پرندوں کے ساتھ چگنے میں مصروف ہو گیا۔ اچانک اس نے چیتل کی خطرے کی آواز نکالی اور سارے پرندے اڑ کر درختوں پر جا بیٹھے۔ اس کی حرکات و سکنات دیکھ کر مجھے تیندوے کی نقل و حرکت کا بالکل درست اندازا ہوتا رہا۔ شور سے تنگ آ کر تیندوا گھومتے ہوئے میرے عین پیچھے پہنچ گیا۔ بدقسمتی سے جھاڑی زیادہ گھنی نہیں تھی اس لیے تیندوے نے مجھے دیکھا اور غصے سے غرا کر جنگل میں گھس گیا۔ Drongo ابھی تک چیتل کی خطرے کی آواز نکالے جا رہا تھا۔ اگرچہ میں بھی چیتل کی خطرے کی آواز کی کامیاب نقالی کر سکتا ہوں لیکن جتنی تیزی اور جتنی آسانی سے وہ مختلف عمر کے چیتلوں کی آواز نکال رہا تھا، مجھے اس پر شدید حیرت ہوئی۔
اس جگہ بیٹھتے ہوئے مجھے علم تھا کہ واپس لوٹتے ہوئے تیندوا مجھے دیکھ لے گا۔ تاہم میرا خیال تھا کہ جتنی دیر وہ اپنے شکار کو گھسیٹنے میں لگائے گا، میں وڈیو بنا لوں گا۔ تاہم ان پرندوں سے پیچھا چھڑا کر تیندوا واپس لوٹا تو اس کے غصے اور غرانے کے باوجود جتنی دیر وہ اپنا بندھا ہوا شکار
کھینچنے کی کوشش کرتا رہا، میں نے بیس گز کی دوری سے پچاس فٹ جتنی فلم بنا لی۔ شاید میری موجودگی اور کیمرے کی آواز سے اسے غصہ آیا ہوا تھا۔
مجھے علم نہیں کہ یہ پرندے بولنا بھی سیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن انہیں مختلف گانوں کی دھن پر سیٹی بجانا سکھایا جا سکتا ہے۔ کئی سال قبل مانک پور کے ریلوے سٹیشن پر جہاں بنگال اور نارتھ ویسٹرن ریلوے کا جنکشن تھا، کا اینگلو انڈین سٹیشن ماسٹران پرندوں کو گانوں کی دھن پر سیٹی بجانا سکھا کر ان کو فروخت کرتا تھا۔ جونہی ناشتے یا دوپہر کے کھانے کے لیے ٹرین رکتی، مسافر بھاگتے ہوئے سٹیشن ماسٹر کے کمرے کو جاتے اور واپسی پر ان کے ہاتھوں میں پنجرے ہوتے جس میں ان کی مرضی کے گانے کی دھن پر سیٹی بجانے والے پرندے ہوتے۔ پرندے اور پنجرے دونوں کی اکٹھی قیمت 30 روپے تھی۔
٭٭٭
باب 7
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، کتابِ فطرت کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی انتہا۔ میں کبھی بھی یہ نہیں کہوں گا کہ جنگل کی زبان سے متعلق میں نے سب کچھ جان لیا ہے یا پھر اس کتاب میں اس موضوع پر ماہرانہ رائے موجود ہے۔ تاہم ساری زندگی فطرت کے قریب رہ کر گذارنے اور سیکھنے کے عمل میں جو کچھ مجھے پتہ چلا ہے، وہ میں بغیر کسی جھجھک کے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، ہر کوئی اس پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئے گا لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ایک ہی چیز کو دو افراد دو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر گلاب کے پھول کو اگر تین افراد دیکھیں تو ایک کو شاید گلاب کا رنگ دکھائی دے، دوسرا اس کی ساخت پر غور کرے اور تیسرے کو یہ دونوں چیزیں دکھائی دیں۔ تاہم تینوں کو وہی کچھ دکھائی دیا ہے جو وہ دیکھنا چاہتے تھے اور تینوں ہی سچے ہوں گے۔ جب ہندوستان کے صوبجات متحدہ کے وزیرِ اعظم کا اور میرا کسی بات پر اختلاف ہوا تو انہوں نے کہا کہ "بے شک ہمارا اس بات پر اختلاف ہے لیکن ہم پھر بھی دوست رہیں گے”۔ اسی طرح اگر میرے قارئین میری کسی بات سے اختلاف کریں تو کوئی بات نہیں اور ہماری دوستی اسی طرح رہے گی۔
ابتداء میں مجھے ان جانوروں کی شناخت میں الجھن ہوتی تھی جن کے پنجوں کے نشانات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے تھے۔ مثلاً نو عمر سانبھر اور نو عمر نیل گائے کے پگ بڑے سور کے پگ سے بہت مماثل ہوتے ہیں۔ تاہم ان جانوروں کو باری باری آبی گذر گاہ عبور کرتے اور پھر فوراً ہی ان کے کھروں کے نشانات دیکھنے سے جلد ہی مجھے اندازا ہو گیا کہ ایک نظر ڈال کر میں کیسے ان جانوروں کے نشانات میں فرق کر سکتا ہوں۔ سور کے کھروں میں ہرنوں کی مانند اگلے دو سموں کے علاوہ پیچھے دو چھوٹے کھر بھی ہوتے ہیں۔ تاہم سور میں یہ کھر ہرنوں کی نسبت زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ اگر سور کسی سخت زمین پر نہ چل رہا ہو تو یہ چھوٹے کھر لازمی طور پر نشان چھوڑتے ہیں۔ ہرنوں میں ان کھروں کے نشانات تب دکھائی دیتے ہیں جب زمین اتنی نرم ہو کہ ان کے کھر پوری طرح زمین میں کھب جائیں۔ اسی طرح شیر کے بچے یا تیندوے کے کھروں کے نشانات کا فرق جاننا ایک مبتدی کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ دونوں کا رقبہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ دونوں کا فرق جاننے کے لیے ان کے ناخنوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ شیر کے بچے کے پگوں میں ناخن نسبتاً کافی زیادہ بڑے اور لمبے ہوتے ہیں۔
اسی طرح لگڑ بگڑ اور جنگلی کتوں کے پنجوں کے نشان بھی اکثر مشکل ہو جاتے ہیں۔ یہاں دو بنیادی اصول آپ کے گوش گزار کرتا ہوں جن سے آپ ان کی پہچان کر سکتے ہیں:
وہ جانور جو اپنے شکار کو دوڑا کر شکار کرتے ہیں، ان کی انگلیاں ان کے پنجوں کی گدی سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں جبکہ شکار پر گھات لگانے والے جانوروں کے پیروں کی انگلیاں ان کے پنجوں کی گدیوں کی نسبت زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔
شکار کا پیچھا کرنے والے جانوروں کے ناخن ہمیشہ زمین پر لگتے ہیں جبکہ گھات لگانے والے جانور جب اچانک گھبرا جائیں یا اپنے شکار پر جست کرنے لگیں تو ان کے ناخن کے نشان دکھائی دیتے ہیں۔
اگر آپ بلی اور کتے کے پنجوں کے نشانات دیکھیں تو آپ کو علم ہو گا کہ بڑی گدیاں اور چھوٹی انگلیاں اور چھوٹی گدیاں اور بڑی انگلیاں کیسے دکھائی دیتی ہیں۔
جب آپ ایسے علاقے میں رہتے ہوں جہاں سانپ بکثرت ہوں تو ان کے گذرنے کے نشانات سے یہ بڑی حد تک درستی کے ساتھ جان لینا اہم ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سے سانپ زہریلے تھے اور کون سے غیر زہریلے۔ اس نشان سے سانپ کی موٹائی بھی جانچی جا سکتی ہے۔ باری باری ان پر میں روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں:
سمت: سب سے پہلے تو آپ یہ فرض کر لیں کہ کسی کھیت میں چھ انچ اونچی انتہائی گھنی برسیم اگی ہوئی ہے۔ اب اگر آپ اس پر کوئی وزنی رولر پھیرتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رولر کے پھرنے کی سمت برسیم کچلی یا گری ہوئی ہو گی۔ اب اگر رولر پھرنے کے وقت آپ موجود نہ بھی ہوں تو بھی گری اور کچلی ہوئی برسیم کو دیکھ کر آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ رولر کس سمت کو گیا ہے۔ اگر آپ کی نظر تیز نہیں تو محدب عدسہ لے لیں اور پھر قریب بیٹھ کر سانپ کے گذرنے کے نشان کا جائزہ لیں۔ اب آپ دیکھیں گے کہ مٹی یا ریت میں بہت سارے ذرے عمودی کھڑے ہوتے ہیں۔ جب سانپ گذرتا ہے تو وہ ان ذروں کو گراتا جاتا ہے۔ عین برسیم کی طرح آپ راکھ، ریت یا مٹی کے ذروں کو دیکھ کر اندازا لگا سکتے ہیں سانپ کس سمت گیا ہو گا۔
زہریلا یا غیر زہریلا: جیسا کہ میں نے اوپر کہا، بڑی حد تک درستی کے ساتھ سانپ کے زہریلے یا غیر زہریلے ہونے کے بارے جاننا۔ سمت کے بارے جاننے والا اصول ہمیشہ درست ہوتا ہے لیکن سانپ کے زہریلے ہونے کے بارے آپ اندازا لگا سکتے ہیں۔ اگرچہ میں نے انڈیا میں سامنپوں کی کل 300 اقسام میں سے چند ایک ہی کے نشانات دیکھے ہیں لیکن میرا اصول ان تمام پر لاگو ہوتا ہے اور اس میں محض دو استثنائی سانپ ہوتے ہیں۔ ایک صورت زہریلے سانپ شیش ناگ اور دوسری صورت غیر زہریلے پائ تھن کی ہے۔ شیش ناگ کو چھوڑ کر باقی تمام زہریلے سانپ اپنے شکار کی تلاش میں یا تو چھپ کر بیٹھتے ہیں یا پھر چھپ چھپا کر شکار تک پہنچتے ہیں۔ اس لیے ان کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہوتی۔ جب کم رفتار والا سانپ کسی جگہ سے گذرتا ہے تو اس کے نشانات پر کافی زیادہ بل دکھائی دیتے ہیں یعنی سانپ لہرا کر چل رہا ہوتا ہے۔ کریٹ یا وائپر نسل کے سانپ انتہائی زہریلے ہوتے ہیں اور جب ان کے گذرنے کے نشانات دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ سانپ بہت لہرا کر چل رہا ہے۔ جب بھی نشانات سے ایسا لگے کہ سانپ لہرا کر چل رہا ہے تو یہ تقریباً یقینی بات ہوتی ہے کہ زہریلا سانپ ہو گا۔ شیش ناگ چونکہ دوسرے سانپوں کو کھا کر زندہ رہتے ہیں، اس لیے ان کی تیز رفتاری ہی انہیں شکار میں مدد دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیش ناگ کی رفتار گھوڑے جتنی تیز ہوتی ہے۔ اگرچہ کبھی گھڑ سواری کرتے ہوئے نہ میں نے شیش ناگ کا پیچھا کیا اور نہ ہی شیش ناگ نے میرا، اس لیے اس کہاوت کے بارے تو کچھ کہنا ممکن نہیں۔ شیش ناگ 17 فٹ تک لمبا ہو سکتا ہے اور میں نے 14 فٹ لمبے کئی شیش ناگ مارے ہیں، اس لیے مجھے علم ہے کہ وہ کافی تیز رفتار ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں چونکہ شیش ناگ دیگر سانپوں کو کھا کر زندہ رہتا ہے تو اس لیے اس کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے تاکہ دیگر سانپوں کو پکڑ سکے۔ بے ضرر سانپ ماسوائے پائ تھن یعنی اژدہے کے، ہمیشہ پتلے، تیز اور متحرک رہتے ہیں۔ ان کی تیزی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کو شکار پکڑنے میں آسانی رہے۔ دوسری یہ بھی اہم وجہ ہے کہ ان کے دشمن بہت ہوتے ہیں، رفتار کی مدد سے ان سے پیچھا چھڑانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ جب سانپ تیزی سے چلے تو اس کے گذرنے کے نشانات میں بل کم ہوتے ہیں اور کم و بیش سیدھی لکیر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ یعنی نسبتاً سیدھا نشان بے ضرر سانپ سے بنتا ہے۔ جب زمین غیر ہموار ہو تو سانپ کا پیٹ محض اونچائی سے لگے گا، نشیب میں نہیں۔ بے ضرر سانپ کے نشانات سے مشابہت صرف شیش ناگ کی ہوتی ہے اور شیش ناگ کم یاب سانپ ہے اور مخصوص علاقوں میں ہی ملتا ہے۔
موٹائی: کسی بھی سانپ کی موٹائی کا اندازا اس کے گذرنے کے نشان سے لگانا ہو تو اس کے نشان کو کئی جگہ پر ماپ کر اوسط نکال لیں۔ اوسط کو 4 سے ضرب دے دیں تو اس سے آپ کو سانپ کی موٹائی کا اندازا ہو جائے گا۔ اندازا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ نرم مٹی کی ہلکی تہہ پر بننا والا نشان اور ریتلی زمین پر بننے والے نشان ایک دوسرے سے بہت فرق ہوتے ہیں اور پیمائش پر بھی فرق جواب آ سکتا ہے۔
ہندوستان میں ہر سال سانپ کے کاٹنے سے 20٫000 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان میں سے نصف افراد سانپ کے زہر سے اور نصف افراد محض سانپ کے خوف سے جان دے دیتے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کے لوگ ہزاروں سال سے سانپوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہیں سانپوں کے بارے کتنی کم معلومات ہیں۔ چند ایک افراد کو چھوڑ کر تقریباً سب ہی سانپوں کو زہریلا سمجھتے ہیں۔ بڑے سانپ کے کاٹنے سے پہنچنے والا صدمہ کافی ہوتا ہے اور جب مضروب کو یہ بھی یقین ہو کہ سانپ زہریلا ہے تو پھر اس کے بچنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔
ہندوستان کے زیادہ تر دیہاتوں میں سانپ کے کاٹے کا دم کرنے والے بندے مل جاتے ہیں۔ چونکہ ہندوستان میں پائے جانے والے سانپوں میں سے محض دس فیصد ہی زہریلے ہوتے ہیں، اس لیے ایسے افراد بہت مشہور ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی خدمات مفت ہوتی ہیں اس لیے لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اپنے دم وغیرہ سے بہت سارے لوگوں کی جان بچا لیتے ہیں۔
ہندوستان کے زیادہ تر ہسپتالوں میں سانپ کے کاٹے کی ادویات موجود ہوتی ہیں لیکن غریب آدمی بے چارہ یا تو خود چل کر جائے یا پھر اس کے رشتہ دار اسے اٹھا کر ہسپتال تک لے جائیں تو اکثر اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ سانپ کا زہر پھیل چکا ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں زہریلے سانپوں کی تصاویر موجود ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اندھیرے میں ننگے پاؤں پھرتے ہوئے سانپ کا شکار ہوتے ہیں اس لیے ان تصاویر سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی عام سوچ ہے کہ اگر مار گزیدہ سانپ کو مار دے تو سانپ کا زہر اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔ اس لیے چند ہی لوگ سانپ کے کاٹے کے بعد مردہ سانپ لے کر ہسپتال پہنچتے ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ سانپ زہریلا تھا کہ بے ضر ر۔
میرا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی شک ہو تو میں سانپ کو مار کر اس کا منہ کھول کر دیکھتا ہوں۔ اگر سانپ کے منہ میں دانتوں کی دو رو ہوں تو وہ بے ضرر ہوتا ہے اور اگر اس کے اوپری جبڑے میں دو دانت ہوں تو زہریلا۔ کوبرے کے خاندان کے سانپوں میں یہ دانت جبڑے میں گڑے ہوتے ہیں جبکہ وائپر نسل میں یہ دانت جبڑے میں نہیں گڑے ہوتے۔ بے ضرر سانپ کے کاٹے کے مقام پر دانتوں کی دو رو دکھائی دیں گی جبکہ زہریلے سانپ کے کاٹے کی جگہ پر ایک یا دو سوراخ دکھائی دیں گے کہ بعض اوقات سانپ اطراف سے حملہ کرتا ہے یا انگلی وغیرہ جیسی جگہ پر دونوں دانتوں کی گرفت نہیں ہو پاتی۔
٭٭٭
باب 8
جنگلی مخلوق کی زبان سیکھنا مشکل نہیں تھا اور نہ ہی ان میں سے کچھ پرندوں اور چند جانوروں کی آواز کی نقالی کرنا، کہ میری قوت سماعت بہت اچھی تھی اور اچھا گلا بھی۔ ہر پرندے اور جانور کو اس کی آواز سے پہچان لینا کوئی خاص بات نہیں کیونکہ چند ہی پرندے ایسے ہیں جو ہر وقت چہچہاتے ہیں۔ دیگر تمام پرندے اور جانور کبھی بھی بغیر کسی وجہ سے آواز نہیں نکالتے۔ ہر وجہ کی آواز مختلف ہوتی ہے۔
ایک بار میں جنگل میں ایک درخت پر بیٹھا چیتل کے ایک جھنڈ کو دیکھ رہا تھا جس میں پندرہ بالغ اور پانچ بچے اسی قطعے میں موجود تھے۔ ایک بچہ جب نیند سے بیدار ہوا تو کھڑا ہو کر اس نے پہلے انگڑائی لی اور پھر قطعے کے ایک سرے پر گرے ہوئے درخت کی طرف بھاگا۔ شاید یہ دیگر بچوں کے لیے اشارہ تھا کہ آؤ کھیلیں۔ پانچوں بچے ایک دوسرے کے تعاقب میں درخت کی طرف بھاگے اور اس کے گرد گھوم کر واپس آئے اور پھر درخت کی جانب گئے۔ دوسرے چکر پر آگے والے بچے نے سیدھا جنگل کا رخ کیا اور دیگر بچے اس کے پیچھے پیچھے۔ ایک مادہ جو ابھی تک لیٹی ہوئی تھی، اٹھی اور اس نے بچوں کی سمت کے جنگل کو دیکھا اور تیز آواز نکالی۔ سارے بچے اسی وقت بھاگتے ہوئے واپس لوٹ آئے لیکن سوئے ہوئے یا چرتے ہوئے دیگر جانوروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لکڑہاروں کی ایک پگڈنڈی اسی قطعے کے پاس سے گذرتی تھی جس پر مجھے درخت کی بلندی پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے ایک لکڑہارا آتا دکھائی دیا جس نے کندھے پر کلہاڑی رکھی تھی۔ جہاں سے وہ آ رہا تھا، جنگل نسبتاً چھدرا تھا۔ جب وہ بندہ قطعے سے سو گز دوری پر پہنچا تو ایک مادہ نے اسے دیکھ لیا اور اس نے آواز نکالی اور سارے جانور بلا جھجھک گھنے جنگل کو بھاگ گئے۔
پریشان ماں کی آواز ہو یا پھر انسان کو دیکھ کر نکالی گئی خطرے کی آواز، میرے لیے اس وقت بالکل ایک جیسی ہی تھیں۔ بعد میں جب میں اس قابل ہوا کہ جانوروں اور پرندوں کی آواز کو سن کر یہ جان سکوں کہ آواز کیوں نکالی گئی ہے، تو مجھے معلوم ہوا کہ فرق آواز کا نہیں بلکہ ادائیگی میں ہوتا ہے۔ پالتو کتوں کو آپ نے بہت بار بھونکتے سنا ہو گا، کبھی آپ کے گھر واپس آنے پر، کبھی درخت پر چڑھی کسی بلی پر یا کبھی کسی اور وجہ سے، کتے کی بھونک ایک ہی ہوتی ہے لیکن ادائیگی کا طریقہ بدل جاتا ہے اور آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ کتا کیوں بھونک رہا ہو گا۔
جب میں نے جنگل کی زبان اتنی سیکھ لی کہ ساری جنگلی مخلوق کو ان کی آواز سے پہچان سکوں، ان کی آواز کی وجہ جان سکوں، کئی ایک کی کامیاب نقالی کر سکوں کہ وہ میری طرف آئیں یا میرا پیچھا کریں تو جنگل میں میری دلچسپی نے ایک نیا موڑ لے لیا۔ اب جنگل کو میں دیکھ بھی سکتا تھا اور سن بھی سکتا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں ایک اور اہم مرحلہ باقی تھا۔ آواز کو سن کر اس کی سمت اور فاصلے کا درست اندازا لگانا۔ وہ جانور جو جنگل میں مسلسل خوف کے ساتھ زندہ رہتے ہیں، آسانی سے آواز کی سمت اور فاصلے کو جان سکتے ہیں۔ خوف ہی انسان کو بھی یہ فن سکھا سکتا ہے۔ ایسی آوازیں جو مسلسل آتی رہیں جیسا کہ تیندوے کو دیکھ کر لنگور کے بھونکنے کی آواز ہو یا کسی بات پر مشکوک ہو کر چیتل آواز نکالے یا شیر کو دیکھ کر مور کا بولنا، ان کی سمت اور فاصلہ جاننا مشکل نہیں ہوتا۔ تاہم ایسی آوازیں جو صرف ایک ہی بار سنائی دیں، جیسا کہ کسی خشک ٹہنی کا ٹوٹنا، ہلکی غراہٹ یا کسی پرندے یا جانور کی محض ایک آواز، ان کی سمت اور فاصلہ جاننا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہی آوازیں فوری خطرے اور فوری ردِ عمل کی متقاضی ہوتی ہیں۔ جب خوف کی وجہ سے میں نے یہ فن بھی سیکھ لیا تو چاہے دن ہو یا رات، میں جنگل میں ہوں یا جنگل کے قریب بنے اپنے گھر میں، مجھے ہر تیندوے اور شیر کی حرکات و سکنات کا پتہ چلتا رہا۔
سٹیفن ڈیز نے میرے جمع کردہ پرندوں کے بدلے مجھے جو بندوق دی تھی، اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ دو نالی مزل لوڈر بندوق کسی وقت بہت عمدہ ہتھیار رہی ہو گی لیکن بہت زیادہ بارود ڈالے جانے کی وجہ سے اس کی ایک نالی میں شگاف پڑ چکا تھا۔ بظاہر اس دھماکے کی وجہ سے کندہ بھی ٹوٹ گیا ہو گا جسے تانبے کی تاروں سے نالی کے ساتھ جوڑا ہوا تھا۔ تاہم کنور سنگھ نے جب میری بندوق دیکھی تو بائیں نال کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہ نالی بالکل ٹھیک اور اچھی حالت میں ہے۔ کنور سنگھ کی پیشین گوئی بالکل درست نکلی اور دو سال تک میں نے گھر کے کھانے کے لیے مور اور جنگلی مرغیوں کا مسلسل شکار کئے رکھا اور ایک بار تو میں نے 4 نمبر کارتوس سے بہت قریب پہنچ کر ایک چیتل بھی مارا تھا۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ سارے پرندے جو میں نے ان دو سالوں میں شکار کئے، سارے کے سارے ہی بیٹھی حالت میں مارے تھے۔ بارود ان دنوں کمیاب تھا اور ہر فائر پر مجھے شکار کرنا ہوتا تھا۔ جس روز میں نے دو یا تین بار بندوق چلائی ہوتی تھی، اس روز میں دو یا تین پرندے ہی گھر لایا کرتا تھا۔ شکار کا کوئی اور طریقہ شاید ہی مجھے اتنا مزہ دیتا۔
ایک بار شام کو اوپر بیان کردہ آبی گذر گاہوں کے درمیان موجود جنگل کے اوپری سرے سے میں گھر روانہ ہوا۔ کئی ہفتوں سے بارش نہیں ہوئی تھی اور جنگل خشک ہونے کے سبب چھپ کر جانوروں یا پرندوں کے نزدیک پہنچنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت تک میں ایک مرغِ زریں اور ایک جنگلی مرغ شکار کر چکا تھا۔ جب گہری وادی سے نکلا تو ہوا تو پہاڑ کے سرے سے گہرے جامنی بادل دکھائی دینے لگ گئے تھے۔ خشک موسم کے بعد اس طرح کے بادل دکھائی دینا اور ہوا کا بالکل تہم جانا اس بات کی واضح علامت تھے کہ اولے پڑنے والے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں انسان ہوں یا جانور، سبھی ژالہ باری سے خوف کھاتے ہیں۔ چند منٹ کی ژالہ باری سے چوتھائی میل سے لے کر دس میل تک کی کھڑی فصل تباہ ہو سکتی ہے۔ اگر بچے یا مویشی اگر کھلے آسمان تلے ہوں تو وہ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تاہم میں نے اولوں سے کبھی کوئی جنگلی جانور مرا نہیں دیکھا۔ البتہ پرندے بشمول گدھ اور مور بکثرت مرتے ہیں۔
ابھی تین میل کا سفر باقی تھا لیکن اگر میں سیدھا گھر جاتا تو نصف میل بچ سکتا تھا۔ اب بادلوں میں مسلسل بجلی چمکنے لگ گئی تھی۔ پرندے اور جانوروں کی آوازیں تہم گئی تھیں اور گھنے جنگل میں گھسا تو دور سے تیز بارش کی آواز سنائی دینے لگ گئی تھی۔ گھنے درختوں کی وجہ سے اندھیرا بھی چھایا ہوا تھا اور ننگے پیر بھاگتے ہوئے مجھے احتیاط کرنی پڑ رہی تھی۔ اچانک مجھے وہ آواز سنائی دی جو طوفان سے قبل ہوا پیدا کرتی ہے۔ ابھی نصف جنگل عبور کیا ہو گا کہ جنگل کے دوسرے سرے تک ہوا پہنچ گئی۔ خشک پتوں کا قالین اڑنے لگا اور تیز بارش کی آواز سنائی دی۔ عین اسی وقت مجھے ڈینسی کی بینشی یا چڑیل کی آواز سنائی دی جو ہلکی آواز سے شروع ہو کر انتہائی بلند چیخ میں بدلنے کے بعد آہستہ آہستہ سسکی کی طرح گم ہو گئی۔ بعض آوازیں آپ کو ایک دم سے روکتی ہیں اور بعض آوازیں آپ کو اچانک بھاگنے پر مجبور کرتی ہیں۔ چند ہفتے قبل میگگ کے ساتھ شیر سے بھاگتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ اس سے زیادہ تیز بھاگنا ممکن نہیں اور چڑیل کی آواز سنتے ہی اب مجھے اندازا ہوا کہ دہشت کی وجہ سے بھی انسان کتنا تیز بھاگ سکتا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بندوق، شکار اور بارود کا تھیلا میں نے کیوں نہ پھینک دیا۔ ٹھوکروں اور کانٹوں کی پروا کئے بناء میں نے گھر پہنچ کر ہی سانس لیا۔ عین سر پر بادل گرج رہے تھے اور اس جگہ اولے گرنا شروع ہوئے تھے کہ میں سیڑھیاں چڑھ کر گھر کے اندر داخل ہوا۔ چونکہ سارے گھر والے کھڑکیاں دروازے بند کرنے میں مصروف تھے، اس لیے کسی نے میری حالت پر توجہ نہ دی۔
ڈینسی نے بتایا تھا کہ چڑیل کی آواز سننے والے اور اس کے گھر والوں پر مصیبت نازل ہوتی ہے۔ اس ڈر سے کہ کہیں گھر والے مجھے الزام نہ دیں، میں نے چڑیل کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ کسی بھی قسم کا خطرہ ہو، ہر کسی کے لیے کچھ نہ کچھ کشش رکھتا ہے، چاہے وہ چھوٹے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ بہت دن تک میں چڑیل والی جگہ جانے سے گریز کرتا رہا۔ ایک دن ایسا آیا کہ میں اسی جنگل میں جا گھسا۔ اس جگہ کے پاس ایک درخت سے ٹیک لگائے مجھے ابھی کچھ دیر ہی گذری ہو گی کہ مجھے پھر وہی چیخ سنائی دی۔ بھاگنے کی خواہش پر قابو پاتے ہوئے میں کانپتا ہوا درخت کے پیچھے چھپا رہا۔ چند بار چیخ سننے کے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں چھپ کر چڑیل کو دیکھوں تو کیسا رہے گا؟ کچھ دن قبل چڑیل کی آواز سننے سے اگر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو اب اگر چڑیل مجھے دیکھ بھی لے تو ایک چھوٹا سا بچہ سمجھ کر معاف کر دے گی۔ انتہائی آہستگی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے میں نے آخر کار ڈینسی کی چڑیل دیکھ ہی لی۔
بہت عرصہ قبل کسی طوفان کی وجہ سے ایک بہت تناور درخت جزوی طور پر اکھڑ کر ایک اور نسبتاً چھوٹے تناور درخت پر جا کر ٹک گیا تھا۔ بڑے درخت کا وزن اتنا تھا کہ چھوٹا درخت بھی جھک گیا۔ جب ہوا سے بڑا درخت جھولتا تو پھر چھوٹے درخت پر جا گرتا۔ ان کی باہمی رگڑ کی وجہ سے دونوں درختوں کے تنے اس جگہ پر مردہ اور شیشے کی طرح چکنے اور ہموار ہو گئے تھے۔ جب بھی ہوا چلتی تو ان دونوں تنوں کی رگڑ کی وجہ سے یہ آواز پیدا ہوتی تھی۔ جب بندوق نیچے رکھ کر میں بڑے درخت پر چڑھا اور اچھل کود کر چڑیل کی آوازیں کئی بار سنیں تو مجھے معلوم ہوا کہ جنگل میں اکیلے جاتے وقت ہمیشہ مجھے اسی چڑیل کا خوف ستاتا تھا۔ اُس روز سے آج تک، ہمیشہ جنگل میں جب مجھے کچھ عجیب دکھائی یا سنائی دے تو میں ہمیشہ اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس بات کے لیے ڈینسی کا شکریہ کہ اسی کے دیے ہوئے ڈر کی وجہ سے میں نے تجسس اور تحقیق کی عادت ڈالی اور جنگل میں ایک طرح سے جاسوسی کہانیاں جمع کرنا شروع کر دیں۔
عام طور پر افسانوی جاسوسی کہانیاں کسی جرم یا اس کی کوشش سے شروع ہوتی ہیں اور پرتجسس صورتحال سے ہوتے ہوئے آخرکار پولیس مجرم تک جا پہنچتی ہے اور اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتی ہے۔ میری جنگلی جاسوسی کہانیاں اس سے ہٹ کر شروع ہوتی ہیں اور ہمیشہ کامیابی پر ختم بھی نہیں ہوتیں۔ اپنی انہی کہانیوں میں سے دو کہانیاں چن کر آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
1۔ کالا ڈھنگی سے دس میل دور میں محکمہ جنگلات کے ڈاک بنگلے میں مقیم تھا۔ ایک دن علی الصبح نکلا تاکہ ناشتے کے لیے جنگلی مرغ یا مور مار لاؤں۔ جس راستے پر میں چل رہا تھا، اس کے بائیں جانب چھوٹی پہاڑی تھی جس پر گھنا جنگل اگا ہوا تھا اور ہر طرح کے جانور ملتے تھے۔ دائیں جانب کھیت تھے اور کھیتوں اور راستے کے درمیان میں جھاڑیوں کی ایک پٹی سی تھی۔ جب کسان کھیتوں میں کام شروع کرتے تو کھیتوں سے دانا دنکا چگتے پرندے اڑ کر اسی راستے پر سے گذرتے اور ان کو شکار کرنا آسان ہوتا۔ تاہم اس بار میری قسمت کہ سارے پرندے ہی میری چھوٹی بندوق کی مار سے دور اڑتے رہے حتیٰ کہ میں اس راستے کے دوسرے سرے تک پہنچ گیا۔ پرندوں پر نظر رکھنے کے علاوہ میں نے راستے پر بھی نگاہ رکھی۔ جس جگہ پرندوں کے ملنے کے امکانات ختم ہوئے، اس سے سو گز مزید آگے میں نے ایک تیندوے کے پگ دیکھے جو بائیں جانب سے اس راستے پر آیا اور چند گز چل کر دائیں جانب دبک کر لیٹ گیا۔ یہاں سے پھر بیس گز آگے جا کر تیندوا ایک اور جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔ ظاہر تھا کہ اس کی توجہ کسی جانور پر ہے اور وہ جانور سڑک پر نہیں، ورنہ تیندوا سڑک عبور کرنے کی بجائے جھاڑیوں میں سے ہوتا ہوا جاتا۔ تیندوے کے لیٹنے کی پہلی جگہ واپس جا کر میں نے دیکھا کہ وہاں سے کیا دکھائی دیتا ہے۔ وہاں سامنے مجھے جھاڑیوں کے پیچھے ایک کھلا قطعہ دکھائی دیا جس پر سے گاؤں والے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ گئے تھے۔ تیندوے کے چھپنے کی پہلی اور دوسری، دونوں جگہوں سے یہ قطعہ دکھائی دیتا تھا۔ یعنی تیندوے کی توجہ اسی قطعے پر مرکوز تھی۔
جھاڑیوں کے پیچھے چھپتے ہوئے تیندوا پچاس گز مزید آگے اس جگہ پہنچا جہاں جھاڑیاں ختم ہوئی تھیں اور ایک نشیب تھا جو سڑک سے شروع ہو کر اسی قطعے تک جاتا تھا۔ جھاڑیوں کے ختم ہونے کے مقام پر تیندوا کچھ دیر لیٹا رہا اور کئی بار اس نے اپنی جگہ بھی بدلی۔ آخرکار آگے بڑھ کر نشیب سے ہوتا ہوا رکتے، دبکتے اور پھر دوبارہ چلتے آگے بڑھتا رہا۔ تیس گز آگے جا کر ریت ختم ہوئی اور ہلکی گھاس اگی ہوئی تھی۔ تیندوے کے پنجوں سے چپکی ہوئی ریت اور مٹی یہاں گھاس پر ثبت تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ تیندوا شبنم گرنے کے بعد گذرا تھا۔ یہ وقت شام 7 بجے کے بعد کا ہو گا۔ یہ گھاس محض چند گز دور جا کر ختم ہو گئی اور چونکہ دوسرے کنارے پر تیندوے کے پگ دکھائی نہیں دیے، اس کا یہی مطلب نکلتا تھا کہ تیندوا یہاں گڑھے سے نکل گیا تھا۔ کھلے قطعے میں تو پگ دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن گڑھے سے نکل کر تیندوا ایک یا دو فٹ اونچی گھاس کے چند ٹکڑوں کی طرف گیا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ دس فٹ دور سانبھر کے کھروں کے گہرے نشانات ثبت تھے۔ یہاں سے آگے قریب 30 گز تک بار بار سانبھر کے چاروں سم زمین پر گہرے ثبت دکھائی دیتے رہے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ سانبھر نے اپنی کمر سے کسی چیز کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ 30 گز کے بعد سانبھر نے بائیں جانب مڑ کر سیدھا گڑھے کے دوسرے جانب موجود درخت کا رخ کیا۔ درخت کے تنے پر چار فٹ کی اونچائی پر سانبھر کے بال اور خون کے دھبے دکھائی دیے۔
اب میں پوری طرح سمجھ چکا تھا کہ پہاڑی سے اترتے وقت تیندوے نے سانبھر کو کھلے قطعے میں چرتا دیکھا اور مختلف جگہوں سے جائزہ لے کر اس نے گھات لگائی اور اس کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ اب تیندوا سانبھر کی پیٹھ پر پنجے جمائے صبر سے انتظار کر رہا ہو گا کہ سانبھر جونہی کسی تنہا جگہ پہنچے تو اسے ہلاک کر لے۔ سانبھر کے سموں کے نشانات بتا رہے تھے کہ جوان سانبھر ہے اور تیندوا چاہتا تو اسے وہیں ہلاک کر لیتا لیکن دن نکلتے ہی تیندوے کو اس جگہ اپنے شکار سے ہاتھ دھونے پڑتے کیونکہ اتنے بڑے جانور کو تیندوا آسانی سے گھسیٹ کر کہیں نہ لے جا سکتا۔ آگے چل کر سانبھر نے مزید تین درختوں سے رگڑ کر تیندوے کو اتارنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ آخر اس نے 200 گز دور جنگل کا رخ کیا تاکہ جھاڑیوں میں تیندوے کو الجھا کر اپنی جان بچا سکے۔ جھاڑیوں میں بیس گز اندر جا کر تیندوے نے اس مادہ سانبھر کے گلے میں اپنے دانت پیوست کر دیے اور پنجوں کی مدد سے سانبھر کو گرا کر ہلاک کیا اور پھر اپنا پیٹ بھرا۔ اس جگہ تیندوے کو نہ تو انسانی مداخلت کا ڈر تھا اور نہ ہی گدھوں سے۔ تیندوا سانبھر کے پاس ہی سو رہا تھا کہ میری مداخلت سے اسے ہٹنا پڑا۔ تاہم میرے پاس چونکہ پرندوں کے شکار کے لیے 28 بور کی بندوق اور 8 بور کے کارتوس تھے، اس لیے تیندوے کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ میں نے تیندوؤں کو بہت بار سانبھروں، چیتلوں اور ایک بار تو گھوڑے کی پشت پر اسی نیت سے سوار دیکھا ہے کہ وہ کہیں دور جا کر اسے ہلاک کریں لیکن میرے علم میں صرف ایک بار شیر نے ایسا کیا۔
اس موقعے پر میں منگولیا کھٹہ کے پاس کیمپ لگائے تھا جہاں کالاڈھنگی سے 12 میل دور مویشیوں کا باڑہ تھا۔ ایک دن ناشتے کے بعد میں نے دور سے بھینسوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز سنی۔ اس سے پہلے صبح ایک تیندوے کی وڈیو بنانے کی نیت سے میں جب نکلا تو میں نے لگ بھگ ڈیڑھ سو پالتو بھینسوں کا ایک غول دیکھا تھا جو ایک نالے کے کنارے چر رہا تھا۔ نالے میں تھوڑا سا پانی بھی تھا۔ اسی نالے میں مجھے شیر اور شیرنی کے تازہ پگ بھی دکھائی دیے تھے۔ اب گھنٹیوں کے شور و غل سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ ساری بھینسیں اپنے باڑے کی طرف بھاگی آ رہی ہیں۔ گھنٹیوں کے ساتھ ساتھ ایک بھینس کے ڈکرانے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ باڑے میں دس افراد موجود تھے جو بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے پر مامور تھے۔ انہوں نے شور مچانا اور ٹین کھڑکانا شروع کر دیے۔ اب بھینس کے ڈکرانے کی آواز تو رک گئی لیکن مویشی بھاگتے ہوئے پہنچے۔
شور تھمنے کے کچھ دیر بعد میں نے دو گولیوں کی آواز سنی اور جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک نوجوان یورپی بندوق اٹھائے ایک مردہ بھینس کے ساتھ مقامی لوگوں کے دائرے میں کھڑا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ عزت نگر کی انڈین وُڈ پراڈکٹس کا ملازم ہے اور ابھی وہ ان لوگوں سے بات ہی کر رہا تھا کہ اس نے بھینسوں کا شور سنا۔ جب شور قریب پہنچا تو انہوں نے ایک بھینس کے ڈکرانے اور ایک شیر کے دھاڑیں بھی سنیں (چونکہ میں زیادہ دور تھا اس لیے مجھے شیر کی دھاڑیں نہیں سنائی دیں )۔ انہیں ڈر ہوا کہ شیر ان کی طرف ہی آ رہا ہے تو انہوں نے خوب زور سے شور مچایا۔ جب مویشی پہنچے تو ایک بھینس انہیں خون میں نہائی دکھائی دی۔ چونکہ رکھوالوں نے بھینس کو دیکھتے ہی کہہ دیا کہ اس کا بچنا ممکن نہیں تو اس نے اجازت لے کر بھینس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
یہ بھینس بہت خوبصورت اور ہٹی کٹی تھی اور مجھے رکھوالوں کے اس دعوے پر کوئی شک نہیں کہ یہ پورے ریوڑ کی بہترین بھینس تھی۔ چونکہ میں نے اس سے قبل کسی جانور کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا، اس لیے میں نے پوری توجہ سے معائنہ کیا۔
بھینس کی گردن یا گلے پر دانتوں یا پنجوں کا کوئی نشان نہیں تھا لیکن اس کی پشت پر کم از کم 50 خراشیں تھیں۔ کچھ کا رخ پیچھے سے آگے اور کچھ کا آگے سے پیچھے کی طرف تھا۔ بھینس کی پشت پر سوار حالت میں شیر نے پشت سے تقریباً پانچ پاؤنڈ اور پچھلی رانوں سے کوئی پندرہ پاؤنڈ جتنا گوشت نوچ کر کھا لیا تھا۔ کیمپ واپس جا کر میں نے بھاری رائفل اٹھائی اور سیدھا اس جگہ کا رخ کیا جہاں سے بھینسیں آئی تھیں۔ نالے کے کنارے سے مجھے شیر کے پگ دکھائی دیے۔ اس جگہ گھاس سینے تک اونچی تھی اور میرے لیے اس سارے واقعے کی تفصیل جاننا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میں یہ نہ جان سکا کہ شیر اس بھینس کی پشت پر کیوں سوار ہوا جسے مارنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اگر شیر مارنے کی نیت سے حملہ کرتا تو بھینس کے گلے پر اور گردن پر زخموں کے نشانات ہوتے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس واردات کی کڑیاں نہ ملا سکا لیکن میرے علم میں یہ واحد واقعہ ہے جب شیر کسی جانور کی پشت پر سوار ہو کر اپنا پیٹ زندہ جانور کے گوشت سے بھرتا رہا ہو۔
نالے کے کنارے کے پگ بتاتے تھے کہ دونوں شیر پوری طرح جوان ہیں۔ دوسرا اگر کوئی نوجوان شیر ہوتا تو کبھی بھی عین دوپہر کو یا کبھی بھی ڈیڑھ سو بھینسوں کے غول کے پاس بھی پھٹکتا۔
2۔ میرے پرانے دوست ہیری گل کے بیٹے ایولن گل کو تتلیاں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار جب وہ نینی تال مختصر چھٹیوں پر آیا تو میں نے اسے بتایا کہ میں نے پوال گڑھ کی سڑک پر ایک نایاب تتلی دیکھی ہے جس کے پروں کے اوپری حصے پر شوخ سرخ رنگ کے دھبے تھے۔ اس نے فوراً درخواست کی کہ اسے ایک ایسی تتلی پکڑ دوں۔
کئی ماہ بعد میں پوال گڑھ سے تین میل دور سانڈنی گگا میں کیمپ لگائے تھا اور میرا ارادہ تھا کہ نر چیتلوں کی لڑائی کی وڈیو بناؤں گا۔ ان دنوں یہ منظر عام دکھائی دیتا تھا۔ ایک صبح ناشتے کے بعد میں تتلیاں پکڑنے والا جال لے کر نکلا تاکہ ایولن کے لیے تتلی پکڑ سکوں۔ میرے خیمے سے سو گز دور سے وہ جنگلی سڑک گذرتی ہے جو کالاڈھنگی کو پوال گڑھ سے ملاتی ہے۔ اسی سڑک پر ایک میل کے فاصلے پر سانبھروں کے لوٹنے کی نشیبی جگہ تھی جہاں میرا خیال تھا کہ تتلی مل جائے گی۔
فارسٹ روڈ کو کم ہی انسان استعمال کرتے ہیں اور جس جنگل سے یہ سڑک گذرتی ہے، ہر طرح کے جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ صبح سویرے اس سڑک پر چلنا بہت دلچسپ ہوتا ہے کہ سڑک پر باریک مٹی کی ہلکی سی تہہ ہوتی ہے اور اس پر رات کو گذرنے والے ہر جانور کے پگ محفوظ ہوتے ہیں۔ جب آپ خاطرخواہ مہارت پا لیں تو ہر نشان پر رک کر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ایک نظر ڈالتے ہی لاشعوری طور پر جانور، اس کی جنس، جسامت، حرکات وغیرہ سب کچھ پتہ چل جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں میں سڑک پر چڑھا، اس سے کچھ آگے ایک سیہی سڑک تک آئی اور پھر واپس لوٹ گئی کہ شاید جنگل میں اسے کچھ خطرناک دکھائی دیا ہو گا۔ چند گز آگے سڑک کو دائیں سے بائیں عبور کرنے والے ریچھ کے نشانات تھے جس سے سیہی ڈری تھی۔ سڑک عبور کرتے ہی ریچھ نے جھاڑیوں میں چھپے سوروں اور چیتلوں کو ڈرا دیا جو بھاگ کر سڑک سے ہوتے ہوئے دائیں جانب والے جنگل کو چلے گئے۔ کچھ اور آگے جا کر ایک سانبھر سڑک پر آیا اور ایک جھاڑی سے پیٹ بھرنے کے بعد پچاس گز آگے ایک درخت پر اپنے سینگ رگڑنے کے بعد واپس جنگل کو چلا گیا۔ تھوڑا آگے ایک چوسنگھا اپنے بچے کے ساتھ سڑک پر آیا۔ اس بچے کے کھر انسانی بچے کے انگلی کے ناخن سے زیادہ بڑے نہیں تھے۔ تھوڑا آگے چل کر ماں کو کسی چیز سے خطرہ محسوس ہوا تو ماں اور بچہ چند گز بھاگ کر جنگل میں گھس گئے۔ آگے سڑک پر موڑ آتا ہے اور یہاں ایک لگڑ بگڑ موڑ تک آ کر لوٹ گیا۔
سڑک پر نشانات پڑھتے ہوئے میں پرندوں کی چہچہاہٹ سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا کیونکہ سو میل کے دائرے میں سانڈنی گگا سب سے خوبصورت مقام تھا اور یہاں بے شمار اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں۔ نصف میل آگے چل کر سڑک ایک پہاڑی کے کنارے کو کاٹتی ہوئی گذرتی ہے۔ اس جگہ زمین بہت سخت ہے اور کسی قسم کے پگ دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں اچانک میری توجہ ایک عجیب نشان کی طرف مبذول ہوئی۔ یہ نشانات ایک تین انچ لمبی اور ایک سرے پر کم از کم دو انچ گہری خراش تھی۔ یہ خراش سڑک سے زاویہ قائمہ پر تھی۔ عین ممکن تھا کہ یہ خراش کسی لاٹھی کے لوہے کے سرے سے بنی ہو لیکن پچھلے 24 گھنٹوں میں یہاں سے کوئی انسان نہیں گذرا۔ دوسرا اگر انسان بھی یہ نشان بناتا تو بھی وہ سڑک کے متوازی ہوتی۔ اس جگہ سڑک کا دائیں کنارہ دس فٹ اونچا اور بائیں جانب ڈھلوان تھی۔ اس خراش سے نکلی ہوئی مٹی کا رخ بتاتا تھا کہ جس نے بھی یہ نشان بنایا، وہ دائیں سے بائیں جانب جا رہا تھا۔
جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ نشان کسی انسان نے نہیں بنایا تو میرے پاس صرف ایک ہی جواب باقی بچا تھا۔ یہ نشان چیتل یا پھر نوعمر سانبھر کے سینگ سے بنا ہو گا۔ اگر یہ جانور اونچے کنارے سے چھلانگ لگا کر غلط طریقے سے نیچے گرا ہوتا تو بھی اس کے کھروں کے نشانات اس سخت مٹی پر بھی صاف دکھائی دیتے لیکن اس نشان کے آس پاس کوئی نشان نہیں تھا۔ آخری جواب یہی تھا کہ شیر نے چیتل یا سانبھر کو ہلاک کرنے کے بعد اسی راستے سے کہیں جا چھپایا ہو گا اور اونچے کنارے سے چھلانگ لگاتے وقت سینگ سے یہ نشان بنا۔ سڑک عبور کرتے وقت شیر اور تیندوے اپنے شکار کو ہوا میں اٹھا لیتے ہیں تاکہ لاش کی بو نہ پھیلے، بصورتِ دیگر گیدڑ، ریچھ اور لگڑ بگڑ پیچھا کر سکتے ہیں۔
اپنے نظریئے کی تصدیق کے لیے میں نے بائیں جانب والی ڈھلوان دیکھی تو وہاں بھی کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔ تاہم 20 گز دور جھاڑی پر 4 فٹ کی بلندی پر کوئی چیز چمکتی دکھائی دی۔ پاس جا کر دیکھا تو وہ خون کا موٹا قطرہ تھا جو ابھی خشک بھی نہیں ہوا تھا۔ اب پیچھا کرنا آسان ہو گیا۔ پچاس گز آگے جا کر ایک چھوٹے درخت کے نیچے جھاڑیوں میں میں نے ایک نر چیتل کی لاش دیکھی جس کے سینگ بہت خوبصورت تھے۔ پچھلا حصہ کھانے کے بعد شیر نے کافی فاصلے سے پتے اور خس و خاشاک جمع کر کے لاش کو ڈھانپ دیا تھا تاکہ پرندے یا جانور اسے نہ تلاش کر سکیں۔ جب شیر اپنے شکار کو چھپا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں پاس موجود نہیں۔
فریڈ اینڈرسن اور ہیوش ایڈی مجھے بتا چکے تھے کہ اس جگہ وہ مشہور شیر رہتا ہے جسے بیچلر آف پوال گڑھ کہا جاتا ہے۔ اس مشہور شیر کو دیکھنے کا مجھے بہت شوق تھا کیونکہ پورے صوبے کے شکاری اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ مجھے علم تھا کہ جہاں میں جا رہا ہوں، وہاں ایک کھائی میں یہ شیر رہتا ہے۔ چیتل کے پاس کوئی پگ دکھائی نہیں دیے لیکن مجھے گمان ہوا کہ ہو نہ ہو یہ شکار اسی بیچلر کا ہے۔ مجھے یہ موقع اچھا لگا کہ جا کر دیکھوں کہ آیا یہ شیر واقعی اتنا بڑا ہے۔
لاش کے ساتھ ہی ایک تنگ سا قطعہ شروع ہوتا تھا جو سیدھا سو گز آگے ایک ندی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ اس ندی کے دوسرے سرے پر ایک گھنا جھنڈ تھا۔ اگر بیچلر واپس اپنی کھائی کو نہ گیا ہوتا تو یہی جھنڈ اس کے سونے کے لیے عمدہ جگہ ہو گی۔ میں نے سوچا کہ بیچلر کو بلاتا ہوں۔ پھر میں نے واپس سڑک کے کنارے جا کر تتلیاں پکڑنے والا سفید جال خشک پتوں میں دبایا اور واپس لوٹا۔ قطعے کا اوپری سرا دس فٹ چوڑا تھا اور لاش اس کے دائیں سرے سے دس فٹ دور ایک درخت کے نیچے تھی۔ قطعے کے بائیں جانب اور لاش کے عین مخالف سمت میں ایک مردہ درخت تھا جس پر بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ پہلے تو میں نے جائزہ لیا کہ درخت کے تنے میں سانپوں کے بل یا سوراخ تو نہیں، پھر زمین پر موجود پتے ہٹا کر تسلی کی کہ بچھو وغیرہ نہ چھپے ہوں، میں درخت سے کمر لگا کر بیٹھ گیا۔ یہاں سے لاش میرے سامنے 30 فٹ دور تھی اور مجھے پورا قطعہ اور نہر بھی دکھائی دے رہی تھی اور نہر کے پار پیپل کے درخت پر سرخ بندروں کا غول اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔
جب میری ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو میں نے تیندوے کی آواز نکالی۔ جب بھی ممکن ہو تیندوے شیر کے شکار پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں اور شیر اس بات سے بہت چڑتے ہیں۔ اگر شیر بہت دور نہ ہوتا تو یہ آواز سنتے ہی اس کا آنا لازمی امر تھا۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ نزدیک پہنچے گا تو میں اسے اپنی شکل دکھا کر بھگا دوں اور خود اپنی راہ لوں گا۔ بندروں نے میری آواز پر فوری ردِ عمل ظاہر کیا۔ تین بندر فوراً چالیس فٹ کی بلندی سے ہر طرف دیکھ کر شور مچانے لگے۔ چونکہ ابھی تک انہوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا اس لیے ایک منٹ تک شور مچاتے رہے۔ ظاہر ہے کہ اگر شیر کہیں نزدیک ہوتا تو اسے پورا یقین ہو جاتا کہ تیندوا اس کے شکار پر ہاتھ صاف کرنے کے چکر میں ہے۔ میں ان تین بندروں کو غور سے دیکھتا رہا۔ اچانک ایک بندر نے رخ بدلا اور اپنے عقب کی طرف رخ کر کے خطرے کی آواز نکالنے لگا۔ فوراً ہی دیگر دو بندروں نے اس کا ساتھ دیا۔ مجھے شدید افسوس ہے کہ میرے پاس کیمرا نہیں تھا ورنہ شیر کی بہترین وڈیو تیار ہوتی کہ چمکتی ندی کے سامنے گھاس پر شیر خراماں خراماں چلا آ رہا ہے اور پیچھے لال بندر شور مچا رہے تھے۔
جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، شیر نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ مجھے شک ہوا کہ وہ میرے عقب سے نہ آ جائے۔ شیر نے ندی عبور کرتے ہی دائیں جانب کا رخ کیا مبادا کہ تیندوا اسے قطعے پر آتا دیکھ کر بھاگ نہ جائے۔ مجھے اس بات پر اعتراض تو نہیں تھا لیکن اس طرح شیر میری مرضی کے خلاف زیادہ قریب پہنچ جاتا۔
اگرچہ یہ پورا علاقہ خشک پتوں سے بھرا ہوا تھا لیکن بغیر کوئی آواز نکالے شیر پہنچ گیا۔ تاہم میری مشکل کا اندازا کیجئے کہ میرے سامنے بیچلر نہیں بلکہ ایک شیرنی چیتل کی لاش کے اوپر کھڑی دیکھ رہی تھی۔ شیرنیوں کا مزاج کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں ہوتا اور اس وقت تو میں اس کے شکار کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اگر شیرنی کے بچے بھی اسی جھنڈ میں ہوتے جہاں سے وہ آئی تھی تو معاملہ اور بھی خطرناک ہو جاتا۔ تاہم اگر شیرنی واپس لوٹ جاتی تو مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن شیرنی نے اپنا رخ بدلا اور مجھ سے پندرہ فٹ کے فاصلے پر آ کر رک گئی۔ تھوڑی دیر تک وہ کھڑی کچھ سوچتی رہی اور میں آنکھوں میں ہلکی سی درز کئے اور سانس روکے اسے دیکھتا رہا حتیٰ کہ شیرنی نے قطعے کا رخ کیا اور ندی پر پہنچ کر اس نے اپنی پیاس بجھائی اور دوسرے کنارے پر جا کر جنگل میں گم ہو گئی۔
متذکرہ بالا دونوں واقعات میں مجھے شروع میں بالکل علم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے لیکن ملنے والا ہلکا سا نشان بھی انتہائی دلچسپ واقعے کی نشاندہی کر سکتا ہے۔
جاسوسی کہانیاں لکھنے کی اہلیت چند افراد ہی رکھتے ہیں لیکن جنگل کی جاسوسی کہانیاں ہر اس انسان کے لیے ممکن ہیں آنکھیں کھلی رکھتا ہو اور تحقیق شروع کرنے سے قبل ہی ذہن نہ بنا لے کہ اسے سب کچھ معلوم ہے، حالانکہ اسے کچھ بھی پتہ نہ ہو۔
٭٭٭
باب 9
جب میں دس سال کا تھا تو گھر والوں کے خیال میں میں اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ نینی تال والنٹیئر رائفلز کی کیڈٹ کمپنی میں شریک ہو سکوں۔ ان دنوں ہر طرف رضا کاری کا جنون پھیلا ہوا تھا اور تمام صحت مند لڑکے اور مرد شمولیت کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔ ہماری بٹالین میں چار کیڈٹ اور ایک بالغوں کی کمپنیاں تھیں اور کل افراد کی تعداد 500 تھی۔ چونکہ ہمارے علاقے کی کل آبادی ہی 6000 تھی تو 500 افراد کا مطلب ہر بارہویں فرد کی شمولیت تھی۔ 72 طلباء کے ہمارے اسکول کا پرنسپل ہمارے 500 کیڈٹوں والی کمپنی کا کیپٹن بھی تھا۔ اس کے نزدیک اس کمپنی کو بٹالین کی بہترین کمپنی بننا تھا۔ اس کا یہ خیال تو بہت عمدہ اور قابل تعریف تھا لیکن اسی وجہ سے ہم لڑکوں کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر ہفتے دو بار ہم اسکول کے کھیل کے میدان میں ڈرل کرتے تھے اور ہر ہفتے ایک بار نینی تال کے اوپر موجود کھلے میدانوں میں دیگر کمپنیوں کے ساتھ ہمیں ڈرل کرنی پڑتی تھی۔
ہمارے کیپٹن کی نظروں سے کوئی بھی غلطی اوجھل نہیں رہ سکتی تھی اور نہ ہی اس نے کبھی کسی غلطی کو معاف کیا۔ ڈرل سے فارغ ہو کر جب ہم اسکول آتے تو پھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔ مطلوبہ طالبعلم سے چار فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر چار فٹ لمبے ڈنڈے سے غلطی کی اصلاح کیا کرتا تھا۔ کیپٹن خود سے شرط لگاتا ہو یا نہ لیکن نئے آنے والے طلباء شرط لگا کر ہار جاتے تھے کہ ہر بار کیپٹن کی ضرب ہاتھ کے اس حصے پر لگتی تھی جو پہلے سے ڈنڈے کے تکلیف دہ وار سہہ چکا ہوتا تھا۔ نئے طلباء انہی شرطوں پر کنچے، لٹو، چاقو اور بسکٹ بھی ہار جاتے تھے۔ دوسری کمپنیوں والے ہمارے ڈرل پر تو اعتراض کرتے تھے لیکن کبھی اس بات کے وہ ہمیشہ معترف رہے تھے کہ ہماری کمپنی سب سے زیادہ بہتر نکلی ہے۔ یہ بات بجا تھی کیونکہ ڈرل سے قبل دیگر کمپنیوں کی طرح ہمارا بھی جائزہ لیا جاتا تھا کہ لباس پر کہیں کوئی داغ نہ ہو اور نہ ہی ناخن کے نیچے میل ہو۔
ہماری وردی نیلے سرج کی بنی ہوئی تھی اور ہمارے بڑے بھائیوں سے ہم تک پہنچی۔ یہ کپڑا نہ صرف زیادہ عرصہ چلتا تھا بلکہ جسم کے ہر نازک حصے کو رگڑنا اس کی خوبی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہر قسم کا داغ دھبہ اس پر دور سے دکھائی دیتا تھا۔ وردی انتہائی تکلیف دہ اور گرم تھی لیکن ہمارا ہیلمٹ اس سے دو ہاتھ آگے ہوتا تھا۔ کسی سخت دھات کا بنا ہوا ہیلمٹ تھا جس پر چار انچ لمبا ایک فولادی کیل تھا۔ یہ کیل ہیلمٹ سے گزر کر ایک انچ نیچے تک آتا تھا۔ اس کیل کو دماغ تک سوراخ کرنے سے روکنے کے لیے اس پر کاغذ لگائے جاتے تھے اور پھر سخت چمڑے کی پٹی سے اسے باندھا جاتا تھا۔ شدید گرم سورج کے نیچے تین گھنٹے کی ڈرل کے بعد شام کو سبق یاد کرتے وقت سر درد سے پھٹ رہا ہوتا تھا۔ نتیجتاً ڈرل کے اگلے روز چار فٹ لمبا ڈنڈا روز سے کہیں زیادہ استعمال ہوتا تھا۔
ایک بار ڈرل کے وقت ایک مہمان افسر ہمارا معائنہ کرنے آیا ہوا تھا۔ ایک گھنٹے کی پریڈ کے بعد بٹالین کو سوکھا تال میں چاند ماری کے لیے لے جایا گیا۔ یہاں کیڈٹ کمپنیوں سے کہا گیا کہ ایک جگہ ہتھیار ڈھیر کر کے بیٹھ جائیں جبکہ بالغوں کی کمپنی ہمارے مہمان افسر کو اعشاریہ 450 کی ہنری مارٹینی رائفل سے اپنا نشانہ دکھائیں گے۔ ہماری بٹالین میں پورے ہندوستان کے چند بہترین نشانہ باز بھی شامل تھے جس پر پوری بٹالین کو ناز تھا۔ نشانے کے طور پر پختہ چبوترے پر موٹے لوہے سے نشانہ بنایا گیا تھا اور اس پر لگنے والی گولی کی آواز سے صاف پتہ چلتا تھا کہ گولی کنارے پر لگی ہے کہ درمیان میں۔
ہر کیڈٹ کا بالغوں کی کمپنی میں ایک نہ ایک ہیرو تھا اور ایک دوسرے کے ہیروز کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال عام سی بات تھی اور اگر وردی میں لڑائی کرنا منع نہ ہوتا تو بہت لڑائیں ہوتیں۔ جب ہر نشانچی کے حاصل کردہ نمبروں کا اعلان ہو چکا تو سب کو جمع کر کے پانچ سو گز کے نشانے سے پھر دو سو گز کے نشانے تک مارچ کرایا گیا۔ یہاں پہنچ کر ہم نے پھر اپنی رائفلیں ڈھیر کیں اور پیچھے بیٹھ کر نشانہ بازی دیکھنے لگے۔
بین المدارس مقابلے ہمیشہ کانٹے دار ہوتے ہیں اور اس بار تو نشانے بازی کے اس مقابلے پر ہر طالبعلم نے پوری توجہ دی اور ہر اچھے اور برے نشانے پر غیر جانبدارانہ تبصرے بھی ہوئے۔ دونوں کمپنیوں کے پاس بہترین نشانے باز تھے اس لیے مقابلہ بہت سخت جا رہا تھا۔ جب نتائج کا اعلان ہوا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ ہماری ٹیم نے دوسری پوزیشن لی تھی جبکہ پہلی پوزیشن والا اسکول ہم سے تین گنا زیادہ طلباء والا تھا، پھر بھی وہ محض ایک پوائنٹ سے جیتے۔
ابھی ہم نشانوں پر بحث کر ہی رہے تھے کہ ہمیں اپنا سارجنٹ میجر افسران کے گروہ سے نکل کر اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ ساتھ ہی اس کی آواز سنائی دی، "کیڈٹ کاربٹ، کیڈٹ کاربٹ”۔ خدایا! اب میں نے ایسا کیا کر دیا کہ مجھے سب کے سامنے سزا ملتی۔ بجا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ جس ایک پوائنٹ سے مخالف ٹیم جیتی ہے، محض ایک اتفاق تھا، جس پر مجھے کسی نے لڑائی کا کہا۔ نہ تو میں نے اس لڑکے کو دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی لڑائی ہوئی تھی تو پھر سارجنٹ میجر کیوں میرا نام لے کر چلاتا آ رہا ہے کہ "کیڈٹ کاربٹ، کیڈٹ کاربٹ”۔ چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ "جاؤ”۔ "تمہیں بلا رہا ہے”۔ "جلدی کرو ورنہ مار کھاؤ گے”۔ آخرکار میں نے کھڑے ہو کر انتہائی کمزور آواز سے کہا "یس سر”۔ "جواب کیوں نہیں دے رہے تھے؟ تمہاری کاربین (چھوٹی نال والی رائفل) کہاں ہے؟ جلدی سے لے اسے اٹھا کر میرے ساتھ چلو”۔ ابھی میں حیران و پریشان کھڑا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے دوستانہ انداز میں دھکا دیا اور آواز آئی "جاؤ بھی، احمق کہیں کے” اور میں بھاگ پڑا۔
دو سو گز کے نشانے والی جگہ پر پہنچ کر جو طلباء نشانے بازی میں حصہ نہیں لے رہے تھے، انہوں نے اپنی رائفلیں ایک جگہ ڈھیر کر دی تھیں اور میری رائفل اور چند دیگر رائفلوں کے ساتھ اس ڈھیر کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ کاربین نکالتے ہوئے سارا ڈھیر زمین پر گرا اور ابھی میں ساری رائفلیں پھر جمع کر رہا تھا کہ سارجنٹ میجر دھاڑا، "رائفلوں کو دفع کرو اور اپنی رائفل کو لے کر یہاں آؤ۔ رائفل اٹھاؤ، دائیں مڑو، کوئیک مارچ” یہ احکامات سنائی دیے۔ کسی میمنے سے بھی زیادہ خوفزدہ حالت میں میں سیدھا فائرنگ پوائنٹ پر پہنچا تو سارجنٹ میجر نے سرگوشی کی "مجھے شرمندہ مت کرنا۔” فائرنگ پوائنٹ پر مہمان افسر نے پوچھا کہ کیا میں اس کمپنی کا سب سے کم عمر کیڈٹ ہوں۔ تصدیق ہوئی تو پھر اس نے مجھے کہا کہ میں اسے چند فائر کر کے دکھاؤں۔ اس بات کو کہنے کا انداز دوستانہ اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آس پاس موجود تمام افسران میں سے مجھے یہ واحد فرد ایسا لگا جسے اس بات کا علم ہو کہ اس طرح بہت بڑے مجمعے کے سامنے اچانک پیشی پر میرے جیسا بچہ کتنا پریشان، گھبرایا ہوا اور تنہا محسوس کر رہا ہو گا۔
ہم کیڈٹس کو دی جانے والی اعشاریہ 450 بور کی ہنری مارٹینی رائفل کا چھوٹے اسلحے میں سب سے زیادہ ہوتا تھا اور حالیہ ڈرل وغیرہ سے میں ویسے بھی تھکا ہوا تھا اور میرے ناتواں اور سوکھے کندھوں میں بہت تکلیف ہو رہی تھی اور اب مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ اب مجھے کندھے پر مزید دھکے سہنے پڑیں گے۔ تاہم سب سے چھوٹا کیڈٹ ہونے کی سزا بھگتنی ہی تھی۔ سارجنٹ میجر کے حکم پر میں لیٹا اور سامنے رکھی گئی گولیوں میں سے پانچ کو اٹھایا اور رائفل میں ڈال کر آرام سے میں نے رائفل اٹھائی اور خوب اچھی طرح نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ تاہم نشانے کی طرف سے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ پھر مہمان افسر نے آرام سے کہا "سارجنٹ میجر۔ اب میں دیکھتا ہوں۔” اپنی بے داغ وردی سمیت وہ افسر میرے ساتھ تیل سے چیکٹ بوری پر لیٹ گیا اور بولا، "رائفل مجھے دو”۔ جب میں نے اسے رائفل پکڑائی تو اس نے نشانے کو دو سو گز پر ٹھیک کیا جو میں خود کرنا بھول گیا تھا، پھر اس نے رائفل مجھے پکڑائی اور کہا کہ جلدی مت کرو، آرام سے نشانہ لے کر گولی چلاؤ۔ اگلی چاروں گولیاں نشانے پر لگیں۔ کندھے پر تھپکی دے کر اس نے پوچھا کہ میرا سکور کتنا ہے۔ بتایا گیا کہ بیس میں سے دس نمبر، کیونکہ پہلی گولی خطا ہوئی تھی۔ "بہترین۔ عمدہ نشانہ” اس نے کہا۔ پھر جب وہ دیگر افسران سے باتیں کرنے لگا تو میں واپس اپنی کیڈٹ کمپنی کی گیا تو جیسے ہوا میں تیر رہا ہوں۔ تاہم میری خوشی اسی وقت ختم ہو گئی جب دیگر لڑکوں نے کہنا شروع کر دیا کہ "برا نشانہ تھا”، "کمپنی کے لیے باعث شرم” اور "بند آنکھوں سے میں زیادہ بہتر نشانہ لگا سکتا تھا” اور یہ کہ "پہلی گولی دیکھی کہ کہاں جا لگی”؟ لڑکے ہمیشہ سے ایسے ہوتے ہیں۔ سوچے بنا اپنی بات کہہ دیتے ہیں چاہے وہ دوسروں کے لیے کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔
اس دن سوکھا تال میں جب میں بہت پریشان اور تنہا تھا تو جس مہربان افسر نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ کیا، بعد میں قومی ہیرو بنا اور فیلڈ مارشل ارل رابرٹس کے نام سے جانا گیا۔ بعد میں جب بھی کسی فیصلے کے وقت یا شکار میں گولی چلاتے وقت، مجھے جب بھی عجلت محسوس ہوئی تو میں نے اسی مشورے کو آزمایا اور ہمیشہ مشورے کے لیے شکر گزار رہا ہوں۔
سارجنٹ میجر نے برسوں تک نینی تال کے رضاکاروں پر ڈنڈے کے زور پر حکومت کی تھی، پستہ قد اور موٹی گردن والا بندہ تھا لیکن اس کا دل سونے کا تھا۔ اس دن ہماری آخری ڈرل کے بعد اس نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ کیا مجھے رائفل چاہئے؟ حیرت اور خوشی کے مارے میرے منہ سے آواز نہ نکلی تو اس نے کہا کہ "چھٹیوں پر جانے سے قبل مجھے مل لینا۔ میں تمہیں سروس رائفل اور جتنے کارتوس چاہو گے، دوں گا بشرطیکہ خالی کارتوس مجھے واپس کرنے ہوں گے اور رائفل کو صاف رکھو گے”۔
اس بار کالا ڈھنگی جاتے وقت میرے پاس نہ صرف رائفل بلکہ وافر مقدار میں کارتوس بھی تھے۔ سارجنٹ میجر کی دی ہوئی رائفل انتہائی درست نشانے کی حامل تھی اور اگرچہ بچے کو اس رائفل پر تربیت دینا اچھا نہیں لیکن میرے لیے یہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ غلیل کے بعد تیر کمان اور تیر کمان کے بعد مزل لوڈر نے مجھے جنگل میں مزید دور تک جانے کا حوصلہ دیا تھا اور اب رائفل کے ساتھ تو میں جہاں جانا چاہتا، مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔
خوف کا جذبہ جانوروں کی حسیں تیز رکھتا ہے اور ہر وقت وہ خبردار رہتے ہیں اور یہی انسان کے ساتھ بھی معاملہ ہے۔ خوف کی وجہ سے میں جنگل میں خاموشی سے گھومنا، درختوں پر چڑھنا، آواز سنتے ہی اس کے ماخذ، سمت اور فاصلے کا درست اندازا لگانے کے قابل ہو گیا تھا اور اب جنگل کے دور افتادہ کونوں میں گھسنے کے لیے ضروری تھا کہ میں اب اپنی آنکھوں کو اور رائفل کو درست طور پر استعمال کرنا سیکھوں۔
انسان کے دیکھنے کی صلاحیت 180 ڈگری تک ہوتی ہے اور جب آپ ایسے جنگل میں پھر رہے ہوں جہاں نہ صرف ہر قسم کی جنگلی حیات بشمول زہریلے سانپ، دوسروں کے زخمی کئے ہوئے درندے وغیرہ بھی پائے جاتے ہوں، آنکھوں کی تربیت لازمی ہو جاتی ہے تاکہ پورے 180 ڈگری کو دیکھا جا سکے۔ ہمارے سامنے ہوئی کوئی بھی حرکت کو دیکھنا اور اس سے نمٹنا آسان ہوتا ہے لیکن وہ حرکات کو ہماری بصارت کے انتہائی کناروں پر ہو رہی ہوں، عموماً ان کو دیکھنا مشکل ہوتا ہے اور یہی حرکات ہی سب سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں اور انہی سے ڈرنا چاہئے۔ جنگل میں کوئی بھی جاندار بلا وجہ حملہ نہیں کرتا لیکن بعض حالات ایسے بھی پیدا ہو سکتے ہیں کہ کچھ مخلوقات حملہ کر بیٹھیں۔ اسی سے نمٹنے کے لیے آنکھوں کی تربیت لازمی ہوتی ہے۔ ایک بار کھوکھلے تنے میں چھپے کوبرے کی دو شاخہ زبان اور دوسری مرتبہ ایک جھاڑی کے پیچھے چھپے تیندوے کی دم کی حرکت نے مجھے عین وقت پر خبردار کیا کہ دونوں حملہ کرنے لگے تھے۔ دونوں بار ہی میں سامنے دیکھ رہا تھا اور دونوں ہی حرکات میری بصارت کے انتہائی کناروں پر ہوئی تھیں۔
مزل لوڈر نے مجھے گولیاں احتیاط سے چلانا سکھایا تھا اور اب رائفل کے ساتھ میں نے سوچا کہ کسی چیز پر نشانے کی خاطر گولی ضائع کرنا اچھی بات نہیں۔ اس لیے میں نے اب موروں اور جنگلی مرغیوں پر ہاتھ آزمانا شروع کر دیا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ پرندہ اتنا خراب ہو گیا کہ اسے پھینکنا پڑا۔ گولی چلانے سے قبل چاہے مجھے جتنا انتظار کرنا پڑتا یا مشکل ہوتی، مجھے اس پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ تاہم جب مجھے اتنی مہارت ہو گئی کہ میں جہاں چاہتا، گولی مار سکتا تھا تو مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ اب میں جنگل کے ان حصوں میں بھی جا سکتا تھا جہاں جاتے ہوئے مجھے شدید خوف ہوتا تھا۔ جنگل کا ایک حصہ ہم لوگ فارم یارڈ کے نام سے پکارتے تھے جہاں درختوں اور جھاڑیوں کا گھنا سلسلہ کئی میل تک پھیلا ہوا تھا اور اس کے بارے مشہور تھا کہ یہ حصہ جنگلی مرغیوں اور شیروں سے اٹا ہوا ہے۔ اس بات کی میں گواہی دیتا ہوں کہ جنگلی مرغیاں واقعی جتنی یہاں دیکھیں، اتنی دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملیں۔ کوٹا سے کالا ڈھنگی جانے والی سڑک کا کچھ حصہ اسی فارم یارڈ سے گذرتا تھا اور اسی سڑک سے گذرنے والے ڈاک کے ہرکارے نے مجھے کئی سال بعد بتایا تھا کہ اس نے "بیچلر آف پوال گڑھ” کے پگ دیکھے تھے۔
تیر کمان اور مزل لوڈر کے دنوں میں میں ہمیشہ فارم یارڈ سے کنی کترا کر نکلتا تھا۔ تاہم اب اعشاریہ 450 بور کی طاقتور رائفل سے مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ فارم یارڈ کو جا کر دیکھوں۔ جنگل میں سے ایک گہری اور پتلی سی کھائی گذرتی تھی اور شام کو اسی کھائی کے پاس جا کر میں کھانے کے لیے کوئی پرندہ یا گاؤں والوں کے لیے سؤر مارنے نکلا تھا۔ اچانک مجھے اپنی دائیں جانب جنگلی مرغیوں کی آواز سنائی دی جو خشک پتے الٹ پلٹ رہی تھیں۔ کھائی میں ایک پتھر پر میں بیٹھ گیا اور آہستہ سے سر کو کنارے کے اوپر نکالا تو دیکھا کہ تھوڑے فاصلے پر 20 سے 30 کے لگ بھگ جنگلی مرغیاں چر چگ رہی تھیں۔ ان کا رخ میری طرف تھا اور ان کی سربراہی ایک پرانا خرانٹ نر کر رہا تھا۔ اس نر کو نشانے پر لے کر میں منتظر رہا کہ کب نشانے کی لائن کے عین پیچھے کوئی درخت آئے کہ میں گولی چلاؤں۔ جب تک پرندے پر چلائی گئی گولی کو روکنے کے لیے پیچھے کوئی ٹھوس رکاوٹ نہ ہو، میں نے کبھی گولی نہیں چلائی۔ اچانک مجھے اپنی بائیں جانب کسی بھاری جانور کے چلنے کی آواز آئی۔ سر گھما کر دیکھا تو ایک بڑا تیندوا پہاڑی سے سیدھا میری طرف بھاگا آ رہا تھا۔ کوٹا کی سڑک میرے بائیں دو سو گز اوپر پہاڑ سے گذرتی تھی اور شاید تیندوا سڑک پر کسی چیز سے بھاگ کر ادھر پناہ لینے آ رہا تھا۔ جنگلی مرغیوں نے بھی تیندوے کو آتے دیکھا تو شور مچا کر اڑ گئیں۔ میں نے فوراً رخ بدلا تاکہ تیندوے کا سامنا کر سکوں۔ بظاہر تیندوے کی توجہ بٹی ہوئی تھی کہ وہ میری حرکت نہ دیکھ سکا اور سیدھا عین کھائی کے کنارے آن رکا۔
کھائی تقریباً 15 فٹ چوڑی تھی اور اس کے عمودی کنارے بائیں جانب 12 فٹ جبکہ دائیں جانب 8 فٹ اونچے تھے۔ دائیں کنارے پر دو فٹ نیچے پتھر تھا جہاں میں بیٹھا تھا۔ اس طرح تیندوا مجھ سے دو فٹ اونچا اور پندرہ فٹ دور تھا۔ جب رک کر تیندوے نے گردن موڑی اور اپنے پیچھے دیکھنے لگا تو مجھے رائفل اٹھانے کا موقع مل گیا۔ اس کے سینے کا اچھی طرح نشانہ لے کر جب میں نے گولی چلائی تو تیندوا اپنا سر میری جانب موڑ رہا تھا۔ کالے بارود کے دھوئیں سے میرے سامنے گہرا پردہ سا تن گیا تاہم مجھے اپنے اوپر سے جست لگا کر گذرتے تیندوے کی جھلک دکھائی دی۔ گذرتے وقت تیندوا خون کے چھینٹے ڈالتا گیا۔ رائفل اور اپنے نشانے پر مجھے پورا بھروسا تھا کہ تیندوا گولی کھاتے ہی اسی جگہ مر جائے گا اور اب یہ دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی کہ تیندوا محض زخمی ہوا ہے۔ خون کی مقدار سے پتہ چل رہا تھا کہ تیندوا شدید زخمی ہوا ہے لیکن نا تجربہ کاری کی وجہ سے یہ کہنا مشکل تھا کہ آیا یہ زخم مہلک ہے یا نہیں۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ اگر میں نے فوری پیچھا نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ تیندوا کہیں دور جا کر کسی غار یا کھائی میں چپ چاپ مر جائے گا اور میں اسے تلاش نہیں کر پاؤں گا۔ اس لیے میں نے رائفل کو دوبارہ بھرا اور خون کے نشانات پر پیچھا کرنے لگا۔
100 گز جتنا فاصلہ بالکل ہموار تھا اور چند ہی درخت یا جھاڑیاں تھیں۔ اگلے پچاس گز تک فاصلہ کافی ڈھلوان تھا اور پھر زمین ہموار ہو گئی۔ پہاڑ کے کنارے اس جگہ پر بہت سارے جھاڑیاں اور بڑے پتھر پڑے تھے جن میں سے کسی کے پیچھے بھی تیندوا چھپ سکتا تھا۔ ہر ممکن احتیاط اور خاموشی سے میں آگے بڑھتا گیا۔ ابھی نصف فاصلہ طے کیا ہو گا کہ بیس گز دور مجھے تیندوے کی دم اور پچھلی ٹانگ ایک پتھر کے پیچھے سے جھانکتی دکھائی دی۔ چونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ تیندوا زندہ ہے یا مر گیا ہے، اس لیے میں وہیں کھڑا ہو کر دیکھتا رہا حتیٰ کہ تیندوے نے حرکت کی اور اس کی ٹانگ پتھر کے پیچھے غائب ہو گئی۔ اب صرف دم دکھائی دے رہی تھی۔ تیندوا زندہ تھا اور اس پر گولی چلانے کے لیے مجھے دائیں یا بائیں چلنا تھا۔ چونکہ اس کے جسم پر گولی چلا کر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تھی اس لیے میں نے سوچا کہ اب کی بار اس کے سر کو نشانہ بناتا ہوں۔ انچ انچ کر کے میں بائیں جانب کھسکتا گیا حتیٰ کہ تیندوے کا سر سامنے آ گیا۔ پتھر سے کمر لگائے تیندوا لیٹا دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔ میں نے کوئی آواز تو نہیں پیدا کی تھی لیکن پھر بھی تیندوے کو میری موجودگی کا احساس ہو گیا۔ جب وہ اپنا سر میری جانب موڑ رہا تھا کہ میں نے گولی اس کے کان میں اتار دی۔ فاصلہ کم تھا اور میں نے عجلت نہیں کی تھی اس لیے تیندوا اب میرے سامنے مردہ پڑا تھا۔ بھاگ کر میں نے اس کو دم سے پکڑا اور اسے وہاں سے ہٹا دیا کہ وہاں خون جمع ہو رہا تھا۔
جب میں نے تیندوے کے پاس کھڑے ہو کر اسے دیکھا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ میرے کیا جذبات رہے ہوں گے۔ تیندوے کو اپنی طرف آتے دیکھنے سے لے کر جب میں نے تیندوے کو خون سے کھینچ کر ایک طرف کیا، میرے اعصاب مکمل طور پر میرے کنٹرول میں تھے۔ اب نہ صرف میرے ہاتھ بلکہ پورا جسم لرز رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر تیندوا میرے سامنے مخالف کنارے پر رکنے کی بجائے عین میرے سر پر آن رکتا تو کیا ہوتا۔ اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اتنا خوبصورت جانور میں نے شکار کیا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کو جان کر کہ اب جب میں گھر جا کر دوسروں کو اس کے بارے بتاؤں گا تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔ میں چاہتا تو خوشی سے چیختا، چلاتا، گاتا، ناچتا، لیکن میں اپنی جگہ خوشی کی شدت سے چپکا کھڑا رہا۔ میری خوشی اتنی شدید تھی کہ جب تک دوسروں کو نہ بتاتا، مجھے سکون نہ ملتا۔
مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازا نہیں تھا کہ تیندوا کتنا بھاری ہو گا لیکن میں ہر قیمت پر تیندوے اٹھا کر گھر لے جانا چاہتا تھا۔ رائفل کو نیچے رکھ کر میں نیچے کھائی میں اترا اور مختلف بیلوں اور درخت کی چھالوں کو جمع کر کے اوپر لایا اور پھر اس سے مضبوط رسی بنائی اور تیندوے کی اگلی اور پچھلی ٹانگیں ایک ساتھ باندھ دیں۔ پھر نیچے جھک کر میں نے رسی اپنے کندھوں پر جما کر اٹھنے کی کوشش کی تو ناکامی ہوئی۔ پھر میں نے تیندوے کو گھسیٹ کر چٹان پر رکھا اور پھر اٹھانے کی ناکام کوشش کی۔ جب مجھے اندازا ہوا کہ میں اکیلا تیندوا نہیں اٹھا سکوں گا تو میں نے مختلف شاخیں وغیرہ توڑ کر تیندوے کو ڈھانپا اور تین میل دور گھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔ گھر پہنچ کر میں نے جونہی یہ خوشخبری سنائی، ہر کوئی خوش دکھائی دیا۔ چند منٹ بعد ہی میری بہن میگی اور میں اپنے ساتھ دو ہٹے کٹے ملازموں کو لے کر واپس فارم یارڈ پہنچے تاکہ میرا پہلا تیندوا گھر لایا جا سکے۔
قسمت اناڑیوں کا ساتھ دیتی ہے ورنہ تیندوے سے یہ میری پہلی ملاقات میری زندگی کی آخری ملاقات ہو سکتی تھی۔ اپنے اوپر اور نزدیک موجود تیندوے پر میں نے یہ جانے بغیر گولی چلا دی تھی کہ کہاں گولی لگنے سے تیندوا فوری موت کا شکار ہو جاتا۔ اس وقت تک میرے شکار کردہ جانوروں کی کل تعداد ایک مزل لوڈر سے مارا گیا چیتل اور اعشاریہ 450 رائفل سے مارے گئے تین سور اور ایک کاکڑ تھے۔ چونکہ سور اور کاکڑ کو میں نے سینے میں ایک گولی سے مار لیا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ تیندوا بھی اسی طرح سینے میں گولی مارنے سے فوری مر جائے گا اور غلطی کر بیٹھا۔ اگرچہ بعد میں میں نے سیکھا کہ تیندوے کو ایک گولی سے فوری کیسے مارا جا سکتا ہے لیکن یہ کام سینے میں گولی مارنے سے شاید ہی ہو پائے۔
جب بھی تیندوے کو جسم پر ایسا زخم لگے کہ جس سے وہ نہ تو فوری طور پر مرے اور نہ ہی مفلوج ہو تو وہ اندھا دھند جست لگا کر بھاگتا ہے۔ تیندوے پر گولی چلائی جائے تو وہ کبھی بھی جان بوجھ کر حملہ نہیں کرتا تاہم اتفاقیہ طور پر شکاری راستے میں کھڑا ہو اور مزید یہ کہ تیندوے کو شکاری کے مقام کا بھی اندازا نہ ہو تو حادثات کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ گولی کھاتے ہی تیندوے جست لگا کر میری خوش قسمتی سے میرے پیچھے کنارے پر پہنچا کیونکہ اسے میرے مقام کا علم نہیں تھا اور اگر وہ میرے اوپر آن گرتا تو بھی میرے لیے شدید خطرہ ہوتا۔
سینے پر چلائی گئی گولی کتنی غیر یقینی ہوتی ہے، اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ میگی اور میں منگولیا کھٹہ نامی جگہ پر کیمپ لگائے ہوئے تھے۔ اس جگہ ہمارے گاؤں کے مویشی چرنے کو بھیجے جاتے تھے کہ کالا ڈھنگی کے جنگلات میں بعض اوقات چارہ ختم ہو جاتا تھا۔ ایک صبح ہم ناشتا کر رہے تھے کہ مجھے چیتل کے ایک غول کی آواز آئی۔ بظاہر ان کے سامنے تیندوا ان کے کسی ساتھی کو ہلاک کر رہا تھا۔ منگولیا کھٹہ آنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ایک تیندوا ہمارے مویشی ہلاک کر رہا تھا اور میں اسے ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ اب چونکہ شکار کا موقع ملا تو میں نے ناشتا ادھورا چھوڑا اور اعشاریہ 275 کی رائفل اٹھا کر روانہ ہو گیا۔
چیتل ہمارے کیمپ سے چار سو گز مغرب کی جانب تھے جب ان کی آواز آئی۔ میں نے چکر کاٹ کر اس جگہ کا رخ کیا تاکہ ایک تو ہوا کی سمت موافق ہو جائے اور دوسرا براہِ راست والے راستے میں بانسوں کا ایک جھنڈ اور دلدلی قطعہ بھی آتا تھا۔ جب میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ 50 کے قریب چیتل کھلے قطعے میں کھڑے بانسوں کے جھنڈ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دلدلی قطعے اور بانسوں کے جھنڈ کے درمیان میں دو سو گز چوڑی گھاس کی پٹی ہے۔ مجھ سے ساٹھ گز دور ایک تیندوا نر چیتل کو گھسیٹ رہا تھا۔ مزید آگے جاتا تو تیندوے یا چیتل مجھے دیکھ لیتے، اس لیے وہیں بیٹھ کر میں نے رائفل اٹھائی اور انتظار کرنے لگا کہ تیندوا کب گولی چلانے کا موقع دیتا ہے۔
نر کافی بڑا اور وزنی تھا اور تیندوے کو گھسیٹنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی۔ ایک بار جب اس نے چیتل کو چھوڑا اور میری جانب رخ کر کے کھڑا ہوا۔ ساٹھ گز کے فاصلے سے تیندوے کے سفید سینے پر بنے کالے دھبے گولی چلانے کے لیے بہترین مقام ہوتے ہیں۔ جب میں نے لبلبی دبائی تو مجھے معلوم تھا کہ گولی میری مطلوبہ جگہ پر لگی ہے۔ گولی لگتے ہی تیندوا ہوا میں اونچا اچھلا اور نیچے آتے ہی سیدھا گھاس میں گھس گیا۔ جہاں گولی لگتے وقت تیندوا کھڑا تھا، وہاں جا کر دیکھا تو وہاں سے خون کے نشانات گھاس تک جاتے دکھائی دیے۔ اس جگہ گھاس میری کمر تک اونچی تھی۔ پاس موجود درخت سے چند شاخیں توڑ کر میں نے چیتل کو ڈھانپا۔ یہ چیتل بہترین حالت میں خوب فربہ تھا اور ہمارے ملازمین اسے پا کر بہت خوش ہوتے۔ پھر کیمپ جا کر میں نے ناشتا کھایا اور پھر چار ساتھیوں کے ہمراہ تیندوے کو ہلاک کرنے لوٹا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں میں نے گولی چلائی تھی تو ایک ساتھی نے سامنے دائیں جانب اشارہ کیا۔ اس جگہ جلی ہوئی گھاس ختم ہوتی تھی اور گھاس کا قطعہ شروع ہو رہا تھا۔ اس جگہ تقریباً اڑھائی سو گز دور تیندوا کھڑا تھا۔
جب ہمارے مزارعین ہمارے ساتھ شکاری مہمات پر جاتے ہیں تو وہ کسی بھی قسم کا معاوضہ نہیں لیتے۔ تاہم جب ہم جنگل میں پہنچیں تو ہمارا مقابلہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے قابلِ شکار جانور کو کون دیکھتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے پہلے دیکھیں تو میں بطور جرمانہ انہیں ایک روپیہ ادا کرتا ہوں۔ ایک روپیہ میں نے دو بندوں میں تقسیم کیا کیونکہ دونوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایک ہی وقت میں تیندوا دیکھا تھا۔ پھر دیکھا تو تیندوا ہماری جانب آ رہا تھا تو ہم وہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔ ظاہر تھا کہ یہ زخمی تیندوے کا جوڑا ہو گا اور یہ دیکھنے آیا ہو گا کہ اس کے ساتھی نے کیا شکار کیا ہے۔ ہم سے سو گز کے فاصلے پر پہنچ کر تیندوا کئی منٹ کے لیے رک گیا۔ گولی چلانے کا موقع تو تھا لیکن پہلے ہی میں ایک تیندوے کو سینے میں گولی مار کر زخمی کئے بیٹھا تھا، اس لیے میں نے اتنی دور گولی چلانے کی بجائے صبر کیا۔
چیتل کی لاش پر پڑی شاخوں سے تیندوے کو کافی الجھن ہوئی اور اِدھر اُدھر دیکھ کر تیندوا لاش تک پہنچا۔ جب وہ میرے سامنے آڑا کھڑا تھا تو میں نے اس کے بائیں کندھے سے ایک یا دو انچ پیچھے گولی اتار دی۔ گولی کھاتے ہی تیندوا اسی جگہ گرا اور ہلے بغیر مر گیا۔ پاس جا کر تسلی کی اور پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بانس سے تیندوے کو باندھ کر کیمپ پہنچا کر پھر چیتل کو بھی لے جائیں۔ اب میں کمر تک اونچی گھاس میں زخمی تیندوے کا پیچھا کرنے کو تیار تھا۔ یہ ایسا کام ہے جو مجھے شدید ناپسند ہے۔
شکاریات کا اٹل قانون ہے کہ زخمی جانور کو ہر حال میں تلاش کر کے ہلاک کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ہر شکاری اس ناخوشگوار کام کو اپنی مرضی کے طریقے سے سرانجام دیتا ہے۔ جن شکاریوں کے پاس ہاتھی ہوں، ان کے لیے یہ کام بہت آسان ہے۔ لیکن میری طرح کے شکاری جو پیدل ہی زخمی درندے کی تکلیف ختم کرنا چاہتے ہوں، انہیں اپنے بچاؤ کے لیے بہترین طریقے سیکھنے پڑتے ہیں۔ زخمی جانور کے شکار کے لیے جنگل کو آگ لگانا انتہائی ظالمانہ اور بیکار فعل ہے کہ اگر جانور کم زخمی ہو تو جنگل چھوڑ کر دور نکل جائے اور اگر شدید زخمی ہو تو زندہ جل کر مر جائے گا۔ اونچی گھاس میں کسی زخمی جانور کا پیچھا اس کے خون کے نشانات سے کرنا خطرناک ہوتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں میرا طریقہ یہ ہے کہ میں زخمی جانور کے خون کے نشانات کو نظر انداز کر کے قدم بقدم احتیاط سے آگے بڑھتا ہوں اور دعا یہی ہوتی ہے کہ مشکل نہ ہو لیکن بری صورتحال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا ہوں۔ کسی قسم کی آواز سنتے ہی زخمی جانور یا تو حملہ کرے گا یا پھر اپنی جگہ سے حرکت کرے گا جس سے اس کے مقام کا اندازا ہو جائے گا۔ اگر زخمی جانور حملہ نہ کرے اور حرکت سے اس کے مقام کا پتہ چل جائے تو پتھر، لکڑی کا ٹکڑا یا ہیٹ پھینکتے ہیں اور اس پر حملہ کرتے درندے کو شکار کر لیتے ہیں۔ تاہم اس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ایک تو ہوا بالکل نہ ہو تاکہ گھاس کی سرسراہٹ نہ سنائی دے، دوسرا شکاری کو گھاس میں شکار کا کچھ نہ کچھ تجربہ ہونا چاہئے۔ اگرچہ زخمی جانور تنگ ہونے پر بہت شور کرتا ہے لیکن حملے کے دوران میں آخری وقت تک وہ زمین کے قریب ہی جھکا رہتا ہے۔
اس روز ہوا نہیں چل رہی تھی اس لیے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر میں خون کے نشانات پر چلتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں نشانات گھاس میں گم ہو رہے تھے۔ رائفل کا معائنہ کر کے کہ بھری ہوئی ہے اور درست کام کر رہی ہے، میں انتہائی احتیاط کے ساتھ گھاس میں داخل ہوا۔ جونہی میں گھاس تو پیچھے سے میرے ساتھیوں نے مجھے واپس آنے کا اشارہ دیا۔ واپس پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ تیندوے کو بانس پر باندھتے ہوئے انہیں گولیوں کے تین سوراخ دکھائی دیے۔ ایک گولی بائیں کندھے کے پیچھے لگی اور تیندوے کو ہلاک کر گئی جبکہ دوسرا سوراخ سینے کے وسط میں تھا جبکہ تیسرا سوراخ دم کی جڑ سے دو انچ کے فاصلے پر۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس تیندوے کے پاس اپنے شکار پر واپس آنا کی بڑی معقول وجہ تھی اور جب مجھے علم ہوا تو شدید پشیمان ہوا تھا۔ تیندوے کے بچے بہت چھوٹی عمر سے ہی پرندے، چوہے، مینڈک اور دیگر جانور شکار کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اس بہادر مادہ تیندوے کے زخمی ہونے کے بعد واپس لوٹنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسے بچوں کے لیے شکار چاہئے تھا۔ میں نے بچوں کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی لیکن نہیں ملے۔ میری دعا ہے کہ وہ اتنے بڑے ہوں کہ اپنا خیال رکھ سکتے ہوں۔
ابھی جیسا کہ میں نے بتایا کہ گھاس میں داخل ہوتے وقت میں نے اپنی تسلی کی تھی کہ رائفل بھری ہوئی ہے، شاید کئی شکاریوں کو حیران کن لگے کہ ابھی میں نے ایک تیندوے پر گولی چلا کر اسے ہلاک کیا اور اسے دیکھنے قریب پہنچا تو ظاہر ہے کہ خالی رائفل کے ساتھ تو نہیں گیا ہوں گا کیونکہ مجھے پوری طرح یقین نہیں تھا کہ آیا تیندوا زندہ ہے کہ مر چکا ہے۔ پھر میں نے تسلی کیوں کی کہ آیا رائفل بھری ہے کہ خالی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نہ صرف اس مرتبہ بلکہ ہر بار جب ایسا موقع آیا کہ میری زندگی کا انحصار رائفل کے بھرے ہونے پر تھا، میں یہ تسلی کر لیتا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں نے اپنا سبق کم عمری میں ہی سیکھ لیا تھا اور شاید اسی وجہ سے ہی ابھی تک زندہ ہوں۔
محکمہ گھاٹ، جس کے بارے میں "مائی انڈیا” میں لکھ چکا ہوں، پر کام شروع کرنے کے کچھ عرصے بعد میں نے اپنے دو دوستوں کو کالاڈھنگی شکار کی دعوت دی۔ آمد کے اگلے دن صبح میں انہیں باہر لے گیا۔ ایک کا نام سلور اور دوسرے کا نام میں تھا۔ ہلدوانی کی سڑک پر دو میل دور گئے تو تیندوے کے ہاتھوں چیتل مرنے کی آواز آئی۔ مجھے علم تھا کہ میرے ساتھ چھپ کر تیندوے پر گھات نہیں لگا سکتے اس لیے میں نے ان میں سے ایک کو درخت پر چڑھانے کا سوچا۔ سلور کے پاس اعشاریہ 500 کی دو نالی رائفل جبکہ میں کے پاس اعشاریہ 400 کی ایک نالی رائفل تھی جو کالے بارود سے چلتی تھی۔ یہ دونوں رائفلیں مستعار لی گئی تھیں۔ میرے پاس اعشاریہ 275 کی میگزین رائفل تھی۔ عمر میں سلور ذرا بڑا تھا اور بہتر ہتھیار اس کے پاس تھا تو میں نے قرعہ اندازی سے انکار کرتے ہوئے بخوشی سلور کو اجازت دے دی۔ پھر ہم چیتل کو تلاش کرنے نکلے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو نر چیتل ابھی تک تڑپ رہا تھا۔ سلور کے بیٹھنے کے لیے ایک درخت چن کر میں کو اس کی مدد کو چھوڑا اور میں تیندوے کو وہاں سے دور لے گیا۔ تیندوا کافی بھوکا تھا اور کافی کوشش کے بعد وہ شکار سے ہٹا۔ سلور پہلے کبھی درخت پر نہیں چڑھا تھا اس لیے زیادہ خوش نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اسے میں نے بتایا کہ تیندوا کافی بڑا نر ہے اور ہدایت کی کہ گولی چلاتے وقت ہر ممکن طور پر احتیاط کرے۔ اسے یہ بتا کر کہ تیندوا آتا ہی ہو گا، میں میں کے ساتھ چل دیا۔
سو گز دور ایک فائر ٹریک کا رخ کیا اور ابھی تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ دو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ واپس لوٹے تو تیندوا ایک جگہ گم ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ سلور کو یقین نہیں تھا کہ آیا تیندوا زخمی بھی ہوا ہے کہ نہیں۔ اس لیے ہم اس جگہ گئے جہاں گولی چلاتے وقت تیندوا کھڑا تھا۔ اس جگہ ہمیں خون کے نشانات دکھائی دیے۔ اپنے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا کہہ کر میں آگے بڑھا تاکہ اکیلا تیندوے کا سامنا کروں۔ یہ کوئی ایسی بہادری نہیں تھی کہ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ زخمی درندے کے شکار میں پوری توجہ تلاش پر مرکوز رکھنی ہوتی ہے اور اگر ساتھی بھی ہمراہ ہوں تو بھری ہوئی رائفلیں اور تنے ہوئے اعصاب اچھا نتیجہ نہیں نکالتے۔
ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سلور آن ملا تاکہ میرے ساتھ جا سکے۔ میں نے اسے نرمی سے روکا تو اس نے درخواست کی کہ اس کی بھاری رائفل لے لوں کیونکہ میرے پاس ہلکی رائفل تھی ورنہ اس کے دل میں ہمیشہ پھانس رہ جائے گی۔ اسے خوش کرنے کی نیت سے میں نے رائفل بدل لی۔ جب سلور واپس گیا تو میں آگے بڑھا۔ آگے بڑھنے سے قبل میں نے نال اتنی کھولی کہ اندر کارتوس دکھائی دیے۔
سو گز تک فاصلہ نسبتاً آسان تھا اور اس کے بعد خون کے نشانات گھنی جھاڑیوں میں گم ہو گئے۔ جب میں یہاں پہنچا تو مجھے تیندوے کی حرکت کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو میں سمجھا کہ تیندوا حملہ کرنے والا ہے لیکن پھر دوبارہ آواز نہ آئی۔ بیس گز اندر جا کر میں نے وہ جگہ دیکھی جہاں تیندوا لیٹا تھا اور یہاں سے جب اٹھا تو مجھے اس کی حرکت کی آواز سنائی تھی۔ اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت تھی اور ڈیڑھ سو گز آگے جا کر جب نسبتاً کھلی زمین آئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس جگہ میں نسبتاً تیزی سے آگے بڑھا۔ مزید سو گز دور جا کر ہلدو کے ایک بڑے درخت کے دائیں جانب سے تیندوے کی دم کا سرا دکھائی دیا۔ پیچھا ہوتے دیکھ کر اس نے سوچا کہ چھپ کر حملہ کرے گا۔
مجھے اندازا تھا کہ سامنے سے تیندوے کے حملے کا سامنا کرنا میرے لیے مفید رہے گا اس لیے میں درخت کے بائیں جانب کو بڑھا۔ جب سر دکھائی دیا تو وہ زمین پر میری سمت تھا اور تھوڑی آگے کو نکلے پنجوں پر ٹکی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور کانوں کے سرے اور مونچھیں لرز رہی تھیں۔ عام حالات میں جونہی میں سامنے آیا، تیندوا حملہ کر دیتا۔ چونکہ اس تیندوے نے حملہ نہیں کیا تھا اس لیے میں نے گولی نہیں چلائی۔ اگر چند فٹ سے اعشاریہ 500 بور کی بھاری گولی چلاتا تو اس کی کھوپڑی برباد ہو جاتی اور اگر جسم پر گولی چلاتا تو سلور کی ٹرافی خراب ہو جاتی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے تیندوے کی آنکھیں بند ہوئیں اور مر گیا۔ مزید اطمینان کے لیے میں کھانسا اور پھر تیندوے کی کھوپڑی پر ایک چھوٹا کنکر پھینکا۔
میرے بلانے پر سلور اور میں بھی پہنچ گئے۔ سلور کو رائفل واپس کرنے سے قبل میں نے رائفل کو کھول کر کارتوس نکالے تو میری دہشت کا اندازا کیجئے کہ دونوں کارتوس چلے ہوئے تھے۔ بہت سارے شکاری عین وقت پر خالی رائفل کی لبلبی دبا کر اپنی زندگی گنواتے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے میری پیش رفت سست تھی ورنہ میں بھی ایسے ہی شکاریوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا۔ اس دن میں نے اپنا سبق بغیر کسی نقصان کے پوری طرح سیکھ لیا۔ اب کسی بھی خطرناک جنگل یا جگہ پر جاتے ہوئے میں ہمیشہ رائفل کے بھرے ہونے کا اطمینان کر لیتا ہوں۔ اگر دو نالی رائفل ہو تو دونوں نالوں کی گولیوں کی جگہ بدل دیتا ہوں اور اگر ایک نالی رائفل ہو تو کارتوس نکال کر اور بولٹ کے کام کرنے کو اچھی طرح دیکھ کر نکلا ہوا کارتوس واپس چیمبر میں ڈال دیتا ہوں۔
٭٭٭
باب 10
کنور سنگھ کے بارے میں "مائی انڈیا” میں بتا چکا ہوں کہ کالاڈھنگی اور اس کے آس پاس کے جنگلوں میں شکار سے انتہائی حد تک گریز کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یہاں اتنی زیادہ بیلیں ہوتی ہیں کہ اگر فارسٹ گارڈ کا سامنا ہو تو فرار ہونا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے چوری شکار کھیلنے کا سارا شغل اس نے گروپو کے جنگل تک محدود کر رکھا تھا۔ اچھا شکاری اور اچھا نشانے باز ہونے کی وجہ سے میں اس کی عزت کرتا تھا لیکن اس میں عمدہ شکاری ہونے کی کمی تھی۔ اسے جنگل کے ہر قطعے، کھلے میدان اور ہر مقام کا بخوبی علم تھا کہ ہرن کہاں ملتے ہیں۔ اس لیے وہ بغیر کسی احتیاط یا خاموشی کے سیدھا آگے بڑھتا اور اگر ہرن اس کی آہٹ سن کر بھاگ جاتے تو کہتا کہ کوئی بات نہیں، ابھی اگلے میدان میں اور ہرن مل جائیں گے۔ اس کے باوجود میں نے کنور سنگھ سے بہت کچھ سیکھا اور ہمیشہ اس کا شکر گزار رہا ہوں۔ اسی نے میرے دل کی تہہ میں چھپے نامعلوم چیزوں سے متعلق بعض خوف نکالے ہیں۔ مجھے جنگل کی آگ سے ہمیشہ ہی ڈر لگتا تھا۔ اس کے بارے بہت کچھ سنا اور اس سے ہوئی تباہی جنگلوں میں بہت بار دیکھی تھی۔ ہمیشہ میرے ذہن میں اس کا خوف رہتا تھا کہ کسی دن میں اس آگ کی لپیٹ میں آ کر زندہ جل جاؤں گا۔ کنور سنگھ سے یہ خوف دور کیا۔
کماؤں کی وادی کے دیہاتی ہمیشہ اپنے ہمسائیوں کے بارے باخبر رہتے ہیں۔ چونکہ انہیں اخبار وغیرہ بھی نہیں ملتے، اس لیے ایک دوسرے کے بارے زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے اور بعینہٖ آگے منتقل کرنے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لیے ابھی میرا شکار کردہ تیندوا ٹھنڈا بھی نہیں پڑا تھا کہ کنور سنگھ کو اطلاع مل گئی اور اچھا شکاری ہونے کے ناطے مبارکباد دینے فوراً آن پہنچا۔ اسے سارجنٹ میجر کی دی ہوئی رائفل کا تو علم تھا لیکن شاید اسے میرے رائفل چلانے پر اعتبار نہیں تھا۔ اب تیندوے کی لاش کو سامنے دیکھ کر اس کے سارے شکوک ختم ہو گئے اور اس نے پوری توجہ سے میری بات سنی اور رائفل کا بغور جائزہ لیا اور جانے سے قبل وعدہ لیتا گیا کہ اگلے دن صبح کو پانچ بجے ہم گروپو کی سڑک کے پانچویں سنگ میل پر ملیں گے۔
ابھی اندھیرا گہرا تھا جب میگی نے مجھے چائے بنا کر دی۔ چائے پی کر چار بجے میں گھر سے نکلا۔ چونکہ اس سڑک پر میں بے شمار مرتبہ سفر کر چکا تھا اس لیے مجھے کوئی ڈر نہیں تھا۔ جب میں منزل پر پہنچا تو وہاں کنور سنگھ مجھ سے پہلے پہنچ کر آگ جلائے بیٹھا تھا۔ جب میں ہاتھ تاپنے بیٹھا تو اس نے کہا کہ "دیکھو، کتنی جلدی میں آئے ہو کہ پائجامہ پہننا بھی بھول گئے”۔ اسے یہ بات سمجھنا دشوار ہو گئی کہ میں پائجامہ بھولا نہیں بلکہ پہلی بار میں نے نیکر پہنی تھی۔ اگرچہ اس نے منہ سے اتنا کہا کہ جانگیہ جنگل کے لیے مناسب نہیں لیکن اس کی نظروں سے واضح تھا کہ یہ لباس مناسب نہیں اور اگر کسی نے مجھے اس کے ساتھ دیکھ لیا تو اس کی بہت بے عزتی ہو گی۔ اس بدمزگی کے بعد ساتھ والے درخت سے ایک جنگلی مرغ بولا تو کنور سنگھ اٹھا اور آگ بجھانے کے بعد ہم چل پڑے۔
جب ہم روانہ ہوئے تو جنگل بیدار ہونے لگ گیا تھا۔ پہلے مرغ نے ہمارے پاس کے درخت سے جو آواز لگائی تو آوازوں کا تسلسل اب پورے جنگل میں پھیل گیا تھا۔ چھوٹا بڑا ہر قسم کا پرندہ نیند سے بیدار ہو کر حمد و ثناء میں مصروف تھا۔ اگرچہ جنگلی مرغ سب سے پہلے بیدار ہوتا ہے لیکن نیچے اترنے اور اولین کیڑے پکڑنے کا کام سب سے پہلے ایک اور پرندہ کرتا ہے جسے انگریزی میں Himalayan whistling-thrush یا whistling-schoolboy کہا جاتا ہے۔ دن ہو یا رات، یہ پرندے اڑتے ہوئے خوبصورت دھنیں گاتا جاتا ہے جسے سننے کے بعد بھولنا ممکن نہیں۔ اس کے بعد Racket-tailed drongo اور پھر مور کی باری آتی ہے۔ مور کی چبھتی ہوئی آواز کے بعد کسی جاندار کے لیے سونا ممکن نہیں اور پورے جنگل میں پھر مختلف اقسام کے پرندوں کی آواز بھر جاتی ہے۔
پرندوں کے علاوہ جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے چیتل کا ایک چھوٹا غول سڑک کو پار کر گیا اور پھر تھوڑا آگے ایک مادہ سانبھر اپنے بچے کے ساتھ چر رہی تھی۔ اب مشرق سے شیر کے بولنے کی آواز آئی اور جس جس مور کو بھی یہ آواز سنائی دی، اس نے شور مچانا شروع کر دیا۔ کنور سنگھ کا خیال تھا کہ شیر ہم سے چار گولیوں کے فاصلے پر ریتلے نالے میں ہے جہاں ہار سنگھ کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا اور وہ مرتے مرتے بچا تھا۔ شیر شاید پیٹ بھرنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا اور اسے اس بات کی پروا نہیں تھی کہ جنگلی جانور اسے دیکھ یا سن کر بھاگ جائیں گے۔ پہلے کاکڑ، پھر دو سانبھر اور پھر چیتلوں کے غول کی آوازیں آئیں جو جنگل کے جانوروں کو شیر کی آمد کے بارے بتا رہے تھے۔ جب ہم گروپو پہنچے تو سورج اب درختوں کی چوٹیوں تک بلند ہو گیا تھا۔ چوبی پُل عبور کر تے ہوئے پچاس سے زیادہ جنگلی مرغیاں ہمیں دیکھ کر اڑ گئیں۔ پھر ہم نے وہ پگڈنڈی پکڑی جو ریتلے نالے سے ہو کر گذرتی تھی۔ یہ نالہ اسی پل کے نیچے سے گذرتا ہے جو ہم نے ابھی عبور کیا تھا۔ یہ نالہ برسات میں ہی بھرتا ہے اور جنگل کے سارے جانور اسی نالے میں تین میل دور نکلنے والے شفاف پانی کے چشمے سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ بعد ازاں رائفل اور کیمرے، دونوں کے استعمال کے وقت یہ نالہ میری پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ایک بن گیا۔ نالہ جس جنگل سے گذرتا تھا، وہاں جنگلی جانور بے شمار تھے اورانسانی مداخلت نہ ہونے کے برابر۔
نصف میل تک نالہ گھنی جھاڑیوں سے گذرتا ہوا پھر ایک قسم کی گھاس سے گذرتا ہے۔ اس گھاس کو نال کہتے ہیں اور یہ گھاس چوتھائی میل چوڑائی اور کئی میل لمبائی میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ گھاس کھوکھلے تنے والی ہوتی ہے اور بانس کی طرح گرہیں پڑی ہوتی ہیں۔ اس کی اونچائی 14 فٹ تک ہوتی ہے اور دیہاتوں میں اس کی مدد سے جھونپڑے بنائے جاتے ہیں۔ جب بھی گروپو کے گرد و نواح میں مویشیوں کے چارے کے لیے جنگل کو آگ لگائی جاتی ہے تو سارے جانور اسی گھاس کے قطعے میں پناہ لیتے ہیں۔ چونکہ یہ گھاس نمدار جگہ پر اگتی ہے اس لیے سارا سال ہی سبز رہتی ہے اور اسے آگ نہیں لگتی۔ تاہم انتہائی خشک سالی کے دوران یہ گھاس بھی سوکھ جاتی ہے اور جب اسے آگ لگے تو یہ آگ بہت پھیل جاتی ہے۔ اس گھاس میں بیلیں بکثرت ہوتی ہیں اور جب اس کے جوڑ آگ سے پھٹتے ہیں تو ایسی آواز نکلتی ہے جیسے کسی نے پستول چلایا ہو۔ اندازا کیجئے کہ جب لاکھوں کی تعداد میں ایسے جوڑ پھٹنے لگیں تو میل بھر سے ہی شور سنائی دے جاتا ہے۔
جب کنور سنگھ اور میں نالے میں اترے تو دور سے اٹھتے دھوئیں کے کالے بادل آسمان کو جاتے دکھائی دیے اور دور سے آگ سے گھاس چٹخنے کی آوازیں بھی آنے لگ گئیں۔ نالے کا رخ جنوب کی طرف تھا اور آگ اس کے مشرقی یا بائیں کنارے پر لگی تھی جسے تیز ہوا پھیلا رہی تھی۔ میرے آگے چلتے کنور سنگھ نے سر موڑ کر صرف اتنا کہا کہ "دس سال بعد نال گھاس کو آگ لگی ہے” اور چلتا گیا۔ ایک موڑ مڑتے ہی ہمارے سامنے آگ دکھائی دی جو نالے سے 100 گز دور رہی ہو گی۔ بڑے بڑے شعلے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی شکل اختیار کر رہے تھے اور اس کے سرے پر سینکڑوں پرندے جمع تھے جو آگ سے بچ نکلنے والے کیڑے مکوڑے اور پتنگوں کو کھا رہے تھے۔ یہ پتنگے اور کیڑے مکوڑے گرم ہوا میں پھنس کر بلند ہو رہے تھے۔ جو پتنگے بچ کر نالے کی تہہ میں اترتے، انہیں کھانے کے لیے مور، جنگلی مرغ اور کالے تیتر جمع تھے۔ اس کے علاوہ 20 چیتل بھی سیمل کے درخت کے سرخ سرخ پھول کھانے کو جمع تھے۔
اس جگہ میں نے پہلی بار جنگل کی آگ دیکھی تھی اور میرے خوف کی وجہ یہی ہے کہ انسان عموماً نامعلوم سے ڈرتا ہے۔ موڑ مڑنے کے بعد جب ہم سیدھا آگ کے سامنے پہنچے تو دیکھا کہ بہت بڑی تعداد میں پرندے آگ کے پاس سے ہی پتنگوں کو پکڑ پکڑ کر کھا رہے تھے۔ اس سے مجھے اندازا ہوا کہ صرف میں ہی اس آگ سے ڈرتا ہوں اور وہ بھی بغیر کسی وجہ کے۔ نالے کے ساتھ چل کر یہاں آنے تک میں نے بہت بار واپس مڑ کر بھاگنے کا سوچا تھا لیکن ہر بار یہ سوچ کر رک جاتا کہ کنور سنگھ مجھے بزدل سمجھے گا۔ پچاس گز چوڑے نالے کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر جب ہم نال گھاس سے نکلنے والے کسی جانور کا انتظار کرنے رکے تو سامنے آگ کی چادر بڑھتی ہوئی نظر آئی اور دھوئیں کے بادل سر پر چھا رہے تھے۔ اس جگہ رکنے کے بعد میرا ڈر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ آگ کے قریب آنے پر تپش کی وجہ سے سارے جانور اور پرندے دوسرے کنارے پر چڑھ کر جنگل میں گم ہو گئے اور ہم نے بھی گروپو کی راہ لی۔ بعد کے برسوں میں گھاس کو لگنے والی آگ سے مجھے بہت اچھے شکاری تجربات حاصل ہوئے۔ تاہم ایک واقعہ کا ذکر کرنے سے قبل بتاتا چلوں کہ ہم میں سے وہ افراد جو ہمالیہ کے دامن میں زمین کاشت کرتے ہیں، کو حکومت کی طرف سے اجازت ہے کہ غیر محفوظ جنگلوں میں موجود گھاس کو آگ لگا سکتے ہیں تاکہ ہمارے مویشیوں کے لیے چارہ میسر ہو سکے۔ ان جنگلات میں گھاس کی بہت ساری اقسام پائی جاتی ہیں اور چونکہ ہر قسم کی گھاس الگ وقت پر خشک ہوتی ہے، اس لیے آگ لگانے کا عمل فروری سے جون تک چلتا رہتا ہے۔ اس دوران میں جب بھی کوئی بندہ کسی گھاس کے خشک قطعے سے گذرے تو اسے آگ لگاتا جاتا ہے۔
ترائی میں بندوکھیڑا کے مقام پر میں ونڈہم کے ساتھ کالے تیتر کے شکار پر نکلا ہوا تھا اور ایک صبح میرا دوست بہادر اور میں 25 میل کے گھر کے سفر پر کالاڈھنگی روانہ ہوئے۔ بہادر 30 سال سے اپنے گاؤں کے پٹیل کی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ ابھی ہم دس میل ہی چلے ہوں گے کہ ہمارے سامنے جلی ہوئی گھاس کا قطعہ آیا جس میں جگہ جگہ گھاس ابھی سبز تھی۔
ایک قطعے کے پاس سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ ایک جانور نکل کر ہماری پگڈنڈی پر آڑا آن کھڑا ہوا۔ سورج اس کے مخالف سمت سے چمک رہا تھا اور اس کے رنگ اور حجم سے میں نے اندازا لگایا کہ یہ شیر ہے۔ تاہم جب یہ جانور پگڈنڈی عبور کر کے دوسری جانب کی گھاس میں داخل ہوا تو اس کی دم کی لمبائی سے مجھے پتہ چلا کہ یہ تیندوا ہے۔ تیندوے کو دیکھتے ہی بہادر بولا "افسوس کی بات ہے کہ کمشنر صاحب اور ان کے ہاتھی دس میل دور ہیں۔ یہ تیندوا ترائی کا سب سے بڑا تیندوا ہے اور اس کا شکار ہونا چاہیے”۔ تیندوے کے حجم کے بارے کوئی شک نہیں تھا اور اگرچہ ونڈہم اور ہاتھی دس میل دور تھے، پھر بھی میں نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا کہ تیندوا ایک مویشی خانے کی سمت سے آ رہا تھا اور دن دیہاڑے اس کا اس طرح حرکت کرنا صاف بتا رہا تھا کہ اس نے رات مویشی خانے سے شکار کیا ہو گا۔ میں نے بہادر کو بتایا کہ میں آگ لگا کر اس تیندوے کو گھاس سے نکالتا ہوں تو اس نے میری مدد کی حامی تو بھری لیکن منصوبے کی کامیابی کے بارے کافی مشکوک لگ رہا تھا۔ پہلا کام تو یہ کرنا تھا کہ گھاس کے قطعے کی وسعت کا اندازا لگایا جائے۔ اس لیے ہم پگڈنڈی سے اتر کر اس کے گرد چکر لگایا تو پتہ چلا کہ دس ایکڑ چوڑا قطعہ ہے اور کون نما شکل میں ہے۔ پگڈنڈی اس کے نچلے سرے سے گذرتی تھی۔
ہوا موافق تھی اور 200 گز دور دوسرے سرے پر جا کر میں نے گھاس کے دو مٹھے توڑے اور انہیں آگ لگا کر بہادر کو دائیں جانب بھیجا جبکہ خود بائیں جانب آگ لگاتا چلا۔ یہ گھاس ایلیفنٹ گھاس کے نام سے موسوم ہے اور اس کی اونچائی بارہ فٹ اور انتہائی خشک تھی۔ شعلہ دکھاتے ہی اس نے آگ پکڑی اور دھڑادھڑ جلنے لگ گئی۔ دوڑتے ہوئے پگڈنڈی پر پہنچ کر میں اپنی اعشاریہ 275 بور کی رگبی رائفل کے ساتھ نیچے لیٹ گیا اور رائفل کو شانے سے لگا کر راستے کے دوسرے سرے کا نشانہ لے لیا۔ جونہی تیندوا پگڈنڈی عبور کرتا، میں گولی چلا دیتا۔ میں گھاس سے دس گز دور لیٹا تھا اور جہاں تیندوا گھاس میں گھسا تھا، وہ یہاں سے 50 گز دور تھی۔ اس جگہ راستہ 10 فٹ چوڑا تھا اور میری کامیابی اسی میں ہوتی کہ تیندوے کو دیکھتے ہی گولی چلا دیتا۔ مجھے یقین تھا کہ تیندوا راستے کو آخری وقت پر اور انتہائی تیزی سے عبور کرے گا۔ بہادر میرے نشانے کی سیدھ سے بہت دور اور ایک اونچے درخت پر چڑھا ہوا تھا، اس لیے گولی سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا
گھاس آدھی جل چکی تھی اور اب اس کے شور سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے ایکسپریس ٹرین کسی پُل سے گزر رہی ہو کہ میرے پاس ایک انسانی پیر دکھائی دیا۔ سر اٹھا کر دیکھا تو حلیے سے پتہ چلا کہ ایک مسلمان گاڑی بان شاید اپنے گمشدہ بیل کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔ فوراً اس کو نیچے لٹا کر میں نے اس کے کان میں کہا کہ آرام سے لیٹے رہو، اور اپنی ٹانگ اس کے اوپر رکھ دی تاکہ وہ اٹھ نہ سکے۔ آگ بڑھتے بڑھتے ہم سے محض 25 گز تک آن پہنچی کہ اچانک تیندوے نے جست لگا کر راستہ عبور کیا۔ اس کی جھلک دیکھتے ہی میں نے گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی تیندوے کی دم اوپر کو اٹھی۔ بائیں جانب کے قطعے کو کچھ دن قبل آگ لگائی گئی تھی اور ادھ جلے گھاس کے ٹانڈوں کی وجہ سے پتہ نہ چلا کہ میری گولی کا کیا اثر ہوا ہے۔ تاہم تیندوے کی دم جس طرح اوپر اٹھی، اس سے مجھے یقین تھا کہ تیندوے کو مہلک زخم پہنچا ہے۔ فوراً ہی اٹھتے ہوئے میں نے اپنے ساتھی کو بھی اٹھایا اور اس کا ہاتھ پکڑے سیدھا راستے پر بھاگا۔ آگ کے شعلے اب ہمارے سروں کے اوپر سے گزر رہے تھے اور جب ہم بالکل قریب پہنچے تو تیندوا دکھائی دیا۔ شدید تپش کی وجہ سے تاخیر ممکن نہ تھی اور اپنے ساتھی کا ہاتھ تیندوے کی دم پر رکھ کر اسے پکڑا اور تیندوے کو گھسیٹا تو اندازا کیجئے کہ تیندوے نے منہ کھول کر غرانا شروع کر دیا۔ خوش قسمتی سے گولی کی وجہ سے اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی اور فوری خطرہ نہیں تھا۔ جب ہم آگ سے 50 گز دور پہنچے تو تیندوا مر چکا تھا۔ جونہی میں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ چھوڑا تو اس نے ایسے دوڑ لگائی جیسے میں نے اسے کاٹ کھایا ہو۔ کھلی ہوئی پگڑی اس کے پیچھے زمین سے رگڑتی جا رہی تھی۔
افسوس کہ میں وہاں نہیں پہنچ سکا جہاں یہ بندہ بھاگ کر پہنچا ہو گا، کیونکہ ہندوستانی لوگ بہت اچھے داستان گو ہوتے ہیں اور اس نے تو خوب مرچ مسالا لگا کر بتایا ہو گا کہ کیسے وہ ایک پاگل انگریز کے ہاتھ سے بچ کر نکلا ہے۔ بہادر نے یہ سب اپنے درخت سے دیکھا اور جب وہ میرے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ "یہ بندہ اب کئی سال تک مشہور داستان گو رہے گا، اگرچہ لوگ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے”
جب کسی خطرناک درندے کے شکار پر پیدل جانا ممکن نہ ہو تو عام طور پر ہاتھیوں، انسانوں یا ان دونوں کی مدد سے ہانکا کرا کے درندے کا شکار کیا جاتا ہے۔ میری یادداشت میں تین ایسے ہانکے ہیں جن میں سے دو کے لیے انتہائی کم افراد تھے جبکہ تیسرے کے بارے سوچنے پر ہر بار میرا دل رُک سا جاتا ہے۔
پہلا ہانکا
روبن ہمارے کتے کا نام تھا اور ایک بار جب اس کے ساتھ میں صبح کی سیر کو نکلا تو میرا رخ آدھا میل دور دریائے بور پر بنے پل والے فائر ٹریک کی جانب تھا۔ حسبِ معمول روبن آگے اور میں پیچھے تھا۔ جب راستے پر ایک جگہ چھدری گھاس آئی تو روبن رکا اور گھاس سونگھ کر اس نے میری جانب دیکھا۔ میں آگے بڑھا تو پگ دکھائی نہ دیے، اس لیے میں نے اسے تعاقب جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ فوراً ہی وہ بائیں جانب مڑا اور کنارے پر موجود گھاس کے ایک پتے کو بغور سونگھا اور پھر میری طرف مڑ کر اشارہ کیا کہ اسے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ پھر وہ اسی جانب کی گھاس میں داخل ہو گیا جو ڈیڑھ فٹ اونچی تھی۔ سو گز تک محتاط انداز میں چلتے ہوئے ہم ایک چھوٹے سے گڑھے تک پہنچے جہاں کی نرم مٹی پر شیر کے پگ دکھائی دیے۔ گڑھے کے دوسرے سرے پر روبن نے گھاس کے ایک پتے کو بغور سونگھا۔ میں آگے بڑھا تو خون کا ایک دھبہ دکھائی دیا۔ جنگل میں دوسروں کے زخمی کیے درندوں سے میں بہت محتاط رہتا ہوں اور شیر کے پگ کے ساتھ جب خون دکھائی دے تو فطری طور پر مزید محتاط ہو جاتا ہوں۔ تاہم خون کا یہ نشان بالکل تازہ تھا اور صبح سے اس علاقے میں کوئی فائر نہیں ہوا تھا۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ شیر نے چیتل یا شاید ایک بڑا سور مارا ہے اور اسے لے کر جا رہا تھا۔ چند گز آگے چل کر 50 مربع گز پر پھیلی ہوئی ایک گھنی جھاڑی کے پاس جا کر روبن رک کر میری جانب دیکھنے لگ گیا۔
پگوں کے مشاہدے سے مجھے پتہ چل چکا تھا کہ یہ وہی بڑا شیر ہے جس نے دریائے بور کے دوسرے کنارے پر گھنے جنگل میں رہائش رکھی ہوئی ہے اور تین ماہ سے، جب سے ہم پہاڑ سے نیچے اترے تھے، یہ شیر میرے لیے سر درد بنا ہوا تھا۔ دو سڑکوں اور ایک فائر ٹریک جہاں میں اور میگی صبح اور شام کی سیر کے لیے گھنے جنگل سے گذرتے تھے اور کئی بار جب میں گھر نہیں تھا تو میگی اور روبن کی سیر کے دوران میں اس شیر نے ان کا راستہ روکا تھا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میگی اور روبن کے لیے یہ راستے محفوظ نہیں رہے تھے اور پل عبور کرنے کے بعد روبن اکیلے میگی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتا تھا۔ کسی ناگہانی حادثے سے بچنے کے لیے میں نے پہلا موقع ملتے ہی اس شیر کو مار دینے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اب اگر شیر اس جھاڑی میں اپنے شکار کے ساتھ لیٹا ہوتا تو میرے لیے یہ عمدہ موقع تھا۔ چونکہ ہم نے ہوا کے رخ پر شیر کا پیچھا کیا تھا، اس لیے لمبا چکر کاٹ کر ہم دوسری جانب جا پہنچے اور روبن نے سونگھ کر تسلی کی کہ شیر اسی جھاڑی میں موجود ہے۔ پھر ہم فائر ٹریک کے راستے گھر کو روانہ ہو گئے۔ ناشتے کے بعد میں نے بہادر کو بلایا اور اسے شیر کے بارے بتاتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ دھنبن اور دھرمانند کو لے آئے۔ دونوں افراد میری ہدایات پر من و عن عمل کرتے اور ہم چاروں افراد درختوں پر چڑھنے کے ماہر تھے۔ دوپہر کو تینوں افراد کھانا کھا کر ہمارے گھر پہنچ گئے۔ ان کی جیبوں سے آواز پیدا کرنے والی تمام چیزیں نکال کر میں نے ان کے جوتے اتروائے اور اعشاریہ 450/400 بور کی رائفل کے ساتھ چل پڑے۔ راستے میں میں نے ساتھیوں کو منصوبہ بتایا کہ ہانکا کیسے کرنا ہے۔ ہم سب اس جنگل سے بخوبی واقف تھے اور میں نے انہیں بتایا کہ شیر کس جگہ موجود ہے اور ہانکا کس طرح کرنا ہے تو ان کا جوش دیدنی تھا۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ یہ تین افراد تین جانب سے جھاڑی کے کنارے درختوں پر چڑھ کر شیر کو نکالتے اور میں چوتھی جانب شیر کا منتظر ہوتا۔ بہادر درمیان میں ہوتا اور تیندوے کی آواز کا میرا اشارہ پاتے ہی بہادر درخت کی شاخ پر لکڑی مارتا۔ اگر شیر کسی جانب سے نکلنے کی کوشش کرتا تو اس جانب والا بندہ تالی بجا کر شیر کا رخ موڑ دیتا۔ اس سارے منصوبے کی کامیابی کا راز خاموشی میں مضمر تھا کہ درخت کو جاتے، درخت پر چڑھتے یا میرے اشارے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے اگر ذرا سی بھی آواز پیدا ہوتی تو شیر فرار ہو جاتا کہ ہمارا فاصلہ شیر سے 30 سے 40 گز تھا۔
جہاں روبن نے شیر کی بو سونگھی تھی، اس جگہ پہنچ کر میں نے بہادر کو ساتھ لیا اور باقی دو ساتھی وہیں بٹھا دیے۔ جھاڑی سے بیس گز دور میں نے بہادر کو ایک درخت پر چڑھا دیا۔ پھر باری باری باقی دونوں افراد کو مطلوبہ درختوں پر چڑھا دیا۔ تینوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور گھاس کے اندر بھی۔ تاہم میں بہادر کے عین مخالف سمت جا کر بیٹھتا اور یہ تینوں افراد درختوں کی وجہ سے میری نظر سے اوجھل ہوتے۔ ساتھیوں کو بٹھا کر واپس اسی جگہ لوٹ کر میں نے فائر ٹریک پکڑا اور سو گز دور پہنچا جہاں ایک اور فائر ٹریک گذرتا تھا۔ یہ راستہ جھاڑی کی چوتھی جانب تھا۔ بہادر کے درخت کے مخالف سمت ایک کھائی پہاڑی کے پہلو کی جانب جاتی تھی اور اس میں جانوروں کی عام گذر گاہ تھی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ شیر مداخلت کی بو سونگھتے ہی اسی کھائی کے راستے فرار ہو گا۔ کھائی کے دائیں جانب دس گز دور جامن کا ایک بڑا درخت تھا۔ ہانکے کا منصوبہ بناتے وقت میرا خیال تھا کہ میں اسی درخت پر بیٹھوں گا اور جونہی شیر نیچے کھائی سے گذرے گا تو اسے شکار کر لوں گا۔ تاہم پاس پہنچا تو دیکھا کہ بھاری رائفل کے ساتھ اس درخت پر چڑھنا ممکن نہیں تھا۔ چونکہ آس پاس کوئی اور درخت نہیں تھا، اس لیے میں نے زمین پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ درخت کے نیچے خشک پتے ہٹا کر تنے سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔
تیندوے کی آواز والے اشارے کے دو فائدے تھے۔ پہلا یہ کہ بہادر اس اشارے کو سمجھ کر درخت پر لکڑی مار کر آواز پیدا کرتا اور دوسرا یہ کہ شیر کو احساس ہوتا کہ اس طرف جانا محفوظ ہے۔ اسے یہ احساس نہ ہوتا کہ اسے خطرناک جگہ بھیجا جا رہا ہے۔ آرام سے بیٹھ کر میں نے رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹایا اور رائفل شانے سے لگا کر میں نے تیندوے کی آواز نکالی۔ چند لمحے بعد بہادر نے درخت پر لکڑی مار کر آواز پیدا کرنا شروع کی۔ چند ہی سیکنڈ بعد فائر ٹریک کے کنارے کی جھاڑیوں سے شیر نکلا اور وہیں رک گیا۔ دس سال سے میں شیر کی اس حالت میں وڈیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور ہر بار ناکام رہا۔ اب یہ شیر میرے سامنے عین اسی پوز میں کھڑا تھا۔ مجھ سے بیس گز دور بالکل سامنے شیر کھڑا تھا اور سورج کی روشنی میں اس کی سرمائی کھال چمک رہی تھی۔ اس شیر کی تصویر کی خاطر میں دنیا کے کسی بھی کنارے جانے اور کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار تھا۔ بہت بار میں نے کسی درندے کا پیچھا کر کے اس کے پاس پہنچ کر احتیاط سے نشانہ لے کر رائفل جھکائی اور پھر ہیٹ لہرا کر اس جانور کو اپنی موجودگی سے آگاہ کیا۔ جب وہ زندہ سلامت بھاگ جاتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ اس شیر کے ساتھ بھی ایسا کر کے مجھے بہت خوشی ہوتی لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ محض میگی ہی نہیں بلکہ شیر سنگھ اور دیگر لڑکے بالے اور عورتیں جنگل سے لکڑیاں جمع کرنے جاتی تھیں۔ اگرچہ اس شیر نے ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا لیکن اس کا رویہ بہت خوفناک تھا اور عین ممکن تھا کہ کسی دن کوئی حادثہ ہو جاتا۔
فائر ٹریک پر پہنچ کر شیر ایک یا دو منٹ رک کر اپنے دائیں، بائیں اور بہادر کی سمت دیکھتا رہا اور پھر آرام سے فائر ٹریک عبور کر کے کھائی کی بائیں جانب پہاڑی کے اوپر چڑھنے لگا۔ جونہی شیر جھاڑیوں سے نکلا، میں نے اس کا نشانہ لے لیا تھا اور جب وہ میری سیدھ پر پہنچا تو میں نے گولی چلا دی۔ گولی لگتے ہی اس کی ٹانگیں مڑیں اور شیر پھسلتا ہوا سیدھا میرے قدموں میں آن رکا۔ مرنے سے قبل اس نے شاید اس گولی کی آواز تک نہ سنی ہو گی۔
دوسرا ہانکا
جب مہاراجہ جند کا انتقال ہوا تو ان کی عمر کافی ہو چکی تھی۔ ان کے انتقال سے ہندوستان کے ایک بہترین شکاری کا دور ختم ہوا۔ ان کی سلطنت کل 1299 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی اور آبادی 3٫24٫700 پر مشتمل تھی۔ ان سے ملاقات میری خوش قسمتی تھی۔ ان کے مشاغل میں شکاری کتوں کو تربیت دینا اور شیروں کا شکار کرنا شامل تھے اور ان دونوں میں ان کا ثانی دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ جب پہلی بار ملاقات ہوئی تو ان کے پاس 400 کتے تھے اور کتوں کو تربیت دیے ئ اور پھر شکار کے دوران میں عملی تربیت صبر اور نرمی کا عمدہ نمونہ تھی۔ صرف ایک بار میں نے انہیں چلاتے یا چابک استعمال کرتے دیکھا۔ اس رات مہارانی نے کھانے کے دوران میں پوچھا کہ کتوں کی تربیت کیسی رہی تو مہاراجہ نے بتایا کہ سینڈی بہت بدتمیز ہے اور اسی وجہ سے اس نے خوب مار کھائی ہے۔
"خوب مار” کی وضاحت کرتا چلوں۔ مہاراجہ اور میں اس روز پرندوں کے شکار پر نکلے ہوئے تھے۔ جنگل اور گھاس کی لمبی پٹی کا ہانکا کیا جا رہا تھا اور ہانکے میں آدمی اور ہاتھی، دونوں شامل تھے۔ دوسرے سرے پر 50 گز چوڑا ایک کھلا قطعہ تھا جہاں مہاراجہ اور میں ایک دوسرے سے چند گز دور کھڑے تھے۔ مہاراجہ کے بائیں جانب قطار میں تین لیبریڈور نسل کے کتے تھے۔ سینڈی سنہرا جبکہ دیگر دو کالے تھے۔ ایک کالا تیتر اڑا تو مہاراجہ نے اسے شکار کر کے ایک کالے کتے کو بھیجا تاکہ وہ تیتر اٹھا لائے۔ پھر ایک جنگلی مرغ نکلا جسے میں نے شکار کیا تو مہاراجہ نے دوسرے کالے کتے کو اسے اٹھانے بھیجا۔ کئی مور بھی اڑے لیکن سامنے فائر ہوتے دیکھ کر وہ مڑ کر اونچے ہو گئے۔ اچانک ہمارے سامنے ایک خرگوش نکلا اور مہاراجہ کی طرف دوڑا۔ مہاراجہ اس وقت مڑ کر اپنے ملازم سے کوئی بات کر رہے تھے۔ پھر خرگوش نے رخ بدلا اور میرے سامنے سے گذرا۔ جب وہ مجھ سے کافی دور ہوا تو میں نے اس پر گولی چلائی اور خرگوش مڑ کر دوڑا اور مہاراجہ سے تیس گز دور پہنچ کر گر گیا۔ جونہی خرگوش گرا تو سینڈی اس کے پیچھے لپکا۔ مہاراجہ چلائے "سینڈی۔ سینڈی” لیکن سینڈی نے سنی ان سنی کر دی۔ دوسرے دونوں کتے اپنا اپنا شکار لا چکے تھے اور اب اس کی باری تھی اور اسے کون روک سکتا تھا۔ اس نے خرگوش اٹھایا اور میرے پاس لا کر رکھ دیا۔ جب سینڈی اپنی جگہ واپس جا کر بیٹھ گیا تو مہاراجہ نے اسے خرگوش لانے کا حکم دیا۔ جب سینڈی نے خرگوش کو اٹھایا تو مہاراجہ نے ہاتھ ہلا کر سینڈی کو دور جانے کو کہا۔ ہوتے ہوتے جب سینڈی اس جگہ پہنچا جہاں اس نے خرگوش کو پہلی بار اٹھایا تھا، مہاراجہ نے اسے وہیں ڈال کر واپس آنے کا حکم دیا۔ لٹکی دم اور جھکے کانوں کے ساتھ سینڈی واپس مہاراجہ کے پاس جا پہنچا۔ پھر انہوں نے ایک اور کتے کو خرگوش لانے کو بھیجا۔ پھر مہاراجہ نے اپنی بندوق ملازم کو دے کر اس سے چابک لیا اور سینڈی کو گردن کے پاس سے پکڑ کر "خوب مارا”۔ تاہم چابک سینڈی پر نہیں بلکہ اس کے دائیں اور بائیں زمین پر پڑتے رہے۔ جب مہاراجہ نے مہارانی کو اس بارے بتایا تو میں نے ایک ملازم سے پرچی لی کہ مہاراجہ کی قوتِ سماعت سے محروم تھے، اور اس پر لکھا کہ "اگرچہ سینڈی بہادر نے آج غلطی کی تھی لیکن وہ پورے ہندوستان کا بہترین کتا ہے اور اگلے سالانہ مقابلے میں جیتے گا۔” بعد میں اس سال مجھے ایک دن مہاراجہ کا تار ملا کہ "آپ نے درست کہا تھا۔ سینڈی نے مقابلہ جیت لیا ہے۔”
دن لمبے اور گرم ہو رہے تھے، اس لیے میں علی الصبح دس میل دور موہن میں مہاراجہ کے کیمپ جانے کو نکلا اور ناشتے کے وقت جا پہنچا۔ جونہی میں ناشتے کی میز پر بیٹھا، مہاراجہ بولے کہ "آپ بروقت پہنچے ہیں۔ ہم آج اس بوڑھے شیر کے پیچھے جانے والے ہیں جو تین سال سے مسلسل بچ رہا ہے۔” اس شیر کا تذکرہ میں بہت بار سن چکا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ مہاراجہ اسے شکار کرنے کو کتنے بے چین ہیں۔ اس لیے جب مہاراجہ نے بہترین مچان اور رائفل دینے کی پیشکش کی تو میں نے بہت نرمی سے انکار کر دیا کہ میں محض تماشائی رہوں گا۔ دس بجے مہاراجہ اور مہارانی اپنی دو بیٹیوں، ایک خاتون دوست اور میں کاروں پر سوار ہو کر اس جگہ روانہ ہوئے جہاں ہانکے والے ہمارے منتظر تھے۔
ہانکے کی جگہ وادی پہاڑ کے دامن تک چلی جاتی تھی اور اس میں ایک بل کھاتی ندی گذرتی تھی اور دو اطراف پر 300 فٹ اونچی پہاڑیاں تھیں۔ اس کے نچلے سرے پر جہاں سے سڑک گذرتی ہے، وادی کی چوڑائی 50 گز تھی اور نصف میل اوپر جا کر پھر اتنی ہی رہ جاتی تھی۔ درمیان میں وادی کی چوڑائی 300 سے 400 گز تھی اور ایک جگہ کئی سو ایکڑ پر محیط گھنی جھاڑیوں کے قطعہ تھا جہاں شکاریوں کے خیال میں شیر پچھلے دن کے شکار کردہ بھینسے کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔ وادی کے اوپری سرے پر ایک چھجا سا تھا جس پر موجود درخت پر مچان بنی تھی۔ اس جگہ سے پوری وادی کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ چھجے کے پیچھے جہاں ندی زاویہ قائمہ پر مڑتی تھی، دو اور مچانیں تیس تیس گز کے فاصلے پر بنی تھیں۔
سڑک پر کاروں سے نکل کر ہم میرِ شکار اور سیکریٹری کے ساتھ شیر کی کمین گاہ کے بائیں جانب سے ہو کر آگے بڑھے۔ جب مہاراجہ اور ان کے بندوق بردار نے مچان پر اپنی جگہ سنبھال لی تو چاروں خواتین اور میں دوسری مچانوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ پھر میرِ شکار اور سیکریٹری سڑک کو واپس لوٹے تاکہ ہانکا شروع کیا جا سکے۔
میرے ساتھ مچان پر دو شہزادیاں بھی بیٹھی تھیں اور انتہائی مضبوط مچان پر موٹا قالین اور ریشمی گدے بچھے تھے۔ مجھے درخت کی سخت شاخوں پر بیٹھے کی عادت تھی، اس لیے صبح جلدی اٹھنے اور پھر لمبا پیدل سفر کرنے کے بعد مجھے اب اس آرام دہ مچان پر اونگھنے لگا کہ دور سے بگل کی آواز سنائی دی اور ہانکا شروع ہو گیا۔ ہانکے میں میرِ شکار، سیکریٹری، مہاراجہ کے گھریلو ملازمین، مہاراجہ کے نائبین، اے ڈی سیز، اور نزدیکی دیہاتوں سے دو سو افراد کے علاوہ 10 ہاتھی بھی شامل تھے۔ نیچے موجود گھنی جھاڑیوں کے ہانکے کے واسطے ہاتھی تھے جن پر مہاراجہ کے عملے کے افراد سوار تھے جبکہ باقی ہانکا دو سو دیہاتی کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ افراد دونوں اطراف قطار بنا کر ہانکے سے آگے چل رہے تھے تاکہ شیر ادھر سے فرار نہ ہو سکے۔
ہانکے کے نظام اور ہانکے کا مشاہدہ کرنا میرے لیے بہت دلچسپی کا باعث تھا کیونکہ ابھی تک میں ہانکے کے دوران میں شکار کے لیے بیٹھتا رہا تھا اور اب تماشائی بن کر دیکھ رہا تھا۔ ہانکے کے بندوبست یا ہانکے میں کوئی کمی یا خامی نہیں تھی۔ دن کا بہترین وقت چنا گیا تھا اور ہم لوگ انتہائی خاموشی سے مچانوں پر جا بیٹھے تھے اور ہانکے سے نکلنے والے جانوروں اور پرندوں کی تعداد سے اس کی کامیابی کا بخوبی اندازا لگایا جا سکتا تھا۔ ہانکا ہمیشہ پُر تجسس ہوتا ہے کہ انسانوں کی آواز سنتے ہی شیر چل پڑتا ہے۔ مہاراجہ کی وقتِ سماعت تو کام نہیں کر رہی تھی لیکن ان کے پاس ایک بندہ اسی لیے موجود تھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس بندے سے دائیں جانب اشارہ کیا۔ مہاراجہ اس جانب ایک یا دو لمحے دیکھتے رہے اور پھر سر ہلایا۔ فوراً ہی ایک سانبھر اسی جانب سے نکلا اور ندی عبور کر کے مہاراجہ کے پاس سے گزر کر غائب ہو گیا۔
بائیں پہاڑی پر ہانکے والوں کی قطار دکھائی دے رہی تھی اور شیر کسی وقت بھی سامنے آ سکتا تھا۔ ہر بندہ شور مچاتا اور تالیاں بجاتا ہوا بڑھتا آیا اور ہر قدم پر شیر کے نکلنے کی توقعات کم ہوتی گئیں کیونکہ کسی جانور یا پرندے سے شیر کی موجودگی کی اطلاع نہیں آئی تھی۔ میری مچان پر موجود شہزادیاں چوکنی ہو گئی تھیں اور مہاراجہ رائفل تانے گولی چلانے کو تیار بیٹھے تھے۔ تاہم شیر اس جگہ موجود نہیں تھا۔ سیڑھیاں آئیں اور ہم سب انتہائی مایوس ہو کر نیچے اتر آئے۔ کسی کو بھی شیر دکھائی نہ دیا تھا اور کوئی بھی یہ نہ بتا سکا کہ غلطی کہاں ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی غلطی تو ہوئی تھی کیونکہ ہماری آمد سے ذرا دیر قبل شیر اسی وادی میں دھاڑا تھا۔ مجھے شک تھا کہ شاید میں اس ناکامی کا سبب جانتا ہوں، مگر تماشائی ہونے کی وجہ سے میں خاموش ہی رہا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر ہم لوگ کیمپ لوٹے اور بقیہ وقت دریائے کوسی پر مچھلیاں پکڑتے اور آرام کرتے گذارا۔ اپریل کا اختتام چل رہا تھا اور مچھلی کے شکار کا بہترین وقت تھا۔
رات کو کھانا کھاتے وقت انتہائی باریک بینی کے ساتھ اس ہانکے اور سابقہ تمام ہانکوں اور ان کی ناکامیوں اور ممکنہ وجوہات پر تفصیلی بحث کی گئی۔ پہلی بار اس وادی میں ہانکے پر شیر مہاراجہ کی مچان کو گیا تھا اور مشکل زاویے سے چلائی گئی گولی خطا گئی تھی۔ تین سال کے دیگر ہانکوں پر شیر کبھی بھی دکھائی نہ دیا، اگرچہ ہانکا شروع ہونے سے قبل وہ وادی میں موجود ہوتا تھا۔ جتنی دیر دیگر افراد یہ بحث کرتے رہے، میرے ذہن میں ایک منصوبہ تیار ہوتا رہا۔ میں نے اس شیر کے شکار میں مہاراجہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب ہم شیر کی ممکنہ کمین گاہ سے ہو کر مچان کو گئے تو ایک غلطی سرزد ہوئی تھی۔ لیکن ہانکے کی ناکامی کی وجہ یہ غلطی نہیں تھی کیونکہ جس وقت ہم لوگ وادی میں داخل ہوئے تھے، عین اسی وقت شیر وادی سے نکل گیا تھا۔ کاروں سے اترنے کے کچھ دیر بعد وادی کے دوسرے سرے سے کاکڑ کی آواز میرے تجربے کے مطابق شیر کی روانگی کو ظاہر کرتی تھی۔ ہانکے کی ناکامی کے بعد میں نے وادی پر طائرانہ نگاہ ڈالی کہ مچان سے بچ نکلنے کا کوئی اور راستہ تو نہیں۔ مچان کے پیچھے پہاڑی پر ایک لینڈ سلائیڈ شروع ہوتی تھی۔ کاکڑ اسی لینڈ سلائیڈ کے اوپری سرے پر بولا تھا۔ اگر اس جگہ سے جانوروں کی کوئی گذر گاہ نیچے اس جگہ جاتی ہو جہاں شیر اپنے شکار سمیت موجود تھا، تو ظاہر ہے کہ شیر ہر بار اسی راستے سے ہی بچ نکلتا ہو گا۔
جتنی دیر دیگر لوگ بحث کرتے رہے، میں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مہاراجہ کو پہاڑی پر لینڈ سلائیڈ کے اوپری سرے پر اسی جگہ بٹھا دوں جہاں کاکڑ بولا تھا اور پھر ہانکا کروں۔ سارے ہی شرکاء اگلے دن ہانکے کے خلاف تھے کہ جب شیر تازہ شکار پر موجود نہیں تھا تو اگلے دن ہانکے کی کیا تُک۔ اگر میرا منصوبہ ناکام بھی رہتا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کہ کسی قسم کا انتظام نہیں کرنا تھا۔ سیکریٹری سے ایک پرچی لے کر اس پر میں نے لکھا کہ "اگر آپ کل صبح 5 تیار ہوں تو میں اکیلا ہانکا کر کے دکھاؤں گا کہ آج والا ہانکا کیوں کر ناکام رہا۔” میری امید کے عین مطابق سارے عملے نے اس کی شدید مخالفت کی۔ تاہم مہاراجہ نے میرے منصوبے پر عمل کی حامی بھر لی اور طے پایا کہ صبح وہ دو بندوق برداروں کے ساتھ تیار ہوں گے۔
ٹھیک 5 بجے مہاراجہ، ان کے دو ملازمین اور میں کار پر بیٹھ کر تین میل دور اس جگہ پہنچے جہاں ایک ہاتھی پر ایک چھوٹی مچان لگی ہوئی تھی۔ مہاراجہ اور ان کے ملازمین کو ہاتھی پر سوار کر کے میں انہیں کئی میل کے ایسے سفر پر لے کر نکل پڑا جس کے راستے کے بارے مجھے کچھ بھی علم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے اندھیرے میں بھی سمتوں اور فاصلوں کے تعین میں مشکل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اگرچہ ہم اندھیرے میں ہی روانہ ہوئے لیکن سورج طلوع ہونے تک ہم لینڈ سلائیڈ تک پہنچ گئے تھے۔ اس جگہ مجھے جنگلی جانوروں کی پگڈنڈی دکھائی دی جو سیدھا لینڈ سلائیڈ سے ہوتی ہوئی نیچے جنگل کو جا رہی تھی۔ اس راستے کے پاس میں نے ایک درخت پر مچان باندھی۔ مہاراجہ اور ان کے ایک بندوق بردار کو مچان پر بٹھا کر میں نے ہاتھی کو واپس بھیج دیا اور دوسرے ملازم کو دوسرے کنارے کے درخت پر چڑھا دیا۔ جب یہ کام پورا ہو گیا تو میں اکیلا ہانکے کو نکلا۔
وادی میں نیچے اترنے کا راستہ انتہائی ڈھلوان اور مشکل تھا لیکن چونکہ میں خالی ہاتھ تھا، اس لیے بحفاظت نیچے پہنچ گیا۔ پچھلے روز والی مچانوں کے پاس سے گزر کر میں انتہائی خاموشی سے وادی میں اترا۔ اس جگہ سے 200 گز آگے جا کر کہ جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر لیٹا ہو گا، میں نے واپسی کا رخ کیا اور ہلکی آواز میں خود کلامی شروع کر دی۔ جہاں شیر نے بھینسے کو گھسیٹ کر گھنی جھاڑیوں میں چھپایا تھا، اس جگہ ایک درخت گرا ہوا تھا۔ اس درخت پر بیٹھ کر میں نے سگریٹ سلگائی اور بغور جنگل کی طرف کان لگا دیے۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ چند بار کھانس کر میں نے کھوکھلے درخت کے تنے سے ایڑیاں بجائیں اور پھر آگے بڑھا تاکہ دیکھ سکوں کہ آیا شیر واپس لوٹا تھا یا نہیں۔ گھنی جھاڑیوں میں چھپی بھینسے کی لاش سے شیر چند منٹ قبل ہی گوشت کھا رہا تھا۔ جس جگہ وہ لیٹا تھا، وہ جگہ ابھی تک گرم تھی۔ واپس گرے ہوئے درخت کو لوٹ کر میں نے پتھر سے تنے کو زور زور سے بجایا اور چیخ کر مہاراجہ کے ملازم کو اطلاع دی کہ شیر آ رہا ہے۔ ایک یا دو منٹ بعد ہی اوپر سے گولی کی آواز سنائی دی۔ جب میں واپس اوپر پہنچا تو دیکھا کہ مہاراجہ شیر کی لاش کے پاس کھڑے تھے۔
جند کے محل میں، جس پر اب مہاراجہ کے بیٹے کی حکومت ہے، میں ایک شیر کی کھال لٹکی ہے جس پر لکھا ہے "جم کا شیر”۔ مہاراجہ کی شکار کی ڈائری میں اس شیر کے شکار کی تاریخ مقام اور حالات کا تفصیلی ذکر ہے۔
تیسرا ہانکا
یادگار شکار کا آخری دن تھا۔ یادگار صرف ان کے لیے نہیں جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا بلکہ یہ ملکی انتظامیہ کے لیے بھی یادگار رہا کہ پہلی بار وائسرائے نے معمول سے انحراف کر کے چند دن کالاڈھنگی میں گذارے تھے۔
ہندوستان کے وائسرائے سے زیادہ کسی اور انسان کی حرکات و سکنات اصولوں کی پابند نہیں ہوتیں۔ اس سے انحراف کے بارے کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔ اسی لیے جب لارڈ لن لتھ گو نے جب وائسرائے کا عہدہ سنبھالا تو کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنے پیشروؤں کے راستے سے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو پوری انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی۔ لارڈ لن لتھ گو نے فیصلہ کیا کہ دہلی کے دفتر کے بند ہونے اور شملہ کے دفتر کے کھلنے کے درمیان میں دس دن حسبِ روایت جنوبی اضلاع میں نہیں گذاریں گے، تو ان کا فیصلہ کسی کو بھی اچھا نہیں لگا۔
ایک عام انسان کے طور پر مجھے حکومتی اداروں کے اندر کام کا طریقہ نہیں معلوم۔ مارچ کے اختتام پر ایک دن کالاڈھنگی اپنے گھر سے میں مچھلی پکڑنے کے لیے نکل ہی رہا تھا کہ رام سنگھ تار لیے آن پہنچا۔ رام سنگھ کی ذمہ داری تھی کہ روزانہ دو میل دور ڈاکخانے سے ہماری ڈاک لے آئے۔ اس نے بتایا کہ پوسٹ ماسٹر نے اسے تاکید کی ہے کہ یہ بہت اہم تار ہے۔ وائسرائے کے ملٹری سیکریٹری ہف سٹیبل کا یہ تار نینی تال سے ہو کر ادھر آیا تھا۔ تار میں درج تھا کہ وائسرائے کا جنوبی ہند کا دورہ منسوخ ہو گیا ہے اور کیا میں وائسرائے کے دس روزہ قیام اور ہلکے پھلکے شکار کے لیے کوئی تجویز دے سکتا ہوں؟ آخر میں یہ بھی درج تھا کہ وقت کم ہے اور فوری جواب درکار ہے۔ اگرچہ رام سنگھ انگریزی نہیں بول سکتا لیکن 30 سال سے ہمارا ملازم ہے اور اچھی خاصی انگریزی سمجھ لیتا ہے۔ جب میں نے تار میگی کو سنایا، رام سنگھ بولا کہ وہ اپنا کھانا کھا کر چند منٹ میں میرا جواب ہلدوانی کو لے جانے کو تیار ہو جائے گا۔ ہلدوانی کا تار گھر یہاں سے 14 میل دور تھا۔ اگر رام سنگھ میرا جواب لے جاتا تو مجھے ڈاک کے ہرکارے سے بھیجنے کی ضرورت نہ پڑتی اور 24 گھنٹے بچ جاتے۔ میں نے تار لکھا کہ "کل صبح گیارہ بجے ہلدوانی کے فون پر رابطہ کریں”۔ جب رام سنگھ چلا گیا تو میں نے پھر اپنا راڈ اٹھایا اور مچھلی کے شکار کو روانہ ہو گیا۔ مچھلی کے شکار کے دوران میں سوچنے کا عمدہ موقع ملتا ہے اور ویسے بھی رات کے کھانے کے لیے مچھلی بھی پکڑنی تھی۔ ہف کا تار ہنگامی امداد کی درخواست لیے ہوئے تھا اور یہ مجھ پر منحصر تھا کہ میں کیسے مدد کرتا ہوں۔
کوٹا روڈ پر دو میل دور پہنچ کر میں نے فارم یارڈ کے نچلے سرے کا رخ کیا جہاں میں نے اپنا پہلا تیندوا مارا تھا اور دریا پر بنے ایک تالاب پر جا پہنچا جہاں تین پاؤنڈ وزنی مہاشیر مچھلیاں عام مل جاتی تھیں۔ پہنچتے ہی میں نے ریت پر صبح کو گذرنے والے ایک شیر کے پگوں کے نشانات دیکھے۔ تالاب کے سرے پر جہاں پانی گہرا اور تیز ہو جاتا تھا، پر تین بڑی چٹانیں ہیں اور پانی سے اڑتی جھاگ ان پر مسلسل پڑتی رہتی ہے اور یہ چٹانیں شیشے کی طرح پھسلوان ہیں۔ دریا عبور کرنے کے لیے تیندوے ان چٹانوں سے کودتے ہوئے گذرتے ہیں۔ ایک دن ایک شیر کو بھی میں نے اسی طرح دریا عبور کرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ میں اس شیر کے پیچھے تقریباً ایک میل سے لگا ہوا تھا اور دو بار اس کے اتنے قریب پہنچ گیا کہ گولی چلا سکتا تھا لیکن اس وجہ سے گولی نہیں چلائی کہ مجھے اس کی فوری موت کا یقین نہیں تھا۔ شیر کو میرے تعاقب کا علم نہیں ہو سکا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ شیر کا رخ دریا کی جانب ہے تو مجھے اطمینان ہوا کہ دریا عبور کرتے شیر پر گولی چلانا آسان ہو جائے گا۔ دریا پر پہنچتے ہی واضح ہو گیا کہ شیر تیرنے کی بجائے ان پتھریلی چٹانوں کی مدد سے دریا کو عبور کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات میرے منصوبے کے مطابق تھی کہ میری جانب دریا تک جانے کے لیے 20 فٹ کی کٹائی تھی۔ جب شیر اس سے نیچے اترنے لگا تو میں دوڑ کر اونچے کنارے پر لیٹ گیا۔
پانی میں تین چٹانیں اتنے فاصلے پر موجود تھیں کہ تیز دوڑنے والا بندہ کچھ فاصلے سے دوڑے تو اسے چھلانگ لگا کر عبور کر سکتا تھا۔ ایک بار میں نے تیندوے کو آرام سے چھلانگیں لگا کر انہیں عبور کرتے دیکھا تھا۔ جب میں نے کنارے سے سر ابھار کر دیکھا کہ شیر نے بھی پہلی چٹان آرام سے عبور کی اور دوسری پر پہنچتے ہی اس کے پیر پھسلے اور شیر سیدھا دریا میں جا گرا۔ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے مجھے یہ تو سنائی نہ دیا کہ شیر نے کیا تبصرہ کیا ہو گا لیکن میں خود عین اسی پتھر پر ایک دفعہ پھسل چکا تھا۔ اس لیے مجھے شیر کے احساسات کا علم تھا۔ دوسرے کنارے پر مختصر سا ریتلا ساحل تھا۔ وہاں پہنچ کر شیر نے جھرجھری لی اور پھر ریت میں لوٹنے لگا تاکہ اس کی خوبصورت کھال گرم ریت میں خشک ہو جائے۔ فارغ ہو کر اس نے ایک اور جھرجھری لی اور پھر اپنی منزل کو روانہ ہو گیا کہ اسے مجھ سے اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔ جنگل میں آپ کو محظوظ کرنے والے جانور کو نقصان پہچانا شرافت نہیں۔ اس بار پگ خشک تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ شیر نے ان چٹانوں پر بحفاظت دریا عبور کر لیا ہے۔
ان پتھروں کے نیچے ایک چٹان دوسرے کنارے سے نکلی ہوئی تھی جس کے نیچے پانی میں زیادہ تر مہاشیر مچھلیاں ہوتی تھیں۔ دو بار قبل بھی میں یہاں تین پاؤنڈ وزنی مچھلیاں پکڑ چکا تھا۔ تاہم درخت کی جھکی ہوئی ٹہنی اور مہاشیر کی احتیاط پسند طبعیت کی وجہ سے یہ کام قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ خیر، ریتلے کنارے سے آگے جا کر میں نے ڈوری پانی میں ڈالی اور اپنا پائپ نکال کر پینے لگ گیا۔ فوراً ہی مچھلی نے کانٹا نگل لیا۔ ہلکی بنسی کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ جب مچھلی کانٹا نگل کر بھاگتی ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔ تاہم انتہائی احتیاط سے زور لگاتے ہوئے آپ مچھلی کو اس کی مطلوبہ پناہ گاہ تک جانے سے روک سکتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ پناہ گاہ آپ کے مخالف کنارے پر ہو۔ جہاں مچھلی نے کانٹا نگلا تھا، اس سے 30 گز نیچے درخت کی ایک جڑ نکلی ہوئی ہے۔ دو بار پہلے بھی عین اسی جگہ مچھلیاں کانٹا توڑ کر نکل گئی تھیں۔ تاہم اس بار چند انچ کی دوری سے میں مچھلی کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک بار تالاب میں پہنچنے کے بعد مچھلی محفوظ ہو گئی تھی اور کچھ دیر اسے تھکانے کے بعد میں اسے ہاتھ سے پکڑ کر کنارے پر لے آیا۔ تین پاؤنڈ کی بجائے ساڑھے تین پاؤنڈ کی یہ مچھلی نہ صرف گھر بھر کے لیے کافی رہتی بلکہ میگی جس بیمار لڑکے کی نگہداشت کر رہی تھی، اس کے لیے بھی یخنی بن جاتی۔
بچپن میں رائفل کے حوالے سے مجھے جو مشورہ دیا گیا تھا کہ کسی بھی اہم فیصلے کے وقت عجلت نہیں کرنی چاہئے، اس لیے میں نے ہف سٹیبل کو گول مول سا پیغام بھیجنے کے بعد خوب سوچ بچار کرنے کے بعد فیصلہ کر لیا کہ کالاڈھنگی ہی وائسرائے کی چھٹیوں کا بہترین مقام ہو سکتا ہے۔ برآمدے میں میگی کی بنائی چائے پینے کے دوران میں ابھی ہم اس فیصلے پر گفتگو کر رہے تھے کہ بہادر آن پہنچا۔ بہادر پیٹ کا ہلکا نہیں اس لیے میں نے اسے بتایا کہ تار میں کیا لکھا تھا۔ جب بہادر خوش ہوتا ہے تو اس کے چہرے سے صاف دکھائی دیتا ہے لیکن اس بار خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ کالاڈھنگی جیسے مقام پر وائسرائے کی آمد؟ کبھی سنا بھی نہیں تھا۔ اس بارے عظیم بندوبست کرنا تھا اور خوش قسمتی سے سال کا بہترین وقت تھا جب انتظامات کرنا آسان تھے۔ فصلیں کٹ چکی تھیں اور پورے کا پورا گاؤں مدد کے لیے فارغ ہوتا۔ بعد میں جب یہ خبر پھیلی تو نہ صرف ہمارے مزارع بلکہ پورے گاؤں کے مرد ہر ممکن مدد کے لیے تیار تھے اور ان کی خوشی بہادر کی خوشی سے کم نہیں تھی۔ اس سے انہیں کوئی مالی فائدہ تو نہیں ملنا تھا لیکن ان کی محبت تھی کہ وہ اس دورے کو ہر ممکن طور پر کامیاب بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔
اگلی صبح ہلدوانی کے لیے جب میں نکلا تو ابھی اندھیرا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں فتح پور میں جیف ہاپکنز سے ملتا اور ہف سٹیبل سے بات کرنے سے قبل ان سے بھی مشورہ لیتا۔ سات میل تک سڑک جنگل سے ہی گذرتی ہے اور اس وقت اس سڑک پر میں اور جنگلی جانور ہی تھے۔ کالاڈھنگی بازار سے ایک میل دوری پر جب روشنی ہونے لگی تو میں نے گرد میں ایک نر تیندوے کے تازہ پگ دیکھے جو اسی سمت جا رہا تھا۔ ایک موڑ پر دیکھا کہ تیندوا مجھ سے دو سو گز دور تھا۔ اسے میری موجودگی کا فوراً علم ہو گیا اور میرے موڑ مڑتے ہی تیندوے نے گردن گھما کر میری جانب دیکھا۔ تاہم سڑک پر چلتے ہوئے اور وقتاً فوقتاً مڑ کر دیکھتے ہوئے تیندوا اسی طرح چلتا رہا۔ جب ہمارا درمیانی فاصلہ گھٹ کر پچاس گز رہ گیا تو تیندوے نے چھلانگ لگائی اور سڑک کنارے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ سیدھا چلتے اور سر کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کنکھیوں سے دیکھا کہ تیندوا سڑک سے محض چند گز دور دبکا بیٹھا تھا۔ سو گز دور جا کر جب میں نے سر گھما کر دیکھا تو تیندوا اب میرے پیچھے چل رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے میں محض ایک مسافر تھا اور چند سو گز آگے جا کر تیندوا ایک کھائی میں گھس گیا۔ میل بھر تک اکیلے چلنے کے بعد جنگل کے دائیں جانب سے پانچ سرخ جنگلی کتے بھاگتے ہوئے نکلے۔ سبک رفتار اور نڈر یہ جانور جنگل میں بہ آسانی گھومتے ہیں اور جب بھوک لگے تو بہترین جانور شکار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ہندوستانی سرخ جنگلی کتوں سے بہتر زندگی اور کوئی جانور نہیں گذارتا۔
جیف اور زلا ہاپکنز ناشتا کرنے بیٹھ ہی رہے تھے کہ میں جا پہنچا۔ جب میں نے اپنے منصوبے کے بارے انہیں بتایا تو وہ بہت خوش اور پر جوش ہو گئے۔ جیف ان دنوں ترائی اور بھابھر کی ریاستوں کے جنگلات کے خصوصی افسر تھے اور ان کی مدد اور مشورے کے بغیر میں ہف کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا تھا۔ شکار کی نیت سے مجھے جنگل کے دو بلاک درکار تھے اور دونوں ہی اس وقت فارغ تھے اور جیف نے وعدہ کر لیا کہ وہ اس شکار کے لیے مختص ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمسائیہ جنگل کے داچوری بلاک کی بھی پیشکش کی جو انہوں نے اپنے شکار کے لیے الگ کیا ہوا تھا۔ شیر کے پگ دیکھنے، مہاشیر پکڑنے سے لے کر اب تک ہر چیز بہترین طریقے سے جا رہی تھی۔ جیف سے ہو کر میں سیدھا ہلدوانی کو روانہ ہو گیا۔
ہف نے ٹھیک گیارہ بجے مجھے فون کیا اور 300 میل طویل فون لائن پر کسی مداخلت کے بغیر اگلے ایک گھنٹے تک ہم گفتگو کرتے رہے۔ اس دوران میں نے ہف کو بتایا کہ ہمالیہ کے دامن میں کالاڈھنگی نامی ایک چھوٹا سا دیہات ہے جس کے جنگلات ہر قسم کی جنگلی حیات سے بھرے ہوئے ہیں اور میرے خیال میں پورے ہندوستان میں وائسرائے کی تعطیلات کے لیے اس سے بہتر جگہ تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ہف نے مجھے بتایا کہ وائسرائے کی پارٹی میں وائسرائے اور ان کی بیوی، ان کی تین بیٹیاں این، جون اور ڈورین بھی شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ وائسرائے کا ذاتی عملہ بھی ساتھ آئے گا کیونکہ چھٹی پر ہونے کے باوجود وائسرائے ہند کو روزمرہ کے دفتری امور بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ آخری بات یہ پتہ چلی کہ مجھے تمام تر انتظامات کرنے کے لیے پندرہ دن کا وقت ہے۔ وائسرائے کے گھریلو عملے کا سربراہ ماؤس میکسوئل دہلی سے کالاڈھنگی اپنی کار پر اگلے روز آن پہنچا۔ اس کے بعد پولیس کا سربراہ، خفیہ پولیس کا سربراہ، سول انتظامیہ کا سربراہ، محکمہ جنگلات کا سربراہ اور پتہ نہیں کون کون سے سربراہ بھی آن پہنچے۔ سب سے خوفناک وہ فوجی افسر تھا جو وائسرائے کی حفاظت کے لیے فوجی دستہ ہمراہ لانے پر تیار تھا۔
بہادر نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ وائسرائے کے لیے ہمیں عظیم بندوبست کرنا ہو گا۔ تاہم کتنا عظیم، یہ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ خیر، سارا گاؤں ہی پوری طرح مدد کے لیے تیار اور آمادہ تھا، اس لیے بغیر کسی مشکل کے ہر کام پورا ہوتا چلا گیا۔ چار ہانکے ہوئے اور چار گولیوں پر چار شیر شکار ہوئے اور ان کے شکاری وہ افراد تھے جنہوں نے پہلی بار جنگل میں شیر دیکھے تھے۔ اس دورے کے آخری دن اب وائسرائے کی سب سے چھوٹی بیٹی کی باری تھی جو ابھی تک خالی ہاتھ تھی۔ اس بار ہانکا نیم دائرے کی شکل میں ہونا تھا جہاں کبھی دریائے بور گذرتا تھا۔ اس وقت یہاں کافی گھنی جھاڑیاں اور درخت موجود تھے اور جگہ جگہ نال گھاس بھی پائی جاتی تھی اور اکا دکا نارنگیوں کے جھنڈ بھی تھے۔ پرانے دریا کے کنارے درختوں پر پانچ مچان باندھے گئے تھے اور ارادہ تھا کہ شیر کو ہانک کر انہی مچانوں کی طرف بھیجا جائے۔
لمبا چکر کاٹ کر ہم لوگ مچانوں تک پہنچے اور میں نے باری باری تمام افراد کو مچان پر بٹھایا۔ چکر کاٹنے کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے ہانکے اسی وجہ سے خالی جاتے ہیں کہ شکاری اسی جنگل سے گزر کر مچان کو جاتے ہیں جہاں شیر پہلے سے چھپا ہوتا ہے۔ ہانکے کے سٹاپ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جتنی دیر وہ پہلے سے مختص کردہ درختوں پر بیٹھتے، میں نے بہادر اور وائسرائے کے ایک اے ڈی سی پیٹر بوروک کے ساتھ شکاری پارٹی کو مچانوں پر بٹھانا شروع کر دیا۔ پہلی مچان پر میں نے این، دوسری پر وائسرائے، تیسری مچان ایک ٹنڈ منڈ جنگلی آلو بخارے کے درخت پر تھی اور میرا ارادہ تھا کہ بہادر اس پر بیٹھ کر سٹاپ کے فرائض سر انجام دے گا کیونکہ میرے خیال میں یہاں روکے جانے پر شیر بائیں جانب کا رخ کرتا اور وہاں موجود چوتھی مچان پر بنٹی ہوتی اور اس طرح وہ بھی شیر مار لیتی۔
جس جگہ شیر چھپا ہوا تھا، وہاں سے ایک پگڈنڈی سیدھی کنارے پر چڑھ کر مچان نمبر تین کے نیچے سے گذرتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ شیر اسی راستے پر چلتا ہوا سیدھا اس مچان تک پہنچے گا جو محض چھ فٹ بلندی پر تھی، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ تجربہ کار سٹاپ کے لیے تو یہ مچان ٹھیک ہے لیکن شکاری کے لیے خطرناک ہو جائے گی۔ تاہم جب پیٹر، بہادر اور دو لڑکیوں کے ساتھ میں اس مچان تک پہنچا تو عین وقت پر نجانے کس خیال سے میں نے پروگرام بدل دیا اور بنٹی کو سرگوشی میں بتایا کہ یہ مچان اس کے لیے ہے۔ تاہم میں نے اسے ممکنہ خطرے کے بارے بھی بتا دیا اور یہ بھی کہ میں اس کے ساتھ پیٹر کو بٹھاؤں گا۔ بے جھجھک اس نے فوراً حامی بھر لی۔ میں نے زور دیا کہ ایک تو شیر پر تب تک گولی نہ چلائے جب تک شیر میرے لگائے نشان تک نہ پہنچ جائے، اور دوسرا یہ بھی کہ احتیاط سے شیر کے گلے کا نشانہ لینا ہے۔ جب اس نے دونوں باتوں کی حامی بھر لی تو پیٹر کے ساتھ مل کر میں نے اسے مچان پر بٹھایا اور پھر پیٹر کو سہارا دیا تاکہ وہ بھی مچان پر سوار ہو جائے۔ پھر اسے میں نے اپنی 400/450 بور کی ڈبل بیرل رائفل تھما دی۔ بنٹی کے پاس بھی اسی طرح کی رائفل تھی۔ پھر کنارے سے اتر کر میں نے ایک خشک لکڑی اٹھائی اور اسے ایک جگہ رکھ کر بنٹی کی طرف دیکھا تو اس نے سر ہلایا۔
لیڈی جون، بہادر اور میں اب چوتھی مچان کی طرف بڑھے۔ یہ مچان زمین سے 20 فٹ بلندی پر تھی اور یہاں سے 30 گز دور مچان نمبر 3 صاف دکھائی دیتی تھی۔ جون کو مچان پر بٹھا کر جب میں رائفل دینے اوپر گیا تو میں نے درخواست کی کہ اگر بنٹی اور پیٹر ناکام بھی ہو جائیں تو بھی شیر مچان نمبر 3 تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ جواب ملا کہ "فکر مت کریں، پوری کوشش کروں گی”۔ کنارے پر جھاڑیاں بالکل نہیں تھیں اور اکا دکا درختوں کی وجہ سے شیر جب جنگل سے نکلتا تو کم از کم 60 گز تک دونوں مچانوں کے بالکل سامنے رہتا۔ مجھے پوری امید تھی کہ بنٹی اسے مار لے گی۔ بہادر کو پانچویں مچان پر بٹھانے کے بعد لمبا چکر کاٹ کر میں پھر دریائے بور پہنچ گیا۔
جہاں میں نے مہاشیر پکڑی تھی، اس تالاب کے کنارے 16 ہاتھی جمع تھے جو ہانکے کے کام آتے۔ ان کی نگرانی موہن کر رہا تھا جو میرا پرانا دوست ہے اور 30 سال تک ونڈہم کا میرِ شکار رہ چکا ہے۔ ہندوستان بھر میں اس سے زیادہ شیروں کے بارے کوئی نہیں جانتا۔ موہن میرا منتظر تھا اور جونہی میں نے جنگل سے نکل کر ہیٹ لہرایا، موہن نے ہانکا شروع کرا دیا۔ پتھروں سے اٹے جنگل میں ہاتھیوں کو چوتھائی میل کا فاصلہ طے کرتے کرتے کافی وقت لگا اور اس دوران میں پتھر پر بیٹھ کر میں نے سگریٹ پیتے جتنا سوچا، میری پریشانی اتنا ہی بڑھتی گئی۔ زندگی میں پہلی بار میں نے کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالا تھا۔ کالاڈھنگی آنے سے قبل لارڈ لِن لتھ گو نے مجھ سے کہا تھا کہ اصول و ضوابط واضح کر دوں۔ ہر فرد نے ان اصولوں پر پوری طرح عمل کیا تھا اور اگرچہ ہم جنگل میں کیمپ لگائے ہوئے تھے اور شکار کے سلسلے میں دور دور تک گئے تھے لیکن ابھی تک کسی کو خراش تک نہ پہنچی تھی۔ اب آخری دن میں نے ایک غلطی کر دی تھی جبکہ ہر کوئی مجھ پر اندھا اعتبار کرتا تھا۔ ہلکی سی مچان پر جو زمین سے بمشکل چھ فٹ اونچی تھی، پر میں نے ایک کم عمر بچی کو بٹھا دیا تھا جبکہ عام حالات میں میں نے کبھی بھی کسی کو نہ بیٹھنے دیا ہوتا اور اس جگہ سے اس نے سیدھے اپنی طرف آتے شیر پر گولی چلانی تھی جو بذاتِ خود انتہائی خطرناک فعل ہے۔ مجھے ان کی بہادری پر کوئی شبہ نہیں تھا کیونکہ میرے انتباہ کے باوجود اس نے بنا جھجھکے مچان پر بیٹھنے کی حامی بھر لی تھی۔ تاہم محض بہادری سے کام نہیں چلنا تھا بلکہ نشانے کی درستی بھی اہم تھی اور مجھے ان کے نشانے کا بالکل بھی علم نہیں تھا۔ ابھی میں اسی تذبذب میں تھا کہ آیا ہانکا روک دوں یا چلنے دوں کہ موہن میرے پاس آیا۔ میری بات سن کر اس نے ایک لمحے کو سانس روک کر آنکھیں بھینچیں اور پھر آنکھیں کھول کر بولا کہ "مت گھبراؤ صاحب۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
مہاوتوں کو بلا کر میں نے انہیں بتایا کہ شیر کو خوفزدہ کئے بنا نکالنا ہے۔ اس لیے کنارے پر پہنچ کر سب ایک سیدھی قطار میں رک جائیں اور میرے اشارے پر عمل کریں۔ جب میں اپنا ہیٹ اتاروں تو سارے ایک نعرہ لگا کر تالیاں بجانے لگ جائیں۔ جب میں ہیٹ پہن لوں تو پھر خاموش ہو جائیں۔ وقفے وقفے سے یہی عمل دہرایا جائے گا جب تک شیر حرکت نہ کرے۔ اگر پھر بھی کامیابی نہ ہو تو میں آگے بڑھنے کا اشارہ دوں گا اور انتہائی خاموشی اور آہستگی سے آگے بڑھنا ہے۔ پہلے نعرے کے دو فائدے ہوتے، اول تو یہ کہ شیر جاگ جاتا، دوسرا یہ کہ مچانوں پر بیٹھے شکاریوں کو اطلاع ہو جاتی۔
ہانکے کا میدان 300 گز چوڑا اور 500 گز لمبا تھا اور جب سارے ہاتھی میرے دائیں بائیں قطار میں کھڑے ہو گئے تو میں نے ہیٹ اتار کر لہرایا۔ نعرہ لگا کر سب نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ تین یا چار منٹ بعد میں نے ہیٹ سر پر رکھ دیا۔ اس قطعے میں سانبھر، کاکڑ، چیتل، مور اور جنگلی مرغ بکثرت تھے اور میں ان کی آواز سننے کے لیے بے چین تھا مگر خاموشی رہی۔ پانچ منٹ بعد ہم نے پھر ایک یا دو منٹ کے لیے تالیاں بجائیں کہ رائفل کی آواز آئی۔ میں نے بے چینی سے سیکنڈ گننے شروع کر دیے کہ ہانکے میں رائفل چلنے کے درمیانی وقفے سے بہت کچھ پتہ چل سکتا ہے۔ پانچ سیکنڈ بعد یکے بعد دیگر دو بار رائفل چلی۔ چار سیکنڈ بعد پھر ایک رائفل چلی۔ پہلی اور چوتھی گولی جس رائفل سے چلی، اس کا رخ میری جانب تھا جبکہ دوسری اور تیسری گولی جس رائفل سے چلی، اس کا رخ میری جانب نہیں تھا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ گڑبڑ ہو چکی اور جون کو گولیاں چلانی پڑی تھیں۔ وائسرائے کی مچان سے بنٹی کی مچان دکھائی نہیں دیتی تھی۔
دھڑکتے دل اور واہموں کو دباتے ہوئے میں نے موہن کو ہانکے کی نگرانی سونپی اور اجمت سے کہا کہ سیدھا مچانوں کی طرف ہاتھی دوڑائے۔ اجمت ونڈہم کا تربیت یافتہ، انتہائی نڈر اور بہترین انسان تھا اور اس کا ہاتھی بھی اسی کی مانند نڈر۔ خاردار جھاڑیاں، بڑے پتھر، غیر ہموار زمین، جھکی شاخوں کی پروا کئے بغیر ہم سیدھا آگے بڑھے۔ جب ہمارے سامنے بارہ فٹ اونچی نال گھاس کا قطعہ آیا تو ہتھنی جھجھک کر پھر آگے بڑھی۔ اجمت نے مڑ کر سرگوشی کی کہ "ہتھنی کو شیر کی بو آ رہی ہے۔ آپ خبردار ہو کر بیٹھیں کہ آپ نہتے ہیں۔” سو گز کا فاصلہ رہ گیا تھا اور ابھی تک مچانوں کی طرف خاموشی تھی۔ اگرچہ میں نے ہر شکاری کو ایک سیٹی دی ہوئی تھی کہ مدد درکار ہو تو سیٹی بجا دیں۔ تاہم سیٹی کی آواز آنا کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ عجلت اور گھبراہٹ میں مچان سے اس سے بڑی چیزیں بھی گر جاتی ہیں۔ جب درختوں کے درمیان میں سے جون کی مچان دکھائی دی تو مجھے بہت سکون ہوا کہ وہ مچان پر آرام سے بیٹھی تھیں اور رائفل ان کے گھٹنوں پر رکھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اشارہ کیا کہ "بہت بڑا شیر ہے” اور پھر انہوں نے بنٹی کی مچان کے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔
بقیہ کہانی مجھے جلد ہی پتہ چلی اور آج بھی، پندرہ برس گذرنے کے بعد بھی اس کی یاد سے میرے دل کی دھڑکن لمحے بھر کو رک جاتی ہے۔ اگر تین نوجوانوں کی ہمت اور ان کا نشانہ ساتھ نہ دیتا تو انجام سانحہ ہوتا۔
ہمارے نعرے اور تالیوں کی مدھم آواز مچانوں تک آئی تھی۔ ہماری خاموشی کے بعد شیر جنگل سے نکلا اور آہستہ آہستہ پگڈنڈی پر چلتا ہوا آگے کو بڑھا۔ جب وہ کنارے پر پہنچا تو ہماری طرف سے دوبارہ شور ہوا تو شیر نے رک کر سر موڑ کر ہماری سمت دیکھا اور خطرہ نہ پا کر ایک یا دو منٹ کو رک کر پھر کنارے پر چڑھا۔ جب شیر میری رکھی ہوئی لکڑی پر پہنچا تو بنٹی نے شیر کے سینے پر گولی چلائی کہ اس وقت شیر کا سر نیچے کو تھا اور گلا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گولی چلتے ہی شیر نے اتنی تیزی سے مچان پر حملہ کیا کہ بنٹی یا پیٹر کو دوسری گولی چلانے کا موقع نہ مل سکا۔ جب یہ کمزور سی مچان شیر کے حملے سے کانپ رہی تھی اور پیٹر اور بنٹی شیر پر گولی چلانے کی تگ و دو میں تھے تو تیس گز دور سے جون نے شیر پر گولی چلائی۔ جب شیر نیچے گرا تو انہوں نے دوسری گولی بھی چلائی۔ اب شیر کا رخ جنگل کی طرف ہو گیا کہ وہ شاید پناہ لینا چاہ رہا تھا۔ اسی وقت بنٹی نے شیر کی گُدی میں گولی اتار دی۔
یہ تھا وائسرائے کا کالاڈھنگی کا پہلا دورہ، تاہم یہ آخری نہیں تھا۔ ان کے دیگر تمام دوروں پر مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی کہ میں نے اس حماقت کو کبھی نہیں دہرایا۔
٭٭٭
باب 11
نومبر سے مارچ تک ہمالیہ کے دامن میں موسم کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی اور ان میں فروری سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔ فروری میں آب و ہوا انتہائی خوشگوار ہوتی ہے اور پرندے جو اونچے پہاڑوں سے موسم سرما کی شدت سے بچنے اور خوراک کی تلاش میں نیچے آئے ہوئے ہوتے ہیں، ابھی تک واپس نہیں گئے ہوتے۔ خزاں اور سرما میں ٹنڈ منڈ درختوں پر اب نئے سرے سے کونپلیں پھوٹ رہی ہوتی ہیں جو سبز یا گلابی رنگوں کی ہوتی ہیں۔ فروری کے مہینے میں بہار ہر طرف اور ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔ چاہے شمالی پہاڑ ہوں یا جنوبی میدان یا پہاڑوں کا دامن، ہر جگہ بہار راتوں رات آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ رات کو بندہ جب سونے لگتا ہے تو سردیاں چل رہی ہوتی ہیں اور صبح بیدار ہوتے ہی بہار دکھائی دیتی ہے اور ہر جاندار بہار کی آمد کی خوشی مناتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر جاندار کو پتہ چل چکا ہوتا ہے کہ آنے والا وقت کتنا خوشگوار ہو گا کہ ڈھیر ساری خوراک، افزائش نسل اور حدت ان کی منتظر ہوتی ہے۔ مہاجر پرندے چھوٹے چھوٹے غولوں میں شامل ہونے لگتے ہیں جو آگے بڑے غولوں میں مل جائیں گے اور کسی خاص دن اپنے رہنما کے اشارے پر ہر غول شمال کے اونچے پہاڑوں کا رخ کرے گا۔ ان پرندوں میں کبوتر، طوطے، چڑیاں اور مینائیں سبھی شامل ہوتی ہیں۔ ان میں پھل اور پھول کھانے والے پرندے بھی اور حشرات اور پتنگے کھانے والے پرندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہر پرندہ اپنے لیے جوڑے چن کر مخصوص جگہ پر جا کر گھونسلا بناتا اور افزائش نسل کا کام کرتا ہے۔ اس طرح پرندوں کی دنیا میں ہر روز ایک میلے کی مانند ہوتا ہے جو سورج نکلنے سے سورج ڈوبنے تک لگاتار جاری رہتا ہے۔ اس میلے میں شکاری پرندے بھی حصہ لیتے ہیں۔ سب سے اونچا اڑنے والا سرپنٹ ایگل یعنی سانپ کھانے والا عقاب ہوتا ہے جو اڑتے ہوئے آسمان پر بمشکل دکھائی دیتا ہے البتہ اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔
ایک دن جب میں وسط ہند میں فوجیوں کو جنگل میں لڑائی کی تربیت دے رہا تھا تو ان میں سے کئی پرندوں کے شوقین بھی تھے۔ ہمارے اوپر ایک سرپنٹ ایگل انتہائی بلندی پر اڑ رہا تھا۔ ان فوجیوں میں پورے برطانیہ سے آئے ہوئے رنگروٹ شامل تھے جو برما جانے والے تھے۔ کسی نے بھی سرپنٹ ایگل نہیں دیکھا تھا۔ جب ہم کھلے میدان میں پہنچے تو میں نے انہیں آسمان پر اڑتے دھبے کی طرف متوجہ کیا۔ اگرچہ سب کے پاس دوربینیں تھیں لیکن سب افسوس کر رہے تھے کہ عقاب اتنی بلندی پر ہے کہ اسے پوری طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔ انہیں خاموشی سے ایک جگہ رکنے کا کہہ کر میں نے تین انچ لمبی سیٹی پر ایک آواز نکالی۔ یہ سیٹی ایک جنگلی پودے کے تنے سے بنی تھی جس کے ایک سرے پر شگاف تھا۔ اس سے نکلنے والی آواز مرتے ہوئے ہرن کی آواز سے مشابہ لیکن اس سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ میں اسے جنگل میں تربیت کے دوران میں استعمال کرتا تھا کیونکہ یہ واحد قدرتی آواز ہے جو دن ہو یا رات، جنگلوں میں کہیں بھی سنائی دے سکتی ہے اور اس بات کے کم امکانات ہوتے ہیں کہ دشمن اس سے خبردار ہو۔ اگرچہ یہ عقاب سانپ کھاتا ہے لیکن اسے دوسرے گوشت سے بھی رغبت ہوتی ہے۔ میری آواز سنتے ہی عقاب نے خاموش ہو کر پر سمیٹے اور چند سو فٹ نیچے کا رخ کیا اور پھر چکر کاٹنے شروع کر دیے۔ ہر بار میری آواز پر یہ عقاب نیچے آتا گیا اور آخرکار درخت کی پھننگ جتنی بلندی پر پہنچا تو سب فوجیوں نے اسے پورے اطمینان سے دیکھا۔ اگر اس جماعت کا کوئی فرد برما سے بخیریت واپس آیا ہو اور ابھی یہ کتاب پڑھ رہا ہو تو اسے یاد ہو گا کہ انہیں اس بات پر کتنی مایوسی ہوئی تھی کہ میں عقاب کو کسی درخت پر بٹھانے میں ناکام رہا تھا ورنہ وہ تصویر کھینچ لیتے۔ خیر، اس بات کو بھول کر اب ہم جنگل کی دیگر دلچسپیوں کو دیکھتے ہیں۔
اس جنگل والے واقعے کے بعد آپ کی معلومات میں اب تک خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہو گا۔ اپنے بچاؤ کے احساس نے آپ کو بتایا ہو گا کہ انسانی آنکھ 180 ڈگری تک دیکھ سکتی ہے۔ پہلے کسی آواز کو سن کر اس کے ماخذ کا اندازا لگانا کتنا مشکل ہوتا تھا اور اب آپ کے لیے بچوں کا کھیل ہو گی۔ اس کے علاوہ آپ کسی پھول کی خوشبو سے اس کو جان سکتے ہیں چاہے وہ پھول درخت کی چوٹی پر ہو یا جنگل میں کچھ فاصلے پر پوشیدہ ہو۔ چاہے آپ جتنا بھی سیکھ چکے ہوں اور اس سے خوب لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنا تحفظ کرتے ہوں، پھر بھی بہت کچھ سیکھنے کو ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ آئیے ابھی علم میں تھوڑا سا مزید اضافہ کرتے ہیں۔
ہماری زمینوں کی شمالی حد پر سے گذرنے والی نہر جہاں لڑکیاں نہانے جاتی تھیں، ایک کھالے کی شکل میں پرانے دریا سے گذرتی ہے۔ اسے بجلی دنت یعنی بجلی والی نہر کہتے ہیں۔ سر ہنری ریمزے کی بنوائی ہوئی اصل نہر تو کئی برس قبل آسمانی بجلی گرنے سے تباہ ہو گئی تھی۔ چونکہ لوگوں کی توہم پرستی کے مطابق کسی جگہ آسمانی بجلی تبھی گرتی ہے جب کوئی شیطانی روح سانپ کی شکل میں اسے اپنی جانب بلائے، اس لیے پرانی نہر کے ستون وغیرہ کو چھوڑ کر اس کے ساتھ نئی نہر بنائی گئی جو نصف صدی سے ٹھیک جا رہی ہے۔ ہمارے دیہات کو آنے والے جنگلی جانور جو پانی سے گزرنا پسند نہیں کرتے، اس دس فٹ چوڑی نہر کے نیچے سے گذرتے ہیں۔ آئیے اسی جگہ سے چہل قدمی شروع کرتے ہیں۔
نہر کے نیچے ریت پر خرگوش، کاکڑ، سور، سیہی، لگڑبگڑ اور گیدڑ کے پگ ہیں۔ تاہم ہم صرف سیہی پر توجہ دیں گے۔ چونکہ ان پر ریت نہیں موجود، اس لیے یہ نشان اس وقت بنے جب رات کو ہوا تہم جاتی ہے۔ ہر پگ پر 5 انگلیاں اور ہتھیلی کا نشان واضح ہے۔ چونکہ سیہی دوسرے جانوروں کو شکار نہیں کرتی، اس لیے اس کے پچھلے پنجے اگلے پنجوں کے نشان کے اوپر نہیں پڑتے۔ ہر انگلی کے آگے ایک چھوٹا سا سوراخ دکھائی دیتا ہے جو سیہی کے مضبوط ناخن سے بنا ہے۔ سیہی کے پچھلے پیر نسبتاً لمبے ہوتے ہیں۔ تاہم ریچھ کے برعکس سیہی کے پچھلے پیر کی ایڑی پر کم لکیریں ہوتی ہیں۔ تاہم سیہی کے پچھلے پیر کی لکیریں دوسرے جانوروں سے فرق ہوتی ہیں۔ اگر آپ ریت پر جھک کر دیکھیں تو پگ کے پیچھے آپ کو سیہی کے کانٹوں سے بنی پتلی پتلی متوازی لکیریں بھی دکھائی دیں گی۔ سیہی اپنے کانٹے نہ تو پھینک سکتی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے جھاڑ سکتی ہے، اس لیے دفاع کے وقت سیہی اپنے کانٹے کھڑے کر کے پیچھے کو بھاگتی ہے۔ سیہی کے کانٹے خاردار ہوتے ہیں اور دم پر موجود کانٹے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ انہی کانٹوں کو کھڑکھڑا کر سیہی اپنے دشمنوں کو ڈراتی ہے اور انہیں پانی میں ڈبو کر بھرنے کے بعد سیہی اپنے بل تک پانی لے جاتی ہے تاکہ اسے ٹھنڈا کر کے مٹی سے پاک رکھے۔ سیہی عموماً سبزی خور ہوتی ہے اور پھلوں، جڑوں اور فصلوں پر گذارا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہرنوں کے اتارے ہوئے یا جنگلی کتوں، تیندوؤں اور شیر کے مارے ہوئے ہرنوں کے سینگ بھی کھاتی ہے۔ شاید اس سے اسے کوئی ایسے غذائی اجزاء ملتے ہوں جو وہ عام طور پر نہیں کھا پاتی۔ چھوٹی جسامت کے باوجود سیہی انتہائی بہادر ہوتی ہے اور ہر صورت اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
نہر سے چند سو گز آگے تک یہ گذر گاہ پتھریلی ہے اور کسی قسم کے پگ مشکل سے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم آگے چل کر باریک مٹی کا ایک میدان آتا ہے جہاں ہمیں پھر پگ دکھائی دیں گے۔ اس جگہ راستے کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں موجود ہیں جہاں سور، مور، ہرن اور جنگلی مرغ دن کے وقت چھپے ہوتے ہیں اور رات کو تیندوے، شیر اور سیہی خوراک کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ دن کے وقت آپ یہاں جنگلی مرغیوں کو چگتے دیکھ سکتے ہیں اور ان سے سو گز دور ان کا جانی دشمن عقاب سیمل کے ٹنڈ منڈ درخت پر بیٹھا ہے۔ یہ عقاب نہ صرف جنگلی مرغیوں بلکہ موروں کا بھی دشمن ہے۔ تاہم جنگل میں چوزوں اور بڑی عمر کے پرندوں کی تعداد میں یکسانیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پرندے اپنا بچاؤ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے کبھی ان پرندوں کے شکار میں مداخلت نہیں کی۔ تاہم ایک دن میں نے ہرن کی چیخ سنی تو دیکھا کہ ایک ماہ کی عمر کا چیتل کا بچہ عقاب کے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور عقاب اس کے سر پر ٹھونگے مار رہا تھا۔ بچے کی ماں بار بار حملہ کر رہی تھی لیکن اس کے منہ پر لگے زخموں سے اندازا ہو رہا تھا کہ عقاب اس کے بس کی بات نہیں۔ اگرچہ عقاب کو تو میں نے مار دیا لیکن بچے کو بچانا بھی ممکن نہیں تھا کہ کیونکہ نہ صرف وہ بہت زخمی تھا بلکہ اس کی دونوں آنکھیں بھی عقاب نے نوچ لی تھیں۔ اس لیے بچے کو بھی مارنا پڑا۔ اس دن کے بعد سے کئی بار یہ عقاب میرے ہاتھوں شکار ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کے اتنا پاس پہنچنا مشکل ہوتا ہے کہ بندوق سے مارا جا سکے لیکن رائفل پر اچھا نشانہ ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم ابھی ہم چونکہ سیر پر نکلے ہیں، اس لیے اس عقاب کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ میرے غلیل سے شکار والے دنوں میں میں نے اس نسل کے عقاب کی ایک خونخوار لڑائی دیکھی تھی۔ شاید عقاب نے غلطی سے ایک جنگلی بلی کو خرگوش سمجھ کر حملہ کیا تھا۔ پھر یہ جد و جہد زندگی اور موت کی جنگ بن گئی۔ بدقسمتی سے اس وقت تصویر کشی محض سٹوڈیو تک محدود رہتی تھی اور وڈیو بنانا ممکن نہیں تھا، ورنہ اس جنگ کی بہترین وڈیو بنتی۔ دونوں کے پاس اس جنگ جیتنے کے بہترین ہتھیار تھے۔ اگر بلی کی نو زندگیاں ہوتی ہیں تو عقاب کے پاس دس زندگیاں۔ اس لڑائی کا اختتام بھی کچھ ایسے ہی ہوا۔ آخرکار عقاب لڑائی جیت گیا اور دریا پر بنے ایک تالاب سے اپنی پیاس بجھانے کے بعد اس نے اپنی جان دے دی۔
ان خاردار جھاڑیوں سے کئی پگڈنڈیاں نکلتی ہیں۔ جتنی دیر ہم عقاب کو دیکھتے رہے، ایک چھوٹا کاکڑ ان جھاڑیوں سے نکلا اور آبی گذر گاہ کو روانہ ہوا۔ اس کھلی جگہ پر بھی کھروں کے بل چلتا ہوا کاکڑ ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کو تیار تھا اور خطرہ دیکھتے، سنتے یا بھانپتے دوڑ پڑتا۔ بعض اوقات شکاری کاکڑ کو کمینہ اور بزدل جانور گردانتے ہیں اور اس کی آواز پر بھروسا نہیں کرتے۔ میں اس بارے ان شکاریوں سے اختلاف کرتا ہوں۔ ویسے بھی کمیں گی خالص انسانی برائی ہے اور یہ بھی کہ انتہائی گھنے جنگل میں کاکڑ کی نسبت اور کوئی جانور شیروں کے قریب نہیں رہتا۔ جنگل میں پیدل شکار کرنے کے لیے کاکڑ سے بہتر مخبر کوئی نہیں۔ چھوٹا اور بے ضرر ہونے کی وجہ سے اس کے بے شمار دشمن ہیں۔ اگر ہانکے میں شیر کی بجائے جنگلی بلی یا اژدہے کو بھی دیکھ کر یہ کاکڑ بھونکے تو ہمیں اس پر ترس کھانا چاہیے نہ کہ اسے بزدل اور کمینہ گردانیں۔ اس کے لیے اژدہا اور جنگلی بلی بھی جانی دشمن ہیں اور انہیں دیکھ کر بھونکنا اس کی مجبوری ہے۔
کاکڑ کے دو لمبے اور تیز دانت بالائی جبڑے سے باہر نکلے ہوتے ہیں جو کاکڑ کے دفاع کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس کے سینگ مڑے ہوئے اور چھوٹے ہوتے ہیں اور دفاع میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ہندوستانی اخبارات میں کافی عرصہ کاکڑ کی اس آواز پر بحث چلتی رہی جو دو ہڈیوں کے ٹکرانے سے مشابہ ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ مانتے تھے کہ کاکڑ کی ٹانگوں میں دہرے جوڑ ہوتے ہیں اور بھاگتے ہوئے یہ آواز نکلتی ہے جبکہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی وجہ سے اس کے لمبے دانت دیگر دانتوں سے ٹکرا کر یہ آواز نکالتے ہیں۔ تاہم یہ سارے خیالات غلط ہیں۔ یہ آواز کاکڑ اسی طرح نکالتا ہے جیسے دیگر آوازیں، چاہے یہ آواز کسی انجانی چیز کو دیکھنے پر ہو، کتے کو دیکھ کر یا اپنے جوڑے کے ساتھ ہو۔ خطرے کے وقت کاکڑ کی آواز اوسط جسامت کے کتے کے بھونکنے سے مشابہ ہوتی ہے۔
جتنی دیر کاکڑ یہ راستہ عبور کرتا، ہمارے دائیں جانب سے پھل اور کیڑے کھانے والے پرندوں کا ایک جھنڈ آن پہنچا۔ اس جھنڈ میں مقامی اور مہاجر، دونوں ہی اقسام شامل تھیں۔ جتنی دیر یہ ہمارے اوپر اڑتے اور آس پاس درختوں پر بیٹھتے رہے، مشاہدے کا عمدہ موقع تھا۔ جب پرندے بالکل قریب نہ ہوں تو ان کے بیٹھنے پر ان کی شناخت یا رنگوں کی پہچان میں اکثر مسئلہ ہوتا ہے۔ تاہم اڑتے ہوئے پرندوں کی شناخت بہت آسان ہوتی ہے جو پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور ان کی شکل پر منحصر ہوتی ہے۔ چہچہاتے اور شور مچاتے پرندے آن پہنچے۔ کچھ اقسام کے پرندے ایسی جگہوں پر بیٹھ گئے جہاں وہ دیگر پرندوں کی چھیڑ چھاڑ سے اڑنے والے پتنگے بخوبی دیکھ سکتے تھے اور بار بار اڑ کر اپنا پیٹ بھرتے تھے۔
دو تین سو پرندے ہوں گے۔ خیر، یہ سارے پرندے اب ہمارے بائیں جانب جنگل میں گم ہو گئے ہیں اور اب ہمیں محض جنگلی مرغیوں کے دانا دنکا چگنے کی آوازیں آ رہی ہیں اور واحد پرندہ جو دکھائی دے رہا ہے، وہ سیمل کے درخت پر بیٹھا عقاب ہے جو انتہائی صابر اور شاکر پرندہ ہوتا ہے۔ خاردار جھاڑیوں کے پرے پارک نما منظر ہے اور جنگلی آلو بخارے کے بڑے بڑے درخت ہیں۔ اس سمت سے ہمیں سرخ بندروں کی خطرے کی آواز آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیندوا دکھائی دیا ہے۔ اس طرح کھلے میں پھرنے کی وجہ شاید یہ ہو کہ تیندوا شکار کی تلاش میں نہیں بلکہ دن کا گرم وقت گذارے کسی کھائی کو جا رہا ہے۔ آلو بخارے کے درختوں کے پاس گذرنے والی پگڈنڈی انسانوں اور جانوروں، دونوں کے استعمال میں ہے۔ ہمارے موجودہ مقام سے دو سو گز دور یہ راستہ اس آبی گذر گاہ سے گذرتا ہے اور میں تقریباً یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قدم بڑھا کر ڈیڑھ سو گز دور بائیں جانب چھپ کر بیٹھ جائیں تو تیندوا لازمی دکھائی دے جائے گا۔ آبی گذر گاہ پچاس گز چوڑی ہے اور بائیں جانب کے کنارے پر گھنے درختوں پر لنگور موجود ہیں۔ سرخ بندروں کی طرف سے خطرے کی اطلاع سن کر سب لنگوروں نے اپنے بچوں چھپا لیے ہیں اور ان کی آنکھیں اسی جانب ہیں جہاں سے خطرے کی اطلاع آئی تھی۔
ہمیں تیندوے کے انتظار میں آنکھیں تھکانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ چھوٹا لنگور جو درخت پر سب سے نمایاں جگہ پر بیٹھا ہے، ہمیں تیندوے کی آمد کی خبر دے گا۔ سرخ بندروں کی نسبت لنگور تیندوے کو دیکھنے پر مختلف ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ان کا منظم ہونا یا پھر بہادری ہو۔ سرخ بندر ہمیشہ تیندوے کو دیکھتے ہی شور مچاتے اور چیختے ہوئے درختوں پر ہر ممکن حد تک تیندوے کا پیچھا کرتے ہیں۔ تاہم لنگوروں ایسا کچھ نہیں کرتے۔ جب چھوٹا لنگور تیندوے کو دیکھتا ہے تو "کھوک، کھوک، کھوک” کی آواز نکالتا ہے۔ جب غول کا سربراہ چھوٹے لنگور کی مدد سے تیندوے کو دیکھ لیتا ہے تو خطرے کی آواز خود نکالتا ہے جبکہ چھوٹا لنگور چپ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد صرف سربراہ اور غول کی سب سے بوڑھی مادہ ہی آواز نکالے ہیں۔ بوڑھی مادہ کی آواز چھینک سے مشابہ ہوتی ہے اور تیندوے کا پیچھا نہیں کیا جاتا۔ اب آپ دیکھیں کہ چھوٹا لنگور گردن بڑھا کر مختلف سمتوں میں دیکھ رہا ہے۔ جب اس نے تیندوے کو دیکھ لیا تو پھر بھونکتا ہے۔ ایک دو ساتھی بھی جوش کے مارے آواز نکالتے ہیں۔ اتنی دیر میں سربراہ بھی تیندوے کو دیکھ لیتا ہے اور شور کرتا ہے۔ اگلے ہی لمحے بوڑھی مادہ بھی شامل ہو جاتی ہے جو "چھ، چھ، چھ” چھینک سے مماثل ہے۔ سارے چھوٹے لنگور اب چپ ہو کر محض سر ہلانے اور مختلف شکلیں بنانے میں مصروف ہیں۔ تاہم انہیں یہ تسلی ہے کہ تیندوا بھوکا نہیں، ورنہ اس طرح کھلے میں نہ دکھائی دیتا بلکہ چھپ کر ان تک پہنچتا۔ چست اور نسبتاً وزنی ہونے کی وجہ سے تیندوے کو لنگور پکڑنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی۔ سرخ لنگور ہمیشہ شاخوں کے انتہائی سرے پر آرام کرتے ہیں جہاں تیندوے کو اپنے وزن کی وجہ سے جاتے ہوئے جھجھک ہوتی ہے۔
پچاس گز دور، سر اٹھا کر شان سے چلتے ہوئے تیندوا لنگوروں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا۔ سورج اس کے پیچھے چمک رہا ہے اور اس کی کھال پر موجود چتیاں دلفریب دکھائی دیتی ہیں۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے ایک بار دائیں اور بائیں دیکھا اور ہمیں نہ دیکھ سکا اور آرام سے چلتا گیا۔ دوسرے کنارے پر چڑھ کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا لیکن لنگوروں نے خطرے کی آواز سے جنگل کو آگاہی دینے کا کام جاری رکھا۔
آئیے تیندوے کے پگ دیکھتے ہیں۔ تھوڑی دور پگڈنڈی سرخ مٹی سے گذرتی ہے جو ننگے انسانی پیروں تلے خوب سخت ہو چکی ہے۔ اس مٹی پر گرد کی ہلکی سی تہہ موجود ہے۔ فرض کر لیں کہ ہم نے تیندوے کو گذرتے نہیں دیکھا اور اتفاق سے ہم تیندوے کے پگ پر آن پہنچے ہیں۔ دیکھتے ہی ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ پگ بالکل تازہ ہیں اور تیندوا ابھی ابھی یہاں سے گذرا ہے۔ تازہ ہونے کے بارے ہمیں اس طرح پتہ چلا ہے کہ پگ کے کنارے بالکل سیدھے کھڑے ہیں اور تلوے والی جگہ مسطح ہے۔ جوں جوں وقت گذرتا جائے گا، سورج کی روشنی اور ہوا کی وجہ سے پگوں کے کنارے ٹوٹے جائیں گے۔ کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں بھی پگ سے گذریں گی اور ہوا سے مٹی بھی اس پر آن گرے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ نشان مٹ جائیں گے۔ تیندوے، شیر، سانپ یا ہرن وغیرہ کے پگ سے ان کی "عمر” کا اندازا لگانے کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ تاہم چند باتیں اہم ہوتی ہیں جیسا کہ آیا پگ کسی پوشیدہ جگہ پر ہیں کہ کھلے میں، دن اور رات کو کون کون سے کیڑے مکوڑے کس وقت حرکت کرتے ہیں، ہوا کے چلنے کے عام اوقات کیا ہیں، شبنم کس وقت گرتی ہے وغیرہ وغیرہ کی مدد سے ہمیں تقریباً درست اندازا ہو سکتا ہے کہ یہ پگ کتنے پرانے ہیں۔ ابھی ہم نے پگ دیکھ کر اس کے تازہ ہونے کے بارے اطمینان کر لیا ہے۔ تاہم پگ سے اور بھی کئی معلومات پتہ چل سکتی ہیں، جیسا کہ یہ تیندوا نر تھا یا مادہ، نوجوان تھا کہ بوڑھا اور یہ بھی کہ آیا چھوٹی جسامت کا حامل تھا کہ بڑی جسامت کا۔ پگ کی گول شکل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ پگ نر تیندوے کے ہیں۔ پنجے کے تلوے پر کسی قسم کی سلوٹوں اور لکیروں کے نہ ہونے سے ہمیں تسلی ہو گئی کہ یہ تیندوا نوجوان ہے۔ جسامت کے بارے ہم محض اندازا ہی لگا سکتے ہیں اور اندازے کے لیے ہمارے پاس مشاہدہ اور تجربہ ہونا چاہیے۔ تجربے اور مشاہدے سے آپ تیندوے یا شیر کی لمبائی کے بارے اس حد تک درست اندازا لگا سکتے ہیں جو ایک یا دو انچ ہی غلط ہو گا۔ مرزا پور کے کول لوگوں سے شیر کے پگ دکھا کر جب شیر کی لمبائی پوچھی جائے تو وہ گھاس کا ایک تنکا لے کر پگ کی پیمائش کرتے ہیں اور پھر تنکا زمین پر رکھ کر اپنی انگلیوں کی چوڑائی سے ماپتے ہیں۔ تاہم اس پیمائش کی درستی کے بارے میں کچھ کہنے سے معذور ہوں۔ میں خود پگ کی شکل سے ہی اندازا لگاتا ہوں چاہے جو بھی طریقہ آزمایا جائے، اندازا اندازا ہی رہتا ہے، سو فیصد یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جہاں راستہ نالے سے گذرتا ہے اس سے تھوڑا آگے جا کر راستہ ریت کی تنگ سی پٹی سے گذرتا ہے اور اس کے ایک جانب اونچا کنارہ جبکہ دوسری جانب چٹان ہے۔ اس جگہ ریت سے چیتل کا غول گذرا ہے۔ جنگل میں کسی غول کے جانوروں کی کل تعداد اور اس کے مختلف اراکین کے بارے دیگر معلومات جاننا کافی مفید ہوتا ہے اور اگلی بار جب آپ اس غول کو دیکھتے ہیں تو آپ اس کے اراکین کے بارے زیادہ جان سکتے ہیں۔ اگر غول کھلے میدان میں ہو تو آپ ان کے نروں کے سینگوں کی لمبائی، مادہ اور بچوں کی تعداد کے بارے اچھا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر کبھی ایسا ہو کہ کچھ جانور تو سامنے ہوں اور کچھ جنگل یا جھاڑیوں میں چھپے ہوں تو ان سب کو سامنے لانے کا ایک طریقہ بتاتا ہوں جو دس میں سے نو بار کامیاب رہتا ہے۔ چیتلوں سے مناسب فاصلے پر پہنچ کر کہ جہاں سے آپ کی آواز جا سکے، کسی درخت یا جھاڑی کے پیچھے چھپ کر تیندوے کی آواز نکالیں۔ سارے ہی جانور آواز کے ماخذ کو فوراً جان لیتے ہیں۔ جب سامنے موجود چیتل آپ کی سمت دیکھنے لگیں تو درخت کے تنے کے پیچھے سے اپنا کندھا نکال کر یا جھاڑی کے کچھ پتوں کو ہلائیں تو چیتل فوراً خطرے کی آواز نکالے گا اور فوراً ہی اس کے ساتھی جھاڑیوں سے نکل کر دائیں بائیں جمع ہو کر آپ کی طرف دیکھنے لگیں گے۔ اس طرح ایک بار میں نے پچاس چیتل ایک ساتھ دیکھے اور آرام سے ان کی تصاویر اور وڈیو لی تھی۔ تاہم ایک ضروری احتیاط کیجئے گا کہ پورا اطمینان کر لیں کہ اس جنگل دوسرا کوئی شکاری موجود نہ ہو۔ اس کے بعد بھی اپنی تسلی کے لیے مسلسل چاروں طرف سے خبردار رہیئے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے یہ واقعہ دیکھیں۔ ایک بار رات کو میں نے تیندوے کی آواز بار بار سنی۔ آواز سے اندازا ہوتا تھا کہ تیندوا کسی تکلیف میں ہے۔ اگلی صبح روشنی ہونے سے قبل ہی میں تیندوے کی تلاش میں نکلا کہ دیکھوں تو سہی کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ تیندوے نے رات کو اپنی جگہ بدل لی تھی اور اب کچھ دور کی پہاڑی پر چلا گیا تھا تاہم اس کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔ ایک جگہ جہاں راستہ کھلے میدان میں داخل ہوتا تھا، میں نے ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر تیندوے کی آواز نکالی۔ اگر تیندوا آتا تو میں اسے فوراً دیکھ لیتا۔ ہمارے درمیان میں آوازوں کا مسلسل تبادلہ ہوتا رہا اور صاف لگ رہا تھا کہ تیندوا انتہائی احتیاط سے آ رہا ہے۔ جب تیندوا تقریباً سو گز دور رہ گیا تو میں خاموش ہو گیا۔ کہنیوں کے بل میں لیٹا ہوا تیندوے کا منتظر تھا کہ پیچھے پتوں کے سرکنے کی آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک رائفل کی نال سیدھی میری جانب تھی۔ گذشتہ شام میری لاعلمی میں نینی تال کے ڈپٹی کمشنر کیسلز اور کرنل وارڈ فارسٹ بنگلے آن پہنچے تھے اور انہوں نے تیندوے کا ایک بچہ شکار کیا تھا۔ رات بھر اس کی ماں اپنے بچے کو بلاتی رہی۔ صبح کو وارڈ نے ہاتھی پر سوار ہو کر مادہ تیندوے کی تلاش شروع کی۔ شبنم گری ہوئی تھی اور مہاوت اپنے کام میں ماہر تھا، اس لیے وہ میری لاعلمی میں بغیر آواز نکالے انتہائی قریب پہنچ گئے۔ تاہم وارڈ کی نظر کمزور تھی اس لیے کم روشنی میں دس گز کی دوری سے وہ نشانہ نہ لے سکا۔ مہاوت نے ہاتھی کو آگے بڑھایا اور ہاتھی نے سونڈ سے کچھ شاخیں ہٹا دیں۔ خوش قسمتی سے ہاتھی نے ایک شاخ چھوڑی تو اس کی آواز سن کر میں مڑا تو وارڈ کو بھاری رائفل سے نشانہ لیتے پایا۔
ابھی ہم پچھلی شام یہاں ریت کی پٹی پر سے گذرنے والے چیتلوں کے پگ کو دیکھ رہے ہیں۔ پگوں کے اوپر ثبت شب بیدار کیڑوں کے گذرنے اور اوس کے نشانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پگ گذشتہ شام کے ہیں۔ اگرچہ یہ غول اب نجانے کہاں ہو گا، لیکن پھر بھی میں آپ کو ان کی تعداد کے بارے بتاتا ہوں کہ کیسے پتہ چلے گی۔ فرض کیجئے کہ چیتل کھڑا ہے۔ اس کے اگلے اور پچھلے کھروں کا درمیانی فاصلہ اڑھائی فٹ ہے۔ اب ایک لکڑی لے کر آپ راستے کے آر پار ایک لکیر لگا دیں۔ پھر اس سے اڑھائی فٹ کے فاصلے پر دوسری لکیر لگا دیں۔ اب آپ چھڑی کی مدد سے تمام پگ شمار کرتے جائیں۔ جو جواب آئے، اسے دو پر تقسیم کریں۔ مثلاً 30 کھر گنے ہیں تو انہیں دو پر تقسیم کرنے سے 15 جواب آئے گا۔ یہی تعداد اس غول میں چیتلوں کی ہے۔ اس طریقے سے چاہے پالتو جانور ہوں یا جنگلی، ان کی تعداد اگر دس یا اس سے کم ہو تو بالکل درست اور اگر دس سے زیادہ ہو تو تقریباً درست پتہ چلتی ہے۔ تاہم اگلے اور پچھلے کھروں کا فاصلہ لازمی معلوم ہونا چاہئے۔ یاد رہے کہ جنگلی کتے، سور اور بھیڑ بکری میں یہ فاصلہ اڑھائی فٹ سے کم جبکہ بڑے جانوروں جیسا کہ گائے بیل اور سانبھر وغیرہ میں اڑھائی فٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔
جو افراد میرے ساتھ جنگل میں فوجی تربیت میں شامل نہیں رہے، ان کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ جنگل میں انسانی نقشِ پا دیکھ کر بہت سی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، چاہے یہ نشان سڑک پر ہوں، پگڈنڈی یا کسی گذر گاہ پر یا کسی بھی ایسی جگہ پر جہاں کہ یہ نشان بن سکیں۔
فرض کیجئے کہ ہم کسی ایسے جنگل میں ہیں جو دشمن کے قبضے میں ہے۔ یہاں ایک جگہ ہمیں انسانی قدموں کے نشان ملتے ہیں۔ ان کی شکل صورت، کیلوں کی موجودگی یا عدم موجودگی، حجم، لوہے کی پتری یا ہموار ایڑی، چمڑے یا ربر کے تلوے وغیرہ سے بخوبی اندازا ہو سکتا ہے کہ یہ نشان ہمارے ساتھیوں کے نہیں بلکہ دشمن کے ہیں۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نشان کب بنے اور اس جماعت میں کتنے افراد تھے۔ وقت کا تعین کرنا آپ سیکھ چکے ہیں۔ اب آپ ایک نشان کی ایڑی کے ساتھ راستے پر لکیر کھینچ دیں۔ پھر اڑھائی فٹ آگے ایک اور لکیر لگا دیں۔ اس فاصلے میں موجود ایڑیوں کے نشان سے مطلوبہ افراد کی تعداد کا پتہ چل جائے گا۔ ان نشانات سے بہت مفید معلومات مل سکتی ہیں لیکن سب سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ان افراد کے حرکت کرنے کی رفتار کا علم ہو جاتا ہے۔ عام رفتار سے چلنے سے وزن ایڑی اور پنجوں پر برابر ہوتا ہے۔ جوں جوں رفتار تیز ہوتی جائے گی، ایڑی پر کم اور پنجوں پر زیادہ وزن آتا جائے گا اور دونوں پیروں کا درمیانی فاصلہ بڑھتا جائے گا۔ پوری رفتار سے دوڑنے پر ایڑی کا معمولی سا نشان بنتا ہے جبکہ پنجے کا نشان بہت گہرا ہوتا ہے۔ اگر دس یا بارہ افراد کی جماعت ہو تو خون یا لنگڑانے کے نشانات سے ان کے زخمی ہونے کا بھی اندازا ہو سکتا ہے۔
اگر آپ جنگل میں زخمی ہو جائیں تو میں آپ کو ایک جنگلی پودا دکھاؤں گا جو عام سا دکھائی دیتا ہے لیکن خون روکنے اور زخم بھرنے میں اس کا مقابلہ کوئی دوائی بھی نہیں کر سکتی۔ یہ پودا ہر جنگل میں ملتا ہے اور ایک فٹ لمبائی تک پہنچتا ہے۔ اس کا پھول گلِ داؤدی سے مماثل ہے اور لمبا اور باریک تنا ہوتا ہے۔ اس کے پتے بھرے بھرے اور ان پر رگیں بنی ہوتی ہیں۔ طریقہ استعمال یہ ہے کہ اس بوٹی کے چند پتے توڑ کر اگر ممکن ہو تو پانی سے دھو کر گرد وغیرہ صاف کر لیں اور انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے ان کا رس زخم پر اچھی طرح نچوڑیں۔ مزید کسی دوا کی ضرورت نہیں۔ اگر زخم گہرا نہ ہوا تو ایک یا دو دن میں بھر جائے گا۔ عرفِ عام میں اس بوٹی کو "برہم بوٹی” یا خدائی پھول کہتے ہیں۔
ہندوستان اور برما کے جنگلوں میں جنگ کے برسوں میں آپ میں سے بہت سارے لوگ میرے اچھے ساتھی تھے اور چونکہ وقت کم تھا تو آپ کی تربیت کے لیے مجھے بہت زیادہ سختی کرنی پڑی تھی۔ امید ہے کہ آپ لوگ اس وقت کی مشکلات کو بھول چکے ہوں گے۔ یہ بھی امید کرتا ہوں کہ ہم نے جو کچھ سیکھا تھا، وہ آپ کو یاد ہو گا مثلاً جنگل میں کون سے پھول، پھل اور جڑیں کھائی جا سکتی ہیں، چائے اور کافی کے متبادل کن کن اجزاء سے تیار ہوتے ہیں، بخار، چھالوں اور گلے کی خرابی کے لیے کون سے پودے، چھال اور پتے فائدہ مند ہیں، کون سی چھالوں اور بیلوں کی مدد سے سٹریچر بنایا جا سکتا ہے، بھاری سامان اور ہتھیار دریا یا کھائی پار لے جانے کے لیے رسیاں کیسے بنائی جاتی ہیں، خندق میں پیروں کو کیسے محفوظ رکھنا ہے، گرمی سے بچاؤ، آگ جلانا، گیلے جنگل میں خشک لکڑی کا حصول، آتشیں اسلحے کے بناء جنگلی جانوروں کا شکار کرنا، دھاتی برتنوں کے بغیر چائے بنانا، نمک کا متبادل، سانپ کے کاٹے، زخموں اور پیٹ خرابی کا علاج کیسے کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جنگل میں جنگلی حیات کو چھیڑے بغیر کیسے تندرست رہنا ہے۔ یہ سب اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جو ہم نے ہندوستان کے پہاڑوں اور میدانوں سے لے کر برطانیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکا سے لے کر کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر جگہوں پر ایک ساتھ سیکھا تھا۔ تاہم یہ سب سیکھنے کا مقصد جنگل میں بقیہ زندگی گذارنا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد آپ کو جنگل میں محفوظ طریقے سے کچھ عرصہ گذارنے اور دشمنوں کو یہ بتانا ہے کہ آپ ان سے بہتر ہیں۔ تاہم اس دوران میں ہم نے جو کچھ بھی سیکھا ہے، وہ محض ابتداء ہی ہے، کیونکہ کتابِ قدرت کا نہ تو کوئی آغاز ہے اور نہ ہی کوئی انجام۔
ابھی کافی وقت باقی ہے۔ اب ہم پہاڑ پر اتنی بلندی پر پہنچ گئے ہیں کہ نباتات بدل گئی ہیں۔ جگہ جگہ انجیر اور آلو بخارے کے درخت موجود ہیں اور ان پر کئی اقسام کے پرندے موجود ہیں۔ آئیے اس بڑی چونچ والے ہارن بِل کو دیکھتے ہیں۔ ہارن بِل اپنے گھونسلے کھوکھلے درختوں میں بناتے ہیں اور انڈے سینے کے اوقات میں اپنی مادہ کو گھونسلے کے اندر قید کر دیتے ہیں۔ مادہ اپنے پرانے پر جھاڑ دیتی ہے اور بہت موٹی ہو جاتی ہے۔ جب انڈوں سے بچے نکلتے ہیں، جو عموماً دو ہوتے ہیں، تو مادہ اڑنے کے قابل نہیں ہوتی۔ مادہ عموماً دو انڈے دیتی ہے۔ نر کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ اسے پورے خاندان کو کھانا پہچانا ہوتا ہے۔ ہارن بِل کی چونچ بہت بڑی اور آواز بھی اسی مناسبت سے اونچی ہوتی ہے۔ اڑنے میں پیش آنے والی مشکلات سے ایسا لگتا ہے کہ ہارن بِل ارتقاء کے کچھ مراحل سے نہیں گزر پایا۔ عرصہ دراز قبل شاید ہارن بِل کے دشمن بہت ہوتے تھے، اس لیے وہ اپنی مادہ کو درخت میں قید کر کے مٹی سے سوراخ بند کر دیتا ہے۔ محض اتنی سی جھِری باقی رہتی ہے کہ مادہ اپنی چونچ سے نر سے خوراک وصول کر سکے۔ تاہم تمام پرندے جو کھوکھلے درختوں میں رہتے ہیں، کے دشمن ایک جیسے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے پرندے تو چھوٹے اور بے بس بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ماداؤں کو قید نہیں کرتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی طاقتور اور بڑی چونچ کے باوجود ہارن بِل اپنی مادہ کو درخت میں کیوں قید کرتا ہے؟ اس کے علاوہ ہارن بِل کی ایک اور عادت بھی ہے جو کسی اور پرندے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ اپنے پروں پر رنگ بکھیرتا ہے۔ پیلا رنگ اس کی دم کے اوپر ایک تھیلی نما جھلی میں ہوتا ہے اور ہارن بل اپنے پروں کے بیرونی کنارے پر موجود سفید پٹی پر اپنی چونچ سے بکھیرتا ہے۔ اب ہارن بِل ایسا رنگ کیوں ڈالتا ہے جو ہر بار بارش کے بعد دھل جائے؟ شاید کیموفلاج کی وجہ سے ایسا کرتا ہو؟ تاہم موجودہ دور میں ہارن بل کے لیے خطرہ صرف تیندوے سے ہی ہوتا ہے اور تیندوے کے سامنے اس کیموفلاج کی کوئی حیثیت نہیں۔
ہارن بِل کے علاوہ بھی کئی اقسام کے پرندے انجیر اور آلو بخارے کھا رہے ہیں۔ ان میں دو اقسام کے ہریل، بلبل، طوطے اور کئی اقسام کی چڑیاں ہیں۔
انجیر کے درخت کے پاس سے فائر ٹریک گذرتا ہے اور اسے عبور کرتے ہی جنگلی جانوروں کی ایک گذر گاہ سامنے آتی ہے۔ یہ گذر گاہ سیدھا پہاڑی کو جاتی ہے جہاں نمک ملتا ہے (جنگل میں ایسی جگہ کو چاٹن کہتے ہیں ) اور پانی کا ایک مختصر سا چشمہ بھی ہے۔ چشمے اور نمک کے درمیان میں ایک کٹا ہوا درخت ہے۔ اس درخت پر بہت عرصے تک چور شکاری مچانیں باندھ کر شکار کرتے رہے تھے۔ چاٹن اور پانی کے پاس بیٹھ کر شکار کرنا منع ہوتا ہے لیکن چور شکاری اس کی پروا نہیں کرتے۔ بار بار مچان اتارنے سے فرق نہیں پڑا تو میں نے درخت ہی کٹوا دیا تھا۔ تاہم درندے شکار کے سلسلے میں اس بات کی پروا نہیں کرتے اور انہیں زیادہ تر شکار ملتا ہی چاٹن اور پانی کے قریب ہے۔ ایسی جگہوں پر آپ کو مختلف مردہ جانوروں کی ادھ کھائی ہڈیاں اور سینگ ملیں گے جو سیہی چھوڑ جاتی ہے۔ چاٹن اور پانی کے آس پاس گھنا جنگل ہوتا ہے جہاں بندر اور ہرن رہتے ہیں۔
آئیے اب پہاڑی پر چڑھتے ہیں جو چاٹن کے بعد سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے تاکہ پورے علاقے پر طائرانہ نگاہ ڈالیں۔ ہمارے سامنے موجود جنگل میں وہ نہر موجود ہے جہاں سے ہماری مٹرگشت شروع ہوئی تھی۔ یہ جنگل قدرتی ہے اور اس میں لکڑی بیکار نوعیت کی ہے اور اسی وجہ سے یہ انسانی دست و برد سے محفوظ رہا ہے۔ سامنے موجود سبز دھبے شیشم کے پودے ہیں جن کے بیج سیلاب میں بہہ کر یہاں تک پہنچے تھے۔ جب یہ پودے جوان درخت بنیں گے تو ان سے بیل گاڑی کے بہترین پہیئے اور عمدہ فرنیچر بنے گا۔ گہرے سبز رنگ کے دھبے رونی کے درخت ہیں جن کے نیچے رس بھری کی جھاڑیاں موجود ہیں۔ ان درختوں کے پھل سے کمالا پاؤڈر بنتا ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مکھن رنگنے کے کام آتا تھا۔ یہ پاؤڈر مختلف ادویات میں بھی کام آتا ہے اور جب رونی کے پھل کو سرسوں کے تیل میں ابالتے ہیں، تو یہ تیل گٹھیا کے مرض میں مفید ہے۔
شیشم اور رونی کے درختوں کے ساتھ ساتھ ملائم پتوں والے کھیر کے درخت بھی ہیں۔ اس درخت کی لکڑی سے ہل بھی بنتا ہے اور علاقے کے ہزاروں غریب افراد کو روزی کمانے کا وسیلہ بھی مہیا کرتا ہے۔ تاہم یہ صنعت محض سرمائی ہے اور کاجو پیدا کرتی ہے اور چار ماہ کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اضافی پیداوار کے طور پر خاکی رنگ بھی پیدا ہوتا ہے جو میرے علم کے مطابق میرے دوست مرزا نامی ایک شخص نے اتفاقاً دریافت کیا تھا۔ سنا ہے کہ ایک دن کھیر کے ابلتے ہوئے کڑھاؤ میں مرزا کا سفید رو مال گر گیا۔ لکڑی سے اس نے رو مال نکال کر دھلنے بھیجا تو واپسی پر رنگ جوں کا توں ملا۔ جب اس نے دھوبی کو بلا کر ڈانٹا تو دھوبی نے ہاتھ جوڑے کہ اس نے ہر ممکن طریقے سے رنگ اتارنے کی کوشش کی ہے لیکن ناکام رہا۔ اب یہ رنگ عزت نگر کی فیکٹری میں بنتا ہے اور مرزا دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔
سبز رنگ کے کئی شیڈز کے ساتھ ساتھ ہر درخت کا اپنا رنگ ہے۔ سبز کے علاوہ نارنجی، سنہرے، سفید، گلابی اور لال رنگ کے درخت بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مالٹائی رنگ والے پھولوں کا درخت دھنک ہے۔ تین فٹ لمبے سنہرے پھولوں والا درخت املتاس کا ہے۔ دو فٹ لمبی املتاس کی پھلیوں میں نرم گودا ہوتا ہے جو کماؤں کے علاقے میں قبض کشا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بڑے اور خوبصورت پھولوں والا درخت کچنار کا ہے۔ گلابی رنگ والے درخت کسم کے ہیں۔ گلابی رنگ پھولوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کونپلوں کا ہے۔ سرخ رنگ کے درخت سیمل کے ہیں جس سے پرندے رس چوسنے آتے ہیں۔ طوطے اور بندر اس کے پھول کھاتے ہیں اور گرنے والے پھول بعد میں ہرنوں اور سوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ بعد میں پھولوں کی جگہ بیجوں بھری پھلیاں بن جائیں گی۔ اپریل میں گرم ہوا لگنے سے جب یہ پھلیاں پھٹیں گی تو اس سے سفید کاٹن کے بادل نکلیں گے اور ہوا کے ساتھ ساتھ اڑتے ہوئے دور دور جا گریں گے۔ چونکہ ہر بیج پرندوں اور جانوروں کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں پہنچ سکتا، اس لیے ان میں مختلف اقسام کے پر وغیرہ لگے ہوتے ہیں جو پانی یا ہوا کی مدد سے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔
نہر سے آگے ہمارا گاؤں ہے جہاں سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا۔ شوخ سبز اور سنہرے دھبے کھیتوں میں اگتی گندم اور جوان سرسوں کے ہیں۔ گاؤں کے نیچے سفید لکیر گاؤں کی دیوار کو ظاہر کرتی ہے۔ اس دیوار کو تعمیر کرنے پر دس سال لگے تھے۔ اس کے بعد پھر مسلسل گھنے جنگلوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو افق کے پار تک چلا جاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک، تا حدِ گاہ جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے پیچھے اونچی ہوتی ہوئی پہاڑیوں کا سلسلہ آخرکار مستقل برف پوش پہاڑوں تک جا پہنچتا ہے۔
ہمالیہ کے دامن میں اس خوبصورت اور پر سکون جگہ جہاں ہم بیٹھے ہیں، کے ہر طرف جنگل پر بہار چھائی ہے۔ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ مختلف پھولوں کی خوشبو آتی ہے۔ ہر جگہ پرندے چہچہا رہے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر ہمیں دنیا کے غم اور فکریں بھول جاتی ہیں۔ یہاں جنگل کا قانون ہے جو انسان کے بنائے ہوئے قوانین سے کہیں بہتر اور کہیں قدیم ہے۔ یہ قانون ہر جاندار کو اپنی زندگی گذارنے کے پورے مواقع دیتا ہے اور مستقبل کی کوئی فکر نہیں دیتا۔ ہر جاندار کے لیے بے شک خطرات ہر جگہ موجود ہیں لیکن ان سے زندگی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ہر جاندار خبردار اور محتاط رہتا ہے لیکن اس سے زندگی کی خوشیاں کم نہیں ہوتیں۔ یہاں ہمارے آس پاس خوشیاں بکھری ہیں۔ یہاں ہم ہر آواز کو سن کر اس کے مقام، جانور یا پرندے کی شناخت اور اس آواز کی وجہ جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے بائیں جانب مور کی ملاپ کے لیے آواز آ رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مور نے رقص شروع کر دیا ہے اور دم کے لمبے پر پھیلائے ہوئے ہے تاکہ مادائیں متاثر ہوں۔ اس سے نزدیک جنگلی مرغ کی آواز آ رہی ہے جس کا ساتھ دینے کو دیگر جنگلی مرغ بھی بولنے لگ گئے ہیں۔ تاہم ان کی لڑائی کے امکانات کم ہیں کیونکہ جنگل میں لڑائی کا مطلب خطرات کا بڑھنا ہوتا ہے۔ ہمارے دائیں جانب سے نر سانبھر کی آواز جنگل کے باسیوں کو اس تیندوے کے بارے بتا رہی ہے جو اس وقت مزے سے کھلے میں لیٹا دھوپ سینک رہا ہے۔ اسی تیندوے کو ہم نے لگ بھگ گھنٹہ قبل دیکھا تھا۔ سانبھر اس وقت تک چپ نہیں کرے گا جب تک تیندوا اٹھ کر گھنے جنگل میں نہ روپوش ہو جائے۔ ہمارے نیچے بلبلیں اور کئی دیگر پرندے ایک الو کے بچے کو اونگھتا دیکھ کر دوسرے پرندوں کو بتا رہے ہیں کہ یہاں خطرہ ہے۔ اگرچہ انہیں بخوبی علم ہے کہ پاس بیٹھا الو کا بچہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتا کیونکہ نابالغ الو شاذ ہی دن میں شکار کی ہمت کرتے ہیں۔ اسی طرح الو کے بچے کو بھی علم ہے کہ یہ پرندے چاہے جتنا شور مچا لیں، اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتے۔ جب تھک جائیں گے تو اسے سوتا چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں گے۔ ہمارے اردگرد ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں اور ہر آواز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ ادھر کٹھ پھوڑے کی آواز آ رہی ہے جو درخت میں سوراخ کر رہا ہے تو دوسری طرف نر چیتل دوسرے نر کو دعوتِ مبارزت دے رہا ہے۔ اوپر آسمان سے سرپنٹ ایگل کی آواز آ رہی ہے۔ مزید اوپر گدھ کسی مردار کی تلاش میں اڑ رہے ہیں۔ کل انہیں پہلے کوؤں اور پھر میگ پائیوں نے بتایا تھا کہ شیر کا شکار کردہ جانور اُس جھاڑی میں پوشیدہ ہے جہاں مور ناچ رہا ہے۔ آج وہ مزید خوراک کی تلاش میں ہیں۔
اپنے دوست کے ساتھ یہاں بیٹھ کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ جنگل کی زبان جاننا کتنا مفید ہے اور اس سے آپ کو کتنا اعتماد ملا ہے۔ اسی وجہ سے جنگل سے آپ کو اب کوئی ڈر نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جنگل میں آپ محفوظ ہیں۔ اگر آپ کو کبھی جنگل میں قیام کرنا پڑے تو آپ کو پتہ ہے کہ آپ بلا خوف و خطر کہیں بھی لیٹ یا سو سکتے ہیں۔ آپ کے پاس سمتوں کو جاننے کا علم ہے اور ہر وقت ہوا کے رخ کا خیال بھی رکھتے ہیں اور اب چاہے دن ہو یا رات، جنگل میں آپ کبھی بھی راستہ نہیں بھولیں گے۔ شروع میں 180 درجے کی بصارت کتنی مشکل لگتی تھی اور اب اس زاویے میں ہونے والی ہر حرکت آپ کو دکھائی دیتی ہے۔ جنگلی جانوروں کی آواز سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے آپ اب جانوروں کی زندگی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی آواز کے مقام کی نشاندہی کرنا، بالکل درست نشانہ لگانا بھی آپ کو آ گیا ہے۔ اگر کبھی جنگل میں آپ کو دشمن کا سامنا کرنا پڑا تو آپ کامیاب رہیں گے کیونکہ آپ نے جنگل کی زبان سیکھی ہوئی ہے اور آپ کو اس سے نہیں بلکہ دشمن کو آپ سے ڈرنا چاہیے۔
اب ہمیں واپس جانا چاہیے کہ میگی ناشتے پر ہماری منتظر ہو گی۔ واپسی کے لیے ہم اسی رستے پر جاتے ہیں جہاں سے آئے تھے اور ہمارے ہاتھ میں درخت کی ایک شاخ ہے جس سے ہم اپنے اور دیگر تمام جانوروں کے پگ مٹاتے جاتے ہیں۔ اگلی بار جب ہم آئیں گے تو ہر نشان نیا ہو گا۔
٭٭٭
باب 12
جنگل کی زبان سیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ آپ میں ایک اور حس پیدا ہو جائے جو زمانہ قدیم کے انسانوں سے ہم تک پہنچی ہے۔ میں اسے "جنگل سے حساسیت” کا نام دیتا ہوں۔ یہ حس اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ جنگل میں جنگلی حیات کے قریب رہ رہے ہوں۔ اس حس کی وجہ سے آپ غیر شعوری طور پر خطرے سے پیشگی آگاہ ہو جاتے ہیں۔
بہت سارے لوگوں نے اس وقت اپنی جانیں بچائی ہوں گی جب انہوں نے کسی خطرے کو غیر شعوری طور پر بھانپ لیا ہو گا۔ مثلاً کسی ایسی سڑک کو چھوڑ دینا جہاں چند لمحے بعد بم پھٹنے والا ہو، یا پھر کسی ایسی عمارت سے دور چلے جانا کہ جہاں چند منٹ بعد ہی بم گرنا ہو یا پھر کسی ایسے درخت کے نیچے سے ہٹ جانا جہاں چند لمحے بعد آسمانی بجلی گرنی ہو۔ خطرہ چاہے جو بھی ہو، اس سے بچاؤ کا خیال ہمیں آتا ہے اور ہم خطرے سے بچ جاتے ہیں۔ چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں والے واقعے میں میں نے دو مواقع پر شعوری انتباہ کے بارے بات کی تھی۔ جونہی مجھے انتباہ ملا، میری پوری توجہ اس سے بچاؤ پر مرکوز ہو گئی تھی۔ پہلی بار پتھروں کے ڈھیر کے پیچھے سے اور دوسری بار راستے پر جھکی ہوئی چٹان کے پیچھے شیرنی کی موجودگی کے بارے جاننا قطعی فطری ہے۔ آئیے، اب ایک مثال ایسی دیکھتے ہیں جس میں خطرے کا احساس اور اس سے بچاؤ کا عمل بالکل غیر اختیاری طور پر ہوا تھا۔ اس کی وجہ محض یہی ہو سکتی ہے کہ جنگل سے حساسیت انتہائی بڑھی ہوئی تھی۔
سردیوں میں جب ہم کالاڈھنگی جاتے تھے تو میری عادت تھی کہ اکثر اپنے مزارعین کے لیے سانبھر یا چیتل مارا کرتا تھا۔ ایک روز یہ لوگ میرے پاس وفد کی شکل میں آئے کہ بہت دن سے میں نے کوئی شکار نہیں کیا اور اگلے دن دعوت کے لیے اگر میں کوئی شکار کروں تو بہت اچھا ہو گا۔ جنگل بالکل خشک تھے اور گھات لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ سورج ڈوب چکا تھا جب میں نے نر چیتل کو شکار کیا۔ چونکہ رات ہو رہی تھی تو چیتل کو واپس لانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اسے تیندووں، ریچھوں اور سور وغیرہ سے بچانے کے لیے چھپا دیا اور گھر روانہ ہوا تاکہ اگلے روز علی الصبح مزارعین کے ساتھ جا کر لے آؤں۔
میرے فائر کی آواز ہمارے دیہات تک پہنچ گئی تھی اور جب میں واپس لوٹا تو ہمارے کاٹیج کی سیڑھیوں پر دس بارہ افراد رسے اور بانس وغیرہ لیے موجود تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کا مطلوبہ شکار ہو چکا ہے اور اسے میں چھپا کر آیا ہوں۔ اب صبح سویرے پو پھٹنے سے قبل اگر وہ چاہیں تو میں ان کے ساتھ اٹھانے کو تیار ہوں۔ مگر یہ افراد چیتل اسی وقت لانے کو تیار ہو کر آئے تھے اس لیے انہوں نے کہا کہ میں انہیں جگہ بتا دوں، وہ خود ہی ڈھونڈ لائیں گے۔ اس سے قبل جب بھی میں ان کے لیے شکار کر کے آتا تھا تو میں راستے پر نشانات لگاتے آتا تھا کہ کس جگہ شکار چھپا ہو گا۔ تاہم ابھی چونکہ مجھے علم تھا کہ شکار صبح اٹھایا جائے گا، اس لیے میں نے کوئی نشانی نہیں لگائی تھی۔ یہ افراد جنگل سے بخوبی واقف تھے، اس لیے میری لگائی اور بتائی گئی نشانیوں سے ہمیشہ ہی وہ شکار پا لیتے تھے۔ اس بار شکار شام کو ہوا تھا اور چاند نہ ہونے کی وجہ سے میں نے کوئی نشانیاں بھی نہیں لگائی تھیں۔ یہ لوگ اس بات پر بضد تھے کہ آج ہی وہ چیتل کو لا کر اسے صبح کی دعوت کے لیے تیار کر لیں۔ ان لوگوں کے خیال سے میں نے ساتھ جانے کی حامی بھر لی اور کہا کہ پوال گڑھ کی سڑک پر اڑھائی میل جا کر ہلدو کے مشہور درخت کے نیچے میرا انتظار کریں۔ جب یہ لوگ روانہ ہو گئے تو میں نے میگی کے تیار کردہ چائے کا کپ پینا شروع کر دیا۔
جب اکیلا آدمی سفر کرتا ہے تو اس کی رفتار عام ہندوستانی افراد کی جماعت کے سفر کرنے سے کافی تیز ہوتی ہے۔ اس لیے آرام سے چائے پی کر میں نے رائفل اٹھائی اور روانہ ہوا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ اس روز اگرچہ میں کافی سفر کر چکا تھا لیکن مزید پانچ یا چھ میل کا سفر میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اگرچہ میں دیر سے نکلا تھا پھر بھی ہلدو کے درخت سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ جلد ہی ہم چیتل کی لاش تک پہنچ گئے اور میرے ہمراہی چیتل کو رسیوں اور بانسوں سے باندھنے کے بعد چلنے کو تیار ہو گئے۔ پھر ایک مختصر راستے کی مدد سے ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا اور رات کے کھانے کے وقت میں کاٹیج جا پہنچا۔ میں نے میگی کو بتایا کہ میں رات کو سوتے وقت نہاؤں گا اور جب تک وہ کھانا تیار کرے، میں ہاتھ منہ دھو لوں۔
رات کو نہانے کے لیے جب میں نے کپڑے اتارے تو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ میرے ربر سول جوتے سرخ رنگ کی مٹی سے اٹے ہوئے تھے اور میرے پیروں پر بھی سرخ مٹی لگی ہوئی تھی۔ اپنے پیروں کے متعلق میں ہمیشہ ہی محتاط رہتا ہوں اور اسی وجہ سے میرے پیروں کو کبھی کوئی مرض نہیں لاحق ہوا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں کیسے اتنا لاپروا ہوا کہ میرے پیر مٹی سے بھر گئے۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہماری یادداشت کو اور ہماری یادداشت ہمارے دماغ کو کچوکے لگاتی رہتی ہے اور کسی شعوری کوشش کے بغیر ہمیں بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں چاہے وہ کسی کا نام ہو یا کوئی اور معلومات۔
جب کاٹھ گودام کے لیے ریل کی پٹڑی نہیں بچھائی گئی تھی تو ساری آمد و رفت پرانی ٹرنک روڈ سے ہوتی تھی۔ ہمارے گیٹ سے دریائے بور کے پل تک یہ سڑک سیدھی جاتی تھی اور پل سے تین سو گز دوری پر سڑک بائیں مڑتی تھی۔ موڑ کے دائیں جانب پوال گڑھ والا فائر ٹریک راستے سے آن ملتا تھا۔ پل سے پچاس گز دور ٹرنک روڈ اور کوٹا روڈ آن ملتے تھے۔ ان دونوں جگہوں کے درمیان میں سڑک ایک نشیب سے گذرتی ہے۔ بیل گاڑیوں کی آمد و رفت سے اس جگہ کی مٹی انتہائی باریک ہو چکی ہے اور چھ انچ موٹی تہہ موجود ہے۔ اس مٹی سے بچنے کے لیے پیدل چلنے والے افراد نے جنگل اور سڑک کے درمیان میں ایک پتلی سی پگڈنڈی بنا لی ہے۔ موڑ سے تیس گز قبل یہ پگڈنڈی اور سڑک دونوں ہی ایک آبی گذر گاہ کے اوپر چڑھتے ہیں اور اس پر ڈیڑھ فٹ اونچی اور ایک فٹ موٹی دیواریں بنی ہوئی ہیں تاکہ بیل گاڑیاں سڑک سے اتر نہ جائیں۔ یہ گذر گاہ کبھی کی متروک ہو چکی اور اس کے نچلے سرے پر سڑک کی سطح کے برابر آٹھ یا دس مربع فٹ کا ریتلا ٹکڑا ہے۔
مٹی سے اٹے پیروں کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ چائے پینے کے بعد جب میں ان لوگوں کی جانب روانہ ہوا تو اس آبی گذر گاہ سے چند گز قبل میں نے پگڈنڈی چھوڑ کر سڑک عبور کی اور سیدھا چلتے ہوئے گذر گاہ کے بعد دوبارہ پگڈنڈی پر جا پہنچا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ میں نے سڑک کیوں عبور کی؟ جب میں اپنے گھر سے نکلا تو ساتھیوں سے ملنے تک میں نے کوئی ایسی آواز نہیں سنی جس سے مجھے خطرے کا احساس ہوتا اور تاریک رات میں کسی چیز کو دیکھ پانا ویسے بھی ممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مجھے الجھن ہوئی کہ میں نے دو بار سڑک کیوں عبور کی؟
اس کتاب کے شروع میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ جب میں نے ڈینسی کی بنشی یا چڑیل کی آواز کے بارے جانا کہ وہ دو درختوں کی باہمی رگڑ سے پیدا ہو رہی تھی، اس دن سے میں نے عادت بنا لی کہ جنگل میں ہونے والی ہر غیر معمولی بات کی تحقیق کروں۔ اب یہ غیر معمولی بات ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اگلے روز صبح آمد و رفت شروع ہونے سے قبل جا کر پتہ لگاؤں گا کہ ایسا کیوں ہوا۔
میرے ساتھی ہمارے گھر سے نکلے تو گیٹ پر تین مزید افراد ان سے آن ملے۔ کل 14 افراد کی یہ جماعت سیدھی چلتی ہوئی ہلدو کے درخت تک جا پہنچی۔ ان کے گذرنے کے فوراً بعد کوٹا روڈ سے ایک شیر آیا، اس نے موڑ کے پاس زمین کھرچی اور پگڈنڈی پر آگے بڑھ گیا۔ اس کے پگ میرے ساتھیوں کے پیروں کے نشانات پر ثبت تھے۔ جب شیر پگڈنڈی پر 30 گز چلا تو میں پل پر پہنچا۔
یہ پل فولادی ہے اور ظاہر ہے کہ میرے گذرنے کی آواز سن کر شیر نے مجھے دیکھا ہو گا کیونکہ مجھے کافی جلدی تھی۔ جب شیر نے دیکھا کہ میں کوٹا روڈ پر نہیں بلکہ اسی کی جانب آ رہا ہوں تو اس نے سڑک گذر گاہ سے آگے ریتلے قطعے کا رخ کیا اور وہاں پگڈنڈی سے ایک گز دوری پر لیٹ گیا۔ جب میں گذر گاہ سے پانچ گز دور رہا ہوں گا تو میں نے پگڈنڈی چھوڑ کر سڑک عبور کی اور سیدھا چلتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر سڑک عبور کر کے پگڈنڈی پر جا پہنچا۔ لاشعوری طور پر میں نے شیر سے ایک گز کی دوری سے گذرنے سے بچنے کے لیے ایسا کیا حالانکہ مجھے شیر کی موجودگی کا علم بھی نہیں تھا۔
مجھے پورا یقین ہے کہ اگر میں سیدھا چلتا جاتا تو بھی مجھے شیر سے کوئی خطرہ نہ ہوتا اگر 1) میں سیدھا اپنے راستے پر چلتا 2) کسی قسم کی آواز نہ کرتا 3) کسی قسم کی ہیجانی حرکت نہ ہوتی۔ شیر اگرچہ مجھے ہلاک کرنے کو نہیں لیٹا تھا لیکن اس کے پاس گذرتے وقت اگر میں کوئی آواز سننے رکتا، کھانستا، ناک صاف کرتا، چھینکتا یا رائفل کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتا تو عین ممکن ہے کہ شیر گھبرا کر حملہ کر دیتا۔ میرا لاشعور اس خطرے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا اس لیے جنگل سے حساسیت نے مجھے بتائے بغیر اس ممکنہ خطرے سے نکال لیا۔ میری ساری زندگی میں اس صلاحیت نے کتنی بار میری جان بچائی، یہ کہنا ممکن نہیں۔ لیکن اتنے برسوں تک جنگل میں رہنے کے باوجود صرف ایک بار میں ایک جنگلی جانور سے دوبدو ہوا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگل سے حساسیت، محافظ فرشتہ یا جو بھی کہہ لیں، ہمیشہ عین وقت پر مجھے بچاتے تھے ۔
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل، اردو وکی بکس
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں