FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

جب پڑھے لکھے آدمی پرہسٹیریا کا دورہ پڑتا ہے

               مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

ناشر: پیام انسانیت فورم، لکھنؤ

سیوان (بہار) میں منعقد پیام انسانیت کے ایک جلسہ میں ۱۶؍ اپریل ۱۹۷۸ء کو کی گئی تقریر، اس جلسہ کی صدارت عالمی شہرت کے حامل ممتاز تاریخ داں ڈاکٹر بی بی مصرا نے کی، اس جلسہ میں بیس ہزار سے زائد مسلم، ہندو، سکھ اورعیسائی خواص و عوام شریک ہوئے۔

بشکریہ: www.abulhasanalinadwi.org

 

میں اپنی خوشی ظاہر کرنا چاہتا ہوں

            سب سے پہلے تو میں آپ کے سامنے اپنی اس خوشی کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں ، اور یہ انسان کی خوبی ہے، اس کی کمزوری نہیں ہے، انسانی فطرت ہے کہ وہ خوش ہوتا ہے تو اپنی خوشی ظاہر کرتا ہے، اور اس کو اپنی خوشی ظاہر کرنا چاہیے، یہ بالکل مصنوعی (Artificial) بات ہے کہ آدمی خوش ہو اور خوشی ظاہر نہ کرے، بعض مرتبہ یہ کہنا کہ ’’ہم بہت خوش ہوئے ہیں ‘‘، یہ بہت چھوٹی بات سمجھی جاتی ہے، لیکن میں اس کو زندگی کی علامت سمجھتا ہوں ، مردہ اپنی خوشی ظاہر نہیں کرسکتا، نہ اپنا رنج ظاہر کرسکتا ہے، لیکن جب تک انسان زندہ ہے، اور اس کی رگوں میں خون پھر رہا ہے، اور سانس آ رہی ہے اور جا رہی ہے، اس وقت تک وہ باہر کے حالات سے متاثر ہوتا ہے، جب روح نکل جاتی ہے، جسم و جان کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، تو پھر باہر کے حالا ت کا کوئی اثر نہیں پڑتا، کوئی سایہ نہیں پڑتا، اس لیے میں آپ سے اپنی خوشی چھپا نہیں سکتا، اس پر میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرتا کہ اس مجمع کو دیکھ کر بہت خوش ہوں ۔

زندگی تکلیف دہ اور خوش کن واقعات کا مجموعہ ہے

            انسان کے لیے بڑی دل توڑنے والی باتیں پیش آتی ہیں ، اور زندگی نام ہی اس کا ہے، دل توڑنے والی باتیں بھی پیش آتی ہیں ، دل کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے واقعات بھی پیش آتے ہیں ، شیشہ کی طرح، کانچ کی طرح، دل کے سو ٹکڑے ہزار ٹکڑے ہو جاتے ہیں ، اور دل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑنے والے واقعات بھی پیش آتے ہیں ، اور زندگی ان دونوں کا مجموعہ ہے، ان ہی کے تال میل سے، انہی کے تانے بانے سے، تکلیف دہ اور خوش کرنے والے واقعات دونوں سے یہ زندگی بنی ہے۔

کسی انسان کے لیے سب سے زیادہ دل شکن اور حوصلہ شکن چیز

            تو کسی انسان کے لیے اس سے زیادہ دل توڑنے دینے والی، اس سے زیادہ اس کا حوصلہ پست کر دینے والی بات، اس سے زیادہ اس کو بجھا ہوا بنا دینے والی بات نہیں ہے کہ اس کی بات کو سننے والا، اس کی بات کا کوئی سمجھنے والا نہ ہو، سب سے بڑی سزا انسان کے لیے یہ ہے کہ آپ اس کو کہیں جنگل میں ڈال آئیے، پہاڑ کی چوٹی پر بٹھا دیجیے، جہاں وہ روئے تو کوئی دیکھنے والا نہ ہو، وہ ہنسے تو کوئی دیکھنے والا نہ ہو، سوائے اس کے پیدا کرنے والے کے کوئی انسان نہ اس کی بات کو سننے والا ہو، نہ اس کا غم غلط کرنے والا ہو نہ اس کو تسلی دینے والا ہو، نہ اس کے درد کو سمجھنے والا ہو، اس سے بڑھ کر انسان کے لیے کوئی چیز دل خراش، دل شکن اور حوصلہ شکن نہیں ہوسکتی، اس کے مقابلہ میں آپ انسان سے سب کچھ چھین لیجیے، لیکن انسانوں کی ہمدردی اس کو حاصل ہو، انسان اس پر بھروسا کرتے ہوں ، تو اس کو سب مل گیا، سب دولت مل گئی۔

            یہ ہماری شعر و شاعری، لٹریچر، پوئٹری، فنون لطیفہ، فائن آرٹس، ذہانت (Talent)، فلاسفی، اور ٹکنالوجی تک جو جمادات پر صرف ہوتی ہے، Instruments پر صرف ہوتی ہے، سب کا سرچشمہ، سب کو پیدا کرنے والی چیز امید ہے، انسان کو امید ہوتی ہے، میں ایک شعر کہوں گا تو اس کو کوئی سننے والا، سر دھننے والا ہو گا، آرٹسٹ تصویر بناتا ہے، بڑا مخلص (Sincere) ہے، اس کو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ لوگ تعریف کرتے ہیں یا تنقید کرتے ہیں ، اس کو داد دینے والے ہیں یا اس کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں ، لیکن اگر اس کو یہ معلوم ہو جائے کہ میری تصویر کا کوئی دیکھنے والا اور اس کے خط و خال کا کوئی سمجھنے والا نہیں ہے تو اس کا قلم، اس کا دماغ نہیں چلے گا، اس کے اندر جو قابلیت ہے تصویر بنانے کی، وہ بجھ کر رہ جائے گی۔

علم و ادب کا سارا ذخیرہ اسی قدردانی کا نتیجہ ہے

            یہ جو کچھ ہمارے علم و ادب کا ذخیرہ ہے، یہ لائبریریاں ہیں ، یہ سب اسی قدردانی کا نتیجہ ہیں ، ہمارے صدر بھی ایک بڑے مصنف ہیں ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کی ہابی (Hobby) ان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ لکھنا پڑھنا ہے، میں ان کو گواہ بناؤں گا اور آپ کے سامنے ان سے پوچھ سکتا ہوں کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ ان کی کتابوں کے پڑھنے والے نہیں ہیں ، Admirers ہونا تو الگ بات ہے، کتابوں کے پڑھنے والے بھی نہیں ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ ان کا قلم چلے گا، قلم کو جو چلانے والی چیز ہے، وہ مصنف کا یہ تصور ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں ۔

انسان کے لیے سب سے بڑی سزا

            انسان کے لیے سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ میں اکیلا ہوں ، اسی وقت اس کا دم گھٹنے لگے گا، انسان کو خدا نے اکیلا پیدا بھی نہیں کیا، اور اکیلا رکھا بھی نہیں ، اور خدا کا یہ منشا بھی نہیں ہے کہ وہ اکیلا رہے، اگر خدا کو اس کو اکیلا رکھنا ہوتا تو اس کو پہاڑ بنا دیتا، پتھر بنا دیتا، ہیرا بنا دیتا، کان میں کتنے ہیرے پڑے ہوتے ہیں ، جواہرات پڑے ہوتے ہیں ، لیکن انسان کو خدا نے انسانوں کے بیچ میں پیدا کیا، اور انسان کی فطرت کہ وہ آدمیوں میں رہنا چاہتا ہے ، اس کو گھر کاٹنے دوڑتا ہے، جیل خانہ بن جاتا ہے، اگر وہ اس میں اکیلا ہو۔

جیل خانہ جیل خانہ کیوں معلوم ہوتا ہے؟

            جیل خانہ کی کیا تعریف ہے؟ جیل خانہ میں کسی بات کی کمی ہے؟ ہمارے منسٹر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ، ہماری حکومت ہے، ہمارے دیش کی حکومت ہے، آج کل جیل میں ساری آرام کی باتیں ہیں ، اسپیشل کلاس ہوتے ہیں ، وہاں پر بعض مرتبہ وہ آسائش، وہ اکرام میسر ہوتا ہے جو اچھے اچھے لوگوں کو اپنے گھر پر میسر نہیں ہوتا، لیکن جیل خانہ جیل خانہ کیوں معلوم ہوتا ہے؟ کیوں لوگ اس سے گھبراتے ہیں ؟ قیدی ملنا چاہتا ہے، مل نہیں سکتا، وہ بات کرنا چاہتا ہے تو بات کرنے کے لیے اسے آدمی نہیں ملتے، اس کا دم گھٹنے لگتا ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ  ع

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

            میں استاذ بھی رہا ہوں ، اور اس پر فخر کرتا ہوں ، بچے کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اس سے کہا جائے: ’’یہاں بیٹھے رہو، کہیں جانا نہیں ، اٹھنا نہیں ۔‘‘بچے کو آپ دو تھپڑ مار لیجیے، چار تھپڑ مار لیجیے، تھوڑی دیر، اس کے بعد خوش ہو جائے گا، لیکن بچے سے کہیے : دو گھنٹے یہاں بیٹھے رہو، تو بچے کو یہ معلوم ہو گا کہ بس اب جان نکل جائے گی ، کیوں ؟ اس کو کیا تکلیف ہے؟وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت حرکت چاہتی ہے، بات کرنا چاہتی ہے، تو اگر انسان اپنے کو اکیلا محسوس کرے، اتنی ہی بات سے وہ اندر ہی اندر گھلنے لگتا ہے، اس کا دم گھٹنے لگتا ہے، جیسے مچھلی کو آپ پانی سے نکال کر خشکی میں ڈال دیجیے تو مچھلی کا دم گھٹنے لگے گا۔

            میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ پڑھے لکھے آدمیوں ، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی بھائیوں کی اتنی صورتیں دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا خون بڑھ گیا ہے۔

ہماری فطرت خراب نہیں اوپر کی چیزیں خراب ہیں

            دنیا کا کارخانہ اعتماد اور بھروسے ہی پر چل رہا ہے، اتنے بھائی امید لے کر اور اطمینان کر کے آئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری فطرت خراب نہیں ہوئی، ہمارے اوپر کی چیزیں خراب ہو گئیں ، ہمارا (Conscience) اتنا خراب نہیں ہوا جتنی زبان خراب ہوئی ہے، اور مجھے کہنے کی اجازت دیجیے جتنا ہمارا دماغ خراب ہوا ہے، اور یہ جو کچھ خرابی آج دنیا میں دیکھ رہے ہیں ، زیادہ تر دماغ کی خرابی کا نتیجہ ہے، ہم نے غلط پڑھا، غلط نتیجہ نکالا ہے، ہم نے دنیا کا غلط مطلب سمجھا ہے، ہمارا ضمیر سوگیا ہے، جگانے سے جاگ سکتا ہے۔

            میں ابھی چار اسٹیٹس (States) کا دورہ کر کے آ رہا ہوں ، میں نے دیکھا کہ خدا نے کتنا بڑا ملک ہم کو دیا ہے، اور کیسا سرسبز اور شاداب ملک دیا ہے، ہمارا سر اونچا ہے کہ ہمارا ملک کسی حیثیت سے کسی ملک سے کم نہیں ہے، کیسی ہریالی، کیسی شادابی، کیسی پیداوار، کیسے خوبصورت مناظر، کیسا قدرتی حسن، کیسے اونچے پہاڑ، دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ ہماری زمین پر ہے، بہت لمبے دریا، ہمارے ملک میں بہتے ہیں ، اور غلہ کتنا پیدا ہوتا ہے، پھل کیسے کیسے خدا نے پیدا کیے، اور ان سب سے بڑھ کر آدمیوں کی آبادی، یہ آدمیوں کا جنگل ہے، کھوئے سے کھوا چھلتا ہے، بازاروں میں نکلنا مشکل ہے، ٹریفک کنٹرول کرنا مشکل ہے۔

ملک میں احساس ذمہ داری اور محبت و اعتماد کی کمی

            ہمارے ملک میں کوئی کمی نہیں ، لیکن ہمارے ملک کے اندر احساس ذمہ داری، شہریت کا احساس -یہ احساس کہ ہم ایک شریف اور ذمہ داری شہری ہیں – پورے طور پر نہیں ہے، محبت کی کمی ہے، اعتماد کی کمی ہے، لوگ ڈرے ہوئے سے ہیں ، آدمی مطمئن نہیں ہیں ، یہ اطمینان نہیں کہ کس وقت کیا ہو جائے، یہ بے یقینی کی حالت جو -معاف کیجیے گا- ہماری سیاسی پارٹیوں نے، پچھلی حکومتوں نے پیدا کی ہے، اس سے دل پر ایک چوٹ سی لگتی ہے، یہ ساری خرابی ہماری ہے، خدا کی طرف سے کوئی کمی نہیں ، نہ آسمان نے کمی کی پانی برسانے میں ، نہ زمین نے کمی کی غلہ اُگانے میں ، تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اور ایک حقیقت پسند انسان کی حیثیت سے میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہمارا ہندوستان اپنی ذہانت میں ، اور اپنی Efficiency میں ، اپنی کارکردگی کی صلاحیت میں ، اپنی سوجھ بوجھ میں ، اور اپنی طبعی شرافت میں دنیا کے کسی ملک سے کم نہیں ، لیکن اس سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے، جس حد تک اٹھایا جا سکتا تھا اور اٹھایا جانا چاہیے۔

            کسی آدمی کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو ذرا تسلی ہوتی ہے کہ بھئی نہیں ہے، خدا نے نہیں دی ہے، غریب آدمی ہے، اس کو تسلی ہے میں غریب گھر میں پیدا ہوا، میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ، میں ذہین بھی نہیں ہوں ، میں نے محنت بھی نہیں کی ہے، وہ اپنی قسمت پر راضی ہوتا ہے، لیکن جس کو خدا نے سب کچھ دیا ہو، اور پھر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے تو رہ رہ کر اس کو یہ خیال آتا ہے، دل مسوس کر رہ جاتا ہے، کہ میں کیوں نہیں فائدہ اٹھاتا؟ مجھے کیوں اس کا موقع نہیں ملتا؟ اس کا جو صحیح نتیجہ ہے، وہ مجھے کیوں نہیں حاصل ہوتا ہے؟ یہی احساس میرا ہے، میں ہندوستان میں آپ سب لوگوں سے زیادہ پھرنے والا آدمی ہوں ، میرے ایسے ہی حالات ہیں ، میں ہندوستان کے چپہ چپہ پر گھوما، اور کونہ کونہ تک پہنچا ہوں ، کتنا دولت مند ملک، زمینی پیداوار سے بھی، معدنی پیداوار سے بھی، یہاں بہتر سے بہتر دھاتیں پائی جاتی ہیں ، اور اس میں آپ کا اسٹیٹ بہار کا تو نمبر اول ہے، کوئلہ سب سے زیادہ یہاں نکلتا ہے، لوہا یہاں پیدا ہوتا ہے، کیسے بڑے بڑے کارخانے اور پھر ریفائنریز (Refineries)یہاں قائم ہیں ، پٹرول چاہے باہر سے آئے، لیکن یہاں ریفائن ہوتا ہے، یہاں سے وہ تمام ہندوستان میں تقسیم ہوتا ہے، کسی چیز کی کمی نہیں ۔

آخر انسان کو ہو کیا جاتا ہے؟

            لیکن فسادات یہاں ہوتے ہیں ، بھائی بھائی کا یہاں دشمن بن جاتا ہے، پاگل پن کی ایک لہر اٹھتی ہے، کوئی شریر آدمی ایک نعرہ لگا دیتا ہے، اور سارے کا سارا ملک اس وقت ایسا مست ہو جاتا ہے جیسے اس کو کسی نے انجکشن دے دیا، یا اس پرہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا، طالب علم طالب علم معلوم نہیں ہوتے، پروفیسر پروفیسر معلوم نہیں ہوتے، اسکالر اسکالر معلوم نہیں ہوتے، میں جمشید پور، راوڑکیلا، رانچی گیا ہوں ، اور فسادات کے بعد گیا ہوں ، یہ دیکھ کر مجھے دکھ ہی نہیں ہوا، حیرت بھی ہوئی کہ آخر انسان کو کیا ہو جاتا ہے؟ یہ انسان اتنی جلدی جانور کیسے بن جاتا ہے؟ ارے بھئی! جانور کو انسان بننے کے لیے بڑی مشکل پیش آتی ہے، لیکن انسان کو جانور بن جانے کے لیے کوئی مشکل نہیں ، چاہیے تو یہ تھا کہ جانور کے لیے انسان بننا آسان ہوتا، انسان کے لیے جانور بننا مشکل ہوتا، اس لیے کہ اگر جانور انسان بن جائے تو بڑی اچھی بات ہے، ہم نے کچھ Gain کیا، ہم نے کچھ پایا، لیکن انسان اگر جانور بن جائے اس سے بڑھ کر ہماری بدقسمتی نہیں ہوسکتی۔

انسان کی ترقی کے مدارج

            ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تو انسان، ماں باپ نے انسان کا بچہ سمجھ کر پالا پوسا، ساری غذائیں انسانوں کی دیں ، اور اس کے بعد جب پڑھنے کے قابل ہوا تو پڑھنے بٹھا دیا گیا، اس کے سامنے نمونے اچھے اچھے آئے، پرانی ہسٹری آئی تو اچھی آئی، پرانے واقعات آئے تو اچھے آئے، ہر ماں باپ، ہر خاندان کے والدین خواہ کم پڑھے لکھے ہوں ، لیکن وہ اپنے بچے کو اچھے سے اچھا بنانا چاہتے ہیں ، یہ انسانی فطرت ہے، اسی بنا پر انسان نے بڑی ترقی کی ہے، والدین کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ ہمارا بچہ ہم سے بڑھ جائے، انسان کسی کو اپنے سے بڑھا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا، لیکن اپنے بچے کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، یہ انسان کی فطرت ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک نسل پہلی نسل سے اچھی ہوتی ہے، ، اور تیسری نسل دوسری نسل سے اچھی، تو انسان پید اہوا تو انسان تھا، اس کے بعد جب اس کو دودھ پلایا گیا تو انسان کے بچے کی طرح پلایا گیا، گودوں میں کھلایا گیا، تو انسان کے بچے کی طرح کھلایا گیا، گلاب کے پھول کی بھی وہ سیوا نہیں ہوتی جو انسان کے بچے کی سیوا ہوتی ہے، پھر اس کے بعد اس کو پڑھنے بٹھایا گیا، تو انسانوں کی طرح اس کے لیے کتابیں لکھی گئیں ، اس کے لیے لائبریریاں تیار ہوئیں ، اس کے لیے ادارے بنے، اس کے لیے تمام دنیا کے دانشوروں ، فلاسفروں اور اسکالروں نے اپنا دماغ نچوڑ کر کے رکھ دیا، یہ سب انسان کی طرح ہوا، اب اسکول جانے کے قابل ہوا، تو انسان کے بچے کی طرح اسکول گیا، وہاں استادوں نے انسان کی طرح انسان پر شفقت کی، اپنی اولاد کی طرح سینہ سے لگایا، اور اچھی سے اچھی باتیں اس کو پڑھائیں ، یہ ایجوکیشن منسٹر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ، ہر سال کورس کو ترقی دی جاتی ہے، Improve کیا جاتا ہے، نئے نئے تجربے تعلیم میں کیے جاتے ہیں ، نئی نئی Theories آتی ہیں ، امریکہ سے، یوروپ سے، جو نئے نئے تجربے ہیں ، وہ سب آزمائے جاتے ہیں ، تاکہ تعلیم ترقی کر کے آسان ہو، یہ سب انسان کی خاطر ہے، اب اس نوجوان نے پڑھا، اس کے بعد وہ کالج سے نکلا، گریجویشن کیا، پھر اور ایم۔ اے۔ کیا، اگر وہ ریسرچ کرنا چاہتا ہے، پی۔ ایچ۔ ڈی۔ ہو جانا چاہتا ہے، پوسٹ گریجویٹ کا کورس وہ کر چکا ہے، باہر کی یونیورسٹیوں میں گیا، یہ سب انسان کے پروسیس (Process)  ہیں ۔

آج ایک غلط نعرہ ہم کو پاگل بنا دینے کے لیے کافی ہے

            اس کے بعد میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے؟ لہر اٹھتی ہے پٹنہ سے، مونگیر سے، کشن گنج سے یا ادھر یوپی کے بارڈر سیوان سے، یااس کے آگے سے، اور یہ سب پڑھے لکھے آدمی نہ صرف یہ کہ پاگل ہو جاتے ہیں ، بلکہ جانور بن جاتے ہیں ، مجھے بتائیے، یہ میرے لیے ایک پہیلی ہے، جس کو بوجھنا چاہتا ہوں ، ایساکون سا اسکریو (Screw) ڈھیلا ہو جاتا ہے کہ یہ انسان جو اپنے سینہ میں اتنا علم لیے بیٹھا ہے، سمندر کا سمندر پی گیا، کسی کی فلاسفی، کسی کی منطق، کسی کا علم اخلاق، فن سیاست، ادب و حکمت، شاعری و فنون لطیفہ، انسانی نفسیات،  یہ سب پڑھنے کے بعد -مجھے آپ بتائیے کہ- کون سا دھماکہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اچھا خاصا انسان جانور میں تبدیل ہو جاتا ہے، وہ اچھا خاصا خونخوار بھیڑیا ہو جاتا ہے، انسان اپنے آپے سے نہیں ، بلکہ جامے سے باہر ہو جاتا ہے، طالب علم طالب علم کو مارتا ہے، پروفیسر پروفیسروں کی نشاندہی کرتا ہے، کہتا ہے کہ دیکھو میراساتھی یہاں چھپا ہوا ہے، جس نے دس برس تک لیباریٹری میں اس کے ساتھ کام کیا ہے، کاندھے سے کاندھا ملا کر لائبریری میں بیٹھا ہے، آج وہ اس کی جاسوسی کرتا ہے، یہ کیا ہو جاتا ہے؟ یہ انسانیت پر کیسی بجلی گرتی ہے؟

جانور بھی اتنی سمجھ رکھتے ہیں کہ ذی شعور ذمہ دار ہے

            نیویارک کے پاور ہاؤس پر بجلی گری، میں اس وقت نیویارک کے قریب فلاڈیلفیا میں تھا، میری سمجھ میں آیا، پاور ہاؤ س بھی عقل نہیں رکھتا، بجلی بھی عقل نہیں رکھتی، ایک بے عقل بے عقل پر گر گیا، لیکن یہ عقلمند عقلمند پر کیسے گرتا ہے؟ (مسلسل تالیاں ) بجلی تو بجلی ہے، کسی کو بے عقل و بے شعور پر غصہ نہیں آتا، نہ کوئی اس کو ملامت کرتا ہے، یہ بات کتا بھی سمجھ سکتا ہے، آپ نے دیکھا ہو گا، کتے کو آپ ڈھیلا ماریے تو کتا ڈھیلے پر، پتھر پر نہیں دوڑتا، وہ آپ پر دوڑے گا، گویا کتے کو بھی یہ سمجھ ہے کہ پتھر کا قصور نہیں ، انسان کا قصور ہے، آپ مار کے دیکھ لیجیے، کتے کی دم آپ کے پاؤں کے نیچے آ جائے تو آپ بچ نہیں سکتے، لیکن اگر کتے کی دم کسی درخت وغیرہ سے پھنس جائے تو غصہ نہیں آتا، اس کو ذی شعور پر غصہ آتا ہے، اس کے اندر بھی خدا نے یہ شعور پیدا کیا کہ ذی شعور ذمہ دار ہے، ہمارے یہاں گدھے سے زیادہ کوئی بیوقوف جانور نہیں سمجھا جاتا، گدھا بھی یہ بات سمجھتا ہے، لیکن ہم اور آپ کیوں نہیں سمجھتے؟

انسان انسان پر حملہ کیسے کرسکتا ہے؟

            مجھے بتائیے کہ انسان انسان پر کیسے گرتا ہے؟ پہاڑ انسان پر گرے، معاف کر دیا جائے، دریاانسان پر گرے معاف کر دیا جائے، پتھر انسان پر گرے معاف کیا جا سکتا ہے، چھت گر جاتی ہے، معاف کی جا سکتی ہے، مگر انسان کو معاف نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ خدا نے اس کو عقل دی ہے، خدا نے اس کو شعور دیا ہے، خدا نے اس کو دل دیا ہے، خدا نے اس کو ضمیر دیا ہے، اور اس کو انسانو ں کی طرح پالا گیا، لیکن انسان انسان کو انسان نہیں سمجھتا۔

            مجھے حیرت ہے، ایک شخص اپنے آفس میں بیٹھا ہوا ہے ، اچھا خاصا پڑھا لکھا کوالیفائیڈ (Qualified) آدمی ہے، اور اس کام کے لیے بیٹھا ہے کہ جب کوئی اس سے خدمت لینے آئے، فائل نکلوانے آئے، جب کوئی کام کروانے آئے، یا کوئی آرڈر لے کر آئے، فوراً اس کی تعمیل کرے، وہ بے چارہ وہاں سے چلا، یہ آدمی اپنے ساتھی سے کہتا ہے: ’’موٹا شکار ہے‘‘، ’’موٹی آسامی ہے‘‘، گویا اس کے نزدیک ایک چوہا آیا، ایک موٹا سا چوہا، بلی جیسے چوہے کو آتا ہو ا دیکھے، اس طرح یہ انسان انسان کو دیکھتا ہے، بڑا موٹا شکار ہے، بڑی موٹی آسامی ہے، خوب پیسہ اس سے وصول ہو گا، ارے خدا کے بندے! بے رحم انسان! تجھے تو دو قدم، چار قدم اٹھ کر جانا چاہیے تھا، اس کا Reception کرنا چاہیے تھا، اس کو گلے لگانا چاہیے تھا، کہ میں اسی سیوا کے لیے یہاں بیٹھا ہوں ، خدا نے تم کو بھیجا ہے، تو تم خدا کی نعمت ہو میرے لیے، اگر تم یہاں نہ آؤ تو میں بے کار ہوں ، میں نے کس لیے بھاڑ جھونکا، میں نے کس لیے آنکھیں پھوڑیں ، میں نے اس لیے پڑھا تھا، اس لیے آنکھیں خراب کی تھیں کہ میں تم جیسے آدمیوں کی خدمت کروں ، گھنٹہ بھر سے مکھی مار رہا تھا، گھنٹہ بھر سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تھا، میرا کوئی کام نہیں تھا، تم کو خدا نے بھیجا۔

            پھر یہ آنے والا کون ہے؟ اپنی ماں کا لال، جب بیمار ہوا تھا تو اس کی ماں نے رو روکر رات کاٹی تھی، اور ڈاکٹر کے گھر میں جا جا کر دہائی دی تھی، خدا کے لیے میرے اکلوتے بیٹے کو بچا لیجیے، اس نے روتے ہوئے کہا کہ اے خدا میری جان لے لیجیے اور میرے بچے کو بچا لیجیے، اس کی جان بچ جائے، یہ ایسا لاڈلا تھا، اپنے ماں باپ کی آنکھ کا تار ا تھا، اب وہ آیا ہے تمھارے پاس تو گویا ایک چوہا آیا، گویا ایک بلی آئی ہے، ایک موٹا شکار آیا کہ تم اس کا خون چوس لینا چاہتے ہو، اس سے بڑھ کر انسانیت کا زوال کیا ہے؟!!

ایک پہیلی

            بھیڑیا بھیڑیے کے یہاں چلا جائے، بھیڑیا اس کو مارتا نہیں ہے، کتا کتے کے پاس چلا جائے تو کتا اس پر حملہ نہیں کرتا، جب تک کہ وہ پاگل نہ ہو، ایک انسان ایک انسان پر کیسے حملہ کرسکتا ہے؟ یہ وہ پہیلی ہے جو آج تک کوئی بجھا نہیں سکا، میں آپ سے اس پہیلی کو بوجھنا چاہتا ہوں کہ یہ دورے کیسے پڑتے ہیں ؟ اگر کسی ایک کے دماغ پر پڑ جائے تو پڑ جائے، اس کا سب پڑھا لکھا غارت، جو ماں باپ نے سکھایا سب بھول گیا، جو استادوں نے اسکولوں ، کالجوں میں سکھایا وہ بھول گیا، جو کتابوں میں پڑھا تھا، بڑے شوق سے لائبریری میں جا کر مطالعہ کیا تھا، وہ سب بھول گیا، ایک منٹ میں یہ سب صفایا کیسے ہو جاتا ہے؟اس کی وجہ کیا ہے کہ وہ پڑھا لکھا بن گیا، Educated بن گیا، Cultured ہو گیا، Well-read بھی اور بڑا لبرل (Liberal)بھی، اور بڑا تھنکر (Thinker) بھی، سب کچھ، لیکن آدمی نہ بن سکا؟

اگر تعلیم سب کچھ کرتی ہے مگر آدمی کو آدمی نہیں بناتی

             اگر تعلیم سب کچھ کرتی ہے، لیکن آدمی کو آدمی نہیں بناتی، تو پھر یہ دو کوڑی کی، امریکہ کی تعلیم، یورپ کی تعلیم اگر انسان کو مہذب نہیں بنا سکتی، اگر انسانیت کا احترام نہیں پیدا کرا سکتی، اگر اس کے ضمیر کو نہیں جگا سکتی ، اگر خدا کا خوف اس کے دل میں نہیں بٹھا سکتی، اگر انسان کی خدمت کا جذبہ اس کے اندر نہیں پیدا کرتی، اس تعلیم سے جہالت اچھی، جب انسان جاہل تھا، انسان کی حفاظت کرتا تھا، انسان کی عزت اور آبرو کے لیے جان دے دیا کرتا تھا، انسان انسان کے لیے پہرہ دیا کرتا تھا، وہ سوتا تھا اور یہ جاگتا تھا، تاکہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، وہ دور اچھا تھا اِس دور سے جس میں اتنی تعلیم ہے، گھر گھر تعلیم ہے، گاؤں گاؤں تعلیم ہے، مگر اس کا نتیجہ کیا ہے؟ کوئی دیوانہ ، کوئی شریر، کوئی فسادی ایک نعرہ لگا دیتا ہے، خواہ وہ قوم پرستی کا نعرہ ہو، خواہ کمیونزم کا نعرہ ہو، وہ Riot کرا دیتا ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک کو کیسے مہذب کیا جائے جہاں دن رات Riot ہوں ، تہذیب اور Riot دونوں جمع نہیں ہوسکتے، انسان انسان کا شکاری ہو، انسان انسان کے خون سے اپنی پیاس بجھائے، لعنت ہے ایسے انسان پر، وہ انسان نہیں ، اس سے جانور بہتر ہیں ، درندے بہتر ہیں ۔

انسان اندر سے بنتا ہے باہر سے نہیں بنتا

            بات یہ ہے کہ انسان اندر سے بنتا ہے، باہر سے نہیں بنتا، ہم نے اندر کو بھلا دیا، ہم نے اندر کے انسان کو نہیں جگایا، ہمارے اس انسان کے اندر ایک اور انسان چھپا ہوا ہے، وہ اندر کا انسان ہے، وہ دل والا انسان ہے، وہ ضمیر والا انسان ہے، جب وہ انسان جاگ جاتا ہے، تو کیا ہوتا ہے؟ بڑی بڑی سلطنتیں ، شہنشاہیاں (Empires) اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ، لیکن اس کا حال کیا ہوتا ہے؟ وہ قوم کے پیسے کو، ملک کے پیسے کو خدا کی امانت سمجھتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ پوری قوم مالک ہے اور میں اکیلا خادم ہوں ، غلام ہوں ۔

انسانیت کے بیش بہا نمونے

            دو واقعے آپ کو سناتا ہوں ، اور معافی چاہتا ہوں پروفیسر صاحب سے کہ میں ہسٹری کا طالب علم ہوں ، اور میری پہنچ وہیں تک ہے، خلیفۂ اول کا ایک واقعہ سناتا ہوں ، حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) جب خلیفہ ہوئے، یعنی جب مسلمانوں نے ان کو اپنے رسول ﷺ کی جگہ پر منتظم و رہنما مان لیا، اس وقت مسلمانوں کی فوجیں ایک طرف Roman Empire کی طرف بڑھ رہی تھیں ، تاکہ وہاں بھی ظلم کو دور کریں اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالیں ، دوسری طرف Persian Empire کی طرف بڑھ رہی تھیں ، اس وقت کتنا بڑا خزانہ ہو گا مسلمانوں کا، حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ان کی بیوی نے کہا: آپ جب سے خلیفہ ہوئے ہیں ، مسلمانوں کو جو کچھ فائدہ ہوا ہو، ہم اس سے انکار نہیں کرتے، لیکن ہمارا بڑا نقصان ہو گیا، انھوں نے فرمایا: کیا نقصان؟ بیوی نے کہ آپ نے جو پیسے مقرر کرائے ہیں اور جو آپ کومسلمانوں کے بیت المال (Treasury) سے ملتے ہیں ، اس میں بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ ہمارا اور بچوں کا پیٹ بھر جائے، کتنے دن ہو گئے آپ کو خلیفہ بنے ہوئے، ہم ابھی تک کوئی میٹھی چیز نہیں کھا سکے، ہمارے منھ کا مزہ خراب ہے، ہم کیا کریں ، اس سے تو ہم اسی وقت مزے میں تھے جب آپ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے، جب ہی ہم بھلے تھے، اب اس کے بعد آپ خلیفہ ہوئے، نام تو بہت اونچا لیکن ہمارا کوئی فائدہ نہیں ۔

            انھوں نے کہا: بی بی! میں کیا کروں ، مسلمانوں کا مال اس لیے تو نہیں ہے کہ ابوبکر کے گھر والے اپنا منھ میٹھا کریں ، مسلمانوں کے فنڈ میں اتنی گنجائش نہیں ، بیوی نے کہا کہ اسی میں سے ہم کچھ بچا لیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہو گا؟ کہا: اس پر کیا اعتراض؟ یہ تمہاری سلیقہ مندی کی بات ہے، دس دن، پندرہ دن، بیس دن اس بے چاری نے پیسے کاٹے، اس میں سے دو دو پیسے ایک ایک آنہ کم کیا، اور اس کے بعد بارہ آنے ایک روپیہ کچھ لا کر ان کو دیا اور کہا کہ لیجیے جو آپ دیتے تھے اسی سے کاٹ کاٹ کر یہ رقم میں نے جمع کی، اسی سے اتنا گھی، اتنی شکر، اتنی سوجی منگوا دیجیے ، آپ جانتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا؟ رقم مسلمانوں کے Treasury Officer یا بیت المال کے منتظم کو جا کر دے دی، اور کہا کہ یہ بارہ آنے پیسے بچے ہیں ، ان کو مسلمانوں کے بیت المال میں داخل کر لیجیے، اور تجربہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اتنے پیسے کم دیے جائیں جب بھی گزارہ ہو جائے گا، یعنی آپ دس آنے دیا کرتے تھے، تو اب آٹھ آنے دیا کیجیے، اس لیے کہ ہماری بیوی نے یہ ثابت کر دیا کہ اتنے پیسے کم دیے جائیں جب بھی گزارہ ہو جائے گا، کوئی مرے گا نہیں ، گھر میں فاقہ نہیں ہو گا۔

            بیوی نے کہا:واہ واہ! ہم نمازیں معاف کرانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے، یعنی اس سے تو ہم پہلے ہی اچھے تھے کہ بارہ آنے روزانہ میں گزر ہوتا تھا، اب دو آنہ پیسہ کم کر کے ہم کو ملا کرے گا، انھوں نے کہ ’’مسلمانوں کا فنڈ اس لیے نہیں کہ اللے تللے مٹھائیاں بنیں اور حلوا پکے۔‘‘

            ایک واقعہ او رسناتا ہوں ، یہ واقعات وہ ہیں جو ہماری آپ کی ملکیت ہیں ، یہ کسی خاص کمیونٹی کی ملکیت نہیں ، ان پر ہم کو آپ کو سب کو فخر کرنے کا حق ہے، اس لیے کہ یہ انسانوں کے واقعات ہیں ، ہم بھی انسان ہیں ، اور وہ بھی انسان تھے، ہمارا سر اونچا ہونا چاہیے کہ ہماری نسل میں ، ہماری Race میں ، Mankind میں ایسے لوگ ہوئے ہیں ، جب پہلی کانگریس گورنمینٹ قائم ہوئی تھی، تو گاندھی جی نے کہا تھا: ہمارے منسٹروں کو وہ زندگی اختیار کرنی چاہیے جو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ نے گزاری تھی۔

            حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے زمانہ میں اسلامک امپائر اتنا بڑھ گیا تھا کہ شام، (Syria)، مصر (Egypt) اور عراق، اسپین تک پہنچ گیا تھا، اور شمالی افریقہ سارا فتح ہو گیا تھا، اس وقت کا ایک واقعہ سناتا ہوں ، ایک دن رات کو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کام کر رہے تھے، اور آپ کی حکومت (State) کی شمع جل رہی تھی، بجلی اس زمانہ میں نہیں تھی، مشعل اور شمع جلتی تھی، اس کو سامنے رکھے ہوئے کاغذات، فائل دیکھ رہے تھے، دستخط کر رہے تھے کہ اتنے میں ان کے ایک دوست آئے، انھوں نے کہا کہ لو خوب آئے، آؤ بھئی! کہاں سے آئے، وہ جہاں سے آئے تھے، اس ملک کا نام لیا گیا، کہو بھئی، وہاں سب لوگ خوش ہیں ؟ سب کو کھانے کو ملتا ہے؟ انھوں نے کہا: امیر المؤمنین! سب نے سلام کہا ہے اور سب خوش ہیں ، سب بڑے مطمئن ہیں ، کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔اس کے بعد آنے والے نے پوچھا: امیر المؤمنین! کہیے آپ کے گھر میں بھی خیریت ہے؟ آپ کے فلاں بچے کہاں ہیں ؟ آپ کی فلاں لڑکی کہاں ہے؟ بچے کیا پڑھ رہے ہیں ؟ یہ پوچھنا تھا کہ انھوں نے پھونک مارکر شمع بجھا دی، انھوں نے کہا: خیریت؟ کیا بات؟ کیا بات؟انھوں نے کہا: ابھی تک تو ہم پبلک انٹرسٹ (Public Interest)کی بات کر رہے تھے، اب تم نے ہماری گھریلو (Domestic) ، ہماری پرائیویٹ باتیں پوچھنی شروع کیں ، اس کام کے لیے یہ شمع نہیں ہے، میں اس کا پیسہ اس میں نہیں خرچ کرنا چاہتا، نوکر سے کہا: ہمارے گھر کا چراغ لاؤ، وہ لایا، کہا: اب بات کرو، وہ تو میں نے سرکاری کام کے لیے جلائی تھی، فائلیں دیکھ رہا تھا اور تم آ گئے، میں نے تمھارے ملک کی جہاں سے تم آئے ہو، خیریت دریافت کی جو سرکاری کام ہے، اب تم قصہ لے بیٹھے میرے گھر کا، ان قصوں کے لیے میں مسلمانوں کا پیسہ ان کے نیشنل فنڈ میں سے خرچ کرنا صحیح نہیں سمجھتا۔

             آج دنیا میں ہے کوئی مثال اس کی؟ امریکہ کے President بھی ہیں ، اور روس کے President بھی ہیں ، اور بڑے بڑے ملکوں کے، عرب ملکوں کے President اور بادشاہ بھی ہیں ، میں صاف کہتا ہوں کوئی اس معیار پر پورا نہیں اترتا، نہ سعودی عرب کا، نہ مصر کا، نہ عراق کا، یہ سب مسلم Majority کے ملک ہیں ، لیکن کسی کو اس احتیاط کی ہوا بھی نہیں لگی، اس لیے کہ جو تربیت خدا کے پیغمبر، رسول خدا ﷺ نے اپنے صحابیوں کو دی تھی، وہ ان کو ہرگز میسر نہیں آئی، میں جانتا ہوں ، میں ان سے ملتا ہوں ، میں ان کا احترام بھی کرتا ہوں ، اور میں وہاں آرام سے رہتا ہوں ، لیکن میں صاف صاف بات کروں گا۔

ہم نے جو کچھ کھویا ہے اندر کھویا ہے

            اب آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں ، آپ اس ملک کی خبر لیجیے، انسان کو انسان بنائیے، اپنے لال، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو انسان بنائیے، ہم نے جو کچھ کھویا ہے اندر کھویا ہے، اور ہم تلاش کر رہے ہیں باہر، اس پر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی، جو میں نے بچپن میں سنی تھی، کہ کوئی صاحب گھر کے باہر کچھ ڈھونڈھ رہے تھے، کوئی بڑے میاں تھے، قاعدہ ہے کہ ایسے موقع پر چلتے ہوئے راہ گیر رک جاتے ہیں کہ آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں ؟ کیا گرا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ایک روپیہ گر گیا ہے، میں ڈھونڈھ رہا ہوں ، یہ راہ گیر بھی ڈھونڈھنے میں لگ گئے، مگر وہ روپیہ مل نہیں رہا ہے، روشنی ہے اور مل نہیں رہا ہے، انھوں نے کہا کہ یہ تو بتائیے کہ کہاں گرا تھا؟ ہم خاص طور پر اسی جگہ تلاش کریں ۔ انھوں نے کہا: بھائی! سچی بات تو یہ ہے کہ وہ گھر میں گرا تھا، گھر میں اندھیرا ہے، یہاں روشنی ہے، اس لیے یہاں ڈھونڈھنے آیا ہوں ، لائٹ نہیں کہ اندر ڈھونڈھوں ۔ آج ہمارا آپ کا سب کا حال یہ ہے، چیز کھوئی کہیں اور ہے ، ڈھونڈھ رہے ہیں کہیں ۔!!

چیز جہاں کھوتی ہے وہیں ملتی ہے

            چیز کھوئی ہے دل میں ، اور ڈھونڈھ رہے ہیں کالجوں میں ، لائبریریوں میں ، امریکہ، یورپ میں ، Political Parties میں ،  Parliamentمیں ، Assemblies میں ، اور خدا کا قانون یہ ہے، خدا کا قانون بدلا نہیں کرتا، کہ جو چیز جہاں کھوئی تھی وہیں ملے گی، یہ خدا کا قانون ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، کہ جو چیز جہاں کھوئی وہیں اس کو تلاش کرو، اگر اندھیرے ہی میں گری ہے تو روشنی وہاں لے جاؤ، یہ ہوسکتا ہے، لیکن اندھیرے میں گری ہے اس لیے وہاں نہیں تلاش کرتے ہو، روشنی میں تلاش کرنے آئے ہو کبھی نہیں ملے گی۔(پر جوش تالیاں ) تو بھائی وہ سیدھے سادے کوئی بزرگ تھے، بڑے میاں تھے، لیکن آج تو بڑے اسکالر، فلاسفر یہی کر رہے ہیں ، چیز کھوئی ہے ہمارے دل میں ، ہمارے ہَرِدے میں ، ہمارے ہارٹ (Heart) میں ، ہمارے Conscience میں ، اور ہم اس کو تلاش کر رہے ہیں سیاست میں ، ہم اس کو تلاش کر رہے ہیں لیڈر شپ میں اور مطالعے کی جگہوں پر۔

انسانیت مری نہیں سوئی ہوئی ہے

            بس بھائی، وہ چیز کھوئی ہے، ختم نہیں ہوئی ہے، کھوئی ہوئی چیز مل جاتی ہے، مری ہوئی چیز زندہ نہیں ہوتی، میں انسانیت کو سویا ہوا سمجھتا ہوں ، مرا ہوا نہیں سمجھتا، انسانیت سو بار سوئی، سوبار جگائی گئی، خدا کے پیغمبر آئے، بڑے بڑے علم رکھنے والے، بڑے بڑے وِدوان، خدا سے ڈرنے والے آئے، انھوں نے انسانیت کو جگایا، جاگ گئی، اگر مر گئی ہوتی تو کبھی زندہ نہ ہوتی۔

            آج بھی انسانیت مری نہیں ہے، سوئی ہوئی ہے، آئیے ہم آپ سب مل کر سوئی ہوئی انسانیت کو جگائیں ، پہلے اپنے اندر جگائیں ، اس کے بعد باہر جگائیں ، ہم اگر جاگے ہوئے نہیں ہیں ، تو دوسروں کو بھی جگا نہیں سکتے، سویا ہوا سوئے ہوئے کو نہیں جگا سکتا، ایک جاگتا ہوا سینکڑوں سوئے ہوؤں کو جگا دیتا ہے، لیکن سو سوئے ہوئے ایک سوئے ہوئے کو بھی جگا نہیں سکتے، اگر ہم سب سو گئے ہیں ، تو ہم سوتے رہیں گے، ہم ایک دوسرے کو جگا نہیں سکتے، ہم میں ایک آدمی بھی جاگ اٹھے تو ہزاروں ، لاکھوں سوئے ہوؤں کو جگا دے گا۔

سب نارمل حالات میں ہوا ہے

            اسی امید پر ہم لوگ پھر رہے ہیں ، ہم اس ملک کو برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے، ہمیں یہاں رہنا بھی ہے، سفر بھی کرنا ہے، پڑھنا لکھنا بھی ہے، اس ملک میں آ پ جیسے مصنف اور مؤرخ بھی ہیں ، اسکالر بھی ہیں ، یہ جو کچھ رونق ہے ، یہ سب امن و امان کی ہے، نارمل حالات کی ہے، نارمل حالات نہ ہوں ، بارش کا زمانہ ہوتا، بجلی چمک رہی ہوتی، اور ذرا سا پانی برسنے لگتا، یا ایک کڑاکا ہوتا تو سارا مجمع منتشر ہو جاتا، اگر یہاں اس مجمع میں سانپ آ جائے یا کوئی چھچھوندر ہی آ جائے تو ابھی آپ سب تتر بتر ہونے لگیں گے، یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں ، یہ سب Normalcy کا نتیجہ ہے، نارمل حالات اگر ملک میں ہوں گے، تو آپ اس ملک کو جتنا اونچا کیجیے، جتنا بڑھائیے، علم و فن کی جتنی تحقیقات کیجیے، آپ اس کو ٹکنالوجی میں اور سائنس میں امریکہ بنا دیجیے، اس سے بھی آگے بڑھا دیجیے، لیکن سب نارمل حالات میں ہوا ہے، وہاں بھی نارمل حالات میں ہوا ہے، یہاں بھی نارمل حالات میں ہو گا، بس ہم اس کے لیے پھر رہے ہیں ، ابھی ہم اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتے ہیں ، ہم اس کو تلاش کر رہے ہیں Parties میں ، ہم اس کو تلاش کر رہے ہیں لائبریریوں میں ، لیکن ہم اکیلے نہیں ہیں ۔

مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں

            جب اتنا بڑا مجمع سیوان جیسے شہر میں ایک ذرا سی آواز پر جمع ہوسکتا ہے، تو اس ملک سے مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، یہ ملک جاگتا ہے اور دوسرے ملکوں کو انشاء اللہ جگائے گا، مگر ضرورت تھوڑی سی محنت کرنے کی ہے، ہمارے لیڈروں نے Country Building کا کام تو کیا، لیکن Nation Building کا کام نہیں کیا، گاندھی جی کرنا چاہتے تھے، ان کو پورا موقع نہیں ملا، اور ان کے بعد جن لوگوں نے اس کام کا ارادہ کیا وہ سیاسیات میں پھنس کر رہ گئے، میں ان کی نیت پر حملہ نہیں کرتا، لیکن یہ کام رہ گیا، اب یہ کام ہمارے آپ کے جیسے آدمیوں کا ہے، سارے ملک میں آواز لگائیے، سارے ملک میں ایک مہم چلائیے، کہ اے آدمیو! اے انسانو! انسان بنو، ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھو، اور دیکھو لہریں اٹھیں گی، اور دیکھو لوگ تمھیں پاگل بنانا چاہیں گے، لوگ تم سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہیں گے، لوگ تمھیں Exploit کریں گے، لیکن تم ایکسپلائٹ نہ ہونا، آپ یہ کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اب فسادات کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے، یہ بد اخلاقی ہمیشہ کے لیے بند ہونی چاہیے، انسان انسان کو خدا کی نعمت سمجھے، اپنا بھائی سمجھے، سمجھے کہ اس کے بغیر تو زندگی کا لطف ہی نہیں ، اگر یہ فن ہم سیکھ لیں گے تو گویا ہم نے سب کچھ سیکھ لیا۔

٭٭٭

تشکر: ابو الہادی الاعظمی جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید