FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

               مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

 

ناشر: پیام انسانیت فورم، لکھنؤ

 ۲۲؍ مئی ۱۹۷۵؁ء کو لکھنؤ کے تاریخی مقام گنگا پرشاد میموریل ہال( امین الدولہ پارک) میں منعقد جلسہ میں کی گئی ایک اہم تقریر۔

بشکریہ: www.abulhasanalinadwi.org

 

            حضرات! اس موقع پر جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کے اظہار کے لیے ایک شعر سے کام لوں گا، وہ شعر لکھنوی مذاق اور لکھنوی زبان کا شعر ہے۔ لکھنؤ کے ایک مشاعرہ میں جو نوابی عہد میں ہوا تھا اور جس میں لکھنؤ کے بڑے بڑے اساتذہ موجود تھے، جب ایک کمسن شاعر نے اپنی غزل کا یہ مطلع پڑھا تو مشاعرہ میں دھوم مچ گئی، مطلع یہ تھا   ؎

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

            اس شعر کادوسرامصرع زیادہ مشہور ہے، اور خاص موقعوں پر پڑھا جاتا ہے، اس کو ایسے موقع پر پڑھتے ہیں جب کسی گھرانے کا کوئی بچہ بڑا ہونہار ہو، جس کی پیشانی پر بڑائی کے آثار کندہ ہوں ، اور کچھ امیدیں اپنے خاندان کی اور جاننے والوں کی اس سے وابستہ ہوں ، اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے خاندان کے نام کو بٹہ لگاتا ہے، یا اپنے خاندان کے لیے کسی مصیبت کا باعث بن جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں :

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

            آپ دیکھیے کہ آج دنیا کا نقشہ ایسا ہی ہے، انسانیت کے گھرانے کو مشرق سے لے کر مغرب تک، شمال سے لے کر جنوب تک، اس گھر کے چراغ ہی سے آگ لگی ہے، باہر سے یہ آگ نہیں آئی۔

تاریخ انسانی کے کسی دور میں یہ نہیں ہوا

            تاریخ انسانی کے کسی دور میں یہ نہیں ہوا کہ جانوروں ، درندوں ، سانپوں اور بچھوؤں نے انسانیت پر کبھی کوئی منظم حملہ کیا ہو، تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ فلاں سلطنت کا زوال اس طرح ہوا اور ملک کی اینٹ سے اینٹ اس طرح بجی کہ شہر کے چیتوں ، شیروں اور بھیڑیوں نے اس پر یلغار کی اور انسانوں کو لقمۂ اجل بنا لیا، اور تہذیب کا چراغ بھی گل ہو گیا۔ سانپ اور بچھو تو شہر کے اندر بھی ہوتے ہیں ، لیکن ایک گھر یا ایک خاندان کے متعلق بھی تاریخ میں لکھا ہوا نہیں ملتا کہ سانپوں اور بچھوؤں کی وجہ سے اس گھر کا صفایا ہوا ہو، محلے کا محلہ صاف ہو گیا ہو۔

کبھی کسی ملک کو جاہل اور بے پڑھے لکھے انسانوں نے تباہ نہیں کیا

            انسانی تاریخ کے جتنے بھی اَلمیے (Tragedies)ہیں ، ملکوں اور قوموں کی تباہی، Societies،  ،اور معاشروں کی بربادی کے جتنے واقعات ہیں ، وہ سب انسانوں کے کرتوت ہیں ۔ اگر مجھے معاف کیا جائے تو میں کہوں کہ انسانی تاریخ کے بڑے بڑے اَلمیے اور انسانوں پر جو بڑی بڑی مصیبتیں آئیں ، وہ زیادہ تر ان انسانوں کی لائی ہوئی تھیں جو زیادہ پڑھے لکھے تھے، جو زیادہ مہذب، شائستہ اورآسودہ تھے، اور اگر یہ کہا جائے کہ بہت زیادہ ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے تو غلط نہ ہو گا، کسی ملک کو کبھی جاہل، کندۂ نا تراش، بے پڑھے لکھے انسانوں نے تباہ نہیں کیا، ایک واقعہ بھی تاریخ میں نہیں مل سکتا کہ کوئی ملک اس ملک کے جاہلوں کے ہاتھ تباہ ہوا، ان بے چاروں میں اتنی سمجھ نہیں ہوتی ، وہ تو بے چارے موٹی موٹی باتیں جانتے ہیں ، ان کو تو کھانا پینا ملتا رہے، وہ تو تباہ کن آلات ایجاد بھی نہیں کرسکتے، ان کا ذہن وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا ، قوموں اور سوسائٹیوں کی تباہی کچھ ہنسی کھیل نہیں ہے، وہ کسی ایک دو افراد کی غلطی یا کسی ایک طبقہ کے ظلم کا نتیجہ نہیں ہوتا، جب کسی تمدن کا قوام بگڑ جاتا ہے، تمدن جب سڑ جاتا ہے، اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے، تو تباہی آتی ہے۔

غلامی اور محکومی کے اسباب

            تاریخ میں ایسی بہت کم مثالیں ہیں کہ کسی قوم نے کسی قوم پر سیکڑوں ، ہزاروں برس تک حکومت کی ہو ،یہ تو غیر فطری چیز ہے کہ کوئی قوم باہر سے آئے اور اس کو غلام بنائے اور صدیوں تک غلام ہی رکھے، بعض قوموں کے زوال سے یا کسی بادشاہ یا حکمراں کی غلطی سے ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے،خود ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیے ،جب یہ انتظام بگڑا اور لوگوں کی عزت و آبرو خطرہ میں پڑ گئی، زندگی ان کے لیے عذاب بن گئی، نہ امن و امان تھا، نہ سکون و اطمینان، اس وقت ملک کی آبادی زبانِ حال سے کہتی تھی کہ کوئی اور طاقت ملک کا انتظام سنبھالے، اور ہم کو اس عذاب سے نجات دے۔

            پیغام دو طرح کے ہوتے ہیں ، ایک پیغام جو آفیشیل (Official)ہوتا ہے، قانونی اور تحریری ہوتا ہے، اور ایک پیغام ہوتا ہے جو دل، دماغ اور روح کی زبان سے ادا ہوتا ہے، روح کہتی ہے اور روح سنتی ہے، قوم کی روح جو ستائی ہوئی اور کرب و اذیت میں ڈوبی ہوتی ہے، فریاد کرتی ہے، بچوں کی آہ و فغاں ، عورتوں کی نالہ و فریاد، دکھے ہوئے انسانوں کی آہیں ،ان کے دل کی کراہ خدا تک ہزاروں پردوں کو چاک کر کے پہنچتی ہے، اگر اس کی راہ میں سمندر حائل ہو، پہاڑ حائل ہوں ، وہ اس کی راہ کو روک نہیں سکتے، جیسے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ مظلوم کی آہ سے بچو! اس لیے کہ وہ سیدھی آسمان تک پہنچتی ہے، کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی۔(۱) [مسند الإمام أحمد بن حنبل (۱۲۵۷۷)۔] خدا کو اپنی مخلوق پر پیار آتا ہے، اپنی بنائی ہوئی چیز سے پیار ہوتا ہے، ایک کمہار کو اپنی مٹی کی بنائی ہوئی چیز سے پیار ہوتا ہے، خدا کی مخلوق کہیں ہو، جب اس کا دل دکھے گا، جب اس کی انسانیت پامال ہو گی، جب اس کی ہستی کو خاک میں ملایا جائے گا، جب اس کے حق کا خون کیا جائے گا، جب حقیقت کا انکار کیا جائے گا، جب دن کو رات اور رات کو دن کہا جائے گا، جب بچوں کے منھ سے نوالہ چھین لیا جائے گا، جب بیواؤں کے سر پر سے دوپٹہ اتار لیا جائے گا، جب غریب کے چولہے پر سے توا کھینچ لیا جائے گا، تو در و دیوار سے آواز آنے لگتی ہے کہ ہماری مدد کرو۔ اس وقت خدا یہ نہیں دیکھتا کہ ان غریبوں اور دکھ کے مارے انسانوں کو نجات دلانے والا کہاں سے آتا ہے۔

            یہی انسانی تاریخ کا بار بار کا تجربہ ہے کہ جب لوگ زندہ درگور ہو کر زندگی گزارتے ہیں ، جن کا ایک گھنٹہ ایک ساعت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، اس وقت پورے ملک کا پتہ پتہ ، تنکا تنکا اور در و دیوار یہ صدا لگاتے ہیں کہ ہمیں بچاؤ! زندگی عذاب بن گئی ہے، ہم ان اپنوں کو لے کر کیا کریں ، یہ ہمارے کس کام کے جو امن قائم نہیں رکھ سکتے؟ اس وقت خدا ان کو سزادیتا ہے، ان غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ اور آپ دیکھیں گے کہ تاریخ میں جب کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو باہر سے کوئی اور قوم آئی، اس نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا، فائدہ بھی پہنچایا، اور فائدہ بھی اٹھایا، اس صورت حال پر آپ جتنے بھی چیں بہ جبیں ہوں ، آپ کو اختیار ہے، لیکن مجھے اس پر بالکل تعجب نہیں آتا ، کیونکہ خدا کو بہر حال اپنی مخلوق کی داد رسی کرنی ہے اور اس صورت حال میں زیادہ دن باقی رہنے کی صلاحیت نہیں ۔ میرے نزدیک بیرونی حکومت کی یہی توجیہ ہے کہ وہ ملک کے ذمہ داروں اور برسر حکومت طبقہ کی بے عنوانیوں اور نااہلی کی سزا اور مظلوموں کی آہ و فغاں کا نتیجہ ہوتی ہے۔

بیرونی حکومت اور ملکی حکومت کا فرق

            لیکن یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ انگریزوں کو جنھوں نے اس ملک پر سو برس تک حکومت کی، اس ملک سے کوئی تعلق نہ تھا، وہ ان کے نزدیک صرف ایک دودھ دینے والی گائے کی حیثیت رکھتا تھا، وہ تو اپنے اور اپنی قوم کے مفاد کے لیے آئے تھے اور چلے گئے۔ اگر وہ یہاں سے ریل کی پٹریاں اور مکانوں کے دروازے اور کھڑکیاں اکھاڑ کر لے جاتے تو مجھے کچھ تعجب نہیں تھا، اس لیے کہ ان کو اس ملک میں رہنا ہی نہیں تھا، وہ اس ملک میں رہ کر بھی اپنے ملک کی فکر میں رہتے تھے۔ لیکن تعجب اس پر ہے کہ   ؎

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

            انگریز اس گھر کے چراغ تو نہیں تھے، سچی بات یہ ہے کہ وہ اس گھر کی آگ تھے، اگر وہ آگ لگاتے بھی تو ہمیں تعجب نہ ہوتا، وہ یہاں مہمان کی طرح آئے اور مہمان کی طرح رہے اور مہمان کی طرح چلے گئے، ان کے تو دن گنے ہوئے تھے۔ انگریزوں کے جانے کے بعد اس ملک کے ساتھ اپنوں نے جو سلوک کیا، وہ سلوک حیرت انگیز ہے، آپ مجھے معاف کریں ، میں آپ ہی میں کا ایک فرد ہوں ، اگر میں آپ کی شکایت کرتا ہوں تو اپنی ہی شکایت کرتا ہوں ، اگر میں آپ پر تنقید کرتا ہوں تو اپنے پر تنقید کرتا ہوں ۔ یہاں آپ کو بلانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صورت حال کا جائزہ لیں اور ہم اقرار کریں   ؎

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

            جن لوگوں نے اس ملک کا چارج لیا، وہ اس ملک کے اصلی باشندے تھے، جن کی قسمت اس ملک سے وابستہ تھی، جن کو اس ملک میں جینا اور اس ملک میں مرنا تھا، اور جنھوں نے آزادی کی لڑائی جوش و خروش سے لڑی، یہ امین آباد پارک جو آپ سے چند گز کے فاصلہ پر ہے اور میں سمجھتاہوں کہ یہ آواز وہاں پہنچ رہی ہے، یہ پارک ابھی تک گاندھی جی، پنڈت موتی لال نہرو، پنڈت جواہر لال نہرو،مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریروں سے گونج رہا ہے، یہ گنگا پرشاد میموریل ہال جس میں آپ اس وقت جمع ہیں ، یہ اس احتساب کے لیے بہت موزوں مقام ہے، یہ جنگ آزادی کے رہنماؤں کا خاص ایوان اور اسٹیج رہ چکا ہے، میں نے بھی ان کی تقریریں سنی ہیں ، آج گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ، مولانا آزاد، مولانا شوکت علی اس جگہ کھڑے ہو کر تقریر کر رہے ہیں ، یہ کل کی بات مجھے معلوم ہو رہی ہے، اور یہ امین آباد پارک تو جنگ آزادی کے عظیم ترین اسٹیجوں میں سے ایک اسٹیج تھا، ہمارے لکھنؤ کو فخر ہے، آزادی کی لڑائی میں اس کا وہ حصہ ہے جو ہندوستان کے کم شہروں کا حصہ ہو گا، سائمن کمیشن ہندوستان آیا ہوا ہے، ملک کے رہنماؤں کی طرف سے اس کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے، اسی سلسلہ میں امین آباد پارک میں ایک زبردست جلسہ ہوا ، جس میں مولانا محمد علی جوہر اور پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر ہوئی، میں اس جلسہ میں شریک تھا، اسی لکھنؤ میں آزادی کا صور پھونکا گیا، اسی پارک میں ولایتی کپڑوں کو آگ لگائی گئی، یہ میری آنکھوں کے سامنے کے مناظر ہیں ۔

            صرف لکھنؤ ہی میں نہیں ، سارے ہندوستان میں ایک آگ لگی ہوئی تھی۔ اگر کوئی شخص دیکھتا تو وہ کہتا کہ وہ لائق ترین لوگ ہیں جو اس ملک کی کشتی پار لگائیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک کو ایک گلدستہ بنا دیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک سے ہر قسم کا دکھ درد دور کر دیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو صرف ہندوستانیت ہی نہیں بلکہ انسانیت کو سربلند کریں گے،یہ وہ لوگ ہیں جن کے زمانہ میں ہر قسم کی تکلیفیں دور ہو جائیں گی، بدامنی کافور ہو جائے گی، ناانصافی کوئی جانے گا بھی نہیں ، عدالتیں انصاف کا پیکر ہوں گی، محکمے ذمہ داری اور امانت داری کا نمونہ ہوں گے، پولیس کی ضرورت نہیں ہو گی، ہندو مسلمان اس طرح سے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہوں گے جیسے بھائی بھائی۔ اتحاد و محبت اور ایثار و قربانی کے یہ مناظر آپ میں سے بہت سے لوگوں نے دیکھے ہوں گے۔ کسی کے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعداس ملک کا یہ نقشہ ہو گا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ملک تو خود اہل ملک کے ہاتھ سے تباہ ہوا، لیکن جیسا میں نے کہا کہ   ؎

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

            آج سارے ملکوں اور ساری دنیا میں انسانیت جس طرح پامال ہو رہی ہے وہ تو ایک لمبی داستان ہے اور ایک عام موضوع ہے، میں اس پر کیا روشنی ڈالوں ؟ اس کے لیے تو بہت اسٹیج ہوسکتے ہیں ، موٹی موٹی کتابیں بھی لکھی جا سکتی ہیں ۔

آپ کی کہانی کہنی ہے

            لیکن آج مجھے آپ سے آپ کی کہانی کہنی ہے اور مجھے تو اپنا اور آپ کا محاسبہ کرنا ہے، خود مدعی بن کر میں آپ کے اور اپنے خلاف آپ ہی کی عدالت میں مقدمہ دائر کرتا ہوں ، آج ہمارے سامنے ملک کا جو نقشہ ہے، کیا جنگ آزادی کے رہنماؤں کے وہم و گمان میں بھی آسکتا تھا ؟ میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے کسی کے ذہن میں یہ بات آ جاتی تو شاید ان کے ہاتھ سست ہو جاتے اور جس جوش و خروش کے ساتھ جنگ آزادی لڑ رہے تھے، وہ ختم ہو جاتا۔

            ہم نے ملک کی کیا حالت بنا رکھی ہے؟ ہم اپنے ہاتھوں سے کس طرح اس کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں ، جیسے یہ ملک کسی دشمن کے ہاتھ لگ گیا ہے، اور وہ اچھی طرح سے اس سے انتقام لینا چاہتا ہے، اپنے دل کا بخار نکال رہا ہے، بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کو اجاڑ کر رکھ دینا چاہتے ہیں ، اور اس کو کسی قابل رہنے دینا نہیں چاہتے۔ ریلوں پر سفر کر کے آپ دیکھ لیجیے، بسوں پر سفر کر کے آپ دیکھ لیجیے، آپ کسی شعبہ میں جا کر دیکھ لیجیے، انصاف کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ہم خو د اپنے ملک کو اپنے ہاتھ سے تباہ کر رہے ہیں ، ریل کا حال یہ ہے کہ پنکھے ، نلوں کی ٹوٹیاں ، کھڑکیاں ، سیٹوں کے چمڑے چرائے جاتے ہیں ، گلیوں میں مین ہول کے ڈھکن چرا لیے جاتے ہیں ، اس کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ معصوم بچوں کی اس میں جان چلی جائے گی۔

ایسی پستی ایسی گراوٹ

            ایک ایسی انسانی پستی، ایک ایسی گراوٹ کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ، ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسے مجمع کے سامنے مجھے کہتے ہوئے تکلیف محسوس ہوتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنے مقام سے گر رہا ہوں ، لیکن حقائق ہیں جن کے بغیر صورت حال کی صحیح عکاسی اور تصویر آپ کے سامنے نہیں آسکتی، پھر یہ دیکھیے! کیا ایک شہری دوسرے شہری کو اپنا بھائی سمجھتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ خدا کا بنایا ہوا ایک انسان ہے؟ بالکل نہیں ، ہر شخص دوسرے کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ ایک شکار ہے۔

            آج ہمارے معاشرہ اور انتظامیہ میں قیمتی انسان سے ایک موذی جانور کا سا سلوک کیا جاتا ہے، آج یہ حال ہو گیا ہے کہ ہم اپنے ہی طرح انسانوں کو، اپنے ہم وطن کو، اس ملک کے شہری کو اپنا بھائی نہیں سمجھتے، ہماری نظر اس کی جیب پر ہوتی ہے، ہماری نظر اس کے دھڑکتے ہوئے دل، ہماری نظر اس کی سلگتی ہوئی روح، ہماری نظر اس کے بلکتے ہوئے بچوں ، ہماری نظر اس کی بوڑھی ماں ، اس کے غریب خاندان پر نہیں ہوتی ، ہماری نظر اس کی جیب کے چار پیسوں پر رہتی ہے۔ سارے ملک کا یہ حال ہو گیا ہے کہ کسی کو کسی سے ہمدردی معلوم نہیں ہوتی، سارا ملک ایک منڈی اور ایک جوا خانہ بن گیا ہے، جس میں ایک کی جیت اور ہزاروں کی ہار ہے، کسی کے دل میں کوئی بلند جذبہ، بلند تخیل، انسانیت کا احترام، خدا کا لحاظ باقی نہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دل و دماغ پر کوئی فالج گر گیا ہے، ہمارا ضمیر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، ہمارے ضمیر میں ملامت کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی، سب اقدار( Values)ختم ہو چکے ہیں ، اور صر ف ایک (Value) باقی ہے اور وہ ہے :پیسے کی محبت۔ اور اس صورت حال اور اس بگاڑ سے کوئی پنجہ آزمائی کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ سارا ملک اور معاشرہ اصلاح اورسدھار سے مایوس نظر آتا ہے، یہ وہ خطرناک علامت ہے کہ جس سے ملک و قوم کبھی پنپ نہیں سکتے، اجتماعی بگاڑ نے پورے ملک کو کھوکھلا بنا دیا ہے، اور ہر شخص اپنے ذاتی اغراض اور محدود مفادات کو پورے ملک پر ترجیح دے رہا ہے۔

            انسانیت کو اس پر ماتم کرنا چاہیے اور انسانیت کے دعوے داروں کو شرم کے مارے اپنی گردن جھکا دینی چاہیے، ہولناک حادثات پر پتھر پگھل جاتے ہیں ، مگر ہمارے معاشرہ نے سنگ دلی کے ایسے نمونے پیش کیے ہیں کہ جن کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔

            خود غرضی اور اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کا جو مزاج اس ملک میں پیدا ہو گیا ہے اس نے وہ خطرات پیدا کر دیے ہیں جو کسی بیرونی طاقت سے بھی پیدا نہیں ہوسکتے ۔ریل اور ہوائی جہاز کے حادثے تو شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں ، لیکن ہر دفتر، ہر بازار، ہر شعبۂ زندگی میں وہ لوٹ گھسوٹ اور انسانیت و شرافت کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے جو انسانوں کے لیے باعث ننگ و عار اور باعث شر م ہے۔ سارے ملک میں کام چوری، رشوت خوری اور اقربا پروری کا عام مزاج ہو گیا ہے۔ وہی ملک ہے جو انگریزوں کے زمانہ میں تھا، مگر نہ معلوم اس کی صلاحیتِ کار کو کیا ہو گیا ہے، نہ انتظام ہے، نہ امن ہے،کسی شخص کو یہ پر مسرت احساس نہیں کہ وہ اپنے گھر میں ہے۔ لوگ بڑی سی بڑی عزت، بڑی سی بڑی دولت چھوڑ کر اپنے وطن آتے ہیں کہ وطن کی بات ہی دوسری ہوتی ہے، اپنا گھر اور اپنا ملک کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو وہاں اطمینان ،عزت اور خوشی حاصل ہو، ایک کو دوسرے پر بھروسا ہو، ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آئے، اسی کا نام ہے اپنا گھر، اپنا وطن۔ ایسے وطن میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ جس میں آرام ملے نہ امن و چین نصیب ہو، اپنے گھر اور اپنے وطن کا مطلب تو یہ ہے کہ انسان کو وہاں زیادہ آرام اور خوشی اور امن و عافیت نصیب ہو، اور اگر یہ حاصل نہ ہو تو لوگ ایسے وطن سے کیا خاک محبت کریں گے؟!!

منفی حب الوطنی

            ۱۹۴۷؁ء میں انگریزوں کے چلے جانے کے بعد انسان دوستی ، ہمدردی، خلوص و محبت کا ایسا مثالی دور آنا چاہیے تھا کہ لوگ دور دور سے دیکھنے آتے، میں ڈنکے کی چوٹ پر کہوں گا کہ ہم نے اپنے کو اس ملک کے انتظام چلانے کا اہل ثابت نہیں کیا، ہماری حب الوطنی ، سلبی اور منفی (Negative) تھی، مثبت اور ایجابی (Positive) نہ تھی، یعنی ہماری اصل دلچسپی اور صلاحیت انگریزوں کے نکالنے پر مرکوز تھیں ، ملک کو بنانے اور سنوارنے سے ہمیں زیادہ دلچسپی تھی اور نہ اس کی اہلیت کا ہم نے ثبوت دیا۔

            بہت سے لوگ لڑائی جیت لیتے ہیں اور صلح ہار جاتے ہیں ، بہت سی قومیں ہیں جو معتدل حالات میں اس صلاحیت کا ثبوت نہیں دیتیں جو غیر معتدل حالات میں انھوں نے دیا ہے۔ جنگ کے زمانہ میں آدمی کی قوت مقابلہ اس کی تمام کمزوریوں پر پردہ ڈال دیتی ہے، ہم ہندوستانیوں میں کمزوریاں تھیں ، جنگ آزادی نے اس پر پردہ ڈال دیا تھا، جب ہیجانی دور ختم ہوا اور ہمارے امتحان کا دور آیا تو ہم ناکام ہو گئے، دولت جب تک نہیں ہوتی بہت سے لوگ عابد، زاہد بن جاتے ہیں ، لیکن دولت آنے کے بعد ان کا رویہ اور زندگی بدل جاتی ہے، اس طرح کا تجربہ ہمیں رات دن ہوتا رہتا ہے، جنگ کا زمانہ ان چیزوں پر توجہ کرنے کی فرصت نہیں دیتا، جنگ کی بھاپ نکل جانے کے بعد اس کی تہہ میں جو چیزیں ہیں وہ اُبھر آتی ہیں ۔

            جب آزادی کی جنگ ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہم اہل نہیں ، ہم صرف اپنا فائدہ چاہتے ہیں ، ہمیں دوسرے کو فائدہ پہنچانے سے کوئی دلچسپی نہیں ، معلوم ہوا کہ ہمارے اندر انسان کا دل نہیں ہے، بلکہ چیتے، بھیڑیے اور درندے کا دل ہے۔ آخر چند برس میں یہ کیا کایا پلٹ ہو گئی؟ لڑائی کے زمانہ میں ہم کیا تھے ؟جنگ آزادی کے زمانہ میں ہم غریبوں کی خدمت کرتے پھرتے تھے، ہمارے جو ساتھی جیل میں تھے، ان کے گھروں کی سیوا کرتے تھے، تمام نفرتیں اور کدورتیں کافور ہو گئی تھیں ، ہندو اور مسلمان کا کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا، جنگ آزادی کی اس آگ نے ہماری آپس کی دشمنی کو پگھلا دیا تھا، لڑائی کے دوران میں تو اصلاح کا موقع نہیں تھا،لیکن جنگ آزادی شروع کرنے سے پہلے اور آزادی ملنے کے بعد ہمیں کتنا موقع ملا تھا، مگر ہم نے اپنی تربیت کا اس مدت میں کوئی سامان نہیں کیا، ۱۹۴۷؁ء سے ۱۹۷۵؁ء تک کتنا موقع ملا تھا؟

اصلاح سے مایوسی خطرناک ہے

            ہم میں کتنے ادارے ہیں ، کتنے مصنفین و ادباء ہیں جنہوں نے انسان میں صحیح شہری احساس ، انسانیت کا احترام، صحیح حب الوطنی پیدا کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے؟ آج صورت حال سے ہر شخص پریشان ومایوس ہے، ہر مجلس کا موضوعِ گفتگو آج کی ابتر صورت حال ہے، ہر شخص یہ کہتا ہے کہ نہ کھانے کا مزہ ہے، نہ امن و امان ہے، لیکن اس صورت حال کے ہم سب ذمہ دار ہیں ، اس گندے پانی میں ہم سب گلے گلے ڈوبے ہوئے ہیں ، سب اس گندے پانی کے دریا سے اپنے مفاد کا موتی نکالنا چاہتے ہیں ، اس گدلے پانی پر تنقید تو ہر شخص کرتا ہے، مگر اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اسی میں غوطہ لگا لے، اور ہوسکے تو اس سے اپنے فائدہ کا موتی نکالے۔

            یہ سب اس مایوسی کا نتیجہ ہے کہ اب اس ملک کی قسمت میں بگاڑ ہی لکھا ہوا ہے، اور اس کی سدھار کی کوئی صورت نہیں ، یہ مایوسی حد درجہ خطرناک اور ملک و قوم کے لیے بڑی مہلک ہے۔

نقار خانہ میں طوطی کی آواز

            آج کا یہ جلسہ اور یہ حقیر کوشش نقار خانہ میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں ، ہندوستان کے۵۵؍ کروڑ انسانوں کا یہ نقار خانہ، اس میں چند آدمیوں کی آواز کی حیثیت ہی کیا ہے، یہ صرف تکلیف دہ صورت حال پر احتجاج کرنے کے لیے ،راستہ تلاش کرنے کے لیے ہے کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ ہمارے ساتھ شامل ہو جائے، اور اس صورت حال سے ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔

            میرے دوستو! ملک اس وقت شدید خطرے میں مبتلا ہے، باہر سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ، وہ زمانہ گزر گیا جب ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا تھا، اور ایک قوم دوسری قوم کو غلام بناتی تھی، اس کا کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ آج کے حالات میں کوئی ملک دوسرے ملک پر قبضہ کرے، لیکن صورت حال ایسی ہے کہ ہر شخص پریشان ہے، اور وہ کسی نجات دہندہ کا منتظر ہے، ہمارے ملک کے لوگ اس صورت حال سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ نہ تو آزادی کے اعلی اقدار کا خیال کرتے ہیں ، اور نہ اس دانشمندانہ لٹریچر کی کوئی پرواہ کریں گے جو آزادی کی فضیلت میں لکھا گیا ہے، اور نہ اس زمانہ کے مصائب کا خیال کریں گے جو انگریزوں کے دور میں یہاں کے رہنے والوں نے برداشت کیے۔ وہ تو اس صورت حال کے تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں ، جو اس ملک کی آزادی سے پورا فائدہ اٹھانے میں مانع ہے۔

آزادی کے بعد

            ہندوستان کی آزادی کا تاریخ انسانی میں ایک مقام ہے، اس کا اس کتاب میں ایک زریں بات ہے، لیکن جس ملک کے رہنے والے اس ملک کے نظم و نسق (ایڈمنسٹریشن) سے مایوس ہوں ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں حق نہیں مل رہا ہے، ہمارا جائز مطالبہ ہمیں نہیں مل سکتا، ہم امن و عزت کی زندگی نہیں گزار سکتے، اس سے بڑھ کر حکومت پر سے عوام کی بے اعتمادی اور کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن یہ کروڑوں معصوم عوام، یہ راستہ کا چلنے والا عام آدمی (Man of Street) جس نے سیاست کا ایک حرف بھی نہیں پڑھا ہے، یہ سیاسی داؤ پیچ نہیں جانتا، جو کہتا ہے صحیح کہتا ہے، یہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے، یہ زبان حال، زبان حقیقت، زبان واقعہ سے بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ میرا اعتماد اس نظام پر سے اٹھ چکا ہے۔

مسئلہ صرف ایک پارٹی کا نہیں

            میں کسی ایک پارٹی ، کسی ایک جماعت ، ایک طبقہ کو نہیں کہتا، بلکہ ساری پارٹیوں ، ایک دوسرے کے بعد کی آنے والی حکومتوں اور نئے تجربہ کی دعوت دینے والوں ، ماہرین سیاست اور حکومت کے امیدواروں ، سب کو کہتا ہوں کہ ان پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے، اگر آپ دلوں کو کرید سکیں ، اور اس کے لیے کسی عمل جراحی کی ضرورت نہیں ، اسٹیج پر تقریر کرنا، مضمون لکھنا اور چیز ہے، اصل احساسات وہ ہیں جو گھر میں اور نجی مجلسوں میں ظاہر کیے جاتے ہیں ۔ اکبر الہ آبادیؔ نے کہا   ؎

نقشوں کو تم نہ جانچو، لوگوں سے مل کے دیکھو

کیا چیز جی رہی ہے، کیا چیز مر رہی ہے

ایک یا دو فرد سوسائٹی کو نہیں بگاڑ سکتے

            حضرات! عام طور پر لوگ کسی خاص طبقہ یا چند افراد اور بعض اوقات تنہا کسی فرد کو پوری سوسائٹی کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ ان عناصر نے یا اس بگڑے ہوئے فرد نے پوری زندگی کو غلط رخ پر ڈال دیا تھا، لیکن مجھے اس سے اتفاق نہیں ، میں تاریخ کے مطالعہ کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ ایک مچھلی تالاب کو گندہ کرسکتی ہے لیکن ایک فرد سوسائٹی کو بگاڑ نہیں سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اچھی سوسائٹی میں برے آدمی کا گزر نہیں ہوسکتا، وہ گھٹ گھٹ کر مر جائے گا۔ جس طرح مچھلی کو پانی سے نکال دیا جاتا تو وہ گھٹ کر مر جاتی ہے، اسی طرح جو سوسائٹی برائی کی ہمت افزائی نہیں کرتی، وہ اسے خوش آمدید (Welcome)کرنے کے لیے تیار نہیں ، اس میں برائی تڑپنے لگے گی، اس کا دم گھٹنے لگے گا اور وہ دم توڑ دے گی۔

            ہر زمانہ میں اچھے برے انسان ہوئے ہیں ، لیکن سب برائیوں کا ان کو ذمہ دار ٹھہرانا اور تمام برائیوں کو ان کے سر تھوپ دینا ٹھیک نہیں ، اگر کچھ برے لوگ حاوی ہو گئے تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پوری زندگی کا ہینڈل ا ن کے ہاتھ میں تھا، وہ جس طرف چاہتے تھے، زندگی کو موڑ دیتے تھے، بلکہ بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں سوسائٹی میں خود خرابی آ گئی تھی، اس زمانہ کا ضمیر گندہ ہو گیا تھا، اس میں برائیوں کا رجحان پیدا ہو گیا تھا، اس کے اندر اندھیر، ظلم اور خواہشات کو پورا کرنے کی زبردست خواہش پیدا ہو گئی تھی، وہ خود غرض اور نفس پرست بن گیا تھا۔جس دل کو گھن لگ جائے، جو مَن پاپی ہو جائے، آپ اس کو جرائم سے کسی طرح روک نہیں سکتے، آپ اس کو بیڑیوں میں جکڑ کر کے بھی رکھیں گے، تب بھی ان چیزوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

مصنوعی صورت حال

            آج جو صورت حال ہے بالکل مصنوعی اور غیر فطری ہے، اس میں باقی رہنے کی صلاحیت ہی نہیں ۔ یہ اہل ملک کی کمزوری ہے کہ ہم اس صورت حال کو برداشت کر رہے ہیں ۔

بغاوت اور انقلاب کا نعرہ نہیں بلکہ اصلاح کا نعرہ

            میں بغاوت کا نعرہ نہیں دیتا، میں انقلاب کا بھی نعرہ نہیں دیتا، میں اصلاح کا نعرہ دیتا ہوں ، میں انسانی حقوق کی اپیل کر رہا ہوں ، ہندوستانی ہونے کے ناطے یہ اپیل کر رہا ہوں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ میرا اگر ان بلند پایہ شخصیتوں اور تحریکوں سے تعلق نہ ہوتا ، جنہوں نے سب سے پہلے اس ملک کی آزادی کا خواب دیکھا تھا، اور اس کی آزادی کی لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، تو میں اتنی صاف گوئی سے کام نہ لے سکتا ، لیکن میرا دل و ضمیر اس تلخ نوائی اور تنقید کے باوجود مطمئن ہے، کیوں کہ میرے اوپر اسلاف اور بزرگوں کا ریکارڈ نہ صرف صاف اور پاک ہے، بلکہ درخشاں اور تاباں ہے۔

خوفِ خدا اور حب الوطنی

            کسی ملک یا قوم کے تحفظ و بقا کے لیے، اور افراد کو خود غرضی، ظلم، بے ایمانی اور خیانت سے بچانے کے لیے اصل طاقت تو خدا کا عقیدہ اور خوف ہے۔ جب کسی انسان کے دل و دماغ میں یہ عقیدہ جاگزیں ہو جائے کہ ایک ایسی بالاتر ہستی ہے جو اندھیرے اُجالے میں میری نگراں ہے، اور مجھے اس کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، تو وہ کوئی غلط کام نہیں کرسکتا۔ اصلاح کے لیے اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ، یہ وہ اصل طاقت ہے جو چوروں کو پاسباں بناتی ہے۔

            اس کے بعد کسی درجہ میں کوئی طاقت اس کو تباہی سے بچا سکتی ہے تو وہ سچی حب الوطنی ہے، یہ احساس ہو کہ یہ ہمارا ملک ہے، ہمارا شہر ہے۔ خدانخواستہ کسی ملک میں یہ دونوں جذبے ختم ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو تباہی سے بچا نہیں سکتی، کوئی فلسفہ، اعلی سے اعلی تعلیم، ایک لاکھ یونیورسٹیاں کام نہیں آسکتیں ۔

یورپ آج جذبۂ حب الوطنی کی وجہ سے باقی ہے

            یو رپ آج جذبۂ حب الوطنی کی وجہ سے باقی ہے، اس نے دو عظیم جنگیں جھیلی ہیں ، یورپ دو مرتبہ خون کے دریا میں نہایا ہے، ہم پر تو صرف خون کے چھینٹے پڑے ہیں ، یورپ تو خون کے سمندر میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ڈوب کر نکلا ہے، جنگ عظیم میں بعض بڑے بڑے شہر تباہ ہو گئے تھے، مگر وہاں کے لوگوں کی سچی حب الوطنی تھی جس نے پھر انھیں دنیا کے نقشہ پر اہمیت دلا دی، کھنڈر اور ملبہ پر ایک نیا شہر وجود میں آیا، یورپ میں ہزار خرابیاں ، الحاد و دہریت، فسق و فجور اور عیش و عشرت کی ترقی ہے، مگر سچی حب الوطنی ، انصاف پسندی، ذمہ داری کا احساس اور ہر شہری کے حقوق کی حفاظت اور جان و مال کے تحفظ کے احساس نے اس کو تھام رکھا ہے۔

            اگر کسی ملک یا قوم میں نہ تو خوف خدا ہو، نہ سچی حب الوطنی ہو تو اس کو تعمیری منصوبے اور مادی ترقیاں تباہی سے بچا نہیں سکتیں ، اہل ملک اس صورت حال پر ٹھنڈے دل سے غور کریں ۔

مسلمانوں کی دوہری ذمہ داری

            آخر میں مَیں اپنے مسلمان دوستوں اور بھائیوں سے کہوں گا کہ ان کی اس موقع پر دوہری ذمہ داری ہے، ایک تو یہ کہ ان کا مذہبی صحیفہ قرآن اور ان کے پیغمبر کی تعلیم ان کو نہ صرف اس عام بگاڑ، اس پھیلی ہوئی آگ اور دولت کی پرستش کے اس بہتے ہوئے گندے پانی سے بچنے کی تلقین کرتی ہے، بلکہ ان پر اس کو روکنے اور اس سے لوگوں کو بچانے کی ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے، ان کو ان کے پیغمبر نے صاف طریقہ پر سمجھادیا ہے کہ اگر کسی کشتی کے کسی سوار کو بھی ایسی حرکت سے باز رکھنے کی کوشش نہ کی گئی جس سے کشتی خطرہ میں پڑ جاتی ہے، اور یہ کشتی ڈوبی، تو پھر اس کشتی کا کوئی سوار بھی بچ نہیں سکے گا، اور یہ کشتی نیک و بد، قصوروار اور بے قصور، سوتے جاگتے، سب کے ساتھ ڈوب جائے گی، اور اس وقت کوئی نیکی اور کوئی دانائی کام نہ آئے گی۔

            ان کی دوسری ذمہ داری کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس ملک میں انسانیت کے احترام ، عدل ومساوات اور سماجی انصاف کا پیغام لے کر آئے تھے اور انھوں نے اس ملک کی بڑے نازک وقتوں میں مدد کی، یہ پیغام ان کی مذہبی تعلیمات میں اب بھی پورے طور پر محفوظ ہے، اگر انھوں نے ملک کی سوسائٹی کی اس ڈوبتی یا ڈگمگاتی کشتی کو بچانے کی امکانی کوشش نہ کی، تو وہ خدا کے سامنے قصور وار اور گنہ گار ٹھہریں گے، اور تاریخ میں فرض ناشناس، بلکہ احسان فراموش اور مجرم قرار پائیں گے۔

٭٭٭

تشکر: ابو الہادی الاعظمی جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید