فہرست مضامین
- جاتے بادل
- انتساب
- اطہر شکیلؔ میری نظر میں
- اطہر شکیلؔ اور اطہر شکیلؔ کی شاعری
- ہندی مزاج کی غزلیں
- ہے اب کوئی شکوہ گِلہ یاد کِس کو
- آشائیں مَن میں آنکھوں میں اک آس لے چلیں
- دل رہے گا اَدھیر کتنی دیر
- دکھ سکھ کو بانٹ لیں گے تو ہلکے رہیں گے لوگ
- اس کہانی کو نیا عنوان بھی دے دے گا کیا
- تپتی ہَوا کے بان وہ اب کے برس چلے
- رستے یہ کہہ رہے ہیں کہ چلنا تو سیکھ لے
- تارے سمیٹ لائیں گے سوچا نہ کیجئے
- خدا ساتھ ہے تو ارادہ نہ چھوڑ
- فصل جب وِش کی تیار ہونے لگی
- وہ آندھیاں چلیں کہ پرندے اجڑ گئے
- بستی بستی گاتا جا
- دیوار سامنے ہے تو سوپان بھی تو کھوج
- چاند کو نزدیک جب دیکھا بہت
- مَن میں کیا کیا خیال بیٹھے ہیں
- رائگاں میرا کہا، تیرا سُنا بیکار ہے
- چھوڑیئے دودھائیں شنکا چھوڑیئے
- دھرتی پہ یوں تو مِلتے ہیں اَپواد بھی بہت
- جن کو ہم لوگ مان دیتے ہیں
- پریم پتھ پر اب نیا اک حوصلہ لے کر چلو
- نہ وعدوں نہ دولت کا انبار دو
- اس کے چرنوں میں اجالا کیوں نہیں
- دھرتی پہ آج مول کسی جان کا نہیں
- تتلیوں کی آرزو میں تم کھڑے رہ جاؤ گے
- پھول جو مَن میں کھِلا ہے اس کو مرجھانے نہ دو
- سوارتھ کی دیوار اب مسمار ہونی چاہئے
- کِتنے بَن چوپٹ کئے ہیں دانؤوں سے پوچھئے
- ہے کاروبار جاری مندر میں دیوتا کا
- مُکھڑے کی جھلکیاں لئے آنچل نہیں رہے
- نظمیں
- بلاوا
- تمہارا سراپا لکھوں
- روٹھی ہوئی بہار کے نام
- گئی بہار کے نام
- سہانی یادوں کے نام
- اے ہوا
- ہجر کے موسم میں
- ماں کی یاد میں
- میرے ہندوستاں
- آ مِرے نزدیک
- جو کھو گئے ہیں نظارے
- اردو ایک یتیم بچہ
- {قطعہ }
- {قطعہ }
- رباعیات
جاتے بادل
(تیسرا مجموعۂ کلام)
جاتے بادل اتنا کر
تھوڑا جل برساتا جا
اطہر شکیلؔ نگینوی
انتساب
کیا دعاؤں نے ساتھ چھوڑ دیا
وسوسوں سے بھرا سفر کیوں ہے
کب ہم کو اس زمین پہ آ کے اماں ملی
غربت کا سامنا، کبھی ہجرت کا سامنا
ہاتھ سے آئینہ گرا، ٹوٹا
یہ حقیقت ہے زندگانی کی
والد مرحوم ’’رشید احمد صدیقی‘‘ کے نام جو اپنے اہل خانہ کی کشتی کو زمانے کی تند موجوں کے خلاف ایک مضبوط مانجھی کی طرح کھے رہے تھے۔ لیکن ۱۴؍ستمبر ۱۹۸۶ ء بروز اتوار شام ۶؍ بجے ایک موج مہلک بیماری بن کر آئی اور والد مرحوم اس کشتی کی پتوار میری والدہ مرحومہ کو سونپ کر اس کے ساتھ موت کے گہرے سمندر میں اتر گئے۔
یہ کتاب مرحوم کی ان آرزوؤں اور خواہشوں کے بھی نام کرتا ہوں جن کی تکمیل ہر باپ کی طرح وہ بھی اپنے بیٹے راقم الحروف میں دیکھنا چاہتے تھے۔
اطہر شکیل ؔ نگینوی
۲۱؍مارچ ۲۰۱۰ ء
اطہر شکیلؔ میری نظر میں
آج مجھے ایک ایسے نوجوان اور خوش گلو شاعر کے لئے مضمون لکھنے کا اتفاق ہوا کہ جن کے کلام نے مجھے کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ اس کی اور میری ملاقات نہٹور (بجنور) کے اس مشاعرے میں ہوئی تھی کہ جس میں مجھے عروضی خدمات کے اعتراف میں سفیرؔ افضل گڑھی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس مشاعرے میں سامعین حضرات کی فرمائش پر اطہر شکیلؔ نے کئی غزلیں اپنی خوبصورت آواز میں پیش کر کے داد و تحسین حاصل کی تھی۔ ان کے دو مجموعے ’’سمندر اور سلوٹیں‘‘ اور ’’شکن شکن دریا‘‘ کم عمر میں ہی منظرِ عام پر آ چکے ہیں یہ تیسرا مجموعہ ’’جاتے بادل‘‘ کے نام سے میرے سامنے ہے اور میں لفظ بہ لفظ اس کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کسی بھی طرح کی کوئی جھجک نہیں ہے کہ اطہر شکیلؔ نے محض جذبات، مشاہدات و تجربات کو دہرا کر یعنی کہیں سے نقل کر کے شاعری نہیں کہ ہے بلکہ اطہر شکیلؔ کی شاعری میں مشاہدات و تجربات گرد و پیش کے نشیب و فراز، زندگی کا کرب اور عصری آگہی کو پیکرِ اشعار میں ڈھالنے کا ایک پائیدار سلیقہ موجود ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں نئی غزل جدید نظم کی نمائندگی کرتی ہے، لب و لہجہ کی جدت جہاں اظہار کا ذریعہ ہے وہیں ان کے اندر اردو شاعری کی وہ پوری روایت بھی موجود ہے جسے شاعری کی روح کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ہم عصروں میں ایک ایسے زود گو شاعر ہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں جب جہاں جیسا بھی محسوس کیا اسے اپنے اشعار کے ذریعہ وہاں تک پہنچا نے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ جہاں اس کا مقام ہونا چاہئے، ایسا کرنے کے لئے انہوں نے اردو اور ہندی زبان میں کسی طرح کا امتیاز نہیں برتا۔ اطہر شکیلؔ جب شاعری جیسے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف گال بجائی نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصد ہوتا ہے اپنی معلومات میں اضافہ کرنا، جس کے لئے وہ شاعری سے متعلق نئے نئے اور الجھے ہوئے سوالات کرتے ہیں۔ یہ اتفاق میرے ساتھ بھی ہوا، ایسا کرنے سے اطہر شکیلؔ کی فن شاعری کی گہرائی و گیرائی تک پہنچ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کسی بھی طالب علم کے لئے یہ بہت ضروری امر ہے کیوں کہ بات سے بات نکلتی ہے اور اسی سے سیکھنے کا راستہ ہموار ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اطہر شکیلؔ کو کئی اصناف جیسے غزل، نظم، دوہے، قطعہ، رباعی وغیرہ میں مہارت حاصل ہے۔ اطہر شکیلؔ نے اپنی شاعری میں طرح طرح کے اوزان، قوافی اور ردیفوں کا استعمال جس انداز سے کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اطہر شکیلؔ فنِ عروض میں بھی خاص دلچسپی رکھتے ہیں جو آج کے دور میں ایک نو عمر شاعر کے لئے بہت بڑی بات ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اطہر شکیلؔ اگر خود کو رعونت سے بچا سکے تو وہ دن زیادہ دور نہیں ہے کہ جب ہندوستان کی ادبی محفلوں میں ان کو بڑے احترام کے ساتھ سراہا جا نے لگے گا۔
انوار احمد انورؔ بجنوری (صدر)
اتر پردیش داغؔ اکادمی بجنور۔ 30؍ اپریل 2011
شکیل ؔ بجنوری
اطہر شکیلؔ اور اطہر شکیلؔ کی شاعری
اطہر شکیلؔ اور اطہر شکیلؔ کی شاعری ! سوچتا ہوں دونوں میں سے کس بات سے اپنی بات کا آغاز کروں۔ یہ ایک آئنہ در آئنہ جیسی کیفیت ہے۔ شاعری کی بات کر رہے ہیں تو شاعری کو ہی رہبر بنا کر راہ سفر دریافت کرتے ہیں۔
جدید نسل کے شعرا جو ۱۹ویں صدی کی ۸ویں دہائی کے بعد ادب کے افق پر نمودار ہوئے۔ اطہر شکیلؔ بھی اس فہرست کا ایک معروف نام ہے۔ اطہر شکیلؔ وہ تیز گام راہ رو ہیں جو اپنی عمر کے شعرا میں امتیازی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ قومی سطح کے مشاعروں میں ٹی۔ وی چینلوں پر اکثر انہیں سنا اور سراہا جاتا ہے۔ یہ بات وقتی طور پر خوشی بھی دیتی ہے۔ مگر میرے لئے یہ بات طمانیت کی نہیں ہے۔ میں نے بہت سے ستاروں کو طلوع و غروب ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہاں یہ بات میرے لئے طمانیت کی ہے اور مسرت پرور بھی کہ اطہر شکیلؔ کو مشاعروں سے الگ ادبی گلیاروں میں بھی پسند کیا جاتا سنا اور سراہا جاتا ہے۔ ان کے دو شعری مجموعے ۱۹۹۸ ء ’’سمندر اور سلوٹیں ‘‘ اور ۲۰۰۶ ء میں ’’شکن شکن دریا‘‘ شائع ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان دونوں کتابوں کے محاسن و معائب پر نہ جا کر ایک خالص جواں سال شاعر کی اس اردو کش دور میں بہادرانہ کوشش پر نظر کی جائے۔ اور اس کو اس لئے سراہا جائے کہ وہ اس زبان کا علمبردار ہو کر نکلا ہے، جس کو لہو دے کر سینچنا ہو گا۔ اگر اس خیال سے ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس نوجوان شاعر اطہر شکیل ؔ کے ساتھ انصاف کر سکیں گے۔ ویسے میرے سامنے جب بھی کسی شاعر کا مجموعۂ کلام آتا ہے تو عادتاً میں یہ ضرور دیکھتا ہوں کہ اُس نے اپنی غزلیات میں قوافی کا انتخاب اور ان کا استعمال کس انداز سے کیا ہے۔ قافیے کا جو بندوبست ہے وہ اس کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ طاقت ان کے لئے جو قافیے کو اپنے خیال، موضوع یا تجزیے کے مطابق ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کمزور ان کے لئے جو قافیے کے لفظ متعین کرتے ہی لفظیات کی اس زنجیر میں بندھ جاتے ہیں جو غزل کی روایت کے ساتھ شروع سے اب تک چلی آ رہی ہے۔ اطہر شکیلؔ کی غزلوں میں قافیے کی تلاش کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ صدیوں کے شعری سفر میں نہ الفاظ تھکے ہیں نہ شاعری اور نہ ہی شاعر۔ ہر عہد اپنا رنگ سوچ کو عطا کرتا رہا ہے اور آنے والے عہد بھی کرتے رہیں گے۔ امیجری، الفاظ کا برتاؤ، استعارے پرانے نئے ہو کر زندگی کے اطراف میں رقص کرتے رہے ہیں۔ کرتے رہیں گے۔ لیکن ہماری آج کی کوششوں کو آنے والا کل تحریر کرے گا۔ اطہر شکیلؔ کے یہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جو آنے والے کل کی امانت ہیں۔ میں نے اطہر شکیلؔ کو سنا تھا کیوں کہ اللہ کا ایک بہت بڑا عطیہ لحنِ داؤدی انہیں ملا ہے جس سے اشعار میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ خوش کلام اور خوش گلو ہونا بھی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ مگر ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ لحنِ داؤدی کو سامعین کی خوشی اور مشاعروں کی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ملاقات کی بات آئی تو عرض کر دوں کہ نہٹور کا ایک پروگرام۲۰۰۷ ء کو جس میں راقم الحروف اور میرے دوست اسد رضا چیف بیورو راشٹریہ سہارا، دہلی کو ایوارڈ دیے جانے تھے تو مجھے بھی جانا پڑا۔ پروگرام مشاعرہ رات ۲؍ بجے ختم ہو گیا۔ قیام گاہ پر آ گئے۔ اطہر شکیلؔ سے باتیں شروع ہوئیں۔ ہم تین کم سخن صبح ۵؍ بجے تک مصروف گفتگو رہے۔ اس دن اطہر شکیلؔ کے اندر موجود اس شاعر اس انسان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی جس کا مجھے گمان نہیں تھا۔ یہ نو جوان شاعر دوسروں سے بہت مختلف ہے۔ اسے سیکھتے ہی جانے کی پیاس ہے۔ اس کے اندر میں نے ایک پر سکون اضطرابی دیکھی۔ اس متضاد جملے سے یقیناً کئی سوالوں نے ذہن کو چھوا ہو گا۔ میں اپنی بات کو صاف کرتا چلوں۔ اطہر شکیلؔ اچھے سے اچھے اور بہتر سے بہتر کے متلاشی ہیں۔ یہ رویہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی ہے۔ اور شاعری میں بھی۔ در اصل اچھی شاعری کو اچھی غذا بھی درکار ہوتی ہے۔ اچھی فکر، اچھی تلاش، اچھی زبان، اچھا کر دار، صداقتیں، اچھا انسان، اخلاص و محبت، انتھک لگن، وسیع مطالعہ، کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ، یہ سب باتیں آمد کی شاعری اور خالص شاعر کے یہاں ہی مل سکتی ہیں۔ یہ وہ اوصاف ہیں۔ جو ہمیں آورد کے بے آب و گیاہ صحرا سے نکال کر کھلتے گلستانوں اور سر سبز نخلستانوں میں لے آتے ہیں۔
اطہر شکیل ؔ ایک زود گو شاعر ہیں ساتھ ہی ذوق مطالعہ بھی ان کے لئے مشعل راہ ہو گیا ہے۔ اطہر شکیل ؔ کا آج بھی بہتر ہے۔ اور مجھے امید ہے کل بھی خوب تر ہو گا۔ ان کی شاعرانہ کوششوں سے ادبی دنیا متعارف ہو گئی ہے۔ انہیں پسند بھی کیا جاتا اور سراہا بھی جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے وہ اس کو ہمت افزائی کا درجہ دیتے ہیں مگر خود کو طالب علم ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دورانِ ملاقات اطہر شکیل ؔ نے اپنا ایک شعر پڑھا۔
زندگی کے معنیٰ کیا جال رہ گزاروں کا
اک گلی سے آگے پھر اک گلی نکلتی ہے
اب ایک شعر معروف شاعر منیر نیازیؔ کا ملاحظہ فرمائیں۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ایک کہنہ مشق شاعر کے یہاں اس کے عہد کی لفظیات کا برتاؤ۔ امیجری اور استعارے ہیں۔ دوسری جانب ایک جدید مبتدی جواں سال شاعر کے یہاں صرف ایک کیفیت (امیجری) مشترکہ ہے دونوں زندگی کے معاملات کو منظر دینا چاہتے ہیں۔ کہ ایک مسئلے کو حل کیجئے دوسرا سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس جواں سال شاعر کی پروازِ تخیل۔ اور کہنہ مشق قدیم شاعر منیر نیازی کی پروازِ تخیل ایک سی اونچائی پر ہیں۔ گو دونوں کے شاعرانہ رویے اور جہتیں مختلف ہیں۔ اطہر شکیلؔ یہاں کچھ اشعار ان کے اندر موجود اس صوفی سے ملاقات کراتے ہیں۔ جو کبھی کبھی لاشعوری طور پر باہر جھانک لیتا ہے۔
بے شک یہ کائنات تغیّر پذیر ہے
منظر بدل رہے ہیں نگاہوں کے سامنے
٭
گھر میں رہتے ہیں ہم مگر یہ بھی
ایک صورت ہے بے مکانی کی
جگہ کی قید سے آزاد ہے آوارگی ان کی
جنوں والے تو بستی میں بھی صحرا ڈھونڈ لیتے ہیں
عجوبہ یہ ہے میں زندہ ہوں لیکن
مِرے اندر کا انساں مَر رہا ہے
٭
بنی ہے ان سے ہی تاریخ جن کا
شکستہ بو ریا بستر رہا ہے
٭
سامنے ان کے جھکا کرتی ہے دنیا اطہرؔ
رب کے آگے سرِ تسلیم جو خم رکھتے ہیں
٭
خواب بخثے نیند کو تو جاگتی آنکھوں کو آس
میری ہستی پر ہے کتنی مہرباں قدرت تری
اطہر شکیلؔ کے اشعار عصرِ حاضر کی نمائندگی کرتے ہیں اور کہیں کہیں اقدار کے بکھراؤ کا کرب بھی ان کے اشعار کا جامہ پہن کر نمودار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایک زخم خوردہ انسان کے ساتھ ایک معالج بھی بیک وقت ان کے یہاں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
محبت کے فقرے، مروت کے جملے
تخاطب میں لیکن صداقت نہ ہو گی
٭
یوں محبت سے اس کو رخصت کر
جانے والا تجھے بھلا نہ سکے
دشمنوں کو گلے لگا کے شکیلؔ
ہم نے خود پر ہی مہربانی کی
بدلتے وقت میں ملت پناہیں کیسے پائے گی
نہ اس کی سوچ آفاقی نہ اس کی آنکھ آفاقی
٭
طے ہو گا کس طرح یہ مسافت کا مرحلہ
انجان ہمسفر ہیں تورستے پرائے ہیں
٭
رہ نہ جاؤ کہیں دنیا میں اکیلے اک دن
اپنے معیار پہ ہر شخص کو پر کھا نہ کرو
٭
مان بھی لے یہ گلدان شیشے کا ہے
اس کے وعدے پہ اتنا بھروسا نہ کر
٭
شیشہ مِرے یقین کا ٹوٹا ہے اتنی بار
دنیا کا اعتبار نہیں رہ گیا مجھے
٭
آس ہے نہ وعدہ ہے پھر بھی سوتے سوتے ہم
اک ذرا سی آہٹ پر چونک چونک جاتے ہیں
کتنا آسان تھا پھر صدیاں بِتا لینا بھی
ایک ہی پَل کے لیے کاش وہ میرا ہوتا
٭
کبھی ترکِ تعلق پر تاسّف بھی تمہیں ہو گا
چلو اچھا ہوا یہ خوش گمانی چھین لی تم نے
کہیں کہیں شرافتوں اور محبتوں کے آبگینوں پر ضرب لگتی ہے تو ان کے چٹخنے کی صدائیں اطہر شکیل ؔ کے اشعار کا روپ دھار لیتی ہیں۔
لُٹ چُکے ہو جہاں پہ تم اطہرؔ
پھر اسی راستے پہ جاتے ہو
٭
کرچیاں عہدِ تعلق کی لئے بیٹھا ہوں
تم تو کہتے تھے کہ وعدہ نہیں توڑا کرتے
٭
لاکھ اوروں نے بد زبانی کی
عادتاً میں نے گُل فشانی کی
ایک دوست کی ضرورت ہراس شخص کو ہوتی ہے۔ جو زندہ ہے لیکن جب ایک دوست، راز داں، غمخوار یا اپنوں کے تیر ہدف سے جو کرب ملتا ہے۔ اس کو بھی اطہر شکیلؔ نے اشعار میں ڈھالا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیں۔
دوستی کے لئے دشمنی کے لئے
اک شناسا تو ہو اجنبی کے لئے
٭
ساری دنیا کو ہم قہقہے بانٹ کر
خود ترستے رہے اک ہنسی کے لئے
٭
دل کی باتیں کہہ کر تم سے غم ہلکا کر لیتے ہیں
ورنہ کس نے، کس کی یار و! بگڑی بات سدھاری ہے
٭
پہلے ہوتا تھا دوستوں سے گِلہ
اب کسی سے گِلہ نہیں ہوتا
دوستی اس نے دفعتاً کی تھی
بے وفائی بھی نا گہانی کی
٭
کون اطہرؔ یہاں رودادِ سفر پوچھے گا
کیوں بچا رکھے ہیں یہ پاؤں کے چھالے ہم نے
سماج کے وہ منظر جہاں حیوانیت شعلے برساتی ہے ایسے لمحے اس نازک خیال شاعر کو حیران بھی کرتے ہیں اور پریشان بھی۔ اس کی شکایتیں اطہر ؔ کا دامن تھام کر اشعار تک آ جاتی ہیں۔
یہ تماشا زمین پر کیوں ہے
خیر کم، بے حساب شر کیوں ہے
٭
وہ تو سب کو عزیز رکھتا تھا
زد میں شعلوں کی اس کا گھر کیوں ہے
٭
آگ اپنا، پرایا نہیں دیکھتی
گھر کسی کا جلانے کی ضد چھوڑ دے
٭
میرا مسکن جان کر جن کو ہوا دی تھی کبھی
اب وہی شعلے تمہارے آشیاں تک آ گئے
اطہر شکیل ؔ سماجی ناہموار یوں، دو رنگی زندگی جینے اور قدم قدم پر مکھوٹے لگائے ہوئے لوگوں کو اپنے اشعار میں مشورہ بھی دیتے نظر آتے ہیں۔
٭
خود کو اونچا اٹھا نا ہے تجھ کو اگر
سب کو نیچا دکھانے کی ضد چھوڑ دے
کچھ پڑوسی بہت خوش ہیں بھائی مِرے
اب یہ فتنے اٹھانے کی ضد چھوڑ دے
٭
دعا کرنے سے کب بنجر زمیں پر فصل اگتی ہے
عمل کے بعد ہی اطہر ؔ دعائیں کام آتی ہیں
٭
دونوں مِل کر سامنا کرتے تو دشمن ہار تا
اتنی قوت تو ابھی تیرے مِرے بازو میں تھی
٭
فقط خشک ٹہنی سے سختی نہ لے
ہری ڈال سے کچھ لچکنا بھی سیکھ
٭
اس ہاتھ میں ہوتی نہیں برکت کبھی اطہرؔ
جس ہاتھ میں محنت کی کمائی نہیں ہوتی
یہاں اطہر شکیل ؔ کے کچھ وہ اشعار نقل کروں گا۔ جوان کی غزل میں اک خاص رنگ لئے ہوئے ہیں۔ در اصل ان کی غزل میں تغزل نِت نئے انداز میں ملتا ہے۔
٭
ڈوب کر دور افق میں ہے دریچے سے طلوع
آسماں ! تیرا نہیں چاند ہمارا نکلا
٭
مِری آنکھوں پہ رکھ دو اپنا آنچل
پگھل کر دل مِرا دریا ہوا ہے
سوچ کر اب بھی مہک اٹھتا ہے میرا روم روم
کیا عجب تاثیر تیرے جسم کی خوشبو میں تھی
٭
موسموں نے گو ترے خط کی عبارت چاٹ لی
اب بھی ہے محفوظ لیکن پھول اک سوکھا ہوا
٭
چلے آؤ کہ بیلے کھل رہے ہیں
ابھی موسم وہیں ٹھہرا ہوا ہے
٭
کس کی رسوائی کا اندیشہ تھا! اپنی کہ تری؟
دوستوں میں بھی ترے ذکر جو ٹالے ہم نے
٭
یوں تو پہلے بھی بچھڑتے تھے مگر ایسا نہ تھا
وہ سراپا یاد آئے جو سراپا دیکھئے
٭
وعدے کی شام تک تو رکھوں خود کو پرُ سکوں
اتنا بھی تو قرار نہیں رہ گیا مجھے
٭
خدا جانے اب کیا ہو صورت تری
مِرے پاس پہلے کی تصویر ہے
٭
یہیں ہم کہیں رہ گئے تھے بچھڑ کر
ہوئی سوچ کر آنکھ نم چلتے چلتے
کبھی غنچے میں ڈھلتا ہے، کبھی دلبر میں ڈھلتا ہے
بس اک تیرا تصور خواب کے منظر میں ڈھلتا ہے
٭
رونقیں سب ترے جانے سے ہوئی ہیں کافور
شاخ پر پھول نہ دیوار پہ جگنو آئے
٭
سچ تو یہ ہے کہ مِرے کان مہک اٹھتے ہیں
فون سے بھی تری آواز کی خوشبو آئے
٭
خوابوں کی طرح آنا، خوشبو کی طرح جانا
ممکن ہی نہیں لگتا اے دوست تجھے پانا
٭
یاد تیری بڑی شرمیلی ہے تب آئی ہے
جب یہ دیکھا ہے اکیلا ہوں میں تنہائی ہے
٭
چھلک جائیں تو کہہ دیتے ہیں ساری داستاں دل کی
ہمیں معلوم ہے ہوتے ہیں آنسو بولنے والے
اطہر شکیلؔ نے اردو کے حالِ زار پر بھی بہت سے اشعار اور ایک پوری نظم جس کا عنوان ہے ’’اردو ایک یتیم بچہ‘‘ کہی ہے۔ یہاں اردو کے تعلق سے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
٭٭٭٭
فضاؤں میں چھڑک دیتے ہیں خوشبو، بولنے والے
جہاں کچھ لوگ مل جاتے ہیں اردو بولنے والے
اس کی طرف سے اور نہ غفلت کرو شکیلؔ
مجبور ہو کے گھر سے نہ اُردو نکل پڑے
٭
خط کو پڑھوانے چلا آیا، پڑوسی تھا مِرا
صاف ستھری اک عبارت تھی مگر اُردو میں تھی
٭
میسّر ہیں ہمیں دن رات نغمے بھی، تجلّی بھی
ہمارے گھر سے وابستہ ہیں اُردو بولنے والے
٭
واقفوں کے درمیاں ہی بے نشاں ہو جائیں گے
ہم بھی کیا اس شہر میں اُردو زباں ہو جائیں گے
اطہر شکیل ؔ نے ماں کے حوالے سے بھی ایک نظم بہ عنوان ’’ماں کی یاد میں ‘‘ کہی ہے اور ایک غزل نما نظم ماں کے تعلق سے کہی ہے۔ کہ مختلف غزلوں سے ماں کے تعلق سے اخذ کئے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
٭٭٭
سرسے اک دن ماں کا سایہ چھین لے گا آسماں
کیا خبر تھی ہم بھی اطہرؔ بے اماں ہو جائیں گے
٭
چاند گہتا ہے مدّت میں اک آدھ بار
گھر کے آنگن میں ہر روز گہتی ہے ماں
٭
ماں کی تصویر نگاہوں میں ابھر آتی ہے
جب بھی تاخیر سے ہم گھر میں قدم رکھتے ہیں
سپردِ خاک تو کر آئے ماں کو تم اطہرؔ
غموں کی دھوپ میں سایہ کہاں سے پاؤ گے
٭
درد بچوں کا کیا کیا نہ سہتی ہے ماں
سوکھی روٹی کو پکوان کہتی ہے ماں
٭
ہر سانس میں رَس گھول دیا ہو جیسے
فردوس کا دَر کھول دیا ہو جیسے
یوں ماں نے مِری پیار سے ڈالیں نظریں
پھولوں میں مجھے تول دیا ہو جیسے
٭
غرض زندگی کے تمام رنگ و آہنگ سے پُر اطہر شکیلؔ کی شاعری کے اس مختصر جائزے کے بعد امیّد کرتا ہوں کہ اطہر شکیلؔ اپنے اس شعری سفر کو اسی طرح خوب سے خوب تر بنانے میں اپنی لگن کو جاری و ساری رکھیں گے۔ بڑا ہونے کے ناطے تاکید کرتا ہوں کہ میری تعریف کو ہمت افزائی ہی سمجھیں۔ کسی خوش گمانی کا شکار نہ ہوں کیوں کہ خوش گمانیاں ہمیشہ سدِّراہ ہی بنتی ہیں اور ترقی کی راہ کو معدوم کر دیتی ہیں۔ اسی دعا کے ساتھ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
شکیل ؔ بجنوری
شوق کدہ، چاہ شیریں بجنور
۱۵؍اگست ۲۰۱۰ ء
٭٭٭
ہیں انبیاء کے واسطے بھی رہنما حضورؐ
بعد اَز خدا حضورؐ ہیں، بعد از خدا حضورؐ
پایا تھا جس نے لمس کبھی آپ کا حضورؐ
اب تک مہک رہا ہے وہ غارِ حرا حضورؐ
آسان اس کو ہو گئی دنیا و آخرت
جس نے کیا ہے یاد سبق آپ کا حضورؐ
پیشِ خدائے پاک ندامت نہ ہو مجھے
اس کے سِوا نہیں ہے کو ئی التجا حضورؐ
یہ جس طرف سے گزری ہے، روحیں مہک اٹھیں
روضے کو چھُوکے آئی ہے بادِ صبا حضورؐ
اس کو بھی اب عطا ہو کرن کو ئی نور کی
اطہرؔ ہے ظلمتوں کا ستایا ہوا حضورؐ
٭٭٭
ہندی مزاج کی غزلیں
ہے اب کوئی شکوہ گِلہ یاد کِس کو
کِسی کی رہی ہے کتھا یاد کِس کو
سبھی نے تراشے ہیں بھگوان اپنے
جہاں میں رہا ہے خدا یاد کِس کو
گِناتے ہیں پاپ اور پُن دوسروں کے
مگر خود ہے اپنی خطا یاد کِس کو
نئی لہر میں سانس لیتے ہیں ہم سب
مگر ہے وہ کَل کی ہَوا یاد کِس کو
نئی منزلیں ڈھونڈ لیں سب نے اطہرؔ
مِرے گھر کا ہے راستہ یاد کِس کو
آشائیں مَن میں آنکھوں میں اک آس لے چلیں
چلنا اگر ہے ساتھ تو وِشواس لے چلیں
نفرت کے وِش سے آج وِشیلی ہوئی فضا
جس اور جائیں پیار کی بُو باس لے چلیں
سمویدنا نہیں ہے تو بنجر ہوئے ہیں لوگ
اب پتھروں کے شہر میں احساس لے چلیں
بارُود بو دیا ہے یہ کِس نے چمن چمن
پھر ہو چمن، چمن، یہی پَر یاس لے چلیں
کیا لے کے کچھ نہ جائیں گے اس کے نگر شکیلؔ
اچھائی ساتھ لے چلیں اَرداس لے چلیں
دل رہے گا اَدھیر کتنی دیر
ہم بہائیں گے نٖیر کتنی دیر
گھر سے باہر کوئی نہیں آیا
در پہ چیخا فقیر کتنی دیر
ٹوٹ جائے گا رُوپ کا جادو
دل ہے اس کا اسیر کتنی دیر
کاٹنا ہے سفر اکیلے ہی
ساتھ ہیں راہ گیر کتنی دیر
بھوک نیلام کر گئی اس کو
ضد بھی کرتا ضمیر کتنی دیر
کھینچ لی جب کمان اے اطہرؔ
پھر ہے چٹکی میں تیر کتنی دیر
دکھ سکھ کو بانٹ لیں گے تو ہلکے رہیں گے لوگ
سیمِت رہے جو خود میں تو کیسے رہیں گے لوگ
ان بستیوں کی کم نہیں ہو گی چہل پہل
جاتے رہیں گے لوگ تو آتے رہیں گے لوگ
کیا مٹھیوں کوکَس کے نہ بھینچیں گے ایک دن
انیائے کیا سَدیو ہی سہتے رہیں گے لوگ
قبضے میں ظالموں کے ہے دریا پتا نہ تھا
ساگر کے پاس جا کے بھی پیاسے رہیں گے لوگ
نفرت کی آگ اُٹھ کے بجھاؤ میاں شکیلؔ
جلتی رہی اگر یہ تو جلتے رہیں گے لوگ
اس کہانی کو نیا عنوان بھی دے دے گا کیا
پریم کا مطلب کوئی پتھر بھلا سمجھے گا کیا
سنتے آئے ہیں دھرا پر انت ہے ہر چیز کا
دکھ سے پیچھا زندگی بھر بھی بھَلا چھُوٹے گا کیا
جس کو ہم سمجھے تھے دریا، تم جسے کہتے ندی
ایک چُلّو جَل مِلا اس میں کوئی بھیگے گا کیا
کھونا، پانا تو یہاں پر سب وِدھی کے ہاتھ ہے
اس ڈگر پر دیکھنا چاہے گا کیا پائے گا کیا
فصل اس میں بھاؤ ناؤں کی نہ بو اطہر شکیلؔ
مَن ہُوا بنجر تو پھر اَنکُر کوئی پھوٹے گا کیا
تپتی ہَوا کے بان وہ اب کے برس چلے
تالاب بھاپ بن گئے، پتّے جھلس چلے
اپمان جھیلتی رہیں سیتا سی ناریاں
شاسن کے انتظام میں ناری دِوَس چلے
کتنے وِشال پیڑ جڑوں سے اکھڑ گئے
ان تیز آندھیوں پہ کسی کا نہ بس چلے
یہ سنتے آئے ہیں کہ وہ ساگر وِشال ہے
اک بوند جل کو دیکھ کے پیاسے ترس چلے
پچھلے برس چلی تھی جو اندھی ہَوا شکیلؔ
کرتے ہیں یہ دعا کہ نہ اب کے برس چلے
رستے یہ کہہ رہے ہیں کہ چلنا تو سیکھ لے
ٹھوکر یہ کہہ رہی ہے سنبھلنا تو سیکھ لے
جینا جو چاہتا ہے تو سچّائیوں کو جی
سپنوں سے دُور رہ کے بہلنا تو سیکھ لے
گر سننا چاہتا ہے سَمے کی پکار سُن!
دنیا کے جیسا رنگ بدلنا تو سیکھ لے
بیساکھیوں کے بَل پہ نہ پہنچے گا لکش تک
خود اپنے پاؤں پر ذرا چلنا تو سیکھ لے
دیپک کے جیسا روشنی دینا کٹھن نہیں
اطہرؔ خود اپنی آگ میں جلنا تو سیکھ لے
تارے سمیٹ لائیں گے سوچا نہ کیجئے
اتنا بھی یار! خود پہ بھروسا نہ کیجئے
عزت گنوا کے دولت و شہرت کی کیا بساط
دنیا بھی گر مِلے تو یہ سودا نہ کیجئے
وہ دن گئے کہ دے کے وَچن بھولتے نہ تھے
وعدوں پہ اب کسی کے بھروسا نہ کیجئے
اپنے ہی لوگ گھات میں رہنے لگے یہاں
اب دوستوں کے ساتھ بھی گھُوما نہ کیجئے
کوئی کسی کا درد یہاں بانٹتا نہیں
پیڑاؤں کی کسی سے بھی چرچا نہ کیجئے
اچھی پرمپراؤں کو مِٹنے نہ دیں شکیلؔ
مٹی سے اپنے دیش کی دھوکا نہ کیجئے
خدا ساتھ ہے تو ارادہ نہ چھوڑ
پہنچنے کا ساحل پہ سپنا نہ چھوڑ
نہ بس جائیں آسیب و وہم و گماں
کبھی دل کا آنگن اکیلا نہ چھوڑ
محبت کے سورج کو بجھنے نہ دے
کہیں نفرتوں کا اندھیرا نہ چھوڑ
ابھی چاند مکھڑے کا منظر نہ چھین
ابھی نصف شب ہے دریچہ نہ چھوڑ
عمل کا ارادے کو دے پیرہن
مسافر سفر کا ارادہ نہ چھوڑ
ابھی ساتھ آندھی کے بادل نہ اُڑ
ابھی ریگ زاروں کو پیاسا نہ چھوڑ
نہ یوں جیب و داماں کے پُرزے اُڑا
جنوں میں بھی اطہرؔ سلیقہ نہ چھوڑ
فصل جب وِش کی تیار ہونے لگی
موت سب کو سویکار ہونے لگی
اب یہاں ہیرؔ رانجھاؔ کی باتیں نہ کر
پیار سی چیز بیوپار ہونے لگی
تن سنورنے لگے اس میں سندیہہ کیا
ہاں مگر سوچ بیمار ہونے لگی
سبھیتا ناز کرتی تھی جس پر کبھی
وہ حویلی بھی بازار ہونے لگی
انتہا بے حیائی کی دیکھو یہاں
آج مکھیہ سماچار ہونے لگی
چاپلوسی کہ رشوت ہو اطہر شکیلؔ
اب ترقی کا آدھار ہونے لگی
وہ آندھیاں چلیں کہ پرندے اجڑ گئے
گہری جڑوں کے پیڑ بھی اب کے اُکھڑ گئے
مت پوچھ اس نگر میں کہ پھیلے ہیں وہ بھرم
صدیوں کے میل جول میں سندیہہ پڑ گئے
سنتشٹ اب نہیں ہے کوئی آدمی کہیں
اِچّھائیں بڑھ گئیں ہیں کہ سادھن سُکڑ گئے
آشاؤں نے بُنے تھے جو تیرے لئے کبھی
ایسی ہوا چلی کہ وہ سپنے اُدھڑ گئے
جب اُٹھ کھڑے ہوئے تو سنورنے لگے شکیلؔ
تھک ہارنے لگے تو مقدر بگڑ گئے
بستی بستی گاتا جا
پگ پگ دیپ جلاتا جا
مِتروں کو ہر بار پرکھ
پھر بھی دھو کے کھاتا جا
روپ نگر میں آیا ہے
کچھ تو مَن بہلاتا جا
سورج ہے تو ایسا کر
ہم کو بھی چمکاتا جا
جاتے بادل اتنا کر
تھوڑا جل برساتا جا
اطہرؔ ایک پہیلی تُو
کیوں ہے یہ سمجھاتا جا
دیوار سامنے ہے تو سوپان بھی تو کھوج
سنکٹ کی اس گھڑی کا سمادھان بھی تو کھوج
آسانیوں میں اور بھی آسانیاں نہ ڈھونڈ
ان فائدوں کے بیچ ہی نقصان بھی تو کھوج
جب گیات ہے کہ راہ میں ساگر بھی آئے گا
تٹ پر نہ بیٹھ اب کوئی جلیان بھی تو کھوج
تَن کے وِشال لوگوں کو دیکھا ہے کھوج کر
مَن جن کا ہو وِشال وہ انسان بھی تو کھوج
اوروں کی چال ڈھال کو اپنائے کیوں شکیلؔ
کل تھی جو اپنے پاس وہ پہچان بھی تو کھوج
چاند کو نزدیک جب دیکھا بہت
یاد اب آتا ہے وہ سپنا بہت
کاش اک دن سامنے دیکھوں اسے
کلپناؤں میں جسے دیکھا بہت
جانے کیا کیا جان لینا شیش ہے
کچھ نہیں ہے یہ، جسے سمجھا بہت
دوسروں کا کیوں ہُوا حیرت ہوئی
جس کو سمجھا تھا کبھی اپنا بہت
مِل گیا بیٹھے بٹھائے ہی کبھی
تب نہیں پایا کہ جب ڈھونڈا بہت
کیا ابھی سے تھک گئے اطہر شکیلؔ
منزلیں ہیں دُور اور چلنا بہت
مَن میں کیا کیا خیال بیٹھے ہیں
یاد اُس کی نکال بیٹھے ہیں
جن سوالوں کا کچھ جواب نہیں
سامنے وہ سوال بیٹھے ہیں
شور سا اُٹھ رہا ہے سنسد میں
لوگ سب با کمال بیٹھے ہیں
راج نیتا بہیلیوں جیسے
لے کے ریشم کے جال بیٹھے ہیں
جس کو کہتے ہیں عاشقی اطہرؔ
ہم بھی یہ روگ پال بیٹھے ہیں
رائگاں میرا کہا، تیرا سُنا بیکار ہے
جب جگہ دل میں نہیں، شکوہ، گِلہ بیکار ہے
ہیں سمجھ والے بنا لیتے ہیں اپنا راستہ
ناسمجھ کرتے ہیں شکوہ راستہ بیکار ہے
اپنے سپنوں کو بھی ہم ساکار کرنا سیکھ لیں
جو نہ سچ میں ڈھل سکے وہ کلپنا بیکار ہے
جو نہ خوش ہونا سکھائے دے نہ مَن کو شانتی
ہر ہنر وہ رائگاں ہے، ہر کلا بیکار ہے
آئنہ سچ بولتا ہے روبرو اطہر شکیلؔ
جو نہ سچ دِکھلا سکے وہ آئنہ بیکار ہے
چھوڑیئے دودھائیں شنکا چھوڑیئے
اس مرستھل میں بھٹکنا چھوڑیئے
جانے کب بن جائے یہ جوالا مکھی
مون دھارن کر سلگنا چھوڑیئے
سازشوں کو دیکھ من کہتا رہا
چلئے چلئے اب یہ دنیا چھوڑیئے
شانتی تالاب کی ٹوٹے گی کب
اس میں اک پتھر کا ٹکڑا چھوڑیئے
لکش یوں مِلتا نہیں اطہر شکیلؔ
بھے سے کانٹوں کے، نہ چلنا چھوڑیئے
دھرتی پہ یوں تو مِلتے ہیں اَپواد بھی بہت
کتنے ہی ہیں ابودھ، تو جلّاد بھی بہت
آباد بھی ہیں لوگ تو برباد بھی بہت
آرام بھی دھرا پہ ہے اَوساد بھی بہت
کتنے ہی روپ خود میں چھپائے ہے آدمی
دھیرج بھی اس میں خوب ہے اُنماد بھی بہت
دکھ سکھ کو ساتھ رکھ کے یہ دنیا رچی گئی
ہونٹوں پہ گیت بھی ہیں، تو فریاد بھی بہت
پابندیوں کا اپنا مزہ ہے میاں شکیلؔ
رکھئے گا اپنے آپ کو آزاد بھی بہت
جن کو ہم لوگ مان دیتے ہیں
وہ بھی جھوٹے بیان دیتے ہیں
مان سمّان سب کو دو پہلے
لوگ یوں کِس کو مان دیتے ہیں
ظالموں کی بھی کیا مسیحائی
سکھ بھی دکھ کے سمان دیتے ہیں
جان لیوا ہیں اب تو اپنے ہی
لوگ اب کِس پہ جان دیتے ہیں؟
کاٹ کر حق غریب لوگوں کا
لوگ مندر میں دان دیتے ہیں
کتنے وعدے کیے تھے کِس سے شکیلؔ
بَن کے راجہ نہ دھیان دیتے ہیں
پریم پتھ پر اب نیا اک حوصلہ لے کر چلو
رُت ہے یہ الگاؤ کی سدبھاؤنا لے کر چلو
بھولتی جاتی ہیں آنکھیں اپنے ہی چہرے کا سچ
آئے ہو بازار تو اک آئنہ لے کر چلو
لے لِیا ہے مَن کی چنتا نے مہا ماری کا روپ
روگ پیڑت بستیوں میں اب دَوا لے کر چلو
شہر کے بازار میں بِکتی ہیں تلواریں جہاں
اس طرف انسان کا لاشہ ذرا لے کر چلو
تم ہو اک انجان راہی، سوچ لو اطہر شکیلؔ
اجنبی ہیں بستیاں پورا پتا لے کر چلو
نہ وعدوں نہ دولت کا انبار دو
ہمیں دو تو جینے کا آدھار دو
نہ ہو جائے پتھر کہیں آدمی
اسے آدمیّت کا اُپہار دو
ہر اک رات سپنے سجاؤ ضرور
مگر دن میں سپنوں کو آکار دو
ہَوا پر دھرو تم نہ اِچھّا کی نیو
کہانی کو تتھیوں کا آدھار دو
اسے مجھ سے درکار کچھ بھی نہ تھا
وہ جس پر کہا دِل نے سب وار دو
یہ ہے پیار کا کھیل اطہر شکیلؔ
ضرورت جو ہو زندگی ہار دو
اس کے چرنوں میں اجالا کیوں نہیں
یہ دِیا سب کا ہے اپنا کیوں نہیں
کون ہے یہ اس کے میرے بیچ میں
ہر جگہ وہ ہے تو دِکھتا کیوں نہیں
آؤ پو چھیں آج کی ماتاؤں سے
آج کی بیٹی میں لجّا کیوں نہیں
دکھ یہ ہے بہروپیوں کے شہر میں
میرے چہرے پر مکھوٹا کیوں نہیں
دشمنوں میں ہیں بہت اپنے شکیلؔ
دوستوں میں کوئی اپنا کیوں نہیں
دھرتی پہ آج مول کسی جان کا نہیں
سمّان پتھروں کا ہے انسان کا نہیں
اک راکشس چھپا ہوا ہر آدمی میں ہے
استِتؤ اب یہاں کسی شیطان کا نہیں
یہ ستیہ آج گونج رہا ہے گلی گلی
اپنا ہوا ہے آدمی بھگوان کا نہیں
لوگوں کے تو یقین پہ اونچائیاں نہ چھو
وِشواس اب یہاں کسی سوپان کا نہیں
ڈوبی جو یہ شکیلؔ ! تو مانجھی ڈبوئے گا
نَوکا کو میری بھے کسی طوفان کا نہیں
تتلیوں کی آرزو میں تم کھڑے رہ جاؤ گے
بیت ہی جائے گا موسم دیکھتے رہ جاؤ گے
رات کے گہرے اندھیرے سے تمہیں لڑنا تو ہے
دیپ ہو تو خود ہی سوچو بِن جلے رہ جاؤ گے
ہو سکے تو چوٹ سہنے کا سلیقہ سیکھ لو
ورنہ شیشے کی طرح ٹوٹے ہوئے رہ جاؤ گے
لَوٹ کر میں بھی نہ شاید تم سے مِلنے آؤں گا
کَل نگر کی بھیڑ میں تم بھی گھِرے رہ جاؤ گے
کیندرت ہو جائیں گے سب لوگ اپنے آپ میں
تم بھی اطہرؔ کل محض اپنے لئے رہ جاؤ گے
پھول جو مَن میں کھِلا ہے اس کو مرجھانے نہ دو
یہ دِیا بجھنے نہ دو، اندھکار کو آنے نہ دو
آنکھ سے ٹپکا جو آنسو کھو نہ دے اپنی چمک
روک لو پلکوں پہ، نِرمَل جل ہے، گدلانے نہ دو
بھول بھی جاؤ جو گزری اپنے سمبندھوں پہ دوست
یہ کہانی اب کسی کو اور دہرانے نہ دو
ان کا رہنا ہے ضروری ساودھانی کے لئے
گھاؤ جو مَن پر لگے ہیں ان کو بھر جانے نہ دو
جان لیوا کل یہی بن جائیں گے اطہر شکیلؔ
مت سپیروں کی سُنو سانپوں کو لہرانے نہ دو
سوارتھ کی دیوار اب مسمار ہونی چاہئے
بے غرض سی فصل اک تیّار ہونی چاہئے
چاند سے آگے اگر تجھ کو بھی جانا ہے تو پھر
برق کے جیسی تری رفتار ہونی چاہئے
کیوں تمہارے ہاتھ میں یہ برچھیاں باقی رہیں
کیوں ہمارے ہاتھ میں تلوار ہونی چاہئے
کوئی سمجھا ہے نہ سمجھے گا کہ یہ ہوتا رہا
بانٹ کر آنگن میں کیوں دیوار ہونی چاہئے
تو اکیلا اور جیون اک سمندر ہے شکیلؔ
رَب اگر ہے ساتھ نیّا پار ہونی چاہئے
کِتنے بَن چوپٹ کئے ہیں دانؤوں سے پوچھئے
کتنے جلیانوں کو نِگلا ساحلوں سے پوچھئے
دیکھئے لوگوں کا ساہس ہنس رہے ہیں آج بھی
ان پہ کیا کیا قہر ٹوٹا بستیوں سے پوچھئے
پیڑ جب بستی میں تھے، رہتے تھے انسانوں کے ساتھ
اب بچھڑ جانے کا دکھ ان پنچھیوں سے پوچھئے
کھِلکھِلاتی، چہچہاتی لڑکیاں بولیں گی کیا
کیوں چلن میں اب نہیں ہیں آنچلوں سے پوچھئے
ہر قدم پر اک نہ اک بہکانے والا ہے یہاں
کارواں کیوں گُم ہوئے ہیں راستوں سے پوچھئے
ہے کاروبار جاری مندر میں دیوتا کا
سمبندھ اب نہیں ہے پوجا سے آستھا کا
مطلب بدل گیا ہے اب پیار اور وفا کا
سمبندھ یوں ہُوا ہے چاہت سے واسنا کا
جو رات بھر لڑا ہے اندھکار سے اب اس کو
کیا جانے کب بجھا دے جھونکا کوئی ہَوا کا
اب ڈالیوں سے گِر کر پتے بکھر رہے ہیں
پت جھڑ کے موسموں میں مت نام لو صبا کا
یہ سوچتا ہوں اطہرؔ انساں کو کیا ہوا ہے
کیوں مشکلوں میں گھِر کر بھی ڈر نہیں خدا کا
مُکھڑے کی جھلکیاں لئے آنچل نہیں رہے
نینوں میں نشہ رہ گیا کاجل نہیں رہے
اب دھرم کا نباہ بھی آساں نہیں رہا
سنیاس لے رہا ہوں تو جنگل نہیں رہے
آکار جوں کا توں ہے مگر ہے ادھوراپَن
یہ کیا ہُوا کہ لوگ مکمّل نہیں رہے
سب کچھ بدل گیا ہے یہاں چاہتیں نہ ڈھونڈ
جو جان دیں کسی پہ وہ پاگل نہیں رہے
بوئی نہ تھی زمین تو ورشا تھی مہرباں
جل مانگتے ہیں کھیت تو بادل نہیں رہے
نظمیں
بلاوا
یہ دل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
ہے قربتوں پہ گِراں آج دُٗور کا موسم
نہ انبساط نہ رقص و سرور کا موسم
حیا کے رَنگ میں لِپٹا غرور کا موسم
یہ دل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
نہ اب قرار ہے دل کو نہ ہے قرار مجھے
کہ ڈستا رہتا ہے ہر پل یہ انتظار مجھے
مِرے ہی جیسی نظر آ رہی بہار مجھے
یہ دل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
حِنا کے رنگ میں پہلی سی دلکشی نہ رہی
چمن اُداس ہے پھولوں میں تازگی نہ رہی
غزل بھی روٹھ گئی روحِ شاعری نہ رہی
یہ دل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
ہمارا گھر ہی ہمیں اب لُٹا لُٹا سا لگے
صبا کا سانس بھی جیسے رُکا رُکا سا لگے
فلک پہ چاند بھی اب تو بجھا بجھا سا لگے
یہ دل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
یہ زندگی بھی تو جیسے سزا ہے میرے لئے
اُداس کمرہ بیاباں بنا ہے میرے لئے
محال بِن ترے جینا ہوا ہے میرے لئے
یہ دل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
ہر اک جواب ادھورا سدا ہے تیرے بِنا
اندھیرا میرا مقدر بَنا ہے تیرے بِنا
درِ سکوں بھی مقفّل ہوا ہے تیرے بِنا
یہ دل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
دِیا حیات کا آندھی بجھا نہ دے آ جا
چلا یہ تیر بھی اپنا ہَوا نہ دے آ جا
مہک یہ رات کی رانی لُٹا نہ دے آ جا
یہ دِل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
ترے بغیر فضا سوگوار لگتی ہے
کہ روئی روئی سی اب کے بہار لگتی ہے
صدا گھڑی کی سماعت پہ بار لگتی ہے
یہ دِل ہو جس سے شگفتہ وہ راحتیں لے آ
جو تیرے ساتھ گزاریں وہ ساعتیں لے آ
تمہارا سراپا لکھوں
نہیں وہ جو اب دلکشی ہی نہیں
کہ اب زندگی زندگی ہی نہیں
سجیلی سجیلی طرح دار وہ
جوانی کی مستی میں سر شار وہ
وہ ہشیار بھی اور حیا دار وہ
ہمہ وقت رہتی تھی بیدار وہ
یہ آنکھیں اسے بھولتی ہی نہیں
کہ اب زندگی زندگی ہی نہیں
وہ مے بار موسم تھی برسات کا
وہ تھی آئنہ دل کے حالات کا
مجھے ہوش کب تھا کسی بات کا
وہ تھی خواب ڈھلتی ہوئی رات کا
کوئی رات پھر یوں سجی ہی نہیں
کہ اب زندگی زندگی ہی نہیں
مہک سانس میں تھی چمن آنکھ میں
ستاروں جَڑا اک گگن آنکھ میں
جوں اُترا تھا کومَل بدن آنکھ میں
غضب تھا وہ آئینہ پن آنکھ میں
تصور کی جادو گری ہی نہیں
کہ اب زندگی زندگی ہی نہیں
رواجوں کی سب بیڑیاں توڑ کر
وہ گلیاں روایات کی چھوڑ کر
کہ سمتِ سفر اس طرف موڑ کر
چلے آؤ رشتہ نیا جوڑ کر
تب و تاب دِل میں بچی ہی نہیں
کہ اب زندگی زندگی ہی نہیں
یہ چاہا تمہارا سراپا لکھوں
کہ قدرت کا کوئی کرشمہ لکھوں
صنم، پھول، چندا، ستارا لکھوں
نہ جانے تمہیں اور کیا کیا لکھوں
قلم کو وہ طاقت ملی ہی نہیں
کہ اب زندگی زندگی ہی نہیں
یہ چاہا تمہارا سراپا لکھوں
کہ قدرت کا کوئی کرشمہ لکھوں
صنم، پھول، چندا، ستارا لکھوں
نہ جانے تمہیں اور کیا کیا لکھوں
قلم کو وہ طاقت ملی ہی نہیں
کہ اب زندگی زندگی ہی نہیں
٭٭٭
روٹھی ہوئی بہار کے نام
خوشیوں سے جو بھرا تھا وہ عالَم چلا گیا
تم کیا گئے بہار کا موسم چلا گیا
تم سے ہی دِل میں نور تھا آنکھوں میں روشنی
مَن میں دھنک کے رنگ تھے چہرے پہ تازگی
نزدیک تھی تمہارے تو رقصاں تھی زندگی
ہو گی تمہیں وہ یاد کہانی، کہی، سنی
خوشیوں سے جو بھرا تھا وہ عالَم چلا گیا
تم کیا گئے بہار کا موسم چلا گیا
دل کو قرار پیار میں قربت بھی چاہئے
خوشبو کے ساتھ پھول میں رنگت بھی چاہئے
دل کو سکون، وصل کی راحت بھی چاہئے
چاہت بھی چاہئے تو عنایت بھی چاہئے
خوشیوں سے جو بھرا تھا وہ عالَم چلا گیا
تم کیا گئے بہار کا موسم چلا گیا
تنہا ہوئے تو ایک گھروندا نہیں بنا
لفظوں میں ہم سے عکس تمہارا نہیں بنا
بیلے کے پھول لائے تو گجرا نہیں بنا
نکلا بھی چاند، انجمن آرا نہیں بنا
خوشیوں سے جو بھرا تھا وہ عالَم چلا گیا
تم کیا گئے بہار کا موسم چلا گیا
پھولوں میں میرے لان کے مہکار تم سے تھی
گیتوں میں گونج ساز میں جھنکار تم سے تھی
اطہرؔ کی زندگی گلِ گلزار تم سے تھی
یعنی تسلّیِ دلِ بیمار تم سے تھی
خوشیوں سے جو بھرا تھا وہ عالَم چلا گیا
تم کیا گئے بہار کا موسم چلا گیا
٭٭٭
گئی بہار کے نام
بہار آئی بھی، ٹھہری بھی اور چلی بھی گئی
مہک اٹھے ہیں جو کاغذ کے پھول بھی ان سے
تمہارے جسم کی خوشبو سی آ رہی ہے مجھے
گئے ہو اٹھ کے ابھی جیسے میرے کمرے سے
ہر ایک چیز یہاں کی بتا رہی ہے مجھے
بہار آئی بھی، ٹھہری بھی اور چلی بھی گئی
ابھی گِلاس پہ محفوظ ہیں تمہارے لب
ابھی یہ سرخ شفق سا جمال باقی ہے
ابھی ابھی یہاں رقصاں تھا مَد بھرا موسم
پلٹ کے آئے گا کب یہ سوال باقی ہے
بہار آئی بھی، ٹھہری بھی اور چلی بھی گئی
ابھی تو میز پہ بکھرے ہیں وہ سبھی پُرزے
کہ جن پہ تم نے یہاں میرا نام لکھا تھا
مہک بھرا سا وہ لمحہ رُکا ہُوا ہے ابھی
کہ جس کو میں نے تمہارے قریب پایا تھا
بہار آئی بھی، ٹھہری بھی اور چلی بھی گئی
ابھی خیال میں کچھ پتیاں سی ہیں بکھری
نہ سُوکھ جائیں یہ شاخیں انہیں کھِلا پھر سے
نہ روٹھ ایسے فضا سوگوار ہو جائے
گئی بہار کے جھونکے پلٹ بھی آ پھر سے
بہار آئی بھی، ٹھہری بھی اور چلی بھی گئی
٭٭٭
سہانی یادوں کے نام
مِری جاں تم بھی ایسے ہی بہانے ڈھونڈتی ہو گی
مِرے اشعار کب کب کے پرانے ڈھونڈتی ہو گی
تمہارا تذکرہ ہو تم ہی جانِ گفتگو ٹھہرو
میں اکثر اقربا میں ایسے قصّے چھیڑ دیتا ہوں
تمہارا نام آتا ہے تو مِلتا ہے سکوں دِل کو
بہانے ڈھونڈتا ہوں، گزرے لمحے چھیڑ دیتا ہوں
مِری جاں تم بھی ایسے ہی بہانے ڈھونڈتی ہو گی
مِرے اشعار کب کب کے پرانے ڈھونڈتی ہو گی
جو تم کو گفتگوئے خاص کا عنواں بنا ڈالے
میں دانستہ کوئی ایسا وقوعہ یاد کرتا ہوں
تمہاری مسکراہٹ، دل نوازی، پھول سی باتیں
کوئی سیکھے سخن تم سے، سلیقہ یاد کرتا ہوں
مِری جاں تم بھی ایسے ہی بہانے ڈھونڈتی ہو گی
مِرے اشعار کب کب کے پرانے ڈھونڈتی ہو گی
کہ جب نیندیں اُچٹ جاتی ہیں میری، دِلربا، اکثر
نشہ پَروَر مِلن رُت کی وہ راتیں یاد آتی ہیں
چلی آتی ہیں یادیں سامنے پرچھائیں کی صورت
غرض جو تم سے وابستہ ہیں باتیں یاد آتی ہیں
مِری جاں تم بھی ایسے ہی بہانے ڈھونڈتی ہو گی
مِرے اشعار کب کب کے پرانے ڈھونڈتی ہو گی
تمہارا تذکرہ کوئی کرے جب سامنے میرے
جنوں دِل میں حسیں یادوں کے تب نشتر چبھوتا ہے
سلگ اٹھتی ہے جب تنہائی تو قابو نہیں رہتا
تمہارا دھیان چپکے سے مِری پلکیں بھگوتا ہے
مِری جاں تم بھی ایسے ہی بہانے ڈھونڈتی ہو گی
مِرے اشعار کب کب کے پرانے ڈھونڈتی ہو گی
٭٭٭
اے ہوا
کوئی تسکین کی جہت لے آ
اے ہَوا اس کی خیریت لے آ
رقص کرتی تھی زندگی میری
اس کے دَم سے تھی روشنی گھر میں
جب بھی وہ قہقہے لگاتی تھی
پھوٹ پڑتی تھی نغمگی گھر میں
کوئی تسکین کی جہت لے آ
اے ہَوا اس کی خیریت لے آ
ہو اندھیرا پر اس کے آتے ہی
پھیل جاتی تھی چاندنی گھر میں
ساتھ اس کے تھیں ساعتیں کتنی
یہ اداسی کبھی نہ تھی گھر میں
کوئی تسکین کی جہت لے آ
اے ہَوا اس کی خیریت لے آ
پاس وہ تھا تو ساتھ تھی دنیا
دن اکیلا نہ رات تنہا تھی
روح میں تھی مہک گلابوں کی
دِل کی اک اک کلی شگفتہ تھی
کوئی تسکین کی جہت لے آ
اے ہَوا اس کی خیریت لے آ
کس قدر اعتماد تھا اس پر
مطمئن دِل کی ہر تمنّا تھی
اس سے بچھڑا تو یوں لگا مجھ کو
ہر خوشی جیسے اک چھلاوا تھی
کوئی تسکین کی جہت لے آ
اے ہَوا اس کی خیریت لے آ
دیکھ آ کر میں تجھ سے بچھڑا تو
کتنی بے رنگ ہے مِری دنیا
آج یہ گھر ہُوا ہے ویرانہ
پُر کشش ہے مگر تری دنیا
کوئی تسکین کی جہت لے آ
اے ہَوا اس کی خیریت لے آ
سننے والا چلا گیا جب سے
چپ ہے ہونٹوں پہ پیار کا نغمہ
ہیں چمن میں اداسیاں ہر سوٗ
کون گائے بہار کا نغمہ
کوئی تسکین کی جہت لے آ
اے ہَوا اس کی خیریت لے آ
٭٭٭
ہجر کے موسم میں
سکھاتا ہوں اگر پلکیں ہتھیلی بھیگ جاتی ہے
نہیں آتی ہو تم لیکن تمہاری یاد آتی ہے
تمہاری چوڑیوں کی نغمہ باری یاد ہے مجھ کو
طرح داری مِرے ہمدم تمہاری یاد ہے مجھ کو
وہ اک عرضِ تمنّا بے قراری یاد ہے مجھ کو
گِلے میرے، تمہاری شرمساری یاد ہے مجھ کو
وہ لمحہ لمحہ ماضی کا مِرے آگے گھماتی ہے
نہیں آتی ہو تم لیکن تمہاری یاد آتی ہے
ہَوا بس دستکیں دیتی ہے دروازہ ہلاتی ہے
اُچٹ جاتیں ہیں نیندیں یاد پھر پہروں جگاتی ہے
رُلاتی ہے تصوّر میں کبھی مجھ کو ہنساتی ہے
تخیّل میں مِرے اشعار آ کر گنگناتی ہے
مِری تنہائی میں اکثر مجھے پاگل بناتی ہے
نہیں آتی ہو تم لیکن تمہاری یاد آتی ہے
تمہارے دَم سے زندہ تھیں کشیدہ کاریاں کیا کیا
تمہارے لَمس سے روشن تھیں تب پھلواریاں کیا کیا
مگر دنیا نے بخشی ہیں یہ دِل آزاریاں کیا کیا
ہمارے درمیاں ڈالی گئیں دشواریاں کیا کیا
مگر یہ خواب ملنے کے مجھے اب بھی دکھاتی ہے
نہیں آتی ہو تم لیکن تمہاری یاد آتی ہے
یہاں بھی اور وہاں بھی ہجر کے موسم کا ڈیرا ہے
عجب سی خامشی نے آ کے ہم دونوں کو گھیرا ہے
جہاں خوشیاں تھیں رقصاں اب وہاں غم کا بسیرا ہے
جہاں تھی کہکشاں روشن وہاں گہرا اندھیرا ہے
یہ اشکوں کے ستاروں سے مِرا گھر جگمگاتی ہے
نہیں آتی ہو تم لیکن تمہاری یاد آتی ہے
٭٭٭
ماں کی یاد میں
بے بدل ممتا سے خالی کوئی پَل تیرا نہ تھا
اس خرابے میں کوئی اے ماں بدل تیرا نہ تھا
چین سے مجھ کو سُلاکر جاگتی رہتی تھی تو
میرے سکھ کے واسطے ماں کتنے دکھ سہتی تھی تو
یاد آتا ہے بہت ہر پَل دعا دینا ترا
اور شرارت پر وہ ہلکی سی سزا دینا ترا
کب مِرے احساس کو دِل سے جدا کرتی تھی تُو
سو گیا گر میں تو آنچل سے ہَوا کرتی تھی تُو
مجھ سے غافل مادرِ مَن کوئی پَل تیرا نہ تھا
اس خرابے میں کوئی اے ماں بدل تیرا نہ تھا
منھ اندھیرے بیٹھ جاتی تھی تلاوت کے لئے
پڑھتی رہتی تھی وظیفے خیر و بر کت کے لئے
لَو لگانا رب سے اور آنکھوں کو نم کرنا ترا
ہر سفر سے پیشتر ماں مجھ پہ دَم کرنا ترا
رات دن محوِ دعا رہتی ترقی کے لئے
بولنا تیرا نمازیں میری ہستی کے لئے
جس سے پُر امید تھی تو وہ ہی کل تیرا نہ تھا
اس خرابے میں کوئی اے ماں بدل تیرا نہ تھا
میں ترے دِل کی مِری ماں ساری تصویروں میں تھا
جاگتی آنکھوں میں تھا خوابوں کی تعبیروں میں تھا
گھر میں میرے شوق کے پکوان بنوانا ترا
ضد میں گر میں ہوں تو دلداری سے بہلانا ترا
ڈانٹ کر اکثر مجھے، پایا تجھے روتا ہُوا
تیرا غصّہ پیار کے ساگر میں تھا ڈوبا ہُوا
تربیت سے میری غافل کوئی پَل تیرا نہ تھا
اس خرابے میں کوئی اے ماں بدل تیرا نہ تھا
بھیگ جاتی رات پر مشعل جلا رکھتی تھی تُو
واپسی تک میری دروازہ کھُلا رکھتی تھی تُو
میرے آنے تک وہ کیا کیا بے کلی سہنا ترا
اوٹ میں دَر کی وہ بے حرکت کھڑا رہنا ترا
وقت سے پہلے ہی ہم سے وہ بچھڑ جانا ترا
غیر ممکن ہے کبھی اب لَوٹ کر آنا ترا
ظلم مجھ پر یہ بتا! کیا اے اجل! تیرا نہ تھا
اس خرابے میں کوئی اے ماں بدل تیرا نہ تھا
تو نہیں تو بے غرض بے لَوث چاہت اب کہاں
وہ محبت اب کہاں ہے، وہ صداقت اب کہاں ؟
تیری ممتا تو مِری خدمت سے بھی انجان تھی
دیکھ کر تیری محبت عقل بھی حیران تھی
تیرے اس ایثار کو کیسے بھُلا سکتا ہوں میں
بزمِ ہستی ماں ترے بِن کیا سجا سکتا ہوں میں ؟
ڈھونڈتی ہیں ماں کو آنکھیں کس طرح سے پاؤں میں
اے خدا! میرے خدا! ماں کو کہاں سے لاؤں میں
٭٭٭
میرے ہندوستاں
تو ہے رشکِ زمیں، تو ہے رشکِ جہاں
میرے ہندوستاں، میرے ہندوستاں
تیرے گلشن میں آیا مہکنا مجھے
تیری ڈالی پہ آیا چہکنا مجھے
تجھ میں گوتم ؔ پَلے، تجھ میں نانکؔ پَلے
تیری گودی میں بھارت کے نایک پَلے
روشنی تجھ سے دنیا نے پائی یہاں
بانگ چشتی ؔ نے آ کر لگائی یہاں
صوفیوں کی زمیں، سادھوؤں کا جہاں
میرے ہندوستاں، میرے ہندوستاں
تیری مٹی نے ہر دکھ کو راحت کیا
پیار سے جو مِلا اس کا سواگت کیا
جتنے مذہب تھے سب کو حمایت مِلی
پیروی کرنے والوں کو عزت مِلی
تو نے ہر حادثہ بے اثر کر دیا
دوست، دشمن کو شیر و شکر کر دیا
تیرا جلوہ نرالا تہہِ آسماں
میرے ہندوستاں، میرے ہندوستاں
لوگ نفرت کے کانٹے بھی بوتے رہے
اس وطن میں تصادم بھی ہوتے رہے
خونِ ناحق بھی دیکھا تری خاک نے
اپنے برتن بھی توڑے ترے چاک نے
تو نے ہر غم کو یوں دَرگزر کر دیا
دستِ شفقت سے ہر زخم کو بھر دیا
توہے سب کے لئے مادرِ مہرباں
میرے ہندوستاں، میرے ہندوستاں
جو نہ ٹُوٹی کبھی تُو وہ زنجیر ہے
جو نہ مِٹ پائے گی تُو وہ تحریر ہے
اپنے کشمیر کا کوئی ثانی کہاں
دوسری کوہساروں کی رانی کہاں
اونچے پربت اگر تیرے دامن میں ہیں
کِتنے پھولوں کے گلشن بھی آنگن میں ہیں
تجھ میں گنگ و جمن جیسے دریا رواں
میرے ہندوستاں، میرے ہندوستاں
اب حقیقت سے ہو گی کہانی جدا
ہو نہ پائے گا لاٹھی سے پانی جدا
یہ چمن ایک، گلہائے تر ایک ہیں
رنگ خوشبو الگ ہیں مگر ایک ہیں
فصل امن و سکوں کی نہ جل پائے گی
اب سیاست کی قینچی نہ چل پائے گی
نطقِ اطہرؔ پہ ہے تیرا نغمہ رواں
میرے ہندوستاں، میرے ہندوستاں
٭٭٭
آ مِرے نزدیک
دوریاں بڑھنے نہ دے اب آ مِرے نزدیک آ
ساتھ لے کر پیار کا تحفہ مِرے نزدیک آ
شام ہے دریا کا ساحل ہے شفق پھولی ہوئی
اک کہانی آ رہی ہے یاد پھر بھولی ہوئی
ہلکی ہلکی دھند سی پھیلی ہوئی راہوں میں تھی
جھیل میں کشتی تھی اک دیوی مِری باہوں میں تھی
تھا شفق کا رنگ بھی پانی میں حَل ہوتا ہُوا
لمحہ لمحہ زندگی کا ماحصَل ہوتا ہُوا
وجہِ دوری کیا ہوئی ہے یہ ذرا بتلا بھی دے
اُن ملاقاتوں کے دن اے جاں مجھے لوٹا بھی دے
کھیلتا تھا بادلوں سے چاند آدھی رات کا
ہو رہا تھا نور سے جیسے مِلن ظلمات کا
وہ ترا خوشبو بھرا پیکر مِری یادوں میں ہے
پیار کا اک بیکراں ساگر مِری یادوں میں ہے
رجنی گندھا کی مہک پاگل بناتی تھی مجھے
تیری خاموشی بھی اک نغمہ سناتی تھی مجھے
آہ کو میری اثر فریاد کو تاثیر دے
خواب ہوتے واقعے کو پھر سے اک تعبیر دے
کَٹ نہ جائے عمر کا عرصہ مِرے نزدیک آ
ساتھ لے کر پیار کا تحفہ مِرے نزدیک آ
٭٭٭
جو کھو گئے ہیں نظارے
وہ زندگی کے اشارے تلاش کرتا ہوں
جو کھو گئے ہیں نظارے تلاش کرتا ہوں
مجھے ہے یاد ابھی تک وہ دل نشیں انداز
نگاہ مِلتے ہی پلکیں جھکا رہی تھیں تم
سنبھالتی تھیں جو آنچل سرکنے لگتا تھا
حَسین چہرے سے زلفیں ہٹا رہی تھیں تم
جھلک رہی تھی کوئی کہکشاں سی تَن مَن میں
مِرے لہو میں ترنگیں اٹھا رہی تھیں تم
وہ دِل فریب سہارے تلاش کرتا ہوں
جو کھو گئے ہیں نظارے تلاش کرتا ہوں
جبیں کے روپ میں اک چاند، زلف میں بادل
گلابِ تازہ کی صورت بدن مہکتا تھا
بھری ہوئی تھی فضاؤں میں نغمگی جیسے
نین میں رنگ گھُلے تھے لہو چمکتا تھا
وہ سارا کیف کہاں جا کے گُم ہوا جاناں
ہر ایک رنگ سے جیسے نشہ چھلکتا تھا
وہ رنگ و نور کے دھارے تلاش کرتا ہوں
جو کھو گئے ہیں نظارے تلاش کرتا ہوں
ابھی ابھی تو مِرے سامنے تھی جلوہ نما
ابھی ابھی یہ کہاں جا کے چھپ گئی ہو تم
کہ دھڑکنوں میں توازن نہ آ سکا تھا ابھی
یہ کیا کِیا کہ نظر آ کے چھپ گئی ہو تم
میں والہانہ تمہاری ہی سمت بڑھتا تھا
یہ لگ رہا ہے کہ شرما کے چھپ گئی ہو تم
میں اب بھی عکس تمہارے تلاش کرتا ہوں
جو کھو گئے ہیں نظارے تلاش کرتا ہوں
تمہارے لَمس میں شامل ہَوا کی نرمی تھی
میں سو رہا تھا تو بالوں کو چھو رہی تھیں تم
چٹک رہے تھے مِرے ذہن میں شگوفے سے
ٹھہر ٹھہر کے خیالوں کو چھو رہی تھیں تم
نظر ہماری محبت کو لگ ہی جانی تھی
کچھ ایسے الجھے سوالوں کو چھُو رہی تھیں تم
ہوئے جو راکھ شرارے تلاش کرتا ہوں
جو کھو گئے ہیں نظارے تلاش کرتا ہوں
٭٭٭
اردو ایک یتیم بچہ
میں صحرا میں کل شب تھا گرمِ سفر
فلک سے زمیں تک تھا رقصِ شر ر
یہ لگتا تھا بھوتوں کے ڈیرے میں ہوں
جنوں کے، چھلاؤوں کے گھیرے میں ہوں
یہاں جو بھی ہیں راکشس ہیں سبھی
غلامِ ہَوا و ہَوس ہیں سبھی
کہیں کوئی ٹہنی نہیں پھول کی
اُگی فصل ہے تیغ و ترشول کی
ہَوا چیختی ہے، فضا سرد ہے
اُڑی ہر طرف گرد ہی گرد ہے
تبھی ایک بچہ بلکتا ہُوا
سہمتا، لرزتا، سسکتا ہُوا
مِلا مجھ کو بدحال و زخمی بدن
گرفتارِ غم، وقفِ رنج و محن
کوائف سے ظاہر تھا ادبار بخت
صدا در گُلو تھی، زباں لخت لخت
بڑھی میری حیرت تو پوچھا میاں
کہو کون ہو تم، ہے گھر دَر کہاں
کہا، طفلِ اُردو ہوں ہارا ہُوا
خود اپنوں کی غفلت کا مارا ہُوا
میں اب جنگلوں میں نظر بند ہوں
تمہارے ہی کنبے کا فرزند ہوں
مگر مجھ کو گھُن بَن کے چاٹا گیا
سیاست کی قینچی سے کاٹا گیا
مِرے گھر میں فتنے اٹھائے گئے
مِری آڑ میں گھر جلائے گئے
مجھے وجہِ رنجش بنایا گیا
وطن میں ودیسی بتایا گیا
لہو ہی لہو میرے دامن پہ ہے
عجب زخم اب میری گردن پہ ہے
مجھے بستیوں سے نکالا گیا
دِکھاوے کا پرچم سنبھالا گیا
کروں اپنی حالت میں کیسے بیاں
یتیمی کے دن جھیلتا ہوں یہاں
کبھی وہ بھی دن تھے مہکتا تھا میں
عنادل کی صورت چہکتا تھا میں
غلامی سے جب قوم لاچار تھی
مِری ہر عبارت میں تلوار تھی
بغاوت کا پرچم مِرے سر پہ تھا
تمہیں ناز تب میرے لشکر پہ تھا
دِلوں کے تفرقے مٹاتا تھا میں
بچھڑتے دِلوں کو مِلاتا تھا میں
پہنچ میری رسموں میں ریتوں میں تھی
غضب کی کشش میرے گیتوں میں تھی
ستم کی گھٹا مجھ کو گہنا گئی
تمہاری سیاست مجھے کھا گئی
مِری اصلیت سے مجھے جوڑ دو
سیاست کے پتلو! مجھے چھوڑ دو
٭٭٭
{قطعہ }
جہاں میں اعلیٰ و ادنیٰ کی خیر ہو یا رب
نگر کی خیر ہو، صحرا کی خیر ہو یا رب
بہت علیل ہے اُمت، بہت علیل ہیں ہم
زمیں زمیں تری دنیا کی خیر ہو یا رب
٭٭٭
{قطعہ }
کب کس سے رہے دُور یوں ہی رنج و بلا بھی
ہم راہ پہ آئیں گے تو خوش ہو گا خدا بھی
احساس یہ کیا کم ہے تسلی کے لئے دوست
دکھ ہم کو وہ دیتا ہے وہی صبر و رضا بھی
٭٭٭
رباعیات
سینے میں عقیدت کا اجالا کر دے
دل میں مِرے ایمان کا ساگر بھر دے
کر مجھ کو عطا اب تو یقینِ کامل
ہو راہ میں قرباں تری ایسا سَر دے
٭٭٭
آفات میں آزردہ نہ ہونا اے دِل
احساس کا دامن نہ بھگونا اے دِل
ناکامیاں تقدیر نہیں ہیں ناداں
ناکام امیدوں پہ نہ رونا اے دِل
ہونے کو تو افسوں ہے سراپا دنیا
ہر رنگ میں لگتی ہے عجوبہ دنیا
یہ ایسی طوائف ہے کسی کی جو نہ ہو
بے کار پکارو ہو کہ دنیا دنیا
٭٭٭
دِل تجھ سے تری شوخ نگاہی مانگے
پھولوں سے ترا حُسن گواہی مانگے
رخ سے ترے مہتاب ضیا کا طالب
زلفوں سے تری ابر سیاہی مانگے
٭٭٭
گلفام حسینوں کے جھمیلے دیکھے
دیکھے جو نہیں تھے وہ نظارے دیکھے
اب حُسن کو سڑکوں پہ بکھرتا پایا
چہروں سے دریچے نہیں سجتے دیکھے
٭٭٭
پیروں کو جو دیکھو تو ہے پایل غائب
کاندھوں پہ نظر جائے تو آنچل غائب
کیا کیا نہ ہوئی ہم کو سخن کی قِلّت
ہاتھوں سے حِنا، آنکھ سے کاجل غائب
٭٭٭
ہر سنگ میں محفوظ نشانی نکلی
ہر اینٹ پہ مرقوم کہانی نکلی
دادا کا مِرے نام لکھا تھا اُس پر
ملبے سے جو دیوار پرانی نکلی
٭٭٭
نالہ مِرے ہونٹوں سے لِپٹ آیا ہے
صحرا مِرے دامن میں سمٹ آیا ہے
کیا جانئے کتنی ہے درازی اِس کی
یہ ہجر کا موسم جو پلٹ آیا ہے
٭٭٭
انگلی سے انگوٹھی کا نگینہ چمکا
یا حُسن کے دامن پہ خزینہ چمکا
پانی میں بھی یہ روپ کی تابش واللہ
موتی ہیں کہ عارض پہ پسینہ چمکا
٭٭٭
اک ڈور سے باندھے ہوئے رشتے ہم تم
اک شمع کے مجبور پتنگے ہم تم
یہ موجِ ہَوا ہے جو ہمیں چھُوتی ہے
موجوں کو ہَوا کی نہیں چھُوتے ہم تم
٭٭٭
احباب میں بھی خود کو اکیلا جانا
بِن اُس کے بھرا شہر ادھورا جانا
وہ شخص گیا چھوڑ نگر کو جب سے
موقوف ہُوا ہے کہیں آنا جانا
٭٭٭
مِلنے کی للک جاگ اٹھی ہے مجھ میں
میٹھی سی کسک جاگ اٹھی ہے مجھ میں
یاد آئے ترے عارض و گیسو جب بھی
کب کب کی مہک جاگ اٹھی ہے مجھ میں
٭٭٭
سینے میں چھپی رہتی ہے سرگم گویا
سنگیت ہے بستر پہ مجسم گویا
وہ سو بھی رہا ہو تو لگے ہے اس کا
ہے ربط بھی راگوں سے ہر اک دَم گویا
٭٭٭
تخلیق کے اَسرارِ نہانی سمجھوں
الفاظ سے نکلوں تو معانی سمجھوں
قطرہ ہے سمندر کی گواہی گویا
آفاق کو خالق کی نشانی سمجھوں
٭٭٭
جگنو سے تجلّی نہیں ہونے والی
کہنے سے تشفّی نہیں ہونے والی
بیمار کو درکار عمل کی خوشبو
لفظوں سے تسلّی نہیں ہونے والی
٭٭٭
ہے نام ترا وجہِ حفاظت اللہ
دیتی ہے سکوں تیری عنایت اللہ
انسان کی کیا تجھ کو ضرورت ہو گی
انسان کو ہے تیری ضرورت اللہ
٭٭٭
اُگتے ہوئے سورج کا نظارا چمکا
آنکھوں میں مِری کوئی اشارا چمکا
ہاتھ اپنا محبت سے رکھا تھا تو نے
شانوں پہ مگر میرے ستارا چمکا
٭٭٭
خود دار ہیں غیرت نہیں بِکنے دیتے
مَرتے ہیں حمیّت نہیں بِکنے دیتے
تم اور کسوٹی پہ نہ پرکھو ہم کو
ہم وہ ہیں کہ عزّت نہیں بِکنے دیتے
٭٭٭
جو دین سے ہٹ جائے وہ انسان ہے کیا
جو کفر سے دب جائے وہ ایمان ہے کیا
منھ زور تھپیڑے نہیں رہنے والے
ایمان سلامت ہے تو طوفان ہے کیا
٭٭٭
مجبور کو مغموم نہ کرنا معبود
دوزخ مِرا مقسوم نہ کرنا معبود
عاصی ہوں نہیں کافر و منکر مجھ کو
فردوس سے محروم نہ کرنا معبود
٭٭٭
ماضی کو نہیں حال کو دیکھو بھائی
اب وقت یہ کہتا ہے کہ بدلو بھائی
بیتے ہوئے لمحے نہیں لوٹا کرتے
اس آس میں بیکار نہ بیٹھو بھائی
٭٭٭
پیسے کے لئے جان دیے جاتے ہیں
سمجھوتے زمانے سے کیے جاتے ہیں
اے کاش سمجھ لیتے کہ ہستی کیا ہے
یوں جینے کو ہم لوگ جیے جاتے ہیں
٭٭٭
یہ سچ ہے بھُلا دیتی ہے عقبیٰ، دنیا
ہے جب کہ یہ کچھ دن کا بسیرا دنیا
ہم کیا ہیں، تماشائی ہیں چلتے پھرتے
ہر لمحہ دکھاتی ہے تماشا دنیا
٭٭٭
سوئے ہوئے جذبوں کو جگاتے اے کاش
روتی ہوئی آنکھوں کو ہنساتے اے کاش
پوشاک تو دھو دھو کے نکھاری ہم نے
دل پاک بھی ہم کر کے دکھاتے اے کاش
٭٭٭
پھولوں کے لیے قطرۂ شبنم آیا
زخموں کے لیے پیار کا مرہم آیا
پھر باغ میں آموں کے پڑے ہیں جھُولے
آ جاؤ کہ برسات کا موسم آیا
٭٭٭
پھولوں میں ترے حُسن کے پہلو دیکھے
جھرنوں میں ترے گیت کے جادو دیکھے
ہونٹوں پہ دھنک رنگ کو جھکتے دیکھا
آنکھوں میں چمکتے ہوئے جگنو دیکھے
٭٭٭
آنکھوں سے لہو بَن کے چھلکنا چھوڑو
دے وقت جو ٹھوکر تو سِسکنا چھوڑو
دکھ درد ہمیشہ تو نہیں رہتے ہیں
بچوں کی طرح دکھ میں بِلکنا چھوڑو
٭٭٭
اک پھول کی مانند سدا ہے گویا
کُل دعوتِ نظّارا ہُوا ہے گویا
گو نیند میں مد ہوش ہے لیکن اب بھی
وہ پھول بدن جاگ رہا ہے گویا
٭٭٭
ہونٹوں پہ محبت کا بُلاوا رکھنا
گُلدان کا ہر پھول شگفتہ رکھنا
اتنا تو تعلق رہے ہمسایہ سے
دیوار بناؤ تو دریچہ رکھنا
٭٭٭
بے وجہ بھی لوگوں کو بھڑکتے دیکھا
بیکار سی با توں پہ جھگڑتے دیکھا
واقف ہیں نتائج سے فسادات کے بھی
انسان کو انسان سے لڑتے دیکھا
٭٭٭
ہر زہر کو پینا نہیں آیا افسوس
ہر چاک کو سینا نہیں آیا افسوس
ہم لوگ بھٹکتے ہیں جو رستہ رستہ
اب تک ہمیں جینا نہیں آیا افسوس
٭٭٭
شیشے کو ترے صاف کہوں تو کب تک
پرُ گرد کو شفاف کہوں تو کب تک
اب تو ہی بتا دے ذرا منصف میرے
میں ظلم کو انصاف کہوں تو کب تک
٭٭٭
ہر لفظ کو تاثیر میں ڈھالیں آؤ
ہر خواب کو تعبیر میں ڈھالیں آؤ
وہ سوچ کہ جو روح کو بیدار کرے
اس سوچ کو شمشیر میں ڈھالیں آؤ
٭٭٭
انسان کو بیمار نہ بننے دینا
الگاؤ کو تلوار نہ بننے دینا
یہ صحن تو تم بانٹ رہے ہو لیکن
جذبات کو دیوار نہ بننے دینا
٭٭٭
بے کار ہے تنہائی میں گِریہ کرنا
یا سامنے آ کر ترے شکوہ کرنا
با توں سے تری کھاؤں گا دھوکا کب تک
اب چھوڑ نہ دوں تجھ پہ بھروسا کرنا
٭٭٭
ہر سانس میں رَس گھول دیا ہو جیسے
فردوس کا دَر کھول دیا ہو جیسے
یوں ماں نے مِری پیار سے ڈالیں نظریں
پھولوں میں مجھے تول دیا ہو جیسے
٭٭٭
اچھا نہیں انساں کو فرشتہ کہنا
انسان کے ہر خواب کو سچّا کہنا
اپنے بھی ہمیشہ نہیں ہوتے اپنے
کہنا ہو تو اللہ کو اپنا کہنا
٭٭٭
تعمیرِ اخوّت کو گِرانے والے
اک فتنہ زمانے میں اُٹھانے والے
محتاط بہت رہنا ہے بستی والو!
آئے ہیں یہاں، آگ لگانے والے
٭٭٭
سختی سے یہ ضدّی نہ لچیلا ہو گا
بچہ ہے سزا پا کے ہٹیلا ہو گا
شیشے کی طرح دِل ہے نہ توڑو اس کو
یہ ٹوٹ کے کچھ اور کٹیلا ہو گا
٭٭٭
یہ وقت ہمیشہ نہیں رہنے والا
یہ دھند یہ کہرا نہیں رہنے والا
یہ دن بھی مصیبت کے گزر جائیں گے
یہ دن کا اندھیرا نہیں رہنے والا
٭٭٭
اس پاک محبت کا خمار ایسا تھا
دیکھا نہیں، وہ رقصِ بہار ایسا تھا
رہتی تھیں بہت دور بلائیں مجھ سے
اک ماں کی دعاؤں کا حِصار ایسا تھا
٭٭٭
مخدوش عناصر کی شرارت معلوم
پوشیدہ ہر اک دِل میں ہے وحشت معلوم
دَر کھول کے سونے کے زمانے گزرے
اب قفل لگا کر بھی حفاظت معلوم
٭٭٭
تصویر سے دِل اپنا لگانا مشکل
ہو پیاس تو خوابوں میں بجھانا مشکل
وہ چیز ہے ہجراں کی اذیّت مت پوچھ
محسوس جو ہوتا ہے بتانا مشکل
٭٭٭
ہر آنکھ میں اشکوں کا سمندر دیکھا
شعلہ سا نکلتا ہوا گھَر گھَر دیکھا
پھولوں کا زمانہ نہیں باقی اطہرؔ
ہر شاخ پہ اُگتا ہوا خنجر دیکھا
٭٭٭
اک بار بتا دے کہ میں کیا کیا بدلوں
دِل بدلوں کہ جینے کا طریقہ بدلوں
چپ رہتا ہوں شکوہ نہ گِلہ لب پہ کوئی
اب تو ہی بتا دے کہ میں کتنا بدلوں
٭٭٭
ہے دُور پہنچ سے مِری بادل اے ماں
کر دے نہ کہیں دھوپ یہ پاگل اے ماں
دنیا کی تپش پھونک رہی ہے مجھ کو
لا سر پہ مِرے ڈال دے آنچل اے ماں
٭٭٭
علم و ہنر کا باب تھے شیرِ خدا علی
پڑھئے تو اک کتاب تھے شیرِ خدا علی
ہو عرصۂ جہاد کہ منصب ہو عدل کا
ہر رَن میں کامیاب تھے شیرِ خدا علی
تشنہ کہاں رہا تھا کسی کا کوئی سوال
لگتا ہے اک نصاب تھے شیرِ خدا علی
خوشبو سے جس کی سارا زمانہ مہک اٹھے
طینت میں وہ گلاب تھے شیرِ خدا علی
ہاں بابِ علم ان کو کہا شہرِ علم نے
خود میں وہ اک کتاب تھے شیرِ خدا علی
دیتی ہے ذوالفقار گواہی میاں شکیلؔ
دشمن پہ اک عتاب تھے شیرِ خدا علی
٭٭٭
خالق کے رُو برو ہیں شہیدانِ کربلا
دنیا میں کوُ بکُو ہیں شہیدانِ کربلا
سرخی اِدھر سحر کی اُدھر شام کی شفق
ایسے لہٗو لہٗو ہیں شہیدانِ کربلا
دیتے ہیں اپنے آپ کو اپنے لہٗو سے غسل
بے آب با وضو ہیں شہیدانِ کربلا
ظالم ہیں بے شمار، بہتّر ہیں حق شناس
باطل کے رُوبرو ہیں شہیدانِ کربلا
اطہرؔ شہادتوں سے مِلیں اُن کو عظمتیں
ملت کی آبرو ہیں شہیدانِ کربلا
٭٭٭
قائم رہے گی یہ ہے وراثت حُسینؓ کی
اب تک ہے بے مثال شہادت حُسینؓ کی
ہو گا سدا گواہ وہ میدانِ کربلا
دیکھی ہے ظالموں نے جسارت حُسینؓ کی
سب کچھ لُٹا کے دین پہ ثابت کیا یہ سچ
ایماں کی روشنی تھی وہ طاقت حُسینؓ کی
باطل کو سر کشی کا نتیجہ دکھا دیا
ہے اہلِ حق پہ خاص عنایت حُسینؓ کی
اس سجدۂ جہاد پہ قربان جایئے
نذرانۂ لہو ہے عبادت حُسینؓ کی
خنجر کے سائے میں بھی جو قائم رہی شکیلؔ
بے شک ہے بے نظیر امامت حُسینؓ کی
کِسے مِلا ہے یہ درجہ یہاں، وہاں حضرتؐ
ہے مہربان خدا گر ہیں مہرباں حضرتؐ
گناہ گار ہوں آقاؐ مِری طرف بھی نظر
ٹھکانہ اور ملے گا مجھے کہاں حضرتؐ
مِلیں گے آپؐ تو نورِ خدا مِلے گا ہمیں
بس آپ ہی تو ہیں آقائے دو جہاں حضرتؐ
ہمیں مِلے گی سرِ حشر آپؐ کی شفقت
کھِلی ہے دِل میں امیدوں کی کہکشاں حضرتؐ
وہ روشنی کہ منوّر ہیں جس سے دونوں جہاں
ہیں آپؐ ہی تو فقط نورِ دوجہاں حضرتؐ
زمیں پہ پھول مہکتے ہیں آپؐ کے باعث
سجا ہے آپ کی خاطر یہ آسماں حضرتؐ
سکونِ قلب جہاں جا کے پائے گا اطہرؔ
وہ آپؐ کا ہے جہاں بھر میں آستاں حضرتؐ
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید