توضیح المسائل
آیت اللہ سید علی الحسینی السیستانی
حصہ اول
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
فہرست مضامین
احکام تقلید
(مسئلہ ۱ ) ہر مسلمان کے لئے اصول دین کو از روئے بصیرت جاننا ضروری ہے کیونکہ اصول دین میں کسی طور پر بھی تقلید نہیں کی جا سکتی یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص اصول دین میں کسی کی بات صرف اس وجہ سے مانے کہ وہ ان اصول کو جانتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہو اور اس کا اظہار کرتا ہو اگرچہ یہ اظہار از روئے بصیرت نہ ہو تب بھی وہ مسلمان اور مومن ہے۔ لہذا اس مسلمان پر ایمان اور اسلام کے تمام احکام جاری ہوں گے لیکن "مسلمات دین” کو چھوڑ کر باقی دینی احکامات میں ضروری ہے کہ انسان یا تو خود مجتہد ہو یعنی احکام کو دلیل کے ذریعے حاصل کرے یا کسی مجتہد کی تقلید کرے یا از راہ احتیاط اپنا فریضہ یوں ادا کرے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ دار پوری کر دی ہے۔ مثلاً اگر چند مجتہد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چند دوسرے کہیں کہ حرام نہیں ہے تو اس عمل سے باز رہے اور اگر بعض مجتہد کسی عمل کو واجب اور بعض مستجب گردانیں تو اسے بجا لائے۔ لہذا جو اشخاص نہ تو مجتہد ہوں اور نہ ہی احتیاط پر عمل پیرا ہوسکیں اور ان کے لئے واجب ہے کہ مجتہد کی تقلید کریں۔
۲۔ دینی احکامات میں تقلید کا مطلب یہ ہے کہ کسی مجتہد کے فتوے پر عمل کیا جائے۔ اور ضروری ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کی جائے وہ مرد۔ بالغ۔عاقل۔شیعہ اثنا عشری۔ حلال زادہ۔ زندہ اور عادل ہو۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجا لائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجا لائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک اچھا شخص ہو اور اس کے اہل محلہ یا ہمسایوں یا ہم نشینوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں۔
اگر یہ بات اجملاً معلوم ہو کہ در پیش مسائل میں مجتہد کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو ضروری ہے کہ اس مجتہد کی تقلید کی جائے جو "اعلم” ہو یعنی اپنے زمانے کے دوسرے مجتہدوں کے مقابلے میں احکام الہی کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہو۔
۳۔ مجتہد اور اعلم کی پہچان تین طریقوں سے ہوسکتی ہے۔
* (اول) ایک شخص کو جو خود صاحب علم ہو ذاتی طور پر یقین ہو اور مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
* (دوم) دو اشخاص جو عالم اور عادل ہوں نیز مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کا ملکہ رکھتے ہوں ، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطیکہ دو اور عالم اور عادل ان کی تردید نہ کریں اور بظاہر کسی کا مجتہد یا اعلم ہونا ایک قابل اعتماد شخص کے قول سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
* (سوم) کچھ اہل علم (اہل خبرہ) جو مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں اور ان کی تصدیق سے انسان مطمئن ہو جائے۔
۴۔ اگر در پیش مسائل میں دو یا اس سے زیادہ مجتہدین کے اختلافی فتوے اجمالی طور پر معلوم ہوں اور بعض کے مقابلے میں بعض دوسروں کا اعلم ہونا بھی معلوم ہو لیکن اگر اعلم کی پہچان آسان نہ ہو تو اخوط یہ ہے کہ آدمی تمام مسائل میں ان کے فتووں میں جتنا ہو سکے احتیاط کرے (یہ مسئلہ تفصیلی ہے اور اس کے بیان کا یہ مقام نہیں ہے )۔ اور ایسی صورت میں جبکہ احتیاط ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا عمل اس مجتہد کے فتوے کے مطابق ہو۔ جس کے اعلم ہونے کا احتمال دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اگر دونوں کے اعلم ہونے کا احتمال یکساں ہو تو اسے اختیار ہے ( کہ جس کے فتوے پر چاہے عمل کرے )۔
۵۔ کسی مجتہد کا فتوی حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں
* (اول) خود مجتہد سے (اس کا فتوی) سننا۔
* (دوم) ایسے دو عادل اشخاص سے سننا جو مجتہد کا فتوی بیان کریں۔
* (سوم) مجتہد کا فتوی کسی ایسے شخص سے سننا جس کے قول پر اطمینان ہو
* (چہارم) مجتہد کی کتاب (مثلاً توضیح المسائل) میں پڑھنا بشرطیکہ اس کتاب کی صحت کے بارے میں اطمینان ہو۔
۶۔ جب تک انسان کو یہ یقین نہ ہو جائے کہ مجتہد کا فتوی بدل چکا ہے وہ کتاب میں لکھے ہوئے فتوے پر عمل کر سکتا ہے اور اگر فتوے کے بدل جانے کا احتمال ہو تو چھان بین کرنا ضروری نہیں۔
۷۔ اگر مجتہد اعلم کوئی فتوی دے تو اس کا مقلد اس مسئلے کے بارے میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا۔ تاہم اگر ہو (یعنی مجتہد اعلم) فتوی نہ دے بلکہ یہ کہے کہ احتیاط اس میں سے ہے۔ کہ یوں عمل کیا جائے مثلاً احتیاط اس میں ہے کہ نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک اور پوری سورت پڑھے تو مقلد کو چاہئے کہ یا تو اس احتیاط پر، جسے احتیاط واجب کہتے ہیں ، عمل کرے یا کسی ایسے دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل کرے جس کی تقلید جائز ہو۔ (مثلاً فالاً علم)۔ پس اگر وہ (یعنی دوسرے مجتہد) فقط سورہ الحمد کو کافی سمجھتا ہو تو دوسری سورت ترک کی جا سکتی ہے۔ جب مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں کہے کہ محل تامل یا محل اشکال ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
۸۔ اگر مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں فتوی دینے کے بعد یا اس سے پہلے احتیاط لگائے مثلاً یہ کہے کہ کس نجس برتن کو پانی میں ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہو جاتا ہے اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ تین مرتبہ دھوئے تو مقلد ایسی احتیاط کو ترک کر سکتا ہے۔ اس قسم کی احتیاط کو احتیاط مستجب کہتے ہیں۔
۹۔ اگر وہ مجتہد جس کی ایک شخص تقلید کرتا ہے فوت ہو جائے تو جو حکم اس کی زندگی میں تھا وہی حکم اس کی وفات کے بعد بھی ہے۔ بنا بریں اگر مرحوم مجتہد، زندہ مجتہد کے مقابلے میں اعلم تھا تو ہو شخص جسے در پیش مسائل میں دونوں مجتہدین کے مابین اختلاف کا اگرچہ اجمالی طور پر علم ہو اسے مرحوم مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا ضروری ہے۔ اور اگر زندہ مجتہد اعلم ہو تو پھر زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اس مسئلے میں تقلید سے مراد معین مجتہد کے فتوے کی پیروی کرنے (قصد رجوع) کو صرف اپنے لئے لازم قرار دینا ہے نہ کہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔
۱۰۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلے میں ایک مجتہد کے فتوے پر عمل کرے ، پھر اس مجتہد کے فوت ہو جانے کے بعد وہ اسی مسئلے میں زندہ مجتہد کے فتوے پر عمل کر لے تو اسے اس امر کی اجازت نہیں کہ دوبارہ مرحوم مجتہد کے فتوے پر عمل کرے۔
۱۱۔ جو مسائل انسان کو اکثر پیش آتے رہتے ہیں ان کو یاد کر لینا واجب ہے۔
۱۲۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس کا حکم اسے معلوم نہ تو لازم ہے کہ احتیاط کرے یا ان شرائط کے مطابق تقلید کرے جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے لیکن اگر اس مسئلے میں اسے اعلم کے فتوے کا علم نہ ہو اور اعلم اور غیر اعلم کی آراء کے مختلف ہونے کا مجملاً علم ہو یا تو غیر اعلم کی تقلید جائز ہے۔
13۔ اگر کوئی شخص مجتہد کا فتوی کسی دوسرے شخص کو بتائے لیکن مجتہد نے اپنا سابقہ فتوی بدل دیا ہو تو اس کے لئے دوسرے شخص کو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا ضروری نہیں۔ لیکن اگر فتوی بتانے کے بعد یہ محسوس ہو کہ (شاید فتوی بتانے میں ) غلطی ہو گئی ہے اور اگر اندیشہ ہو کہ اس اطلاع کی وجہ سے وہ شخص اپنے شرعی وظیفے کے خلاف عمل کرے گا تو احتیاط لازم کی بنا پر جہاں تک ہوسکے اس غلطی کا ازالہ کرے۔
14۔ اگر کوئی مکلف ایک مدت تک کسی کی تقلید کیے بغیر اعمال بجا لاتا رہے لیکن بعد میں کسی مجتہد کی تقلید کر لے تو اس صورت میں اگر مجتہد اس کے گزشتہ اعمال کے بارے میں حکم لگائے کہ وہ صحیح ہیں تو وہ صحیح متصور ہوں گے ورنہ طابل شمار ہوں گے۔
احکام طہارت
مطلق اور مضاف پانی
۱۵۔ پانی یا مطلق ہوتا ہے یا مضاف۔ "مُضَاف” وہ پانی ہے جو کسی چیز سے حاصل کیا جائے مثلاً تربوز کا پانی (ناریل کا پانی) گلاب کا عرق (وغیرہ)۔ اس پانی کو بھی مضاف کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے آلودہ ہو مثلاً گدلا پانی جو اس حد تک مٹیالا ہو کہ پھر اسے پانی نہ کہا جا سکے۔ ان کے علاوہ جو پانی ہو اسے "آپ مُطلَق” کہتے ہیں اور اس کی پانچ قسمیں ہیں۔ (اول) کر پانی (دوم) قلیل پانی (سوم) جاری پانی (چہارم) بارش کا پانی (پنجم) کنویں کا پانی۔
کُر پانی
۱۶۔ مشہور قول کی بنا پر کُر اتنا پانی ہے جو ایک ایسے برتن کو بہر دے جس کی لمبائی،چوڑائی اور گہرائی ہر ایک ساڑھے تین بالشت ہو اس بنا پر اس کا مجموعہ ضرب ۸۔۷۔۴۲ ( ۸۷ ء ۴۲) بالشت ہونا ضروری ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اگر چھتیں بالشت بھی ہو تو کافی ہے۔ تاہم کُر پانی کا وزن کے لحاظ سے تعین کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے۔
۱۷۔ اگر کوئی چیز عین نجس ہو مثلاً پیشاب یا خون یا وہ چیز جو نجس ہو گئی ہو جسیے کہ نجس لباس ایسے پانی میں گر جائے جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور اس کے نتیجے کی بو، رنگ یا ذائقہ پانی میں سرایت کر جائے تو پانی نجس ہو جائے گا لیکن اگر ایسی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو نجس نہیں ہو گا۔
۱۸۔ اگر ایسے پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو نجاست کے علاوہ کسی اور چیز سے تبدیل ہو جائے تو وہ پانی نجس نہیں ہو گا۔
۱۹۔ اگر کوئی عین نجاست مثلاً خون ایسے پانی میں جا گرے۔ جس کی مقدار ایک کُر سے زیادہ ہو اور اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے تو اس صورت میں اگر پانی کے اس حصے کی مقدار جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ایک کُر سے کم ہو تو سارا پانی نجس ہو جائے گا لیکن اگر اس کی مقدار ایک کُر یا اس سے زیادہ ہو تو صرف وہ حصہ نجس متصور ہو گا جس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل ہوا ہے۔
۲۰۔ اگر فوارے کا پانی (یعنی وہ پانی جو جوش مار کر فوارے کی شکل میں اچھلے ) ایسے دوسرے پانی سے متصل ہو جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو تو فوارے کا پانی نجس پانی کو پاک کر دیتا ہے لیکن اگر نجس پانی پر فوارے کے پانی کا ایک ایک قطرہ گرے تو اسے پاک نہیں کرتا البتہ اگر فوارے کے سامنے کوئی چیز رکھ دی جائے۔ جس کے نتیجے میں اس کا پانی قطرہ قطرہ ہونے سے پہلے نجس پانی سے متصل ہو جائے تو نجس پانی کو پلک کر دیتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ فوارے کا پانی نجس پانی سے مخلوط ہو جائے۔
۲۱۔ اگر کسی نجس چیز کو ایسے نل کے نیچے دھوئیں جو ایسے (پاک) پانی سے ملا ہوا ہو جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور اس چیز کی دھوون اس پانی سے متصل ہو جائے۔ جس کی مقدار کرُ کے برابر ہو تو وہ دھوون پاک ہو گی۔ بشرطیکہ اس میں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا نہ ہو اور نہ ہی اس میں عین نجاست کی آمیزش ہو۔
۲۲۔ اگر کُر پانی کا کچھ حصہ جم کر برف بن جائے اور کچھ حصہ پانی کی شکل میں باقی بچے جس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو تو جو نہی نجاست اس پانی کو چھوئے گی وہ نجس ہو جائے گا اور برف پگھلنے پر جو پانی سے بنے گا وہ بھی نجس ہو گا۔
۲۳۔ اگر پانی کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور بعد میں شک ہو کہ آیا اب بھی کُر کے برابر ہے یا نہیں تو اس کی حیثیت ایک کُر پانی ہی کی ہو گی۔ یعنی وہ نجاست کو بھی پاک کرے گا اور نجاست کے اتصال سے نجس بھی نہیں ہو گا۔اس کے برعکس جو پانی کُر سے کم تھا اور اگر اس کے متعلق شک ہو کہ اب اس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو گئی ہے یا نہیں تو اسے ایک کُر سے کم ہی سمجھا جائے گا۔
۲۴۔ پانی کا ایک کُر کے برابر ہونا دو طریقوں سے ثابت ہوسکتا ہے۔ (اول) انسان کو خود اس بارے میں یقین یا اطمینان ہو (دوم) دو عادل مرد اس بارے میں خبر دیں۔
قلیل پانی
۲۵۔ ایسے پانی کو قلیل پانی کہتے ہیں جو زمین سے نہ ابلے اور جس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو۔
۲۶۔ جب قلیل پانی کسی نجس چیز پر گرے یا کوئی نجس چیز اس پر گرے تو پانی نجس ہو جائے گا۔ البتہ اگر پانی نجس چیز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصہ اس نجس چیز سے ملے گا نجس ہو جائے گا لیکن باقی پاک ہو گا۔
۲۷۔ جو قلیل پانی کسی چیز پر عَین نجاست دور کرنے کے لئے ڈالا جائے وہ نجاست سے جدا ہونے کے بعد نجس ہو جاتا ہے۔ اور اسی طرح وہ قلیل پانی جو عین نجاست کے الگ ہو جانے کے بعد نجس چیز کو پاک کرنے کے لئے اس پر ڈالا جائے اس سے جدا ہو جانے کے بعد بنا بر احتیاط لازم مطلقاً نجس ہے۔
۲۸۔ جس قلیل پانی سے پیشاب یا پاخانے کے مخارج دھوئے جائیں وہ اگر کسی چیز کو لگ جائے تو پانچ شرائط کے ساتھ اسے نجس نہیں کرے گا۔
(اول) پانی میں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا نہ ہوا ہو۔ (دوم) باہر سے کوئی نجاست اس سے نہ آملی ہو۔ (سوم) کوئی اور نجاست (مثلاً خون) پیشاب یا پاخانے کے ساتھ خارج نہ ہوئی ہو۔ (چہارم) پاخانے کے ذرے پانی میں دکھائی نہ دیں (پنجم) پیشاب یا پاخانے کے مخارج پر معمول سے زیادہ نجاست نہ لگی ہو۔
جاری پانی
جاری پانی وہ ہے جو زمین سے اُبلے اور بہتا ہو۔ مثلاً چشمے کا پانی۔
۲۹۔ جاری پانی اگرچہ کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو نجاست کے آ ملنے سے تب تک نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے۔
۳۰۔ اگر نجاست جاری پانی سے آملے تو اس کی اتنی مقدار جس کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل جائے نجس ہے۔ البتہ اس پانی کا وہ حصہ جو چشمے سے متصل ہو پاک ہے خواہ اس کی مقدار کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ ندی کی دوسری طرف کا پانی اگر ایک کُر جتنا ہو یا اس پانی کے ذریعہ جس میں (بُو، رنگ یا ذائقے کی) کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی چشمے کی طرف کے پانی سے ملا ہوا ہو تو پاک ہے ورنہ نجس ہے۔
۳۱۔ اگر کسی چشمے کا پانی جاری نہ ہو لیکن صورت حال یہ ہو کہ جب اس میں سے پانی نکال لیں تو دوبارہ اس کا پانی اُبل پڑتا ہو تو وہ پانی، جاری پانی کا حکم نہیں رکھتا یعنی اگر نجاست اس سے آملے تو نجس ہو جاتا ہے۔
۳۲۔ ندی یا نہر کے کنارے کا پانی جو ساکن ہو اور جاری پانی سے متصل ہو، جاری پانی کا حکم نہیں رکھتا۔
۳۳۔ اگر ایک ایسا چشمہ ہو جو مثال کے طور پر سردیوں میں اُبل پڑتا ہو لیکن گرمیوں میں اس کا جوش ختم ہو جاتا ہو اسی وقت جاری پانی کے حکم میں آئے گا۔ جب اس کا پانی اُبل پڑتا ہو۔
۳۴۔ اگر کسی (تُرکی اور ایرانی طرز کے ) حمام کے چھوٹے حوض کا پانی ایک کُر سے کم ہو لیکن وہ ایسے "وسیلئہ آب” سے متصل ہو جس کا پانی حوض کے پانی سے مل کر ایک کُر بن جاتا ہو تو جب تک نجاست کے مل جانے سے اس کی بُو، رنگ اور ذائقہ تبدیل نہ ہو جائے وہ نجس نہیں ہوتا۔
۳۵۔ حمام اور بلڈنگ کے نلکوں کا پانی جا ٹنٹیوں اور شاوروں کے ذریعے بہتا ہے اگر اس حوض کے پانی سے مل کر جو ان نلکوں سے متصل ہو ایک کُر کے برابر ہو جائے تو نلکوں کا پانی بھی کُر پانی کے حکم میں شامل ہو گا۔
۳۶۔ جو پانی زمین پر بہہ رہا ہو۔ لیکن زمین سے اُبل نہ رہا ہو اگر وہ ایک کُر سے کم ہو اور اس میں نجاست مل جائے تو وہ نجس ہو جائے گا لیکن اگر وہ پانی تیزی سے بہہ رہا ہو اور مثال کے طور پر اگر نجاست اس کے نچلے حصے کو لگے تو اس کا اوپر والا حصہ نجس نہیں ہو گا۔
بارش کا پانی
۳۷۔ جو چیز نجس ہو اور عین نجاست اس میں نہ ہو اس پر جہاں جہاں ایک بار بارش ہو جائے پاک ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر بدن اور لباس پیشاب سے نجس ہو جائے تو بنا بر احتیاط ان پر دو بار بارش ہونا ضروری ہے مگر قالین اور لباس وغیرہ کا نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہلکی بوندا باندی کافی نہیں بلکہ اتنی بارش لازمی ہے کہ لوگ کہیں کہ بارش ہو رہی ہے۔
۳۸۔ اگر بارش کا پانی عین نجس پر برسے اور پھر دوسری جگہ چھینٹے پڑیں لیکن عین نجاست اس میں شامل نہ ہو اور نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ بھی اس میں پیدا نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے۔ پس اگر بارش کا پانی خون پر برسنے سے چھینٹے پڑیں اور ان میں خون کے ذرات شامل ہوں یا خون کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا ہو گیا ہو تو وہ پانی نجس ہو گا۔
۳۹۔ اگر مکان کی اندرونی یا اوپری چھت پر عین نجاست موجود ہو تو بارش کے دوران جو پانی نجاست کو چھو کر اندرونی چھت سے ٹپکے یا پرنالے سے گرے وہ پاک ہے۔ لیکن جب بارش تہم جائے اور یہ بات علم میں آئے کہ اب جو پانی گر رہا ہے وہ کسی نجاست کو چھو کر آ رہا ہے تو وہ پانی نجس ہو گا۔
۴۰۔ جس نجس زمین پر بارش برس جائے وہ پاک ہو جاتی ہے اور اگر بارش کا پانی زمین پر بہنے لگے اور اندرونی چھت کے اس مقام پر جا پہنچے جو نجس ہے تو وہ جگہ بھی پاک ہو جائے گی بشرطیکہ ہنوز بارش ہو رہی ہو۔
۴۱۔ نجس مٹی کے تمام اجزاء تک بارش کا مُطلَق پانی پہنچ جائے تو مٹی پاک ہو جائے گی۔
۴۲۔ اگر بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہو جائے خواہ ایک کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو بارش برسنے کے وقت وہ (جمع شدہ پانی) کُر کا حکم رکھتا ہے اور کوئی نجس چیز اس میں دھوئی جائے اور پانی نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ قبول نہ کرے تو وہ نجس چیز پاک ہو جائیگی۔
۴۳۔اگر نجس زمین پر بچھے ہوئے پاک قالین (یا دری) پر بارش برسے اور اس کا پانی برسنے کے وقت قالین سے نجس زمین پر پہنچ جائے تو قالین بھی نجس نہیں ہو گا اور زمین بھی پاک ہو جائے گی۔
کُنویں کا پانی
۴۴۔ ایک ایسے کنویں کا پانی جو زمین سے اُبلتا ہو اگرچہ مقدار میں ایک کُر سے کم ہو نجاست پڑنے سے اس وقت تک نجس نہیں ہو گا۔ جب تک اس نجاست سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے۔ لیکن مستجب یہ ہے کہ بعض نجاستوں کے گرنے پر کنویں سے اتنی مقدار میں پانی نکال دیں جو مفصل کتابوں میں درج ہے۔
۴۵۔ اگر کوئی نجاست کنویں میں گر جائے اور اس کے پانی کی بو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے تو جب کنویں کے پانی میں پیدا شدہ یہ تبدیلی ختم ہو جائے گی پانی پاک ہو جائے گا اور بہتر یہ ہے کہ یہ پانی کنویں سے اُبلنے والے پانی میں مخلوط ہو جائے۔
۴۶۔ اگر بارش کا پانی ایک گڑھے میں جمع ہو جائے اور اس کی مقدار ایک کُرسے کم ہو تو بارش تھمنے کے بعد نجاست کی آمیزش سے وہ پانی نجس ہو جائے گا۔
پانی کے احکام
۴۷۔ مضاف پانی (جس کے معنی مسئلہ نمبر ۱۵ میں بیان ہو چکے ہیں ) کسی نجس چیز کو پاک نہیں کرتا۔ ایسے پانی سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے۔
۴۸۔ مضاف پانی کی مقدار اگرچہ ایک کُر کے برابر ہو اگر اس میں نجاست کا ایک ذرہ بھی پڑ جائے تو نجس ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر ایسا پانی کسی نجس چیز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصہ نجس چیز سے متصل ہو گا۔ نجس ہو جائے گا اور جو متصل نہیں ہو گا وہ پاک ہو گا مثلاً اگر عرق گلاب کو گلاب دان سے نجس ہاتھ پر چھڑ کا جائے تو اس کا جتنا حصہ ہاتھ کو لگے گا نجس ہو گا اور جو نہیں لگے گا وہ پاک ہو گا۔
۴۹۔ اگر وہ مُضاف پانی جو نجس ہو ایک کُر کے برابر پانی یا جاری پانی سے یوں مل جائے کہ پھر اسے مضاف پانی نہ کہا جا سکے تو وہ پاک ہو جائے گا۔
۵۰۔ اگر ایک پانی مطلق تھا اور بعد میں اس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مضاف ہو جانے کی حد تک پہنچا ہے۔ انہیں تو وہ مطلق پانی متصور ہو گا یعنی نجس چیز کو پاک کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی صحیح ہو گا اور اگر پانی مضاف تھا اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مطلق ہوا یا نہیں تو وہ مضاف متصور ہو گا یعنی کسی نجس چیز کو پاک نہیں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہو گا۔
۵۱۔ ایسا پانی جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مطلق ہے یا مضاف، نجاست کو پاک نہیں کرتا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے۔ جو نہی کوئی نجاست ایسے پانی سے آ ملتی ہے تو احتیاط لازم کی بنا پر وہ نجس ہو جاتا ہے خواہ اس کی مقدار ایک کُر ہی کیوں نہ ہو۔
۵۲۔ ایسا پانی جس میں خون یا پیشاب جیسی عین نجاست آ پڑے اور اس کی بو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے نجس ہو جاتا ہے خواہ وہ کُر کے برابر یا جاری پانی ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر اس پانی کی بُو، رنگ یا ذائقہ کسی ایسی نجاست سے تبدیل ہو جائے جو اس سے باہر ہے مثلاً قریب پڑے ہوئے مُردار کی وجہ سے اس کی بُو بدل جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر وہ نجس ہو جائے گا۔
۵۳ وہ پانی جس میں عین نجاست مثلاً خون یا پیشاب گر جائے اور اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے اگر کُر کے برابر یا جاری پانی سے متصل ہو جائے یا بارش کا پانی اس پر برس جائے یا ہوا کی وجہ سے بارش کا پانی اس پر گرے یا بارش کا پانی اس دوران جب کہ بارش ہو رہی ہو پرنالے سے اس پر گرے اور جاری ہو جائے تو ان تمام صورتوں میں اس میں واقع شدہ تبدیلی زائل ہو جانے پر ایسا پانی پاک ہو جاتا ہے لیکن قول اقوی کی بنا پر ضروری ہے کہ بارش کا پانی یا کُر پانی یا جاری پانی اس میں مخلوط ہو جائے۔
۵۴۔ اگر کسی نجس چیز کو بہ مقدار کر پانی جلدی پانی میں پاک کیا جائے تو وہ پانی جو باہر نکالنے کے بعد اس سے ٹپکے پاک ہو گا۔
۵۵۔ جو پانی پہلے پاک ہو اور یہ علم نہ ہو کہ بعد میں نجس ہوا یا نہیں ، وہ پاک ہے اور جو پانی پہلے نجس ہو اور معلوم نہ ہو کہ بعد میں پاک ہوا یا نہیں ، وہ نجس ہے۔
۵۶۔ کُتے ، سُوّر اور غیر کتابی کافر کا جھوٹا بلکہ احتیاط مُستجب کے طور پر کتابی کافر کا جھوٹا بھی نجس ہے اور اس کا کھانا پینا حرام ہے مگر حرام گوشت جانور کا جھوٹا پاک ہے اور بلی کے علاوہ اس قسم کے باقی تمام جانوروں کے جھوٹے کا کھانا اور پینا مکروہ ہے۔
بَیتُ الخَلاء کے احکام
۵۷۔ انسان پر واجب ہے کہ پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت اور دوسرے مواقع پر اپنی شرمگاہوں کو ان لوگوں سے جا بالغ ہوں خواہ وہ ماں اور بہن کی طرح اس کے محرم ہی کیوں نہ ہوں اور اسی طرح دیوانوں اور ان بچوں سے جو اچھے بُرے کی تمیز رکھتے ہوں چھپا کر رکھے۔ لیکن بیوی اور شوہر کے لئے اپنی شرمگاہوں کو ایک دوسرے سے چھپانا لازم نہیں۔
۵۸۔ اپنی شرمگاہوں کو کسی مخصوص چیز سے چھپانا لازم نہیں مثلاً اگر ہاتھ سے بھی چھپالے تو کافی ہے۔
۵۹۔ پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت احتیاط لازم کی بنا پر بدن کا اگلا حصہ یعنی پیٹ اور سینہ قبلے کی طرف نہ ہو اور نہ ہی پشت قبلے کی طرف ہو۔
۶۰۔ اگر پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت کسی شخص کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ یا پشت بقبلہ ہو اور وہ اپنی شرمگاہ کو قبلے کی طرف سے موڑ لے تو یہ کافی نہیں ہے اور اگر اس کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ شرمگاہ کو رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ موڑے۔
۶۱۔ احتیاط مُستجب یہ ہے کہ اِستبراَ کے موقع پر، جس کے احکام بعد میں بیان کئے جائیں گے ، نیز اگلی اور پچھلی شرم گاہوں کو پاک کرتے وقت بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ اور پشت بہ قبلہ نہ ہو۔
۶۲۔ اگر کوئی شخص اس لئے کہ نامحرم اسے نہ دیکھے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ پشت بہ قبلہ بیٹھ جائے اگر پشت بہ قبلہ بیٹھنا ممکن نہ ہو تو رو بہ قبلہ بیٹھ جائے۔ اگر کسی اور وجہ سے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تو بھی یہی حکم ہے۔
۶۳۔ احتیاط مُستجب یہ ہے کہ بچے کو رفع حاجت کے لئے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ بٹھائے۔ ہاں اگر بچہ خود ہی اس طرح بیٹھ جائے تو روکنا واجب نہیں۔
۶۴۔ چار جگہوں پر رفع حاجت حرام ہے۔
۱۔ بند گلی میں جب کہ وہاں رہنے والوں نے اس کی اجازت نہ دے رکھی ہو۔ ۲۔ اس قطعہ زمین میں جو کسی کی نجی ملکیت ہو جب کہ اس نے اس رفع حاجت کی اجازت نہ دے رکھی ہو۔
۳۔ ان جگہوں میں جو مخصوص لوگوں کے لئے وقف ہوں مثلاً بعض مدرسے ۴۔ مومنین کی قبروں کے پاس جب کہ اس فعل سے ان کی بے حرمتی ہوتی ہو۔ یہی صورت ہر اس جگہ کی ہے جہاں رفع حاجت دین یا مذہب کے مقدسات کی توہین کا موجب ہو۔
۶۵۔ تین صورتوں میں مقعد (پاخانہ خارج ہونے کا مقام) فقط پانی سے پاک ہوتا ہے۔
۱۔ پاخانے کے ساتھ کوئی اور نجاست (مثلاً خون) باہر آئی ہو۔
۲۔ کوئی بیرونی نجاست مقعد پر لگ گئی ہو۔
۳۔مقعد کا اطراف معمول سے زیادہ آلودہ ہو گیا ہو۔
ان تین صورتوں کے علاوہ مقعد کو یا تو پانی سے دھویا جا سکتا ہے اور یا اس طریقے کے مطابق جو بعد میں بیان کیا جائے گا کپڑے یا پتھر وغیرہ سے بھی پاک کیا جا سکتا ہے اگرچہ پانی سے دھونا بہتر ہے۔
۶۶۔ پیشاب کا مخرج پانی کے علاوہ کسی چیز سے پاک نہیں ہوتا۔ اگر پانی کُر کے برابر ہو یا جاری ہو تو پیشاب کرنے کے بعد ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔ لیکن اگر قلیل پانی سے دھویا جائے تو احتیاط مُستحب کی بنا پر دو مرتبہ دھونا چاہئے اور بہتر یہ ہے کہ تین مرتبہ دھوئیں۔
۶۷۔ اگر مقعد کو پانی سے دھویا جائے تو ضروری ہے کہ پاخانے کا کوئی زرہ باقی نہ رہے البتہ رنگ یا بُو باقی رہ جائے تو کوئی حرج نہیں اور اگر پہلی بار ہی وہ مقام یوں دھُل جائے کہ پاخانے کا کوئی ذرہ باقی نہ رہے تو دوبارہ دھونا لازم نہیں۔
۶۸۔ پتھر، ڈھیلا، کپڑا یا ا نہی جیسی دوسری چیزیں اگر خشک اور پاک ہوں تو ان سے مقعد کو پاک کیا جا سکتا ہے اور اگر ان میں معمولی نمی بھی ہو جو مقعد تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں۔
۶۹۔ اگر مقعد کو پتھر یا ڈھیلے یا کپڑے سے ایک مرتبہ بالکل صاف کر دیا جائے تو کافی ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ تین مرتبہ صاف کیا جائے اور (جس چیز سے صاف کیا جائے اس کے ) تین ٹکڑے بھی ہوں اور اگر تین ٹکڑوں سے صاف نہ ہو تو اتنے مزید ٹکڑوں کا اضافہ کرنا چاہئے کہ مقعد بالکل صاف ہو جائے۔ البتہ اگر اتنے چھوٹے ذرے باقی رہ جائیں جو نظر نہ آئیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۷۰۔ مقعد کو ایسی چیزوں سے پاک کرنا حرام ہے جن کا احترام لازم ہو (مثلاً کاپی یا اخبار کا ایسا کاغذ جس پر خدا تعالیٰ اور پیغمبروں کے نام لکھے ہوں ) اور مقعد کے ہڈی یا گوبر سے پاک ہونے میں اشکال ہے۔
۷۱۔ اگر ایک شخص کو شک ہو کہ مقعد پاک کیا ہے یا نہیں تو اس پر لازم ہے کہ اسے پاک کرے اگرچہ پیشاب یا پاخانہ کرنے کے بعد وہ ہمیشہ متعلقہ مقام کو فوراً پاک کرتا ہو۔
۷۲۔ اگر کسی شخص کو نماز کے بعد شک گزرے کہ نماز سے پہلے پیشاب یا پاخانے کا مخرج پاک کیا تھا یا نہیں تو اس نے جو نماز ادا کی ہے وہ صحیح ہے لیکن آئندہ نمازوں کے لئے اس (متعلقہ مقامات کو) پاک کرنا ضروری ہے۔
اِستِبرَاء
۷۳۔ اِستِبرَاء ایک مستجب عمل ہے جو مرد پیشاب کرنے کے بعد اس غرض سے انجام دیتے ہیں تاکہ اطمینان ہو جائے کہ اب پیشاب نالی میں باقی نہیں رہا۔ اس کی کئی ترکیبیں ہیں جن میں سے بہترین یہ ہے کہ پیشاب سے فارغ ہو جانے کے بعد اگر مقعد نجس ہو گیا ہو تو پہلے اسے پاک کرے اور پھر تین دفعہ بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی کے ساتھ مقعد سے لے کر عضو تناسل کی جڑ تک سونتے اور اس کے بعد انگوٹھے کو عضو تناسل کے اوپر اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو اس کے نیچے رکھے اور تین دفعہ سپاری تک سونتے اور پھر تین دفعہ سپاری کو جھٹکے۔
۷۴۔ وہ رطوبت جو کبھی کبھی عورت سے مُلاَعَبَت یا ہنسی مذاق کرنے کے بعد مرد کے آلہ تناسل سے خارج ہوتی ہے اسے مَذِی کہتے ہیں اور وہ پاک ہے۔ علاوہ ازیں وہ رطوبت جو کبھی کبھی مَنِی کے بعد خارج ہوتی ہے۔ جیسے وذی کہا جاتا ہے یا وہ رطوبت جو بعض اوقات پیشاب کے بعد نکلتی ہے اور جسے ودی کہا جاتا ہے پاک ہے بشرطیکہ اس میں پیشاب کی آمیزش نہ ہو۔ مزید یہ کہ جب کسی شخص نے پیشاب کے بعد اِستِبراء کیا ہو اور اس کے بعد رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ پیشاب ہے یا مذکورہ بالا تین رطوبتوں میں سے کوئی ایک تو وہ بھی پاک ہے۔
۷۵۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اِستِبراء کیا ہے یا نہیں اور اس کے پیشاب کے مخرج سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ پاک ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے۔ نیز یہ کہ اگر وہ وضو کر چکا ہو تو وہ بھی باطل ہو گا۔ لیکن اگر اسے اس بارے میں شک ہو کہ جو اِستِبراء اس نے کیا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں اور اس دوران رطوبت خارج ہو اور وہ نہ جانتا ہے کہ وہ رطوبت پاک ہے یا نہیں تو وہ پاک ہو گی اور اس کا وضو بھی باطل نہ ہو گا۔
۷۶۔ اگر کسی شخص نے اِستِبراء نہ کیا ہو اور پیشاب کرنے کے بعد کافی وقت گزر جانے کی وجہ سے اسے اطمینان ہو کہ پیشاب نالی میں باقی نہیں رہا تھا اور اس دوران رطوبت خارج ہو اور اسے شک ہو کہ پاک ہے یا نہیں تو وہ رطوبت پاک ہو گی اور اس سے وضو بھی باطل نہ ہو گا۔
۷۷۔ اگر کوئی شخص پیشاب کے بعد استبراء کر کے وضو کر لے اور اس کے بعد رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ پیشاب ہے یا منی تو اس پر واجب ہے کہ احتیاطاً غسل کرے اور وضو بھی کرے البتہ اگر اس نے پہلے وضو نہ کیا ہو تو وضو کر لینا کافی ہے۔
۷۸۔ عورت کے لئے پیشاب کے بعد استبراء نہیں ہے۔ پس اگر کوئی رطوبت خارج ہو اور شک ہو کہ یہ پیشاب ہے یا نہیں تو وہ رطوبت پاک ہو گی اور اس کے وضو اور غسل کو بھی باطل نہیں کرے گی۔
رفع حاجت کے مُستَحَبّات اور مکروہات
۷۹۔ ہر شخص کے لئے مستحب ہے کہ جب بھی رفع حاجت کے لئے جائے تو ایسی جگہ بیٹھے جہاں اسے کوئی نہ دیکھے۔ اور بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاوں اندر رکھے اور نکلتے وقت پہلے دایاں پاوں باہر رکھے اور یہ بھی مستحب ہے کہ رفع حاجت کے وقت (ٹوپی، دوپٹے وغیرہ سے ) سر ڈھانپ کر رکھے اور بدن کا بوجھ بائیں پاوں پر ڈالے۔
۸۰۔ رفع حاجت کے وقت سورج اور چاند کی طرف منہ کر کے بیٹھنا مکروہ ہے لیکن اگر اپنی شرم گاہ کو کسی طرح ڈھانپ لے تو مکروہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رفع حاجت کے لئے ہوا کہ رُخ کے بالمقابل نیز گلی کوچوں ، راستوں ، مکان کے دروازوں کے سامنے اور میوہ دار درختوں کے نیچے بیٹھنا بھی مکروہ ہے اور اس حالت میں کوئی چیز کھانا یا زیادہ وقت لگانا یا دائیں ہاتھ سے طہارت کرنا بھی مکروہ ہے اور یہی صورت باتیں کرنے کی بھی ہے لیکن اگر مجبوری ہو یا ذکر خدا کرے تو کوئی حرج نہیں۔
۸۱۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا اور سخت زمین پر یا جانوروں کے بلوں میں یا پانی میں بالخصوص ساکن پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے۔
۸۲۔ پیشاب اور پاخانہ روکنا مکروہ ہے اور اگر بدن کے لئے مکمل طور پر مضر ہو تو حرام ہے۔
۸۳۔ نماز سے پہلے ، سونے سے پہلے ، مباشرت کرنے سے پہلے اور انزال منی کے بعد پیشاب کرنا مستحب ہے۔
نجاسات
۸۴۔ دس چیزیں نجس ہیں :
۱۔ پیشاب ۲۔ پاخانہ ۳۔ منی ۴۔ مُردار۔ خون ” ۶، ۷” کتا اور سور ۸۔ کافر ۹۔ شراب ۱۰۔نجاست خور حیوان کا پسینہ۔
پیشاب اور پاخانہ
۸۵۔ انسان کا اور ہر اس حیوان کا جس کا گوشت حرام ہے اور جس کا خون جہندہ ہے یعنی اگر اس کی رگ کاٹی جائے تو خون اچھل کر نکلتا ہے ، پیشاب اور پاخانہ نجس ہے۔ لیکن ان حیوانوں کا پاخانہ پاک ہے جن کا گوشت حرام ہے مگر ان کا خون اچھل کر نہیں نکلتا، مثلاً وہ مچھلی جس کا گوشت حرام ہے اور اسی طرح گوشت نہ رکھنے والے چھوٹے حیوانوں مثلاً مکھی، مچھر (کھٹمل اور پسو) کا فُضلہ یا آلائش بھی پاک ہے لیکن حرام گوشت حیوان کہ جو اچھلنے والا خون نہ رکھتا ہو احتیاط لازم کی بنا پر اس کے پیشاب سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے۔
۸۶۔ جن پرندوں کا گوشت حرام ہے ان کا پیشاب اور فضلہ پاک ہے لیکن اس سے پرہیز بہتر ہے۔
۸۷۔ نجاست خور حیوان کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے۔ اور اسی طرح اس بھیڑ کے بچے کا پیشاب اور پاخانہ جس نے سورنی کا دودھ پیا ہو نجس ہے جس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔ اسی طرح اس حیوان کا پیشاب اور پاخانہ بھی نجس ہے جس سے کسی انسان نے بد فعلی کی ہو۔
منی
۸۸۔ انسان کی اور ہر اس جانور کی منی نجس ہے جس کا خون (ذبح ہوتے وقت اس کی شہ رگ سے )اچھل کر نکلے۔ اگرچہ احتیاط لازم کی بنا پر وہ حیوان حلال گوشت ہی کیوں نہ ہو۔
مُردار
۸۹۔ انسان کی اور اچھلنے والا خون رکھنے والے ہر حیوان کی لاش نجس ہے خواہ وہ (قدرتی طور پر) خود مرا ہو یا شرعی طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے سے ذبح کیا گیا ہو۔
مچھلی چونکہ اچھلنے والا خون نہیں رکھتی اس لئے پانی میں مر جائے تو بھی پاک ہے۔
۹۰۔ لاش کے وہ اجزاء جن میں جان نہیں ہوتی پاک ہیں مثلاً پشم، بال، ہڈیاں اور دانت۔
۹۱۔ جب کسی انسان یا جہندہ خون والے حیوان کے بدن سے اس کی زندگی کے دوران میں گوشت یا کوئی دوسرا ایسا حصہ جس میں جان ہو جدا کر لیا جائے تو وہ نجس ہے۔
۹۲۔ اگر ہونٹوں یا بدن کی کسی اور جگہ سے باریک سی تہہ (پیڑی) اکھیڑ لی جائے تو وہ پاک ہے۔
۹۳۔ مُردہ مرغی کے پیٹ سے جو انڈا نکلے وہ پاک ہے لیکن اس کا چھلکا دھو لینا ضروری ہے۔
۹۴۔ اگر بھیڑیا بکری کا بچہ (میمنا) گھاس کھانے کے قابل ہونے سے پہلے مر جائے تو وہ نپیر مایا جو اس کے شیردان میں ہوتا ہے پاک ہے لیکن شیردان باہر سے دھو لینا ضروری ہے۔
۹۵۔ بہنے والی دوائیاں ، عطر، روغن (تیل،گھی) جوتوں کی پالش اور صابن جنہیں باہر سے در آمد کیا جاتا ہے اگر ان کی نجاست کے بارے میں یقین نہ ہو تو پاک ہیں۔
۹۶۔ گوشت، چربی اور چمڑا جس کے بارے میں احتمال ہو کہ کسی ایسے جانور کا ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے پاک ہے۔ لیکن اگر یہ چیزیں کسی کافر سے لی گئی ہوں یا کسی ایسے مسلمان سے لی گئی ہوں۔ جس نے کافر سے لی ہوں اور یہ تحقیق نہ کی ہو کہ آیا یہ کسی ایسے جانور کی ہیں جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا نہیں تو ایسے گوشت اور چربی کا کھانا حرام ہے البتہ ایسے چمڑے پر نماز جائز ہے۔ لیکن اگر یہ چیزیں مسلمانوں کے بازار سے یا کسی مسلمان سے خریدی جائیں اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس سے پہلے یہ کسی کافر سے خریدی گئی تھیں یا احتمال اس بات کا ہو کہ تحقیق کر لی گئی ہے تو خواہ کافر سے ہی خریدی جائیں اس چمڑے پر نماز پڑھنا اور اس گوشت اور چربی کا کھانا جائز ہے۔
خون
۹۷۔ انسان کا اور خون جہندہ رکھنے والے ہر حیوان کا خون نجس ہے۔ پس ایسے جانوروں مثلاً مچھلی اور مچھر کا خون جو اچھل کر نہیں نکلتا پاک ہے۔
۹۸۔ جن جانوروں کا گوشت حلال ہے اگر انہیں شرعی طریقے سے ذبح کیا جائے اور ضروری مقدار میں اس کا خون خارج ہو جائے تو جو خون بدن میں باقی رہ جائے وہ پاک ہے لیکن اگر (نکلنے والا) خون جانور کے سانس کھینچنے سے یا اس کا سر بلند جگہ پر ہونے کی وجہ سے بدن میں پلٹ جائے تو وہ نجس ہو گا۔
۹۹ مرغی کے جس انڈے میں خون کا ذرہ ہو اس سے احتیاط مستحب کی بنا پر پرہیز کرنا چاہئے۔ لیکن اگر خون زردی میں ہو تو جب تک اس کا نازک پردہ پھٹ نہ جائے سفیدی بغیر اشکال کے پاک ہے۔
۱۰۰۔ وہ خون جو بعض اوقات چوائی کرتے ہوئے نظر آتا ہے نجس ہے اور دودھ کو بھی نجس کر دیتا ہے۔
۱۰۱۔ اگر دانتوں کی ریخوں سے نکلنے والا خون لُعاب دہن سے مخلوط ہو جانے پر ختم ہو جائے تو اس لعاب سے پرہیز لازم نہیں ہے۔
۱۰۲۔ جو خون چوٹ لگنے کی وجہ سے ناخن یا کھال کے نیچے جم جائے اگر اس کی شکل ایسی ہو کہ لوگ اسے خون نہ کہیں تو وہ پاک اور اگر خون کہیں اور وہ ظاہر ہو جائے تو نجس ہو گا۔ ایسی صورت میں جب کہ ناخن یا کھال میں سوراخ ہو جائے اگر خون کا نکالنا اور وضو یا غسل کے لئے اس مقام کا پاک کرنا بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہو تو تیمم کر لینا چاہئے۔
۱۰۳۔ اگر کسی شخص کو یہ پتہ نہ چلے کہ کھال کے نیچے خون جم گیا ہے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے گوشت نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے تو وہ پاک ہے۔
۱۰۴۔ اگر کھانا پکاتے ہوئے خون کا ایک ذرہ بھی اس میں گر جائے تو سارے کا سارا کھانا اور برتن احتیاط لازم کی بنا پر نجس ہو جائے گا۔ ابال، حرارت اور آگ انہیں پاک نہیں کر سکتے۔
۱۰۵۔ ریم یعنی وہ زرد مواد جو زخم کی حالت بہتر ہونے پر اس کے چاروں طرف پیدا ہو جاتا ہے اس کے متعلق اگر یہ معلوم نہ ہو کہ اس میں خون ملا ہوا ہے تو وہ پاک ہو گا۔
کُتا اور سُوّر
کتا اور سور جو زمین پر رہتے ہیں۔ حتی کے ان کے بال، ہڈیاں ، پنجے ، ناخن اور رطوبتیں بھی نجس ہیں البتہ سمندری کتا اور سور پاک ہیں۔
کافر
۱۰۷۔ کافر یعنی وہ شخص جا باری تعالیٰ کے وجود یا اس کی وحدانیت کا منکر ہو نجس ہے۔ اور اسی طرح غلات (یعنی وہ لوگ جو ائمہ علیہم السلام میں سے کسی کو خدا کہیں یا یہ کہیں کہ خدا، امام میں سما گیا ہے ) اور خارجی و ناصبی (وہ لوگ جو ائمہ علیہم السلام سے بیر اور بغض کا اظہار کریں ) بھی نجس ہیں۔
اس طرح وہ شخص جو کسی نبی کی نبوت یا ضروریات دین (یعنی وہ چیزیں جنہیں مسلمان دین کا جز سمجھتے ہیں مثلاً نماز اور روزے ) میں سے کسی ایک کا یہ جانتے ہوئے کہ یہ ضروریات دین ہیں ، منکر ہو۔ نیز اہل کتاب (یہودی، عیسائی اور مجوسی) بھی جو خاتم الانبیاء حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار نہیں کرتے مشہور روایات کی بنا پر نجس ہیں اگرچہ ان کی طہارت کا حکم بعید نہیں لیکن اس سے بھی پرہیز بہتر ہے۔
۱۰۸۔ کافر کا تمام بدن حتی کہ اس کے بال، ناخن اور رطوبتیں بھی نجس ہیں۔
۱۰۹۔ اگر کسی نابالغ بچے کے ماں باپ یا دادا دادی کافر ہوں تو وہ بچہ بھی نجس ہے۔ البتہ اگر وہ سوجھ بوجھ رکھتا ہو، اسلام کا اظہار کرتا ہو اور اگر ان میں سے (یعنی ماں باپ یا دادا دادی میں سے ) ایک بھی مسلمان ہو تو اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ ۲۱۷ میں آئے گی بچہ پاک ہے۔
۱۱۰۔ اگر کسی شخص کے متعلق یہ علم نہ ہو کہ مسلمان ہے یا نہیں اور کوئی علامت اس کے مسلمان ہونے کی نہ ہو تو وہ پاک سمجھا جائے گا لیکن اس پر اسلام کے دوسرے احکامات کا اطلاق نہیں ہو گا۔ مثلاً نہ ہی وہ مسلمان عورت سے شادی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جا سکتا ہے۔
۱۱۱۔ جو شخص (خانوادہ رسالت ﷺ کے ) بارہ اماموں میں سے کسی ایک کو بھی دشمنی کی بنا پر گالی دے وہ نجس ہے۔
شراب
۱۱۲۔ شراب نجس ہے۔ اور احتیاط مستجب کی بنا پر ہر وہ چیز بھی جو انسان کو مست کر دے اور مائع ہو نجس ہے۔ اور اگر مائع نہ ہو جیسے بھنگ اور چرس تو وہ پاک ہے خواہ اس میں ایسی چیز ڈال دیں جو مائع ہو۔
۱۱۳۔ صنعتی الکحل، جو دروازے ، کھڑکی، میز یا کرسی وغیرہ رنگنے کے لئے استعمال ہوتی ہے ، اس کی تمام قسمیں پاک ہیں۔
۱۱۴۔ اگر انگور اور انگور کا رس خود بخود یا پکانے پر خمیر ہو جائے تو پاک ہے لیکن اس کا کھانا پینا حرام ہے۔
۱۱۵۔ کھجور، منقیٰ،کشمش اور ان کا شیرہ خواہ خمیر ہو جائیں تو بھی پاک ہیں اور ان کا کھانا حلال ہے۔
۱۱۶۔ "فقاع” جو کہ جو سے تیار ہوتی ہے اور اسے آب جو کہتے ہیں حرام ہے لیکن اس کا نجس ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے۔ اور غیر فقاع یعنی طبی قواعد کے مطابق حاصل کردہ "آپ جو” جسے "ماء الشعیر” کہتے ہیں ، پاک ہے۔
نجاست کھانے والے حیوان کا پسینہ
۱۱۷۔ نجاست کھانے والے اونٹ کا پسینہ اور ہر اس حیوان کا پسینہ جسے انسانی نجاست کھانے کی عادت ہو نجس ہے۔
۱۱۸۔ جو شخص فعل حرام سے جُنب ہوا ہو اس کا پسینہ پاک ہے لیکن احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے اور حالت حیض میں بیوی سے جماع کرنا جبکہ اس حالت کا علم ہو حرام سے جنب ہونے کا حکم رکھتا ہے۔
۱۱۹۔ اگر کوئی شخص ان اوقات میں بیوی سے جماع کرے جن میں جماع حرام ہے (مثلاً رمضان المبارک میں دن کے وقت) تو اس کا پسینہ حرام سے جنب ہونے والے کے پسینے کا حکم نہیں رکھتا۔
۱۲۰۔ اگر حرام سے جنب ہونے والا غسل کے بجائے تیمم کرے اور تیمم کے بعد اسے پسینہ آ جائے تو اس پسینے کا حکم وہی ہے جو تیمم سے قبل والے پسینہ کا تھا۔
۱۲۱۔ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہو جائے اور پھر اس عورت سے جماع کرے جو اس کے لئے حلال ہے تو اس کے لئے احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس پسینے کے ساتھ نماز نہ پڑھے اور اگر پہلے اس عورت سے جماع کرے جو حلال ہو اور بعد میں حرام کا مرتکب ہو تو اس کا پسینہ حرام ہے جنب ہونے والے کے پسینے کا حکم نہیں رکھتا۔
نجاست ثابت ہونے کے طریقے
۱۲۲۔ ہر چیز کی نجاست تین طریقوں سے ثابت ہوتی ہے :
(اول) خود انسان کو یقین یا اطمینان ہو کہ فلاں چیز نجس ہے۔ اگر کسی چیز کے متعلق محض گمان ہو کہ نجس ہے تو اس سے پرہیز کرنا لازم نہیں۔ لہذا قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں جہاں لاپروا لوگ اور ایسے لوگ کھاتے پیتے ہیں جو نجاست اور طہارت کا لحاظ نہیں کرتے کھانا کھانے کی صورت یہ ہے کہ جب تک انسان کو اطمینان نہ ہو کہ جو کھانا اس کے لئے لایا گیا ہے وہ نجس ہے اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
(دوم) کسی کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ اس چیز کے بارے میں کہے کہ نجس ہے وہ شخص غلط بیانی نہ کرتا ہو مثلاً کسی شخص کی بیوی یا نوکر یا ملازمہ کہے کہ برتن یا کوئی دوسری چیز جو اس کے پاس ہے نجس ہے تو وہ نجس شمار ہو گی۔
(سوم) اگر دو عادل آدمی کہیں کہ ایک چیز نجس ہے تو وہ نجس شمار ہو گی بشرطیکہ وہ اس کے نجس ہونے کی وجہ بیان کریں۔
۱۲۳۔ اگر کوئی شخص مسئلے سے عدم واقفیت کی بتا پر جان سکے کہ ایک چیز نجس ہے یا پاک مثلاً سے یہ علم نہ ہو کر چوہے کہ مینگنی پاک ہے یا نہیں تو اسے چاہئے کہ مسئلہ پوچھ لے۔ لیکن اگر مسئلہ جانتا ہو اور کسی چیز کے بارے میں اسے شک ہو کہ پاک ہے یا نہیں مثلاً اسے شک ہو کہ وہ چیز خون ہے یا نہیں یا یہ نہ جانتا ہو کہ مچھر کا خون ہے یا انسان کا تو وہ چیز پاک شمار ہو گی اور اس کے بارے میں چھان بین کرنا یا پوچھنا لازم نہیں۔
۱۲۴۔ اگر کسی نجس چیز کے بارے میں شک ہو کہ (بعد میں ) پاک ہوئی ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے۔ اگر کسی پاک چیز کے بارے میں شک ہو کہ (بعد میں ) نجس ہو گئی ہے یا نہیں تو وہ پاک ہے۔ اگر کوئی شخص ان چیزوں کے نجس یا پاک ہونے کے متعلق پتہ چلا بھی سکتا ہو تو تحقیق ضروری نہیں ہے۔
۱۲۵۔ اگر گوئی شخص جانتا ہو کہ جو دو برتن یا دو کپڑے وہ استعمال کرتا ہے ان میں سے ایک نجس ہو گیا ہے لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ ان میں سے کون سا نجس ہوا ہے تو دونوں اس اجتناب کرنا ضروری ہے اور مثال کے طور پر اگر یہ نہ جانتا ہو کہ خود اس کا کپڑا نجس ہوا ہے یا وہ کپڑا جو اس کے زیر استمال نہیں ہے اور کسی دوسرے شخص کی ملکیت ہے تو یہ ضروری نہیں کہ اپنے کپڑے سے اجتناب کرے۔
پاک چیز نجس کیسے ہوتی ہے ؟
۱۲۶۔ اگر کوئی پاک چیز کسی نجس چیز سے لگ جائے اور دونوں یا ان میں سے ایک اس قدر تر ہو کہ ایک کی ترسی دوسری تک پہنچ جائے تو پاک چیز بھی نجس ہو جائے گی اور اگر وہ اسی تری کے ساتھ کسی تیسری چیز کے ساتھ لگ جائے تو اسے بھی نجس کر دیتی ہے اور مشہور قول ہے کہ جو چیز نجس ہو گئی ہو وہ دوسری چیز کو بھی نجس کر دیتی ہے لیکن یکے بعد دیگرے کئی چیزوں پر نجاست کا حکم لگانا مشکل ہے بلکہ طہارت کا حکم لگانا قوت سے خالی نہیں ہے۔ مثلاً اگر دایاں ہاتھ پیشاب سے نجس ہو جائے اور پھر یہ تر ہاتھ بائیں ہاتھ کو چھو جائے تو وہ لباس بھی نجس ہو جائے گا لیکن اگر اب وہ تر لباس کسی دوسری تر چیز کو لگ جائے تو وہ چیز نجس نہیں ہو گی اور اگر تری اتنی کم ہو کہ دوسری چیز کو نہ لگے تو پاک چیز نجس نہیں ہو گی خواہ وہ عین نجس کو ہی کیوں نہ لگی ہو۔
۱۲۷۔ اگر کوئی پاک چیز کسی نجس چیز کو لگ جائے اور ان دونوں یا کسی ایک کے تر ہونے کے متعلق کسی کو شک ہو تو پاک چیز نجس نہیں ہوتی۔
۱۲۸۔ ایسی دو چیزیں جن کے بارے میں انسان کو علم نہ ہو کہ ان میں سے کون سی پاک ہے اور کون سی نجس اگر ایک پاک تر چیز ان میں سے کسی ایک چیز کو چھو جائے تو اس سے پرہیز کرنا ضروری نہیں ہے لیکن بعض صورتوں میں مثلاً دونوں چیزیں پہلے نجس تھیں یا یہ کہ کوئی پاک چیز تری کی حالت میں ان میں سے کسی ایک کو چھو جائے (تو اس سے اجتناب ضروری ہے )۔
۱۲۹۔ اگر زمین، کپڑا یا ایسی دوسری چیزیں تر ہوں تو ان کے جس حصے کو نجاست لگے گی وہ نجس ہو جائے گا اور باقی حصہ پاک رہے گا۔ یہی حکم کھیرے اور خربوزے وغیرہ کے بارے میں ہے۔
۱۳۰۔ جب شیرے ، تیل، (گھی) یا ایسی ہی کسی اور چیز کی صورت ایسی ہو کہ اگر اس کی کچھ مقدار نکال لی جائے تو اس کی جگہ خالی نہ رہے تو جوں ہی وہ ذرہ بہر بھی نجس ہو گا سارے کا سارے نجس ہو جائے گا اگر اس کی صورت ایسی ہو کہ نکالنے کے مقام پر جگہ خالی رہے اگر چہ بعد میں پر ہی ہو جائے تو صرف وہی حصہ نجس ہو گا جسے نجاست لگی ہے۔ لہذا اگر چوہے کی مینگنی اس میں گر جائے تو جہاں وہ مینگنی گری ہے وہ جگہ نجس اور باقی پاک ہو گی۔
۱۳۱۔ اگر مکھی یا ایسا ہی کوئی اور جاندار ایک ایسی تر چیز پر بیٹھے جو نجس ہو اور بعد ازاں ایک تر پاک چیز پر جا بیٹھے اور یہ علم ہو جائے کہ اس جاندار کے ساتھ نجاست تھی تو پاک چیز نجس ہو جائے گی اور اگر علم نہ ہو تا پاک رہے گی۔
۱۳۲۔ اگر بدن کے کسی حصے پر پسینہ اور وہ حصہ نجس ہو جائے اور پھر پسینہ بہہ کر بدن کے دوسرے حصوں تک چلا جائے تو جہاں جہاں پسینہ بہے گا بدن کے وہ حصے نجس ہو جائیں گے لیکن اگر پسینہ آگے نہ بہے تو باقی بدن پاک رہے گا۔
۱۳۳۔ جو بلغم ناک یا گلے سے خارج ہو اگر اس میں خون ہو تو بلغم میں جہاں خون ہو گا نجس اور باقی حصہ پاک ہو گا لہذا اگر یہ بلغم منہ یا ناک کے باہر لگ جائے تو بدن کے جس مقام کے بارے میں یقین ہو کہ نجس بلغم اس پر لگا ہے نجس ہے اور جس جگہ کے بارے میں شک ہو کہ وہاں بلغم کا نجاست والا حصہ پہنچا ہے یا نہیں تو وہ پاک ہو گا۔
۱۳۴۔ اگر ایک ایسا لوٹا جس کے پیندے میں سوراخ ہو۔ نجس زمین پر رکھ دیا جائے اور اس سے پانی بہنا بند ہو جائے تو جو پانی اس کے نیچے جمع ہو گا، وہ اس کے اندر والے پانی سے مل کر یکجا ہو جائے تو لوٹے کا پانی نجس ہو جائے گا لیکن اگر لوٹے کا پانی تیزی کے ساتھ بہتا رہے تو نجس نہیں ہو گا۔
۱۳۵۔ اگر کوئی چیز بدن میں داخل ہو کر نجاست سے جا ملے لیکن بدن سے باہر آنے پر نجاست آلود نہ ہو تو وہ چیز پاک ہے چنانچہ اگر ایما کا سامان یا اس کا پانی مقعد میں داخل کیا جائے یا سوئی، چاقو یا کوئی اور ایسی چیز بدن میں چبھ جائے اور باہر نکلنے پر نجاست آلود نہ ہو تو نجس نہیں ہے۔ اگر تھوک اور ناک کا پانی جسم کے اندر خون سے جا ملے لیکن باہر نکلنے پر خون آلود نہ ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے .
احکام نجاسات
۱۳۶۔ قرآن مجید کی تحریر اور ورق کو نجس کرنا جب کہ یہ فعل بے حرمتی میں شمار ہوتا ہو بلا شبہ حرام ہے اور اگر نجس ہو جائے تو فورا پانی سے دھونا ضروری ہے بلکہ اگر بے حرمتی کا پہلو نہ بھی نکلے تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر کلام پاک کو نجس کرنا حرام اور پانی سے دھونا واجب ہے۔
۱۳۷۔ اگر قرآن مجید کی جلد نجس ہو جائے اور اس سے قرآن مجید کی بے حُرمتی ہوتی ہو تو جلد کو پانی سے دھونا ضروری ہے۔
۱۳۸۔ قرآن مجید کو کسی عین نجاست مثلاً خون مُردار پر رکھنا خواہ وہ عین نجاست خشک ہی کیوں نہ ہو اگر قرآن مجید کی بے حرمتی کا باعث ہو تو حرام ہے۔
۱۳۹۔ قرآن مجید کو نجس روشنائی سے لکھنا خواہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو اسے نجس کرنے کا حکم رکھتا ہے۔ اگر لکھا جا چکا ہو تو اسے پانی سے دھو کر یا چھیل کر یا کسی اور طریقے سے مٹا دینا ضروری ہے۔
۱۴۰۔ اگر کافر کو قرآن مجید دینا بے حرمتی کا موجب ہو تو حرام ہے اور اس سے قرآن مجید واپس لے لینا واجب ہے۔
۱۴۱۔ اگر قرآن مجید کا ورق یا کوئی ایسی چیز جس کا احترام ضروری ہو مثلاً ایسا کاغذ جس پر اللہ تعالیٰ کا یا نبی کریم ﷺ یا کسی امام علیہ السلام کا نام لکھا ہو بیت الخلاء میں گر جائے تو اس کا باہر نکالنا اور اسے دھونا واجب ہے خواہ اس پر کچھ رقم ہی کیوں نہ خرچ کرنی پڑے۔ اور اگر اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت تک اس بیت الخلاء کو استعمال نہ کیا جائے جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ گل کر ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح اگر خاک شفا بیت الخلاء میں گر جائے اور اس کا نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ بالکل ختم ہو چکی ہے ، اس بیت الخلاء کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
۱۴۲۔ نجس چیز کا کھانا پینا یا کسی دوسرے کو کھلانا پلانا حرام ہے لیکن بچے یا دیوانے کو کھلانا پلانا بظاہر جائز ہے اور اگر بچہ یا دیوانہ نجس غذا کھائے پیئے یا نجس ہاتھ سے غذا کو نجس کر کے کھائے تو اسے روکنا ضروری نہیں۔
۱۴۳۔ جو نجس چیز دھوئی جا سکتی ہو اسے بیچنے اور ادھار دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے نجس ہونے کے بارے میں جب یہ دو شرطیں موجود ہوں تو خریدنے یا ادھار لینے والے کو بتانا ضروری ہے۔
(نجس چیز) کو کھانے یا پینے میں استعمال کرے گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو بتانا ضروری نہیں ہے مثلاً لباس کے نجس ہونے کے بارے میں بتانا ضروری نہیں جسے پہن کر دوسرا فریق نماز پڑھے کیونکہ لباس کا پاک ہونا شرط واقعی نہیں ہے۔
(دوسری شرط) جب بیچنے یا ادھار دینے والے کو توقع ہو کہ دوسرا فریق اس کی بات پر عمل کرے گا اور اگر وہ جانتا ہو کہ دوسرا فریق اس کی بات پر عمل نہیں کرے گا تو اسے بتانا ضروری نہیں ہے۔
۱۴۴۔ اگر ایک شخص کسی دوسرے کو نجش چیز کھاتے یا نجس لباس سے نماز پڑھتے دیکھے تو اسے اس بارے میں کچھ کہنا ضروری نہیں۔
۱۴۵۔ اگر گھر کا کوئی حصہ یا قالین (یا دری) نجس ہو اور وہ دیکھے کہ اس کے گھر آنے والوں کا بدن، لباس یا کوئی اور چیز تری کے ساتھ نجس جگہ سے جا لگی ہے اور صاحب خانہ اس کا باعث ہوا ہو تو دو شرطوں کے ساتھ جو مسئلہ ۱۴۳ میں بیان ہوئی ہیں ان لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کر دینا ضروری ہے۔
۱۴۶۔ اگر میزبان کو کھانا کھانے کے دوران پتہ چلے کہ غذا نجس ہے تو دونوں شرطوں کے مطابق جو (مسئلہ ۱۴۳ میں ) بیان ہوئی ہیں ضروری ہے کہ مہمانوں کو اس کے متعلق آگاہ کر دے لیکن اگر مہمانوں میں سے کسی کو اس بات کا علم ہو جائے تو اس کے لئے دوسروں کو بتانا ضروری نہیں۔ البتہ اگر وہ ان کے ساتھ یوں گھل مل کر رہتا ہو کہ ان کے نجس ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی نجاست میں مبتلا ہو کر واجب احکام کی مخالف کا مرتکب ہو گا تو ان کو بتانا ضروری ہے۔
۱۴۷۔ اگر کوئی ادھار لی ہوئی چیز نجس ہو جائے تو اس کے مالک کو دو شرطوں کے ساتھ جو مسئلہ ۱۴۳ میں بیان ہوئی ہیں آگاہ کرے۔
۱۴۸۔ اگر بچہ کہے کہ کوئی چیز نجس ہے یا کہے کہ اس نے کسی چیز کو دھو لیا ہے تو اس کی بات پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر بچے کی عمر مکلف ہونے کے قریب ہو اور وہ کہے کہ اس نے ایک چیز پانی سے دھوئی ہے جب کہ وہ چیز اس کے استعمال میں ہو یا بچے کا قول اعتماد کے قابل ہو تو اس کی بات قبول کر لینی چاہئے اور یہی حکم ہے جب کہ بچہ کہے کہ وہ چیز نجس ہے۔
عبادات (وضو)
۲۴۲۔وضو میں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے جائیں اور سر کے اگلے حصے اور دونوں پاوں کے سامنے والے حصے کا مسح کیا جائے۔
۲۴۳۔ چہرے کو لمبائی میں پیشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جہاں سر کے بال اگتے ہیں ٹھوڑی کے آخری کنارے تک دھونا ضروری ہے اور چوڑائی میں بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے پھیلاو میں جتنی جگہ آ جائے اسے دھونا ضروری ہے اگر اس مقدار کا ذرا سا حصہ بھی چھوٹ جائے تو وضو باطل ہے۔ اور اگر انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ ضروری حصہ پورا ڈھل گیا ہے تو یقین کرنے کے لئے تھوڑا تھوڑا ادھر ادھر سے دھونا بھی ضروری ہے۔
۲۴۴۔ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی بہ نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو اسے دیکھنا چاہئے کہ عام لوگ کہاں تک اپنا چہرہ دھوتے ہیں اور پھر وہ بھی اتنا ہی دھو ڈالے۔ علاوہ ازیں اگر اس کی پیشانی پر بال اگے ہوئے ہوں یا سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہوں تو اسے چاہئے کہ عام اندازے کے مطابق پیشانی دھو ڈالے۔
۲۴۵۔ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ کسی شخص کی بھوں ، آنکھ کے گوشوں اور ہونٹوں پر میل یا کوئی دوسری چیز ہے۔ جو پانی کے ان تک پہنچنے میں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست ہو تو اسے وضو سے پہلے تحقیق کر لینی چاہئے اور اگر کوئی چیز ہو تو اسے دور کرنا چاہئے۔
۲۴۶۔ اگر چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہو تو پانی جلد تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دھونا کافی ہے اور ان کے نیچے تک پانی پہنچانا ضروری نہیں۔
۲۴۷۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہے یا نہیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ بالوں کو دھوئے اور پانی جلد تک بھی پہنچائے۔
۲۴۸۔ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکھوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہیں آتے دھونا واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ جن جگہوں کا دھونا ضروری ہے ان میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی تو واجب ہے کہ ان اعضاء کا کچھ اضافی حصہ بھی دھو لے تاکہ اسے یقین ہو جائے اور جس شخص کو اس (مذکورہ) بات کا علم نہ ہو اگر اس نے جو وضو کیا ہے اس میں ضروری حصے دھونے یا نہ دھونے کے بارے میں نہ جانتا ہو تو اس وضو سے اس نے جو نماز پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
۲۴۹۔ احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ ہاتھوں اور اسی طرح چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھوئے جائیں تو وضو باطل ہو گا۔
۲۵۰۔ اگر ہتھیلی پانی سے تر کر کے چہرے اور ہاتھوں پر پھیری جائے اور ہاتھ میں اتنی تری ہو کہ اسے پھیرنے سے پورے چہرے اور ہاتھوں پر پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔ ان پر پانی کا بہنا ضروری نہیں۔
۲۵۱۔ چہرہ دھونے کے بعد پہلے دایاں ہاتھ اور پھر بایاں ہاتھ کہنی سے انگلیوں کے سروں تک دھونا چاہئے۔
۲۵۲۔ اگر انسان کو یقین نہ ہو کہ کہنی کو پوری طرح دھو لیا ہے تو یقین کرنے کے لئے کہنی سے اوپر کا کچھ حصہ دھونا بھی ضروری ہے۔
۲۵۳۔ جس شخص نے چہرہ دھونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو کلائی کے جوڑ تک دھویا ہو اسے چاہئے کہ وضو کرتے وقت انگلیوں کے سروں تک دھوئے۔ اگر وہ صرف کلائی کے جوڑ تک دھوئے گا تو اس کا وضو باطل ہو گا۔
۲۵۴۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا ایک دفعہ دھونا واجب، دوسری دفعہ دھونا مستحب اور تیسری دفعہ یا اس سے زیادہ بار دھونا حرام ہے۔ ایک دفعہ دھونا اس وقت مکمل ہو گا جب وضو کی نیت سے اتنا پانی چہرے یا ہاتھ پر ڈالے کہ وہ پانی پورے چہرے یا ہاتھ پر پہنچ جائے اور احتیاطاً کوئی جگہ باقی نہ رہے لہذا اگر پہلی دفعہ دھونے کی نیت سے دس بار بھی چہرے پر پانی ڈالے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی جب تک مثلاً وضو کرنے یا چہرہ دھونے کی نیت نہ کرنے پہلی بار دھونا شمار نہیں ہو گا۔ لہذا اگر چاہے تو چند بار چہرہ کو دھو لے اور آخری بار چہرہ دھوتے وقت وضو کی نیت کر سکتا ہے لیکن دوسری دفعہ دھونے میں نیت کا معتبر ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اگرچہ وضو کی نیت سے نہ بھی ہو ایک دفعہ دھونے کے بعد ایک بار سے زائد چہرے یا ہاتھوں کو نہ دھوئے۔
۲۵۵۔ دونوں ہاتھ دھونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا مسح وضو کے پانی کی اس تری سے کرنا چاہئے جو ہاتھوں کو لگی رہ گئی ہو۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسح دائیں ہاتھ سے کیا جائے جو اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔
۲۵۶۔ سر کے چار حصوں میں سے پیشانی سے ملا ہوا ایک حصہ وہ مقام ہے جہاں مسح کرنا چاہئے۔ اس حصے میں جہاں بھی اور جس اندازے سے بھی مسح کریں کافی ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ طول میں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور عرض میں تین ملی ہوئی انگلیوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کیا جائے۔
۲۵۷۔ یہ ضروری نہیں کہ سر کا مسح جلد پر کیا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً اگر کنگھا کرے تو چہرے پر آ گریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پہنچیں تو ضروری ہے کہ وہ بالوں کی جڑوں پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے۔ اور اگر وہ چہرے پر آ گرنے والے یا سر کے دوسرے حصوں تک پہنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے گا یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے کو بڑھ آئے ہوں مسح کرے گا تو ایسا مسح باطل ہے۔
۲۵۸۔ سر کے مسح کے بعد وضو کے پانی کی اس تری سے جو ہاتھوں میں باقی ہو پاوں کی کسی ایک انگلی سے لے کر پاوں کے جوڑ تک مسح کرنا ضروری ہے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دائیں پیر کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں پیر کا بائیں ہاتھ سے مسح کیا جائے۔
۲۵۹۔ پاوں پر مسح کا عرض جتنا بھی ہو کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ تین جڑی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر ہو اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ پاوں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھیلی سے کیا جائے۔
۲۶۰۔ احتیاط یہ ہے کہ پاوں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگلیوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاوں کے ابھار کی جانب کھینچے یا ہاتھ پاؤں کے جوڑ پر رکھ کر انگلیوں کے سروں کی طرف کھینچے۔ یہ درست نہیں کہ پورا ہاتھ پاوں پر رکھے اور تھوڑا سا کھینچے۔
۲۶۱۔ سر اور پاوں کا مسح کرنے وقت ہاتھ پر کھینچنا ضروری ہے۔ اور اگر ہاتھ کو ساکن رکھے اور سر یا پاوں کو اس پر چلائے تو باطل ہے لیکن ہاتھ کھینچنے کے وقت سر اور پاوں معمولی حرکت کریں تو کوئی حرج نہیں۔
۲۶۲۔ جس جگہ کا مسح کرنا ہو وہ خشک ہونی چاہئے۔ اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھیلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے لیکن اگر اس پر نمی ہو یا تری اتنی کم ہو کہ وہ ہتھیلی کی تری سے ختم ہو جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔
۲۶۳۔ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھیلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو اسے دوسرے پانی سے تر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی ڈاڑھی کی تری لے کر اس سے مسح کرنا چاہئے۔ اور ڈاڑھی کے علاوہ اور کسی جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محل اشکال ہے۔
۲۶۴۔ اگر ہتھیلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سر کا مسح اس تری سے کیا جائے اور پاوں کے مسح کے لئے اپنی ڈاڑھی سے تری حاصل کرے۔
۲۶۵۔ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے۔ ہاں اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغیرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتارے جا سکیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے۔ اور تقیہ کی صورت میں موزے اور جوتے پر مسح کرنا کافی ہے۔
۲۶۶۔ اگر پاوں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے دھویا بھی نہ جا سکتا ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔
ارتماسی وضو
۲۶۷۔ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چہرے اور ہاتھوں کو وضو کی نیت سے پانی میں ڈبو دے۔ بظاہر ارتماسی طریقے سے دھلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسا کرنا خلاف احتیاط ہے۔
۲۶۸۔ ارتماسی وضو میں بھی چہرہ اور ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے چاہئیں۔ لہذا جب کوئی شخص وضو کی نیت سے چہرہ اور ہاتھ پانی میں ڈبوئے تو ضروری ہے کہ چہرہ پیشانی کی طرف سے اور ہاتھ کہنیوں کی طرف سے ڈبوئے۔
۲۲۹۔ اگر کوئی شخص بعض اعضاء کا وضو ارتماسی طریقے سے اور بعض کا غیر ارتماسی (یعنی ترتیبی) طریقے سے کرے تو کوئی حرج نہیں۔
دعائیں جن کا وضو کرتے وقت پڑھنا مستحب ہے
۲۷۰۔ جو شخص وضو کرنے لگے اس کے لئے مستحب ہے کہ جب اس کی نظر پانی پر پڑے تو یہ دعا پڑھے :۔
بِسِم اللہ وَ بِاللہ وَالحَمدُ للہ الّذی حَعَلَ المَآءَ طَھُوراوّلم یَجعَلہ نجسنا۔
جب وضو سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے تو یہ دعا پڑھے۔
اَللّھُمَّ اجعَلنی مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجعَلنِی مِنَ المُتَھِرینَ۔
کُلّی کرنے وقت یہ دعا پڑھے۔
اَللّھُمَّ لَقِّنِّی حُجَّتِی یَومَ اَلقاکَ وَاَطلِق لِسَانیِ بِذِکرِکَ نام میں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے :اَللّھُمَّ لاَ تُحَرِّم عَلَیَّ رِیحَ الجَنَّۃِ واجعَلنِی مِمَّن یَّشُمُّ رِیحَھَا وَرَوحَھَا وَ طِیبَھَا۔
چہرہ دھوتے یا دُعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ بَیِض وَجھِی یَومَ تَسوَدّ الوُجُوہ وَلَا تُسَوِدوَلاَ تُسَوِد وَجھِی یَومَ تَبیَضُّ الوُجُوہ۔
دایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اَعطِنِی کِتَابیِ بِیَمِیِنی وَالخُلدَفِی الجِنَانِ بِیَسَارِی وَ حَاسِبنِی حِسَاباً یَّسِیراً۔
بایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ لاَ تُعطِنِی کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِن وَّرَآ و ظَھِری وَلاَ تَجعَلھَا مَغلُولَۃً اِلیٰ عُنُقِی وَاَعُوذُ بَکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِیّراَنِ۔
سر کا مسح کرتے وقت یہ دُعا پڑھے۔
اَللّھُمَّ غَشِنِی عَلَی الصِراطِ یَومَ تَزِل فِیہ الاَقدَامُ وَاجعَل سَعیِی فِی مَا یُرضِیکَ عَنِّی یَاذَالجَلَالِ وَالِاکرَامِ۔
وضو صحیح ہونے کی شرائط
وضو کا صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں۔
(پہلی شرط) وضو کا پانی پاک ہو۔ ایک قول کی بنا پر وضو کا پانی ایسی چیزوں مثلاً حلال گوشت حیوان کے پیشاب، پاک مُردار اور زخم کی ریم سے آلودہ نہ ہو جن سے انسان کو گھن آتی ہو اگرچہ شرعی لحاظ سے (ایسا پانی) پاک ہے اور یہ قول احتیاط کی بنا پر ہے۔
(دوسری شرط) پانی مطلق ہو۔
۲۷۱۔ نجس یا مضاف پانی سے وضو کرنا باطل سے خواہ وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتا ہو یا بھول گیا ہو کہ یہ نجس یا مضاف پانی ہے۔ لہذا اگر وہ ایسے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھ چکا ہو تو صحیح وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔
۲۷۲۔ اگر ایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا کسی طریقے سے اس پانی کو صاف کرے اور وضو کرے۔
(تیسری شرط) وضو کا پانی مباح ہو۔
۲۷۳۔ ایسے پانی سے وضو کرنا جو غصب کیا گیا ہو یا جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اس کا مالک اس کے استعمال راضی ہے یا نہیں حرام اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں اگر چہرے اور ہاتھوں سے وضو کا پانی غصب کی ہوئی جگہ پر گرتا ہو یا وہ جگہ جس میں وضو کر رہا ہے غصبی ہے اور وضو کرنے کے لئے کوئی اور جگہ بھی نہ ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے اور اگر کسی دوسری جگہ وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ وضو کرے۔ لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۲۷۴۔ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ آیا وہ تمام لوگوں کے لئے وقت کیا گیا ہے یا صرف مدرسے سے طلباء کے لئے وقف ہے اور صورت یہ ہو کہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
۲۷۵۔ اگر کوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنا نہ چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تمام لوگوں کے لئے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لئے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کے لئے اس حوض سے وضو کرنا درست نہیں لیکن اگر عموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد میں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو تو وہ شخص بھی اس حوض سے وضو کر سکتا ہے۔
۲۷۶۔ سرائے ، مسافرخانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کا جو ان میں مقیم نہ ہوں ، وضو کرنا اسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
۲۷۷۔ بڑی نہروں سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ انسان نہ جانتا ہو کہ ان کا مالک راضی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر ان نہروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا معلوم ہو کہ وہ ان سے وضو کرنے پر راضی نہیں یا ان کا مالک نابالغ یا پاگل ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان نہروں کے پانی سے وضو نہ کرے۔
۲۷۸۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے خود پانی غصب کیا ہو اور بعد میں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(چوتھی شرط) وضو کا برتن مباح ہو۔
(پانچویں شرط) وضو کا برتن احتیاط واجب کی بنا پر سونے یا چاندی کا بنا ہوا نہ ہو۔ ان دو شرطوں کی تفصیل بعد والے مسئلے میں آ رہی ہے۔
۲۷۹۔ اگر وضو کا پانی غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہو اور اس شخص کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن میں انڈیل سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن میں انڈیل لے اور پھر اس سے وضو کرے اور اگر ایسا کرنا آسان نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور اگر اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے۔ اور اگر ان دونوں صورتوں میں وہ صحیح طریقے پر عمل نہ کرتے ہوئے اس پانی سے جو غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۲۸۰۔ اگر کسی حوض میں مثال کے طور پر غصب کی ہوئی ایک اینٹ یا ایک پتھر لگا ہو اور عرف عام میں اس حوض میں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو (پانی لینے میں ) کوئی حرج نہیں لیکن اگر تصرف سمجھا جائے تو پانی کا نکالنا حرام لیکن اس سے وضو کرنا صحیح ہے۔
۲۸۱۔ اگر ائمۃ طاہرین علیہم السلام یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر کھودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمین قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(چھٹی شرط) وضو کے اعضاء دھوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں۔
۲۸۲۔ اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہو جائے جسے دھویا جا چکا ہے یا جس کا مسح کیا جا چکا ہے تو وضو صحیح ہے۔
۲۸۳۔ اگر اعضائے وضو کے سوا بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پاخانے یا پیشاب کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو پھر احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اور پھر وضو کرے۔
۲۸۴۔ اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی عضو نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد متعلقہ شخص کو شک گزرے کہ آیا وضو کرنے سے پہلے اس عضو کو دھویا تھا یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن اس نجس مقام کو دھو لینا ضروری ہے۔
۲۸۵۔ اگر کسی کے چہرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رکتا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحیح سالم اجزاء کو ترتیب وار دھونے کے بعد زخم یا خراش والے حصے کو کُر برابر پانی یا جاری پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یا زخم) پر پانی جاری ہو جائے۔ اس طرح اس کا وضو صحیح ہو جائے گا۔
(ساتویں شرط) وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے وقت کافی ہو۔
۲۸۶۔ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ متعلقہ شخص وضو کرے تو ساری کی ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر تیمم اور وضو کے لئے تقریباً یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرے۔
۲۸۷۔ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہو اگر وہ قصد قربت کی نیت سے یا کسی مستحب کام مثلاً قرآن مجید پڑھنے کے لئے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ اور اگر اسی نماز کو پڑھنے کے لئے وضو کرے تو بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اسے قصد قُربت حاصل نہیں ہو گا۔
(آٹھویں شرط) وضو بقصد قربت یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے۔ اگر اپنے آپ کو ٹھنڈک پہنچانے یا کسی اور نیت سے کیا جائے تو وضو باطل ہے۔
۲۸۸۔ وضو کی نیت زبان سے یا دل میں کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر ایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے بجا لائے تو کافی ہے۔
(نویں شرط) وضو اس ترتیب سے کیا جائے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی پہلے چہرہ اور اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھویا جائے اس کے بعد سر کا اور پھر پاوں کا مسح کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں پاوں کا ایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاوں کا مسح دائیں پاوں کے بعد کیا جائے۔
(دسویں شرط) وضو کے افعال سر انجام دینے میں فاصلہ نہ ہو۔
۲۸۹۔ اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں متواتر دھونا نہ کہلائے تو وضو باطل ہے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً یہ کہ بھول جائے یا پانی ختم ہو جائے تو اس صورت میں بلا فاصلہ دھونے کی شرط معتبر نہیں ہے۔ بلکہ وضو کرنے والا شخص جس وقت چاہے کسی عضو کو دھو لے یا اس کا مسح کر لے تو اس اثنا میں اگر ان مقامات کی تری خشک ہو جائے۔ جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو تو وضو باطل ہو گا لیکن اگر جس عضو کو دھونا ہے یا مسح کرنا ہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہو مثلاً جب بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو لیکن چہرہ تر ہو تو وضو صحیح ہے۔
۲۹۰۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال بلا فاصلہ انجام دے لیکن گرم ہوا یا بدن کی تپ یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری (یعنی ان جگہوں کی تری جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو) خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۲۹۱۔ وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرج نہیں لہذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے تو اس کا وضو و صحیح ہے۔
(گیارہویں شرط) انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے۔ اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چہرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاوں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔
۲۹۲۔ اگر کوئی کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو کسی دوسرے شخص سے مدد لے لے اگرچہ دھونے اور مسح کرنے میں حتی الامکان دونوں کی شرکت ضروری ہے اور اگر وہ شخص اجرت مانگے تو اگر اس کی ادائیگی کر سکتا ہو اور ایسا کرنا اس کے لئے مالی طور پر نقصان دہ نہ ہو تو اجرت ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ وضو کی نیت خود کرے اور اپنے ہاتھ سے مسح کرے اور اگر خود دوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے جو اسے وضو کروائے یا اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسح کی جگہوں پر پھیرے ار اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اور اس تری سے اس کے سر اور پاوں پر مسح کرے۔
۲۹۳۔ وضو کے جا افعال بھی انسان بذات خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ انہیں انجام دینے کے لئے دوسروں کی مدد نہ لے۔
(بارہویں شرط) وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
۲۹۴۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسارہ جائے گا اس کا فریضہ وضو نہیں ہے۔ اور اگر اسے علم نہ ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور وہ وضو کر لے اور اسے وضو کرنے سے نقصان پہنچے تو اس کا وضو باطل ہے۔
۲۹۵۔ اگر چہرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو جاتا ہو ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرے۔
(تیرہویں شرط) وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
۲۹۶۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء پر کوئی چیز لگی ہوئی ہے لیکن اس بارے میں اسے شک ہو کہ آیا وہ چیز پانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چیز کو ہٹا دے یا پانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔
۲۹۷۔ اگر ناخن کے نیچے میل ہو تو وضو درست ہے لیکن اگر ناخن کا ہونا جائے اور اس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تو وضو کے لئے اس میل کا دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائیں تو جتنا حصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہوا ہو اس کے نیچے سے میل نکالنا ضروری ہے۔
۲۹۸۔ اگر کسی شخص کے چہرے ، ہاتھوں ، سر کے اگلے حصے یا پاوں کے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دھو لینا اور اس پر مسح کر لینا کافی ہے اور اگر اس میں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکھڑ جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جو حصہ نہیں اکھڑا اس کے نیچے تک پانی پہنچایا جائے۔ لیکن جب اکھڑی ہوئی جلد کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ یا تو اسے کاٹ دے یا اس کے نیچے پانی پہنچائے۔
۲۹۹۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چیز چپکی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہو مثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کر لے یا ہاتھ کو اتنا ملے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا لگا رہ گیا تھا تو دور ہو گیا ہے یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے۔
۳۰۰۔ جس جگہ کو دھونا ہو یا جس کا مسح کرنا ہو اگر اس پر میل ہو لیکن وہ میل پانی کے جلد تک پہنچے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر پلستر وغیرہ کا کام کرنے کے بعد سفیدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شک ہو کہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو انہیں دور کرنا ضروری ہے۔
۳۰۱۔اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چیز موجود ہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کرتے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۳۰۲۔ اگر وضو کے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نیچے پانی کبھی تو خود بخود چلا جاتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچا ہے یا نہیں جب کہ وہ جانتا ہو کہ وضو کے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
۳۰۳۔ اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد وضو کے اعضاء پر کوئی ایسی چیز دیکھے جو پانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وضو کے وقت یہ چیز موجود تھی یا بعد میں پیدا ہوئی تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
۳۰۴۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہو کہ جو چیز پانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
وضو کے احکام
۳۰۵۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال اور شرائط مثلاً پانی کے پاک ہونے یا غصبی نہ ہونے کے بارے میں بہت زیادہ شک کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۳۰۶۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہیں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا وضو باقی ہے لیکن اگر اس نے پیشاب کرنے کے بعد استبراء کئے بغیر وضو کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ یہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یا کوئی اور چیز تو اس کا وضو باطل ہے۔
۳۰۷۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔
۳۰۸۔ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کیا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گیا ہے مثلاً اس نے پیشاب کیا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کونسی بات پہلے واقع ہوئی ہے اگر یہ صورت نماز سے پہلے پیش آئے تو اسے چاہئے کہ وضو کرے اور اگر نماز کے دوران پیش آئے تو نماز توڑ کر وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد پیش آئے تو جو نماز وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے البتہ دوسری نمازوں کے لئے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔
۳۰۹۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقین ہو جائے کہ اس نے بعض جگہیں نہیں دھوئیں یا ان کا مسح نہیں کیا اور جن اعضاء کو پہلے دھویا ہو یا ان کا مسح کیا ہو ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو اسے چاہئے کہ دوبارہ وضو کرے لیکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا ہوا کی گرمی یا کیس اور ایسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ جن جگہوں کے بارے میں بھول گیا ہو انہیں اور ان کے بعد آنے والی جگہوں کو دھوئے یا ان کا مسح کرے اور اگر وضو کے دوران کسی عضو کے دھونے یا مسح کرنے کے بارے میں شک کرے تو اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۳۱۰۔ اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن آئندہ نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔
۳۱۱۔ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران شک ہو کہ آیا اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور ضروری ہے کہ وہ وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔
۳۱۲۔ اگر کوئی شخص نماز کے بعد یہ سمجھے کہ اس کا وضو باطل ہو گیا تھا لیکن شک ہو کہ اس کا وضو نماز سے پہلے باطل ہوا تھا یا بعد میں تو جو نماز پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے۔
۳۱۳۔ اگر کوئی شخص ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ اسے پیشاب کے قطرے گرتے رہتے ہوں یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو اگر اسے یقین ہو کہ نماز کے اول وقت سے لے کر آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھ لے اور اگر اسے صرف اتنی مہلت ملے جو نماز کے واجبات ادا کرنے کے لئے کافی ہو تو اس دوران صرف نماز کے واجبات بجا لانا اور مستحب افعال مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کو ترک کر دینا ضروری ہے۔
۳۱۴۔ اگر کسی شخص کو (بیماری کی وجہ سے ) وضو کر کے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی مہلت ملتی ہو اور نماز کے دوران ایک دفعہ یا چند دفعہ اس کا پیشاب یا پاخانہ خارج ہوتا ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس مہلت کے دوران وضو کر کے وضو کر کے نماز پڑھے لیکن نماز کے دوران لازم نہیں ہے کہ پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کی وجہ سے دوبارہ وضو کرے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ پانی کا برتن اپنے ساتھ رکھے اور جب بھی پیشاب یا پاخانہ خارج ہو وضو کرے اور باقی ماندہ نماز پڑھے اور یہ احتیاط اس صورت میں ہے کہ جب پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کا وقفہ طویل نہ ہو یا دوبارہ وضو کرنے کی وجہ سے ارکان نماز کے درمیان فاصلہ زیادہ نہ ہو۔ بصورت دیگر احتیاط کا کوئی فائدہ نہیں۔
۳۱۵۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار یوں آتا کہ اسے وضو کر کے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی بھی مہلت نہ ملتی ہو تو اس کی ہر نماز کے لئے بلا اشکال ایک وضو کافی ہے بلکہ اظہر یہ ہے کہ ایک وضو چند نمازوں کے لئے بھی کافی ہے۔ ماسوا اس کے کہ کسی دوسرے حدث میں مبتلا ہو جائے۔ اور بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے ایک بار وضو کرے لیکن قضا سجدے ، قضا تشہد اور نماز احتیاط کے لئے دوسرا وضو ضروری نہیں ہے۔
۳۱۶۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ وضو کے بعد فوراً نماز پڑھے اگرچہ بہتر ہے کہ نماز پڑھنے میں جلدی کرے۔
۳۱۷۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو وضو کرنے کے بعد اگر وہ نماز کی حالت میں نہ ہو تب بھی اس کے لئے قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا جائز ہے۔
۳۱۸۔ اگر کسی شخص کو قطرہ قطرہ پیشاب آتا رہتا ہو تو اسے چاہئے کہ نماز کے لئے ایک ایسی تھیلی استمعال کرے جس میں روئی یا کوئی اور چیز رکھی ہو جو پیشاب کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز سے پہلے نجس شدہ ذکر کو دھو لے۔ علاوہ ازیں جو شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اسے چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے تک پاخانے کو دوسری جگہوں تک پھیلنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر باعث زحمت نہ ہو تو ہر نماز کے لئے مقعد کو دھوئے۔
۳۱۹۔ جو شخص پیشاب پاخانے کو روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو جہاں تک ممکن ہو نماز میں پیشاب یا پاخانے کو روکے چاہے اس پر کچھ خرچ کرنا پڑے بلکہ اس کا مرض اگر آسانی سے دور ہو سکتا ہو تو اپنا علاج کرائے۔
۳۲۰۔ جو شخص اپنا پیشاب یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اس کے لئے صحت یاب ہونے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جو نمازیں اس نے مرض کی حالت میں اپنے وظیفہ کے مطابق پڑھی ہوں ان کی قضا کرے لیکن اگر اس کا مرض نماز پڑھتے ہوئے دور ہو جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جو نماز اس وقت پڑھی ہو اسے دوبارہ پڑھے۔
۳۲۱۔ اگر کسی شخص کو یہ عارضہ لا حق ہو کہ ریاح روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظیفہ کے مطابق عمل کرے جو پیشاب اور پاخانہ روکنے پر قدرت رکھتے ہوں۔
وہ چیزیں جن کے لئے وضو کرنا چاہئے
۳۲۲۔ چھ چیزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے۔
(اول) واجب نمازوں کے لئے سوائے نماز میت کے۔ اور مستحب نمازوں میں وضو شرط صحت ہے۔
(دوم) اس سجدے اور تشہد کے لئے جو ایک شخص بھول گیا ہو جب کہ ان کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث اس سے سر زد ہوا ہو مثلاً اس نے پیشاب کیا ہو لیکن سجدہ سہو کے لئے وضو کرنا واجب نہیں۔
(سوم) خانہ کعبہ کے واجب طواف کے لئے جو کہ حج اور عمرہ کا جز ہو۔
(چہارم) وضو کرنے کی منت مانی ہو یا عہد کیا ہو یا قسم کھائی ہو۔
(پنجم) جب کسی نے منت مانی ہو کہ مثلاً قرآن مجید کا بوسہ لے گا۔
(ششم) نجس شدہ قرآن مجید کو دھونے کے لئے یا بیت الخلاء وغیرہ سے نکالنے کے لئے جب کہ متعلقہ شخص مجبور ہو کر اس مقصد کے لئے اپنا ہاتھ یا بدن کا کوئی اور حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرے لیکن وضو میں صرف ہونے والا وقت اگر قرآن مجید کو دھونے یا اسے بیت الخلاء سے نکالنے میں اتنی تاخیر کا باعث ہو جس سے کلام اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضو کئے بغیر قرآن مجید کو بیت الخلاء وغیرہ سے باہر نکال لے یا اگر نجس ہو گیا ہو تو اسے دھو ڈالے۔
۳۲۳۔ جو شخص با وضو نہ ہو اس کے لئے قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے لگانا حرام ہے لیکن اگر قرآن مجید کا فارسی زبان یا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا ہو تو اسے چھونے میں کوئی اشکال نہیں۔
۳۲۴۔ بچے اور دیوانے کو قرآن مجید کے الفاظ کو چھونے سے روکنا واجب نہیں لیکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجید کی توہین ہوتی ہو تو انہیں روکنا ضروری ہے۔
۳۲۵۔ جو شخص با وضو نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ناموں اور ان صفتوں کو چھونا جو صرف اسی کے لئے مخصوص ہیں خواہ کسی زبان میں لکھی ہوں احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور بہتر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم الصلوٰۃ والسلام اور حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے آسمائے مبارکہ کو بھی نہ چھوئے۔
۳۲۶۔اگر کوئی شخص کو یقین ہو کہ (نماز کا) وقت داخل ہو چکا ہے اور واجب وضو کی نیت کرے لیکن وضو کرنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔
۳۲۸۔ میت کی نماز کے لئے قبرستان جانے کے لئے ، مسجد یا ائمہ علیہم السلام کے حرم میں جائے کے لئے ، قرآن مجید ساتھ رکھنے ، اسے پڑھنے ، لکھنے اور اس کا حاشیہ چھونے کے لئے اور سونے کے لئے وضو کرنا مستحب ہے۔ اور اگر کسی شخص کا وضو ہو تو ہر نماز کے لئے دوبارہ وضو کرنا مستحب ہے۔ اور مذکورہ بالا کاموں میں سے کسی ایک کے لئے وضو کرے تو ہر وہ کام کر سکتا ہے جو با وضو کرنا ضروری ہے مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
مبطلات وضو
۳۲۹۔ سات چیزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں :۔
(اول) پیشاب (دوم) پاخانہ (سوم) معدے اور آنتوں کی ہوا جو مقعد سے خارج ہوتی ہے (چہارم) نیند جس کی وجہ سے نہ آنکھیں دیکھ سکیں اور نہ کان سن سکیں لیکن اگر آنکھیں نہ دیکھ رہی ہوں لیکن کان سن رہے ہوں تو وضو باطل نہیں ہوتا (پنجم) ایسی حالت جن میں عقل زائل ہو جاتی ہو مثلاً دیوانگی، مستی یا بے ہوشی (ششم) عورتوں کا استحاضہ جس کا ذکر بعد میں آئے گا (ہفتم) جنابت بلکہ احتیاط مستحب کی بنا پر ہر وہ کام جس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔
جبیرہ وضو کے احکام
وہ چیز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی باندھی جاتی ہے اور وہ دو جو زخم یا ایسی ہی کسی چیز پر لگائی جاتی ہے جبیرہ کہلاتی ہے۔
۳۳۰۔ اگر وضو کے اعضا میں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو اسی طرح وضو کرنا ضروری ہے جسے عام طور پر کیا جاتا ہے۔
۳۳۱۔ اگر کسی شخص کے چہرے اور ہاتھوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا اس (چہرے یا ہاتھوں ) کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور اس پر پانی ڈالنا نقصان وہ ہو تو اسے زخم یا پھوڑے کے آس پاس کا حصہ اس طرح اوپر سے نیچے کو دھونا چاہئے جیسا وضو کے بارے میں بتایا گیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ اگر اس پر تر ہاتھ کھینچنا نقصان دہ نہ ہو تو تر ہاتھ اس پر کھینچے اور اس کے بعد پاک کپڑا اس پر ڈال دے اور گیلا ہاتھ اس کپڑے پر بھی کھینچے۔ البتہ اگر ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔
۳۳۲۔ اگر زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہڈی کسی شخص کے سر کے اگلے حصے یا پاوں پر ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو کیونکہ زخم مسح کی پوری جگہ پر پھیلا ہوا ہو یا مسح کی جگہ کا جو حصہ صحیح و سالم ہو اس پر مسح کرنا بھی اس کی قدرت سے باہر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ تیمم کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر وضو بھی کرے اور پاک کپڑا زخم وغیرہ پر رکھے اور وضو کے پانی کی تری سے جو ہاتھوں پر لگی ہو کپڑے پر مسح کرے۔
۳۳۳۔ اگر پھوڑے یا زخم یا ٹوٹی ہڈی کا منہ کسی چیز سے بند ہو اور اس کا کھولنا بغیر تکلیف کے ممکن ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو اسے کھول کر وضو کرنا ضروری ہے خواہ زخم وغیرہ چہرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے اور پاوں کے اوپر والے حصے پر ہو۔
۳۳۴۔ اگر کسی شخص کا زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چیز سے بندھی ہوئی ہو اس کے چہرے یا ہاتھوں پر ہو اور اس کا کھولنا اور اس پر پانی ڈالنا مضر ہو تو ضروری ہے کہ آس پاس کے جتنے حصے کو دھونا ممکن ہو اسے دھوئے اور جبیرہ پر مسح کرے۔
۳۳۵۔ اگر زخم کا منہ نہ کھل سکتا ہو اور خود زخم اور جو چیز اس پر لگائی گئی ہو پاک ہو اور زخم تک پانی پہنچانا ممکن ہو اور مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم کے منہ پر اوپر سے نیچے کی طرف پہنچائے۔ اور اگر زخم یا اس کے اوپر لگائی گئی چیز نجس ہو اور اس کا دھونا اور زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے دھوئے اور وضو کرتے وقت پانی زخم تک پہنچائے۔ اور اگر پانی زخم کے لئے مضر نہ ہو۔ لیکن زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن نہ ہو یا زخم نجس ہو اور اسے دھویا نہ جا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
۳۳۶۔ اگر جبیرہ اعضائے وضو کے کسی حصے پر پھیلا ہوا ہو تو بظاہر وضو جبیرہ سے کافی ہے لیکن اگر جبیرہ تمام اعضائے وضو پر پھیلا ہوا ہو تو احتیاط کی بنا پر تیمم کرنا ضروری ہے اور وضوئے جبیرہ بھی کرے۔
۳۳۷۔ یہ ضروری نہیں کہ جبیرہ ان چیزوں میں سے ہو جن کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے بلکہ اگر وہ ریشم یا ان حیوانات کے اجزا سے بنی ہو جن کا گوشت کھانا جائز نہیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے۔
۳۳۸۔ جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ ہو اور وضو کرنے وقت اس نے تر ہاتھ اس پر کھینچا ہو تو سر اور پاوں کا مسح اسی تری سے کرے۔
۳۳۹۔ اگر کسی شخص کے پاوں کے اوپر والے پورے حصے پر جبیرہ ہو لیکن کچھ حصہ انگلیوں کی طرف سے اور کچھ حصہ پاوں کے اوپر والے حصہ کی طرف سے کھلا ہو تو جو جگہیں کھلی ہیں وہاں پاوں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبیرہ ہے وہاں جبیرہ پر مسح کرنا ضروری ہے۔
۳۴۰۔ اگر چہرے یا ہاتھوں پر کئی جیرے ہوں تو ان کا درمیانی حصہ دھونا ضروری ہے اور اگر سریا پاوں کے اوپر والے حصے پر جبیرے ہوں تو ان کے درمیانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جہاں جبیرے ہوں وہاں جبیرے کے بارے میں احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۳۴۱۔ اگر جبیرہ زخم کے آس پاس کے حصول کو معمول سے زیادہ گھیرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ متعلقہ شخص تیمم کرے بجز اس کے کہ جبیرہ و تیمم کی جگہوں پر ہو کیونکہ اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور دونوں صورتوں میں اگر جبیرہ کا ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔ پس اگر زخم چہرے یا ہاتھوں پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کی دھوئے اور اگر سر یا پاوں کے اوپر والے حصے پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کا مسح کرے اور زخم کی جگہ کے لئے جبیرہ کے احکام پر عمل کرے۔
۳۴۲۔ اگر وضو کے اعضا پر زخم نہ ہو یا ان کی ہڈی ہوئی نہ ہو لیکن کسی دوسری وجہ سے پانی ان کے لئے مضر ہو یا تیمم کرنا ضروری ہے۔
۳۴۳۔ اگر وضو کے اعضا کی کسی رگ سے خون نکل آیا ہو اور اسے دھونا ممکن نہ ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔ لیکن اگر پانی اس کے لئے مضر ہو تو جبیرہ کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۳۴۴۔ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چیز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا اسے اتارنے کی تکلیف نا قابل برداشت ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے۔ لیکن اگر چپکی ہوئی چیز تیمم کے مقامات پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور اگر چپکی ہوئی چیز دوا ہو تو وہ جبیرہ کے حکم میں آتی ہے۔
۳۴۵۔ غسل مس میت کے علاوہ تمام قسم کے غسلوں میں غسل جبیرہ وضوئے جبیرہ کی طرح ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر مکلف شخص کے لئے ضروری ہے کہ غسل ترتیبی کرے (ارتماسی نہ کرے ) اور اظہر یہ ہے کہ اگر بدن پر زخم یا پھوڑا ہو تو مکلف کو غسل یا تیمم کا اختیار ہے۔ اگر وہ غسل کو اختیار کرتا ہے اور زخم یا پھوڑے پر جبیرہ نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ زخم یا پھوڑے پر پاک کپڑا رکھے اور اس کپڑے کے اوپر مسح کرے۔ اور اگر بدن کا کوئی حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور احتیاط جبیرہ کے اوپر بھی مسح کرے اور اگر جبیرہ پر مسح کرنا ممکن نہ ہو یا جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہ کھلی ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔
۳۴۶۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو اگر اس کی تیمم کی بعض جگہوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضوئے جبیرہ کے احکام کے مطابق تیمم جبیرہ کرے۔
۳۴۷۔ جس شخص کو وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ کر کے نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اسے علم ہو کہ نماز کے آخر وقت تک اس کا عذر دور نہیں ہو گا تو وہ اول وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر اسے امید ہو کہ آخر وقت تک اس کا عُذر دور ہو جائے گا تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ انتظار کرے اور اگر اس کا عذر دور نہ ہو تو آخر وقت میں وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ کے ساتھ نماز ادا کرے لیکن اگر اول وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔
۳۴۸۔ اگر کوئی شخص آنکھ کی بیماری کی وجہ سے پلکیں موند کر رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ وہ تیمم کرے۔
۳۴۹۔ اگر کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آیا اس کا وظیفہ تیمم ہے یا وضوئے جبیرہ تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے تیمم اور وضوئے جبیرہ دونوں بجا لانے چاہئیں۔
۳۵۰۔ جو نمازیں کسی انسان نے وضوئے جبیرہ سے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں اور وہ اسی وضو کے ساتھ آئندہ کی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
واجب غسل
واجب غسل سات ہیں : (پہلا) غسل جنابت (دوسرا) غسل حیض (تیسرا) غسل نفاس (چوتھا) غسل استحاضہ (پانچواں ) غسل مس میت (چھٹا) غسل میت اور (ساتواں ) و غسل جو منت یا قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب ہو جائے۔
جنابت کے احکام
۳۵۱۔ دو چیزوں سے انسان جُنُب ہو جاتا ہے اول جماع سے اور دوم منی کے خارج ہونے سے خواہ و نیند کی حالت میں نکلے یا جاگتے ہیں ، کم ہو یا زیادہ، شہوت کے ساتھ نکلے یا بغیر شہوت کے اور اس کا نکلنا متعلقہ شخص کے اختیار میں ہو یا نہ ہو۔
۳۵۲۔ اگر کسی شخص کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا پیشاب یا کوئی اور چیز اور اگر وہ رطوبت شہوت کے ساتھ اور اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست ہو گیا ہو تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان تین علامات میں سے ساری کی ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگر متعلقہ شخص بیمار ہو تو پھر ضروری نہیں کہ وہ رطوبت اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے وقت بدن سست ہو جائے بلکہ اگر صرف شہوت کے ساتھ نکلے تو وہ رطوبت منی کے حکم میں ہو گی۔
۳۵۳۔ اگر کسی ایسے شخص کے مخرج پیشاب سے جو بیمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو جس میں ان تین علامات میں سے جن کا ذکر اوپر والے مسئلہ میں کیا گیا ہے ایک علامت موجود ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ باقی علامات بھی اس میں موجود ہیں یا نہیں تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پہلے اس نے وضو کیا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسی وضو کو کافی سمجھے اور اگر وضو نہیں کیا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے اور اس پر غسل کرنا لازم نہیں۔
۲۵۴۔ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پیشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔
۳۵۵۔ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل سپاری کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی فرج میں داخل ہو جائے تو خواہ یہ دخول فرج میں ہو یا دُبُر میں اور خواہ وہ بالغ ہوں یا نابالغ اور خواہ منی خارج ہو یا نہ ہو دونوں جنب ہو جاتے ہیں۔
۳۵۶۔ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل سپاری کی مقدار تک داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
۳۵۷۔ نعوذ باللہ اگر کوئی شخص کسی حیوان کے ساتھ وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو اور اس نے وطی کرنے سے پہلے وضو کیا ہوا ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر وضو نہ کر رکھا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور وضو بھی کرے اور مرد یا لڑکے سے وطی کرنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
۳۵۸۔ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
۳۵۹۔ جو شخص غسل نہ کر سکے لیکن تیمم کر سکتا ہو وہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے۔
۳۶۰۔ اگر کوئی شخص اپنے لباس میں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس نے اس منی کے لئے غسل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی تھیں ان کی قضا کرے لیکن ان نمازوں کی قضا ضروری نہیں جن کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے سے پہلے پڑھی تھیں۔
وہ چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں
۳۶۱۔ پانچ چیزیں جنب شخص پر حرام ہیں :
(اول) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ یا اللہ تعالیٰ کے نام سے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو مس کرنا۔ اور بہتر یہ ہے کہ پیغمبروں ، اماموں اور حضرت زہرا علیہم السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔
(دوم) مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں جانا ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔
(سوم) مسجد الحرام اور اور مسجدی نبوی کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ٹھہرنا۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر اماموں کے حرم میں ٹھہرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کو عبور کرے مثلاً ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(چہارم) احتیاط لازم کی بنا پر کسی مسجد میں کوئی چیز رکھنے یا کوئی چیز اٹھانے کے لئے داخل ہونا۔
(پنجم) ان آیات میں سے کسی آیت کا پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیتیں چار سورتوں میں ہیں (۱) قرآن مجید کی ۳۲ ویں سورۃ (آلمّ تنزیل) (۲) ۴۱ ویں سورۃ (حٰمٓ سجدہ) (۳) ۵۳ ویں سورۃ (وَالنَّجم) (۴) ۹۶ ویں سورۃ (عَلَق)
وہ چیزیں جو مجنب کے لئے مکروہ ہیں
۳۶۲۔ نو چیزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہیں :
(اول اور دوم) کھانا پینا۔ لیکن اگر ہاتھ منہ دھو لے اور کلی کر لے تو مکروہ نہیں ہے اور اگر صرف ہاتھ دھو لے تو بھی کراہت کم ہو جائے گی۔
(سوم) قرآن مجید کی ساتھ سے زیادہ ایسی آیات پڑھنا جن میں سجدہ واجب نہ ہوا۔
(چہارم) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کی جلد، حاشیہ یا الفاظ کی درمیانی جگہ سے چھونا۔
(پنجم) قرآنی مجید اپنے ساتھ رکھنا۔
(ششم) سونا۔ البتہ اگر وضو کر لے یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے غسل کے بدلے تیمم کر لے تو پھر سونا مکروہ نہیں ہے۔
(ہفتم) مہندی یا اس سے ملتی جلتی چیز سے خضاب کرنا۔
(ہشتم) بدن پر تیل ملنا۔
(نہم) احتلام یعنی سوتے میں منی خارج ہونے کے بعد جماع کرنا۔
غسل جنابت
۳۶۳۔ غسل جنابت واجب نماز پڑھنے کے لئے اور ایسی دوسری عبادات کے لئے واجب ہو جاتا ہے لیکن نماز میت، سجدہ سہو، سجدہ شکر اور قرآن مجید کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہیں ہے۔
۳۶۴۔ یہ ضروری نہیں کہ غسل کے وقت نیت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے ، بلکہ فقط قُربَۃ اِلَی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے ارادے سے غسل کرے تو کافی ہے۔
۳۶۵۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور غسل واجب کی نیت کر لے لیکن بعد میں پتہ چلے کہ اس نے وقت سے پہلے غسل کر لیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے۔
۳۶۶۔ غسل جنابت دو طریقوں سے انجام دیا جا سکتا ہے ترتیبی اور ارتماسی۔
ترتیبی غسل
۳۶۷۔ ترتیبی غسل میں احتیاط لازم کی بنا پر غسل کی نیت سے پہلے پورا سر اور گردن اور بعد میں بدن دھونا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ بدن کو پہلے دائیں طرف سے اور بعد میں بائیں طرف سے دھوئے۔ اور تینوں اعضاء میں سے ہر ایک کو غسل کی نیت سے پانی کے نیچے حرکت دینے سے ترتیبی غسل کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط اس پر اکتفا نہ کرنے میں ہے۔ اور اگر وہ شخص جان بوجھ کر یا بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کا غسل باطل ہے۔
۳۶۸۔ اگر کوئی شخص بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کے لئے غسل کا اعادہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر بدن کو دوبارہ دھو لے تو اس کا غسل صحیح ہو جائے گا۔
۳۶۹۔ اگر کسی شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس نے سر، گردن اور جسم کا دایاں و بایاں حصہ مکمل طور پر دھو لیا ہے تو اس بات کا یقین کرنے کے لئے جس حصے کو دھوئے اس کے ساتھ دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دھونا ضروری ہے۔
۳۷۰۔ اگر کسی شخص کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ بدن کا کچھ حصہ دھلنے سے رہ گیا ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ کونسا حصہ ہے تو سر کا دوبارہ دھونا ضروری نہیں اور بدن کا صرف وہ حصہ دھوتا ضروری ہے جس کے نہ دھوئے جانے کے بارے میں احتمال پیدا ہوا ہے۔
۳۷۱۔ اگر کسی کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ اس نے بدن کا کچھ حصہ نہیں دھویا تو اگر وہ بائیں طرف ہو تو صرف اسی مقدار کا دھو لینا کافی ہے اور اگر دائیں طرف ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن دھلنے سے رہ گئی ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد دوبارہ بدن کو دھوئے۔
۳۷۲۔ اگر کسی شخص کو غسل مکمل ہونے سے پہلے دائیں یا بائیں طرف کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک گزرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھوئے اور اگر اسے سر یا گردن کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر سر اور گردن دھونے کے بعد دائیں اور بائیں حصے کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔
ارتماسی غسل
ارتماسی غسل دو طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ دَفعی اور تَدرِیجِی۔
۳۷۳۔ غسل ارتماسی دفعی میں ضروری ہے کہ ایک لمحے میں پورے بدن کے ساتھ پانی میں ڈبکی لگائے لیکن غسل کرنے سے پہلے ایک شخص کے سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اگر بدن کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو اور غسل کی نیت سے پانی میں غوطہ لگائے تو کافی ہے۔
۳۷۴۔ غسل ارتماسی تدریحی میں ضروری ہے کہ غسل کی نیت سے ایک دفعہ بدن کو دھونے کا خیال رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پانی میں غوطہ لگائے۔ اس غسل میں ضروری ہے کہ بدن کا پورا حصہ غسل کرنے سے پہلے پانی سے باہر ہو۔
۳۷۵۔ اگر کسی شخص کو غسل ارتماسی کے بعد پتہ چلے کہ اس کے بدن کے کچھ حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو خواہ وہ اس مخصوص حصے کے متعلق جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
۳۷۶۔ اگر کسی شخص کے پاس غسل ترتیبی کے لئے وقت نہ ہو لیکن ارتماسی غسل کے لئے وقت ہو تو ضروری ہے کہ ارتماسی غسل کرے۔
۳۷۷۔ جس شخص نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھا ہو وہ ارتماسی غسل نہیں کر سکتا لیکن اگر اس نے بھول کر ارتماسی غسل کر لیا ہو تو اس کا غسل صحیح ہے۔
غسل کے احکام
۳۷۸۔ غسل ارتماسی یا غسل ترتیبی میں غسل سے پہلے سارے جسم کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں غوطہ لگانے یا غسل کے ارادے سے پانی بدن پر ڈالنے سے بدن پاک ہو جائے تو غسل صحیح ہو گا۔
۳۷۹۔ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہوا ہو اور گرم پانی سے غسل کر لے تو اگرچہ اسے پسینہ بھی آئے تب بھی اس کا غسل صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔
۳۸۰۔ غسل میں بال برابر بدن بھی اگر ان دھلا رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن کان اور ناک کے اندرونی حصوں کا اور ہر اس چیز کا دھونا جو باطن شمار ہوتی ہو واجب نہیں ہے۔
۳۸۱۔ اگر کسی شخص کو بدن کے کسی حصے کے بارے میں شک ہو کہ اس کا شمار بدن کے ظاہر میں ہے یا باطن میں تو ضروری ہے کہ اسے دھو لے۔
۳۸۲۔ اگر کان کی بالی کا سوراخ یا اس جیسا کوئی اور سوراخ اس قدر کھلا ہو کہ اس کا اندرونی حصہ بدن کا ظاہر شمار کیا جائے تو اسے دھونا ضروری ہے ورنہ اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
۳۸۳۔ جو چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو ضروری ہے کہ انسان اسے ہٹا دے اور اگر اس سے پیشتر کہ اسے یقین ہو جائے کہ وہ چیز ہٹ گئی ہے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے۔
۳۷۴۔ اگر غسل کے وقت کسی شخص کو شک گزرے کہ کوئی ایسی چیز اس کے بدن پر ہے یا نہیں جو بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے حتی کہ مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے۔
۳۸۵۔ غسل میں کہ ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو بدن کا جزو شمار ہوتے ہیں دھونا ضروری ہے اور لمبے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ لمبے بال تر نہ ہوں تو غسل صحیح ہے لیکن اگر انہیں دھوئے بغیر جلد تک پانی پہنچا جا ممکن نہ ہو تو انہیں بھی دھونا ضروری ہے تاکہ پانی بدن تک پہنچ جائے۔
۳۸۶۔ وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے لئے بتائی جا چکی ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا وہی شرائط غسل کے صحیح ہونے کے لئے بھی ہیں۔ لیکن غسل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان بدن کو اوپر سے نیچے کی جانب دھوئے۔ علاوہ ازیں غسل ترتیبی میں یہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن دھونے کے بعد فوراً بدن کو دھوئے لہذا اگر سر اور گردن دھونے کے بعد توقف کرے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد بدن کو دھوئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن یا تمام بدن کو ایک ساتھ دھوئے پس اگر مثال کے طور پر سر دھویا ہو اور کچھ دیر بعد گردن دھوئے تو جائز ہے لیکن جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے نکلنے کو نہ روک سکتا ہو تاہم اسے پیشاب اور پاخانہ اندازاً اتنے وقت تک نہ آتا ہو کہ غسل کر کے نماز پڑھ لے تو ضروری ہے کہ فوراً غسل کرے اور غسل کے بعد فوراً نماز پڑھ لے۔
۳۸۷۔ اگر کوئی شخص یہ جانے بغیر کہ حمام والا راضی ہے یا نہیں اس کی اجرت ادھار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خواہ حمام والے کو بعد میں اس بات پر راضی بھی کر لے اس کا غسل باطل ہے۔
۳۸۸۔ اگر حمام والا ادھار غسل کرنے کے لئے راضی ہو لیکن غسل کرنے والا اس کی اجرت نہ دینے یا حرام مال سے دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا غسل باطل ہے۔
۳۸۹۔ اگر کوئی شخص حمام والے کو ایسی رقم بطور اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو اگرچہ وہ حرام کا مرتکب ہو گا لیکن بظاہر اس کا غسل صحیح ہو گا اور مستحقین کو خمس ادا کرنا اس کے ذمے رہے گا۔
۳۹۰۔ اگر کوئی شخص مقعد کو حمام کے حوض کے پانی سے پاک کرے اور غسل کرنے سے پہلے شک کرے کہ چونکہ اس نے حمام کے حوض سے طہارت کی ہے اس لئے حمام والا اس کے غسل کرنے پر راضی ہے یا نہیں تو اگر وہ غسل سے پہلے حمام والے کو راضی کر لے تو صحیح ورنہ اس کا غسل باطل ہے۔
۳۹۱۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے لیکن اگر غسل کے بعد شک کرے کہ غسل صحیح کیا ہے یا نہیں تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں۔
۳۹۲۔ اگر غسل کے دوران کسی شخص سے حَدَثِ اصغر سرزد ہو جائے مثلاً پیشاب کر دے تو اس غسل کو ترک کر کے نئے سرے سے غسل کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اس غسل کو مکمل کر سکتا ہے اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر وضو کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ شخص غسل ترتیبی سے غسل ارتماسی کی طرف یا غسل ارتماسی سے غسل ترتیبی یا ارتماسی دفعی کی طرف پلٹ جائے تو وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
۳۹۳۔ اگر وقت کی تنگی کی وجہ مکلف شخص کا وظیفہ تیمم ہو۔ لیکن اس خیال سے کہ غسل اور نماز کے لئے اس کے پاس وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے غسل قصد قربت سے کیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لئے غسل کیا ہو۔
۳۹۴۔ جو شخص جنیب ہو اگر وہ شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں لیکن بعد کی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہوا ہو تو لازم ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وقت ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر جو نماز پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔
۳۹۵۔ جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں وہ ان سب کی نیت کر کے ایک غسل کر سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مخصوص غسل کا قصد کرے تو وہ باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے۔
۳۹۶۔ اگر بدن کے کسی حصے پر قرآن مجید کی آیت یا اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا ہو تو وضو یا غسل ترتیبی کرتے وقت اسے چاہئے کہ پانی اپنے بدن پر اس طرح پہنچائے کہ اس کا ہاتھ ان تحریروں کو نہ لگے۔
۳۹۷۔ جس شخص نے غسل جنابت کیا ہو ضروری نہیں ہے کہ نماز کے لئے وضو بھی کرے بلکہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی سوائے غسل اِستِخاضئہ مُتَوسِطّہ اور مستحب غسلوں کے جن کا ذکر مسئلہ ۶۵۱ میں آئے گا بغیر وضو نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔
اِستِحاضَہ
عورتوں کو جو خون آتے رہتے ہیں ان میں سے ایک خون استحاضہ ہے اور عورت کو خون استحاضہ آنے کے وقت مستحاضہ کہتے ہیں۔
۳۹۸۔ خون استخاضہ زیادہ تر زرد رنگ کا اور ٹھنڈا ہوتا ہے اور فشار اور جلن کے بغیر خارج ہوتا ہے اور گاڑھا بھی نہیں ہوتا لیکن ممکن ہے کہ کبھی سیاہ یا سرخ اور گرم اور گاڑھا ہو اور فشار اور سوزش کے ساتھ خارج ہو۔
۳۹۹۔ اِستِحاضہ تین قسم کا ہوتا ہے : قلیلہ، مُتَوسِطہ اور کثیرہ۔
قلیلہ یہ ہے کہ خون صرف اس روئی کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے جو عورت اپنی شرمگاہ میں رکھے اور اس روئی کے اندر تک سرایت نہ کرے۔
اِسِتخاضئہ مُتَوسِطہ یہ ہے کہ خون روئی کے اندر تک چلا جائے اگرچہ اس کے ایک کونے تک ہی ہو لیکن روئی سے اس کپڑے تک نہ پہنچے جو عورتیں عموماً خون روکنے کے لئے باندھتی ہیں۔
اِستِخاضہ کثیرہ یہ ہے کہ خون روئی سے تجاوز کر کے کپڑے تک پہنچ جائے۔
اِستِخاضہ کے احکام
۴۰۰۔ اِستخِاضہ قلیلہ میں ہر نماز کے لئے علیحدہ وضو کرنا ضروری ہے اور احتیاط مُستحب کی بنا پر روئی کو دھو لے یا اسے تبدیل کر دے اور اگر شرمگاہ کے ظاہری حصے پر خون لگا ہو تو اسے بھی دھونا ضروری ہے۔
۴۰۱۔ اِستِخاضہ مُتَوَسِطّہ میں احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت اپنی نمازوں کے لئے روزانہ ایک غسل کرے اور یہ بھی ضروری ہے اِستِخاضہ قلیلہ کے وہ افعال سر انجام دے جو سابقہ مسئلہ میں بیان ہو چکے ہیں چنانچہ اگر صبح کی نماز سے پہلے یا نماز کے دوران عورت کو اِستِخاضہ آ جائے تو صبح کی نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اگر جان بوجھ کر یا بھول کر صبح کی نماز کے لئے غسل نہ کرے تو ظہر اور عصر کی نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نماز ظہر اور عصر کے لئے غسل نہ کرے تو نماز مغرب و عشاء سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے خواہ خون آ رہا ہو یا بند ہو چکا ہو۔
۴۰۲۔ استحاضہ کثیرہ میں احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت ہر نماز کے لئے روئی اور کپڑے کا ٹکڑا تبدیل کرے یا اسے دھوئے۔ اور ایک غسل فجر کی نماز کے لئے اور ایک غسل ظہر و عصر کی اور ایک غسل مغرب و عشاء کی نماز کے لئے کرنا ضروری ہے اور ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیان فاصلہ نہ رکھے۔ اور اگر فاصلہ رکھے تو عصری کی نماز کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر مغرب و عشاء کی نماز کے درمیاں فاصلہ رکھے تو عشاء کی نماز کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔ یہ مذکورہ احکام اس صورت میں ہیں اگر خون بار بار روئی ہے پٹی پر پہنچ جائے۔ اگر روئی سے پٹی تک خون پہنچنے میں اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عورت اس فاصلہ کے اندر ایک نماز یا ایک سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ جب خون روئی سے پٹی تک پہنچ جائے تو روئی اور پٹی کو تبدیل کر لے یا دھو لے اور غسل کر لے۔ اسی بنا پر اگر عورت غسل کرے اور مثلاً ظہر کی نماز پڑھے لیکن عصر کی نماز سے پہلے یا نماز کے دوران دوبارہ خون روئی سے پٹی پر پہنچ جائے تو عصر کی نماز کے لئے بھی غسل کرنا ضروری ہے لیکن اگر فاصلہ اتنا ہو کہ عورت اس دوران دو یا دو سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو مثلاً مغرب اور عشاء کی نماز خون کے دوبارہ پٹی پر پہنچنے سے پہلے پڑھ سکتی ہو تو ظاہر یہ ہے کہ ان نمازوں کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان تمام صورتوں میں اظہر یہ ہے کہ استخاضہ کثیرہ ہے میں غسل کرنا وضو کے لئے بھی کافی ہے۔
۴۰۳۔ اگر خون اِسخاضہ کے وقت سے پہلے بھی آئے اور عورت نے اس خون کے لئے وضو یا غسل نہ کیا ہو تو نماز کے وقت وضو یا غسل کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ وہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔
۴۰۴۔ مُستَحاضَہ مُتَوَسِطہ جس کے لئے وضو اور غسل کرنا ضروری ہے احتیاط لازم کی بنا پر اسے چاہئے کہ پہلے غسل کرے اور بعد میں وضو کرے لیکن مُستَحاضہ کثیرہ میں اگر وضو کرنا چاہئے تو ضروری ہے کہ وضو غسل سے پہلے کرے۔
۴۰۵۔ اگر عورت کا اِسِحاضہ قلیلہ صبح کی نماز کے بعد مُتَوَسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لئے غسل کرے۔ اور اگر ظہر اور عصر کی نماز کے بعد مُتَوسِطَہ ہو تو مغرب اور عشاء کی نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔
۴۰۶۔ اگر عورت کا استحاضہ قلیلہ یا متوسطہ صبح کی نماز کے بعد کثیرہ ہو جائے اور وہ عورت اسی حالت پر باقی رہے تو مسئلہ ۴۰۲ میں جو احکام گزر چکے ہیں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء پڑھنے کے لئے ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۴۰۷۔ مستحاضہ کثیرہ کی جس صورت میں نماز اور غسل کے درمیان ضروری ہے کہ فاصلہ نہ ہو جیسا کہ مسئلہ ۴۰۲ میں گزر چکا ہے اگر نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے غسل کرنے کی وجہ سے نماز اور غسل میں فاصلہ ہو جائے تو اس غسل کے ساتھ نماز صحیح نہیں ہے اور یہ مستحاضہ نماز کے لئے دوبارہ غسل کرے اور یہی حکم مستحاضہ متوسطہ کے لئے بھی ہے۔
۴۰۸۔ ضروری ہے کہ مسحاضہ قلیلہ و متوسطہ روزانہ کی نمازوں کے علاوہ جن کے بارے میں حکم اوپر بیان ہو چکا ہے ہر نماز کے لئے خواہ وہ واجب ہو یا مستحب، وضو کرے لیکن اگر وہ چاہے کہ، روزانہ کی وہ نمازیں جو وہ پڑھ چکی ہو احتیاط دوبارہ پڑھے یا جو نماز اس نے تنہا پڑھی ہے دوبارہ با جماعت پڑھے تو ضروری ہے کہ وہ تمام افعال بجا لائے جن کا ذکر استحاضہ کے سلسلے میں کیا گیا ہے البتہ اگر وہ نماز احتیاط، بھولے ہوئے سجدے اور بھولے ہوئے تشہد کی بجا آوری نماز کے فورا بعد کرے اور اسی طرح سجدہ سہو کسی بھی صورت میں کرے تو اس کے لئے استحاضہ کے افعال کا انجام دینا ضروری نہیں ہے۔
۴۰۹۔ اگر کسی مستحاضہ عورت کا خون رک جائے تو اس کے بعد جو پہلی نماز پڑھے صرف اس کے لئے استحاضہ کے افعال انجام دینا ضروری ہے۔ لیکن بعد کی نمازوں کے لئے ایسا کرنا ضروری نہیں۔
۴۱۰۔ اگر کسی عورت کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا استحاضہ کون سا ہے تو جب نماز پڑھنا چاہے تو بطور احتیاط ضروری ہے کہ تحقیق کرنے کے لئے پہلے تھوڑی سی روئی شرمگاہ میں رکھے اور کچھ دیر انتظار کرے اور پھر روئی نکال لے اور جب اسے پتہ چل جائے کہ اس کا استحاضہ تین اقسام میں سے کون سی قسم کا ہے تو اس قسم کے استحاضہ کے لئے جن افعال کا حکم دیا گیا ہے انہیں انجام دے۔ لیکن اگر وہ جانتی ہو کہ جس وقت تک وہ نماز پڑھنا چاہتی ہے اس کا استحاضہ تبدیل نہیں ہو گا تو نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے بھی وہ اپنے بارے میں تحقیق کر سکتی ہے۔
۴۱۱۔ اگر مستحاضہ اپنے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے نماز میں مشغول ہو جائے تو اگر وہ قربت کا قصد رکھتی ہو اور اس نے اپنے وظیفے کے مطابق عمل کیا ہو مثلاً اس کا استحاضہ قلیلہ ہو اور اس نے اسحاضہ قلیلہ کے مطابق عمل کیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر وہ قربت کا قصد نہ رکھتی ہو یا اس کا عمل اس کے وظیفہ کے مطابق نہ ہو مثلاً اس کا استحاضہ متوسطہ ہو اور اس نے عمل استحاضہ قلیلہ کے مطابق کیا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
۴۱۲۔ اگر مستحاضہ اپنے بارے میں تحقیق نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ جو اس کا یقینی وظیفہ ہو اس کے مطابق عمل کرے مثلاً اگر وہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کا استحاضہ قلیلہ ہے یا متوسطہ تو ضروری ہے کہ استحاضہ قلیلہ کے افعال انجام دے اور اگر وہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کا استحاضہ متوسطہ ہے یا کثیرہ تو ضروری ہے کہ استحاضہ متوسطہ کے افعال انجام دے لیکن اگر وہ جانتی ہو کہ اس سے پیشتر اسے ان تین اقسام میں سے کونسی قسم کا استحاضہ تھا تو ضروری ہے کہ اسی قسم کے استحاضہ کے مطابق اپنا وظیفہ انجام دے۔
۴۱۳۔ اگر استحاضہ کا خون اپنے ابتدائی مرحلے پر جسم کے اندر ہی ہو اور باہر نہ نکلے تو عورت نے جو وضو یا غسل کیا ہوا ہو اسے باطل نہیں کرتا لیکن اگر باہر آ جائے تو خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو وضو اور غسل کو باطل کر دیتا ہے۔
۴۱۴۔ مستحاضہ اگر نماز کے بعد اپنے بارے میں تحقیق کرے اور خون نہ دیکھے تو اگرچہ اسے علم ہو کہ دوبارہ خون آئے گا جو وضو وہ کئے ہوئے ہے اسی سے نماز پڑھ سکتی ہے۔
۴۱۵۔ مستحاضہ عورت اگر یہ جانتی ہو کہ جس وقت سے وہ وضو یا غسل میں مشغول ہوئی ہے خون اس کے بدن سے باہر نہیں آیا اور نہ ہی شرمگاہ کے اندر ہے تو جب تک اسے پاک رہنے کا یقین ہو نماز پڑھنے میں تاخیر کر سکتی ہے۔
۴۱۶۔ اگر مستحاضہ کو یقین ہو کہ نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پوری طرح پاک ہو جائے گی یا اندازاً جتنا وقت نماز پڑھنے میں لگتا ہے اس میں خون آنا بند ہو جائے گا تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ انتظار کرے اور اس وقت نماز پڑھے جب پاک ہو۔
۴۱۷۔ اگر وضو اور غسل کے بعد خون آنا بظاہر بند ہو جائے اور مستحاضہ کو معلوم ہو کہ اگر نماز پڑھنے میں تاخیر کرے تو جتنی دیر میں وضو، غسل اور نماز بجا لائے گی بالکل پاک ہو جائے گی تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو موخر کر دے اور جب بالکل پاک ہو جائے تو دوبارہ وضو اور غسل کر کے نماز پڑھے اور اگر خون کے بظاہر بند ہونے کے وقت نماز کا وقت تنگ ہو تو وضو اور غسل دوبارہ کرنا ضروری نہیں بلکہ جو وضو اور غسل اس نے کئے ہوئے ہیں ا نہی کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔
۴۱۸۔ مستحاضہ کثیرہ جب خون سے بالکل پاک ہو جائے اگر اسے معلوم ہو کہ جس وقت سے اس نے گذشتہ نماز کے لئے غسل کیا تھا اس وقت تک خون نہیں آیا تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ہے بصورت دیگر غسل کرنا ضروری ہے۔ اگر اس حکم کا بطور کلی ہونا احتیاط کی بنا پر ہے۔ اور مستحاضہ متوسطہ میں ضروری نہیں ہے کہ خون سے بالکل پاک ہو جائے پھر غسل کرے۔
۴۱۹۔ مستحاضہ قلیلہ کو وضو کے بعد اور مستحاضہ متوسطہ کو غسل اور وضو کے بعد اور مستحاضہ کثیرہ کو غسل کے بعد (ان دو صورتوں کے علاوہ جو مسئلہ ۴۰۳ میں آئی ہیں ) فوراً نماز میں مشغول ہونا ضروری ہے۔ لیکن نماز سے پہلے اَذان اور اقامت کہنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ نماز میں مستحب کام مثلاً قنوت وغیرہ پڑھ سکتی ہے۔
۴۲۰۔ اگر مستحاضہ جس کا وظیفہ یہ ہو کہ وضو یا غسل اور نماز کے درمیان فاصلہ نہ رکھے اگر اس نے اپنے وظیفہ کے مطابق عمل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرنے کے بعد فوراً نماز میں مشغول ہو جائے۔
۴۲۱۔ اگر عورت کا خون استحاضہ جاری رہے اور بند ہونے میں نہ آئے اور خون کا روکنا اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بعد خون کو باہر آنے سے روکے اور اگر ایسا کرنے میں کوتاہی برتے اور خون نکل آئے تو جو نماز پڑھ لی ہو اسے دوبارہ پڑھنے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔
۴۲۲۔ اگر غسل کرتے وقت خون نہ رکے تو غسل صحیح ہے لیکن اگر غسل کے دوران استحاضہ متوسطہ استحاضہ کثیرہ ہو جائے تو از سر نو غسل کرنا ضروری ہے۔
۴۲۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ مستحاضہ روزے سے ہو تو سارا دن جہاں تک ممکن ہو خون کو نکلنے سے روکے۔
۴۲۴۔ مشہور قول کی بنا پر مستحاضہ کثیرہ کا روزہ اس صورت میں صحیح ہو گا کہ جس رات کے بعد کے دن وہ روزہ رکھنا چاہتی ہو اس رات کو مغرب اور عشاء کی نماز کا غسل کرے۔ علاوہ ازیں دن کے وقت وہ غسل انجام دے جو دن کی نمازوں کے لئے واجب ہیں لیکن کچھ بعید نہیں کہ اس کے روزے کی صحت کا انحصار غسل پر نہ ہو۔ اسی طرح بنا بر اقوی مستحاضہ متوسطہ میں یہ غسل شرط نہیں ہے۔
۴۲۵۔ اگر عورت عصر کی نماز کے بعد مستحاضہ ہو جائے اور غروب آفتاب تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ بلا اشکال صحیح ہے۔
۴۲۶۔ اگر کسی عورت کا استحاضہ قلیلہ نماز سے پہلے متوسطہ یا کثیرہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ متوسطہ یا کثیرہ کے افعال جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے انجام دے اور اگر استحاضہ متوسطہ کثیرہ ہو جائے تو چاہئے کہ استحاضہ کثیرہ کے افعال انجام دے۔ چنانچہ اگر وہ استحاضہ متوسطہ کے لئے غسل کر چکی ہو تو اس کا یہ غسل بے فائدہ ہو گا اور اسے استحاضہ کثیرہ کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔
۴۲۷۔ اگر نماز کے دوران کسی عورت کا استحاضہ متوسطہ کثیرہ میں بدل جائے تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور استحاضہ کثیرہ کے لئے غسل کرے اور اس کے دوسرے افعال انجام دے اور پھر اسی نماز کو پڑھے اور احتیاط مستحب کی بنا پر غسل سے پہلے وضو کرے اور اگر اس کے پاس غسل کے لئے وقت نہ ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور اگر تیمم کے لئے بھی وقت نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر نماز نہ توڑے اور اسی حالت میں ختم کرے لیکن ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے بعد اس نماز کی قضا کرے۔ اور اسی طرح اگر نماز کے دوران اس کا استحاضہ قلیلہ متوسطہ یا کثیرہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑ دے اور استحاضہ متوسطہ یا کثیرہ کے افعال انجام دے۔
۴۲۸۔ اگر نماز کے دوران خون بند ہو جائے اور مستحاضہ کو معلوم نہ ہو کہ باطن میں بھی خون بند ہوا ہے یا نہیں تو اگر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ خون پورے طور پر بند ہو گیا تھا اور اس کے پاس اتنا وسیع وقت ہو کہ پاک ہو کر دوبارہ نماز پڑھ سکے تو اگر خون بند ہونے سے مایوس نہ ہوئی ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اپنے وظیفہ کے مطابق وضو یا غسل کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔
۴۲۹۔ اگر کسی عورت کا استحاضہ کثیرہ متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ پہلی نماز کے لئے کثیرہ کا عمل اور بعد کی نمازوں کے لئے متوسطہ کا عمل بجا لائے مثلاً اگر ظہر کی نماز سے پہلے استحاضہ کثیرہ متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ظہر کی نماز کے لئے غسل کرے اور نماز عصر و مغرب و عشاء کے لئے صرف وضو کرے لیکن اگر نماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اور اس کے پاس صرف نماز عصر کے لئے وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز عصر کے لئے غسل کرے اور اگر نماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگر اس کے لئے بھی غسل نہ کرے اور اس کے پاس صرف نماز عشاء کے لئے وقت ہو تو نماز عشاء کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔
۴۳۰۔ اگر ہر نماز سے پہلے مستحاضہ کثیرہ کا خون بند ہو جائے اور دوبارہ آ جائے تو ہر نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔
۴۳۱۔ اگر استحاضہ کثیرہ قلیلہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ عورت پہلی نماز کے لئے کثیرہ والے اور بعد کی نمازوں کے لئے قلیلہ والے افعال بجا لائے اور اگر استحاضہ متوسطہ قلیلہ ہو جائے تو پہلی نماز کے لئے متوسطہ والے اور بعد کی نمازوں کے لئے قلیلہ والے افعال بجا لانا ضروری ہے۔
۴۳۲۔ مستحاضہ کے لئے جو افعال واجب ہیں اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی ترک کر دے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۴۳۳۔ مستحاضہ قلیلہ یا متوسطہ اگر نماز کے علاوہ وہ کام انجام دینا چاہتی ہو جس کے لئے وضو کا ہونا شرط ہے مثلاً اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے چھونا چاہتی ہو تو نماز ادا کرنے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے اور وہ وضو جو جماز کے لئے کیا تھا کافی نہیں ہے۔
۴۳۴۔ جس مستحاضہ نے اپنے واجب غسل کر لئے ہوں اس کا مسجد میں جانا اور وہاں ٹھہرنا اور وہ آیات پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور اس کے شوہر کا اس کے ساتھ مجامعت کرنا حلال ہے۔ خواہ اس نے وہ افعال جو وہ نماز کے لئے انجام دیتی تھی (مثلاً روئی اور کپڑے کے ٹکڑے کا تبدیل کرنا) انجام نہ دیئے ہوں اور بعید نہیں ہے کہ یہ افعال بغیر غسل بھی جائز ہوں اگرچہ احتیاط ان کے ترک کرنے میں ہے۔
۴۳۵۔ جو عورت استحاضہ کثیرہ یا متوسطہ میں ہو اگر وہ چاہے کہ نماز کے وقت سے پہلے اس آیت کو پڑھے جس کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے یا مسجد میں جائے تو احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری ہے کہ غسل کرے اور اگر اس کا شوہر اس سے مجامعت کرنا چاہے تب بھی یہی حکم ہے۔
۴۳۶۔ مستحاضہ پر نماز آیات کا پڑھنا واجب ہے اور نماز آیات ادا کرنے کے لئے یومیہ نمازوں کے لئے بیان کئے گئے تمام اعمال انجام دینا ضروری ہیں۔
۴۳۷۔ جب بھی یومیہ نماز کے وقت میں نماز آیات مستحاضہ پر واجب ہو جائے تو وہ چاہے کہ ان دونوں نمازوں کو یکے بعد دیگرے ادا کرے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر وہ ان دونوں کو ایک وضو اور غسل سے نہیں پڑھ سکتی۔
۴۳۸۔ اگر مستحاضۃ قضا نماز پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ نماز کے لئے وہ افعال انجام دے جو ادا نماز کے لئے اس پر واجب ہیں اور احتیاط کی بنا پر قضا نماز کے لئے ان افعال پر اکتفا نہیں کر سکتی جو کہ اس نے ادا نماز کے لئے انجام دیئے ہوں۔
۴۳۹۔ اگر کوئی عورت جانتی ہو کہ جو خون اسے آ رہا ہے وہ زخم کا خون نہیں ہے لیکن اس خون کے استحاضہ، حیض یا نفاس ہونے کے بارے میں شک کرے اور شرعاً وہ خون حیض و نفاس کا حکم بھی نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ استحاضہ والے احکام کے مطابق عمل کرے۔ بلکہ اگر اسے شک ہو کہ یہ خون استحاضہ ہے یا کوئی دوسرا اور وہ دوسرے خون کی علامات بھی نہ رکھتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر استحاضہ کے افعال انجام دینا ضروری ہیں۔
حیض
حیض وہ خون ہے جو عموماً ہر مہینے چند دنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے اور عورت کو جب حیض کو خون آئے تو اسے حائض کہتے ہیں۔
۴۴۰۔ حیض کا خون عموماً گاڑھا اور گرم ہوتا ہے اور اس کا رنگ سیاہ یا سرخ ہوتا ہے۔ وہ اچھل کر اور تھوڑی سی جلن کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔
۴۴۱۔ وہ خون جو عورتوں کو ساٹھ برس پورے کرنے کے بعد آتا ہے حیض کا حکم نہیں رکھتا۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ عورتیں جو غیر قریشی ہیں وہ پچاس سے ساٹھ سال کی عمر کے دوران خون اس طرح دیکھیں کہ اگر وہ پچاس سال سے پہلے خون دیکھتیں تو وہ خون یقیناً حیض کا حکم رکھتا تو وہ مستحاضہ والے افعال بجا لائیں اور ان کاموں کو ترک کریں جنہیں حائض ترک کرتی ہے۔
۴۴۲۔ اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے۔
۴۴۳۔ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو بھی حیض آنا ممکن ہے اور حاملہ اور غیر حاملہ کا حکم ایک ہی ہے بس (فرق یہ ہے کہ) حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بیس روز بعد بھی اگر حیض کی علامتوں کے ساتھ خون دیکھے تو اس کے لئے احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ ان کاموں کو ترک کر دے جنہیں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔
۴۴۴۔ اگر کسی ایسی لڑکی کو خون آئے جسے اپنی عمر کے نو سال پورے ہونے کا علم نہ ہو اور اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں تو وہ حیض نہیں ہے اور اگر اس خون میں حیض کی علامات ہوں تو اس پر حیض کا حکم لگانا محل اشکال ہے مگر یہ کہ اطمینان ہو جائے کہ یہ حیض ہے۔ اور اس صورت میں یہ معلوم ہو جائے گا کہ اس کی عمر پورے نو سال ہو گئی ہے۔
۴۴۵۔ جس عورت کو شک ہو کہ اس کی عمر ساٹھ سال ہو گئی ہے یا نہیں اگر وہ خون دیکھے اور یہ نہ جانتی ہو کہ یہ حیض ہے یا نہیں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی عمر ساٹھ سال نہیں ہوئی ہے۔
۴۴۶۔ حیض کی مدت تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اور اگر خون آنے کی مدت تین دن سے بھی کم ہو تو وہ حیض نہیں ہو گا۔
۴۴۷۔ حیض کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تین دن لگاتار آئے لہذا اگر مثال کے طور پر کسی عورت کو دو دن خون آئے پھر ایک دن نہ آئے اور پھر ایک دن آ جائے تو وہ حیض نہیں ہے۔
۴۴۸۔ حیض کی ابتدا میں خون کا باہر آنا ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پورے تین دن خون نکلتا رہے بلکہ اگر شرم گاہ میں خون موجود ہو تو کافی ہے اور اگر تین دنوں میں تھوڑے سے وقت کے لئے بھی کوئی عورت پاک ہو جائے جیسا کہ تمام یا بعض عورتوں کے درمیان متعارف ہے تب بھی وہ حیض ہے۔
۴۴۹۔ ایک عورت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا خون پہلی رات اور چوتھی رات کو باہر نکلے لیکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اور تیسری رات کو منقطع نہ ہو پس اگر پہلے دن صبح سویرے سے تیسرے دن غروب آفتاب تک متواتر خون آتا رہے اور کسی وقت بند نہ تو وہ حیض ہے۔ اور اگر پہلے دن دوپہر سے خون آنا شروع ہو اور چوتھے دن اسی وقت بند ہو تو اس کی صورت بھی یہی ہے (یعنی وہ بھی حیض ہے )۔
۴۵۰۔ اگر کسی عورت کو تین دن متواتر خون آتا رہے پھر وہ پاک ہو جائے چنانچہ اگر وہ دوبارہ خون دیکھے تو جن دنوں میں وہ خون دیکھے اور جن دنوں میں وہ پاک ہو ان تمام دنوں کو ملا کر اگر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو جن دنوں میں وہ خون دیکھے وہ حیض کے دن ہیں لیکن احتیاط لازم کی بنا پر پاکی کے دنوں میں وہ ان تمام امور کو جو پاک عورت پر واجب اور حائض کے لئے حرام ہیں انجام دے۔
۴۵۱۔ اگر کسی عورت کو تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ خون پھوڑے یا زخم کا ہے یا حیض کا تو اسے چاہئے کہ اس خون کو حیض نہ سمجھے۔
۴۵۲۔ اگر کسی عورت کو ایسا خون آئے جس کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ زخم کا خون ہے یا حیض کا تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات بجا لاتی رہے۔ لیکن اگر اس کی سابقہ حالت حیض کی رہی ہو تو اس صورت میں اسے حیض قرار دے۔
۴۵۳۔ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے شک ہو کہ یہ خون حیض ہے یا استحاضہ تو ضروری ہے کہ حیض کی علامات موجود ہونے کی صورت میں اسے حیض قرار دے۔
۴۵۴۔ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حیض ہے یا بکارت کا خون ہے تو ضروری ہے کہ اپنے بارے میں تحقیق کرے یعنی کچھ روئی شرم گاہ میں رکھے اور تھوڑی دیر انتظار کرے۔
پھر روئی باہر نکالے۔ پس اگر خون روئی کے اطراف میں لگا ہو تو خون بکارت ہے اور اگر ساری کی ساری روئی خون میں تر ہو جائے تو حیض ہے۔
۴۵۵۔ اگر کسی عورت کو تین دن سے کم مدت تک خون آئے اور پھر بند ہو جائے اور تین دن کے بعد خون آئے تو دوسرا خون حیض ہے اور پہلا خون خواہ وہ اس کی عادت کے دنوں ہی میں آیا ہو حیض نہیں ہے۔
حائض کے احکام
۴۵۶۔ چند چیزیں حائض پر حرام ہیں :
۱۔ نماز اور اس جیسی دیگر عبادتیں جنہیں وضو یا غسل یا تیمم کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن ان عبادتوں کے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے لئے وضو، غسل یا تیمم کرنا ضروری نہیں جیسے نماز میت۔
۲۔ وہ تمام چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں اور جن کا ذکر جنابت کے احکام میں آ چکا ہے۔
۳۔ عورت کی فرج میں جماع کرنا اور جو مرد اور عورت دونوں کے لئے حرام ہے خواہ دخول صرف سپاری کی حد تک ہی ہو اور منی بھی خارج نہ ہو بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ سپاری سے کم مقدار میں بھی دخول نہ کیا جائے نیز احتیاط کی بنا پر عورت کی دبر میں مجامعت نہ کرے خواہ وہ حائض ہو یا نہ ہو۔
۴۵۷۔ ان دنوں میں بھی جماع کرنا حرام ہے جن میں عورت کا حیض یقینی نہ ہو لیکن شرعاً اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو حائض قرار دے۔ پس جس عورت کو دس دن سے زیادہ خون آیا ہو اور اس کے لئے ضروری ہو کہ اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اپنے آپ کو اتنے دن کے لئے حائض قرار دے جتنے دن کی اس کے کنبے کی عورتوں کو عادت ہو تو اس کا شوہر ان دنوں میں اس سے مجامعت نہیں کر سکتا۔
۴۵۸۔ اگر مرد اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ استغفار کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے ، اس کا کفارہ مسئلہ ۴۶۰ میں بیان ہو گا۔
۴۵۹۔ حائض سے مجامعت کے علاوہ دوسری لطف اندوزیوں مثلاً بوس و کنار کی ممانعت نہیں ہے۔
۴۶۰۔ حیض کی حالت میں مجامعت کا کفارہ حیض کے پہلے حصے میں اٹھارہ چنوں کے برابر، دوسرے حصے میں نو چنوں کے برابر اور تیسرے حصے میں ساڑھے چار چنوں کے برابر سکہ دار سونا ہے مثلاً اگر کسی عورت کو چھ دن حیض کا خون آئے اور اس کا شوہر پہلی یا دوسری رات یا دن میں اس سے جماع کرے تو اٹھارہ چنوں کے برابر سونا دے اور اگر تیسری یا چوتھی رات یا دن میں جماع کرے تو نو چنوں کے برابر سونا دے اور اگر پانچویں یا چھٹی رات یا دن میں جماع کرے تو ساڑھے چار چنوں کے برابر سونا دے۔
۴۶۱۔ اگر سکہ دار سونا ممکن نہ ہو تو متعلقہ شخص اس کی قیمت دے اور اگر سونے کی اس وقت کی قیمت ہے جب کہ اس نے جماع کیا تھا اس وقت کی قیمت جب کہ وہ غریب محتاج کو دینا چاہتا ہو مختلف ہو گئی ہو تو اس وقت کی قیمت کے مطابق حساب لگائے جب وہ غریب محتاج کو دینا چاہتا ہو۔
۴۶۲۔ اگر کسی شخص نے حیض کے پہلے حصے میں بھی دوسرے حصے میں بھی اور تیسرے حصے میں بھی اپنی بیوی سے جماع کیا ہو تو وہ تینوں کفارے دے جو سب مل کر ساڑھے اکتیس چنے (۰۵ء۶ گرام) ہو جاتے ہیں۔
۴۶۳۔ اگر مرد کو جماع کے دوران معلوم ہو جائے کہ عورت کو حیض آنے لگا ہے تو ضروری ہے کہ فورا اس سے جدا ہو جائے اور اگر جدا نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دے۔
۴۶۵۔ اگر کوئی مرد حائض سے زنا کرے یا یہ گمان کرتے ہوئے نامحرم حائض سے جماع کرے کہ وہ اس کی اپنی بیوی ہے تب بھی احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دے۔
۴۶۶۔ اگر کوئی شخص لاعلمی کی بنا پر یا بھول کر عورت سے حالت حیض میں مجامعت کرے تو اس پر کفارہ نہیں۔
۴۶۷۔ اگر ایک مرد یہ خیال کرتے ہوئے کہ عورت حائض ہے اس سے مجامعت کرے لیکن بعد میں معلوم ہو کہ حائض نہ تھی تو اس پر کفارہ نہیں۔
۴۶۸۔ جیسا کہ طلاق کے احکام میں بتایا جائے گا عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دینا باطل ہے۔
۴۶۹۔ اگر عورت کہیے کہ میں حائض ہوں یا یہ کہے کہ میں حیض سے پاک ہوں اور وہ غلط بیانی نہ کرتی ہو تو اس کی بات قبول کی جائے لیکن اگر غلط بیاں ہو تو اس کی بات قبول کرنے میں اشکال ہے۔
۴۷۰۔ اگر کوئی عورت نماز کے دوران حائض ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۴۷۱۔ اگر عورت نماز کے دوران شک کرے کہ حائض ہوئی ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ نماز کے دوران حائض ہو گئی تھی تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ باطل ہے۔
۴۷۲۔ عورت کے حیض سے پاک ہو جانے کے بعد اس پر واجب ہے کہ نماز اور دوسری عبادات کے لئے جو وضو، غسل یا تیمم کر کے بجا لانا چاہئیں غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اور بہتر یہ ہے کہ غسل سے پہلے وضو بھی کرے۔
۴۷۳۔ عورت کے حیض سے پاک ہو جانے کے بعد اگرچہ اس نے غسل نہ کیا ہو اسے طلاق دینا صحیح ہے اور اس کا شوہر اس سے جماع بھی کرسکتا لیکن احتیاط لازم یہ ہے کہ جماع شرم گاہ دھونے کے بعد کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے غسل کرنے سے پہلے مرد اس سے جماع نہ کرے۔
البتہ جب تک وہ عورت غسل نہ کر لے وہ دوسرے کام جو حیض کے وقت اس پر حرام تھے مثلاً مسجد میں ٹھہرنا یا قرآن مجید کے الفاظ کو چھوٹا اس پر حلال نہیں ہوتے۔
۴۷۴۔ اگر پانی (عورت کے ) وضو اور غسل کے لئے کافی نہ ہو اور تقریباً اتنا ہو کہ اس سے غسل کر سکے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے اور اگر پانی صرف وضو کے لئے کافی ہو اور اتنا نہ ہو کہ اس سے غسل کیا جا سکے تو بہتر یہ ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے اور اگر دونوں میں سے کسی کے لئے بھی پانی نہ ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے بھی تیمم کرے۔
۴۷۵۔ جو نمازیں عورت نے حیض کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا نہیں لیکن رمضان کے وہ روزے جو حیض کی حالت میں نہ رکھے ہوں ضروری ہے کہ ان کے قضا کرے اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر جو روزے منت کی وجہ سے معین دنوں میں واجب ہوئے ہوں اور اس نے حیض کی حالت میں وہ روزے نہ رکھے ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔
۴۷۶۔ جب نماز کا وقت ہو جائے اور عورت یہ جان لے (یعنی اسے یقین ہو) کہ اگر وہ نماز پڑھنے میں دیر کرے گی تو خالص ہو جائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر اسے فقط احتمال ہو کہ نماز میں تاخیر کرنے سے وہ حائض ہو جائے گی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
۴۷۷۔ اگر عورت نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور اول وقت میں سے اتنا وقت گزر جائے جتنا کہ حدث سے پانی کے ذریعے ، اور احتیاط لازم کی بنا پر تیمم کے ذریعے طہارت حاصل کر کے ایک نماز پڑھنے میں لگتا اور اسے حیض آ جائے تو اس نماز کی قضا اس عورت پر واجب ہے۔ لیکن جلدی پڑھنے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور دوسری باتوں کے بارے میں ضروری ہے کہ اپنی عادت کا لحاظ کرے مثلاً اگر ایک عورت جو سفر میں نہیں ہے اول وقت میں نماز ظہر نہ پڑھے تو اس کی قضا اس پر اس صورت میں واجب ہو گی جب کہ حدث سے طہارت حاصل کرنے کے بعد چار رکعت نماز پڑھنے کے برابر وقت اول ظہر سے گزر جائے اور وہ حائض ہو جائے اور اس عورت کے لئے جو سفر میں ہو طہارت حاصل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے برابر وقت گزر جانا بھی کافی ہے۔
۴۷۸۔ اگر ایک عورت نماز کے آخر وقت میں خون سے پاک ہو جائے اور اس کے پاس اندازاً اتنا وقت ہو کہ غسل کر کے ایک یا ایک سے زائد رکعت پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔
۴۷۹۔ اگر ایک حائض کے پاس (حیض سے پاک ہونے کے بعد) غسل کے لئے وقت نہ ہو لیکن تیمم کر کے نماز وقت کے اندر پڑھ سکتی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نماز تیمم کے ساتھ پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو قضا کرے۔ لیکن اگر وقت کی تنگی سے قطع نظر کسی اور وجہ سے اس کا فریضہ ہی تیمم کرنا ہو مثلاً اگر پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر کے وہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔
۴۸۰۔ اگر کسی عورت کو حیض سے پاک ہو جانے کے بعد شک ہو کہ نماز کے لئے وقت باقی ہے یا نہیں تو اسے چاہئے کہ نماز پڑھ لے۔
۴۸۱۔ اگر کوئی عورت اس خیال سے نماز نہ پڑھے کہ حدث سے پاک ہونے کے بعد ایک رکعت نماز پڑھنے کے لئے بھی اس کے پاس وقت نہیں ہے لیکن بعد میں اسے پتہ چلے کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا بجا لانا ضروری ہے۔
۴۸۲۔ حائض کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے وقت اپنے آپ کو خون سے پاک کرے اور روئی اور کپڑے کا ٹکڑا بدلے اور وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکے تو تیمم کرے اور نماز کی جگہ پر رو بقبلہ بیٹھ کر ذکر، دعا اور صلوات میں مشغول ہو جائے۔
۴۸۳۔ حائض کے لئے قرآن مجید کا پڑھنا اور اسے اپنے ساتھ رکھنا اور اپنے بدن کا کوئی حصہ اس کے الفاظ کے درمیانی حصے سے چھونا نیز مہندی یا اس جیسی کسی اور چیز سے خضاب کرنا مکروہ ہے۔
حائض کی قسمیں
۴۸۴۔ حائض کی چھ قسمیں ہیں :
۱۔ وقت اور عدد کی عادت رکھنے والی عورت : یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک معین وقت پر حیض آئے اور اس کے حیض کے دنوں کی تعداد بھی دونوں مہینوں میں ایک جیسی ہو۔ مثلاً اسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتا ہو۔
۲۔ وقت کی عادت رکھنے والی عورت : یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر حیض آئے لیکن اس کے حیض کے دنوں کی تعداد دونوں مہینوں میں ایک جیسی نہ ہو۔
مثلاً یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے خون آنا شروع ہو لیکن وہ پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن خون سے پاک ہو۔
۳۔ عدد کی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک جیسی ہو لیکن ہر مہینے خون آنے کا وقت یکساں نہ ہو۔ مثلاً پہلے مہینے میں اسے پانچویں سے دسویں تاریخ تک، اور دوسرے مہینے میں بارھویں سے سترھویں تاریخ تک خون آتا ہو۔
۴۔ مُضطَربَہ : یہ وہ عورت ہے جسے چند مہینے خون آیا ہو لیکن اس کی عادت معین نہ ہوئی ہو یا اس کی سابقہ عادت بگڑ گئی ہو اور نئی عادت نہ بنی ہو۔
۵۔ مُبتَدِئَہ: یہ وہ عورت ہے جسے پہلی دفعہ خون آیا ہو۔
۶۔ نَاسِیَہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول چکی ہو۔
ان میں سے ہر قسم کی عورت کے لئے علیحدہ علیحدہ احکام ہیں جن کا ذکر آئندہ مسائل میں کیا جائے گا۔
۱۔ وقت اور عدد کی عادت رکھنے والی عورت
۴۸۵۔ جو عورتیں وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں :۔
(اول) وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک مُعَیّن وقت پر خون آئے اور وہ ایک مُعَیّن وقت پر ہی پاک بھی ہو جائے مثلاً یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ کو خون آئے اور وہ ساتویں روز پاک ہو جائے تو اس عورت کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک ہے۔
(دوم) وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں مُعَیّن وقت پر خون آئے اور جب تین یا زیادہ دن تک خون آ چکے تو وہ ایک یا زیادہ دنوں کے لئے پاک ہو جائے اور پھر اسے دوبارہ خون آ جائے اور ان تمام دنوں کی تعداد جن میں اسے خون آیا ہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں وہ پاک رہی ہے دس سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مہینوں میں تمام دن جن میں اسے خون آیا اور بیچ کے وہ دن جن میں پاک رہی ہو ایک جتنے ہوں تو اس کی عادت ان تمام دنوں کے مطابق قرار پائے گی جن میں اسے خون آیا لیکن ان دنوں کو شامل نہیں کر سکتی جن کے درمیان پاک رہی ہو۔ پس لازم ہے کہ جن دنوں میں اسے خون آیا ہو اور جن دنوں میں وہ پاک رہی ہو دونوں مہینوں میں ان دنوں کی تعداد ایک جتنی ہو مثلاً اگر پہلے مہینے میں اور اسی طرح دوسرے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اور پھر تین دن پاک رہے اور پھر تین دن دوبارہ خون آئے تو اس عورت کی عادت چھ دن کی ہو جائے گی اور اگر اسے دوسرے مہینے میں آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس سے کم یا زیادہ ہو تو یہ عورت وقت کی عادت رکھتی ہے ، عدد کی نہیں۔
۴۸۶۔ جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو خواہ عدد کی عادت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت یا اس سے ایک دو دن یا اس سے بھی زیادہ دن پہلے خون آ جائے جب کہ یہ کہا جائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے اگر اس خون میں حیض کی علامات نہ بھی ہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اور اگر ابعد میں اسے پتہ چلے کہ وہ حیض کا خون نہیں تھا مثلاً وہ تین دن سے پہلے پاک ہو جائے تو ضروری ہے کہ جو عبادات اس نے انجام نہ دی ہوں ان کی قضا کرے۔
۴۸۷۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے تمام دنوں میں اور عادت سے چند دن پہلے اور عادت کے چند دن بعد خون آئے اور وہ کل ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو وہ سارے کا سارا حیض ہے اور اگر یہ مدت دس دن سے بڑھ جائے تو جو خون اسے عادت کے دنوں میں آیا ہے وہ حیض ہے اور جو عادت سے پہلے یا بعد میں آیا ہے وہ استحاضہ ہے اور جو عبادات وہ عادت سے پہلے اور بعد کے دنوں میں بجا نہیں لائی ان کی قضا کرنا ضروری ہے۔ اور اگر عادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت سے کچھ دن پہلے اسے خون آئے اور ان سب دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو سارا حیض ہے اور اگر دنوں کی تعداد دس سے زیادہ ہو جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والا خون حیض ہے اگرچہ اس میں حیض کی علامات نہ ہوں اور اس سے پہلے آنے والا خون حیض کی علامات کے ساتھ ہو۔ اور جو خون اس سے پہلے آئے وہ استحاضہ ہے اور اگر عادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت کے چند دن بعد خون آئے اور کل دنوں کی تعداد ملا کر دس سے زیادہ نہ ہو تو سارے کا سارا حیض ہے اور اگر یہ تعداد دس سے بڑھ جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والا خون حیض ہے اور باقی استحاضہ ہے۔
۴۸۸۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے کچھ دنوں میں یا عادت سے پہلے خون آئے اور ان تمام دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو وہ سارے کا سارا حیض ہے۔ اور اگر ان دنوں کی تعداد دس سے بڑھ جائے تو جن دنوں میں اسے حسب عادت خون آیا ہے اور پہلے کے چند دن شامل کر کے عادت کے دنوں کی تعداد پوری ہونے تک حیض اور شروع کے دنوں کو استحاضہ قرار دے۔ اور اگر عادت کے کچھ دنوں کے ساتھ ساتھ عادت کے بعد کے کچھ دنوں میں خون آئے اور ان سب دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو سارے کا سارا حیض ہے اور اگر دس سے بڑھ جائے تو اسے چاہئے کہ جن دنوں میں عادت کے مطابق خون آیا ہے اس میں بعد کے چند دن ملا کر جن دنوں کی مجموعی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو جائے انہیں حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔
۴۸۹۔ جو عورت عادت رکھتی ہو اگر اس کا خون تین یا زیادہ دن تک آنے کے بعد رک جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور ان دونوں خون کا درمیانی فاصلہ دس دن سے کم ہو اور ان سب دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں پاک رہی ہو دس سے زیادہ ہو۔ مثلاً پانچ دن خون آیا ہو پھر پانچ دن رک گیا ہو اور پھر پانچ دن دوبارہ آیا ہو تو اس کی چند صورتیں ہیں :
۱۔ وہ تمام خون یا اس کی کچھ مقدار جو پہلی بار دیکھے عادت کے دنوں میں ہو اور دوسرا خون جو پاک ہونے کے بعد آیا ہے عادت کے دنوں میں نہ ہو۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے تمام خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔
۲۔ پہلا خون عادت کے دنوں میں نہ آئے اور دوسرا تمام خون یا اس کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے تو ضروری ہے کہ دوسرے تمام خون کو حیض اور پہلے کو استحاضہ قرار دے۔
۳۔ دوسرے اور پہلے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے اور ایام عادت میں آنے والا پہلا خون تین دن سے کم نہ ہو اس صورت میں وہ مدت بمع درمیان میں پاک رہنے کی مدت اور عادت کے دنوں میں آنے والے دوسرے خون کی مدت دس دن سے زیادہ نہ ہو تو دونوں میں خون حیض ہیں اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ پاکی کی مدت میں پاک عورت کے کام بھی انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔ اور دوسرے خون کی وہ مقدار جو عادت کے دنوں کے بعد آئے استحاضہ ہے۔ اور خون اول کی وہ مقدار جو ایام عادت سے پہلے آئی ہو اور عرفاً کہا جائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے تو وہ خون، حیض کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اگر اس خون پر حیض کا حکم لگانے سے دوسرے خون کی بھی کچھ مقدار جو عادت کے دنوں میں تھی یا سارے کا سارا خون، حیض کا حکم لگانے سے دوسرے خون کی بھی کچھ مقدار جو عادت کے دنوں میں تھی یا سارے کا سارا خون، حیض کے دس دن سے زیادہ ہو جائے تو اس صورت میں وہ خون، خون استحاضہ کا حکم رکھتا ہے مثلاً اگر عورت کی عادت مہینے کی تیسری سے دسویں تاریخ تک ہو اور اسے کسی مہینے کی پہلی سے چھٹی تاریخ تک خون آئے اور پھر دو دن کے لئے بند ہو جائے اور پھر پندرھویں تاریخ تک آئے تو تیسری سے دسویں تاریخ تک حیض ہے اور گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک آنے والا خون استحاضہ ہے۔
۴۔ پہلے اور دوسرے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے لیکن ایام عادت میں آنے والا پہلا خون تین دن سے کم ہو۔ اس صورت میں بعید نہیں ہے کہ جتنی مدت اس عورت کو ایام عادت میں خون آیا ہے اسے عادت سے پہلے آنے والے خون کی کچھ مدت کے ساتھ ملا کر تین دن پورے کرے اور انہیں ایام حیض قرار دے۔ پس اگر ایسا ہو کہ وہ دوسرے خون کی اس مدت کو جو عادت کے دنوں میں آیا ہے حیض قرار دے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مدت اور پہلے خون کی وہ مدت جسے حیض قرار دیا ہے اور ان کے درمیان پاکی کی مدت سب ملا کر دس دن سے تجاوز نہ کریں۔ تو یہ سب ایام حیض ہیں ورنہ دوسرا خون استحاضہ ہے۔ اور بعض صورتوں میں ضروری ہے کہ پہلے پورے خون کو حیض قرار دے۔ نہ کہ اس خاص مقدار کو جسے پہلے خون کی کمی پورا کرنے کے لئے وہ لازمی طور پر حیض قرار دیتی۔ اور اس میں دو شرطیں ہیں :
(اول)اسے اپنی عادت سے کچھ دن پہلے خون آیا ہو کہ اس کے باری میں یہ کہا جائے کہ اس کی عادت تبدیل ہو کر وقت سے پہلے ہو گئی ہے۔
(دوم) وہ اسے حیض قرار دے تو یہ لازم نہ آئے کہ اس کے دوسرے خون کی کچھ مقدار جو کہ عادت کے دنوں میں آیا ہو حیض کے دس دن سے زیادہ ہو جائے مثلاً اگر عورت کی عادت مہینے کی چوتھی تاریخ سے دس تاریخ تک تھی اور اسے مہینے کے پہلے دن سے چوتھے دن کے آخری وقت تک خون آئے اور دو دن کے لئے پاک ہو اور پھر دوبارہ اسے پندرہ تاریخ تک خون آئے تو اس صورت میں پہلا پورے کا پورا خون حیض ہے۔ اور اسی طرح دوسرا وہ خون بھی جو دسویں دن کے آخری وقت تک آئے حیض کا خون ہے۔
۴۹۰۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت خون نہ آئے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور وقت حیض کے دنوں کے برابر دنوں میں حیض کی علامات کے ساتھ اسے خون آئے تو ضروری ہے کہ اسی خون کو حیض قرار دے خواہ وہ عادت کے وقت سے پہلے آئے یا بعد میں آئے۔
۴۹۱۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت تین یا تین سے زیادہ دن تک خون آئے لیکن اس کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں سے کم یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد اسے دوبارہ اتنے دنوں کے لئے خون آئے جتنی اس کی عادت ہو تو اس کی چند صورتیں ہیں :
۱۔ دونوں خون کے دنوں اور ان کے درمیان پاک رہنے کے دنوں کو ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں دونوں خون ایک حیض شمار ہوں گے۔
۲۔ دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن یا دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں دونوں خون میں سے ہر ایک کو ایک مستقل حیض قرار دیا جائے گا۔
۳۔ ان دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن سے کم ہو لیکن ان دونوں خون کو اور درمیان میں پاک رہنے کی ساری مدت کو ملا کر دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔
۴۹۲۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے دس سے زیادہ دن تک خون آئے تو جو خون اسے عادت کے دنوں میں آئے خواہ وہ حیض کی علامات نہ بھی رکھتا ہو تب بھی حیض ہے اور جو خون عادت کے دنوں کے بعد آئے خواہ وہ حیض کی علامات بھی رکھتا ہو استحاضہ ہے۔ مثلاً اگر ایک ایسی عورت جس کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی سے ساتویں تاریخ تک ہو اسے پہلی سے بارہویں تاریخ تک خون آئے تو پہلے ساتھ دن حیض اور بقیہ پانچ دن استحاضہ کے ہوں گے۔
۲۔ وقت کی عادت رکھنے والی عورت
۴۹۳۔ جو عورتیں وقت کی عادت رکھتی ہیں اور ان کی عادت کی پہلی تاریخ معین ہو ان کی دو قسمیں ہیں :۔
۱۔ وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر خون آئے اور چند دنوں بعد بند ہو جائے لیکن دونوں مہینوں میں خون آنے کے دنوں کی تعداد مختلف ہو۔ مثلاً اسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ کو خون آئے لیکن پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن بند ہو۔ ایسی عورت کو چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنی عادت قرار دے۔
۲۔ وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر تین یا زیادہ دن آئے اور پھر بند ہو جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور ان تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے مع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بند رہا ہے دس سے زیادہ ہو لیکن دوسرے مہینے میں دنوں کی تعداد پہلے مہینے سے کم یا زیادہ ہو مثلاً پہلے مہینے میں آٹھ دن اور دوسرے مہینے میں نو دن بنتے ہوں تو اس عورت کو بھی چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنی حیض کی عادت کا پہلا دن قرار دے۔
۴۹۴۔ وہ عورت جو وقت کی عادت رکھتی ہے اگر اس کو عادت کے دنوں میں یا عادت سے دو تین دن پہلے خون آئے تو ضروری ہے کہ وہ عورت ان کا احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور اس صورت کی تفصیل مسئلہ ۴۸۶ میں گزر چکی ہے۔ لیکن ان دو صورتوں کے علاوہ مثلاً یہ کہ عادت سے اس قدر پہلے خون آئے کہ یہ نہ کہا جا سکے کہ عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عادت کی مدت کے علاوہ (یعنی دوسرے وقت میں ) خون آیا ہے یا یہ کہا جائے کہ عادت کے بعد خون آیا ہے چنانچہ وہ خون حیض کی علامات کے ساتھ آئے تو ضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اور اگر اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں لیکن وہ عورت یہ جان لے کہ خون تین دن تک جاری رہے گا تب بھی یہی حکم ہے۔ اور اگر یہ نہ جانتی ہو کہ خون تین دن تک جاری رہے گا یا نہیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ کام جو مستحاضہ پر واجب ہیں انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔
۴۹۵۔ جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہے اگر اسے عادت کے دنوں میں خون آئے اور اس خون کی مدت دس دن سے زیادہ ہو اور حیض کی نشانیوں کے ذریعے اس کی مدت معین نہ کر سکتی ہو تو اخوط یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قرار دے چاہے وہ رشتہ ماں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے زندہ ہو یا مردہ لیکن اس کی دو شرطیں ہیں :
۱۔ اسے اپنے حیض کی مقدار اور اس رشتہ دار عورت کی عادت کی مقدار میں فرق کا علم نہ ہو مثلاً یہ کہ وہ خود نوجوان ہو اور طاقت کے لحاظ سے قوی اور دوسری عورت عمر کے لحاظ سے یاس کے نزدیک ہو تو ایسی صورت میں معمولاً عادت کی مقدار کم ہوتی ہے اسی طرح وہ خود عمر کے لحاظ سے یاس کے نزدیک ہو اور رشتہ دار عورت نوجوان ہو۔
۲۔ اسے اس عورت کی عادت کی مقدار میں اور اس کی دوسری رشتہ دار عورتوں کی عادت کی مقدار میں کہ جن میں پہلی شرط موجود ہے اختلاف کا علم نہ ہو لیکن اگر اختلاف اتنا کم ہو کہ اسے اختلاف شمار نہ کیا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور اس عورت کے لئے بھی یہی حکم ہے جو وقت کی عادت رکھتی ہے اور عادت کے دنوں میں کوئی خون نہ آئے لیکن عادت کے وقت کے علاوہ کوئی خون آئے جو دس دن سے زیادہ ہو اور حیض کی مقدار کو نشانیوں کے ذریعے معین نہ کر سکے۔
۴۹۶۔ وقت کی عادت رکھنے والی عورت اپنی عادت کے علاوہ وقت میں آنے والے خون کو حیض قرار نہیں دے سکتی، لہذا اگر اسے عادت کا ابتدائی وقت معلوم ہو مثلاً ہر مہینے کی پہلی کو خون آتا ہو اور کبھی پانچویں اور کبھی چھٹی کو خون سے پاک ہوتی ہو چنانچہ اسے کسی ایک مہینے میں بارہ دن خون آئے اور وہ حیض کی نشانیوں کے ذریعے اس کی مدت معین نہ کر سکے تو چاہئے کہ مہینے کی پہلی کو حیض کی پہلی تاریخ قرار دے اور اس کی تعداد کے بارے میں جو کچھ پہلے مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اس پر عمل کرے۔ اور اگر اس کی عادت کی درمیانی یا آخری تاریخ معلوم ہو چنانچہ اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آئے تو ضروری ہے کہ اس کا حساب اس طرح کرے کہ آخری یا درمیانی تاریخ میں سے ایک اس کی عادت کے دنوں کے مطابق ہو۔
۴۹۷۔ جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو اور اسے دس دن سے زیادہ خون آئے اور اس خون کو مسئلہ ۴۹۵ میں بتائے گئے طریقے سے معین نہ کر سکے مثلاً اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں یا پہلے بتائی گئی دو شرطوں میں سے ایک شرط نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ تین دن سے دس دن تک جتنے دن حیض کی مقدار کے مناسب سمجھے حیض قرار دے۔ چھ یا آٹھ دنوں کو اپنے حیض کو مقدار کے مناسب سمجھنے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ ساتھ دنوں کو حیض قرار دے۔ لیکن ضروری ہے کہ جن دنوں کو وہ حیض قرار دے وہ دن اس کی عادت کے وقت کے مطابق ہوں جیسا کہ پہلے مسئلے میں بیان کیا جا چکا ہے۔
۳۔ عدد کی عادت رکھنے والی عورت
۴۹۸۔ جو عورتیں عدد کی عادت رکھتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ وہ عورت جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں یکساں ہو لیکن اس کے خون آنے کے وقت ایک جیسا نہ ہو اس صورت میں جتنے دن اسے خون آئے وہی اس کی عادت ہو گی۔ مثلاً اگر پہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک خون آئے تو اس کی عادت پانچ دن ہو گی۔
۲۔ وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں سے ہر ایک میں تین یا تین سے زیادہ دنوں تک خون آئے اور ایک یا اس سے زائد دنوں کے لئے بند ہو جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور خون آنے کا وقت پہلے مہینے اور دوسرے مہینے میں مختلف ہو اس صورت میں اگر ان تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے بمع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بند رہا ہے دس سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مہینوں میں سے ہر ایک میں ان کی تعداد بھی یکساں ہو تو وہ تمام دن جن میں خون آیا ہے اس کے حیض کی عادت کے دن شمار کئے جائیں گے اور ان درمیانی دنوں میں جن میں خون نہیں آیا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ جو کام پاک عورت پر واجب ہیں انجام دے اور جو کام حائض پر حرام ہیں انہیں ترک کرے مثلاً اگر پہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اور پھر دو دن کے لئے بند ہو جائے اور پھر دوبارہ تین دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں گیارہویں تاریخ سے تیرہویں تک خون آئے اور وہ دن کے لئے بند ہو جائے اور پھر دو بارہ تین دن خون آئے تو اس عورت کی عادت چھ دن کی ہو گی۔ اور اگر پہلے مہینے میں اس آٹھ دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں چار دن خون آئے اور پھر بند ہو جائے اور پھر دوبارہ آئے اور خون کے دنوں اور درمیان میں خون بند ہو جانے والے دنوں کی مجموعی تعداد آٹھ دن ہو تو ظاہراً یہ عورت عدد کی عادت نہیں رکھتی بلکہ مُضطَرِبہ شمار ہو گی۔ جس کا حکم بعد میں بیان کیا جائے گا۔
۴۹۹۔ جو عورت عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے اپنی عادت کی تعداد سے کم یا زیادہ دن خون آئے اور ان دنوں کی تعداد دس سے زیادہ ہو تو ان تمام دنوں کو حیض قرار دے۔ اور اگر اس کی عادت سے زیادہ خون آئے اور دس دن سے تجاوز کر جائے تو اگر تمام کا تمام خون ایک جیسا ہو تو خون آنے کی ابتدا سے لے کر اس کی عادت کے دنوں تک حیض اور باقی خون کو استحاضہ قرار دے۔ اور اگر آنے والا تمام خون ایک جیسا نہ ہو بلکہ کچھ دن حیض کی علامات کے ساتھ اور کچھ دن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہو پس اگر حیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ ان دنوں کو حیض اور باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے اور اگر ان دنوں کی تعداد جن میں خون حیض کی علامات کے ساتھ آیا ہو عادت کے دنوں سے زیادہ ہو تو صرف عادت کے دن حیض اور باقی دن استحاضہ ہے اور اگر حیض کے علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد عادت کے دنوں سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان دنوں کے ساتھ چند اور دنوں کو ملا کر عادت کی مدت پوری کرے اور ان کو حیض اور باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے۔
۴۔ مُضطَرِبَہ
۵۰۰۔ مضطربہ یعنی وہ عورت جسے چند مہینے خون آئے لیکن وقت اور عدد دونوں کے لحاظ سے اس کی عادت معین نہ ہوئی ہو اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آئے اور سارا خون ایک جیسا ہو مثلاً تمام خون یا حیض کی نشانیوں کے ساتھ یا استحاضہ کی نشانیوں کے ساتھ آیا ہو تو اس کا حکم وقت کی عادت رکھنے والی عورت کا حکم ہے کہ جسے اپنی عادت کے علاوہ وقت میں خون آئے اور علامات کے ذریعے حیض کو استحاضہ سے تمیز نہ دے سکتی ہو تو احتیاط کی بنا پر اسے چاہئے کہ اپنی رشتہ دار عورتوں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قرار دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو تین اور دس دن میں سے کسی ایک عدد کو اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ ۴۹۵ اور ۴۹۷ میں بیان کی گئی ہے اپنے حیض کی عادت قرار دے۔
۵۰۱۔ اگر مضطریہ کو دس دن سے زیادہ خون آئے جس میں سے چند دنوں کے خون میں حیض کی علامات اور چند دوسرے دنوں کے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو اگر وہ خون جس میں حیض کی علامات ہوں تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ مدت تک نہ آیا ہو تو اس تمام خون کو حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔ اور تین دن کم اور دس دن سے زیادہ ہو تو حیض کے دنوں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جو حکم سابقہ مسئلے میں گزر چکا ہے اس کے مطابق عمل کرے اور اگر اس سابقہ خون کو حیض قرار دیئے کے بعد دس دن گزرنے سے پہلے دوبارہ حیض کی علامات کی ساتھ خون آئے تو بعید نہیں کہ اس کے استحاضہ قرار دینا ضروری ہو۔
۵۔ مُبتَدِئَہ
۵۰۲۔ مبتدئہ یعنی اس عورت کو جسے پہلی بار خون آیا ہو دس دن سے زیادہ خون آئے اور وہ تمام خون جو متبدئہ کو آیا ہے جیسا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے کنبے والیوں کی عادت کی مقدار کو حیض اور باقی کو ان دو شرطوں کے ساتھ استحاضہ قرار دے جو مسئلہ ۴۹۵ میں بیان ہوئی ہیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ مسئلہ ۴۹۷ میں دی گئی تفصیل کے مطابق تین اور دس دن میں سے کسی ایک عدد کو اپنے حیض کے دن قرار دے۔
۵۰۳۔ اگر مبتدئہ کو دس سے زیادہ دن تک خون آئے جب کہ چند دن آنے والے خون میں حیض کی علامات اور چند دن آنے والے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو وہ سارا حیض ہے۔ لیکن جس خون میں حیض کی علامات تھیں اس کے بعد دس دن گزرنے سے پہلے دوبارہ خون آئے اور اس میں بھی حیض کی علامات ہوں مثلاً پانچ دن سیاہ خون اور نو دن زرد خون اور پھر دوبارہ پانچ دن سیاہ خون آئے تو اسے چاہئے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور بعد میں آنے والے دونوں خون کو استحاضۃ قرار دے جیسا کہ مضطربہ کے متعلق بتایا گیا ہے۔
۵۰۴۔ اگر مبتدئہ کو دس سے زیادہ دنوں تک خون آئے جو چند دن حیض کی علامات کے ساتھ اور چند دن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہو لیکن جس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم مدت تک آیا ہو تو چاہئے کہ اسے حیض قرار دے اور دنوں کی مقدار سے متعلق مسئلہ ۵۰۱ میں بتائے گئے طریقے پر عمل کرے۔
۶۔ نَاسِیَہ
۵۰۵۔ ناسیہ یعنی ناسیہ یعنی وہ عورت جو اپنی عادت کی مقدار بھول چکی ہو، اس کی چند قسمیں ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ عدد کی عادت رکھنے والی عورت اپنی عادت کی مقدار بھول چکی ہو اگر اس عورت کو کوئی خون آئے جس کی مدت تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ ان تمام دنوں کو حیض قرار دے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اس کے لئے مضطربہ کا حکم ہے جو مسئلہ ۵۰۰ اور ۵۰۱ میں بیان کیا گیا ہے صرف ایک فرق کے ساتھ اور وہ فرق یہ ہے کہ جن ایام کو وہ حیض قرار دے رہی ہے وہ اس تعداد سے کم نہ ہوں جس تعداد کے متعلق وہ جانتی ہے کہ اس کے حیض کے دنوں کی تعداد اس سے کم نہیں ہوتی (مثلاً یہ کہ وہ جانتی ہے کہ پانچ دن سے کم اسے خون نہیں آتا تو پانچ دن حیض قرار دے گی) اسی طرح ان ایام سے بھی زیادہ دنوں کو حیض قرار نہیں دے سکتی جن کے بارے میں اسے علم ہے کہ اس کی عادت کی مقدار ان دنوں سے زیادہ نہیں ہوتی (مثلاً وہ جانتی ہے کہ پانچ دن سے زیادہ اسے خون نہیں آتا تو پانچ دن سے زیادہ حیض قرار نہیں دے سکتی) اور اس جیسا حکم ناقص عدد رکھنے والی عورت پر بھی لازم ہے یعنی وہ عورت جسے عادت کے دنوں کی مقدار تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم ہونے میں شک ہو۔ مثلاً جسے ہر مہینے میں چھ یا ساتھ دن خون آتا ہو وہ حیض کی علامات کے ذریعے یا اپنی بعض کنبے والیوں کی عادت کے مطابق یا کسی اور ایک عدد کو اختیار کر کے دس دن سے زیادہ خون آنے کی صورت میں دونوں عددوں (چھ یا سات) سے کم یا زیادہ دنوں کو حیض قرار نہیں دے سکتی۔
حیض کے متفرق مسائل
۵۰۶۔ مُبتَدِئَہ، مُضطَرِبَہ، نَاسِیَہ اور عَدَد کی عادت رکھنے والی عورتوں کو اگر خون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں یا یقین ہو کہ یہ خون تین دن تک آئے گا تو انہیں چاہئے کہ عبادات ترک کر دیں اور اگر بعد میں انہیں پتہ چلے کہ یہ حیض نہیں تھا تو انہیں چاہئے کہ جو عبادات بجا نہ لائی ہوں ان کی قضا کریں۔
۵۰۷۔ جو عورت حیض کی عادت رکھتی ہو خواہ یہ عادت حیض کے وقت کے اعتبار سے ہو یا حیض کے عدد کے اعتبار سے یا وقت اور عدد دونوں کے اعتبار سے ہو۔ اگر اسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اپنی عادت کے برخلاف خون آئے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یا وقت اور ان دونوں کی تعداد یکساں ہو تو اس کی عادت جس طرح ان دو مہینوں میں اسے خون آیا ہے اس میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر پہلے اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتا تھا اور پھر بند ہو جاتا تھا مگر دو مہینوں میں اسے دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک خون آیا ہو اور پھر بند ہوا ہو تو اس کی عادت دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک ہو جائے گی۔
۵۰۸۔ ایک مہینے سے مراد خون کے شروع ہونے سے تیس دن تک ہے۔ مہینے کی پہلی تاریخ سے مہینے کے آخر تک نہیں ہے۔
۵۰۹۔ اگر کسی عورت کو عموماً مہینے میں ایک مرتبہ خون آتا ہو لیکن کسی ایک مہینے میں دو مرتبہ آ جائے اور اس خون میں حیض کی علامات ہوں تو اگر ان درمیانی دنوں کی تعداد جن میں اس خون نہیں آیا دس دن سے کم نہ ہو تو اسے چاہئے کہ دونوں خون کو حیض قرار دے۔
۵۱۰۔ اگر کسی عورت کو تین یا اس سے زیادہ دنوں تک ایسا خون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں اور اس کے بعد دس یا اس سے زیادہ دنوں تک ایسا خون آئے جس میں استحاضہ کی علامات ہوں اور پھر اس کے بعد دوبارہ تین دن تک حیض کی علامتوں کے ساتھ خون آئے تو اسے چاہئے کہ پہلے اور آخری خون کو جس میں حیض کی علامات ہوں حیض قرار دے۔
۵۱۱۔ اگر کسی عورت کا خون دس دن سے پہلے رک جائے اور اسے یقین ہو کہ اس کے باطن میں خون حیض نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے اگرچہ گمان رکھتی ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پہلے دوبارہ خون آ جائے گا۔ لیکن اگر اس یقین ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پہلے اسے دوبارہ خون آ جائے گا تو جیسے بیان ہو چکا اسے چاہئے کہ احتیاطاً غسل کرے اور اپنی عبادات بجا لائے اور جو چیزیں حائض پر حرام ہیں انہیں ترک کرے۔
۵۱۲۔ اگر کسی عورت کا خون دس دن گزرنے سے پہلے بند ہو جائے اور اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے باطن میں خون حیض ہے تو اسے چاہئے کہ اپنی شرم گاہ میں روئی رکھ کر کچھ دیر انتظار کرے۔ لیکن اس مدت سے کچھ زیادہ انتظار کرے جو عالم طور پر عورتیں حیض سے پاک ہونے کی مدت کے درمیان کرتی ہیں اس کے بعد نکالے پس اگر خون ختم ہو گیا ہو تو غسل کرے اور عبادات بجا لائے اور اگر خون بند نہ ہو یا ابھی اس کی عادت کے دس دن تمام نہ ہوئے ہوں تو اسے چاہئے کہ انتظار کرے اور اگر دس دن سے پہلے خون ختم ہو جائے تو غسل کرے اور اگر دسویں دن کے خاتمے پر خون آنا بند ہو یا خون دس دن کے بعد بھی آتا رہے تو دسویں دن غسل کرے اور اگر اس کی عادت دس دنوں سے کم ہو اور وہ جانتی ہو کہ دس دن ختم ہونے سے پہلے یا دسویں دن کے خاتمے پر خون بند ہو جائے تو غسل کرنا ضروری نہیں ہے اور اگر احتمال ہو کہ اسے دس دن تک خون آئے گا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک دن کے لئے عبادت ترک کرے اور دسویں دن تک بھی عبادت کو ترک کر سکتی ہے اور یہ حکم صرف اس عورت کے لئے مخصوص ہے جسے عادت سے پہلے لگاتار خون نہیں آتا تھا ورنہ عادت کے گزرنے کے بعد عبادت ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
۵۱۳۔ اگر کوئی عورت چند دنوں کو حیض قرار دے اور عبادت نہ کرے۔ لیکن بعد میں اسے پتہ چلے کہ حیض نہیں تھا تو اسے چاہئے کہ جو نمازیں اور روزے وہ دنوں میں بجا نہیں لائی ان کی قضا کرے اور اگر چند دن اس خیال سے عبادات بجا لاتی رہی ہو کہ حیض نہیں ہے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ حیض تھا تو اگر ان دنوں میں اس نے روزے بھی رکھے ہوں تو ان کی قضا کرنا ضروری ہے۔
نفاس
۵۱۴۔ بچے کا پہلا جزو ماں کے پیٹ سے باہر آنے کے وقت سے جو خون عورت کو آئے اگر وہ دس دن سے پہلے یا دسویں دن کے خاتمے پر بند ہو جائے تو وہ خون نفاس ہے اور نفاس کی حالت میں عورت کو نفساء کہتے ہیں۔
۵۱۵۔ جو خون عورت کو بچے کا پہلا جزو باہر آنے سے پہلے آئے وہ نفاس نہیں ہے۔
۵۱۶۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہو بلکہ اس کی خلقت نامکمل ہو تب بھی اگر اسے "بچہ جننا” کہا جا سکتا ہے تو وہ خون جو عورت کو دس دن تک آئے خون نفاس ہے۔
۵۱۷۔ یہ ہو سکتا ہے کہ خون نفاس ایک لحظہ سے زیادہ نہ آئے لیکن وہ دس دن سے زیادہ نہیں آتا۔
۵۱۸۔ اگر کسی عورت کو شک ہو کہ اسقاط ہوا ہے یا نہیں یا جو اسقاط ہوا وہ بچہ تھا یا نہیں تو اس کے لئے تحقیق کرنا ضروری نہیں اور جو خون اسے آئے وہ شرعاً نفاس نہیں ہے۔
۵۱۹۔ مسجد میں ٹھہرنا اور دوسرے افعال جو حائض پر حرام ہیں احتیاط کی بنا پر نفساء پر بھی حرام ہیں اور جو کچھ حائض پر واجب ہے وہ نفساء پر بھی واجب ہے۔
۵۲۰۔ جو عورت نفاس کی حالت میں ہو اسے طلاق دینا اور اس سے جماع کرنا حرام ہے لیکن اگر اس کا شوہر اس سے جماع کرے تو اس پر بلا اشکال کفارہ نہیں۔
۵۲۱۔ جب عورت نفاس کے خون سے پاک ہو جائے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات بجا لائے اور اگر بعد میں ایک یا ایک بار سے زیادہ خون آئے تو خون آنے والے دنوں کو پاک رہنے والے دنوں سے ملا کر اگر دس دن یا دس دن سے کم ہو تو سارے کا سارا خون نفاس ہے۔ اور ضروری ہے کہ درمیان میں پاک رہنے کے دنوں میں احتیاط کی بنا پر جو کام پاک عورت پر واجب ہیں انجام دے اور جو کام نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے اور اگر ان دنوں میں کوئی روزہ رکھا ہو تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔ اور اگر بعد میں آنے والا خون دس دن سے تجاوز کر جائے اور وہ عورت عدد کی عادت نہ رکھتی ہو تو خون کی وہ مقدار جو دس دن کے اندر آئی ہے اسے نفاس اور دس دن کے بعد آنے والے خون کو استحاضہ قرار دے۔ اور اگر وہ عورت عدد کی عادت رکھتی ہو تو ضروری ہے کہ احتیاطاً عادت کے بعد آنے والے خون کی تمام مدت میں جو کام مستحاضہ کے لئے ہیں انجام دے اور جو کام نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے۔
۵۲۲۔ اگر عورت خون نفاس سے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اس کے باطن میں خون نفاس ہے تو اسے چاہئے کہ کچھ روئی اپنی شرم گاہ میں داخل کرے اور کچھ دیر انتظار کرے پھر اگر وہ پاک ہو تو عبادات کے لئے غسل کرے۔
۵۲۳۔ اگر عورت کو نفاس کا خون دس دن سے زیادہ آئے اور وہ حیض میں عادت رکھتی ہو تو عادت کے برابر دنوں کی مدت نفاس اور باقی استحاضہ ہے اور اگر عادت نہ رکھتی ہو تو دس دن تک نفاس اور باقی استحاضہ ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو عورت عادت رکھتی ہو وہ عادت کے بعد کے دن سے اور جو عورت عادت نہ رکھتی ہو وہ دسویں دن کے بعد سے بچے کی پیدائش کے اٹھارہویں دن تک استحاضہ کے افعال بجا لائے اور وہ کام جو نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے۔
۵۴۴۔ اگر کسی عورت کو جس کی حیض کی عادت دس دن سے کم ہو اپنی عادت سے زیادہ دن خون آئے تو اسے چاہئے کہ اپنی عادت کے دنوں کی تعداد کو نفاس قرار دے اور اس کے بعد اسے اختیار ہے کہ دس دن تک نماز ترک کرے یا مستحاضہ کے احکام پر عمل کرے لیکن ایک دن کی نماز ترک کرنا بہتر ہے۔ اور اگر خون دس دن کے بعد بھی آتا رہے تو اسے چاہئے کہ عادت کے دنوں کے بعد دسویں دن تک بھی استحاضہ قرار دے اور جو عبادات وہ ان دنوں میں بجا نہیں لائی ان کی قضا کرے۔ مثلاً جس عورت کی عادت چھ دنوں کی ہو اگر اسے چھ دن سے زیادہ خون آئے تو اسے چاہئے کہ چھ دنوں کو نفاس قرار دے۔ اور ساتویں ، آٹھویں ، نویں اور دسویں دن اسے اختیار ہے کہ یا تو عبادت ترک کرے یا استحاضہ کے افعال بجا لائے اور اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آیا ہو تو اس کی عادت کے بعد کے دن سے وہ استحاضہ ہو گا۔
۵۲۵۔ جو عورت حیض میں عادت رکھتی ہو اگر اسے بچہ جننے کے بعد ایک مہینے تک یا ایک مہینے سے زیادہ مدت تک لگاتار خون آتا رہے تو اس کی عادت کے دنوں کی تعداد کے برابر خون نفاس ہے اور جو خون، نفاس کے بعد دس دن تک آئے خواہ وہ اس کی ماہانہ عادت کے دنوں میں آیا ہو استحاضہ ہے۔ مثلاً ایسی عورت جس کے حیض کی عادت ہر مہینے کی بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک ہو اگر وہ مہینے کی دس تاریخ کو بچہ جنے اور ایک مہینے یا اس سے زیادہ مدت تک اسے متواتر خون آئے تو سترھویں تاریخ تک نفاس اور سترھویں تاریخ سے دس دن تک کا خون حتی کہ وہ خون بھی جو بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک اس کی عادت کے دنوں میں آیا ہے استحاضہ ہو گا اور دس دن گزرے کے بعد جو خون اسے آئے اگر وہ عادت کے دنوں میں ہو تو حیض ہے خواہ اس میں حیض کی علامات ہوں یا نہ ہوں۔ اور اگر وہ خون اس کی عادت کے دنوں میں نہ آیا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی عادت کے دنوں کا انتظار کرے اگرچہ اس کے انتظار کی مدت ایک مہینہ یا ایک مہینے سے زیادہ ہو جائے اور خواہ اس مدت میں جو خون آئے اس میں حیض کی علامات ہوں۔ اور اگر وہ وقت کی عادت والی عورت نہ ہو اور اس کے لئے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ وہ اپنے حیض کو علامات کے ذریعے معین کرے اور اگر ممکن نہ ہو جیسا کہ نفاس کے بعد دس دن جو خون آئے وہ سارا ایک جیسا ہو اور ایک مہینہ یا چند مہینے ا نہی کے ساتھ آتا رہے تو ضروری ہے کہ ہر مہینے میں اپنے کنبے کی بعض عورتوں کے حیض کی جو صورت ہو وہی اپنے لئے قرار دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جو عدد اپنے لئے مناسب سمجھتی ہے اختیار کرے اور ان تمام امور کی تفصیل حیض کی بحث میں گزر چکی ہے۔
۵۲۶۔ جو عورت حیض میں عدد کے لحاظ سے عادت نہ رکھتی ہو اگر اسے بچہ جننے کے بعد ایک مہینے تک یا ایک مہینے سے زیادہ مدت تک خون آئے تو اس کے پہلے دس دنوں کے لئے وہی حکم ہے جس کا ذکر مسئلہ ۵۲۳ میں آ چکا ہے اور دوسری دہائی میں جو خون آئے وہ استحاضہ ہے اور جو خون اسے اس کے بعد آئے ممکن ہے وہ حیض ہو اور ممکن ہے استحاضہ ہو اور حیض قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس حکم کے مطابق عمل کرے جس کا ذکر سابقہ مسئلہ میں گزر چکا ہے۔
غسل مس میت
۵۲۷۔ اگر کوئی شخص کسی ایسے مردہ انسان کے بدن کو چھوئے جو ٹھنڈا ہو چکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گیا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ اس سے لگائے تو اسے چاہئے کہ غسل مس میت کرے خواہ اس نے نیند کی حالت میں مردے کا بدن چھوا ہو یا بیداری کے عالم میں اور خواہ ارادی طور پر چھوا ہو یا غیر ارادی طور پر حتی کہ اگر اس کا ناخن یا ہڈی مردے کے ناخن یا ہڈی سے چھو جائے تب بھی اسے چاہئے کہ غسل کرے لیکن اگر مردہ حیوان کو چھوئے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
۵۲۸۔ جس مردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو اسے چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ چھوا ہو وہ ٹھنڈا ہو چکا ہو۔
۵۲۹۔ اگر کوئی شخص اپنے بال مردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مردے کے بالوں سے لگائے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
۵۳۰۔ مردہ بچے کو چھونے پر حتی کہ ایسے سقط شدہ بچے کو چھونے پر جس کے بدن میں روح داخل ہو چکی ہو غسل مس میت واجب ہے اس بنا پر اگر مردہ بچہ پیدا ہو اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو چکا ہو اور وہ ماں کے ظاہری حصے کو چھو جائے تو ماں کو چاہئے کہ غسل مس میت کرے بلکہ اگر ظاہری حصے کو مس نہ کرے تب بھی ماں کو چاہئے کہ احتیاط واجب کی بنا پر غسل مس میت کرے۔
۵۳۱۔ جو بچہ ماں کے مر جانے اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو جانے کے بعد پیدا ہو اگر وہ ماں کے بدن کے ظاہری حصے کو مس کرے تو اس پر واجب ہے کہ جب بالغ ہو تو غسل مس میت کرے بلکہ اگر ماں کے بدن کے ظاہری حصے کو مس نہ کرے تب بھی احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ بچہ بالغ ہونے کے بعد غسل مس میت کرے۔
۵۳۲۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی میت کو مس کرے جسے تین غسل مکمل طور پر دیئے جا چکے ہوں تو اس پر گسل واجب نہیں ہوتا لیکن اگر وہ تیسرا عمل مکمل ہونے سے پہلے اس کے بدن کے کسی حصے کو مس کرے تو خواہ اس حصے کو تیسرا غسل دیا جا چکا ہو اس شخص کے لئے غسل مس میت کرنا ضروری ہے۔
۵۳۳۔ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ میت کو مس کرے تو دیوانے کو عاقل ہونے اور بچے کو بالغ ہونے کے بعد غسل مس میت کرنا ضروری ہے۔
۵۳۴۔ اگر کسی زندہ شخص کے بدن سے یا کسی ایسے مردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گیا ہو ایک حصہ جدا ہو جائے اور اس سے پہلے کہ جدا ہونے والے حصے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مس کر لے تو قول اقوی کی بنا پر اگرچہ اس حصے میں ہڈی ہو غسل مس میت کرنا ضروری نہیں۔
۵۳۵۔ ایک ایسی ہڈی کے مس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گیا ہو خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے غسل واجب نہیں ہے اور دانت خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئے ہوں یا زندہ شخص کے بدن سے ان کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
۵۳۶۔ غسل مس میت کا طریقہ وہی ہے جو غسل جنابت کا ہے لیکن جس شخص نے میت کو مس کیا ہو اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔
۵۳۷۔ اگر کوئی شخص کئی میتوں کو مس کرے یا ایک میت کو کئی بار مس کرے تو ایک غسل کافی ہے۔
۵۳۷۔ جس شخص نے میت کو مس کرنے کے بعد غسل نہ کیا ہو اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنا اور بیوی سے جماع کرنا اور ان آیات کا پڑھنا جن میں سجدہ واجب ہے ممنوع نہیں ہے لیکن نماز اور اس جیسی عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔
مُحتَضَر کے اَحکام
۵۳۹۔ جو مسلمان محتضر ہو یعنی جاں کنی کی حالت میں ہو خواہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، اسے احتیاط کی بنا پر بصورت امکان پشت کے بل یوں لٹانا چاہئے کہ اس کے پاوں کے تلوے قبلہ رخ ہوں۔
۵۴۰۔ اولی یہ ہے کہ جب تک میت کا غسل مکمل نہ ہو اسے بھی روبقبلہ لٹائیں لیکن جب اس کا غسل مکمل ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے اس حالت میں لٹائیں جس طرح اس نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہیں۔
۵۴۱۔ جو شخص جاں کنی کی حالت میں ہو اسے احتیاط کی بنا پر رو بقبلہ لٹانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ لہذا وہ شخص جو جاں کنی کی حالت میں ہے راضی ہو اور قاصر بھی نہ ہو (یعنی بالغ اور عاقل ہو) تو اس کام کے لئے اس کے ولی کی اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں اس کے ولی سے اجازت لینا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے۔
۵۴۲۔ مستحب ہے کہ جو شخص جاں کنی کی حالت میں ہو اس کے سامنے شَہادتَین، بارہ اماموں کے نام اور دوسرے دینی عقائد اس طرح دہرائے جائیں کہ وہ سمجھ لے۔ اور اس کی موت کے وقت تک ان چیزوں کی تکرار کرنا بھی مستحب ہے۔
۵۴۳۔ مستحب ہے کہ جو شخص جاں کنی کی حالت میں ہو اسے مندرجہ ذیل دعا اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے :
"اَللّٰھُمَّ اغفِرلِیَ مِن مَّعاصِیکَ وَاقبَل مِنّی الیَسِیرَ مِن طَاعَتِک یَامَن یَّقبَلُ الیَسِیرَ وَ یَعفُو عَنِ الکَثِیرِ اقبَل مِنّی الیَسِیرَ وَاعفُ عَنّی الکَثِیرَ اِنَّکَ اَنتَ العَفُوُّ الغَفُورُ ارحَمنِی فَاِنَّکَ رَحِیم”
۵۴۴۔ کسی کی جان سختی سے نکل رہی ہو تو اگر اسے تکلیف نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جہاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا مُستحب ہے۔
۵۴۵۔ جو شخص جاں کنی کے عالم میں ہو اس کی آسانی کے لئے (یعنی اس مقصد سے کہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے ) اس کے سرہانے سورہ یَسین، سُورہ صَافّات، سورہ اَحزاب، آیتُ الکُرسی اور سُورہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورۃ بَقَرہ کی آخری تین آیات پڑھنا مُستحب ہے بلکہ قرآن مجید جتنا بھی پڑھا جا سکے پڑھا جائے۔
۵۴۶۔ جو شخص جاں کنی کے عالم میں ہو اسے تنہا چھوڑنا اور کوئی بھاری چیز اس کے پیٹ پر رکھنا اور جُنُب اور حائض کا اس کے قریب ہونا اسی طرح کے پاس زیادہ باتیں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو چھوڑنا مکروہ ہے۔
مرنے کے بعد کے احکام
۵۴۷۔ مستحب ہے کہ مرنے کے بعد میت کی آنکھیں اور ہونٹ بند کر دیئے جائیں اور اس کی ٹھوڑی کو باندھ دیا جائے نیز اس کے ہاتھ اور پاوں سیدھے کر دیئے جائیں اور اس کے اوپر کپڑا ڈال دیا جائے۔ اور اگر موت رات کو واقع ہو تو جہاں موت واقع ہوئی ہو وہاں چراغ جلائیں (روشنی کر دیں ) اور جنازے میں شرکت کے لئے مومنین کو اطلاع دیں اور میت کو دفن کرنے میں جلدی کریں لیکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقین نہ ہو تو انتظار کریں تاکہ صورت حال واضح ہو جائے۔ علاوہ ازیں اگر میت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے میں اتنا توقف کریں کہ اس کا پہلو چاک کر کے بچہ باہر نکال لیں اور پھر اس پہلو کوسی دیں۔
غسل،کفن،نماز اور دفن کا وجوب
۵۴۸۔ کسی مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز میت اور دفن خواہ وہ اثنا عشری شیعہ نہ بھی ہو اس کے ولی پر واجب ہے۔ ضروری ہے کہ ولی خود ان کاموں کو انجام دے یا کسی دوسرے کو ان کاموں کے لئے معین کرے اور اگر کوئی شخص ان کاموں کو ولی کی اجازت سے انجام دے تو ولی پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے بلکہ اگر دفن اور اس کی مانند دوسرے امور کو کوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر انجام دے تب بھی ولی سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور ان امور کو دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں اور اگر میت کا کوئی ولی نہ ہو یا ولی ان کاموں کو انجام دینے سے منع کرے تب بھی باقی مکلف لوگوں پر واجب کفائی ہے کہ میت کے ان کاموں کو انجام دیں اور اگر بعض مکلف لوگوں نے انجام دیا تو دوسروں پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ چناچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو تمام مکلف لوگ گناہ گار ہوں گے اور ولی کے منع کرنے کی صورت میں اس سے اجازت لینے کی شرط ختم ہو جاتی ہے۔
۵۴۹۔ اگر کوئی شخص تجہیز و تکفین کے کاموں میں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے اس بارے میں کوئی اقدام کرنا واجب نہیں لیکن اگر وہ ان کاموں کو ادھورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
۵۵۰۔ اگر کسی شخص کو اطمینان ہو کہ کوئی دوسرا میت (کو نہلانے ،کفنانے اور دفنانے ) کے کاموں میں مشغول ہے تو اس پر واجب نہیں ہے کہ میت کے (متذکرح) کاموں کے بارے میں اقدام کرے لیکن اگر اسے (متذکرہ کاموں کے نہ ہونے کا) محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔
۵۵۱۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ میت کا غسل یا کفن یا نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے لیکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو (یعنی یقین نہ ہو) یا شک ہو کہ درست تھا یا نہیں تو پھر اس بارے میں کوئی اقدام کرنا ضروری نہیں۔
۵۵۲۔ عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اور عورت کے علاوہ وہ اشخاص کہ جن کو میت سے میراچ ملتی ہے اسی ترتیب سے جس کا ذکر میراث کے مختلف طبقوں میں آئے گا دوسروں پر مقدم ہیں۔ میت کا باپ میت کے بیٹے پر اور میت کا دادا اس کے بھائی پر اور میت کا پدری و مادری بھائی اس کے صرف پدری بھائی یا مادری بھائی پر اس کا پدری بھائی اس کے مادری بھائی پر۔ اور اس کے چچا کے اس کے ماموں پر مقدم ہونے میں اشکال ہے چنانچہ اس سلسلے میں احتیاط کے (تمام) تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
۵۵۳۔ نابالغ بچہ اور دیوانہ میت کے کاموں کو انجام دینے کے لئے ولی نہیں بن سکتے اور بالکل اسی طرح وہ شخص بھی جو غیر حاضر ہو وہ خود یا کسی شخص کو مامور کر کے میت سے متعلق امور کو انجام نہ دے سکتا ہو تو وہ بھی ولی نہیں بن سکتا۔
۵۵۴۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میں میت کا ولی ہوں یا میت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کہے کہ میں میت کے دفن سے متعلق کاموں میں میت کا وصی ہوں اور اس کے کہنے سے اطمینان حاصل ہو جائے یا میت اس کے تصرف میں ہو یا دو عادل شخص گواہی دیں تو اس کا قول قبول کر لینا چاہئے۔
۵۵۵۔ اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن،دفن اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ میں ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کو میت نے وصیت کی ہو کہ وہ خود ان کاموں کو انجام دینے کا ذمہ دار بنے اور اس وصیت کو قبول کرے لیکن اگر قبول کر لے تو ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے۔
غسل میت کی کیفیت
۵۵۶۔ میت کو تین غسل دینے واجب ہیں : پہلے ایسے پانی سے جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں ، دوسرا ایسے پانی سے جس میں کافور ملا ہوا ہو اور تیسرا خالص پانی سے۔
۵۵۷۔ ضروری ہے کہ بیری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ نہ کہا جا سکے کہ بیری اور کافور اس پانی میں نہیں ملائے گئے ہیں۔
۵۵۸۔ اگر بیری اور کافور اتنی مقدار میں نہ مل سکیں جتنی کہ ضروری ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار میسر آئے پانی میں ڈال دی جائے۔
۵۵۹۔ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں مر جائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کے بجائے خالص پانی سے غسل دینا چاہئے لیکن اگر وہ حج تَمتّع کا اِحرام ہو اور وہ طواف اور طواف کی نماز اور سعی کو مکمل کر چکا ہو یا حج قران یا افراد کے احرام میں ہو اور سر منڈا چکا ہو تو ان دو صورتوں میں اس کو کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے۔
۵۶۰۔ اگر بیری اور کافور یا ان میں سے کوئی ایک نہ مل سکے یا اس کا استمعال جائز نہ ہو مثلاً یہ کہ عصبی ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ ان میں سے ہر اس چیز کے بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو میت کو خالص پانی سے غسل دیا جائے اور ایک تیمم بھی کرایا جائے۔
۵۶۱۔ جو شخص میت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ عقل مند اور مسلمان ہو اور قول مشہور کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ اثنا عشری ہو اور غسل کے مسائل سے بھی واقف ہو اور ظاہر یہ ہے کہ جو بچہ اچھے اور برے کی تمیز رکھتا ہو اگر وہ غسل کو صحیح طریقے سے انجام دے سکتا ہو تو اس کا غسل دینا بھی کافی ہے چنانچہ اگر غیر اثنا عشری مسلمان کی میت کو اس کا ہم مذہب اپنے مذہب کے مطابق غسل دے تو مومن اثنا عشری سے ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ اثنا عشری شخص میت کا ولی ہو تو اس صورت میں ذمہ داری اس سے ساقط نہیں ہوتی۔
۵۶۲۔ جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ وہ قربت کی نیت رکھتا ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے غسل دے۔
۵۶۳۔ مسلمان کے بچے کو خواہ وہ وَلَدُالّزَنا ہی کیوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غسل، کفن اور دفن شریعت میں نہیں ہے اور جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت میں ہی بالغ ہو جائے اگر وہ اسلام کے حکم میں ہو تو ضروری ہے کہ اسے غسل دیں۔
۵۶۴۔ اگر ایک بچہ چار مہینے یا اس سے زیادہ کا ہو کرساقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے بلکہ اگر چار مہینے سے بھی کم کا ہو لیکن اس کا پورا بدن بن چکا ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کو غسل دینا ضروری ہے۔ ان دو صورتوں کی علاوہ احتیاط کی بنا پر اسے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر غسل دیئے دفن کر دینا چاہئے۔
۵۶۵۔ مرد عورت کو غسل نہیں دے سکتا اسی طرح عورت مرد کو غسل نہیں دے سکتی۔ لیکن بیوی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے اور شوہر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو حالت اختیار میں غسل نہ دے۔
۵۶۶۔ مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو ممیز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے لڑکے کو غسل دے سکتی ہے جو ممیز نہ ہو۔
۵۶۷۔ اگر مرد کی میت کو غسل دینے کے لئے مرد نہ مل سکے تو وہ عورتیں جو اس کی قرابت دار اور محرم ہوں مثلاً ماں ، بہن،پھوپھی اور خالہ یا وہ عورتیں جو رضاعت یا نکاح کے سبب سے اس کی محرم ہو گئی ہوں اسے غسل دے سکتی ہیں اور اسی طرح اگر عورت کی میت کو غسل دینے کے لئے کوئی اور عورت نہ ہو تو جو مرد اس کے قرابت دار اور محرم ہوں یا رضاعت یا نکاح کے سبب سے اس کے محرم ہو گئے ہوں اسے غسل دے سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں لباس کے نیچے سے غسل دینا ضروری نہیں ہے اگرچہ اس طرح غسل دینا احوط ہے سوائے شرمگاہوں کے (جنہیں لباس کے نیچے ہی سے غسل دینا چاہئے )۔
۵۶۸۔ اگر میت اور غَسَّال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ میت کا بقی بدن برہنہ ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ لباس کے نیچے سے غسل دیا جائے۔
۵۶۹۔ میت کی شرم گاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص اسے غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہ گار ہے لیکن اس سے غسل باطل نہیں ہوتا۔
۵۷۰۔ اگر میت کے بدن کے کسی حصے پر عین نجاست ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کو غسل دینے سے پہلے عین نجس دور کرے اورع اَولیٰ یہ ہے کہ غسل شروع کرنے سے پہلے میت کا تمام بدن پاک ہو۔
۵۷۱۔ غسل میت غسل جنابت کی طرح ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک میت کو غسل ترتیبی دینا ممکن ہو غسل اِرتماسی نہ دیا جائے اور غسل ترتیبی میں بھی ضروری ہے کہ داہنی طرف کی بائیں طرف سے پہلے دھویا جائے اور اگر ممکن ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر بدن کے تینوں حصوں میں سے کسی حصے کو پانی میں نہ ڈبویا جائے بلکہ پانی اس کے اوپر ڈالا جائے۔
۵۷۲۔ جو شخص حیض یا جنابت کی حالت میں مر جائے اسے غسل حیض یا غسل جنابت دینا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف غسل میت اس کے لئے کافی ہے۔
۵۷۳۔ میت کو غسل دینے کی اجرت لینا احتیاط کی بنا پر حرام ہے اور اگر کوئی شخص اجرت لینے کے لئے میت کو اس طرح غسل دے کہ یہ غسل دینا قصد قربت کے منافی ہو تو غسل باطل ہے لیکن غسل کے ابتدائی کاموں کی اجرت لینا حرام نہیں ہے۔
۵۷۴۔ میت کے غسل میں غسل جبِیرہ جائز نہیں ہے اور اگر پانی میسر نہ ہو یا اس کے استعمال میں کوئی امر مانع ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے میت کو ایک تیمم کرائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تین تیمم کرائے جائیں اور ان تین تیمم میں سے ایک مَافیِ الذِّمَّہ کی نیت کرے یعنی جو شخص تیمم کرا رہا ہو یہ نیت کرے کہ یہ تیمم اس شرعی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے کرا رہا ہوں جو مجھ پر واجب ہے۔
۵۷۵۔ جو شخص میت کو تیمم کرا رہا ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور میت کے چہرے اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو میت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تیمم کرائے۔
کفن کے احکام
۵۷۶۔ مسلمان میت کو تین کپڑوں کو کفن دینا ضروری ہے جنہیں لنگ، کُرتا اور چادر کہا جاتا ہے۔
۵۷۷۔ احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ لنگ ایسی ہو جو ناف سے گھٹنوں تک بدن کی اطراف کو ڈھانپ لے اور بہتر یہ ہے کہ سینے سے پاوں تک پہنچے اور (کُرتہ یا) پیراہن احتیاط کی بنا پر ایسا ہو کہ کندھوں کے سروں سے آدھی پنڈلیوں تک تمام بدن کو ڈھانپے اور بہتر یہ ہے کہ پاوں تک پہنچے اور چادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ پورے بدن کو ڈھانپ دے اور احتیاط یہ ہے کہ چادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ میت کے پاوں اور سر کی طرف سے گرہ دے سکیں اور اس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہئے کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارہ پر آسکے۔
۵۷۸۔ لنگ کی اتنی مقدار جو ناف سے گھٹنوں تک کے حصے کو ڈھانپ لے اور (کُرتے یا) پیراہن کی اتنی مقدار ہو جو کندھے سے نصف پنڈلی ڈھانپ لے کفن کے لئے واجب ہے اور اس مقدار سے زیادہ جو کچھ سابقہ مسئلے میں بتایا گیا ہے وہ کفن کی مستحب مقدار ہے۔
۵۷۹۔ واجب مقدار کی حد تک کفن جس کا ذکر سابقہ مسئلہ میں ہو چکا ہے میت کے اصل مال سے لیا جاتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ مستحب مقدار کی حد تک کفن میت کی شان اور عرف عام کو پیش نظر رکھتے ہوئے میت کے اصل مال سے لیا جائے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ واجب مقدار سے زائد کفن ان وارثوں کے حصے سے نہ لیا جائے جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں۔
۵۸۰۔ اگر کسی شخص نے وصیت کی ہو کہ مستحب کفن کی مقدار جس کا ذکر دو سابقہ مسائل میں آچکا ہے اس کے تھائی مال سے لی جائے یا یہ وصیت کی ہو کہ اس کا تھائی مال خود اس پر خرچ کیا جائے لیکن اس کے مَصرَف کا تعین نہ کیا ہو یا صرف اس کے کچھ حصے کے مَصرَف کا تعین کیا ہو تو مستحب کفن اس کے تھائی مال سے لیا جا سکتا ہے۔
۵۸۱۔ اگر مرنے والے نے یہ وصیت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تھائی مال سے لیا جائے اور متعلقہ اشخاص چاہیں کہ اس کے اصل مال سے لیں تو جو بیان مسئلہ ۵۷۹ میں گزر چکا ہے اس سے زیادہ نہ لیں مثلاً وہ مستحب کام جو کہ معمولا انجام نہ دیئے جاتے ہوں اور جو میت کی شان کے مطابق بھی نہ ہوں تو ان کی ادائیگی کے لئے ہرگز اصل مال سے نہ لیں اور بالکل اسی طرح اگر کفن معمول سے زیادہ قیمتی ہو تو اضافی رقم کو میت کے اصل مال سے نہیں لینا چاہئے لیکن جو ورثاء بالغ ہیں اگر وہ اپنے حصے میں سے لینے کی اجازت دیں تو جس حد تک وہ لوگ اجازت دیں ان کے حصے سے لیا جا سکتا ہے۔
۵۸۲۔ عورت کے کفن کی ذمہ داری شوہر پر ہے خواہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو اس تفصیل کے مطابق جو طلاق کے احکام میں آئے گی طلاق رَجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پہلے مر جائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے۔ اور اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو شوہر کے ولی کو چاہئے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے۔
۵۸۳۔ میت کو کفن دینا اس کے قرابت داروں پر واجب نہیں گو اس کی زندگی میں اخراجات کی کفالت ان پر واجب رہی ہو۔
۵۸۴۔ احتیاط یہ ہے کہ کفن کے تینوں کپڑوں میں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر آئے لیکن اگر اس طرح ہو کہ تینوں کپڑوں کو ملا کر میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر نہ آئے تو بنا بر اقوی کافی ہے۔
۵۸۵۔ غصب کی ہوئی چیز کا کفن دینا خواہ کوئی دوسری چیز میسر نہ ہو تب بھی جائز نہیں ہے پس اگر میت کا کفن غَصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اتار لینا چاہئے خواہ اس کو دفن بھی کیا جاچکا ہو لیکن بعض صورتوں میں (اس کے بدن سے کفن اتارنا جائز نہیں ) جس کی تفصیل کی گنجائش اس مقام پر نہیں ہے۔
۵۸۶۔ میت کو نجس چیز یا خالص ریشمی کپڑے کا کفن دینا (جائز نہیں ) اور احتیاط کی بنا پر سونے کے پانی سے کام کئے ہوئے کپڑے کا کفن دینا (بھی) جائز نہیں لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۵۸۷۔ میت کو نجش مُردار کی کھال کا کفن دینا اختیاری حالت میں جائز نہیں ہے بلکہ پاک مُردار کی کھال کو کفن دینا بھی جائز نہیں ہے اور احتیاط کی بنا پر کسی ایسے کپڑے کا کفن دینا جو ریشمی ہو یا اس جانور کی اون سے تیار کیا گیا ہو جس کا گوشت کھانا حرام ہو اختیاری حالت میں جائز نہیں ہے لیکن اگر کفن حلال گوشت جانور کی کھال یا بال اور اون کا ہو تو کوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کا بھی کفن نہ دیا جائے۔
۵۸۸۔ اگر میت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے تو (نجاست لگنے سے ) کفن ضائع نہیں ہوتا (ایسی صورت میں ) جتنا حصہ نجس ہوا ہو اسے دھونا یا کاٹنا ضروری ہے خواہ میت کو قبر میں ہی کیوں نہ اتارا جاچکا ہو۔ اور اگر اس کا دھونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو لیکن بدل دینا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ بدل دیں۔
۵۸۹۔ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کا احرام باندھ رکھا ہو تو اسے دوسروں کی طرح کفن پہنانا ضروری ہے اور اس کا سر اور چہرہ ڈھانک دینے میں کوئی حرج نہیں۔
۵۹۰۔ انسان کے لئے اپنی زندگی میں کفن، بیری اور کافور کا تیار رکھنا مستحب ہے۔
حَنُوط کے احکام
۵۹۱۔ غسل دینے کے بعد واجب ہے کہ میت کو حنوط کیا جائے یعنی اس کی پیشانی، دونوں ہتھیلیوں ، دونوں پاوں کے انگوٹھوں پر کافور اس طرح ملا جائے کہ کچھ کافور اس پر باقی رہے خواہ کچھ کافور بغیر ملے باقی بچے اور مستحب یہ ہے کہ میت کی ناک پر بھی کافور ملا جائے۔ کافور پسا ہوا اور تازہ ہونا چاہئے اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہو گئی ہو تو کافی نہیں۔
۵۹۲۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ کافور پہلے میت کی پیشانی پر ملا جائے لیکن دوسرے مقامات پر ملنے میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔
۵۹۳۔ بہتر یہ ہے کہ میت کو کفن پہنانے سے پہلے حنوط کیا جائے۔ اگرچہ کفن پہنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حنوط کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۵۹۴۔ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھ رکھا ہو تو اسے حنوط کرنا جائز نہیں ہے مگر ان دو صورتوں میں (جائز ہے ) جن کا ذکر مسئلہ ۵۵۹ میں گزر چکا ہے۔
۵۹۵۔ ایسی عورت جس کا شوہر مر گیا ہو اور ابھی اس کی عدت باقی ہو اگرچہ خوشبو لگانا اس کے لئے حرام ہے لیکن اگر وہ مر جائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے۔
۵۹۶۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت کو مشک،عنبر، عُود اور دوسری خوشبوئیں نہ لگائی جائیں اور انہیں کافور کے ساتھ بھی نہ ملایا جائے۔
۵۹۷۔ مستحب ہے کہ سَید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی مٹی (خاک شفا) کی کچھ مقدار کافور میں ملا لی جائے لیکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہیں لگانا چاہئے جہاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب وہ کافور کے ساتھ مل جائے تو اسے کافور نہ کہا جا سکے۔
۵۹۸۔ اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط کرنا ضروری نہیں اور اگر غسل کی ضروری سے زیادہ ہو لیکن تمام سات اعضا کے لئے کافی نہ ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر چاہئے کہ پہلے پیشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پر ملا جائے۔
۵۹۹۔ مستحب ہے کہ (درخت کی) دو تر و تازہ ٹھنیاں میت کے ساتھ قبر میں رکھی جائیں۔
نماز میت کے احکام
۶۰۰۔ ہر مسلمان کی میت پر اور ایسے بچے کی میت پر جو اسلام کے حکم میں ہو اور پورے چھ سال کا ہو چکا ہو نماز پڑھنا واجب ہے۔
۶۰۱۔ ایک ایسے بچے کی میت پر جو چھ سال کا نہ ہوا ہو لیکن نماز کو جانتا ہو احتیاط لازم کی بنا پر لازم کی بنا پر نماز پڑھنا چاہئے اور اگر نماز کو نہ جانتا ہو تو رجاء کی نیت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ بچہ جر مردہ پیدا ہوا ہو اس کی میت پر نماز پڑھنا مستحب نہیں ہے۔
۶۰۲۔ میت کی نماز اسے غسل دینے ، حنوط کرنے اور کفن پہنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اور اگر ان امور سے پہلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواہ بھول چوک یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ہی کیوں نہ ہو کافی نہیں ہے۔
۶۰۳۔ جو شخص میت کی نمازپڑھنا چاہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ اس نے وضو، غسل یا تیمم کر رکھا ہو اور اس کا بدن اور لباس پاک ہوں اور اگر اس کا لباس غصبی ہو تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نمازوں میں لازمی ہیں۔
۶۰۴۔ جو شخص نماز میت پڑھ رہا ہو اسے چاہئے کہ رو بقبلہ ہو اور یہ بھی واجب ہے کہ میت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل یوں لٹا جائے کہ میت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائیں طرف ہو اور پاوں بائیں طرف ہوں۔
۶۰۵۔ احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری ہے کہ جس جگہ ایک شخص میت کی نماز پڑھے وی غصبی نہ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ میت کے مقام سے اونچی یا نیچی نہ ہو لیکن معمولی پستی یا بلندی میں کوئی حرج نہیں۔
۶۰۶۔ نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ میت سے دور نہ ہو لیکن جو شخص نماز میت با جماعت پڑھ رہا ہو اگر وہ میت سے دور ہو جب کہ صفیں باہم متصل ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
۶۰۷۔ نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ میت کے سامنے کھڑا ہو لیکن اگر نماز، باجماعت پڑھی جائے اور جماعت کی صفت میت کے دونوں طرف سے گزر جائے تو ان لوگوں کی نماز میں جو میت کے سامنے نہ ہوں کوئی اشکال نہیں ہے۔
۶۰۸۔ احتیاط کی بنا پر میت اور نمازپڑھنے والے کے درمیان پردہ یا دیوار یا کوئی اور ایسی چیز حائل نہیں ہونی چاہئے لیکن اگر میت تابوت میں یا ایسی ہی کسی اور چیز میں رکھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
۶۰۹۔ نماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ میت کی شرمگاہ ڈھکی ہوئی ہو اور اگر اسے کفن پہنانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس شرمگاہ کو خواہ لکڑی یا اینٹ یا ایسی ہی کسی اور چیز سے ہی ڈھانک دیں۔
۶۱۰۔ نماز میت کھڑے ہو کر اور قربت کی نیت سے پڑھنی چاہئے اور نیت کرنے وقت میت کو معین کر لینا چاہئے مثلاً نیت کرنی چاہئے کہ میں اس میت پر قُربہ اِلَی اللہ نماز پڑھ رہا ہوں۔
۶۱۱۔ اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز میت نہ پڑھ سکتا ہو تو بیٹھ کر پڑھ لے۔
۶۱۲۔ اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ کوئی مخصوص شخص اس کی نماز پڑھائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ شخص میت کے ولی سے اجازت حاصل کرے۔
۶۱۳۔ میت پر کئی دفعہ نمازپڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر میت کسی صاحب علم و تقوی کی ہو تو مکروہ نہیں ہے۔
۶۱۴۔ اگر میت کو جان بوجھ کر یا بھول چوک کی وجہ سے یا کسی عذر کی بنا پر بغیر نماز پڑھے دفن کر دیا جائے یا دفن کر دینے کے بعد پتہ چلے کہ جو نماز اس پر پڑھی جاچکی ہے وہ باطل ہے تو میت پر نماز پڑھنے کے لئے اس کی قبر کو کھولنا جائز نہیں لیکن جب تک اس کا بدن پاش پاش نہ ہو جائے اور جن شرائط کا نماز میت کے سلسلے میں ذکر آچکا ہے ان کے ساتھ رَجَاء کی نیت سے اس کی قبر پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نماز میت کا طریقہ
۶۱۵۔ میت کی نماز میں پانچ تکبیریں ہیں اور اگر نمازپڑھنے والا شخص مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ پانچ تکبیریں کہے تو کافی ہے۔
نیت کرنے اور پہلی تکبیر پڑھنے کے بعد کہے۔ اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہ اِلَّا اللہ و اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ اور دوسری تکبیر کے بعد کہے : اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اور تیسری تکبیر کے بعد کہے : اَللّٰھُمَّ اغفِر لِلمُئومِنِینَ وَالمئومِنَاتِ۔
اور چھوٹی تکبیر کے بعد اگر میت مرد ہو تو کہے :
اَللّٰھُمَّ اغفِر لِھٰذَا المَیِّتِ۔
اور اگر میت عورت ہو تو کہے : اَللّٰھُمَّ اغفِر لِھٰذَہ المَیِّتِ اور اس کے بعد پانچویں تکبیر پڑھے۔
اور بہتر یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد کہے :
اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہ اِلَّا اللہ وَحدَہ لَاشَرِیکَ لَہ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ وَرَسُولُہ اَرسَلَہ بِالحَقِّ بَشِیرًا وَ نَذِیرًا بَینَ یَدَیِ السَّاعَۃِ۔
اور دوسری تکبیر کے بعد کہے :
اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِک عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّارحَم مُحَمَّدٍا وَّ اٰل مُحَمَّدٍ کَاَفضَلِ مَاصَلَّیتَ وَبَارَکتَ وَ تَرَحَّمتَ عَلٰٓی اِبرَاحِیمَ وَاٰلِ اِبرَاہیمَ اِنَّکَ حَمِید مَّجِید وَصَلِّ عَلٰ جَمِیعِ الاَنبِیَآءِ وَالمُرسَلِینَ وَالشّھَُدَآءِ وَالصِّدِّیقِینَ وَجَمِیعِ عِبَادِ اللہ الصَّالِحِینَ۔
اور تیسری تکبیر کے بعد کہے :
اَللّٰھُمَّ اغفِر لِلمُئومِنِینَ وَالمُئومِنَاتِ وَالمُسلِمِینَ وَالمُسلِمَاتِ الاَحیَآءِ مِنھُم وَالاَموَاتِ تَابِع بَینَنَا وَبَینَھُم بِالخَیرَاتِ اِنَّک مجِیبُ الدَّعَوَابِ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیٍ قَدِیر۔
اور اگر میت مرد ہو تو چوتھی تکبیر کے بعد کہے :
اَللَّھُمَّ اِنَّ ھٰذَا عَبدُکَ وَابنُ عَبدِکَ وَابِنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنَ خَیر مَنزُولٍ بِہ اَللَّھُمَّ اِنَّا لَانَعلَمُ اِلَّا خَیرًا وَّاَنتَ اَعلمُ بِہ مِنَّا اَللَّھُمَّ اِن کَانَ مُحسِناً فَزِدفِٓی اِحسَانِہ وَاِن کَانَ مُسِسئاً فَتَجَاوَزعَنہ وَاغفِرلُہ اَللَّھُمَّ اجعَلہ عِندَ کَ فِی اَعلیٰ عِلِّیینَ وَاخلُف عَلٰٓی اَھلِہ فِی الغَابِرِینَ وَارحَمہ بِرَحمہ بِرحمَتِکَ یَآاَرحَمَ الرَّاحِمِین اور اس کے بعد پانچویں تکبیر پڑھے۔ لیکن اگر میت عورت ہو تو چوتھی تکبیر کے بعد کہے : اَللَّھُمَّ اِنَّ ھٰذِہ اَمَتُکَ وَابنَۃُ عَبدِکَ وَابنَۃُ اَمَتِکَ نَزَلَت بِکَ وَاَنتَ خَیرُ مَنزُولٍ بِہ اَللَّھُمَّ اِنَّا لاَ نَعلَمُ مِنھَا اِلَّا خَیرًا وَّاَنتَ اَعلَمُ بِھَامِنَّا اَللَّھُمَّ اِن کَانَت مُحسِنَۃً فَزِد فِی اِحسَانِھَا وَاِن کَانَت مُسِیٓئَۃً فَتَجَاوَز عَنھَا وَاغفِرلَھَا اَللَّھُمَّ اجعَلھَا عِندکَ فِیٓ اَعلیٰ عِلِّیِینَ وَاخلُف عَلٰٓی اَھلِھَا فِ الغَابِرِینَ وَارحَمھَا بِرحَمھَا بِرَحمَتِکَ یَآاَرحَمَ اِلرَّحِمِینَ۔
۶۱۶۔ تکبیریں اوعر دعائیں (تسلسل کے ساتھ) یکے بعد دیگرے اس طرح پڑھنی چاہیئں کہ نماز اپنی شکل نہ کھو دے۔
۶۱۷۔ جو شخص میت کی نماز با جماعت پڑھ رہا ہو خواہ وہ مقتدی ہی ہو اسے چاہئے کہ اس کی تکبیریں اور دعائیں بھی پڑھے۔
نماز میت کے مُستحبات
۶۱۸۔ چند چیزیں نماز میت میں مستحب ہیں۔
۱۔ جو شخص نماز میت پڑھے وہ وضو، غسل یا تیمم کرے۔ اور احتیاط میں ہے کہ تیمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرنا ممکن نہ ہو یا اسے خدشہ ہو کہ اگر وضو یا غسل کریگا تو نماز میں شریک نہ ہو سکے گا۔
۲۔ اگر میت مرد ہو تو امام جو شخص اکیلا میت پر نماز پڑھ رہا ہو میت کے شکم کے سامنے کھڑا ہو اور اگر میت عورت ہو تو اس کے سینے کے سامنے کھڑا ہو۔
۳۔ نماز ننگے پاوں پڑھی جائے۔
۴۔ ہر تکبیر میں ہاتھوں کو بلند کیا جائے۔
۵۔ نمازی اور میت کے درمیان اتنا کم فاصلہ ہو کہ اگر ہوا نمازی کے لباس کو حرکت دے تو وہ جنازے کو جا چھوئے۔
۶۔ نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھی جا۴ے۔
۷۔ امام تکبیریں اور دعائیں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آہستہ پڑھیں۔
۸۔ نماز با جماعت میں مقتدی خواہ ایک شخص ہی کیوں نہ ہو امام کے پیچھے کھرا ہو۔
۹۔ نماز پڑھنے والا میت اور مومنین کے لئے کثرت سے دعا کرے۔
۱۰۔ باجماعت نماز سے پہلے تین مرتبہ "اَلصَّلوٰۃ” کہے۔
۱۱۔ نماز ایسی جگہ پڑھی جائے جہاں نماز میت کے لئے لوگ زیادہ تر جاتے ہوں۔
۱۲۔ اگر حائض نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھے تو اکیلی کھڑی ہو اور نمازیوں کی صف میں نہ کھڑی ہو۔
۶۱۹۔ نماز میت مسجدوں میں پڑھنا مکروہ ہے لیکن مسجد الحرام میں پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
دفن کے احکام
۶۲۰۔ میت کو اس طرح زمین میں دفن کرنا واجب ہے کہ اس کی بو باہر نہ آئے اور درندے بھی اس کا بدن باہر نہ نکال سکیں اور اگر اس بات کا خوف ہو کہ درندے اس کا بدن باہر نکال لیں گے تو قبر کو اینٹوں وغیرہ سے پختہ کر دینا چاہئے۔
۶۲۱۔ اگر میت کو زمیں میں دفن کرنا ممکن نہ ہو تو دفن کرنے کے بجائے اسے کمرے یا تابوت میں رکھا جا سکتا ہے۔
۶۲۲۔ میت کو قبر میں دائیں پہلو اس طرح لٹانا چاہئے کہ اس کے بدن کا سامنے کا حصہ رو بقبلہ ہو۔
۶۲۳۔ اگر کوئی شخص کشتی میں مر جائے اور اس کی میت کے خراب ہونے کا امکان نہ ہو اور اسے کشتی میں رکھنے میں بھی کوئی امر مانع نہ ہو تو لوگوں کو چاہئے کہ انتظار کریں تاکہ خشکی تک پہنچ جائیں اور اسے زمین میں دفن کر دیں ورنہ چاہئے کہ اسے کشتی میں ہی غسل دے کر حنوط کریں اور کفن پہنائیں اور نماز میت پڑھنے کے بعد اس چٹائی میں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیں اور سمندر میں ڈال دیں کو کوئی بھاری چیز اس کے پاوں میں باندھ کر سمند میں ڈال دیں اور جہاں تک ممکن ہو اسے ایسی جگہ نہیں گرانا چاہئے جہاں جانور اسے فورا لقمہ بنالیں۔
۶۲۴۔ اگر اس بات کا خوف ہو کہ دشمن قبر کو کھود کر میت کا جسم باہر نکال لے گا اور اس کے کان یا ناک یا دوسرے اعضاء کاٹ لے گا تو اگر ممکن ہو تو سابقہ مسئلے میں بیان کیے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر میں ڈال دینا چاہئے۔
۶۲۵۔ اگر میت کو سمندر میں ڈالنا یا اس کی قبر کو پختہ کرنا ضروری ہو تو اس کے اخراجات میت کے اصل مال میں سے لے سکتے ہیں۔
۶۲۶۔ اگر کوئی کافر عورت مر جائے اور اس کے پیٹ میں مرا ہوا بچہ ہو اور اس بچے کا باپ مسلمان ہو تو اس عورت کو قبر میں بائیں پہلو قبلے کی طرف پیٹھ کر کے لٹانا چاہئے تاکہ بچے کا منہ قبلے کی طرف ہو اور اگر پیٹ میں موجود بچے کے بدن میں ابھی جان نہ پڑی ہو تب بھی احتیاط مستحب کی بنا پر یہی حکم ہے۔
۶۲۷۔ مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں دفن کرنا اور کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں ہے۔
۲۶۸۔ مسلمان کو ایسی جگہ جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہو مثلاً جہاں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھینکی جاتی ہو، دفن کرنا جائز نہیں ہے۔
۶۲۹۔ میت کو غصبی زمین میں یا ایسی زمین میں جو دفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد مثلاً مسجد کے لئے وقت ہو دفن کرنا جائز نہیں ہے۔
۲۳۰۔ کسی میت کی قبر کھود کر کسی دوسرے مردے کو اس قبر میں دفن کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر قبر پرانی ہو گئی ہو اور پہلی میت کا نشان باقی نہ رہا ہو تو دفن کر سکتے ہیں۔
۶۳۱۔ جو چیز میٹ سے جدا ہو جائے خواہ وہ اس کے بال، ناخن، یا دانت ہی ہون اسے اس کے ساتھ ہی دفن کر دینا چاہئے اور اگر جدا ہونے والی چیزیں اگرچہ وہ دانت، ناخن یا بال ہی کیوں نہ ہوں میت کو دفنانے کے بعد ملیں تو احتیاط لازم کی بنا پر انہیں کسی دوسری جگہ دفن کر دینا چاہئے۔ اور جو ناخن اور دانت انسان کی زندگی میں ہی اس سے جدا ہو جائیں انہیں دفن کرنا مستحب ہے۔
۶۳۲۔ اگر کوئی شخص کنویں میں مر جائے اور اسے باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو چاہئے کہ کنویں کا منہ بند کر دیں اور اس کنویں کو ہی اس کے قبر قرار دیں۔
۶۳۳۔ اگر کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں مر جائے اور اس کا پیٹ میں رہنا ماں کی زندگی کے لئے خطرناک ہو تو چاہئے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکالیں۔ چنانچہ اگر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر بھی مجبور ہوں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن چاہئے کہ اگر اس عورت کا شوہر اہل فن ہو تو بچے کو اس کے ذریعے باہر نکالیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی اہل فن عورت کے ذریعے سے نکالیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایسے محرم مرد کے ذریعے نکالیں جو اہل فن ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو نا محرم مرد جو اہل فن ہو بچے کو باہر نکالے اور اگر کوئی ایسی شخص بھی موجود نہ ہو تو پھر جو شخص اہل فن نہ ہو وہ بھی بچے کو باہر نکال سکتا ہے۔
۶۳۴۔ اگر ماں مر جائے اور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہو اور اگرچہ اس بچے کے زندہ رہنے کی امید نہ ہو تب بھی ضروری ہے کہ ہر اس جگہ کو چاک کریں جو بچے کی سلامتی کے لئے بہتر ہے اور بچے کو باہر نکالیں اور پھر اس جگہ کو ٹانکے لگا دیں۔
دفن کے مستحبات
۶۳۵۔ مستحب ہے کہ متعلقہ اشخاص قبر کو ایک متوسط انسان کے قد کے لگ بھگ کھو دیں اور میت کو نزدیک ترین قبرستان میں دفن کریں ماسوا اس کے کہ جو قبرستان دور ہو وہ کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً وہاں نیک لوگ دفن کئے گئے ہوں یا زیادہ لوگ وہاں فاتحہ پڑھنے جاتے ہوں۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ قبر سے چند گز دور زمین پر رکھ دیں اور تین دفعہ کر کے تھوڑا تھوڑا قبر کے نزدیک لے جائیں اور ہر دفعہ زمین پر رکھیں اور پھر اٹھا لیں اور چوتھی دفعہ قبر میں اتار دیں اور اگر میت مرد ہو تو تیسری دفعہ زمین پر اس طرح رکھیں کہ اس کا سر قبر کی نچلی طرف ہو اور چوتھی دفعہ سر کی طرف سے قبر میں داخل کریں اور اگر میت عورت ہو تو تیسری دفعہ اسے قبرکے قبلے کی طرف رکھیں اور پہلو کی طرف سے قبر میں اتار دیں اور قبر میں اتارتے وقت ایک کپڑا قبر کے اوپر تان لیں۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ بڑے آرام کے ساتھ تابوت سے نکالیں اور قبر میں داخل کریں اور وہ دعائیں جنہیں پڑھنے کے لئے کہا گیا ہے دفن کرنے سے پہلے اور دفن کرتے وقت پڑھیں اور میت کو قبر میں رکھنے کے بعد اس کے کفن کی گرہیں کھول دیں اور اس کا رخسار زمین پر رکھ دیں اور اس کے سر کے نیچے مٹی کا تکیہ بنا دیں اور اس کی پیٹھ کے پیچھے کچی اینٹیں یا ڈھیلے رکھ دیں تاکہ میت چت نہ ہو جائے اور اس سے پیشتر کہ قبر بند کریں دایاں ہاتھ میت کے دائیں کندھے پر ماریں اور بایاں ہاتھ زور سے میت کے بائیں کندھے پر رکھیں اور منہ اس کے کان کے قریب لے جائیں اور اسے زور سے حرکت دیں اور تین دفعہ کہیں اَسمَع اِفھَم یَافُلَانَ ابنَ فُلاَنٍ۔ اور فلان ابن فلان کی جگہ میت کا اور اس کے باپ کا نام لیں۔ مثلاً اگر اس کا اپنا نام موسی اور اس کے باپ کو نام عمران ہو تو تین دفعہ کہیں : اِسمَع اِفھَم یَامُوسَی بنَ عِمرَانَ اس کے بعد کہیں:
ھَل اَنتَ عَلَی العَھدِالَّذی فَارَقتَاَ عَلَیہ مِن شَھَاَۃِ اَن لَّا اِلَّہ اِلَّا اللہ وَحدَہ لَا شَرِیکَ لَہ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہ عَلَیہ وَاٰلِہ عَبلُہ وَرَسُولُہ وَسَیِّدُالنَّبِیِینَ وَخَاتَمُ المُرسَلِینَ وَ اَنَّ عَلِیّاً اَمِیرُالمُئومِنِینَ وَسَیِّدُالوَصِیِّینَ وَاِمَلمُ نِ افتَرَضَ اللہ طَاعَتَہ عَلَی العٰلَمِینَ وَاَنَّ الحَسَنَ وَالحُسَینَ وَ عَلِیَّ بِنَ الحُسَینِ وَ مُحَمَّد بنَ عَلِیٍّ وَّ جَعفَرَبنَ مُحَمَّدٍ وَّ مُوسیَ بنَ جُعفَرٍ وَّ عَلِیَّ بنَ مُوسیٰ وَ مُحَمَّدَبنَ عَلِیَّ بنَ مُحَمّدٍ وَالحَسَنَ بنَ عَلِیَّ وَّالقَآئِمَ الحُجَّۃ۔ المَھدِیَّ صَلَوٰاتُ اللہ عَلَیھِم اَئِمَّۃُ المُئومِنِینَ وَحُجَعُ اللہ عَلَی الخَلقِ اَجمَعِینَ وَ اَئِتَمتَکَ اَئِمَّۃُ ھُدًی اَبرَارُ یَا فُلَانَ ابنَ فُلانٍ اور فلان ابن فلان کی بجائے میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کہے : اِذَّا اَتَاکَ المَلَکَانِ المُقَرَّبَانِ رَسُولَینِ مِن عِندِ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ وَسَالَاکَ عَن رَّبِکَ وَعَن نَّبِیِّکَ وَعَن دِینِکَ وَعَن کِتَابِکَ وَعَن قِبلَتِکَ وَعَن اَئِمَّتِکَ فَلاَ تَخَف وَلاَ تَحزَن وَقُل فیِ جَوَابِھِمَا اللہ رَبِّی وَ مُحَمّد صَلَّی اللہ عَلَیہ وَاٰلِہ نَبِّیی وَالاِسلَامُ دِینیِ وَالقُراٰنُ کِتابِی وَالکَعبَۃُ قِبلَتِی وَاَمِیرُ المُئومِنِینَ عَلِیُّ بنُ اَبِی طَالِبٍ اِمَامِی وَالحَسَنُ بنُ عَلِیٍّ المُجتَبٰے اَمَامِی وَالحُسَینُ بنُ عَلِیٍّ الشَّھِیدُ بِکَربَلاَءَ اِمَامِی وَعَلَیٌّ زَینُ العَابِدِینَ اِمَامِی وَمُحَمَّدُ البَاقِرُ اِمِامِی وَجَعفَر الصَّادِقُ اِمَامِی وَمُوسیَ الکَاظِمُ اِمَامِی وَعَلِیُّ الرِّضَا اِمَامِی وَمُحَمَّدُ الجَوَادُ اِمَامِی وَعَلِیُّ الہادِی اِمَامِیی وَالحَسَنُ العَسکَرِیُّ اِمَامِی وَالحُجَّۃُ المُتَظَرُ اِمَامِی ھٰٓولاَءِ صَلَوَاتُ اللہ عَلَیھِم اَجمَعِینَ اَئِمَّتِی وَسَاَدَتِی وَشُفَعَآئِی بِھِم اَتَوَلّیٰ وَمِن اَعدَآئِھِم اَتَبَرَّاُ فِی الدُّنیَا وَالاٰخِرَۃِ ثُمَّ اعلَم یَافُلانٍ اور فلان بن فلان کی بجائے میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کہے : اَنَّ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ نِعمَالرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہ عَلَیہ وَاٰلِہ نِعمَ الرَّسُولُ وَاَنَّ عَلِیَّ بنَ اَبِی طَالِبٍ وَاَولاَدَہ المَعصُومِینَ الاَئِمَّۃَ الاِثنَی عَشَرَنِعمَ الاَئِمَّۃُ وَاَنَّ مَاجَآءَ بِہ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہ عَلَیہ وَاٰلِہ حَقٌّ وَّاَنَّ المَوتَ حَقٌّ وَّ سُئَوالَ مُنکَرٍ وَّ نَکِیرٍ فِی القَبرِ حَقٌّ وَّ البَعثُ حَقٌّ وَّ النُّشُورَ حِقٌّ وَّالصِّرَاطِ حَقٌّ وَّالمِیزَانَ حَقٌّ وَّ تَطَایُرَالکُتُبِ حَقٌّ وَّاَنَّ الجَنَّۃَ حَقٌّ وَّالنَّارَ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعُۃَ اٰتِیَۃٌ لاَّ رَیبَ فِیھَا وَاَنَّ اللہ یَبعثُ مَن فِی القُبُورِ۔ پھر کہے۔ "اَفَھِمتَ یَا فُلاَنُ” اور فلان کی بجائے میت کا نام لے اور اس کے بعد کہے : ثَبَّتَکَ اللہ بَالقَولِ الثَّابِتِ ھَدَا کَ اللہ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ عَرَّفَ اللہ بَینَکَ وَبَینَ اَولِیَآئِکَ فِی مُستَقَرٍّ مِّن رَّحمُتِہ۔ اس کے بعد کہے۔ "اَللَّھُمَّ جَافِ الاَرضَ عَن جَنبَیہ وَاَصعِد بَرُوحِہٓ اِلَیکَ وَلَقِّہ مِنکُ بُرھَاناً اَللَّھُمَّ عَفوَکَ عَفوَکَ”۔
۶۳۶۔ مستحب ہے کہ جو شخص میت کو قبر میں اتارے وہ با طہارت، برہنہ سر اور برہنہ پاہو اور میت کی پائنتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلے اور میت کے عزیز اقربا کے علاوہ جو لوگ موجود ہوں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پر مٹی ڈالیں اور اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعُونَ پڑھیں۔ اگر میت عورت ہو تو اس کا محرم اسے قبر میں اتارے اور اگر محرم نہ ہو تو اس کے عزیز و اقربا اسے قبر میں اتاریں۔
۶۳۷۔ مستحب ہے کہ قبر مربع یا مستطیل بنائی جائے اور زمین سے تقریباً چار انگل بلند ہو اور اس پر کوئی (کتبہ یا) نشانی لگا دی جائے تاکہ پہنچاننے میں غلطی نہ ہو اور قبر پر پانی چھڑ کا جائے ارو پانی چھڑکنے کے بعد جو لوگ موجودہ ہوں وہ اپنی انگلیاں قبر کی مٹی میں گاڑ کر سات دفعہ سورہ قدر پڑھیں اور میت کے لئے مغفرت طلب کریں اور یہ دعا پڑھیں :
اَللَّھُمَّ جَافِ الاَرضَ عَن جَنبَیہ وَاَصعِد اِلَیکَ رَوحَہ وَلَقِّہ مِنک رِضوَاناًوَّاَسکِن قَبرَہ مِن رَّحمَتِکَ مَا تُغنِیہ بِہ عَن رَّحمَۃِ مَن سِوَاکَ۔
۶۳۸۔ مستحب ہے کہ جو لوگ جنازے کی مشایعت کے لئے ہوں ان کے چلے جانے کے بعد میت کا ولی یا وہ شخص جسے ولی اجازت دے میت کو ان دعاوں کی تلقین کرے جو بتائی گئی ہیں۔
۶۳۹۔ دفن کے بعد مستحب ہے کہ میت کے پس ماندگان کو پرسا دیا جائے لیکن اگر اتنی مدت گزر چکی ہوکہ پُرسا دینے سے ان کا دکھ تازہ ہو جائے تو پرسانہ دینا بہتر ہے یہ بھی مستحب ہے کہ میت کے اہل خانہ کے لئے تین دن تک کھانا بھیجا جائے۔ ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کے گھر میں کھانا کھانا مکروہ ہے۔
۶۴۰۔ مستحب ہے کہ انسان عزیز اقربا کی موت پر خصوصا بیٹے کی موت پر صبر کرے اور جب بھی میت کی یاد آئے اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعُونَ پڑھے اور میت کے لئے قرآن خوانی کرے اور ماں باپ کی قبروں پر جاکر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں طلب کرے اور قبر کو پختہ کر دے تاکہ جلدی ٹوٹ پھوٹ نہ جائے۔
۶۴۱۔ کسی کی موت پر بھی انسان کے لئے احتیاط کی بنا پر جائز نہیں کہ اپنا چہرہ اور بدن زخمی کرے اور اپنے بال نوچے لیکن سر اور چہرے کا پیٹنا بنا بر اقوی جائز ہے۔
۶۴۲۔ باپ اور بھائی کے علاوہ کسی کی موت پر گریبان چاک کرنا احتیاط کی بنا پر جائز نہیں ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ باپ اور بھائی کی موت پر بھی گریبان چاک نہ کیا جائے۔
۶۴۳۔ اگر عورت میت کے سوگ میں اپنا چہرہ زخمی کر کے خون آلود کر لے یا بال نوچے تو احتیاط کی بنا پر وہ ایک غلام کو آزاد کرے یا دس فقی روں کو کھانا کھلائے یا انہیں کپڑے پہنائے اور اگر مرد اپنی بیوی یا فرزند کی موت پر اپنا گریبان یا لباس پھاڑے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
۶۴۴۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت پر روتے وقت آواز بہت بلند نہ کی جائے۔
نماز وحشت
۶۴۵۔ مناسب ہے کہ میت کے دفن کے بعد پہلی رات کو اس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے اور اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک دفعہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس دفعہ سورہ قدر پڑھا جائے اور سلام نماز کے بعد کہا جائے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّاٰلِ مُحَمَّدٍوَّابعَث ثَوَابَھَا اِلیٰ قَبرِ فُلاَنٍ۔
اور لفظ فلاں کی بجائے میت کا نام لیا جائے۔
۶۳۶۔ نماز وحشت میت کے دفن کے بعد پہلی رات کو کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اول شب میں نماز عشا کے بعد پڑھی جائے۔
۶۴۷۔ اگر میت کو کسی دور کے شہر میں لے جانا مقصود ہو یا کسی اور وجہ سے اس کے دفن میں تاخیر ہو جائے تو نماز وحشت کو اس کے سابقہ طریقے کے مطابق دفن کی پہلی رات تک ملتوی کر دینا چاہئے۔
نَبشِ قبر (قبر کا کھولنا)
۶۴۸۔ کسی مسلمان کا نبش قبر یعنی اس کی قبر کا کھولنا خواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کیوں نہ ہو حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا بدن مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہو چکا ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
۶۴۹۔ امام زادوں ، شہیدوں ، عالموں اور صالح لوگوں کی قبروں کو ا جاڑنا خواہ انہیں فوت ہوئے سالہا سال گزر چکے ہون اور ان کے بدن خاک ہو گئے ہوں ، اگر ان کی بے حرمتی ہوتی ہو تو حرام ہے۔
۶۵۰۔ چند صورتیں ایسی ہیں جن میں قبر کا کھولنا حرام نہیں ہے :
ا۔ جب میت کو غصبی زمین میں دفن کیا گیا ہو اور زمین کا مالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو۔
۲۔ جب کفن یا کوئی اور چیز جو میت کے ساتھ دفن کی گئی ہو غصبی ہو اور اس کا مالک اس بات پر رضامند نہ ہو کہ وہ قبر میں رہے اور اگر خود میت کے مال میں سے کوئی چیز جو اس کے وارثوں کو ملی ہو اس کے ساتھ دفن ہو گئی ہو اور اس کے وارث اس بات پر راضی نہ ہوں کہ وہ چیز قبر میں رہے تو اس کی بھی یہی صورت ہے البتہ اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ دعا یا قرآن مجید یا انگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اور اس کی وصیت پر عمل کیا گیا ہو تو ان چیزوں کو نکالنے کے لئے قبر کو نہیں کھولا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ان بعض صورتوں میں بھی جب زمین یا کفن میں سے کوئی ایک چیز غصبی ہو یا کوئی اور غصبی چیز میت کے ساتھ دفن ہو گئی ہو تو قبر کو نہیں کھولا جا سکتا۔ لیکن یہاں ان تمام صورتوں کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
۳۔ جب قبر کا کھولنا میت کی بے حرمتی کا موجب نہ ہو اور میت کو بغیر غسل دیئے یا بغیر کفن پہنائے دفن کیا گیا ہو یا پتہ چلے کہ میت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہیں دیا گیا تھا یا قبر میں قبلے کے رخ پر نہیں لٹایا گیا تھا۔
۴۔ جب کوئی ایسا حق ثابت کرنے کے لئے جو نبش قبر سے اہم ہو میت کا بدن دیکھنا ضروری ہو۔
۵۔ جب میت کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں اس کی بے حُرمتی ہوتی ہو مثلاً اسے کافروں کے قبرستان میں یا اس جگہ دفن کیا گیا ہو جہاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہو۔
۶۔ جب کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے۔ جس کی اہمیت قبر کھولنے سے زیادہ ہو مثلاً کسی زندہ بچے حاملہ عورت کے پیٹ سے نکالنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گیا ہو۔
۷۔ جب یہ خوف ہو کہ درندہ میت کو چیرپھاڑ ڈالے گا یا سیلاب اسے بہا لے جائے گا یا دشمن اسے نکال لے گا۔
۸۔ میت نے وصیت کی ہو کہ اسے دفن کرنے سے پہلے مقدس مقامات کی طرف منتقل کیا جائے اور لے جاتے وقت اس کی بے حرمتی بھی نہ ہوتی ہو لیکن جان بوجھ کر یا بھولے سے کسی دوسری جگہ دفنا دیا گیا ہو تو بے حرمتی نہ ہونے کی صورت میں قبر کھول کر اسے مقدس مقامات کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
مستحب غسل
۶۵۱۔ اسلام کی مقدس شریعت میں بہت سے غسل مستحب ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں :
۱۔ غسل جمعہ۔ اس کا وقت صبح کی اذان کے بعد سے سورج غروب ہونے تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ ظہر کے قریب بجا لایا جائے (اور اگر کوئی شخص اسے ظہر تک انجام نہ دے تو بہتر ہے کہ ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر غروب آفتاب تک بجا لائے ) اور اگر جمعہ کے دن غسل نہ کرے تو مستحب ہے کہ ہفتے کے دن صبح سے غروب آفتاب تک اس کی قضا بجا لائے۔ اور جو شخص جانتا ہو کہ اسے جمعہ کے دن پانی میسر نہ ہو گا تو وہ رجاء جمعرات کے دن غسل انجام دے سکتا ہے اور مستحب ہے کہ انسان غسل جمعہ کرتے وقت یہ دعا پڑھے۔ "اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ وَحدَہ لاَ شَرِیکَ لَہ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ وَرَسُولُہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاجعَلنِی مِنَ التَّوَّبِینَ وَاجعَلنِی مِنَ المُتَطَھِّرِینَ"۔
۲ تا ۷۔ ماہ رمضان کی پہلی اور سترھویں رات اور انیسویں ، اکیسویں اور تیئسویں راتوں کے پہلے حصے کا غسل اور چوبیسویں رات کا غسل۔
۸۔۹۔ عید الفطر اور عید قربان کے دن کا غسل۔ اس کا وقت صبح کی اذان سے سورج غروب ہونے تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی نماز سے پہلے کر لیا جائے۔
۱۰۔۱۱۔ ماہ ذی الحجہ کے آٹھویں اور نویں دن کا غسل اور بہتر یہ ہے کہ نویں دن کا غسل ظہر کے نزدیک کیا جائے۔
۱۳۔ اس شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصہ ایسی میت کے بدن سے مس کیا ہو جسے غسل دیا گیا ہو۔
۱۳۔ احرام کا غسل۔
۱۴۔ حرم مکہ میں داخل ہونے کا غسل۔
۱۵۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا غسل۔
۱۶۔ خانہ کعبہ کی زیارت کا غسل۔
۱۷۔ کعبہ میں داخل ہونے کا غسل۔
۱۸۔ ذبح اور نحر کے لئے غسل۔
۱۹۔ بال مونڈنے کے لئے غسل۔
۲۰۔ حرم مدینہ میں داخل ہونے کا غسل۔
۲۱۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کا غسل۔
۲۲۔ مسجد نبوی میں داخل ہونے کا غسل۔
۲۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطہر سے وداع ہونے کا غسل۔
۲۴۔ دشمن کے ساتھ مباہلہ کرنے کا غسل۔
۲۵۔ نوزائدہ بچے کو غسل دینا۔
۲۶۔ استخارہ کرنے کا غسل
۲۷۔ طلب باران کا غسل
۶۵۲۔ فقہاء نے مستحب غسلوں کے باب میں بہت سے غسلوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے چند یہ ہیں ۱۔ ماہ رمضان المبارک کی تمام طاق راتوں کا غسل اور اس کی آخری دہائی کی تمام راتوں کا غسل اور اس کی تیسویں رات کے آخری حصے میں دوسرا غسل۔
۲۔ ماہ ذی الحجہ کے چوبیسویں دن کا غسل۔
۳۔ عید نوروز کے دن اور پندرہویں شعبان اور نویں اور سترہویں ربیع الاول اور ذی القعدہ کے پچیسویں دن کا غسل۔
۴۔ اس عورت کا غسل جس نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی ہو۔
۵۔ اس شخص کا غسل جو مستی کی حالت میں سوگیا ہو۔
۶۔ اس شخص کا غسل جو کسی سولی چڑھے ہوئے انسان کو دیکھنے گیا ہو اور اسے دیکھا بھی ہو لیکن اگر اتفاقاً یا مجبوری کی حالت میں نظر گئی ہو یا مثال کے طور پر اگر شہادت دینے گیا ہو تو غسل مستحب نہیں ہے۔
۷۔ دور یا نزدیک سے معصومین علیہم السلام کی زیارت کے لئے غسل۔ لیکن احوط یہ ہے کہ یہ تمام غسل رجاء کی نیت سے بجا لائے جائیں۔
۶۵۳۔ ان مستحب غسلوں کے ساتھ جن کا ذکر مسئلہ ۶۵۱ میں کیا گیا ہے انسان ایسے کام مثلاً نماز انجام دے سکتا ہے جن کے لئے وضو لازم ہے (یعنی وضو کرنا ضروری نہیں ہے ) لیکن جو غسل بطور رجاء کیے جائیں وہ وضو کے لئے کفایت نہیں کرتے (یعنی ساتھ ساتھ وضو کرنا بھی ضروری ہے )۔
۶۵۴۔ اگر کئی مستحب غسل کسی شخص کے ذمے ہوں اور وہ سب کی نیت کر کے ایک غسل کر لے تو کافی ہے۔
تیمم
سات صورتوں میں وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرنا چاہئے :
تیمم کی پہلی صورت
وضو یا غسل کے لئے ضروری مقدار میں پانی مہیا کرنا ممکن نہ ہو۔
۶۵۵۔ اگر انسان آبادی میں ہو تو ضروری ہے کہ وضو اور غسل کے لئے پانی مہیا کرنے کے لئے اتنی جستجو کرے کہ بالآخر اس کے ملنے سے نا امید ہو جائے اور اگر بیابان میں ہو تو ضروری ہے کہ راستوں میں یا اپنے ٹھہرنے کی جگہوں میں یا اس کے آس پاس والی جگہوں میں پانی تلاش کرے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ وہاں کی زمین ناہموار ہو یا درختوں کی کثرت کی وجہ سے راہ چلنا دشوار ہو تو چاروں اطراف میں سے ہر طرف پرانے زمانے میں کمان کے چلے پر چڑھا کر پھینکے جانے والے تیرکی ۱ پرواز کے فاصلے کے برابر پانی کی تلاش میں جائے۔ ورنہ ہر طرف اندازاً دو بار پھینکے جانے والے تیر کے فاصلے کے برابر جستجو کرے۔
۶۵۶۔ اگر چار اطراف میں سے بعض ہموار اور بعض ناہموار ہوں تو جو طرف ہموار ہو اس میں دو تیروں کی پرواز کے برابر اور جو طرف نا ہموار ہو اس میں ایک تیرکی پرواز برابر پانی تلاش کرے۔
۶۵۷۔ جس طرف پانی کے نہ ہونے کا یقین ہو اس طرف تلاش کرنا ضروری نہیں۔
۶۵۸۔ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ نہ ہو اور پانی حاصل کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہو اور اسے یقین یا اطمینان ہو کہ جس فاصلے تک اس کے لئے پانی تلاش کرنا ضروری ہے اس سے دور پانی موجود ہے تو اسے چاہئے کہ پانی حاصل کرنے کے لئے وہاں جائے لیکن اگر وہاں جانا مشقت کا باعث ہو یا پانی بہت زیادہ دور ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ اس کے پاس پانی نہیں ہے تو وہاں جانا لازم نہیں ہے اور اگر پانی موجود ہونے کا گمان ہو تو پھر بھی وہاں جانا ضروری نہیں ہے۔
۶۵۹۔ یہ ضروری نہیں کہ انسان خود پانی کی تلاش میں جائے بلکہ وہ کسی اور ایسے شخص کو بھیج سکتا ہے جس کے کہنے پر اسے اطمینان ہو اور اس صورت میں اگر ایک شخص کئی اشخاص کی طرف سے جائے تو کافی ہے۔
۶۶۰۔ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ کسی شخص کے لئے اپنے سفر کے سامان میں یا پڑاؤ ڈالنے کی جگہ پر یا قافلے میں پانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ اس قدر جستجو کرے کہ اسے پانی کے نہ ہونے کا اطمینان ہو جائے یا اس کے حصول سے نا امید ہو جائے۔
۶۶۱۔ اگر ایک شخص نماز کے وقت سے پہلے پانی تلاش کرے اور حاصل نہ کر پائے اور نماز کے وقت تک وہیں رہے تو اگر پانی ملنے کا احتمال ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش میں جائے۔
۶۶۲۔ اگر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد تلاش کرے اور پانی حاصل نہ کر پائے اور بعد والی نماز کے وقت تک اسی جگہ رہے تو اگر پانی ملنے کا احتمال ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش میں جائے۔
۶۶۳۔ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ ہو یا اسے چور ڈاکو اور درندے کا خوف ہو یا پانی کی تلاش اتنی کٹھن ہو کہ وہ اس صعوبت کو برداشت نہ کر سکے تو تلاش ضروری نہیں۔
۱۔ مجلسی اول قدس سرہ نے مَن لاَ یَحضُرُہ الفَقِیہ کی شرح میں تیر کے پرواز کی مقدار دو سو قدم معین فرمائی ہے۔
۶۶۴۔ اگر کوئی شخص پانی تلاش نہ کرے حتی کہ نماز کا وقت تنگ ہو جائے اور پانی تلاش کرنے کی صورت میں پانی میں مل سکتا تھا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا لیکن تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہے۔
۶۶۵۔ اگر کوئی شخص اس یقین کی بنا پر کہ اسے پانی نہیں مل سکتا پانی کی تلاش میں نہ جائے اور تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ اگر تلاش کرتا تو پانی مل سکتا تھا تو احتیاط لازم کی بنا پر وضو کر کے نماز کو دوبارہ پڑھے۔
۶۶۶۔ اگر کسی شخص کو تلاش کرنے پر پانی نہ ملے اور ملنے سے مایوس ہو کر تیمم کے ساتھ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ جہاں اس نے تلاش کیا تھا وہاں پانی موجود تھا اور اس کی نماز صحیح ہے۔
۶۶۷۔ جس شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اگر وہ پانی تلاش کئے بغیر تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد اور وقت گزرنے سے پہلے اسے پتہ چلے کہ پانی تلاش کرنے کے لئے اس کے پاس وقت تھا تو احتیاط واجب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
۶۶۸۔ اگر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد کسی شخص کو وضو باقی ہو اور اسے معلوم ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کر دیا تو وہ دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی نہیں ملے گا یا وہ وضو نہیں کر پائے گا تو اس صورت میں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چاہئے کہ اسے باطل نہ کرے لیکن ایسا شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ غسل نہ کر پائے گا اپنی بیوی سے جماع کر سکتا ہے۔
۶۶۹۔ اگر کوئی شخس نماز کے وقت سے پہلے با وضو ہو اور اسے معلوم ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کر دیا تو دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی مہیا کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو گا تو اس صورت میں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے باطل نہ کرے۔
۶۷۰۔ جب کسی کے پاس فقط وضو یا غسل کے لئے پانی ہو اور وہ جانتا ہو کہ اسے گرا دینے کی صورت میں مزید پانی نہیں مل سکے گا تو اگر نماز کا وقت داخل ہو گیا ہو تو اس پانی کا گرانا حرام ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پہلے بھی نہ گرائے۔
۶۷۱۔ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ اس پانی نہ مل سکے گا، نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد اپنا وضو باطل کر دے یا جو پانی اس کے پاس ہو اسے گرا دے تو اگرچہ اس نے (حکم مسئلہ کے ) برعکس کام کیا ہے ، تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہو گی لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔
تیمم کی دوسری صورت
۶۷۲۔ اگر کوئی شخص بڑھاپے یا کمزوری کی وجہ سے یا چور ڈاکو اور جانور وغیرہ کے خوف سے یا کنویں سے پانی نکالنے کے وسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے پانی حاصل نہ کر سکے تو اسے چاہئے کہ تیمم کرے۔ اور اگر پانی مہیا کرنے یا اسے استعمال کرنے میں اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے جو ناقابل برداشت ہو تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔ لیکن آخری صورت میں اگر تیمم نہ کرے اور وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہو گا۔
۶۷۳۔ اگر کنویں سے پانی نکالنے کے لئے ڈول اور رسی وغیرہ ضروری ہوں اور متعلقہ شخص مجبور ہو کہ اس انہیں خریدے یا کرایہ پر حاصل کرے تو خواہ ان کی قیمت عام بھاؤ سے کئی گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو اسے چاہئے کہ انہیں حاصل کرے۔ اور اگر پانی اپنی اصلی قیمت سے مہنگا بیچا جا رہا ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے لیکن اگر ان چیزوں کے حصول پر اتنا خرچ اٹھتا ہو کہ اس کے جیب اجازت نہ دیتی ہو تو پھر ان چیزوں کا مہیا کرنا واجب نہیں ہے۔
۶۷۴۔ اگر کوئی شخص مجبور ہو کہ پانی مہیا کرنے کے لئے قرض لے تو فرض لینا ضروری ہے لیکن جس شخص کو علم ہو یا گمان ہو کہ وہ اپنے قرضے کی ادائیگی نہیں کرسکتا اس کے لئے قرض لینا واجب نہیں ہے۔
۶۷۵۔ اگر کنواں کھودنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو متعلقہ شخص کو چاہئے کہ پانی مہیا کرنے کے لئے کنواں کھودے۔
۶۷۶۔ اگر کوئی شخص بغیر احسان رکھے کچھ پانی دے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔
تیمم کی تیسری صورت
۶۷۷۔ اگر کسی شخص کو پانی استعمال کرنے سے اپنی جان پر بن جانے یا بدن میں کوئی عیب یا مرض پیدا ہونے یا موجودہ مرض کے طولانی یا شدید ہو جانے یا علاج معالجہ میں دشواری پیدا ہونے کا خوف ہو تو اسے چاہئے کہ تیمم کرے۔ لیکن اگر پانی کے ضرر کو کسی طریقے سے دور کر سکتا ہو مثلاً یہ کہ پانی کو گرم کرنے سے ضرور دور ہو سکتا ہو تو پانی گرم کر کے وضو کرے اور اگر غسل کرنا ضروری ہو تو غسل کرے۔
۶۷۸۔ ضروری نہیں کہ کسی شخص کو یقین ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے بلکہ اگر ضرر کا احتمال ہو اور یہ احتمال عام لوگوں کی نظروں میں معقول ہو اور اس احتمال سے اسے خوف لاحق ہو جائے تو تیمم کرنا ضروری ہے۔
۶۷۹۔ اگر کوئی شخص درد چشم میں مبتلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
۶۸۰۔ اگر کوئی شخص ضرر کے یقین یا خوف کی وجہ سے تیمم کرے اور اسے نماز سے پہلے اس بات کا پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ نہیں تو اس کا تیمم باطل ہے اور اگر اس بات کا پتہ نماز کے بعد چلے تو وضو یاغسل کر کے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔
۶۸۱۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں ہے اور غسل یا وضو کر لے ، بعد میں اسے پتہ چلے کہ پانی اس کے لئے مضر تھا تو اس کا وضو اور غسل دونوں باطل ہیں۔
تیمم کی چوتھی صورت
۶۸۲۔ اگر کسی شخص کو یہ خوف ہو کہ پانی سے وضو یا غسل کر لینے کے بعد وہ پیاس کی وجہ سے بے تاب ہو جائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور اس وجہ سے تیمم کے جائز ہونے کی تین صورتیں ہیں :
۱۔ اگر پانی وضو یا غسل کرنے میں صرف کر دے تو وہ خود فوری طور پر یا بعد میں ایسی پیاس لگے گی جو اس کی ہلاکت یا علالت کا موجب ہو گی یا جس کا برداشت کرنا اس کے لئے سخت تکلیف کا باعث ہو گا۔
۲۔ اسے خوف ہو کہ جن لوگوں کی حفاظت کرنا اس پر واجب ہے وہ کہیں پیاس سے ہلاک یا بیمار نہ ہو جائیں۔
۳۔ اپنے علاوہ کسی دوسرے کی خاطر خواہ اور انسان ہو یا حیوان، ڈرتا ہو اور اس کی ہلاکت یا بیماری یا بیتابی اسے گراں گزرتی ہو خواہ محترم نفوس میں سے ہو یا غیر محترم نفوس میں سے ہو ان تین صورتوں کے علاوہ کسی صورت میں پانی ہوتے ہوئے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
۶۸۳۔ اگر کسی شخص کے پاس اس پاک پانی کے علاوہ جو وضو یا غسل کے لئے ہو اتنا نجس پانی بھی ہو جتنا اسے پینے کے لئے در کار ہے تو ضروری ہے کہ پاک پانی پینے کے لئے رکھ لے اور تیمم کر کے نماز پڑھے لیکن اگر پانی اس کے ساتھیوں کے پینے کے لئے در کار ہو تو کہ وہ پاک پانی سے وضو یا غسل کر سکتا ہے خواہ اس کے ساتھی پیاس بجھانے کے لئے نجس پانی پینے پر ہی مجبور کیوں نہ ہوں بلکہ اگر وہ لوگ اس پانی کے نجس ہونے کے بارے میں نہ جانتے ہوں یا یہ کہ نجاست سے پرہیز نہ کرتے ہوں تو لازم ہے کہ پاک پانی کو وضو یا غسل کے لئے صرف کرے اور اسی طرح پانی اپنے کسی جانور یا نابالغ بچے کو پلانا چاہے تب بھی ضروری ہے کہ انہیں وہ نجس پانی پلائے اور پاک پانی سے وضو یا غسل کرے۔
تیمم کی پانچویں صورت
۶۸۴۔ اگر کسی شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اور اس کے پاس اتنی مقدار میں پانی ہو کہ ا اس سے وضو یا غسل کر لے تو بدن یا لباس دھونے کے لئے پانی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ بدن یا لباس دھوئے اور تیمم کر کے نماز پڑھے لیکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چیز نہ ہو جس پر تیمم کرے تو ضروری ہے کہ پانی وضو یا غسل کے لئے استعمال کرے اور نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔
تیمم کی چھٹی صورت
۶۸۵۔ اگر کسی شخص کے پاس سوائے ایسے پانی یا برتن کے جس کا استعمال کرنا حرام ہے کوئی اور پانی یا برتن نہ ہو مثلاً جو پانی یا برتن اس کے پاس ہو وہ غصبی ہو اور اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی پانی یا برتن نہ ہو تو اسے چاہئے کہ وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرے۔
تیمم کی ساتویں صورت
۶۸۶۔ جب وقت اتنا تنگ ہو کہ اگر ایک شخص وضو یا غسل کرے تو ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھا جا سکے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
۶۸۷۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ وضو یا غسل کا وقت باقی نہ رہے تو گو وہ گناہ کا مرتکب ہو گا لیکن تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔
۶۸۸۔ اگر کسی کو شک ہو کہ وہ وضو یا غسل کرے تو نماز کا وقت باقی رہے گا یا نہیں تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔
۶۸۹۔ اگر کسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تیمم کیا ہو اور نماز کے بعد وضو کر سکنے کے باوجود نہ کیا ہو حتی کہ جو پانی اس کے پاس تھا وہ ضائع ہو گیا ہو تو اس صورت میں کہ اس کا فریضہ تیمم ہو ضروری ہے کہ آئندہ نمازوں کے لئے دوبارہ تیمم کرے خواہ وہ تیمم جو اس نے کیا تھا نہ ٹوٹا ہو۔
۶۹۰۔ اگر کسی شخص کے پاس پانی ہو لیکن وقت کی تنگی کے باعث تیمم کر کے نماز پڑھنے لگے اور نماز کے دوران جو پانی اس کے پاس تھا وہ ضائع ہو جائے اور اگر اس کا فریضہ تیمم ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ بعد کی نمازوں کے لئے دوبارہ تیمم کرے۔
۶۹۱۔ اگر کسی شخص کے پاس اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کرسکے اور نماز کو اس کے مستحب افعال مثلاً قامت اور قنوت کے بغیر پڑھ لے تو ضروری ہے کہ غسل یا وضو کر لے اور اس کے مستحب افعال کے بغیر نماز پڑھے بلکہ اگر سورہ پڑھنے جتنا وقت بھی یہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرے اور بغیر سورہ کے نماز پڑھے۔
وہ چیزیں جن پر تیمم کرنا صحیح ہے
۶۹۲۔ مٹی، ریت، ڈھیلے اور روڑی یا پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر مٹی میسر ہو تو کسی دوسری چیز پر تیمم نہ کیا جائے۔ اور اگر متی نہ ہو تو ریت یا ڈھیلے پر اور اگر ریت اور ڈھیلا بھی نہ ہوں تو پھر روڑی یا پتھر پر تیمم کیا جائے۔
۶۹۳۔ جپسم اور چونے کے پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے نیز اس گرد و غبار پر جو قالین، کپڑے اور ان جیسی دوسری چیزوں پر جمع ہو جاتا ہے اگر عرف عام میں اسے نرم مٹی شمار کیا جاتا ہو تو اس پر تیمم صحیح ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں اس پر تیمم نہ کرے۔ اسی طرح احتیاط مستحب کی بنا پر اختیار کی حالت میں پکے جپسم اور چونے پر اور پکی ہوئی اینٹ اور دوسرے معدنی پتھر مثلاً عقیق وغیرہ پر تیمم نہ کرے۔
۶۹۴۔ اگر کسی شخص کو مٹی، ریت، ڈھیلے یا پتھر نہ مل سکیں تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تیمم کرے اور اگر تر مٹی نہ ملے تو ضروری ہے کہ قالین، دری یا لباس اور ان جیسی دوسری چیزوں کے اندر یا اوپر موجود اس مختصر سے گرد و غبار سے جو عرف میں مٹی شمار نہ ہوتا ہو تیمم کرے اور اگر ان میں سے کوئی چیز بھی دستیاب نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم کے بغیر نماز پڑھے لیکن واجب ہے کہ بعد میں اس نماز کی قضا پڑھے۔
۶۹۵۔ اگر کوئی شخص قالین، دری اور ان جیسی دوسری چیزوں کو جھاڑ کر مٹی مہیا کر سکتا ہے تو اس کا گرد آلود چیز پر تیمم کرنا باطل ہے اور اسی طرح اگر تر مٹی کو خشک کرے کے اس سے سوکھی مٹی حاصل کر سکتا ہے تو تر مٹی پر تیمم کرنا باطل ہے۔
۶۹۶۔ جس شخص کے پاس پانی نہ ہو لیکن برف ہو اور اسے پگھلا سکتا ہو تو اسے پگھلا کر پانی بنانا اور اس سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہ ہو۔ جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے وقت میں نماز کو قضا کرے اور بہتر یہ ہے کہ برف سے وضو یا غسل کے اعضا کو تر کرے اور اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو برف پر تیمم کر لے اور وقت پر بھی نماز پڑھے۔
۶۹۷۔ اگر مٹی اور ریت کے ساتھ سوکھی گھاس کی طرح کی کوئی چیز (مثلاً بیج، پہلیاں ) ملی ہوئی ہو جس پر تیمم کرنا باطل ہو تو متعلقہ شخص اس پر تیمم نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر وہ چیز اتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت میں نہ ہونے کے برابر سمجھا جا سکے تو اس مٹی اور ریت پر تیمم صحیح ہے۔
۶۹۸۔ اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس پر تیمم کیا جا سکے اور اس کا خریدنا یا کسی اور طرح حاصل کرنا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اس طرح مہیا کر لے۔
۶۹۹۔ مٹی کی دیوار پر تیمم کرنا صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ خشک زمین یا خشک مٹی کے ہوتے ہوئے تر زمین یا تر مٹی پر تیمم نہ کیا جائے۔
۷۰۰۔ جس چیز پر انسان تیمم کرے اس کا پاک ہونا ضروری ہے اور اگر اس کے پاس کوئی ایسی پاک چیز نہ ہو جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس پر نماز واجب نہیں لیکن ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے اور بہتر یہ ہے کہ وقت میں بھی نماز پڑھے۔
۷۰۱۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ ایک چیز پر تیمم کرنا صحیح ہے اور اس پر تیمم کر لے بعد ازاں اسے پتہ چلے کہ اس چیز پر تیمم کرنا باطل تھا تو ضروری ہے کہ جو نمازیں اس تیمم کے ساتھ پڑھی ہیں وہ دوبارہ پڑھے۔
۷۰۲۔ جس چیز پر کوئی شخص تیمم کرے ضروری ہے کہ وہ عصبی نہ ہو پس اگر وہ عضبی مٹی پر تیمم کرے تو اس کا تیمم باطل ہے۔
۷۰۳۔ غصب کی ہوئی فضا میں تیمم کرنا باطل نہیں ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص اپنی زمین میں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھر بلا اجازت دوسرے کی زمین میں داخل ہو جائے اور ہاتھوں کو پیشانی پر پھیرے تو اس کا تیمم صحیح ہو گا اگرچہ وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔
۷۰۴۔ اگر کوئی شخص بھولے سے کریا غفلت سے غصبی چیز تیمم صحیح ہے لیکن اگر وہ خود کوئی چیز غصب کرے اور پھر بھول جائے کہ غصب کی ہے تو اس چیز پر تیمم کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
۷۰۵۔ اگر کوئی شخص غصبی جگہ میں محبوس ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہوں تو ضروری ہے کہ تیمم کر کے نماز پڑھے۔
۷۰۶۔ جس چیز پر تیمم کیا جائے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس پر گرد و غبار موجود ہو جو کہ ہاتھوں پر لگ جائے اور اس پر ہاتھ مارنے کے بعد ضروری ہے کہ اتنے زور سے ہاتھوں کو نہ جھاڑے کہ ساری گرد گر جائے۔
۷۰۷۔ گڑھے والی زمین، راستے کی مٹی اور ایسی شور زمین پر جس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو تیمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو تیمم باطل ہے۔
وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنے کا طریقہ
۷۰۸۔ وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں :
۱۔ نیت۔
۲۔ دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا یا رکھنا جس پر تیمم کرنا صحیح ہو۔ اور احتیاط لازم کی بنا پر دونوں ہاتھ ایک ساتھ زمین پر مارنے یا رکھنے چاہئیں۔
۳۔ پوری پیشانی پر دونوں ہتھیلیوں کو پھیرنا اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر اس مقام سے جہاں سر کے بال اگتے ہیں بھنووں اور ناک کے اوپر تک پیشانی کے دونوں طرف دونوں ہتھیلیوں کو پھیرنا، اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ہاتھ بھنووں پر بھی پھیرے جائیں۔
۴۔ بائیں ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعد دائیں ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی تمام پشت پر پھیرنا۔
۷۰۹۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے اسے ترتیب سے کیا جائے یعنی یہ کہ ایک دفعہ ہاتھ زمین پر مارے جائیں اور پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے جائیں اور پھر ایک دفعہ زمین پر مارے جائیں اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کیا جائے۔
تیمم کے احکام
۷۱۰۔ اگر ایک شخص پیشانی یا ہاتھوں کی پشت کے ذرا سے حصے کا بھی مسح نہ کرے تو اس کا تیمم باطل ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے عمداً مسح نہ کیا ہو یا مسئلہ بھول گیا ہو لیکن بال کی کھال نکالنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اگر یہ کہا جا سکے کہ تمام پیشانی اور ہاتھوں کا مسح ہو گیا ہے تو اتنا ہی کافی ہے۔
۷۱۱۔ اگر کسی شخص کو یقین نہ ہو کہ ہاتھ کہ تمام پشت پر مسح کر لیا ہے تو یقین حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کلائی سے کچھ اور پر والے حصے کا بھی مسح کرے لیکن انگلیوں کے درمیان مسح کرنا ضروری نہیں ہے۔
۷۱۲۔ تیمم کرنے والے کو پیشانی اور ہاتھوں کو پشت کا مسح احتیاط کی بنا پر اوپر سے نیچے کی جانب کرنا ضروری ہے اور یہ افعال ایک دوسرے سے متصل ہونے چاہئیں اور اگر ان افعال کے درمیان اتنا فاصلہ دے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ تیمم کر رہا ہے تو تیمم باطل ہے۔
۷۱۳۔ نیت کرنے وقت لازم نہیں کہ اس بات کا تعین کرے کہ اس کا تیمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے لیکن جہاں دو تیمم انجام دینا ضروری ہوں تو لازم ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو معین کرے اور اگر اس پر ایک تیمم واجب ہو اور نیت کرے کہ میں اس وقت اپنا وظیفہ انجام دے رہا ہوں تو اگرچہ وہ معین کرنے میں غلطی کرے (کہ یہ تیمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے ) اس کا تیمم صحیح ہے۔
۷۱۴۔ احتیاط مستحب کہ بنا پر تیمم میں پیشانی، ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ہاتھوں کی پشت جہاں تک ممکن ہو ضروری ہے کہ پاک ہوں۔
۷۱۵۔ انسان کو چاہئے کہ ہاتھ پر مسح کرتے وقت انگوٹھی اتار دے اور اگر پیشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہتھیلیوں پر کوئی رکاوٹ ہو مثلاً ان پر کوئی چیز چپکی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔
۷۱۶۔ اگر کسی شخص کی پیشانی یا ہاتھوں کی پشت پر زخم ہو اور اس پر کپڑا یا پٹی وغیرہ بندھی ہو جس کو کھولا نہ جا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کے اوپر ہاتھ پھیرے۔ اور اگر ہتھیلی زخمی ہو اور اس پر کپڑا یا پٹی وغیرہ بندھی ہو جسے کھولا نہ جا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کپڑے یا پٹی وغیرہ سمیت ہاتھ اس چیز مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے۔
۷۱۷۔ اگر کسی شخص کی پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر بال ہوں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر سر کے بال پیشانی پر آگرے ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں پیچھے ہٹا دے۔
۷۱۸۔ اگر احتمال ہو کہ پیشانی اور ہتھیلیوں یا ہاتھوں کی پشت پر کوئی رکاوٹ ہے اور یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں معقول ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے تاکہ اسے یقین یا اطمینان ہو جائے کہ رکاوٹ موجود نہیں ہے۔
۷۱۹۔ اگر کسی شخص کا وظیفہ تیمم ہو اور خود تیمم نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے تاکہ وہ مددگار متعلقہ شخص کے ہاتھوں کو اس چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر متعلقہ شخص کے ہاتھوں کو اس کی پیشانی اور دونوں ہاتھوں کی پشت پر رکھ دے تاکہ امکان کی صورت میں وہ خود اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پیشانی اور دونوں ہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کو خود اس کے ہاتھوں سے تیمم کرائے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ تو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں کو اس چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر متعلقہ شخص کی پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے۔ ان دونوں صورتوں میں احتیاط لازم کی بنا پر دونوں شخص تیمم کی نیت کریں لیکن پہلی صورت میں خود مکلف کی نیت کافی ہے۔
۷۲۰۔ اگر کوئی شخص تیمم کے دوران شک کرے کہ وہ اس کا کوئی حصہ بھول گیا ہے یا نہیں اور اس حصے کا موقع گزر گیا ہو تو وہ اپنے شک کا لحاظ نہ کرے اور اگر موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کا تیمم کرے۔
۷۲۱۔ اگر کسی شخص کو بائیں ہاتھ کا مسح کرنے کے بعد شک ہو کہ آیا اس نے تیمم درست کیا ہے یا نہیں تو اس کا تیم صحیح ہے اور اگر اس کا شک بائیں ہاتھ کے مسح کے بارے میں ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا مسح کرے سوائے اس کے کہ لوگ یہ کہیں کہ تیمم سے فارغ ہو چکا ہے مثلاً اس شخص نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس کے لئے طہارت شرط ہے یا تسلسل ختم ہو گیا ہو۔
۷۲۲۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو اگر وہ نماز کے پورے وقت میں عذر کے ختم ہونے سے مایوس ہو جائے تو تیمم کر سکتا ہے اور اگر اس نے کسی دوسرے واجب یا مستحب کام کے لئے تیمم کیا ہو اور نماز کے وقت تک اس کا عذر باقی ہو(جس کی وجہ سے اس کا وظیفہ تیمم ہے ) تو اسی تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
۷۲۳۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو اگر اسے علم ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر باقی رہے گا یا وہ عذر کے ختم ہونے سے مایوس ہو تو وقت کے وسیع ہوتے ہوئے وہ تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ انتظار کرے اور وضو یا غسل کر کے نماز پڑھے۔ بلکہ اگر وہ آخر وقت تک عذر کے ختم ہونے سے مایوس نہ ہو تو مایوس ہونے سے پہلے تیمم کر کے نماز نہیں پڑھ سکتا۔
۷۲۴۔ اگر کوئی شخص وضو یا غسل نہ کر سکتا ہو اور اسے یقین ہو کہ اس کا عذر دور ہونے والا نہیں ہے یا دور ہونے سے مایوس ہو تو وہ اپنی قضا نمازیں تیمم کے ساتھ پڑھ سکتا ہے لیکن اگر بعد میں عذر ختم ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ نمازیں وضو یا غسل کر کے دوبارہ پڑھے اور اگر اسے عذر دور ہونے سے مایوسی نہ ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر قضا نمازوں کے لئے تیمم نہیں کرسکتا۔
۷۲۵۔ جو شخص وضو یا غسل نہ کر سکتا ہو اس کے لئے جائز ہے کہ مستحب نمازیں دن رات کے ان نوافل کی طرح جن کا وقت معین ہے تیمم کر کے پڑھے لیکن اگر مایوس نہ ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو احتیاط لازم یہ ہے کہ وہ نمازیں ان کے اول وقت میں نہ پڑھے۔
۷۲۶۔ جس شخص نے احتیاطاً گسل جبیرہ اور تیمم کیا ہو اگر وہ غسل اور تیمم کے بعد نماز پڑھے اور نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہو مثلاً اگر وہ پیشاب کرے تو بعد کی نمازوں کے لئے ضروری ہے کہ وضو کرے اور اگر حدث نماز سے پہلے صادر ہو تو ضروری ہے کہ اس نماز کے لئے بھی وضو کرے۔
۷۲۷۔ اگر کوئی شخص پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی اور عذر کی بنا پر تیمم کرے تو عذر کے ختم ہو جانے کے بعد اس کا تیمم باطل ہو جاتا ہے۔
۷۲۸۔ جو چیزیں وضو کو باطل کرتی ہیں وہ وضو کے بدلے کئے ہوئے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں اور جو چیزیں غسل کو باطل کرتی ہیں وہ غسل کے بدلے کئے ہوئے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں۔
۷۲۹۔ اگر کوئی شخص غسل نہ کر سکتا ہو اور چند غسل اس پر واجب ہوں تو اس کے لئے جائز ہے کہ ان غسلوں کے بدلے ایک تیمم کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان غسلوں میں سے ہر ایک کے بدلے ایک تیمم کرے۔
۷۳۰۔ جو شخص غسل نہ کر سکتا ہو اگر وہ کوئی ایسا کام انجام دینا چاہے جس کے لئے غسل واجب ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تیمم کرے اور جو شخص وضو نہ کر سکتا ہو اگر وہ کوئی ایسا کام انجام دینا چاہے جس کے لئے وضو واجب ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے۔
۷۳۱۔ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تیمم کرے تو نماز کے لئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے تیمم کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وہ وضو نہ کرسکے تو وضو کے بدلے ایک اور تیمم کرے۔
۷۳۲۔ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تیمم کرے لیکن بعد میں اسے کسی ایسی صورت سے دو چار ہونا پڑے جو وضو کو باطل کر دیتی ہو اور بعد کی نمازوں کے لئے غسل بھی نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے۔ اور اگر وضو نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کے بدلے تیمم کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس تیمم کو ما فی الذمہ کی نیت سے بجا لائے (یعنی جو کچھ میرے ذمے ہے اسے انجام دے رہا ہوں )۔
۷۳۳۔ کسی شخص کو کوئی کام انجام دینے مثلاً نماز پڑھنے کے لئے وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہو تو اگر وہ پہلے تیمم میں وضو کے بدلے تیمم یا غسل کے بدلے تیمم کی نیت کرے اور دوسرا تیمم اپنے وظیفے کو انجام دینے کی نیت سے کرے تو یہ کافی ہے۔
۷۳۴۔ جس شخص کا فریضہ تیمم ہو اگر وہ کسی کام کے لئے تیمم کرے تو جب تک اس کا تیمم اور عذر باقی ہے وہ ان کاموں کو کر سکتا ہے جو وضو یا غسل کر کے کرنے چاہئیں لیکن اگر اس کا عذر وقت کی تنگی ہو یا اس نے پانی ہوتے ہوئے نماز میت یا سونے کے لئے تیمم کیا ہو تو وہ فقط ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے جن کے لئے اس نے تیمم کیا ہو۔
۷۳۵۔ چند صورتوں میں بہتر ہے کہ جو نمازیں انسان نے تیمم کے ساتھ پڑھی ہوں ان کی قضا کرے :
(اول) پانی کے استعمال سے ڈرتا ہو اور اس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو جنب کر لیا ہو اور تیمم کر کے نماز پڑھی ہو۔
(دوم) یہ جانتے ہوئے یا گمان کرتے ہوئے کہ اس پانی نہ مل سکے گا عمداً اپنے آپ کو جنب کر لیا ہو اور تیمم کر کے نماز پڑھی ہو۔
(سوم) آخر وقت تک پانی کی تلاش میں نہ جائے اور تیمم کر کے نماز پڑھے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ اگر تلاش کرتا تو اسے پانی مل جاتا۔
(چہارم) جان بوجھ کر نماز پڑھنے میں تاخیر کی ہو اور آخر وقت میں تیمم کر کے نماز پڑھی ہو۔
(پنجم) یہ جانتے ہوئے یا گمان کرتے ہوئے کہ پانی نہیں ملے گا جو پانی اس کے پاس تھا اسے گرا دیا ہو اور تیمم کر کے نماز پڑھی ہو۔
احکام نماز
نماز دینی اعمال میں سے بہترین عمل ہے۔ اگر یہ درگاہ الہی میں قبول ہو گئی تو دوسری عبادات بھی قبول ہو جائیں گی اور اگر یہ قبول نہ ہوئی تو دوسرے اعمال بھی قبول نہ ہوں گے۔ جس طرح انسان اگر دن رات میں پانچ دفعہ نہر میں نہائے دھوئے تو اس کے بدن پر میل کچیل نہیں رہتی اسی طرح پنج وقتہ نماز بھی انسان کو گناہوں سے پاک کر دیتی ہے اور بہتر ہے کہ انسان نماز اول وقت میں پڑھے۔ جو شخص نماز کو معمولی اور غیر اہم سمجھے وہ اس شخص کو مانند ہے جو نماز نہ پڑھتا ہو۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جو شخص نماز کو اہمیت نہ دے اور اسے معمولی چیز سمجھے وہ عذاب آخرت کا مستحق ہے ” ایک دن رسول اکرم ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گیا لیکن رکوع اور سجود مکمل طور پر بجا نہ لایا۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ شخص اس حالت میں مر جائے جبکہ اس کے نماز پڑھنے کا یہ طریقہ ہے تو یہ ہمارے دین پر نہیں مرے گا۔ پس انسان کو خیال رکھنا چاہئے کہ نماز جلدی جلدی نہ پڑھے اور نماز کی حالت میں خدا کی یاد میں رہے اور خشوع و خضوع اور سنجیدگی سے نماز پڑھے اور یہ خیال رکھے کہ کس ہستی سے کلام کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خداوند عالم کی عظمت اور بزرگی کے مقابلے میں حقی ر اور ناچیز سمجھے۔ اگر انسان نماز کے دوران پوری طرح ان باتوں کی طرف متوجہ رہے تو وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتا ہے جیسا کہ نماز کی حالت میں امیرالمومنین امام علی ؑ کے پاوں سے تیر کھینچ لیا گیا اور آپ ؑ کو خبر تک نہ ہوئی۔ علاوہ ازیں نماز پڑھے والے کو چاہئے کہ توبہ و استغفار کرے اور نہ صرف ان گناہوں کو جو نماز قبول ہونے میں مانع ہوتے ہیں۔ مثلاً حسد، تکبر، غیبت، حرام کھانا، شراب پینا، اور خمس و زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا۔ ترک کرے بلکہ تمام گناہ ترک کر دے اور اسی طرح بہتر ہے کہ جو کام نماز کا ثواب گھٹاتے ہیں وہ نہ کرے مثلاً اونگھنے کی حالت میں یا پیشاب روک کر نماز کے لئے نہ کھڑا ہو اور نماز کے موقع پر آسمان کی جانب نہ دیکھے اور وہ کام کرے جو نماز کا ثواب بڑھاتے ہیں مثلاً عقیق کی انگوٹھی اور پاکیزہ لباس پہنے ، کنگھی اور مسواک کرے نیز خوشبو لگائے۔
واجب نمازیں
چھ نمازیں واجب ہیں :
۱۔ روزانہ کی نمازیں
۲۔ نماز آیات
۳۔ نماز میت
۴۔ خانہ کعبہ کے واجب طواف کی نماز
۵۔ باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔
۶۔ جو نمازیں ا جا رہ، منت، قسم اور عہد سے واجب ہو جاتی ہیں۔ اور نماز جمعہ روزانہ نمازوں میں سے ہے۔
روزانہ کی واجب نمازیں
روانہ کی واجب نمازیں پانچ ہیں۔
ظہر اور عصر (ہر ایک چار رکعت) مغرب (تین رکعت) عشا (چار رکعت) اور فجر (دو رکعت)
۷۳۶۔ انسان سفر میں ہو تو ضروری ہے کہ چار رکعتی نمازیں ان شرائط کے ساتھ جو بعد میں بیان ہوں گی دو رکعت پڑھے۔
ظہر اور عصر کی نماز کا وقت
۷۳۷۔ اگر لکڑی یا کسی اور ایسی ہی سیدھی چیز کو۔۔۔جسے شاخص کہتے ہیں۔۔۔ہموار زمین میں گاڑا جائے تو صبح کے وقت جب سورج طلوع ہوتا ہے اس کا سایہ مغرب کی طرف پڑتا ہے اور جوں جوں سورج اونچا ہوتا جاتا ہے اس کا سایہ گھٹتا جاتا ہے اور ہمارے شہروں میں اول ظہر شرعی کے وقت کمی کے آخری درجے پر پہنچ جاتا ہے اور ظہر گزرنے کے بعد اس کا سایہ مشرق کی طرف ہو جاتا ہے اور جوں جوں سورج مغرب کی طرف ڈھلتا ہے سایہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس بنا پر جب سایہ کمی کے آخری درجے تک پہنچے اور دوبارہ بڑھنے لگے تو پتہ چلتا ہے کہ ظہر شرعی کا وقت ہو گیا ہے لیکن بعض شہروں مثلاً مکہ مکرمہ میں جہاں بعض اوقات ظہر کے وقت سایہ بالکل ختم ہو جاتا ہے جب سایہ دوبارہ ظاہر ہوتا ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔
۷۳۸۔ ظہر اور عصر کی نماز کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر عصر کی نماز کی ظہر کی نماز سے پہلے پڑھے تو اس کی عصر کی نماز باطل ہے سوائے اس کے کہ آخری وقت تک ایک نماز سے زیادہ پڑھنے کا وقت باقی نہ ہو کیوں کہ ایسی صورت میں اگر اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی تو اس کی ظہر کی نماز قضا ہو گی اور اسے چاہئے کہ عصر کی نماز پڑھے اور اگر کوئی شخص اس وقت سے پہلے غلط فہمی کی بنا پر عصر کی پوری نماز ظہر کی نماز سے پہلے پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کو نماز ظہر قرار دے اور ما فی الذمہ کی نیت سے چار رکعت اور پڑھے۔
۷۳۹۔ اگر کوئی شخص طہر کی نماز پڑھنے سے پہلے غلطی سے عصر کی نماز پڑھنے لگ جائے اور نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے تو اسے چاہئے کہ نیت نماز ظہر کی جانب پھیر دے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ میں پڑھ چکا ہوں اور پڑھ رہا ہوں اور پڑھوں گا وہ تمام کی تمام نماز ظہر ہے اور جب نماز ختم کرے تو اس کے بعد عصر کی نماز پڑھے۔
نماز جمعہ کے احکام
۷۴۰۔ جمعہ کی نماز صبح کی نماز کی طرح دو رکعت کی ہے۔ اس میں اور صبح کی نماز میں فرق یہ ہے کہ اس نماز سے پہلے دو خطبے بھی ہیں۔ جمعہ کی نماز واجب تخییری ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جمعہ کے دن مکلف کو اختیار ہے کہ اگر نماز جمعہ کی شرائط موجود ہوں تو جمعہ کی نماز پڑھے یا ظہر کی نماز پڑھے۔ لہذا اگر انسان جمعہ کی نماز پڑھے تو وہ ظہر کی نماز کی کفایت کرتی ہے (یعنی پھر ظہر کی نماز پڑھنا ضروری نہیں )۔
جمعہ کی نماز واجب ہونے کی چند شرطیں ہیں :
(اول) وقت کا داخل ہونا جو کہ زوال آفتاب ہے۔ اور اس کا وقت اول زوال عرفی ہے پس جب بھی اس سے تاخیر ہو جائے ، اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور پھر ظہر کی نماز ادا کرنی چاہئے۔
(دوم) نماز پڑھنے والوں کی تعداد جو کہ بمع امام پانچ افراد ہے اور جب تک پانچ مسلمان اکٹھے نہ ہوں جمعہ کی نماز واجب نہیں ہوتی۔
(سوم) امام کا جامع شرائط امامت ہونا مثلاً عدالت وغیرہ جو کہ امام جماعت میں معتبر ہیں اور نماز جماعت کی بحث میں بتایا جائے گا۔ اگر یہ شرط پوری نہ ہو تو جمعہ کی نماز واجب نہیں ہوتی۔
جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی چند شرطیں ہیں :
(اول) با جماعت پڑھا جانا۔ پس یہ نماز فرادی ادا کرنا صحیح نہیں اور جب مقتدی نماز کی دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور وہ اس نماز پر ایک رکعت کے رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور وہ اس نماز پر ایک رکعت کا اضافہ کرے گا اور اگر وہ رکوع میں امام کو پالے (یعنی نماز میں شامل ہو جائے ) تو اس کی نماز کا صحیح ہونا مشکل ہے اور احتیاط ترک نہیں ہوتی (یعنی اسے ظہر کی نماز پڑھنی چاہئے )
(دوم) نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا۔ پہلے خطبے میں خطیب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے نیز نمازیوں کو تقوی اور پرہیز گاری کی تلقین کرے۔ پھر قرآن مجید کا ایک چھوٹا سورہ پڑھ کر (منبر پر لمحہ دو لمحہ) بیٹھ جائے اور پھر کھڑا ہو اور دوبارہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بجا لائے۔ پھر حضرت رسول اکرم ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام پر درود بھیجے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مومنین اور مومنات کے لئے استغفار (بخشش کی دعاء) کرے۔ ضروری ہے کہ خطبے نماز سے پہلے پڑھے جائیں۔ پس اگر نماز دو خطبوں سے پہلے شروع کر لی جائے تو صحیح نہیں ہو گی اور زوال آفتاب سے پہلے خطبے پڑھنے میں اشکال ہے اور ضروری ہے کہ جو شخص خطبے پڑھے وہ خطبے پڑھنے کے وقت کھڑا ہو۔ لہذا اگر وہ بیٹھ کر خطبے پڑھے گا تو صحیح نہیں ہو گا اور دو خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فاصلہ دینا لازم اور واجب ہے۔ اور ضروری ہے کہ مختصر لمحوں کے لئے بیٹھے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ امام جماعت اور خطیب۔۔۔ یعنی جو شخص خطبے پڑھے۔ ۔۔ ایک ہی شخص ہو اور اقوی یہ ہے کہ خطبے میں طہارت شرط نہیں ہے اگرچہ اشتراط (یعنی شرط ہونا) احوط ہے۔ اور احتیاط کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اسی طرح پیغمبر اکرام ﷺ اور ائمہ المسلمین ؑ پر عربی زبان میں درود بھیجنا معتبر ہے اور اس سے زیادہ میں عربی معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اگر حاضرین کی اکثریت عربی نہ جانتی ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ تقوی کے بارے میں وعظ و نصیحت کرنے وقت جو زبان حاضرین جانتے ہیں اسی میں تقوی کی نصیحت کرے۔
(سوم) یہ کہ جمعہ کی دو نمازوں کے درمیان ایک فرسخ سے کم فاصلہ نہ ہو۔ پس جب جمعہ کی دوسری نماز ایک فرسخ سے کم فاصلہ پر قائم ہو اور دو نمازیں بیک وقت پڑھی جائیں تو دونوں باطل ہوں گی اور اگر ایک نماز کو دوسری پر سبقت حاصل ہو خواہ وہ تکبیرۃ الاحرام کی حد تک ہی کیوں نہ ہو تو وہ (نماز جسے سبقت حاصل ہو) صحیح ہو گی اور دوسری باطل ہو گی لیکن اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ ایک فرسخ سے کم فاصلہ پر جمعہ کی ایک اور نماز اس نماز سے پہلے یا اس کے ساتھ ساتھ قائم ہوئی تھی تو ظہر کی نماز واجب نہیں ہو گی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس بات کا علم وقت میں ہو یا وقت کے بعد ہو۔ اور جمعہ کی نماز کا قائم کرنا مذکورہ فاصلے کے اندر جمعہ کی دوسری نماز قائم کرنے میں اس وقت مانع ہوتا ہے جب وہ نماز خود صحیح اور جامع الشرائط ہو ورنہ اس کے مانع ہونے میں اشکال ہے اور زیادہ احتمال اس کے مانع نہ ہونے کا ہے۔
۷۴۱۔ جب جمعہ کی ایک ایسی نماز قائم ہو جو شرائط کو پورا کرتی ہو اور نماز قائم کرنے والا امام وقت یا اس کا نائب ہو تو اس صورت میں نماز جمعہ کے لئے حاضر ہونا واجب ہے۔ اور اس صورت کے علاوہ حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔ پہلی صورت میں حاضری کے وجوب کے لئے چند چیزیں معتبر ہیں :
(اول) مکلف مرد ہو۔ اور جمعہ کی نماز میں حاضر ہونا عورتوں کے لئے واجب نہیں ہے۔
(دوم) آزاد ہونا۔ لہذا غلاموں کے لئے جمعہ کی نماز میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔
(سوم) مقیم ہونا۔ لہذا مسافر کے لئے جمعہ کی نماز میں شامل ہونا واجب نہیں ہے۔ اس مسافر میں جس کا فریضہ قصر ہو اور جس مسافر نے اقامت کا قصد کیا ہو اور اس کا فریضہ پوری نماز پڑھنا ہو، کوئی فرق نہیں ہے۔
(چہارم) بیمار اور اندھا نہ ہونا۔ لہذا بیمار اور اندھے شخص پر جمعہ کی نماز واجب نہیں ہے۔
(پنجم) بوڑھا نہ ہونا۔ لہذا بوڑھوں پر یہ نماز واجب نہیں۔
(ششم) یہ کہ خود انسان کے اور اس جگہ کے درمیان جہاں جمعہ کی نماز قائم ہو دو فرسخ سے زیادہ فاصلہ نہ ہو اور جو شخص دو فرسخ کے سرے پر ہو اس کے لئے حاضر ہونا واجب ہے اور اسی طرح وہ شخص جس کے لئے جمعہ کی نماز میں بارش یا سخت سردی وغیرہ کی وجہ سے حاضر ہونا مشکل یا دشوار ہو تو حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔
۷۴۲۔ چند احکام جن کا تعلق جمعہ کی نماز سے ہے یہ ہیں :
(اول) جس شخص پر جمعہ کی نماز ساقط ہو گئی ہو اور اس کا اس نماز میں حاضر ہونا واجب نہ ہو اس کے لئے جائز ہے کہ ظہر کی نماز اول وقت میں ادا کرنے کے لئے جلدی کرے۔
(دوم) امام کے خطبے کے دوران باتیں کرنا مکروہ ہے لیکن باتوں کی وجہ سے خطبہ سننے میں رکاوٹ ہو تو احتیاط کی بنا پر باتیں کرنا جائز نہیں ہے۔ اور جو تعداد نماز جمعہ کے واجب ہونے کے لئے معتبر ہے اس میں اور اس سے زیادہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
(سوم) احتیاط کی بنا پر دونوں خطبوں کا توجہ سے سننا واجب ہے لیکن جو لوگ خطبوں کے معنی نہ سمجھتے ہوں ان کے لئے توجہ سے سننا واجب نہیں ہے۔
(چہارم) جمعہ کے دن کی دوسری اذان بدعت ہے اور یہ وہی اذان ہے جسے عام طور پر تیسری اذان کہا جاتا ہے۔
(پنجم) ظاہر یہ ہے کہ جب امام جمعہ خطبہ پڑھ رہا ہو تو حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔
(ششم) جب جمعہ کی نماز کے لئے اذان دی جا رہی ہو تو خرید فروخت اس صورت میں جب کہ وہ نماز میں مانع ہو حرام ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر حرام نہیں ہے اور اظہر یہ ہے کہ خرید و فروخت حرام ہونے کی صورت میں بھی معاملہ باطل نہیں ہوتا۔
(ہفتم) اگر کسی شخص پر جمعہ کی نماز میں حاضر ہونا واجب ہو اور وہ اس نماز کو ترک کرے اور ظہر کی نماز بجا لائے تو اظہر یہ ہے کہ اس کی نماز صحیح ہو گی۔
مغرب اور عشا کی نماز کا وقت
۷۴۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک مشرق کی جانب کی وہ سرخی جو سورج غروب ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے انسان کے سر پر سے نہ گزر جائے وہ مغرب کی نماز نہ پڑھے۔
۷۴۴۔ مغرب اور عشا کی نماز کا وقت مختار شخص کے لئے آدھی رات تک رہتا ہے لیکن جن لوگوں کو کوئی عذر ہو مثلاً بھول جانے کی وجہ سے یا نیند یا حیض یا ان جسیے دوسرے امور کی وجہ سے آدھی رات سے پہلے نماز پڑھ سکتے ہوں تو ان کے لئے مغرب اور عشا کی نماز کا وقت فجر طلوع ہونے تک باقی رہتا ہے۔ لیکن ان دونوں نمازوں کے درمیان متوجہ ہونے کی صورت میں ترتیب معتبر ہے یعنی عشا کی نماز کو جان بوجھ کر مغرب کی نماز سے پہلے پڑھے تو باطل ہے۔ لیکن اگر عشا کی نماز ادا کرنے کی مقدار سے زیادہ وقت باقی نہ رہا ہو تو اس صورت لازم ہے کہ عشا کی نماز کو مغرب کی نماز سے پہلے پڑھے۔
۷۴۵۔ اگر کوئی شخص غلط فہمی کی بنا پر عشا کی نماز مغرب کی نماز سے پہلے پڑھ لے اور نماز کے بعد اس امر کی جانب متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور ضروری ہے کہ مغرب کی نماز اس کے بعد پڑھے۔
۷۴۶۔ اگر کوئی شخص مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے بھول کر عشا کی نماز پڑھنے میں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ اس نے غلطی کی ہے اور ابھی وہ چوتھی رکعت کے رکوع تک نہ پہنچا ہو تو ضروری ہے کہ مغرب کی نماز کی طرف نیت پھیر لے اور نماز کو تمام کرے اور بعد میں عشا کی نماز پڑھے اور اگر چوتھی رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو اسے عشا کی نماز قرار دے اور ختم کرے اور بعد میں مغرب کی نماز بجا لائے۔
۷۴۷۔ عشا کی نماز کا مختار شخص کے لئے آدھی رات ہے اور رات کا حساب سورج غروب ہونے کی ابتدا سے طلوع فجر تک ہے۔
۷۴۸۔ اگر کوئی شخص اختیاری حالت میں مغرب اور عشا کی نماز آدھی رات تک نہ پڑھے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اذان صبح سے پہلے قضا اور ادا کی نیت کئے بغیر ان نمازوں کو پڑھے۔
صبح کی نماز کا وقت
۷۴۹۔ صبح کی اذان کے قریب مشرق کی طرف سے ایک سفیدی اوپر اٹھتی ہے ، جسے فجر اول کہا جاتا ہے جب یہ سفید پھیل جائے تو فجر دوم اور صبح کی نماز کا اول وقت ہے اور صبح کی نماز کا آخری وقت سورج نکلتے تک ہے۔
اوقات نماز کے احکام
۷۵۰۔ انسان نماز میں اس وقت مشغول ہو سکتا ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ وقت داخل ہو گیا ہے یا دو عادل مرد وقت داخل ہو گیا ہے یا دو عادل مرد وقت داخل ہونے کی خبر دیں بلکہ کسی وقت شناس شخص کی جو قابل اطمینان ہو اذان پر یا وقت داخل ہونے کے بارے میں گواہی پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے۔
۷۵۱۔ اگر کوئی شخص کسی ذاتی عذر مثلاً بینائی نہ ہونے یا قید خانے میں ہونے کی وجہ نماز کا اول وقت داخل ہونے کا یقین نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھنے میں تاخیر کرے حتی کہ اسے یقین یا اطمینان ہو جائے کہ وقت داخل ہو گیا ہے۔ اسی طرح اگر وقت داخل ہونے کا یقین ہونے میں ایسی چیز مانع ہو جو مثلاً بادل، غبار یا ان جیسی دوسری چیزوں (مثلاً دھند) کی طرح عموماً پیش آتی ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
۷۵۲۔ اگر مذکورہ بالا طریقے سے کسی شخص کو اطمینان ہو جائے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور وہ نماز میں مشغول ہو جائے لیکن نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ اس نے ساری نماز وقت سے پہلے پڑھی ہے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے لیکن اگر نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ وقت داخل ہو گیا ہے یا نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز پڑھتے ہوئے وقت داخل ہو گیا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۷۵۳۔ اگر کوئی شخص اس امر کی جانب متوجہ نہ ہو کہ وقت کے داخل ہونے کا یقین کر کے نماز میں مشغول ہونا چاہئے لیکن نماز کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس نے ساری نماز وقت میں پڑھی ہے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر اسے یہ پتہ چل جائے کہ اس نے وقت سے پہلے نماز پڑھی ہے یا اسے یہ پتہ نہ چلے کہ وقت میں پڑھی ہے یا وقت سے پہلے پڑھی ہے تو اس کی نماز باطل ہے بلکہ اگر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہو گیا تھا تب بھی اسے چاہئے کہ اس نماز کو دوبارہ پڑھے۔
۷۵۴۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ وقت داخل ہو گیا ہے اور نماز پڑھنے لگے لیکن نماز کے دوران شک کرے کہ وقت داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر نماز کے دوران اسے یقین ہو کہ وقت داخل ہو گیا ہے اور شک کرے کہ جتنی نماز پڑھی ہے وہ وقت میں پڑھی ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۷۵۵۔ اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز کے بعد مستحب افعال ادا کرنے سے نماز کی کچھ مقدار وقت کے بعد پڑھنی پڑتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ مستحب امور کو چھوڑ دے مثلاً اگر قنوت پڑھنے کی وجہ سے نماز کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑتا ہو تو اسے چاہئے کہ قنوت نہ پڑھے۔
۷۵۶۔ جس شخص کے پاس نماز کی فقط ایک رکعت ادا کرنے کا وقت ہو اسے چاہئے کہ نماز ادا کی نیت سے پڑھے البتہ اسے جان بوجھ کر نماز میں اتنی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
۷۵۷۔ جو شخص سفر میں نہ ہو اگر اس کے پاس غروب آفتاب تک پانچ رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہئے کہ ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں پڑھے لیکن اگر اس کے پاس اس سے کم وقت ہو تو اسے چاہئے کہ ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں پڑھے لیکن اگر اس کے پاس اس سے کم وقت ہو تو اسے چاہئے کہ صرف عصر کی نماز پڑھے اور بعد میں ظہر کی نماز قضا کرے اور اسی طرح اگر آدھی رات تک اس کے پاس پانچ رکعت پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہئے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے اور اگر وقت اس کم ہو تو اسے چاہئے کہ صرف عشا کی نماز پڑھے اور بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر نماز مغرب پڑھے۔
۷۵۸۔ جو شخص سفر میں ہو اگر غروب آفتاب تک اس کے پاس تین رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہئے کہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو چاہئے کہ صرف عصر پڑھے اور بعد میں نماز ظہر کی قضا کرے اور اگر آدھی رات تک اس کے پاس چار رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہئے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے اور اگر نماز کے تین رکعت کے برابر وقت باقی ہو تو اسے چاہئے کہ پہلے عشا کی نماز پڑھے اور بعد میں مغرب کی نماز بجا لائے تاکہ نماز مغرب کی ایک رکعت وقت میں انجام دی جائے ، اور اگر نماز کی تین رکعت سے کم وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ پہلے عشا کی نماز پڑھے اور بعد میں مغرب کی نماز ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر پڑھے اور اگر عشا کی نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ آدھی رات ہونے میں ایک رکعت یا اس سے زیادہ رکعتیں پڑھنے کے لئے وقت باقی ہے تو اسے چاہئے کہ مغرب کی نماز فوراً ادا کی نیت سے بجا لائے۔
۷۵۹۔ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز اول وقت میں پڑھے اور اس کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور جتنا اول وقت کے قریب ہو بہتر ہے ماسوا اس کے کہ اس میں تاخیر کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً اس لئے انتظار کرے کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے۔
۷۶۰۔ جب انسان کے پاس کوئی ایسا عذر ہو کہ اگر اول وقت میں نماز پڑھنا چاہے تو تیمم کر کے نماز پڑھنے پر مجبور ہو اور اسے علم ہو کہ اس کا عذر آخر وقت تک باقی رہے گا یا آخر وقت تک عذر کے دور ہونے سے مایوس ہو تو وہ اول وقت میں تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر مایوس نہ ہو تو ضروری ہے کہ عذر دور ہونے تک انتظار کرے اور اگر اس کا عذر دور نہ ہو تو آخر وقت میں نماز پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ اس قدر انتظار کرے کہ نماز کے صرف واجب افعال انجام دے سکے بلکہ اگر اس کے پاس مستحبات نماز مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کے لئے بھی وقت ہو تو وہ تیمم کر کے ان مستحبات کے ساتھ نماز ادا کر سکتا ہے اور تیمم کے علاوہ دوسری مجبوریوں کی صورت میں اگرچہ عذر دور ہونے سے مایوس نہ ہوا ہو اس کے لئے جائز ہے کہ اول وقت میں نماز پڑھے۔ لیکن اگر وقت کے دوران اس کا عذر دور ہو جائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
۷۶۱۔ اگر ایک شخص نماز کے مسائل اور شکیات اور سہویات کا علم نہ رکھتا ہو اور اسے اس بات کا احتمال ہو کہ اسے نماز کے دوران ان مسائل میں سے کوئی نہ کوئی مسئلہ پیش آئے گا اور اس کے یاد نہ کرنے کی وجہ سے کسی لازمی حکم کی مخالفت ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ انہیں سیکھنے کے لئے نماز کو اول وقت سے موخر کر دے لیکن اگر اسے امید ہو کہ صحیح طریقے سے نماز انجام دے سکتا ہے۔ اور اول وقت میں نماز پڑھنے میں مشغول ہو جائے پس اگر نماز میں کوئی ایسا مسئلہ پیش نہ آئے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔ اور اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ جن دو باتوں کا احتمال ہو ان میں سے ایک عمل کرے اور نماز ختم کرے تاہم ضروری ہے کہ نماز کے بعد مسئلہ پوچھے اور اگر اس کی نماز باطل ثابت ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر صحیح ہو تو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔
۷۶۲۔ اگر نماز کو وقت وسیع ہو اور قرض خواہ بھی اپنے قرض کا مطالبہ کرے تو اگر ممکن ہو تو ضروری ہے کہ پہلے قرضہ ادا کرے اور بعد میں نماز پڑھے اور اگر کوئی ایسا دوسرا واجب کام پیش آ جائے جسے فوراً بجا لانا ضروری ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے مثلاً اگر دیکھے کہ مسجد نجس ہو گئی ہے تو ضروری ہے کہ پہلے مسجد کو پاک کرے اور بعد میں نماز پڑھے اور اگر مذکورو بالا دونوں صورتوں میں پہلے نماز پڑھے تو گناہ کا مرتکب ہو گا لیکن اس کی نماز صحیح ہو گی۔
وہ نمازیں جو ترتیب سے پڑھنی ضروری ہیں
۷۶۳۔ ضروری ہے کہ انسان نماز عصر، نماز ظہر کے بعد اور نماز عشا، نماز مغرب کے بعد پڑھے اور اگر جان بوجھ کر نماز عصر نماز ظہر سے پہلے اور نماز عشا نماز مغرب سے پہلے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۷۶۴۔ اگر کوئی شخص نماز ظہر کی نیت سے نماز پڑھنی شروع کرے اور نماز کے دوران اسے یاد آئے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو وہ نیت کو نماز عصر کی جانب نہیں موڑ سکتا بلکہ ضروری ہے کہ نماز توڑ کر نماز عصر پڑھے اور مغرب اور عشا کی نماز میں بھی یہی صورت ہے۔
۷۶۵۔ اگر نماز عصر کے دوران کسی شخص کو یقین ہو کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی ہے اور وہ نیت کو نماز ظہر کی طرف موڑ دے تو جو نہی اسے یاد آئے کہ وہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو نیت کو نماز عصر کی طرف موڑ دے اور نماز مکمل کرے۔ لیکن اگر اس نے نماز کے بعض اجزاء کو ظہر کی نیت سے انجام نہ دیا ہو یا ظہر کی نیت سے انجام دیا ہو تو اس صورت میں ان اجزا کو عصر کی نیت سے دوبارہ انجام دے لیکن اگر وہ جز ایک رکعت ہو تو پھر ہر صورت میں نماز باطل ہے۔ اسی طرح اگر وہ جز ایک رکعت کا رکوع ہو یا دور سجدے ہوں تو احتیاط لازم کی بنا پر نماز باطل ہے۔
۷۶۶۔ اگر کسی شخص کو نماز عصر کے دوران شک ہو کہ اس نے نماز ظہر پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ عصر کی نیت سے نماز تمام کرے اور بعد میں ظہر کی نماز پڑھے لیکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ نماز پڑھنے کے بعد سورج ڈوب جاتا ہو اور ایک رکعت نماز کے لئے بھی وقت باقی نہ بچتا ہو تو لازم نہیں ہے کہ نماز ظہر کی قضا پڑھے۔
۷۶۷۔ اگر کسی شخص کو نماز عشا کے دوران شک ہو جائے کہ اس نے مغرب کی نماز پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ عشا کی نیت سے نماز ختم کرے اور بعد میں مغرب کی نماز پڑھے۔ لیکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم ہونے کے بعد آدھی رات ہو جاتی ہو اور ایک رکعت نماز کا وقت بھی نہ بچتا ہو تو نماز مغرب کی قضا اس پر لازم نہیں ہے۔
۷۶۸۔ اگر کوئی شخص نماز عشا کی چوتھی رکعت کے رکوع میں پہنچنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ نماز مکمل کرے۔ اور اگر بعد میں مغرب کی نماز کے لئے وقت باقی ہو تو مغرب کی نماز بھی پڑھے۔
۷۶۹۔ اگر کوئی شخص ایسی نماز جو اس نے پڑھ لی ہو احتیاط دوبارہ پڑھے اور نماز کے دوران اسے یاد آئے کہ اس نماز سے پہلے والی نماز نہیں پڑھی تو وہ نیت کو اس نماز کی طرف نہیں موڑ سکتا۔ مثلاً جب وہ نماز عصر احتیاطاً پڑھ رہا ہو اگر اسے یاد آئے کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی تو وہ نیت کو نماز ظہر کی طرف نہیں موڑ سکتا۔
۷۷۰۔ نماز قضا کی نیت نماز ادا کی طرف اور نماز مستحب کی نیت نماز واجب کی طرف موڑنا جائز نہیں ہے۔
۷۷۱۔ اگر ادا نماز کا وقت وسیع ہو تو انسان نماز کے دوران یہ یاد آنے پر کہ اس کے ذمے کوئی قضا نماز ہے ، نیت کو نماز قضا کی طرف موڑ سکتا ہے بشرطیکہ نماز قضا کی طرف نیت موڑنا ممکن ہو۔ مثلاً اگر وہ نماز ظہر میں مشغول ہو تو نیت کو قضائے صبح کی طرف اسی صورت میں موڑ سکتا ہے کہ تیسری رکعت کے رکوع میں داخل نہ ہوا ہو۔
مستحب نمازیں
۷۷۲۔ مستحب نمازیں بہت سی ہیں جنہیں نفل کہتے ہیں ، اور مستحب نمازوں میں سے روانہ کے نفلوں کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یہ نمازیں روز جمعہ کے علاوہ چونتیس رکعت ہیں جن میں سے آٹھ رکعت ظہر کی، آٹھ رکعت عصر کی، چار رکعت مغرب کی، دو رکعت عشا کی، گیارہ رکعت نماز شب (یعنی تہجد) کی اور دو رکعت صبح کی ہوتی ہیں اور چونکہ احتیاط واجب کی بنا پر عشا کی دو رکعت نفل بیٹھ کر پڑھنی ضروری ہیں اس لئے وہ ایک رکعت شمار ہوتی ہے۔ لیکن جمعہ کے دن ظہر اور عصر کی سولہ رکعت نفل پر چار رکعت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور بہتر ہے کہ یہ پوری کی پوری بیس رکعتیں زوال سے پہلے پڑھی جائیں۔
۷۷۳۔ نماز شب کی گیارہ رکعتوں میں سے آٹھ رکعتیں نافلہ شب کی نیت سے اور دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھنی ضروری ہیں اور نافلہ شب کا مکمل طریقہ دعا کی کتابوں میں مذکور ہے۔
۷۷۴۔ نفل نمازیں بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہیں لیکن بعض فقہا کہتے ہیں کہ اس صورت میں بہتر ہے کہ بیٹھ کر پڑھی جانے والی نفل نماز کی دو رکعتوں کو ایک رکعت شمار کیا جائے مثلاً جو شخص ظہر کی نفلیں جس کی آٹھ رکعتیں ہیں بیٹھ کر پڑھنا چاہے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ سولہ رکعتیں پڑھے اور اگر چاہے کہ نماز وتر بیٹھ کر پڑھے تو ایک ایک رکعت کی دو نمازیں پڑھے۔ تاہم اس کام کا بہتر ہونا معلوم نہیں ہے۔ لیکن رجا کی نیت سے انجام دے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
۷۷۵۔ ظہر اور عصر کی نفلی نمازیں سفر میں نہیں پڑھنی چاہئیں اور اگر عشا کی نفلیں رجا کی نیت سے پڑھی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
روزانہ کی نفلوں کا وقت
۷۷۶۔ظہر کی نفلیں نماز ظہر سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ اور جہاں تک ممکن ہو اسے ظہر کی نماز سے پہلے پڑھا جائے اور اس کا وقت اول ظہر سے لے کر ظہر کی نماز ادا کرنے تک باقی رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ظہر کی نفلیں اس وقت تک موخر کر دے کہ شاخص کے سایہ کی وہ مقدار جو ظہر کے بعد پیدا ہو ساتھ میں سے دو حصوں کے برابر ہو جائے مثلاً شاخص کی لمبائی ساتھ بالشت اور سایہ کی مقدار دو بالشت ہو تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ انسان ظہر کی نماز پڑھے۔
۷۷۷۔عصر کی نفلیں عصر کی نماز سے پہلے پڑھی جاتی ہیں۔ اور جب تک ممکن ہو اسے عصر کی نماز سے پہلے پڑھا جائے۔ اور اس کا وقت عصر کی نماز ادا کرنے تک باقی رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص عصر کی نفلیں اس وقت تک موخر کر دے کہ شاخص کے سایہ کی وہ مقدار جو ظہر کی بعد پیدا ہو سات میں سے چار حصوں تک پہنچ جائے تو اس صورت میں بہتر ہے کہ انسان عصر کی نماز پڑھے۔ اور اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نفلیں اس کے مقررہ وقت کے بعد پڑھنا چاہے تو ظہر کی نفلیں نماز ظہر کے بعد اور عصر کی نفلیں نماز عصر کے بعد پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط کی بنا پر ادا اور قضا کی نیت نہ کرے۔
۷۷۸۔مغرب کی نفلوں کا وقت نماز مغرب ختم ہونے کے بعد ہوتا ہے اور جہاں تک ممکن ہو اسے مغرب کی نماز کے فوراً بعد بجا لائے لیکن اگر کوئی شخص اس سرخی کے ختم ہونے تک جو سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان میں دکھائی دیتی ہے مغرب کی نفلوں میں تاخیر کرے تو اس وقت بہتر یہ ہے کہ عشا کی نماز پڑھے۔
۷۷۹۔ عشا کی نفلوں کا وقت نماز عشا ختم ہونے کے بعد سے آدھی رات تک ہے اور بہتر ہے کہ نماز عشا ختم ہونے کے فوراً بعد پڑھی جائے۔
۷۸۰۔ صبح کی نفلیں صبح کی نماز سے پہلے پڑھی جاتی ہے اور اس کا وقت نماز شب کا وقت ختم ہونے کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح کی نماز کے ادا ہونے تک باقی رہتا ہے اور جہاں تک ممکن ہو صبح کی نفلیں صبح کی نماز سے پہلے پڑھنی چاہئیں لیکن اگر کوئی شخص صبح کی نفلیں مشرق کی سرخی ظاہر ہونے تک نہ پڑھے تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ صبح کی نماز پڑھے۔
۷۸۱۔ نماز شب کا اول وقت مشہور قول کی بنا پر آدھی رات ہے اور صبح کی اذان تک اس کا وقت باقی رہتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ صبح کی اذان کے قریب پڑھی جائے۔
۷۸۲۔ مسافر اور وہ شخص جس کے لئے نماز شب کا آدھی رات کے بعد ادا کرنا مشکل ہو اسے اول شب میں بھی ادا کر سکتا ہے۔
نماز غُفیلہ
۷۸۳۔ مشہور مستحب نمازوں میں سے ایک نماز غفیلہ ہے جو مغرب اور عشا کی نماز کے درمیان پڑھی جاتی ہے۔ اس کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد کسی دوسری سورۃ کے بجائے یہ آیت پڑھنی ضروری ہے : وَذَا النُّونِ اِذ ذَّھَبَ مُغَاضِباً اَن لَّن نَّقدِ عَلَیہ فَنَادیٰ فِی الظُّلُمٰتِ اَن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اَنتَ سُبحٰنَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظّٰلِمِینَ فَاستَجَبناَ لَہ وَنَجَّینٰہ مِنَ الغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نُنجِی المُئومِنِینَ۔ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد بجائے کسی اور سورۃ کے یہ آیت پڑھے : وَ عِندَہ مَفَاتِحُ الغَیبِ لاَ یَعلَمُہآ اِلاَّ ھُوَ وَیَعلَمُ مَا فِی البَرِّ وَالبَحرِ وَمَا تَسقُطُ مِن وَّرَقَۃٍ اِلاَّ یَعلَمھَُا وَلاَ حَبَّۃٍ فِی ظُلُمٰتِ الاَرضِ وَلاَ رَظبٍ وَّلاَ یَابِسٍ اِلاَّ فِی کِتٰبٍ مُّبِینٍ۔ اور اس کے قنوت میں یہ پڑھے : اللّٰھُمّ اِنِّیٓ اَسئَلُکَ بِمَفَاتِحِ الغَیبِ الَّتِی لاَ یَعلَمھَُآ اِلاَّ اَنتَ تُصَلِّی عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اَن تَفعَلَ بِی کَذَا وَ کَذَا۔ اور کَذَا وَ کَذَا کی بجائے اپنی حاجتیں بیان کرے اور اس کے بعد کہے : اللّٰھُمَّ اَنتَ وَلِیُّ نِعمَتِی وَالقَادِرُ عَلیٰ طَلِبَتِی تَعلَمُ حَاجَتِی فَاَسئَلُکَ بِحَقِّ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ عَلِیہ وَعِلَیھِمُ السَّلاَمُ لَمَّا قَضَیتَہالِی۔
قبلے کے احکام
۷۸۴۔ خانہ کعبہ جو مکہ مکرمہ میں ہے وہ ہمارا قبلہ ہے لہذا (ہرمسلمان کے لئے ) ضروری ہے کہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھے لیکن جو شخص اس سے دور ہو اگر وہ اس طرح کھڑا ہو کہ لوگ کہیں کہ قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہا ہے تو کافی ہے اور دوسرے کام جو قبلے کی طرف منہ کر کے انجام دینے ضروری ہیں۔ مثلاً حیوانات کو ذبح کرنا۔ ان کا بھی یہی حکم ہے۔
۷۸۵۔ جو شخص کھڑا ہو کر واجب نماز پڑھ رہا ہو ضروری ہے کہ اس کا سینہ اور پیٹ قبلے کی طرف ہو۔۔۔۔ بلکہ اس کا چہرہ قبلے سے بہت زیادہ پھرا ہوا نہیں ہونا چاہئے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے پاوں کی انگلیاں بھی قبلہ کی طرف ہوں۔
۷۸۶۔ جس شخص کو بیٹھ کر نماز پڑھنی ہو ضروری ہے کہ اس کا سینہ اور پیٹ نماز کے وقت قبلے کی طرف ہو۔ بلکہ اس کا چہرہ بھی قبلے سے بہت زیادہ پھرا ہوا نہ ہو۔
۷۸۷۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے ضروری ہے کہ دائیں پہلو کے بل یوں لیٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلے کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے بائیں پہلو کے بل یوں لیئے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلے کی طرف ہو۔ اور جب تک دائیں پہلو کی بل لیٹ کر نماز پڑھنا ممکن ہوا احتیاط لازم کی بنا پر بائیں پہلو کے بل لیٹ کر نماز نہ پڑھے۔ اور اگر یہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں تو ضروری ہے کہ پشت کے بل یوں لیٹے کہ اس کے پاوں کے تلوے قبلے کی طرف ہوں۔
۷۸۸۔ نماز احتیاط، بھولا ہوا سجدہ اور بھولا ہوا تشہد قبلے کی طرف منہ کر کے ادا کرنا ضروری ہے اور احتیاط مستحب کی بنا پر سجدہ سہو بھی قبلے کی طرف منہ کر کے ادا کرے۔
۷۸۹۔ مستحب نماز راستہ چلتے ہوئے اور سواری کی حالت میں پڑھی جا سکتی ہے اور اگر انسان ان دونوں حالتوں میں مستحب نماز پڑھے تو ضروری نہیں کہ اس کا منہ قبلے کی طرف ہو۔
۷۹۰۔ جو شخص نماز پڑھنا چاہے ضروری ہے کہ قبلے کی سمت کا تعین کرنے کے لئے کوشش کرے تاکہ قبلے کی سمت کے بارے میں یقین یا ایسی کیفیت جو یقین کے حکم میں ہو۔ مثلاً دو عادل آدمیوں کی گواہی۔۔۔ حاصل کر لے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ مسلمانوں کی مسجد کے محراب سے یا ان کی قبروں سے یا دوسرے طریقوں سے جو گمان پیدا ہو اس کے مطابق عمل کرے حتی کہ اگر کسی ایسے فاسق یا کافر کے کہنے پر جو سائنسی قواعد کے ذریعے قبلے کا رخ پہچانتا ہو قبلے کے بارے میں گمان پیدا کرے تو وہ بھی کافی ہے۔
۷۹۱۔ جو شخص قبلے کی سمت کے بارے میں گمان کرے ، اگر وہ اس سے قوی تر گمان پیدا کر سکتا ہو تو وہ اپنے گمان پر عمل نہیں کرسکتا مثلاً اگر مہمان، صاحب خانہ کے کہنے پر قبلے کی سمت کے بارے میں گمان پیدا کر لے لیکن کسی دوسرے طریقے پر زیادہ قوی گمان پیدا کر سکتا ہو تو اسے صاحب خانہ کے کہنے پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔
۷۹۲۔ اگر کسی کے پاس قبلے کا رخ متعین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو (مثلاً قطب نما) یا کوشش کے باوجود اس کا گمان کسی ایک طرف نہ جاتا ہو تو اس کا کسی بھی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا کافی ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت وسیع ہو تو چار نمازیں چاروں طرف منہ کر کے پڑھے (یعنی وہی ایک نماز چار مرتبہ ایک ایک سمت کی جانب منہ کر کے پڑھے )۔
۷۹۳۔ اگر کسی شخص کو یقین یا گمان ہو کہ قبلہ دو میں میں ہے ایک طرف ہے تو ضروری ہے کہ دونوں طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔
۷۹۴۔ جو شخص کئی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتا ہو اگر وہ ایسی دو نمازیں پڑھنا چاہے جو ظہر اور عصر کی طرح یکے بعد دیگرے پڑھنی ضروری ہیں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلی نماز مختلف سمتوں کی طرف منہ کر کے پڑھے اور بعد میں دوسری نماز شروع کرے۔
۷۹۵۔ جس شخص کو قبلے کی سمت کا یقین نہ ہو اگر وہ نماز کے علاوہ کوئی ایسا کام کرنا چاہے جو قبلے کی طرف منہ کر کے کرنا ضروری ہے مثلاً اگر وہ کوئی حیوان ذبح کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ گمان پر عمل کرے اور اگر گمان پیدا کرنا ممکن نہ ہو تو جس طرف منہ کر کے وہ کام انجام دے درست ہے۔
نماز میں بدن کا ڈھانپنا
۷۹۲۔ ضروری ہے کہ مرد خواہ اسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو نماز کی حالت میں اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپے اور بہتر یہ ہے کہ ناف سے گھٹنوں تک بدن بھی ڈھانپے۔
۷۹۷۔ضروری ہے کہ عورت نماز کے وقت اپنا تمام بدن حتیٰ کہ سر اور بال بھی ڈھانپے اور احتیاط مُستحب یہ ہے کہ پاوں کے تلوے بھی ڈھانپے البتہ چہرے کا جتنا حصہ وضو میں دھویا جاتا ہے اور کلائیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاوں کا ظاہری حصہ ڈھانپا ضروری نہیں ہے لیکن یہ یقین کرنے کے لئے کہ اس نے بدن کی واجب مقدار ڈھانپ لی ہے ضروری ہے کہ چہرے کی اطراف کا کچھ حصہ اور کلائیوں سے نیچے کا کچھ حصہ بھی ڈھانپے۔
۷۹۸۔ جب انسان بھولے ہوئے سجدے یا بھولے ہوئے تشہد کی قضا بجا لا رہا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح ڈھانپے جس طرح نماز کے وقت ڈھانپا جاتا ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ سجدہ سہو ادا کرنے کے وقت بھی اپنے آپ کو ڈھانپے۔
۷۹۹۔ اگر انسان جان بوجھ کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے غلطی کرتے ہوئے نماز میں اپنی شرم گاہ نہ ڈھانپے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۸۰۰۔اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پتہ چلے کہ اس کی شرم گاہ ننگی ہے تو ضروری ہے کہ اپنی چھپائے اور اس پر لازم نہیں ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے لیکن احتیاط یہ ہے کہ جب اسے پتہ چلے کہ اس کی شرم گاہ ننگی ہے تو اس کے بعد نماز کا کوئی جز انجام نہ دے۔ لیکن اگر اسے نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے دوران اس کی شرم گاہ ننگی تھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۰۱۔ اگر کسی شخص کالباس کھڑے ہونے کی حالت میں اس کی شرمگاہ کو ڈھانپ لے لیکن ممکن ہو کہ دوسری حالت میں مثلاً رکوع اور سجود کی حالت میں نہ ڈھانپے تو اگر شرمگاہ کے ننگا ہونے کے وقت اسے کسی ذریعے سے ڈھانپ لے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس لباس کے ساتھ نماز نہ پڑھے۔
۸۰۲۔ انسان نماز میں اپنے آپ کو گھاس پھونس اور درختوں کے (بڑے ) پتوں سے ڈھانپ سکتا ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان چیزوں سے اس وقت ڈھانپے جب اس کے پاس کوئی اور چیز نہ ہو۔
۸۰۳۔ انسان کے پاس مجبوری کی حالت میں شرم گاہ چھپانے کے لئے کوئی چیز نہ ہو تو اپنی شرم گاہ کی کھال نمایاں نہ ہونے کے لئے گارا یا اس جیسی کسی دوسری چیز کو لیپ پوت کر اسے چھپائے۔
۸۰۴۔ اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز ایسی نہ ہو جس سے وہ نماز میں اپنے آپ کو ڈھانپے اور ابھی وہ ایسی چیز ملنے سے مایوس بھی نہ ہوا ہو تو بہتر یہ ہے کہ نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور اگر کوئی چیز نہ ملے تو آخر وقت میں اپنے وظیفے کے مطابق نماز پڑھے لیکن اگر وہ اول وقت میں نماز پڑھے اور اس کا عذر آخر وقت تک باقی نہ رہے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔
۸۰۵۔ اگر کسی شخص کے پاس جو نماز پڑھنا چاہتا ہو اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لئے درخت کے پتے ، گھاس، گارا یا دلدل نہ ہو اور آخرت وقت تک کسی ایسی چیز کے ملنے سے مایوس ہو جس سے وہ اپنے آپ کو چھپا سکے اگر اسے اس بات کا اطمینان ہو کہ کوئی شخص اسے نہیں دیکھے گا تو وہ کھڑا ہو کر اسی طرح نماز پڑھے جس طرح اختیاری حالت میں رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں لیکن اگر اسے اس بات کا احتمال ہو کہ کوئی شخصاسے دیکھ لے گا تو ضروری ہے کہ اس طرح نماز پڑھے کہ اس کی شرم گاہ نظر نہ آئے مثلاً بیٹھ کر نماز پڑھے یا رکوع اور سجود جو اختیاری حالت میں انجام دیتے ہیں ترک کرے اور رکوع اور سجود کو اشارے سے بجا لائے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ ننگا شخص نماز کی حالت میں اپنی شرمگاہ کو اپنے بعض اعضا کے ذریعے مثلاً بیٹھا ہو تو دونوں رانوں سے اور کھڑا ہو تو دونوں ہاتھوں سے چھپا لے۔
نمازی کے لباس کی شرطیں
۸۰۶۔ نماز پڑھنے والے کے لباس کی چھ شرطیں ہیں :
(اول) پاک ہو۔
(دوم) مُباح ہو۔
(سوم) مُردار کے اجزا سے نہ بنا ہو۔
(چہارم) حرام گوشت حیوان کے اجزا سے نہ بنا ہو۔
(پنجم اور ششم) اگر نماز پڑھنے والا مرد ہو تو اس کا لباس خالص ریشم اور زر دوزی کا بنا ہو نہ ہو۔ ان شرطوں کی تفصیل آئندہ مسائل میں بتائی جائے گی۔
پہلی شرط
۸۰۷۔ نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص حالت اختیار میں نجس بدن یا نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۸۰۸۔ اگر کوئی شخص اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ نہ جانتا ہو کہ نجس بدن اور لباس کے ساتھ نماز باطل ہے اور نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۸۰۹۔ اگر کوئی شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے کوتاہی کی بنا پر کسی نجس چیز کے بارے میں یہ جانتا ہو کہ نجس ہے مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ کافر کا پسینہ نجس ہے اور اس (پسینے ) کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز احتیاط لازم کی بنا پر باطل ہے۔
۸۱۰۔اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس نہیں ہے اور اس کے نجس ہونے کے بارے میں اسے نماز کے بعد پتہ چلے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۱۱۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور اسے نماز کے دوران یا اس کے بعد یاد آئے چنانچہ اگر اس نے لاپروائی اور اہمیت نہ دینے کی وجہ سے بھلا دیا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے۔ اور اس صورت کے علاوہ ضروری نہیں ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔ لیکن اگر نماز کے دوران اسے یاد آئے تو ضروری ہے کہ اس حکم پر عمل کرے جو بعد والے مسئلے میں بیان کیا جائے گا۔
۸۱۲۔ جو شخص وسیع وقت میں نماز میں مشغول ہو اگر نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور اسے یہ احتمال ہو کہ نماز شروع کرنے کے بعد نجس ہوا ہے تو اس صورت میں اگر بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس تبدیل کرنے یا لباس اتار دینے سے نماز نہ ٹوٹے تو نماز کے دوران بدن یا لباس پاک کرے یا لباس تبدیل کرے یا اگر کسی اور چیز نے اس کی شرم گاہ کو ڈھانپ رکھا ہو تو لباس اتار دے لیکن جب صورت یہ ہو کہ اگر بدن یا لباس پاک کرے یا اگر لباس بدلے یا اتارے تو نماز ٹوٹتی ہو یا اگر لباس اتارے تو ننگا ہو جاتا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ دوبارہ پاک لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔
۸۱۳۔جو شخص تنگ وقت میں نماز میں مشغول ہو اگر نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ اس کا لباس نجس ہے اور اسے یہ احتمال ہو کہ نماز شروع کرنے کے بعد نجس ہوا ہے تو اگر صورت یہ ہو کہ لباس پاک کرنے یا بدلنے یا اتارنے سے نماز نہ ٹوٹتی ہو اور وہ لباس اتار سکتا ہو تو ضروری ہے کہ لباس کو پاک کرے یا بدلے یا اگر کسی اور چیز نے اس کی شرم گاہ کو ڈھانپ رکھا ہو تو لباس اتار دے اور نماز ختم کرے لیکن اگر کسی اور چیز نے اس کی شرمگاہ کو نہ ڈھانپ رکھا ہو اور وہ لباس پاک نہ کر سکتا ہو اور اسے بدل بھی نہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسی نجس لباس کے ساتھ نماز کو ختم کرے۔
۸۱۴۔کوئی شخص جو تنگ وقت میں نماز میں مشغول ہو اور نماز کے دوران پتہ چلے کہ اس کا بدن نجس ہے اور اسے یہ احتمال ہو کہ نماز شروع کرنے کے بعد نجس ہوا ہے تو اگر صورت یہ ہو کہ بدن پاک کرنے سے نماز نہ ٹوٹتی ہو تو بدن کو پاک کرے اور اگر نماز ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت میں نماز ختم کرے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۱۵۔ ایسا شخص جو اپنے بدن یا لباس کے پاک ہونے کے بارے میں شک کرے اور جستجو کے بعد کوئی چیز نہ پا کر اور نماز پڑھے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر اس نے جستجو نہ کی ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے۔
۸۱۶۔ اگر کوئی شخص اپنا لباس دھوئے اور اسے یقین ہو جائے کہ لباس پاک ہو گیا ہے ، اس کے ساتھ نماز پڑھے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ پاک نہیں ہوا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۱۷۔ اگر کوئی شخص اپنے بدن یا لباس میں خون دیکھے اور اسے یقین ہو کہ یہ نجس خون میں سے نہیں ہے مثلاً اسے یقین ہو کہ مچھر کا خون ہے لیکن نماز پڑھنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ اس خون میں سے ہے جس کے ساتھ نماز نہیں پڑھی جا سکتی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۱۸۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ اس کے بدن یا لباس میں جو خون ہے وہ ایسا نجس خون ہے جس کے ساتھ نماز صحیح ہے مثلاً اسے یقین ہو کہ زخم اور پھوڑے کا خون ہے لیکن نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ ایسا خون ہے جس کے ساتھ نماز باطل ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۱۹۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ ایک چیز نجس ہے اور گیلا بدن یا گیلا لباس اس چیز سے چھو جائے اور اسی بھول کے عالم میں وہ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس کا گیلا بدن اس چیز کو چھو جائے جس کا نجس ہونا وہ بھول گیا ہے اور اپنے آپ کو پاک کئے بغیر وہ غسل کرے اور نماز پڑھے تو اس کا غسل اور نماز باطل ہیں ما سوا اس صورت کے کہ غسل کرنے سے بدن بھی پاک ہو جائے۔ اور اگر وضو کے گیلے اعضا کا کوئی حصہ اس چیز سے چھو جائے جس کے نجس ہونے کے بارے میں وہ بھول گیا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اس حصے کو پاک کرے وہ وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کا وضو اور نماز دونوں باطل ہیں ماسوا اس صورت کے کہ وضو کرنے اسے وضو کے اعضا بھی پاک ہو جائیں۔
۸۲۰۔ جس شخص کے پاس صرف ایک لباس ہو اگر اس کا بدن اور لباس نجس ہو جائیں اور اس کے پاس ان میں سے ایک کو پاک کرنے کے لئے پانی ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ بدن کو پاک کرے اور نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔ اور لباس کو پاک کر کے نجس بدن کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر لباس کی نجاست بدن کی نجاست سے بہت زیادہ ہو یا لباس کی نجاست بدن کی نجاست کے لحاظ سے زیادہ شدید ہو تو اسے اختیار ہے کہ لباس اور بدن میں سے جسے چاہے پاک کرے۔
۸۲۱۔جس شخص کے پاس نجس لباس کے علاوہ کوئی لباس نہ ہو ضروری ہے کہ نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۲۲۔ جس شخص کے پاس دو لباس ہوں اگر وہ یہ جانتا ہو کہ ان میں سے ایک نجس ہے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ کون سانجس ہے اور اس کے پاس وقت ہو تو ضروری ہے کہ دونوں لباس کے ساتھ نماز پڑھے (یعنی ایک دفعہ ایک لباس پہن کر اور ایک دفعہ دوسرا لباس پہن کر دو دفعہ وہی نماز پڑھے ) مثلاً اگر وہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ ہر ایک لباس سے ایک نماز ظہر کی اور ایک نماز عصر کی پڑھے لیکن اگر وقت تنگ ہو تو جس لباس کے ساتھ نماز پڑھ لے کافی ہے۔
دوسری شرط
۸۲۳۔ نماز پڑھنے والے کا لباس مباح ہونا ضروری ہے۔ پس اگر ایک ایسا شخص جو جانتا ہو کہ غصبی لباس پہننا حرام ہے یا کوتاہی کی وجہ سے مسئلہ کا حکم نہ جانتا ہو اور جان بوجھ کر اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔ لیکن اگر لباس میں وہ چیزیں شامل ہوں جو تنہا شرمگاہ کو نہیں ڈھانپ سکتیں اور اسی طرح وہ چیزیں جن سے اگرچہ شرمگاہ کو ڈھانپا جا سکتا ہو لیکن نماز پڑھنے والے نے انہیں حالت نماز میں نہ پہن رکھا ہو مثلاً بڑا رومال یا لنگوٹی جو حبیب میں رکھی ہو اور اسی طرح وہ چیزیں جنہیں نمازی نے پہن رکھا ہو اگرچہ اس کے پاس ایک مباح سترپوش بھی ہو۔ ایسی تمام صورتوں میں ان (اضافی)چیزوں کے غصبی ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا اگرچہ احتیاط ان کے ترک کر دینے میں ہے۔
۸۲۴۔جو شخص یہ جانتا ہو کہ غصبی لباس پہننا حرام ہے لیکن اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم نہ جانتا ہو اگر وہ جان بوجھ کر غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو جیسا کہ سابقہ مسئلے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۸۲۵۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ اس کا لباس غصبی ہے اور اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ لیکن اگر وہ شخص خود اس لباس کو غصب کرے اور پھر بھول جائے کہ اس غصب کیا ہے اور اسی لباس میں نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۷۲۶۔ اگر کسی شخص کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ اس کا لباس غصبی ہے لیکن نماز کے دوران اسے پتہ چل جائے اور اس کی شرمگاہ کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی ہو اور وہ فوراً یا نماز کا تسلسل توڑے بغیر غصبی لباس اتار سکتا ہو تو ضروری ہے کہ فوراً اس لباس کو اتار دے اور اگر اس کی شرمگاہ کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی نہ ہو یا وہ غصبی لباس کو فوراً نہ اتار سکتا ہو یا اگر لباس کا اتارنا نماز کے تسلسل کو توڑ دیتا اور صورت یہ ہو کہ اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے جتنا وقت بھی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑ دے اور اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے جو غصبی نہ ہو اور اگر اتنا وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں لباس اتار دے اور "برہنہ لوگوں کی نماز کے مطابق” نماز ختم کرے۔
۸۲۷۔ اگر کوئی شخص اپنی جان کی حفاظت کے لئے غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھنے یا مثال کے طور پر غصبی لباس کے ساتھ اس لئے نماز پڑھے تاکہ چوری نہ ہو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۲۸۔ اگر کوئی شخص اس رقم لباس خریدے جس کا خمس اس نے ادا نہ کیا ہو تو اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے وہی حکم ہے جو غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا ہے۔
تیسری شرط
۸۲۹۔ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا لباس اور ہر وہ چیز جو شرم گاہ چھپانے کے لئے ناکافی ہے احتیاط لازم کی بنا پر جہندہ خون والے مردہ حیوان کے اجزاء سے نہ بنی ہو بلکہ اگر لباس اس مردہ حیوان مثلاً مچھلی اور سانپ سے تیار کیا جائے جس کا خون جہندہ نہیں ہوتا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے۔
۸۳۰۔ اگر نجس مردار کی ایسی چیز مثلاً گوشت اور کھال جس میں روح ہوتی ہے نماز پڑھنے والے کے ہمراہ ہو تو کچھ بعید نہیں ہے کہ اس کی نماز صحیح ہو۔
۸۳۱۔ اگر حلال گوشت مردار کی کوئی ایسی چیز جس میں روح نہیں ہوتی مثلاً بال اور ان نماز پڑھنے والے کے ہمراہ ہو یا اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے جو ان چیزوں سے تیار کیا گیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
چوتھی شرط
۸۳۲۔ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا لباس۔۔۔ ان چیزوں کے علاوہ جو صرف شرم گاہ چھپانے کے لئے ناکافی ہے مثلاً جراب۔۔۔ جانوروں کے اجزا سے تیار کیا ہوا نہ ہو بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر ہر اس جانور کے اجزا سے بنا ہوا نہ ہو جس کا گوشت کھانا حرام ہے اسی طرح ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا لباس اور بدن حرام گوشت جانور کے پیشاب، پاخانے ، پسینے ، دودھ اور بال سے آلودہ نہ ہو لیکن اگر حرام گوشت جانور کا ایک بال اس کے لباس پر لگا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح نماز گزار کے ہمراہ ان میں سے کوئی چیز اگر ڈبیہ (یا بوتل وغیرہ) میں بند رکھی ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
۸۳۳۔ حرام گوشت جانور مثلاً بلی کے منہ یا ناک کا پانی یا کوئی دوسری رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگی ہو اور اگر وہ تر ہو تو نماز باطل ہے لیکن اگر خشک ہو اور اس کا عین جزو زائل ہو گیا ہو تو نماز صحیح ہے۔
۸۳۴۔ اگر کسی کا بال یا پسینہ یا منہ کا لعاب نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح مروارید، موم اور شہد اس کے ہمراہ ہو تب بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔
۸۳۵۔ اگر کسی کو شک ہو کہ لباس حلال گوشت جانور سے تیار کیا گیا ہے یا حرام گوشت جانور سے تو خواہ وہ مقامی طور پر تیار کیا گیا ہو یا زر آمد کیا گیا ہو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔
۸۳۶۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ سیپی حرام گوشت حیوان کے اجزا میں سے ہے لہذا سیپ (کے بٹن وغیرہ) کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔
۸۳۷۔ سمور کا لباس ( ) اور اسی طرح گلہری کی پوستین پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ گلہری کی پوستین کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے۔
۸۳۸۔ اگر کوئی شخص ایسے لباس کے ساتھ نماز پڑھے جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو کہ حرام گوشت جانور سے تیار ہوا ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر اس نماز کو دوبارہ پڑھے۔
پانچویں شرط
۸۳۹۔ زر دوزی کا لباس پہننا مردوں کے لئے حرام ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے لیکن عورتوں کے لئے نماز میں یا نماز کے علاوہ اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۸۴۰۔ سونا پہننا مثلاً سونے کی زنجیر گلے میں پہننا، سونے کی انگوٹھی ہاتھ میں پہننا، سونے کی گھڑی کلائی پر باندھنا اور سونے کی عینک لگانا مردوں کے لئے حرام ہے اور ان چیزوں کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے۔ لیکن عورتوں کے لئے نماز میں اور نماز کے علاوہ ان چیزوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
۸۴۱۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو تو اس کی انگوٹھی یا لباس سونے کا ہے یا شک رکھتا ہو اور اس کے ساتھ ناز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
چھٹی شرط
۸۴۲۔نماز پڑھنے والے مرد کا لباس حتی کہ احتیاط مستحب کی بنا پر ٹوپی اور ازار بند بھی خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے اور نماز کے علاوہ بھی خالص ریشم پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔
۸۴۳۔ اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ خالص ریشم کا ہو تو مرد کے لئے اس کا پہننا حرام اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے۔
۸۴۴۔ جب کسی لباس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چیز کا بنا ہوا ہے تو اس کا پہننا جائز ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
۸۴۵۔ ریشمی رومال یا اسی جیسی کوئی چیز مرد کی جیب میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور وہ نماز کو باطل نہیں کرتی۔
۸۴۶۔ عورت کے لئے نماز میں یا اس کے علاوہ ریشمی لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۸۴۷۔ مجبوری کی حالت میں غصبی اور خالص ریشمی اور زردوزی کا لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ علاوہ ازیں جو شخص یہ لباس پہننے پر مجبور ہو اور اس کے پاس کوئی اور لباس نہ ہو تو وہ ان لباسوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
۸۴۸۔ اگر کسی شخص کے پاس غصبی لباس کے علاوہ کوئی لباس نہ ہو اور وہ یہ لباس پہننے پر مجبور نہ ہو تو اسے چاہئے کہ ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے ہیں۔
۸۴۹۔ اگر کسی کے پاس درندے کے اجزا سے بنے ہوئے لباس کے علاوہ اور کوئی لباس نہ ہو اور وہ یہ لباس پہننے پر مجبور ہو تو اس لباس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر لباس پہننے پر مجبور نہ ہو تو اسے چاہئے کہ ان احکام کے مطابق نماز پڑھنے جو برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے ہیں۔ اور اگر اس کے پاس غیر شکاری حرام جانوروں کے اجزا سے تیار شدہ لباس کے سوا دوسرا لباس نہ ہو اور وہ اس لباس کو پہننے پر مجبور نہ ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ دو دفعہ نماز پڑھے۔ ایک بار اسی لباس کے ساتھ اور ایک بار اس طریقے کے مطابق جس کا ذکر برہنہ لوگوں کی نماز میں بیان ہو چکا ہے۔
۸۵۰۔ اگر کسی مرد کے پاس خالص ریشمی یا زربفتی لباس کے سوا کوئی لباس نہ ہو اور وہ لباس پہننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے ہیں۔
۸۵۱۔ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی چیز نہ ہو جس سے وہ اپنی شرم گاہوں کو نماز میں ڈھانپ سکے تو واجب ہے کہ ایسی چیز کرائے پر لے یا خریدے لیکن اگر اس پر اس کی حیثیت سے زیادہ خرچ اٹھتا ہو یا صورت یہ ہو کہ اس کام کے لئے خرچ برداشت کرے تو اس کی حالت تباہ ہو جائے تو ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے ہیں۔
۸۵۲۔ جس شخص کے پاس لباس نہ ہو اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادھار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس پر گراں نہ گزرتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے قبول کر لے بلکہ اگر ادھار لینا یا بخشش کے طور پر طلب کرنا اس کے لئے تکلیف کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس کے پاس لباس ہو اس سے ادھار مانگ لے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔
۸۵۳۔ اگر کوئی شخص ایسا لباس پہننا چاہے جس کا کپڑا، رنگ یا سلائی رواج کے مطابق نہ ہو تو اگر اس کا پہننا اس کی شان کے خلاف اور توہین کا باعث ہو تو اس کا پہننا حرام ہے۔ لیکن اگر وہ اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کے پاس شرمگاہ چھپانے کے لئے فقط وہی لباس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۵۴۔ اگر مرد زنانہ لباس پہنے اور عورت مردانہ لباس پہنے اور اسے اپنی زینت قرار دے تو احتیاط کی بنا پر اس کی پہننا حرام ہے لیکن اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنا ہر صورت میں صحیح ہے۔
۸۵۵۔ جس شخص کو لیٹ کر نماز پڑھنی چاہے اگر اس کا لحاف درندے کے اجزا سے بلکہ احتیاط کی بنا پر ہر حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا ہو یا نس یا ریشمی ہو اور اسے پہناوا کہا جا سکے تو اس میں بھی نماز جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے محض اپنے اوپر ڈال لیا جائے تو کوئی حرج نہیں اور اس سے نماز باطل نہیں ہو گی البتہ گدیلے کے استمعال میں کسی حالت میں بھی کوئی قباحت نہیں ماسوا اس کے کہ اس کا کچھ حصہ انسان اپنے اوپر لپیٹ لے اور اسے عرف عام میں پہناوا کہا جائے تو اس صورت میں اس کا بھی وہی حکم ہے جو لحاف کا ہے۔
جن صورتوں میں نمازی کا بدن اور لباس پاک ہونا ضروری نہیں
۸۵۶۔تین صورتوں میں جن کی تفصیل نیچے بیان کی جا رہی ہے اگر نماز پڑھنے والے کا بدن یا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(اول) اس کے بدن کے زخم، جراحت یا پھوڑے کی وجہ سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔
(دوم) اس کے بدن یا لباس پر درہم۔ جس کی مقدار تقریباً انگوٹھے کے اوپر والی گرہ کے برابر ہے۔ کی مقدار سے کم خون لگ جائے۔
(سوم) وہ نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔
علاوہ ازیں ایک اور صورت میں اگر نماز پڑھنے والے کا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزہ اور ٹوپی نجس ہو۔
ان چاروں صورتوں کے مفصل احکام آئندہ مسئلوں میں بیان کئے جائیں گے۔
۸۵۷۔ اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر زخم یا جراحت یا پھوڑے کا خون ہو تو وہ اس خون کے ساتھ یا اس وقت تک نماز پڑھ سکتا ہے جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھیک نہ ہو جائے اور اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پیپ ہو جو خون کے ساتھ نکلی ہو یا ایسی دوائی ہو جو زخم پر لگائی گئی ہو اور نجس ہو گئی ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
۸۵۸۔ اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر ایسی خراش یا زخم کا خون لگا ہو جو جلدی ٹھیک ہو جاتا ہو اور جس کا دھونا آسان ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
۸۵۹۔ اگر بدن یا لباس کی ایسی جگہ جو زخم سے فاصلے پر ہو زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر لباس یا بدن کی وہ جگہ جو عموماً زخم کی رطوبت سے آلودہ ہو جاتی ہے اس زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
۸۶۰۔ اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو اس بواسیر سے جس کے مسے باہر نہ ہوں یا اس زخم سے جو منہ اور ناک وغیرہ کے اندر ہو خون لگ جائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے البتہ اس بواسیر کے خون کے ساتھ نماز پڑھنا بلا اشکال جائز ہے جس کے مسے مقعد کے باہر ہوں۔
۸۶۱۔ اگر کوئی ایسا شخص جس کے بدن پر زخم ہو اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو درہم سے زیادہ ہو اور یہ نہ جانتا ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا کوئی اور خون ہے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس خون کے ساتھ نماز پڑھے۔
۸۶۲۔ اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہوں کہ ایک زخم شمار ہوتے ہوں تو جب تک وہ زخم ٹھیک نہ ہو جائیں ان کے خون کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوں کہ ان میں سے ہر زخم ایک علیحدہ زخم شمار ہو تو جو زخم ٹھیک ہو جائے ضروری ہے کہ نماز کے لئے بدن اور لباس کو دھو کر اس زخم کے خون سے پاک کرے۔
۸۶۳۔ اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حیض کا خون لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط کی بنا پر نجس حیوانات مثلاً سّور، مُردار اور حرام گوشت جانور نیز نفاس اور استحاضہ کی بھی یہی صورت ہے لیکن کوئی دوسرا خون مثلاً انسان یا حلال گوشت حیوان کے خون کی چھینٹ بدن کے کئی حصوں پر لگی ہو لیکن اس کی مجموعی مقدار ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۸۶۴۔ جو خون بغیر استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف پہنچ جائے وہ ایک خون شمار ہوتا ہے لیکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ سے خون آلودہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ خون شمار کیا جائے۔ پس اگر وہ خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچھلی طرف ہے مجموعی طور پر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ نماز صحیح ہے اور اگر اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے۔
۸۶۵۔ اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پہنچ جائے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ ہر خون کو الگ شمار کیا جائے۔ لیکن اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون اس طرح مل جائے کہ لوگوں کے نزدیک ایک خون شمار ہو تو اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون ملا کر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ نماز صحیح ہے اور اگر زیادہ ہو تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے۔
۸۶۶۔ اگر بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم خون ہو اور کوئی رطوبت اس خون سے مل جائے اور اس کے اطراف کو آلودہ کر دے تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے خواہ خون اور جو رطوبت اس سے ملی ہے ایک درہم کے برابر نہ ہوں لیکن اگر رطوبت صرف خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلودہ نہ کرے تو ظاہر یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۸۶۷۔ اگر بدن یا لباس پر خون نہ ہو لیکن رطوبت لگنے کی وجہ سے خون سے نجس ہو جائیں تو اگرچہ جو مقدار نجس ہوئی ہے وہ ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ بھی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔
۸۶۸۔ بدن یا لباس پر جو خون ہو اگر وہ ایک درہم سے کم ہو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آ لگے مثلاً پیشاب کا ایک قطرہ اس پر گر جائے اور وہ بدن یا لباس سے لگ جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ اگر بدن اور لباس تک نہ بھی پہنچے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر اس میں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
۷۶۹۔ اگر نماز پڑھنے والے کو چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزہ جس سے شرمگاہ کو نہ ڈھانپا جا سکتا ہو نجس ہو جائے اور وہ احتیاط لازم کی بنا پر وہ نجس مردار یا نجس العین حیوان مثلاً کتے (کے اجزا) سے نہ بنا ہو تو اس کے ساتھ نماز صحیح ہے اور اسی طرح اگر نجس انگوٹھی کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
۸۷۰۔ نجس چیز مثلاً نجس رومال، چابی اور چاقو کا نماز پڑھنے والے کے پاس ہونا جائز ہے اور بعید نہیں ہے کہ مطلق نجس لباس (جو پہنا ہوا نہ ہو) اس کے پاس ہو تب بھی نماز کو کوئی ضرر نہ پہنچائے (یعنی اس کے پاس ہوتے ہوئے نماز صحیح ہو)۔
۸۷۱۔ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ جو خون اس کے لباس یا بدن پر ہے وہ ایک درہم سے کم ہے لیکن اس امر کا احتمال ہو کہ یہ اس خون میں سے ہے جو معاف نہیں ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ اس خون کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
۸۷۲۔ اگر وہ خون جو ایک شخص کے لباس یا بدن پر ہو ایک درہم سے کم ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ اس خون میں سے ہے جو معاف نہیں ہے ، نماز پڑھ لے اور پھر اسے پتہ چلے کہ یہ اس خون میں سے تھا جو معاف نہیں ہے ، تو اس کے لئے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری نہیں اور اس وقت بھی یہی حکم ہے جب وہ یہ سمجھتا ہو کہ خون ایک درہم سے کم ہے اور نماز پڑھ لے اور بعد میں پتہ چلے کہ اس کی مقدار ایک درہم یا اس سے زیادہ تھی، اس صورت میں بھی دوبارہ نماز پڑھنے کی ضروری نہیں ہے۔
وہ چیزیں جو نمازی کے لباس میں مستحب ہیں۔
۸۷۳۔ جو شخص چند نمازی کے لباس میں مستحب ہیں کہ جن میں سے تحت الحنک کے ساتھ عمامہ، عبا، سفید لباس، صاف ستھرا لباس، خوشبو لگانا اور عتیق کی انگوٹھی پہننا ہیں۔
وہ چیزیں جو نمازی کے لباس میں مکروہ ہیں
۸۷۴۔ چند چیزیں نمازی کے لباس میں مکروہ ہیں جن میں سے سیاہ، میلا اور تنگ لباس اور شرابی کا لباس پہننا یا اس شخص کا لباس پہننا جو نجاست سے پرہیز نہ کرتا ہو اور ایسا لباس پہننا جس پر چہرے کی تصویر بنی ہو اس کے علاوہ لباس کے بٹن کھلے ہونا اور ایسی انگوٹھی پہننا جس پر چہرے کی تصویر بنی ہو مکروہ ہے۔
نماز کے پڑھنے کی جگہ
نماز پڑھنے والے کی جگہ کی سات شرطیں ہیں :
پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مباح ہو۔
۸۷۵۔ جو شخص غصبی جگہ پر اگرچہ وہ قالین، تخت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہوں ، نماز پڑھ رہا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے لیکن غصبی چھت کے نیچے اور غصبی خیمے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۸۷۶۔ ایسی جگہ نماز پڑھنا جس کی منفعت کسی اور کی ملکیت ہو تو منفعت کے مالک کی اجازت کے بغیر وہاں نماز پڑھنا غصبی جگہ پر نماز پڑھنے کے حکم میں ہے مثلاً کرائے کے مکان میں مالک مکان یا اس شخص کی اجازت کے بغیر کہ جس نے وہ مکان کرائے پر لیا ہے نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔ اور اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ اس کے مال کا تیسرا حصہ فلاں کام پر خرچ کیا جائے تو جب تک کہ تیسرے حصے کو جدا نہ کریں اس کی جائداد میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔
۸۷۷۔ اگر کوئی شخص مسجد میں بیٹھا ہو اور دوسرا شخص اسے باہر نکال کر اس کی جگہ پر قبضہ کرے اور اس جگہ نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے اگرچہ اس نے گناہ کیا ہے۔
۸۷۸۔اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ نماز پڑھے جس کے غصبی ہونے کا اسے علم نہ ہو اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے یا ایسی جگہ نماز پڑھے جس کے غصبی ہونے کو وہ بھول گیا ہو اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ لیکن کوئی اسیا شخص جس نے خود وہ جگہ غصب کی ہو اور وہ بھول جائے اور وہاں نماز پڑھے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہے۔
۸۷۹۔ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے اور اس میں تصرف حرام ہے لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ غصبی جگہ پر نماز پڑھنے میں اشکال ہے اور وہ وہاں نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۸۸۰۔ اگر کوئی شخص واجب نماز سواری کی حالت میں پڑھنے پر مجبور ہو اور سواری کا جانور یا اس کی زین یا نعل غصبی ہو تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر وہ شخص اس جانور پر سواری کی حالت میں مستحب نماز پڑھنا چاہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
۸۸۱۔ اگر کوئی شخص کسی جائداد میں دوسرے کے ساتھ شریک ہو اور اس کا حصہ جدا نہ ہو تو اپنے شراکت دار کی اجازت کے بغیر وہ اس جائداد پر تصرف نہیں کر سکتا اور اس پر نماز نہیں پڑھ سکتا۔
۸۸۲۔اگر کسی شخص ایک ایسی رقم سے کوئی جائداد خریدے جس کا خمس اس نے ادا نہ کیا ہو تو اس جائداد پر اس کا تصرف حرام ہے۔ اور اس میں اس کی نماز جائز نہیں۔
۸۸۳۔اگر کسی جگہ کا مالک زبان سے نماز پڑھنے کی اجازت دے دے اور انسان کو علم ہو کہ وہ دل سے راضی نہیں ہے تو اس کی جگہ پر نماز پڑھنا جائز نہیں اور اگر اجازت نہ دے لیکن انسان کو یقین ہو کہ وہ دل سے راضی ہے تو نماز پڑھنا جائز ہے۔
۸۸۴۔ جس متوفی نے زکوٰۃ اور اس جیسے دوسرے مالی واجبات ادا نہ کئے ہوں اس کی جائداد میں تصرف کرنا اگر واجبات کی ادائیگی میں مانع نہ ہو مثلاً اس کے گھر میں ورثاء کی اجازت سے نماز پڑھی جائے تو اشکال نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وہ رقم جو متوفی کے ذمے ہو ادا کر دے یا یہ ضمانت دے کہ ادا کر دے گا تو اس کی جائداد میں تصرف کرنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔
۸۸۵۔ اگر متوفی لوگوں کا مقروض ہو تو اس کی جائداد میں تصرف کرنا اس مردے کی جائداد میں تصرف کرنے کے حکم میں ہے جس نے زکوٰۃ اور اس کی مانند دوسرے مالی واجبات ادا نہ کئے ہوں۔
۸۸۶۔اگر متوفی کے ذمے قرض نہ ہو لیکن اس کے بعض ورثاء کم سن یا مجنون یا غیر حاضر ہوں تو ان کے ولی کی اجازت کے بغیر اس کی جائداد میں تصرف حرام ہے اور اس میں نماز جائز نہیں۔
۸۸۷۔کسی کی جائداد میں نماز پڑھنا اس صورت میں جائز ہے جبکہ اس کا مالک صریحاً اجازت دے یا کوئی ایسی بات کہے جس سے معلوم ہو کہ اس نے نماز پڑھنے کی اجازت دے دی ہے مثلاً اگر کسی شخص کو اجازت دے کہ اس کی جائداد میں بیٹھے یا سوئے تو اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے نماز پڑھنے کی اجازت بھی دے دی ہے یا مالک کے راضی ہونے پر دوسری وجوہات کی بناء پر اطمینان رکھتا ہو۔
۸۸۸۔ وسیع و عریض زمین میں نماز پڑھنا جائز ہے اگرچہ اس کا مالک کم سن یا مجنون ہو یا وہاں نماز پڑھنے پر راضی نہ ہو۔ اسی طرح وہ زمینیں کہ جن کے دروازے اور دیوار نہ ہوں ان میں ان کے مالک کی اجازت کے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر مالک کمسن یا مجنون ہو یا اس کے راضی نہ ہونے کا گمان ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ وہاں نماز یہ پڑھی جائے۔
۸۸۹۔ (دوسری شرط) ضروری ہے کہ نمازی کی جگہ واجب نمازوں میں ایسی نہ ہو کہ تیز حرکت نمازی کے کھڑے ہونے یا رکوع اور سجود کرنے میں مانع ہو بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کے بدن کو ساکن رکھنے میں بھی مانع نہ ہو اور اگر وقت کی تنگی یا کسی اور وجہ سے ایسی جگہ مثلاً بس، ٹرک، کشتی یا ریل گاڑی میں نماز پڑھے تو جس قدر ممکن ہو بدن کے ٹھہراؤ اور قبلے کی سمت کا خیال رکھے اور اگر ٹرانسپورٹ قبلے سے کسی دوسری طرف مڑ جائے تو اپنا منہ قبلے کی جانب موڑ دے۔
۸۹۰۔جب گاڑی، کشتی یا ریل گاڑی وغیرہ کھڑی ہوئی ہوں تو ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اسی طرح جب چل رہی ہوں تو اس حد تک نہ ہل جل رہی ہوں کہ نمازی بدن کے بدن کے ٹھہراؤ میں حائل ہوں۔
۸۹۱۔ گندم، جو اور ان جیسی دوسری اجناس کے ڈھیر پر جو ہلے جلے بغیر نہیں رہ سکتے نماز باطل ہے۔ (بوریوں کے ڈھیر مراد نہیں ہیں )۔
(تیسری شرط) ضروری ہے کہ انسان ایسی جگہ نماز پڑھنے جہاں نماز پوری پڑھ لینے کا احتمال ہو۔ ایسی جگہ نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے جس کے متعلق اسے یقین ہو کہ مثلاً ہوا اور بارش یا بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے وہاں پوری نماز نہ پڑھ سکے گا گو اتفاق سے پوری پڑھ لے۔
۸۹۲۔ اگر کوئی شخص ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں ٹھہرنا حرام ہو مثلاً کسی ایسی مخدوش چھت کے نیچے جو عنقریب گرنے والی ہو تو گو وہ گناہ کا مرتکب ہو گا لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔
۸۹۳۔ کسی ایسی چیز پر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے جس پر کھڑا ہونا یا بیٹھنا حرام ہو مثلاً قالین کے ایسے حصے جہاں اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہو۔ چونکہ (یہ اسم خدا) قصد قربت کرنے میں مانع ہے اس لئے (نماز پڑھنا) صحیح نہیں ہے۔
(چوتھی شرط) جس جگہ انسان نماز پڑھے اس کی چھت اتنی نیچی نہ ہو کہ سیدھا کھڑا نہ ہوسکے اور نہ ہی وہ جگہ اتنی مختصر ہو کہ رکوع اور سجدے کی گنجائش نہ ہو۔
۸۹۴۔ اگر کوئی شخص ایسی جگہ نماز پڑھنے پر مجبور ہو جہاں بالکل سیدھا کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ بیٹ کر نماز پڑھے اور اگر رکوع اور سجود ادا کرنے کا امکان نہ ہو تو ان کے لئے سر سے اشارہ کرے۔
۸۹۵۔ ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ اور ائمۃ اہل بیت علیہم السلام کی قبر کے آگے اگر ان کی بے حرمتی ہوتی ہو تو نماز نہ پڑھے۔ اس کے علاوہ کسی اور صورت میں اشکال نہیں۔
(پانچویں شرط) اگر نماز پڑھنے کی جگہ نجس ہو تو اتنی مرطوب نہ ہو کہ اس کی رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس تک پہنچے لیکن اگر سجدہ میں پیشانی رکھنے کی جگہ نجس ہو تو خواہ وہ خشک بھی ہو نماز باطل ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ ہرگز نجس نہ ہو۔
(چھٹی شرط) احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت مرد سے پیچھے کھڑی ہو اور کم از کم اس کے سجدہ کرنے کی جگہ سجدے کی حالت میں مرد کے دو زانوں کے برابر فاصلے پر ہو۔
۸۹۶۔ اگر کوئی عورت مرد کے برابر یا آگے کھڑی ہو اور دونوں بیک وقت نماز پڑھنے لگیں تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھیں۔ اور یہی حکم ہے اگر ایک، دوسرے سے پہلے نماز کے لئے کھڑا ہو۔
۸۹۷۔ اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں یا عورت آگے کھڑی ہو اور دونوں نماز پڑھ رہے ہوں لیکن دونوں کے درمیان دیوار یا پردہ یا کوئی اور ایسی چیز حائل ہو کہ ایک دوسرے کونہ دیکھ سکیں یا ان کے درمیان دس ہاتھ سے زیادہ فاصلہ ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے۔
(ساتویں شرط) نماز پڑھنے والے کی پیشانی رکھنے کی جگہ، دو زانو اور پاوں کی انگلیاں رکھنے جگہ سے چار ملی ہوئی ہوئی انگلیوں کی مقدار سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ اس مسئلے کی تفصیل سجدے کے احکام میں آئے گی۔
۸۹۸۔نا محرم مرد اور عورت کا ایک ایسی جگہ ہونا جہاں گناہ میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو حرام ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایسی جگہ نماز بھی نہ پڑھیں۔
۸۹۹۔ جس جگہ ستار بجایا جاتا ہو اور اس جیسی چیزیں استعمال کی جاتی ہوں وہاں نماز پڑھنا باطل نہیں ہے گو ان کا سننا اور استعمال کرنا گناہ ہے۔
۹۰۰۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں خانہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت کے اوپر واجب نماز نہ پڑھی جائے۔ لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
۹۰۱۔ خانہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت کے اوپر نفلی نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر ہر رکن کے مقابل دو رکعت نماز پڑھی جائے۔
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا مستحب ہے
۹۰۲۔ اسلام کی مقدس شریعت میں بہت تاکید کی گئی ہے کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے۔ دنیا بہر کی ساری مسجدوں میں سب سے بہتر مسجد الحرام اور اس کے بعد مسجد نبوی ہے اور اس کے بعد مسجد کوفہ اور اس کے بعد بیت المقدس کا درجہ ہے۔ اس کے بعد شہر کی جامع اور اس کے بعد محلے کی مسجد اور اس کے بعد بازار کی مسجد کا نمبر آتا ہے۔
۹۰۳۔ عورتوں کے لئے بہتر ہے کہ نماز ایسی جگہ پڑھیں جو نا محرم سے محفوظ ہونے کے لحاظ سے دوسری جگہوں سے بہتر ہو خواہ وہ جگہ مکان یا مسجد یا کوئی اور جگہ ہو۔
۹۰۴۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے حرموں میں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور روایت ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے حرم پاک میں نماز پڑھنا دو لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔
۹۰۵۔ مسجد میں زیادہ جانا اور اس مسجد میں جانا آباد نہ ہو (یعنی جہاں لوگ بہت کم نماز پڑھنے آتے ہوں ) مستحب ہے اور اگر کوئی شخص مسجد کے پڑوس میں رہتا ہو اور کوئی عذر بھی نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
۹۰۶۔ جو شخص مسجد میں نہ آتا ہو، مستحب ہے کہ انسان اس کے ساتھ مل کر کھانا کھائے ، اپنے کاموں میں اس سے مشورہ نہ کرے ، اس کے پڑوس میں نہ رہے اور نہ اس سے عورت کا رشتہ لے اور نہ اسے رشتہ دے۔ (یعنی اس کا سوشل بائیکاٹ کرے )۔
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے
۹۰۷۔ چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں :
۱۔ حمام
۲۔ شور زمین
۳۔ کسی انسان کے مقابل
۴۔ اس دروازے کے مقابل جو کھلا ہو
۵۔ سڑک، اور کوچے میں بشرطیکہ گزرنے والوں کے لئے باعث زحمت نہ ہو اور اگر انہیں زحمت ہو تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا حرام ہے۔
۶۔ آگ اور چراغ کے مقابل
۷۔ باورچی خانے میں اور ہر اس جگہ جہاں آگ کی بھٹی ہو۔
۸۔ کنویں کے اور ایسے گڑھے کے مقابل جس میں پیشاب کیا جاتا ہو۔
۹۔ جان دار کے فوٹو یا مجسمے کے سامنے مگر یہ کہ اسے ڈھانپ دیا جائے۔
۱۰۔ ایسے کمرے میں جس میں جنب شخص موجود ہو۔
۱۱۔ جس جگہ فوٹو ہو خواہ ہو نماز پڑھنے والے کے سامنے نہ ہو۔
۱۲۔ قبر کے مقابل
۱۳۔ قبر کے اوپر
۱۴۔ دو قبروں کے درمیان
۱۵۔ قبرستان میں۔
۹۰۸۔ اگر کوئی شخص لوگوں کی رہگزر پر نماز پڑھ رہا ہو یا کوئی اور شخص اس کے سامنے کھڑا ہو تو نمازی کے لئے مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے اور اگر وہ چیز لکڑی یا رسی ہو تو بھی کافی ہے۔
مسجد کے احکام
۹۰۹۔ مسجد کی زمین، اندرونی اور بیرونی چھت اور اندرونی دیوار کو نجس کرنا حرام ہے اور جس شخص کو پتہ چلے کہ ان میں سے کوئی مقام نجس ہو گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کی نجاست کو فوراً دور کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسجد کے دیوار کا بیرونی حصے کو بھی نجس نہ کیا جائے اور اگر وہ نجس ہو جائے تو نجاست کا ہٹانا لازم نہیں لیکن اگر دیوار کا بیرونی حصہ نجس کرنا مسجد کی بے حرمتی کا سبب ہو تو قطعاً حرام ہے اور اس قدر نجاست کا زائل کرنا کہ جس سے بے حرمتی ختم ہو جائے ضروری ہے۔
۹۱۰۔ اگر کوئی شخص مسجد کو پاک کرنے پر قادر نہ ہو یا اسے مدد کی ضرورت ہو جو دستیاب نہ ہو تو مسجد کا پاک کرنا اس پر واجب نہیں لیکن یہ سمجھتا ہو کہ اگر دوسرے کو اطلاع دے گا تو یہ کام ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ اسے اطلاع دے۔
۹۱۱۔ اگر مسجد کی کوئی جگہ نجس ہو گئی ہو جسے کھودے یا توڑے بغیر پاک کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جگہ کو کھودیں یا توڑیں جب کہ جزوی طور پر کھودنا یا توڑنا پڑے یا بے حرمتی کا ختم ہونا مکمل طور پر کھودنے یا توڑنے پر موقف ہو ورنہ توڑنے میں اشکال ہے۔ جو جگہ کھودی گئی ہو اسے پر کرنا اور جو جگہ توڑی گئی ہو اسے تعمیر کرنا واجب نہیں ہے لیکن مسجد کی کوئی چیز مثلاً اینٹ اگر نجس ہو گئی ہو تو ممکنہ صورت میں اسے پانی سے پاک کر کے ضروری ہے کہ اس کی اصلی جگہ پر لگا دیا جائے۔
۹۱۲۔ اگر کوئی شخص مسجد کو غصب کرے اور اس کی جگہ گھر یا ایسی ہی کوئی چیز تعمیر کرے یا مسجد اس قدر ٹوٹ پھوٹ جائے کہ اسے مسجد نہ کہا جائے تب بھی احتیاط مستحب کی بنا پر اسے نجس نہ کرے لیکن اسے پاک کرنا واجب نہیں۔
۹۱۳۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی امام کا حرم نجس کرنا حرام ہے اگر ان کے حرموں میں سے کوئی حرم نجس ہو جائے اور اس کا نجس رہنا اس کی بے حرمتی کا سبب ہو تو اس کا پاک کرنا واجب ہے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ خواہ بے حرمتی نہ ہوتی ہو تب بھی پاک کیا جائے۔
۹۱۴۔ اگر مسجد کی چٹائی نجس ہو جائے تو ضروری ہے کہ اسے دھو کر پاک کریں اور اگر چٹائی کا نجس ہونا مسجد کی بے حرمتی شمار ہوتا ہو اور وہ دھونے سے خراب ہوتی ہو اور نجس حصے کا کاٹ دینا بہتر ہو تو ضروری ہے کہ اسے کاٹ دیا جائے۔
۹۱۵۔ اگر کسی عین نجاست یا نجس چیز کو مسجد میں لے جانے سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہو تو اس کا مسجد میں لے جانا حرام ہے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر بے حرمتی نہ ہوتی ہو تب بھی عین نجاست کو مسجد میں نہ لے جایا جائے۔
۹۱۶۔ اگر مسجد میں مجلس عزا کے لئے قنات تانی جائے اور فرش بچھایا جائے اور سیاہ پردے لٹکائے جائیں اور چائے کا سامان اس کے اندر لے جایا جائے تو اگر یہ چیزیں مسجد کے تقدس کو پامال نہ کرتی ہوں اور نماز پڑھنے میں بھی مانع نہ ہوتی ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
۹۱۷۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ مسجد کی سونے سے زینت نہ کریں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسجد کو انسان اور حیوان کی طرح جانداروں کی تصویروں سے بھی نہ سجایا جائے۔
۹۱۸۔ اگر مسجد ٹوٹ پھوٹ بھی جائے تب بھی نہ تو اسے بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکیت اور سٹرک میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
۹۱۹۔ مسجد کے دروازوں ، کھڑکیوں اور دوسری چیزوں کا بیچنا حرام ہے اور اگر مسجد ٹوٹ پھوٹ جائے تب بھی ضروری ہے کہ ان چیزوں کو اسی مسجد کی مرمت کے لئے استمعال کیا جائے اور اگر اس مسجد کے کام کی نہ رہی ہوں تو ضروری ہے کہ کسی دوسری مسجد کے کام میں لایا جائے اور اگر دوسری مسجدوں کے کام کی بھی نہ رہی ہوں تو انہیں بیچا جا سکتا ہے اور جو رقم حاصل ہو وہ بصورت امکان اسی مسجد کی مرمت پر ورنہ کسی دوسری مسجد کی مرمت پر خرچ کی جائے۔
۹۲۰۔ مسجد کا تعمیر کرنا اور ایسی مسجد کی مرمت کرنا جو مخدوش ہو مستحب ہے اور اگر مسجد اس قدر مخدوش ہو کہ اس کی مرمت ممکن نہ ہو تو اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے بلکہ اگر مسجد ٹوٹی پھوٹی نہ ہو تب بھی اسے لوگوں کی ضرورت کی خاطر گرا کر وسیع کیا جا سکتا ہے۔
۹۲۱۔ مسجد کو صاف ستھرا رکھنا اور اس میں چراغ جلانا مستحب ہے اور اگر کوئی شخص مسجد میں جانا چاہے تو مستحب ہے کہ خوشبو لگائے اور پاکیزہ اور قیمتی لباس پہنے اور اپنے جوتے کے تلووں کے بارے میں تحقیق کرے کہ کہیں نجاست تو نہیں لگی ہوئی۔ نیز یہ کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاوں اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پاوں رکھے اور اسی طرح مستحب ہے کہ سب لوگوں سے پہلے مسجد میں آئے اور سب سے بعد میں نکلے۔
۹۲۲۔ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو مستحب ہے کہ دو رکعت نماز تحیت و احترام مسجد کی نیت سے پڑھے اور اگر واجب نماز یا کوئی اور مستحب نماز پڑھے تب بھی کافی ہے۔
۹۲۳۔ اگر انسان مجبور نہ ہو تو مسجد میں سونا، دنیاوی کاموں کے بارے میں گفتگو کرنا اور کوئی کام کاج کرنا اور ایسے اشعار پڑھنا جن میں نصیحت اور کام کی کوئی بات نہ ہو مکر وہ ہے۔ نیز مسجد میں تھوکنا، ناک کی آلائش پھینکنا اور بلغم تھوکنا بھی مکروہ ہے بلکہ صورتوں حرام ہے۔ اور اس کے علاوہ گمشدہ (شخص یا چیز) کو تلاش کرتے ہوئے آواز کو بلند کرنا بھی مکروہ ہے۔ لیکن اذان کے لئے آواز بلند کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
۹۲۴۔ دیوانے کی مسجد میں داخل ہونے دینا مکروہ ہے اور اسی اس بچے کو بھی داخل ہونے دینا مکروہ ہے جو نمازیوں کے لئے باعث زحمت ہو یا احتمال ہو کہ وہ مسجد کو نجس کر دے گا۔ ان دو صورتوں کے علاوہ بچے کو مسجد میں آنے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس شخص کا مسجد میں جانا بھی مکروہ ہے جس نے پیاز، لہسن یا ان سے مشابہ کوئی چیز کھائی ہو کہ جس کی بو لوگوں کو ناگوار گزرتی ہو۔
اذان اور اقامت
۹۲۵۔ ہر مرد اور عورت کے لئے مستحب ہے کہ روزانہ کی واجب نمازوں سے پہلے اذان اور اقامت کہے اور ایسا کرنا دوسری واجب یا مستحب نمازوں کے لئے مشروع نہیں لیکن عید فطر اور عید قربان سے پہلے جب کہ نماز با جماعت پڑھیں تو مستحب ہے کہ تین مرتبہ "اَلصَّلوٰۃ” کہیں۔
۹۲۶۔ مستحب ہے کہ بچے کی پیدائش کے پہلے دن یا ناف اکھڑے سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔
۹۲۷۔ اذان اٹھارہ جملوں پر مشتمل ہے۔
اَللّٰہ اَکبَرُ اَللّٰہ اَکبَرُ اَللّٰہ اَکبَرُ اَللّٰہ اَکبَرُ
اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ
اَشھَدُ اَن مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ اَشھَدُ اَن مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ
حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ
حَیَّ عَلَی الفلاَحِ حَیَّ عَلَی الفَلاَحِ
حَیَّ عَلَی خَیرِالعَمَلِ حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمَلِ
اَللّٰہ اَکبَرُ اَللّٰہ اَکبَرُ
لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ
اور اقامت کے سترہ جملے ہیں یعنی اذان کی ابتدا سے دو مرتبہ اَللّٰہ اَکبَرُ اور آخر سے ایک مرتبہ لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ کم ہو جاتا ہے اور حَیَّ عَلیٰ خَیرِالعَمَلِ کہنے کے بعد دو دفعہ قد قامتِ الصَّلاَۃُ کا اضافہ کر دینا ضروری ہے۔
۹۲۸۔ اَشھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَلِیُّ اللہ اذان اور اقامت کا جزو نہیں ہے لیکن اگر اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ کے بعد قربت کی نیت سے کہا جائے تو اچھا ہے۔
اذان اور اقامت کا ترجمہ
اَللہ اَکبَرُ یعنی خدائے تعالیٰ اس سے بزرگ تر ہے کہ اس کی تعریف کی جائے اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ یکتا اور بے مثل اللہ کے علاوہ کوئی اور پرستش کے قابل نہیں ہے۔
اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد بن عبد اللہﷺ اللہ کے پیغمبر اور اسی کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔
اَشھَدُ اَنَّ عَلِیًّا اَمِیرَالمُئومِنِینَ وَلِیُّ اللہ یعنی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام مومنوں کے امیر اور تمام مخلوق پر اللہ کے ولی ہیں۔
حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ یعنی نماز کی طرف جلدی کرو۔
حَیَّ عَلَی الفلاَحِ یعنی رستگاری کے لئے جلدی کرو۔
حَیَّ عَلَی خَیرِالعَمَلِ یعنی بہترین کام کے لئے جو کہ نماز ہے جلدی کرو۔
قَدقَامَتِ الصَّلاَۃُ یعنی التحقیق نماز قائم ہو گئی۔
لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ یعنی یکتا اور بے مثل اللہ کے علاوہ کوئی اور پرستش کے قابل نہیں۔
۹۲۹۔ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے جملوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو اور اگر ان کے درمیان معمول سے فاصلہ رکھا جائے تو ضروری ہے کہ اذان اور اقامت دوبارہ شروع سے کہی جائیں۔
۹۳۰۔ اگر اذان یا اقامت میں آواز کو گلے میں اس طرح پھیرے کہ غنا ہو جائے یعنی اذان اور اقامت اس طرح کہے جیسا لہو و لعب اور کھیل کود کی محفلوں میں آواز نکالنے کا دستور ہے تو وہ حرام ہے اور اگر غنا نہ ہو تو مکروہ ہے۔
۹۳۱۔ تمام صورتوں میں جب کہ نمازی دو نمازوں کو تلے اوپر ادا کرے اگر اس نے پہلی نماز کے لئے اذان کہی ہو تو بعد والی نماز کے لئے اذان ساقط ہے۔ خواہ دو نمازوں کا جمع کرنا بہتر ہو یا نہ ہو مثلاً عرفہ کے دن جو نویں ذی الحجہ کا دن ہے ظہر اور عصر کی نمازوں کا جمع کرنا اور عید قربان کی رات میں مغرب اور عشا کی نمازوں کا جمع کرنا اس شخص کے لئے جو مشعر الحرام میں ہو۔ ان صورتوں میں اذان کا ساقط ہونا اس سے مشروط ہے کہ دو نمازوں کے درمیان بالکل فاصلہ نہ ہو یا بہت کم فاصلہ ہو لیکن نفل اور تعقیبات پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ان صورتوں میں اذان مشروعیت کی نیت سے نہ کہی جائے بلکہ آخری دو صورتوں میں اذان کہنا مناسب نہیں ہے اگرچہ مشروعیت کی نیت سے نہ ہو۔
۹۳۲۔ اگر نماز جماعت کے لئے اذان اور اقامت کہی جاچکی ہو تو جو شخص اس جماعت کے ساتھ نماز پڑھ ہو اس کے لئے ضروری نہیں کہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت کہے۔
۹۳۳۔ اگر کوئی شخص نماز کے لئے مسجد میں جائے اور دیکھے کہ نماز جماعت ختم ہو چکی ہے تو جب تک صفیں ٹوٹ نہ جائیں اور لوگ منتشر نہ ہو جائیں وہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت نہ کہے یعنی ان دونوں کا کہنا مستحب تاکیدی نہیں بلکہ اگر اذان دینا چاہتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ بہت آہستہ کہے۔ اور اگر دوسری نماز جماعت قائم کرنا چاہتا ہو تو ہرگز اذان اور اقامت نہ کہے۔
۹۳۴۔ ایسی جگہ جہاں نماز جماعت ابھی ابھی ختم ہوئی ہو اور صفیں نہ ٹوٹی ہوں اگر کوئی شخص وہاں تنہا یا دوسری جماعت کے ساتھ جو قائم ہو رہی ہو نماز پڑھنا چاہے تو چھ شرطوں کے ساتھ اذان اور اقامت اس پر سے ساقط ہو جاتی ہے۔
۱۔ نماز جماعت مسجد میں ہو۔ اور اگر مسجد میں نہ ہو تو اذان اور اقامت کا ساقط ہونا معلوم نہیں۔
۲۔ اس نماز کے لئے اذان اور اقامت کہی جاچکی ہو۔
۳۔ نماز جماعت باطل نہ ہو۔
۴۔ اس شخص کو نماز اور نماز جماعت ایک ہی جگہ پر ہو۔ لہذا اگر نماز جماعت مسجد کے اندر پڑھی جائے اور وہ شخص مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کہے۔
۵۔ نماز جماعت ادا ہو۔ لیکن اس بات کی شرط نہیں کہ خود اس کی نماز بھی ادا ہو۔
۶۔ اس شخص کی نماز اور نماز جماعت کا وقت مشترک ہو مثلاً دونوں نماز ظہر یا دونوں نماز عصر پڑھیں یا نماز ظہر جماعت سے پڑھی جا رہی ہے اور وہ شخص نماز عصر پڑھے یا وہ شخص ظہر کی نماز پڑھے اور جماعت کی نماز، عصر کی نماز ہو اور اگر جماعت کی نماز عصر ہو اور آخری وقت میں وہ چاہے کہ مغرب کی نماز ادا پڑھے تو اذان اور اقامت اس پر سے ساقط نہیں ہو گی۔
۹۳۵۔ جو شرطیں سابقہ مسئلہ میں بیان کی گئی ہیں اگر کوئی شخص ان میں سے تیسری شرط کے بارے میں شک کرے یعنی اسے شک ہو کہ جماعت کی نماز صحیح تھی یا نہیں تو اس پر سے اذان اور اقامت ساقط ہے لیکن اگر وہ دوسری پانچ شرائط میں سے کسی ایک کے بارے میں شک کرے تو بہتر ہے کہ رجاء مطلوبیت کی نیت سے اذان اور اقامت کہے۔
۹۳۶۔اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی اذان جو اعلان یا جماعت کی نماز کے لئے کہی جائے ، سنے تو مستحب ہے کہ اس کا جو حصہ سنے خود بھی اسے آہستہ آہستہ دہرائے۔
۹۳۷۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے کے اذان اور اقامت سنی ہو خواہ اس نے ان جملوں کو دہرایا ہو یا نہ دہرایا ہو نہ دہرایا ہو تو اگر اس اذان اور اقامت اور اس نماز کے درمیان جو وہ پڑھنا چاہتا ہو زیادہ فاصلہ نہ ہوا ہو تو وہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت کہہ سکتا ہے۔
۹۳۸۔اگر کوئی مرد عورت کی اذان کو لذت کے قصد سے سنے تو اس کی اذان ساقط نہیں ہو گی بلکہ اگر مرد کا ارادہ لذت حاصل کرنے کا نہ ہو تب بھی اس کی اذان ساقط ہونے میں اشکال ہے۔
۹۳۹۔ ضروری ہے کہ نماز جماعت کی اذان اور اقامت مرد کہے لیکن عورتوں کی نماز جماعت میں اگر عورت اذان اور اقامت کہہ دے تو کافی ہے۔
۹۴۰۔ ضروری ہے کہ اقامت، اذان کے بعد کہی جائے علاوہ ازیں اقامت میں معتبر ہے کہ کھڑے ہو کر اور حدث سے پاک ہو کر (وضو یا غسل یا تیمم کر کے ) کہی جائے۔
۹۴۱۔ اگر کوئی شخص اذان اور اقامت کے جملے بغیر ترتیب کے کہے مثلاً حَیَّ عَلَی الفَلاَحِ کا جملہ حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃ سے پہلے کہے تو ضروری ہے کہ جہاں سے ترتیب بگڑی ہو وہاں سے دوبارہ کہے۔
۹۴۲۔ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان فاصلہ نہ ہو اور اگر ان کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ جو اذان کہی جاچکی ہے اسے اس اقامت کی اذان شمار نہ کیا جا سکے تو مستحب ہے کہ دوبارہ اذان کہی جائے۔ علاوہ ازیں اگر اذان اور اقامت کے اور نماز کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ اذان اور اقامت اس نماز کی اذان اور اقامت شمار نہ ہو تو مستحب ہے کہ اس نماز کے لئے دوبارہ اذان اور اقامت کے اور نماز کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ اذان اور اقامت اس نماز کی اذان اور اقامت شمار نہ ہو تو مستحب ہے کہ اس نماز کے لئے دوبارہ اذان اور اقامت کہی جائے۔
۹۴۳۔ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت صحیح عربی میں کہی جائیں۔ لہذا اگر کوئی شخص انہیں غلط عربی میں کہے یا ایک حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف کہے یا مثلاً ان کا ترجمہ اردو زبان میں کہے تو صحیح نہیں ہے۔
۹۴۴۔ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت، نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد کہی جائیں اور اگر کوئی شخص عمداً یا بھول کر وقت سے پہلے کہے تو باطل ہے مگر ایسی صورت میں جب کہ وسط نماز میں وقت داخل ہو تو اس نماز پر صحیح کا حکم لگے گا کہ جس کا مسئلہ ۷۵۲ میں ذکر ہو چکا ہے۔
۹۴۵۔ اگر کوئی شخص اقامت کہنے سے پہلے شک کرے کہ اذان کہی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ اذان کہے اور اگر اقامت کہنے میں مشغول ہو جائے اور شک کرے کہ اذان کہی ہے یا نہیں تو اذان کہنا ضروری نہیں۔
۹۴۶۔ اگر کوئی شخص اقامت کہنے کے دوران کوئی جملہ کہنے سے پہلے ایک شخص شک کرے کہ اس نے اس سے پہلے والا جملہ کہا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ جس جملے کی ادائیگی کے بارے میں اسے شک ہوا ہو اسے ادا کرے لیکن اگر اس اذان یا اقامت کا کوئی جملہ ادا کرتے ہوئے شک ہو کہ اس نے اس سے پہلے والا جملہ کہا ہے یا نہیں تو اس جملے کا کہنا ضروری نہیں۔
۹۴۷۔ مستحب ہے کہ اذان کہتے وقت انسان قبلے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور وضو یا غسل کی حالت میں ہو اور ہاتھوں کو کانوں پر رکھے اور آواز کو بلند کرے اور کھینچے اور اذان کے جملوں کے درمیان قدرے فاصلہ دے اور جملوں کے درمیان باتیں نہ کرے۔
۹۴۸۔ مستحب ہے کہ اقامت کہتے وقت انسان کا بدن ساکن ہو اور اذان کے مقابلے میں اقامت آہستہ کہے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے ملا نہ دے لیکن اقامت کے جملوں کے درمیان اتنا فاصلہ نہ دے جتنا اذان کے جملوں کے درمیان دیتا ہے۔
۹۴۹۔ مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان ایک قدم آگے بڑھے یا تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جائے یا سجدہ کرے یا اللہ کا ذکر کرے یا دعا پڑھے یا تھوڑی دیر کے لئے ساکت ہو جائے یا کوئی بات کرے یا دو رکعت نماز پڑھے لیکن نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان کلام کرنا اور نماز مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان نماز پڑھنا (یعنی دو رکعت نماز پڑھنا) مستحب نہیں ہے۔
۹۵۰۔ مستحب ہے کہ جس شخص کو اذان دینے پر مقرر کیا جائے وہ عادل اور وقت شناس ہو، نیز یہ کہ بلند آہنگ ہو اور اونچی جگہ پر اذان دے۔
نماز کے واجبات
واجبات نماز گیارہ ہیں :
۱۔ نیت ۲۔ قیام ۳۔ تکبیرۃ الاحرام ۴۔ رکوع ۵۔ سجود ۶۔ قرأت ۷۔ ذکر ۸۔ تشہد ۹۔ سلام ۱۰۔ ترتیب ۱۱۔مُوَالات یعنی اجزائے نماز کا پے در پے بجا لانا۔
۹۵۱۔ نماز کے واجبات میں سے بعض اس کے رکن ہیں یعنی اگر انسان انہیں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا یا عمداً ہو یا غلطی سے ہو نماز باطل ہو جاتی ہے اور بعض واجبات رکن نہیں ہیں یعنی اگر وہ غلطی سے چھوٹ جائیں تو نماز باطل نہیں ہوتی۔
نماز کے ارکان پانچ ہیں :
۱۔ نیت
۲۔ تکبیرۃ الاحرام (یعنی نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہنا)
۳۔ رکوع سے متصل قیام یعنی رکوع میں جانے سے پہلے کھڑا ہونا
۴۔ رکوع
۵۔ ہر رکعت میں دو سجدے۔ اور جہاں تک زیادتی کا تعلق ہے اگر زیادتی عمداً ہو تو بغیر کسی شرط کے نماز باطل ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوئی ہو تو رکوع میں یا ایک ہی رکعت کے دو سجدوں میں زیادتی سے احتیاط لازم کی بنا پر نماز باطل ہے ورنہ باطل نہیں۔
نِیّت
۹۵۲۔ضروری ہے کہ انسان نماز قربت کی نیت سے یعنی خداوند عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ نیت کو اپنے دل سے گزارے یا مثلاً زبان سے کہے کہ چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں قُربَۃً اِلَی اللہ۔
۹۵۳۔ اگر کوئی شخص ظہر کی نماز میں یا عصر کی نماز میں نیت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہوں لیکن اس امر کا تعین نہ کرے کہ نماز ظہر کی ہے یا عصر کی تو اس کی نماز باطل ہے۔ نیز مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر نماز ظہر کی قضا واجب ہو اور وہ اس قضا نماز یا نماز ظہر کو "ظہر کے وقت” میں پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ جو نماز وہ پڑھے نیت میں اس کا تعین کرے۔
۹۵۴۔ ضروری ہے کہ انسان شروع سے آخر تک اپنی نیت پر قائم رہے۔ اگر وہ نماز میں اس طرح غافل ہو جائے کہ اگر کوئی پوچھے کہ وہ کیا کر رہا ہے تو اس کی سمجھ میں نہ آئے کہ کیا جواب دے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۹۵۵۔ ضروری ہے کہ انسان فقط خداوند عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھے پس جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے خواہ یہ نماز پڑھنا فقط لوگوں کو یا خدا اور لوگوں دونوں کو دکھانے کے لئے ہو۔
۹۵۶۔ اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصہ بھی اللہ تعالیٰ جل شانہ کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے خواہ وہ حصہ واجب ہو مثلاً سورہ الحمد یا مستحب ہو مثلاً قنوت اور اگر غیر خدا کا یہ قصد پوری نماز پر محیط ہو یا اس بڑے حصے کے تدارک سے بطلان لازم آتا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور اگر نماز تو خدا کے لئے پڑھے لیکن لوگوں کو دکھانے کے لئے کسی خاص جگہ مثلاً مسجد میں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاً اول وقت میں پڑھے یا کسی خاص قاعدے سے مثلاً با جماعت پڑھے تو اس کی نماز بھی باطل ہے۔
تکبیرۃ الاحرام
۹۵۷۔ ہر نماز کے شروع میں اَللہ اکبر کہنا واجب اور رکن ہے اور ضروری ہے کہ انسان اللہ کے حروف اور اکبر کے حروف اور دو کلمے اللہ اور اکبر پے در پے کہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دو کلمے صحیح عربی میں کہے جائیں اور اگر کوئی شخص غلط عربی میں کہے یا مثلاً ان کا اردو میں ترجمہ کر کے کہے تو صحیح نہیں ہے۔
۹۵۸۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبیرۃ الاحرام کو اس چیز سے مثلاً اقامت یا دعا سے جو وہ تکبیر سے پہلے پڑھ رہا ہو نہ ملائے۔
۹۵۹۔ اگر کوئی شخص چاہے کہ اللہ اکبر کو اس جملے کے ساتھ جو بعد میں پڑھنا ہو مثلاً بِسمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم سے ملائے تو بہتر یہ ہے کہ اَکبَرُ کے آخری حرف "را” پر پیش دے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ واجب نماز میں اسے نہ ملائے۔
۹۶۰۔ تکبیرۃ الاحرام کہتے وقت ضروری ہے کہ انسان کا بدن ساکن ہو اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اس حالت میں تکبیرۃ الاحرام کہے کہ اس کا بدن حرکت میں ہو تو (اس کی تکبیر) باطل ہے۔
۹۶۱۔ ضروری ہے کہ تکبیر، اَلَحمد، سورہ، ذکر اور دعا کم سے کم اتنی آواز سے پڑھے کہ خود سن سکے اور اگر اونچا سننے یا بہرہ ہونے کی وجہ سے یا شور و غل کی وجہ سے نہ سن سکے تو اس طرح کہنا ضروری ہے کہ اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو سن لے۔
۹۶۲۔ جو شخص کسی بیماری کو بنا پر گونگا ہو جائے یا اس کی زبان میں کوئی نقص ہو جس کی وجہ سے اللہ اکبر نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس طرح کہے اور اگر بالکل ہی نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل میں کہے اور اس کے لئے انگلی سے اس طرح اشارہ کرے کہ جو تکبیرہ سے مناسب رکھتا ہو اور اگر ہوسکے تو زبان اور ہونٹ کو بھی حرکت دے اور اگر کوئی پیدائشی گونگا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان اور ہونٹ کو اس طرح حرکت دے کہ جو کسی شخص کے تکبیر کہنے سے مشابہ ہو اور اس کے لئے اپنی انگلی سے بھی اشارہ کرے۔
۹۶۳۔ انسان کے لئے مستحب ہے کہ تکبیرۃ الاحرام کے بعد کہے :
"یَامُحسِنُ قَد اَتَاکَ المُسِٓئُ وَقَد اَمَرتَ المُحسِنَ اَن یَّتَجَاوَزَعنِ المُسِٓی اَنتَ المُحسِنُ وَاَنا المُسِیٓئُ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّتَجَاوَزعَن قَبِیعِ مَا تَعلَمُ مِنِّی۔”
(یعنی) اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خدا ! یہ گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں آیا ہے اور تو نے حکم دیا ہے کہ نیک لوگ گناہ گاروں سے در گزر کریں۔ تو احسان کرنے والا ہے اور میں گناہ گار ہوں۔ محمد ﷺ اور آل محمد (علیہم السلام) کے طفیل میری برائیوں سے جنہیں تو جانتا ہے در گزر فرما۔
۹۶۴۔ (انسان کے لئے ) مستحب ہے کہ نماز کی پہلی تکبیر اور نماز کی درمیانی تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کو کانوں کے برابر تک لے جائے۔
۹۶۵۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ تکبیرۃ الاحرام کہی ہے یا نہیں اور قرات میں مشغول ہو جائے تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ابھی کچھ نہ پڑھا ہو تو ضروری ہے کہ تکبیر کہے۔
۹۶۶۔ اگر کوئی شخص تکبیرۃ الاحرام کہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح طریقے سے تکبیر کہی ہے یا نہیں تو خواہ اس نے آگے کچھ پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
قیام یعنی کھڑا ہونا
۹۶۸۔ تکبیرۃ الاحرام کہنے سے پہلے اور اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے کھڑا ہونا واجب ہے تاکہ یقین ہو جائے کہ تکبیر قیام کی حالت میں کہی گئی ہے۔
۹۶۹۔ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے الحمد اور سورہ کے بعد بیٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور رکوع میں جائے۔ لیکن اگر سیدھا کھڑا ہوئے بغیر جھکے ہونے کی حالت میں رکوع کرے تو چونکہ وہ قیام متصل برکوع بجا نہیں لایا اس لئے اس کا یہ رکوع کفایت نہیں کرتا۔
۹۷۰۔ جس وقت ایک شخص تکبیرۃ الاحرام یا قرأت کے لئے کھڑا ہو ضروری ہے کہ بدن کو حرکت نہ دے اور کسی طرف نہ جھکے اور احتیاط لازم کی بنا پر اختیار کی حالت میں کسی جگہ ٹیک نہ لگائے لیکن اگر ایسا کرنا بہ امر مجبوری ہو تو کوئی اشکال نہیں۔
۹۷۱۔ اگر قیام کی حالت میں کوئی شخص بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگہ ٹیک لگا لے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
۹۷۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ قیام کے وقت انسان کے دونوں پاوں زمین پر ہوں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بدن کا بوجھ دونوں پاوں پر ہو چنانچہ اگر ایک پاوں پر بھی ہو تو کوئی اشکال نہیں۔
۹۷۳۔ جو شخص ٹھیک طور پر کھڑا ہو سکتا ہو اگر وہ اپنے پاوں ایک دوسرے سے اتنے جدا رکھے کہ اس پر کھڑا ہونا صادق نہ آتا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور اسی طرح اگر معمول کے خلاف پیروں کو کھڑا ہونے کی حالت میں بہت کھلا رکھے تو احتیاط کی بنا پر یہی حکم ہے۔
۹۷۴۔جب انسان نماز میں کوئی واجب ذکر پڑھنے میں مشغول ہو تو ضروری ہے کہ اس کا بدن ساکن ہو اور جب مستحب ذکر میں مشغول ہو تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے اور جس وقت وہ قدرے آگے یا پیچھے ہونا چاہے یا بدن کو دائیں یا بائیں جانب تھوڑی سی حرکت دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اس وقت کچھ نہ پڑھے۔
۹۷۵۔اگر متحرک بدن کی حالت میں کوئی شخص مستحب ذکر پڑھے مثلاً رکوع سجدے میں جانے کے وقت تکبیر کہے اور اس ذکر کے قصد سے کہے جس کا نماز میں حکم دیا گیا ہے تو وہ ذکر صحیح نہیں لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔ اور ضروری ہے کہ انسان اللّٰہ وَقُوَّتِہ وَاَقعدُ اس وقت کہے جب کھڑا ہو رہا ہو۔
۹۷۶۔ ہاتھوں اور انگلیوں کو الحمد پڑھتے وقت حرکت دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ انہیں بھی حرکت نہ دی جائے۔
۹۷۷۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ پڑھتے وقت یا تسبیحات پڑھتے وقت بے اختیار اتنی حرکت کرے کہ بدن کے ساکن ہونے کی حالت سے خارج ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ بدن کے دوبارہ ساکن ہونے جو کچھ اس نے حرکت کی حالت میں پڑھا تھا، دوبارہ پڑھے۔
۹۷۸۔ نماز کے دوران اگر کوئی شخص کھڑے ہونے کے قابل نہ ہو تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور اگر بیٹھ بھی نہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ لیٹ جائے لیکن جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نہ ہو ضروری ہے کہ کوئی واجب ذکر نہ پڑھے۔
۹۷۹۔ جب تک انسان کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہو ضروری ہے کہ نہ بیٹھے مثلاً اگر کھڑا ہونے کی حالت میں کسی کا بدن حرکت کرتا ہو یا وہ کسی چیز پر ٹیک لگانے پر یا بدن کو تھوڑا سا ٹیڑھا کرنے پر مجبور ہو تو ضروری ہے کہ جیسے بھی ہوسکے کھڑا ہو کر نماز پڑھے لیکن اگر وہ کسی طرح بھی کھڑا نہ ہوسکتا ہو تو ضروری ہے کہ سیدھا بیٹھ جائے اور بیٹھ کر نماز پڑھے۔
۹۸۰۔ جب تک انسان بیٹھ سکے ضروری ہے کہ وہ لیٹ کر نماز پڑھے اور اگر وہ سیدھا ہو کر نہ بیٹھ سکے تو ضروری ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو بیٹھے اور اگر بالکل نہ بیٹھ سکے تو جیسا کہ قبلے کے احکام میں کہا گیا ہے ضروری ہے کہ دائیں پہلو لیٹے اور دائیں پہلو پر نہ لیٹ سکتا ہو تو بائیں پہلو پر لیٹے۔ اور احتیاط لازم کی بنا پر ضروری کہ جب تک دائیں پہلو پر لیٹ سکتا ہو بائیں پہلو پر نہ لیٹے اور اگر دونوں طرف لیٹنا ممکن نہ ہو تو پشت کے بل اس طرح لیٹے کہ اس کے تلوے قبلے کی طرف ہوں۔
۹۸۱۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر وہ الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد کھڑا ہوسکے اور رکوع کھڑا ہو کر بجا لا سکے تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور قیام کی حالت سے رکوع میں جائے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ رکوع بھی بیٹھ کر بجا لائے۔
۹۸۲۔ جو شخص کر نماز پڑھ رہا ہو اگر وہ نماز کے دوران اس قابل ہو جائے کہ بیٹھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز کی جتنی مقدار ممکن ہو بیٹھ کر پڑھے اور اگر کھڑا ہوسکے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار ممکن ہو کھڑا ہو کر پڑھے لیک جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نہ ہو جائے ضروری ہے کہ کوئی واجب ذکر نہ پڑھے۔
۹۸۳۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر نماز کے دوران اس قابل ہو جائے کہ کھڑا ہوسکے تو ضروری ہے کہ نماز کی جتنی مقدار ممکن ہو کھڑا ہو پڑھے لیکن جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نہ ہو جائے ضروری ہے کہ کوئی واجب ذکر نہ پڑھے۔
۹۸۴۔ اگر کسی ایسے شخص کو جو کھڑا ہو سکتا ہو یہ خوف ہو کہ کھڑا ہونے بیمار ہو جائے گا یا اسے کوئی تکلیف ہو گی تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر بیٹھنے سے بھی تکلیف کا ڈر ہو تو لیٹ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
۹۸۵۔اگر کسی شخص کو اس بات کی امید ہو کہ آخر وقت میں کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکے گا اور وہ اول وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت میں کھڑا ہونے پر قادر ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ دوبارہ نماز پڑھے لیکن اگر کھڑا ہو کر نماز پڑھنے سے مایوس ہو اور اول وقت میں نماز پڑھ لے بعد ازاں وہ کھڑے ہونے کے قابل ہو جائے تو ضروری نہیں کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
۹۸۶۔ (انسان کے لئے ) مستحب ہے کہ قیام کی حالت میں جسم سیدھا رکھے اور کندھوں کو نیچے کی طرف ڈھیلا چھوڑ دے نیز ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور انگلیوں کو باہم ملا کر رکھے اور نگاہ سجدہ کی جگہ پر مرکوز رکھے اور بدن کو بوجھ دونوں پاوں پر یکساں ڈالے اور خشوع اور خضوع کے ساتھ کھڑا ہو اور پاوں آگے پیچھے نہ رکھے اور اگر مرد تو پاوں کے درمیان تین پھیلی ہوئی انگلیوں سے لے کر ایک بالشت تک کا فاصلہ رکھے اور اگر عورت ہو تو دونوں پاوں ملا کر رکھے۔
قرأت
۹۸۷۔ ضروری ہے کہ انسان روزانہ کی واجب نمازوں کی پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے الحمد اور اس کے بعد احتیاط کی بنا پر کسی ایک پورے سورے کی تلاوت کرے اور والضحیٰ اور اَلَم نَشرَح کی سورتیں اور اسی طرح سورہ فیل اور سورہ قریش احتیاط کی بنا پر نماز میں ایک سورت شمار ہوتی ہیں۔
۹۸۸۔ اگر نماز کا وقت تنگ ہو یا انسان کسی مجبوری کی وجہ سے سورہ نہ پڑھ سکتا ہو مثلاً اسے خوف ہو کہ اگر سورہ پڑھے گا تو چور یا درندہ یا کوئی اور چیز اسے نقصان پہنچائے گی یا اسے ضروری کام ہو تو اگر وہ چاہے تو سورہ نہ پڑھے بلکہ وقت تنگ ہونے کی صورت میں اور خوف کی بعض حالتوں میں ضروری ہے کہ وہ سورہ نہ پڑھے۔
۹۸۹۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر الحمد سے پہلے سورہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہو گی لیکن اگر غلَطی سے الحمد سے پہلے سورہ پڑھے اور پڑھنے کے دوران یاد آئے تو ضروری ہے کہ سورہ کو چھوڑ دے اور الحمد پڑھنے کے بعد سورہ شروع سے پڑھے۔
۹۹۰۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ یا ان سے کسی ایک کا پڑھنا بھول جائے اور رکوع میں جانے کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۹۹۱۔ اگر رکوع کے لئے جھکنے سے پہلے کسی شخص کو یاد آئے کہ اس نے الحمد اور سورہ نہیں پڑھا تو ضروری ہے کہ پڑھے اور اگر یہ یاد آئے کہ سورہ نہیں پڑھا تو ضروری ہے کہ فقط سورہ پڑھے لیکن اگر اسے یاد آئے کہ فقط الحمد نہیں پڑھی تو ضروری ہے کہ پہلے الحمد اور اس کے بعد دوبارہ سورہ پڑھے اور اگر جھک بھی جائے لیکن رکوع حد تک پہنچنے سے پہلے یاد آئے کہ الحمد اور سورہ یا فقط سورہ یا فقط الحمد نہیں پڑھی تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور اسی حکم کے مطابق عمل کرے۔
۹۹۲۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر فرض نماز میں ان چار سوروں میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے جن میں آیہ سجدہ ہو اور جن کا ذکر مسئلہ ۳۶۱ میں کیا گیا ہے تو واجب ہے کہ آیہ سجدہ پڑھنے کے بعد سجدہ کرے لیکن اگر سجدہ لائے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ اسے دوبارہ پڑھے اور اگر سجدہ نہ کرے تو اپنی نماز جاری رکھ سکتا ہے اگرچہ سجدہ نہ کر کے اس نے گناہ کیا ہے۔
۹۹۳۔اگر کوئی شخص بھول کر ایسا سورہ پڑھنا شروع کر دے جس میں سجدہ واجب ہو لیکن آیہ سجدہ پر پہنچنے سے پہلے اسے خیال آ جائے تو ضروری ہے کہ اس سورہ کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا سورہ پڑھے اور آیہ سجدہ پڑھنے کے بعد خیال آئے تو ضروری ہے کہ جس طرح سابقہ مسئلہ میں کہا گیا ہے عمل کرے۔
۹۹۴۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران کسی دوسرے کو آیہ سجدہ پڑھتے ہوئی سنے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن احتیاط کی بنا پر سجدے کا اشارہ کرے اور نماز ختم کرنے کے بعد اس کا سجدہ بجا لائے۔
۹۹۵۔ مستحب نماز میں سورہ پڑھنا ضروری نہیں ہے خواہ وہ نماز منت ماننے کی وجہ سے ہی واجب کیوں نہ ہو گئی ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسی مستحب نمازیں ان کے احکام کے مطابق پڑھنا چاہے مثلاً نماز وحشت کہ جن میں مخصوص سورتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو ضروری ہے کہ وہی سورتیں پڑھے۔
۹۹۶۔ جمعہ کی نماز میں اور جمعہ کے دن ظہر کی نماز میں پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورہ منافقوں پڑھنا مستحب ہے۔ اور اگر کوئی شخص ان میں سے کوئی ایک سورہ پڑھنا شروع کر دے تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ نہیں پڑھ سکتا۔
۹۹۷۔ اگر کوئی شخص الحمد کے بعد سورہ اخلاص یا سورہ کافروں پڑھنے لگے تو وہ اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ نہیں پڑھ سکتا البتہ اگر نماز جمعہ یا جمعہ کے دن نماز ظہر میں بھول کر سورہ جمعہ اور سورہ منافقون کی بجائے ان دو سورتوں میں سے کوئی سورہ پڑھے تو انہیں چھوڑ سکتا ہے اور سورہ جمعہ اور سورہ منافقون پڑھ سکتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ اگر نصف تک پڑھ چکا ہو تو پھر ان سوروں کو نہ چھوڑے۔
۹۹۸۔ اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز میں یا جمعہ کے دن ظہر کی نماز میں جان بوجھ کر سورہ اخلاص یا سورہ کافرون پڑھے تو خواہ وہ نصف تک نہ پہنچا ہو احتیاط واجب کی بنا پر انہیں چھوڑ کر سورہ جمعہ اور سورہ منافقوں نہیں پڑھ سکتا۔
۹۹۹۔ اگر کوئی شخص نماز میں سورہ اخلاص یا سورہ کافرون کے علاوہ کوئی دوسرا سورہ پڑھے تو جب تک نصف تک نہ پہنچا ہو اسے چھوڑ سکتا ہے اور دوسرا سورہ پڑھ سکتا ہے۔ اور نصف تک پہنچنے کے بعد بغیر کسی وجہ کے اس سورہ کو چھوڑ کر دوسرا سورہ پڑھنا احتیاط کی بنا پر جائز نہیں۔
۱۰۰۰۔ اگر کوئی شخص کسی سورے کا کچھ حصہ بھول جائے یا بہ امر مجبوری مثلاً وقت کی تنگی یا کسی اور وجہ سے اسے مکمل نہ کرسکتے تو وہ اس سورہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ پڑھ سکتا ہے خواہ نصف تک ہی پہنچ چکا ہو یا وہ سورہ اخلاص یا سورہ کافرون ہی ہو۔
۱۰۰۱۔ مرد پر احتیاط کی بنا پر واجب ہے کہ صبح اور مغرب و عشا کی نمازوں پر الحمد اور سورہ بلند آواز سے پڑھے اور مرد اور عورت دونوں پر احتیاط کی بنا پر واجب ہے کہ نماز ظہر و عصر میں الحمد اور سورہ آہستہ پڑھیں۔
۱۰۰۲۔احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ مرد صبح اور مغرب و عشا کی نماز میں خیال رکھے کہ الحمد اور سورہ کے تمام کلمات حتیٰ کہ ان کے آخری حرف تک بلند آواز سے پڑھے۔
۱۰۰۳۔صبح کی نماز اور مغرب و عشا کی نماز میں عورت الحمد اور سورہ بلند آواز سے یا آہستہ جیسا چاہے پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر نا محرم اس کی آواز سن رہا ہو اور اس کا سننا حرام ہو تو احتیاط کی بنا پر آہستہ پڑھے۔
۱۰۰۴۔ اگر کوئی شخص جس نماز کی بلند آواز سے پڑھنا ضروری ہے اسے عمداً آہستہ پڑھے یا جو نماز آہستہ پڑھنی ضروری ہے اسے عمداً بلند آواز سے پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔ لیکن اگر بھول جانے کی وجہ سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کرے تو (اس کی نماز) صحیح ہے۔ نیز الحمد اور سورہ پڑھنے کی دوران بھی اگر وہ متوجہ ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ نماز کا جو حصہ پڑھ چکا ہو اسے دوبارہ پڑھے۔
۱۰۰۵۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ پڑھنے کے دوران اپنی آواز معمول سے زیادہ بلند کرے مثلاً ان سورتوں کو ایسے پڑھے جیسے کہ فریاد کر رہا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۰۶۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ نماز کی قرأت کو سیکھ لے تاکہ غلط نہ پڑھے اور جو شخص کسی طرح بھی پورے سورہ الحمد کو نہ سیکھ سکتا ہو جس قدر بھی سیکھ سکتا ہو سیکھے اور پڑھے لیکن اگر وہ مقدار بہت کم ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر قرآن کے دوسرے سوروں میں سے جس قدر سیکھ سکتا ہو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے اور اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو تسبیح کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے اور اگر کوئی پورے سورہ کو نہ سیکھ سکتا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے بدلے کچھ پڑھے۔ اور ہر حال میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ بجا لائے۔
۱۰۰۷۔ اگر کسی کو الحمد اچھی طرح یاد نہ ہو اور وہ سیکھ سکتا ہو اور نماز کا وقت وسیع ہو تو ضروری ہے کہ سیکھ لے اور اگر وقت تنگ ہو اور وہ اس طرح پڑھے جیسا کہ گزشتہ مسئلے میں کہا گیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر ممکن ہو تو عذاب سے بچنے کے لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے۔
۱۰۰۸۔واجبات نماز سکھانے کی اجرت لینا احتیاط کی بنا حرام لیکن مستحبات نماز سکھانے کی اجرت لینا جائز ہے۔
۱۰۰۹۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ کا کوئی کلمہ نہ جانتا ہویا جان بوجھ کر اسے نہ پڑھے یا ایک حرف کے بجائے دوسرا حرف کہے مثلاً "ض” کی بجائے "ظ” کہے یا جہاں زیر اور زبر کے بغیر پڑھنا ضروری ہو وہاں زیر اور زبر لگائے یا تشدید حذف کر دے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۱۰۔ اگر انسان نے کوئی کلمہ جس طرح یاد کیا ہوا سے صحیح سمجھتا ہو اور نماز میں اسی طرح پڑھے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ اس نے غلط پڑھا ہے تو اس کے لئے نماز کا دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں۔
۱۰۱۱۔ اگر کوئی شخص کسی لفظ کے زبر اور زیر سے واقف نہ ہو یا یہ نہ جانتا ہو کہ وہ لفظ (ہ) سے ادا کرنا چاہئے یا (ح) سے تو ضروری ہے کہ سیکھ لے اور ایسے لفظ کو دو (یا دو سے زائد) طریقوں سے ادا کرے۔ اور اگر اس لفظ کا غلط پڑھنا قرآن یا ذکر خدا شمار نہ ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور اگر دونوں طریقوں سے پڑھنا صحیح ہو مثلاً "اِھدِنَا الصِّراطَ المُستَقِیمَ” کو ایک دفعہ (س) سے اور ایک دفعہ (ص) سے پڑھے تو ان دونوں طریقوں سے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
۱۰۱۲۔ علمائے تجوید کا کہنا ہے کہ اگر کسی لفظ میں واو ہو اور اس لفظ سے پہلے والے حرف پر پیش ہو اور اس لفظ میں داد کے بعد والا حرف ہمزہ ہو مثلاً "سُوٓءٍ” تو پڑھنے والے کو چاہئے کہ اس داد کو مد کے ساتھ کھینچ کر پڑھے۔ اسی طرح اگر کسی لفظ میں "الف” ہو اور اس لفظ میں الف سے پہلے والے حرف پر زبر ہو اور اس لفظ میں الف کے بعد والا حرف ہمزہ ہو مثلاً جآءَ تو ضروری ہے کہ اس لفظ کے الف کو کھینچ کر پڑھے۔ اور اگر کسی لفظ میں "ی” سے پہلے والے حرف پر زیر ہو اور اس لفظ میں "ی” کے بعد والا حرف ہمزہ ہو مثلاً "جَیٓءَ ” تو ضروری ہے کہ "ی” کو مد کے ساتھ پڑھے اور اگر ان حروف "داد، الف اوریا” کے بعد ہمزہ کے بجائے کوئی ساکن حرف ہو یعنی اس پر زبر، زیر یا پیش میں سے کوئی حرکت نہ ہو تب بھی ان تینوں حروف کو مد کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ لیکن ظاہراً ایسے معاملے میں قرات کا صحیح ہونا مد پر موقف نہیں۔ لہذا جو طریقہ بتایا گیا ہے اگر کوئی پر اس پر عمل نہ کرے تب بھی اس کی نماز صحیح ہے لیکن وَلاَالضَّآلِّینَ جیسے الفاظ میں تشدید اور الف کا پورے طور پر ادا ہونا مد پر تھوڑا سا توقف کرنے میں ہے لہذا ضروری ہے کہ الف کو تھوڑا سا کھینچ کر پڑھے۔
۱۰۱۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ انسان نماز میں وقف بحرکت اور وصل بسکون نہ کرے اور وقف بحرکت کے معنی یہ ہیں کہ کسی لفظ کے آخر میں زیر زبر پیش پڑھے اور لفظ اور اس کے بعد کے لفظ کے درمیان فاصلہ درمیان فاصلہ دے مثلاً کہے اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیمِ اور اَلَّرحِیمِ کے میم کو زیر دے اور اس کے بعد قدرے فاصلہ دے اور کہے مَالِکِ یَومِ الدِّینِ اور وصل بسکون کے معنی یہ ہیں کہ کسی لفظ کی زیر زبر یا پیش نہ پڑھے اور اس لفظ کو بعد کے لفظ سے جوڑ دے مثلاً یہ کہے اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیمِ اور اَلرَّحِیمِ کے میم کو زیر نہ دے اور فوراً مَالِکِ یَومِ الدِّینِ کہے۔
۱۰۱۴۔ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں فقط ایک دفعہ الحمد یا ایک دفعہ تسبیحات اربعہ پڑھی جا سکتی ہے یعنی نماز پڑھنے والا ایک دفعہ کہے سُبحَاَنَ اللہ وَالحَمدُ لِلّٰہ وَلاَ اِلٰہ اَلاَّ اللہ وَاللہ اَکبَرُ اور بہتر یہ ہے کہ تین دفعہ کہے۔ اور وہ ایک رکعت میں الحمد اور دوسری رکعت میں تسبیحات بھی پڑھ سکتا ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ دونوں رکعتوں میں تسبیحات پڑھے۔
۱۰۱۵۔اگر وقت تنگ ہو تو تسبیحات اربعہ ایک دفعہ پڑھنا چاہئے اور اگر اس قدر وقت بھی نہ ہو تو بعید نہیں کہ ایک دفعہ سُبحاَنَ اللہ کہنا لازم ہو۔
۱۰۱۶۔ احتیاط کی بنا پر مرد اور عورت دونوں پر واجب ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد یا تسبیحات اربعہ آہستہ پڑھیں۔
۱۰۱۷۔اگر کوئی شخص تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد پڑھے تو واجب نہیں کہ اس کی بِسمِ اللہ بھی آہستہ پڑھے لیکن مقتدی کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ بِسمِ اللہ بھی آہستہ پڑھے۔
۱۰۱۸۔ جو شخص تسبیحات یاد نہ کر سکتا ہو یا انہیں ٹھیک ٹھیک پڑھ نہ سکتا ہو ضروری ہے کہ وہ تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد پڑھے۔
۱۰۱۹۔ اگر کوئی شخص نماز کی پہلی دو رکعتوں میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ آخری دو رکعتیں ہیں تسبیحات پڑھے لیکن رکوع سے پہلے اسے صحیح صورت کا پتہ چل جائے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر اسے رکوع کے دوران یا رکوع کے بعد پتہ چلے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۰۲۰۔ اگر کوئی شخص نماز کی کی آخری دو رکعتوں میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ پہلی دو رکعتیں ہیں الحمد پڑھے یا نماز کی پہلی دو رکعتوں میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ آخری دو رکعتیں الحمد پڑھے تو اسے صحیح صورت کا خواہ رکوع سے پہلے پتہ چلے یا بعد میں اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۰۲۱۔اگر کوئی شخص تیسری یا چوتھی رکعت میں الحمد پڑھنا چاہتا ہو لیکن تسبیحات اس کی زبان پر آ جائیں یا تسبیحات پڑھنا چاہتا ہو لیکن الحمد اس کی زبان پر آ جائے اور اگر اس کے پڑھنے کا بالکل ارادہ نہ تھا تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ کر دوبارہ الحمد یا تسبیحات پڑھے لیکن اگر بطور کلی بلا ارادہ نہ ہو جیسے کہ اس کی عادت وہی کچھ پڑھنے کی ہو جو اس کی زبان پر آیا ہے تو وہ اسی کو تمام کر سکتا ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۰۲۳۔ جس شخص کی عادت تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات پڑھنے کی ہو اگر وہ اپنی عادت سے غفلت برتے اور اپنے وظیفے کی ادائیگی کی نیت سے الحمد پڑھنے لگے تو وہی کافی ہے اور اس کے لئے الحمد یا تسبیحات دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں۔
۱۰۲۳۔ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات کے بعد اِستِغفار کرنا مثلاً کہے "اَستَغفِرُاللہ رَبِّیِ وَاَتُوبُ اِلَیہ” یا کہے "اَللّٰھُمَّ اغفِرلیِ” اور اگر نماز پڑھنے والا رکوع کے لئے جھکنے سے پہلے استغفارہ پڑھ رہا ہو یا اس سے فارغ ہو چکا ہو اور اسے شک ہو جائے کہ اس نے الحمد یا تسبیحات پڑھی ہیں یا نہیں تو ضروری ہے کہ الحمد یا تسبیحات پڑھے۔
۱۰۲۴۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت میں یا رکوع میں جاتے ہوئے شک کرے کہ اس نے الحمد یا تسبیحات پڑھی ہیں یا نہیں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۰۲۵۔ اگر نماز پڑھنے والا شک کرے کہ آیا اس نے کوئی آیت یا جملہ درست پڑھا ہے یا نہیں مثلاً شک کرے کہ قُل ہوَاللہ اَحَد درست پڑھا ہے یا نہیں تو وہ اپنے شک کی پروانہ کرے لیکن اگر احتیاط وہی آیت یا جملہ دوبارہ صحیح طریقے سے پڑھ دے تو کوئی حرج نہیں اور اگر کئی بار بھی شک کرے تو کئی بار پڑھ سکتا ہے۔ ہاں اگر وسوسے کی حد تک پہنچ جائے اور پھر بھی دوبارہ پڑھے تو احتیاط مستحب کی بنا پر پوری نماز دوبارہ پڑھے۔
۱۰۲۶۔ مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں الحمد پڑھنے سے پہلے "اَعُوذُ بِاللہ مِنِ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ” کہے اور ظہر اور عصر کی پہلی اور دوسری رکعتوں میں بِسمِ اللہ بلند آواز سے کہے اور الحمد اور سورہ کو ممیز کر کے پڑھے اور ہر آیت کے آخر پر وقف کرے یعنی اسے بعد والی آیت کے ساتھ نہ ملائے اور الحمد اور سورہ پڑھتے وقت آیات کے معنوں کے طرف توجہ رکھے۔ اور اگر جماعت سے نماز پڑھ رہا ہو تو امام جماعت کے سورہ الحمد ختم کرنے کے بعد اور اگر فُرادیٰ نماز پڑھ رہا ہو تو سورہ الحمد پڑھنے کے بعد کہے "الحَمدُ لِلّٰہ رَبِّ العَالَمِینَ” اور سورہ قُل ھُوَاللہ اَحَد پڑھنے کے بعد ایک یا دو تین دفعہ ” کَذَالِکَ اللہ رَبِّی ” یا تین دفعہ ” کَذَلِکَ اللہ رَبُّناَ” کہے اور سورہ پڑھنے کے بعد اور تھوڑی دیر رکے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے کی تکبیر کہے یا قنوت پڑھے۔
۱۰۲۷۔ مستحب ہے کہ تمام نمازوں کی پہلی رکعت میں سورہ قدر اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھے۔
۱۰۲۸۔ پنج گانہ نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں بھی انسان کا سورہ اخلاص کا نہ پڑھنا مکروہ ہے۔
۱۰۲۹۔ ایک ہی سانس میں سورہ قُل ھُوَاللہ اَحَد کا پڑھنا مکروہ ہے۔
۱۰۳۰۔ جو سورہ انسان پہلی رکعت میں پڑھے اس کا دوسری رکعت میں پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر سورہ اخلاص دونوں رکعتوں میں پڑھے تو مکروہ نہیں ہے۔
رکوع
۱۰۳۱۔ضروری ہے کہ ہر رکعت میں قرأت کے بعد اس قدر جھکے کہ اپنی انگلیوں کے سرے گھٹنے پر رکھ سکے اور اس عمل کو رکوع کہتے ہیں۔
۱۰۳۲۔ اگر رکوع جتنا جھک جائے لیکن اپنی انگلیوں کے سرے گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں۔
۱۰۳۳۔ اگر کوئی شخص رکوع عام طریقے کے مطابق نہ بجا لائے مثلاً بائیں یا دائیں جانب جھک جائے تو خواہ اس کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ بھی جائیں اس کا رکوع صحیح نہیں ہے۔
۱۰۳۴۔ ضروری ہے کہ جھکنا رکوع کی نیت سے ہو لہذا اگر کسی اور کام کے لئے مثلاً کسی جانور کو مارنے کے لئے جھکے تو اسے رکوع نہیں کہا جا سکتا بلکہ ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور دوبارہ رکوع کے لئے جھکے اور اس عمل کی وجہ سے رکن میں اضافہ نہیں ہوتا اور نماز باطل نہیں ہوتی۔
۱۰۳۵۔ جس شخص کے ہاتھ یا گھٹنے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں اور گھٹنوں سے مختلف ہوں مثلاً اس کے ہاتھ اتنے لمبے ہوں کہ اگر معمولی سا بھی جھکے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں یا اس کے گھٹنے دوسرے لوگوں کے گھٹنوں کے مقابلے میں نیچے ہوں اور اسے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچانے کے لئے بہت زیادہ جھکنا پڑتا ہو تو ضروری ہے کہ اتنا جھکے جتنا عموماً لوگ جھکتے ہیں۔
۱۰۳۶۔ جو شخص بیٹھ کر رکوع کر رہا ہو اسے اس قدر جھکنا ضروری ہے کہ اس کا چہرہ اس کے گھٹنوں کے بالمقابل جا پہنچے اور بہتر ہے کہ اتنا جھکے کہ اس کا چہرہ سجدے کی جگہ کے قریب جا پہنچے۔
۱۰۳۷۔ بہتر یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں رکوع میں تین دفعہ "سُبحَانَ اللہ” یا ایک دفعہ "سُبحَانَ رَبِّی العَظِیمَ وَبِحَملِہ” کہے اور ظاہر یہ ہے کہ جو ذکر بھی اتنی مقدار میں کہا جائے کافی ہے لیکن وقت کی تنگی اور مجبوری کی حالت میں ایک دفعہ "سبحَانَ اللہ” کہنا ہی کافی ہے۔
۱۰۳۸۔ ذِکرِ رکوع مسلسل اور صحیح عربی میں پڑھنا چاہئے اور مستحب ہے کہ اسے تین یا پانچ یا ساتھ دفعہ بلکہ اس سے بھی زیادہ پڑھا جائے۔
۱۰۳۹۔ رکوع کی حالت میں ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا بدن ساکن ہو نیز ضروری ہے کہ وہ اپنے اختیار سے بدن کو اس طرح حرکت نہ دے کہ اس پر ساکن ہونا صادق نہ آئے حتیٰ کہ احتیاط کی بنا پر اگر وہ واجب ذکر میں مشغول نہ ہو تب بھی یہی حکم ہے۔
۱۰۴۰۔ اگر نماز پڑھنے والا اس وقت جبکہ رکوع کا واجب ذکر ادا کر رہا ہو بے اختیار اتنی حرکت کرے کہ بدن کے سکون کی حالت میں ہونے سے خارج ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ بدن کے سکون حاصل کرنے کے بعد دوبارہ ذکر کو بجا لائے لیکن اگر اتنی کم مدت کے لئے حرکت کرے کہ بدن کے سکون میں ہونے کی حالت میں خارج نہ ہو یا انگلیوں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۱۰۴۱۔ اگر نماز پڑھنے والا اس سے پیشتر کہ رکوع جتنا جھکے اور اس کا بدن سکون حاصل کرے جان بوجھ کر ذکر رکوع پڑھنا شروع کر دے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۴۲۔ اگر ایک شخص واجب ذکر کے ختم ہونے سے پہلے جان بوجھ کر سر رکوع سے اٹھا لے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر سہواً سر اٹھا لے اور اس سے پیشتر کہ رکوع کی حالت سے خارج ہو جائے اسے یاد آئے کہ اس نے ذکر رکوع ختم نہیں کیا تو ضروری ہے کہ رک جائے اور ذکر پڑھے۔ اور اگر اسے رکوع کی حالت سے خارج ہونے کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۰۴۳۔ اگر ایک شخص ذکر کی مقدار کے مطابق رکوع کی حالت میں نہ رہ سکتا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کا بقیہ حصہ رکوع سے اٹھتے ہوئے پڑھے۔
۱۰۴۴۔ اگر کوئی شخص مرض وغیرہ کی وجہ سے رکوع میں اپنا بدن ساکن نہ رکھ سکے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ رکوع کی حالت میں خارج ہونے سے پہلے واجب ذکر اس طریقے سے ادا کرے جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔
۱۰۴۵۔جب کوئی شخص رکوع کے لئے نہ جھک ہو تو ضروری ہے کہ کسی چیز کا سہارا لے کر رکوع بجا لائے اور اگر سہارے کے ذریعے بھی معمول کے مطابق رکوع نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ اس قدر جھکے کہ عُرفاً اسے رکوع کہا جا سکے اور اگر اس قدر نہ جھک سکے تو ضروری ہے کہ رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرے۔
۱۰۴۶۔ جس شخص کو رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرنا ضروری ہو اگر وہ اشارہ کرنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ رکوع کی نیت کے ساتھ آنکھوں کو بند کرے اور ذکر رکوع پڑھے اور رکوع سے اٹھنے کی نیت سے آنکھوں کو کھول دے اور اگر اس قابل بھی نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر دل میں رکوع کی نیت کرے اور اپنے ہاتھ سے رکوع کے لئے اشارہ کرے اور ذکر رکوع پڑھے۔
۱۰۴۷۔ جو شخص کھڑے ہو کر رکوع نہ کرسکے لیکن جب بیٹھا ہو تو رکوع کے لئے جھک سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک دفعہ پھر نماز پڑھے اور اس کے رکوع کے وقت بیٹھ جائے اور رکوع کے لئے جھک جائے۔
۱۰۴۸۔ اگر کوئی شخص رکوع کی حد تک پہنچنے کے بعد سر کو اٹھا لے اور دوبارہ رکوع کرنے کی حد تک جھکے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۴۹۔ ضروری ہے کہ ذکر رکوع ختم ہونے کے بعد سیدھا کھڑا ہو جائے اور جب اس کا بدن سکون حاصل کر لے اس کے بعد سجدے میں جائے اور اگر جان بوجھ کر کھڑا ہونے سے پہلے یا بدن کے سکون حاصل کرنے سے پہلے سجدے میں چلا جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۵۰۔ اگر کوئی شخص رکوع ادا کرنا بھول جائے اور اس سے پیشتر کہ سجدے کی حالت میں پہنچے اسے یاد آ جائے تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور پھر رکوع میں جائے۔ اور جھکے ہوئے ہونے کی حالت میں اگر رکوع کی جانب لوٹ جائے تو کافی نہیں۔
۱۰۵۱۔ اگر کسی شخص کو پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ اس نے رکوع نہیں کیا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ لوٹ جائے اور کھڑا ہونے کے بعد رکوع بجا لائے۔ اور اگر اسے دوسرے سجدے میں یاد آئے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۵۲۔ مستحب ہے کہ انسان رکوع میں جانے سے پہلے سیدھا کھڑا ہو کر تکبیر کہے اور رکوع میں گھٹنوں کو پیچھے کی طرف دھکیلے۔ پیٹھ کو ہموار رکھے۔ گردن کو کھینچ کر پیٹھ کے برابر رکھے۔ دونوں پاوں کے درمیان دیکھے۔ ذکر سے پہلے یا بعد میں درود پڑھے اور جب رکوع کے بعد اٹھے اور سیدھا کھڑا ہو تو بدن کے سکون کی حالت میں ہوتے ہوئے "سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ” کہے۔
۱۰۵۳۔ عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں سے اوپر رکھیں اور گھٹنوں کو پیچھے کی طرف نہ دھکیلیں۔
سجود
۱۰۵۴۔ نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں رکوع کے بعد دو سجدے کرے۔ سجدہ یہ ہے کہ خاص شکل میں پیشانی کو خضوع کی نیت سے زمین پر رکھے اور نماز کے سجدے کی حالت میں واجب ہے کہ دونوں ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاوں کے انگوٹھے زمین پر رکھے جائیں۔
۱۰۵۵۔دو سجدے مل کر ایک رکن ہیں اور اگر کوئی شخص واجب نماز میں عمداً یا بھولے سے ایک رکعت میں دونوں سجدے ترک کر دے تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور اگر بھول کر ایک رکعت میں دو سجدوں کا اضافہ کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
۱۰۵۶۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایک سجدہ کم یا زیادہ کر دے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر سہواً ایک سجدہ کم یا زیادہ کرے تو اس کا حکم بعد میں بیان کیا جائے گا۔
۱۰۵۷۔ جو شخص پیشانی زمین پر رکھ سکتا ہو اگر جان بوجھ کر یا سہواً پیشانی زمین پر نہ رکھے تو خواہ بدن کے دوسرے حصے زمین سے لگ بھی گئے ہوں تو اس نے سجدہ نہیں کیا لیکن اگر وہ پیشانی زمین پر رکھ دے اور سہواً بدن کے دوسرے حصے زمین پر نہ رکھے یا سہواً ذکر نہ پڑھے تو اس کا سجدہ صحیح ہے۔
۱۰۵۸۔ بہتر یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں سجدے میں تین دفعہ "سُبحَانَ اللہ” یا ایک دفعہ "سُبحَاَنَ رَبِّ الاَعلیٰ وَبِحَمدِہ” پڑھے اور ضروری ہے کہ یہ جملے مسلسل اور صحیح عربی میں کہے جائیں اور ظاہر یہ ہے کہ ہر ذکر کا پڑھنا کافی ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اتنی ہی مقدار میں ہو اور مستحب ہے کہ "سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلیٰ وَبِحَمدِہ” تین یا پانچ یا سات دفعہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پڑھے۔
۱۰۵۹۔ سجدے کی حالت میں ضروری ہے کہ نمازی کا بدن ساکن ہو اور حالت اختیار میں اسے اپنے بدن کو اس طرح حرکت نہیں دینا چاہئے کہ سکون کی حالت سے نکل جائے اور جب واجب ذکر میں مشغول نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر یہی حکم ہے۔
۱۰۶۰۔ اگر اس پیشتر کہ پیشانی زمین سے لگے اور بدن سکون حاصل کر لے کوئی شخص جان بوجھ کر ذکر سجدہ پڑھے یا ذکر ختم ہونے سے پہلے جان بوجھ کر سر سجدے سے اٹھا لے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۶۱۔ اگر اس سے پیشتر کہ پیشانی زمین پر لگے کوئی شخص سہواً ذکر سجدہ پڑھے اور اس سے پیشتر کہ سر سجدے سے اٹھائے اسے پتہ چل جائے کہ اس نے غلطی کی ہے تو ضروری ہے کہ ساکن ہو جائے اور دوبارہ ذکر پڑھے۔
۱۰۶۲۔ اگر کسی شخص کو سر سجدے سے اٹھا لینے کے بعد پتہ چلے کہ اس نے ذکر سجدہ ختم ہونے سے پہلے سر اٹھا لیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۰۶۳۔ جس وقت کوئی شخص ذکر سجدہ پڑھ رہا ہو اگر وہ جان بوجھ کر سات اعضائے سجدہ میں سے کسی ایک کو زمین پر سے اٹھائے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی لیکن جس وقت ذکر پڑھنے میں مشغول نہ ہو اگر پیشانی کے علاوہ کوئی عضو زمین پر سے اٹھا لے اور دوبارہ رکھ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا کرنا اس کے بدن کے ساکن ہونے کے منافی ہو تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۶۴۔ اگر ذکر سجدہ ختم ہونے سے پہلے کوئی شخص سہواً پیشانی زمین اٹھا لے تو اسے دوبارہ زمین پر نہیں رکھ سکتا اور ضروری ہے کہ اسے ایک سجدہ شمار کرے لیکن اگر دوسرے اعضا سہواً زمین پر سے اٹھائے تو ضروری ہے کہ انہیں دوبارہ زمین پر رکھے اور ذکر پڑھے۔
۱۰۶۵۔ پہلے سجدے کا ذکر ختم ہونے کے بعد ضروری ہے کہ بیٹھ جائے حتی کہ اس کا بدن سکون حاصل کر لے اور پھر دوبارہ سجدے میں جائے۔
۱۰۶۶۔ نماز پڑھنے والے کی پیشانی رکھنے کی جگہ گھٹنوں اور پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند یا پست نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی پیشانی کی جگہ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ نیچی یا اونچی بھی نہ ہو۔
۱۰۶۷۔ اگر کسی ایسی ڈھلوان جگہ میں اگرچہ اس کا جھکاؤ صحیح طور پر معلوم نہ ہو نماز پڑھنے والے کی پیشانی کی جگہ اس کے گھٹنوں اور پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند یا پست ہو تو اس کی نماز میں اشکال ہے۔
۱۰۶۸۔ اگر نماز پڑھنے والا اپنی پیشانی کی غلطی سے ایک ایسی چیز پر رکھ دے جو گھٹنوں اور اس کے پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند ہو اور ان کی بلندی اس قدر ہو کہ یہ نہ کہہ سکیں کہ سجدے کی حالت میں ہے تو ضروری ہے کہ سر کو اٹھائے اور ایسی چیز پر جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ نہ ہو رکھے اور اگر اس کی بلندی اس قدر ہو کہ کہہ سکیں کہ سجدے کی حالت میں ہے تو پھر واجب ذکر پڑھنے کے بعد متوجہ ہو تو سر سجدے سے اٹھا کر نماز کو تمام کر سکتا ہے۔ اور اگر واجب ذکر پڑھنے سے پہلے متوجہ ہو تو ضروری ہے کہ پیشانی کو اس چیز سے ہٹا کر اس چیز پر رکھے کہ جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگلیوں کے برابر یا اس سے کم ہو اور واجب ذکر پڑھے اور اگر پیشانی کو ہٹاتا ممکن نہ ہو تو واجب ذکر کو اسی حالت میں پڑھے اور نماز کو تمام کرے اور ضروری نہیں کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔
۱۰۶۹۔ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کی پیشانی اور اس چیز کے درمیان جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے کوئی دوسری چیز نہ ہو پس اگر سجدہ گاہ اتنی میلی ہو کہ پیشانی سجدہ گاہ کو نہ چھوئے تو اس کا سجدہ باطل ہے۔ لیکن اگر سجدہ گاہ کا رنگ تبدیل ہو گیا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
۱۰۷۰۔ ضروری ہے کہ سجدے میں دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے لیکن مجبوری کی حالت میں ہاتھوں کی پشت بھی زمین پر رکھے تو کوئی حرج نہیں اور اگر ہاتھوں کی پشت بھی زمین پر رکھنا ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنا ضروری ہے کہ ہاتھوں کی کلائیاں زمین پر رکھے اور اگر انہیں بھی نہ رکھ سکے تو پھر کہنی تک جو حصہ بھی ممکن ہو زمین پر رکھے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر بازو کا رکھنا بھی کافی ہے۔
۱۰۷۱۔ (نماز پڑھنے والے کے لئے ) ضروری ہے کہ سجدے میں پاوں کے دونوں انگوٹھے زمین پر رکھے لیکن ضروری نہیں کہ دونوں انگوٹھوں کے سرے زمین پر رکھے بلکہ ان کا ظاہری یا باطنی حصہ بھی رکھے تو کافی ہے۔ اور اگر پاوں کی دوسری انگلیاں یا پاوں کا اوپر والا حصہ زمین پر رکھے یا ناخن لمبے ہونے کی بنا پر انگوٹھوں کے سرے زمین پر نہ لگیں تو نماز باطل ہے اور جس شخص نے کوتاہی اور مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اپنی نمازیں اس طرح پڑھی ہوں ضروری ہے کہ انہیں دوبارہ پڑھے۔
۱۰۷۲۔ جس شخص کے پاوں کے انگوٹھوں کے سروں سے کچھ حصہ کٹا ہوا ہو ضروری ہے کہ جتنا باقی ہو وہ زمین پر رکھے اور اگر انگوٹھوں کا کچھ حصہ بھی نہ بچا ہو اور اگر بچا بھی ہو تو بہت چھوٹا ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ باقی انگلیوں کو زمین پر رکھے اور اگر اس کی کوئی بھی انگلی نہ ہو تو پاوں کا جتنا حصہ بھی باقی بچا ہو اسے زمین پر رکھے۔
۱۰۷۳۔ اگر کوئی شخص معمول کے خلاف سجدہ کرے مثلاً سینے اور پیٹ کو زمین پر ٹکائے یا پاوں کو کچھ پھیلائے چنانچہ اگر کہا جائے کہ اس نے سجدہ کیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر کہا جائے کہ اس نے پاوں پھیلائے ہیں اور اس پر سجدہ کرنا صادق نہ آتا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۷۴۔ سجدہ گاہ یا دوسری چیز جس پر نماز پڑھنے والا سجدے کرے ضروری ہے کہ پاک ہو لیکن اگر مثال کے طور پر سجدہ گاہ کو نجس فرش پر رکھ دے یا سجدہ گاہ کی ایک طرف نجس ہو اور وہ پیشانی پاک طرف رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۱۰۷۵۔ اگر نماز پڑھنے والے کی پیشانی پر پھوڑا یا زخم یا اس طرح کی کوئی چیز ہو۔ جس کی بنا پر وہ پیشانی زمین پر نہ رکھ سکتا ہو مثلاً اگر وہ پھوڑا پوری پیشانی کو نہ گھیرے ہوئے ہو تو ضروری ہے کہ پیشانی کے صحت مند حصے سے سجدہ کرے اور اگر پیشانی کی صحت مند جگہ پر سجدہ کرنا اس بات پر موقوف ہو کہ زمین کو کھودے اور پھوڑے کو گڑھے میں اور صحت مند جگہ کی اتنی مقدار زمین پر رکھے کہ سجدے کے لئے کافی ہو تو ضروری ہے کہ اس کام کا انجام دے۔
۱۰۷۶۔ اگر پھوڑا یا زخم تمام پیشانی پر پھیلا ہوا ہو تو نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے چہرے کہ کچھ حصے سے سجدہ کرے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اگر ٹھوڑی سے سجدہ کرسکتا ہو تو ٹھوڑی سے سجدہ کرے اور اگر نہ کر سکتا ہو تو پیشانی کے دونوں اطراف میں سے ایک طرف سے سجدہ کرے اور اگر چہرے سے سجدہ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ سجدے کے لئے اشارہ کرے۔
۱۰۷۷۔ جو شخص بیٹھ سکتا ہو لیکن پیشانی زمین پر نہ رکھ سکتا ہو ضروری ہے کہ جس قدر بھی جھک سکتا ہو جھکے اور سجدہ گاہ یا کسی دوسری چیز کو جس پر سجدہ صحیح ہو کسی بلند چیز پر رکھے اور اپنی پیشانی اس پر اس طرح رکھے کہ لوگ کہیں کہ اس نے سجدہ کیا ہے لیکن ضروری ہے کہ ہتھیلیوں اور گھٹنوں اور پاوں کے انگوٹھوں کو معمول کے مطابق زمین پر رکھے۔
۱۰۷۸۔ اگر کوئی ایسی بلند چیز نہ ہو جس پر نماز پڑھنے والا سجدہ گاہ یا کوئی دوسری چیز جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو رکھ سکے اور کوئی شخص بھی نہ ہو جو مثلاً سجدہ گاہ کو اٹھائے اور پکڑے تا کہ وہ شخص اس پر سجدہ کرے تو احتیاط یہ ہے کہ سجدہ گاہ یا دوسری چیز کو جس پر سجدہ کر رہا ہو ہاتھ سے اٹھائے اور اس پر سجدہ کرے۔
۱۰۷۹۔اگر کوئی شخص بالکل ہی سجدہ نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ سجدے کے لئے سر سے اشارہ کرے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ آنکھوں سے اشارہ کرے اور اگر آنکھوں سے بھی اشارہ نہ کرسکتا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ ہاتھ وغیرہ سے سجدے کے لئے اشارہ کرے اور دل میں بھی سجدے کی نیت کرے اور واجب ذکر ادا کرے۔
۱۰۸۰۔ اگر کسی شخص کی پیشانی بے اختیار سجدے کی جگہ سے اٹھ جائے تو ضروری ہے کہ حتی الامکان اسے دوبارہ سجدے کی جگہ پر نہ جانے دے قطع نظر اس کے کہ اس نے سجدے کا ذکر پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو یہ ایک سجدہ شمار ہو گا۔ اور اگر سر کو نہ روک سکے اور وہ بے اختیار دوبارہ سجدے کی جگہ پہنچ جائے تو وہی ایک سجدہ شمار ہو گا۔ لیکن اگر واجب ذکر ادا نہ کیا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے قربت مُطلَقَہ کی نیت سے ادا کرے۔
۱۰۸۱۔ جہاں انسان کے لئے تقیہ کرنا ضروری ہے وہاں وہ قالین یا اسطرح کی چیز پر سجدہ کرے اور یہ ضروری نہیں کہ نماز کے لئے کسی دوسری جگہ جائے یا نماز کو موخر کرے تا کہ اسی جگہ پر اس سبب کے ختم ہونے کے بعد نماز ادا کرے۔ لیکن اگر چٹائی یا کسی دوسری چیز جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو اگر وہ اس طرح سجدے کرے کہ تقیہ کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ پھر وہ قالین یا اس سے ملتی جلتی چیز پر سجدہ نہ کرے۔
۱۰۸۲۔ اگر کوئی شخص (پرندوں کے ) پروں سے بھرے گدے یا اسی قسم کی کسی دوسری چیز پر سجدہ کرے جس پر جم سکون کی حالت میں نہ رہے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۰۸۳۔ اگر انسان کیچڑ والی زمین پر نماز پڑھنے پر مجبور ہو اور بدن اور لباس کا آلودہ ہو جانا اس کے لئے مشقت کا موجب نہ ہو تو ضروری ہے کہ سجدہ اور تشہد معمول کے مطابق بجا لائے اور اگر ایسا کرنا مشقت کا موجب ہو تو قیام کی حالت میں سجدے کے لئے سر سے اشارہ کرے اور تشہد کھڑے ہو کر پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہو گی۔
۱۰۸۴۔ پہلی رکعت میں اور مثلاً نماز ظہر، نماز عصر، اور نماز عشا کی تیسری رکعت میں جس میں تشہد نہیں ہے احتیاط واجب یہ ہے کہ انسان دوسرے سجدے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سکون سے بیٹھے اور پھر کھڑا ہو۔
وہ چیزیں جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے
۱۰۸۵۔ سجدہ زمین پر اور ان چیزوں پر کرنا ضروری ہے جو کھائی اور پہنی نہ جاتی ہوں اور زمین سے اگتی ہوں مثلاً لکڑی اور درختوں کے پتے پر سجدہ کرے۔ کھانے اور پہننے کی چیزوں مثلاً گندم، جو اور کپاس پر اور ان چیزوں پر جو زمین کے اجزاء شمار نہیں ہوتیں مثلاً سونے ، چاندی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن تار کول اور گندہ بیروزا کی مجبوری کی حالت میں دوسری چیزوں کے مقابلے میں کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح نہیں سجدے کے لئے اولیت دے۔
۱۰۸۶۔ انگور کے پتوں پر سجدہ کرنا جبکہ وہ کچے ہوں اور انہیں معمولاً کھایا جاتا ہو جائز نہیں۔ اس صورت کے علاوہ ان پر سجدہ کرنے میں ظاہراً کوئی حرج نہیں۔
۱۰۸۷۔ جو چیزیں زمین سے اگتی ہیں اور حیوانات کی خوراک ہیں مثلاً گھاس اور بھوسا ان پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔
۱۰۸۸۔جن پھولوں کو کھایا نہیں جاتا ان پر سجدہ صحیح ہے بلکہ ان کھانے کی دواؤں پر بھی سجدہ صحیح ہے جو زمین سے اگتی ہیں اور انہیں کوٹ کر یا جوش دے کر انکا پانی پیتے ہیں مثلاً گل بنفشہ اور گل گاو زبان، پر بھی سجدہ صحیح ہے۔
۱۰۸۹۔ ایسی گھاس جو بعض شہروں میں کھائی جاتی ہو اور بعض شہروں میں کھائی تو نہ جاتی ہو۔ لیکن وہاں اسے اشیاء خوردنی میں شمار کیا جاتا ہو اس پر سجدہ صحیح نہیں اور کچے پھلوں پر بھی سجدہ کر صحیح نہیں ہے۔
۱۰۹۰۔ چونے کے پتھر اور جپسم پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں پختہ جپسم اور چونے اور اینٹ اور مٹی کے پکے ہوئے برتنوں اور ان سے ملتی جلتی چیزوں پر سجدہ نہ کیا جائے۔
۱۰۹۱۔ اگر کاغذ کو ایسی چیز سے بنایا جائے کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے مثلاً لکڑی اور بھوسے سے تو اس پر سجدہ کیا جا سکتا ہے اور اسی طرح اگر روئی یا کتان سے بنایا گیا ہو تو بھی اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے لیکن اگر ریشم یا ابریشم اور اسی طرح کی کسی چیز سے بنایا گیا ہو تو اس پر سجدہ صحیح نہیں ہے۔
۱۰۹۲۔ سجدے کے لئے خاک شفا سب چیزوں سے بہتر ہے اس کے بعد مٹی، مٹی کے بعد پتھر اور پتھر کے بعد گھاس ہے۔
۱۰۹۳۔ اگر کسی کے پاس ایسی چیز نہ ہو جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے یا اگر ہو تو سردی یا زیادہ گرمی وغیرہ کی وجہ سے اس پر سجدہ نہ کرسکتا ہو تو ایسی صورت میں تار کول اور گندہ بیروزا کو سجدے کے لئے دوسری چیزوں پر اولیت حاصل ہے لیکن اگر ان پر سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنے لباس یا اپنے ہاتھوں کی پشت یا کسی دوسری چیز پر کہ حالت اختیار میں جس پر سجدہ جائز نہیں سجدہ کرے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ جب تک اپنے کپڑوں پر سجدہ ممکن ہو کسی دوسری چیز پر سجدہ نہ کرے۔
۱۰۹۴۔ کیچڑ پر اور ایسی نرم مٹی پر جس پر پیشانی سکون سے نہ ٹک سکے سجدہ کرنا باطل ہے۔
۱۰۹۵۔ اگر پہلے سجدے میں سجدہ گاہ پیشانی سے چپک جائے تو دوسرے سجدے کے لئے اسے چھڑا لینا چاہئے۔
۱۰۹۶۔جس چیز پر سجدہ کرنا ہو اگر نماز پڑھنے کے دوران وہ گم ہو جائے اور نماز پڑھنے والے کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو تو جو ترتیب مسئلہ ۱۰۹۳ میں بتائی گئ ہے اس پر عمل کرے خواہ وقت تنگ ہو یا وسیع، نماز کو توڑ کر اس کا اعادہ کرے۔
۱۰۹۷۔ جب کسی شخص کو سجدے کی حالت میں پتہ چلے کہ اس نے اپنی پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھی ہے جس پر سجدہ کرنا باطل ہے چنانچہ واجب ذکر ادا کرنے کے بعد متوجہ ہو تو سر سجدے سے اٹھائے اور اپنی نماز جاری رکھے اور اگر واجب ذکر ادا کرنے سے پہلے متوجہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنی پیشانی کو اس چیز پر کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے لائے اور واجب ذکر پڑھے لیکن اگر پیشانی لانا ممکن نہ ہو تو اسی حال میں واجب ذکر ادا کر سکتا ہے اور اس کی نماز ہر دو صورت میں صحیح ہے۔
۱۰۹۸۔ اگر کسی شخص کو سجدے کے بعد پتہ چلے کہ اس نے اپنی پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھی ہے جس پر سجدہ کرنا باطل ہے تو کوئی حرج نہیں۔
۱۰۹۹۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہے۔ عوام میں سے بعض لوگ جو ائمہ علیہم السلام کے مزارات مقدسہ کے سامنے پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی نیت سے ایسا کریں تو کوئی حرج نہیں ورنہ ایسا کرنا حرام ہے۔
سجدہ کے مستحبات اور مکروہات
۱۱۰۰۔ چند چیزیں سجدے میں مستحب ہیں :
۱۔ جو شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو وہ رکوع سر اٹھانے کے بعد مکمل طور پر کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر نماز پڑھنے والا رکوع کے بعد پوری طرح بیٹھ کر سجدہ میں جانے کے لئے تکبیر کہے۔
۲۔ سجدے میں جاتے وقت مرد پہلے اپنی ہتھیلیوں اور عورت اپنے گھٹنوں کو زمین پر رکھے۔
۳۔ نمازی ناک کو سجدہ گاہ یا کسی ایسی چیز پر رکھے جس پر سجدہ کرنا درست ہو۔
۴۔ نمازی سجدے کی حالت میں ہاتھ کی انگلیوں کو ملا کر کانوں کے پاس اس طرح رکھے کہ ان کے سرے رو بہ قبلہ ہوں۔
۵۔ سجدے میں دعا کرے ، اللہ تعالیٰ سے حاجت طلب کرے اور یہ دعا پڑھے :
"یَاخَیرَ المَسئُولِینَ وَیاَخَیرَ المُعطِینَ ارزُقنِی وَ ارزُق عَیَالِی مِن فضلِکَ فَاِنَکَ ذُوالفَضلِ الَظِیمِ "۔
یعنی :اے ان سب میں سے بہتر جن سے کہ مانگا جاتا ہے اور اے ان سب سے برتر جو عطا کرتے ہیں۔ مجھے اور میرے اہل و عیال کو اپنے فضل و کرم سے رزق عطا فرما کیونکہ تو ہی فضل عظیم کا مالک ہے۔
۶۔ سجدے کے بعد بائیں ران پر بیٹھ جائے اور دائیں پاوں کا اوپر والا حصہ (یعنی پشت) بائیں پاوں کے تلوے پر رکھے۔
۷۔ ہر سجدے کے بعد جب بیٹھ جائے اور بدن کو سکون حاصل ہو جائے تو تکبیر کہے۔
۸۔ پہلے سجدے کہ بعد جب بدن کو سکون حاصل ہو جائے تو "اَستَغفِرُاللہ رَبّیِ وَاَتُوبُ اِلَیہ” کہے۔
۹۔ سجدہ زیادہ دیر تک انجام دے اور بیٹھنے کے وقت ہاتھوں کو رانوں پر رکھے
۱۰۔ دوسرے سجدے میں جانے کے لئے بدن کے سکون کی حالت میں اَللہ اَکبَر کہے :
۱۱۔ سجدوں میں درود پڑھے۔
۱۲۔ سجدے یا قیام کے لئے اٹھتے وقت پہلے گھٹنوں کو اور ان کے بعد ہاتھوں کو زمین سے اٹھائے۔
۱۳۔ مرد کہنیوں اور پیٹ کو زمین سے نہ لگائیں نیز بازوؤں کو پہلو سے جدا رکھیں۔ اور عورتیں کہنیاں اور پیٹ زمین پر رکھیں اور بدن کے اعضاء کو ایک دوسرے سے ملا لیں۔ ان کے علاوہ دوسرے مستحبات بھی ہیں جن کا ذکر مفصل کتابوں میں موجود ہے۔
۱۱۰۱۔ سجدے میں قرآن مجید پڑھنا مکروہ ہے اور سجدے کی جگہ کو گرد و غبار جھاڑنے کے لئے پھونک مارنا بھی مکروہ ہے بلکہ اگر پھونک مارنے کی وجہ سے دو حرف بھی منہ سے عمداً نکل جائیں تو احتیاط کی بنا پر نماز باطل ہے اور ان کے علاوہ اور مکروہات کا ذکر بھی مفصل کتابوں میں آیا ہے۔
قرآن مجید کے واجب سجدے
۱۱۰۲۔ قرآن مجید کی چار سورتوں یعنی وَالنَّجم، اِقرَا، الٓمّ تنزیل اور حٰمٓ سجدہ میں سے ہر ایک میں ایک آیہ سجدہ ہے جسے اگر انسان پڑھے یا سنے تو آیت ختم ہونے کے بعد فوراً سجدہ کرنا ضروری ہے اور اگر سجدہ کرنا بھول جائے تو جب بھی اسے یاد آئے سجدہ کرے اور ظاہر یہ ہے کہ آیہ سجدہ غیر اختیاری حالت میں سنے تو سجدہ واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ سجدہ کیا جائے۔
۱۱۰۳۔ اگر انسان سجدے کی آیت سننے کے وقت خود بھی وہ آیت پڑھے تو ضروری ہے کہ دو سجدے کرے۔
۱۱۰۴۔ اگر نماز کے علاوہ سجدے کی حالت میں کوئی شخص آیہ سجدہ پڑھے یا سنے تو ضروری ہے کہ سجدے سے سر اٹھائے اور دوبارہ سجدہ کرے۔
۱۱۰۵۔ اگر انسان سوئے ہوئے شخص یا دیوانے یا بچے سے جو قرآن سمجھ کر نہ پڑھ رہا ہو سجدے کی آیت سنے یا اس پر کان دھرے تو سجدہ واجب ہے۔ لیکن اگر گراموفون یا ٹیپ ریکارڈ سے (ریکارڈ شدہ آیہ سجدہ) سنے تو سجدہ واجب نہیں۔ اور سجدے کی آیت ریڈیو پر ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے نشر کی جائے تب بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ریڈیو اسٹیشن سے (براہ راست نشریات میں ) سجدے کی آیت پڑھنے اور انسان اسے ریڈیو پر تو سجدہ واجب ہے۔
۱۱۰۶۔ قرآن کا واجب سجدہ کرنے کے لئے احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ انسان کی جگہ غصبی نہ ہو اور احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے پیشانی رکھنے کی جگہ اس کے گھٹنوں اور پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس نے وضو یا غسل کیا ہوا ہو یا قبلہ رخ ہو یا اپنی شرمگاہ کو چھپائے یا اس کا بدن اور پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو۔ اس کے علاوہ جو شرائط نماز پڑھنے والے کے لباس کے لئے ضروری ہیں وہ شرائط قرآن مجید کا واجب سجدہ ادا کرنے والے کے لباس کے لئے نہیں ہیں۔
۱۱۰۷۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ قرآن مجید کے واجب سجدے میں انسان اپنی پیشانی سجدہ گاہ یا کسی ایسی چیز پر رکھے۔ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو اور احتیاط مستحب کی بنا پر بدن کے دوسرے اعضاء زمین پر اس طرح رکھے۔ جس طرح نماز کے سلسلے میں بتایا گیا ہے۔
۱۱۰۸۔ جب انسان قرآن مجید کا واجب سجدہ کرنے کے ارادے سے پیشانی زمین پر رکھ دے تو خواہ وہ کوئی ذکر نہ بھی پڑھے تب بھی کافی ہے اور ذکر کا پڑھنا مستحب ہے۔ اور بہتر ہے کہ یہ پڑھے :
"لآَ اِلٰہ الاَّ اللہ حَقّاً حقّاً، لآَ اِلٰہ اِلاَّ اللہ اِیماَناً وّتَصدِیقاً،لآَ اِلٰہ الاَّ اللہ عُبُودِیَّۃً وَّرِقاً، سَبَحتُّ لَکَ یَارَبِّ تَعَبُّدًا وَّرِقّاً، مُستَنکِفاً وَّلاَ مُستَکبِرًا، بَل اَنَا عَبدٌ ذَلِیلٌ ضَعِیفٌ خَآئِفٌ مُّستَجِیرٌ۔
تشہد
۱۱۰۹۔ سب واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت میں اور نماز مغرب کی تیسری رکعت میں اور ظہر، عصر اور عشا کی چوتھی رکعت میں انسان کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ جائے اور بدن کے سکون کی حالت میں تشہد پڑھے یعنی کہے اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ وَحدَہ لاَ شَرِیکَ لَہ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّمدًا عَبدُہ وَرَسُولُہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اور اگر کہے اَشہدُ اَن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہ عَلَیہ وَاٰلِہ عَبدُہ وَرَسُولُہ تو بنا بر اقوی کافی ہے۔ اور نماز وتر میں بھی تشہد پڑھنا ضروری ہے۔
۱۱۰۔ضروری ہے کہ تشہد کے جملے صحیح عربی میں اور معمول کے مطابق مسلسل کہے جائیں۔
۱۱۱۱۔ اگر کوئی شخص تشہد پڑھنا بھول جائے اور کھڑا ہو جائے ، اور رکوع سے پہلے اسے یاد آئے کہ اس نے تشہد نہیں پڑھا تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور پھر دو بارا کھڑا ہو اور اس رکعت میں جو کچھ پڑھنا ضروری ہے پڑھے اور نماز ختم کرے۔ اور احتیاط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد بے جا قیام کرے اور نماز کے سلام کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر تشہد کی قضا کرے۔ اور ضروری ہے کہ بھولے ہوے تشہد کے لئے دو سجدہ سہو بجا لائے۔
۱۱۱۲۔مستحب ہے کہ تشہد کی حالت میں انسان بائیں ران پر بیٹھے اور دائیں پاوں کی پشت کو بائیں پاوں کے تلوے پر رکھے اور تشہد سے پہلے کہے "اَلحَمدُ لِلّٰہ” یا کہے۔ "بِسمِ اللہ وَ بِاللہ وَالحَمدُ لِلّٰہ وَ خَیرُالاَسمَآءِ لِلّٰہ” اور یہ بھی مستحب ہے کہ ہاتھ رانوں پر رکھے اور انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ملائے اور اپنے دامن پر نگاہ ڈالے اور تشہد میں صلوات کے بعد کہے :”وَتَقَبَّل شَفَاعَتَہ وَارفَع دَرَجَتَہ”۔
۱۱۱۳۔ مستحب ہے کہ عورتیں تشہد پڑھتے وقت اپنی رانیں ملا کر رکھیں۔
نماز کا سلام
۱۱۱۴۔ نماز کی آخری رکعت کے تشہد کے بعد جب نمازی بیٹھا ہو اور اس کا بدن سکون کی حالت میں ہو تو مستحب ہے کہ وہ کہے : "اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَیّہَُا النَّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرکَاتُہ” اور اس کے بعد ضروری ہے کہ کہے اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم کے جملے کے ساتھ وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرکَاتُہ کے جملے کا اضافہ کرے یا یہ کہے اَلسَّلاَمُ عَلَینَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللہ الصَّالِحیِینَ لیکن اگر اس اسلام کو پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بعد اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم بھی کہے۔
۱۱۱۵۔ اگر کوئی شخص نماز کا سلام کہنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب ابھی نماز کی شکل ختم نہ ہوئی ہو اور اس نے کوئی ایسا کام بھی نہ کیا ہو جسے عمداً اور سہواً کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہو مثلاً قبلے کی طرف پیٹھ کرنا تو ضروری ہے کہ سلام کہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۱۶۔ اگر کوئی شخص نماز کا سلام کہنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب نماز کی شکل ختم ہو گئی ہو یا اس نے کوئی ایسا کام کیا ہو جسے عمداً اور سہواً کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے مثلاً قبلے کی طرف پیٹھ کرنا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
ترتیب
۱۱۱۷۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کی ترتیب الٹ دے مثلاً الحمد سے پہلے سورہ پڑھ لے یا رکوع سے پہلے سجدے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے۔
۱۱۱۸۔ اگر کوئی شخص نماز کا کوئی رکن بھول جائے اور اس کے بعد کا رکن بجا لائے مثلاً رکوع کرنے سے پہلے دو سجدے کرے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہے۔
۱۱۱۹۔ اگر کوئی شخص نماز کو کوئی رکن بھول جائے اور ایسی چیز بجا لائے جو اس کے بعد ہو اور رکن نہ ہو مثلاً اس سے پہلے کہ دو سجدے کرے تشہد پڑھ لے تو ضروری ہے کہ رکن بجا لائے اور جو کچھ بھول کر اس سے پہلے پڑھا ہو اسے دوبارہ پڑھے۔
۱۱۲۰۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس کے بعد کا رکن بجا لائے مثلاً الحمد بھول جائے اور رکوع میں چلا جائے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۲۱۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس چیز کو بجا لائے جو اس کے بعد ہو اور وہ بھی رکن نہ ہو مثلاً الحمد بھول جائے اور سورہ پڑھ لے تو ضروری ہے کہ جو چیز بھول گیا ہو وہ بجائے اور اس کے بعد وہ چیز جو بھول کر پہلے پڑھ لی ہو دوبارہ پڑھے۔
۱۱۲۲۔ اگر کوئی شخص پہلا سجدہ اس خیال سے بجا لائے کہ دوسرا سجدہ ہے یا دوسرا سجدہ اس خیال سے بجا لائے کہ پہلا سجدہ ہے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس کی پہلا سجدہ، پہلا سجدہ اور دوسرا سجدہ دوسرا سجدہ شمار ہو گا۔
مُوَالات
۱۱۲۳۔ ضروری ہے کہ انسان نماز مولات کے ساتھ پڑھے یعنی نماز کے افعال مثلاً رکوع، سجود اور تشہد تواتُر اور تسلسل کے ساتھ بجا لائے۔ اور جو چیزیں بھی نماز میں پڑھے معمول کے مطابق پے در پے پڑھے اور اگر ان کے درمیان اتنا فاصلہ ڈالے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۱۲۴۔ اگر کوئی شخص نماز میں سہواً حروف یا جملوں کے درمیان فاصلہ دے اور فاصلہ اتنا نہ ہو کہ نماز کی صورت برقرار نہ رہے تو اگر وہ ابھی بعد والے رکن میں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ وہ حروف یا جملے معمول کے مطابق پڑھے اور اگر بعد کی کوئی چیز پڑھی جاچکی ہو تو ضروری ہے کہ اسے دہرائے اور اگر بعد کے رکن میں مشغول ہو گیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۲۵۔ رکوع اور سجود کو طول دینا اور بڑی سورتیں پڑھنا مُوَالات کو نہیں توڑتا۔
قُنوت
۱۱۲۶۔تمام واجب اور مستحب نمازوں میں دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا مستحب ہے لیکن نماز شفع میں ضروری ہے کہ اسے رجاءً پڑھے اور نماز وتر میں بھی باوجودیکہ ایک رکعت کی ہوتی ہے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا مستحب ہے۔ اور نماز کی جمعہ کی ہر رکعت میں ایک قنوت، نماز آیات میں پانچ قنوت، نماز عید فطر و قربان کی پہلی رکعت میں پانچ قنوت اور دوسری رکعت میں چار قنوت ہیں۔
۱۱۲۷۔ مستحب کہ قنوت پڑھتے وقت ہاتھ چہرے کے سامنے اور ہتھیلیاں ایک دوسری کے ساتھ ملا کر آسمان کی طرف رکھے اور انگوٹھوں کے علاوہ باقی انگلیوں کو آپس میں ملائے اور نگاہ ہتھیلیوں پر رکھے۔
۱۱۲۸۔ قنوت میں انسان جو ذکر بھی پڑھے خواہ ایک دفعہ "سُبحَانَ اللہ” ہی کہے کافی ہے اور بہتر ہے کہ یہ دعا پڑھے۔ لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللہ الحَلِیمُ الکَرِیمُ، لآَ اِلٰہ اِلاَّ اللہ العَلِیُّ العَظِیمُ، سُبحَانَ اللہ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبعِ وَرَبِّ الاَرَضِینَ السَّبعِ وَمَافِیھِنَ وَمَا بَینَھُنَّ وَرَبِّ العَرشِ العَظِیمِ وَالحَمدُ لِلّٰہ رَبِّ العَالَمِینَ۔
۱۱۲۹۔ مستحب ہے کہ انسان قنوت بلند آواز سے پڑھے لیکن اگر ایک شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو اور امام اس کی آواز سن سکتا ہو تو اس کا بلند آواز سے قنوت پڑھنا مستحب نہیں ہے۔
۱۱۳۰۔ اگر کوئی شخص عمداً قنوت نہ پڑھے تو اس کی قضا نہیں ہے اور اگر بھول جائے اور اس سے پہلے کہ رکوع کی حد تک جھکے اسے یاد آ جائے تو مستحب ہے کہ کھڑا ہو جائے اور قنوت پڑھے۔ اور اگر رکوع میں یاد آ جائے تو مستحب ہے کہ رکوع کے بعد قضا کرے اور اگر سجدے میں یاد آئے تو مستحب ہے کہ سلام کے بعد اس کی قضا کرے۔
نماز کا ترجمہ
۱۔ سورہ الحمد کا ترجمہ
بِسمِ اللہ اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیمِ :”بِسمِ اللہ ” یعنی میں ابتدا کرتا ہوں خدا کے نام سے اس ذات کے نام سے جس میں تمام کمالات یکجا ہیں اور جو ہر قسم کے نقص سے مُنَزَّہ ہے۔ "اَلرَّحمٰنِ ” اس کی رحمت وسیع اور بے انتہا ہے۔ "الرَّحِیمِ ” اس کی رحمت ذاتی اور اَزَلیِ و اَبَدیِ ہے۔ "اَلحَمدُ لِلّٰہ رَبِّ العَالَمِینَ”۔ یعنی ثنا اس خداوند کی ذات سے مخصوص ہے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے۔ "اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔” اس کے معنی بتائے جا چکے ہیں۔ "مَالِکِ یَومِ الدِّینِ” یعنی وہ توانا ذات کہ جزا کے دن کی حکمرانی اس کے ہاتھ میں ہے۔ "اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِینُ” یعنی ہمیں فقط تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور فقط تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں "اِھدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ” یعنی ہمیں راہ راست کی جانب ہدایت فرما جو کہ دین اسلام ہے "صِراطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم” یعنی ان لوگوں کے راستے کی جانب جنہیں تو نے اپنی نعمتیں عطا کی ہیں جو انبیاء اور انبیاء کے جانشین ہیں۔ "غَیرِالمَغضُوبِ عَلَیھِم وَلاَ الضَّآلِّینَ” یعنی نہ ان لوگوں کے راستے کی جانب جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ان کے راستے کی جانب جو گمراہ ہیں۔
۲۔ سورہ اخلاص کا ترجمہ
بِسمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ اس کے معنی بتائے جا چکے ہیں۔
"قُل ھُوَاللہ اَحَدٌ”یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کہہ دیں کہ خداوندی وہی ہے جو یکتا خدا ہے۔ "اللہ الصَّمدُ” یعنی وہ خدا جو تمام موجودات سے بے نیاز ہے۔ "لَم یَلِدوَلَم یُولَد” یعنی نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ "وَلَم یَکُن لَّہ کُفُوًا اَحَدٌ” اور مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کے مثل نہیں ہے۔
۳۔ رکوع، سجود اور ان کے بعد کے مستحب اذکار کا ترجمہ
"سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَبِحَمدہ ” یعنی میرا پروردگار بزرگ ہر عیب اور ہر نقص سے پاک اور مُنَزَّہ ہے ، میں اس کی ستائش میں مشغول ہوں۔ "سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلیٰ وَبِحَمدِہ” یعنی میرا پروردگار جو سب سے بالاتر ہے اور ہر عیب اور نقص سے پاک اور مُنزہ ہے ، میں اس کی ستائش میں مشغول ہوں۔ "سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ” یعنی جو کوئی خدا کی ستائش کرتا ہے خدا اسے سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔
"اَستغفِرُاللہ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیہ” یعنی میں مغفرت طلب کرتا ہوں اس خداوند سے جو میرا پالنے والا ہے۔ اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ "بِحَولِ اللہ وَقُوَّتِہٓ اَقُومُ وَاَقعُدُ” یعنی میں خدا تعالیٰ کی مدد سے اٹھتا اور بیٹھتا ہوں۔
۴۔ قنوت کا ترجمہ
لآَ اِلٰہ اِلاَّ اللہ الحَلِیمُ الکَرِیمُ” یعنی کوئی خدا پرستش کے لائق نہیں سوائے اس یکتا اور بے مثل خدا کے جو صاحب حلم و کرم ہے۔ "لآَ اِلٰہ الاَّ اللہ العَلِیُّ العَظِیمُ” یعنی کوئی خدا پرستش کے لائق نہیں سوائے اس یکتا اور بے مثل خدا کے جو بلند مرتبہ اور بزرگ ہے۔ "سُبحَانَ اللہ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبعِ وَرَبِّ الاَرَضِینَ السَّبعِ” یعنی پاک اور مُنَزَّہ ہے وہ خدا جو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے۔ "وَمَافِیھِنَّ وَمَافِیھِنَّ وَمَا بَینَھُنَّ وَرَبِّ العَرشِ العَظِیمِ” یعنی وہ ہر اس چیز کا پروردگار ہے جو آسمانوں اور زمینوں میں اور ان کے درمیان ہے اور عرش اعظم کا پروردگار ہے۔
"وَالحَمدُلِلّٰہ رَبِّ العَالَمِینَ” اور حمد و ثنا اس خدا کے لئے مخصوص ہے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے۔
۵۔ تسبیحات اربعہ کا ترجمہ
"سُبحَانَ اللہ وَالحَمدُلِلّٰہ وَلآَ اِلٰہ اِلاَّ اللہ اَکبَرُ” یعنی خدا تعالیٰ پاک اور مُنَزَّہ اور ثنا اسی کے لئے مخصوص ہے اور اس بے مثل خدا کے علاوہ کوئی خدا پرستش کے لائق نہیں اور وہ اس سے بالاتر ہے کہ اس کی (کَمَاحَقُّہ) توصیف کی جائے۔
۶۔ تشہد اور سلام کا ترجمہ
"اَلحَمدُلِلّٰہ، اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہ الاَّ اللہ وَحدَہ لاَ شَرِیکَ لَہ” یعنی ستائش پروردگار کے لئے مخصوص ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اس خدا کے جو یکتا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں کوئی اور خدا پرستش کے لائق نہیں ہے۔ "وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا وَرَسُولُہ” اور میں گواہی دیتا ہوں کہ مُحمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں "اللّٰھُمَّ صَلِّ علیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ” یعنی اے خدا رحمت بھیج محمد اور آل محمد پر۔ "وَتَقبَّل شَفَاعَتَہ وَارفَع دَرَجَتَہ”۔ یعنی رسول اللہ کی شفاعت قبول کر اور آنحضرت ﷺ کا درجہ اپنے نزدیک بلند کر۔ "اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَیّہَا النّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہ” یعنی اے اللہ کے رسول آپ پر ہمارا سلام ہو اور آپ پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ "اَلسَّلامُ عَلَیناَ وَعَلیٰ عِبَادِ اللہ الصّٰلِحِینَ” یعنی ہم نماز پڑھنے والوں پر اور تمام صالح بندوں پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہو۔ "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرکَاتُہ” یعنی تم مومنین پر خدا کی طرف سے سلامتی اور رحمت و برکت ہو۔
تعقیبات نماز
۱۱۳۱۔ مستحب ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد انسان کچھ دیر کے لئے تعقیبات یعنی ذکر، دعا اور قرآن مجید پڑھنے میں مشغول رہے۔ اور بہتر ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت کرے کہ اس کا وضو، غسل یا تیمم باطل ہو جائے رو بہ قبلہ ہو کر تعقبات پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ تعقیبات عربی میں ہوں لیکن بہتر ہے کہ انسان وہ دعائیں پڑھے جو دعاؤں کی کتابوں میں بتائی گئی ہیں اور تسبیح فاطمہ ان تعقیبات میں سے ہے جن کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یہ تسبیح اس ترتیب سے پڑھنی چاہئے : ۳۴ دفعہ "اَللہ اَکبَرُ” اس کے بعد ۳۳ دفعہ "اَلحَمدُلِلّٰہ” اور اس کے بعد ۳۳ دفعہ "سُبحَانَ اللہ” اور سُبحَانَ اللہ، اَلحَمدُ لِلّٰہ سے پہلے بھی پڑھا جا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ اَلحَمدُ لِلّٰہ کے بعد پڑھے۔
۱۱۳۲۔ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے بعد سجدہ شکر بجا لائے اور اتنا کافی ہے کہ شکر کی نیت سے پیشانی زمین پر رکھے لیکن بہتر ہے کہ سو دفعہ یا تین دفعہ یا ایک دفعہ "شُکرًا لِّلّٰہ” یا "عَفوًا” کہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ جب بھی انسان کو کوئی نعمت ملے یا کوئی مصیبت ٹل جائے سجدہ شکر بجا لائے۔
پیغمبر اکرمﷺ پر صَلَوات (دُرود)
۱۱۳۳۔ جب بھی انسان حضرت رسول اکرم ﷺ کا اسم مبارک مثلاً محمد اور اَحمَد یا آنحضرت کا لقب اور کنیت مثلاً مصطفیٰ اور ابوالقاسم ﷺ زبان سے ادا کرے یا سنے تو خواہ نماز میں ہی کیوں نہ ہو مستحب ہے کہ صَلَوَات بھیجے۔
۱۱۳۴۔ حضرت رسول اکرم ﷺ کا اسم مبارک لکھتے وقت مستحب ہے کہ انسان صَلَوَات بھی لکھے اور بہتر ہے کہ جب بھی آنحضرت کو یاد کرے تو صَلَوَات بھیجے۔
مبطلات نماز
۱۱۳۵۔ بارہ چیزیں نماز کو باطل کرتی ہیں اور انہیں مبطلات کہا جاتا ہے۔
(اول) نماز کے دوران نماز کی شرطوں میں سے کوئی شرط مفقد ہو جائے مثلاً نماز پڑھتے ہوئے متعلقہ شخص کو پتہ چلے کہ جس کپڑے سے اس نے سترپوشی کی ہوئی ہے وہ غصبی ہے۔
(دوم) نماز کے دوران عمداً یا سہواً یا مجبوری کی وجہ سے انسان کسی ایسی چیز سے دوچار ہو جو وضو یا غسل کو باطل کرے مثلاً اس کا پیشاب خطا ہو جائے اگرچہ احتیاط کی بنا پر اس طرح نماز کے آخری سجدے کے بعد سہواً یا مجبوری کی بنا پر تاہم جو شخص یا پاخانہ نہ روک سکتا ہو اگر نماز کے دوران میں اس کا پیشاب یا پاخانہ نکل جائے اور وہ اس طریقے پر عمل کرے جو احکام وضو کے ذیل میں بتایا گیا ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی اور اسی طرح اگر نماز کے دوران مُستَحاضہ کو خون آ جائے تو اگر وہ اِستخاضہ سے متعلق احکام کے مطابق عمل کرے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۳۶۔جس شخص کو بے اختیار نیند آ جائے اگر اسے یہ پتہ نہ چلے کہ وہ نماز کے دوران سو گیا تھا یا اس کے بعد سویا تو ضروری نہیں کہ نماز دوبارہ پڑھے بشرطیکہ یہ جانتا ہو کہ جو کچھ نماز میں پڑھا ہے وہ اس قدر تھا کہ اسے عرف میں نماز کہیں۔
۱۱۳۷۔اگر کسی شخص کو علم ہو کہ وہ اپنی مرضی سے سویا تھا لیکن شک کرے کہ نماز کے بعد سویا تھا یا نماز کے دوران یہ بھول گیا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور سوگیا تو اس شرط کے ساتھ جو سابقہ مسئلے میں بیان کی گئی ہے اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۳۸۔ اگر کوئی شخص نیند سے سجدے کی حالت میں بیدار ہو جائے اور شک کرے کہ آیا نماز کے آخری سجدے میں ہے یا سجدہ شکر میں ہے تو اگر اسے علم ہو کہ بے اختیار سو گیا تھا تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر جانتا ہو کہ اپنی مرضی سے سویا تھا اور اس بات کا احتمال ہو کہ غفلت کی وجہ سے نماز کے سجدے میں سوگیا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(سوم) یہ چیز مبطلات نماز میں سے ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں کو عاجزی اور ادب کی نیت سے باندھے لیکن اس کام کی وجہ سے نماز کا باطل ہونا احتیاط کی بنا پر ہے اور اگر مشروعیت کی نیت سے انجام دے تو اس کام کے حرام ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
۱۱۳۹۔ اگر کوئی شخص بھولے سے یا مجبوری سے یا تقیہ کی وجہ سے یا کسی اور کام مثلاً ہاتھ کھجانے اور ایسے ہی کسی کام کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(چہارم) مبطلات نماز میں سے ایک یہ ہے کہ الحمد پڑھنے کے بعد آمین کہے۔ آمین کہنے سے نماز کا اس طرح باطل ہونا غیر ماموم میں احتیاط کی بنا پر ہے۔ اگرچہ آمین کہنے کو جائز سمجھتے ہوئے آمین کہے تو اس کے حرام ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ بہر حال اگر امین کو غلطی یا تقیہ کی وجہ سے کہے تو اس کی نماز میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(پنجم) مبطلات نماز میں سے ہے کہ بغیر کسی عذر کے قبلے سے رخ پھیرے لیکن اگر کسی عذر مثلاً بھول کر یا بے اختیاری کی بنا پر مثلاً تیز ہوا کے تھپیڑے اسے قبلے سے پھیر دیں چنانچہ اگر دائیں یا بائیں سمت تک نہ پہنچے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ جسے ہی عذر دور ہو فوراً اپنا قبلہ دسرت کرے۔ اور اگر دائیں یا بائیں طرف مڑ جائے خواہ قبلے کی طرف پشت ہو یا نہ ہو اگر اس کا عذر بھولنے کی وجہ سے ہو اور جس وقت متوجہ ہو اور نماز کو توڑ دے تو اسے دوبارہ قبلہ رخ ہو کر پڑھ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اگرچہ اس نماز کی ایک رکعت وقت میں پڑھے ورنہ اسی نماز پر اکتفا کرے اور اس پر قضا لازم نہیں اور یہی حکم ہے اگر قبلے سے اس کا پھرنا بے اختیاری کی بنا پر ہو چنانچہ قبلے سے پھرے بغیر اگر نماز کو دوبارہ وقت میں پڑھ سکتا ہو۔ اگرچہ وقت میں ایک رکعت ہی پڑھی جا سکتی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو نئے سرے سے پڑھے ورنہ ضروری ہے کہ اسی نماز کو تمام کرے اعادہ اور قضا اس پر لازم نہیں ہے۔
۱۱۴۰۔ اگر فقط اپنے چہرے کو قبلے سے گھمائے لیکن اس کا بدن قبلے کی طرف ہو چنانچہ اس حد تک گردن کو موڑے کہ اپنے سرکے پیچھے کچھ دیکھ سکے تو اس کے لئے بھی وہی حکم ہے جو قبلے سے پھر جانے والے کے لئے ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ اور اگر اپنی گردن کو تھوڑا سا موڑے کہ عرفا کہا جائے اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلے کی طرف ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی اگرچہ یہ کام مکروہ ہے۔
(ششم) مبطلات نماز میں سے ایک یہ ہے کہ عمداً بات کرے اگرچہ ایسا کلمہ ہو کہ جس میں ایک حرف سے زیادہ نہ ہو اگر وہ حرف بامعنی ہو مثلاً (ق) کہ جس کے عربی زبان میں معنی حفاظت کرو کے ہیں یا کوئی اور معنی سمجھ میں آتے ہوں مثلاً (ب) اس شخص کے جواب میں کہ جو حروف تہجی کے حرف دوم کے بارے میں سوال کرے اور اگر اس لفظ سے کوئی معنی بھی سمجھ میں نہ آتے ہوں اور وہ دو یا دو سے زیادہ حرفوں سے مرکب ہو تب بھی احتیاط کی بنا پر (وہ لفظ) نماز کو باطل کر دیتا ہے۔
۱۱۴۱۔اگر کوئی شخص سہواً کلمہ کہے جس کے حروف ایک یا اس سے زیادہ ہوں تو خواہ وہ کلمہ معنی بھی رکھتا ہو اس شخص کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن احتیاط کی بنا پر اس کے لئے ضروری ہے جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا نماز کے بعد وہ سجدہ سہو بجا لائے۔
۱۱۴۲۔ نماز کی حالت میں کھانسنے ، یا ڈکار لینے میں کوئی حرج نہیں اور احتیاط لازم کی بنا پر نماز میں اختیار آہ نہ بھرے اور نہ ہی گریہ کرے۔ اور آخ اور آہ اور ا نہی جیسے الفاظ کا عمداً کہنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔
۱۱۴۳۔ اگر کوئی شخص کوئی کلمہ ذکر کے قصد سے کہے مثلاً ذکر کے قصہ سے اَللّٰہ اَکبَرُ کہے اور اسے کہتے وقت آواز کو بلند کرے تاکہ دوسرے شخص کو کسی شخص کو کسی چیز کی طرف متوجہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور اسی طرح اگر کوئی کلمہ ذکر کے قصد سے کہے اگرچہ جانتا ہو کہ اس کام کی وجہ سے کوئی کسی مطلب کی طرف متوجہ ہو جائے گا تو کوئی اگر بالکل ذکر کا قصد نہ کرے یا ذکر کا قصد بھی ہو اور کسی بات کی طرف متوجہ بھی کرنا چاہتا ہو تو اس میں اشکال ہے۔
۱۱۴۴۔نماز میں قرآن پڑھنے (چار آیتوں کا حکم کہ جن میں واجب سجدہ ہے قرأت کے احکام مسئلہ نمبر ۹۹۲ میں بیان ہو چکا ہے ) اور دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ عربی کے علاوہ کسی زبان میں دعا نہ کرے۔
۱۱۴۵۔ اگر کوئی شخص بغیر قصد جزئیت عمداً یا احتیاطاً الحمد اور سورہ کے کسی حصے یا اذکار نماز کی تکرار کرے تو کوئی حرج نہیں۔
۱۱۴۶۔انسان کو چاہئے کہ نماز کی حالت میں کسی کو سلام نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے تو ضروری ہے کہ جواب دے لیکن جواب سلام کی مانند ہونا چاہئے یعنی ضروری ہے کہ اصل سلام پر اضافہ ہو مثلاً جواب میں یہ نہیں کہنا چاہئے۔ سَلاَمٌ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہ، بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جواب میں عَلَیکُم یا عَلیَک کے لفظ کو سلام کے لفظ پر مقدم نہ رکھے اگر وہ شخص کہ جس نے سلام کیا ہے اس نے اس طرح نہ کیا ہو بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جواب مکمل طور پر دے جس طرح کہ اس نے سلام کیا ہو مثلاً اگر کہا ہو "سَلاَمُ عَلَیکُم” تو جواب میں کہے ” سَلاَمُ عَلَیکُم” اور اگر کہا ہو "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم” تو کہے "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم” اور اگر کہا ہو "سَلاَمٌ عَلَیک” تو کہے "سَلاَمٌ عَلَیک” لیکن عَلَیکُم السَّلاَمُ” کے جواب میں جو لفظ چاہے کہہ سکتا ہے۔
۱۱۴۷۔ انسان کو چاہئے کہ خواہ وہ نماز کی حالت میں ہو یا نہ ہو سلام کا جواب فوراً دے اور اگر جان بوجھ کر یا بھولے سے سلام کا جواب دینے میں اتنا وقت کرے کہ اگر جواب دے تو وہ اس اسلام کا جواب شمار نہ ہو تو اگر وہ نماز کی حالت میں ہو تو ضروری ہے کہ جواب نہ دے اور اگر نماز کی حالت میں نہ ہو تو جواب دینا واجب نہیں ہے۔
۱۱۴۸۔ انسان کو سلام کا جواب اس طرح دینا ضروری ہے کہ سلام کرنے والا سن لے لیکن اگر سلام کرنے والا بہرا ہو یا سلام کہہ کر جلدی سے گزر جائے چنانچہ ممکن ہو تو سلام کا جواب اشارے سے یا اسی طرح کسی طریقے سے اسے سمجھا سکے تو جواب دینا ضروری ہے۔ اس کی صورت کے علاوہ جواب دینا نماز کے علاوہ کسی اور جگہ پر ضروری نہیں اور نماز میں جائز نہیں ہے۔
۱۱۴۹۔ واجب ہے کہ نمازی اسلام کے جواب کو سلام کی نیت سے کہے۔ اور دعا کا قصد کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں یعنی خداوند عالم سے اس شخص کے لئے سلامتی چاہے جس نے سلام کیا ہو۔
۱۱۵۰۔ اگر عورت یا نامحرم مرد یا وہ بچہ جو اچھے برے میں تمیز کر سکتا ہو نماز پڑھنے والے کو سلام کرے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والا اس کے سلام کا جواب دے اور اگر عورت "سَلاَمٌ عَلَیکَ” کہہ کر سلام کرے تو جواب میں کہہ سکتا ہے "سَلاَمٌ عَلَیکِ” یعنی کاف کو زیر دے۔
۱۱۵۱۔ اگر نماز پڑھنے والا سلام کا جواب نہ دے تو وہ گناہ گار ہے لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۵۲۔کسی ایسے شخص کے سلام کا جواب دینا جو مزاح اور تَمَسخُر کے طور پر سلام کرے اور ایسے غیر مسلم مرد اور عورت کے سلام کا جواب دینا جو ذمّی نہ ہوں واجب نہیں ہے اور اگر ذمّی ہوں تو احتیاط واجب کی بنا پر ان کے جواب میں کلمہ "عَلَیکَ” کہہ دینا کافی ہے۔
۱۱۵۴۔ اگر کوئی شخص کسی گروہ کو سلام کرے تو ان سب پر سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن اگر ان میں سے ایک شخص جواب دے دے تو کافی ہے۔
۱۱۵۵۔ اگر کوئی شخص کسی گروہ کو سلام کرے اور جواب ایک ایسا شخص دے جس کا سلام کرنے والے کو سلام کرنے کا ارادہ نہ ہو تو (اس شخص کے جواب دینے کے باوجود) سلام کا جواب اس گروہ پر واجب ہے۔
۱۱۵۶۔ اگر کوئی شخص کسی گروہ کو سلام کرے اور اس گروہ میں سے جو شخص نماز میں مشغول ہو وہ شک کرے کہ سلام کرنے والے کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا یا نہیں تو ضروری ہے کہ جواب نہ دے اور اگر نماز پڑھنے والے کو یقین ہو کہ اس شخص کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا لیکن کوئی شخص سلام کا جواب دے دے تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر نماز پڑھنے والے کو معلوم ہو کہ سلام کرنے والے کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا اور کوئی دوسرا جواب نہ دے تو ضروری ہے کہ سلام کا جواب دے۔
۱۱۵۷۔ سلام کرنا مستحب ہے اور اس امر کی بہت تاکید کی گئی ہے کہ سوار پیدل کو اور کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔
۱۱۵۷۔ سلام کرنا مستحب ہے اور اس امر کی بہت تاکید کی گئی ہے کہ سوار پیدل کو اور کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔
۱۱۵۸۔ اگر دو شخص آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو اس کے سلام کا جواب دے۔
۱۱۵۹۔ اگر انسان نماز نہ پڑھ رہا ہو تو مستحب ہے کہ سلام کا جواب اس سلام سے بہتر الفاظ میں دے مثلاً اگر کوئی شخص "سَلاَمٌ عَلَیکُم” کہے تو جواب میں کہے "سَلاَمٌ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللہ”۔
(ہفتم) نماز کے مبطلات میں سے ایک آواز کے ساتھ اور جان بوجھ کر ہنسنا ہے۔ اگرچہ بے اختیار ہنسے۔ اور جن باتوں کی وجہ سے ہنسے وہ اختیاری ہوں بلکہ احتیاط کی بنا پر جن باتوں کی وجہ سے ہنسی آئی ہو اگر وہ اختیاری نہ بھی ہوں تب بھی وہ نماز کے باطل ہونے کا موجب ہوں گی لیکن اگر جان بوجھ کر بغیر آواز یا سہواً آواز کے ساتھ ہنسے تو ظاہر یہ ہے کہ اس کی نماز میں کوئی اشکال نہیں۔
۱۱۶۰۔ اگر ہنسی کی آواز روکنے کے لئے کسی شخص کی حالت بدل جائے مثلاً اس کا رنگ سرخ ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نماز دوبارہ پڑھے۔
(ہشتم) احتیاط واجب کی بنا پر یہ نماز کے مبطلات میں سے ہے کہ انسان دنیاوی کام کے لئے جان بوجھ کر آواز سے یا بغیر آواز کے روئے لیکن اگر خوف خدا سے یا آخرت کے لئے روئے تو خواہ آہستہ روئے یا بلند آواز سے روئے کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بہترین اعمال میں سے ہے۔
(نہم) نماز باطل کرنے والی چیزوں میں سے ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جس سے نماز کی شکل باقی نہ رہے مثلاً اچھلنا کودنا اور اسی طرح کا کوئی عمل انجام دینا۔ ایسا کرنا عمداً ہو یا بھول چوک کی وجہ سے ہو۔ لیکن جس کام سے نماز کی شکل تبدیل نہ ہوتی ہو مثلاً ہاتھ سے اشارہ کرنا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۱۱۶۱۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران اس قدر ساکت ہو جائے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے۔
۱۱۶۲۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران کوئی کام کرے یا کچھ دیر ساکت رہے اور شک کرے کہ اس کی نماز ٹوٹ گئی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ نماز پوری کرے اور پھر دوبارہ پڑھے۔
(دہم) مبطلات نماز میں سے ایک کھانا اور پینا ہے۔ پس اگر کوئی شخص نماز کے دوران اس طرح کھائے یا پئے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نماز پڑھ رہا ہے تو خواہ اس کا یہ فعل عمداً ہو یا بھول چوک کی وجہ سے ہو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے۔ البتہ جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہو اگر وہ صبح کی اذان سے پہلے مستحب نماز پڑھ رہا ہو اور پیاسا ہو اور اسے ڈر ہو کہ اگر نماز پوری کرے گا تو صبح ہو جائے گی تو اگر پانی اس کے سامنے دو تین قدم کے فاصلے پر ہو تو وہ نماز کے دوران پانی پی سکتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ کوئی ایسا کام مثلاً "قبلے سے منہ پھیرنا” کرے جو نماز کو باطل کرتا ہے۔
۱۱۶۳۔ اگر کسی کا جان بوجھ کر کھانا یا پینا نماز کی شکل کو ختم نہ بھی کرے تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے خواہ نماز کا تسلسل ختم ہو یعنی یہ نہ کہا جائے کہ نماز کو مسلسل پڑھ رہا ہے یا نماز کا تسلسل ختم نہ ہو۔
۱۱۶۴۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران کوئی ایسی غذا نگل لے جو اس کے منہ یا دانتوں کے ریخوں میں رہ گئی ہو تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر ذرا سی قند یا شکر یا انہیں جیسی کوئی چیز منہ میں رہ گئی ہو اور نماز کی حالت میں آہستہ آہستہ گھُل کر پیٹ میں چلی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(یاز دہم) مبطلات نماز میں سے دو رکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعتوں میں یا چار رکعتی نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں شک کرنا ہے بشرطیکہ نماز پڑھنے والا شک کی حالت میں باقی رہے۔
(دوازدہم) مبطلات نماز میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص نماز کا رکن جان بوجھ کر یا بھول کر کم کر دے یا ایک ایسی چیز کو جو رکن نہیں ہے جان بوجھ کر گھٹائے یا جان بوجھ کر کوئی چیز نماز میں بڑھائے۔ اسی طرح اگر کسی رکن مثلاً رکوع یا دو سجدوں کو ایک رکعت میں غلطی سے بڑھا دے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہو جائے گی البتہ بھولے سے تکبیرۃ الاحرام کی زیادتی نماز کو باطل نہیں کرتی۔
۱۱۶۵۔ اگر کوئی شخص نماز کے بعد شک کرے کہ دوران نماز اس نے کوئی ایسا کام کیا ہے یا نہیں جو نماز کو باطل کرتا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
وہ چیزیں جو نماز میں مکروہ ہیں
۱۱۶۶۔ کسی شخص کا نماز میں اپنا چہرہ دائیں یا بائیں جانب اتنا کم موڑنا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس نے اپنا منہ قبلے سے موڑ لیا ہے مکروہ ہے۔ ورنہ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے اس کی نماز باطل ہے۔ اور یہ بھی مکروہ ہے کہ کوئی شخص نماز میں اپنی آنکھیں بند کرے یا دائیں اور بائیں طرف گھمائے اور اپنی ڈاڑھی اور ہاتھوں سے کھیلے اور انگلیاں ایک دوسری میں داخل کرے اور تھوکے اور قرآن مجید یا کسی اور کتاب یا انگوٹھی کی تحریر کو دیکھے۔ اور یہ بھی مکروہ ہے کہ الحمد، سورہ اور ذکر پڑھتے وقت کسی کی بات سننے کے لئے خاموش ہو جائے بلکہ ہر وہ کام جو خضوع و خشوع کو کالعدم کر دے مکروہ ہے۔
۱۱۶۷۔ جب انسان کو نیند آ رہی ہو اور اس وقت بھی جب اس نے پیشاب اور پاخانہ روک رکھا ہو نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اسی طرح نماز کی حالت میں ایسا موزہ پہننا بھی مکروہ ہے جو پاوں کو جکڑ لے اور ان کے علاوہ دوسرے مکروہات بھی مفصل کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں۔
وہ صورتیں جن میں واجب نمازیں توڑی جا سکتی ہیں
۱۱۶۸۔ اختیاری حالت میں واجب نماز کا توڑنا احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے لیکن مال کی حفاظت اور مالی یا جسمانی ضرر سے بچنے کے لئے نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ظاہراً وہ تمام اہم دینی اور دنیاوی کام جو نمازی کو پیش آئیں ان کے لئے نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں۔
۱۱۶۹۔ اگر انسان اپنی جان کی حفاظت یا کسی ایسے شخص کی جان کی حفاظت جس کی نگہداشت واجب ہو اور وہ نماز توڑے بغیر ممکن نہ ہو تو انسان کو چاہئے کہ نماز توڑ دے۔
۱۱۷۰۔ اگر کوئی شخص وسیع وقت میں نماز پڑھنے لگے اور قرض خواہ اس سے اپنے قرضے کا مطالبہ کرے اور وہ اس کا قرضہ نماز کے دوران ادا کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت میں ادا کرے اور اگر بغیر نماز توڑے اس کا قرضہ چکانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور اس کا قرضہ ادا کرے اور بعد میں نماز پڑھے۔
۱۱۷۱۔ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پتہ چلے کہ مسجد نجس ہے اور وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ نماز تمام کرے اور اگر وقت وسیع ہو اور مسجد کو پاک کرنے سے نماز نہ ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے دوران اسے پاک کرے اور بعد میں باقی نماز پڑھے اور اگر نماز ٹوٹ جاتی ہو اور نماز کے بعد مسجد کو پاک کرنا ممکن ہو تو مسجد کو پاک کرنے کے لئے اس کا نماز توڑنا جائز ہے اور اگر نماز کے بعد مسجد کا پاک کرنا ممکن نہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور مسجد کو پاک کرے اور بعد میں نماز پڑھے۔
۱۱۷۲۔ جس شخص کے لئے نماز کا توڑنا ضروری ہو اگر وہ نماز ختم کرے تو وہ گناہگار ہو گا لیکن اس کی نماز صحیح ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
۱۱۷۳۔اگر کسی شخص کو قرأت یا رکوع کی حد تک جھکنے سے پہلے یاد آ جائے کہ وہ اذان اور اقامت یا فقط اقامت کہنا بھول گیا ہے اور نماز کا وقت وسیع ہو تو مستحب ہے کہ انہیں کہنے کے لئے نماز توڑ دے بلکہ اگر نماز ختم ہونے سے پہلے اسے یاد آئے کہ انہیں بھول گیا تھا تب بھی مستحب ہے کہ انہیں کہنے کے لئے نماز توڑ دے۔
شکّیات نماز
نماز کے شکیات کی ۲۲ قسمیں ہیں۔ان میں سے سات اس قسم کے شک ہیں جو نماز کو باطل کرتے ہیں اور چھ اس قسم کے شک ہیں جن کی پروا نہیں کرنی چاہئے اور باقی نو اس قسم کے شک ہیں جو صحیح ہیں۔
وہ شک جو نماز کو باطل کرتے ہیں
۱۱۷۴۔ جو شک نماز کو باطل کرتے ہیں وہ یہ ہیں :
۱۔ دو رکعتی واجب نماز مثلاً نماز صبح اور نماز مسافر کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں سک البتہ نماز مستحب اور نماز احتیاط کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک نماز کو باطل نہیں کرتا۔
۲۔ تین رکعتی نماز کی تعداد کے بارے میں شک۔
۳۔ چار رکعتی نماز میں کوئی شک کرے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ پڑھی ہیں۔
۴۔ چار رکعتی نماز میں دوسرے سجدہ میں داخل ہونے سے پہلے نمازی شک کرے کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں یا زیادہ پڑھی ہیں۔
۵۔ دو اور پانچ رکعتوں میں یا دو اور پانچ سے زیادہ رکعتوں میں شک کرے۔
۶۔ تین اور چھ رکعتوں میں یا تین اور چھ سے زیادہ رکعتوں میں شک کرے۔
۷۔ چار اور چھ رکعتوں کے درمیان شک یا چار اور چھ سے زیادہ رکعتوں کے درمیان شک، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
۱۱۷۵۔ اگر انسان کو نماز باطل کرنے والے شکوک میں سے کوئی شک پیش آئے تو بہتر یہ ہے کہ جسیے ہی اسے شک ہو نماز نہ توڑے بلکہ اس قدر غور و فکر کرے کہ نماز کی شکل برقرار نہ رہے یا یقین یا گمان حاصل ہونے سے نا امید ہو جائے۔
وہ شک جن کی پروا نہیں کرنی چاہئے
۱۱۷۶۔ وہ شکوک جن کی پروا نہیں کرنی چاہئے مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ اس فعل میں شک جس کے بجا لانے کا موقع گزر گیا ہو مثلاً انسان رکوع میں شک کرے کہ اس نے الحمد پڑھی ہے یا نہیں۔
۲۔ سلام نماز کے بعد شک۔
۳۔ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد شک۔
۴۔ کثیرُالشک کا شک۔ یعنی اس شخص کا شک جو بہت زیادہ شک کرتا ہے۔
۵۔ رکعتوں کی تعداد کے بارے میں امام کا شک جب کہ ماموم ان کی تعداد جانتا ہو اور اسی طرح ماموم کا شک جبکہ امام نماز کی رکعتوں کی تعداد جانتا ہو۔
۶۔ مستحب نمازوں اور نماز احتیاط کے بارے میں شک۔
جس فعل کا موقع گزر گیا ہو اس میں شک کرنا
۱۱۷۷۔ اگر نمازی نماز کے دوران شک کرے کہ اس نے نماز کا ایک واجب فعل انجام دیا ہے یا نہیں مثلاً اسے شک ہو کہ الحمد پڑھی ہے یا نہیں جبکہ اس سابق کام کو عمداً ترک کر کے جس کام میں مشغول ہو اس کام میں شرعاً مشغول نہیں ہونا چاہئے تھا مثلاً سورہ پڑھتے وقت شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔ اس صورت کے علاوہ ضروری ہے کہ جس چیز کی انجام دہی کے بارے میں شک ہو، بجا لائے۔
۱۱۷۸۔ اگر نمازی کوئی آیت پڑھتے ہوئے شک کرے کہ اس سے پہلے کی آیت پڑھی ہے یا نہیں یا جس وقت آیت کا آخری حصہ پڑھ رہا ہو شک کرے کہ اس کا پہلا حصہ پڑھا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۷۹۔ اگر نمازی رکوع یا سجود کے بعد شک کرے کہ ان کے واجب افعال۔ مثلاً ذکر اور بدن کا سکون کی حالت میں ہونا۔ اس نے انجام دیئے ہیں یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۸۰۔ اگر نمازی سجدے میں جاتے وقت شک کرے کہ رکوع بجا لایا ہے یا نہیں یا شک کرے کہ رکوع کے بعد کھڑا ہوا تھا یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۸۱۔ اگر نمازی کھڑا ہوتے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشہد بجا لایا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۸۲۔ جو شخص بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر الحمد یا تسبیحات پڑھنے کے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشہد بجا لایا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر الحمد یا تسبیحات میں مشغول ہونے سے پہلے شک کرے کہ سجدہ یا تشہد بجا لایا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ بجا لائے۔
۱۱۸۳۔اگر نمازی شک کرے کہ نماز کا کوئی ایک رکن بجا لایا ہے یا نہیں اور اس کے بعد آنے والے فعل میں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے اسے بجا لائے مثلاً اگر تشہد پڑھنے سے پہلے شک کرے کہ دو سجدے بجا لایا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ بجا لائے اور اگر بعد میں اسے یاد آئے کہ وہ اس رکن کو بجا لایا تھا تو ایک رکن بڑھ جانے کی وجہ سے احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۱۱۸۴۔ اگر نمازی شک کرے کہ ایک ایسا عمل جو نماز کا رکن نہیں ہے بجا لایا ہے یا نہیں اور اس کے بعد آنے والے فعل میں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے مثلاً اگر سورہ پڑھنے سے پہلے شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اور اگر اسے انجام دینے کے بعد اسے یاد آئے کہ اسے پہلے ہی بجا لا چکا تھا تو چونکہ رکن زیادہ نہیں ہوا اس لئے اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۸۵۔ اگر نمازی شک کرے کہ ایک رکن بجا لایا ہے یا نہیں مثلاً جب تشہد پڑھ رہا ہو شک کرے کہ دو سجدے بجا لایا ہے یا نہیں اور اپنے شک کی پروا نہ کرے اور بعد مین اسے یاد آئے کہ اس رکن کو بجا نہیں لایا ہے یا نہیں اور اپنے شک کی پروا نہ کرے اور بعد میں اسے یاد آئے کہ اس رکن کو بجا نہیں لایا تو اگر وہ بعد والے رکن میں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اس رکن کو بجا لائے اور اگر بعد والے رکن میں مشغول ہو گیا ہو تو اس کی نماز احتیاط لازم کی بنا پر باطل ہے مثلاً اگر بعد والی رکعت کے رکوع سے پہلے اسے یاد آئے کہ دو سجدے نہیں بجا لایا تو ضروری ہے کہ بجا لائے اور اگر رکوع میں یا اس کے بعد اسے یاد آئے (کہ دو سجدے نہیں بجا لایا) تو اس کی نماز جیسا کہ بتایا گیا، باطل ہے۔
۱۱۸۶۔ اگر نماز شک کرے کہ وہ ایک غیر رکنی عمل بجا لایا ہے یا نہیں اور اس کے بعد والے عمل میں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔ مثلاً جس وقت سورہ پڑھ رہا ہو شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہیں لایا اور ابھی بعد والے رکن میں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اس عمل کو بجا لائے اور اگر بعد والے رکن میں مشغول ہو گیا تو تو اس کی نماز صحیح ہے۔ اس بنا پر مثلاً اگر قنوت میں اسے یاد آ جائے کہ اس نے الحمد نہیں پڑھی تھی تو ضروری ہے کہ پڑھے اور اگر یہ بات اسے رکوع میں یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۱۸۷۔ اگر نمازی شک کرے کہ اس نے نماز کا سلام پڑھا ہے یا نہیں اور تعقیبات یا دوسری نماز میں مشغول ہو جائے یا کوئی ایسا کام کرے جو نماز کو برقرار نہیں رکھتا اور وہ حالت نماز سے خارج ہو گیا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ان صورتوں سے پہلے شک کرے تو ضروری ہے کہ سلام پڑھے اور اگر شک کرے کہ سلام درست پڑھا ہے یا نہیں تو جہاں بھی ہو اپنے شک کی پروانہ کرے۔
سلام کے بعد شک کرنا
۱۱۸۸۔ اگر نمازی سلام نماز کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز صحیح طور پر پڑھی ہے یا نہیں مثلاً شک کرے کہ رکوع ادا کیا ہے یا نہیں یا چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں یا پانچ، تو وہ اپنے شک کی پروانہ کرے لیکن اگر اسے دونوں طرف نماز کے باطل ہونے کا شک ہو مثلاً چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا پانچ رکعت تو اس کی نماز باطل ہے۔
وقت کے بعد شک کرنا
۱۱۸۹۔ اگر کوئی شخص نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز پڑھی ہے یا نہیں یا گمان کرے کہ نہیں پڑھی تو اس نماز کا پڑھنا لازم نہیں لیکن اگر وقت گزرنے سے پہلے شک کرے کہ نماز پڑھی ہے یا نہیں تو خواہ گمان کرے کہ پڑھی ہے پھر بھی ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھے۔
۱۱۹۰۔ اگر کوئی شخص وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز دوست پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۹۱۔اگر نماز ظہر اور عصر کا وقت گزر جانے کے بعد نمازی جان لے کہ چار رکعت نماز پڑھی ہے لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ ظہر کی نیت سے پڑھی ہے یا عصر کی نیت سے تو ضروری ہے کہ چار رکعت نماز قضا اس نماز کی نیت سے پڑھے جو اس پر واجب ہے۔
۱۱۹۲۔ اگر مغرب اور عشا کی نماز کا وقت گزرنے کے بعد نمازی کو پتہ چلے کہ اس نے ایک نماز پڑھی ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ تین رکعتی نماز پڑھی ہے یا چار رکعتی، تو ضروری ہے کہ مغرب اور عشا دونوں نمازوں کی قضا کرے۔
کثیرُالشک کا شک کرنا
۱۱۹۳۔کثیرالشک وہ شخص ہے جو بہت زیادہ شک کرے اس معنی میں کہ وہ لوگ جو اس کی مانند ہیں ان کی نسبت وہ حواس فریب اسباب کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں زیادہ شک کرے۔ پس جہاں حواس کو فریب دینے والا سبب نہ ہو اور ہر تین نمازوں میں ایک دفعہ شک کرے تو ایسا شخص اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۹۴۔ اگر کثیرالشک نماز کے اجزاء میں سے کسی جزو کے انجام دینے کے بارے میں شک کرے تو اسے یوں سمجھنا چاہئے کہ اس جزو کو انجام دے دیا ہے۔ مثلاً اگر شک کرے کہ رکوع کیا ہے یا نہیں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ رکوع کر لیا ہے اور اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں شک کرے جو مبطل نماز ہے مثلاً شک کرے کہ صبح کی نماز دو رکعت پڑھی ہے یا تین رکعت تو یہی سمجھے نماز ٹھیک پڑھی ہے۔
۱۱۹۵۔جس شخص کو نماز کے کسی جزو کے بارے میں زیادہ شک ہوتا ہو، اس طرح کہ وہ کسی مخصوص جزو کے بارے میں (کچھ) زیادہ (ہی) شک کرتا رہتا ہو، اگر وہ نماز کے کسی دوسرے جزو کے بارے میں شک کرے تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔ مثلاً کسی کو زیادہ شک اس بات میں ہوتا ہو کہ سجدہ کیا ہے یا نہیں ، اگر اسے رکوع کرنے کے بعد شک ہو تو ضروری ہے شک کے حکم پر عمل کرے یعنی اگر ابھی سجدے میں نہ گیا ہو تو رکوع کرے اور اگر سجدے میں چلا گیا ہو تو شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۹۶۔ جو شخص کسی مخصوص نماز مثلاً ظہر کی نماز میں زیادہ شک کرتا ہو اگر وہ کسی دوسری نماز مثلاً عصر کی نماز میں شک کرے تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔
۱۱۹۷۔ جو شخص کسی مخصوص جگہ پر نماز پڑھتے وقت زیادہ شک کرتا ہو اگر وہ کسی دوسری جگہ نماز پڑھے اور اسے شک پیدا ہو تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔
۱۱۹۸۔ اگر کسی شخص کو اس بارے میں شک ہو کہ وہ کثیر الشک ہو گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے اور کثیر الشک شخص کو جب تک یقین نہ ہو جائے کہ وہ لوگوں کی عام حالت پر لوٹ آیا ہے اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
۱۱۹۹۔ اگر کثیر الشک شخص، شک کرے کہ ایک رکن بجا لایا ہے یا نہیں اور وہ اس شک کی پروا بھی نہ کرے اور پھر اسے یاد آئے کہ وہ رکن بجا نہیں لایا اور اس کے بعد کے رکن میں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اس رکن کو بجا لائے اور اگر بعد کے رکن میں مشغول ہو گیا ہو تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہے مثلاً اگر شک کرے کہ رکوع کیا ہے یا نہیں اور اس شک کی پروا نہ کرے اور دوسرے سجدے سے پہلے اسے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا تھا تو ضروری ہے کہ رکوع کرے اور اگر دوسرے سجدے کے دوسران اسے یاد آئے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہے۔
۱۲۰۰۔ جو شخص زیادہ شک کرتا ہو اگر وہ شک کرے کہ کوئی ایسا عمل جو رکن نہ ہو انجام کیا ہے یا نہیں اور اس شک کی پروا نہ کرے اور بعد میں اسے یاد آئے کہ وہ عمل انجام نہیں دیا تو اگر انجام دینے کے مقام سے ابھی نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اسے انجام دے اور اگر اس کے مقام سے گزر گیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے مثلاً اگر شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہیں اور شک کی پروا نہ کرے مگر قنوت پڑھتے ہوئے اسے یاد آئے کہ الحمد نہیں پڑھی تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
امام اور مقتدی کا شک
۱۲۰۲۔ اگر کوئی شخص مستحب نماز کی رکعتوں میں شک کرے اور شک عدد کی زیادتی کی طرف ہو جو نماز کو باطل کرتی ہے تو اسے چاہئے کہ یہ سمجھ لے کہ کم رکعتیں پڑھی ہیں مثلاً اگر صبح کی نفلوں میں شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین تو یہی سمجھے کہ دو پڑھی ہیں۔ اور اگر تعداد کی زیادتی والا شک نماز کو باطل نہ کرے مثلاً اگر نمازی شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا ایک پڑھی ہے تو شک کی جس طرف پر بھی عمل کرے اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۲۰۳۔ رکن کا کم ہونا نفل نماز کو باطل کر دیتا ہے لیکن رکن کا زیادہ ہونا اسے باطل نہیں کرتا۔ پس اگر نمازی نفل کے افعال میں سے کوئی فعل بھول جائے اور یہ بات اسے اس وقت یاد آئے جب وہ اس کے بعد والے رکن میں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اس فعل کو انجام دے اور دوبارہ اس رکن کو انجام دے مثلاً اگر رکوع کے دوران اسے یاد آئے کہ سورۃ الحمد نہیں پڑھی تو ضروری ہے کہ واپس لوٹے اور الحمد پڑھے اور دوبارہ رکوع میں جائے۔
۱۲۰۴۔ اگر کوئی شخص نفل کے افعال میں سے کسی فعل کے متعلق شک کرے خواہ وہ فعل رکنی ہو یا غیر رکنی اور اس کا موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اسے انجام دے اور اگر موقع گزر گیا ہو تو اپنے شک کی پروانہ کرے۔
۱۲۰۵۔ اگر کسی شخس کو دو رکعتی مستحب نماز میں تین یا زیادہ رکعتوں کے پڑھ لینے کا گمان ہو تو چاہئے کہ اس گمان کی پروا نہ کرے اور اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس کا گمان دو رکعتوں کا یا اس سے کم کا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسی گمان پر عمل کرے مثلاً اگر اسے گمان ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے تو ضروری ہے کہ احتیاط کے طور پر ایک رکعت اور پڑھے۔
۱۲۰۶۔ اگر کوئی شخص نفل نماز میں کوئی ایسا کام کرے جس کے لئے واجب نماز میں سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہو یا ایک سجدہ بھول جائے تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ نماز کے بعد سجدہ سہو یا سجدے کی قضا بجا لائے۔
صحیح شکوک
۱۲۰۸۔اگر کسی کو نو صورتوں میں چار رکعتی نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک ہو تو اسے چاہئے کہ فوراً غور و فکر کرے اور اگر یقین یا گمان شک کی کسی ایک طرف ہو جائے تو اسی کی اختیار کرے اور نماز کو تمام کرے ورنہ ان احکام کے مطابق عمل کرے جو ذیل میں بتائے جا رہے ہیں۔
وہ نو صورتیں یہ ہیں :
۱۔ دوسرے سجدے کے دوران شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین۔ اس صورت میں اسے یوں سمجھ لینا چاہئے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں اور ایک اور رکعت پڑھے پھر نماز کو تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر نماز کے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر بجا لائے۔
۲۔ دوسرے سجدے کے دوران اگر شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو یہ سمجھ لے کہ چار پڑھی ہیں اور نماز کو تمام کرے اور بعد میں دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر بجا لائے۔
۳۔ اگر کسی کو دوسرے سجدے کے دوران شک ہو جائے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین یا چار تو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ چار پڑھی ہیں اور وہ نماز ختم ہونے کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر اور بعد میں دو رکعت بیٹھ کر بجا لائے۔
۴۔ اگر کسی شخص کو دوسرے سجدے کے دوران شک ہو کہ اس نے چار رکعتیں پڑھی ہیں یا پانچ تو وہ یہ سمجھے کہ چار پڑھی ہیں اور اس بنیاد پر نماز پوری کرے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو بجا لائے۔ اور بعید نہیں کہ یہی حکم ہر اس صورت میں ہو جہاں کم از کم شک چار رکعت پر ہو مثلاً چار اور چھ رکعتوں کے درمیان شک ہو اور یہ بھی بعید نہیں کہ ہر اس صورت میں جہاں چار رکعت اور اس سے کم یا اس سے زیادہ رکعتوں میں دوسرے سجدے کے دوران شک ہو تو چار رکعتیں قرار دے کر دونوں شک کے اعمال انجام دے یعنی اس احتمال کی بنا پر کہ چار رکعت سے کم پڑھی ہیں نماز احتیاط پڑھے اور اس احتمال کی بنا پر کہ چار رکعت سے زیادہ پڑھی ہیں بعد میں دو سجدہ سہو بھی کرے۔ اور تمام صورتوں میں اگر پہلے سجدے کے بعد اور دوسرے سجدے میں داخل ہونے سے پہلے سابقہ چار شک میں سے ایک اسے پیش آئے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۵۔ نماز کے دوران جس وقت بھی کسی کو تین رکعت اور چار رکعت کے درمیان شک ہو ضروری ہے کہ یہ سمجھ لے کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں اور نماز کو تمام کرے اور بعد میں ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کہ یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔
۶۔ اگر قیام کے دوران کسی کو چار رکعتوں اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک ہو جائے تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور تشہد اور کا سلام پڑھے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔
۷۔ اگر قیام کے دوران کسی کو تین اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک ہو جائے تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور تشہد اور نماز کا سلام پڑھے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔
۸۔ اگر قیام کے دوران کسی کو تین، چار اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک ہو جائے تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور سلام نماز کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھرے ہو ہو کر اور بعد میں دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔
۹۔ اگر قیام کے دوران کسی کو پانچ اور چھ رکعتوں کے بارے میں شک ہو جائے تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور تشہد اور نماز کا سلام پڑھے اور دو سجدہ سہو بجا لائے اور احتیاط مستحب کی بنا پر ان چار صورتوں میں بے جا قیام کے لئے دو سجدہ سہو بھی بجا لائے۔
۱۲۰۹۔ اگر کسی کو صحیح شکوک میں سے کوئی شک ہو جائے اور نماز کو وقت اتنا تنگ ہو کہ ناز از سرنو نہ پڑھ سکے تو نماز نہیں توڑنی چاہئے اور ضروری ہے کہ جو مسئلہ بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق عمل کرے۔ بلکہ اگر نماز کا وقت وسیع ہو تب بھی احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز نہ توڑے اور جو مسئلہ پہلے بیان کیا گیا ہے اس پر عمل کرے۔
۱۲۱۰۔ اگر نماز کے دوران انسان کو ان شکوک میں سے کوئی شک لاحق ہو جائے جن کے لئے نماز احتیاط واجب ہے اور وہ نماز کو تمام کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز احتیاط پڑھے اور نماز احتیاط پڑھے بغیر از سر نو نماز نہ پڑھے اور اگر وہ کوئی ایسا فعل انجام دینے سے پہلے جونماز کو باطل کرتا ہو از سر نو نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی دوسری نماز بھی باطل ہے لیکن اگر کوئی ایسا فعل انجام دینے کے بعد جو نماز کو باطل کرتا ہو نماز میں مشغول ہو جائے تو اس کی دوسری نماز صحیح ہے۔
۱۲۱۱۔جب نماز کو باطل کرنے والے شکوک میں سے کوئی شک انسان کو لاحق ہو جائے اور وہ جانتا ہو کہ بعد کی حالت میں منتقل ہو جانے پر اس کے لئے یقین یا گمان پیدا ہو جائے گا تو اس صورت میں جبکہ اس کا باطل شک شروع کی دو رکعت میں ہو اس کے لئے شک کی حالت میں نماز جاری رکھنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً اگر قیام کی حالت میں اسے شک ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ پڑھی ہیں اور وہ جانتا ہو کہ اگر رکوع میں جائے تو کسی ایک طرف یقین یا گمان پیدا کرے گا تو اس حالت میں اس کے لئے رکوع کرنا جائز نہیں ہے اور باقی باطل شکوک میں بظاہر اپنی نماز جاری رکھ سکتا ہے تاکہ اسے یقین یا گمان حاصل ہو جائے۔
۱۲۱۲۔ اگر کسی شخص کا گمان پہلے ایک طرف زیادہ ہو اور بعد میں اس کی نظر میں دونوں اطراف برابر ہو جائیں تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے اور اگر پہلے ہی دونوں اطراف اس کی نظر میں برابر ہوں اور احکام کے مطابق جو کچھ اس کا وظیفہ ہے اس پر عمل کی بنیاد رکھے اور بعد میں اس کا گمان دوسری طرف چلا جائے تو ضروری ہے کہ اسی طرف کو اختیار کرے اور نماز کو تمام کرے۔
۱۲۱۳۔ جو شخص یہ نہ جانتا ہو کہ اس کا گمان ایک طرف زیادہ ہے یا دونوں اطراف اس کی نظر میں برابر ہیں تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔
۱۲۱۴۔اگرکسی شخص کو نماز کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے دوران وہ شک کی حالت میں تھا مثلاً اسے شک تھا کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین رکعتیں ہیں اور اس نے اپنے افعال کی بنیاد تین رکعتوں پر رکھی ہو لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ اس کے گمان میں یہ تھا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا دونوں اطراف اس کی نظر میں برابر تھیں تو نماز احتیاط پڑھنا ضروری ہے۔
۱۲۱۵۔ اگر قیام کے بعد شک کرے کہ دو سجدے ادا کئے تھے یا نہیں اور اسی وقت اسے ان شکوک میں سے کوئی شک ہو جائے جو دو سجدے تمام ہونے کے بعد لاحق ہوتا تو صحیح ہوتا مثلاً وہ شک کرے کہ میں نے دو رکعت پڑھی ہیں یا تین اور وہ اس شک کے مطابق عمل کرے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اسے تشہد پڑھتے وقت ان شکوک میں سے کوئی شک لاحق ہو جائے تو بالفرض اسے یہ علم ہو کہ دو سجدے ادا کئے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ سمجھے کہ یہ ایسی دو رکعت میں سے ہے جس میں تشہد نہیں ہوتا تو اس کی نماز باطل ہے۔ اس مثلاً کی طرح جو گزر چکی ہے ورنہ اس کی نماز صحیح ہے جیسے کوئی شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا چار رکعت۔
۱۲۱۶۔ اگر کوئی شخص تشہد میں مشغول ہونے سے پہلے یا ان رکعتوں میں جن میں تشہد نہیں ہے قیام سے پہلے شک کرے کہ ایک یا دو سجدے بجا لایا ہے یا نہیں اور اسی وقت اسے ان شکوک میں سے کوئی شک لاحق ہو جائے جو دو سجدے تمام ہونے کے بعد صحیح ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۲۱۷۔ اگر کوئی شخص قیام کی حالت میں تین اور چار رکعتوں کے بارے میں یا تین اور چار اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک کرے اور اسے یہ بھی یاد آ جائے کہ اس نے اس سے پہلی رکعت کا ایک سجدہ یا دونوں سجدے ادا نہیں کئے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۲۱۸۔ اگر کسی کا شک زائل ہو جائے اور کوئی دوسرا شک اسے لاحق ہو جائے مثلاً پہلے شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں تین رکعتیں اور بعد میں شک کیا تھا تو ہر دو شک کے حکم پر عمل کر سکتا ہے۔ اور نماز کو بھی توڑ سکتا ہے۔ اور جو کام نماز کو باطل کرتا ہے اسے کرنے کے بعد نماز دوبارہ پڑھے۔
۱۲۲۰۔اگر کسی شخص کو نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کی حالت میں اسے کوئی شک لاحق ہو گیا تھا لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ وہ شک نماز کو باطل کرنے والے شکوک میں سے تھا یا صحیح شکوک میں سے تھا اور اگر صحیح شکوک میں سے بھی تھا تو اس کا تعلق صحیح شکوک کی کون سے قسم سے تھا تو اس کے لئے جائز ہے کہ نماز کو کالعدم قرار دے اور دوبارہ پڑھے۔
۱۲۲۱۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر اسے ایسا شک لاحق ہو جائے جس کے لئے اسے ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھنی چاہئے تو ضروری ہے کہ ایک رکعت بیٹھ کر پڑھے اور اگر وہ ایسا شک کرے جس کے لئے اسے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھنی چاہئے تو ضروری ہے کہ دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔
۱۲۲۲۔ جو شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہو اگر وہ نماز احتیاط پڑھنے کے وقت کھڑا ہونے سے عاجز ہو تو ضروری ہے کہ نماز احتیاط اس شخص کی طرح پڑھے جو بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور جس کا حکم سابقہ مسئلے میں بیان ہو چکا ہے۔
۱۲۲۳۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو اگر نماز احتیاط پڑھنے کے وقت کھڑا ہوسکے تو ضروری ہے کہ اس شخص کے وظیفے کے مطابق عمل کرے جو کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے۔
نماز احتیاط پڑھنے کا طریقہ
۱۲۲۴۔ جس شخص پر نماز احتیاط واجب ہو ضروری ہے کہ نماز کے سلام کے فوراً بعد نماز احتیاط کی نیت کرے اور تکبیر کہے پھر الحمد پڑھے اور رکوع میں جائے اور دو سجدے بجا لائے۔ پس اگر اس پر ایک رکعت نماز احتیاط واجب ہو تو دو سجدوں کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔ اور اگر اس پر دو رکعت نماز احتیاط واجب ہو تو دو سجدوں کے بعد پہلی رکعت کی طرح ایک اور رکعت بجا لائے اور تشہد کے بعد سلام پڑھے۔
۱۲۲۵۔ نماز احتیاط میں سورہ اور قنوت نہیں ہے اور احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ یہ نماز آہستہ پڑھے اور اس کی نیت زبان پر نہ لائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی بِسمِ اللہ بھی آہستہ پڑھے۔
۱۲۲۶۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط پڑھنے سے پہلے معلوم ہو جائے کہ جو نماز اس نے پڑھی تھی وہ صحیح تھی تو اس کے لئے نماز احتیاط پڑھنا ضروری نہیں اور اگر نماز احتیاط کے دوران بھی یہ علم ہو جائے تو اس نماز کو تمام کرنا ضروری نہیں۔
۱۲۲۷۔اگر نماز احتیاط پڑھنے سے پہلے کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ اس نے نماز کی رکعتیں کم پڑھی تھیں اور نماز پڑھنے کے بعد اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو نماز کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ اس نے نماز کا جو حصہ نہ پڑھا ہو اسے پڑھے اور بے محل سلام کے لئے احتیاط لازم کی بنا پر دو سجدہ سہو ادا کرے اور اگر اس سے کوئی ایسا فعل سر زد ہوا ہے جو نماز کو باطل کرتا ہو مثلاً قبلے کی جانب پیٹھ کی ہو تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔
۱۲۲۸۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط کے بعد پتہ چلے کی اس کی نماز میں کمی احتیاط کے برابر تھی مثلاً تین رکعتوں اور چار رکعتوں کے درمیان شک کی صورت میں ایک نماز احتیاط پڑھے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس نے نماز کی تین رکعتیں پڑھی تھیں تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔
۱۲۳۰۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط پڑھنے کے بعد پتہ چلے کہ نماز میں جو کمی ہوئی تھی وہ نماز احتیاط سے زیادہ تھی مثلاً تین رکعتوں اور چار رکعتوں کے مابین شک کی صورت میں ایک رکعت نماز احتیاط پڑھے اور بعد میں معلوم ہو کہ نماز کی دو رکعتیں پڑھی تھیں اور نماز احتیاط کے بعد کوئی ایسا کام کیا ہو جو نماز کو باطل کرتا ہو مثلاً قبلے کی جانب پیٹھ کی تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو نماز کو باطل کرتا ہو تو اس صورت میں بھی احتیاط لازم یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور باقی ماندہ ایک رکعت ضم کرنے پر اکتفا نہ کرے۔
۱۲۳۱۔ اگر کوئی شخص دو اور تین اور چار رکعتوں میں شک کرے اور کھڑے ہو کر دو رکعت نماز احتیاط پڑھنے کے بعد اسے یاد آئے کہ اس نے نماز کی دو رکعتیں پڑھی تھیں تو اس کے لئے بیٹھ کر دو رکعت نماز احتیاط پڑھنا ضروری نہیں۔
۱۲۳۲۔ اگر کوئی شخص تین اور چار رکعتوں میں شک کرے اور جس وقت وہ ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھ ہو اسے یاد آئے کہ اس نے نماز کی تین رکعتیں پڑھی تھیں تو ضروری ہے کہ نماز احتیاط کو چھوڑ دے چنانچہ رکوع میں داخل ہونے سے پہلے اسے یاد آیا ہو تو ایک رکعت ملا کر پڑھے اور اس کی نماز صحیح ہے اور احتیاط لازم کی بنا پر زائد سلام کے لئے دو سجدہ بجا لائے اور اگر رکوع میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور احتیاط کی بنا پر باقی ماندہ رکعت ضم کرنے پر اکتفا نہیں کرسکتا۔
۱۲۳۳۔ اگر کوئی شخص دو اور تین اور چار رکعتوں میں شک کرے اور جس وقت وہ دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھ رہا ہو اسے یاد آئے کہ اس نے نماز کی تین رکعتیں پڑھی تھیں تو یہاں بھی بالکل وہی حکم جاری ہو گا جس کا ذکر سابقہ مسئلے میں کیا گیا ہے۔
۱۲۳۴۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط کے دوران پتہ چلے کہ اس کی نماز میں کمی نماز احتیاط سے زیادہ یا کم تھی تو یہاں بھی بالکل وہی حکم جاری ہو گا جس کا ذکر مسئلہ ۱۲۳۲ میں کیا گیا ہے۔
۱۲۳۵۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ جو نماز احتیاط اس پر واجب تھی وہ اسے بجا لایا ہے یا نہیں تو نماز کا وقت گزر جانے کی صورت میں اپنے شک کی پروانہ کرے اور اگر وقت باقی ہو تو اس صورت میں جبکہ شک اور نماز کے درمیان زیادہ وقفہ بھی گزرا ہو اور اس نے کوئی ایسا کام بھی نہ کیا ہو مثلاً قبلے سے منہ موڑنا جو نماز کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز احتیاط پڑھے اور اگر کوئی ایسا کام کیا ہو جو نماز کو باطل کرتا ہو یا نماز اور اس کے شک کے درمیان زیادہ وقفہ ہو گیا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
۱۲۳۶۔ اگر ایک شخص نماز احتیاط میں ایک رکعت کی بجائے دو رکعت پڑھ لے تو نماز احتیاط باطل ہو جاتی ہے اور ضروری ہے کہ دوبارہ اصل نماز پڑھے۔ اور اگر وہ نماز میں کوئی رکن بڑھا دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا بھی یہی حکم ہے۔
۱۲۳۷۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط پڑھتے ہوئے اس نماز کے افعال میں سے کسی کے متعلق شک ہو جائے تو اگر اس کا موقع نہ گزرا ہو تو اسے انجام دینا ضروری ہے اور اگر اس کا موقع گزر گیا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروانہ کرے مثلاً اگر شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہیں اور ابھی رکوع میں نہ گیا ہو تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اور اگر رکوع میں جا چکا ہو تو ضروری ہے اپنے شک کی پروانہ کرے۔
۱۲۳۸۔ اگر کوئی شخص نماز احتیاط کی رکعتوں کے بارے میں شک کرے اور زیادہ رکعتوں کی طرف شک کرنا نماز کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ شک کی بنیاد کم رکھے اور اگر زیادہ رکعتوں کی طرف شک کرنا نماز کو باطل نہ کرتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کی بنیاد زیادہ پر رکھے مثلاً جب وہ دو رکعت نماز احتیاط پڑھ رہا ہو اگر شک کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین تو چونکہ زیادتی کی طرف شک کرنا نماز کو باطل کرتا ہے اس لئے اسے چاہئے کہ سمجھ لے کہ اس نے دو رکعتیں اور اگر شک کرے کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا دو رکعتیں پڑھی ہیں تو چونکہ زیادتی کی طرف شک کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا اس لئے اس سمجھنا چاہئے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں۔
۱۲۳۹۔ اگر نماز احتیاط میں کوئی ایسی چیز جو رکن نہ ہو سہواً کم یا زیادہ ہو جائے تو اس کے لئے سجدہ سہو نہیں ہے۔
۱۲۴۰۔ اگر کوئی شخص نماز احتیاط کے سلام کے بعد شک کرے کہ وہ نماز کے اجزا اور شرائط میں سے کوئی ایک جزو یا شرط انجام دے چکا ہے یا نہیں تو وہ اپنے شک کی پروانہ کرے۔
۱۲۴۱۔ اگر کوئی شخص نماز احتیاط میں تشہد پڑھنا یا ایک سجدہ کرنا بھول جائے اور اس تشہد یا سجدے کا اپنی جگہ پر تدارک بھی ممکن نہ ہو تو احتیاط اور ایک سجدے کی قضا یا دو سجدہ سہو واجب ہوں تو ضروری ہے کہ پہلے نماز احتیاط بجا لائے۔
۱۲۴۳۔ نماز کی رکعتوں کے بارے میں گمان کا حکم یقین کے حکم کی طرح ہے مثلاً اگر کوئی شخص یہ نہ جانتا ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا دو رکعتیں پڑھی ہیں اور گمان کرے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں تو وہ سمجھے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں اور اگر چار رکعتی نماز میں گمان کرے کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں تو اسے نماز احتیاط پڑھنے کی ضرورت نہیں لیکن افعال کے بارے میں گمان کرنا شک کا حکم رکھتا ہے پس اگر وہ گمان کرے کہ رکوع کیا ہے اور ابھی سجدہ میں داخل نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ رکوع کو انجام دے اور اگر وہ گمان کرے کہ الحمد نہیں پڑھی اور سورے میں داخل ہو چکا ہو تو گمان کی پروا نہ کرے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۲۴۴۔ روزانہ کی واجب نمازوں اور دوسری واجب نمازوں کے بارے میں شک اور سہو اور گمان کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے مثلاً اگر کسی شخص کو نماز آیات کے دوران شک ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا دو رکعتیں تو چونکہ اس کا شک دو رکعتی نماز میں ہے لہذا اس کی نماز باطل ہے اور اگر وہ گمان کرے کہ یہ دوسری رکعت ہے یا پہلی رکعت تو اپنے گمان کے مطابق نماز کو تمام کرے۔
سجدہ سہو
۱۲۴۵۔ ضروری ہے کہ انسان سلام نماز کے بعد پانچ چیزوں کے لئے اس طریقے کے مطابق جس کا آئندہ ذکر ہو گا دو سجدے سہو بجا لائے :
۱۔ نماز کی حالت میں سہواً کلام کرنا۔
۲۔ جہاں سلام نماز نہ کہنا چاہئے وہاں سلام کہنا۔ مثلاً بھول کر پہلی رکعت میں سلام پڑھنا۔
۳۔ تشہد بھول جانا۔
۴۔ چار رکعتی نماز میں دوسری سجدے کے دوران شک کرنا کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں یا پانچ، یا شک کرنا کہ چار رکعتیں پڑھی ہیں یا چھ، بالکل اسی طرح جیسا کہ صحیح شکوک کے نمبر ۴ میں گزر چکا ہے۔
ان پانچ صورتوں میں اگر نماز پر صحیح ہونے کا حکم ہو تو احتیاط کی بنا پر پہلی، دوسری اور پانچویں صورت میں اور اقوی کی بنا پر تیسری اور چوتھی صورت میں دو سجدہ سہو ادا کرنا ضروری ہے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ایک سجدہ بھول جائے جہاں کھڑا ہونا ضروری ہو مثلاً الحمد اور سورہ پڑھتے وقت وہاں غلطی سے بیٹھ جائے یا جہاں بیٹھنا ضروری ہو مثلاً تشہد پڑھتے وقت وہاں غلطی سے کھڑا ہو جائے تو دو سجدہ سہو ادا کرے بلکہ ہر اس چیز کے لئے جو غلطی سے نماز میں کم یا زیادہ ہو جائے دو سجدہ سہو کر ان چند صورتوں کے احکام آئند مسائل میں بیان ہوں گے۔
۱۲۴۶۔اگر انساں غلطی سے یا اس خیال سے کہ وہ نماز پڑھ چکا ہے کلام کرے تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۴۷۔اس آواز کے لئے جو کھانسنے سے پیدا ہوتی ہے سجدہ سہو واجب نہیں لیکن اگر کوئی غلطی سے نالہ و بکا کرے یا (سرد) آہ بھرے یا (لفظ) آہ کہے تو ضروری ہے کہ احتیاط کی بنا پر سجدہ سہو کرے۔
۱۲۴۸۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز کو جو اس نے غلط پڑھی ہو دوبارہ صحیح طور پر پڑھے تو اس کے دوبارہ پڑھنے پر سجدہ سہو واجب نہیں ہے۔
۱۲۴۹۔ اگر کوئی شخص نماز میں غلطی سے کچھ دیر باتیں کرتا رہے اور عموماً اسے ایک دفعہ بات کرنا سمجھا جاتا ہو تو اس کے لئے نماز کے سلام کے بعد دو سجدہ سہو کافی ہیں۔
۱۲۵۰۔ اگر کوئی شخص غلطی سے تسبیحات اربعہ نہ پڑھے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کے بعد دو سجدہ سہو بجا لائے۔
۱۲۵۱۔ جہاں نماز کا سلام نہیں کہنا چاہئے اگر کوئی شخص غلطی سے اَلسَّلاَمُ عَلَیناَ وَعَلیٰ عِبَادِ اللہ الصَّالِحیِن کہہ دے یا الَسَّلامُ عَلَیکُم کہے تو اگر چہ اس نے "وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہ” نہ کہا ہو تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ دو سجدہ سہو کرے۔ لیکن اگر غلطی سے "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُ اَیّہَا النَّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرَ کَاتُہ” کہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دو سجدے سہو بجا لائے۔
۱۲۵۲۔ جہاں سلام نہیں پڑھنا چاہئے اگر کوئی شخص وہاں غلطی سے تینوں سلام پڑھ لے تو اس کے لئے دو سجدہ سہو کافی ہیں۔
۱۲۵۳۔اگر کوئی شخص ایک سجدہ یا تشہد بھول جائے اور بعد کی رکعت کے رکوع سے پہلے اسے یاد آئے تو ضروری ہے کہ پلٹے اور (سجدہ یا تشہد) بجا لائے اور نماز کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر بے جا قیام کے لئے دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۵۴۔اگر کسی شخس کو رکوع میں یا اس کے بعد یاد آئے کہ وہ اس سے پہلی رکعت میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گیا ہے تو ضروری ہے کہ سلام نماز کے بعد سجدے کی قضا کرے اور تشہد کے لئے دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۵۵۔اگر کوئی شخص نماز کے سلام کے بعد جان بوجھ کر سجدہ سہو نہ کرے تو اس نے گناہ کیا ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جس قدر جلدی ہوسکے اسے ادا کرے اور اگر اس نے بھول کر سجدہ سہو نہیں کیا تو جس وقت بھی اسے یاد آئے ضروری ہے کہ فوراً سجدہ کرے اور اس کے لئے نماز کا دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں۔
۱۲۵۶۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ مثلاً اس پر دو سجدہ سہو واجب ہوئے ہیں یا نہیں تو ان کا بجا لانا اس کے لئے ضروری نہیں۔
۱۲۵۷۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ مثلاً اس پر دو سجدہ سہو واجب ہوئے ہیں یا چار تو اس کا دو سجدے ادا کرنا کافی ہے۔
۱۲۵۸۔ اگر کسی شخص کو علم ہو کہ دو سجدہ سہو میں سے ایک سجدہ سہو نہیں بجا لایا اور تدارک بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ دو سجدہ سہو بجا لائے اور اگر اسے علم ہو کہ اس نے سہواً تین سجدے کئے ہیں تو احتیاط واجب یہ کہ دوبارہ دو سجدہ سہو بجا لائے۔
سجدہ سہو کا طریقہ
۱۲۸۹۔ سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ سلام نماز کے بعد انسان فوراً سجدہ سہو کی نیت کرے اور احتیاط لازم کی بنا پر پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھ دے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ سجدہ سہو میں ذکر پڑھے اور بہتر ہے کہ کہے : "بِسمِ اللہ وَبِاللہ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَیہَا النَّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرکَاتُہ” اس کے بعد اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے اور دوبارہ سجدے میں جائے اور مذکورہ ذکر پڑھے اور بیٹھ جائے اور تشہد کے بعد کہے اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم اور اَولیٰ یہ ہے کہ "وَرَحمۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہ” کا اضافہ کرے۔
بھولے ہوئے سجدے اور تشہد کی قضا
۱۲۶۰۔ اگر انسان سجدہ اور تشہد بھول جائے اور نماز کے بعد ان کی قضا بجا لائے تو ضروری ہے کہ وہ نمازی کی تمام شرائط مثلاً بدن اور لباس کا پاک ہونا اور رو بہ قبلہ ہونا اور دیگر شرائط پوری کرتا ہو۔
۱۲۶۱۔ اگر انسان کئی دفعہ سجدہ کرنا بھول جائے مثلاً ایک سجدہ پہلی رکعت میں اور ایک سجدہ دوسری رکعت میں بھول جائے تو ضروری ہے کہ نماز کے بعد ان دونوں سجدوں کو قضا بجا لائے اور بہتر یہ ہے کہ بھولی ہوئی ہر چیز کے لئے احتیاطاً دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۶۲۔ اگر انسان ایک سجدہ اور ایک تشہد بھول جائے تو احتیاطاً ہر ایک کے لئے دو سجدہ سہو بجا لائے۔
۱۶۶۳۔ اگر انسان دو رکعتوں میں سے دو سجدے بھول جائے تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ قضا کرتے وقت ترتیب سے بجا لائے۔
۱۲۶۴۔ اگر انسان نماز کے سلام اور سجدے کی قضا کے درمیان کوئی ایسا کام کرے جس کے عمداً یا سہواً کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے مثلاً پیٹھ قبلے کی طرف کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ سجدے کی قضا کے بعد دوبارہ نماز پڑھے۔
۱۲۶۵۔ اگر کسی شخص کو نماز کے سلام کے بعد یاد آئے کہ آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشہد بھول گیا ہے تو ضروری ہے کہ لوٹ جائے اور نماز کو تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر بے محل سلام کے لئے دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۶۶۔ اگر ایک شخص نماز کے سلام اور سجدے کی قضا کے درمیان کوئی ایسا کام کرے۔ جس کے لئے سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہو مثلاً بھولے سے کلام کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ پہلے سجدے کی قضا کرے اور بعد میں دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۶۷۔ اگر کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ نماز میں سجدہ بھولا ہے یا تشہد تو ضروری ہے کہ سجدے کی قضا کرے اور دو سجدہ سہو ادا کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تشہد کی بھی قضا کرے۔
۱۲۲۸۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ سجدہ یا تشہد بھولا ہے یا نہیں تو اس کے لئے ان کی قضا کرنا یا سجدہ سہو ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
۱۲۲۹۔ اگر کسی شخص کو علم ہو کہ سجدہ بھول گیا ہے اور شک کرے کہ بعد کی رکعت کے رکوع سے پہلے اسے یاد آیا تھا اور اسے بجا لایا تھا یا نہیں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے کی قضا کرے۔
۱۲۷۰۔ جس شخص پر سجدے کی قضا ضروری ہو، اگر کسی دوسرے کام کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو واجب ہو جائے تو ضروری ہے کہ احتیاط کی بنا پر نماز ادا کرنے کے بعد اولاً سجدے کی قضا کرے اور اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔
۱۲۷۱۔اگر کسی شخص کو شک ہو کہ نماز پڑھنے کے بعد بھولے سجدے کی قضا بجا لایا ہے یا نہیں اور نماز کا وقت نہ گزرا ہو تو اسے چاہئے کہ سجدے کی قضا کرے لیکن اگر نماز کا وقت بھی گزر گیا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی قضا کرنا ضروری ہے۔
نماز کے اجزا اور شرائط کو کم یا زیادہ کرنا
۱۲۷۲۔جب نماز کے واجبات میں سے کوئی چیز جان بوجھ کر کم یا زیادہ کی جائے تو خواہ وہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو نماز باطل ہے۔
۱۲۷۳۔اگر کوئی شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز کے واجب ارکان میں سے کوئی ایک کم کر دے تو نماز باطل ہے۔ اور وہ شخص جو (کسی دور افتادہ مقام پر رہنے کی وجہ سے ) مَسَائل تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہو یا وہ شخص جس نے کسی حجت (معتبر شخص یا کتاب وغیرہ) پر اعتماد کیا ہو اگر واجب غیر رکنی کو کم کرے یا کسی رکن کو زیادہ کرے تو نماز باطل نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اگرچہ کوتاہی کی وجہ سے ہو صبح اور مغرب اور عشا کی نمازوں میں الحمد اور سورہ آہستہ پڑھے یا ظہر اور عصر کی نمازوں میں الحمد اور سورہ آواز سے پڑھے یا سفر میں ظہر، عصر اور عشا کی نمازوں کی چار رکعتیں پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۲۷۴۔ اگر نماز کے دوران کسی شخص کا دھیان اس طرف جائے کہ اس کا وضو یا غسل باطل تھا یا وضو یا غسل کئے بغیر نماز پڑھنے لگا ہے تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور دوبارہ وضو یا غسل کے ساتھ پڑھے اور اگر اس طرف اس کا دھیان نماز کے بعد جائے تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر نماز کا وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے۔
۱۲۷۵۔ اگر کسی شخص کو رکوع میں پہنچنے کے بعد یاد آئے کہ پہلے والی رکعت کے دو سجدے بھول گیا ہے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہے اور اگر یہ بات اسے رکوع میں پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو ضروری ہے کہ واپس مڑے اور دو سجدے بجا لائے اور پھر کھڑا ہو جائے اور الحمد اور سورہ یا تسبیحات پڑھے اور نماز کو تمام کرے اور نماز کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر بے محل قیام کے لئے دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۷۶۔ اگر کسی شخص کو اَلسَّلاَمُ عَلَینَا اور اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم کہنے سے پہلے یاد آئے کہ وہ آخری رکعت کے دو سجدے بجا نہیں لایا تو ضروری ہے کہ دو سجدے بجا لائے اور دوبارہ تشہد اور سلام پڑھے۔
۱۲۷۷۔ اگر کسی شخص کو نماز کے سلام سے پہلے یاد آئے کہ اس نے نماز کے آخری حصے کی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں تو ضروری ہے کہ جتنا حصہ بھول گیا ہو اسے بجا لائے۔
۱۲۷۸۔اگر کسی شخص کو نماز کے سلام کے بعد یاد آئے کہ اس نے نماز کے آخری حصے کی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں اور اس سے ایسا کام بھی سر زد ہو چکا ہو کہ اگر وہ نماز میں عمداً یا سہواً کیا جائے تو نماز کو باطل کر دیتا ہو مثلاً اس نے قبلے کی طرف پیٹھ کی ہو تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس کا عمداً یا سہواً کرنا نماز کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ جتنا حصہ پڑھنا بھول گیا ہو اسے فوراً بجا لائے اور زائد سلام کے لئے احتیاط لازم کی بنا پر دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۷۹۔ جب کوئی شخص نماز کے سلام کے بعد ایک کام انجام دے جو اگر نماز کے دوران عمداً سہواً سجدے بجا نہیں لایا تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر نماز کو باطل کرنے والا کوئی کام کرنے سے پہلے اسے یہ بات یاد آئے تو ضروری ہے کہ جو دو سجدے ادا کرنا بھول گیا ہے انہیں بجا لائے اور دوبارہ تشہد اور سلام پڑھے اور جو سلام پہلے پڑھا ہو اس کے لئے احتیاط واجب کی بنا پر دو سجدہ سہو کرے۔
۱۲۸۰۔ اگر کسی شخص کو پتہ چلے کہ اس نے نماز وقت سے پہلے پڑھ لی ہے تو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کرے۔ اور اگر یہ پتہ چلے کہ قبلے کی طرف پیٹھ کر کے پڑھی ہے اور ابھی وقت نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر چکا ہو اور تردد کا شکار ہو تو قضا ضروری ہے ورنہ قضا ضروری نہیں۔ اور اگر پتہ چلے کہ قبلے کی شمالی یا جنوبی سمت کے درمیان نماز ادا کی ہے اور وقت گزرنے کے بعد پتہ چلے تو قضا ضروری نہیں لیکن اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہو اور قبلے کی سمت تبدیل کرنے سے معذور نہ ہو مثلاً قبلے کی سمت تلاش کرنے میں کوتاہی کی ہو تو احتیاط کی بنا پر دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔
مسافر کی نماز
ضروری ہے کہ مسافر ظہر عصر اور عشا کی نماز آٹھ شرطیں ہوتے ہوئے قصر بجا لائے یعنی دو رکعت پڑھے۔
(پہلی شرط) اس کا سفر آٹھ فرسخ شروع سے کم نہ ہو اور فرسخ شرعی ساڑھے پانچ کیلو میٹر سے قدرے کم ہوتا ہے (میلوں کے حساب سے آٹھ فرسخ شرعی تقریباً ۲۸ میل بنتے ہیں )۔
۱۲۸۱۔ جس شخص کے جانے اور واپس آنے کی مجموعی مسافت ملا کر آٹھ فرسخ ہو اور خواہ اس کے جانے کی یا واپسی کی مسافت چار فرسخ سے کم ہو یا نہ ہو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ اس بنا پر اگر جانے کی مسافت تین فرسخ اور واپسی کی پانچ فرسخ یا اس کے برعکس ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر یعنی دو رکعتی پڑھے۔
۱۲۸۲۔اگر سفر پر جانے اور واپس آنے کی مسافت آٹھ فرسخ ہو تو اگرچہ جس دن وہ گیا ہو اسی دن یا اسی رات کو واپس پلٹ کر نہ آئے ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اس صورت میں بہتر ہے کہ احتیاطاً پوری نماز بھی پڑھے۔
۱۲۸۳۔ اگر ایک مختصر سفر آٹھ فرسخ سے کم ہو یا انسان کو علم نہ ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یا نہیں تو اسے نماز قصر کر کے نہیں پڑھنی چاہئے اور اگر شک کرے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یا نہیں تو اس کے لئے تحقیق کرنا ضروری نہیں اور ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۲۸۴۔ اگر ایک عادل یا قابل اعتماد شخص کسی کو بتائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اور وہ اس کی بات سے مطمئن ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۲۸۵۔ ایسا شخص جسے یقین ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اگر نماز قصر کر کے پڑھے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ آٹھ فرسخ نہ تھا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا لائے۔
۱۲۸۶۔ جس شخص کو یقین ہو کہ جس جگہ وہ جانا چاہتا ہے وہاں کا سفر آٹھ فرسخ نہیں یا شک ہو کہ آٹھ فرسخ ہے یا نہیں اور راستے میں اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ تھا تو گو تھوڑا سا سفر باقی ہو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر پوری نماز پڑھ چکا ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ قصر پڑھے۔ لیکن اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا ضروری نہیں ہے۔
۱۲۸۷۔ اگر دو جگہوں کا درمیانی فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو اور کوئی شخص کئی دفعہ ان کے درمیان جائے اور آئے تو خواہ ان تمام مسافتوں کا فاصلہ ملا کر آٹھ فرسخ بھی ہو جائے اسے نماز پوری پڑھنی ضروری ہے۔
۱۲۸۸۔ اگر کسی جگہ جانے کے دو راستے ہوں اور ان میں سے ایک راستہ آٹھ فرسخ سے کم اور دوسرا آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ ہو تو اگر انسان وہاں راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ نہیں ہے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۲۸۹۔ آٹھ فرسخ کی ابتدا اس جگہ سے حساب کرنا ضروری ہے کہ جہاں سے گزر جانے کے بعد آدمی مسافر شمار ہوتا ہے اور غالباً وہ جگہ شہر کی انتہا ہوتی ہے لیکن بعض بہت بڑے شہروں میں ممکن ہے وہ شہر کا آخری محلہ ہو۔
(دوسری شرط) مسافر اپنے سفر کی ابتدا سے ہی آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو یعنی یہ جانتا ہو کہ آٹھ فرسخ تک کا فاصلہ طے کرے گا لہذا اگر وہ اس جگہ تک کا سفر کرے جو آٹھ فرسخ سے کم ہو اور وہاں پہنچنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانے کا ارادہ کرے جس کا فاصلہ طے کردہ فاصلے سے ملا کر آٹھ فرسخ ہو جاتا ہو تو چونکہ وہ شروع سے آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس لئے ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر وہ وہاں سے آٹھ فرسخ آگے جانے کا ارادہ کرے یا مثلاً چار فرسخ جانا چاہتا ہو اور پھر چار فرسخ طے کر کے اپنے وطن یا ایسی جگہ واپس آنا چاہتا ہو جہاں اس کا ارادہ دس دن ٹھہرنے کا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۲۹۰۔ جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ اس کا سفر کتنے فرسخ کا ہے مثلاً کسی گمشدہ (شخص یا چیز) کو ڈھونڈنے کے لئے سفر کر رہا ہو اور نہ جانتا ہو کہ اسے پا لینے کے لئے اسے کہاں تک جانا پڑے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر واپسی پر اس کے وطن یا اس جگہ تک کا فاصلہ جہاں وہ دس دن قیام کرنا چاہتا ہو آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ بنتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ مزید براں اگر وہ سفر پر جانے کے دوران ارادہ کرے کہ وہ مثلاً چار فرسخ کی مسافت جاتے ہوئے اور چار فرسخ کی مسافت واپس آتے ہوئے طے کرے گا تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۲۹۱۔ مسافر کو نماز قصر کر کے اس صورت میں پڑھنی ضروری ہے جب اس کا آٹھ فرسخ طے کرنے کا پختہ ارادہ ہو لہذا اگر کوئی شخص شہر سے باہر جا رہا ہو اور مثال کے طور پر اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر کوئی ساتھی مل گیا تو آٹھ فرسخ کے سفر پر چلا جاؤں گا اور اسے اطمینان ہو کہ ساتھی مل جائے گا تو اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے اور اگر اسے اس بارے میں اطمینان نہ ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۲۹۲۔جو شخص آٹھ فرسخ سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اگرچہ ہر روز تھوڑا فاصلہ طے کرے اور جب حَدِّ تَر خُّص۔ جس کے معنی مسئلہ ۱۳۲۷ میں آئیں گے۔ تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر ہر روز بہت کم فاصلہ طے کرے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اپنی نمازی پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے۔
۱۲۹۳۔ جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں ہو مثلاً نوکر جو اپنے آقا کے ساتھ سفر کر رہا ہو اگر اسے علم ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ کا ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر اسے علم نہ ہو تو پوری نماز پڑھے اور اس بارے میں پوچھنا ضروری نہیں۔
۱۲۹۴۔ جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں ہو اگر وہ جانتا ہو یا گمان رکھتا ہو کہ چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اس سے جدا ہو جائے گا اور سفر نہیں کرے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۲۹۵۔ جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں ہو اگر اسے اطمینان نہ ہو کہ چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اس سے جدا نہیں ہو گا اور سفر جاری رکھے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر اسے اطمینان ہو اگرچہ احتمال بہت کم ہو کہ اس کے سفر میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو گی تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(تیسری شرط) راستے میں مسافر اپنے ارادے سے پھر نہ جائے۔ پس اگر وہ چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنا ارادہ بدل دے یا اس کا ارادہ مُتَزَلزل ہو جائے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۲۹۶۔ اگر کوئی کوئی کچھ فاصلہ طرے کرنے کے بعد جو کہ واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور پختہ ارادہ کر لے کہ اسی جگہ رہے گا یا دس دن گزرنے کے بعد واپس جائے گا یا واپس جانے اور ٹھہرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پائے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۲۹۷۔ اگر کوئی شخص کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد جو کہ واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور واپس جانے کا پختہ ارادہ کر لے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اگرچہ وہ اس جگہ دس دن سے کم مدت کے لئے ہی رہنا چاہتا ہو۔
۱۲۹۸۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ جانے کے لئے جو آٹھ فرسخ دور ہو سفر شروع کرے اور کچھ راستہ طے کرنے کے بعد کسی اور جگہ جانا چاہے اور جس جگہ سے اس نے سفر شروع کیا ہے وہاں سے اس جگہ تک جہان وہ اب جانا چاہتا ہے آٹھ فرسخ بنتے ہوں تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۲۹۹۔ اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ تک فاصلہ طے کرنے سے پہلے متردد ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور دوران تردد سفر نہ کرے اور بعد میں باقی راستہ طے کرنے کا پختہ ارادہ کر لے تو ضروری ہے کہ سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔
۱۳۰۰۔اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصلہ طے کرنے سے پہلے تردد کا شکار ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں۔ اور حالت تردد میں کچھ فاصلہ طے کر لے اور بعد میں پختہ ارادہ کر لے کہ آٹھ فرسخ مزید سفر کرے گا یا ایسی جگہ جائے کہ جہاں تک اس کا جانا اور آنا آٹھ فرسخ ہو خواہ اسی دن یا اسی رات وہاں سے واپس آئے یا نہ آئے اور وہاں دس دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو ضروری ہے کہ سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔
۱۳۰۱۔ اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصلہ طے کرنے سے پہلے متردد ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور حالت تردد میں کچھ فاصلہ طے کر لے اور بعد میں پختہ ارادہ کر لے کہ باقی راستہ بھی طے کرے گا چنانچہ اس کا باقی سفر آٹھ فرسخ سے کم ہو تو پوری نماز پڑھنا ضروری ہے۔ لیکن اس صورت میں جبکہ تردد سے پہلی کی طے کردہ مسافت اور تردد کے بعد کی طے کردہ مسافت ملا کر آٹھ فرسخ ہو تو اظہر یہ ہے کہ نماز قصر پڑھے۔
(چوتھی شرط) مسافر آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرنے اور وہاں توقف کرنے یا کسی جگہ دس دن یا اس سے زیادہ دن رہنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ پس جو شخص یہ چاہتا ہو کہ آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے اور وہاں توقف کرے یا دس دن کسی جگہ پر رہے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔
۱۳۰۲۔ جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے گا یا توقف کرے گا یا نہیں یا کسی جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کرے گا یا نہیں تو ضروری ہے ک پوری پڑھے۔
۱۳۰۳۔ وہ شخص جو آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرنا چاہتا ہو تا کہ وہاں توقف کرے یا کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اور وہ شخص بھی جو وطن سے گزرنے یا کسی جگہ دس دن رہنے کے بارے میں مُتَردِّد ہو اگر وہ دس دن کہیں رہنے یا وطن سے گزرنے کا ارادہ ترک بھی کر دے تب بھی ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر باقی ماندہ اور واپسی کا راستہ ملا کر آٹھ فرسخ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(پانچویں شرط) مسافر حرام کام کے لئے سفر نہ کرے اور اگر حرام کام مثلاً چوری کرنے کے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ اور اگر خود سفر ہی حرام ہو مثلاً اس سفر میں اس کے لئے کوئی ایسا ضرر مُضمَر ہو جس کی جانب پیش قدمی شرعاً حرام ہو یا عورت شوہر کی اجازت کے بغیر ایسے سفر پر جائے جو اس پر واجب نہ ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر سفر حج کے سفر کی طرح واجب ہو تو نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے۔
۱۳۰۴۔جو سفر واجب نہ ہو اگر ماں باپ کی اولاد سے محبت کی وجہ سے ان کے لئے اذیت کا باعث ہو تو حرام ہے اور ضروری ہے کہ انسان اس سفر میں پوری نماز پڑھے اور (رمضان کا مہینہ ہو تو) روزہ بھی رکھے۔
۱۳۰۵۔ جس شخص کا سفر حرام نہ ہو اور وہ کسی حرام کام کے لئے بھی سفر نہ کر رہا ہو وہ اگرچہ سفر میں گناہ بھی کرے مثلاً غیبت کرے یا شراب پئے تب بھی ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۰۶۔ اگر کوئی شخص کسی واجب کام کو ترک کرنے کے لئے سفر کرے تو خواہ سفر میں اس کی کوئی دوسری غرض ہو یا نہ ہو اسے پوری نماز پڑھنی چاہئے۔ پس جو شخص مقروض ہو اور اپنا قرض چکا سکتا ہو اور قرض خواہ مطالبہ بھی کرے تو اگر وہ سفر کرتے ہوئے اپنا قرض چکا سکتا ہو اور قرض خواہ مطالبہ بھی کرے تو اگر وہ سفر کرتے ہوئے اپنا قرض ادا نہ کرسکے اور قرض چکانے سے فرار حاصل کرنے کے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر اس کا سفر کسی اور کام کے لئے ہو تو اگرچہ وہ سفر میں ترک واجب کا مرتکب بھی ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۰۷۔اگر کسی شخص کا سفر میں سواری کا جانور یا سواری کی کوئی اور چیز جس پر وہ سوار ہو غصبی ہو یا اپنے مالک سے فرار ہونے کے لئے سفر کر رہا ہو یا وہ غصبی زمین پر سفر کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۳۰۸۔ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ سفر کر رہا ہو اگر وہ مجبور نہ ہو اور اس کا سفر کرنا ظالم کی ظلم کرنے میں مدد کا موجب ہو تو اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہے اور اگر مجبور ہو یا مثال کے طور پر کسی مظلوم کو چھڑانے کے لئے اس ظالم کے ساتھ سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہو گی۔
۱۳۰۹۔ اگر کوئی شخص سیروتفریح (یعنی پکنک) کی غرض سے سفر کرے تو اس کا سفر حرام نہیں ہے اور ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۱۰۔ اگر کوئی شخص موج میلے اور سیرو تفریح کے لئے شکار کو جائے تو اس کی نماز جاتے وقت پوری ہے اور واپسی پر اگر مسافت کی حد پوری ہو تو قصر ہے۔ اور اس صورت میں کہ اس کی حد مسافت پوری ہو اور شکار پر جانے کی مانند نہ ہو لہذا اگر حصول معاش کے لئے شکار کو جائے تو اس کی نماز قصر ہے اور اگر کمائی اور افزائش دولت کے لئے جائے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے اگرچہ اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ نماز قصر کر کے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
۱۳۱۱۔اگر کوئی شخص گناہ کا کام کرنے کے لئے سفر کرے اور سفر سے واپسی کے وقت فقط اس کی واپسی کا سفر آٹھ فرسخ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر اس نے توبہ نہ کی ہو تو نماز قصر کر کے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
۱۳۱۲۔ جس شخص کا سفر گناہ کا سفر ہو اگر وہ سفر کے دوران گناہ کا ارادہ ترک کر دے خواہ باقی ماندہ مسافت یا کسی جگہ جانا اور واپس آنا آٹھ فرسخ ہو یا نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۱۳۔جس شخص نے گناہ کرنے کی غرض سے سفر نہ کیا ہو اگر وہ راستے میں طے کرے کہ بقیہ راستہ گناہ کے لئے طے کرے گا تو اسے چاہئے کہ نماز پوری پڑھے البتہ اس نے جو نمازیں قصر کر کے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں۔
(چھٹی شرط) ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کے قیام کی کوئی (مستقل) جگہ نہیں ہوتی اور ان کے گھر ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یعنی ان صحرا نشینوں (خانہ بدوشوں ) کی مانند جو بیابانوں میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں کہیں اپنے لئے اور اپنے مویشیوں کے لئے دانہ پانی دیکھتے ہیں وہیں ڈیرا ڈال دیتے ہیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ایسے لوگ سفر میں پوری نماز پڑھیں۔
۱۳۱۴۔ اگر کوئی صحرا نشین مثلاً جائے قیام اور اپنے حیوانات کے لئے چراگاہ تلاش کرنے کے لئے سفر کرے اور مال و اسباب اس کے ہمراہ ہو تو وہ پوری نماز پڑھے ورنہ اگر اس کاسفرآٹھ فرسخ ہو تو نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۱۵۔اگر کوئی صحرا نشین مثلاً حج، زیارت، تجارت یا ان سے ملتے جلتے کسی مقصد سے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(ساتویں شرط) اس شخص کا پیشہ سفر نہ ہو۔ پس جس شخص کا پیشہ سفر ہو یعنی یا تو اس کا کام ہی فقط سفر کرنا ہو اس حد تک کہ لوگ اسے کثیر السفر کہیں یا جو پیشہ اس نے اپنے لئے اختیار کیا ہو اس کا انحصار سفر کرنے پر ہو مثلاً ساربان، ڈرائیور، گلہ بان اور ملاح۔ اس قسم کے افراد اگرچہ اپنے ذاتی مقصد مثلاً گھر کا سامان لے جانے یا اپنے گھر والوں کو منتقل کرنے کے لئے سفر کریں تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھیں۔ اور جس شخص کا پیشہ سفر ہو اس مسئلے میں اس شخص کے لئے بھی یہی حکم ہے جو کسی دوسری جگہ پر کام کرتا ہو (یا اس کی پوسٹنگ دوسری جگہ پر ہو) اور وہ ہر روز یا دو دن میں ایک مرتبہ وہاں تک کا سفر کرتا ہو اور لوٹ آتا ہو۔مثلاً وہ شخص جس کی رہائش ایک جگہ ہو اور کام مثلاً تجارت، معلمی وغیرہ دوسری جگہ ہو۔
۱۳۱۶۔جس شخص کے پیشے کا تعلق سفر سے ہو اگر وہ کسی دوسرے مقصد مثلاً حج یا زیارت کے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر عرف عام میں کثیرالسفر کہلاتا ہو تو قصر نہ کرے لیکن اگر مثال کے طور پر ڈرائیور اپنی گاڑی زیارت کے لئے کرائے پر چلائے اور ضمناً خود بھی زیارت کرے تو ہر حال میں ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۳۱۷۔وہ بار بردار جو حاجیوں کو مکہ پہنچانے کے لئے سفر کرتا ہو اگر اس کا پیشہ سفر کرنا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر اس کا پیشہ سفر کرنا نہ ہو اور صرف حج کے دنوں میں بار برداری کے لئے سفر کرتا ہو تو اس کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز پوری بھی پڑھے اور قصر کر کے بھی پڑھے لیکن اگر سفر کی مدت کم ہو مثلاً دو تین ہفتے تو بعید نہیں ہے کہ اس کے لئے نماز قصر کر کے پڑھنے کا حکم ہو۔
۱۳۱۸۔ جس شخص کا پیشہ بار برداری ہو اور وہ دور دراز مقامات سے حاجیوں کو مکہ لے جاتا ہو اگر وہ سال کا کافی حصہ سفر میں رہتا ہو تو اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہے۔
۱۳۱۹۔ جس شخص کا پیشہ سال کے کچھ حصے میں سفر کرنا ہو مثلاً ایک ڈرائیور جو صرف گرمیوں یا سردیوں کے دنوں میں اپنی گاڑی کرائے پر چلاتا ہو ضروری ہے کہ اس سفر میں نماز پوری پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کو قصر کر کے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
۱۳۲۰۔ ڈرائیور اور پھیری والا جو شہر کے آس پاس دو تین فرسخ میں آتا جاتا ہو اگر وہ اتفاقاً آٹھ فرسخ کے سفر پر چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۲۱۔ جس کا پیشہ ہی مسافرت ہے اگر دس دن یا اس سے زیادہ عرصہ اپنے وطن میں رہ جائے تو خواہ ابتدا سے دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو یا بغیر ارادے کے اتنے دن رہے تو ضروری ہے کہ دس دن کے بعد جب پہلے سفر پر جائے تو نماز پوری پڑھے اور اگر اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ رہنے کا قصد کر کے یا بغیر قصد کے دس دن وہاں مقیم رہے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
۱۳۲۲۔ چار ۱ وادار جس کا پیشہ سفر کرنا ہو اگر وہ اپنے وطن یا وطن کے علاوہ کسی اور جگہ قصد کر کے یا بغیر قصد کے دس دن رہے تو احتیاط مستحب ہے کہ دس دن کے بعد جب وہ پہلا سفر کرے تو نمازیں مکمل اور قصر دونوں پڑھے۔
۱۳۲۳۔ چار وادار اور ساربان کی طرح جن کا پیشہ سفر کرنا ہے اگر معمول سے زیادہ سفر ان کی مشقت اور تھکاوٹ کا سبب ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھیں۔
۱۳۲۴۔ سیلانی کہ جو شہر بہ شہر سیاحت کرتا ہو اور جس نے اپنے لئے کوئی وطن معین نہ کیا ہو وہ پوری نماز پڑھے۔
۱۳۲۵۔جس شخص کا پیشہ سفر کرنا نہ ہو اگر مثلاً کسی شہر یا گاوں میں اس کا کوئی سامان ہو اور وہ اسے لینے کے لئے سفر پر سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ مگر یہ کہ اس کا سفر اس قدر زیادہ ہو کہ اسے عرفاً کثیرالسفر کہا جائے۔
۱۳۲۶۔ جو شخص ترک وطن کر کے دوسرا وطن اپنانا چاہتا ہو اگر اس کا پیشہ سفر نہ ہو تو سفر کی حالت میں اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے۔
(آٹھویں شرط) مسافر حدِّ تَرخّص تک پہنچ جائے لیکن وطن کے علاوہ حَدِّخُّض معتبر نہیں ہے اور جو نہی کوئی شخص اپنی اقامت گاہ سے نکلے اس کی نماز قصر ہے۔
۱۳۲۷۔ حدترخض وہ جگہ ہے جہاں سے اہل شہر مسافر کو نہ دیکھ سکیں اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل شہر کو نہ دیکھ سکے۔
۱۳۲۸۔ جو مسافر اپنے وطن واپس آ رہا ہو جب تک وہ اپنے وطن واپس نہ پہنچے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اور ایسے ہی جو مسافر وطن کی علاوہ کسی اور جگہ دس دن ٹھہرنا چاہتا ہو وہ جب تک اس جگہ نہ پہنچے اس کی نماز قصر ہے۔
۱۳۲۹۔ اگر شہر اتنی بلندی پر واقع ہو کہ وہاں کے باشندے دور سے دکھائی دیں یا اس قدر نشیب میں واقع ہو کہ اگر انسان تھوڑا سا دور بھی جائے تو وہاں کے باشندوں کو نہ دیکھ سکے تو اس شہر کے رہنے والوں میں سے جو شخص سفر میں ہو جب وہ اتنا دور چلا جائے کہ اگر وہ شہر ہموار زمین پر ہوتا تو وہاں کے باسندے اس جگہ سے دیکھے نہ جا سکتے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر راستے کی بلندی یا پستی معمول سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ معمول کا لحاظ رکھے۔
۱۳۳۰۔ اگر کوئی شخص ایسی جگہ سے سفر کرے جہاں کوئی رہتا نہ ہو تو جب وہ ایسی جگہ پہنچے کہ اگر کوئی اس مقام (یعنی سفر شروع کرنے کے مقام) پر رہتا ہوتا تو وہاں سے نظر نہ آتا تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۳۱۔ کوئی شخص کشتی یا ریل میں بیٹھے اور حد ترخص تک پہنچنے سے پہلے پوری نماز کی نیت سے نماز پڑھنے لگے تو اگر تیسی رکعت کے رکوع سے پہلے حد ترخص تک پہنچ جائے تو قصر نماز پڑھنا ضروری ہے۔
۱۳۳۲۔جو صورت پچھلے مسئلے میں گزر چکی ہے اس کے مطابق اگر تیسری رکعت کے رکوع کے بعد حد ترخص تک پہنچے تو اس نماز کو توڑ سکتا ہے اور ضروری ہے کہ اسے قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۳۳۔ اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ حدترخص تک پہنچ چکا ہے اور نماز قصر کر کے پڑھے اور اس کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے وقت حدترخص تک نہیں پہنچا تھا تو نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ چنانچہ جب تک حدترخص تک نہ پہنچا ہو تو نمازی پوری پڑھنا ضروری ہے۔ اور اس صورت میں جب کہ حدترخص سے گزر چکا ہو نماز قصر کر کے پڑھے۔ اور اگر وقت نکل چکا ہو تو نماز کو اس کے فوت ہوتے وقت جو حکم تھا اس کے مطابق ادا کرے۔
۱۳۳۴۔ اگر مسافر کی قوت باصرہ غیر معمولی ہو تو اسے اس مقام پر پہنچ کر نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے جہاں سے متوسط قوت کی آنکھ اہل شہر کو نہ دیکھ سکے۔
۱۳۳۵۔ اگر مسافر کو سفر کے دوران کسی مقام پر شک ہو کہ حدِّ ترخّص پر پہنچا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
۱۳۳۶۔ جو مسافر سفر کے دوران اپنے وطن سے گزر رہا ہو اگر وہاں توقف کرے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر توقف نہ کرے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ قصر اور پوری نماز دونوں پڑھے۔
۱۳۳۷۔ جو مسافر اپنی مسافرت کے دوران اپنے وطن پہنچ جائے اور وہاں کچھ دیر ٹھہرے تو ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے پوری نماز پڑھے لیکن اگر وہ چاہے کہ وہاں سے آٹھ فرسخ کے فاصلے پر چلا جائے یا مثلاً چار فرسخ جائے اور پھر چار فرسخ طے کر کے لوٹے تو جس وقت وہ حدِّ ترخّص پر پہنچے ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۳۸۔ جس جگہ کو انسان نے اپنی مستقل سکونت اور بود و باش کے لئے منتخب کیا ہو وہ اس کا وطن ہے خواہ وہ وہاں پیدا ہوا ہو اور وہ اس کا آبائی وطن ہو یا اس نے خود اس جگہ کو زندگی بسر کرنے کے لئے اختیار کیا ہو۔
۱۳۳۹۔ اگر کوئی شخص ارادہ رکھتا ہو کہ تھوڑی سی مدت ایک ایسی جگہ رہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور بعد میں کسی اور جگہ چلا جائے تو وہ اس کا وطن تصور نہیں ہوتا۔
۱۳۴۰۔ اگر انسان کسی جگہ کو زندگی گزارنے کے لئے اختیار کرے اگرچہ وہ ہمیشہ رہنے کا قصد نہ رکھتا ہو تاہم ایسا ہو کہ عرف عام میں اسے وہاں مسافر نہ کہیں اور اگرچہ وقتی طور پر دس دن یا دس دن سے زیادہ دوسری جگہ رہے اس کے باوجود پہلی جگہ ہی کو اس زندگی گزارنے کی جگہ کہیں گے اور وہی جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے۔
۱۳۴۱۔ جو شخص دو مقامات پر زندگی گزارتا ہو مثلاً چھ مہینے ایک شہر میں اور چھ مہینے دوسرے شہر میں رہتا ہو تو دونوں مقامات اس کا وطن ہیں۔ نیز اگر اس نے دو مقامات سے زیادہ مقامات کو زندگی بسر کرنے کے لئے اختیار کر رکھا ہو تو وہ سب اس کا وطن شمار ہوتے ہیں۔
۱۳۴۲۔بعض فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص کسی ایک جگہ سکونتی مکان کا مالک ہو اگر وہ مسلسل چھ مہینے وہاں رہے تو جس وقت تک مکان اس کی ملکیت میں ہے یہ جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے۔ پس جب بھی وہ سفر کے دوران وہاں پہنچے ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اگرچہ یہ حکم ثابت نہیں ہے۔
۱۳۴۳۔ اگر ایک شخص کسی ایسے مقام پر پہنچے جو کسی زمانے میں اس کا وطن رہا ہو اور بعد میں اس نے اسے ترک کر دیا ہو تو خواہ اس نے کوئی نیا وطن اپنے لئے منتخب نہ بھی کیا ہو ضروری ہے کہ وہاں پوری نماز پڑھے۔
۱۳۴۴۔ اگر کسی مسافر کا کسی جگہ پر مسلسل دس دن رہنے کا ارادہ ہو یا وہ جانتا ہو کہ بہ امر مجبوری دس دن تک ایک جگہ رہنا پڑے گا تو وہاں اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہے۔
۱۳۴۵۔ اگر کوئی مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کا ارادہ پہلی رات یا گیارہویں رات وہاں رہنے کا ہو جو نہی وہ ارادہ کرے کہ پہلے دن کے طلوع آفتاب سے دسویں دن کے غروب آفتاب تک وہاں رہے گا ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور مثال کے طور پر اس کا ارادہ پہلے دن کی ظہر سے گیارہویں دن کی ظہر تک وہاں رہنے کا ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
۱۳۴۶۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اسے اس صورت میں پوری نماز پڑھنی ضروری ہے جب وہ سارے کے سارے دن ایک جگہ رہنا چاہتا ہو۔ پس اگر وہ مثال کے طور پر چاہے کہ دس دن نَجَف اور کوفہ یا تہران اور شمیران (یا کراچی اور گھارو) میں رہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۴۷۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر شروع سے ہی قصد رکھتا ہو کہ ان دس دنوں کے درمیان اس جگہ کے آس پاس ایسے مقامات پر جائے گا جو حدِّ تَرخّص تک یا اس سے زیادہ دور ہوں تو اگر اس کے جانے اور آنے کی مدت عرف میں دس دن قیام کے منافی نہ ہو تو پوری نماز پڑھے اور اگر منافی ہو تو نماز قصر کر کے پڑھے۔ مثلاً اگر ابتداء ہی سے ارادہ ہو کہ ایک دن یا ایک رات کے لئے وہاں سے نکلے گا تو یہ ٹھہرنے کے قصر کے منافی ہے اور ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر اس کا قصد یہ ہو کہ مثلاً آدھے دن بعد نکلے گا اور پھر فوراً لوٹے گا اگرچہ اس کی واپسی رات ہونے کے بعد ہو تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے۔ مگر اس صورت میں کہ اس کے بار بار نکلنے کی وجہ سے عرفاً یہ کہا جائے کہ دو یا اس زیادہ جگہ قیام پذیر ہے (تو نماز قصر پڑھے )
۱۳۴۸۔ اگر کسی مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا مُصَمّمَ ارادہ نہ ہو مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر اس کا ساتھی آگیا یا رہنے کو اچھا مکان مل گیا تو دس دن وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۴۹۔ جب کوئی شخص کسی جگہ دس دن رہنے کا مصَمَّم ارادہ نہ ہو مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر اس کہ اس کے وہاں رہنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو گی اور اس کا یہ احتمال عقلاء کے نزدیک معقول ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۵۰۔ اگر مسافر کو علم ہو کہ مہینہ ختم ہونے میں مثلاً دس یا دس سے زیادہ دن باقی ہیں اور کسی جگہ مہینے کے آخر تک رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے لیکن اگر اسے علم نہ ہو کہ مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں اور مہینے کے آخر تک وہاں رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اگرچہ جس وقت اس نے ارادہ کیا تھا اس وقت سے مہینہ کے آخری دن تک دس یا اس سے زیادہ دن بنتے ہوں۔
۱۳۵۱۔ اگر مسافر کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے پہلے وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا مذبذب ہو کہ وہاں رہے یا کہیں اور چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا مُذَبذِب ہو جائے تو ضروری ہے کہ جس وقت تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔
۱۳۵۲۔ اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو روزہ رکھ لے اور ظہر کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے جب کہ اس نے ایک چار رکعتی نماز پڑھ لی ہو تو جب تک وہ وہاں رہے اس کے روزے درست ہیں اور ضروری ہے کہ اپنی نمازیں پوری پڑھے اور اگر اس نے چار رکعتی نماز نہ پڑھی ہو تو احتیاطاً اس دن کا روزہ پورا کرنا نیز اس کی قضا رکھنا ضروری ہے۔ اور ضروری ہے کہ اپنی نماز نمازیں قصر کر کے پڑھے اور بعد کے دنوں میں وہ روزہ بھی نہیں رکھ سکتا۔
۱۳۵۳۔ اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے اور شک کرے کہ وہاں رہنے کا ارادہ ترک کرنے سے پہلے ایک چار رکعتی نماز پڑھی تھی یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۵۴۔ اگر کوئی مسافر نماز کو قصر کر کے پڑھنے کی نیت سے نماز میں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران مُصَمَّم ارادہ کر لے کہ دس یا اس سے زیادہ دن وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ نماز کو چار رکعتی پڑھ کر ختم کرے۔
۱۳۵۵۔ اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو پہلی چار رکعتی نماز کے دوران اپنے ارادے سے باز آ جائے اور ابھی تیسری رکعت میں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ دو رکعتی پڑھ کر ختم کرے اور اپنی باقی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر تیسری رکعت میں مشغول ہو گیا ہو اور رکوع میں نہ گیا ہو تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور نماز کو بصورت قصر ختم کرے اور اگر رکوع میں چلا گیا ہو تو اپنی نماز توڑ سکتا ہے اور ضروری ہے کہ اس نماز کو دوبارہ قصر کر کے پڑھے اور جب تک وہاں رہے نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۵۶۔ جس مسافر نے دس دن کسی جگہ رہنے کا ارادہ کیا ہو اگر وہ وہاں دس سے زیادہ دن رہے تو جب تک وہاں سے سفر نہ کرے ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ دوبارہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے۔
۱۳۵۷۔ جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ واجب روزے رکھے اور مستحب روزہ بھی رکھ سکتا ہے اور ظہر، عصر اور عشا کی نفلیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
۱۳۵۸۔ اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگہ دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد یا وہاں دس دن رہنے کے بعد اگرچہ اس نے ایک بھی پوری نماز نہ پڑھی ہو یہ چاہے کہ ایک ایسی جگہ جائے جو چار فرسخ سے کم فاصلے پر ہو اور پھر لوٹ آئے اور اپنی پہلی جگہ پر دس دن یا اس سے کم مدت کے لئے جائے تو ضروری ہے کہ جانے کے وقت سے واپسی تک اور واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔ لیکن اگر اس کا اپنی اقامت کے مقام پر واپس آنا فقط اس وجہ سے ہو کہ وہ اس کے سفر کے راستے میں واقع ہو اور اس کا سفر شرعی مسافت (یعنی آٹھ فرسخ) کا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جانے اور آنے کے دوران اور ٹھہرنے کی جگہ میں نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۵۹۔ اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد چاہے کہ کسی اور جگہ چلا جائے جس کا فاصلہ آٹھ فرسخ سے کم ہو اور دس دن وہاں رہے تو ضروری ہے کہ روانگی کے وقت اور اس جگہ جہاں پر وہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اپنی نمازیں پوری پڑھے لیکن اگر وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہو آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ دور ہو تو ضروری ہے کہ روانگی کے وقت اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور اگر وہ وہاں دس دن نہ رہنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ جتنے دن وہاں رہے ان دنوں کی نمازیں بھی قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۶۰۔ اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانا چاہے جس کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو اور مُذَبذِب ہو کہ اپنی پہلی جگہ پر واپس آئے یا نہیں یا اس جگہ واپس آنے سے بالکل غافل ہو یا یہ چاہے کہ واپس ہو جائے لیکن مُذَبذِب ہو کہ دس دن اس جگہ ٹھہرے یا نہیں یا وہاں دس دن رہنے اور وہاں سے سفر کرنے سے غافل ہو جائے تو ضروری ہے کہ جانے کے وقت سے واپسی تک اور واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔
۱۳۶۱۔ اگر کوئی مسافر اس خیال سے کہ اس کے ساتھی کسی جگہ دس دن رہنا چاہتے ہیں اس جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس کے ساتھیوں نے ایسا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تو اگرچہ وہ خود بھی وہاں رہنے کا خیال ترک کر دے ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔
۱۳۶۲۔ اگر کوئی مسافر اتفاقاً کسی جگہ تیس دن رہ جائے مثلاً تیس کے تیس دنوں میں وہاں سے چلے جانے یا وہاں رہنے کے بارے میں مُذَبزِب رہا ہو تو تیس دن گزرنے کے بعد اگرچہ وہ تھوڑی مدت ہی وہاں رہے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔
۱۳۶۳۔ جو مسافر نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے ایک جگہ رہنا چاہتا ہو اگر وہ اس جگہ نو دن یا اس سے کم مدت گزرانے کے بعد نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے دوبارہ وہاں رہنے کا ارادہ کرے اور اسی طرح تیس دن گزر جائیں تو ضروری ہے کہ اکتیسویں دن پوری نماز پڑھے۔
۱۳۶۴۔ تیس دن گزرنے کے بعد مسافر کو اس صورت میں نماز پوری پڑھنی ضروری ہے جب وہ تیس دن ایک ہی جگہ رہا ہو پس اگر اس نے اس مدت کا کچھ حصہ ایک جگہ اور کچھ حصہ دوسری جگہ گزارا ہو تو تیس دن کے بعد بھی اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے۔
مُتَفَرِّق مَسَائِل
۱۳۶۵۔ مسافر مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد کوفہ میں بلکہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور کوفہ کے پورے شہروں میں اپنی نماز پوری پڑھ سکتا ہے نیز حضرت سَیِّدُالشہداء علیہ السلام کے حَرم میں بھی قبر مُطَہر سے ۱۴ گز کے فاصلے تک مسافر اپنی نماز پوری پڑھ سکتا ہے۔
۱۳۶۶۔ اگر کوئی ایسا شخص جسے معلوم ہو کہ وہ مسافر ہے اور اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے ان چار جگہوں کے علاوہ جن کا ذکر سابقہ مسئلہ میں کیا گیا ہے کسی اور جگہ جان بوجھ کر پوری نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر بھول جائے کہ مسافر کو نماز قصر کر کے پڑھنی چاہئے اور پوری نماز پڑھ لے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے لیکن بھول جانے کی صورت میں اگر اسے نماز کے وقت کے بعد یہ بات یاد آئے تو اس نماز کا قضا کرنا ضروری نہیں۔
۱۳۶۷۔جو شخص جانتا ہو کہ وہ مسافر ہے اور اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے اگر وہ بھول کر پوری نماز پڑھ لے اور بروقت متوجہ ہو جائے تو نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر وقت گزرنے کے بعد متوجہ ہو تو احتیاط کی بنا پر قضا کرنا ضروری ہے۔
۱۳۶۸۔ جو مسافر یہ نہ جانتا ہو کہ اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے اگر وہ پوری نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۳۶۹۔ جو مسافر جانتا ہو کہ اسے نماز قصر کر کے پڑھنی چاہئے اگر وہ قصر نماز کے بعض خصوصیات سے ناواقف ہو مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ آٹھ فرسخ کے سفر میں نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے تو اگر وہ پوری نماز پڑھ لے اور نماز کے وقت میں اس مسئلے کا پتہ چل جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر دوبارہ نہ پڑھے تو اس کی قضا کرے لیکن اگر نماز کا وقت گزرنے کے بعد اسے (حکم مسئلہ) معلوم ہو تو اس نماز کی قضا نہیں ہے۔
۱۳۷۰۔ اگر ایک مسافر جانتا ہو کہ اسے نماز قصر کر کے پڑھنی چاہئے اور وہ اس گمان میں پوری نماز پڑھ لے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ سے کم ہے تو جب اسے پتہ چلے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ کا تھا تو ضروری ہے کہ جو نماز پوری پڑھی ہو اسے دوبارہ قصر کر کے پڑھے اور اگر اسے اس بات کا پتہ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد چلے تو قضا ضروری نہیں۔
۱۳۷۱۔ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ وہ مسافر ہے اور پوری نماز پڑھ لے اور اسے نماز کے وقت کے اندر ہی یاد آ جائے تو اسے چاہئے کہ قصر کر کے پڑھے اور اگر نماز کے وقت کے بعد یاد آئے تو اس نماز کی قضا اس پر واجب نہیں۔
۱۳۷۲۔ جس شخس کو پوری نماز پڑھنی ضروری ہے اگر وہ اسے قصر کر کے پڑھے تو اس کی نماز ہر صورت میں باطل ہے اگرچہ احتیاط کی بنا پر ایسا مسافر ہو جو کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اور مسئلے کا حکم نہ جاننے کی وجہ سے نماز قصر کر کے پڑھی ہو۔
۱۳۷۳۔ اگر ایک شخص چار رکعتی نماز پڑھ رہا ہو اور نماز کے دوران اسے یاد آئے کہ وہ تو مسافر ہے یا اس امر کی طرف متوجہ ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اور وہ ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نہ گیا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو دو رکعتوں پر ہی تمام کر دے اور اگر تیسری رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے اور اگر اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کے لئے بھی وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو نئے سرے سے قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۷۴۔ اگر کسی مسافر کو "نماز مسافر” کی بعض خصوصیات کا علم نہ ہو مثلاً وہ یہ جانتا ہو کہ اگر چار فرسخ تک جائے اور واپسی میں چار فرسخ کا فاصلہ طے کرے تو اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے اور چار رکعت والی نماز کی نیت سے نماز میں مشغول ہو جائے اور تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے مسئلہ اس کی سمجھ میں آ جائے تو ضروری ہے کہ نماز کو دو رکعتوں پر ہی تمام کر دے اور اگر وہ رکوع میں اس امر کی جانب متوجہ ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے اور اس صورت میں اگر اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کے لئے بھی وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو نئے سرے سے قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۷۵۔ جس مسافر کو پوری نماز پڑھنی ضروری ہو اگر وہ مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے دو رکعتی نماز کی نیت سے نماز پڑھنے لگے اور نماز کے دوران مسئلہ اس کی سمجھ میں آ جائے تو ضروری ہے کہ چار رکعتیں پڑھ کر نماز کو تمام کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز ختم ہونے کے بعد دوبارہ اس نماز کو چار رکعتی پڑھے۔
۱۳۷۶۔ جس مسافر نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو اگر وہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اپنے وطن پہنچ جائے یا ایسی جگہ پہنچے جہاں دس دن رہنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور جو شخص مسافر نہ ہو اگر اس نے نماز کے اول وقت میں نماز نہ پڑھی ہو اور سفر اختیار کرے تو ضروری ہے کہ سفر میں نماز قصر کر کے پڑھے۔
۱۳۷۷۔ جس مسافر کو نماز قصر کر کے پڑھنا ضروری ہو اگر اس کی ظہر یا عصر یا عشا کی نماز قضا ہو جائے تو اگرچہ وہ اس کی قضا اس وقت بجا لائے جب وہ سفر میں نہ ہو ضروری ہے کہ اس کی دو رکعتی قضا کرے۔ اور اگر ان تین نمازوں میں سے کسی ایسے شخص کی کوئی نماز قضا ہو جائے جو مسافر نہ ہو تو ضروری ہے کہ چار رکعتی قضا بجا لائے اگرچہ یہ قضا اس وقت بجا لائے جب وہ سفر میں ہوا۔
۱۳۷۸۔مستحب ہے کہ مسافر ہر قصر کے نماز کے بعد تیس مرتبہ سُبحَانَ اللہ وَالحَمدُ لِلّٰہ وَلاَ اِلٰہ اِلاَّ اللہ وَاللہ اَکبَرُ کہے اور ظہر، عصر اور عشا کی تعقیبات کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے بلکہ بہتر ہے کہ مسافر ان تین نمازوں کی تعقیب میں یہی ذکر ساٹھ مرتبہ پڑھے۔
قضا نماز
۱۳۷۹۔ جس شخص نے اپنی یومیہ نمازیں ان کے وقت نہ پڑھی ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضا بجا لائے اگرچہ وہ نماز کے تمام وقت کے دوران سویا رہا ہو یا اس نے مدہوشیِ کی وجہ سے نماز نہ پڑھی ہو اور یہی حکم ہر دوسری واجب نماز کا ہے جسے اس کے وقت میں نہ پڑھا ہو۔ حتی کہ احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے اس نماز کا جو منت ماننے کی وجہ سے مُعَیَّین وقت میں اس پر واجب ہو چکی ہو۔ لیکن نماز عید فطر اور نماز عید قربان کی قضا نہیں ہے۔ ایسی ہی جو نمازیں کسی عورت نے حیض یا نفاس کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا واجب نہیں خواہ وہ یومیہ نمازیں ہوں یا کوئی اور ہوں۔
۱۳۸۰۔ اگر کسی شخص کو نماز کے وقت کے بعد پتہ چلے کہ جو نماز اس نے پڑھی تھی وہ باطل تھی تو ضروری ہے کہ اس نماز کی قضا کرے۔
۱۳۸۱۔ جس شخص کی نماز قضا ہو جائے ضروری ہے کہ اس کی قضا پڑھنے میں کوتاہی نہ کرے البتہ اس کا فوراً پڑھنا واجب نہیں ہے۔
۱۳۸۲۔ جس شخص پر کسی نماز کی قضا (واجب) ہو وہ مستحب نماز پڑھ سکتا ہے۔
۱۳۸۳۔ اگر کسی شخص کو احتمال ہو کہ قضا نماز اس کے ذمّے ہے یا جو نمازیں پڑھ چکا ہے وہ صحیح نہیں تھیں تو مستحب ہے کہ احتیاطاً نمازوں کی قضا کرے۔
۱۳۸۴۔ یومیہ نمازوں کی قضا میں ترتیب لازم نہیں ہے سوائے ان نمازوں کے جن کی ادا میں ترتیب ہے مثلاً ایک دن کی نماز ظہر و عصر یا مغرب و عشا۔ اگرچہ دوسری نمازوں میں بھی ترتیب کا لحاظ رکھنا بہتر ہے۔
۱۳۸۵۔ اگر کوئی شخص چاہے کہ یومیہ نمازوں کے علاوہ چند نمازوں مثلاً نماز آیات کی قضا کرے یا مثال کے طور پر چاہے کہ کسی ایک یومیہ نماز کی اور چند غیر یومیہ نمازوں کی قضا کرے تو ان کا ترتیب کے ساتھ قضا کرنا ضروری نہیں ہے۔
۱۳۷۶۔ اگر کوئی شخص ان نمازوں کی ترتیب بھول جائے جو اس نے نہیں پڑھیں تو بہتر ہے کہ انہیں اس طرح پڑھے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے وہ اسی ترتیب سے پڑھی ہیں جس ترتیب سے وہ قضا ہوئی تھیں۔ مثلاً اگر ظہر کی ایک نماز اور مغرب کی ایک نماز کی قضا اس پر واجب ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی پہلے قضا ہوئی تھی تو پہلے ایک نماز مغرب اور اس کے بعد ایک نماز ظہر اور دوبارہ نماز مغرب پڑھے یا پہلے ایک نماز ظہر اور اس کے بعد ایک نماز مغرب اور پھر دوبارہ ایک نماز ظہر پڑھے تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ جو نماز بھی پہلے قضا ہوئی تھی وہ پہلے ہی پڑھی گئی ہے۔
۱۳۸۷۔ اگر کسی شخص سے ایک دن کی نماز ظہر اور کسی اور دن کی نماز عصر یا دو نماز ظہر یا دو نماز عصر قضا ہوئی ہوں اور اسے معلوم نہ ہو کہ کونسی پہلے قضا ہوئی ہوے تو اگر وہ دو نمازیں چار رکعتی اس نیت سے پڑھے کہ ان میں سے پہلی نماز پہلے دن کی قضا ہے اور دوسری، دوسرے دن کی قضا ہے تو ترتیب حاصل ہونے کے لئے کافی ہے۔
۱۳۸۸۔ اگر کسی شخص کی ایک نماز ظہر اور ایک نماز عشا یا ایک نماز عصر اور ایک نماز عشا قضا ہو جائے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی پہلے قضا ہوئی ہے تو بہتر ہے کہ انہیں اس طرح پڑھے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے انہیں ترتیب سے پڑھا ہے مثلاً اگر اس سے ایک نماز ظہر اور ایک نماز عشا قضا ہوئی ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ پہلے کون سی قضا ہوئی تھی تو وہ پہلے ایک نماز ظہر، اس کے بعد ایک نماز عشا، اور پھر دوبارہ ایک نماز ظہر پڑھے یا پہلے ایک نماز عشا، اس کے بعد ایک نماز ظہر اور پھر دوبارہ ایک نماز عشا پڑھے۔
۱۳۸۹۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس نے ایک چار رکعتی نماز نہیں پڑھی لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ ظہر کی نماز تھی یا عشا کی تو اگر وہ ایک چار رکعتی نماز اس نماز کی قضا کی نیت سے پڑھے جو اس نے نہیں پڑھی تو کافی ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ نماز بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ پڑھے۔
۱۳۹۰۔ اگر کسی شخص کی مسلسل پانچ نمازیں قضا ہو جائیں اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ان میں سے پہلی کون سی تھی تو اگر وہ نو نمازیں ترتیب سے پڑھے مثلاً نماز صبح سے شروع کرے اور ظہر و عصر اور مغرب و عشا پڑھنے کے بعد دوبارہ نماز صبح اور ظہر و عصر اور مغرب پڑھے تو اسے ترتیب کے بارے میں یقین حاصل ہو جائے گا۔
۱۳۹۱۔ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس کی یومیہ نمازوں میں سے کوئی نہ کوئی ایک نہ ایک دن قضا ہوئی ہے لیکن ان کی ترتیب نہ جانتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ پانچ دن رات کی نمازیں پڑھے اور اگر چھ دنوں میں اس کی چھ نمازیں قضا ہوئی ہوں تو چھ دن رات کی نمازیں پڑھے اور اسی طرح ہر اس نماز کے لئے جس سے اس کی قضا نمازوں میں اضافہ ہو ایک مزید دن رات کی نمازیں پڑھے تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے نمازیں اسی ترتیب سے پڑھی ہیں۔ جس ترتیب سے قضا ہوئی تھیں مثلاً اگر ساتھ دن کی سات نمازیں نہ پڑھی ہوں تو سات دان رات کی نمازوں کی قضا کرے۔
۱۳۹۲۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی چند صبح کی نمازیں یا چند ظہر کی نمازیں قضا ہو گئی ہوں اور وہ ان کی تعداد نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ وہ تین تھیں ، چار تھیں یا پانچ تو اگر وہ چھوٹے عدد کے حساب سے پڑھ لے تو کافی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اتنی نمازیں پڑھے کہ اسے یقین ہو جائے کہ ساری قضا نمازیں پڑھ لی ہیں۔ مثلاً اگر وہ بھول گیا ہو کہ اس کی کتنی نمازیں قضا ہوئی تھیں اور اسے یقین ہو کہ دس سے زیادہ نہ تھیں تو احتیاطاً صبح کی دس نمازیں پڑھے۔
۱۳۹۳۔جس شخص کی گزشتہ دنوں کی فقط ایک نماز قضا ہوئی ہو اس کے لئے بہتر ہے کہ اگر اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نہ ہوا ہو تو پہلے قضا پڑھے اور اس کے بعد اس دن کی نماز میں مشغول ہو۔ نیز اور اگر اس کی گزشتہ دنوں کی کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو لیکن اسی دن کی ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں قضا ہوئی ہوں تو اگر اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نہ ہوا ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس دن کی قضا نمازیں ادا نماز سے پہلے پڑھے۔
۱۳۹۴۔اگر کسی شخص کو نماز پڑھتے ہوئے یاد آئے کہ اسی دن کی ایک یا زیادہ نمازیں اس سے قضا ہو گئی ہیں یا گزشتہ دنوں کی صرف ایک قضا نماز اس کے ذمے ہے تو اگر وقت وسیع ہو اور نیت کو قضا نماز کی طرف پھیرنا ممکن ہو اور اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نہ ہوا ہو تو بہتر یہ ہے کہ قضا نماز کی نیت کرے۔ مثلاً اگر ظہر کی نماز میں تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے اسے یاد آئے کہ اس دن کی صبح کی نماز قضا ہوئی ہے اور اگر ظہر کی نماز کا وقت بھی تنگ نہ ہو تو نیت کو صبح کی نماز کی طرف پھیر دے اور نماز کو دو رکعتی تمام کرے اور اس کے بعد نماز ظہر پڑھے ہاں اگر وقت تنگ ہو یا نیت کو قضا نماز کی طرف نہ پھیر سکتا ہو مثلاً نماز ظہر کی تیسری رکعت کے رکوع میں اسے یاد آئے کہ اس نے صبح کی نماز نہیں پڑھی تو چونکہ اگر وہ نماز صبح کی نیت کرنا چاہے تو ایک رکوع جو کہ رکن ہے زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے نیت کو صبح کی قضا کی طرف نہ پھیرے۔
۱۳۹۵۔ اگر گزشتہ دنوں کی قضا نمازیں ایک شخص کے ذمے ہوں اور اس دن کی (جب نماز پڑھ رہا ہے ) ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں بھی اس سے قضا ہو گئی ہوں اور ان سب نمازوں کو پڑھنے کے لئے اس کے پاس وقت نہ ہو یا وہ ان سب کو اسی دن نہ پڑھنا چاہتا ہو تو مستحب ہے کہ اس دن کی قضا نمازوں کو ادا نماز سے پہلے پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ سابق نمازیں پڑھنے کے بعد ان قضا نمازوں کی جو اس دن ادا نماز سے پہلے پڑھی ہوں دوبارہ پڑھے۔
۱۳۹۶۔ جب تک انسان زندہ ہے خواہ وہ اپنی قضا نمازیں پڑھنے سے قاصر ہی کیوں نہ ہو کوئی دوسرا شخص اس کی قضا نمازیں نہیں پڑھ سکتا۔
۱۳۹۷۔ قضا نماز با جماعت بھی پڑھی جا سکتی ہے خواہ امام جماعت کی نماز ادا ہو یا قضا ہو اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں ایک ہی نماز پڑھیں مثلاً اگر کوئی شخص صبح کی قضا نماز کو امام کی نماز ظہر یا نماز عصر کے ساتھ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۱۳۹۸۔ مستحب ہے کہ سمجھدار بچے کو (یعنی اس بچے کو جو برے بھلے کی سمجھ رکھتا ہو نماز پڑھنے اور دوسری عبادات بجا لانے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مستحب ہے کہ اسے قضا نمازیں پڑھنے پر بھی آمادہ کیا جائے۔
باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر واجب ہیں
۱۳۹۹۔ باپ نے اپنی کچھ نمازیں نہ پڑھی ہوں اور ان کی قضا پڑھنے پر قادر ہو تو اگر اس نے امر خداوندی کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کو ترک نہ کیا ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد اس کی قضا نمازیں پڑھے یا کسی کو اجرت دے کر پڑھوائے اور ماں کی قضا نمازیں اس پر واجب نہیں اگرچہ بہتر ہے (کہ ماں کی قضا نمازیں بھی پڑھے )۔
۱۴۰۰۔ اگر بڑے بیٹے کو شک ہو کہ کوئی قضا نماز اس کے باپ کے ذمے تھی یا نہیں تو پھر اس پر کچھ بھی واجب نہیں۔
۱۴۰۱۔ اگر بڑے بیٹے کو معلوم ہو کہ اس کے باپ کے ذمے قضا نمازیں تھیں اور شک ہو کہ اس نے وہ پڑھی تھیں یا نہیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی قضا بجا لائے۔
۱۴۰۲۔ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ بڑا بیٹا کون سا ہے تو باپ کی نمازوں کی قضا کسی بیٹے پر بھی واجب نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ بیٹے باپ کی قضا نمازیں آپس میں تقسیم کر لیں بجا لانے کے لئے قرعہ اندازی کر لیں۔
۱۴۰۳۔ اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ اس کی قضا نمازوں کے لئے کسی کو اجیر بنایا جائے (یعنی کسی سے اجرت پر نمازیں پڑھوائی جائیں ) تو اگر اجیر اس کی نمازیں صحیح طور پر پڑھ دے تو اس کے بعد بڑے بیٹے پر کچھ واجب نہیں ہے۔
۱۴۰۴۔ اگر بڑا بیٹا اپنی ماں کی قضا نمازیں پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ بلند آواز سے یا آہست نماز پڑھنے کے بارے میں اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرے تو ضروری ہے کہ اپنی ماں کی صبح، مغرب اور عشا کی قضا نمازیں بلند آواز سے پڑھے۔
۱۴۰۵۔ جس شخص کے ذمے کسی نماز کی قضا ہو اگر وہ باپ اور ماں کی نمازیں بھی قضا کرنا چاہے تو ان میں سے جو بھی پہلے بجا لائے صحیح ہے۔
۱۴۰۶۔ اگر باپ کے مرنے کے وقت بڑا بیٹا نابالغ یا دیوانہ ہو تو اس پر واجب نہیں کہ جب بالغ یا عاقل ہو جائے تو باپ کی قضا نمازیں پڑھے۔
۱۴۰۷۔ اگر بڑا بیٹا باپ کی قضا نمازیں پڑھنے سے پہلے مر جائے تو دوسرے بیٹے پر کچھ بھی واجب نہیں۔
نماز جماعت
۱۴۰۸۔واجب نمازیں خصوصاً یومیہ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے اور مسجد کے پڑوس میں رہنے والے کو اور اس شخص کو جو مسجد کی اذان کی آواز سنتا ہو نماز صبح اور مغرب و عشا جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بالخصوص بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
۱۴۰۹۔ مُعَتَبر روایات کے مطابق یا جماعت نماز فرادی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔
۱۴۱۰۔ بے اعتنائی برتتے ہوئے نماز جماعت میں شریک نہ ہونا جائز نہیں ہے اور انسان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ بغیر عذر کے نماز جماعت کو ترک کرے۔
۱۴۱۱۔مستحب ہے کہ انسان صبر کرے تاکہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور وہ با جماعت نماز جو مختصر پڑھی جائے اس فرادی نماز سے بہتر ہے جو طول دے کر پڑھی جائے اور وہ نماز با جماعت اس نماز سے بہتر ہے جو اول وقت میں فرادی یعنی تنہا پڑھی جائے اور وہ نماز با جماعت جو فضیلت کے وقت میں نہ پڑھی جائے اور فرادی نماز جو فضیلت کے وقت میں پڑھی جائے ان دونوں نمازوں میں سے کون سی نماز بہتر ہے معلوم نہیں۔
۱۴۱۲۔ جب جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جانے لگے تو مستحب ہے کہ جس شخص نے تنہا نماز پڑھی ہو وہ دوبارہ جماعت کے ساتھ پڑھے اور اگر اسے بعد میں پتہ چلے کہ اس کی پہلی نماز باطل تھی تو دوسری نماز کافی ہے۔
۱۴۱۳۔ اگر امام جماعت یا مقتدی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد اسی نماز کو دوبارہ جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہے تو اگرچہ اس کا مستحب ہونا ثابت نہیں لیکن رَجَاءً دوبارہ پڑھنے کی کوئی مُمَانَعت نہیں ہے۔
۱۴۱۴۔ جس شخص کو نماز میں اس قدر وسوسہ ہوتا ہو کہ اس نماز کے باطل ہونے کا موجب بن جاتا ہو اور صرف جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے اسے وسوسے سے نجات ملتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے۔
۱۴۱۵۔اگر باپ یا ماں اپنی اولاد کو حکم دیں کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے البتہ جب بھی والدین کی طرف سے امرو نہی محبت کی وجہ سے ہو اور اس کی مخالفت سے انہیں اذیت ہوتی ہو تو اولاد کے لئے ان کی مخالفت کرنا اگرچہ سرکشی کی حد تک نہ ہو تب بھی حرام ہے۔
۱۴۱۶۔ مستحب نماز کسی بھی جگہ احتیاط کی بنا پر جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جا سکتی لیکن نماز اِستِقاء جو طلب باران کے لئے پڑھی جاتی ہے جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں اور اسی طرح وہ نماز جو پہلے واجب رہی ہو اور پھر کسی وجہ سے مستحب ہو گئی ہو مثلاً نماز عید فطر اور نماز عید قربان جو امام مہدی علیہ السلام کے زمانے تک واجب تھی اور ان کی غیبت کی وجہ سے مستحب ہو گئی ہے۔
۱۴۱۷۔ جس وقت امام جماعت یومیہ نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو اس کی اقتدا کوئی سی بھی یومیہ نماز میں کی جا سکتی ہے۔
۱۴۱۸۔اگر امام جماعت یومیہ نماز میں سے قضا شدہ اپنی نماز پڑھ رہا ہو یا کسی دوسرے شخص کی ایسی نماز کی قضا پڑھ رہا ہو جس کا قضا ہونا یقینی ہو تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے لیکن اگر وہ اپنی یا کسی دوسرے کی نماز احتیاطاً پڑھ رہا ہو تو اس کی اقتدا جائز نہیں مگر یہ کہ مقتدی بھی احتیاطاً پڑھ رہا ہو اور امام کی احتیاط کا سبب مقتدی کی احتیاط کا بھی سبب ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ مقتدی کی احتیاط کا کوئی دوسرا سبب نہ ہو۔
۱۴۱۹۔ اگر انسان کو یہ علم نہ ہو کہ نماز امام پڑھ رہا ہے وہ واجب پنج گانہ نمازوں میں سے ہے یا مستحب نماز ہے تو اس نماز میں اس امام کی اقتدا نہیں کی جا سکتی۔
۱۴۲۰۔جماعت کے صحیح ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان اور اسی طرح ایک مقتدی اور دوسرے ایسے مقتدی کے درمیان جو اس مقتدی اور امام کے درمیان واسطہ ہو کوئی چیز حائل نہ ہو اور حائل چیز سے مراد وہ چیز ہے جو انہیں ایک دوسرے سے جدا کرے خواہ دیکھنے میں مانع ہو جیسے کہ پردہ یا دیوار وغیرہ یا دیکھنے میں حائل نہ ہو جیسے شیشہ پس اگر نماز کی تمام یا بعض حالتوں میں امام اور مقتدی کے درمیان یا مقتدی اور دوسرے ایسے مقتدی کے درمیان جو اتصال کا ذریعہ ہو کوئی ایسی چیز حائل ہو جائے تو جماعت باطل ہو گی اور جیسا کہ بعد میں ذکر ہو گا عورت اس حکم سے مستثنی ہے۔
۱۴۲۱۔ اگر پہلی صف کے لمبا ہونے کی وجہ سے اس کے دونوں طرف کھڑے ہونے والے لوگ امام جماعت کو نہ دیکھ سکیں تب بھی وہ اقتدا کر سکتے ہیں اور اسی طرح اگر دوسری صفوں میں سے کسی صف کی لمبائی کی وجہ سے اس کے دونوں طرف کھڑے ہونے والے لوگ اپنے سے آگے والی صف کو نہ دیکھ سکیں تب بھی وہ اقتدا کر سکتے ہیں۔
۱۴۲۲۔ اگر جماعت کی صفیں مسجد کے دروازے تک پہنچ جائیں تو جو شخص دروازے کے سامنے صف کے پیچھے کھڑا ہو اس کی نماز صحیح ہے۔ نیز جو اشخاص اس شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر امام جماعت کی اقتدا کر رہے ہوں ان کی نماز بھی صحیح ہے بلکہ ان لوگوں کی نماز بھی صحیح ہے جو دونوں طرف کھڑے نماز پڑھ رہے ہوں اور کسی دوسرے مقتدی کے توسط سے جماعت سے متصل ہوں۔
۱۴۲۳۔ جو شخص ستون کے پیچھے کھڑا ہو اگر وہ دائیں یا بائیں طرف سے کسی دوسرے مقتدی کے توسط سے امام جماعت سے اتصال نہ رکھتا ہو تو وہ اقتدا نہیں کرسکتا ہے۔
۱۴۲۴۔ امام جماعت کے کھڑے ہونی کی جگہ ضروری ہے کہ مقتدی کی جگہ سے زیادہ اونچی نہ ہو لیکن اگر معمولی اونچی ہو تو حرج نہیں نیز اگر ڈھلوان زمین ہو اور امام اس طرف کھڑا ہو جو زیادہ بلند ہو تو اگر ڈھلوان زیادہ نہ ہو اور اس طرح ہو کہ عموماً اس زمین کو مسطح کہا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
۱۴۲۵۔ (نماز جماعت میں ) اگر مقتدی کی جگہ امام کی جگہ سے اونچی ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس قدر اونچی ہو کہ یہ نہ کہا جا سکے کہ وہ ایک جگہ جمع ہوئے ہیں تو جماعت صحیح نہیں ہے۔
۱۴۲۶۔ اگر ان لوگوں کے درمیان جو ایک صف میں کھڑے ہوں ایک سمجھدار بچہ یعنی ایسا بچہ جو اچھے برے کی سمجھ رکھتا ہو کھڑا ہو جائے اور وہ لوگ نہ جانتے ہوں کہ اس کی نماز باطل ہے تو اقتدا کر سکتے ہیں۔
۱۴۲۷۔ امام کی تکبیر کے بعد اگر اگلی صف کے لوگ نماز کے لئے تیار ہوں اور تکبیر کہنے ہی والے ہوں تو جو شخص پچھلی صف میں کھڑا ہو وہ تکبیر کہہ سکتا ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ انتظار کرے تاکہ اگلی صف والے تکبیر کہہ لیں۔
۱۴۲۸۔ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ اگلی صفوں میں سے ایک صف کی نماز باطل ہے تو وہ پچھلی صفوں میں اقتدا نہیں کر سکتا لیکن اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس صف کے لوگوں کی نماز صحیح ہے یا نہیں تو اقتدا کرسکتا ہے۔
۱۴۲۹۔ جب کوئی شخص جانتا ہو کہ امام کی نماز باطل ہے مثلاً اسے علم ہو کہ امام وضو سے نہیں ہے تو خواہ امام خود اس امر کی جانب متوجہ نہ بھی ہو وہ شخص اس کی اقتدا نہیں کر سکتا۔
۱۴۳۰۔ اگر مقتدی کو نماز کے بعد پتہ چلے کہ امام عادل نہ تھا یا کافر تھا یا کسی وجہ سے مثلاً وضو نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نماز باطل تھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۴۳۱۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران شک کرے کہ اس نے اقتدا کی ہے یا نہیں چنانچہ علامتوں کی وجہ سے اسے اطمینان ہو جائے کہ اقتدا کی ہے مثلاً ایسی حالت میں ہو جو مقتدی کا وظیفہ ہے مثلاً امام کو الحمد اور سورہ پڑھتے ہوئے سن رہا ہو تو ضروری ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ ہی ختم کرے بصورت دیگر ضروری ہے کہ نماز فرادی کی نیت سے ختم کرے۔
۱۴۳۲۔اگر نماز کے دوران مقتدی کسی عذر کے بغیر فرادی کی نیت کرے تو اس کی جماعت کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔ لیکن اس کی نماز صحیح ہے مگر یہ کہ اس نے فرادی نماز میں اس کا جو وظیفہ ہے ، اس پر عمل نہ کیا ہو یا ایسا کام جو فرادی نماز کو باطل کرتا ہے انجام دیا ہو اگرچہ سہواً ہو مثلاً رکوع زیادہ کیا ہو بلکہ بعض صورتوں میں اگر فرادی نماز میں اس کا جو وظیفہ ہے اس پر عمل نہ کیا ہو تو بھی اس کی نماز صحیح ہے ہے۔ مثلاً اگر نمازی کی ابتدا سے فرادی کی نیت نہ ہو اور قرأت بھی نہ کی ہو لیکن رکوع میں اسے ایسا قصد کرنا پڑھے تو ایسی صورت میں فرادی کی نیت سے تمام ختم کر سکتا ہے اور اسے دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے۔
۱۴۳۳۔اگر مقتدی امام کے الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد کسی عذر کی وجہ سے فرادی کی نیت کرے تو الحمد اور سورہ پڑھنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر (امام کے ) الحمد اور سورہ ختم کرنے سے پہلے فرادی کی نیت کرے تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ (الحمد اور سورے ) جتنی مقدار امام نے پڑھی ہو وہ بھی پڑھے۔
۱۴۳۴۔اگر کوئی شخص نماز جماعت کے دوران فرادی کی نیت کرے تو پھر وہ دوبارہ جماعت کی نیت نہیں کرسکتا لیکن اگر مُذَبذِب ہو کہ فرادی کی نیت کرے یا نہ کرے اور بعد میں نماز کو جماعت کے ساتھ تمام کرنے کا مُصَمَّم ارادہ کرے تو اس کی جماعت صحیح ہے۔
۱۴۳۵۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ نماز کے دوران اس نے فرادی کی نیت کی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ سمجھ لے کہ اس نے فرادی کی نیت نہیں کی۔
۱۴۳۶۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں ہو اور امام کے رکوع میں شریک ہو جائے اگرچہ امام نے رکوع کا ذکر پڑھ لیا ہو اس شخص کی نماز صحیح ہے اور وہ ایک رکعت شمار ہو گی لیکن اگر وہ شخص بقدر رکوع کے جھکے تاہم امام کو رکوع میں نہ پا سکے تو وہ شخص اپنی نماز فرادی کی نیت سے ختم کرسکتا ہے۔
۱۴۳۷۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں ہو اور بقدر رکوع کے جھکے اور شک کرے کہ امام کے رکوع میں شریک ہوا ہے یا نہیں تو اگر اس کا موقع نکل گیا ہو مثلاً رکوع کے بعد شک کرے تو ظاہر یہ ہے کہ اس کی جماعت صحیح ہے۔ اس کے علاوہ دوسری صورت میں نماز فرادی کی نیت سے پوری کرسکتا ہے۔
۱۴۳۸۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں ہو اور اس سے پہلے کہ وہ بقدر رکوع جھکے ، امام رکوع سے سر اٹھا لے تو اسے اختیار ہے کہ فرادی کی نیت کر کے نماز پوری کرے یا قربت مطلقہ کی نیت سے امام کے ساتھ سجدے میں جائے اور سجدے کے بعد قیام کی حالت میں تکبیرۃ الاحرام اور کسی ذکر کا قصد کیے بغیر دوبارہ تکبیر کہے اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھے۔
۱۴۳۹۔ اگر کوئی شخص نماز کی ابتدا میں یا الحمد اور سورہ کے دوران اقتدا کرے اور اتفاقاً اس سے پہلے کہ وہ رکوع میں جائے امام اپنا سر رکوع سے اٹھا لے تو اس شخص کی نماز صحیح ہے۔
۱۴۴۰۔ اگر کوئی شخص نماز کے لئے ایسے وقت پہنچے جب امام نماز کا آخری تشہد پڑھ رہا ہو اور وہ شخص چاہتا ہو کہ نماز جماعت کا ثواب حاصل کرے تو ضروری ہے کہ نیت باندھنے اور تکبیرۃ الاحرام کہنے کے بعد بیٹھ جائے اور محض قربت کی نیت سے تشہد امام کے ساتھ پڑھے۔ لیکن سلام نہ کہے اور انتظام کرے تاکہ امام نماز کا سلام پڑھ لے۔ اس کے بعد وہ شخص کھڑا ہا جائے اور دوبارہ نیت کیے بغیر اور تکبیر کہے بغیر الحمد اور سورہ پڑھے اور اسے اپنی نماز کی پہلی رکعت شمار کرے۔
۱۴۴۱۔ مقتدی کو امام سے آگے نہیں کھڑا ہونا چاہئے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر مقتدی زیادہ ہوں تو امام کے برابر نہ کھڑے ہوں۔ لیکن اگر مقتدی ایک آدمی ہو تو امام کے برابر کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
۱۴۴۲۔ اگر امام مرد اور مقتدی عورت ہو تو اگر اس عورت اور امام کے درمیان یا عورت اور دوسرے مرد مقتدی کے درمیان جو عورت اور امام کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہو پردہ وغیرہ لٹکا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
۱۴۴۳۔ اگر نماز شروع ہونے کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان یا مقتدی اور اس تشخص کے درمیان جس کے توسط سے مقتدی امام سے متصل ہو پردہ یا کوئی دوسری چیز حائل ہو جائے تو جماعت باطل ہو جاتی ہے اور لازم ہے کہ مقتدی فرادی نماز کے وظیفے پر عمل کرے۔
۱۴۴۴۔ احتیاط واجب ہے کہ مقتدی کے سجدے کی جگہ اور امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کے بیچ ایک ڈگ سے زیادہ فاصلہ نہ ہو اور اگر انسان ایک ایسے مقتدی کے توسط سے جو اس کے آگے کھڑا ہو امام سے متصل ہو تب بھی یہی حکم ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ اور اس سے آگے والے شخص کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درمیان اس سے زیادہ فاصلہ نہ ہو جو انسان کی حالت سجدہ میں ہوتی ہے۔
۱۴۴۵۔ اگر مقتدی کسی ایسے شخص کے توسط سے امام سے متصل ہو جس نے اس کے دائیں طرف یا بائیں طرف اقتدا کی ہو اور سامنے سے امام سے متصل نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس شخص سے جس نے اس کی دائیں طرف یا بائیں طرف اقتدا کی ہو ایک ڈگ سے زیادہ فاصلے پر نہ ہو۔
۱۴۴۶۔ اگر نماز کے دوران مقتدی اور امام یا مقتدی اور اس شخص کے درمیان جس کے توسط سے مقتدی امام سے متصل ہو ایک ڈگ سے زیادہ فاصلہ ہو جائے تو وہ تنہا ہو جاتا ہے اور اپنی نماز فرادی کی نیت سے جاری رکھ سکتا ہے۔
۱۴۴۷۔جو لوگ اگلی صف میں ہوں اگر ان سب کی نماز ختم ہو جائے اور وہ فوراً دوسری نماز کے لئے امام کی اقتدا نہ کریں تو پچھلی صف والوں کی نماز جماعت باطل ہو جاتی ہے بلکہ اگر فوراً ہی اقتدا کر لیں تب بھی پچھلی صف کی جماعت صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
۱۴۴۸۔ اگر کوئی شخص دوسری رکعت میں اقتدا کرے تو اس کے لئے الحمد اور سورہ پڑھنا ضروری نہیں البتہ قنوت اور تشہد امام کے ساتھ پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ تشہد پڑھتے وقت ہاتھوں کی انگلیاں اور پاوں کے تلووں کا اگلا حصہ زمین پر رکھے اور گھٹنے اٹھا لے اور تشہد کے بعد ضروری ہے کہ امام کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر سورے کے لئے وقت نہ رکھتا ہو تو الحمد کو تمام کرے اور اپنے رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے اور اگر پوری الحمد پڑھنے کے لئے وقت نہ ہو تو الحمد کو چھوڑ سکتا ہے اور امام کے ساتھ رکوع میں جائے۔ لیکن اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو فرادی کی نیت سے پڑھے۔
۱۴۴۹۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت پڑھا رہا ہو تو ضروری ہے کہ اپنی نماز کی دوسری رکعت میں جو امام کی تیسری رکعت ہو گی دو سجدوں کے بعد بیٹھ جائے اور واجب مقدار میں تشہد پڑھے اور پھر اٹھ کھڑا ہو اور اگر تین دفعہ تسبیحات پڑھنے کا وقت نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ ایک دفعہ پڑھے اور رکوع میں اپنے آپ کو امام کے ساتھ شریک کرے۔
۱۴۵۰۔ اگر امام تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور مقتدی جانتا ہو کہ اگر اقتدا کرے گا اور الحمد پڑھے گا تو امام کے ساتھ رکوع میں شامل نہ ہوسکے گا تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ امام کے رکوع میں جانے تک انتظار کرے اس کے بعد اقتدا کرے۔
۱۴۵۱۔اگر کوئی شخص امام کے تیسری یا چوتھی رکعت میں قیام کی حالت میں ہونے کے وقت اقتدا کرے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر سورہ پڑھنے کے لئے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ الحمد تمام کرے اور رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے اور اگر پوری الحمد پڑھنے کے لئے وقت نہ ہو تو الحمد کو چھوڑ کر امام کے ساتھ رکوع میں جائے لیکن اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ فرادی کی نیت سے نماز پوری کرے۔
۱۴۵۲۔ اگر ایک شخص جانتا ہو کہ اگر وہ سورہ یا قنوت پڑھے تو رکوع میں امام کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا اور وہ عمداً سورہ یا قنوت پڑھے اور رکوع میں امام کے ساتھ شریک نہ ہو تو اس کی جماعت باطل ہو جاتی ہے اور ضروری ہے کہ وہ فرادی طور پر نماز پڑھے۔
۱۴۵۳۔جس شخص کو اطمینان ہو کہ اگر سورہ شروع کرے یا اسے تمام کرے تو بشرطیکہ سورہ زیادہ لمبا نہ ہو وہ رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے گا تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ سورہ شروع کرے یا اگر شروع کیا ہو تو اسے تمام کرے لیکن اگر سورہ اتنا زیادہ طویل ہو کہ اسے امام کا مقتدی نہ کہا جا سکے تو ضروری ہے کہ اسے شروع نہ کرے اور اگر شروع کر چکا ہو تو اسے پورا نہ کرے۔
۱۴۵۴۔ جو شخص یقین رکھتا ہو کہ سورہ پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جائے گا اور امام کی اقتدا ختم نہیں ہو گی لہذا اگر وہ سورہ پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شریک نہ ہوسکے تو اس کی جماعت صحیح ہے۔
۱۴۵۶۔ اگر کوئی شخص اس خیال سے کہ امام پہلی یا دوسری رکعت میں ہے الحمد اور سورہ نہ پڑھے اور رکوع کے بعد اسے پتہ چل جائے کہ امام تیسری یا چوتھی رکعت میں تھا تو مقتدی کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اسے رکوع سے پہلے اس بات کا پتہ چل جائے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر وقت تنگ ہو تو مسئلہ ۱۴۵۱ کے مطابق عمل کرے۔
۱۴۵۷۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتے ہوئے الحمد اور سورہ پڑھے کہ امام تیسری یا چوتھی رکعت میں ہے اور رکوع سے پہلے یا اس کے بعد اسے پتہ چلے کہ امام پہلی دوسری رکعت میں تھا تو مقتدی کی نماز صحیح ہے اور اگر یہ بات اسے الحمد اور سورہ پڑھتے ہوئے معلوم ہو تو (الحمد اور سورہ کا) تمام کرنا اس کے لئے ضروری نہیں۔
۱۴۵۸۔ اگر کوئی شخص مستحب نماز پڑھ رہا ہو اور جماعت قائم ہو جائے اور اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ اگر مستحب نماز کو تمام کرے گا تو جماعت کے ساتھ شریک ہو سکے گا تو مستحب یہ ہے کہ جو نماز پڑھ رہا ہو اسے چوڑ دے اور نماز جماعت میں شامل ہو جائے بلکہ اگر اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ پہلی رکعت میں شریک ہوسکے گا تب بھی مستحب ہے کہ اسی حکم کے مطابق عمل کرے۔
۱۴۵۹۔ اگر کوئی شخص تین رکعتی یا چار رکعتی نماز پڑھ رہا ہو اور جماعت قائم ہو جائے اور وہ ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نہ گیا ہو اور اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ اگر نماز کو پورا کرے گا تو جماعت میں شریک ہوسکے گا تو مستحب ہے کہ مستحب نماز کی نیت کے ساتھ اس نماز کو دو رکعت پر ختم کر دے اور جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے۔
۱۴۶۰۔ جو شخص امام سے ایک رکعت پیچھے ہو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ جب امام آخری رکعت کا تشہد پڑھ رہا ہو تو ہاتھوں کی انگلیاں اور پاوں کے تلووں کا اگلا حصہ زمین پر رکھے اور گھٹنوں کو بلند کرے اور امام کے سلام پڑھنے کا انتظار کرے اور پھر کھڑا ہو جائے اور اگر اسی وقت فرادی کا قصد کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔
امام جماعت کی شرائط
۱۴۶۲۔ امام جماعت کے لئے ضروری ہے کہ بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہو اور نماز صحیح پڑھ سکتا ہو نیز اگر مقتدی مرد ہو تو اس کا امام بھی مرد ہونا ضروری ہے اور دس سالہ بچے کی اقتدا صحیح ہونا اگرچہ وجہ سے خالی نہیں ، لیکن اشکال سے بھی خالی نہیں ہے۔
۱۴۶۳۔ جو شخص پہلے ایک امام کو عادل سمجھتا تھا اگر شک کرے کہ وہ اب بھی اپنی عدالت پر قائم ہے یا نہیں تب بھی اس کی اقتدا کرسکتا ہے۔
۱۴۶۴۔ جو شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا نہیں کر سکتا جو بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھتا ہو اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا نہیں کر سکتا جو لیٹ کر نماز پڑھتا ہو۔
۱۴۶۵۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو وہ اس شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جو بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو لیکن جو شخص لیٹ کر نماز پڑھتا ہو اس کا کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو لیٹ کر یا بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو محل اشکال ہے۔
۱۴۶۶۔ اگر امام جماعت کسی عذر کی وجہ سے نجس لباس یا تیمم یا جبیرے کے وضو سے نماز پڑھے تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے۔
۱۴۶۷۔ اگر امام کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ پیشاب اور پاخانہ نہ روک سکتا ہو تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے نیز جو عورت مستحاضہ نہ ہو وہ مستحاضہ عورت کی اقتدا کر سکتی ہے۔
۱۴۶۸۔ بہتر ہے کہ جو شخص جذام یا برص کا مریض ہو وہ امام جماعت نہ بنے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس (سزا یافتہ ) شخص کی جس پر شرعی حد جاری ہو چکی ہو اقتدا نہ کی جائے۔
نماز جماعت کے احکام
۱۴۶۹۔ نماز کی نیت کرتے وقت ضروری ہے کہ مقتدی امام کو مُعَیَّین کرے لیکن امام کا نام جاننا ضروری نہیں اور اگر نیت کرے کہ میں موجودہ امام جماعت کی اقتدا کرتا ہوں تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۴۷۰۔ ضروری ہے کہ مقتدی الحمد اور سورہ کے علاوہ نماز کی سب چیزیں خود پڑھے لیکن اگر اس کی پہلی اور دوسری رکعت امام کی تیسری اور چوتھی رکعت ہو تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ بھی پڑھے۔
۱۴۷۱۔ اگر مقتدی نماز صبح و مغرب و عشا کی پہلی اور دوسری رکعت میں امام الحمد اور سورہ پڑھنے کی آواز سن رہا ہو تو خواہ وہ کلمات کو ٹھیک طرح نہ سمجھ سکے اسے الحمد اور سورہ نہیں پڑھنی چاہئے اور اگر امام کی آواز سن پائے تو مستحب ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے لیکن ضروری ہے کہ آہستہ پڑھے اور اگر سہواً بلند آواز سے پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔
۱۴۷۲۔ اگر مقتدی امام کی الحمد اور سورہ کی قرات کے بعض کلمات سن لے تو جس قدر نہ سن سکے وہ پڑھ سکتا ہے۔
۱۴۷۳۔ اگر مقتدی سہواً الحمد اور سورہ پڑھے یا یہ خیال کرتے ہوئے کہ جو آواز سن رہا ہے وہ امام کی نہیں ہے الحمد اور سورہ پڑھے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ امام کی آواز تھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۴۷۴۔ اگر مقتدی شک کرے کہ امام کی آواز سن رہا ہے یا نہیں یا کوئی آواز سنے اور یہ نہ جانتا ہو کہ امام کی آواز ہے یاکسی اور کی تو وہ الحمد اور سورہ پڑھ سکتا ہے۔
۱۴۷۵۔ مقتدی کو نماز ظہر و عصر کی پہلی اور دوسری رکعت میں احتیاط کی بنا پر الحمد اور سورہ نہیں پڑھنا چاہئے اور مستحب ہے کہ ان کی بجائے کوئی ذکر پڑھے۔
۱۴۷۶۔ مقتدی کو تکبیرۃ الاحرام امام سے پہلے نہیں کہنی چاہئے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک امام تکبیر نہ کہہ چکے مقتدی تکبیر نہ کہے۔
۱۴۷۷۔ اگر مقتدی سہواً امام سے پہلے سلام کہہ دے تو اس کی نماز صحیح ہے اور ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ امام کے ساتھ سلام کہے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ اگر جان بوجھ کر بھی امام سے پہلے سلام کہہ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۱۴۷۸۔ اگر مقتدی تکبیرۃ الاحرام کے علاوہ نماز کی دوسری چیزیں امام سے پہلے پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر انہیں سن لے یا یہ جان لے کہ امام انہیں کس وقت پڑھتا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ امام سے پہلے نہ پڑھے۔
۱۴۷۹۔ ضروری ہے کہ مقتدی جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے اس کے علاوہ نماز کے دوسرے افعال مثلاً رکوع اور سجود امام کے ساتھ یا اس سے تھوڑی دیر بعد بجا لائے اور اگر وہ ان افعال کو عمداً امام سے پہلے یا اس سے کافی دیر بعد انجام دے تو اس کی جماعت باطل ہو گی۔ لیکن اگر فعادی شخص کے وظیفے پر عمل کرے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
۱۴۸۰۔ اگر مقتدی بھول کر امام سے پہلے رکوع سے سر اٹھا لے اور امام رکوع میں ہی ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ دوبارہ رکوع میں چلا جائے اور امام کے ساتھ ہی سر اٹھائے۔ اس صورت میں رکوع کی زیادتی جو کہ رکن ہے کہ نماز کو باطل نہیں کرتی لیکن اگر وہ دوبارہ رکوع میں جائے اور اس سے پیشتر کہ وہ امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو امام سر اٹھا لے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۱۴۸۱۔ اگر مقتدی سہواً سر سجدے سے اٹھا لے اور دیکھے کہ امام ابھی سجدے میں ہے تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ دوبارہ سجدے میں چلا جائے اور ار دونوں سجدوں میں ایسا ہی اتفاق ہو جائے تو دو سجدوں کے زیادہ ہو جانے کی وجہ سے جو کہ رکن ہے نماز باطل نہیں ہوتی۔
۱۴۸۲۔جو شخص سہواً امام سے پہلے سجدے سے سر اٹھا لے اگر اسے دوبارہ سجدے میں جانے پر معلوم ہو کہ امام پہلے ہی سر اٹھا چکا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر دونوں سجدوں میں ایسا ہی اتفاق ہو جائے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
۱۴۸۳۔ اگر مقتدی غلطی سے سر رکوع یا سجدہ سے اٹھا لے اور سہواً یا اس خیال سے کہ دوبارہ رکوع یا سجدے میں لوٹ جانے سے امام کے ساتھ شریک نہ ہوسکے گا رکوع یا سجدے میں نہ جائے تو اس کی جماعت اور نماز صحیح ہے۔
۱۴۸۴۔ اگر مقتدی سجدے سے سر اٹھا لے اور دیکھے کہ امام سجدے میں ہے اور اس خیال سے کہ یہ امام کا پہلا سجدہ ہے اور اس نیت سے کہ امام کے ساتھ سجدہ کرے ، سجدہ میں چلا جائے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ تھا تو یہ مقتدی کا دوسرا سجدہ شمار ہو گا اور اگر اس خیال سے سجدے میں جائے کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ یہ امام کا پہلا سجدہ تھا تو ضروری ہے کہ اس نیت سے سجدہ تمام کرے کہ امام کے ساتھ سجدہ کر رہا ہوں اور پھر دوبارہ امام کے ساتھ سجدے میں جائے اور دونوں صورتوں میں بہتر یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ تمام کرے اور پھر دوبارہ بھی پڑھے۔
۱۴۸۵۔ اگر کوئی مقتدی سہواً امام سے پہلے رکوع میں چلا جائے اور صورت یہ ہو کہ اگر دوبارہ قیام کی حالت میں آ جائے تو امام کی قرات کا کچھ حصہ سن سکے تو اگر وہ سر اٹھا لے اور دوبارہ امام کے ساتھ رکوع میں جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر وہ جان بوجھ کر دوبارہ قیام کی حالت میں نہ آئے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۴۸۶۔ اگر مقتدی سہواً امام سے پہلے رکوع میں چلا جائے اور صورت یہ ہو کہ اگر دوبارہ قیام کی حالت میں آئے تو امام کی قرات کا کوئی حصہ نہ سن سکے تو اگر وہ اس نیت سے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھے ، اپنا سر اٹھا لے اور امام کے ساتھ رکوع میں جائے تو اس کی جماعت اور نماز صحیح ہے اور اگر وہ عمداً دوبارہ قیام کی حالت میں نہ آئے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن فُرادی شمار ہو گی۔
۱۴۸۷۔ اگر مقتدی غَلَطی سے امام سے پہلے سجدے میں چلا جائے تو اگر وہ اس قصد سے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اپنا سر اٹھا لے اور امام کے ساتھ سجدے میں جائے تو اس کی جماعت اور نماز صحیح ہے اور اگر عمداً سجدے سے سر نہ اٹھائے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن وہ فرادی شمار ہو گی۔
۱۴۸۸۔ اگر امام غلطی سے ایک ایسی رکعت میں قنوت پڑھ دے جس میں قنوت نہ ہو یا ایک ایسی رکعت میں جس میں تشہد نہ ہو غلطی سے تشہد پڑھنے لگے تو مقتدی کو قنوت اور تشہد نہیں پڑھنا چاہئے لیکن وہ امام سے پہلے نہ رکوع میں جا سکتا ہے اور نہ امام کے کھڑا ہونے سے پہلے کھڑا ہو سکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ امام کے تشہد اور قنوت ختم کرنے تک انتظار کرے اور باقی ماندہ نماز اس کے ساتھ پڑھے۔
جماعت میں امام اور مقتدی کے فرائض
۱۴۸۹۔ اگر مقتدی صرف ایک مرد ہو تو مستحب ہے کہ وہ امام کی دائیں طرف کھڑا ہو اور اگر ایک عورت ہو تب بھی مستحب ہے کہ امام کی دائیں طرف کھڑی ہو لیکن ضروری ہے کہ اس کے سجدہ کرنے کی جگہ امام سے اس کے سجدے کی حالت میں دو زانوں کے فاصلے پر ہو۔ اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا ایک مرد اور چند عورتیں ہوں تو مستحب ہے کہ مرد امام کی دائیں طرف اور عورت یا عورتیں امام کے پیچھے کھڑی ہوں۔ اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتیں ہوں تو مردوں کا امام کے پیچھے اور عورتوں کا مردوں کے پیچھے کھڑا ہونا مستحب ہے۔
۱۴۹۰۔ اگر امام اور مقتدی دونوں عورتیں ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سب ایک دوسری کے برابر برابر کھڑی ہوں اور امام مقتدیوں سے آگے نہ کھڑی ہو۔
۱۴۹۱۔ مستحب ہے کہ امام صف کے درمیان میں آگے کھڑا ہو اور صاحبان علم و فضل اور تقوی و ورع پہلی صف میں کھڑے ہوں۔
۱۴۹۲۔ مستحب ہے کہ جماعت کی صفیں منظم ہوں اور جو اشخاص ایک صف میں کھڑے ہوں ان کے درمیان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کندھے ایک دوسرے کے کندھوں سے ملے ہوئے ہوں۔
۱۴۹۳۔ مستحب ہے کہ "قَدقَامَتِ الصَّلاَۃُ” کہنے کے بعد مقتدی کھڑے ہو جائیں۔
۱۴۹۴۔ مستحب ہے کہ امام جماعت اس مقتدی کی حالت کا لحاظ کرے جو دوسروں سے کمزور ہو اور قنوت اور رکوع اور سجود کو طول نہ دے بجز اس صورت کے کہ اسے علم ہو کہ تمام وہ اشخاص جنہوں نے اس کی اقتدا کی ہے طول دینے کی جانب مائل ہیں۔
۱۴۹۵۔ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد اور سورہ نیز بلند آواز سے پڑھے جانے والے اَذکار پڑھتے ہوئے اپنی آواز کو اتنا بلند کرے کہ دوسرے سن سکیں لیکن ضروری ہے کہ آواز مناسب حد سے زیادہ بلند نہ کرے۔
۱۴۹۶۔ اگر امام کی حالت رکوع میں معلوم ہو جائے کہ کوئی شخص ابھی ابھی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کو معمول سے دُگنا طُول دے اور پھر کھڑا ہو جائے خواہ اسے معلوم ہو جائے کہ کوئی دوسرا شخص بھی اقتدا کے لئے آیا ہے۔
نماز جماعت کے مکروہات
۱۴۹۷۔ اگر جماعت کی صفوں میں جگہ ہو تو انسان کے لئے تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے۔
۱۴۹۸۔ مقتدی کا نماز کے اذکار کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے۔
۱۴۹۹۔ جو مسافر ظہر، عصر اور عشا کی نمازیں قصر کر کے پڑھتا ہو اس کے لئے ان نمازوں میں کسی ایسے شخص کو اقتدا کرنا مکروہ ہے جو مسافر نہ ہو اور جو شخص مسافر نہ ہو اس کے لئے مکروہ ہے کہ ان نمازوں میں مسافر کی اقتدا کرے۔
نماز آیات
۱۵۰۰۔ نماز آیات جس کے پڑھنے کا طریقہ بعد میں بیان ہو گا تین چیزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :
ا۔ سورج گرہن
۲۔ چاند گرہن، اگرچہ اس کے کچھ حصے کوہی گرہن لگے اور خواہ انسان پر اس کی وجہ سے خوف بھی طاری نہ ہوا ہو۔
۳۔ زلزلہ، احتیاط واجب کی بنا پر، اگرچہ اس سے کوئی بھی خوف زدہ نہ ہوا ہو۔
البتہ بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، سرخ و سیاہ آندھی اور ا نہی جیسی دوسری آسمانی نشانیاں جن سے اکثر لوگ خوفزدہ ہو جائیں اور اسی طرح زمین کے حادثات مثلاً (دریا اور) سمندر کے پانی کا سوکھ جانا اور پہاڑوں کا گرنا جن سے اکثر لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں ان صورتوں میں بھی احتیاط مستحب کی بنا پر نماز آیات ترک نہیں کرنا چاہئے۔
۱۵۰۱۔ جن چیزوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے کہ اگر وہ ایک سے زیادہ وقوع پذیر ہو جائیں تو ضروری ہے کہ انسان ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک نماز آیات پڑھے مثلاً اگر سورج کو بھی گرہن لگ جائے اور زلزلہ بھی آ جائے تو دونوں کے لئے دو الگ الگ نمازیں پڑھنی ضروری ہیں۔
۱۵۰۲۔ اگر کسی شخص پر کئی نماز آیات واجب ہوں خواہ وہ سب اس پر ایک ہی چیز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں مثلاً سورج کو تین دفعہ گرہن لگا ہو اور اس نے اس کی نمازیں نہ پڑھی ہوں یا مختلف چیزوں کی وجہ سے مثلاً سورج گرہن اور چاند گرہن اور زلزلے کی وجہ سے اس پر واجب ہوئی ہوں تو ان کی قضا کرتے وقت یہ ضروری نہیں کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کون سی قضا کون سی چیز کے لئے کر رہا ہے۔
۱۵۰۳۔ جن چیزوں کے لئے آیات پڑھنا واجب ہے وہ جس شہر میں وقوع پذیر ہوں فقط اسی شہر کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ نماز آیات پڑھیں اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہیں ہے۔
۱۵۰۴۔ جب سورج یا چاند کو گرہن لگنے لگے تو نماز آیات کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ نہ آئیں۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ اتنی تاخیر نہ کرے کہ گرہن ختم ہونے لگے۔ لیکن نماز آیات کی تکمیل سورج یا چاند گرہن ختم ہونے کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔
۱۵۰۵۔ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ چاند یا سورج، گرہن سے نکلنا شروع ہو جائے تو ادا کی نیت کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس کے مکمل طور پر گرہن سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھے تو پھر ضروری ہے کہ قضا کی نیت کرے۔
۱۵۰۶۔ اگر چاند یا سورج کو گرہن لگنے کی مدت ایک رکعت نماز پڑھنے کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو جو نماز وہ پڑھ رہا ہے ادا ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کے گرہن کی مدت اس سے زیادہ ہو لیکن انسان نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ گرہن ختم ہونے میں ایک رکعت پڑھنے کے برابر یا اس سے کم وقت باقی ہو۔
۱۵۰۷۔ جب کبھی زلزلہ، بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، اور اسی جیسی چیزیں وقوع پذیر ہوں تو اگر ان کا وقت وسیع ہو تو نماز آیات کو فوراً پڑھنا ضروری نہیں ہے بصورت دیگر ضروری ہے کہ فوراً نماز آیات پڑھے یعنی اتنی جلدی پڑھے کہ لوگوں کی نظروں میں تاخیر کرنا شمار نہ ہو اور اگر تاخیر کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر پڑھے۔
۱۵۰۸۔ اگر کسی شخص کو چاند یا سورت کو گرہن لگنے کا پتہ نہ چلے اور ان کے گرہن سے باہر آنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے سورج یا پورے چاند کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا کرے لیکن اگر اسے یہ پتہ چلے کہ کچھ حصے کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا کرے لیکن اگر اسے یہ پتہ چلے کہ کچھ حصے کو گرہن لگا تھا تو نماز آیات کی قضا اس پر واجب نہیں ہے۔
۱۵۰۹۔اگر کچھ لوگ یہ کہیں کہ چاند کو یا یہ کہ سورج کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ذاتی طور پر ان کے کہنے سے یقین یا اطمینان حاصل نہ ہو اس لئے وہ نماز آیات نہ پڑھے اور بعد میں پتہ چلے کہ انہوں نے ٹھیک کہا تھا تو اس صورت میں جب کہ پورے چاند کو یا پورے سورج کو گرہن لگا ہو نماز آیات پڑھے لیکن اگر کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات کا پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے۔ اور یہی حکم اس صورت میں ہے جب کہ دو آدمی جن کے عادل ہونے کے بارے میں علم نہ ہو یہ کہیں کہ چاند کو یا سورج کو گرہن لگا ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ عادل تھے۔
۱۵۱۰۔ اگر انسان کو ماہرین فلکیات کے کہنے پر جو علمی قاعدے کی رو سے سورج کو اور چاند کو گرہن لگنے کا وقت جانتے ہوں اطمینان ہو جائے کہ سورج کو یا چاند کو گرہن لگا ہے تو ضروری ہے کہ نماز آیات پڑھے اور اسی طرح اگر وہ کہیں کہ سورج یا چاند کو فلاں وقت گرہن لگے گا اور اتنی دیر تک رہے گا اور انسان کو ان کے کہنے سے اطمینان حاصل ہو جائے تو ان کے کہنے پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۱۵۱۱۔ اگر کسی شخص کو علم ہو جائے کہ جو نماز آیات اس نے پڑھی ہے وہ باطل تھی تو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا بجا لائے۔
۱۵۱۲۔ اگر یومیہ نماز کے وقت نماز آیات بھی انسان پر واجب ہو جائے اور اس کے پاس دونوں کے لئے وقت ہو تو جو بھی پہلے پڑھ لے کوئی حرج نہیں ہے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو پہلے وہ نماز پڑھے جس کا وقت تنگ ہو اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پہلے یومیہ نماز پڑھے۔
۱۵۱۳۔ اگر کسی شخص کو یومیہ نماز پڑھتے ہوئے علم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور یومیہ نماز کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پہلے یومیہ نماز کو تمام کرے اور بعد میں نماز آیات پڑھے اور اگر یومیہ نماز کا وقت تنگ نہ ہو تو اسے توڑ دے اور پہلے نماز آیات اور اس کے بعد یومیہ نماز بجا لائے۔
۱۵۱۴۔ اگر کسی شخص کو نماز آیات پڑھتے ہوئے علم ہو جائے کہ یومیہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور یومیہ نماز پڑھنے میں مشغول ہو جائے اور یومیہ نماز کو تمام کرنے کے بعد اس سے پہلے کہ کوئی ایسا کام کرے جو نماز کو باطل کرتا ہو باقی ماندہ نماز آیات وہیں سے پڑھے جہاں سے چھوڑی تھی۔
۱۵۱۵۔ جب عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور سورج یا چاند کو گرہن لگ جائے یا زلزلہ آ جائے تو اس پر نماز آیات واجب نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قضا ہے۔
نماز کی آیات پڑھنے کا طریقہ
۱۵۱۶۔ نماز آیات کی دو رکعتیں ہیں اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں۔اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کرنے کے بعد انسان تکبیر کہے اور ایک دفعہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور پھر رکوع سے سر اٹھائے پھر دوبارہ ایک دفعہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور پھر رکوع میں جائے۔ اس عمل کو پانچ دفعہ انجام دے اور پانچویں رکوع سے قیام کی حالت میں آنے کے بعد دو سجدے بجا لائے اور پھر اٹھ کھڑا ہو اور پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت بجا لائے اور تشہد اور سلام پڑھ کر نماز تمام کرے۔
۱۵۱۷۔نماز آیات میں یہ بھی ممکن یہ کہ انسان نیت کرنے اور تکبیر اور الحمد پڑھنے کے بعد ایک سورے کی آیتوں کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کچھ زیادہ پڑھے اور بلکہ ایک آیت سے کم بھی پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ مکمل جملہ ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے اور پھر کھڑا ہو جائے اور الحمد پڑھے بغیر اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی طرح اس عمل کو دہراتا رہے حتی کہ پانچویں رکوع سے پہلے سورے کو ختم کر دے مثلاً سورہ فلق میں پہلے بِسمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ۔ پڑھے اور رکوع میں جائے اس کے بعد کھڑا ہو اور پڑھے مِن شَرَّ مَاخَلَقَ۔ اور دوبارہ رکوع میں جائے اور رکوع کے بعد کھڑا ہو اور پڑھے۔ وَمِن شَرِّغَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۔ پھر رکوع میں جائے اور پھر کھڑا ہو اور پڑھے ومِن شِرّالنَّفّٰثٰتِ فِی العُقَدِ اور رکوع میں چلا جائے اور پھر کھڑا ہو جائے اور پڑھے وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔ اور اس کے بعد پانچویں رکوع میں جائے اور (رکوع سے ) کھڑا ہونے کے بعد دو سجدے کرے اور دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح بجا لائے اور اس کے دوسرے سجدے کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ سورے کو پانچ سے کم حصوں میں تقسیم کرے لیکن جس وقت بھی سورہ ختم کرے لازم ہے کہ بعد والے رکوع سے پہلے الحمد پڑھے۔
۱۵۱۸۔ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت میں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت میں ایک دفعہ الحمد پڑھے اور سورے کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۱۵۱۹۔ جو چیزیں یومیہ نماز میں واجب اور مستحب ہیں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساتھ ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کی بجائے تین دفعہ بطور رَجَاء "اَلصَّلوٰۃ” کہا جائے لیکن اگر یہ نماز جماعت کے ساتھ نہ پڑھی جا رہی ہو تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۵۲۰۔ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ رکوع سے پہلے اور اس کے بعد تکبیر کہے اور پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبیر سے پہلے "سَمَعِ اللہ لِمَن حَمِدَہ” بھی کہے۔
۱۵۲۱۔ دوسرے ، چوتھے ، چھٹے ، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا مستحب ہے اور اگر قنوت صرف دسویں رکوع سے پہلے پڑھ لیا جائے تب بھی کافی ہے۔
۱۵۲۲۔ اگر کوئی شخص نماز آیات میں شک کرے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے۔
۱۵۲۳۔اگر (کوئی شخص جو نماز آیات پڑھ رہا ہو) شک کرے کہ وہ پہلی رکعت کے آخری رکوع میں ہے یا دوسری رکعت کے پہلے رکوع میں اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر مثال کے طور پر شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ اور اس کا یہ شک سجدے میں جانے سے پہلے ہو تو جس رکوع کے بارے میں اسے شک ہو کہ بجا لایا ہے یا نہیں اسے ادا کرنا ضروری ہے لیکن اگر سجدے کے لئے جھک گیا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروانہ کرے۔
۱۵۲۴۔ نماز آیات کا ہر رکوع رکن ہے اور اگر ان میں عمداً کمی یا بیشی ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ اور یہی حکم ہے اگر سہواً کمی ہو یا احتیاط کی بنا پر زیادہ ہو۔
عید فطر اور عید قربان کی نماز
۱۵۲۵۔ امام عصر علیہ السلام کے زمانہ حضور میں عید فطر و عید قربان کی نمازیں واجب ہیں اور ان کا جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے لیکن ہمارے زمانے میں جب کہ امام عصر علیہ السلام عَیبَت کبری میں ہیں یہ نمازیں مستحب ہیں اور با جماعت یا فرادی دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہیں۔
۱۵۲۶۔ نماز عید فطر و قربان کا وقت عید کے دن طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے۔
۱۵۲۷۔ عید قربان کی نماز سورج چڑھ آنے کے بعد پڑھنا مستحب ہے اور عید فطر میں مستحب ہے کہ سورج چڑھ آنے کے بعد افطار کیا جائے ، فطرہ دیا جائے اور بعد میں دو گانہ عید ادا کیا جائے۔
۱۵۲۸۔ عید فطر و قربان کی نماز دو رکعت ہے جس کی پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پانچ تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان ایک قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے اور پھر دو سجدے بجا لائے اور اٹھ کھڑا ہو اور دوسری رکعت چار تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان قنوت پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام کہہ کر نماز کو تمام کر دے۔
۱۵۲۹۔ عید فطر و قربان کی نماز کے قنوت میں جو دعا اور ذکر کر بھی پڑھی جائے۔
"اَللّٰھُمَّ اَھلَ الِکبرِیَآءِ وَالعَظَمَۃِ وَ اَھلَ الجُودِ وَالجَبَرُوتِ وَ اَھلَ العَفوِ وَالرَّحمَہ وَ اَھلَ التَّقویٰ وَ المَغِفَرۃِ اَسئَلُکَ بِحَقِّ ھٰذَا الیَومِ الَّذِی جَعَلتَہ لِلمُسلِمِینَ عِیداً وَّلِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ عَلَیہ وَاٰلِہ ذُخرًا وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَۃً وَّ مَزِیدًا اَن تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ اَن تُدخِلنِی فِی کُلِّ خَیرٍ اَدخَلتَ فِیہ مُحَمَّدًا وَّ اٰلَ مُحَمَّدٍ وَّ اَن تُخرِجَنیِ مِن کُلِّ سُوٓءٍ اَخرَجتَ مِنہ مُحَمَّدًا وَّ اٰلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَیہ وَ عَلَیھِم اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَساَلُکَ خَیرَ مَا سَئَلکَ بِہ عِبَادَکَ الصَّالِحُونَ وَاَعُوذُبِکَ مِمَّا استَعَاذَ مِنہ عِبَادُکَ المُخلِصُونَ”۔
۱۵۳۰۔ امام عصر علیہ السلام کے زمانہ غیبت میں اگر نماز عید فطر و قربان جماعت سے پڑھی جائے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کے بعد دو خطبے پڑھے جائیں اور بہتر یہ ہے کہ عید فطر کے خطبے میں فطرے کے احکام بیان ہوں اور عید قربان کے خطبے میں قربانی کے احکام بیان کئے جائیں۔
۱۵۳۱۔ عید کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں (الحمد کے بعد) سورہ شمس (۹۱ واں سورح) پڑھا جائے اور دوسری رکعت میں (الحمد کے بعد) سورہ غاشیہ (۸۸ واں سورح) پڑھا جائے یا پہلی رکعت میں سورہ اعلی (۸۷ واں سورح) اور دوسری رکعت میں سورہ شمس پڑھا جائے۔
۱۵۳۲۔ نماز عید کھلے میدان میں پڑھنا مستحب ہے مکہ مکرمہ میں مستحب ہے کہ مسجد الحرام میں پڑھی جائے۔
۱۵۳۳۔مستحب ہے کہ نماز عید کے لئے پیدل اور پا برہنہ اور با وقار طور پر جائیں اور نماز سے پہلے غسل کریں اور سفید عمامہ سر پر باندھیں۔
۱۵۳۴۔ مستحب ہے کہ نماز عید میں زمین پر سجدہ کیا جائے اور تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کیا جائے اور جو شخص نماز عید پڑھ رہا ہو خواہ وہ امام جماعت ہو یا فرادی نماز پڑھ رہا ہو نماز بلند آواز سے پڑھے۔
۱۵۳۵۔ مستحب ہے کہ عید فطر کی رات کی مغرب و عشا نماز کے بعد اور عید فطر کے دن نماز صبح کے بعد اور نماز عید فطر کے بعد یہ تکبیریں کہی جائیں۔
” اَللہ اَکبَرُ۔ اَللہ اَکبَرُ، لآَ اِلٰہ اِلاَّ اللہ وَاللہ اَکبَرُ، اَللہ اَکبَرُ وَلِلّٰہ الَحمدُ، اَللہ اَکبرُ عَلیٰ مَاہدَانَا”۔
۱۵۳۶۔ عید قربان میں دس نمازوں کے بعد جن میں سے پہلی نماز عید کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری بارہویں تاریخ کی نماز صبح ہے ان تکبیرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ میں ہو چکا ہے اور ان کے بعد۔ اَللہ اَکبَرُ عَلیٰ مَاَرَزَقَنَا مِن بَہیمَۃِ الاَنعَامِ وَالحَمدُ لِلّٰہ عَلیٰ مَآ اَبلاَنَا” پڑھنا بھی مستحب ہے لیکن اگر عید قربان کے موقع پر انسان منی میں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبیریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن میں سے پہلی نماز عید کے دن نماز ظہر ہے اور آخری تیرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے۔
۱۵۳۷۔ نماز عید میں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کو چاہئے کہ الحمد اور سورہ کے علاوہ نماز کے اذکار خود پڑھے۔
۱۵۳۹۔ اگر مقتدی اس وقت پہنچے جب امام نماز کی کچھ تکبیریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع میں جانے کے بعد ضروری ہے جتنی تکبیریں اور قنوت اس نے امام کے ساتھ نہیں پڑھی انہیں پڑھے اور اگر ہر قنوت میں ایک دفعہ "سُبحاَنَ اللہ” یا ایک دفعہ "اَلحَمدُلِلّٰہ” کہہ دے تو کافی ہے۔
۱۵۴۰۔ اگر کوئی شخص نماز عید میں اس وقت پہنچے جب امام رکوع میں ہو تو وہ نیت کر کے اور نماز کی پہلی تکبیر کہہ کر رکوع میں جا سکتا ہے۔
۱۵۴۱۔ اگر کوئی شخص نماز عید میں ایک سجدہ بھول جائے تو ضروری ہے کہ نماز کے بعد اسے بجا لائے۔ اور اسی طرح اگر کوئی ایسا فعل نماز عید میں سر زد ہو جس کے لئے یومیہ نماز میں سجدہ سہو لازم ہے تو نماز عید پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ دو سجدہ سہو بجا لائے۔
نماز کے لئے اجیر بنانا (یعنی اجرت دے کر نماز پڑھوانا)
۱۵۴۲۔ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جو وہ زندگی میں نہ بجا لایا ہو کسی دوسرے شخص کو اجیر بنایا جا سکتا ہے یعنی وہ نمازیں اسے اجرت دے کر پڑھوائی جا سکتی ہیں اور اگر کوئی شخص بغیر اجرت لئے ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کو بجا لائے تب بھی صحیح ہے۔
۱۵۴۳۔ انسان بعض مستحب کاموں مثلاً حج و عمرے اور روضہ رسول ﷺ یا قُبورِائمہ علیہم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجیر بن سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے۔ کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو ہدیہ کر دے۔
۱۵۴۴۔جو شخص میت کی قضا نماز کے لئے اجیر بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ یا تو مجتہد ہو یا نماز تقلید کے مطابق صحیح طریقے پر ادا کرے یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ مَوَارِدِ احتیاط کو پوری طرح جانتا ہو۔
۱۵۴۵۔ ضروری ہے کہ اجیر نیت کرتے وقت میت کو معین کرے اور ضروری نہیں کہ میت کا نام جانتا ہو بلکہ اگر نیت کرے کہ میں یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے میں اجیر ہوا ہوں تو کافی ہے۔
۱۵۴۶۔ ضروری ہے کہ اجیر جو عمل بجا لائے اس کے لئے نیت کے کہ جو کچھ میت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجیر کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب میت کو ہدیہ کر دے تو تو یہ کافی نہیں ہے۔
۱۵۴۷۔ اجیر ایسے شخص کو مقرر کرنا ضروری ہے جس کے بارے میں اطمینان ہو کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔
۱۵۴۸۔ جس شخص کو میت کی نمازوں کے لئے اجیر بنایا جائے اگر اس کے بارے میں پتہ چلے کہ وہ عمل کو بجا نہیں لایا باطل طور پر بجا لایا ہے تو دوبارہ (کسی دوسرے شخص کو) اجیر مقرر کرنا ضروری ہے۔
۱۵۴۹۔ جب کوئی شخص شک کرے کہ اجیر نے عمل انجام دیا ہے یا نہیں اگرچہ وہ کہے کہ میں نے انجام دے دیا ہے لیکن اس کی بات پر اطمینان نہ ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ اجیر مقرر کرے۔ اور اگر شک کرے کہ اس نے صحیح طور پر انجام دیا ہے یا نہیں تو اسے صحیح سمجھ سکتا ہے۔
۱۵۵۰۔ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلاً تیمم کر کے یا بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو اسے احتیاط کی بنا پر میت کی نمازوں کے لئے اجیر بالکل مقرر نہ کیا جائے اگرچہ میت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔
۱۵۵۱۔ مرد عورت کی طرف سے اجیر بن سکتا ہے اور عورت مرد کی طرف سے اجیر بن سکتی ہے اور جہاں تک نماز بلند آواز سے پڑھنے کا سوال ہے ضروری ہے کہ اجیر اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرے۔
۱۵۵۲۔ میت کی قضا نمازوں میں ترتیب واجب نہیں ہے سوائے ان نمازوں کے جن کی ادا میں ترتیب ہے مثلاً ایک دن کی نماز ظہر و عصر یا مغرب و عشا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
۱۵۵۳۔ اگر اجیر کے ساتھ طے کیا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے اور اگر کچھ طے نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظیفے کے مطابق انجام دے اور احیتاط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظیفے میں سے جوبھی احتیاط کے زیادہ قریب ہو اس پر عمل کرے مثلاً اگر میت کا وظیفہ تسبیحات اربعہ تین دفعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکلیف ایک دفعہ پڑھنا ہو تو تین دفعہ پڑھے۔
۱۵۵۴۔ اگر اجیر کے ساتھ یہ طے نہ کیا جائے کہ نماز کے مستحبات کس مقدار میں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات پڑھے جاتے ہیں انہیں بجا لائے۔
۱۵۵۵۔ اگر انسان میت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجیر مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ۱۵۵۲ بتایا گیا ہے اس کی بنا پر ضروری نہیں کہ وہ ہر اجیر کے لئے وقت معین کرے۔
۱۵۵۶۔ اگر کوئی شخص اجیر بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال میں میت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پہلے مر جائے تو ان نمازوں کے لئے جن کے بارے میں علم ہو کہ وہ بجا نہیں لایا کسی اور شخص کو اجیر مقرر کیا جائے اور جن نمازوں کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ انہیں نہیں بجا لایا احتیاط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجیر مقررکیا جائے۔
۱۵۵۷۔ جس شخص کو میت کی قضا نمازوں کے لئے اجیر مقرر کیا ہو اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پہلے مر جائے تو اگر اس کے ساتھ یہ طے کیا گیا ہو کہ ساری نمازیں وہ خودہی پڑھے گا تو اجرت دینے والے باقی نمازوں کی طے شدہ اجرت واپس لے سکتے ہیں یا ا جا رہ کو فسخ کر سکتے ہیں اور اس کی اجرات المثل دے سکتے ہیں۔اور اگر یہ طے نہ کیا گیا ہو کہ ساری نمازیں اجیر خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجیر کے ورثاء اس کے مال سے باقیماندہ نمازوں کے لئے کسی کو اجیر بنائیں لیکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔
۱۵۵۸۔ اگر اجیر میت کی سب قضا نمازیں پڑھنے سے پہلے مر جائے اور اس کے اپنے ذمے بھی قضا نمازیں ہوں تو مسئلہ سابقہ میں جو طریقہ بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنے کے بعد اگر فوت شدہ اجیر کے مال سے کچھ بچے اور اس صورت میں جب کہ اس نے وصیت کی ہو اور اس کے ورثاء بھی اجازت دیں تو اس کی سب نمازوں کے لئے اجیر مقرر کیا جا سکتا ہے اور اگر ورثاء اجازت نہ دیں تو مال کا تیسرا حصہ اس کی نمازوں پر صرف کیا جا سکتا ہے۔٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید