FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تین افسانے

عبداللہ جاوید

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

 

 

چھت سے گرنے والی

آندھی چلی تھی، تیز، بہت تیز۔۔ ہوا کے بدن میں بھوت اتر کر لڑ رہے تھے۔ ہلکے ہلکے جھونکے، جھکّڑوں میں بدل کر، چنگھاڑ چنگھاڑ کر، ایک دوسرے پر وار کرتے، آپس میں گتھم گتھا ہوتے۔۔ اڑ رہے تھے۔ اڑنے کے دوران ہر اس چھوٹی بڑی چیز کو اڑا رہے تھے، جو ان کی زد میں آتی۔ پیڑ، پکھیرو، جھوپڑ، چھپر، چھت، ستون، کھمبے اور آدم زادوں کا پھیلا ہوا کاٹھ کباڑ۔۔جس سمے میں نے اس کو بلندی سے نیچے گرتے دیکھا، آندھی تھم کر غبار کی صورت فضا میں آویزاں ہو گئی تھی۔ سیاہ و سپید دھند کا آمیزہ ساجو دکھاتا کم اور چھپاتا زیادہ یا۔۔ نیم خواب نیم بیداری کی ملی جلی کیفیت۔ ایسی کیفیت جس کا رشتہ اس ماحول سے، اس فضا سے یا خود میرے اندرون سے تھا۔ اصل معاملہ یا مسئلہ یہی تھا کہ سب کچھ غیر واضح تھا۔ اگر کچھ صاف اور واضح تھا تو اس کا گرنا تھا۔ عمارت کی وہ چھت جس پر چلتے ہوئے، کافی بلندی سے وہ نیچے گری تھی، ابھی نیم تعمیر حالت میں تھی۔ پہلا سوال تو یہ پیدا ہو رہا تھا کہ شام کے جھٹ پٹے میں وہ ہسپتال کی چھت پر کیا کر رہی تھی؟ یہی سوال میرے اپنے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا کہ میں وہاں اس سمے کیوں موجود تھا؟ یہ دونوں سوال بعد کی پیداوار تھے، جو وقوع پذیر ہو رہا تھا، وہ یہ تھا کہ میں دوڑ رہا تھا، اس چھت پر جو پوری طرح بنی بھی نہیں تھی۔ اس پر دوڑ نا تو رہا ایک طرف چلنا بھی آسان نہیں تھا لیکن میں چھلانگیں لگاتا اور ہر رکاوٹ کو پھلانگتا ہوا اس نیم پختہ زینے کی جانب جلد سے جلد پہنچنا چاہ رہا تھا جو مجھے نچلی منزلوں تک لے جا سکتا تھا، تاکہ اس تک پہنچ سکوں۔ وہ جو میری نظروں کے سامنے چوتھی منزل کی چھت سے نیچے گر پڑی تھی، اگرچہ میں جانتا تھا کہ جب تک میں نیچے پہنچوں بہت تاخیر ہو چکی ہو گی۔ پھر بھی میں یہ چاہتا تھا کہ زینہ جلد آ جائے، لیکن زینے پر قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلط زینے پر تھا۔ یہ وہ زینہ نہیں جس پر چڑھ کر میں ہسپتال کی چھت پر آیا، اپنے یار انجینئر راجا اکرم سے ملاقات کرنے، جس کے بارے میں نیچے اطلاع ملی تھی کہ وہ چھت پر ہو سکتا تھا۔ جیسے ہی میں زینے سے راہداری میں پہنچا، مجھے معلوم ہو گیا کہ میں ہسپتال کی عمارت کی پشت پر نرسوں کی اپارٹمنٹ کی عمارت میں اتر پڑا تھا۔ دوڑتا ہوا جب میں ایلیویٹر کی جانب گیا تو دو نرسیں چیختی چلاتیں میرے پیچھے دوڑیں۔ پتہ نہیں کیوں وہ فوراً ہی رک بھی گئیں ؟ میں آرام سے ایلیویٹر کے ذریعے نیچے اتر گیا۔ نیچے انتہائی ناساز گار حالت کا سامنا تھا۔ شور ہی شور تھا۔ راستے پر ایک ٹریکٹر کھڑا تھا جو رکا ہونے کے باوجود شور کر رہا تھا۔ کسی اللہ کے بندے کے ذہن میں یہ خیال نہیں آ رہا تھا کہ اس کو بند کر دے۔ قدرے فاصلے پر فولادی سریوں سے لدا ہوا ایک ٹرک کھڑا تھا، جس کے باہر دو آدمی کسی معاملے پر بلند آواز میں بحث کر رہے تھے۔ ان دونوں سے قطع نظر کر کے میں اس نرس کی جانب گیا جو شاید ہسپتال کے شعبہ حادثات سے آ رہی تھی۔

’’اس کا کیا ہوا جو چھت سے گری تھی’‘  میں نے رسمی ہائے ہیلو سے درگزر کرتے ہوئے نرس سے دریافت کیا۔ نرس نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے وہ میرے سوال کو سمجھنے سے قاصر ہو۔ ’’چھت سے گری تھی۔ کس چھت سے گری تھی؟’‘  اس سے پہلے کہ نرس کا سوال مجھ سے جواب کا طالب ہو، میں آگے دوڑ گیا۔ شعبہ حادثات کی کھڑکی پر ایک جوان نرس فون پر بات کر رہی تھی۔ دوسری سے جو قدرے بوڑھی تھی، میں نے چھت سے گرنے والی کی بابت دریافت کیا۔ وہ بھی ایسی بن گئی جیسے اس پورے واقعے سے لاعلم ہو۔

’’لیزا ذرا سنو، یہ صاحب کیا پوچھ رہے ہیں ؟’‘  بوڑھی نرس نے جوان نرس کو مخاطب کیا۔ ’’کیا پوچھ رہے ہیں ؟’‘  جوان نرس نے سوال دہرایا۔ ’’یہ کسی کو پوچھ رہے ہیں جس کو انہوں نے ہسپتال کی چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا؟’‘  بوڑھی نرس نے میرے سوال کو طنزیہ انداز میں نشر کیا۔ ’’ہسپتال کی چھت سے تو کوئی نیچے نہیں گرا۔ ‘‘ اچانک نہ جانے کس کونے سے ایک وارڈ بوائے نمودار ہوا اور بولا۔ میں جو غم زدہ تھا، اس کے لئے ذہنی اور دلی کرب میں مبتلا تھا، اس وارڈ بوائے پر پھٹ پڑا۔ اگر کاؤنٹر کیبن کی نیم دیواری درمیان میں حائل نہ ہوتی تو میں اس وارڈ بوائے کا منھ نوچ لیتا۔

’’ظالمو! بے دردو!تم سب نے اس معاملے کو دبانے کی سازش کر رکھی ہے۔ مجھے سچ بتا دو۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ ہسپتال کو بدنام نہ ہونے دوں گا۔ جاؤ اپنے ایڈمنسٹریٹر سے بولو، ایک بندہ ہے جو ہر طرح کے فارم پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہے۔ میں یہ بیان دینے پر بھی راضی ہوں کہ وہ چھت سے نہیں گری تھی بلکہ میں اسے سڑک سے اٹھا لایا تھا۔ میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس کے لئے۔ اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ مجھے اس کے پاس جانے دو۔ مجھے بتاؤ تم لوگوں نے اسے کہاں چھپا رکھا ہے۔ ‘‘ میں نہ جانے کب تک اور کیا کیا بکے جاتا، اچانک میری نظریں اس وارڈ بوائے پر پڑیں جو میرے سامنے ہاتھ ملتا کھڑا تھا۔ دونوں نرسیں بھی اس کے پاس کھڑی میری جانب ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے میری حالت پر ترس کھا رہی ہوں۔ اس تمام دوران میں شاید روتا بھی رہا تھا اور اسی سبب سے ماحول سے بالکل بے خبر ہو گیا تھا۔ ہسپتال کی اس راہداری میں لوگ جمع ہو گئے تھے۔ میں ان کی جانب پلٹا اور گریہ کرتے ہوئے ان سے گرنے والی کے بارے میں پوچھا۔ ان لوگوں نے بھی مجھ پر ترس کھانے والی نظریں ڈالیں اور وہاں سے کھسک گئے۔ ہسپتال کی راہداری میں آگے جانا بے کار تھا۔ میں نے نیچے اتر کر ہسپتال کے صحن میں دوڑ لگا دی۔ چشم زدن میں اس جگہ پہنچ گیا جہاں اس کے گرنے کا سب سے زیادہ امکان تھا۔ میرے حساب سے اس کو عمارت کے قریبی لان میں کسی جگہ گرنا تھا۔ یا اس چھوٹے سے کیبن کی چھت پر جو دیوار کے ساتھ تھا اور جس میں مالی اپنا سامان رکھتا تھا۔ یا پھر ان چار جڑواں گیراجوں میں سے کسی ایک کی چھت پر جو ہسپتال کے چار بڑوں کی گاڑیوں کے لئے مختص تھے میں اس اسپتال کے پورے جغرافیے سے واقف تھا۔ اسی سبب سے اس تمام نواح میں پوچھ گچھ کر کے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ معاملہ اتنا آسان نہیں رہا تھا۔ کہیں نہ کہیں کچھ غلط تھا یا غلط کیا جا رہا تھا۔ ہسپتال والے ضرور کچھ چھپا رہے تھے۔ اس کو گرتے ہوئے بہت کم آدمیوں نے دیکھا ہو گا اور ان کم آدمیوں میں سے مجھے کسی ایسے آدمی کی تلاش تھی جو زبان کھولے اور وقوعے پر روشنی ڈالے۔ یوں بھی بڑی تاخیر ہو چکی تھی۔ میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے حواس پر پوری طرح قابو رکھوں گا۔ (اگرچہ میرے اندر کوئی روئے جا رہا تھا) مجھے جذباتی اور بدحواس دیکھ کر مصلحت پسندی کے مارے لوگ ترس کھا سکتے تھے، لیکن زبان نہیں کھول سکتے تھے۔ اس معاملے میں بیشتر عوامل میرے اور اس چھت سے گرنے والی کے خلاف جاتے تھے اور جیسے جیسے سمے گزرتا جاتا تھا، رات بھی آتی جاتی تھی۔ جس وقت وہ گری تھی یا میری آنکھوں نے اس کو ہسپتال کی چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا، شام پڑ رہی تھی، لیکن اب تو رات تھی۔ رات میں ادھر ادھر پھرنا، خواہ ہسپتال میں، ایسا فعل ہے جو ہسپتال کے نگراں عملے کی نظروں میں آ سکتا تھا۔ میں ہسپتال کی اس پوری عمارتی اکائی (Unit) کے اطراف اچھی طرح دیکھ بھال کرتے ہوئے چکر لگا چکا تھا جس کی چھت سے وہ گری تھی۔ وہ یا اس کے بدن کا نام و نشان بھی نہیں ملا۔ دل گریاں کے ساتھ میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اس بینچ پر پہلے سے کوئی پراگندہ لباس، پراگندہ حال بوڑھا آدمی بیٹھا تھا۔ اس کی بھویں چوڑی، کمانی دار اور سپید تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی کھڑکیوں کے اوپر دو سپید چھجّے بنے ہوں، میں نے اس کو بس اتنا ہی دیکھا تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا پارکنگ کی جانب چلا گیا۔ چلتے چلتے اس نے میری طرف دیکھے بِنا  مجھ سے کہا۔ ’’قبرستان۔۔ ہسپتال کا قبرستان’‘  اس کے جاتے ہی، پارکنگ کے عقب سے اذان کی آواز میرے کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس سے قبل شاید اس لئے سنائی نہیں دی کہ میں ایک ہی خیال میں گم رہا تھا۔ ’’حیّی علی الصلٰوۃ۔۔ حیّی علی الصلٰوۃ’‘  نماز کی طرف آؤ۔ نماز کی طرف آؤ۔ ’’حیّی علی الفلاح ۔۔’’حیّی علی الفلاح ‘‘ فلاح کی طرف آؤ۔ فلاح کی طرف آؤ۔ میں بینچ سے اٹھا اور ہسپتال کی مسجد کی طرف روانہ ہو گیا یا اس کی جانب جس کی جانب ہر مشکل میں سارے آدم زاد رجوع ہوتے ہیں، یہ میں نہیں بتا سکتا۔ وضو بنا کر نماز میں شریک ہوا اور نماز کے بعد مسجد میں پوچھ گچھ کی۔ نمازیوں میں زیادہ تعداد ان کی تھی جو بیمار تھے یا بیماروں کے رشتے دار اور احباب تھے، میں نے ہر چہرے کو دعا کرتا ہوا پایا۔ ہسپتال آدمی کو جتنا خدا کے قریب کر دیتا ہے کوئی عبادت گاہ شاید ہی اتنا قریب کرے۔ چھت سے گرنے والی کے بارے میں پوچھ گچھ بیکار گئی۔ نمازی بھی جلدی میں تھے، مسجد سے نکل کر میں نے سوچا ’’ اب ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ راجا اکرم کی طرف جاتا تھا۔ ایک مرتبہ پھر اس سے ملنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ شاید وہی میری مدد کرے۔ ‘‘

مسجد سے باہر آ کر ایک بار پھراس علاقے میں پہنچا جہاں ٹرک وغیرہ کھڑے تھے۔ فولادی سریوں والا ٹرک غائب تھا، لیکن ان دو آدمیوں میں سے جو کسی بات پر تکرار کرتے ملے تھے، ایک جو  قدرے موٹا، پستہ قد، جو اپنی خشخشی موچھ اور داڑھی میں خاصا اہم اور معتبر لگتا تھا۔۔ موجود تھا، ٹریکٹر جہاں کھڑا تھا، وہیں ڈٹا ہوا تھا لیکن کسی نے اس کو بند کر دیا تھا، اس سبب سے خاموش تھا۔ میں نے اس الفربہ خواہ مخواہ معتبر سے بعد سلام راجا اکرم کے بارے میں دریافت کیا۔ راجا اکرم کا نام سنتے ہی وہ کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’آپ نے ان سے ملنا ہے تو جھٹ پارکنگ کی طرف دوڑ جائیے۔ وہ ابھی ابھی ادھر گئے ہیں۔ ‘‘

ابھی اس کا فقرہ مکمل بھی نہ ہوا ہو گا، میں دوڑ پڑا۔ راجا اکرم پارکنگ کے راستے ہی میں مل گیا۔ اس کے ساتھ دو آدمی تھے، جو ٹیکنیشین لگتے تھے۔ مجھ سے رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے کہا ’’میں گھر جا رہا تھا ۔۔ چلو کسی قریبی ریسٹوراں چلتے ہیں۔ ‘‘

’’مجھے تم سے کچھ کام ہے۔ ہسپتال کے اندر ہی بات کر لیں گے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ راجا نے میری جانب غور سے دیکھا۔ یہ انجینئر قسم کے لوگ آدمی کو پڑھ لیتے ہیں۔ امپرسنل جو ہوئے، ایک ہلکے سے اشارے سے راجا نے ان دونوں بندوں سے چھٹکارا پا لیا۔ وہ سلام کر کے رخصت ہوئے پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’تیری تو بُری حالت ہے۔ کیا ہسپتال میں کوئی سیریس ہے؟’‘

’’راجا میں تو اس مطلب سے آیا تھا کہ تجھے جلد سے جلد وہ چیز پیش کروں جو خاص تیرے لئے منگوائی ہے۔ ‘‘

وہ آ گئی۔ مزہ آ گیا۔ اس خانہ ساز میں جو بات ہے وہ باہر کی مہنگی سے مہنگی شراب میں نہیں، لیکن یہ تیرے چہرے کو کیا ہو گیا ہے؟ پورے بارہ بج رہے ہیں۔ ‘‘ راجا کو تیز کلامی کی عادت تھی وہ لمبی سے لمبی بات ایک سانس میں کہہ دیتا تھا۔

’’تیری چیز آ گئی اور ۔۔ اور میری چیز چلی گئی۔ ‘‘ میں نے گریہ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ یہ میرے روتے بسورتے چہرے نے اسے بتا دیا ہو گا کہ میں کسی بڑے دُکھ میں مبتلا ہوں۔ اس کا چربی چڑھا طبّاخی چہرہ ایک دم لٹک سا گیا۔ وہ میرا قریبی دوست تھا۔ ہم برسوں سے ایک دوسرے کے سکھ دُکھ بانٹ رہے تھے اور آپس میں بے تکلف بھی تھے۔ ’’تو پیتا بھی نہیں ۔۔ تو پھر یہ تیری چیز چلی گئی ۔۔ صاف بتا دے مرے بھائی۔ بات کیا ہے؟’‘  وہ اپنائیت سے بولا۔

’’وہ جو ہسپتال کی چھت سے نیچے گری ہے’‘  میں نے اس طرح کہا کہ میرے الفاظ ٹوٹ پھوٹ رہے تھے۔ ‘‘

’’اس ہسپتال کی چھت سے آج تک کوئی نہیں گرا۔ راجا نے اپنی بھویں اوپر اٹھا کر اور آنکھوں کو پوری طرح کھول کر اعتماد کے لہجے میں کہا۔ ’’راجا۔۔ تمہیں کیسے یقین دلاؤں۔ آج ہی، آج کی شام جب میں تمہاری تلاش میں اوپر نیم تعمیر چھت پر پہنچا۔ تم تو نہیں ملے، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے ۔۔ اس کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا۔ نیچے دوڑا آیا ہر طرف دیکھا، پوچھ گچھ بھی کی۔۔ اب تم سے مدد چاہتا ہوں۔ ‘‘

 ’’کیسی مدد۔ ؟’‘  راجا مجسم سوال ہو گیا۔ اس کے لہجے میں اخلاص تھا۔ ’’راجا۔ مجھے یقین ہے کہ ہسپتال کی بدنامی کے خوف سے اس پورے واقعہ کو دبایا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرو اور اس گرنے والی کا پتہ چلاؤ۔ ‘‘

اتنا کہہ کر میں رونے لگا اور وہ بھی آواز کے ساتھ۔۔ شاید میرے صبر اور ضبط کا بند ٹوٹ چکا تھا۔ مجھے روتا دیکھ کر راجا اکرم مجھ سے لپٹ گیا اور جب وہ علیحدہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ ’’میں ابھی پتہ چلا لیتا ہوں۔ میرے ساتھ چلو۔ دفتر کھلوائے دیتا ہوں۔ تم بیٹھ کر چاہئے پیو اور میں اس مہم پر روانہ ہوتا ہوں۔ ‘‘ گریہ سے بھرّائی ہوئی آواز میں وہ بولا۔ ’’ میں چائے وائے نہیں پی سکوں گا۔ بس تم گرنے والی کا پتہ چلاؤ، و ہاں میری طرف سے یہ وعدہ کہ ہسپتال کی بدنامی کا باعث نہیں بنوں گا۔ ‘‘ میں راجا کے پیچھے چلا۔ شعبہ تعمیرات کی چھوٹی سی خوبصورت عمارت میں اس کا دفتر تھا۔ دفتر میں ابھی تک کام ہو رہا تھا۔ دو چار آدمی ایک بڑا سا بلو پرنٹ دیکھ رہے تھے۔ سپید گاؤں میں ملبوس ایک لمبا پتلی موچھوں والا گنجا آدمی کسی نقشے پر بات کر رہا تھا۔ اس کے الفاظ میری سماعت تک پہنچ تو رہے تھے لیکن سنائی نہیں دے رہے تھے۔ راجا اکرم نے اپنا کمرہ کھلوا لیا اور میں اس کمرے کے ایک صوفے میں دھنس گیا، جو ایک کونے میں رکھا تھا۔ اس دوران اکرم باہر جا چکا تھا میری آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہ رہی تھیں۔ آنسوؤں کی ہر چھوٹی بڑی میں ’وہ‘ تھی۔ وہ جو میری نہ ہوتے ہوئے بھی میری تھی۔ ارض وسما میں بلکہ شاید پوری کائنات میں صرف اور صرف وہی تو تھی جو حقیقی معنوں میں میری تھی۔ چھت پر سے گرنے کے باوجود وہ زندہ سلامت تھی۔ اسے کچھ نہیں ہو ا تھا۔ اسے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ‘‘ میں نے اپنے آپ کو یقین دلایا۔ مجھے یاد آیا اس نے مجھے لکھا تھا۔ ’’ جب تک میرا حافظہ نہ جاتا رہے میں تمہیں نہیں بھولوں گی۔ ‘‘ اس نے اپنے مرنے کا نہیں لکھا تھا تو پھر وہ کیسے مرسکتی تھی۔ ؟ ’’ اسے مرنا نہیں ہے۔ مجھ سے  پہلے تو ہر گز نہیں ‘‘ مجھے نہیں معلوم صوفے پر بیٹھے ہوئے روتے روتے بیہوش ہو گیا تھا یا اس کی یاد میں گم ہو گیا تھا۔ جب میں ہو ش میں آیا راجا اکرم کا چپراسی مجھ سے مخاطب تھا۔ ’’ صاحب چائے حاضر ہے۔ ‘‘ میں نے چپراسی کو دیکھا۔ وہ مجھے کسی اور دنیا سے آئی ہوئی مخلوق لگا۔ اصل بات یہ تھی کہ میں خود کسی اور دنیا میں پہنچا ہوا تھا اور چپراسی کی آواز نے مجھے اس کی دنیا میں لا ڈالا تھا۔ ’’ اللہ بخش۔ تم نے چائے بیکار ہی بنائی۔ میں نے تمہارے صاحب کو پہلے ہی منع کر دیا تھا۔ اب تم یوں کرو کہ چائے واش بیسن میں انڈیلو اور کپ دھو ڈالو۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔ ‘‘ میں نے چپراسی سے کہا۔ ’’ آپ شکریہ کہہ کر شرمندہ نہ کریں صاحب جی۔ میں آپ کا نوکر ہوں جی۔ خادم ہوں۔ ‘‘ چپراسی بولا لیکن اس نے چائے کا کپ رکھا رہنے دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ا س کا صاحب راجا اکرم کسی طرح چائے کا کپ دیکھ لے۔ اسی لمحے راجا اکرم آ پہنچا اور میرے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ناکام لوٹا تھا۔

’’ ان لوگوں نے تم کو بھی کچھ نہیں بتایا۔ ظالم کمینے ‘‘

’’ یہی کہ چھت پر سے آج شام کوئی نہیں گِری۔ ‘‘

’’ اس کا مطلب ہسپتال کا ایڈ منسٹریٹر معاملے کو دبانے پر تلا ہوا ہے’‘

یہ کہہ کر میں اٹھا اور باہر جانے لگا۔ راجا اکرم میرے تیور دیکھ کر اٹھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا۔

’’ تم کہاں چلے۔ ؟’‘

’’ اس خبیث ایڈ منسٹریٹر سے نمٹوں گا۔ ‘‘

’’ تم ہوش میں ہو۔ ؟ ہمارے پاس ایک گواہ بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا ہو۔ ‘‘

’’میں ہوں نا۔ میں نے اسے چھت سے نیچے گرتے دیکھا تھا۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں کسی چھوٹے بچے کی مانند رو پڑا۔ ’’ میں نے گرتے دیکھا تھا۔ اپنی جان کو۔ اپنی روح کو۔ ‘‘

’’ جب ایڈ منسٹریٹر آپ سے پوچھے گا کہ آپ کی وہ کیا لگتی تھی تو آپ اس کو یہی جواب دیں گے کہ وہ آپ کی جان تھی۔ آپ کی روح تھی۔ آپ کہتے ہیں وہ چھت سے گری تھی تو اس کو ہسپتال میں ہونا تھا اور ہسپتال والے ایسے کسی کیس سے لاعلم ہیں۔ اگر اس کے بارے میں آپ سے پوچھ گچھ کی جائے تو آپ اس کی اور اپنی شناخت درج کروائیں گے۔ ؟ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے۔ آپ اس کے لوگوں کا سامنا بھی نہیں کریں گے۔ آپ پر یہ الزام بھی آ سکتا ہے کہ خود آپ ہی نے اس کو چھت سے دھکا دیا یا کسی کو اس کام پر لگایا۔ بھائی۔ کچھ دیر بیٹھو اور اس پورے معاملے پر نظر ثانی کرو۔ ‘‘

اس لمبی تقریر کے بعد وہ خاموش ہو گیا اور مجھ کو بھی خاموشی کے غار میں دھکیل دیا۔ اس غار کے اطراف سوچوں کا جنگل تھا۔ خاموشی کے غار میں خاموشی کے علاوہ وہ بھی تھی جو چھت سے نیچے گِر پڑی تھی اور جس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اس کو آسمان کھا گیا تھا یا زمین نگل گئی تھی۔ سوچوں کے جنگل میں درندے میرے ذہن کی جانب منھ پھاڑے دھاڑ رہے تھے۔ ’’ تو اس کا کون ہے۔ ؟’‘

خاموشی کے غار کے باہر آتے ہی میں کھڑا ہو گیا۔ رات پڑے دیر ہو چکی تھی۔ میری خاطر میرا دوست راجا اکرم بھی اپنے دفتر میں رکا ہو ا تھا اور چپراسی اللہ بخش کو بھی گھر جانے میں تاخیر ہو رہی تھی میرے ساتھ ہی راجا اکرم بھی کھڑا ہوا۔ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا اس سے جو کچھ بن پڑا وہ کر چکا تھا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو اپنے دکھ میں شریک کر لیا تھا۔ بغیر کچھ بولے اس نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبایا۔ میں نے اس کی آنکھوں سے اپنی آنکھیں نہیں ملائیں اور دبی زبان میں خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔

ہمیشہ کی طرح باہر کی دنیا معمول کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے پر تُلی بیٹھی تھی۔ برسوں سے یہی ہوتا چلا آیا تھا۔ چھت سے گرنے والی مجھ سے الگ کسی اور دنیا میں زندگی گزار رہی تھی۔ وہ میری ہوتے ہوئے بھی کسی اور کی ہو گئی تھی۔ ادھر میں بھی اس کا ہوتے ہوئے بھی کسی اور کا ہو گیا تھا۔ ہم دونوں کی دنیاؤں کے درمیان بڑے فاصلے اور مذہب کی سنگین دیوار حائل تھی۔ ہسپتال سے باہر نکل کر میں نے اپنی گاڑی اپنے گھر کے بجائے ایک ہوٹل کی طرف موڑ دی۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ گاڑی نے مجھے ہوٹل کی طرف موڑ دیا۔ گھر میں اطلاع دے دی کہ رات میں نہ آ سکوں گا۔ مزید یہ بھی کہہ دیا کہ ممکن ہے مجھے دو تین روز کے لئے اسلام آباد جانا پڑے۔ رات ہوٹل میں گزاری۔ روم سروس وغیرہ منع کرد ی اور سختی سے ہدایت کر دی کہ مجھے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ ہوٹل کے کمرے میں بغیر معمولات شب اور بغیر کپڑے بدلے، بستر پر گر کر لحاف کے اندر چلا گیا۔ اگر میں اپنے حواس میں ہوتا تو اپنے پرائیویٹ آفس سے سفری ہینڈ کیری لے آتا جس میں ضرورت کی ہر چیز ہمہ وقت پیک رہتی تھی۔ جیسے ہی میں ہوٹل کے کمرے میں تنہا ہوا وہ میرے پاس آ گئی اور بولی۔

’’ یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے۔ ؟ اپنے آپ کو سنبھالو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں نا۔ ہمیشہ کی طرح۔۔ ‘‘ اور میں اس سے لپٹ کر دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو گیا۔

صبح جب میں بستر سے اٹھا تو یوں لگا جیسے وہ پہلے ہی بیدار ہو کر، شاور لے کر باہر چلی گئی ہو۔ جیسے وہ میرے ساتھ ہی رہتی ہو جیسے وہ ہوٹل کا کمرہ نہ ہو بلکہ ہمارا گھر ہو۔ لیکن حقیقت میں نہیں تھا۔ میں نے دانت برش کئے، شیو کئے بنا شاور لیا۔ روم سروس والا چائے، ناشتے کو پوچھنے کے لئے آیا میں نے منع کر دیا۔ ہوٹل کاؤنٹر پر بِل ادا کر کے، روم سروس اور واش روم سروس کے بندوں کو مناسب ٹپ دیکر میں باہر نکل تو گیا لیکن گاڑی میں بیٹھنے تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ مجھے آگے کیا کرنا تھا۔ ؟ گھر جاؤں اور میڈیا سے یہ امید کروں کہ مجھے گھر بیٹھے خبر دے دیں۔ کم از کم اس کی گم شدگی کی خبر تو آئی ہی ہو گی یا ایک بار پھر ہسپتال جاؤں اور ادھر ادھر معلوم کروں لیکن گاڑی نے خود ہی یہ فیصلہ کر ڈالا کہ گھر کے راستے پر نہیں پڑی۔ اس کے بعد اسٹیرنگ نے گاڑی کو ہسپتال کے گیٹ کے اندر داخل کر دیا۔ گاڑی پارک کر کے میں انکوائری  اور ایمرجنسی کاؤنٹر کے سامنے بے مقصد چکر لگانے لگا۔

وہاں رونق تھی۔ میں نے لوگوں پر بھی نظر ڈالی لیکن کسی پر بھی نظر نہیں رکی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ میں شاید دیکھنے سے قاصر رہا اور جلد ہی وہاں سے نکل گیا۔ آئی سی یو وارڈس میں ایک دو نرسوں اور گارڈوں سے سر کھپا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کی شباہت رکھنے والی کوئی مریضہ آئی سی یو (I.C.U) میں تو نہیں داخل تھی۔ لیکن ناکام رہا۔ نیچے اتر کر میں نے وہ فیصلہ لیا جو میں لینا نہیں چاہتا تھا۔ ہسپتال کے قبرستان جانے کا فیصلہ۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر میری دونوں آنکھوں کو رواں کر دیا۔ میرے اندر کا سب کچھ پانی ہونے لگا۔ میرے لئے بہتر طریقۂ کا ریہ تھا کہ ہسپتال کے تیسرے گیٹ سے اندر داخل ہوں اور بیرونی دیوار کے آخری سرے پر جھاڑیوں سے بنائی ہوئی ایک باڑھ کے پیچھے پہنچ جاؤں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ لا وارثوں کے اس قبرستان میں داخل ہو کر میں نے چاروں اور نظر ڈالی۔ السلام علیک یا اہل القبور (تم پر سلامتی ہو اے قبر والو) میں نے اپنی دین کی شریعت پر عمل کرتے ہوئے ہلکی لیکن صاف آواز میں کہا۔ اس دوران ایک جوان آدمی، دو دس، بارہ سالہ لڑکوں کے ساتھ نہ جانے کہاں سے برآمد ہو گیا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور بولا آپ کا کوئی بندہ۔ ؟’‘  میں نے اس کو اور ان لڑکوں کو نہ دیکھتے ہوئے دیکھا اور اپنی بہ سبب گریہ بھرّائی ہوئی آواز پر قابو پا کر پوچھا۔ ’’ کسی مائی کی قبر۔ کل رات یا آج فجر والی’‘  ’’ آپ کون۔ ؟’‘  اس نے الٹا مجھ سے سوال کیا۔ مجھے اس کے اس سوال پر غصّہ آ گیا۔ ’’عجیب دنیا ہے۔ ‘‘ میں نے سوچا۔ ’’ یہاں قبروں پر بھی رشتے داروں کا اجارا ہے۔ ‘‘ اپنی مجبوری پر خود مجھے بھی ترس آنے لگا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے یہی سوال دہرایا۔ ’’ آپ کی کون۔ ؟’‘  اور خود ہی جواب دیا۔ ’’ میری سب کچھ۔ ‘‘ یہ جواب میں اس قبرستان کے مجاور کو نہیں دے سکتا تھا سو خاموش رہا۔

’’ کس کا کون۔ ؟’‘  میرے لا جواب ہو جانے کے فوراً بعد کسی نے میرے عقب سے سوال کیا۔ یہ وہی درویش تھا جس نے مجھے ’قبرستان‘ کا اشارہ دیا تھا۔ اس وقت جب میں ہسپتال میں چھت سے گرنے والی کے بارے میں پوچھتا پھر رہا تھا۔ میں نے پلٹ کر اس کو دیکھا۔ اس مرتبہ اس کے بال کھُل کر، دونوں شانوں اور پیٹھ پر لہرا رہے تھے۔ اور اس کے روشن چہرے کو اپنے احاطے میں لیکر روشن تر بنا رہے تھے۔ روشنی نے میری آنکھوں میں چکا چوند سی پیدا کر دی۔ میری نگاہیں آپ ہی آپ جھک گئیں۔ میں نے دیکھا یا محسوس کیا اس مجاور نما شخص نے اپنے دونوں ہاتھ، ادب سے پیٹ پر ناف کے قریب باندھ لئے تھے دونوں لڑکے بھی ادب کے انداز میں آ گئے تھے اگر چہ انہوں نے آنکھیں نہیں جھُکائیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے اس درویش کو دیکھ رہے تھے۔ ’’ اسلام علیکم سائیں۔ یا علی مدد’‘  مجاور نما آدمی نے درویش کو سلام کیا۔ ’’ یا علی مدد۔ وقت شاہ بابا۔ ‘‘ لڑکوں نے بلند آواز میں کہا۔

’’ کوئی کسی کا نہیں۔ سب وقت کے ہیں ۔۔  وہ۔۔  وہ اپنا وقت بسر کر گئی۔۔ آگے اس جھاڑ کے نیچے ۔۔ مٹی اوڑھے۔ ‘‘

درویش کے الفاظ نے میرے پیروں کو متحرّک کر دیا اور میرا بدن اپنے آپ ہی ادھر بڑھا جدھر درویش نے اشارہ کیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے قدرے فاصلہ رکھ کر وہ سب میرے پیچھے آرہے تھے۔

اس نئی بنی ہوئی لحد پر پھول تھے۔ ’’ ہسپتال کی انتظامیہ کی ہدایات میں قبر پر پھول ڈالنا بھی شامل ہو گا۔ ‘‘ میں نے سوچا۔ میرے اندر سے یقین کی ایک لہر اٹھی اور میرے ذہن کے صف اول میں پہنچ کر رُک گئی۔ میں اس نئی بنائی ہوئی، مٹی کی کچّی قبر کی پائنتی کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’ تم ہی ہو۔ نا۔ تم نے مذہب کی بنیاد پر شادی کی در خواست (Proposal) ٹھکرا دی تھی۔ یاد ہے نا۔ میں نے تمہیں راضی کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ میں نے تم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ تمہیں مذہب تبدیل کرنے کے لئے کبھی مجبور نہیں کروں گا لیکن تم نے ہر مرتبہ ہنسی میں ٹال دیا تھا۔ میں نے بچوں کو مذہب اختیار کرنے کی آزادی دینے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن تم نہیں مانیں اور ہنستی رہیں۔ دیکھو۔ اب تم میرے مذہب کے طریقے پر دفن ہوئی ہو۔ دیکھ رہی ہو۔ ‘‘

’’ دیکھ رہی ہوں۔ لیکن میں مری ہوں اپنے مذہب پر اور اس سمے بھی ہنس رہی ہوں۔ ‘‘ وہ بولی۔ میں نے دیکھا وہ میرے سامنے کھڑی ہنس رہی تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ میرے پیچھے آنے والوں کا کہیں بھی پتہ نہیں تھا۔ مجاور نما آدمی۔ اس کے دونوں لڑکے غائب ہو گئے تھے البتہ وقت شاہ فقیر کا پرچھاواں ساکھڑا تھا اور آہستہ آہستہ فضا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔

پیچھے بہت پیچھے ماورائی افق پر۔ وقت کی سُرنگ سے خلق بر آمد ہوتی جا رہی تھی۔ وقت کی سُرنگ میں خلق داخل ہو کر نظروں سے غائب ہو تی جا رہی تھی۔ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ برآمد ہونے کا اور غائب ہونے کا۔ وہ ہنسے جار ہی تھی اور اس کا انگ انگ، رُواں رُواں ہنس رہا تھا۔ یہ اس کے ہنسنے کا انداز تھا۔

میں اس کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہا تھا۔

 سُرنگ کے داخلی راستے کی جانب۔

 آہستہ آہستہ۔ آہستہ آہستہ۔ !!

٭٭٭

 

آگہی کاسفر

 اس عجیب و غریب اشتہار کو میں عرصۂ دراز سے پڑھتی آ ئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ میرے ذہن کے اس گو شے میں اتر پڑا جہاں سے آدمی کو عمل کی ترغیب ملتی ہے اور میں حرکت میں آ گئی۔ اشتہار کے الفاظ میں نیچے درج کئے دیتی ہوں۔ اس تحریر کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اشتہار ایک سفر سے متعلق تھا۔ میں نے سوچا مجھ سے قبل قدیم زمانے سے سفر پر نکلنے والوں میں سے اکثریت نے روزنامچے، یادداشتیں ڈائریاں اور سفرنامے قلم بند کئے تھے جن میں سے بعض کی افادیت بعد میں کھل کر سامنے بھی آئی لہٰذا مجھے بھی ایک روز نامچہ تیّار کرنا چاہئے۔ شاید اس کا لکھنا بھی ایک مثبت اقدام ثابت ہو۔ سو یہ ہے میری تحریر کا شانِ نزول۔ پہلے متذکرہ اشتہار جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ساری دنیا میں دکھایا جا رہا تھا۔

 ’’ آگہی کے سفر پر جانے کے خواہشمند مسافروں سے درخواست ہے کہ اپنی قریب ترین بندرگاہ یا طیارہ گاہ پر دن اور رات کسی بھی وقت پہنچ جائیں، اپنے لباس پر کسی بھی نمایاں جگہ پر ’’ آگہی ‘‘ کا لفظ لکھ دیں اور کچھ دیر انتظار فرمائیں ہمارے عملے کے سارے لوگ آپ کے سفر کا سارا انتظام خود ہی انجام دیں گے۔ لفظ ’’ آگہی ‘‘ کسی بھی زبان میں تحریر کیا جا سکتا ہے۔ اخراجاتِ سفر ہمارے ذمّے۔ اسباب کی ضرورت نہیں۔ دستاویزاتِ سفر آپ کا مسئلہ نہیں۔ آپ کی حفاظت، جملہ ضروریات، کھانا، دیکھ بھال، دوائیاں، ہیلتھ کئیر ہمارے ذمّے۔

منجانب نگراں ’’ آگہی ‘‘ سفر

 میں نے اشتہار کے الفاظ من و عن مطابقِ متن درج کر دیئے ہیں۔ دنیا بھر میں اور شاید دنیا کی ہر زبان میں اس اشتہار کا مضمون یکساں ہے اب آپ یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائیں کہ میں نے اس اشتہار کی کوئی تصدیق وغیرہ بھی کی یا نہیں ؟ ظاہر ہے مجھ جیسی عورت جس کو ایک دنیا فرنٹ لائن رائٹر کے طور پر جانتی ہے جس نے دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات سے اعلیٰ ترین امتحانات، اعلیٰ ترین اعزازات کے ساتھ پاس کئے ہوں اتنی سادہ لوح نہیں ہوسکتی کہ اس اشتہار پر یقین کر لیتی۔ میں نے پہلے پہل اس اشتہار کو دیوانے کی بَڑ قرار دے کر اپنے ذہن کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔ اس کا سبب صاف تھا دنیا کے کسی بھی ادارے نے اس اشتہار کی اشاعت کی ذمّہ داری قبول نہیں کی تھی۔ میں نے دنیا کے بڑے بڑے معتبر اخباروں کے مدیروں سے لے کر مالکوں تک کو بھی کھڑ کھڑا لیا تھا۔ خود بھی انٹرنیٹ پر اور چند ایک ماہرین انٹرنیٹ کے تعاون سے بھی ’’ آگہی‘‘ کے سفر اور اس کے کرتا دھرتا لوگوں کا پتہ چلا نے کی کوشش کی تھی مگر بے سود۔ میں نے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے اطلاعاتی و تحقیقاتی اداروں سے بھی رجوع کیا مگر بے نتیجہ۔ اس معاملے کو قومی اور بین الاقوامی سیکیورٹی کا معاملہ بنانے کے بھی ممکنہ جتن کر ڈالے لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ ۔ ۔ ۔ میں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اس اشتہار کے مشتہرین پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ؟اس کے لئے مالی ادائیگیاں کرنے والوں سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔ ۔ ؟ میرے ان آخری سوالات کا جو جواب ملا اس نے مجھے حیران، پریشان، چوکنّا اور لا جواب کر دیا۔

وہ جواب یہ تھا کہ مذکورہ اشتہار آپ ہی آپ نشر ہو رہا ہے اور طبع ہو رہا ہے۔ اس کو روکنے کی بھی ساری تدبیریں بے کار گئی ہیں۔ اس جواب کے ملنے کے بعد میں نے اس اشتہار کے بارے میں سوچنا قطعی چھوڑ دیا۔ اپنے ذہن کواس خیال سے بہلا دیا تھا کہ اس کے عقب میں کسی عالمی بڑی طاقت کا ہاتھ ہے ورنہ یہ سب ٹیکنالوجی کے طور پر اتنا اعلیٰ، اتنا جدید، اور ظاہری طور پر اتنا حیران کن اور نا قابلِ فہم نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک زمانے میں اُڑن تشتریوں کا مسئلہ سامنے آیا تھا جو بغیر حل ہوئے دب گیا تھا۔ برمودا ٹرائینگل، ( برمودا کے مثلث ) کا معاملہ بھی زور و شور سے اٹھا اور ڈوب گیا۔ کسی بڑی طاقت کے قبضے میں ایلین کی موجودگی کی افواہوں کا بھی کچھ ایسا ہی حشر ہوا۔ میری طرح اور بھی لوگ ہوں گے جو اس اشتہار کو اس مرحلے تک پہنچا کر عاجز آ گئے ہوں گے۔ میں بھی عاجز آ چکی تھی، ہار چکی تھی اور بالآخر اس کو بھلا چکی تھی تا آنکہ وہ خود میرے ذہن میں اتر پڑا۔ مجھ کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجوزہ سفر کے لئے آپ ہی آپ میں تیار ہو گئی۔ میری ہر حرکت بلا ارادہ سر زد ہوتی گئی۔ میں نے کسی بھی دوست یا رشتے دار کو اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ میں جانتی تھی سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن مطلبی لوگ تھے جو کسی ذاتی غرض کی بناء پر مجھ سے رجوع ہوتے اور غرض کے پورے ہوتے ہی مجھ میں یا میرے کسی کام میں کیڑے نکال کر مجھ سے کٹ جاتے۔ میں شادی کرنے کی کوشش میں بھی ناکام رہی تھی۔ میں شاید مردوں کی نظر میں ضرورت سے زیادہ پڑھی لکھی اور لکھنے والی کے طور پر غیر معمولی مشہور و معروف سلیبریٹی تھی اور مردوں کی اکثریت کی نظروں میں سلیبریٹی عورت ’’ گھر نہیں بنا سکتی۔ ‘‘ میرا کوئی بوائے فرینڈ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جن دنوں میں ’’ گرل ‘‘ تھی کسی لڑکے کی گرل فرینڈ نہ بن سکی تھی۔ کسی لڑکے کی مجال نہیں ہوئی کہ مجھے اپنی آئس کریم چاٹنے کے لئے پیش کرے۔ رہا کافی یا چائے کی رفاقت تو کوئی لڑکا مجھے اس کی دعوت دینے حماقت کر بیٹھتا تو اس کے دماغ کے سارے طبق روشن ہو جاتے جب وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر میرے آ گے زبان کھولتا۔ جب میں گھر سے نکلنے کو تھی تو میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ میرا کوئی ہوتا جس کے نام پیغام چھوڑتی۔ تاہم رسم پوری کرنے کے لئے میں نے میز پر رکھے ہوئے کیلنڈر کے ایک گوشے پر لکھا۔ ’’ ہیلو ڈیئر۔ ۔ ۔ میں آگہی کے سفر پر جا رہی ہوں، مجھے اچھے سفر کے لئے ’’ وش ‘‘ کرو۔ تمہاری جو بھی تم سمجھو۔ ۔ ’‘ اپنے جیکٹ کے کالر پر ’’ آگہی ‘‘ کا ٹیگ لگایا اور ایک چھوٹے سے ہینڈ کیری کو گھسیٹتی ہو ئی باہر نکل پڑی۔ قریبی ایئر پورٹ پر گاڑی پارک کی اور انتظار گاہ میں داخل ہو گئی۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ ادھر میں انتظار گاہ میں داخل ہو ئی اُ دھر ایک سرو قد ایئر ہوسٹس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، مسکرائی اور ’’ آگہی ‘‘ کا ٹیگ میرے کالر سے جدا کیا اور ایک نیلے رنگ کی فائل میں ڈال دیا۔ اپنے ساتھ آنے کا ہلکا سا اشارہ کیا۔ میرے ساتھ اس ہینڈ کیری کے علاوہ کوئی اور اسباب نہیں تھاجس کو پارک کرنے کے وقت گاڑی سے باہر نکال لیا تھا۔ ایئر پورٹ پر مختلف مقامات پر الگ الگ جانے والی ایئر لائنوں کے مسافروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مذکورہ ایئر ہوسٹس کے عقب میں قطاروں سے بے نیاز میں آ گے بڑھتی گئی۔ وہ ایک دروازے کے سامنے جا کر ادب سے ایک طرف ہو کر کھڑی ہو ئی۔ میں نے پہلی بار اس کے چہرے پر کھل کر نظر ڈالی یا شاید اس نے مجھے ایسا کر نے دیا۔ اس کا چہرہ روشنی سے بنا تھا اس سے آنکھیں ملانے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی۔ اس کی آواز جو مجھے بے حد دلکش اور پُر اعتماد لگی میرے کانوں میں اتری۔ وہ کہنے لگی ’’ آ گے کا دروازہ کھولو، جہاز کا زینہ چڑھو، ایک انتہائی اہم اور دلچسپ سفر تمہارا منتظر ہے۔ ۔ یہ رہا تمہارا بورڈنگ کارڈ۔ ‘‘ ایئر ہوسٹس کے ہاتھ نے میری جانب کارڈ بڑھایا۔ میں نے کارڈ تھاما، دروازہ کھو لا اور ہینڈ کیری گھسیٹتی ہو ئی اندر چلی گئی۔ بائی بائی۔ ۔ ایئر ہوسٹس کی آ واز مجھے باہر سے اندر آتی ہو ئی معلوم ہوئی۔ میں نے سوچا یہ عجیب سفرہے نہ قطاریں لگیں، نہ کلیئرنس کروایا بس جہاز کے اندر ہو گئے۔ یہ کیسی فضائی کمپنی تھی کہ انتظار گاہ میں داخل ہوتے ہی فضائی میزبان خدمت میں حاضر۔ ایساتو صرف وی۔ وی آئی۔ پی (بہت زیادہ اہم ) کے ساتھ ہوتا ہو گا۔

 جہاز کے اندر سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہوا کرتا ہے۔ ایک انتہائی خوبصورت فضائی میز بان نے مجھ سے بورڈنگ کارڈ طلب کیا۔ نصف حصہ خود رکھا اور نصف مجھے لوٹا دیا۔ اور انتہائی خوش اخلاقی سے، مجھ سے آگے چلتے ہوئے میری نشست کی نشاندہی کی۔ میری ہینڈ کیری کو میری نشست کے نیچے رکھا۔ اور اس سے پہلے کہ میں اپنی نشست پر اپنے آپ کو جماتی وہ جہاز کی فضا میں تحلیل ہو گئی۔ بیٹھنے کے ساتھ ہی میں نے اپنے پڑوس میں بیٹھے ہوئے مسافرپر ایک چور نظر ڈالی مبادا وہ میرے اس تجسس کو نا شائستگی سے تعبیر کرے لیکن نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا میرے ساتھ کی نشست پر بیٹھا ہو ا مسا فر جو ادھیڑ عمر کا ایشیائی دکھا ئی دے رہا تھا۔ وہاں مو جود ہونے کے باوجود غیر مو جود تھا میں نے اس کو ’ ہائی، ہیلو ‘ کہنا چاہا تاکہ اس کو پتہ چلے کہ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے والی عورت کوئی مہذب خاتون ہے۔ لیکن یہ کیا میری زبان پر دو حرفی اور چار حرفی لفظ بھی نہ آ سکے۔ میں نے بار بار منہ کھولا، ہونٹوں کو حرکت دی، حلق کے عضلات کو تکلمی جنبشیں دیں، زبان کو اٹھایا، بٹھایا، گھمایا، دائیں بائیں ہر طرح کی حرکت دی، پھیلایا، سکیڑا، سمیٹا، گولائی میں لپیٹا، آواز کے حنجرے( ساؤنڈ بکس ) پر پوری توانائی صرف کر دی۔ لیکن میرے حلقوم سے کوئی آواز برآمد نہیں ہو ئی اتنی سا ری کوششوں میں نا کامی کے باوجود میری ہیلو، ہائی میرے بازو والے آدمی تک پہنچ بھی گئی۔ اور اس شریف آدمی کے چہرے پر اس کی رسید اور جواب صاف طور پر تحریر ہو گیا۔ خود میرے اندر اس کی جوابی ہیلو، ہائی بھی نازل ہو چکی تھی۔ اس شریف آ دمی نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو، میں نے یہ حیرت ناک حقیقت محسوس کر لی۔ اس فضائی میز بان نے مجھ سے جس طرح کلام کیا جس نے ایئر پورٹ سے جہاز کے گیٹ وے تک میری رہبری کی۔ اور اب دونوں مسافروں نے جس طرح ہیلو، ہائی کیا۔ اس سے مجھ پر واضح ہو گیا۔ یا میرے مولا۔ ! یہ بغیر الفاظ کے بات چیت کا انوکھا طریقہ تھا۔ اس سے آپ فا رسی کی اس شاعرانہ کہاوت کی طرف ذہن کو نہ لے جائیں ؎ خموشی معانی دارد کے در گفتن نمی آید۔ کیونکہ یہاں معاملہ بالکل مختلف تھا ’’ اس کو بغیر الفاظ کے بات چیت کہنا درست ہو گا یا اس کے لئے کوئی نئی اصطلاح اختراع کرنا پڑے گی۔ ۔ ’‘ میں نے سوچا ’’ دوسرے آ دمی کے خیالات میرے ذہن کے اندر اور میرے خیالات دوسرے آدمی کے ذہن کے اندر ابلاغ یا ترسیل ہو رہے تھے۔ الفاظ کی صورت اختیار کئے بنا۔ ۔ ’‘ میں نے اپنے آپ کو باور کرانے کی کوشش کی۔ تھوڑی دیر کے لئے سفر کو بھول کر شاید اس الجھن کو سلجھانے میں لگ گئی لیکن جلد ہی اپنے آ پ کو سنبھال لیا۔ میں مسافرتھی اور مسافر لمحۂ موجود سے غافل نہیں رہ سکتا۔ لمحۂ موجود کے مطابق میں جہاز کے اندر تھی۔ جہاز کا اندرون بظاہر تو عام جہازوں جیسا تھا لیکن مجھے بدلا بدلا سا لگا۔ مثال کے طور پر اس احساس کو کیا کروں مجھے فضائی میزبان نظر نہیں آ ئی لیکن یہ کیا ادھر میں نے سوچا اور اُدھر فضائی میزبان ایک ٹرالی دھکیلتے ہوئے میرے عین داہنے بازو آ موجود ہو ئی اور بولی ’’جوس، سافٹ ڈرنک، پانی ‘‘۔

’’ کافی ملے گی۔ ۔ ؟ ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔

’’ ایک لحظہ انتظار کیجئے براہِ کرم ‘‘ اس نے انتہائی ادب سے کہا اور آ گے بڑھ گئی۔ پلک جھپکتے ہی ایک اور میزبان ( اس دفعہ مرد ) کافی، چائے، اور دیگر گرم مشروبات کی ٹرالی کے ساتھ حاضر ہو گیا۔ میں نے کالی کافی طلب کی جو مجھ دے دی گئی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے کسی نا معلوم زبان میں کوئی عجیب سا گرم مشروب مانگ لیا جس کے بخارات سے میری اپنی ایک پسندیدہ خوشبو ’’ شرارت ‘‘ (Mischief) کی مہک آ رہی تھی۔ مجھے بے حد اچھا لگا۔ اچانک سب کچھ معمول کے مطابق ہو نے لگا کپتان کی جا نب سے بھی کچھ نشر ہوا۔ فضائی میزبانوں نے کچھ ہدایات دیں۔ ٹی وی آ سکرین بھی روشن ہوئے اور مسافروں نے اپنے من پسند پروگرام سننے کے لئے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا لئے لیکن جہاں تک ابلاغ کا معاملہ ہے اس کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ یا تو خیالات بغیر الفاظ کا جامہ پہنے ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل ہو رہے تھے یا پھر لفظ اگر تھے تو ا ن کی نوعیت بد لی ہوئی تھی۔ بے جسم لفظ۔ مجرّد لفظ۔

’’کیا واقعی میں آگہی کا سفر کر رہی ہوں ‘‘۔ میں نے اس سے پہلے نہ توا س طرح سوچا تھا اور نہ ہی اپنے آپ کو سمجھا یا تھا۔ میرا ذہن روشن ہو رہا تھا۔ میری فکر کے تاریک گوشوں پر روشنی کی کرنیں سی پڑنے لگی تھیں۔ جہاز پر ابلا غ کی صورت جو مشاہدے میں آ رہی تھی اس نے مجھے اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس عقیدے کو یقین اور ایمان کی حد تک سمجھنے کے قابل بنا دیا کہ ’’ اللہ جو سوچتا ہے وہ ہو جاتا ہے ‘‘۔ وہ اشبدھ ہے اسے لفظوں کی احتیاج نہیں۔ لفظ وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ وقت کے زیرِ اثر ہیں۔ اللہ وقت کے زیرِ اثر نہیں۔ اس سے قبل میری سوچ فقرے پر رکی ہوئی تھی۔ ’’ سب سے پہلے لفظ تھا ‘‘ (Before every thing, there was word ) اس طرح سوچتے سوچتے میں اپنی سوچوں کے لئے بھٹکتی پھری۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ جہاز پر کھانا دیا بھی گیا کہ نہیں۔ دھندلی دھندلی یاد میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کھانے کی ٹرالی والی سے از راہِ مذاق ایسی ڈش مانگی جو ہوائی جہازوں میں مہیا نہیں کی جاتی لیکن اس نے مہیا کر دی اور میں دل ہی دل میں جھینپ کر رہ گئی۔ آ خر کار کپتان کی جانب سے یہ اعلان القا ہوا کہ ’’ ہمارا جہاز اپنی منزلِ مقصود ’’ آگہی ‘‘ کی طیران گاہ پر اترنے والا ہے۔ مبارک ہو ‘‘ چند لحظوں کے بعد جہاز نے ٹیکسی کی اور میں دوسر ے مسافروں کے ساتھ اپنی ہینڈ کیری گھسیٹتی ہوئی زینے کے قریب کھڑے ہوئے جہاز کے کپتان اور عملے والوں کی مسکراہٹوں کے جواب میں اپنے دانت دکھاتے ہوئے جہاز کے زینے سے نیچے اتر گئی چند قدم کے فاصلے پر ایک لابی( غلام گردش ) دکھائی دے رہی تھی۔ ہم سب اس پر پہنچ گئے ہم نے دیکھا کہ دوسری جانب ایک انتہائی خوبصورت اور خاصی لمبی گاڑی کھڑی تھی۔ ہم مسافر اس گاڑی میں سوار ہوئے۔ ایسی گاڑی کسی نے کہاں دیکھی ہو گی۔ مسافروں نے جہاز میں تو ایک دوسرے سے بات کرنے سے پرہیز کیا تھا شاید ہر کوئی اس عجیب و غریب مہم کے زیرِ اثر گنگ ہو گیا ہو گا لیکن اس گاڑی کے اندرون کو دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور سب ہی ستائشی کلمات کے تبادلے میں لگ گئے۔ یہ بتانا اب شاید غیر ضروری ہو گیا ہو گا کہ بظاہر بات چیت ہو رہی تھی لیکن حقیقت میں غیر لفظی ابلاغ سے کام لیا جا رہا تھا ’’یہ بھی تو ممکن ہے ہمارا کھانا، پینا، جہاز، ایئر پورٹ، بس، فضائی میزبان، کپتان، عملہ، سفر، ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور ہو’‘ کسی برقی جھماکے کے طور پرسوچ کا یہ رخ میرے ذہن میں اچانک وارد ہو گیا جس کو جھٹک کر باہر نکال پھینکنا مجھے بہت مشکل ہوا تاآنکہ ہم ’’ آگہی ‘‘ کے مرکزی دفتر ’’ Base ‘‘ پر اتار دیئے گئے۔

مرکزی دفتر یا ’بیس ‘ کی عمارت نہ توسنگ و خشت سے تعمیر شدہ تھی اور نہ ہی چوبی تھی۔ یہ قیاس کرنا ممکن نہیں کہ اس بیضوی عمارت اور اس کے پہلو میں بنا ہوا ٹاور، لاٹ یا مینار کسی تعمیری مواد سے تشکیل دیا گیا تھا۔ یوں بھی وہ بڑاسا خوبصورت انڈا اور مینار تعمیر شدہ نہیں لگتے تھے۔ صاف طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ ان میں سے کچھ بھی تعمیر شدہ نہ تھا۔ بلکہ تخلیق شدہ تھا۔ اس علاقے میں جہاں میں پہنچائی گئی تھی جو کچھ تھا محض خیال تھا۔ احساس تھا یا خیال اور احساس کا آمیزہ۔ جو سوچا گیا اور سوچ سے خلق ہو گیا، عین اسی طرح جس طرح زمین، چاند، ثوابت و سیار اور نظامِ شمسی خلق ہوئے سوچ سے۔ سوچ چودھویں کی طرح ہے اور تسلسل کے ساتھ ایک کے بعد ایک کہکشاؤں کے سلسلے خلق کرتی جا رہی ہے۔

’’ آگہی ‘‘ کے مرکز اور مینار کی درمیانی جگہ ایک چھوٹے سے لان کی صورت میں تھی جس کے کنا رے پھولوں کے قطعات تھے۔ لان میں جو گھاس کا فرش تھا وہ حقیقی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ ایک دبیز قا لین تھاجس نے میرے پورے وجود کو اپنے آغوش میں سمیٹ لیا۔ کنا رے پھولوں پر نظر پڑی تو جسم، ذہن، دل اور روح، خوشبو اور رنگ میں نہا گئے۔ ’’آگہی ‘‘ کے داخلی دروازے پر چمکدار حرفوں سے لکھا ہوا ایک بورڈ آویزاں تھا۔

’’بابِ آگہی میں داخل ہونے والوں کی واپسی کی ضمانت نہیں دی جائے گی۔ واپسی کا معاملہ انتظامیہ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہو گا جن مسافروں کو داخل ہونا منظور نہ ہو وہ مینار کے نیچے والی لابی میں تشریف لے جا سکتے ہیں۔ ان کی واپسی کا انتظام فوری طور پر ممکن ہے۔ ’‘ مسافر اس تحریر کو پڑھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ بورڈ ایک ہی تھا لیکن اس کی تحریر ہر پڑھنے والے کو اس کی اپنی زبان میں لکھی نظر آ رہی تھی۔ مسافر تحریر پڑھ رہے تھے۔ ۔ ۔ سوچ رہے تھے۔ ۔ ۔ دو دلے ہو رہے تھے۔ ۔ ۔ کسی فیصلے پر پہنچنا کسی بھی مسافر کے لئے آ سان نہ تھا۔ مسافروں میں ہر مسافر اپنے انداز میں ردِ عمل کا اظہار بھی کر رہا تھا۔ زیادہ لوگ بے چین بے چین ٹہل رہے تھے۔ کچھ لان پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ وقت اس طرح گزرا پھر فیصلے سامنے آنے لگے۔ بیشتر مسافروں نے مینار کا رخ کیا اور بہت کم باب آگہی کے نیچے جمع ہوئے۔ اور ایک ایک کر کے اس کے اندر داخل ہو گئے۔ ان داخل ہو نے والوں میں سب سے آ خر ی مسافر میں تھی جس نے سب سے آ خر میں یہ فیصلہ کیا۔ ۔ ۔ میں نے سوچا۔ ’’ آگاہ ‘‘ ہو کر واپس نہ بھی ہو ئی تو کون سا فرق پڑ جا ئے گا۔ دنیا تو اب بھی چل رہی ہے تب بھی چلتی رہے گی۔ ‘‘

٭٭٭

 

ہونے کا درخت

مقام اور وقت کے بارے میں کچھ بھی تو واضح نہیں ہے۔ میں قطعی نہیں جانتا کہ میں کب اور کہاں پیدا ہوا۔ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب میں زمین سے اوپر نکلا تو مجھ کو یہ احساس ہوا کہ زمین سے باہر آنے کے باوجود میں زمین میں پیوست ہوں۔  میری جڑیں زمین کے اندر ہیں اور میں زمین سے بندھا ہوں۔  میں نے ان کیڑوں مکوڑوں،  چیونٹیوں،  کیچوؤں کو جنہیں آدمی حشرات الارض کے نام سے پکارتے ہیں،  زمین کے باہر اور زمین کے اندر حرکت کرتے اور رینگتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اپنے ساتھ پیدا ہونے والے، اپنے ہم مقام اور ہم وقت جھوٹے بڑے جانداروں کو اور پرندوں کو دیکھا۔ وہ سب حرکت کرتے تھے، رینگتے تھے، اچھلتے کودتے تھے۔ بعض چلتے اور بعض ہوا میں اڑتے بھی تھے۔ میں اور مجھ سے کئی اور اپنے مقام سے حرکت کرنے پر قادر نہیں تھے۔ مجھے اس صورت حال سے بڑی مایوسی ہوئی۔۔  ’’آخر میں نے اور مجھ جیسے دوسروں نے کون سا گناہ، کون سا جرم اور کیا خطا کی تھی کہ ہمارے پاؤں زمین میں گاڑ دئے گئے اور وہ بھی تا عمر۔‘‘

میں نے سوچا۔۔ پیدائش کے دکھ کے بعد جو ہر خلق ہونے والے کو سہنا پڑتا ہے، یہ میرا دوسرا بڑا دکھ تھا، جس نے میرے وجود سے زندگی کی ساری امنگوں کو دور کر دیا تھا۔ شدید صدمے سے میں نے اپنا سر جھکا لیا۔ میرے پتے منھ لٹکا کر رہ گئے۔ میرا سینہ خمیدہ ہو گیا، میری کمر جھک گئی۔ میں نے سوچا کہ مادرِ ارض کی چھاتی سے لپٹ جاؤس اور لپٹا رہوں۔  اس وقت تک کہ مٹی کے ذرے اور کنکر پتھر میرے گنتی کے چند پتوں،  نرم شاخوں،  لچکدار سینے، میرے سارے ننھے منے وجود کو ڈھانپ لیں اور میں دھرتی کی امانت، دھرتی میں لوٹ کر ایک بار پھر مٹی ہو جاؤں لیکن ماں نے مجھے لیٹنے نہیں دیا اور پیار سے بولی  ’’میرے ننھے منے راج دلارے بیٹے! ابھی تم کو میرے بدن سے الگ ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا۔ ہر کوئی جو خلق کیا جاتا ہے وہ اپنا وقت ساتھ لے کر آتا ہے۔ ابھی تم ایک چھوٹے سے پودے ہو۔ ابھی تم کو بڑا ہونا اور پورا درخت بننا ہے۔ اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ!‘‘  دھرتی ماں نے میری ہمت بڑھا ئی لیکن میں بحث کرنے لگا اور بولا۔

 ’’لیکن ماں ۔۔ یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے، یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور یہ جانور، یہ پرندے حرکت کرتے ہیں۔  رینگتے ہیں،  چلتے پھرتے ہیں،  دوڑتے بھاگتے ہیں،  اچھلتے، کودتے ہیں،  بعض اڑتے بھی ہیں ۔۔ تو پھر میں بندھا ہوا کیوں ہوں ۔۔؟ آخر کیوں میں اپنی جگہ سے جنبش بھی نہیں کر سکتا۔۔؟ یہ کیسی قید ہے۔۔؟ کیسی سزا ہے۔۔؟ میں تو ابھی ابھی پیدا ہوا ہوں۔  مجھ سے ایسا کون سا گناہ، کون سا جرم سرزد ہوا ہے جس کی یہ سزا مجھے دی جا رہی ہے۔۔؟‘‘  میں نے ماں سے اپنے اصل دکھ کی وضاحت کی۔ اس مرحلے پر مجھے یوں لگا کہ جیسے مادرِ ارض نے مجھے جڑوں سے لے کر پتوں تک چوم لیا۔ اس ایک بوسے نے مجھے وہ توانائی بخشی کہ میں ایک بار پھر کھڑا ہو گیا اور اپنے ننھے وجود کے ساتھ ہوا میں رقص کرنے گا۔

ا س چھوٹی سی عمر میں بھی، میں یہ جان چکا تھا کہ مادرِ ارض بہت بڑی ہے۔ پوری ایک دنیا ہے۔ اس سمے جب میں مادرِ ارض کے پیار کرنے پر زندگی سے بھر پور رقص میں مصروف تھا، یہ محسوس کیا کہ وہ مسکرارہی ہے اور بے حد خوش اور مطمئن ہے۔ اسی خوشی اور طمانیت کی کیفیت کو جڑوں سے پتوں تک منتقل کرتے ہوئے وہ گویا ہوئی۔

 ’’تم بے کار بد دل ہو رہے میرے بچے۔۔ تم جو بظاہر ایک جگہ قائم ہو اصل میں تم بھی حرکت کر رہے ہو، اپنے چاروں اطراف اپنی جڑوں کے ذریعہ۔ جیسے جیسے تم بڑے ہوتے جاؤ گے، اپنے حرکت کرنے کو جانتے جاؤ گے۔ اپنی رینگتی جڑوں کو پہچان لو گے۔ یہاں سے کچھ دور ایک ندی بہہ رہی ہے۔ تم دیکھنا تھوڑے ہی عرصے بعد تم اپنی ان زمیں دوز ٹانگوں کی مدد سے اس ندی تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘

یہ سب کچھ ماں نے بڑے وثوق سے کہا۔

 ’’سچ ماں ‘‘  میں چہک کر بولا۔

 ’’ہاں بیٹے تم ندی تک ضرور پہنچ جاؤ گے۔ تم اپنے چاروں طرف دور دور تک جاؤ گے۔ تم بھی دوسرے جانداروں کی مانند حرکت کرو گے۔ زمین کے اندر، اندر اپنی جڑوں کی مدد سے اور باہر اپنے تنے شاخوں اور پتوں کی مدد سے۔‘‘  ماں نے ایک مرتبہ پھر مجھے مثبت سوچوں اور امیدوں کی جانب ڈھکیلا لیکن میرے اندر ایک کانٹا سا چبھ رہا تھا اور اس کی چبھن کے زیر اثر میں نے ماں سے یہ شکوہ کیا۔۔

 ’’لیکن ماں مجھے یہ قید بہت بری لگتی ہے۔ کیا اس قید سے مجھے آزادی نہیں مل سکتی۔ کبھی بھی نہیں۔ ‘‘  میں نے ماں سے ضد کی۔

 ’’میرے بیٹے! میں تجھے کس طرح سمجھاؤں۔  ابھی تو ان معاملات کو سمجھنے کے لئے بہت چھوٹا ہے۔ جس کو تو قید کہتا ہے میرے لعل وہ قید نہیں ہے، وہ تیرا ہونا ہے، تو اپنے ہونے میں قید ہے، ہر کوئی جو یہاں ہوتا ہے وہ اپنے ہونے کے اندر قید ہوتا ہے۔ اپنے اپنے انداز میں،  جس طرح کا ہونا، اس طرح کی قید۔ میں بھی ہوں،  سو میں بھی قید ہوں۔ تو زمین سے جڑا ہوا ہے، یہ تیرے ہونے کا انداز ہے۔میں گردش میں ہوں،  یہ میرے ہونے کا انداز ہے۔ جہاں تک حرکت کا تعلق ہے،  سب حرکت میں ہیں۔ تو بھی حرکت میں ہے، میں بھی حرکت میں ہوں،  جو ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی انداز کی حرکت میں ہوتا ہے اور تو اور جمادات بھی، کنکر، پتھر، چٹانیں،  پہاڑ وغیرہ جو تجھ سے کہیں زیادہ جامد اور غیر متحرک نظر آتے ہیں،  اپنے اپنے اندرون میں متحرک ہیں۔  ہم سب لاکھ حرکت میں ہوں،  ہم سب قید ہیں۔  سارے ہونے والے قید ہیں،  وہ جو زمین میں ہیں،  وہ جو زمین کے اوپر ہیں،  ہواؤں میں ہیں،  پانی میں ہیں،  فضا میں ہیں،  خلاؤں میں ہیں،  سارے ایسی ڈوریوں سے بندھے ہیں جو دکھائی نہیں دیتیں۔  غیر مرئی ہیں اور یہ ڈوریاں اس کے قابو میں ہیں جو سب کا خالق ہے، لیکن یہ ساری باتیں میں تجھ سے کیوں کہہ رہی ہوں ۔۔؟ ابھی تو ان باتوں کے لئے بہت چھوٹا ہے۔۔اب جا۔۔ تو اپنے ہونے میں ہو‘‘

ماں سچ کہہ رہی تھی۔میں ان باتوں کے لئے ہنوز بہت چھوٹا تھا، لیکن ان کو پوری طرح سمجھنے کے لائق بڑا۔۔ میں کبھی نہ ہو سکا یا پھر بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اور ہی طرح کی باتوں میں الجھتا گیا کہ ان باتوں کی جانب متوجہ ہونے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ہونے کے مرحلے سے گزرنے کے بعد میں ’بڑا‘ ہونے کے مرحلوں سے گزرتا گیا۔ میرے بڑے ہونے، زمین سے اوپر اٹھنے میں اگرچہ مجھے شاخ شاخ ہونے کے آشوب سے بھی گزرنا پڑا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں فربہ بھی ہوا، لمبا بھی ہوا اور گھنا بھی۔ مجھ پر چھتریاں سی اگتی چلی گئیں اور جب چھتریاں گھنی ہو کر آپس میں مربوط ہو گئیں تو شاخوں،  ڈالیوں اور پتوں سے، اچھا خاصا ہرا بھرا سائبان تعمیر ہو گیا۔ میری آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ رینگنے والے چھوٹے بڑے وجودوں نے تو آغاز ہی سے مجھ میں  اور مجھ پر رہنا بسنا شروع کر دیا تھا لیکن جیسے جیسے میری چھت پھیلی اور میں چھتنار ہوتا گیا مجھ پر اور مجھ میں بڑے حشرات الارض رہنے سہنے لگے۔ بھانت بھانت کے پرندے، گھونسلے بنانے والے اور گھونسلے بنائے بغیر گزر بسر کرنے والے آباد ہو گئے۔ ساتھ ہی چند ایک چوپائے بھی میرے پتوں،  نرم ٹہنیوں پر منھ مارنے والے مجھ سے متعارف ہوتے گئے۔ بکریاں جن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا مجھ سے لپٹی رہتیں۔  ان سب کے علاوہ میرے نیچے،  میری چھاؤں میں آدم زاد بھی ڈیرا جمانے لگے تھے۔ مجھے ان آدم زادوں کے بچے، بچیوں کا آنا بہت بھاتا، ان چڑیوں سے بھی زیادہ جو پو پھٹے میری اس چھوٹی سی بستی کو اپنی آوازوں سے بیدار کیا کرتی تھیں۔  میرے نیچے۔  بچے، بچیاں،  لڑکے،  لڑکیاں طرح طرح کے کھیل کھیلتے۔ بڑے لڑکے، لڑکیاں اپنی جوانی کے ڈرامے کے ابتدائی مناظر کی بساط جماتے۔ بوڑھے حقے گڑ گڑاتے، چلمنیں پھونکتے اور بستی کی عورتوں اور لڑکیوں کے گرما گرم آ سکینڈل سنتے سناتے یا ایجاد کرتے۔

بڑے ہونے کے مرحلے سے گزرنے کے دوران میں زیادہ سے زیادہ سمجھ دار ہوتا گیا۔ جسمانی بڑھوتری، وسعت اور بلندی کو اور جسمانی حرکت کو ہی سب کچھ خیال کرنے والا ’میں ‘ اس حقیقت سے آشنا ہوا کہ جسمانی بڑھوتری کے علاوہ بھی بڑے ہونے کی متعدد دوسری صورتیں اور حالتیں ہیں جیسے ذہنی طور پر بڑا ہونا، جذباتی اور حسّی طور پر بڑا ہونا۔ چونکہ دھرتی ماتا نے مجھ میں صبر، ضبط اور رسان ڈال دی تھی۔ اس سبب سے گھبرا جانے اور مایوس ہونے کی منفی کیفیتوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لائق ہو گیا تھا۔ میں نے ایک بنیادی سچائی سے آگاہی پیدا کر لی تھی اور یہ جان چکا تھا کہ ہونے کو سہنا بھی ہونے کے لوازمات میں شامل ہے۔اول اول میں صرف اپنے ہونے میں جٹا رہا پھر یوں ہوا کہ میرے ہونے سے، بہت سارے اور ہونے والے مجھ سے جُڑتے چلے گئے۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا مجھ سے جُڑے ہوئے ان ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ وقت بھی آیا کہ ان کے ہونے کا ادراک کرنا بھی میرے بس کی بات نہیں رہی۔ اسی دوران میرے مشاہدے میں تواتر کے ساتھ ایک تکلیف دہ حقیقت آئی اور مختلف اور متنوع صورتوں میں آئی کہ میں شدید صدمے سے دو چار ہونے لگا۔  میرے بدن پر چھوٹے بڑے کیڑے شروع ہی سے ادھر ادھر رینگتے پھرتے تھے۔ وہ زمین کے اندر میرے نچلے دھڑ کے ساتھ ہوتے تھے اور زمین کے اوپر میرے بالائی دھڑ پر بھی ہوتے تھے۔ میں نے محسوس کیا میرے اپنے بدن پر مخصوص اقسام کی چھپکلیاں،  گرگٹ اور چند ایک بڑے جسموں والے حشرات الارض آ کر بس گئے اور ان کیڑوں کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ میری شاخوں پر رہنے والی چڑیاں اور پرندے صبح سویرے زمین پر اتر کر ان کیڑوں کو لقمۂ اجل بناتے تھے میں نے یہ بھی دیکھا کہ جانے کہاں کہاں سے چیلیں اور عقاب سورج کے نکلنے سے قبل میری شاخوں اور پتوں پر سوئی ہوئی چڑیوں اور چھوٹے پرندوں پر جھپٹّے مار کر انہیں لے اڑتے۔ میں نے یہ بھی دیکھا خوبصورت چال میں مٹکنے والے اور غٹر غوں کرنے والے کبوتروں،  ہوکتی فاختاؤں اور گانے والی بلبلوں کو حسین جسموں اور جادوئی پھنوں والے ناگ اور ناگنیں اپنے اندر اتار لیتیں۔  میں جو بلّیوں کو مراقبہ کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا احترام کرنے لگا تھا یہ دیکھ کر لرز اٹھا کہ ایک بلّی اپنا مراقبہ توڑ کر کسی چڑیا پر جھپٹی، پلک جھپکتے میں اس کے پر نوچ کر الگ کئے اور غڑپ کر گئی۔ میرے پتوں نے ہو اکے ساتھ مل کر ماتمی حلقے بنا لئے جو دکھ مجھے پہلی پت جھڑ کے دوران ہوا تھا وہ میرے ان خوفناک اور المناک مشاہدوں کے آگے کچھ بھی تو نہ تھا۔ قریب تھا کہ ایک مرتبہ پھر اپنی منفی سوچوں میں ڈوب جاؤں دھرتی ماتا خود ہی میری جانب متوجہ ہو گئی۔ دھرتی ماتا کو اپنی جانب متوجہ پا کر میں نے پتوں پر پڑی ہوئی شبنم کے بے شمار آنسو ماں کی گود میں ٹپکا دئے اور ان بھیانک مشاہدوں سے اس کو آگاہ کرتے ہوئے پوچھا  ’’یہ سب کیا ہے ماں۔  یہ میں کیا دیکھتا ہوں۔ ؟ ان ننھے ننھے معصوم کیڑوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو پرندے ان کو اپنی چونچوں میں اٹھا لیتے ہیں۔ ؟‘‘  دھرتی ماں نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا صرف مادرانہ شفقت سے مجھے دیکھتی رہی ایک کے بعد ایک میں نے اپنے سارے تلخ مشاہدات دھرتی ماں کو سنا دئے اور جب کثرت سے مراقبے میں مصروف ہونے والی بلّی کی سفاکی تک پہنچا توا پنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور روتے روتے نڈھال ہو گیا۔ دھرتی ماں نے مجھے اپنی محبت کے حصار میں لے لیا۔ میں نے محسوس کیا جیسے میں کوئی نوزائیدہ ننھا وجود تھا اور دھرتی ماں مجھے اپنی گود میں لٹا کر گیت سنا رہی تھی۔

 ’’میرے بیٹے۔  مت رو، مت رو

راج دلارے۔  مت رو۔  مت رو

تم اب تک ’ ہونے‘ میں رہے تھے

اور فقط ’ہونا ‘ دیکھا تھا

ہونے کی گودی میں چندا

ہونا ہی، ہونا، ہوتا تھا

سپنوں میں کھونا ہوتا تھا

 ’’میرے بیٹے۔  مت رو، مت رو

راج دلارے۔  مت رو۔  مت رو

تم نے جو دیکھا ہے، چندا

لگتا ہے جو بھیانک سپنا

ہر ہونے کے ساتھ لگا ہے

وہ ہونے کا انت ہے پیارے

اور ’نہ ہونا‘ کہلاتا ہے

’ہونا ‘ اور ’نہ ہونا‘ دونوں

ہوتے ہوئے بھی ہوتے نہیں ہیں

اچھے بچے روتے نہیں ہیں

 ’’میرے بیٹے۔  مت رو، مت رو

راج دلارے۔  مت رو۔  مت رو

دھرتی ماتا نے گانا بند کیا اور مجھے پیار سے دیکھا۔ اس دوران میں نے رونا بند کر دیا تھا۔ اپنی آنکھوں کے آنسو خشک کر لئے تھے۔ اگر چہ ماں نے گیت کی مدھرتا میں لپیٹ کر زندگی کی چند بڑی لیکن کڑی سچائیوں کو میری سماعت اور ذہن میں انڈیل دیا تھا لیکن میری تشفی نہیں ہو سکی تھی  ’’ماں مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔  کیا میں بھی ’نہیں ‘ ہو جاؤں گا؟ ‘‘

میں نے ماں سے سیدھا سوال کر ہی دیا۔

 ’’ میں نے کہا نا۔۔ہر ہونے کو ایک دن نہ ہونا ہے۔‘‘

 ’’ تو بتاؤ ماں۔  میں کب ’ نہ ہونے‘ کے مرحلے سے گزروں گا۔؟‘‘

 ’’ میرے چندا۔  یہ میں نہیں بتا سکتی۔  میں خود اپنے بارے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں کب نہ ہونے کے مرحلے سے گزروں گی۔؟‘‘

 ’’ ایسا کیوں ہے ماں۔ ؟‘‘

 ’’ایسا اس سبب سے ہے بیٹے کہ تم اور میں،  ہم دونوں اپنی مرضی سے نہیں ہیں اور بیٹے تم اور میں دونوں اپنے اپنے وقت پر ’نہ ہونے‘ کا مرحلہ گزاریں گے اس کی مرضی کے مطابق جس نے ہمیں ’ہونے‘ کے مرحلے میں ڈالا تھا۔‘‘

میں نے دھرتی ماں سے کچھ اور پوچھنا لاحاصل جان کر چپ سادھ لی اور دھرتی ماتا نے بھی خاموش رہنا مناسب خیال کر لیا۔ اس کے بعد میرے رویے میں تبدیلی آئی اور میں اپنے ہونے میں رہتے ہوئے ہر روز ہی نہیں،  ہر لمحہ دوسروں کے ہونے اور نہ ہونے کا مشاہدہ کرنے لگا۔ پھر تو میرا یہ حال ہوا کہ اندھیرے کو اجالے کے پیٹ سے اور اجالے کو اندھیرے کے پیٹ سے پیدا ہوتے دیکھتا، رات سے دن کو، دن سے رات کو جنم لیتے دیکھتا۔  سردی کی کوکھ سے گرمی، گرمی سے سردی، بہار سے خزاں،  خزاں سے بہار پیدا ہوتے ہوئے نہ صرف محسوس کیا بلکہ موسموں کے چکر سے واقف ہو گیا۔ مشاہدوں کے تسلسل سے آخر کار میں سوچ کے اس مرحلے پر جا کر پریشان ہو گیا جس میں ہونے اور نہ ہونے کا تواتر میرے پیش نظر تھا۔ جب میں نے اپنی اس پریشانی کا دھرتی ماں سے ذکر کیا تو وہ ہنس پڑی اور بولی۔

 ’’بس بس میں سمجھ گئی۔ اب میرا بیٹا صحیح معنوں میں بڑا ہو گیا ہے۔‘‘

 ’’ صحیح معنوں میں بڑا ہو گیا ہے۔؟ صحیح معنوں میں کس طرح بڑے ہوتے ہیں۔ ؟‘‘

 ’’ تم نے ہونے اور نہ ہونے کو بھر پور طریقے سے محسوس کر لیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم بڑے ہو گئے ہو۔‘‘

 ’’صاف صاف بتاؤ ماں۔  آج آپ پہلی مرتبہ میرے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب نہیں دے پا رہی ہو۔‘‘

’‘ بیٹا۔ ہونا اور نہ ہونا نت نئے رخ اختیار کرتا ہے اور پوری کائنات اس کی مختلف جہتوں سے معمور ہے۔ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوبارہ جو رات آتی ہے وہی پہلے والی رات ہوتی ہے اور جو دن آتا ہے وہی گزرا ہوا دن ہوتا ہے۔ میرے بھولے بھالے بیٹے جب تم بڑے ہی ہو گئے ہو تو یہ بھی جان لو۔۔جو رات بھی آتی ہے، جو دن بھی طلوع ہوتا ہے وہ نیا ہی ہوتا ہے۔۔ پرانا نہیں۔  آج جو چاند آسمان پر چمکے گا وہ ڈوبے گا تو پھر نہیں ابھرے گا۔  آج جو سورج چمک رہا ہے غروب ہو کر پھر طلوع نہیں ہو گا۔ میں زمیں ہوں۔  یہ مانا کہ میرا ایک ہی چاند ہے اور جس نظام شمسی میں ہوں اس کا سورج بھی ایک ہی ہے لیکن وقت اپنا کام کرنے سے نہیں رکتا اور وقت ہی ہے جو ہر صبح کے سورج کو نیا اور ہر رات کے چاند کو نیا روپ دے دیتا ہے۔ وقت کے زیر ہر رُت نئی ہی ہوتی ہے۔ پرانی کوئی بھی رُت لوٹ کر نہیں آتی۔ وقت کے زیر اثر تم ہر لمحہ بدل رہے ہو اور میں بھی۔  میں ہر لمحہ نئی ’ میں ‘ ہوں تم ہر لمحہ ایک نئے ’تم‘ ہو۔ میرے بیٹے۔ یہ ہر روز کا نیا پن ہی ہونے سے نہ ہونے تک ہمارے بتدریج اور مسلسل سفر کا شاہد ہے اور ثبوت بھی۔ ہر بدلنے میں اور نئے ہونے میں ’نہ ہونا‘ چھپا ہوا ہے۔‘‘

 ’’ ماتا میری۔ کیا ’نہ ہونا‘ اٹل ہے۔؟‘‘

 ’’ ہاں یہ اٹل ہے۔ میرے بچے۔۔ لیکن یہ سب … ‘‘

 ’’ یہ سب آپ کہتے کہتے رک کیوں گئیں۔ ؟‘‘

 ’’ یہ سب گمان ہے۔‘‘

 ’’گمان …؟‘‘

ہاں میرے بیٹے۔ یہ سب… اور تمہارا، میرا ہونا بھی محض گمان ہے صرف ایک مفروضہ۔۔‘‘  اتنا کہہ کر دھرتی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ میں نے ماں کے چہرے کو غور سے دیکھا اور سوچا  ’’مجھے اس گمان والی بات پر بحث جاری نہیں رکھنی چاہئے۔ ماں پہلے ہی اداس ہے۔  دکھی ہے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے مزید دکھی ہو جائے گی۔

اس مقام پر میں نے ماں سے رخصت چاہی۔

میں اپنے آپ کو اور اپنے نیچے، اوپر اور اطراف پھیلے ہوئے وجودوں کو محض  ’’گمان‘‘  تسلیم کرنے کی حالت میں نہیں تھا اور نہ کبھی ہو سکا البتہ دوسروں کے بارے میں سوچنا میں نے ترک نہیں کیا۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے سے میں نئے نئے دکھوں اور نئی نئی خوشیوں سے آشنا ہوتا چلا گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ آدم زادوں کو میری چھاؤں راس آنے لگی تھی۔ وہ اپنے دکھوں اور خوشیوں کے ساتھ میرے سائبان تلے آنے جانے لگے تھے۔ ان میں قابل ذکر ایک لڑکا،  لڑکی تھے۔ وہ میرے نیچے ایسے وقت آتے جب کسی اور آدم زا کے آنے کے امکانات نہ ہوتے۔ ظاہر تھا وہ چوری چھپے ملتے تھے اور کبھی دیر تک،کبھی تھوڑے وقت ساتھ رہتے لیکن جتنی دیر بھی رہتے ایک دوسرے میں گم رہتے۔ بہت جلد میں ان کے چھوٹے بڑے بے شمار رازوں کا امین ہو گیا تھا۔ جس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے ہو رہے تھے میں ان دونوں کا ہو رہا تھا۔ میری نئی نویلی ٹہنیاں،  ڈالیاں اور پتے ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے لگے تھے۔ وہ جب ہم آغوش ہوتے تو میں دیوانہ وار رقص کرتا،  وہ جب دکھی ہوتے تو میں بلک بلک کر روتا۔ پھر ایک منحوس دن وہ لڑکی تنہا آئی، میری ایک ڈالی کو پکڑ کر کھڑی روتی رہی میں بھی رویا لیکن جب وہ میرے بدن سے لپٹ کر روئی تو میں اپنے سارے وجود سے ماتم کرنے لگا۔ وہ ہمیشہ کے لئے مجھے چھوڑ کر چلی گئی کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بہت جلد میرے نیچے آنے جانے والے آدم زادوں کی باتوں سے مجھے پتہ چل گیا کہ لڑکا جبری فوجی بھرتی میں دھر لیا گیا تھا۔

ایک دن ایک سادھو نما شخص میرے نیچے آیا۔ اس نے آتے ہی میرے بدن کے ساتھ ایک پتھر کھڑا کیا، اس پر سیندور سے کچھ نقش بنائے اور اس کی جانب منہ کر کے پوجا کے آسن میں ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر اس طرح عبادت کر کے دوسری جانب کھسک کر مجھ سے ٹیک لگا لی۔ آنکھیں بند کر کے نیم دراز پڑا رہا۔ گم صم، سویا نہیں لیکن جھپکی ضرور لی۔ بیدا ر ہو کر دو تین انگڑائیاں لیں،  سرہانے دبی پوٹلی سے، مٹی کا پائپ،  تمباکو کی چرمی تھیلی اور ایک ڈبیہ کسی بھورے رنگ کے سفوف کی بر آمد کی۔ اکڑوں بیٹھ کر مٹی کے پائپ میں تمباکو اور سفوف دبا دبا کر بھرا رومال کے ایک گوشے میں بندھی ماچس کی ڈبیہ نکال کر پائپ کو آگ دکھائی، پائپ سے دھواں حلق میں لے کر باہر پھینکتا رہا۔ پہلے چھوٹے چھوٹے، بعد میں لمبے کش لئے۔ جیسے وہ کش لیتا، اس کے گلے کی نسیں تن جاتیں،  گالوں میں دو غار سے بنتے اور آنکھیں ماتھے پر چڑھ کر لال انگارہ ہو جاتیں،  پائپ پیتے ہوئے وہ زور زور سے کھانستا، کروٹ لے کر تھوک اور بلغم باہر پھینکتا، پھر دنیا ما فیہا سے بے خبر قریب قریب بے ہوش ہو جاتا۔ جب ہوش میں آتا،  اٹھتا اور میری بصارت سے پرے جانے کیا کرتا پھرتا۔ کبھی کبھی وہ میری سرحدِ ادراک میں آیا تو لٹیا میں ایک بکری کا دودھ نچوڑ رہا تھا۔آدم زادوں کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ان کے پیٹ کا ہے جن کے لئے غلط اور صحیح بے شمار کام کر گزرتے ہیں۔  میرے مشاہدے کا ہدف،  آدم زاد ہو گئے تھے اور میں ان کو ترجیح دینے لگا تھا۔

اس سادھو نما آدمی سے میری دلچسپی بڑھ گئی۔ اس کی حرکات وسکنات سے صاف پتہ چلتا تھا وہ نیچے طویل قیام کا فیصلہ کر چکا تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتا اور کان میں جینو اٹکا کر جھاڑیوں میں گھُستا،  جھاڑیوں سے باہر نکل کر، ندی کا رخ کرتا، اشنان کرتا اور پانی میں کھڑے ہو کر تری مورتی کا زور زور سے جاپ کرتا’‘ برہما، وشنو،  مہیش‘‘  جس کی آواز مجھ تک پہنچتی البتہ سوریہ دیوتا کے لئے جو اشلوک پڑھتا وہ دبی آواز میں ہوتے اور مجھ تک نہیں پہنچتے۔ آدم زادوں کی زندگی میں اور باتوں کے علاوہ یہ بات دوسری مخلوق سے قدرے مختلف دیکھنے میں آئی کہ غیر متوقع واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اس سادھو نما آدمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے توقع نہیں بلکہ یقین تھا کہ وہ میرے نیچے طویل مدت گزارے گا۔ ابھی میں اس سے پوری طرح واقف بھی نہ ہو سکتا تھا کہ مقامی زمیندار کے چند سوار آئے اور سادھو کو اس کی پوٹلا، پاٹلی کے ساتھ گھوڑے کی پشت پر ڈال کر لے گئے۔ میں تو اس کے بارے میں یہ بھی نہ جان سکا تھا کہ وہ کون تھا، عام آدمی، سادھو سنت، کوئی بھوکی جو یوگی بن گیا ہو یا پھر منتر جنتر کو ہی سب کچھ ماننے والا کوئی تانترک۔۔ میرے نیچے آنے جانے والے آدم زادوں سے تو صرف یہی سُن پایا کہ وہ سونا بنانے والے کی شہرت کا مالک تھا۔ مشہور تھا کہ وہ جب اپنے مٹی کے پائپ سے کش لگاتا ہے تو تانبے پیتل کا سکہ اڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ خالص سونے کے ذرات مٹی کے پائپ میں چپکے رہ جاتے ہیں۔  لوگ اس کو یاد کر کے بہت دنوں ہنستے بولتے رہے تھے۔  ’’زمیندار اسے پٹوا پٹوا کر سونا بنوا رہا ہو گا۔ سالا بڑا سادھو سنت بنتا تھا۔۔ ہا ہا۔ ہاہا… ‘‘

سادھو کے پکڑے جانے کے بعد میں نے اپنے نیچے ایک خلا سا محسوس کیا۔ میں نے اس دھات کے بارے میں بھی سوچا جو کسی کام کی نہیں ہوتی لیکن آدم زاد اس پر جان دیتے اور جان لیتے ہیں۔  ’’ مادر ارض کے پاس تو بہت سارا سونا ہے‘‘  میں نے یہ بھی سوچا۔

اس سادھو کے پکڑے جانے کے بعد میرے نیچے ایک درویش آبیٹھا چند روز بعد معلوم ہوا۔ کہ وہ میرے نیچے چلّہ کرے گا، چایس روز کا چلّہ۔  بڑا خوبصورت، گورا چٹا آدمی تھا۔ اس کے بال اس سادھو نما شخص کے بالوں کی مانند لمبے ضرور تھے لیکن وہ ان میں ہر روز کنگھی پھیرتا تھا اور دن میں کئی مرتبہ ایک چھوٹے سے آئینے میں دیکھ کر اپنی ریش بھی سنوارتا تھا۔ درویش کو بھی سلام کرنے کے لئے لوگ آنے لگے۔ مرد بھی اور عورتیں بھی جس طرح اس سادھو نما کے لئے آنے لگے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس کو بھی زمیندار کے سوارلے جائیں گے لیکن چند ایک ہفتے گزرنے کے بعد بھی زمیندار کے سوار نہیں آئے تو مجھے اطمینان ہو گیا۔ میں چاہتا تھا وہ درویش میرے نیچے، ہمیشہ کے لئے بس جائے۔ وہ لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا تھا۔ بس ہوں،  ہاں کرتا البتہ ہر کسی کو دیکھ کر پیار سے مسکرادیتا۔ عورتوں اور لڑکیوں کو ایک فاصلے پر روک دیتا۔ سب کی بپتا اور منتوں کو آنکھیں بند کر کے سنتا۔ بوڑھوں،  بوڑھیوں کو بھی بیٹا، بیٹی، پتر، پتری کہہ کر مخاطب ہوتا اور کہتا۔

 ’’آپ بھی دعا کرو،  بابا بھی دعا کرے گا۔ اب جاؤ بابا کو کام کرنے دو۔‘‘

وہ کوئی کام نہیں کرتا۔ لوگ باگ۔  اس کے لئے روٹی، دال بھات،  پھل، مٹھائی اور کھیت سے توڑی ہوئی گاجر،  مولی اور نہ جانے کیا کیا لے کر آتے وہ تھوڑا تھوڑا چکھ کر وہاں موجود لوگوں میں اسی وقت تقسیم کروا دیتا۔  دوسرے دن کے لئے بچا کر نہیں رکھتا تھا۔ لوگوں کی حاجات پوری ہونے لگی تھیں یا درویش کی مقناطیسی شخصیت کا اثر تھا کہ اس کو سلام کرنے کے لئے آنے والوں میں روز بروز اضافہ ہونے گا کبھی کبھی تو اچھا خاصا مجمع لگ جاتا حالانکہ وہ سارا علاقہ جو فوجی نقل و حرکت اور ہوائی حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ میں اپنے نیچے کی آبادی میں اضافے سے خوش تھا لیکن ایک انتہائی گرم دن وہ درویش آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا اور شاید کچھ ورد کرنے میں مشغول تھا۔آس پاس کوئی نہ تھا سوائے ایک موٹی کالی بلّی کے جو میری ایک ڈال پر اپنی دم نیچے لٹکائے بیٹھی تھی۔ مجھ پر کچھ زندہ وجود تھے بھی تو وہ سب کے سب بے حس و حرکت اور چُپ تھے۔ چڑیوں نے بھی چوں چوں بند کر رکھی تھی۔ اچانک ایک لڑکی جانے کہاں سے آ گئی۔ وہ اس طرح دبے پاؤں آئی کہ درویش کو جو اپنے وظیفے میں گم تھا، لڑکی کے آنے کا احساس بھی نہ ہو سکا۔  لڑکی درویش کے چہرے پر جھکی اور اس کا ما تھا چوم کر الٹے قدموں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ درویش کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر ایک چھوٹے سے حلقے میں دوڑتا رہا پھر دوڑنا بند کر کے اس نے اپنی چھڑی سے اپنے ہی بدن پر ضرب لگائی۔ اپنی اس پٹائی سے فارغ ہو کر اپنا مختصر اسباب سمیٹا،  پوٹلی سی باندھی،  پوٹلی کو چھڑی سے پرویا، کندھے پر لادا اور پلک جھپکتے میں،  میرے نیچے سے رخصت ہو گیا۔ مجھ پر آباد وجودوں نے اگر یہ سب دیکھا بھی تو چپ سادھے رہے کیونکہ وہ یا میں ۔۔ کر بھی کیا سکتے تھے، ہونے کے ساتھ ہونی بھی تو لگی ہے۔

دوسرے دن دوپہر میں وہ لڑکی آئی۔ درویش کو موجود  نہ پا کر اس مقام پر ما تھا ٹیکا جہاں وہ بیٹھا کرتا تھا۔ کچھ دیر سجدے کی حالت میں پڑی رہی اور پھر چپ چاپ اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے اپنی ڈالیاں اور پتے ہلا کر اور مجھ پر اور مجھ میں بسے ہوئے بے شمار وجودوں نے اپنے اپنے انداز میں اس لڑکی سے شکوہ کیا لیکن لڑکی اپنے المیے میں گُم ہم سب سے بے خبر رہی۔ اگر لڑکی اس طرح نہ آتی اور وہ سب نہیں کرتی جو اس نے کیا تو شاید وہ درویش میرے نیچے اپنا تکیہ بنا لیتا۔ شاید۔ شاید۔ شاید دور کسی چٹان کی نوک پر کوئی چیل چیخ چیخ کر اپنے رفیق حیات کو آواز دے رہی تھی۔ درویش کے جانے کے بعد، عین اس کے چلّے کی جگہ ایک انتہائی حسین بلّی ہر روز مراقبہ کرنے لگی۔ کچھ دن بعد اس بلی نے بھی آنا ترک کر دیا۔ جانے کیوں مجھے یوں لگا کہ اس حسین بلّی نے درویش کا چلّہ پورا کیا۔

میرے نیچے یوں تو صدہا ٹھہرنے والے بشمول آدم زاد ٹھہرے لیکن ایک میاں بیوی کے جوڑے کو میں کبھی نہ بھول سکا۔  وہ بہت کم وقت کے لئے آئے اور چلے گئے۔  دونوں ڈھلتی عمروں کے تھے۔ مرد قدرے فربہ لیکن گھٹے ہوئے جسم کا مالک تھا۔ اس کا چہرہ بڑا ۔۔ گندمی رنگت، بڑی بڑی مونچھوں اور سرخ لہو رنگ آنکھوں سے نہ بھولنے والا ہو گیا تھا۔ دونوں ایک ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تھے۔ مرد نے گھوڑے کو مجھ سے باندھا اور وہاں سے تیز قدموں چلا گیا۔ عورت میرے قریب ہی کہیں بیٹھ رہی لیکن چادر سے پوری طرح چھپی ڈھکی۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ مرد واپس آیا۔ اس کا گندمی چہرہ کامیابی کی چمک سے دمک رہا تھا لیکن آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کو دیکھ چادر میں لپٹی عورت جھپٹ کر اٹھی اور کھڑی ہو گئی۔ عورت کے کھڑے ہونے کے ساتھ ہی ان کا گھوڑا جو پوری طرح بیٹھا تھا اور نہ ہی کھڑا تھا ایک دم کھڑا ہو گیا اور اپنی اگلی ٹانگوں کو اٹھا کر،  گھٹنوں سے موڑ کر،  اپنے حلق سے ایک خاص آواز نکال کر اپنے مالک کو پیغام دینے لگا کہ وہ پوری طرح چاق و چوبند اور سواری کے لئے تیار ہے۔

 ’’کام ہو گیا‘‘  مرد نے عورت سے کہا  ’’یہاں سے جلدی نکل چلو ہمارا تعاقب ضرور ہو گا‘‘۔

 ’’نہیں ۔۔ پہلے میں اس ملعون کا منھ دیکھوں گی۔‘‘ عورت غرائی، مرد نے عورت کی جانب نظر گھمائی۔ عورت کی چادر ڈھلک گئی تھی،عورت کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے پورے چہرے پر پھیلنے کے ساتھ باہر ابل پڑی تھیں۔  ان سے آگ کی سی لپٹیں باہر آ رہی تھیں۔  مرد کی لہو چکیدہ آنکھیں عورت کی آنکھوں سے ٹکرا کر جھک گئیں۔

 ’’تم عورت ہو یا۔۔‘‘  مرد بولتے، بولتے رک گیا۔

 ’’میں شیرنی ہوں ۔۔میں نے اپنا شیر بیٹا کھویا ہے۔۔ اکلوتا بیٹا۔۔جلدی کرو۔ مجھے وہ خبیث سر دکھاؤ۔۔میرے بیٹے کے قاتل کا سر۔۔ اس شیطان چہرے کو دیکھے بغیر۔۔ میں یہاں سے نہیں ٹلوں گی۔۔‘‘  مرد نے اپنی بیوی کی آواز سنی اور سر سے پاؤں تک لرز گیا۔ یہ آواز وہ اپنی طویل ازدواجی زندگی میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ایک مکمل غیر انسانی آواز۔۔ جس میں تحکم تھا۔ اس نے ایک ہی جھٹکے سے اپنی بغل سے لٹکا ہوا چرمی تھیلا نکالا۔ دوسری ہی لمحے اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک جوان آدمی کا سر تھا، جس کو اس نے بالوں سے پکڑ ا ہوا تھا۔ کٹی ہوئی گردن سرخ و سیاہ خون سے آلودہ تھی۔ چہرے پر دہشت کی چھاپ تھی۔ بے جان آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ ناک ٹیڑھی ہو چکی تھی۔دہانہ کھلا تھا، جس کے اندر سے سرخ زبان کی نوک اور سفید دانت جھانک رہے تھے، کالی گھنی موچھوں کے نیم حلقے سے گھرے ہوئے۔ تھوڑی جس پر خشخشی داڑھی تھی، گردن کی جانب لٹک گئی تھی۔ عورت نے پہلی مرتبہ چادر کو بدن سے الگ گرا دیا اور اس گردن سے کٹے ہوئے چہرے کی طرف لپکی۔ گھوڑا جو شاید ماحول کی دہشت کو سونگھ چکا تھا۔ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا اور اپنی تھوتھنی آسمان کی طرف اٹھا کر چیخا۔ گھوڑے کی اس آواز کو ہنہنانا نہیں کہا جائے گا۔ میرے پتے بھی چلانے لگے اور میرے اوپر اور میرے اندر رہنے والے سارے وجود اپنے اپنے طور پر بین کرنے لگے۔ عورت کو سر کی جانب بڑھتا دیکھ کر، مرد تیزی سے پیچھے ہٹا اور چلایا۔

 ’’پرے رہو۔۔ پرے رہو۔۔ ہاتھ نہیں لگاؤ۔۔ دور۔۔ دور‘‘  عورت نے مرد کی آواز پر کان نہیں دھرے۔ مرد کے ہاتھ سے لٹکے ہوئے سر پر بپھری ہوئی شیرنی کی مانند جھپٹی۔۔ مرد پیچھے ہٹا۔ عورت نے اس کٹے ہوئے سر کے منھ پر تھوک دیا اور غیض و غضب کی حالت میں چیخ چیخ کر کچھ ایسے الفاظ ادا کئے جو الفاظ ہوتے ہوئے بھی، نہیں ہوتے جو حلق سے نکلتے ہیں لیکن منھ یا زبان سے ادا نہیں ہوتے۔ مرد صورت حال کو بگڑتا دیکھ رہا تھا۔ وہ قریبی بستی کے کسی جوان کا سرکاٹ لایا تھا جو اس کے خیال میں اس کے بیٹے کا قاتل تھا۔ اس نے انتقام لے لیا تھا اور اس فریضے سے سبکدوش ہو گیا تھا جو قبائلی آدم زادوں میں صدیوں سے مروّج تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کے بیٹے کی روح کو اپنے والد کے اس کارنامے پر فخر ہو رہا ہو گا اور وہ جہا ں بھی ہو گی خوش ہو رہی ہو گی۔۔اس نے اپنی عورت کی پہنچ سے پرے ہو کر، سر کو چمڑے کی زنبیل میں ٹھوس کر اپنی دائیں بغل سے لٹکا لیا۔ میرے بدن سے بندھے ہوئے گھوڑے کو کھولا اور اس پر ایک ہی جست میں سوار ہو گیا۔ اپنے جوان بیٹے کے قاتل کی گردن کاٹ کر  ’’ایک بار پھر جوان ہو گیا تھا۔ گھوڑے کو ایک قدرے بڑے دائرے میں گھما کر وہ عورت کے قریب پہنچا اور اپنا دایاں ہاتھ اس تک بڑھایا۔ گھوڑے کے حرکت میں آتے ہی وہ عورت بھی حرکت میں آ گئی۔ زمین پر گری ہوئی چادر اس کے بدن پر آ چکی تھی۔ جیسے ہی گھوڑا اور سواری اس کے قریب آئے وہ اوپر اٹھی اور مرد کے ہاتھ کا ہلکا سا سہارا لیا۔ مرد اس دوران اس کی جانب جھک گیا تھا۔ اس نے اپنا دایاں بازو عورت کی کمر کے گرد حمائل کیا جو ڈھلتی عمر کے باوجود چیتے کی کمر کی مانند پتلی تھی۔ پلک جھپکتے میں وہ مرد کے آگے گھوڑے کی پیٹھ پر تھی اور گھوڑے کی گردن کے بال اس کے بدن اور چادر کو چھو رہے تھے۔ سوار کے اشارے پر گھوڑا اپنے چاروں پیروں پرکچھ دیر مٹکا اور جب سوار نے اس کی ران میں ایڑھ لگائی تو وہ ایک جست لگا کر ہوا میں اڑ گیا۔

       ا دھر گھوڑا اور اس کے دونوں سوار منظر سے غائب ہوئے اور ادھر بستی کے لوگ جو ان کے تعاقب میں تھے، اس منظر سے ہو کر گزرنے لگے۔ پہلے دو سوار جنہوں نے ہوائی گولیاں بھی چلائیں پھر پیدل لاٹھیاں،  بھالے اور برچھے اٹھائے، دو ایک نے ننگی تلواریں بھی لی ہوئی تھیں  ’’دوڑو۔۔ پکڑو۔۔ جانے نہ پائیں ۔۔‘‘  کی ہانک لگاتے ہوئے یہ سب بھی گزر گئے۔ اولادِ آدم جن کے بارے میں فرشتوں نے فساد فی الارض برپا کرنے اور خون بہانے کی پیش گوئی کی تھی۔

گھنٹے، آدھے گھنٹے میں تعاقب کرنے والے واپس آ گئے۔ میرے نیچے کچھ وقت ٹھہرے۔ پہلے دونوں سوار آئے اور ان کے بعد پیدل۔ وہ سب ناکام لوٹے تھے کیونکہ آگے بمباری ہو رہی تھی۔ تعاقب کرنے والوں کو یقین ہو چلا تھا کہ بستی کے جوان کا سرکاٹ کر لے جانے والے اس شدید بمباری کی زد میں آ کر مر گئے ہوں گے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ ہوسکا تھا کہ وہ کتنے آدمی تھے، جنہوں نے اس جوان کی سرکٹی لاش اپنے پیچھے چھوڑ دی۔ میں بہت پہلے یہ جان چکا تھا کہ آدم زاد سوچ کے غلام ہوتے ہیں۔ سوچ نے ان لوگوں کو تعاقب میں دوڑایا۔سوچ نے ان سے تعاقب ترک کرا دیا۔ اس سمے وہ اجتماعی سوچ کے زیر اثر تھے۔ ان میں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں کوئی فرق نہ تھا۔ آدم زاد ہوتے تو حیوان ہیں لیکن تسلیم نہیں کرتے۔ میں نے مخلوقات کی بہت ساری اقسام کو سمجھ لیا تھا۔ میں نے وقت اور مقام کے طلسم سے بھی آگاہی پیدا کر لی تھی جو خلق کی تقدیر ہے۔ میں اس سے بھی واقف تھا جو اس طلسم سے ماورا ہے، جو اصل ہے۔ اس کے ماسوا جو ہے وہ نقل ہے۔ اپنے ہونے سے میں دوسروں کے ہونے تک پہنچا تھا۔ ہونے سے نہ ہونے تک پہنچا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ وقت کو سمجھنے کی کوشش میں وقت کی مکانی حقیقت کو پا گیا یا یوں کہئے کہ حقیقت کو جو زمانی اور مکانی حقیقت ہے جب میں حقیقت لامکانی اور لا زمانی تک پہنچا تو خود پر ہنسنے کے لائق ہو گیا۔  اپنی ڈالیاں اور پتے ہلا کر۔۔ میں دانشور ہو گیا تھا۔ وہ سب جان چکا تھا جو میں جان سکتا تھا۔ جہدلل بقاء سے اب میں ہراساں نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بھیانک سے بھیانک مظہر کو فطرت خلق کے عین مطابق پا کر قبول کر لیا تھا۔عزم للِ قوۃ کو کبھی بھی کھلے دل سے نہیں مانا تھا۔ یوں بھی میرا ہونا پورا ہو چکا تھا۔ جتنا اونچا اٹھنا تھا، اٹھ چکا تھا۔ جتنا پھیلنا تھا، پھیل چکا تھا۔ زمین سے اوپر بھی اور زمین کے نیچے بھی۔ میری جڑیں قریبی ندی تک پہنچ چکی تھیں۔  میں نہ ہونے کے لئے پوری طرح تیار تھا۔

     اس روز جب کچھ لوگ آرا مشینوں کے ساتھ آئے تو میں قطعی ہراساں نہیں ہوا۔ اگر مجھے اپنے اندر اور باہر رہنے بسنے والوں کی ’بے گھری‘ کا دکھ نہ ہوتا تو میں دکھی بھی نہ ہوتا۔ آرا مشین والوں کی آپس کی گفتگو سے مجھے یہ پتہ چل گیا تھا کہ مجھے اور آس پاس کے چند درختوں کو اس لئے کاٹا جا رہا تھا کہ ہماری لکڑی سے ریڈ کراس کی تنظیم جنگی زخمیوں کے لئے عارضی چھپر تیار کرنے والی تھی۔

 ’’میں اپنے نہ ہونے میں دوسروں کے ہونے کی سبیل بنوں گا‘‘  میں نے اپنے آپ کو دلاسا دیا۔

جس وقت آرا مشین مجھے ہونے سے نہ ہونے کے مرحلے میں پہنچا رہی تھی۔ مجھے اپنے ہونے کے ایک اور رخ سے واقفیت حاصل ہوئی، جس سے واقف نہ ہو سکا تھا۔ ادھر میرا بالائی بدن کاٹا جا رہا تھا اور ادھر میرا نچلا دھڑ جو زیر زمین میں سفر کرتے ہوئے ندی کے کنارے تک جا چکا تھا۔ میرے ایک اور وجود کو ہونے کے مرحلے پر لا چکا تھا۔ یہ جان کر مجھے عجیب سا احساس ہوا۔ اپنے نہ ہونے میں ہونے کا۔ میں ایک مرتبہ پھر ہونے جا رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس مرتبہ میرا پرانا وجود نہیں بلکہ نیا  ہی و جود ہو گا۔۔  ’’تو کیا ہوا۔۔؟ میں ہو تو رہا تھا۔۔ پرانا نہ سہی، نیا ہی سہی۔۔‘‘  میں نے سوچا۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید